ایکنا نیوز- قرآن کریم سورہ مائدہ، آیت نمبر 2 میں مؤمنوں کو خبردار کرتا ہے کہ وہ شعائرِ الٰہی، حرمت والے مہینوں، ہدیہ و قربانیوں، اور خانۂ خدا کے زائرین کی بے حرمتی نہ کریں۔ اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ رَبِّهِمْ وَرِضْوَانًا" (اے ایمان والو! نہ تو شعائرِ الٰہی کو حلال سمجھو، اور نہ حرمت والے مہینے کو، اور نہ ہدیہ کو، اور نہ اُن جانوروں کو جن کی گردنوں میں علامتی پٹے ہوں، اور نہ اُن لوگوں کو جو خانہ کعبہ کا قصد کیے ہوئے ہوں، جو اپنے رب کا فضل اور رضا چاہتے ہیں۔)
اسی طرح سورہ حج، آیت 36 میں قربانیوں کو شعائرِ الٰہی کا حصہ قرار دیا گیا ہے: "وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ" (اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائرِ الٰہی کا حصہ بنایا ہے، ان میں تمہارے لیے خیر و برکت ہے۔)
شعائر پر اس تاکید سے واضح ہوتا ہے کہ مناسکِ حج صرف رسمی اعمال یا ظاہری رسومات نہیں، بلکہ ان کا گہرا تعلق روحانی اور توحیدی مفاہیم سے ہے۔ ان نشانیوں کی حفاظت، شعائر کی تعظیم اور مؤمن کے دل کی تقویٰ کا اظہار ہے۔
قرآن کے مطابق، مناسکِ حج اس طرح ترتیب دیے گئے ہیں کہ ان تمام میں عظمتِ الٰہی کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان حدود اور شعائر کی تمام خصوصیات کو مکمل توجہ اور دقّت سے محفوظ رکھا جائے اور ان پر عمل کیا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی عمل غلط طریقے سے انجام پائے، کیونکہ ایسی غلطی نہ صرف عمل کو ظاہری طور پر باطل کر دیتی ہے بلکہ باطنی طور پر بندے کو حضرتِ حق کی قربت سے دور بھی کر دیتی ہے۔ بلاشبہ، ان حدود کی حفاظت دلوں کے تقویٰ کی علامت اور راہِ خدا میں احسان کی جلوہ گری ہے۔/