سلیمانی

سلیمانی

تحریر: عباس ہاشمی

امریکہ نے دنیا کے مختلف ممالک کے خلاف شدید قسم کی اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جن میں اسلامی جمہوریہ ایران اور وینزویلا بھی شامل ہیں۔ امریکہ ان ممالک کو اپنے مفادات کیلئے خطرہ اور دشمن ملک تصور کرتا ہے۔ اس وقت جب پوری دنیا کرونا وائرس سے پیدا شدہ کووڈ 19 وبا کی لپیٹ میں ہے تب بھی امریکہ ان ممالک کے خلاف پابندیوں میں نرمی کرنے پر تیار دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری طرف امریکہ کی جانب سے دباو کا شکار ممالک نے باہمی تعاون اور ایکدوسرے کی مدد کے ذریعے ان غیر منصفانہ پابندیوں کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی اپنا لی ہے۔ اسی ضمن میں حال ہی میں اسلامی جمہوریہ ایران نے پٹرول کے حامل پانچ ٹینکر وینزویلا ارسال کئے ہیں جس پر امریکی حکام نے شدید ردعمل ظاہر کیا لیکن عمل کے میدان میں کچھ نہ کر سکا اور تازہ ترین رپورٹس کے مطابق اب تک دو ٹینکرز وینزویلا کی سمندری حدود میں داخل ہو چکے ہیں۔ وینزویلا کے صدر نکولس مادورو نے ایران کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے اسے وینزویلا کے قومی مفادات کیلئے انتہائی اہم قرار دیا ہے اور تاکید کی ہے کہ وہ امریکہ کو اس کی راہ میں روڑے اٹکانے کی اجازت نہیں دے گا۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اس بارے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایران کی جانب سے 60 ملین گیلن پٹرول کے حامل ٹینکر اٹلانٹک اوشن کے ذریعے بہت جلد وینزویلا پہنچ جائیں گے جس کے نتیجے میں ایران اور وینزویلا کے درمیان دوستانہ تعلقات مزید گہرے ہو جائیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ وینزویلا نے اس کے بدلے ایران کو سونا دیا ہے لیکن ایرانی حکام نے یہ افواہ مسترد کی ہے۔ وینزویلا میں انرجی کا بحران اس قدر شدت اختیار کر چکا ہے کہ حتی اسپتال بھی متاثر ہو رہے ہیں اور مریضوں کی جان بھی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ اسی طرح وینزویلا کا شعبہ زراعت بھی شدید متاثر ہو رہا ہے۔ امریکہ نے اعلان کر رکھا ہے کہ جو ملک بھی ایران سے خام تیل کی مصنوعات خریدے گا یا ان کی تجارت میں مدد فراہم کرے گا اسے بھی سزا کے طور پر شدید پابندیوں کا نشانہ بنایا جائے گا۔ ٹرمپ حکومت مانرو ڈاکٹرائن پر عمل پیرا ہے جس کی رو سے مشرقی ممالک کو جنوبی امریکہ کے ممالک کے ساتھ تجارت کا حق حاصل نہیں ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ کو خبردار کیا تھا کہ اگر وہ وینزویلا کی جانب جانے والی ایرانی ٹینکرز کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرے گا تو جواب میں اس کیلئے بھی مشکلات کھڑی کی جائیں گی۔ دوسری طرف وینزویلا نے بھی ایران کو یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ اپنی سمندری حدود میں ایران کے آئل ٹینکرز کو سکیورٹی فراہم کرے گا۔ واشنگٹن پوسٹ اپنی رپورٹ میں مزید لکھتا ہے کہ ایران کی جانب سے وینزویلا پٹرول برآمد کرنے پر مبنی اقدام ٹرمپ حکومت کیلئے ایک کڑی آْزمائش ہے۔ امریکہ کی مسلح افواج کے وار کالج میں لاطینی امریکہ سے متعلق امور کے ماہر پروفیسر ایوان ایلس اس بارے میں کہتے ہیں: "مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے گویا ایران ان آئل ٹینکرز کے ذریعے امریکہ کو آزما رہا ہے۔" بہرحال امریکہ کی جانب سے ایران کے ٹینکرز کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ ایران اور وینزویلا دونوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آنے کا باعث بن سکتی ہے۔ دوسری طرف وینزویلا میں امریکہ نواز حکومت مخالف قوتیں یہ خدشہ ظاہر کر رہی ہیں کہ ایران ممکن ہے پٹرول کے علاوہ بھی دیگر مصنوعات وینزویلا کو برآمد کرنا شروع کر دے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران پٹرول کی تجارت کے بہانے وینزویلا کے شمالی علاقوں میں ایک جاسوسی اڈہ قائم کرنا چاہتا ہے جس کے ذریعے خطے میں انجام پانے والی فضائی اور سمندری نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکے گی۔

وینزویلا کے وزیر اطلاعات نے اس دعوے کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ انہوں نے واشنگٹن پوسٹ کو بھیجے گئے ایک مراسلے میں لکھا: "وینزویلا اور ایران کے درمیان تجارتی تعلقات اور باہمی تعاون گذشتہ بیس سالوں سے جاری ہے۔" ایران کی جانب سے وینزویلا بھیجے گئے ٹینکرز میں سے پہلا ٹینکر ہفتہ 23 مئی کے دن وینزویلا پہنچا تھا۔ یہ ٹینکرز اس سمندری راستے سے آئے ہیں جہاں گذشتہ دس برس کے دوران امریکہ سب سے زیادہ فوجی موجودگی رکھتا ہے۔ پنٹاگون نے منشیات کی روک تھام کے بہانے اس علاقے میں جنگی بحری جہاز، موٹر بوٹس اور بڑے پیمانے پر فوجی اسلحہ تعینات کر رکھا ہے۔ پنٹاگون کے ترجمان جیناتھن ہافمین نے جمعرات کے روز صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ فی الحال ایرانی ٹینکرز کو روکنے کیلئے انہیں کسی قسم کا کوئی حکم موصول نہیں ہوا۔ لیکن ٹرمپ حکومت کے ایک اعلی سطحی عہدیدار نے نام فاش نہ ہونے کی شرط پر بتایا تھا کہ واشنگٹن ایران کی جانب سے نکولس مادورو کی حمایت برداشت نہیں کرے گا۔ یاد رہے امریکی حکومت وینزویلا کے اپوزیشن رہنما خوان گوایدو کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ خوان گوایدو نے نکولس مادورو پر الزام لگایا ہے کہ وہ 2018ء کے صدارتی الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے کامیاب ہوئے ہیں۔ امریکہ اب تک خوان گوایدو کی بھرپور مدد کرتا آْیا ہے اور نکولس مادورو کی حکومت کو کمزور کرنے کی بھی سرتوڑ کوششیں انجام دے چکا ہے۔

تحریر: علی احمدی

امریکہ میں پولیس کی جانب سے سیاہ فام شہریوں کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اب تک ان واقعات میں دسیوں سیاہ فام شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس قسم کا تازہ ترین واقعہ ریاست منی سوٹا کے شہر میناپولس میں پیش آیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پولیس نے ایک سیاہ فام شہری جارج فلوریڈ کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ گرفتاری کے دوران پولیس افسر نے اپنے گھٹنے سے اس کی گردن دبا رکھی تھی۔ جارج فلوریڈ سانس رکنے کی شکایت کرتا رہا لیکن پولیس افسر کے کان پر جوں نہ رینگی اور نتیجتاً یہ سیاہ فام شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ امریکہ اور دنیا بھر میں ہنگامہ اس وقت برپا ہو گیا جب اس واقعے کی دس منٹ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پولیس افسر نے سیاہ پوست شہری کی گردن دبا رکھی ہے جبکہ دوسرا پولیس افسر اس کے قریب ہی کھڑے ہو کر تماشائی بنا رہا۔ اس افسوسناک واقعے نے ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے اور اس وقت امریکہ کی دو ریاستیں منی سوٹا اور لوزیانہ شدید عوامی احتجاج اور شدت پسندانہ مظاہروں کی لپیٹ میں ہیں۔

امریکہ جو خود کو جمہوری اقدار کا گہوارہ قرار دیتا ہے اور مغربی تہذیب و تمدن کی جنت تصور کیا جاتا ہے میں سفید فام پولیس کے ہاتھوں بیگناہ نہتے سیاہ فام شہری کے قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ حتی موجودہ حالات میں جب امریکہ سمیت پوری دنیا کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی کووڈ 19 وبا کی لپیٹ میں ہے اور شدید بحران صورتحال کا شکار ہے، سیاہ فام شہریوں کے خلاف سفید فام پولیس افسروں اور اہلکاروں کے یہ غیر انسانی اقدامات جاری ہیں۔ اس حالیہ واقعے کے بارے میں سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان دس منٹس کے دوران سیاہ فام شہری کئی بار پکار پکار کر کہہ رہا ہے: "پلیز، میں سانس نہیں لے پا رہا، مجھے قتل مت کرو۔" اکثر ویب سائٹس نے یہ ویڈیو شائع کرتے وقت یہ وارننگ بھی لگائی ہے کہ ویڈیو دلخراش مناظر کی حامل ہے۔ اسی بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس سیاہ فام شہری پر کیا گزری ہو گی۔ بعض افراد کچھ کہے بغیر ان کے قریب سے گزر جاتے ہیں جبکہ بعض پولیس پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں: "تم نے تو اسے پکڑ رکھا ہے، کم از کم اسے سانس تو لینے دو۔"

امریکی پولیس کے تشدد آمیز واقعات ہمیشہ تنقید کا باعث بنتے رہتے ہیں لیکن کرونا وائرس کے پھیلاو سے پیش آنے والے بحران کے دوران ان شدت پسندانہ اقدامات پر زیادہ شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ کووڈ 19 کے بارے میں تحقیق کرنے والے ایک امریکی تحقیقاتی ادارے ایپی ام کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد زیادہ تر سیاہ فام ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاہ فام شہریوں کی ہلاکت سفید فام شہریوں سے 6 یا 7 گنا زیادہ ہے۔ ان اعداد و ارقام سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حتی صحت کے مراکز بھی نسلی بنیادوں پر امتیازی رویوں کا شکار ہیں۔ امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں کووڈ 19 وبا کی زد میں آکر ہلاک ہونے والے سیاہ فام شہریوں کی تعداد سفید فام شہریوں سے چھ گنا زیادہ ہے جبکہ دیگر دو امریکی ریاستوں یعنی مچیگن اور میسوری میں یہ فرق پانچ گنا ہے۔ اسی طرح امریکی ریاست نیویارک جہاں سے کرونا وائرس پھیلنا شروع ہوا تھا میں سیاہ فام شہریوں کی ہلاکت تین گنا زیادہ ہے۔ ایلی نوئے اور لوئیزیانا میں بھی یہ فرقی تین گنا ہے۔

میناپولس سٹی پولیس کے ترجمان نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس سیاہ فام شہری پر جعلی دستاویزات تیار کرنے کا الزام تھا۔ جب پولیس اسے پکڑنے گئی تو اس نے آگے سے مزاحمت کی کوشش کی جس پر پولیس افسر نے اسے دبوچ لیا۔ کچھ دیر بعد پولیس افسر نے اچانک محسوس کیا کہ میڈیکل ایمرجنسی کی صورتحال ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کے پیش نظر واضح ہے کہ امریکی پولیس واقعے کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا ہے کہ چند امریکی ریاستوں میں احتجاجی مظاہرے شدت پسندی کا رخ اختیار کر چکے ہیں۔ میناپولس میں ایک پولیس اسٹیشن کو نذر آتش کرنے کی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں۔ مظاہرے میں شریک افراد نے ہاتھوں میں ایسے بینر اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا "میں سانس نہیں لے پا رہا"۔ یاد رہے 6 ماہ پہلے بھی امریکی پولیس نے ایک سیاہ فام شہری ایرک گارنر کو اسی انداز میں گلا دبا کر ہلاک کر دیا تھا۔ اتفاق سے اس واقعے کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں واضح طور پر سنا جا سکتا تھا کہ ایرک گارنر بار بار یہی جملہ دہرا رہا تھا "میں سانس نہیں لے پا رہا"۔

تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

عرب سوشل میڈیا پر ایک جھوٹی مہم چلائی گئی کہ دیر سعمان میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مزار کی بیحرمتی کی گئی ہے اور ان کی قبر تک کو اکھاڑ لیا گیا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا بوجوہ مسلم امہ میں بہت احترام کیا جاتا ہے، ان کے بعض اقدامات کی بہت ہی تحسین کی جاتی ہے۔ عرب سوشل میڈیا سے یہ غیر معروف انگریزی میڈیا میں داخل کی گئی، جہاں سے پاکستانی سوشل میڈیا ورکرز نے اٹھائی اور کل شام تک یہ کافی پھیل چکی تھی۔ جنگ میں بہت سے ناپسندیدہ اقدامات ہوتے ہیں اور سچ پوچھیں تو جنگ اسی لیے قابل نفرت ہے کہ اس میں کیے گئے اکثر اقدامات ناپسندیدہ ہی ہوتے ہیں۔ اس خبر کے ساتھ یہ لاحقہ لگانا ضروری خیال کیا گیا کہ یہ کام ایران کی پشت پناہی میں کام کرنے والی تنظیم نے کیا ہے۔

وطن عزیز کے فرقہ پرستوں نے عوام میں موجود حساسیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی کہ شیعوں نے یہ کیا ہے اور وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ کسی نے تحقیق کی نہ تو کوشش کی اور نہ ہی اسے ضروری خیال کیا، کیونکہ مدمقابل کے خلاف جھوٹ ثواب سمجھ کر پھیلایا جاتا ہے۔ ویسے افواہ کے ذریعے ایسے ایسے فوائد حاصل کیے جاتے ہیں، جو اصل واقعات سے بھی حاصل نہیں ہوتے۔ فرقہ واریت ایسا ہتھیار ہے، جو پچھلے کچھ عرصے سے خوارج اور ان کے سرپرست بہت زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ جب زمینی صورتحال ان کے خلاف جانے لگتی ہے تو کوئی ایسا پتہ کھیلتے ہیں، جس سے سادہ لوح مسلمان بہت جلدی متاثر ہو جاتے ہیں۔ شام کی عملی صورتحال یہ ہے کہ کرد علاقوں اور ترکی کے بارڈر کے کچھ علاقے کو چھوڑ کر سب اہم شہروں پر شامی افواج کا قبضہ ہوچکا ہے۔

سوفٹ وار کے طور پر حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مزار کی بے حرمتی  کے غیر تصدیق شدہ واقعہ کا سہارا لیا گیا، جس کی تصدیق نہیں ہوسکی، جو کسی معتبر سائیٹ پر نہیں آیا۔ کچھ لوگ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ خوارج ایسے شخص کی قبر کو گرائیں، جسے وہ بظاہر ہیرو سمجھتے ہوں؟ جی خوارج ہمیشہ سے ایسا کرتے آئے ہیں، زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ انہوں نے ایسی ہی ایک واردات پاکستان میں بھی کی تھی۔ محرم الحرام کا جلوس جب راجہ بازار پہنچا، وہاں موجود ایک مدرسے کو آگ لگا دی گئی۔ لوگوں کی اکثریت یہ سمجھ رہی تھی کہ جلوس والوں نے مخالف مسلک ہونے کی وجہ سے مدرسہ کو جلا دیا ہے۔ وطن عزیز کے سکیورٹی اداروں نے اس واقعہ پر دن رات کام کیا اور اس واقعہ میں ملوث اصل افراد کو گرفتار کر لیا۔ جب ان کی پریس کانفرنس سنائی گئی تو عجیب حقائق سامنے آئے کہ خارجی فکر کے لوگوں نے خود مدرسہ پر حملہ کیا، کئی لوگوں کو مارا کہ الزام مخالف مسلک پر لگا سکیں۔ اس سے پاکستان میں فرقہ واریت بڑھے گی، جس سے پاکستانی افواج ان کے خلاف پوری تندی سے آپریشنز نہ کرسکیں گی۔

ویسے تو یہ واقعہ سرے سے مشکوک ہے، اگر اس میں تھوڑی بہت صداقت بھی فرض کی جائے تو بھی یہ انہی خوارج کی کارروائی ہے، جو زمینی طور پر تو شکست کھا چکے ہیں، اب ایسے ہتھکڈوں کے ذریعے فرقہ واریت پھیلا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ شیعہ مزارات بنانے والے ہیں گرانے والے نہیں ہیں۔ تقریباً سو سال پہلے جس فکر نے اصحاب رسولﷺ اور خاندان پیغمبرﷺ کے مزارات پر بلڈوزر چلا دیئے تھے اور جو آج تک اس پر فخر کرتے ہیں، فقط وہی ایسے لوگ ہیں، جو دنیا میں کہیں بھی صحابہ، اہلبیتؑ اور اولیاء اللہ کے مزارات کے ساتھ یہ سلوک کریں۔ شام میں ہی حضرت حجر بن عدی بن حاتم کے مزار کو شہید کیا گیا اور قبر تک کو کھودا گیا، اسی طرح خاتم الانبیاء ﷺ کی نواسی کے مزار پر راکٹ حملوں سے لے کر خودکش حملے تک کیے گئے۔ یہ شام کی ریاستی پالیسی بھی نہیں ہے، کیونکہ بنو امیہ کے بڑوں کی قبریں دمشق میں موجود ہیں اور کسی نے انہیں نہیں گرایا۔

ویسے اس بار انہوں نے پروپیگنڈا کے لیے جس شخصیت کا انتخاب کیا ہے، اس میں ان سے چوک ہوگئی ہے۔ ان کے خیال میں شیعہ سب بنو امیہ کی آنکھیں بند کرکے مخالفت کرتے ہیں، اس لیے جب یہ تصاویر میڈیا پر جائیں گے تو فرقہ وارانہ بحث شروع ہو جائے گی۔ شیعہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ذکر ہمیشہ احترام سے کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے امیر المومنین حضرت علیؑ کے خلاف ریاستی سرپرستی میں منبروں سے جاری سب و شتم کے سلسلے کو بند کرا دیا اور حکم دیا کہ خطیب اس کی جگہ قرآن مجید کی یہ آیت پڑھا کریں: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاء ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ(سورۃ النحل:۹۰) "یقیناً اللہ عدل اور احسان اور قرابتداروں کو (ان کا حق) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے شاید تم نصیحت قبول کرو۔" اس سے محبین امام علیؑ کے دلوں کو ٹھنڈ پڑی اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دوسرا کام فدک بنی فاطمہؑ کو دینا تھا۔ امام محمد باقرؑ نے انہیں نجیب بنی امیہ خطاب کیا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ صرف مخالف مسلک کی مخالفت میں وہ بھی لوگ بھی مزار کی بے حرمتی پر رو رہے ہیں کہ رہے رب کا نام۔ ہم جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ جو سرے سے مزارات کے خلاف ہیں اور ہمیشہ ہم سے یہ بحث کرتے ہیں کہ ائمہ اہلبیتؑ اور دیگر اولیاء اللہ کے مزارات کو گرا دینا چاہیئے، قبر پر تعمیرات کو شرک و کفر گردانتے  ہیں، ان کی اسلام نے کسی صورت میں اجازت نہیں دی ہے۔ آج وہ لوگ بڑے دھڑلے سے حضرت عمر بن عبدالعزیز کا مزار گرانے پر مرثیہ خواں ہیں۔ ویسے سچ پوچھیں تو مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ مزارات بنانا، اولیاء اللہ کے ایام منانا اور ان کے ذکر کو عام کرنا عامۃ المسلمین میں رائج عمل ہے۔ یوم ولادت باسعادت خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ کی ولادت کا دن پوری امت بڑے شوق سے مناتی ہے، لگ یوں رہا ہے کہ سب اسی سمت بڑھ رہے ہیں۔

 

سورہ اعلی

بے شک پاکیزہ رہنے والا کامیاب ہوگیا

مصنف: محمد طاہرالقادري
دعا اور زيارات
زیارتِ قبور باعثِ اجر و ثواب عمل اور تذکیرِ آخرت کا اہم ذریعہ ہے۔ آئمہِ حدیث و تفسیر کا اس امر پر اتفاق ہے کہ تمام مسلمانوں کو خواہ مرد ہو یا عورت زیارتِ قبور کی اجازت ہے جبکہ بعض فقہاء کے نزدیک حسبِ استطاعت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ انور کی زیارت واحب کے درجہ میں داخل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرونِ اولیٰ سے اب تک اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنے والے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کرنے والے طبقات میں سے کسی نے درِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاضری کو اپنے لیے دنیوی و اخروی سعادت نہ سمجھا ہو۔ پوری تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کوئی شخص متدین ہو، مبلغ ہو اور مسلم ہو لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں جانے میں عار محسوس کرے۔ بلکہ ہر وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے دین کی سمجھ بوجھ دی، اسے علم کی دولت سے نوازا، اسے عقلِ سلیم اور قلبِ منیر سے فیضیاب فرمایا ہو اور وہ محبوبِ کبریا کی بارگاہِ اقدس میں جانے سے ہچکچائے۔ تاہم گزشتہ چند دھائیوں سے بعض لوگوں نے دین کی خود ساختہ تشریح و تعبیر کا بیڑا اٹھایا ہے اور وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اھل بیت کی قبورِ ، اولیاء وصالحین اور عامۃ الناس کی قبور کی زیارت کو بدعت، شرک اور ممنوع سمجھتے ہیں۔ حالانکہ زیارتِ قبور کے بارے میں ایسا عقیدہ قرآن وسنت کی تعلیمات کی رو سے صراحتاً غلط اور باطل ہے۔ اس ضمن میں بھی لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ زیارتِ قبور پر جانے والوں نے زیارت کے مقاصد بدل لیے اور عبرت کی بجائے سیر و تفریح کا ذریعہ بنا لیا تو مخالفین بھی اپنی حد سے ایک قدم آگے بڑھے اور انہوں نے جواز کو بوجوہ عدمِ جواز میں بدلا اور بعد ازاں اس عمل کو حرام اور شرک تک پہنچا دیا۔ دیگر مستحب اعمال کی طرح زیارتِ قبور کو بھی متنازعہ بنا دیا گیا اور نتیجتاً اس پر بھی بحث و مناظروں کا سلسلہ چل نکلا۔ دونوں طرف سے دلائل کے انبار لگ گئے اور کتب مرتب ہونا شروع ہو گئیں۔ چنانچہ اس وقت ’’توحید اور ردِ شرک‘‘ کے اہم موضوعات میں سے زیارتِ قبور بھی ایک مستقل موضوع بن گیا ہے۔ اس لیے ہم نے ضروری سمجھا کہ اس موضوع پر بھی قرآن و سنت کی روشنی میں اعتدال و توازن کی راہ پر چلتے ہوئے نفسِ مسئلہ کو سمجھا جائے۔ آئیے سب سے پہلے ہم زیارت کا معنی ومفہوم سمجھ لیں۔

1. زیارت کے لغوی معنی و مفہوم
عربی لغت میں ہر لفظ کا مادہ کم از کم سہ حرفی ہوتا ہے جس سے باقی الفاظ مشتق اور اخذ ہوتے ہیں۔ عربی لغت کے اعتبار سے زیارت کا معنی دیکھیں تو یہ لفظزَارَ، يَزُوْرُ، زَورًا سے بنا ہے۔ جس کے اندر ملنے، دیکھنے، نمایاں ہونے، رغبت اور جھکاؤ کے معانی پائے جاتے ہیں۔ جب کوئی شخص کسی ایک جگہ سے دوسری جگہ کسی کی ملاقات کے لئے جائے تو اس میں اس شخص یا مقام کی طرف رغبت، رحجان اور جھکاؤ بھی پایا جاتا ہے اور بوقت ملاقات رؤیت بھی ہوتی ہے اس لئے اس عمل کو زیارت بھی کہا جاتا ہے۔ آئمہِ لغت نے زَور کے درج ذیل معانی بیان کئے ہیں :
1. زَارَ، يَزُوْرُ، زَوْرًا، أي لَقِيَهُ بِزَوْرِهِ، أوْ قَصَدَ زَوْرَهُ أي وِجْهَتَهُ.
’’زَار َیزُوْرُ زَوْرًا کا معنی ہے : اس نے فلاں شخص سے ملاقات کی یا فلاں کی طرف جانے کا ارادہ کیا۔‘‘
زبيدي، تاج العروس، 6 : 477
2. زَارَ يَزُوْرُ زِيَارَة وَ زَوْرًا وَ زُوَارًا و زُوَارَةً وَمَزَارًا أتاهُ بِقَصْدِ اللقاء وُهُو مأخوذ من الزَوْرِ للصدر أو المَيْل.
’’زیارت کا معنی ہے کسی سے ملنے کے لئے آنا۔ یہ لفظ زَور سے نکلا ہے جس کا معنی ہے سینہ کی ہڈیوں کی ملنے کی جگہ یا میلان، رحجان اور رغبت۔‘‘
بطرس بستانی، محيط المحيط : 384
3۔ ’’محیط المحیط (ص : 384)‘‘ میں زیارت کا معنی یوں بھی لکھا ہے :
الزِّيارة مصدر و إسم بمعني الذهاب إلي مکان للاجتماع بأهله کزيارة الأحبة وللتبرّک بما فيه من الآثار کزيارة الأماکن.
’’لفظ زیارۃ مصدر بھی ہے اور اسم بھی۔ جس کا معنی کسی جگہ اہالیان سے ملنے کے لئے جانا جیسے دوست احباب کی ملاقات یا دوسرا معنی کسی جگہ موجود آثار سے حصول برکت کے لئے جانا جیسے مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کے لئے جانا۔‘‘
4. لغت کی معروف کتاب ’’المصباح المنیر‘‘ میں لکھا ہے :
والزِّيارة في العرف قصد المزور! کرامًا له واستئناسا به.
’’عرفِ عام میں زیارت سے مراد کسی شخص کے ادب و احترام اور اس سے محبت کی بناء پر اس کی ملاقات کے لئے جانا۔‘‘
فيومي، المصباح المنير في غريب شرح الکبير للرافعي، 1 : 260
اسی سے مَزَار ہے۔ جس کا معنی ہے وہ جگہ جس کی زیارت کی جائے۔ ابنِ منظور افریقی لکھتے ہیں :
وَالمَزَارُ موضع الزيارة.
’’مزار سے مراد زیارت کرنے کا مقام ہے۔‘‘
ابن منظور إفريقي، لسان العرب، 4 : 333
اسی سے زَائِر بھی ہے جس کا معنی ہے : زیارت کے لئے جانے والا شخص یا ملاقاتی۔

زیارت کا شرعی معنی و مفہوم
قرآن و حدیث کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ بعض ذواتِ عالیہ اور مقاماتِ مطہرہ کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی نعمت و رحمت سے نوازا ہے اور اِن کو دیگر مخلوق پر ترجیح دی ہے۔ ان بابرکت ذوات اور اماکنِ مقدسہ پر حاضری کیلئے جانا مشروع، مسنون، مندوب اور مستحب عمل ہے، عرفِ عام میں اسی کو ’’زیارت‘‘ کہا جاتا ہے۔
Saturday, 23 May 2020 10:40

دعائے رویت ہلال

ماخوذ ازکتاب "صحیفہ کاملہ سجادیه"

اَیُّہَا الْخَلْقُ الْمَطِیْعُ الدَّائِبُ السَّرِیْعُ الْمُتَرَدِّدُ فِیْ مَنَازِلِ التَّقْدِیْرِ الْمُتَصَرِّفُ فِیْ فَلَکِ التَّدْبِیْرِ اٰمَنْتُ بِمَنْ نَوَّ رَبِّکَ الظُّلَمَ وَ اَوْضَحَبِکَ الْبُہَمَ وَ جَعَلَکَ اٰیَةً مِّنْ اٰیَاتِ مُلْکِہ وَ عَلاَمَةً مِنْ عَلاَمَاتِ سُلْطَانِہ وَامْتَہَنَکَ بِالزِّیَادَةِ وَالنُّقْصَانِ وَ الطُّلُوْعِ وَ الْاُفُوْلِ وَ الْاِنَارَةِ وَ الْکُسُوْفِ فِیْ کُلِّ ذٰلِکَ اَنْتَ لَہ مُطِیْعٌ وَ اِلٰی اِرَادَتِہ سَرِیْعٌ سُیْحَانَہ مَآ اَعْجَبَ مَا دَبَّرَ فِیْ اَمْرِکَ وَ اَلْطَفَ مَا صَنَعَ فِیْ شَانِکَ جَعَلَکَ مِفْتَاحَ شَہْرٍ حَادِثٍ لِاَمْرٍ حَادِثٍ فَاَسْئَلُ اللهَ رَبِّیْ وَ رَبَّکَ وَ خَالِقِیْ وَ خَالِقَکَ وَ مُقَدِّرِیْ وَ مُقَدِّرَکَ وَ مُصَوِّرِیْ وَ مُصَوِّرَکَ اَنْ یُصَلِّیَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ اٰلِہ وَ اَنْ یَّجْعَلَکَ ہِلاَلَ بَرَکَةٍ لاَ تَمْحَقُہَا الْاَیَّامُ وَ طَہَارَةٍ لاَ تُدَلِّسُہَا الْاٰثَامِ ہِلاَلَ اَمْنٍ مِنَ الْاٰفَاتِ وَ سَلاَمَةٍ مِّنَ السَّیِّئٰافِ ہِلاَلَ سَعْدٍ لاَ نَحْسٍ فِیْہِ وَ یُمْنٍ لاَ نَکَدَ مَعَہ وَ یُسْرٍ لاَ یُمَازِجُہ عُسْرٍ وَ خَیْرِ لاَ یَشُوْبُہ شَرٌّہِلاَلَ اَمْنٍ وَ اِیْمَانٍ وَ نِعْمَةٍ وَ اِحْسَانٍ وَ سَلاَمَةٍ وَ اِسْلاَمٍ اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ اٰلِہ وَ اجئعَلْنَا مِنْ اَرْضٰی مَنْ طَلَعَ عَلَیْہِ وَ اضزْکٰی مَنْ نَظَرَ اِلَیْہِ وَ اَسْعَدَ مَنْ تَعَبَّدَ لضکَ فِیْہِ وَ وَفِّقْنَا فِیْہِ لِلتَّوْبَةِ وَاعْصِمْنَا فِیْہِ مِنَ الْحَوْبَةِ وَاحْفَظْنَا مِنْ مُبَاشَرَةِ مَعْصِیَتِکَ وَ اَوْزِعْنَا فِیْہِ شُکْرَ نِعْمَتِکَ وَ اَلْبِسئنَا فِیْہِ جُنَنَ الْعَافِیَةِ وَ اَتْمِمْ عَلَیْنَا بِاسْتِکْمَالِ طَاعَتِکَ فِیْہِ الْمِنَّةِ اِنَّکَ الْمَنَّانُ الْحَمِیْدُ۔ وَ صَلَّی اللهُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ اٰلِہ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاہِرِیْنَ۔

دعائے رویت ہلال
اے فرما نبردار، سرگرم عمل اورتیرز ومخلوق اور مقررہ منزلوں میں یکے بعد دیگرے واردہونے اورفلک نظم وتدبیر میں تصرف کرنے والے میں اس ذات پر ایمان لایا جس نے تیرے ذریعہ تاریکیوں کو روشن اور ڈھلی چھپی چیزوں کو آشکارا کیا اور تجھے اپنے شاہی وفرمانروائی کی نشانیوں میں ایک نشانی اوراپنے غلبہ واقتدار کی علامتوں میں سے ایک علامت قرار دیا اور تجھے بڑھنے گھٹنے نکلنے چھپنے او رچمکنے گہنانے سے تسخیر کیا۔ ان تمام حالات میں تو اس کے زیر فرمان اوراس کے ارادہ کی جانب رواں دواں ہے تیرے بارے میں اس کی تدبیر وکارسازی کتنی عجیب اورتیری نسبت اس کی صناعی کتنی لطیف ہے تجھے پیش آیندہ حالات کے لیے نئے مہینہ کی کلید قراردیا، تو اب میں اللہ تعالی سے جو میرا پروردگار اور تیرا پروردگار میر اخالق اور تیرا خالق ۔ میرا نفش آرا اورتیرا نقس آرا ، اور میرا صورت گر اورتیرا صورت گر ہے سوال کرتا ہوں کہ وہ رحمت نازل کرے محمد اوعر ان کی آل پر اورتجھے ایسی برکت والا چاند قرار دے ، جسے دنوں کی گردشیں زائل نہ کر سکیں اور ایسی پاکیزگی والا جسے گناہ کی کثافتیں آلودہ نہ کر سکیں ۔ ایسا چاند جو آفتوں سے بری او ربرائیوں سے محفوظ ہو سر سر یمن وسعادت کا چاند جسے تنگی وعسرت سے کوئی لگاؤ ہو اور ایسی آسانی وکشائش کا جس میں دشواری کی آمیزش نہ ہو اورایسی بھلائی کا جس میں برائی کا شائبہ نہ ہو،غرض سرتاپا امن ایمان ، نعمت ، حسن عمل ، سلامتی اوراطاعت وفرمانبرداری کا چاند ہو۔ اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اورجن جن پر اپنا پر تو ڈالے ان سے بڑھ کر ہمیں خوشنود ، اور جو جو اسے دیکھے ان سب سے زیادہ درست کا ر اور جو جو اس مہینہ میں تیری عبادت کرے ان سب سے زیادہ خوش نصیب قرار دے او ر ہمیں اس میں توبہ کی توفیق دے اور گناہوں سے دور اورمعصیت کے ارتکاب سے محفوظ رکھ ۔اور ہمارے دل میں اپنی نعمتوں پر ادائے شکر کا ولولہ پیدا کر اور ہمیں امن وعافیت کی سپر میں ڈھانپ لے او راس طرح ہم پر اپنی نعمت کو تمام کر کہ تیرے فرائض اطاعت کو پورے طور سے انجام دیں ۔ بیشک تو نعمتوں کا بخشنے والا اور قابل ستائش ہے رحمت فراواں نازل کرے اللہ محمد او ران کی پاک وپاکیزہ آل پر ۔
 

 پاکستان سے شائع ہونے والے روزنامہ جنگ نے یہ شہ سرخی لگائی ہے: ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ صیہونی حکومت سے لڑنے والے ہر ملک اور گروہ کی مدد کریں گے۔

یوم القدس پر پیغام میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ ریفرنڈم کا حق ملنے تک فلسطینیوں کی سیاسی، فوجی اور ثقافتی جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔

سپریم لیڈر کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو جیسوں کو نکالنا اسرائیل کو ختم کرنے کے مترادف ہے جو ہو کر رہے گا، صیہونی حکومت نے ثابت کیا ہے وہ کسی معاہدے اور منطق پرنہیں چلتی۔

روزنامہ ڈان کی شہ سرخی: ایران، اسرائیل کے خلاف لڑائی کرنے والی قوم کا ساتھ دے گا، آیت اللہ خامنہ ای

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ ایران کسی بھی ایسی قوم کی حمایت کرے گا جو اسرائیل کی صیہونی حکومت کی مخالفت اور اس کے خلاف لڑائی کرے گی۔

یوم القدس کے موقع پر خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم کے لیے سیاسی، فوجی اور ثقافت پر مشتمل جامع جدوجہد جاری رکھیں جب تک غاصب (اسرائیل) فلسطینی قوم کے لیے رائے شماری پر آمادہ نہ ہوجائے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ فلسطینی قوم کو طے کرنا چاہیے کہ وہ کون سے سیاسی نظام کے خواہاں ہیں اور پھر مقصد کے حصول تک جدوجہد جاری رکھیں۔

علاوہ ازیں انہوں نے فلسطین کی آزادی کے لیے گائیڈ لائنز بھی پیش کیں جس میں جدوجہد جاری رکھنے اور مغربی طاقتوں کے اوپرانحصار ختم کرنے پر زور دیا گیا۔

سچ ٹیوی ویب سائٹ کی شہ سرخی: مسئلہ فلسطین دنیائے اسلام کا اہم اور ناقابل فراموش مسئلہ ہے: آیت اللہ خامنہ ای

عالمی یوم القدس کے موقع پر دنیا بھر کے عوام سےبراہ راست خطاب میں سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ کا کہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین ناقابل فراموش مسئلہ ہے۔ فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی جرائم میں مغربی ممالک برابر کے شریک ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک نے اسرائیل کو ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح کیا، انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد مسئلہ فلسطین ایک نئےمرحلے میں داخل ہوگیاہے،امت مسلمہ نے یوم قدس کا شانداراستقبال کرکے فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔

سپریم لیڈر ایران کا کہنا تھا کہ فلسطین جیسے عظیم اور با عظمت مسئلہ کو مسلمانوں کی عزت اورغیرت فراموش کرنے کی اجازت نہیں دےگی اور مسلمان مسئلہ فلسطین کے بارے میں پہلے کی نسبت کہیں زیادہ آگاہ اور ہوشیار ہیں۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا امریکہ اور خطے میں موجود اس کے اتحادی کتنا بھی پیسہ کیوں نہ خرچ کریں وہ فلسطین کے بارے میں اپنے شوم منصوبوں میں ناکام ہوجائیں گے اوراسرائیلی وائرس کا علاقے کےمؤمن جوانوں کی ہمت سے خاتمہ ہوجائے گا۔

فلسطینی مزاحمتی تحریک جہاد اسلامی فی فلسطین کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ نے عرب نیوز چینل المیادین کے ساتھ گفتگو کے دوران عالمی یوم فلسطین کو امتِ مسلمہ کی تاریخ میں ایک انتہائی اہم موڑ قرار دیا ہے۔ جہاد اسلامی فی فلسطین کے سیکرٹری جنرل نے اپنے انٹرویو میں اس بات پر تاکید کی ہے کہ عالمی یوم فلسطین کے حوالے سے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے بیانات کی اہمیت خود یوم القدس سے کسی طور کم نہیں۔

جہاد اسلامی فی فلسطین کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ نے آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے بیانات کو اہم اور تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کی طرف سے عالمی یوم القدس کے اعلان کے ساتھ ساتھ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا موقف بھی اسلامی تاریخ میں سنہرے حروف کے ساتھ لکھا جائے گا۔ زیاد النخالہ نے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کے آج کے خطاب کو بھی مزاحمتی محاذ کے لئے انتہائی حوصلہ افزاء اور اطمینان بخش قرار دیا اور کہا کہ ہمارا ہدف قدس کی آزادی ہے جبکہ ہم خدا پر اپنے تمام بھروسے کے ساتھ روز بروز اس کے نزدیک سے نزدیک تر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے انٹرویو کے آخر میں کہا کہ خطے میں موجود متحدہ مزاحمتی محاذ نے واضح طور پر یہ پیغام دے دیا ہے کہ آج وہ پہلے کسی بھی زمانے سے بڑھ کر طاقتور ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عالمی یوم فلسطین کے حوالے سے قومی ٹیلیویژن پر براہ راست خطاب میں عالم اسلام کو عید سعید فطر کی پیشگی مبارکباد پیش کرتے ہوئے مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے امتِ مسلمہ کو انتہائی اہم 7 نصیحتیں کی ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فورا بعد امام خمینیؒ کی جانب سے عالمی یوم فلسطین کے اعلان کو فلسطین کی آزادی کے رستے میں کھلنے والا ایک نیا باب اور خطے میں طاقت کے توازن کو فلسطینی مجاہدین کے حق میں پلٹا دینے والا نیا محاذ قرار دیا۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے امتِ مسلمہ کو 7 نکات پر مشتمل اپنے اہم نصائح بیان کرتے ہوئے تاکید کی کہ ان کی اصلی ترین نصیحت، جدوجہد کا جاری رکھا جانا اور جہاد کی قلمرو کا تمام فلسطینی سرزمینوں تک پھیلا دیا جانا ہے جبکہ بیشک جوانوں کی ہمت، ایمان اور غیرت کے ذریعے اس خطے سے صیہونی وائرس کا وجود عنقریب ہی ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے امام خمینیؒ کی جانب سے عالمی یوم قدس کے اعلان کو سب مسلمانوں کے لئے اتحاد اور قدس شریف و مظلوم فلسطین کے لئے مل کر آواز بلند کرنے کا ذریعہ قرار دیا اور اس حوالے سے اقوام عالم کی طرف سے عالمی یوم فلسطین کے خیرمقدم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی استکباری طاقتوں اور صیہونزم کی اصلی سیاست اسلامی معاشروں کی اجتماعی سوچ میں مسئلۂ فلسطین کو غیر اہم بنا کر آہستہ آہستہ بھلا دیا جانا ہے لہذا (مسلم معاشروں کی) فوری ذمہ داری اس خیانت کے ساتھ مقابلہ ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ مسلم اقوام کی مسلسل بڑھتی غیرت، خوداعتمادی اور ذہانت مسئلۂ فلسطین کو ہرگز فراموش نہیں ہونے دے گی۔ انہوں نے فلسطینی مملکت کے غصب اور اس کی جگہ انواع و اقسام کی فجیع ترین قتل و غارت اور دوسرے جرائم کے ذریعے صیہونی ناسور کی تشکیل اور پھر دسیوں سالوں تک ان جرائم کے جاری رکھے جانے کو انسان کی درندگی اور شیطان پرستی کا ایک نیا ریکارڈ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس انسانی المیے کے اصلی ترین محرک اور ذمہ دار مغربی ممالک اور ان کی شیطانی سیاست ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی حکومتوں اور وہاں کی یہودی کمپنیوں کی جانب سے اس خطے کے اندر صیہونی حکومت کی تشکیل اور اس کو انواع و اقسام کے، حتی ایٹمی اسلحے کے ساتھ لیس کرنے کا اصلی مقصد خطے کے اندر ایک مستقل اڈہ قائم کرنا اور خطے کے ممالک میں مداخلت اور ان پر حکمرانی کا ایک رستہ کھولنا تھا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکثر عرب حکومتیں اپنی ابتدائی مزاحمت کے بعد نہ صرف بتدریج گھٹنے ٹیک چکی ہیں اور اپنی انسانی، اسلامی و سیاسی ذمہ داری اور عربی غیرت و حمیت کو بھلا چکی ہیں بلکہ دشمن کے مقصد میں اس کی مددگار بھی بن چکی ہیں۔

مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے رہبر انقلاب اسلامی کی پہلی نصیحت "مسئلۂ فلسطین کو صرف فلسطینی یا زیادہ سے زیادہ عربی مسئلہ قرار دے کر محدود نہ کیا جانا" ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد پہلے تو جہاد فی سبیل اللہ اور اسلامی فریضہ ہے اور دوسرے ایک انسانی مسئلہ بھی ہے جبکہ وہ لوگ جو کچھ فلسطینی باشندوں کی طرف سے چند ایک عرب حکام کے ساتھ مل بیٹھنے کو اس عظیم اسلامی و انسانی مسئلے سے گزر جانے کا جواز سمجھتے ہیں، نہ صرف اس مسئلے کی سمجھ بوجھ میں شدید غلطی پر ہیں بلکہ (مسئلۂ فلسطین کے ساتھ) خیانت کے مرتکب بھی ہو رہے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے اہنی دوسری نصیحت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس جدوجہد کا ہدف بحر تا نہر (بحیرہ روم سے دریائے اردن تک کی) تمام فلسطینی سرزمین کی آزادی اور تمام فلسطینی باشندوں کی اپنے گھروں کو واپسی ہے لہذا اس عظیم جدوجہد کے مقصد کو صرف فلسطینی حکومت کا قیام قرار دینا اور وہ بھی فلسطینی سرزمین کے صرف ایک کونے میں، نہ حق پرستی کی علامت ہے اور نہ ہی حقیقت پسندی کی۔ انہوں نے کہا کہ آج کروڑوں فلسطینی مسلمان ایسے فکری و تجرباتی مراحل تک پہنچ چکے ہیں کہ جن کے باعث وہ کسی بھی وقت اس عظیم جہاد پر اپنی کمر ہمت باندھ سکتے ہیں جبکہ اللہ تعالی کی نصرت کے ذریعے حتما انہیں ہی آخری فتح نصیب ہو گی۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے امتِ مسلمہ کو اپنی تیسری نصیحت میں اس عظیم و مقدس جہاد کے دوران غیور و دیندار مسلم معاشرے کی طرف سے اللہ تعالی پر توکل، اپنی اندرونی قوت و اپنے زورِ بازو پر تکیہ اور ظالم مغربی حکومتوں، معاشروں اور خطے کی بعض مغربی کاسہ لیس بےغیرت حکومتوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے پرہیز پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج کرونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کے محدود اعداد و شمار کو پوری دنیا بار بار گن رہی ہے لیکن کیوں کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ ان ممالک کے لاکھوں شہداء، قیدیوں اور گمشدہ لوگوں کا ذمہ دار کون ہے جن میں امریکہ و یورپ نے جنگ کی آگ بھڑکا رکھی ہے؟ کیوں آج دنیا یہ نہیں پوچھتی کہ فلسطین میں اس قدر وسیع پیمانے پر ہونے والے غصب، تخریبکاری اور ظلم و ستم کا ذمہ دار کون ہے؟

امام خامنہ ای نے اپنی چوتھی نصیحت میں عالم اسلام کی اہم سیاسی و عسکری شخصیات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی و صیہونی سیاست کا ہدف جنگ کو مزاحمتی محاذ کے پیچھے منتقل کرنا اور مزاحمتی محاذ کو مصروف رکھنے کے لئے خانہ جنگی کی آگ بھڑکانا ہے تاکہ غاصب صیہونی رژیم کو مزید فرصت مل جائے؛ بالکل وہی کام جو انہوں نے شام، یمن اور عراق کے اندر داعش کو بنا کر انجام دیا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ اس گھناؤنی سیاست سے مقابلے کا رستہ اسلامی دنیا کے اندر جوانوں کے مطالبے میں سنجیدگی اور امام خمینیؒ کے اس عظیم فرمان میں موجود ہے کہ آپ کو جتنا للکارنا ہے، امریکہ کو للکاریئے! البتہ غاصب صیہونی دشمن کو بھی للکاریئے!

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنی پانچویں نصیحت میں خطے کے اندر موجود امریکی پٹھوؤں کی طرف سے صیہونی رژیم کے ساتھ معمول کے دوستانہ تعلقات استوار کئے جانے اور غاصب صیہونی رژیم کو ایک واقعیت قرار دے کر قبول کروائے جانے کی گھناؤنی امریکی سیاست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں چاہئے کہ مہلک اور ضرر رساں واقعیت کا مقابلہ کریں اور بالکل ایسے ہی جیسے آج باشعور لوگ کرونا وائرس کے ساتھ مقابلہ ضروری گردانتے ہیں قدیم صیہونی وائرس کے ساتھ مقابلہ بھی انتہائی ضروری ہے جبکہ جوانوں کی ہمت، ایمان اور غیرت کے ذریعے خطے سے اس مہلک (صیہونی) وائرس کی جڑیں اکھڑنے میں ذرہ برابر دیر نہیں لگے گی۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے امتِ مسلمہ کو پیش کی جانے والی اپنی نصیحتوں میں جدوجہد کے جاری رکھے جانے اور جہادی قلمرو میں توسیع پر مبنی اپنی چھٹی نصیحت کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنی نصیحت میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اس مقدس جہاد میں سب مل کر فلسطینیوں کو مدد پہنچائیں جبکہ ایران اس رستے میں ہر وہ کام فخر کے ساتھ انجام دے گا جس پر وہ طاقت رکھتا ہو گا، کہا کہ اس حوالے سے ایک روز مشخص ہو گیا کہ فلسطینی مجاہدین کے پاس دین، غیرت اور شجاعت تو موجود ہے لیکن ہتھیار نہیں، لہذا اللہ تعالی کی مدد کے ساتھ اس سلسلے میں منصوبہ بندی کی گئی جس کے باعث فلسطین کے اندر موجود عسکری توازن میں خاطرخواہ تبدیلی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج غزہ اپنے صیہونی دشمن کی کسی بھی عسکری جارحیت کا آسانی کے ساتھ مقابلہ کر کے اس پر فتح حاصل کر سکتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ فلسطین کے اندر عسکری قوت میں آنے والی یہ تبدیلی مسئلۂ فلسطین کو عنقریب ہی اپنے آخری مراحل میں داخل کر دے گی جبکہ اس حوالے سے فلسطینی حکومت کے کاندھوں پر انتہائی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کہا کہ وحشی دشمن کے ساتھ طاقت اور مضبوط پوزیشن کے علاوہ کسی زبان میں بات نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ بحمدللہ بہادر اور ڈٹ جانے والی فلسطینی قوم کے اندر اس طاقت کا بھرپور زمینہ موجود ہے جبکہ آج فلسطینی جوان اپنی عزت کا دفاع کرنے کے لئے بےچین ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ فلسطین میں حماس و جہاد اسلامی اور لبنان میں حزب اللہ نے سب پر حجت تمام کر دی ہے جبکہ دنیا مجرم صیہونی فوج کا حزب اللہ کی کاری ضربوں کے سائے میں جنوبی لبنان سے عقب نشینی پر مجبور ہو جانا کبھی نہیں بھولے گی درحالیکہ وہ سیز فائر کے لئے التماس کر رہی تھی؛ یہی ہے وہ بھرپور وار اور طاقتور موقف۔

رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے امتِ مسلمہ کے نام اپنی ساتویں نصحیت میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ فلسطین تمام فلسطینیوں کا ہے اور اسے انہی کی مرضی سے چلایا جانا چاہئے، اسلامی جمہوری ایران کی طرف سے پیش کردہ تمام مذاہب پر مبنی ریفرنڈم کے راہ حل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حل ظاہر کرتا ہے کہ مغربی میڈیا کی طرف سے کیا جانے والا یہودی دشمنی پر مبنی دعوی بالکل بےبنیاد ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخر میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ وہ فریق جس کو اپنی بساط سمیٹنا ہے قطعی طور پر غاصب صیہونی نظام و صیہونزم ہے، شیخ احمد یسین، فتحی شقاقی، سید عباس موسوی سے لے کر مزاحمتی محاذ کے عظیم سپہ سالار شہید جنرل قاسم سلیمانی اور عظیم شہید ابومہدی المہندس سمیت قدس شریف کے تمام شہداء کو خراج تحسین پیش کیا۔

اداریہ
رہبر انقلاب اسلامی نے یوم القدس کی مناسبت سے اپنے تاریخی خطاب میں سات بنیادی نکات کو اٹھایا ہے۔ اس خطاب کی اہمیت و افادیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ 1979ء میں یوم القدس کے اعلان سے لیکر آج تک نہ کبھی امام خمینیؒ نے یوم القدس کے دن خطاب کیا اور نہ ہی رہبر انقلاب اسلامی نے۔ ایران سمیت دنیا کے کئی نشریاتی اداروں نے حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے یوم القدس کے دن آن لائن خطاب کو براہ راست نشر کیا۔ اس خطاب نے یوم القدس اور مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کرونا وائرس کی وجہ سے یوم القدس کے اجتماعات نہ ہونے پر خوشیاں منا رہی تھی، لیکن رہبر انقلاب اسلامی نے اُن کی خوشیوں کو ماتم میں تبدیل کر دیا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس خطاب میں مسئلہ فلسطین کے ماضی، حال اور مستقبل کا تجزیاتی جائزہ پیش کرکے اس مسئلے کے حل کے لیے نہ صرف اس کا متوازن اور عالمی معیارات پر پورا اترنے والا حل پیش کیا ہے، بلکہ فلسطین اور فلسطینی کاز سے جڑے حریت پسندوں کو یہ امید بھی دلا دی کہ ظلم و کفر نے بالآخر ختم ہونا ہے اور مظلوم و محروم طبقے کو کامیابیاں نصیب ہونگی اور اسرائیل نے بالآخر اپنی موت مرنا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے سات نکات میں سب سے زیادہ اہمیت اس مسئلے کو دی کہ فلسطین کو ہمیشہ سب سے اہم اور سب سے ترجیحی مسئلہ سمجھنا چاہیئے، قبلہ اول اور مقبوضہ فلسطین عالم اسلام کو نمبر ون مسئلہ ہے۔

جبکہ اسرائیل اور اس کے مغربی حامی اس بات کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں کہ اس مسئلے سے عالم اسلام اور عالمی برادری کی توجہ ہٹ جائے۔ اس وقت خطے میں امریکی اور صیہونی لابی کی طرف سے جو بھی کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس کا بنیادی ہدف اسرائیل کا تحفظ اور مسئلہ فلسطین سے امت مسلمہ اور خطے کی توجہ ہٹانا ہے۔ بہرحال رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے خطاب کے ایک ایک نکتہ پر توجہ دینے اور اس کی تفصیلات سے رائے عامہ کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ خوش قسمت ہے یہ دور جس میں آج دنیا نے ایک ایسا خطاب سنا جسے سننے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ اس زمانے میں موجود تھا، جس میں ایک مرد الہٰی نے صدائے حق بلند کی تھی۔