سلیمانی

سلیمانی

تحریر: اشرف سراج گلتری

علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سے والہانہ عقیدت و محبت محض اس لیے نہیں تھی کہ آپ سلام اللہ علیہا رسول خدا کی بیٹی تھیں۔ علامہ اقبال کے نزدیک حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا مقام ان تین عظیم نسبتوں کی وجہ سے تھا، جن کو اللہ تعالیٰ نے آیہ مباہلہ میں بیان فرمایا ہے: "فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ" ان سے کہہ دیجیے کہ آؤ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنی جانوں کو اور تمہاری جانوں کو (مقابلے میں) بلا لیتے ہیں، پھر مباہلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالتے ہیں۔*۱* جب پنجتن پاک چادر تطہیر کے نیچے جمع ہوئے تھے، اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے جناب سیدہ کی ذات کو محور قرار دے کر پنجتن پاک کا تعارف انہی تین نسبتوں کے ساتھ جبرائیل کے لئے پیش کیا تھا: "هُمْ فاطِمَةُ وَاَبُوها وَبَعْلُها وَبَنُوھا"*۲*

علامہ اقبال وہ عظیم دانشور ہیں کہ جس نے حضرت فاطمہ زہرا کی ان تین نسبتوں کی عظمت اور راز کو بڑی حد تک درک کیا۔ اسی لیے علامہ اقبال اپنی زندگی میں پنجتن پاک سے متمسک رہے اور اپنی کامیابی کے لئے انہی ہستیوں کو وسیلہ بناتے رہے، جیسے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کیمپس میں یوم اقبال کے دن یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اپنی تقریر میں علامہ اقبال کے اس قول کو نقل کیا تھا کہ "میں نے پنجتن پاک کے صدقے میں ہی یہ مقام حاصل کیا ہے، اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے ایک کروڑ مرتبہ محمدؐ و آل محمؐد پر درود بھیجا ہے، پھر جا کر مجھے یہ مقام نصیب ہوا ہے۔" *۳* اس پروگرام میں علامہ اقبال کے فرزند جناب جسٹس جاوید اقبال اور بیٹی جناب جسٹس فاطمہ اقبال دونوں مدعو تھے، جنہوں نے اس قول کی صداقت کی گواہی بھی دی۔ اس پروگرام میں بندہ حقیر کے علاوہ جامعۃ الکوثر کے دیگر طالب علم بھی موجود تھے۔

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال مقام حضرت زہراء کو نہ فقط سمجھتے تھے بلکہ انہی کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے امت مسلمہ کو بیدار کیا اور حریت فکر کا درس بھی دیا۔ علامہ اقبال نے حضرت سیدہ کے مقام کو پہچنوانے کے لیے پہلے حضرت مریم کے مقام کو سمجھایا ہے کہ مریم ایک نبی کی ماں ہونے کے ناتے بلند و بالا مقام رکھتی ہیں اور دنیا کی کامل ترین عورتوں میں سے ایک ہیں۔ جیسے رسول خدا ؐسے ایک حدیث مبارکہ نقل ہوئی ہے، جس میں آپؐ نے فرمایا ہے کہ دنیا میں کامل ہونے والے مرد بہت تھے، لیکن عورتیں صرف چار کامل ہیں" *۴* پھر علامہ اقبال امت مسلمہ کو حضرت فاطمہ زہراء کے مقام کو سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے مسلمانو ! اگر تمہیں حضرت مریم کے مقام کا علم ہے، تو پھر مقام فاطمہ کو سمجھو، فاطمہ وہ ہے کہ جس کے مقام پر جناب مریم بھی فخر کرتی ہیں۔
مریم از یک نسبت عیسیٰ عزیز
از سہ نسبت حضرت زہراء عزیز
حضرت مریم، حضرت عیسیٰ سے صرف ایک نسبت رکھتی ہیں، اس وجہ سے بہت عظیم قرار پائیں، جبکہ حضرت فاطمہ کے پاس ایسی تین عظیم نسبتیں موجود ہیں۔

پہلی نسبت، پیامبر کی بیٹی ہونا
نور چشم رحمۃ اللعالمین
آن امام اولین و آخرین
جناب رسول خدا کی ذات گرامی قدر عالم میں موجود تمام مخلوقات میں سے افضل ترین ذات ہے اور حدیث قدسی کی رو سے وجہ تخلیق کائنات آپ کی ذات گرامی قدر ہی قرار پائی ہے۔ علامہ اقبال حضرت محمد مصطفیٰ کے مقام کے ذریعے سے 
حضرت فاطمہ کی عظمت کو سمجھاتے ہیں، کیونکہ حضرت فاطمہ خود رسول خدا کے ساتھ بھی بہت سی نسبتیں رکھتی تھیں۔ جیسے بیٹی ہونے کے ناتے رحمۃ اللعالمین کے لئے رحمت تھیں اور خود رسول اکرم کے فرمان کے مطابق "فاطمۃ ام ابیہا" *۵* یعنی ماں جیسی شفیق و مھربان بھی تھیں اور علامہ اقبال "فاطمۃ بضعۃ منی۔۔۔" *۶* کے راز کو بھی جانتے تھے کہ حضرت فاطمہ پیغمبر اکرم کے لئے صرف بیٹی نہیں تھیں بلکہ رسول خدا کی روح اور بدن کا حصہ بھی تھیں۔

دوسری نسبت، زوجہ امام علی ہونا
بانوی آن تاجدار ھل اتیٰ
مرتضیٰ مشکل کشا شیر خدا
یہاں پر ھل اتیٰ سے مراد حضرت امام علی ہیں۔ علامہ اقبال بھی دیگر بعض سنی اور تمام شیعہ علماء کی طرح سورہ دھر کا سبب نزول جناب امام علیؑ کی ذات کو قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبال نے یہاں پر حضرت امام علیؑ کے مقام کو سمجھانے کے بعد حضرت فاطمہ زہراء کے مقام کو سمجھانے کی کوشش کی ہے، کیونکہ علامہ اقبال کی نگاہوں میں رسول خدا کا یہ فرمان بھی موجود تھا، جس میں رسول خدا فرماتے ہیں "اگر علی ؑنہ ہوتے تو آدم سے لے کر قیامت تک  فاطمہ کا کوئی کفو(ہمسر) نہ ملتا۔" *۷* 

تیسری نسبت، حسنین کی ماں ہونا
مادر آن مرکز پرکار عشق
مادر آن کاروان ںسالار عشق
آن یکی شمعِ شبستان ِحرم
حضرت فاطمہ زہراء امت مسلمہ کے دو عظیم اماموں کی ماں ہیں، جن کی شان میں جناب رسول خدا فرماتے ہیں: "الحسن و الحسین امامان قاما او قعدا۔" *۸* علامہ  اقبال بھی امت مسلمہ کو یہی سمجھانا چاہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ کی شخصیت اتنی عظیم ہے کہ جو حضرت امام حسن ؑ (جو امت مسلمہ کے محافظ و امین ہیں) اور حضرت امام حسین ؑ (جو کاروان عشق کے سپہ سالار ہیں) کی بھی ماں ہیں۔

علامہ اقبال کے نزدیک حضرت فاطمہ زہراء عورتوں کے لئے اسوہ کاملہ ہونے کے اعتبار سے بھی نہایت عظیم مقام رکھتی ہیں۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ "سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زہراء اسوہ کاملہ است برائے نساء اسلام" *۹* علامہ اقبال امام حسن ؑو حسین ؑکی فضیلت میں سے ایک حضرت فاطمہ زہراء کے اسی پہلو کو ذکر فرماتے ہیں"مادران را اسوہ کامل بتول" چونکہ حضرت فاطمہ زہراء ایک عورت ہونے کے ناتے جو احکام بیٹی، بیوی اور ماں ہونے کے اعتبار سے عورتوں کے ساتھ خاص ہیں، ان میں تمام عورتوں کے لئے اسوہ کاملہ ہیں۔ چونکہ حضرت فاطمہ نے ان تینوں فرائض کو انجام دے کر بتایا کہ باپ کی خدمت کیسے کرنی ہے، بیوی کو شوہر کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیئے اور عورت کو بچوں کی تربیت کیسے کرنی چاہیئے۔ گویا علامہ اقبال حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ان تین عظیم نسبتوں کو سمجھانے کے بعد جہان اسلام کے لئے بطور اسوہ کاملہ اور نمونہ عمل بنا کر پیش کر رہے ہیں اور یہ درس دے رہے ہیں کہ حضرت فاطمہ کا احترام امت مسلمہ پر فرض ہے۔ جیسے خود علامہ اقبال کا سر بھی حضرت فاطمہ کی بارگاہ میں عقیدت سے خم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ سورہ آل عمران آیت ،۶۱ ترجمہ کنزالعرفان، مفتی محمد قاسم
2۔ معروف حدیث کساء کا جملہ
3۔ تقریر وائس چانسلر یوم اقبال نونمبر۲۰۱۱
4۔ خیر النساء العالمین اربعۃ مریم بنت عمران و خدیجہ بنت خویلد فاطمہ بنت محمد و آسیہ امراۃ فرعون، جامع الکبیر سیوطی حرف خاء
5۔ الاستیعاب، ابن عبد البر۴/۱۸۹۹
6۔ بخاری شریف باب مناقب رسول و فاطمہ بنت محمد
7۔ کنز الحقائق عبدالرؤف منابی
8۔ برحاشہ جامع صغیر للسیوطی
9۔ شرح کلیات اقبال فارسی۔

تیونس اور مراکش میں امریکی صدرٹرمپ کے فلسطین کے بارے میں صدی ڈیل کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں مظاہرین نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کے یکطرفہ صدی معاملے کو رد کرتے ہوئے فلسطینی عوام کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ مراکش کے دارالحکومت رباط میں امریکہ کے خلاف وسیع پیمانے پر مظاہرے ہوئے، مظاہرین نے امریکہ مردہ باد اور اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگائے۔ ادھر تیونس میں ہزاروں افراد نے امریکہ کے خلاف مظاہرے میں شرکت کی اور صدی معاملے کی مذمت کرتے ہوئے اس کی حمایت کرنے والے عرب ممالک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ عرب ذرائع کے مطابق سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے امریکہ کے صدی معاملے کی حمایت کی ہے جبکہ دیگر عرب اور اسلامی ممالک امریکہ کے صدی معاملے کے خلاف ہیں۔ عرب اور اسلامی ممالک کے شہری سعودی عرب کے بادشاہ  شاہ سلمان کو خائن قراردے رہے ہیں جو خطے میں امریکی و اسرائیلی مفادات کو تحفظ فراہم کررہا ہے۔

خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران لاہور میں انقلابِ اسلامی ایران کی اکتالیسویں سالگرہ اور شہید کمانڈر قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے محفل تجلیل کا اہتمام کیا گیا۔ ایرانی قونصل جنرل محمد رضا ناظری نے تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ محمد رضا ناظری کا کہنا تھا کہ عالم اسلام میں پاکستان ایک چمکتا ہوا نگینہ ہے، جس نے ہمیشہ ایران کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا ہے۔ تقریب میں ڈی جی خانہ فرہنگ علی اکبر رضائی فرد، پرنسپل جامعۃ المنتظر علامہ قاضی نیاز حسین نقوی، بیت رہبری علامہ علی رضا نقوی، سابق چیئرمین امامیہ آرگنائزیشن لعل مھدی خان، چیئرمین انجمن شھریان لاہور شفیق رضا قادری سمیت دیگر نے شرکت کی۔

تقریب میں قاسم سلیمانی کی زندگی اور شخصیت کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی گئی۔ ایرانی قونصل جنرل محمد رضا ناظری کا کہنا تھا کہ قاسم سلیمانی جیسی شہادت کی موت ہر مسلمان چاہتا ہے، قاسم سلیمانی کی شہادت عالم اسلام میں اتحاد لے آئی ہے، جس کی اشد ضرورت تھی، امریکی دہشتگردی کو ہر کسی نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عالم اسلام میں پاکستان ایک چمکتے ہوئے نگینے کی مانند ہے، پاکستانی دلیر، شجاع اور بہادر قوم ہے، مجھے قاسم سلیمانی کی تعزیت پاکستانیوں سے کرنی چاہیئے۔

دیگر مقررین کا کہنا تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی نے ہمیشہ امت مسلمہ کا دفاع کیا اور عراق کا دورہ بھی اسی سلسلے میں تھا، جس میں انہیں شہادت مل گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی جنرل قاسم سلیمانی کے شکر گزار ہیں کہ ان کی وجہ سے داعش کا فتنہ پاکستان میں داخل نہیں ہوا اور قاسم سلیمانی نے سپر بن کر پاکستان کا دفاع کیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ایران کی دوستی لازوال ہے، وقتی بحران اور بیرونی مداخلت اسے کم نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت کو بھی دوست اور دشمن کی پہچان کرنی چاہیئے، مسئلہ کشمیر پر ایران نے کھل کر پاکستانی موقف کی حمایت کی ہے۔
 
 
 
Monday, 10 February 2020 21:58

انقلابِ اسلامی کا نور


گیارہ فروری 1979ء کو جب ایران میں انقلابِ اسلامی کامیابی سے ہمکنار ہوا تو دنیا کے اکثر دانشور حضرات یہ کہتے نظر آئے کہ اس انقلاب کو امریکہ بس چند دنوں میں کچل دے گا۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے نواب اکبر خان بگٹی مرحوم سے کسی نے ایران کے اسلامی انقلاب کے بارے میں بات کی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے  سوال کیا کہ شیعہ کتنے اماموں کو مانتے ہیں؟ جواب ملا  "بارہ" تو بگٹی صاحب نے کہا یہ انقلاب بارہ مہینے بھی نہیں رہ پاِئے گا۔ لیکن پھر نواب اکبر بگٹی سمیت دنیا بھر کے دانشوروں نے دیکھا کہ 11 فروری 1979ء کو انقلابِ اسلامی کا ایسا نور چمکا، جس نے آج تک دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ انقلابِ اسلامی نے اسلام کا پرچم تھاما اور دنیا بھر کے مظلوموں کو اس کی چھاوں میں پناہ دی، استکبارِ جہانی کی مشکلات کا آغاز ٹھیک اسی وقت سے شروع ہوا۔ مستضعفینِ جہان کا حامی یہ انقلاب امریکہ و اسرائیل کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوگیا، امریکہ اپنے تمام اتحادیوں کے ساتھ صدام کے ذریعے انقلابِ اسلامی پہ حملہ آور ہوا، لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں، لیکن امریکہ کے یہ تمام حربے مٹی میں مل گئے۔

گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حقیقی انقلاب یوں راتوں رات سب کچھ تبدیل نہیں کر دیتے، یہ تو بس معاشرے پر چھائے جمود کو توڑتے ہیں اور پھر ارتقاء کا سفر شروع کرتے ہیں۔ کسی بھی قسم کی مخصوص لابی یا تنگ نظر گروہ حقیقی انقلاب لانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوتے، بلکہ حقیقی انقلاب تو صرف اور صرف عوام کی امنگوں اور معاشرے کی گہرائی سے نکلتے ہیں اور دنیا پر چھا جاتے ہیں۔ بانی ِ انقلابِ اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ امام خمینیرح کی سیاسی علنی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز اکتوبر 1962ء میں ہوا، جب شاہ کی کابینہ نے ایک بل پاس کیا، جس میں امیدواران اور رائے دہندگان میں غیر مسلموں کی شمولیت اور قرآن کریم کی بجائے دوسری آسمانی کتب پر حلف اٹھانے جیسے امور شامل تھے۔ امامرح کو جیسے ہی اس کی اطلاع ملی امامرح  شاہ  کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، جس کا اثر یہ ہوا کہ بل پہ عملدرآمد روک دیا گیا۔

انقلاب کے لئے اگلا پیش خیمہ 1963ء میں یوم عاشور کے موقع پر امام کا وہ خطاب ثابت ہوا، جس میں انہوں نے شاہ کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات کا پردہ چاک کیا۔ قم مرگ بر شاہ کے نعروں سے گونجنے لگا، امام کو گرفتار کر لیا گیا، لوگوں میں اشتعال مزید بڑھا تو حکومت نے مارشل لاء نافذ کر دیا، لیکن عوام اپنے رہبر کے بغیر رہنے پہ آمادہ نہ تھے۔ عوامی دباو پر امام کو رہا کر دیا گیا، لیکن اب دیر ہوچکی تھی، امام کی انقلابی فکر شاہ کی ظلم سہتی ایرانی عوام کو اپنا گرویدہ بنا چکی تھی۔ ایسی صورتحال میں 1964ء میں ایک اور بل منظور کیا گیا، جس میں ایران کے اندر امریکی فورسز کی تعیناتی کے لئے تمام رکاوٹوں کا خاتمہ شامل تھا۔ امام خمینیرح نے ایک طاغوت شکن خطاب کے ذریعے اس بل کی زبردست مخالفت کی۔ شاہ کی حکومت امام کی اس مزاحمت سے سخت تذبذب کا شکار تھی، امام کی گرفتاری کا تجربہ ناکام ہوچکا تھا، شاہ کے پاس اب ایک ہی رستہ بچا تھا، سو اس نے وہ آزما دیا۔

4 اکتوبر 1964ء کو امام کو جلا وطن کر دیا گیا، جلا وطنی کے دوران امامرح ترکی، نجف اشرف اور پیرس میں قیام پذیر رہے، لیکن ان تمام تر مشکلات کے باوجود امام اپنے مشن سے پیچھے نہ ہٹے۔ اس دوران امام کے فرزند کو شہید کر دیا گیا۔ امام کا عزم و حوصلہ دیدنی تھا، پائے استقلال میں ذرا برابر بھی لغزش لائے بغیر اپنے مشن کو آگے بڑھاتے رہے۔ بالآخر 14 سال کی جلا وطنی کے بعد یکم فروری 1979ء کو امام تہران کے مہر آباد ایئر پورٹ پہ اترے تو مناظر دیدنی تھے، عوام اپنے محبوب لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھے۔ بختیار کی حکومت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ اپنے رہبر کی آواز پہ لبیک کہتی ایران کی انقلابی عوام نے شاہی حکومت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا۔ 11 فروری کا سورج انقلابِ اسلامی کی نوید لے کر طلوع ہوا اور آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ امام خمینی رح کی فکر اور ان کے راہنما اصولوں پر گامزن امام راحل کے نظریاتی و معنوی فرزند آیت۔۔۔ العظمیٰ سید علی خامنہ ای دامت برکاتہ کی بابرکت قیادت میں ایران تیزی سے ترقی کے زینے طے کرتا دنیا بھر میں اپنا مقام بنا چکا ہے۔

انقلابِ اسلامی نے جہاں دنیا بھر میں اسلام و مسلمین کو سربلند رکھا، وہیں اہلِ اسلام کو ایسے فرزند بھی عطا کئے جنہوں نے سرفرازی کا درس کربلا سے حاصل کیا تھا۔ آج جب انقلابِ اسلامی اپنی 41ویں بہار دیکھ رہا ہے، ہمارے درمیان وہ دلوں کا سردار موجود نہیں، جس نے اپنی جان اس خطے کے امن و امان پہ قربان کر دی۔ درحقیقت فرزندِ انقلاب، مدافعِ اسلام و مسلمین شہید حاج قاسم سلیمانی کی شہادت نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ پوری انسانیت کے لئے ایک بہت بڑا خسارہ ہے۔ آج دنیا تکفیری فتنے داعش سے چھٹکارے کو شہید سلیمانی کی فدا کاریوں کا مرہون منت سمجھتی ہے۔ نیا مشرقِ وسطی بنانے کے ناپاک و منحوس امریکی و صیہونی عزائم کو خاک میں ملانے والے سردار قاسم سلیمانی کو ایک بزدلانہ حملے میں شہید کرکے امریکہ یہ سمجھ رہا تھا کہ انقلابِ اسلامی اب اپنے پاوں پہ کھڑا نہیں رہ پائے گا، لیکن سچ تو یہ ہے کہ 11 فروری 1979ء کو اسلامی انقلاب کا جو نور چمکا تھا، شہید قاسم نے 3 جنوری 2020ء کی صبح بغداد میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اسے جلا بخش دی ہے۔
پھونکوں سے یہ چراغ  بجھایا نہ جائے گا

Saturday, 08 February 2020 20:26

ابو مہدی المہندس کون تھے؟

تحریر: سید حسن بخاری

مہندس فارسی میں انجینئر کو کہتے ہیں۔ انہوں نے بغداد کے پولی ٹیکنیک کالج سے سول انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کر رکھی تھی اور اسی سبب وہ مہندس یعنی انجینئر کے نام سے معروف تھے۔ ابو مہدی ان کا لقب تھا۔ ان کا اصل نام جمال جعفر محمد اور ان کا خاندانی نام آل ابراہیم تھا۔ یوں ان کا مکمل نام جمال جعفر محمد آل ابراہیم المعروف ابو مہدی مہندس ہے۔ وہ عراقی شہری تھے اور ایران میں انہیں جمال ابراہیمی کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ گذشتہ ماہ بغداد ایئرپورٹ پر امریکی ڈرون حملے میں اسلامی مزاحمت کے اہم قائدین شہید ہونے کے بعد شہید قاسم سلیمانی کے زندگی نامے سمیت ان کی شخصیت کی خصوصیات اور ان کی جدوجہد کے حوالے سے خاطر خواہ لٹریچر اردو زبان میں سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر دیکھنے کو ملا ہے، لیکن اس دوران ابو مہدی المہندس کے زندگی نامے اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے اردو لٹریچر کی کمی محسوس ہوئی ہے۔ اب جب شہدائے مزاحمت کا چہلم نزدیک ہے تو اس مضمون کے ذریعے ہم شہید ابو مہدی کی زندگی کا ایک مختصر تعارف، ان کی مزاحمتی فکر اور چار عشروں پر مشتمل جدوجہد کے چند گوشے قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

یوں تو ان کے اجمالی تعارف کے لیے ان کے اس انٹرویو جو ان کی شہادت کے بعد وائرل ہوا، کا وہ ایک جملہ کافی ہے، جس میں وہ خود کو سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس بریگیڈ کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شہید قاسم سلیمانی کا سپاہی قرار دیتے ہیں اور اسی طرح ایک دوسرے ویڈیو انٹرویو میں شہید قاسم سلیمانی خود کو شہید ابو مہدی کا سپاہی قرار دیتے ہیں، لیکن قدرے تفصیلی تعارف کے لیے آج ہم اس مضمون کے ذریعے آپ احباب سے مخاطب ہو رہے ہیں۔ ایک اور ویڈیو انٹرویو میں شہید ابو مہدی لبنان کی مزاحمتی تحریک کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کو اپنا قائد اور آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ شہید ابو مہدی اس انٹرویو میں کہتے ہیں کہ وہ سید حسن نصر اللہ کی قیادت میں حزب اللہ کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں مزاحمت سے انتہائی متاثر ہیں اور وہ عراق میں امریکی سامراج کے مقابلے میں حزب اللہ لبنان طرز کی مزاحمت وجود میں لانا چاہتے ہیں۔

شہید ابو مہدی نے اسلامی مزاحمت کے ساتھ اپنے تعلق کو کبھی مخفی نہیں رکھا اور ہمیشہ خود کو اسلامی مزاحمت کا ایک حصہ اور ادنیٰ سپاہی قرار دیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شہادت کے بعد یروشلم پوسٹ نے بھی اپنے ایک مضمون میں انہیں شہید قاسم سلیمانی اور سید حسن نصر اللہ کا ہم خیال اور ابو مہدی کو انہی کے خاندان کا فرد قرار دیا تھا۔ ابو مہدی کا نظامِ ولایت کے زیر سایہ وجود میں آنے والی اسلامی مزاحمت سے گہرا تعلق ان کے لیے افتخار تھا، جس کا اظہار انہوں نے خود اپنے ویڈیو انٹرویو میں کیا تھا۔ شہید ابو مہدی کے بقول عراقی قوم بالخصوص اور خطے کی اقوام کا بالعموم اصل دشمن امریکہ ہے اور وہ خطے سے مکمل امریکی انخلا تک امریکہ کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ شہادت کے وقت ابو مہدی حشد الشعبی کے نائب سربراہ تھے۔ حشد الشعبی کم و بیش 40 عراقی مزاحمتی گروہوں پر مشتمل ایک عسکری اتحاد ہے، جو  2014ء میں عراق پر داعش کے قبضے کے بعد وجود میں آیا۔ ایک لاکھ باقاعدہ اور دو لاکھ ریزرو فوج کا حامل یہ عسکری اتحاد (حشد الشعبی) 2014ء میں عراق کی دینی مرجعیت کے حکم پر وجود میں آیا۔

2017ء میں پارلیمانی قرارداد اور حکومتی آرڈر کے تحت حشد الشعبی کو عراق کی دیگر مسلح افواج کی طرح سرکاری پیرا ملٹری فوج کا درجہ دے دیا گیا، جس کی آئینی کمان عراقی وزیراعظم کے پاس ہے۔ یوں شہید ابو مہدی عراق کے ایک سرکاری عہدیدار بھی تھے اور امریکہ نے صرف کسی رضاکار غیر سرکاری مسلح گروہ یا اتحاد کے کسی کمانڈر کو نہیں بلکہ عراق کی سرکاری پیراملٹری فوج کے نائب سربراہ کو شہید کیا ہے اور ایک ایسے ملک کے کمانڈر کو قتل کرنا، جس ملک کے ساتھ آپ حالتِ جنگ میں نہ ہوں، خود سے جنگی جرم محسوب ہوتا ہے۔ شہید ابو مہدی 1953ء میں عراق کے شہر بصرہ میں پیدا ہوئے۔ شہریت کے لحاظ سے ان کی والدہ ایرانی جبکہ ان کے والد عراقی تھے۔ 1977ء میں انہوں نے بغداد کے پولی ٹیکنیک کالج سے سول انجینرنگ میں ڈگری مکمل کی۔ 60 کی دہائی میں عراق میں دینی مرجعیت خصوصاً آیت اللہ محمد باقر الصدر کی قیادت میں حزب الدعوۃ الاسلامیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ حزب الدعوۃ الاسلامیہ عرب دنیا میں عرب قوم پرستی کے مقابلے میں اخوان المسلمین کے بعد دوسری اسلامی تحریک تھی، جو عرب دنیا کے مسائل کو اسلامی تناظر میں دیکھتی تھیں۔

شہید محمد باقر الصدر کے نزدیک اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس کا سیاسی، معاشی، اخلاقی اور سماجی نظام عرب دنیا سمیت عالم اسلام کے مسائل کا واحد حل ہے۔ شہید ابو مہدی نے اپنی سماجی فعالیت کا آغاز شہید محمد باقر الصدر کی قیادت میں تشکیل پانے والی اس اسلامی تحریک میں شمولیت کے ساتھ کیا اور یہ اس وقت کی بات ہے، جب آپ بغداد میں زیر تعلیم تھے۔ 80 کی دہائی میں عراق پر حاکم بعث پارٹی نے جب حزب الدعوۃ الاسلامیہ کے عوام میں اثر و رسوخ سے خائف ہو کر عرب دنیا کی اس اہم اسلامی تحریک کو سرکوب کرنے کی ٹھانی اور حزب الدعوہ کی قیادت کے خلاف کریک ڈاون شروع کیا تو پہلے مرحلے میں حزب الدعوہ کی قیادت کو گرفتار کرکے پھانسی دے دی‌ گئی۔ 1975ء میں حزب الدعوۃ الاسلامیه کے درجنوں قائدین کو سزائے موت دے دی گئی۔ دوسرے مرحلے میں حزب الدعوہ کے کارکنوں کو پکڑ کر عقوبت خانوں میں بند کیا اور تختہ دار پر لٹکایا جانے لگا۔ شہید ابو مہدی اس زمانے کے بارے میں کہتے ہیں 1980ء تک حزب الدعوۃ الاسلامیہ سے وابستہ میرے 95 فیصد دوستوں کو سزائے موت ہوچکی تھی

1980ء‌ میں جب بعثی رجیم نے محمد باقر الصدر کو ان کے گھر سے گرفتار کرکے شہید کر دیا تو شہید ابو مہدی مہندس عراق سے کویت چلے گئے، جہاں انہوں نے اسلامی مزاحمت کے عظیم کردار شہید مصطفیٰ بدرالدین کے ساتھ ملکر ظلم و استبداد کے خلاف جدوجہد کا نئے سرے سے آغاز کیا۔ کویت میں قائم امریکی اور فرانسوی سفارت خانوں پر بمب حملے ہوئے تو کویت میں مقیم مصطفیٰ بدرالدین سمیت متعدد عراقی مہاجرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ شہید ابو مہدی کویت سے ایران منتقل ہوگئے۔ بعدازاں ایک کویتی عدالت نے شہید ابو مہدی کی غیر موجودگی میں انہیں ان سفارت خانوں پر حملے کے الزام میں سزائے موت بھی سنائی تھی، جس کے بارے خود شہید ابو مہدی کا کہنا ہے کہ وہ کویتی سرزمین پر امریکہ مخالف کسی مسلح کارروائی میں ہرگز شریک نہیں تھے۔ ایران میں قیام کے دوران شہید ابو مہدی نے اعلیٰ تعلیم مکمل کر لی۔ انہوں نے بین الاقوامی تعلقات میں پہلے ایم فل تو بعدازاں پی ایچ ڈی مکمل کی۔

پی ایچ ڈی ڈاکٹر بن جانے کے باوجود شہید ابو مہدی کو تا دمِ شہادت انجینئر (مہندس) کے لقب سے ہی جانا جاتا رہا۔ ایران میں قیام کے دوران شہید ابو مہدی ایران میں مقیم عراقی حریت پسندوں کی اہم سیاسی جماعت مجلس اعلاء کے رکن بھی رہے۔ مجلس اعلاء نے بعد میں عراقی سیاست میں بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ نوے کی دہائی میں عراق میں بعثی رجیم کے مظالم کے خلاف مزاحمت کی غرض سے مسلح جدوجہد وجود میں آئی تو شہید ابو مہدی البدر کے رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ شہید ابو مہدی بھی عراق کے متعدد دیگر مزاحمتی اور سیاسی رہنماؤں کی طرح عراق میں صدام کے سقوط کے بعد عراق واپس پلٹے تو شہید ابو مہدی نے نئی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ 2003ء میں عراق واپس جاتے ہی شہید ابو مہدی نے خود کو البدر سے علیحدہ کرکے کتائب حزب اللہ کی بنیاد رکھی۔ شہید ابو مہدی 2005ء میں عراقی صوبے بابل سے پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے، لیکن بعدازاں امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے سبب انہیں پارلیمانی نشست سے استعفیٰ دے کر عراق ترک کرکے ایک دفعہ دوبارہ ایران آنا پڑا۔

2011ء میں شہید ابو مہدی دوبارہ عراق گئے اور سیاسی فعالیت کو ازسرنو شروع کیا۔ ان کی قیادت میں بننے والا سیاسی اتحاد الوطنی آج بھی عراقی پارلیمان کا ایک اہم اتحاد ہے۔ 2014ء میں داعش نے عراق کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تو عراق کی دینی مرجعیت آیت اللہ سیستانی کے حکم پر عوامی رضاکار فورس وجود میں آئی۔ اس فورس کی تشکیل میں شہید ابو مہدی اور ان کی مزاحمتی تحریک کتائب حزب اللہ کا کردار انتہائی اہم تھا۔ کتائب حزب اللہ نے حشد الشعبی کی 45ویں اور 46ویں بریگیڈ کی تشکیل کو مکمل کیا جبکہ 47ویں بریگیڈ میں بھی ایک بڑا حصہ کتائب کی افرادی قوت کا ہے۔ داعش کے خلاف جہاد شہید ابو مہدی کی چار عشروں پر محیط جہادی زندگی کا ایک نیا دور تھا۔ وہ حشد الشعبی کے نائب سربراہ بنائے گئے، لیکن ان کا کنٹرول روم بغداد کے کسی محفوظ اور پوش علاقے کا کوئی عسکری اڈہ نہیں بلکہ اگلے مورچوں پر کھڑے ٹینک اور مورچے تھا۔ شہید ابو مہدی بطور ایک فوجی جنرل میڈلز اور ستارے سینے پر سجانے کی بجائے اگلے مورچوں پر اپنے سپاہیوں کے ساتھ شانہ بشانے لڑنے کو اپنے لیے بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ سامراء، کاظمین، کربلا اور نجف کے مزاراتِ آل رسول کی حفاظت کے علاؤہ آمرلی، جرف الصخر، اربیل اور موصل کی آزادی کے کامیاب آپریشنز میں بھی شہید ابو مہدی کا بنیادی کردار ہے۔

مئی 2019ء میں اسرائیل نے عراق میں قائم حشد الشعبی کے فوجی اڈے کو نشانہ بنایا تو شہید ابو مہدی نے اسرائیل کو جہاں جواب دینے کی بات کی، وہیں امریکی و اسرائیلی جارحیت کے مقابلے کے لیے حشد الشعبی کے فضائی ونگ کی ضرورت پر بھی زور دیا اور یہ قوی احتمال تھا کہ اگر شہید ابو مہدی کچھ عرصہ مزید زندہ رہتے تو حشد الشعبی کے فضائی ونگ کی تشکیل ان کا ترجیح ایجنڈا ہوتا۔ عراق سمیت پورے خطے سے مکمل امریکی انخلاء، امریکی سامراج اور صہیونی منصوبوں کے مقابلے میں اسلامی مزاحمت کی تقویت شہید ابو مہدی المہندس کی آرزو تھی۔ اس آرزو کی تکمیل کے لیے انہوں نے اسلامی انقلاب اور نظامِ ولایت کے زیر سایہ تشکیل پانے والی اسلامی مزاحمت کے قافلے میں شمولیت اختیار کی۔ خود کو ہمشیہ اسلامی مزاحمت کا ادنیٰ سپاہی قرار دیا اور اس پر فخر محسوس کیا۔ شہید ابو مہدی اپنی آرزو جو خطے کے تمام بے نواؤں کی آرزو ہے؛ کی تکمیل کی خاطر امریکی سامراج اور صہیون ازم کے ساتھ نبرد آزما تھے، جب امریکہ نے انہیں شہید قاسم سلیمانی کے ہمراہ گاڑی میں نشانہ بنایا اور اسلامی مزاحمت کے یہ دو عظیم مجاہد اپنے چند دیگر ساتھیوں کے ساتھ جامِ شہادت نوش کرگئے۔

 ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے فلسطین کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کے صدی معاملے کو بہت بڑا المیہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ صدی معاملہ ناقابل قبول ہے۔ مہاتیر محمد نے کہا کہ صدی معاملے سے خطے میں کشیدگی بڑھ جائےگی یہ تاریخ کا بدترین معاملہ ہے جس میں کئي ملین مسلمانوں اور عیسائیوں کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ملائشیا کے وزير اعظم نے کہا کہ اس معاملے سے صرف اسرائیل کو فائدہ پہنچا ہے اور اس میں مظلوم  فلسطینیوں کے حقوق کومکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔

13 جمادی الثانی وفات بی بی ام البنین سلام اللہ علیھا

مختصر سا تعارف مادر جناب باب الحوائج مولا عباس ع پاک بی بی ام البنین سلام اللہ علیھا:
بی بی ام البنین س کے ماں باپ کا خاندان شجاعت، کرامت، اخلاق، سماجی حیثیت اور عظمت کے لحاط سے قریش کے بعد عربوں کے مختلف قبیلوں میں ممتاز خاندان تھا۔
جناب ام البنین س مولائے کائنات امام علی (ع) کی باوفا زوجہ ہیں ۔ آپ قبیلہ بنی کلاب سے تھیں، جو عرب کا مشہور بہادر و شجاع قبیلہ تھا ۔
اللہ تعالی نے بی بی ام البنین س کو چار بیٹے اور ایک بیٹی عطا فرمائی، مولا ابو الفضل العباس ع ، جناب عبد اللہ، جناب جعفر ، جناب عثمان ، اور بیٹی جناب رقیہ س تھیں ۔ جناب رقیہ س کی شادی سفیر امام حسین علیہ السلام جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام سے ہوئی۔
جناب بی بی ام البنین سلام اللہ علیھا یہ وہ خاتون ہیں جنہوں نے اپنے چاروں بیٹوں کو مولا امام حسین (ع) کے ساتھ کربلا بھیجا اور اپنے بوڑھے ہونے کے باوجود کسی ایک بیٹے کو بھی اپنے پاس مدینے میں نہیں رکھا۔ اپنے ان چاروں بیٹوں کی مصیبت کو فرزند زہرا (س) مظلوم کربلا مولا حسین ع کی شہادت کے مقابلے میں آسان سمجھتی تھیں۔
ام البنین سلام اللہ علیھا:یٹوں کی ماں:
بی بی س کو ام البنین یعنی بیٹوں کی ماں کہہ کر پکارا کرتے تھے ، لیکن واقعہ کربلا کے بعد جناب ام البنین س نے فرمایا : ' 'مجھے ام البنین کہہ کر نہ پکارا کرو کیونکہ اس طرح پکارنا مجھے میرے شیر جیسے بچوں کی یاد دلاتا ہے
جب مولا امام حسین ع نے مدینہ کو چھوڑ کر حج اور اس کے بعد عراق ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا تو جناب ام البنین س مولا امام حسین (ع) کے ساتھ جانے والوں کو یہ نصیحت کرتی تھیں:"میرے نور چشم امام حسین (ع) کی فرمابرداری کرنا،"
واقعہ کربلا کے بعد، بشیر نے مدینہ میں جناب ام البنین س سے ملاقات کی تا کہ ان کے بیٹوں کی شہادت کی خبر انھیں سنائیں۔ بشیر امام سجاد (ع) کی طرف سے بھیجے گئے تھے، ام البنین نے بشیر کو دیکھنے کے بعد فرمایا:
اے بشیر ! امام حسین ( ع ) کے بارے میں کیا خبر لائے ہو ؟ بشیر نے کہا: خدا آپ س کو صبر دے آپ کے عباس ع قتل کیے گئے جناب ام البنین س نے فرمایا:" مجھے حسین ( ع ) کی خبر بتا دو۔" بشیر نے ان کے باقی بیٹوں کی شہادت کی خبر کا اعلان کیا۔ لیکن بی بی ام البنین س مسلسل امام حسین (ع) کے بارے میں پوچھتی رہیں اور صبر و شکیبائی سے بشیر کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا:
"یا بشیر اخبرنی عن ابی عبد اللہ الحسین، اولادی و تحت الخضری کلھم فداء لابی عبد اللہ الحسین"
"اے بشیر! مجھے ابی عبد اللہ الحسین کی خبر بتا دو میرے بیٹے اور جو کچھ اس نیلے آسمان کے نیچے ہے، ابا عبد اللہ الحسین (ع) پر قربان ہو۔"
جب بشیر نے امام حسین (ع) کی شہادت کی خبر دی تو ام البنین س نے ایک آہ! بھری آواز میں فرمایا:" قد قطعت نیاط قلبی"،" اے بشیر! تو نے میرے دل کی رگ کو پارہ پارہ کیا۔" اور اس کے بعد نالہ و زاری کی۔
واقعہ عاشورہ کربلا سے آگاہ ہونے کے بعد وہ اپنے بیٹے عباس ع کے فرزند عبید اللہ کو اپنے ساتھ قبرستان بقیع میں لے جایا کرتی تھیں اور اپنے بیٹوں کے غم میں درد ناک اشعار پڑھا کرتی تھیں۔ مدینہ کے لوگ بھی اس عظیم خاتون کے درد بھرے بین سننے کے لیے وہاں اکٹھے ہو جایا کرتے تھے اور گریہ و زاری کیا کرتے تھے۔
جناب بی بی ام البنین سلام اللہ علیھا کی وفات 13 جمادی الثانی کو ہوئی اور آپ س کو جنت البقیع کے قبرستان میں دفن کیا گیا ۔

جناب ام البنین (س) کا بڑا احسان ہے قیام حق پر ۔ چار بیٹے جناب عباس عملدار ع ، جناب عبد اللہ ، جناب جعفر اور جناب عثمان تھے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح (بروز سنیچر ) ایرانی فضائیہ کے کمانڈروں، کارکنوں اور ایرانی فوج کے ایئر ڈیفنس کے اہلکاروں کے ساتھ ملاقات میں 19 بہمن سن 1357 کے واقعہ کو اللہ تعالی کے وعدے پر حضرت امام خمینی (رہ) اور مجاہدین کے اطمینان اور پختہ یقین کا نتیجہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر معاشرے میں اللہ تعالی کے وعدے پر یقین محکم اور پختہ ہوجائےاور حکام ہوشیاری اور بیداری کے ساتھ عمل کریں تو اس صورت میں دھمکیاں فرصت میں تبدیل ہوسکتی ہیں اور دشمن کی طرف سے عائد پابندیاں غیر مؤثر، ملک کے تیل پر انحصار ختم کرنے اور بہت سی مشکلات کوحل کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔

ایرانی فضائیہ کے کمانڈروں کی حضرت امام خمینی (رہ) کے ساتھ 19 بہمن 1357 شمسی میں تاریخی بیعت کی 41 ویں سالگروں کے موقع پر ایرانی فضائیہ کے کمانڈروں اور بعض اہلکاروں نے رہبر معظم انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں اس واقعہ کو ناقابل فراموش، حیرت انگیز ،مختلف اسباق اور عبرتوں کا حامل قراردیتے ہوئے فرمایا: گذشتہ حکومت کے دور میں ایرانی فضائیہ طاقت کے مرکز کے سب سے زیادہ قریب اور  امریکہ سے وابستہ تھی، لیکن ایرانی فضائیہ نے ہی طاغوتی حکومت پر مہلک ضرب لگائي جس کا اسے تصور بھی نہیں تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: قرآنی آیات کی روشنی میں اللہ تعالی ایسی جگہ سے دشمن پرمہلک ضرب وارد کرتا ہے جس کا اسے تصور بھی نہیں ہوتا اور مؤمنین کی بھی ایسی جگہ سے حمایت اور مدد کرتا ہے جس کا انھیں تصور بھی نہیں ہوتا۔

اسے دینی ثقافت میں " رزق لا یحتسب " سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ وہی رزق ہے جس کی مادی اندازوں میں کوئی جگہ نہیں تھی ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اللہ تعالی کے دین کی مدد کرنے والوں کی نصرت کے بارے میں قرآن مجید کی آیات کی تاکید اور تصریح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی کے وعدے پر اطمینان رکھنا چاہیے اور مستقبل پر امید رکھتے ہوئے آگے کی سمت سفر جاری رکھنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح عوام کے مختلف طبقات کے ہزاروں افراد سے ملاقات میں 22 بہمن کی ریلی اور ایرانی پارلیمنٹ کے انتخابات کو ایرانی قوم کے دو عظیم امتحانات قراردیا اور ایرانی پارلیمنٹ کے لئے شائستہ امیدواروں کی خصوصیات کی تشریح اور 2 اسفند کے انتخابات میں عوام کی آگاہانہ اور ولولہ انگیز شرکت کو اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر مشکلات کے حل میں مؤثر قراردیتے ہوئے فرمایا: جو شخص ایران سے محبت ، وطن کی سلامتی ، آبرو اور عزت کو دوست رکھتا ہے اور مشکلات کا حل چاہتا ہے اسے پارلیمنٹ کے انتخابات میں بھر پور شرکت کرنی چاہیے تاکہ ایرانی قوم کا اقتدار اور عزم ایک بار پھر دنیا کے سامنے نمایاں ہوجائے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کے صدی معاملے اور امن منصوبہ کو احمقانہ، خباثت پر مبنی اور شکست خوردہ قراردیتے ہوئے فرمایا: دنیائے اسلام کی حمایت اور فلسطینی گروہوں اور تنظیموں کی استقامت ، پائداری اور شجاعانہ جہاد کے ذریعہ اس سازشی منصوبہ کا مقابلہ ضروری ہے اور مسئلہ فلسطین کا راہ حل بھی اصلی فلسطینیوں کی آراء پر مشتمل حکومت کی تشکیل اور ایک عام ریفرنڈم پر منحصر ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکی صدر ٹرمپ کا صدی معاملہ اس کے مرنے سے پہلے ہی مرجائےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عشرہ فجر کے ایام کوملک کے لئے بے مثال ایام اور قومی اقتدار اور عزم کا مظہر قراردیتے وہئے فرمایا: عشرہ فجر کے ایام میں ایرانی قوم نے اپنے پختہ عزم و ارادہ اور حضرت امام خمینی (رہ) کی بے مثال قیادت کے سائے میں کئی ہزار سال پر مبنی ظلم و استبداد ، فساد و کرپشن اور اغیار سے وابستہ نظام کو سرنگوں کردیا اور اس کی جگہ عوامی آراء پر مشتمل نظام کو تشکیل دیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے آغاز سے اب تک مختلف انتخابات کے انعقاد کو اسلامی نظام کے عوامی آراء پر استوار ہونے کامظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: البتہ اسلامی نظام عوامی ہونے کے ساتھ ساتھ دینی بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایران میں عوامی حکومت در حقیقت عوامی اسلامی حکومت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شہید سلیمانی ، دفاع مقدس کے سپاہیوں اور مدافعین حرم  جیسے افراد کی تربیت  اور شہیدوں کے اہلخانہ کے ولولہ انگیز جذبہ  اور استقامت کو دینی اور اسلامی آثار کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: شہید سلیمانی کی نمایاں خصوصیات میں تعہد اور ایمان نمایاں تھا اور اصولی طور پر جب ایمان ، عمل صالح اور جہادی جذبہ کے ہمراہ ہوتا ہے تو اس وقت سردار سلیمانی جیسی شخصیت تشکیل پاتی ہے کہ حتی دشمن بھی ان کی شخصیت کی خصوصیات کی  تعریف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 22 بہمن کی مناسبت سے ملک بھر میں ہونے والی ریلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم نے گذشتہ 40 برسوں ميں سخت سردی کے باوجود 22 بہمن کی ریلیوں میں بھر پور شرکت کرکے دنیا کو دکھایا ہے اور میں ایرانی قوم کے اس جذبہ کا دل کی گہرائی سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا:  اس سال 22 بہمن، شہید سلیمانی کے چہلم کے ایام کے ہمراہ ہے جوعوام کے جذبات کو مضاعف  بنانے کا موجب بنےگا اور ان شاء اللہ ایرانی قوم 22 بہمن کی ریلیوں میں بھر پور شرکت کرکے دشمن کی معاندانہ پالیسیوں پر مہلک ضرب وارد کرےگی۔

آیت اللہ سیستانی کے نمایندے شیخ عبدالمهدی الکربلایی نے حرم مطهر امام حسین(ع) میں خطبہ جمعہ میں آیت اللہ سیستانی کا پیغام سنایا۔

 

آیت‌الله العظمی سیستانی نے بیان میں سینچری ڈیل کی مذمت کرتے ہوئے اسے فلسطین پر قبضے کا پروگرام قرار دیا۔

 

شیعہ مرجع تقلید نے مظلوم فلسطین کی حمایت اور مقبوضہ علاقوں کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے تمام مسلمانوں اور آزادی پسندوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس حوالے سے کردار ادا کریں۔

 

آیت‌الله العظمی سیستانی کے پیغام میں کہا گیا ہے کہ حالیہ تحریک کے دوران بہت سے بیگناہ فلسطینوں کا خون ناحق بہایا گیا اور ان پر تشدد ہوا ہے۔

 

شیعہ مرجع تقلید نے نہتے فلسطینی مظاہرین پر تشدد کی بھی مذمت کی اور انکے حقوق کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔

 

آیت‌الله العظمی سیستانی کی جانب سے ملک کے اندر بھی فورسز اور بعض سرکاری عمارتوں پر حملے اور نقصانات کی مذمت کی گیی ہے۔

 

شیعہ مرجع تقلید کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے حقوق لینے میں مدد نہیں مل سکتی اور نقصانات کا اندیشہ ہے۔

 

آیت‌الله سیستانی نے ملک کے اندر سیاسی اختلافات اور اس کے نتیجے میں حکومت کی تشکیل میں رکاوٹوں کے حوالے سے کہا کہ اس کا بہترین راہ حل ووٹ اور انتخابات کو کہا جاسکتا ہے۔

 

شیعہ مرجع تقلید نے انتخابات کی راہ ہموار کرنے پر زور دیا اور کہا کہ عوام کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ منتخب نمایندوں کو انتخاب کریں۔