امريکي سينٹروں کي جانب سے کئے جانے والے ايران مخالف اقدامات کا سب سے بڑي اسرائيلي لابي نے زبردست خير مقدم کيا ہے-
امريکہ کے چوہتر سينٹروں نے صدر باراک اوباما کے نام خط ميں ايران کے خلاف دباؤ بڑھانے کي اپيل کي ہے- ان لوگوں نے يہ دعوي بھي کيا ہے کہ ايران کا ايٹمي پروگرام امريکي سلامتي کے لئے سب سے بڑا خطرہ شمار ہوتا ہے-
اس سے قبل امريکي سينٹروں نے ايک بل کي منظوري دي تھي جس کے تحت ايران کے تيل کي امريکہ ميں درآمد پر پابندي اور ايران کے ريڈيو ٹيلي ويژن کے خلاف نئي پابندياں عائد کي گئي ہيں- اوباما کے دستخط کي صورت ميں يہ بل قانون کي صورت اختيار کرجائے گا-
امريکي مقننہ کي ايران دشمني ميں ايسے وقت ميں اضافہ ہوا ہے جب امريکي حکومت ايران کے ساتھ مذاکرات کي بات کر رہي ہے- کچھ عرصہ قبل امريکي وزير خارجہ ہيلري کلنٹن نے کہا تھا کہ واشنگٹن ايٹمي پروگرام سميت تمام معاملات پر ايران کے ساتھ براہ راست بات چيت کے لئے تيار ہے-
امريکي حکام يہ سمجھتے ہيں کہ ايران کے خلاف چھڑي اور گاجر کي پاليسي جاري رکھ کر تہران کواپنےاصولي موقف سے پيچھے ہٹنے پر مجبور کر ديں گے-
گزشتہ تين عشروں کے دوران تہران واشنگٹن تعلقات کا جائزہ لينے سے پتہ چلتا ہے کہ ايران کے ساتھ امريکہ کي مشکل صرف اسکا ايٹمي پروگرام نہيں ہے- درحقيقت امريکہ مشرق وسطي کے علاقے ميں کسي ايسي آزاد و خود مختار حکومت کا وجود برداشت کرنے کے لئے تيار نہيں جو توانائي کے اہم ترين ذخائر کي حامل ہونے کے ساتھ ساتھ بڑي طاقتوں کے مسلط کردہ ضابطوں کو قبول نہ کرتي ہو- امريکہ کی يہ مشکل اس وقت اور بھي پيچيدہ ہوجاتي ہے جب يہي آزاد و خود مختار سياسي نظام ، اسرائيل کو تسليم کرنے سے انکاري ہو اور فلسطيني عوام کي حمايت کا کھلا کھلا اعلان کرنے لگے- ايسے حالات ميں پوري دنيا کي صہيوني لابي حرکت ميں آجاتي ہے اور انکي نظر ميں ايران کي حکومت اور عوام کے درميان کوئي فرق باقي نہيں رہتا-
حاليہ برسوں کے دوران ايران کے خلاف ايسي پابندياں لگائي گئي ہيں جن کا مقصد يہ ہے کہ ملت ايران کو ملک کي حکومت اور ايٹمي پروگرام کي حمايت کي سزا دي جائے- مثال کے طور پر امريکہ اور پورپ کي عائد کردہ بينکاري پابنديوں کي وجہ سے دواوں، غذائي اشيا، اور بچوں کے خشک دوودھ کي ايران کو برآمد بند ہوگئي ہے-
حالانکہ امريکہ اور يورپي ملکوں کا دعوي ہے کہ انہوں نے ايران کے خلاف اسمارٹ پابندياں لگائي ہيں تاکہ ايراني عوام پر کوئي اثر نہ پڑے- ليکن مختلف ملکوں کے خلاف امريکي پابنديوں کے تجربات اس بات کي پوري نشاندھي کرتے ہيں کہ اسکي عائد کردہ اقتصادي پابنديوں کا نشانہ عام لوگ ہي بنتے رہے ہيں جبکہ اکثر اوقات ان پابنديوں کے مطلوبہ نتائج بھي برآمد نہيں ہوسکے ہيں-
يہ بات توانائي کےاہم ذخائر رکھنے والے ملک اور اپنے حقوق کے لئے پر عزم ايراني قوم کے بارے ميں دوسروں سے کہي زيادہ صادق آتي ہے-
بہرحال يہ ساري باتيں بھي صيہوني لابي کے ہاتھوں گرفتار امريکي سينٹروں کي آنکھيں نہيں کھول سکي ہيں- لہذا جب تک واشنگٹن کے مکين اسرائيل کي عينک سے ايران کو ديکھتے رہيں گے امريکہ اور ايران کي مشکلات حل نہيں ہوسکتيں-