
سلیمانی
قابض امریکی افواج کا انخلاء نومنتخب عراقی قیادت کی اولین ترجیح ہے، کاطع الرکابی
عراقی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سکیورٹی و دفاع کے رکن نے کہا کہ وزیراعظم مصطفی الکاظمی نے قابض امریکی افواج کے انخلاء کے حوالے سے ایک نظام الاوقات ترتیب دے دیا ہے جس کی تفصیلات عنقریب ہی منظر عام پر آ جائیں گی۔ واضح رہے کہ جاری سال کے شروع میں امریکہ کی طرف سے ٹارگٹ کلنگ کی ایک کارروائی میں ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابومہدی المہندس کے شہید کر دیئے جانے کے فورا بعد عراقی پارلیمنٹ نے اپنی سرزمین سے امریکی افواج کے فوری انخلاء کی قرارداد کو بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کر لیا تھا۔
الزامات کے ذریعے کمزوریاں چھپانے کی امریکی کوشش
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ
امریکہ بلا شرکتِ غیرے دنیا پہ حکمرانی کا خواب پورا کرنا چاہتا ہے۔ جنگ و جدل، سازش اور دغا بازی، ظلم و جور اور ہر طرح کا ظلم و ستم اپنانے کے ساتھ الزامات اور جھوٹ کا سہارا بھی لیتا ہے۔ کرونا وائرس کو ایک تنازعہ کا رنگ دینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے، تاکہ امریکہ اسے اپنے حق میں استعمال کرسکے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے قرب ترین سمجھے جانے والے ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر ٹام کاٹن نے فروری کے آخر میں کرونا وائرس کے بارے میں الزام لگایا کہ یہ وائرس حادثاتی طور پر نہیں پھوٹا بلکہ اسے ایک منصوبے کے تحت جنم دیا گیا ہے۔ انہوں نے چین کے آزاد آن لائن سائنسی جریدے ChinaXiv کے حوالے سے چینیوں کے اس دعوے کی تردید کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ ووہان کی مچھلی مارکیٹ سے یہ وائرس کسی انسان کو منتقل ہوا، نومبر کے آخر میں ووہان سے باہر کسی مقام پر یہ جرثومہ کسی انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوا۔ اس دوسرے آدمی یا Patient Zero سے یہ جرثومہ ووہان کے کسی قصاب اور کارکن کو منتقل ہوا، جس کے بعد وہاں آنے والے صارفین متاثر ہوئے۔ سینیٹر کاٹن بار بار اصرار کرتے رہے کہ Patient Zero کی تفصیل فراہم کی جائے۔ انہوں نے دھمکی دی تھی کہ امریکی حکومت چاہے نہ چاہے، وہ چینی حکومت کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ جاری رکھیں گے۔ وہ جنگجو اور پھر سیاستدان ہیں، ان کے اصرار میں فوجی ذہنیت بھی ہے اور سیاست چمکانے کیلئے ایک نعرہ بھی۔
اسی طرح انسدادِ دہشت گردی کے ماہر اور فوجی محکمہ سراغ رسانی کے سابق اہلکار فلپ جیلارڈی کا موقف بھی سامنے آیا کہ کورونا وائرس کے کچھ حصے فطری نہیں، ان کی افزائش بلکہ پیدائش ہتھیار بندی کے لیے کی گئی ہے، کورونا وائرس تغیر پذیری (Mutation) کی فطری صلاحیت سے عاری ہے، لہٰذا اسے لیبارٹری میں جنم دیا گیا ہے، یعنی اس پر ایک حیاتیاتی ہتھیار ہونے کا شبہ ہوتا ہے، یہ جرثومہ ووہان کے انسٹی ٹیوٹ برائے جرثومیات (Virology) سے لیک ہوکر کسی انسان یا جانور کے جسم میں داخل ہوگیا، جہاں سے مچھلی مارکیٹ پہنچا اور اب ساری دنیا میں قیامت ڈھا رہا ہے۔ اس تجزیے کے بعد سینیٹر ٹام کاٹن کے مؤقف میں بھی مزید سختی آگئی۔ ان کے خیال میں کورونا وائرس کی تخلیق چینی فوج کا کارنامہ ہے، جسے ووہان کے فوجی انسٹی ٹیوٹ برائے جرثومیات میں تخلیق کیا گیا۔ اپنے ساتھی کے اس الزام کے بعد صدر ٹرمپ نے کورونا وائرس کو ووہان جرثومہ، غیر ملکی جرثومہ اور چینی جرثومہ کہنا شروع کر دیا تھا، لیکن اپنی ٹیکنیکل ٹیم کے مشورے پر انہوں نے یہ سلسلہ اب ترک کر دیا ہے۔
لیکن چین نے جوابی الزام لگایا کہ ووہان آنے والے امریکی فوج کے کھلاڑیوں نے کورونا وائرس ووہان میں پھیلایا، جہاں اکتوبر 2019ء میں دنیا کے فوجی کھیل منعقد ہوئے تھے، ان مقابلوں میں شرکت کے لیے پینٹاگون نے 280 کھلاڑیوں پر مشتمل امریکی فوج کی17 ٹیمیں ووہان بھیجی تھیں۔ چینیوں کو شک ہے کہ کھلاڑیوں کے روپ میں آنے والے حیاتیاتی جنگ کے ماہرین نے یہ جرثومہ ووہان میں پھیلایا ہے۔ اسی طرح چین نے دعویٰ کیا کہ امریکہ، فرانس، جاپان اور آسٹریلیا میں جو لوگ اس مرض میں مبتلا ہوئے ہیں، اُن میں سے کم از کم پانچ افراد ایسے تھے، جنھوں نے نہ ملک سے باہر سفر کیا اور نہ ہی کسی مریض سے ان کی ملاقات ہوئی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ووہان میں پھوٹ پڑنے سے پہلے کورونا وائرس چین سے باہر بھی موجود تھا، اور امریکی مریضوں کی اکثریت دارالحکومت کے قریب رہائش پذیر لوگوں کی تھی، جہاں سے امریکی فوج کی فورٹ ڈیٹرک حیاتیاتی لیبارٹری بہت دور نہیں۔
مارچ 2020ء میں پاکستان کے سابق عبوری وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے جناب عبداللہ حسین ہارون نے اعداد و شمار اور استثنائی حقوق (Patent) کی تفصیل کے ساتھ کورونا وائرس کو امریکہ کا حیاتیاتی ہتھیار ثابت کیا ہے۔ اپنے طویل ویڈیو خطاب میں انہوں نے کہا کہ اس قسم کا ہتھیار شام میں بھی استعمال کیا جا چکا ہے۔ وائرس کی تخلیق برطانیہ میں ہوئی اور اسے ائیر کینیڈا کے ذریعے چین بھیجا گیا۔ اس کی ویکسین اسرائیل نے بنائی ہے، جسے صرف وہی ملک خرید سکیں گے، جن کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں۔ جناب حسین ہارون کا کہنا تھا کہ وائرس سے چین کو ہدف بنانے کا مقصد چین کو معاشی طور پر مفلوج کرنا تھا، جو حجم کے اعتبار سے امریکہ کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ انہوں نے بل گیٹس فائونڈیشن اور امریکہ کے طبی علوم کے مشہور تحقیقی مرکز جامعہ ہاپکنز کو بھی اس کام میں ملوث قرار دیا۔ احباب کو یقیناً علم ہوگا کہ کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری کے کام کی نگرانی جامعہ ہاپکنز کر رہی ہے۔
جبکہ روس کے ایک سائنسی جریدے میں شائع ہونے والے مقالے میں بتایا گیا کہ COVID-19 کی جائے پیدائش امریکہ ہے۔ روسی اخبار اسپتنک کے مطابق کورونا وائرس شمالی یورپ کے ننھے سے بلقانی ملک لیٹویا (Latvia) میں نیٹو کی ایک فوجی تجربہ گاہ میں متولد ہوا۔ انسدادِ حیاتیاتی دہشت گردی کے ماہر اور امریکہ کے حیاتیاتی دہشت گردی کے خلاف قانون مجریہ 1989ء کا ابتدائی مسودہ تحریر کرنیوالے امریکی قانون دان پروفیسر لارنس بوائل کا بیان عالمی ذرائع ابلاغ میں نقل ہوا کہ جس میں پروفیسر صاحب نے شک ظاہر کیا کہ کورونا وائرس امریکہ کا حیاتیاتی اسلحہ ہے، جسے جرثومے کی شکل میں پھیلایا گیا۔ پریس ٹی وی کا دعویٰ بھی سامنے آیا کہ امریکی ریاست میری لینڈ میں فورٹ ڈیٹرک کے حیاتیاتی اسلحہ کے ریسرچ سینٹر پر امریکہ اور اسرائیل کے ماہرین نے یہ جرثومہ تخلیق کیا، ساتھ ہی اسرائیلی سائنس دانوں کا یہ دعویٰ پیش کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ 90 روز میں Infectious Bronchitis Virus (IBV) کے خلاف ویکسین تیار کر لی جائے گی۔ ایرانی ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین کی تیکنیکی تفصیل سے صاف ظاہر ہے کہ یہ COVID-19 کی ویکسین ہے۔
اس سے پہلے 2015ء، 2017ء اور 2018ء میں بل گیٹس نے کہا کہ دنیا میں علاج معالجہ، خاص طور سے وبائی امراض سے حفاظت کے انتظامات ناکافی اور غیر تسلی بخش ہیں، جس کی بنا پر کئی ملک کسی بڑی وبا کا مؤثر انداز میں مقابلہ نہیں کرسکیں گے، کسی بھی وباء کے پھوٹ پڑنے پر اس کے مقابلے کے لیے ویکسین کی بروقت تیاری سب سے اہم اور مقدم ہے، لیکن دنیا کے ڈاکٹر، سائنس دان اور تحقیقاتی ادارے اس کے لیے تیار نہیں، تعلیم و ایجادات کی وجہ سے دنیا کے زیادہ تر لوگوں کا معیارِ زندگی نسبتاً بلند ہوگیا ہے، لیکن اب بھی کسی عالمی وبا کے مقابلے کے لیے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی تیار نہیں، دنیا کو وبا سے نبرد آزما ہونے کے لیے اسی نوعیت کی تیار کرنی چاہیئے، جیسی دنیا کے ممالک جنگ اور فوجی حملے کے مقابلے کے لیے کرتے ہیں۔
جبکہ 2019ء میں امریکہ کی مشہور میڈیا کمپنی Netflix کی Next Pandemic کے عنوان سے بننے والی دستاویزی فلم میں بل گیٹس نے چین کے کسی مچھلی بازار سے ایک خوفناک وائرس کے پھوٹ پڑنے کا خطرہ ظاہر کیا تھا۔ مچھلی بازار کے بجائے جناب گیٹس نے wet market کا لفظ استعمال کیا تھا۔ دستاویزی فلم میں چینی شہر لیانگ ہوا (Lianghua) کا ایک گوشت بازار بھی دکھایا گیا، جہاں جانوروں کو صارفین کے سامنے ذبح کرکے گوشت فروخت ہوتا ہے۔ لیانگ ہوا جنوبی چین کے ساحلی صوبے گوانگ ڈونگ میں واقع ہے۔ یہاں بھی ووہان کے ہونان مچھلی بازار کی طرح مچھلی اور جانوروں کا تازہ گوشت فروخت ہوتا ہے۔ یقیناً یہ حُسنِ اتفاق ہے، لیکن کورونا وائرس کا ظہور بالکل اسی انداز میں ہوا، جس کا خدشہ بل گیٹس نے اس دستاویزی فلم میں ظاہر کیا تھا۔ چینی حکام، ایرانی میڈیا، روسی جرائد اور امریکی سیاست دانوں اور ماہرین کے بیانات بھی ابھی تک مفروضوں، خدشات اور قیاس پر مشتمل ہیں۔ کسی بھی جانب سے کوئی ٹھوس دستاویزی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ لیکن سی این این اور فاکس نیوز نے اپنی رپورٹس میں بتایا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور خارجہ سیکرٹری مائیک پومپیو کی جانب سے کورونا کو لیبارٹری میں تیار کیے جانے کے خدشات ظاہر کیے جانے کے بعد امریکا نے معاملے کی تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اور بیان میں کہا تھا کہ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ چین نے واقعی کورونا لیبارٹری میں تیار کرکے پھیلایا تو اسے نتائج کو بھگتا پڑے گا اور اگر یہ سب کچھ غلطی سے ہوا ہے تو غلطی کسی سے بھی ہوسکتی ہے۔ گذشتہ دنوں نے امریکی صدر نے پھر کہا ہے کہ ہم چین سے خوش نہیں ہیں، ہم پوری صورتحال سے خوش نہیں ہیں، کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ اس کو جڑ سے روکا جا سکتا تھا، اسے تیزی سے روکا جا سکتا تھا اور اسے پوری دنیا میں نہیں پھیلنا چاہیئے تھا اور انہیں اس کا ذمے دار ٹھہرانے کے لیے کئی راستے موجود ہیں۔ اس موقع پر ٹرمپ سے ایک جرمن اخبار کے ادارے کے حوالے سے سوال پوچھا گیا، جس نے چین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ وائرس سے جرمن معیشت کو پہنچنے والے نقصان پر 165 ارب ڈالر ہرجانہ ادا کرے۔ جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا امریکا بھی ایسا ہی کچھ کرے گا تو امریکی صدر نے جواب دیا کہ ہم اس سے آسان راستہ اختیار کریں گے اور ابھی ہم نے حتمی رقم کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا۔ واضح رہے کہ امریکا میں اب تک 56 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جبکہ تقریباً 10 لاکھ افراد وائرس سے متاثرہ ہوئے ہیں۔
دنیا بھر میں انسانیت خوف اور بیماری کیساتھ ساتھ بے روزگاری اور بھوک سے سسک رہی ہے، لیکن امریکی استعماری ذہنیت کی غمازی کرنیوالے صدر ٹرمپ کی زبان پہ صرف چین پہ جرمانے کرنے اور پیسے بٹورنے کی بات ہے۔ امریکہ میں وائرس کے موجود ہونے اور مریضوں کے سامنے آنے سے پہلے انہوں نے یہ بھی کہا کہ چین کی معیشت ڈوب رہی ہے، اس لیے دنیا بھر کے سرمایہ کار چین سے اپنی سرمایہ کاری نکال لیں، ورنہ ان کا پیسہ ڈوب جائیگا اور انہیں معاشی نقصان اور خسارے کا سامنا کرنا پڑیگا۔ لاکھوں افراد کو بارود برسا برسا کر موت کی وادی میں دھکیلنے والی ظالم سامراجی طاقت سے اس کے سوا کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ پوری دنیا کے انسانوں کو مصیبت اور زندگی اور موت کی کشمکش میں صرف اپنے مفادات کیلئے ہی اقدامات کریں۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ فرعونی طاقتیں ظاہری طور پر کمزور اور سادہ لوح انسانوں کو یہ بھی باور کرواتی ہیں کہ وہ ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہیں، لیکن پے در پے غلطیاں اور ناکامیاں ان کا مقدر بنتی ہیں۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے چین نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ جاننے کے لیے عالمی سطح پر آزادانہ تحقیقات کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی مطالبات کی بنیاد سیاسی اور وبا کے خلاف جنگ سے چین کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
حزب اللہ کو دہشتگرد قرار دینا قابل مذمت ہے، جرمنی کو تو حق کی جنگ لڑتی اقوام کی حمایت کرنا چاہئے، یمن
یمنی سرکاری خبررساں ایجنسی سبأ کے مطابق یمنی حکومت کے ترجمان ضیف اللہ الشامی نے جرمن حکومت کی طرف سے حزب اللہ لبنان کے دہشتگرد تنظیم قرار دیئے جانے کی مذمت کی ہے۔ یمنی حکومت کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جرمن حکومت کی طرف سے حزب اللہ لبنان کو دہشتگرد تنظیم قرار دے کر اس پر پابندی عائد کرنے کا اقدام امریکی و اسرائیلی حکم کی تعمیل ہے کیونکہ یہ امریکہ و اسرائیل ہی ہیں جو اپنے حق کی جدوجہد لڑنے والی اقوام کے دشمن ہیں۔
یمنی حکومت کے ترجمان ضیف اللہ الشامی نے اپنے بیان میں غاصب صیہونی رژیم کے مقابل حزب اللہ لبنان کے مزاحمتی کردار پر روشنی ڈالی اور جرمن حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جرمنی کے عالمی سطح کے مقام پر منفی اثر ڈالنے والے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ یمنی حکومت کے ترجمان نے جرمن قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی کو تو اپنے حق و آزادی کی جنگ لڑتی اقوام کی حمایت کرنا چاہئے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز جرمن حکومت کی طرف سے حزب اللہ لبنان کو دہشتگرد تنظیم قرار دے دیا گیا تھا جس کے بعد ملک میں حزب اللہ لبنان کی سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی
روزہ کے طبی اور روحانی فوائد
پروردگار عالم نے ہم پر روزہ فرض کیا ہے جیسا کہ ارشادا لٰہی ہوتا ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ" اے ایمان والوں تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلے والے لوگوں پر کیا گیا تھا تاکہ تمہیں پرہیزگاری نصیب ہو ۔ (بقرہ آیت/۱۸۳) اس آیت مبارکہ میں روزہ کا فرض ہونا اور اس کی فضیلت دونوں کا بیان ہے۔ عربی زبان میں روزہ کو صوم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ صوم کے معنی "رک جانے، باز رہنے یا کسی کام سے ہاتھ کھینچ لینے کے ہیں"۔ اور اسلام میں طلوع صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔ قرآنی آیت کے مطابق روزہ کی فرضیت کا بنیادی مقصد پرہیزگاری اور پاکیزگی ہے، تمام بُرائی سے اپنے نفس کو پاکیزہ کرنا۔ دیکھا جائے تو انسان تین اہم اجزاء کا مجموعہ ہے۔ روح جو ملکوتی ہے، جسم جو عالم مادہ یعنی دنیا سے تعلق رکھتا ہے اور اخلاق جس سے خاکی انسان عالم ملکوت کی طرف مائل ہے۔ روزہ ان تینوں اجزاء کی پاکیزگی کا باعث بنتا ہے جسمانی پاکیزگی، اخلاقی پاکیزگی، اور روحانی پاکیزگی اور یہ تینوں آپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
قرآنی آیت سے یہ بات روشن ہے کی روزہ تاریخ انسانی میں کوئی جدید شے نہیں۔ اگر تاریخ بشر کے پہلے صفحے کو دیکھا جائے تو زمانہ آدم میں (ایام بیض) یعنی تیرھویں، چودہویں،اور پندرہویں تاریخوں کے روزے فرض تھے۔ اسی طرح اہل ہنود (ہندو) ہوں یا یہودی یا پھر عیسائی تمام مذاہب میں یہ روش دور دوراں سے چلی آرہی ہے گرچہ انکے روزہ کے مسائل مختلف تھے ۔حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اعلان نبوت سے پہلے چالیس دن روزہ رکھا، یعنی یہ واضح ہے کہ روزہ تاریخ بشر میں کوئی نئی شے نہیں۔ درحقیقت انسانی جسم ایک Biological machine ہے، جس طرح ایک مشین بجلی، پیٹرول وغیرہ سے Energy لے کر روح رواں ہو جاتی ہے لیکن جب تک اسکے تمام پرزے اپنے مقام پر درست کارکردگی انجام دے رہے ہوں اور یہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب اس مشین کی بروقت servicing اور overhauling ہو، بس ٹھیک اسی طرح انسانی جسم جسے ایک مشین کی حیثیت حاصل ہے serviceing لازم ہے، لہٰذا اس مشین کے خالق نے اسکی سروس کے لئے ایک خاص عمل، روزے کی صورت میں اس پر لازم کر دیا۔ جس کا خاص اثر انسان کے جسم، اخلاق اور روح پر پڑتا ہے۔
مشہور فلاسفر سقراط جسکا زمانہ ۴۷۰ سال قبل مسیح ہے، کسی اہم موضوع کے بارے میں غور و فکر کرنے چلتا تو تمرکز ذہنی کے لئے پہلے دس دن روزہ رکھتا، اس نے روزہ کے طبی فوائد پر مفید بحث کی ہے۔ اسکے طبی فوائد کے ذیل میں کہتا کہ ہر شخص کے اندر ایک ڈاکٹر موجود ہے ہمیں اپنے اندرونی ڈاکٹر یعنی قوت مدافعت کی معاونت کرنی چاہیئے اور تعاون کی بہترین تدبیر روزہ ہے۔ انسانی مشین دو طرح کے خونی دباؤ پر چلتی ہے جسمیں سے انقباضی دباؤ (systolic pressure) دوسرا انبساطی دباؤ (diastolic pressure) ہے، ان دونوں دباؤ کی زیادتی انسانی جسم کے لئے نقصان دہ ہے اور اس بیماری کو عرفِ عام میں high blood pressure یا BP کہتے ہیں جو ایک مہلک بیماری ہے، ان دونوں میں زیادہ خطرہ diastolic دباؤ کے بڑھنے سے ہوتا ہے۔ دن بھر کچھ نا کھانے کی وجہ سے خون میں کچھ مقدار کمی آتی ہے جس سے diastolic دباؤ کم سطح پر ہوتا ہے جو دل کے آرام و سکون کا باعث بنتا ہے۔
دوران خون پر خاص اثر ہے۔ اس حقیقت سے اب سب آگاہ ہیں کہ شریان خون میں کمزوری اور افسردگی کی اہم وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں موجود باقی ماندہ مادّے (remnants) ہیں جو مکمل تحلیل نہیں ہو پاتے، یہ خون میں مخلوط ہو کر اسکے نظام کو درہم برہم کرتے ہیں روزے کے دوران افطار تک یہ مادے مکمل طور پر تحلیل ہو جاتے ہیں اور یہ تحلیل شدہ مادّے خون کی شریانوں پر نہیں جمتے جسکی وجہ سے خون متعادل طور پر رواں رہتا ہے۔ انسانی بدن میں دل کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور روزہ دل کی تمام بیماری کے لئے مفید ہے چونکہ دل کا کام ہے جسم کے تمام اعضاء میں خون کو پہچانا۔ طبیبوں کے قول کے مطابق دل دس فیصد خون ان اعضاء کو سپلائی کرتا ہے جنکا کام ہے غذا کو ہضم کرنا اب جبکہ انسان دن بھر کچھ نہیں کھاتا تو دل کو دن میں دس فیصد سکون ملتا جو اسکے لیے بےحد مفید ہے۔ وقت کے رہتے دل hemoglobin کی پیداوار میں مصروف ہو جاتا ہے جو جسمی محافظی سسٹم immune system کو تقویت دیتا ہے۔
اسی طرح روزہ نظام ہاضمہ پر ایک ماہ کا آرام طاری کر دیتا ہے، جس سے معدے کا کھچاؤ ختم ہو جاتا ہے، روزہ کی حالت میں پھیپھڑے تمام فضلات اور بیکار چیزوں کو تیزی سے خارج کر دیتے ہیں، جسکے نتیجہ میں خون کی صفائی اور نظام جسمانی میں صحت کی لہر دوڑ پڑتی ہے۔ روزے کی حالت میں جسم سے تمام زہریلے مادے مانند تیزابِ بول (پیشاب) وغیرہ خارج ہو جاتے ہیں جسکی وجہ جوڑوں اور کمر کے درد میں بہتری آتی ہے۔ روزہ کے جسمانی فوائد میں سب سے اہم جسم اور دماغ میں ہم آہنگی ہے ۔ slimming center میں جانے والے اکثر افراد جیسے ہی اپنی dieting کو ترک کرتے ہیں انکا موٹاپا پہلے سے زیادہ بڑھ جاتا ہے وہ اس وجہ سے کیونکہ دماغ کا وہ حصہ جسے hypothalamus کہتے اور جسکا کام وزن کو کنٹرول کرنا ہے۔ اگر کوئی شخص فاقہ کرتا ہے تو فاقہ کے بعد یہ حصہ تیزی سے کام کرتا ہے نتیجہ وزن پہلے سے زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
روزہ ظاہری آلودگی کے ساتھ ساتھ باطنی آلودگی سے نجات کا باعث بنتا ہے جھوٹ، غیبت، برائی، بد گوئی، فحش کلامی، دھوکہ، جھگڑا، ظلم و تشدد جیسے ظاہری آلودگی کے ساتھ ساتھ حسد، بغض، کینہ، بد خواہی، بدگمانی، غیظ و غضب جیسی باطنی بیماریوں سے بچنے کے لئے روزہ ایک بہترین راہ ہے۔ اخلاق کی پاکیزگی میں روزہ کا ایک خاص عمل قوت ارادی میں اضافہ کرنا ہے، اکثر دیکھا جاتا ہے کہ اچھے اور برے کی تمیز کرنے کے باوجود انسان خواہشات کی طرف دوڑ پڑتا ہے، خواہشات کا طوفان روکنے کے لئے ارادہ کا مستحکم اور مضبوط ہونا ضروری ہے روزہ قوت ارادی کو مضبوط کرتا ہے تاکہ انسان اپنے ارادوں پر قائم رہے جس طرح روزہ کے دوران تمام نعمتوں کے سامنے ہونے کے باوجود وہ اسے ہاتھ نہیں لگاتا۔ ایک بہترین معاشرہ سازی کے لئے ایک دوسرے کے دکھ درد کو جاننا اور دادرسی کرنا ہے۔ ایام روزہ ہر شخص ان تمام مفلس افراد کے درد و فاقوں سے آشنا ہوتا ہے اور انکی دادرسی افطار کی صورت میں انجام دیتا ہے جو یقینا ایک بہترین معاشرہ کی پہچان ہے۔ یہ بات دیکھی گئی ہے کہ لوگوں میں انانیت egoistic یا طبیعت کی سختی ان میں چڑچڑاپن پیدا کر دیتی ہے روزہ ہماری انانیت کو ختم کرتا ہے، جسکے باعث چڑچڑا پن دور ہو جاتا ہے اور انسان سکون کی سانس لیتا ہے۔
روزہ کا ایک خاص عمل جو انسان کے اخلاق پر پڑتا ہے وہ نعمات کی قدردانی ہے۔ نعمتوں کی ناقدری انسان کو آہستہ آہستہ سنگدل بنا دیتی ہے، وہ یہ گمان کرنے لگتا ہے کہ یہ تمام نعمتیں اسکی جاگیر ہیں، نتیجہ میں وہ ظلم تشدد پر اتر آتا ہے۔ ایک ماہ کی طویل مدت میں اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ نعمتوں کا جاگیردار نہیں تمام چیزوں سے دور ہونے کے بعد جیسے نعمتوں کو اپنی پاس پاتا ہے انکا قدردان ہو جاتا ہے۔ صفات انسانی نا فقط ملکوتی ہے اور نا حیوانی بلکہ انسان ان دونوں کے درمیانی صفات کا حامل ہے اس میں کچھ ملکوتی صفات جیسے رحم و کرم، محبت، ہمدردی، صبر و تحمل جو انسان کو دوسروں کی نظر میں اسے محبوب بناتی ہیں اور اسے عزت بخشتی ہیں، وہیں دوسری طرف اس میں کچھ حیوانی صفات بھی شامل ہیں جیسے جنسی جذبات، راحت طلبی، جدت پسندی وغیرہ۔
درحقیقت انسان روحی اور جسمی صفات کا حامل ہے پس جس طرح جسمی صفات مادی غذا سے ابھرتے ہیں ویسے ہی روحانی غذا یعنی نا کھانا انسان کی روح کو تقویت دیتے ہیں اسی خاطر پروردگار عالم نے جو نظام احسن کا خالق ہے، گیارہ ماہ ہماری جسمانی قوت بڑھانے کی خاطر مادی غذا اور ایک ماہ روحانی قوت کو بڑھانے کی خاطر روزہ فرض کیا ہے۔ روزہ کو تمام عبادات میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور وہ یہ کہ تمام عبادات وقتی روحانیت کا سبب بنتی ہیں جبکہ روزہ میں انسان دن بھر روحانی کیفیت سے سرشار ہوتا ہے۔ ان تمام فوائد کے ساتھ روزہ کا ایک خاص مقصد خدا کی بندگی، سچی لگن اور قرب خدا ہے جو ان تمام فوائد سے برتر اور افضل ہے اور مقصد حیات انسانی ہے۔ درحقیقت مالک حقیقی نے اس خاکی بشر کے لئے جتنے بھی واجبات فرض کئے ہیں ان میں انسان کیلئے دونوں عالم کے فوائد شامل ہیں۔ خداوند عالم سے یہ استدعا ہے کہ وہ ہم سب کو روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ماہ رمضان ارادے کی مضبوطی کا مہینہ
تحریر: مظفر حسین کرمانی
انسان کو جو باقی مخلوقات سے ممتاز کرنے والی چیزیں ہیں ان میں سے ایک اسکا صاحب ارادہ ہونا ہے، انسان جو عمل، سوچ و حرکت انجام دیتا یے اسکی انجام دہی اسکے ارادہ کرنے سے ہی ہوتی ہے، بقیہ مخلوقات کا اگر ہم مشاہدہ کریں تو وہ ایسے نہیں ہیں، یعنی یوں نہیں ہے کہ وہ کسی عمل کا ارادہ کریں، اور پھر اسے انجام دیں بلکہ غریزی و طبیعی ہدایات کے سبب وہ کوئی بھی فعل انجام دیتے ہیں..
لیکن چونکہ انسان عقل و شعور رکھتا ہے اور انکا تقاضا یہ ہے کہ وہ صاحب ارادہ بھی ہو، اگر اسے قوت ارادہ سے مفقود رکھا جائے تو بجائے اسکے کہ وہ کسی شئی کے درست ہونے کا ادارک کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ شئی بہتر ہے لیکن اس کے لئے حرکت نہیں کر سکتا۔
یا کسی شئی کو برا سمجھتا ہے لیکن اسے ترک نہیں کرسکتا یا خود کو اس سے محفوظ نہیں رکھ سکتا، خود اس شئی کے درست و غلط کی تشخیص دینے کے لئے جو سوچ و بچار کرتا یے وہ خود ایک ارادے کے تحت انجام پاتی ہے...اللہ تعالی نے انسان کو بہت ہی عالی و نفیس نعمتوں سے نوازا ہے، جس کا خود اسے علم نہیں ہے، ہمیں صرف وہ نعمتیں سمجھ میں آتی ہیں جو موٹی موٹی ہوں،، لیکن وہ نعمتیں جو ظریف و نفیس ہیں انکا ادراک نہیں کر پاتے اور حقیقی معنوں میں انسان کی اصل و بڑی نعمتیں جو اسے خدا کی طرف سے عطا ہوئی ہیں وہ یہی نفیس نعمتیں ہیں...
ارادہ:
انسان کی کیفیت وجودی و نفسانی جو اسے کسی بھی سوچ و عمل کی انجام دہی پر اسے ابھارتی ہے۔ انسان بعض اوقات بہت سی چیزوں کو درست گردانتا ہے مگر انہیں انجام نہیں دیتا، اسکی آرزو ہوتی ہے کہ وہ الٰہی انسان بنے جسکی ذات، اعمال و تفکر کا محور فقط اللہ کی ذات ہو مگر یہ اس سے ہو نہیں پاتا، یہ اس لئے کہ اگرچہ اسکی آرزو ہے و ارادہ بھی کرتا ہے مگر اسکا ارادہ اسکے عمل کی انجام دہی میں اسکا محرک (حرکت میں لانے والا) نہیں بن پاتا.. انسان کے وجود میں بہت سی قوتیں ہیں جن کے ذریعے ہماری شخصیت بنتی ہے لیکن ہم خود اس سے آگاہ نہیں ہوتے۔ اصلا اس طرف توجہ نہیں دیتے کہ یہ جو شخصیت وجود میں آئی ہے اسکے عوامل و اسباب کیا ہیں۔
انسان کے وجود میں پروردگار کی طرف سے عقل، فطرت، نفس امارہ، غرائز و شہوات رکھی گئی ہیں اور باہر و بیرون سے بھی مختلف عوامل ہوتے ہیں مثلا گھرانہ، خاندان، دوستان و معاشرہ، یہ سب ملکر انسان کی شخصیت کو تشکیل دیتے ہیں، اگر انسان عقل و فطرت کے تابع ہو و اپنے نفس کو تمرین کرائی ہو، انکے مطابق چلنے کی تو اسکا ہر ارادہ الٰہی ہوگا یعنی اسکی ہر حرکت حکم خدا کے تحت انجام پائے گی لیکن اگر اسکے برعکس انسان کے وجود میں شہوات و نفس امارہ غالب ہو تو اسکا ارادہ انہی کے تابع ہوگا اگرچہ وہ ان سے بعض اوقات بیزاری کا اظہار کرے، لیکن چونکہ اس نے اپنے وجود کو انکے فرامین کے مطابق چلنے کی مشق و تمرین کرائی ہے تو اس کے لئے بہت مشکل ہے کہ وہ ان سے چھٹکارا پا سکے، اگر ان سے لاتعلقی کا ارادہ کرے گا بھی تو وہ بہت ہی ضعیف ہوگا۔
اسی طرح بیرونی عوامل بھی انسان کی شخصیت سازی و اسکے ارادوں پر حاکم ہوتے ہیں، مثلا آپ کا دوست یا سہیلی، اگر آپ نے ایسے فرد کو اپنا دوست بنایا ہے جس کے وجود کا پیکر شہوات و نفس امارہ یا معاشرے میں موجود فاسد نظریات سے تشکیل پایا ہے تو خواہ نخواہ وہ آپ پر بھی اثر انداز ہوگا،، اسی لئے قرآن و آئمہ معصومین علیہم السلام نے دوستی کے معیار ذکر کئے ہیں کہ کن کو انسان اپنا دوست بنائے وگرنہ روز قیامت انہی دوستوں کی دوستی پر شکوہ کرے گا کہ کاش اسے دوست نا بنایا ہوتا...ماہ رمضان جہاں اپنے ساتھ بہت ساری برکات لیکر آتا ہے وہاں اسکی ایک برکت یہ ہے کہ اسکے طفیل انسان کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے ارداے کو مضبوط بنائے و ان فاسد و غلط عادتوں سے خود کو بچائے و چھڑائے جنکا وہ خوگر و عادی ہو گیا ہے۔
عام دنوں میں انسان کیلئے بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ اپنی کسی عادت یا گناہ و غلط کام کو ترک کرے جسے ترک کرنے کا وہ ارادہ رکھتا ہے مگر کر نہیں پاتا، یہ ماہ ان اعمال و افکار سے جان چھڑانے کیلئے بہترین فرصت ہے۔ یہ ماہ درحقیقت انسان کے نفس کو مشق کرانے کا مہینہ ہے، انسان کے سامنے اسکی پسندیدہ غذا ہوتی ہے مگر وہ اسے ہاتھ نہیں لگاتا، کسی غلط عمل کو انجام دینے کی آرزو کرتا ہے مگر اس سے خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی ماہ ہے جس میں وہ بندہ بھی جس نے پورا سال خود کو دیگر چیزوں میں سرگرم رکھا ہوتا ہے وہ بھی اس ماہ میں اللہ کی جانب رجوع کرتا ہے، اگر ہم اس ماہ اپنے نفس کو تمرین کرائیں فرامین خدا کے تحت چلنے کی و اپنے ارادے کو ارادہ الٰہی کے مطابق کرنے کی تو یقینا ہم کامیاب ہونگے، اور اسکے بعد اپنی باقی زندگی بھی اسکے بھیجے ہوئے قوانین کے ماتحت گزار پائیں گے اور بے شک اللہ ہماری اس کام میں مدد کرے گا... اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس ماہ کی برکات کو سمجھنے و اس سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دعا کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں
روایات میں دعا کی اہمیت:
جس طرح خداوند متعال نے قرآن کریم میں دعا کی اہمیت و فضیلت کو بیان فرمایا اسی طرح معصومین علیهم السلام سے بہت سی روایات موجود ہیں جن میں دعا کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ہم یہاں پر اختصار کے ساتھ چند روایات کو ذکر کریں گے۔ رسول خدا ﷺ نے ایک مقام پر دعا کو مومن کا ہتھیار قرار دے دیا کہ جس طرح جب انسان پر کوئی حملہ آور ہوتا ہے تو انسان مادی ہتھیار سے اپنی حفاظت کرتا ہے اسی طرح جب معنوی طور پر دکھ مصیبتیں اور بلائیں انسان پر حملہ آور ہوتی ہیں تو انسان اپنے معنوی ہتھیار دعا کے ذریعے انکا مقابلہ کر سکتا ہے اور دوبارہ فرمایا "دعا مومن کے لیے دین کا ستون ہے"۔ يعنی دعا مومن کے ایمان کے لیے ایک ستون کا مقام رکھتی ہے. جس طرح ایک خیمہ کے لیے ستون کا ہونا ضروری ہے اسی طرح ایک مومن کے ایمان کے ستون، دعا کا ہونا ضروری ہے۔
یعنی بندے کا خدا کے ساتھ دعا کے ذریعے جتنا رابطہ مضبوط ہو گا ایک انسان مومن اتنا ہی معنوی طور پر مضبوط ہو گا۔ تقرب خدا کے لیے بہترین ہتھیار دعا ہے۔ رسول خدا صلی نے ایک مختصر اور جامع حدیث میں ارشاد فرمایا :"الدُّعا سِلاحُ الْمُؤْمِنِ وَ عَمُودُ الدّینِ وَ نُورُ السَّماواتِ وَ الْارْضِ"؛ دعا مؤمن کا ہتھیار، دین کا ستون، اور آسمان و زمین کا نور ہے۔1 اس حدیث سے دعا کی اہمیت و فضیلت کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن افسوس کہ ہم اس نعمت خدا سے اکثر محروم رہتے ہیں۔ ہمارے پیشوا وہ ہیں جنہوں نے ہمیں دعا کا ڈھنگ سکھایا۔ ہمیں بتایا کہ کس طرح اس مالک حقیقی سے سوال کیا جاتا ہے. کس طرح اس رحمان سے اپنی بات منوائی جا سکتی ہے۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام نے ایک مقام پر دعا کو رحمت خدا کی چابی قرار دیا اور دنیا و آخرت کی تاریکیوں کے لیے روشنی قرار دے دیا۔ یعنی جب انسان کے گناہوں کی وجہ سے اس پر اپنے پروردگار کی رحمت کے دروازے بند ہو جائیں تو اس وقت دعا وہ چابی ہے جس کے ذریعے رحمت خدا کے دروازے کھولے جا سکتے ہیں.
اور جب انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے گمراہی کے اندھیروں میں چلا جاتا ہے اور راہ حق کو گم کر دیتا ہے، اس وقت دعا ہی وہ روشنی ہے جو انسان کو گمراہیوں کے اندھیروں سے نکال کر، حق کی روشنی کی طرف لاتی ہے۔ جب کثرت گناہ کی وجہ سے انسان کا دل تاریک ہو جاتا ہے تو اس وقت دعا ہی کے ذریعے دل کو نور ایمان سے منور کیا جا سکتا ہے۔ دعا وہ روشنی ہے جو انسان کو گناہوں کی تاریکی سے نکال کر خداوند متعال کے قریب لاتی ہے۔ دعا ہی ہے جو عبد اور معبود کے درمیان قربت کا سبب بنتی ہے۔ دعا ہی ہے جو خالق اور مخلوق کے درمیان رابطے کو پختہ کرتی ہے۔ امير المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:"الدُّعا مِفْتاحُ الرَّحْمَةِ وَ مِصْباحُ الظُّلْمَةِ"دعا رحمت کی چابی اور (دنیا و آخرت) تاریکی کے لیے روشنی ہے۔ یعنی دعا دنیا و آخرت کی تاریکیوں کے لیے روشنی ہے، جس طرح اس دنیا میں انسان کو نور ھدایت کی ضرورت ہے اسی طرح آخرت میں بھی انسان کو نور رحمت کی ضرورت ہے۔ جس طرح یہ دعا دنیا میں انسان کو گمراہی کے اندھیرے سے نکال کر ھدایت کی طرف لاتی ہے، اسی طرح آخرت میں جس دن انسان مایوسی و نامیدی کے اندھیرے میں سرگردان ہو گا تو یہ دعا اس وقت بھی انسان کی مونس و مددگار ہو گی۔
ایک مقام پر رسول اللہ نے انسان کے تمام نیک اعمال اور واجبات کو عبادت کا نصف قرار دیا اور نصف عبادت دعا کو قرار دیا۔ یعنی اگر انسان تمام واجبات کو انجام دے، جس میں نماز بھی ہے، روزہ بھی ہے، حج بھی ہے، زکوۃ بھی ہے، حتٰی کہ جہاد کہ جس متعلق خود خدا نے فرمایا :کہ "شہید کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر نہیں گرتا کہ میں اس کے تمام کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہوں"۔ ان عبادات کو انجام دینے کے بعد بھی یہ عبادت کا آدھا ہیں، عبادت کا آدھا دعا کو قرار دے دیا۔ ارشاد فرمایا: "عَمَلَ الْبِرِّ کلُّهُ نِصْفُ الْعِبادَةِ وَ الدُّعا نِصْفٌ" انسان کے تمام نیک اعمال اس کی عبادت کا نصف ہیں اور دوسرا نصف دعا ہے۔ اس حدیث سے دعا کی اہمیت و فضیلت اور دعا کی برکات روز روشن کی طرح واضح ہیں۔ ایک مقام پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :"عَلَيْكُمْ بِالدُّعَاءِ فَإِنَّكُمْ لَا تَقَرَّبُونَ بِمِثْلِهِ وَ لَا تَتْرُكُوا صَغِيرَةً لِصِغَرِهَا أَنْ تَدْعُوا بِهَا إِنَّ صَاحِبَ الصِّغَارِ هُوَ صَاحِبُ الْكِبَارِ". میں آپ کو دعا کی سفارش کرتا ہوں، کوئی چیز بھی اس دعا سے بڑھ کر خدا کے قریب کرنے والی نہیں ہے، اور کسی چھوٹے کام کے چھوٹا ہونے کی خاطر اس کے لیے دعا کو ترک نہ کرنا، چونکہ چھوٹی حاجات بھی اسی کے ہاتھ میں ہیں، جس کے ہاتھ میں بڑی حاجات ہیں۔3 اس حدیث میں اگر دقت کی جائے تو اس میں کافی ظریف نکات موجود ہیں۔
1)۔ امام علیہ السلام نے سب سے پہلے فرمایا کہ میں تمہیں دعا کی سفارش کرتا ہوں۔ امام معصوم کا ایک چیز کے متعلق سفارش کرنا یہ خود اس چیز کی اہمیت پر بہت بڑی دلیل۔ گويا امام علیہ السلام کے نزدیک دعا کی اتنی اہمیت ہے کہ خود اپنے ماننے والوں کو دعا کی سفارش کر رہے ہیں.
2)۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا: کوئی چیز بھی دعا سے بڑھ کر خدا کے قریب کرنے والی نہیں ہے۔ یعنی خداوند متعال کا قرب حاصل کرنے کے لیے سب سے آسان راستہ دعا ہے۔ دعا کے ذریعے انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے۔ خدا سے راز و نیاز کا وسیلہ دعا ہے۔ البتہ تمام نیک اعمال خدا تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں۔ تمام نیک اعمال تقرب الھی کا موجب ہیں لیکن جس چیز کی معصوم نے سفارش کی ہے وہ دعا ہے۔
3)۔ تیسرا نکتہ امام علیہ السلام نے فرمایا: دعا کو اپنی چھوٹی چھوٹی حاجات میں بھی ترک نہ کرو۔ یہاں پر معصوم علیہ السلام ہمیں متوجہ کر رہے ہیں کہ ہمیشہ اپنے خدا کے ساتھ رابطہ برقرار رکھو، ایسا نہ ہو کہ ہم جب کسی بڑی مشکل میں مبتلا ہو جائیں تو پھر خداوند متعال کی بارگاہِ میں دعا کریں، توسل کریں۔ بلکہ انسان کو اپنی چھوٹی چھوٹی حاجات اپنی چھوٹی چھوٹی مشکلات میں بھی خداوند متعال کے ساتھ متوسل رہنا چاہیئے، تاکہ وہ عبد اور معبود، خالق اور مخلوق والا رابطہ برقرار رہے۔ جس طرح انسان بڑی بڑی مشکلات اور حاجات میں خدا کا محتاج ہے اسی طرح چھوٹی چھوٹی مشکلات اور حاجات میں بھی خدا کا محتاج ہے۔
4)۔ چوتھا نکتہ یہ ہے امام علیہ السلام نے فرمایا: جس طرح بڑی بڑی حاجات کو پورا، اور بڑی بڑی مشکلات کو رفع کرنی والی ذات، ذات خدا ہے اسی طرح چھوٹی چھوٹی حاجات کو پورا، اور چھوٹی چھوٹی مشکلات کو رفع کرنے والی خداوند متعال کی ذات ہے۔ ہم اس کی طرف متوجہ ہوں یہ نہ ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر انسان خیال کرے کہ فقط بڑی بڑی مشکلات میں ہی خداوند متعال سے دعا اور توسل کرنا چاہیئے، چھوٹی چھوٹی مشکلات میں ہم اس کے محتاج نہیں ہیں تو یہ تصور غلط ہے. انسان ہر وقت، ہر حال میں رحمت الھی کا محتاج ہے، لطف پرودگار کا نیازمند ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی چھوٹی چھوٹی حاجات کو بھی اس مہربان پروردگار کے سامنے پیش کریں تاکہ ہمارا رابطہ اپنے مالک حقیقی کے ساتھ برقرار رہے اور اس کی رحمت و لطف ہمارے شامل حال رہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: "ما اَحدٌ أَبغضُ اِلَی اللهِ عزّوجَلَّ مِمَّن یستكبِرُ عَن عِبادَتِه و لا یسأَلُ ما عِندَهُ"۔ خداوند کے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی مبغوض (قابل نفرت) نہیں جو تکبر کی وجہ سے خدا کی عبادت نہیں کرتا اور خدا سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتا۔ دعا کی اہمیت کا یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جن چیزوں کی وجہ سے خدا کسی سے نفرت کرتا ہے ان میں سے ایک خدا سے سوال (دعا) نہ کرنا ہے۔ بس دعا ہی ایک ایسا وسیلہ جس کے ذریعے خداوند متعال کی خوشنودی حاصل کی جا سکتی ہے. اور غضب خدا سے بچا جا سکتا ہے.
قبولیت دعا کی شرائط:
دعا انسان کا خالق حقیقی کے ساتھ معنوی رابطے کا نام ہے۔ دعا عبد کی معبود کے ساتھ محبت کی نشانی ہے۔ دعا مخلوق کو خالقِ حقیقی کے ساتھ ملانے کا وسیلہ ہے۔ جب گناہوں کی وجہ سے خالق اور مخلوق کے درمیان پردے حائل ہو جاتے ہیں تو دعا کے ذریعے ہی ان حجابوں کو دود کیا جا سکتا ہے، چونکہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ دعا باقی عبادات کی طرح ایک عبادت ہے لہٰذا جس طرح باقی تمام عبادات کے خاص احکام اور شرایط ہیں، اسی طرح دعا کی بھی کچھ شرائط ہیں۔ انسان مومن کو چاہیئے کہ جب دعا کرے تو ان شرائط کا لحاظ کرے، تاکہ اس کی دعا مرحلہ استجابت تک پہنچ جائے۔ بسا اوقات ہم دعا تو بہت زیادہ کرتے ہیں، لیکن چونکہ دعا کی شرائط کا لحاظ نہیں کیا جاتا، اس لیے بسا اوقات ہماری دعا قبول نہیں ہوتی۔ ہم یہاں پر دعا کی چند شرائط کو اختصار کے ساتھ ذکر کریں گے۔ ان شرائط میں سے...
1۔ خداوند متعال کی عظمت اور قدرت پر ایمان:
دعا کی شرائط میں سے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ انسان ایمان رکھتا ہو کہ خداوند متعال کی ذات تمام موجودات پر قدرت رکھتی ہے اور یہ ایمان رکھتا ہو کہ خداوند متعال کے لیے کوئی چیز بھی ناممکن نہیں ہے. میں جس چیز (جائز) کا بھی سوال کروں خدا کی ذات اسے عطا کر سکتی ہے۔ وہ اس چیز کو عطا کرنے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ خدا کے علاوہ کسی پر، کسی قسم کی امید نہ رکھے۔ اس کی تمام امید خداوند کی ذات اقدس ہو۔ خداوند متعال نے خود قرآن میں ارشاد فرمایا: "و من یتوکل علی اللّه فهو حسبه" ترجمہ: جو بھی اپنے امور میں خدا پر توکل کرے گا بس خدا اس کے لیے کافی ہے۔ علی بن سوید سائی کہتا ہے، اس آیت کے متعلق امام رضا علیہ السلام سے کسی نے سوال کیا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "و من یتوکل علی الله فهو حسبه" يعني: "التوکل علی الله درجات: منها أن تتوکل علی الله فی أمورک کلها فما فعل بک کنت عنه راضیا تعلم أنه لا یألوک خیرا و فضلا".... . توکل کے درجات اور مراتب ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ تو اپنے تمام امور میں خداوند متعال پر توکل اور اعتماد کرے، اور جو کچھ وہ تیرے لیے انجام دے تو اس پر راضی رہے اور تو جان لے، یقین رکھ کہ وہ کسی صورت میں بھی اپنے فضل و خیر اور کرم سے تیرے حق میں کوتاہی نہیں کرے گا۔6
2۔ توجه قلبی سے دعا کرنا:
دعا کی شرائط میں سے دوسری شرط توجہ قلبی ہے، دعا کرنے والے کو چاہیئے کہ مکمل توجہ اور خلوص کے ساتھ اپنی حاجات کو خداوند متعال سے طلب کرے. دعا کرتے وقت متوجہ ہو کہ کس سے ہمکلام ہو رہا ہے۔ خداوند متعال نے قرآن میں ارشاد فرمایا: "فادعواللّه مخلصین له الدین" ترجمہ: فقط خدا کو پکاریں اور اپنے دین کو اسی کے لیے خالص کریں۔7 یعنی دعا اور درخواست خالص ہونی چاہیئے۔ ایک مقام پر امیرالمومنین علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا، "لا یَقْبَلُ اللّهُ عَزَّوَجَلَّ دُعاءَ قَلْبٍ لاهٍ؛...،خدا اس کی دعا قبول نہیں کرتا جس کا دل دعا کرتے وقت غافل اور مشغول ہو۔ 8۔ امير المومنین کے اس نورانی کلام سے واضح ہے کہ دعا کی قبولیت کے لیے توجہ لازم ہے، ورنہ دعا استجابت کے مرحلے تک نہیں پہنچے گی۔ خداوند متعال نے قرآن میں ارشاد فرمایا: "وَ یَدْعُونَنا رَغَبا وَ رَهَبا وَ کانُوا لَنا خاشِعینَ" ترجمہ: انہوں نے ہم کو امید اور ڈر سے پکارا اور ہمارے لئے خشوع کیا۔9 معلوم ہوا دعا کی قبولیت دعا کرنے والے سے وابستہ ہے، اگر دعا کرنے والا توجہ اور خلوص کے ساتھ دعا نہ کرے تو دعا قبول نہیں ہوتی۔
3۔ شر اور خیر کی پہچان:
دعا کی شرائط میں سے تیسری شرط خیر اور شر کی پہچان ہے۔ انسان راہ نجات اور راہ ہلاکت کو جانتا ہو. کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان اپنی ہلاکت کی آپ ہی دعا کر رہا ہو. یہ تب مشخص کر پائے گا جب خیر اور شر کی پہچان ہو گی۔ خداوند متعال نے سورہ اسرا میں ارشاد فرمایا: "وَ یَدْعُ الاِنْسانُ بِالشَرِّ دُعاءَهُ بِالْخَیْرِ وَ کانَ الانْسانُ عَجُولاً" ترجمہ: انسان کو جس طرح خیر مانگنا چاہیئے اسی انداز سے شر مانگتا ہے اور انسان بڑا جلد باز ہے۔10 اس آیت کے متعلق امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: "وَ اعْرِفْ طُرُقَ نَجَاتِکَ وَ هَلَاکِکَ کَیْلَا تَدْعُوَ اللَّهَ بِشَیْءٍ مِنْهُ هَلَاکُکَ وَ أَنْتَ تَظُنُّ فِیهِ نَجَاتَکَ قَالَ اللَّهُ عزّوجلّ وَ یَدْعُ الْإِنْسانُ بِالشَّرِّ دُعاءَهُ بِالْخَیْرِ وَ کانَ الْإِنْسانُ عَجُولًا وَ تَفَکَّرْ مَا ذَا تَسْأَلُ وَ کَمْ تَسْأَلُ وَ لِمَا ذَا تَسْأَلُ" تیرے اوپر لازم ہے کہ نجات اور ھدایت کے راستوں کو پہچان، تاکہ دعا کرتے وقت خدا سے ایسی چیز کا سوال نہ کرے جس میں تیری ہلاکت ہو، اور تو گمان کر رہا ہو کہ اس میں میری نجات ہے۔ 11بس معلوم ہوا دعا سے پہلے انسان سوچے کہ کس سے مانگ رہا ہے، اور کیا مانگ رہا ہے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ خیر کے بجائے شر طلب کر رہا ہو، اگر انسان خیر اور شر میں تشخیص کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، تو پھر اسے چاہیئے خدا سے اس طرح دعا کرے، کہ خدایا ہر وہ چیز جو میرے لیے خیر اور مصلحت رکھتی ہے، وہ مجھے عطا کر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
[1] (کافى، جلد ۲، ص ۴۶۸.)
[2] (بحارالانوار،ج۹۰، ص ۳۰.)
[3] (كافى (ط-الاسلامیه) ج 2، ص 467، ح 6)
[4] (وسائل، ج ٤، ص ١٠٨٤)
[5] سوره طلاق 3
[6] وسائل الشیعه، ح. ۲۰۳۰۷؛ بحار ۶۸: ۱۲۹ ح. ۵
[7] غافر آیت. 14
[8] الکافي؛ ج 2، ص 473
[9] انبیاء 9
[10] سورہ اسرا 11
[11] مستدرک الوسلنگرایل، ج۵، ص،۲۷۱
تحریر: ساجد محمود
ماہ مبارک، عبادت اور تنہائی
تحریر: سید ثاقب اکبر
اب کے یہ مہینہ دنیا میں عجب حالات میں آیا ہے۔ ایک طرف رمضان کریم، اللہ کریم کا خاص مہینہ ہے، عبادت و مناجات اور دعا و تضرع کا مہینہ اور دوسری طرف سماجی فاصلوں کی تاکید، گھروں میں رہنے پر زور، مساجد میں رونقیں کم، گلیاں اور سڑکیں بہت حد تک سنسان۔ پابندیاں، مجبوریاں، قدغنیں اور تنہائیاں۔ اس ماہ میں، ان دنوں یہ عالم ہے۔ اس مہینے میں کرونا کی وباء سے پوری دنیا میں پیش آنے والے بے شمار اور بے پناہ مسائل ہیں، لیکن ہر طرف سے ایک ہی تلقین ہے: سماجی فاصلہ، Social Distance۔ البتہ اللہ کے بہت سے بندے اس دور اِبتلا میں بھی خیر کے پہلو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور وہ ایسا کیوں نہ کریں کہ خود پروردگار عالم نے فرما رکھا ہے: وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ "بسا ایسا ہوتا ہے کہ کوئی چیز تمھیں ناگوار گزرتی ہے جبکہ وہی تمھارے لیے خیر ہوتی ہے۔"(سورہ بقرہ، ۲۱۶) کتنے خدا کے بندے ہیں جو تنہائیوں کی ساعتیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک عارفِ الہیٰ تنہائی میں محوِ راز و نیاز تھے کہ اُن کے کوئی دوست آپہنچے۔ کمرے میں اکیلے بیٹھے دیکھا تو کہنے لگے: تنہا بیٹھے ہو۔ اُنھوں نے سرد آہ کھینچ کے کہا: اب تنہا ہوگیا ہوں۔
قرآن حکیم کی کئی آیات ایسی ہیں، جو تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو پکارنے کی طرف رغبت دلاتی ہیں۔ مثلاً: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً "اپنے پروردگار کو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے پکارو۔"(سورہ اعراف، ۵۵) ایک اور خوبصورت آیت دیکھیے: وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ "اپنے پروردگار کو صبح و شام دل ہی دل میں یاد کرو، زاری و خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ اور تم غفلت میں پڑے لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ۔" ہمارے دینی ادب میں اسی کیفیت کو "مناجات" کہتے ہیں۔ یہ لفظ "نجویٰ" سے نکلا ہے، جس کا معنیٰ ہے "سرگوشی۔" آج جبکہ ہنگامے فرو ہوچکے، رفت و آمد محدود ہوچکی، محفل آرائیاں اور مجالسِ نشاط کے سلسلے رُک چکے، پھر ماہ مبارک بھی آگیا ہے اور اللہ والوں کے لیے مناجات اور خدا کو تنہائی میں پکارنے کا ایک موقع بھی اپنے ساتھ لے آیا ہے۔ ہم اپنے مذہبی ماحول میں دیکھتے ہیں کہ اجتماعی عبادات پر بہت زور ہے۔ محافل دعا اور مجالس ذکر برپا ہوتی رہتی ہیں۔ شب ہائے قدر میں بھی اجتماعات منعقد ہوتے ہیں۔ میلاد نبوی ﷺ اور ذکر اہل بیتؑ کی محافل و مجالس کا بھی ایک وسیع سلسلہ ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر شہرِ اعتکاف کا اہتمام۔
ان میں سے بہت سی محفلیں اور مجلسیں نہایت اہم ہیں، لیکن اجتماعیت کے اس تصور نے تنہائی کی عبادتوں اور ضرورت کے تصور کو گہنا دیا ہے۔ ہمیں ہر معاملے میں اعتدال کا سبق دیا گیا ہے۔ اعتکاف کا تو تصور ہی تنہائی میں ذکر و فکر سے عبارت ہے۔ اس کے لیے بھی جب شہر بسا دیئے جائیں اور اسے اجتماعی عبادت کی شکل دے دی جائے تو "عبادت" تو شاید رہ جائے، لیکن اعتکاف کے مقاصد اس سے پورے نہیں ہوں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ کے خاص بندے جن میں انبیاء پیش پیش ہیں، ایسے مواقع تلاش کرتے تھے کہ انہیں تنہائی میں اپنے پروردگار کے ساتھ محفل ذکر و فکر جمانے کی مہلت مل جائے۔ وہ تنہائی میں، یکسو ہو کر اپنے اللہ کو یاد کریں۔ توبہ و انابت، استغفار و استمداد، دعا و مناجات اور تضرع و زاری کے لیے تنہائی کی چند گھڑیاں درکار ہوتی ہیں۔ نماز تہجد میں ایک یہ مقصد بھی کار فرما ہے۔ نبی کریم ﷺ کا اعلان بعثت سے پہلے غار حرا میں جانا اور اپنے اللہ سے لَو لگانا، ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ بڑے بڑے عرفاء اور علماء کی گوشہ نشینیاں بلکہ پہاڑوں اور غاروں میں جاکر عبادت اور غور و فکر کرنا اور پھر معارف و دانش اور حکمت و دانائی کے جواہر پارے لے کر بندگانِ خدا کے پاس آنا، ہماری کتابوں میں مذکور و مرقوم ہے۔ ہم تو یہاں تک جانتے ہیں کہ بہت سی اہم علمی و فقہی کتابیں، تفاسیر اور ادب پارے زندان میں تخلیق پائے ہیں۔ تنہائیوں کی برکات کے کتنے پہلو ہیں، جن سے بہت سے لوگ بے خبر ہیں۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے بارے میں مروی ہے کہ وہ زندان میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ کا یہ کہہ کر شکر بجا لائے کہ "پروردگارا! میری کتنی آرزو تھی کہ میں جی بھر کر تیری عبادت کروں، تو نے مجھے یہ موقع عطا فرمایا ہے۔" علامہ اقبال کا سحر خیزی کی حوالے سے یہ شعر بہت شہرت رکھتا ہے:
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی
اللہ تعالیٰ اس ماہ ِمبارک میں دستیاب ہماری ان تنہائیوں کو اپنی یاد سے آباد کر دے، ہماری غفلتوں کو دُور کر دے، ہمارے دلوں کو اپنے ساتھ جوڑ لے، اپنی محبت سے ہمارے دل معمور کر دے۔ یا اللہ! ہمیں بھی اپنے اُن بندوں کے ساتھ ملحق کر دے، جو تجھے چپکے چپکے پکارتے تھے، گریہ و زاری کے ساتھ اور تیری یاد سے اپنے سینوں کو آباد رکھتے تھے۔ تیرے بندوں کی مناجات اور دعاؤں کے خزانے ہمارے پاس ہیں۔ قرآن حکیم جو تیرے نبیﷺ کے سینے پر نازل ہوا اور اسی مہینے میں نازل ہوا، جو تیری حبل ِ متین ہے، ہمارے پاس ہے۔ نبی کریمﷺ اور اُن کے جانشینوں کی دعاؤں کے خزانے ہمارے پاس ہیں۔ ہم صحیفہ کاملہ جیسی دعاؤں کے وارث ہیں۔ ہمیں ان کا حقیقی حامل و وراث بنا دے۔ اس مہینے میں ہماری توبہ قبول فرما۔ اپنے بندوں پر مہربانی فرما اور کرونا کی اس وبا سے اپنے بندوں کو بیداری کے ساتھ اور خیر کے عزم کے ساتھ نجات دے۔ اپنی خاص رحمتوں کے ساتھ "یاارحم الراحمین۔"
کیا یہ وہی ایران ہے؟
تحریر: سید اسد عباس
گذشتہ دنوں ایران نے اپنے ملک میں تیار ہونے والی سیٹلائیٹ نور کو اپنے ہی ملک میں تیار ہونے والے لانچر کے ذریعے کامیابی سے فضا میں پہنچا دیا، سیٹلائیٹ نے لانچ ہونے کے نوے منٹ بعد اپنے زمینی مرکز پر سگنل دینے شروع کر دیئے تھے۔ ویسے تو خلا میں کئی ایک ممالک کی سیٹلائٹس موجود ہیں، تاہم ہر ملک کے پاس یہ ٹیکنالوجی نہیں ہے کہ وہ اپنی سیٹلائیٹ کو خود خلا میں بھیج سکے۔ اس مقصد کے لیے غریب ممالک کو اکثر ترقی یافتہ ممالک کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ایران نے اس سیٹلائیٹ کو فضا میں بھیجنے کے لیے اس سے قبل دو تجربات کیے تھے، جن میں اسے ناکامی ہوئی تھی، تاہم اس مرتبہ وہ کامیاب ہوگیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق نور اگرچہ فوجی سیٹلائیٹ ہے، لیکن اس کو غیر فوجی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس سیٹلائیٹ کو مدار میں پہنچانے کے لیے جو لانچر استعمال کیا گیا ہے، اس کے بارے مین یہ اطلاعات ہیں کہ اس میں ٹھوس ایندھن استعمال ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق ٹھوس ایندھن کو لانچر میں استعمال کرنے کی استعداد دنیا میں گنے چنے ممالک کے پاس ہے۔ ایران ان گنے چنے ممالک میں سے ایک ہوچکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ایندھن کے استعمال کے لیے پیچیدہ ٹیکنالوجی درکار ہے۔ نور کے کامیاب تجربہ سے یہ چیز تو واضح ہوگئی ہے کہ ایران نے یہ پیچیدہ ٹیکنالوجی حاصل کر لی ہے۔
ایران نے اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ ہم اس ٹیکنالوجی کو میزائل سسٹم میں استعمال کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں، تاہم یہ بات ایک حقیقت ہے کہ وہ ایسا کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں۔ اسی لیے امریکہ کو اس لانچنگ پر تشویش ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ایران نے یہ سیٹلائیٹ لانچ کرکے عالمی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ ویسے امریکہ بہادر تو اپنے علاوہ کسی بھی ملک کی جانب سے لانچ کی جانے والی سیٹلائیٹ کو عالمی قوانین کے مطابق نہیں سمجھتا، اسی لیے اس نے چین اور جنوبی کوریا کو بھی متعدد مواقع پر ایسی ہی دھمکیاں دی ہیں، جنہیں یہ ممالک اب زیادہ قابل اعتناء بھی نہیں سمجھتے ہیں۔ میرا حیرت سے بھرپور سوال واقعاً دنیا کے اعلیٰ دماغوں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈالے ہوئے ہے کہ ایران جو امریکا، یورپ، یورپی یونین، اقوام متحدہ کی جانب سے گذشتہ تین دہائیوں سے پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے، جہاں میزائل ٹیکنالوجی، توانائی، سائنس کے مختلف شعبہ جات، فوجی اداروں اور شخصیات، بینکوں، کرنسی، کاروبار، ہوائی انڈسٹری، بحری انڈسٹری اور دیگر کئی ایک شعبوں پر عالمی پابندیاں ہیں، جس کی معیشت کو کبھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیا گیا، اس نے کیسے سیٹلائیٹ بنائی اور پھر اسے خود ہی مدار میں پہنچا دیا۔ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب پورا ایران کرونا کی زد پر ہے اور اس کے سینکڑوں شہری اس آفت سے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
ایران نے اس سے قبل بھی دنیا کو متعدد مرتبہ ورطہ حیرت میں ڈالا ہے، کبھی امریکی ڈرون اتار کر، کبھی پیچیدہ ترین ڈرون کو فضاء میں تباہ کرکے، کبھی عراق میں امریکوں اڈوں کو نشانہ بنا کر۔ تاہم اس بار تو ایران نے سبھی حدیں ہی عبور کر دیں اور دنیا کو بتایا کہ ایران کے حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں، ایرانی قوم کی پیشرفت اور ترقی کا سفر کسی حال میں بھی نہیں تھم سکتا ہے۔ اگر ایران کی جگہ کوئی اور ملک ہوتا، جو اتنے عرصے سے مغربی ممالک کی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہوتا تو میں نہیں سمجھتا کہ وہ فی الحال فضا میں غبارے چھوڑنے سے اوپر جا سکا ہوتا۔ ایرانی سائنسدانوں اور ماہرین نیز اس کے فیصلہ سازوں نے دنیا کے سامنے ثابت کر دیا ہے کہ اگر کوئی قوم ترقی اور خود انحصاری کا فیصلہ کر لے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اس قوم کے ارادوں کو متزلزل نہیں کرسکتی ہے۔ ایرانیوں نے یہی ثابت کیا ہے کہ معاشی، اقتصادی، علمی پابندیاں ترقی کی رفتار کو سست تو کرسکتی ہیں، تاہم مکمل طور پر روکنا ان پابندیوں سے بس سے باہر ہے۔
ایران نے نور سیٹلائیٹ کو کامیابی سے مدار میں پہنچانے کا تجربہ کرکے جہاں سائنسی اور علمی میدان میں اپنی پیشرفت اور خود کفالت کا اعلان کیا ہے، وہیں اس نے خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایسی ہی ترقی اور پیشرفت کے مواقع روشن کر دیئے ہیں۔ کرونا کے خلاف جنگ میں بھی ایران نے بہت جلد ایسے انقلابی اقدامات کئے ہیں، جن سے ملک میں اموات کی شرح دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ایران میں کرونا سے صحتیاب ہونے والے مریضوں کی تعداد چین کے بعد سب سے زیادہ ہے، ایران میں اب تک نوے ہزار کرونا کے مریض رجسٹر ہوئے ہیں، جن میں سے تقریبا ستر ہزار کے قریب صحتیاب ہوچکے ہیں۔ اس وقت ایران میں کویڈ 19 کے تقریباً پندرہ ہزار کیسز موجود ہیں، جبکہ اموات کی تعداد پانچ ہزار سات سو کے قریب ہے۔ ایران کی اس پیشرفت اور خود کفالت کا موازنہ دنیا کے کسی بھی ملک سے کرنا بالکل غلط ہے، کیونکہ دنیائے اسلام میں بالخصوص اور اقوام عالم میں بالعموم کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے، جو مغربی ممالک کی پابندیوں کا ایران کی مانند سامنا کر رہا ہو اور ان تمام معاشی، اقتصادی، تجارتی، علمی اور سائنسی پابندیوں کے باوجود ایسے معجزات رونما کرے۔ سائنسی ترقی کے یہ مظاہر اور ان شعبوں میں خود کفالت ایرانی قوم اور اس کی قیادت کا طرہ امتیاز اور ایمان باللہ کی بین دلیل ہے۔ اللہ کریم دنیا کی تمام اقوام اور ریاستوں کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے اور عزت و وقار سے جینے کا حوصلہ عطا فرمائے۔آمین
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ
.بقره 185رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں
رمضان المبارک کے آداب و شرائط/ نزول قرآن ، رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ
رمضان المبارک کا مہینہ نزول قرآن ، رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے ۔ یہ مہینہ عبادت، بندگی ، توبہ و استغفار اور اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔
رمضان المبارک کے آداب مندرجہ ذیل ہیں :
1۔ چاند کا دیکھنا
اس مہینے کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ اس مبارک مہینے کے چاند کو دیکھا جائے اور اس چیز کو «سنن النبی» اور «تهذیب» شیخ طوسی (ره) نے ذکر کیا ہے کہ چاند کا دیکھنا سنت نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ماہ مبارک رمضان کے چاند کو دیکھتے اور اس مہینے کی دعا کو پڑھتے تھے ۔ (1)
2۔ سحری اور افطاری کا کھانا
سحری اور افطاری اس مہینے کی سنت میں شمار ہوتا ہے اور اسی طرح شریعت اسلام میں «صوم وصال»؛ یعنی ایک روزے کے بعد دوسرا روزہ بغیر کچھ کھائے پیے منع کیا گیا ہے،ہاں مگر جب کوئی مجبوری ہو یعنی کھانے کے لیے کچھ نہ یا پھر سوئے رہے اور اذان کے بعد آنکھ کھولی تو اس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
شیخ مفید نے کتاب مقنعہ میں لکھا ہے کہ : آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) سے نقل ہوا ہے «سحرى» کھانا مستحب ہے اگرچہ ایک گھونٹ پانی کا ہی کیوں نہ ہو ۔
اسی طرح ایک اور روایت میں ذکر ہوا ہے کہ بہترین سحری «کھجور» ہے؛ کیونکہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) اسے کھاتے تھے ۔ (2)
کتاب سنن النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں جب آپ افطار کرتے تھے تو آپ کی افطاری میں ،حلوہ ،کھجور ،دودھ،روٹی ہوا کرتی تھی اور بعض اوقات یہ بھی دیکھا گیا کہ جب کچھ نہیں ہوتا تھا تو آپ پانی سے روزہ افطار کرتے تھے ۔ (3)
اہم تکتہ: سحری اور افطاری میں حلال کھانے پر توجہ کی جائے تفسیر روح البیان میں ذکر ہے کہ سحری اور افطاری میں چاہے ایک لقمہ ہی کیوں نہ ہو وہ حلال کا ہونا چاہیے کیونکہ حرام لقمہ ایسا ہے کہ جیسے زہر کھا رہے ہوں۔ (4)
3۔نماز و دعا اور استغفارو صدقہ کا کثرت سے انجام دینا
اس مبارک مہینے میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ اس ماہ کو نماز و دعا اور اسی طرح استغفارو صدقہ سے گزارا جائے اور اس کا ذکر سنن النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) میں آیا ہے ۔
سید بن طاوس نے کتاب «اقبال» میں تاریخ نیشابورى سے روایت نقل کی ہے کہ جب بھی ماہ مبارک رمضان آتا تو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے چہرے کا رنگ بدل جاتا آپ کا زیادہ و قت نماز و دعا میں گزرتا اور لوگوں کو استغفار کی تاکید کرتے ۔ (5)
کتاب «فقیه» میں روایت نقل ہے کہ: رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جب بھی ماہ مبارک رمضان آتا تو سارے قیدیوں کو آزاد کر دیتے اور ہر سائل کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتے (6)
کتاب کشف الاسرار میں آیا ہے کہ: رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: «من صام رمضان و قامه ایمانا و احتسابا غفر له ما تقدّم من ذنبه» جو بھی ماہ رمضان میں روزے رکھے اور اس کی راتوں میں جاگے اور روزہ رکھنے کو فریضہ سمجھے تو خدا اس کےپچھلے تمام گناہوں کو معاف کر دے گا ۔(7)
اسی طرح خطبہ شعبانیہ میں بھی ذکر ہوا ہے کہ نماز کے وقت دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں اور یہ بہترین وقت ہے دعا کے لیے ،اور خدا اپنے بندوں کی مناجات کو سنتا ہے اور انکی حاجات کو مستجاب کرتا ہے ،آواز آتی ہے کہ اے لوگوں اپنے نفس کو استغفار کے لیے آزار کرو،تمہارے کندھوں بہت بوج ہے اور یہ کندھے وہ بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں اس لیے استغفار کرو اور سجدہ کرو ،اور جو بھی ایک آیہ کریمہ کی تلاوت کرے گا وہ ایسے ہےکہ جیسے اس نے دوسرے مہینوں میں پورا قرآن ختم کیا ہو ۔ (8)
4۔ اعضاو جوارح کا روزہ
روزہ کے آداب میں اس کی بھی بہت زیادہ تاکید ہے کہ انسان اعضا و جوارح کا بھی خیال رکھے یعنی ان کا بھی روزہ ہونا چاہیے تفسیر جامع نے کافی ، فقیہ اور تہذیب سے نقل کیا ہے محمد ابن مسلم نے امام صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ امام نے فرمایا:جب بھی روزہ رکھو تو تمہارے ہر عضو کا روزہ ہونا چاہیے یعنی کان ، آنکھ ، ہاتھ ، پاؤں سب کا روزہ ہونا چاہیے ۔ (9)
امام صادق (علیہ السلام )نے فرمایا : روزہ رکھنا ،فقط کھانے پینے کی چیزوں کا روزہ نہیں ہے حضرت عیسی (علیہ السلام) کی ماں مریم (علیھا السلام) نے کہا کہ : «میں نے منت مانی ہے کہ خداوند متعال کی ذات کے لیے روزہ رکھوں » یعنى، میں فقط اور فقط خدا کی مدح کے لیے بولوں گی ۔
ایک مرتبہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے سنا کہ ان کی ازواج میں سے ایک روزے کی حالت میں اپنے خادم کو برا بھلا کہہ رہی ہے تو آپ نے فرمایا کہ : اس کے لیے کھانا لے آؤ تو اس نے کہا نہیں میں روزے سے ہوں تب آپ نے فرمایا کہ: «کیسا روزہ ! اگر روزے سے ہوتی تو ایسے الفاظ سے بات نہ کرتی ،فقط بھوک کا روزہ نہیں ہوتا »۔
امام(علیہ السلام) نے فرمایا:جب بھی روزہ رکھو تو تمہارے ہر عضو کا روزہ ہونا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ بھوک کی حالت میں آنکھ ،کان حرام میں مبتلا ہوں اور فرمایا کہ جس دن روزہ رکھو وہ دن تمہارے باقی دنوں کی طرح نہ ہو ۔ (10)
5۔ماہ مبارک کے آخری عشرے میں خصوصی توجہ
ماہ مبارک رمضان کے آخری دس دنوں میں خصوصی توجہ ہونی چاہیے کہ یہ دس دن اہم اہمیت رکھتے ہیں ان دس دنوں میں خصوصی توجہ دینا سنت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) میں سے ہے اور اعتکاف بھی بیٹھے۔
کافى میں امام صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ:جیسے ہی ماہ مبارک کا آخری عشرہ آتا تو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اسے ایک خاص انداز سے گزارتے اپنی بیویوں سے نزدیکی نہ کرتے پوری پوری رات عبادت کرتے ان دس دنوں میں انہیں کوئی فارغ نہیں پاتا تھا ۔ (11)
کتاب «دعائم» میں حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ :ماہ مبارک رمضان کے آخری دس دنوں میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنا بستر جمع کر دیتے تھے اور اپنی کمر کو عبادت کے لیے باندھ دیتے اور جیسے ہی ۲۳ رمضان کی رات آتی تو اپنے گھر والوں کو کہتے خبردار آج کوئی سوئے نا اور کسی کو نیند آنے بھی لگتی تو اس کے منہ پر پانی ڈالتے اور یہی روش حضرت زہراء (سلام اللہ علیھا) کی بھی ہوتی کہ کسی اس رات سونے نہ دیتیں اور کہتی کہ اس رات کھانا کم کھاؤ تاکہ کسی کو نیند نہ آئے اور یہ فرماتیں :محروم ہے وہ انسان جو اس رات کو بھی سوتا ہے ۔ (12) رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) اور ان کی اہل (علیھم السلام) نے ہمیں یہ درس دیا ہے کہ اس ماہ کی اہمیت کو درک کریں اور خاص طور پر اس مبارک مہینے کے آخری عشرے کو پوری توجہ سے گزاریں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) طباطبائی، محمد حسین، سنن النبی (ص)، فقهی، محمدهادی، ص 302،ح 343، کتاب فروشى اسلامیه ،تهران، چاپ هفتم، 13788ش.
(2) وہی، ص 295، ح 333.
(3) وہی، ص 294- 301.
(4) آلوسی، تفسیر روح البیان، ج 1،ص 296. قال ابو سلیمان الدارانی قدس سره لأن أصوم النهار و أفطر اللیل على لقمة حلال أحب الى من قیام اللیل و النهار و حرام على شمس التوحید ان تحل قلب عبد فی جوفه لقمة حرام و لا سیما فی وقت الصیام فلیجتنب الصائم أکل الحرام فانه سم مهلک للدین و السنة.
(5) طباطبایی، محمدحسین، سنن النبی، ص 300، ح 336.
(6) همان، ص 296، ح 335.
(7) میبدی، کشف الأسرار و عدة الأبرار، ج 1، ص 488 و 489.
(8) شیخ صدوق، امالى، کمرهاى، ص 94 و 95.
(9) بروجردی،سید محمد ابراهیم، تفسیر جامع، ج 1، ص 300، انتشارات صدر، تهران، چاپ ششم، 1366ش.
(10) بهبودی، محمد باقر، گزیده کافى، ج 3، ص 134و 136، انتشارات علمی و فرهنگی، تهران، چاپ اول، 1363ش.
(11) طباطبائی، محمد حسین، همان، ص 301 و 302،ح 342.
(12) وہی، ص 296، ح 336.