جوانی انسان کی صلاحیتوں کے نکھار،حقیقی اوربامقصد زندگی کا آغاز اور ہر قسم کے کمالات وکامیابیوں کے آسمان تک جانے کازمانہ ہے۔اسی لیے جوان اور جوانی کو روایات میں خداوندتعالیٰ کی سب سے عظیم نعمت قرار دی گئی ہے۔ جوان کا دل شفاف وپاک آئینہ کی مانند ہے۔اگر درست راہ کی جانب رہنمائی اور اپنی منزلت وحیثیت کو سجھ کر استفادہ کر لے تو یقیناً بلندیوں کو پاسکتے ہیں۔
تاریخ میں ایسے جوانوں کی کوئی کمی نہیں جنہوں نے اپنی جوانی میں ایسے کارنامے انجام دئیےکہ ہمیشہ تاریخ میں زندہ وجاوید ار دوسروں کے لیے نمونہ عمل قرار پائے۔
انہی جوانوں میں سے نمایاں حضرت علی اکبرؑ علیہ السلام تھے۔روایات کے مطابق 11شعبان المعظم کو مدینہ میں امام حسین سید الشہداءؑ کے گھر لیلیٰ بنت ابی مرہ کے بطن سے علی اکبرؑ کی ولادت اور تربیت اہل بیت کے پاکیزہ گھرانے میں ہوئی۔
آپؑ کے شکل وشمائل،سیرت وکردار،انداز بیان سے پیغمبر ختمی مرتبت کاعکس جھلکتے تھے۔اسی لیے سید الشہداءؑ فرماتے تھے:جب بھی ہم پیغمبرؐ کی زیارت کے مشتاق ہوتے تو ان کی جانب نگاہ کرتے۔
کربلامیں ان جہاد کے بعد آسمان کی طرف رخ کر کے امام عالی مقام نے دعا کی:
«بارالٰہا!اس قوم پر گوار رہنا،ایسا جوان دشمن کی جانب جارہا ہے جوشکل،کردار وانداز بیان میں تیرے رسول کے شبیہ ہے۔جب بھی ہم تیرے رسول کی زیارت کے مشتاق ہوتے تو ہم ان کی جانب دیکھتے۔»(مقتل لہوف)
علی اکبرؑشجاعت،جذبہ جہاد،دینی وسیاسی بصیرت اور معرفت ہر لحاظ سے ایک کامل جوان تھے اور کربلا کے سخت میں میدان میں آپ کی شخصیت آشکار نمایاں ہوئی۔
علی اکبرؑ کی معرفت وبصیر ت کی مثال قصر بنی مقاتل پر امامؑ نے گھوڑے کی زین پر خواب سے بیدار ہونے کے بعد جب اناللہ وانا الیہ راجعون کی تین بارتلاوت کی توآپ نے وجہ پوچھی توامامؑ نےجواب دیا میں نے خواب میں دیکھاکہ ایک سوار کہہ رہاہے کہ یہ کاروان موت کی جانب رواں دواں ہے،تو علی اکبرؑ نے پوچھا:بابا کیا ہم حق پر نہیں؟امامؑ نے جواب دیا کیوں نہیں۔
تو علی اکبرؑ کاتاریخی جواب تاریخ میں نقش ہوا۔
اذاً لانبالی ان نموت محقین۔(نفس المہموم, ص203)
یعنی راہ حق میں ہمیں موت کی کوئی پروا نہیں۔
معاشرے کا سب سے اہم کردار جوان ہیں۔اسی لیے ہمیشہ دشمنوں نے بھی جوانوں کواپنے مذموم اہداف کا ذریعہ بنایا ہے۔
اسلام نے بھی جوان وجوانی کی اہمیت،مقام ومنزلت،ذمہ داری ومشکلات کو سب سے زیادہ مدنظر رکھا ہے۔اور اس سلسلے میں قرآن وتاریخ کے اعلیٰ وروشن اور کامل نمونے ہمارے سامنے پیش کئے ہیں۔جن میں سے ایک کامل،پاکیزہ وجامع نمونہ علی اکبرؑ کی شخصیت وکردار ہے۔
یوم ولادت علی اکبرؑ اور روز جوان کے موقع پر ہم اس عظیم خاندان عصمت وطہارت کے صالح جوان کی فداکاری،شجاعت،بصیرت اورجہادی زندگی سے درس لیں،اپنی جو انی کوسیرت علی اکبرؑ کےمطابق اسلام،قرآن وسیرت معصومینؑ میں ڈھالنے کی جانب توجہ دیں۔
اپنے مقام وہدف زندگی کوسمجھیں۔فانی،لہو ولعب اور فضول امور میں زندگی کو خرچ کرنے کی بجائے خدا کی رضایت اور اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی کو گزارنے کو اپنا شیوہ قرار دیں۔
جوانوں کو سیرت علی اکبرؑ پر چلتے ہوئے وقت کے امامؑ کی معرفت،وقت وضرورت پڑھنے پر دینی اقدار وناموس کا دفاع،صبر وتحمل اور فداکاری میں سب سے آگے ہونا چاہیے۔کسی صورت حق ودین کی راہ میں قربانی سے دریغ نہ کرے۔یہی علی اکبرؑ کا پیغام ہے۔
مولانا سکندر علی بہشتی