سید ذوالقرنین حیدر
رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے پردہ کر جانے کے بعد اُمت مسلمہ میں ایک عجیب پریشانی کی لہر نظر آنے کو ملتی ہے۔ اُنکے بعد مسلمان ایسے بکھرے جیسے تسبیح کی ڈوری ٹوٹ جانے پہ اُسکے دانے بکھر جاتے ہیں اور اُنکو چننا اور اکٹھا کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر چاہے وہ سقیفہ کا اجلاس ہو یا فدق کا معاملہ، ہر محاذ پہ رسول کے اصحاب میں تشویش کی لہر نظر آئی۔ ایک گروہ خلیفہ اول کے سائے میں پروان چڑھنے لگا اور خلافت کو اپنا نظام تسلیم کیا جبکہ دوسرا گروہ ولایت علی کا پرچار کرنے لگا۔ اقتدار خلیفہ اول کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے تھا یہ علی ابنِ ابی طالب کے، اس سوال نکو لے کر ہر دور کا عام فہم مسلمان آپس میں دست و گریباں ہوئے بیٹھا ہے۔ خدا کے قوانین کی خلاف ورزی ہو رہی ہو یا آپس میں سیاسی مخالفت کی وجہ سے ہنگامے، تاریخ میں جنگِ صفین رونما ہونا تھا کہ خلافت مستقل مزاجی سے جاری نہ رہ پائی اور امیر شام نے اسے رد کرتے ہوئے خود اقتدار سمبھالا اور علی ابنِ ابی طالب سے جنگ کا اعلان کیا۔ بالآخر علی ابن ابی طالب کے خیمے کا محاصرہ انہی کے لشکر نے کیا اور اُنہیں جنگ روکنا پڑی۔ رسول کے بعد خدا کا قانون ہمیشہ سے ہی خطرے میں رہا اور اسکی اہم وجہ خدا کے قانون میں خرافات اور شرک کا آ جانا تھی۔
گزشتہ صدی دین کے نام پہ بننے والی بےشمار تنظیمیں، حزب اور خرافاتی نظریات نے دین کی اصل پہچان کو ہم سے دور کرنا چاہا۔ لیکن دوسری طرف جہاں دینِ خدا ایک طویل عرصے سے اپنا سیاسی وقار کھو بیٹھا تھا وہ اب دوبارہ سے دنیا کی سیاست میں اپنا قدم جمانے لگا۔ جہاں امام خمینی نے دین کو صرف عبادات سے نکال کر انسان کے سیاسی اور معاشرتی نظام کو نافذ کرنے کی طرف قدم بڑھایا، وہاں دوسری طرف اس نظام کو باطل و فاسد قرار دینے کے لئے ایک خودکار بنایا ہوا دین جو اسلام کا لبادہ اوڑے ولایتِ فقیہ پہ انگلی اٹھاتا دکھائی دیا۔ دینِ خدا کا لبادہ اوڑے یہ شیرازی خاندان جس نے دین کی تمام تر تعلیمات مغربی خودکار تعلیمی اداروں میں حاصل کی اور ولایت کا دعویدار بن کر دنیا کے سامنے آیا، اس نے نہ صرف دنیا میں نظامِ خدا نافذ کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کیں بلکہ ہمیشہ اپنے اوچے ہتھکنڈوں سے باز نہیں آیا۔ صیہونی طاقتوں اور شیطانی ہتھکنڈوں کی بدولت تیار پانے والا یہ شیطانی ٹولہ دو طرح کی مختلف خرافات معاشرے میں پھیلتا نظر آیا۔ ایک طرف تو خدا کی ذات کے ساتھ علی کو شریک ٹھیرایا جانے لگا اور دوسری طرف خانوادئہ رسول کی شان میں مستقل مزاجی کے ساتھ گستاخی کی جانے لگی۔ ان دنوں مقاصد کے حصول کے لیے MI6 اور CIA نے عمامہ پہنے جعلی علامہ، خطیب اور ذاکرین کو تعلیم مہیا کی۔ جنہوں نے علی اللہ، ازواج رسول و اصحاب رسول کی بے حرمتی اور خاندانِ رسول کی بے حرمتی جیسے افکار کو معاشرے میں عام کیا۔ سب سے بڑ کر انہوں نے ولایتِ فقیہ کو اپنے ان تمام خرافاتی نظریات کے ذریعے اپنا نشانہ بنایا۔ جہاں دنیا میں ولایت فقیہ کا پرچار ہونے سے صیہونی و استکباری طاقتوں کو ہر محاذ پہ کاری ضرب لگی، وہیں دوسری طرف مظلوم اقوام کو نہ صرف سہارا ملا بلکہ یمن، عراق، فلسطین، بحرین، لبنان، کشمیر اور ایسی بہت ساری بےشمار اقوام اور ملک اس کے سائے تلے متحد ہوئے اور ہر محاذ پہ اس نظام کے ذریعے خود کو کبھی اکیلا نہیں پاتے۔
یہاں اُن شخصیات کا ذکر کرنا لازم ہے جنہوں نے ایک عام فہم مسلمان کی ذہن میں شیعہ اثنا عشری، ولایت فقیہ، مرجعیت اور ازواجِ مطہرات و اصحاب رسول اللہ کی توہین کے متعلق افکار کو ابھارا لیکن جب اُنکو ان بنیادوں پہ پابندی کا سامنا کرنا پڑا تو استکباری طاقتوں نے انسانی حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے اُسے نہ صرف جیل سے آزاد کروایا بلکہ مختلف پلیٹ فارم مہیا کیے جہاں بیٹھ کر اس نے دین سے متعلق خرافات کو عام کیا۔ یہ وہی شخص ہے جسکا نام یاسر الحبیب، جو شیرازی خاندان کا داماد ہے۔ اِنہیں کھلے عام اب یہ موقع فراہم ہوا کہ وہ نہ صرف اصحاب رسول اور ازواج کی شان میں گستاخی کر سکتے ہیں بلکہ ولایتِ فقیہ کو نشانہ بنانا ہی اُنکا اصل ہدف قرار پایا۔ فقہاء کو اُن القابات سے پُکارا گیا جو بیان کرنا بھی مناسب نہیں لیکن کھلے عام ان واقعیات کا ٹیلیویژن پہ نشر ہونے سے استکباری طاقتوں کا اصل چہرہ نمایاں طور پہ سامنے آنے لگا۔
جیسے جیسے ان فاسد نظریات کا رجحان امریکہ اور برطانیہ کی پشت پناہی سے عرب ممالک میں بڑھنے لگا، ویسے ہی ان نظریات کی سامنے ایک عام فہم مسلمان شیعہ اثنا عشری سے متعلق خرافات کا شکار ہوتا چلا گیا۔ عرب ممالک سے یہ خرافاتی فضا جب پاکستان اور ہندوستان کی سرزمین میں داخل ہوئے تو یہ ایک بہت ہی بھیانک شکل اختیار کر چکی تھی۔ بات صرف اصحاب رسول و ازواج مطہرات کی بے حرمتی تک نہ رہی بلکہ اللہ کے ساتھ علی کو شریک ٹھیرایا جانا معمول بن گیا اور یہاں تک کہ خدا سے اوپر قرار دیا جانے لگا۔ ناصبیت اور غلو اور خانوادئہ رسول کی بے حرمتی کا باقاعدہ آغاز جنگِ صفین کے بعد سے ہوا، جب اُمت نے علی کو خدا کا دشمن اور اصحاب و ازواج کی بے حرمتی کی۔ فاسد افکار کی جو چنگاری رسول خدا کے جانے کے بعد اُمت میں لگی وہ آج ایک بہت بگڑی ہوئی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جہاں اُمت قرآن سے دور نظر آئی وہی اُمت امیر شام کے کہنے پہ قرآنِ ناطق کے سامنے قرآن نیزوں پہ لیے کھڑی نظر آئی۔ آج بھی رسول کے وہی اُمتی قرآن نیزوں پہ اٹھائے ولایت کا پرچار کرنے والوں کے سامنے کھڑی ہے اور اُنہیں کوئی روکنے اور پوچھنے والے نہیں۔
1978 عیسوی میں ایک فوجی حاکم کے دورِ حکومت میں مفتی جعفر حسین کا حکومت سے شیعہ اثنا عشری کے حقوق کا مطالبہ کرنا اور سڑکوں پہ نکلنا اور اُنکے بعد شہید عارف حسین الحسینی کا لاہور میں ایک جلسہ منعقد کروانا اور اُن مطالبات کو منظور کروانا اس بات کو واضع کر دیتا ہے کہ کہیں نہ کہیں حکومتی نمائندے بھی استکباری طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہوتے نظر آئے اور شیعہ اثنا عشری کی پہچان کو مسخ کرنے کے لیے ہر حد تک گئے۔ جب ان ہتھکنڈوں سے کام نہ بنا تو اندورنی اور بیرونی جہاد تشکیل پایا اور شہید عارف حسین الحسینی اسکی نظر ہو گئے۔ جہاں خرافات کو ایک طرف سے عام فہم مسلمانوں کے اذہان میں ڈالا گیا وہیں دوسری طرف جہاد کے نام پہ شیعہ اثنا عشری کو سرے سے ختم کرنے کی لئے قتلِ عام کیا گیا۔ جس نے ساری پاکستانی قوم کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ 30 سال تک پاکستانی حکومتی نمائندوں کی پشت پناہی میں مسلمانوں کا قتلِ عام، مساجد میں ناصبیت و غلوویت کا پرچار اور مسلمانوں میں تفرقہ عام ہوا، انہی بنیادوں پہ ہمیں دہشگردوں کی پشت پناہی کرنے والے ممالک میں شمار قرار دیا گیا۔ جہاں قتلِ عام میں کمی آئی تو تکفیر کو بنیاد بنا کر توہینِ اصحاب و ازواج کی گئی اور ہوتی چلی آ رہی ہے۔ آخر کیوں اس قوم کا مسلمان اس قدر خرافات کو اپناتا چلا آ رہا ہے، آخر یہ تکفیر کب دم لے گی؟؟