رپورٹ کےمطابق اللہ کا شکر ہےکہ ان حالیہ سالوں کے دوران علماء اورمذہبی راہنماوں کی وجہ سے بہت سے اختلافات اورکشمکشوں میں کمی آئی ہے کہ جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ذریعے شیعہ اورسنی کے درمیان ایجاد کیے گئے تھے۔
لیکن چونکہ اسلام کے دشمن ان اختلافات سے بہت سے فائدہ حاصل کرتےہیں اس لیے وہ مختلف روشوں کےذریعےان اختلافات کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔ بنابریں یہاں پرضروری ہےکہ ایسے اسباب کوبیان کیا جائے کہ جو مسلمانوں کے درمیان اتحادووحدت کا باعث بنتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اسباب مندرجہ ذیل ہیں:
١۔ اسلام سے تمسک
اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران میں وحدت کےایک اہم ترین سبب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو حکم دیتا ہےکہ وہ سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں کہ جو قرآن کریم کے دستورات اورائمہ اطہارعلیہم السلام ہیں۔«وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ...[ال عمران/103] تم سب اللہ کی رسی﴿قرآن واہل بیت علیہم السلام﴾ کو تھام لو اوراختلاف نہ کرو۔
رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اسی اللہ کی رسی کے بارے میں فرمایا ہے کہ
«إنّي تارك فيكم ما إن تمسّكتم به لن تضلّوا بعدي ، أحدهما أعظم من الآخر، كتاب اللّه حبل ممدود من السماء إلى الأرض وعترتي أهل بيتي ولن يتفرّقا حتّى يردا عليّ الحوض، فانظروا كيف تخلفوني فيهما [1]
جیسا کہ مشاہدہ کیا جاتا ہےکہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں ﴿کتاب اورعترت﴾کو لوگوں کی ہدایت اورعدم گمراہی کا ضامن قراردیا ہے۔
۲۔ ماضی کے تاریک واقعات پرتوجہ دینا اوران سے عبرت حاصل کرنا
« ... وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ[آل عمران/103] اورتم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھےتو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اوراس کی نعمت سےتم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اورتم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچالیا، اس طرح اللہ اپنی آیات کھول کرتمہارے لیے بیان کرتا ہےتاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔
آیت کےاس حصے سے معلوم ہوتا ہےکہ شیعہ اورسنی اوردیگراسلامی فرقوں کے درمیان اتحادووحدت کا ایک اہم ترین عنصرمسلمانوں کا اس دورکی طرف متوجہ ہونا ہےکہ جب ان کے درمیان الفت اورمحبت موجود نہیں تھی اوروہ ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے تھے۔
۳۔ مشترکہ مسائل اوریکساں اہداف پرتوجہ دینا
ہمیں اس اہم مطلب پرتوجہ دینی چاہیےکہ ہم توحید ، نبوت اورقیامت جیسے بہت سےاعتقادات پرمتفق ہیں اورفقط امامت کےموضوع پراختلاف رکھتےہیں۔ بنابریں اتنے زیادہ مشترکہ نکات کے باوجود کچھ اختلاقی مسائل کی وجہ سے ایک دوسرے کے دشمن بن جانا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارے آپس کے اختلافات سے دشمن خوش ہوتا ہے۔«... تَحْسَبُهُمْ جَمِیعاً وقُلُوبُهُمْ شَتَّی ذلِكَ بَأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَ یَعْقِلُونَ [حشر/۱۴] تم انہیں متحد اورایک خیال کرتے ہو جب کہ ان کے دل اختلافات کا شکار ہیں؛ کیونکہ وہ ایسی قوم ہےکہ جوعقل سےکام نہیں لیتی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام بھی اتحاد اوریکجہتی کو خیراوربھلائی کا معیارقراردیاہے اوراختلاف اوربغض وکینےکو شراوربرائی کا محورقراردیا ہے﴿۲﴾
بنابریں ہمیں توجہ دینی چاہیےکہ جوچیز ایک معاشرے کے افراد کے درمیان تفرقہ اوراختلاف کا سبب بنتی ہےنہ فقط دین بلکہ منطق اورعقل کی نظرمیں بھی اس سےمنع کیا گیا ہے۔ لہذا ہم مسلمانوں پرذمہ داری عائد ہوتی ہےکہ ان چیزوں کی مراعات کریں کہ جن سے آپ کے روابط مستحکم اور مضبوط ہوتے ہیں۔
------------------------------------------------
مآخذ:
[1]. صحيح الترمذي: 5/329، ح 3876، ط. دار الفكر، الدرّ المنثور للسيوطي: 6/7، و 306، الصواعق المحرقة: 147 و 226، ط. المحمّديّة، أسد الغابة: 2/12، تفسير ابن كثير: 4/113.
[2]. «فإیّاكم و التّلون فی دین اللّه فإنّ جماعةً فیما تكرهون من الحق خیرٌ من فُرقةٍ فیما تحبّون من الباطل وإنّ اللّه سبحانه لم یُعط أحداً بفُرقةٍ خیراً ممّن مضی و لا ممّن بَقی» [نهج البلاغه/ خطبه۱۷۶]
592968