مسجد امیر چقماق، جسے یزد کی تاریخ میں مسجد جامع نو اور یا مسجد دھوک بھی کہا گیا ہے، تیموری دور میں، شاہرخ کے دربار کے مقرب اور یزد کے حاکم امیر جلال الدین چقماق شامی اور ان کی شریک حیات ستی فاطمہ کی ہمت سے یہ مسجد تعمیر کی گئ ہے۔
مذکورہ مسجد شاہرخ میرزا تیموری کی بادشاہی میں سنہ 841ھ میں تعمیر کی گئی ہے کہ شکوہ، عظمت اور خوبصورتی کے لحاظ سے بیشک شہر یزد کی مسجد جامع کے بعد بہترین اور قابل اعتبار ترین مسجد ہے۔
یہ مسجد پہلے، شہر سے باہر تھی، حتی محمد شاہ قاچار کی سلطنت تک شہر کی دیوار موجود تھی اور یہ مسجد شہر سے باہر تھی۔
فتح علی شاہ قاچار کی حکمرانی کے دوران، حاجی حسین عطار کے توسط سے اس مسجد کے شبستان میں کچھ تغییرات انجام پائے ہیں۔
اس مسجد کا ایک ایوان، بلند صدرد روازہ اور ایک خوبصورت پیشخوان ( کاونٹر) ہے جس سے اس مسجد کو چار چاند لگ گئے ہیں۔ اس مسجد میں داخل ہونے کے دو صدر دروازے ہیں، جن میں سے ایک مشرق کی طرف اور دوسرا شمال کی طرف ہے اور دونوں دروازے بلند ایوان سے ملحق ہیں۔ اس میں کئی باشکوہ کتیبے ہیں جو خطاطی کی ہنر کے لحاظ سے کافی اہمیت کے حامل ہیں اور مسجد کی تعمیر کی تاریخ ان کتیبوں میں درج کی گئی ہے۔ مسجد کے دوشبستان ہیں، ایک گرمائی اور دوسرا سرمائی شبستان۔ اس کے گرمائی شبستان میں ایک خوبصورت ہواکش (باد گیر) لگا ہوا ہے۔
اس مسجد کا محراب خوبصورت سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے جس کے حاشیے معرق ٹائیلوں سے مزیّن کئے گئے ہیں اور ان پتھروں پر قرآن مجید کی چند آیات کندہ کی گئی ہیں۔
مسجد کے شبستان کے دونوں طرف کئی طاق ہیں، اس کے پچھلے حصہ میں ڈالان ہیں، شبستان کو چھ ضلعوں والی ٹائیلوں سے سجایا گیا ہے۔ اس کے محراب کو لاجوردی،طلائی اور سفید رنگ کی ٹایلوں سےمزیّن کیاگیا ہے۔ شبستان کی روشنی اس کی چھت پر نصب چار پنجروں سے حاصل ہو تی ہے،اس کی دیواریں سفید چونے اورایوان لاجوردی اورسبز رنگ کی ٹایلوں اور اینٹوں سےسجائی کئی ہیں۔مسجد کے سرمائی شبستان مسجدمیں داخل ہونے کے ڈالان کے دونوں طرف واقع ہیں اور ان کی روشنی سنگ مرمر سے حاصل ہوتی ہے۔اسی طرح مسجد کا مؤذّنہ مستطیل شکل کی اینٹوں سے بنا ہوا ہے جو مسجد کے مشرقی ضلع کے صدر دروازے پر واقع ہے۔
یہ مسجد میدان امیر چخماق کے جنوبی ضلع پر واقع ہے اور میدان کی طرف کھلنے والے دروازہ پر ایک پتھر نصب کیا گیا ہے،جس پر اس مسجد کے وقف نامہ کا متن خط نسخ میں کندہ کیا ہوا ہے۔
ستی فاطمہ کی آرام گاہ کے علاوہ ان کے شوہر اور اس مسجد کے بانی امیر چقماق کا مقبرہ بھی معماری کا ایک بے مثال نمونہ ہے۔ اس گنبد کو تیموری معماری سے الہام لے کر تعمیر کیا گیا ہے اور ایران میں منفرد نمونہ ہے۔
شمالی ڈالان کے دونوں طرف معرق ٹائیلوں کے بنے ہوئے پنجرے ہیں۔ ایوان کا صدر دروازہمعرق ٹائیلوں سے سجا ہوا ہے، جن میں کچھ کتیبے موجود ہیں، جن کی عبارت حسب ذیل ہے:
ڈالان کے اوپر دائیں جانب لفظ " اللہ" خط کوفی میں لکھا گیا ہے، اس کے داخل میں بھی اسی خط میں( دونوں اطراف میں ایک دوسرے کے مقابلے میں) سورہ حمد( فاتحہ) اور مذکورہ لفظ کے اوپر ایک سیدھے خط میں :" اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم" اور " بسم اللہ الرحمن الرحیم" لکھا گیا ہے۔ مذکورہ کتیبہ کے اوپر خط کوفی میں لفظ " محمد" لکھا گیا ہے۔
گنبد کے بیرونی حصہ پر اور اس کے ارد گرد، خط کوفی میں یہ عبارت لکھی گئی ہے:" السلطان ظل اللہ"۔ محراب کا اصلی حصہ معرق ٹائیلوں سے بنا ہوا ہے اور اس کے درمیان میں ایک خوبصورت سنگ مرمر نصب کیا گیا ہے جس کی لمبائی 38/ 2میٹر اور چوڑائی 15/1 میٹر ہے۔
سنگ مرمر کے کتیبوں کی عبارت حسب ذیل ہے:" قال اللہ تبارک و تعالی جل جلالہ وعم نوالہ اقم الصلوہ۔ ۔ ۔ مقاماً محموداً صدق اللہ وھو علی کل شیء قدیر" یہ عبارت خط نسخ میں لکھی گئی ہے۔ اس سنگ مرمر کے نیچے دونوں طرف اور درمیان میں قندیل اوربیل بوٹوں کی نقش نگاری کی گئی ہے اور اس کے اطراف میں موجود کتیبہ پر خط کوفی میں یہ عبارت لکھی گئی ہے:"قال اللہ تبارک و تعالی انما یعمر مساجداللہ من آمن باللہ والیوم الاخر واقم الصلوہ واتی الزکوة ولم یخش الا اللہ فعسی اولئک ان یکونوا من المھتدین"
مسجد کے مشرقی صدر دروازہ پرمعرق ٹائیلوں سے بناہوا خط ثلث میں ایک کتیبہ ہے، جسے صفوی دور کے مشہور اور معروف خطاط محمد الحکیم مولانا شمس الدین محمد شاہ حکیم نے لکھا ہے۔ ان ہی کے قلم سے ایک اور کتیبہ مسجد جامع کی اصلی دھیلز پر بھی موجود ہے۔
مسجد امیر چقماق یزد، رات کا ایک خوبصورت منظر