اسلامی انقلاب سے پہلے سرزمین ایران بیہودہ اور بھیانک رخ کی جانب رواں دواں تھا۔ مجموعی طور پر ایران کی مذہبی، سیاسی، اقتصادی، اخلاقی، تہذیبی اور علمی حالت نہایت ابتر تھی۔ انقلاب سے قبل قاجار اور پہلوی کی ذلت آمیز اور مطلق العنان بادشاہت میں یہ سرزمین بے راہ روی، عریانیت، اخلاقی پسماندگی، سیاسی غلامی اور لاقانونیت کی مثال بن گئی تھی۔ ہزاروں سالہ شہنشاہیت نے اس سرزمین کو فتنہ و فساد، ظلم و جبر اور قتل و غارتگری جیسی ہزاروں سماجی برائیوں کا آماجگاہ بنا دیا تھا۔ نااہل اور ناجائز حکمرانوں نے استحصالی نظام تشکیل دیا تھا۔ جہاں دولت کی ہوس میں انسانی و اسلامی اقدار کی توہین کی جا رہی تھی۔ حکومت کے کارندے، علمائے کرام اور باحجاب خواتین کی توہین کرتے تھے، ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا، ان پر طرح طرح کے مصائب اور مظالم ڈھائے جا رہے تھے۔
ان تمام مسائل و مشکلات کے باوجود علمائے کرام کے سرپرستی میں ایران کا غیور اور باشعور طبقہ ظلم و ظالم کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے۔ سختیاں برداشت کیں، مصائب کو گلے لگایا۔ جیلوں کو ترجیح دی۔ سڑکوں پر خون بہایا، لیکن سامراجی زرخرید حکومت سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ ظلم و ظالم کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے، بلکہ تمام فتنوں کے مقابلے میں آکر انسانی و اسلامی اقدار کو ذلت آمیز حکمرانوں کے چنگل سے آزاد کروایا۔ سرزمین ایران پر غیور عوام اور اسلام نے شہنشاہیت کی تاریک تاریخ سے نکل کر سُرخروئی اور سرفرازی حاصل کی۔ اسلامی انقلاب سے پہلے اور بعد کی تاریخ کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلامی انقلاب تاریخ کا ایک پاورفُل، مستحکم، محکم اور صالح انقلاب ثابت ہوا۔
حقیقت یہ ہے انقلاب اسلامی سے پہلے دنیا کی تاریخ الگ ہے اور انقلاب اسلامی کے بعد کی تاریخ پہلے کے مقابلے میں بالکل مختلف ہے۔ انقلاب اسلامی نے نہ صرف سرزمین ایران کی تاریخ بدل ڈالی بلکہ دنیا بھرمیں اس صالح اور معاشرہ ساز انقلاب نے گہرے اثرات چھوڑ کر تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ عرب و عجم کی سیاست میں تاریخ ساز تبدیلیوں کو جنم دیا۔ دنیا بھر کے ہر آزاد منش انسان کی فکری ترجمانی کرکے ان کے اندر مزاحمت، جرائت، شجاعت، صبر و استقلال اور عزم و اسقلال اور یقین محکم کے جذبات بیدار کئے۔ بیسویں صدی کا یہ عظیم الشان انقلاب نہ فقط ایران بلکہ دنیا بھر کے مظلوم اور مستضعف قوموں کے لئے اُمید بن کر ظہور پذیر ہوا۔ اس انقلاب نے ایک منصفانہ، عادلانہ اور صالحانہ نظام تشکیل دیا۔ جس نظام میں تمام مظلوم اور مستضعف قوموں نے اپنی قسمت آزمائی اور الحمد اللہ از انقلاب تا ایں دم یہ صالحانہ نظام، جابرانہ، غیر منصفانہ، ظالمانہ اور طاغواتی نظام پر حاوی رہا۔ نظام انقلاب اسلامی کی برکات سے وقت آپہنچا کہ نام نہاد سپر پاور، شیطان بزرگ امریکہ کے رعب و دبدبہ کا جنازہ دھوم دھام سے نکلا ہے۔
اس انقلاب کے بعد جمہوری اسلامی ایران نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بڑی تیزی کے ساتھ پیشرفت حاصل کی ہے۔ نااہل حکمرانوں نے ایران کا کنٹرول اغیار کے ہاتھ میں رکھا تھا، لیکن بعد از انقلاب ایران کی خود انحصاری اس حد تک پہنچ چکی ہیں کہ ایران نیوکلیئر فیول سائکل، نینو ٹیکنالوجی، بائیو ٹیکنالوجی، صنعت، بجلی، صحت، زراعت اور دیگر شعبوں میں دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ صف اول میں کھڑا ہے۔ انقلاب کے بعد ایران نے پابندیوں کے باوجود طب، انجینرنگ اور زندگی کے دیگر شعبوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور دیگر اسلامی ممالک کے لئے ایک مثال قائم کی ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس نے غیور عوام کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرسکتے ہیں۔ عوام نے علی الاعلان اور دوٹوک الفاظ میں شیطان بزرگ امریکہ اور اس کے حواریوں کو پیغام دیا کہ وہ ملک کی سیاست، اقتصاد نیز مذہبی معاملات میں ان کی مداخلت کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں، بلکہ اپنے کندھوں پر یہ سارا بوجھ بآسانی اور خوشی خوشی کے ساتھ اٹھا سکتے ہیں۔
تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ غیور عوام نے علمائے کرام کی قیادت میں انقلاب اسلامی کے تئیں بیش بہا قربانیاں پیش کی ہیں، یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ انقلاب اسلامی لاکھوں شہداء کے خون سے سینچی ہوئی تحریک کا نام ہے اور یہ تحریک دنیا کی دیگر تحریکوں کی طرح دولت کی ہوس یا کرسی کی لالچ پر مبنی نہیں ہے بلکہ خالص انسانی اور اسلامی اصولوں پر مبنی عظیم الشان تحریک ہے۔ صرف ایک دور کی تحریک نہیں بلکہ یہ تحریک تب تک زندہ و پائندہ ہے، جب تک دھرتی پر آخری آزاد منش اور حریت پسند انسان موجود ہے۔ درحقیقت یہ تحریک، کربلا کی عظیم الشان اور مقدس تحریک کا تسلسل ہے، جس نے باطل ایوانوں کو للکارا ہے، جس نے ظالم اور جابر حکمرانوں کا تختہ پلٹ دیا ہے اور ان نجس اور نحس انسانوں کا وجود ہی صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے لئے ایران کی برگزیدہ شخصیات، علمائے کرام اور دانشوروں نے امام راحل حضرت امام روح اللہ خمینی ؒ کی پیروی میں اہم رول ادا کیا۔ ان شخصیات کی کاوشوں اور قربانیوں سے اسلامی بیداری کی لہر اٹھی، جو سامراجی اور سامراج کے زرخرید حکومت کے لئے ایک آفت بن کر نازل ہوئی اور اس سرزمین سے انہیں اپنا بوریا و بستر گول کرنا پڑا۔ امام خمینی ؒ نے اسلامی انقلاب کے لئے جو تحریک شروع کی تھی، اس کے کئی اہداف تھے، ان میں سے ایک ہدف یہ تھا کہ جن تیل خوروں اور دنیا پر اپنا دبدبہ قائم کرنے والوں نے ایران کو اپنے ہاتھوں میں لیا تھا، اس کو ان کے چنگل سے آزاد کیا جائے۔ کیونکہ انہوں نے پوری ایرانی قوم کو یرغمال بنایا تھا۔ دوسرا اہم ہدف یہ تھا کہ جو اسلامی اقدار پر حملے ہو رہے تھے، ان کا مقابلہ کیا جائے۔ رضا خان پہلوی نے جب سے حکومت سنھبالی تھی، اس دن سے ایران میں برطانیہ اور امریکہ وغیرہ کی مداخلت حد درجہ بڑھ گئی تھی، جس کا ہدف ایران میں اسلام کی جڑیں اکھاڑنا تھا۔ اس سنگین خطرہ کو امام خمینی ؒ نے محسوس کیا۔
تیسرا ہدف امام خمینی کا صیہونیوں سے نمٹنے کا تھا، جو فلسطین کی سرزمین پر قابض بنے بیٹھے تھے، جنہوں نے قبلہ اول کی حرمت پامال کی تھی اور چوتھا ہدف قوم کو غربت اور بدحالی سے نکالنا تھا۔ ایران کے پاس تیل کے زرخیز وسائل تھے، جو دشمن کے نرغے میں تھے، جس کی قیمت برطانیہ اور امریکہ کے ہاتھ میں تھی۔ اس طرح کے دیگر اہداف تھے۔ کلی طور پر ہدف ایران، اسلام اور مسلمین کی سرفرازی اور کامیابی تھا۔ امام راحل نے قرآن و اہلبیت کے پرچم تلے اپنا نصب العین بنایا اور ایک محکم و مستحکم تحریک شروع کی۔ جس کے لئے آپ کو جیل بھی جانا پڑا، طویل جلاوطنی کی زندگی بھی گزارنی پڑی، ساواک کے مصائب و مشکلات بھی جھیلنی پڑیں، لیکن آپ جدوجہد انقلاب میں ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے۔ آخرکار کئی سالوں کی تحریک انقلاب کامیاب ہوگئی اور 11 فروری1979ء کے دن انقلاب اسلامی کا سورج بڑی آب و تاب کے ساتھ نمودار ہوا اور سرزمین ایران پر اللہ کی حکومت قائم ہوئی۔
آج بھی یہ انقلاب قائد انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی رہبری و رہنمائی میں ترقی کی منازل تیزی کے ساتھ طے کر رہا ہے اور دشمن خاص طور پر شیطان بزرگ امریکہ اور غاصب اسرائیل کے لئے ملک الموت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس انقلاب کی برکات سے آج دنیا بھر کے مظلوم سپر پاور امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہے ہیں اور انہیں جنگ کا چلینج دے کر للکار رہے ہیں۔ جمہوری اسلامی ایران بھی سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر علمی میدانوں میں ترقی کے پرچم لہرا کر دشمن کی نیندیں حرام کر رہا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کی 44ویں سالگرہ پر دنیا بھر کے تمام حریت پسندوں کو بالعموم ایرانی قوم و رہبر انقلاب اسلامی کو بالخصوص دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
خدایا خدایا تا انقلاب مہدی ؑ انقلاب اسلامی را محافظت بفرما
خامنہ ای رہبر بہ لطف خود نگہدار
تحریر: مجتبیٰ علی شجاعی