اسلامی جمہوریہ ایران جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی آئی اے ای اے کا رکن ملک ہے۔ آئی اے ای اے ایک عالمی ادارہ ہے اور قانونی طور پر اپنے رکن ممالک کے حقوق کے دفاع کا ذمہ دار ہے۔ حال ہی میں (اتوار 11 اپریل 2021ء) نطنز میں واقع ایران کے یورینیم افزودگی کے ایک مرکز میں تخریب کاری انجام پائی ہے جس میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد پائے گئے ہیں۔ لیکن اب تک آئی اے ای اے نے اس واقعہ پر پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے جبکہ بین الاقوامی جوہری توانائی کا ادارہ ہونے کے ناطے اس سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اس میں ملوث قوتوں کے خلاف موثر اقدامات انجام دیتا۔
نطنز کا شمار اسلامی جمہوریہ ایران کے یورینیم افزودگی کے ایسے متعدد مراکز میں ہوتا ہے جو جوہری توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے کی زیر نگرانی فعالیت انجام دے رہے ہیں۔ نطنز میں تخریب کاری کا یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایران میں "قومی اٹامک ٹیکنالوجی ڈے" کی مناسبت سے اس مرکز میں جدید نسل کے سینٹری فیوجز نصب کئے گئے تھے اور ان کا افتتاح ہونا تھا۔ اسرائیل نے نطنز میں انجام پانے والی تخریب کاری کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ تخریب کاری اس مرکز کے الیکٹرک پاور ڈسٹری بیوشن سسٹم میں خلل پیدا کر کے کی گئی تھی۔ اسرائیلی چینل "کان" کی فوجی نیوز رپورٹر کارمیلا مناشیہ نے کہا کہ یہ دھماکہ ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کیلئے انجام پایا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نام خط میں ماضی میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کی دھمکیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "ایسے جوہری مرکز پر دہشت گردانہ حملہ جو آئی اے ای اے کی زیر نگرانی کام کر رہا ہے اور وہاں سے بڑے پیمانے پر تابکاری پھیلنے کا خطرہ بھی پایا جاتا ہے، درحقیقت جوہری دہشت گردی کا ایک مجرمانہ اقدام ہے۔" جوہری ٹیکنالوجی کے حامل ممالک میں سے ایران کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جس کا جوہری پروگرام بارہا دشمنوں کی جانب سے مختلف حملوں اور خطروں کا نشانہ بن چکے ہیں۔
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم، جو خود جوہری ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ رکھتی ہے، ہمیشہ سے ایران کے جوہری پروگرام کے خاتمے پر زور دیتی آئی ہے۔ تل ابیب نے اب تک ایران میں جوہری سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی انجام دیا ہے جس کی تازہ ترین مثال گذشتہ برس تہران میں سیٹلائٹ سے کنٹرول ہونے والی مشین گن کے ذریعے ڈاکٹر محسن فخری زادہ کی شہادت ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر سائبر حملے کرنے کی بھی متعدد کوششیں انجام دی ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ خطرناک کوشش اسٹاکس نیٹ نامی وائرس کے ذریعے کیا گیا تھا۔ یہ وائرس اسرائیل نے خاص طور پر ایران کی جوہری تنصیبات کیلئے تیار کیا تھا۔
اس کے بعد جولائی 2020ء میں نطنز میں ہی سینٹری فیوجز تیار کرنے والے ہال میں دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے میں بھی اسرائیلی حکام نے ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ اس وقت بھی ویانا میں بین الاقوامی اداروں میں ایران کے مستقل نمائندے اور سفیر کاظم غریب آبادی نے آئی اے ای اے کے اجلاس میں اس مسئلے کو اٹھایا تھا اور اس میں اسرائیل کے ملوث ہونے کی نشاندہی بھی کی تھی۔ کاظم غریب آبادی نے آئی اے ای اے کے حکام سے اس حملے کی مذمت کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ دوسری طرف جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کی مختلف قراردادوں میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے رکن ممالک کے حقوق کا دفاع کرے گی۔
آئی اے ای اے اپنی مختلف قراردادوں میں واضح کر چکی ہے کہ: "پرامن مقاصد کے تحت سرگرم جوہری تنصیبات پر کسی قسم کا دہشت گردانہ حملہ اقوام متحدہ کے منشور، بین الاقوامی قانون اور آئی اے ای اے کے دستور کی خلاف ورزی قرار پائے گا۔" ایران کی جوہری توانائی تنظیم کے سربراہ علی اکبر صالحی نے بھی عالمی برادری سے نطنز میں انجام پانے والی دہشت گردی کے خلاف موثر موقف اختیار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس وقت یہ سوال موجود ہے کہ جرمنی اور روس کی جانب سے اس تخریب کاری کی مذمت کئے جانے کے باوجود کیوں آئی اے ای اے اس پر پراسرار خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے؟ اگرچہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ دہشت گردانہ اقدام عالمی قوانین اور آئی اے ای اے کے دستور کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔
تحریر: ڈاکٹر سید رضا میر طاہر