سلیمانی

سلیمانی

Saturday, 15 March 2025 22:14

خالق کی تلاش

ہر انسان کے ذہن میں فطری طور پر تین سوال پیدا ہوتے ہیں

کہاں سے آیا؟

کس لئے آیا ؟

کہاں جانا ہے ؟

ان سوالات کا جب تک انسان کو کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملے تو اس کے تجسس اور بے چینی میں اضافہ  ہی ہوتا چلاجاتا ہے اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ جب انسان کے ذہن میں کوئی سوال پیدا ہوتا ہے تو جب  تک اس کا صحیح جواب نہ ملے سوال اپنی جگہ پر گردش کرتا رہتا ہے مگر یہ کہ وہ سوال ذہین سے محو ہوجائے۔ لیکن اعتقاد خالق ایک ایسا سوال ہے کہ جوکبھی ذہین سے محو نہیں ہوسکتا کیونکہ جب تک انسان زندہ ہے اسوقت تک اپنی ہستی و خالق کی کھوج میں لگا رہے گا۔

اور یہ بھی معلوم ہے کہ انسان کی ہر مشکل کا واحد حل غور و فکر  اور اس  کے بارے میں بحث و مباحثہ کرنے میں پنہان ہے، اور جب ایک انسان غور و فکر سے ایک صحیح عقیدے کو اختیار کرلیتاہے تو وہ عقیدہ اس کے لئے تسکین قلب مہیا کرتا ہے ۔ انسان ان سوالوں کے جواب سے اپنے معبود کو پا لے گا جیساکہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں "رحم الله امرء ...علم  من أين وفى أين وإلى أين"  خدا  رحم کرے اس بندے پر جس نے یہ جان لیا کہ وہ کہاں سے آیا ہے، کہاں  آیاہے اور کہاں جارہا ہے۔

 

 

Saturday, 15 March 2025 22:10

دیر سے اعتراف

اقوام متحدہ کی جانب سے تشکیل پانے والے آزاد تحقیقاتی کمیشن نے پہلی بار اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے تمام مقبوضہ سرزمینوں پر اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے جس بربریت کا ثبوت دیا ہے وہ نسل کشی کے زمرے میں آتی ہے۔ اس تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی سیکورٹی فورسز اور یہودی آبادکاروں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت منظم انداز میں ٹارچر اور جنسی ہراسانی کو فلسطینیوں کو کچلنے اور انہیں اجتماعی سزا دینے کے لیے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کے ہاتھوں گرفتار ہونے اور ٹارچر کا شکار ہونے والے متعدد فلسطینی باشندوں نے اقوام متحدہ کے سامنے شہادتیں پیش کی ہیں۔
 
سعید عبدالفتاح جن کی عمر 28 سال ہے اور وہ غزہ کے الشفاء اسپتال میں نرس کی ڈیوٹی انجام دیتے تھے صیہونی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار کیے گئے تھے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے گرفتاری کے دوران صیہونی اہلکاروں کی جانب سے وحشت ناک اقدامات سے پردہ ہٹایا اور اپنے ساتھ پیش آنے والے ناگوار واقعات کی وضاحت کی۔ سعید عبدالفتاح نے اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی کو بتایا کہ انہیں کس طرح شدید سردی میں برہنہ حالت میں رکھا جاتا تھا اور مسلسل مار پیٹ کی جاتی تھی جبکہ کئی بار انہیں جنسی زیادتی کی دھمکی بھی دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ میری تفتیش کرنے والا صیہونی اہلکار مسلسل میرے نازک حصوں پر چوٹ لگاتا تھا اور میرے بدن کے مختلف حصوں سے خون بہنا شروع ہو جاتا تھا جبکہ میں یوں محسوس کرتا کہ گویا میری جان نکلنے والی ہے۔
 
اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کو نہ صرف جیلوں بلکہ دیگر چیک پوسٹوں پر بھی جنسی ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ فلسطینی وکیل سحر فرانسس نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ تمام فلسطینی قیدیوں کو غزہ سے گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں جبری تفتیش کا حصہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بعض مواقع پر صیہونی فوجی قیدیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتے اور ان کی تحقیر کرتے تھے۔ اس رپورٹ میں ایک اور فلسطینی گواہ محمد مطر کے بیانات بھی شائع کیے گئے ہیں۔ محمد مطر مغربی کنارے کے رہائشی ہیں اور انہوں نے تحقیقاتی کمیٹی کو بتایا کہ کس طرح صیہونی سیکورٹی فورسز نے انہیں شدید ٹارچر کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ گرفتار کرنے کے بعد ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی، ان کا لباس اتار دیا گیا اور ہاتھ باندھ دیے گئے۔
 
اس کے بعد انہیں بھیڑ بکریوں کا فضلہ کھانے پر مجبور کیا گیا اور ان پر پیشاب بھی کیا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایک صیہونی جلاد نے لکڑی کے ٹکڑے سے انہیں جنسی طور پر ہراساں بھی کیا۔ اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیل نے منظم انداز میں غزہ کے صحت کے مراکز اور اسپتال تباہ کیے ہیں اور ادویہ جات اور میڈیکل کا سامان غزہ میں داخل ہونے سے روکا ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے: "وہ بچے جو آج غزہ میں پیدا ہو رہے ہیں شیرخوارگی کے دوران اور بڑے ہو کر بھی گندے پانی، سردی اور بھوک کے باعث موت کے خطرے سے روبرو رہیں گے۔" اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے جنسی تشدد کو فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے۔
 
غاصب صیہونی رژیم نے صحت کی سہولیات ختم کر کے فلسطینی خواتین اور بچوں کی صحت کو نقصان پہنچایا ہے۔ اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے تاکید کی ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف جنسی تشدد اعلی سطحی فوجی اور سیاسی رہنماوں کے واضح حکم کے تحت انجام پایا ہے اور انہوں نے اس کی باقاعدہ ترغیب دلائی ہے۔ اسی طرح صیہونی فوجیوں نے اپنے مجرمانہ اقدامات کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر شائع کی ہیں۔ اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ ناوی پیلای نے اس رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف جنسی تشدد اسرائیل کی حکومتی پالیسیوں کا حصہ ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو کچلنا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "اس نتیجہ گیری سے گریز نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں میں خوف و ہراس پھیلانے اور اپنی آمرانہ پالیسیاں مسلط کرنے کے لیے جنسی تشدد کا سہارا لیا ہے۔"
 
اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کی اس رپورٹ میں شائع ہونے والے شواہد اور دستاویزات کی روشنی میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ منظم انداز میں ٹارچر کرنا، جنسی زیادتی، جنسی توہین اور فلسطینیوں کے خلاف جنسی تشدد کے دیگر اقدامات اسرائیل کی حکومتی پالیسی کا حصہ ہیں جن کا مقصد فلسطینیوں کی حق خود ارادیت ختم کرنا اور ان کی نسل کشی ہے۔ اقوام متحدہ اب تک اس بات کی تصدیق کر چکی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف انجام پانے والے اقدامات جیسے میڈیکل نظام اور زچہ بچہ کے مراکز کو منظم انداز میں تباہ کرنا نسل کشی کے دائرے میں آتے ہیں۔ اس رپورٹ میں شائع ہونے والے نتائج نے بین الاقوامی قانونی اداروں اور انصاف کے مراکز میں صیہونی رژیم کے خلاف عدالتی کاروائی انجام پانے اور صیہونی حکمرانوں کو قرار واقعی سزا ملنے کا زمینہ فراہم کر دیا ہے۔
 
 

 حسن بن علی بن ابی طالب (3-50ھ) امام حسن مجتبیؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے دوسرے امام ہیں۔ آپ کی امامت کی مدت دس سال (40-50ھ) پر محیط ہے۔ آپ تقریبا 7 مہینے تک خلافت کے عہدے پر فائز رہے۔ اہل سنت آپ کو خلفائے راشدین میں آخری خلیفہ مانتے ہیں۔

21 رمضان 40ھ میں امام علیؑ کی شہادت کے بعد آپ امامت و خلافت کے منصب پر فائز ہوئے اور اسی دن 40 ہزار سے زیادہ لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔ معاویہ نے آپ کی خلافت کو قبول نہیں کیا اور شام سے لشکر لے کر عراق کی طرف روانہ ہوا۔ امام حسنؑ نے عبید اللہ بن عباس کی سربراہی میں ایک لشکر معاویہ کی طرف بھیجا اور آپؑ خود ایک گروہ کے ساتھ ساباط کی طرف روانہ ہوئے۔ معاویہ نے امام حسن کے سپاہیوں کے درمیان مختلف شایعات پھیلا کر صلح کیلئے زمینہ ہموار کرنے کی کوشش کی.. ان فتنوں کے پیش نظر امام حسنؑ نے وقت اور حالات کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے معاویہ کے ساتھ صلح کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ معاویہ قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوگا، اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کرے کا اور تمام لوگوں خاص کر شیعیان علیؑ کو امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرے گا۔ لیکن بعد میں معاویہ نے مذکورہ شرائط میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا...

صلح کے بعد آپ سنہ 41ھ میں مدینہ واپس آ گئے اور زندگی کے آخری ایام تک یہیں پر مقیم رہے۔ مدینہ میں آپؑ علمی مرجعیت کے ساتھ ساتھ سماجی و اجتماعی طور پر بلند مقام و منزلت کے حامل تھے۔

معاویہ نے جب اپنے بیٹے یزید کی بعنوان ولی عہد بیعت لینے کا ارادہ کیا تو امام حسنؑ کی زوجہ جعدہ کیلئے سو دینار بھیجے تاکہ وہ امام کو زہر دے کر شہید کرے۔ کہتے ہیں کہ آپؑ زہر سے مسموم ہونے کے 40 دن بعد شہید ہوئے۔
یہاں ایک ایسے سوال کا جواب حاضر ہے جسے اپنوں کے ساتھ ساتھ غیر بھی کرتے ہیں کہ اگر امام حسن علیہ السلام صلح نہ کرتے تو کیا ہوتا؟!

اگر امام حسن علیہ السلام صلح نہ کرتے تو معاویہ ابن ابی سفیان اسے بہانہ بنا کر یہی وہ لوگ ہیں جو عثمان کے قاتل ہیں اپنے مسلح لشکر کے ساتھ کوفہ میں وارد ہوتا اور وہاں کے حکومتی، سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی نظام کو درھم برھم کرتا،عوام الناس خاص کر شیعیان علی کا قتل‌عام کرتا...

اگر صلح و امنیت کی تدبیر نہ کرتے تو شیعوں کو قتلِ عثمان کے بہانے سب سے زیادہ نقصان پہنچتااور وہ روایات جو امیر (ع) اور اہل بیت (ع) کے فضائل میں آج تک صحاح اور مسانید اہل سنت میں موجود ہیں،ان کا کوئی اتا پتہ نہیں ہوتا... امام حسن (ع) کا یہ طرزِ عمل اور اقدامات امن پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہیں جنہیں ہم امام حسن علیہ السلام کی حد درجہ دور اندیشی، زیرکی، باطنی بصیرت، انتہاء درجے کی عقلمندی، معاملہ فہمی اور صبر و برداشت جیسے اوصاف حمیدہ یا نورِ ولایت و امامت کا نتیجہ قرار دے سکتے ہیں... خود امام حسن مجتبی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے اپنے کے اسباب و وجوہات کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :اگر میں صلح نہ کرتا تو معاویہ ابن ابی سفیان کو یہ موقع فراہم ہوتا کہ وہ ، اس کے نام پر کہ یہ عثمان کے قاتل ہیں، وہ سب کو قتل کر دیتا،اگر اس صلح کا طوق خاردار اس شخص کے گلے میں نہ ڈالا جاتا تو آج ہمارے پاس نہج البلاغہ کا ایک خطبہ بھی نہیں ہوتا ۔

اگر یہ صلح نہ ہوتی تو آج صحاح، سنن اور مسند میں سے ایک روایت بھی ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتی ،اگر یہ صلح نہیں ہوتی تو اسلام اور شیعیت کے لطیف اصول و اقدار ہمارے ہاتھ میں نہ ہوتے ،ہمارے پاس اگر علی (ع) کی سیرت ، پیغمبر اکرم کی صحیح سیرت و تعلیمات، قرآن کی صحیح تفسیر ہمارے وغیرہ موجود ہے تو یہ صلح کا ہی نتیجہ ہے...

یہ کہنا حق بجانب ہے کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام نے معاویہ جیسے مجہول النسل سے صلح کرکے اسلامی اقدار و روایات کو تحفظ فراہم کیا اور شیعیت کو حیات نو بخشی ہے آج جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے وہ امام حسن علیہ السلام کے صبر و استقامت اور آپ کی صلح کا نتیجہ ہے ۔

یہ ساری باتیں امام حسن علیہ السلام کی صلح کے رازوں میں سے ایک راز ہے نیز اس بات سے بھی غض بصر نہیں کرنی چاہیئے کہ چودہ سو سال سے آج تک جو تحریک حسینی دنیائے مظلومیت کیلئے سبق آموز ہے وہ سبط رسول الثقلین حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی دانشمندی کا ہی نتیجہ ہے اگر آپ کی زیرکی و دانشمندی نہ ہوتی تو شاید امام حسین علیہ السلام ؐکا عظیم انقلاب عالم انسانیت کے لئے کبھی مینارہ نور نہیں بن پاتا... افسوس ان رازوں اور مصلحت اندیشی کو دشمن تو دشمن دوست بھی سمجھنے سے قاصر رہے اور صلح کے بعد شہزادہ ءصلح و امن، سردار جوانان ِ جنت، سبط رسول ۔جانِ علی و بتول سے ناراض ہوئے یہاں تک کہ بعض نے آپ کو "مذلّ المؤمنین" (مؤمنین کو ذلیل کرنے والے) سے خطاب بھی کیا جو تاریخ کے اوراق پر آج بھی ثبت ہے

موجودہ جنگ و جدل سے جھلسے دور میں شہزادہ صلح امن حضرت امام حسن کؑی تعلیمات ساری دنیا کے لئے امن و چین کی ضمانت ہیں۔

تحریر: مولانا تقی عباس رضوی کلکتوی

اس آيت کے ضمن میں ایک نکتہ یہ ہے کہ اس بندگی کا سرچشمہ انسان کی فطرت میں موجود ہے۔ انسان اپنی فطرت کے تقاضے کے مطابق طاقت کے ایک ایسے سرچشمے، قدرت و اقتدار کے ایک ایسے مرکز کی طرف مجذوب ہوتا ہے جسے وہ خود سے برتر سمجھتا ہے اور اس کے سامنے سر جھکا دیتا ہے۔ یہ چیز انسان کی روح میں، اس کی ذات میں اور اس کے خمیر میں پائی جاتی ہے، چاہے دانستہ ہو یا نادانستہ۔ دنیا میں کی جانے والی ساری عبادتیں، خدا کی پرستش ہے، یہاں تک کہ بت پرست بھی بباطن اپنی فطرت کے تقاضے کے مطابق جو اسے خدا پرستی کی طرف لے جاتی ہے اور خدا پرستی کی دعوت دیتی ہے، اپنی فطرت کی پیروی کرتا ہے۔ بت پرست بھی اپنے دل کے باطن میں خدا پرست ہے، جو چیز اس کے کام میں مشکل پیدا کرتی ہے وہ اس برتر طاقت اور الہی قدرت کے مصداق کی شناخت میں غلطی ہے۔ ادیان کا کردار یہ ہے کہ وہ انسان کے اس سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کریں، اس کی آنکھیں کھولیں اور اسے بتائيں کہ وہ برتر طاقت کون ہے۔

امام خامنہ ای

24 اپریل 1991

 
 
Wednesday, 12 March 2025 22:29

جولانی کی بربریت

بشار اسد حکومت کی سرنگونی اور خانہ جنگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات کے بعد اس وقت شام میں سیاسی اور فوجی میدان میں اہم تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ "فوجی کونسل برائے آزادی شام" نامی گروہ معرض وجود میں آ چکا ہے جس کی سربراہی شام آرمی کے سابق اعلی سطحی کمانڈر بریگیڈیئر غیاث سلیمان دلا کر رہے ہیں۔ اس گروہ کی تشکیل شام کی تاریخ میں فیصلہ کن موڑ قرار دی جا رہی ہے۔ اس کونسل نے اپنے قیام کا مقصد احمد الشرع یا ابو محمد الجولانی کی سربراہی میں نگران حکومت کی "آمریت" اور "دہشت گردی" کا مقابلہ کرنا بیان کیا ہے اور شام کی سرزمین کو غیر ملکی دہشت گرد عناصر سے پاک کرنے کا عہد کیا ہے۔ فوجی کونسل برائے آزادی شام نے اپنے بیانیے میں وسیع اہداف کا ذکر کیا ہے جن میں "غیر ملکی دہشت گرد گروہوں کے قبضے سے شام کی سرزمین آزاد کروانا" بھی شامل ہے۔
 
اس کونسل نے جن دیگر اہداف کا اعلان کیا ہے ان میں جولانی حکومت کا خاتمہ، آمرانہ اداروں کی تحلیل، شہریوں کے جان و مال کی حفاظت اور جمہوری اصولوں کی بنیاد پر حکومت اداروں کی بحالی شامل ہے۔ اسی طرح فوجی کونسل برای آزادی شام نے جلاوطن افراد کی وطن واپسی اور متحد اور خودمختار شام کی تشکیل پر بھی زور دیا ہے۔ اس کونسل کے قیام کے ساتھ ہی شام کے مختلف شہروں میں جولانی رژیم کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مظاہرین نے ھیئت تحریر الشام کی آمرانہ پالیسیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ احتجاج خاص طور پر ساحلی علاقوں جیسے جبلہ، لاذقیہ، طرطوس اور حلب میں شدت اختیار کر گیا۔ دوسری طرف ھیئت تحریر الشام سے وابستہ تکفیری دہشت گردوں نے فضائی حملوں اور توپخانے کی مدد سے اس عوامی احتجاج کو کچلنے کی کوشش کی جبکہ جولانی رژیم خاموش تماشائی بنی رہی۔
 
یہ سب کچھ ایسے وقت انجام پایا ہے جب بشار اسد حکومت کی سرنگونی کے بعد پہلے دن سے اسرائیل کی غاصب صیہونی فوج شام کے وسیع علاقوں پر قبضہ جمائے بیٹھی ہے اور جولانی رژیم نے اس کے خلاف حتی بیان دینے سے بھی گریز کیا ہے۔ جولانی رژیم سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر اور عوامی مزاحمتی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں ہیں اور موصولہ رپورٹس کے مطابق عوامی مزاحمتی فورسز نے لاذقیہ شہر میں ایک فوجی ہوائی اڈے پر قبضہ بھی کر لیا ہے جبکہ گھات لگا کر متعدد حملے کیے جن میں بڑی تعداد میں تکفیری دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔ اسی طرح بعض موصولہ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لاذقیہ شہر کے کچھ حصوں پر بھی عوامی مزاحمتی فورسز کا کنٹرول برقرار ہو چکا ہے۔ شام کے مغربی علاقوں میں جھڑپیں جاری رہنے سے وہاں انسانی بحران کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
 
شام کے مختلف شہروں میں عوام نے حاکم رژیم کی جانب سے طاقت کے بے جا استعمال کے خلاف مظاہرے کیے ہیں اور عام شہریوں کے قتل عام میں ملوث عناصر کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ لاذقیہ اور طرطوس میں جھڑپوں کی شدت زیادہ ہے اور عوام عام شہریوں کو نشانہ نہ بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف علوی اعلی اسلامی کونسل نے بھی ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں دہشت گردانہ اقدامات کی فوری روک تھام اور بے گناہ عوام کی حمایت کا اظہار کیا گیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر سعودی عرب نے جولانی رژیم کی حمایت کی ہے اور اس پر زور دیا ہے کہ وہ ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے موثر اقدامات انجام دے۔ اسی طرح ترکی نے بھی عجیب موقف اپناتے ہوئے جولانی رژیم کے خلاف احتجاج کرنے والے عوام پر وحدت کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا ہے۔
 
جولانی رژیم سے وابستہ تکفیری عناصر نے عام شہریوں کے خلاف انسان سوز جرائم انجام دینے کی تمام حدیں پار کر دی ہیں۔ ھیئت تحریر الشام کے دہشت گردوں نے تمام ساحلی علاقوں میں علوی باشندوں کے قتل عام کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ان شہریوں کی اکثریت نہتی تھی اور قتل ہونے والوں میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ مزید برآں، بڑی تعداد میں علوی باشندوں کو گرفتار کر کے لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ شام کے ساحلی علاقوں میں جولانی رژیم کی سرپرستی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ قومی صفایا اور نسل کشی ہے۔ ان حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عنقریب شام میں ایک خونریز فرقہ وارانہ خانہ جنگی شروع ہونے والی ہے۔ موجودہ حالات بحران کی پیچیدگی اور شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔ فوجی کونسل برائے آزادی شام ملک کے مختلف حصوں کو جولانی رژیم سے آزاد کروانے کے درپے ہے۔
 
امریکہ اور فرانس اگرچہ جولانی رژیم پر اقلیتی باشندوں کے خلاف اقدامات نہ دینے کے لیے دباو ڈالتے آئے ہیں لیکن وہ بھی علوی فرقے کی اقتدار میں واپسی سے ہراساں ہیں۔ لہذا عین ممکن ہے کہ وہ جولانی رژیم کو علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے باشندوں کو کچل دینے کے لیے سبز جھنڈی دکھا چکے ہوں۔ یوں شام میں شدید خانہ جنگی کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ ایک طرف جولانی رژیم اس پوزیشن میں نہیں کہ علوی فرقے کو مکمل طور پر کچل دے اور دوسری طرف عوام کی اکثریت جولانی رژیم سے تنگ آ چکا ہے اور وہ مزاحمتی گروہوں کی حمایت کرنے میں مصروف ہے۔ لہذا یوں دکھائی دیتا ہے کہ نہ تو جولانی رژیم مخالفین کو پوری طرح ختم کر پائے گی اور نہ ہی مخالفین جولانی رژیم کے خاتمے میں کامیاب ہو پائیں گے۔ اس طرح ایک طویل خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہونے کا احتمال زیادہ ہے۔

Wednesday, 12 March 2025 22:08

علوی کون؟


اپنے دامن میں جولان کی پہاڑیاں رکھنے والا ”ملک شام“ لمحہء موجود میں فتنوں کی جولان گاہ بنا ہوا ہے۔ شام کا جب ذکر آتا ہے تو اس ملک میں بسنے والے علویوں کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے۔ علوی کون ہیں؟ ان کا عقیدہ کیا ہے؟ اس حوالے سے تحقیق کے میدان سے ناآشنا لوگ اپنے ذہنوں میں کئی طرح کے درست اور غلط تصورات رکھتے ہیں، مثلاً ایک یہ نظریہ کہ ان کا تعلق ”نصیری“ فرقے سے ہے، جو مولائے کائنات علی علیہ السلام کو خدا مانتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ علویوں کے ان عقائد کے حوالے سے اس قسم کے خیالات ایسے ہی ہیں، جس طرح کے بے سر و پا خیالات ”شیعہ اثناء عشری“ مسلمانوں کے بارے میں ذہنوں میں بٹھائے گئے ہیں۔ کسی مسلک کے عقائد کی درست طور پر آگاہی اس مسلک کے ذمے دار افراد کے عقائد کو جان کر ہی ہوتی ہے۔

شام کے علویوں کے عقائد کی گتھی عصر حاضر میں ان کے ذمے دار علماء ہی کے ذریعے سلجھائی جا سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اہل تشیع میں ایک منحرف طبقہ وجود میں آگیا تھا، جسے ”نصیری“ کہا جاتا تھا اور شاید اب بھی کچھ گمراہ لوگ اسی قسم کے مشرکانہ عقائد رکھتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے، جیسے اہل سنت کی ایک بھاری تعداد نے قادیانیت کو قبول کیا اور اب بھی روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس تمہید کے بعد اب آئیے دیکھتے ہیں کہ آج کے علویوں کا کیا عقیدہ ہے۔ بعض جید شیعہ علماء اور شام کے علوی علماء کے مابین رابطے، قربت اور افہام و تفہیم کے نتیجے میں علوی فرقے کے علماء نے ایک باضابطہ ”اعلامیہ“ جاری کیا ہے، جس میں انہوں نے دین کے اصولوں اور فروعات پر اپنے عقائد اور اپنے نظریاتی موقف کا اظہار کیا ہے، جس کا ایک حصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔

1۔ ہر علوی مسلمان ہے، شہادتین پڑھتا ہے، اس پر کامل ایمان رکھتا ہے اور اسلام کے پانچ ستونوں کا قائل ہے۔
2۔ علوی مسلمان ہیں اور شیعہ ہیں، نیز پیروان و یاران امام علی (ع) ہیں۔ علویوں کی آسمانی کتاب ”قرآن کریم“ ہے اور ان کا مذہب وہی ہے، جو مذہبِ امام جعفر صادق (ع) ہے۔
3۔ علوی اپنی عبادات، لین دین کے مسائل اور دیگر احکام کے حوالے سے اپنا کوئی جداگانہ مسلک نہیں رکھتے بلکہ وہ اپنے تمام معاملات میں ”مذہب امامیہ“ کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ”مذہبِ جعفری“ ریشہء مذہبِ علوی ہے، ”مکتب جعفریہ“ علوی فرقے کی جڑ ہے اور علوی اس کی شاخ ہیں۔

عقائد مکتب علوی
1۔ اسلام: ہمارا دین اسلام ہے، جو دو شہادتوں کا اقرار کرنے اور اس دین پر ایمان لانے پر مشتمل ہے، جو پیغمبر اسلام لائے تھے۔
2۔ ایمان: خدا، فرشتوں، آسمانی کتابوں اور انبیاء پر سچا ایمان شہادتین کے اقرار کے ساتھ۔
3۔ دین کے اصول: توحید، عدل، نبوت، امامت، معاد۔
4۔ توحید: خدا کی کوئی مثال نہیں اور وہ لاشریک ہے۔
5۔ انصاف: خدا عادل ہے اور کسی پر ظلم نہیں کرتا۔
6۔ نبوت: اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں پر لطف و احسان کرتے ہوئے ان کے لیے برگزیدہ انبیاء کا انتخاب کیا ہے اور معجزات سے ان کی مدد کی ہے۔

7۔ امامت: امامت ایک منصب الہٰی ہے، جسے خدا نے اپنے بندوں کے نفع کے لیے ضروری سمجھا ہے۔ خدا کا فضل اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ ایک نصِ قاطع و صریح کے ساتھ امام کا تقرر کرے۔ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ امام مانند پیغمبر، معصوم ہوتا ہے اور اس سے کسی قسم کا گناہ اور اشتباہ سرزد نہیں ہوتا۔ ہمارے عقیدے کے مطابق امام 12 ہیں۔ رسول خداؐ نے ایک ایک کرکے ان کے ناموں کی تصریح کر دی ہے۔ (امام علی علیہ السلام سے لے کر آخری امام حجت ابن الحسنؑ تک)۔
8۔ معاذ: اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو ان کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے، تاکہ بروز قیامت ان کے اعمال کا حساب لیا جا سکے۔

احکام شرعی چار ہیں
1۔ قرآن کریم
2۔ سنت نبوی
3۔ اجماع
4۔ عقل
ہماری نظر میں ”مرجع تقلید“ کے حوالے سے ہمارا نظریہ وہی ہے، جس کے بارے میں امام زمانہ (عج) نے فرمایا ہے: ”عام لوگوں کو چاہیئے کہ وہ فقہاء میں سے اس شخص کی تقلید کریں، جو خود پر قابو رکھتا ہو، اپنے دین کی حفاظت کرتا ہو، اپنی نفسانی خواہشات کی مخالفت کرتا ہو اور ”مطیع امر مولیٰ“ ہو۔ عام لوگوں کو چاہیئے کہ اس کی تقلید کریں۔

فروعات دین
1۔ نماز فرض ہے۔
2۔ اذان و اقامہ مستحب ہیں۔
3۔ روزہ دین کے ستونوں میں سے ہے۔
4۔ ذکوٰۃ دین کا دوسرا ستون ہے۔
5۔ خمس
6۔ جہاد
7۔ حج
8۔ امر با المعروف و نہی عن المنکر
9۔ تولیٰ و تبریٰ
علوی دیگر تمام اسلامی احکام اور معاملات میں فقہ جعفری پر عمل کرتے ہیں۔ ہمارے فقہاء ”کتب اربعہء شیعہ امامیہ“ کی طرف رجوع کرتے ہیں، جو یہ ہیں: کافی، تہذیب، استبصار، من لا یحضر فقیہ۔ ہمارے عوام ”رسالہ ہائے عملیہء مراجع تقلید“ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس بیانیے پر شام اور لبنان کے 80 علماء نے دستخط کیے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے تہران میں رمضان المبارک کی مناسبت سے یونیورسٹی طلبہ سے ملاقات میں گفتگو کے دوران فرمایا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر یہ کہہ کر کہ ایران مذاکرات نہیں کرنا چاہتا عالمی رائے عامہ کو فریب دینا چاہتے ہیں۔ 

آج ہمارے عظیم بھائی موجود نہیں ہیں: 
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے طلبہ سے گفتگو میں فرمایا کہ گزشتہ سال جب یہ ملاقات ہوئی تھی اس وقت ہماری صورتحال مختلف تھی، پچھلے سال جب ہم نے آپ طلبہ سے ملاقات کی تو شہید رئیسی زندہ تھے، شہید سید حسن نصر اللہ رحمۃ اللہ علیہ ہمارے ساتھ تھے، شہید ہنیہ، شہید صفی الدین، شہید سنوار، شہید ضائف اور دیگر کئی نامور انقلابی شخصیات ہمارے درمیان موجود تھیں، جو اب موجود نہیں ہیں۔ 

انہوں نے فرمایا کہ ہمارے دشمنوں، مخالفوں اور حریفوں نے اپنی سطحی فکر کیوجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں ان واقعات سے منفی اور غلط تاثر لیا ہے، لیکن میں آپ کو پورے اعتماد کے ساتھ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ درست ہے کہ ہمارے بھائی بہت قیمتی تھے اور ان کی عدم موجودگی واقعی ہمارے لیے بڑا نقصان ہے، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اس سال جب ہمارے پاس یہ لوگ نہیں ہیں تو اس کے باوجود پچھلے سال کے مقابلے ہم کچھ مسائل میں پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں اور کچھ مسائل میں ہم قوی تر نہیں ہیں تو کمزور بھی نہیں ہیں۔

دو ضروری عوامل:
آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پاس مختلف پہلوؤں، مختلف جہتوں سے طاقت اور صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے، جو ہمارے پاس پچھلے سال نہیں تھی، بے شک ان پیاروں کی عدم موجودگی ایک نقصان ہے، مغربی ایشیائی خطے میں رونما ہونے والے واقعات تلخ اور تکلیف دہ ہیں، لیکن خدا کا شکر ہے، اسلامی جمہوریہ اپنی طاقت میں اضافہ، ترقی اور پیش رفت جاری رکھے ہوئے ہے، ان عظیم کرداروں کا کھو جانا بڑا نقصان ہے، لیکن اگر عظیم مقصد اور اس کے حصول کی کوشش یہ دو شرائط موجود ہیں تو مجموعی طور پر تحریک متاثر نہیں ہوگی۔

رہبر معظم انقلاب نے فرمایا کہ ہجرت کے تیسرے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احد کی جنگ میں حضرت حمزہ جیسے شخص کو کھو دیا، حضرت حمزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ چھوڑ گئے، یہ صرف حمزہ نہیں تھے، ان لوگوں میں سب سے نمایاں حمزہ تھے اور پھر دوسرے بہادر لوگ، دوسرے ساتھی بھی بچھڑ گئے، لیکن ہجرت کے چوتھے اور پانچویں سال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہجرت کے تیسرے سال کے مقابلے میں بہت زیادہ مضبوط تھے۔

انہوں نے فرمایا کہ ممتاز شخصیات کے چھن جانے کا مطلب کسی بھی طرح سے دھچکا لگنا، عقب ماندگی یا کمزوری نہیں ہے، اگر آپ کے پاس عظیم مقصد اور اس کے حصول کی کوشش جیسے دو عوامل موجود ہیں تو تحریک جاری رہتی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ اگر یہ دو عوامل کسی قوم میں موجود ہوں تو اس کے باوجود کہ شخصیات کی موجودگی یا عدم موجودگی نقصان کا باعث ہوتی ہے، لیکن مجموعی تحریک کو نقصان نہیں پہنچتا۔ 

نئی نسل مسائل کو سمجھنے اور سب سے آگے کھڑے ہونے کے حوالے سے پچھلی نسل سے بہت بہتر ہے:
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے رمضان المبارک کی مناسبت سے طلباء سے ملاقات میں فرمایا کہ آج کی یونیورسٹی انقلاب سے پہلے کی یونیورسٹی سے اور انقلاب کے 20 سال بعد کی یونیورسٹی سے بہت مختلف ہے، آج یونیورسٹی آگے جا چکی ہے، اب بہت ترقی ہو چکی اور بہتری آ  چکی ہے، مختلف مسائل کے بارے میں اس نسل کی سمجھ زیادہ عمیق اور گہری ہے اور موجودہ نسل میں مقاومت کا پہلو بھی مضبوط ہے، یہ اس کے برعکس ہے جو بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ ایرانی طلباء اور نوجوانوں کی نئی نسل 1960 کی دہائی کی طرح تیار نہیں ہے، ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ یہ آمادگی آج بھی موجود ہے، ہم نے اسے مختلف صورتوں میں مشاہدہ کیا ہے اور آج بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ایرانی نوجوان دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں، وہ آمادہ ہیں، ان کی فہم و فراست بہتر ہے، اللہ کا شکر ہے۔

عالمی غنڈے اپنی رائے مسلط کرنا چاہتے ہیں:
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے طلباء سے ملاقات میں فرمایا کہ آج دنیا کے غنڈے کہتے ہیں کہ ہر ایک کو ہماری اطاعت کرنی چاہیے اور اپنے مفادات پر ان غنڈوں کے مفادات کو ترجیح دینا چاہیے، لیکن اسلامی ایران واحد ملک ہے جس نے اس بات کو واضح طور پر رد کیا ہے۔

امریکی صدر عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینا چاہتا ہے:
رہبر معظم انقلاب نے طلباء سے ملاقات میں فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر کیطرف سے مذاکرات کی دعوت عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کی کوشش ہے، وہ دنیا کو فریب دیکر باور کروانا چاہتے ہیں کہ ہم مذاکرات پر آمادہ ہیں، امن  اور صلح چاہتے ہیں لیکن ایران راضی نہیں ہے، ایران مذاکرات پر کیوں آمادہ نہیں؟ یہ تم ہو جو پیچھے ہٹ جاتے ہو۔ انہوں نے مزید  فرمایا کہ ہم نے کئی سالوں تک بیٹھ کر بات چیت کی، اسی شخص نے تیار شدہ، مکمل، دستخط شدہ معاہدے کو اٹھا کر پھینک دیا اور اسے پھاڑ دیا، ہم جانتے ہیں کہ یہ مذاکرات کی دعوت کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ رکھتا ہے تو امریکہ اسے روک نہیں سکتا، یہ حقیقت ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں تو اس کی وجہ ہماری اپنی مرضی ہے۔

وہ بابصیرت خاتون جو عام الفیل سے ۱۵ سال قبل اور ہجرت سے ۶۸ سال قبل شہر مکہ میں پیدا ہوئیں۔
وہ یکتا پرست خاتون جو اسلام سے قبل یعنی زمانہ جاہلیت میں بھی آسمانی کتابوں پر اعتقاد رکھتی تھیں اور خدائے وحدہ لا شریک کی پرستش کرتی تھیں، وہ اپنے تجارتی کاروان کو دور دراز ممالک کی طرف روانہ کرتے وقت کعبہ میں جا کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خدا سے اپنی تجارت میں برکت حاصل ہونے کی دعا کرتی تھیں۔
وہ بااخلاق خاتون جن کی توصیف عصر جاہلیت میں حضرت ابو طالب اس طرح سے کرتے ہیں:انّ خديجةَ اِمْرَأَةٌ كامِلَةٌ مَيمُونةٌ فاضِلَةٌ تَخْشَي العار و تَحْذِرُ الشَّنار(۱)۔بے شک خدیجہ ایک کامل پربرکت اور فاضلہ عورت ہے جو ہر قسم کے ننگ و عار اور بدنامی سے دور ہے۔
وہ خوبصورت خاتون کہ امام حسن مجتبٰی علیہ السلام تمام تر کمالات کے باوجود اپنے آپ کو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے شبیہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔۔وَ كُنْتُ أَنَا أَشْبَهَ اَلنَّاسِ بِخَدِيجَةَ اَلْكُبْرَى(۲)۔ میں خدیجہ کبری سے سب سے زیادہ شباہت رکھنے والا ہوں۔
وہ پاکیزہ خاتون جس کی پاکدامنی کی وجہ سے ایام جاہلیت میں ہی آپ کو طاہرہ کے لقب سے نوازا گیا تھا۔
وہ عظیم خاتون جس نے سب سے پہلے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی، اسلام قبول کیا اور اسلام کی پہلی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ادا کی۔
آپ وہ پارسا خاتون ہیں جن کی ایمان کی گواہی حضرت علی علیہ السلام دیتے ہوئے فرماتے ہیں:لم یجمع بیت واحد یومئِذٍ فی الاسلام غیر رسول اللّٰه و خدیجہ و انا ثالثھا( ۳)۔ جب روئے زمین پر کوئی مسلمان نہ تھا بجز اس خاندان کے جو رسول اور خدیجہ پر مشتمل تھا اور تیسرا فرد میں تھا۔
وہ مالدار خاتون جو تجارت کرتی تھیں اور اپنے سرمایہ کو مضاربہ اور لوگوں کو تجارت کے لئے استخدام کرنے میں استعمال کرتی تھیں۔
وہ شریف خاتون جس کے لئےخداوند نے خیر اور کرامت کو مدنظر رکھا، جو نسب کے لحاظ سے عرب کے ایک متوسط گھرانے سے متعلق تھیں لیکن عظیم شرافت اور دولت کی مالکہ تھیں۔
وہ پاک طینت خاتون جن کی خصوصیات میں فضیلت پسندی، فکری جدت، عشق و کمال اور ترقی جیسی خصوصیات شامل ہیں۔
وہ نجیب خاتون جو نوجوانی کی عمر سے ہی حجاز اور عرب کی نامور اور صاحب فضیلت خاتون سمجھی جاتی تھیں۔
وہ پاکدامن خاتون جس نے اپنا رشتہ مانگنے والے اشراف قریش کی درخواست مسترد کرکے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شریک حیات کے عنوان سے منتخب کیا اور یوں مادی و دنیاوی ثروت کی نعمت کو آخرت کی سعادت اور جنت کی ابدی نعمتوں سے مکمل کیا اور اپنی عقلمندی و دانائی اپنے زمانے کے لوگوں کو جتا دی۔
وہ عفیف خاتون تھیں جنہیں ایسے شوہر کی تلاش تھی جو متقی اور پرہیزگار ہو، ملک شام سے واپس آنے کے بعد جب میسرہ غلام نے سفر کے واقعات حضرت خدیجہ (س) کو بتائے تو ان کے دل میں امین قریش کیلئے جذبہ محبت و الفت بڑھ گیا البتہ اس محبت کا سرچشمہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذاتی کمالات اور اخلاقی فضائل تھے۔
وہ باکردار خاتون جس نے خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھیجا اور اس کا فلسفہ کچھ اس طرح بیان فرمایا، "اے میرے چچا زاد بھائی چونکہ میں نے تمہیں ایک شریف، دیانتدار، خوش خلق اور راستگو انسان پایا اسی وجہ سے میں تمہاری جانب مائل ہوئی ہوں (اور شادی کے لئے پیغام بھیجا ہے)”۔
وہ ملیکۃ العرب جن کے بارے میں شیعہ و سنی مورخین کے ایک گروہ کا عقیدہ یہ ہے (ابو القاسم اسماعیل بن محمد اصفہانی، ابو القاسم کوفی، احمد بلاذری، علم الدی سید مرتضٰی کتاب شافی اور شیخ طوسی کتاب تلخیص شافی) کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شادی کرنے کے وقت حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کنواری تھیں اور اس سے پہلے ان کا کوئی شوہر نہیں تھا(۴ )۔وہ دور اندیش خاتون جو ظاہری حسن و جمال اور کافی سرمایہ اور بہتر اجتماعی حیثیت کی مالکہ ہونے کے باوجود کبھی اس زمانہ کے معاشرہ کے بظاہر پرکشش حالات کے دھوکہ میں نہیں آئیں اور انسانی فضائل و صفات کو ہرگز نہیں چھوڑا۔
وہ نیک خاتون جس نے قرآن کے احکام پر عمل اور اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کی امداد کے لئے اپنی دولت خرچ کرکےرسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس اہداف کی راہ میں اپنی پوری دولت قربان کر دی اور اسلام کی ترقی و پیشرفت میں ناقابل انکار کردار ادا کیا۔ وہ سخی خاتون جس نے اپنی ساری دولت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بخش دی لیکن یہ محسوس نہیں کر رہی تھیں کہ اپنی دولت آپ کو بخش رہی ہیں بلکہ محسوس کر رہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت، محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور دوستی کی وجہ سے، آپ کو عطا کر رہا ہے دنیا کے تمام خزانوں پر فوقیت رکھتی ہے۔
وہ کریم خاتون جس کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے:ما نَفَعَنِي مالٌ قَطُّ ما نَفَعَني (أَو مِثلَ ما نَفَعَني) مالُ خَديجة(۵)۔ کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ مجھے خدیجہ (س) کی دولت نے پہنچایا۔ وہ نیک خاتون جو اسلامی تاریخ کی بہت بہترین عورتوں میں سے ایک تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، دنیا میں چار بہترین عورتیں گزری ہیں۔
ا۔ خدیجہ بنت خویلد
۲۔ فاطمہ بنت محمد
۳۔ مریم بنت عمران
۴۔ آسیہ بنت مزاحم۔
وہ باوفا خاتون جس کے بارے میں عائشہ کے اس بیان پر (کہ یا رسول اللہ خدیجہ ایک ضعیفہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھی جو مرگئی اور خدا نے آپ کو اس سے برتر عطا کر دی ہے)، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے غضبناک ہو کر فرمایا:لا واللّٰه ما ابد لنی اللّٰہ خیرا منھا اٰمنت بی اذکفر الناس و صدقتنی اذکذبنی الناس و واستنی بھا لھا اذحرمنی الناس و رزقنی منھا اللّٰه ولدا دون غیرھا من النساء( ۶)۔ خدا کی قسم خدا نے مجھے اس سے بہتر عطانہیں کی وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ہوئے تھے، اس نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور اس نے اپنے مال کے ذریعہ میری اس وقت مدد کی جب لوگوں نے مجھے ہر چیز سے محروم کر دیا تھا، اور خدا نے صرف اسی کے ذریعہ مجھے اولاد عطا فرمائی اور میری کسی دوسری بیوی کے ذریعہ مجھے صاحب اولاد نہیں کیا۔
وہ بافضیلت خاتون جس کے لئے خداوند متعال نے اس دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: قال لي جبرائيل: بشّر خديجة ببيت في الجنة من قصب لا صخب فيه و لا نصب فيه، يعني قصب الزمرد(۷)۔  جبرئیل نے مجھے بشارت دی ہے کہ خدیجہ تمہارے لیے بہشت میں ایک قصر ہے اور وہ قصر زمرد کا بنا ہوا ہے۔
وہ جانثار خاتون جس کی اور حضرت ابو طالب علیہما السلام کی جدائی پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار دیا اور یہ مصیبت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے لئے اتنی سخت تھی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خانہ نشین ہو گئے۔
وہ باحیاء خاتون جو جب تک زندہ رہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اطمینان و سکون کا سبب بنی رہیں۔ دن بھر کی تبلیغ سے تھک کر اور کفار کی ایذا رسانیوں سے شکستہ دل ہوکر جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں قدم رکھتے تو جناب خدیجہ کی ایک محبت آمیز مسکراہٹ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرجھائے ہوئے چہر ے کو پھر سے ماہ تمام بنا دیا کرتی تھی۔
وہ پرہیزگار خاتون جس نے اسلام اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان کو اپنے عمل سے عجین کیا اور اس حدیث شریف کا مصداق ٹھہری جس میں کہا گیا ہے کہ: الإیمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ وَ إِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ عَمَلٌ بِالْأَرْكَانِ( ۸)۔ ایمان قلبی اعتقاد، زبانی اقرار اور اعضاء و جوارح کے ذریعے عمل کا نام ہے۔
وہ باکمال خاتون جن نے مکہ کی عورتوں کی طعنہ زنی اور انکے مذاق کہ انہوں نے کیوں عبداللہ کے یتیم کے ساتھ شادی کی کے جواب میں بڑی متانت سے فرمایا، کیا آپ لوگ پوری سرزمین عرب میں محمد {ﷺ} جیسے نیک، پسندیدہ خصلت والے اور شرافت کے مالک کسی دوسرے شخص کو پیدا کر سکتی ہیں؟
وہ اطاعت گذار خاتون جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کی من و عن اطاعت کرتی تھیں اور انہیں عملی جامہ پہناتی تھیں۔ جن کی وجہ سے آپ نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی حیات میں دوسری شادی نہیں کی اور انکی وفات کے بعد بھی انہیں فراموش نہ کرسکے اور ان کی نیکیوں کا ذکر فرماتے رہتے تھے۔
وہ عظمت والی خاتون جنہیں جنت کے جوانوں کے سردار کی نانی بننے کا شرف حاصل ہوا۔ ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں حسن اور حسین علیہما السلام کی شان میں فرمایا، (ایھا الناس الا اخبرکم بخیر الناس جدا و جدہ؟) اے لوگو؛ کیا میں تمھیں خبر دے دوں کہ نانا اور نانی کے لحاظ سے بہترین انسان کون ہیں؟ لوگوں نے عرض کی؛ جی ہاں، یا رسول اللہ ہمیں خبر دیجئے؛ آنحضرت {ﷺ} نے فرمایا: الحسن و الحسین جدھما رسول اللہ و جدتھما خدیجہ بنت خویلد( ۹)۔

وہ حسن و حسین علیہما السلام ہیں کہ ان کے نانا رسول خدا اور ان کی نانی خدیجہ بنت خویلد ہیں۔ وہ بلند مرتبہ خاتون جن کے بارے آئمہ اطہار علیہم السلام فخر و مباہات کا اظہار کرتے تھے، اور ان کو عزت و احترام سے یاد کرتے تھے۔ حضرت امام حسن مجتبٰی علیہ السلام معاویہ سے مناظرہ کرتے ہوئے اپنی سعادت و خوش قسمتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں،”معاویہ؛ چونکہ تمھاری ماں "ہند” اور دادی "نثیلہ” ہے (اور تم نے اس قسم کی پست اور کمینی عورتوں کی آغوش میں پرورش پائی ہے) اس لئے تم اس قسم کے برے اور ناپسند اعمال کے مرتکب ہو رہے ہو، میری خاندان کی سعادت، ایسی ماؤں کی آغوش میں تربیت پانے کی وجہ سے ہے کہ جو حضرت خدیجہ اور فاطمہ سلام اللہ علیہما جیسی پاک و پارسا خواتین ہیں۔
امام حسین علیہ السلام نے عاشور کے دن اپنے آپ کو دشمن کے سامنے متعارف کراتے ہوئے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا: أَنْشُدُكُمُ اللّٰهَ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ جَدَّتِي خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ أَوَّلُ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِسْلَاماً قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ(۱۰)۔ تمھیں خدا کی قسم کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ میری نانی خدیجہ (س) بنت خویلد اس امت کی پہلی خاتون نہیں کہ جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ہے؟ سب نے کہا جانتے ہیں۔ امام سجاد علیہ السلام دمشق میں دربار یزید میں شام کے سرداروں اور بزرگوں کے سامنے اپنے مشہور خطبہ میں اپنا تعارف یوں کرواتے ہیں، (انا بن خدیجۃ الکبری)( ۱۱)۔ میں اسلام کی باعظمت خاتون حضرت خدیجہ کبریٰ (س) کا بیٹا ہوں۔
وہ خوش قسمت خاتون جن کا کفن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک عبا تھی۔ آپ نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلا فرمایا، ” اے میری نور چشم؛ اپنے باپ، رسول خدا سے کہدو کہ میری ماں کہتی ہیں کہ میں تدفین کے مراسم کے بارے میں آپ (ص) سے درخواست کر رہی ہوں کہ مجھے اپنی اس عبا کا کفن دے کر قبر میں دفن کرنا جو وحی نازل ہوتے وقت آپ کے زیب تن ہوتی ہے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے اس بات کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی، پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عبا کو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے لئے بھیجا اور وہ خوش ہو گئیں۔(۱۲)
وہ مہربان خاتون جن کی رحلت کے وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بالین پر بیٹھ کر رو رہے تھے۔ اچانک جبرائیل بہشت سے ایک کفن لے کر حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی، "یا رسول اللہ خداوند متعال نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ خدیجہ نے اپنے مال کو ہماری راہ میں صرف کیا ہے ہمیں حق ہے کہ ان کے کفن کی ذمہ داری خود سنبھالیں۔
وہ مومنہ خاتون جنہیں خداوند متعال اور جبرئیل امین سلام بھیجتے ہیں۔ ابو سعید خدری نقل کرتے ہیں کہ پیامبر خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، میں نے معراج کی شب جبرائیل سے پوچھا کہ کیا کوئی حاجت رکھتے ہو؟ جبرئیل امین نے کہا،(حاجتي أن تقرأ على خديجة من اللّٰه و مني السلام) میں چاہتا ہوں کہ خدا اور میری طرف سے خدیجہ کو سلام کہئے۔ جب پیامبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو سلام پہنچایا تو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا: إن اللّٰه هو السلام، و منه السلام، و إليه السلام، و على جبرئيل السلام(۱۳)۔ بیشک اللہ خود سلام ہے اور تمام سلامتی اسی کی طرف سے ہے اور اسی کی جانب پلٹتی ہیں اور جبریل پر سلام ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔ بحارالانوار، ج۱۶،ص ۵۶-۷۵۔
۲۔ بحارالانوار، ج۲۴،ص۳۱۶۔
۳۔ بحارالانوار،ج۱۵، ص 361
۴۔ ابن شہرآشوب، المناقب آل ابی طالب، ج۱، ص۱۵۹۔
۵۔ الاصابہ ج /۸ص /۱۰۱، اسد الغابہ ج/۵ص /۴۳۱، سنن ترمذی کتاب مناقب /۳۸۸۶۔
۶۔ بحارالانوار، ج 19، ص 63.
۷۔ صحیح بخاری،ج 3 / 1389، الرقم: 3608۔ابن حیون 1409ق 3/ 17
۸۔ کلینی، الکافی، ج2، ص 27۔
۹۔ بحارالانوار، ج۴۳،ص۳۰۲۔
۱۰۔ بحارالانوار، ج۴۴،ص۳۱۸۔
۱۱۔ بحارالانوار، ج۴۴،ص۱۷۴۔
۱۲۔ خدیجہ ہمسرپیامبر، اسطورہ ایثار و مقاومت، محمد محمدی اشتہاردی، ص۲۶۲۔
۱۳۔ عیاشی،1380ق: ج2ص279؛ابن عبدالبر،1412: 4/1821؛ابن اثیر 1409: 8/102۔

 

خدا کی پہچان مختلف طریقوں اور ذرائع سے ہو سکتی ہے یہ اس بات پر منحصر ہے کہ خدا کا متلاشی کس صلاحیت کا مالک ہے؟ اس کی ذہنی سطح کیا ہے؟ ہر چیز انسان کو خدا کی طرف لے کر جاتی ہے شرط فقط یہ ہے کہ انسان اپنی پوری بساط کے مطابق گہرا مطالعہ کرے اور ان ادلہ کو سمجھے جو تخلیق انسان اور اتنے منظم نظام کو قائم رکھنے اور چلانے میں قائم ہیں۔
آئیں کچھ چھوٹی چھوٹی مثالوں پر غور کرتے ہیں۔ایٹم ایک معمولی سا ذرہ ہے اس سے لے کر کہکشاوں تک غور کریں اس میں موجود پورے نظا م کا مطالعہ کریں یہ سب ایک استاد کی طرح آپ کی رہنمائی کرتے ہوئے آپ کو ایک سپر پاور کے وجود کی طرف لے جائے گا۔وہ سپر پاور جو ایٹم سے لے کر کہکشاوں تک کے نظام کا بندوست کرتی ہے،ہمیشہ ان کی نقل و حرکت کو منظم کرتی ہے،وہ طاقت ایسی ہے جو ایسا کام کرتی ہے جسے کرنا عام طاقتوں کے لیے ممکن نہیں ہے۔تمام موجودات میں غور و فکر کرنا ایک ایسے نظام کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو اس تمام کائنات پر حاکم ہے۔
قرآن مجید درست عقیدے کے لیے ہر انسان کی رہنمائی کرتا ہے اور انسان کو ضلالت و گمراہی سے بچاتا ہے۔ یہ بچانا کئی طریقوں سے ہے سب کے سب میں یہ بات مشترک ہے کہ غور و فکر کرنا ہو گا سوچنا ہو گا مخلوق سے خالق کی طرف سفر کرنا ہو گا آنکھوں سے دیکھنا اور قوت لامسہ سے لمس کرنا ہو گا آسمانوں اور زمین میں دقت نظر کرنی ہو گی اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
(قُلِ انظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَا تُغْنِي الْآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ) (يونس ـ101)
کہدیجئے: آسمانوں اور زمین میں نظر ڈالو کہ ان میں کیا کیا چیزیں ہیں اور جو قوم ایمان لانا ہی نہ چاہتی ہو اس کے لیے آیات اور تنبیہیں کچھ کام نہیں دیتیں۔
اسی طرح دن اور رات کے آنے جانے میں غور کرنا ہو گا ارشاد باری تعالی ہے:
(إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ) (البقرة ـ164)

یقینا آسمانوں اور زمین کی خلقت میں، رات اور دن کے آنے جانے میں، ان کشتیوں میں جو انسانوں کے لیے مفید چیزیں لے کر سمندروں میں چلتی ہیں اور اس پانی میں جسے اللہ نے آسمانوں سے برسایا، پھر اس پانی سے زمین کو مردہ ہونے کے بعد (دوبارہ) زندگی بخشی اور اس میں ہر قسم کے جانداروں کو پھیلایا، اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں عقل سے کام لینے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
انسان کو دعوت فکر دی گئی ہے کہ وہ اس مادہ پر غور کرے جس سے اس کی تخلیق کی گئی ہے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
(فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ) (الطارق ـ5)
پس انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔
قرآن مجید کی اور بہت سی آیات اسی طرح غور و فکر کی طرف رہنمائی کری ہیں۔ان آیات میں اس بات کی طرف رہنمائی کی گئی ہے کہ انسانی تجربے اور اس کی قوت حواس کو استعمال میں لا کر اللہ تعالی کے وجود کو ثابت کیا جا سکتا ہے اور اس کی معرفت حاصل کی جا سکتی ہے۔عالم ہستی کے نظام کے ذریعے خدا کی معرفت تک پہنچنے کا عمل برھان نظم کہلاتا ہے۔برھان نظم اللہ کے وجود پر سب سے بڑی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے کیونکہ وجود خدا پر بہت سی دلیلوں کے ذریعے استدلال کیا جاتا ہے۔اس کائنات کا منظم نظام اور اس میں موجود تمام نظاموں کا باہمی طور پر مربوط رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی خالق ہے جس نے اتنا منظم نظام بنایا ہے اور یہی اس بات کی بھی دلیل ہے کہ وہ خالق اس نظام کو چلا بھی رہا ہے ورنہ یہ نظام بغیر چلانے والے کہ نہیں چل سکتا تھا۔یہ ایسا خالق ہے جو تنہا ہی طاقت و حکومت کا مالک ہے اور اس کی حکومت میں ہی یہ پیچیدہ ترین نظام انتہائی منظم انداز میں چل رہا ہے۔اگر یہ طاقتور خالق چلانے والا نہ ہوتا تو یہ نظام کب کا تباہ ہو چکا ہوتا۔یہ نظام منظم نظام ہے جس میں تناسب پایا جاتا ہے ہر چیز خاص مقرر انداز میں اس کا حصہ ہے اس پر حاکم کی حکومت میں کوئی شریک نہیں ہے اور وہی حاکم اللہ تعالی کی ذات ہے۔کسی بھی عقیدے سے مطمئن ہونے سے پہلے او رکسی بھی دینی اور غیر دینی نظریہ کو اختیارکرنے سے پہلے اس عظیم الشان بنانے والے کی پہچان ضروری ہے جس نے اس لا متناہی نظام کو تشکیل دیا ہے جس نے اس نظام کو خلق کیا ہے وہی خالق اللہ تعالی ہے۔

 ماہ مبارک رمضان ولادت قرآن کریم، انس قرآن، بہار قرآن، پہچان قرآن اور اس سے فکری اور عملی فائدہ حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔ ایسا مہینہ کی جس کی شب قدر میں قلب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے مکمل قرآن کو جبرائیل امین علیہ السلام سے وصول کیا۔ قرآن مجید لوح محفوظ سے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیع و نورانی قلب پر اتارا گیا۔ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں ہم سب روزہ رکھنے، عبادت کرنے، مناجات و دعا کر کے معنوی آمادگی کے ذریعے سے قرآن مجید کے استقبال کیلئے اگے بڑھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ خالص روزے، دعا و مناجات کے پرتو میں ہم قرآن کے نزدیک سے نزدیک تر ہوتے ہوئے یہ مصمم ارادہ کریں کے قرآن کے ساتھ ہمارا رابطہ محکم سے محکم تر ہو جائے۔

 قرآن کریم ماہ مبارک رمضان کی وہ روح ہے جو اسکے جسم میں پھونکی جا چکی ہے، جس سے اس مہینے کی عظمت دوگنی چگنی ہو گئی ہے۔ قرآن قلب ماہ مبارک رمضان ہے جس کے تپش کے بغیر روزہ دارون کی رگوں میں معنوی زندگی کی حقیقت جاری نہیں ہوتی۔ قرآن دلوں کی بہار اور ماہ مبارک رمضان قرآن کی بہار ہے جیساکہ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں "لِکُلِّ شَیْ‌ءٍ رَبِیعٌ وَ رَبِیعُ الْقُرْآنِ شَهْرُ رَمَضَان"‌ ہر چیز کی ایک بہار ہوتی ہے قرآن کی بہار ماہ رمضان ہے (علامہ مجلسی، بحار الانوار ج 96 ص 386) اسی طرح امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں قرآن میں تدبر کرو کیونکہ قرآن دلوں کی بہار ہے "وَ تَفَقَّهُوا فيه فَاِنَّهُ رَبـيعُ القُلُوبِ" (سید رضی، نہج البلاغہ خطبہ نمبر 110) اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا شب قدر قلب ماہ مبارک رمضان ہے :"قَلبُ شَهرِ رَمَضانَ لَيلَةُ القَدرِ" (بحار الانوار ج 96 ص 386(

 اس سے معلوم ہوا کہ ماہ رمضان کی برکات کا بڑا حصہ قرآن سے متعلق ہے لذا ہمیں چاہیئے اس مبارک مہینے میں اپنے دلوں کی کھیتی میں قرآن مجید کے نورانی اصولوں کے بیج بوئیں تاکہ معنوی رشد و ترقی کر سکیں اور قرآن کے پھل کو اپنی روح کیلئے غذا قرار دیتے ہوئے قوت قلوب کو قرآنی برکات کی روشنی میں محفوظ بنائیں۔ اس طرح کے فوائد انسِ قرآن کے بغیر حاصل کرنا دشوار ہے۔  

اُنسِ قرآن مجید:

 امام الموحدين علی بن ابی طالب علیہ الصلواہ والسلام فرماتے ہیں جو بھی تلاوت قرآن سے مانوس ہو گیا دوستوں کی جدائی اسے وحشت زدہ نہیں کر سکتی "مَن أنِسَ بِتِلاوَةِ القرآنِ لم تُوحِشهُ مُفارَقَةُ الإخوان"  (غرر الحکم  8790)، اسی طرح سے سید الساجدین زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں: "لَوْ ماتَ مَنْ بَيْن الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَمَا اسْتَوْحَشْتُ بَعْدَ اَنْ يَكُونَ الْقُرآنُ مَعي" اگر مشرق و مغرب میں رہنے والے تمام لوگ فوت ہو جائیں اور میں اکیلا رہ جاؤں جبکہ قرآن میرے پاس ہو تو مجھے کوئی وحشت و خوف محسوس نہیں ہو گا۔ (محمد بن یعقوب کلینی، اصول کافی ج2، 610)

 یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسِ قرآن کی حقیقت کیا ہے جو انسان کو اتنا محکم اور قدرت مند بناتی ہے کہ ہر قسم کا اضطراب و پریشانی اس سے دور ہو جاتی ہے؟

 اسکا جواب یہ ہے کہ انس کی حقیقت ہمدم ہو جانا ہے جس طرح ایک شیر خوار بچے کو اپنی ماہ کے سینے سے انس ہوتا ہے۔ لیکن کبھی انسان اتنا زیادہ سرشار ہوتا ہے کہ اسکا انس اس شیرخوار کے انس سے بھی  زیادہ ہوتا ہے جس طرح سے امیر المومنین علی علیہ السلام  آپ کو موت کی دھمکی دینے والے دل کے اندھے منافقین کے جواب میں فرماتے ہیں: "وَاللّهِ لاَبنُ أبيطالِبٍ آنَسُ بِالمَوتِ مِنَ الطِّفلِ بِثَدىِ اُمِّهِ" خدا کی قسم  علی بن ابی طالب کا موت و شہادت سے انس ایک شیرخوار کے سینہِ مادر کے انس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ 5)

 پس عارف حقیقی وہ ہے جو خدا اور کلام خدا کے ساتھ اس طرح مانوس ہو جیسے امیر المومنین علیہ السلام خدا کے اس فرمان {يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ} (سورہ الانفطار آیت 6) کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "كُن للّهِ مُطيعاً ، و بِذِكرِهِ آنِساً"  خدا کی اطاعت کرنے والے بنو اور اس کے ذکر سے مانوس رہو۔  ( نہج البلاغہ خطبہ 223)۔

 پس بنابر این حقیقی انس کا مفہوم انسان کا شیءِ مانوس کے ساتھ عشق و محبت جیسا ناقابل انفکاک ارتباط اور ہمدم ہو جانا ہے۔ خدا اور کلام خدا کے ساتھ ایسا انس و محبت اولیاء خدا کی خصوصیات اور ہر مومن عارف و پارسا کی صفات میں سے ہے جیساکہ امام علی علیہ السلام دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "اللَّهُمَّ إِنَّكَ آنَسُ الْآنِسِينَ لِأَوْلِيَائِكَ۔۔۔ إِنْ أَوْحَشَتْهُمُ الْغُرْبَةُ آنَسَهُمْ ذِكْرُكَ" خدایا تو اپنے اولیاء اور چاہنے والوں کیلئے سب سے زیادہ مونس ہے ۔۔۔ اگر غربت و تنہائی انکو وحشت زدہ کرے تو آپکی یاد انکی تنہائی میں مونس بن جاتی ہے۔ ( نہج البلاغہ، خطبہ 227)

ماہ مبارک رمضان تجلی گاہ قرآن:

 ماہ مبارک رمضان، نزول قرآن مجید، ماہ خداوند متعال،  ماہ تزکیہ و تہذیب نفس ہے۔ قرآن مجید کی تجلی قلب مطہر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شب قدر میں ہوئی جوکہ اس مبارک مہینے میں واقع ہے۔  اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ماہ مبارک رمضان تجلی گاہ قرآن کریم اور انسِ قرآن مجید کا مہینہ ہے.

 روزہ دار مومن اس مہینے میں خدا کے مہمان ہیں جن کے لئے قرآن کا پر برکت دستر خوان بچھایا گیا ہے۔  لہذا اس ماہ میں تلاوت قرآن سے مانوس ہونا چاہیے۔ قرآن مجید کی آیات میں تدبر و تفکر کر کے مفاہیم قرآن سے فکری و عملی طور پر بہرہ مند ہو کر اپنے رشد و تکامل ملکوتی میں اضافہ کرنا چاہیے۔ اسی لئے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے شعبان کے آخری جمعے میں دیے گئے خطبہ شعبانیہ کے ایک فراز میں میں فرمایا: " هُوَ شَهْرٌ دُعِیتُمْ فِیهِ إِلَی ضِیَافَةِ اللَّهِ وَ۔۔۔۔۔ مَنْ تَلَا فِیهِ آیَةً مِنَ الْقُرْآنِ کَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِی غَیْرِهِ مِنَ الشُّهُورِ"  ماہ مبارک رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں خداوند میزبان اور اپ مہمان ہیں۔۔۔ جو کوئی بھی اس مہینے میں قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے گا  اسے باقی مہینوں میں تلاوت کئے گئے ختم قرآن کے برابر ثواب عطا کیا جائے گا۔ (شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ج ۲، ص ۲۹۵)

 ماہ رمضان کی دعاؤں میں قرآن اور انسِ قرآن کا ذکر کتاب ہدایت و ارشاد کے عنوان کے ساتھ زیادہ آیا ہے۔ خصوصا ماہ مبارک رمضان کی دعائیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہیں، ہم دوسرے دن کی دعا میں پڑھتے: "اللهم وفقنى فیه لقرائه آیاتك"  اور بیسویں دن کی دعا میں پڑھتے ہیں: "اللهم وفقني فیه لتلاوة القرآن" خدایا مجھے اس دن تلاوت آیات قرآن کی توفیق عطا فرما (مفاتیح الجنان، دعاء ماہ رمضان) ان دو دعائیہ عبارتوں میں تلاوت و قراءت قرآن مجید اور اسی طرح سے تلاوت تدبر آمیز و مقارن با عمل کی طرف توجہ دلائی گئی ہے؛ کیونکہ کلمہ تلاوت درحقیقت تلو اور تالی سے نکلا ہے جس کا معنی پی در پی آنا اور بغیر کسی فاصلے کے ہونا ہے۔  واضح رہے کہ اس طرح کی توفیق قرآن مجید سے انسِ حقیقی کے بغیر حاصل نہیں ہوتی، انسِ حقیقی قرآن مندرجہ ذیل تین اصولوں سے تشکیل پاتا ہے.

1۔    آیات قرآن کی تلاوت

2۔   تدبّر و شناخت قرآن

3۔   دستورات قرآن پر عمل کرنا

 امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: " قُرّاءُ القرآنِ ثلاثةٌ: رجُلٌ قَرَأَ القرآنَ فاتَّخَذَهُ بِضاعَةً فاستَحرَمَهُ المُلوكَ و استَمالَ به الناسَ ، و رَجُلٌ قَرَأَ القرآنَ فأقامَ حُروفَهُ و ضَيَّعَ حُدودَهُ ، كَثُرَ هؤلاءِ مِن قُرّاءِ القرآنِ لا كَثَّرَهُم اللّهُ تعالى ! و رجُلٌ قَرَأَ القرآنَ فَوَضَعَ دَواءَ القرآنِ على داءِ قلبِهِ فَأسهَرَ بهِ ليلَهُ و أظمَأَ بهِ نَهارَهُ و قامُوا في مَساجِدِهِم و حَبَوا بهِ تَحتَ بَرانِسِهِم ، فهؤلاءِ يَدفَعُ اللّهُ بهِمُ البَلاءَ و يُزيلُ مِن الأعداءِ و يُنزِلُ غيثَ السماءِ ، فو اللّهِ لَهؤلاءِ مِن القُرّاءِ أعَزُّ مِن الكِبريتِ الأحمَرِ" قاریان قرآن تین گروہ ہیں وہ جو قران پرھتے ہین اور اسے بادشاہوں سے قرب کا وسیلہ اور لوگوں کی توجہ جلب کرنے کا ذریعہ  قرار دیتے ہیں۔ وہ جو قرآن پڑھتے ہیں اسکے الفاظ کو اہمیت دیتے ہیں جبکہ اس کے معانی کو ضائع کر دیتے ہیں، یہ دو گروہ کتنے زیادہ ہیں اللہ تعالی انکی تعداد بڑھنے سے بچائے۔ اور وہ جو قرآن پڑھتا ہے اور اسکی دوا کو اپنے دل کے زخم پر رکھتا ہے، اس سے شب زندہ دار اور روزہ دار بن جاتا ہے اسے اپنی مسجدوں میں برپا کرتے ہیں ۔۔۔ یہ وہ ہیں جن کی برکت سے خدا بلائیں ٹال دیتا ہے، دشمنوں کو نابود کر دیتا ہے اور باران رحمت نازل فرماتا ہے۔ پس خدا کی قسم قاریان قرآن میں ایسا گروہ کبریت احمر سے بھی کامیاب تر ہے۔ (اصول کافی، ج2، ص627)۔

 امام سجاد علیہ السلام جب ختم قرآن کرتے تھے تو دعا فرماتے تھے اس دعا کے ایک فراز میں اس طرح آیا ہے: " اللَّهُمَّ فَإِذْ أَفَدْتَنَا الْمَعُونَةَ عَلَى تِلَاوَتِهِ، وَ سَهَّلْتَ جَوَاسِي أَلْسِنَتِنَا بِحُسْنِ عِبَارَتِهِ، فَاجْعَلْنَا مِمَّنْ یرْعَاهُ حَقَّ رِعَایتِهِ" اے خدا جب آپ نے تلاوت قرآن کرنے میں ہماری مدد فرمائی ہے کہ آپ نے ہماری زبانوں کے عقدوں کو قرآن کی  خوبصورت عبارتوں کے ساتھ آسان کر دیا ہے تو ہمیں اس کا کماحقہ حق ادا کرنے والوں میں سے قرار دے۔ (صحیفہ سجادسجادیہ نمبر ۴۲)

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ بقرہ کی آیت نمبر 121 [الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ] کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "يَتَّبِعُونَهُ حَقَّ اتِّباعِهِ" مومنین جس طرح سے پیروی کرنے کا حق ہے قرآن کی پیروی کرتے ہیں۔ (سیوطی، الدر المنثور، ج 1 ص 111) ایک اور مقام پر فرمایا: کتنے ہی قرآن کی تلاوت کرنے والے ہیں جبکہ قرآن ان پر لعنت بھیجتا ہے "رُبَّ تالِ القرآنِ و القرآنُ يَلعَنُهُ" (بحار الانوار، ج 92، ص184)

  پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ طاہرین علیہم السلام ان حدیثوں اور اس طرح کے دسیوں احادیث میں اس بات کو بیان کرتے ہیں کہ تلاوت قرآن اس وقت با ارزش اور سود مند ہوگی جب تفکر اور تدبر کے ہمراہ اور دستورات قرآن پر عمل کرنے کے پختہ ارادے کے ساتھ ہوگی۔ حقیقی انسِ قرآن اس طرح کے برناموں سے وابستہ ہے ورنہ خوارج نہروانی جو کہ مولا علی علیہ السلام کے خونخوار دشمن تھے وہ سارے قاریان قرآن میں سے تھے لیکن قرآن میں سے صرف اس کی قاف کو جانتے تھے۔ اسی لیے انہوں سے مولا علی علیہ السلام جوکہ سراپائے توحید تھے کی تکفیر کی اور ان کے خلاف میدان جنگ سجایا۔

اولیاء خدا کا قرآن سے اُنس:

چند نمونے:

 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآله وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام اور اولیاء الہی قرآن مجید کے ساتھ بہت زیادہ انس و الفت رکھتے ہیں۔ صرف تلاوت قرآن پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اسکے ظاہری و باطنی فیض سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ آیات قرآن میں تفکر و تدبر کرتے ہیں۔ آیات کو ٹھہر ٹھہر کر خوبصورت و جذاب آواز میں انکے معانی کی طرف توجہ اور مفاہیم پر عمل کرنے کے مصمم ارادے کے ساتھ تلاوت کرتے تھے۔ مثال کے طور پر قرآن میں کئی بار [ يأيها الذين آمنوا..] تکرار ہوا ہے حضرت امام رضا علیہ السلام آیات کلام مجید کی تلاوت فرماتے ہوئے اس آیت پر پہنچتے اور اسکی تلاوت فرماتے تو بلا فاصلہ کہتے لبيك اللهم لبيك (بحار الانوار ج 85 ص 34)  اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام دستورات خدا پر عمل پیرا ہونے کا مصمم ارادے کرتے ہوئے تدبر کے ساتھ آیات کتاب خداوند کی تلاوت فرماتے تھے۔ یہاں ہم ائمہ طاہرین کی زندگی سے انس قرآن کے چند نمونے پیش کرتے ہیں:

  1.  امام حسین علیہ السلام کا قرآن مجید سے اتنا زیادہ انس تھا کہ جب میدان کربلا میں 9 محرم الحرام کی شام دشمن آپ اور آپ کے اہل بیت و انصار سے جنگ لڑنے کا مصمم ارادہ کر چکا تھا تو آپ نے عباس علمدار علیہ السلام سے فرمایا: دشمن کے پاس جا کر آج رات کی مہلت طلب کرو کیونکہ میرا خدا جانتا ہے کہ مجھے نماز خدا اور تلاوت کتاب خدا سے محبت ہے " فهو یعلم أنّي أحبّ الصّلاة له و تلاوةَ کتابه" (ابن جریر الطبری، تاریخ طبری ج 6 ص 337)
  2. امام سجاد علیہ السلام جب بھی سورہ الحمد کی تلاوت فرماتے ہوئے [مالك يوم الدين]  تک پہنچتے تو خضوع و خشوع کے ساتھ اس آیت مجیدہ کا اتنا تکرار کرتے تھے کہ ایسا لگتا تھا آپ کی جان قفس بدن سے پرواز کرنے والی ہے (اصول کافی، ج 2 ص 602) آپ کلام مجید کی تلاوت اتنی خوبصورت اور دل نشین آواز سے کیا کرتے تھے کہ سقا (پانی بھرنے والے) آپ کے گھر کے قریب سے گزرتے تھے تو آپ کی تلاوت سننے کےلئے رک جایا کرتے تھے  (اصول کافی، ج 2 ص 616)۔
  3. امام صادق علیہ السلام نماز پڑھتے ہوئے ایک مخصوص ملکوتی حالت میں آیات مجیدہ کی تلاوت کرتے تھے کہ عادی حالت سے خارج ہو جاتے تھے۔ ایک روز آپ پر یہ کیفیت طاری ہوئی اور جب عادی حالت میں پلٹے تو وہاں موجود لوگوں نے عرض آپ پر کیسی کیفیت طاری ہوئی تھی؟ آپ نے جواب دیا: "ما زِلتُ اُكَرِّرُ آياتِ القُرآنِ حَتّى بَلَغتُ إلى حَالٍ كَأَنَّني سَمِعتُ مُشافَهَةً مِمَّن أنزَلَها عَلَى المُكاشَفَةِ والعِيانِ ۔۔۔" میں مسلسل ان آیات کا تکرار کر رہا تھا یہاں تک کہ میری یہ کیفیت ہو گئی کہ گویا ان آیات کو میں بالمشافہہ براہ راست حضرت جبرائیل  ع سے سن رہا ہوں ۔۔ (بحار الانوار ج 84 ص 248)۔
  4. حضرت امام رضا علیہ السلام قرآن سے اتنی زیادہ الفت و محبت اور انس رکھتے تھے کہ ہر تین دن کے اندر ایک ختم قرآن کیا کرتے تھے اور یہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر میں چاہتا تو تین دن سے کم عرصے میں بھی ختم قرآن کر سکتا تھا لیکن کوئی بھی ایسی آیت نہیں تھی جس کی تلاوت کی ہو لیکن اس کے معنی میں غور و فکر نہ کیا ہو یہ آیت کس موضوع اور کس موقع پر نازل ہوئی ہے اس میں غور نہ کیا ہو "وكان يختم القرآن في كل ثلاثة ويقول: لو أردت أن أختمه في أقرب من ثلاثة تختمت ولكني ما مررت بآية قط إلا فكرت فيها وفي أي شئ أنزلت وفي أي وقت؟ فلذلك صرت أختم في كل ثلاثة أيام" ( ابن شهر آشوب  طبرسی، مناقب آل ابی طالب، ج 4 ص 360)
  5. محدث نوری صاحب کتاب مستدرک الوسائل سند معتبر کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ عالم ربانی اور فقیہ صمدانی حضرت  آیت اللہ العظمی سید مہدی بحرالعلوم (ت 1212) ایک دن مرقد مطہر امیرالمومنین علیہ السلام کی زیارت کے لئے حرم میں داخل ہوئے اچانک اس شعر کو مخصوص حالت میں زمزمہ کرنے لگے:

چه خوش است صوت قرآن زتو دلربا شنیدن

به رخت نظاره کردن، سخن خدا شنیدن

تلاوت قرآن آپ کی دلربا آواز میں سننا کتنا اچھا لگتا ہے

تیرے چہرے کی زیارت کرنا سخن خدا کو سننا (کتنا اچھا لگتا ہے)

 کچھ دیر کے بعد کسی نے آپ سے پوچھا  آپ نے اس شعر کو کس مناسبت سے پڑھا تو انہوں نے جواب دیا: جب میں حرم میں داخل ہوا تو ضریح مطہر کے قریب حضرت حجت دوران عجل اللہ فرجہ الشریف کو خوبصورت اور بلند آواز میں تلاوت کلام پاک کرتے دیکھا جب ان کی خوبصورت اور دل نشین آواز سنی تو یہ شعرالشری اور جب میں ضریح کے قریب پہنچا تو آپ تلاوت مکمل کر کے  وہاں سے چلے گئے (محدث نوری جنه الماوی آخر کتاب و بحار الأنوار ج 53 ص 302)۔

  1. امیرالمومنین علی علیہ السلام نے جنگ صفین کے بعد ایک دن مسجد کوفہ میں اپنے اصحاب کو خطاب فرمایا اس خطبہ  میں آپ نے اپنے کچھ برجستہ اصحاب کو دکھی دل سے یاد فرمایا: (کہان ہیں میرے وہ بھائی جو حق کے راستے پر چلے گئے؟ کہاں ہیں عمار یاسر؟ کہاں ہیں ابن تیهان؟ کہاں گئے ذو الشہادتین؟ کہاں ہیں ان جیسے ان کے بھائی جنہوں نے جان کی بازی لگانے کا عہد کیا اور ان کے سروں کو فاجرون کی طرف بھیجا گیا؟) تب مولا نے اپنا ہاتھ اپنی ریش مبارک پر رکھا اور دیر تک گریہ کیا پھر ان کی کچھ خوبیوں کو بیان کیا کہ ان کی پہلی خوبی تلاوت قرآن اور اس پر عمل پیرا ہونا تھا فرمایا: افسوس ہے ان بھائیوں پر جو تلاوت قرآن کیا کرتے تھے اور اس سے فائدہ حاصل کیا کرتے  تھے " أَيْنَ إِخْوَانِيَ الَّذِينَ رَكِبُوا الطَّرِيقَ وَمَضَوْا عَلَى الْحَقِّ؟ أَيْنَ عَمَّارٌ وَأَيْنَ ابْنُ التَّيِّهَانِ وَأَيْنَ ذُو الشَّهَادَتَيْنِ وَأَيْنَ نُظَرَاؤُهُمْ مِنْ إِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ تَعَاقَدُوا عَلَى الْمَنِيَّةِ وَ أُبْرِدَ بِرُءُوسِهِمْ إِلَى الْفَجَرَةِ؟ قَالَ ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى لِحْيَتِهِ الشَّرِيفَةِ الْكَرِيمَةِ فَأَطَالَ الْبُكَاءَ ثُمَّ قَالَ (علیه السلام): أَوِّهِ عَلَى إِخْوَانِيَ الَّذِينَ تَلَوا الْقُرْآنَ فَأَحْكَمُوهُ.. " (نہج البلاغہ خطبہ نمبر 182)۔
  2. امام راحل حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ ایسے عالم  بزرگ تھے جنکا ظاہر و باطن میں قرآن کے ساتھ بہت گرم جوش اور عمیق رابطہ تھا۔ وه قرآن سے بہت زیادہ فکری اور عملی استفادہ کیا کرتے تھے۔ ان کا اپنے اہداف کے حصول کے لیے سب سے بڑا اطمینان بخش اور قوی سہارا قرآن مجید تھا۔ وہ کہا کرتے تھے: "اگر خداوند نے قرآن میں طاغوت کے مقابلے میں انبیاء علیہ السلام کے قصے ذکر کئے ہیں موسی، فرعون، ابراهیم و نمرود کا تذکرہ کیا ہے خدا کا مقصد قصہ گوئی نہیں تھا بلکہ خدا کا منظور نظر ہر دور میں طاغوتوں کے مقابلے کے لئے انبیاء  علیہم السلام کے پروگرام کو بیان کرنا تھا یعنی ہم بھی قرآن کے پیرو ہیں ہمیں چاہیئے طاغوت کی نابودی تک ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کریں."

بارہا یہ کہا کرتے تھے قرآن ایک مکمل انسان ساز کتاب ہے اسے انسان سازی کے لئے اتارا گیا ہے حضرت امام اپنی زندگی کے اہم حصے یہاں تک کہ دوران جنگ اور آخری عمر کی بیماری کے دوران بھی قرآن کے ساتھ مانوس تھے۔ آیات مجیده کی تلاوت اور ان میں تدبر کے ذریعے خدا سے مرتبط تھے۔

  آپ کے دفتر کے ایک مسوول اس حوالے سے لکھتے ہیں: "حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا روزانہ کا خاص نظم و ضبط تھا جس میں سے کچھ وقت آیات قرآن کی تلاوت میں گزارتے تھے آپ کے کام اتنے منظم تھے کہ عام طور پر ایک کام کی طرف توجہ سے دوسرا کام ضایع نہیں ہوتا تھا"  (محمد حسن رحیمیان درسایه آفتاب  ص 183)

 امام آدھی رات کو جب نماز شب کے لیے جاگتے تھے تو کچھ دیر قرآن کی تلاوت کرتے تھے یہاں تک کہ آخری دنوں میں جب ہسپتال میں ایڈمٹ تھے خفیه کیمرے سے آپ کی ویڈیو بنائی گئی،  بہت سوں نے دیکھا کہ آپ بستر سے اٹھے قرآن مجید کو اٹھایا اور تلاوت میں مصروف ہو گئے۔

 ایک شخص نے میدان جنگ میں بھیجنے کے لیے چھوٹے چھوٹے قرآن تیار کیے اور آپ کے دفتر لے آیا تاکہ آپ ان کو متبرک کریں۔ وہ قرآن آپ کے پاس لائے گئے اور عرض کیا گیا: "یہ وہ قرآن ہے جو چند سوروں پر مشتمل ہیں چاہتے ہیں کہ میدان جنگ کے لیے تبرک بھیجیں" اگرچہ امام کا رویہ مکمل پرسکون اور معتدل ہوتا تھا لیکن انہوں نے خلاف معمول ایک دم  عجلت اور شدید پریشانی کے ساتھ اپنے ہاتھ کو پیچھے کھینچا اور سخت ملامت آمیز لہجے میں بولے میں قرآن کو متبرک کرون؟ یہ کیسا کام ہے جسے انجام دے رہے ہو؟"

 ایک دن غلطی سی قرآن کا ایک نسخہ دوسری چیزوں کے ساتھ امام کے پاس لائے اور زمین پر رکھ دیا  امام ناراض ہوئے اور کہا: "قرآن کو زمین پر مت رکھیں" بلا فاصله انہوں نے قرآن اٹھا کر قریب رکھی میز پر رکھ دیا اس وقت آپ صوفی پر بیٹھے تھے۔  پس معلوم ہوا کہ امام نہیں چاہتے تھے کہ قرآن ان کی بیٹھنے کی جگہ سے نیچے ہو۔

 ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ حضرت امام حسینیہ جماران میں ملاقات کی تقریب میں خلاف معمول کرسی کی بجائے زمین پر بیٹھے تھے؛ کیونکہ اس دن قرآن کے مقابلے میں کامیاب ہونے والے آئے ہوئے تھے اور فیصلہ ہو چکا تھا کہ اس اجلاس میں قرآن کی کچھ آیات تلاوت ہوںگی۔

 حضرت امام ہر سال ماہ مبارک رمضان سے کچھ دن قبل حکم دیا کرتے تھے کہ مخصوص افراد کے لیے تلاوت ختم قرآن تلاوت کی جائے۔ (وہی سابق؛  ص 114-115)

 روایات میں آیا ھے ایک دن امام کاظم علیہ السلام کے صالح شاگرد علی بن مغیرہ نے آپ کی خدمت میں عرض کیا "میں اپنے والد کی طرح ماہ مبارک رمضان میں 40 ختم قرآن کرتا ہوں کبھی مصروفیات اور خستگی کی وجہ سے کمی بیشی ہو جاتی ہے اور عید الفطر کے دن ایک ختم قرآن کا ثواب روح پیغمبر صلی اللہ علیہ وآله سلم دوسرے کا روح امام علی علیہ السلام تیسرے کا روح حضرت زہرا سلام اللہ علیہا چوتهے کا امام حسن اور باقی ائمہ یہاں تک کہ آپ کو ہدیہ کرتا ہوں اس کا مجھے کیا اجر ملے گا؟ تو امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا: آپ کو اس کام کا یہ ثواب ملے گا کہ آپ قیامت کے دن ہمنشین اہل بیت علیہم السلام ہوں گے۔ راوی کہتا ہے میں نے کہا: اللہ اکبر یقینا مجھے ایسا مقام عطا کیا جائے گا؟ آپ نے تین بار فرمایا : ہاں "فَقَالَ لَهُ أَبِي نَعَمْ مَا اسْتَطَعْتُ فَكَانَ أَبِي يَخْتِمُهُ أَرْبَعِينَ خَتْمَةً فِي شَهْرِ رَمَضَانَ ثُمَّ خَتَمْتُهُ بَعْدَ أَبِي فَرُبَّمَا زِدْتُ وَ رُبَّمَا نَقَصْتُ عَلَى قَدْرِ فَرَاغِي وَ شُغُلِي وَ نَشَاطِي وَ كَسَلِي فَإِذَا كَانَ فِي يَوْمِ الْفِطْرِ جَعَلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ ص خَتْمَةً وَ لِعَلِيٍّ ع أُخْرَى وَ لِفَاطِمَةَ ع أُخْرَى ثُمَّ لِلْأَئِمَّةِ ع حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَيْكَ فَصَيَّرْتُ لَكَ وَاحِدَةً مُنْذُ صِرْتُ فِي هَذَا الْحَالِ فَأَيُّ شَيْ‌ءٍ لِي بِذَلِكَ قَالَ لَكَ بِذَلِكَ أَنْ تَكُونَ مَعَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قُلْتُ اللَّهُ أَكْبَرُ فَلِي بِذَلِكَ قَالَ نَعَمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ" (اصول کافی ج 2 ص 618)

  اس بحث کے آخر میں قرآن کی تلاوت کے ثواب کے حوالے سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی حدیث کو ذکر کرتا چلوں کہ آپ نے فرمایا: "قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‌ مَنْ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ فِي لَيْلَةٍ لَمْ يُكْتَبْ مِنَ الْغَافِلِينَ وَ مَنْ قَرَأَ خَمْسِينَ آيَةً كُتِبَ مِنَ الذَّاكِرِينَ وَ مَنْ قَرَأَ مِائَةَ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْقَانِتِينَ وَ مَنْ قَرَأَ مِائَتَيْ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْخَاشِعِينَ وَ مَنْ قَرَأَ ثَلَاثَ مِائَةِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْفَائِزِينَ وَ مَنْ قَرَأَ خَمْسَمِائَةِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْمُجْتَهِدِينَ وَ مَنْ قَرَأَ أَلْفَ آيَةٍ كُتِبَ لَهُ قِنْطَارٌ مِنْ تِبْرٍ الْقِنْطَارُ خَمْسَةَ عَشَرَ أَلْفَ مِثْقَالٍ مِنْ ذَهَبٍ وَ الْمِثْقَالُ أَرْبَعَةٌ وَ عِشْرُونَ قِيرَاطاً أَصْغَرُهَا مِثْلُ جَبَلِ أُحُدٍ وَ أَكْبَرُهَا مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ"

 وہ مومن که جو ہر رات قرآن کی دس آیات تلاوت کرے اس کا نام غافلین میں نہیں لکھا جائے گا اور جو پچاس آیات کی تلاوت کرے گا اس کا نام ذاکرین میں لکھا جائے گا اور جو سو آیات تلاوت کرتا ہے تو اس کا نام قانتین میں لکھا جائے گا اور جو دو سو آیات تلاوت کرتا ہے اس کا نام خاشعین میں لکھا جائے گا  اور جو  تین سو آیات تلاوت کرتا ہے اس کا نام فائزین میں لکھا جائے گاںاور جو پانچ سو آیات تلاوت کرے گا اس کا نام مجتہدین میں لکھا جائے گا اور جو ایک ہزار آیات کی تلاوت کرے گا تو بہشت میں اس کے لئے سونے کا ایک ڈھیر ہو گا جو پاندرہ سو مثقال سونے کے برابر ہوگا کہ ہر مثقال 24 قیراط ہے کہ سب سے چھوٹا قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے اور سب سے بڑا قیراط زمین اور آسمان کے درمیاں فاصلے جتنا ہے۔ (اصول کافی ج 2 ص 613)۔

مصنف: محمد محمدی اشتهاردى

منبع: نشریه پاسدار اسلام 1375 شماره 182

مترجم:  زوار حسین