سلیمانی

سلیمانی

 پاسداران انقلاب فوج کی  بحریہ کے بحری جہازوں کے ایک زمین دوز مرکز کی رونمائی آئی آر جی سی کے کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی کی موجودگی میں کی گئی۔

اس تقریب میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر جنرل سلامی نے ایک  خطاب  میں کہا: "آج ہم نے پاسداران انقلاب اسلامی کی بحریہ کے معزز کمانڈر کے ساتھ جس کمپلیکس کا معائنہ کیا، وہ ان بہت سے کمپلیکسز میں سے ایک ہے جہاں پاسداران انقلاب اسلامی کے جنگی بحری جہاز اور میزائل لانچ کرنے والے  اور بارودی سرنگ بچھانے والے بحری جہاز رکھے جاتے ہيں۔

میجر جنرل سلامی نے مزید کہا: "اگرچہ یہ کمپلیکس جس کا آج عزیز ایرانی قوم مشاہدہ کر رہی ہے ایک شاندار کمپلیکس ہے، لیکن یہ آئی آر جی سی کی بحریہ کی پوری دفاعی طاقت کے سامنے ایک چھوٹا سا  نمونہ ہے۔"

 انہوں نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بحریہ کی جنگی اور دفاعی صلاحیت میں روز بروز اضافے  کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا: "ان بحری جہازوں کی جنگی صلاحیت اور ان پر نصب میزائل سسٹم ان متعدد جنگی جہازوں کے علاوہ ہیں جو اس وقت خلیج فارس میں ہمارے وطن کی آبی سرحدوں   کے تحفظ کے لیے گشت کر رہے ہیں

جنرل سلامی نے کہا : "خدا کے فضل سے،پاسداران انقلاب اسلامی کی  بحریہ میں گزشتہ اور موجودہ برسوں میں، اس فورس کے ساز و سامان اور ہتھیاروں  کی مقدار اور معیار دونوں میں ہی نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔"

میجر جنرل حسین سلامی نے اپنی بات  جاری رکھتے ہوئے کہا: "خدا کے فضل سے، کشتی رانی کی رینج، جہازوں کی رفتار، ان جہازوں پر نصب میزائلوں کی رینج، ان کا نشانہ ، اور ان کی تباہ کن طاقت ، ہر شعبے میں غیر معمولی پیش رفت ہوئي ہے۔"

جنرل سلامی نے کہا ہے ہم اپنے عزم و ٹھوس ارادے کے ساتھ رہبر انقلاب اسلامی کے ایک حکم پر، ایرانی قوم کی عظمت کے دفاع اور مختلف دفاعی شعبے میں نئي تاریخ رقم کرنے کے لئے تیار ہيں۔

ایکنا نیوز، عربی ۲۱ نیوز کے مطابق عمان کے مفتی اعظم احمد بن حمد الخلیلی نے لاس اینجلس میں آتش‌سوزیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ خدا کی قدرت کا مظہر ہے، جو ظالموں اور متکبروں کو ان کے غرور کے سبب سزا دیتا ہے۔

مفتی الخلیلی نے اپنے تبصرے میں کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کو جهنم میں تبدیل کرنے کی دھمکی دی تھی، لیکن اس کے بعد خود ان کے ملک کے مختلف حصوں میں آگ بھڑک اٹھی، اور یہ آگ سردی کے موسم میں لگی، جہاں جدید ترین حفاظتی نظام بھی موجود تھے۔

الخلیلی نے حضرت علی علیہ السلام کے خطبہ مالک اشتر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: إِيَّاکَ وَ مُسَامَاةَ اللهِ فِي عَظَمَتِهِ، وَالتَّشَبُّهَ بِهِ فِي جَبَرُوتِهِ، فَإِنَّ اللهَ يُذِلُّ کُلَّ جَبَّار وَ يُهِينُ کُلَّ مُخْتَال (خبردار! خود کو عظمت میں خدا کے برابر کرنے اور جبروت میں اس سے مشابہت اختیار کرنے سے بچو، کیونکہ خدا ہر جابر کو ذلیل اور ہر متکبر کو رسوا کرتا ہے)۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے آغاز سے قبل اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا اور دھمکی دی تھی کہ اگر اسرائیلی قیدی رہا نہ ہوئے تو مشرق وسطیٰ کو جہنم میں بدل دیا جائے گا۔

لاس اینجلس میں آتش‌سوزی نے چند دنوں میں خشک موسم اور 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی تیز ہوا کے باعث ہزاروں ہیکٹر اراضی کو خاکستر کر دیا۔ ان آگوں نے شہری علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیل گئی۔/

فلسطین کس کا ہے!؟

فلسطین کس کا ہے؟ فلسطینی عوام کون ہیں؟ یہ قابض کہاں سے آئے ہیں؟ ملت فلسطین کو ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا حق ہے۔ کوئی بھی عدالت، کوئی بھی مرکز، کوئی بھی بین الاقوامی ادارہ ملت فلسطین پر اعتراض کا حق نہیں رکھتا کہ وہ کیوں غاصب صیہونی حکومت کے خلاف سینہ سپر ہوکر کھڑی ہے۔ کسی کو حق نہیں ہے۔

 

فلسطین کی مدد، سب کی اولین ذمہ داری!

جو لوگ ملت فلسطین کی مدد کر رہے ہیں وہ بھی در اصل اپنے فریضے پر عمل کر رہے ہیں۔ کوئی بھی کسی بھی بین الاقوامی قانون کی رو سے ملت لبنان اور حزب اللہ لبنان پر اعتراض کا حق نہیں رکھتا کہ وہ کیوں غزہ کی اور فلسطینی عوام کے قیام کی حمایت کر رہی ہے۔ یہ ان کا فریضہ تھا، انہیں یہ کرنا ہی تھا۔

 

فلسطین کا دفاع اور انکی مدد، قانونی فریضہ!

یہ تو اسلامی حکم بھی ہے، عقل کا تقاضہ بھی ہے اور بین الاقوامی اور عالمی منطق بھی ہے۔ فلسطینی اپنی سرزمین کے لئے لڑ رہے ہیں، ان کا دفاع قانونی ہے، ان کی مدد قانونی ہے۔

 

 

آیت اللہ العظمی خامنہ ای ، عہد بصیرت

 رہبر معظم انقلاب کے بیانات کے وہ اقتباسات جو غزہ کے عوام کی حتمی فتح سے متعلق ہیں، پیش کیے جا رہے ہیں۔

"غزہ کا معاملہ ایک طرف مظلومیت کا معاملہ ہے، تو دوسری طرف طاقت کا معاملہ ہے۔ دشمن چاہتا تھا کہ یہ لوگ ہتھیار ڈال دیں، سر تسلیم خم کر دیں، لیکن انہوں نے ہتھیار نہیں ڈالے، سر تسلیم خم نہیں کیا... یہی صبر اور توکل انہیں کامیابی تک پہنچائے گا؛ یہی چیز انہیں فتح دلائے گی اور بالآخر وہ میدان کے فاتح ہوں گے۔" (۱۴۰۲/۸/۳)

 

"غزہ کے معاملے میں طوفان الاقصی کے واقعات کے بارے میں پیش گوئیاں بتدریج پوری ہو رہی ہیں۔ شروع سے ہی دنیا کے دوراندیشوں کی پیش گوئی، خواہ یہاں ہو یا کہیں اور، یہی تھی کہ اس معاملے میں فلسطینی مزاحمت فتح یاب ہوگی، اور وہ جو شکست کھائے گا وہ ملعون صہیونی حکومت ہوگی۔" (۱۴۰۲/۱۰/۱۹)

 

"ان شاء اللہ خداوند متعال یہ فتح تمام امت اسلامی کو مستقبل قریب میں دکھائے گا اور دلوں کو خوش کرے گا، اور فلسطینی قوم اور مظلوم اہل غزہ کو بھی ان سب کے سر فہرست ان شاء اللہ خوش و خرم کرے گا۔" (۱۴۰۲/۱۱/۰۳)

 

"«اِنَّ وَعدَ اللَهِ حَق»؛ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔وَ لا یَستَخِفَّنَّکَ الَّذینَ لا یوقِنون‌، اور جو لوگ یقین نہیں رکھتے، وہ اپنی منفی باتوں سے تمہیں متزلزل اور کمزور نہیں کر سکتے۔ اور ان شاء اللہ حتمی فتح، جو کہ زیادہ دور نہیں، فلسطین اور فلسطینی عوام کی ہوگی۔" (۱۴۰۲/۰۸/۱۰)

غزہ پر صہیونی حکومت کی جانب سے 15 مہینے مسلسل ظالمانہ حملوں اور جارحیت کے باوجود صہیونی حکومت اپنے اہداف میں بری طرح ناکام ہوگئی اور بالاخر حماس کی شرائط قبول کرتے ہوئے جنگ بندی پر راضی ہوگئی۔

قطر کے وزیرخارجہ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے جنگ بندی کا اعلان کیا اور کہا کہ صہیونی حکومت نے جنگ بندی کے معاہدے سے اتفاق کیا ہے۔

اس سے پہلے صہیونی حکومت حماس کی مکمل نابودی کے اعلان کے ساتھ جنگ بندی سے انکار کررہی تھی تاہم فلسطینی مقاومتی تنظیم نے حالیہ مہینوں کے دوران مزید افرادی قوت حاصل کرلی جس کی وجہ سے غاصب صہیونی حکومت جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہوگئی۔

حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو فلسطین پر سات دہائیوں سے جاری صہیونی قبضے کے خلاف انتقامی کاروائی کرتے ہوئے طوفان الاقصی آپریشن کیا تھا اور سینکڑوں صہیونیوں کو ہلاک اور سینکڑوں کو یرغمال بنایا تھا۔

طوفان الاقصی کے بعد صہیونی حکومت نے غزہ پر پوری قوت کے ساتھ حملہ کردیا تھا۔ نتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ حماس کی مکمل نابودی تک غزہ پر حملے جاری رہیں گے۔ حماس کی نابودی اور یرغمالیوں کی رہائی میں ناکامی کے بعد صہیونی حکومت جنگ بندی پر مجبور ہوگئی ہے۔

1۔ عظیم عالم اور راوی حدیث جناب یحییٰ مازنی کا بیان ہے۔ ایک عرصہ تک میں مدینہ منورہ میں امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے پڑوس میں رہا۔ میرا گھر اس گھر کے قریب تھا جہاں آپؑ کی بیٹی حضرت زینب سلام اللہ علیہا رہتی تھیں۔ لیکن کبھی بھی کسی نے نہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو دیکھا اور نہ ہی ان کی آواز سنی۔

آپؑ جب بھی اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کا ارادہ کرتی تو نصف شب میں اس طرح تشریف لے جاتی تھیں کہ امیرالمومنین علیہ السلام آگے ہوتے اور امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام آپؑ کے داہنے بائیں ہوتے تھے۔ جب قبر مبارک کے نزدیک پہنچتی تو امیرالمومنین علیہ السلام وہاں روشن چراغوں کو بجھا دیتے تھے۔

ایک دن امام حسین علیہ السلام نے اس کا سبب پوچھا تو امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘اخشي ان ينظر أحد الي اختك زينب’’ مجھے خوف ہے کہ کہیں کسی کی نظر تمہاری بہن زینب ؑ پر نہ پڑ جائے۔

(فاطمة الزهراء بهجة قلب المصطفي(ص)، الرحماني الهمداني ،صفحه :642)

2۔ منقول ہے کہ ایک دن امیرالمومنین علیہ السلام ایک مہمان کے ساتھ گھر تشریف لائے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے پوچھا کہ گھر میں مہمان کی میزبانی کے لئے کچھ ہے؟

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا: صرف ایک روٹی کا ٹکڑا ہے جو زینب ؑ کے لئے رکھا ہے۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا اس وقت بستر پر تھی اور بیدار تھیں ، آپؑ کی عمر مبارک اس وقت فقط چار سال تھی لیکن آپؑ نے فرمایا: مادر گرامی! روٹی مہمان کے سامنے پیش کر دیں۔

آپؑ کی سخاوت و بخشش اور فداکاری کمسنی ہی سے عیاں تھی۔ روز عاشورا آپؑ نے اپنے دو بیٹے کربلا میں قربان کئے۔

جناب عون اور جناب محمد علیہما السلام کی شہادت کے بعد جب امام حسین علیہ السلام ان کے جنازوں کو لے کر خیمہ میں آئے تو آپؑ خیمہ کے باہر نہیں آئیں لیکن جب شبیہ رسولؐ حضرت علی اکبر علیہ السلام کا جنازہ لائے تو آپؑ بے چین ہو کر خیمہ کے باہر تشریف لے آئیں ۔ جس سے واضح ہے کہ آپؑ امام حسین علیہ السلام کے فرزند کو اپنے بیٹوں سے زیادہ چاہتی تھیں ۔

(زندگانى حضرت زينب عليها السلام ص 26)

3۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: راہ شام کے تمام رنج و مصائب کے با وجود میری پھوپھی زینب سلام اللہ علیہا کی کبھی بھی نماز شب ترک نہیں ہوئی۔

(وفيات الأئمه ، ص 441)

4۔ معروف واعظ و مبلغ مرحوم حاجی محمد رضا سقا زادہ کا بیان ہے کہ ایک دن میں عظیم عالم، مقدس و مہذب مجتہد جناب ملا علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے شام میں واقع حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک کے سلسلہ میں سوال کیا تو انھوں نے بتایا:

ایک دن مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ آقا ضیا عراقی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے بیان فرمایا : سعودی عرب کے شیعہ نشین علاقہ قطیف سے ایک شیعہ مومن حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے ایران روانہ ہوا، راستے میں اس کا پیسہ گم ہو گیا۔

وہ کافی پریشان ہوا اور آخر حضرت بقیۃ اللہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے توسل کیا ۔ اسی وقت ایک نورانی سید ظاہر ہوئے اور انہوں نے کچھ رقم دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سے تم سامرہ پہنچ جاؤ گے۔

جب وہاں پہنچنا تو میرے وکیل میرزا محمد حسن شیرازی کے پاس جانا اور ان سے کہنا کہ سید مہدی نے کہا ہے کہ آپ میری طرف سے مجھے اتنی رقم دے دیں ، جس سے تم مشہد تک چلے جاؤ گے اور تمہاری مالی مشکل حل ہو جائے گی ۔ اگر میرزا محمد حسن شیرازی تم سے کوئی نشانی مانگے تو ان سے کہنا: اس سال موسم گرما میں آپ جناب ملا علی کنی طہرانی کے ساتھ شام میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک پر تھے۔ زائرین کی کثرت کے سبب روضہ مبارک کو نظافت کی ضرورت تھی تو آپ نے اپنے دوش سے عبا اتاری اور اس سے روضہ مبارک کی صفائی کی اور ملا علی کنی طہرانی نے کوڑا اٹھا کر باہر پھینکا ۔ اس وقت میں ان کے پاس ہی تھا ۔

قطیف کے زائر کا بیان ہے کہ جب میں سامرا پہنچا اور امامین عسکریین علیہماالسلام کی زیارت کے بعد آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازی کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اپنا مدعا بیان کیا۔ انھوں نے جیسے ہی یہ سنا فوراً مجھے گلے لگا لیا ، میری آنکھوں کو چوما، مجھے مبارکباد دی اور وہ رقم بھی عنائت فرمائی۔ اس کے بعد جب میں تہران پہنچا تو پورا ماجرا جناب ملا علی کنی طہرانی کی خدمت میں بھی بیان کیا تو انھوں نے تصدیق کی اور بہت متاثر پوئے اور فرمایا ائے کاش! تمہاری جگہ میں ہوتا۔

(داستان از فضایل، مصایب و کرامات حضرت زینب( س)، صفحه 174 و 175)

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے

الف۔ اہل بیت علیہم السلام کے روضہ ہائے مبارک پر امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف حاضر ہوتے ہیں اور زائرین کے اعمال پر ناظر ہوتے ہیں۔

ب۔ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی نظر کرم زائرین کے شامل حال ہوتی ہے۔

ج۔ اہلبیت علیہم السلام کی خدمت ہر ایک کے لئے سبب افتخار اور باعث شرف ہے چاہے عام انسان ہو یا عظیم عالم و فقیہ ہو۔

د۔ مراجع کرام امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے وکیل عام ہیں۔

5۔ واقعہ کربلا تمام ہو گیا لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا غم و اندوہ ختم نہ ہوا ، ہر لمحہ اپنے بھائی کی مظلومیت اور شہادت کو یاد کر کے گریہ فرماتی تھیں۔

ایک سال مدینہ میں قحط پڑا ، آپؑ کے شوہر جناب عبداللہ کا جود و کرم مشہور تھا۔ چونکہ اس وقت انکا ہاتھ خالی تھا لہذا جناب عبداللہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو لے کر شام چلے گئے۔ جہاں جناب عبداللہ زراعت میں مشغول ہو گئے۔

لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا حسب دستور ہر لمحہ ذکر کربلا اور عزاداری میں مصروف رہیں اور اسی عالم میں آپؑ بیمار پڑ گئیں اور روز بہ روز آپؑ کی طبیعت ناساز ہوتی چلی گئی۔

ایک دن آپ نے ظہر کے ہنگام اپنے شوہر سے فرمایا کہ میرا بستر صحن خانہ میں زیر آسمان بچھا دیں ۔

جناب عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے حسب فرمائش صحن خانہ میں زیر آسمان بستر لگا دیا اور انہیں وہاں پہنچا دیا کہ کیا دیکھا کہ کوئی چیز آپؑ اپنے سینہ سے لگائے ہیں اور زیر لب کچھ فرما رہی ہیں ۔ قریب گیا تو دیکھا کہ وہ کربلا کی یادگار امام حسین علیہ السلام کا خون بھرا کرتا ہے اور مسلسل آپ ؑ کی زبان سے حسینؑ حسینؑ حسین ؑ کی صدا جاری ہے۔ اسی عالم میں آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔

(عقیلہ بنی ہاشم ص 57 و58)

2025ء کا سال شروع ہوتے ہی اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر وسیع چیلنجز سے روبرو ہونے پر مجبور ہے۔ اگرچہ صیہونی رژیم کی معیشت بہت مضبوط ہے اور اس کے پاس جدید ٹیکنالوجیز بھی ہیں لیکن وہ سیکورٹی شعبے میں بہت سی مشکلات کا شکار ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے دن طوفان الاقصی آپریشن انجام پانے کے بعد اس کی سیکورٹی مشکلات مزید پیچیدہ ہو گئی ہیں۔ طوفان الاقصی آپریشن نے اسرائیل کو ایسی شکست سے روبرو کیا جس کی مثال نہیں ملتی اور تل ابیب جارحانہ پالیسیاں چھوڑ کر دفاعی پالیسیاں اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا۔ صیہونی رژیم کے سیاسی اور اسٹریٹجک ماہرین نے طوفان الاقصی آپریشن سے پہلے سیکورٹی شعبے میں مختلف قسم کے اہداف کا تعین کر رکھا تھا لیکن اس آپریشن کے بعد ان کے تمام منصوبے ناکام ہو گئے اور وہ اپنے اہداف پر نظرثانی پر مجبور ہو گئے۔
 
نیا سال شروع ہونے کے بعد غاصب صیہونی رژیم ایسے نئے چیلنجز سے روبرو ہے جو ماضی کے چیلنجز سے بالکل مختلف ہیں جبکہ پہلے والے چیلنجز بھی بدستور موجود ہیں۔ گذشتہ سال غاصب صیہونی رژیم اور ایران کے درمیان چند بار براہ راست فوجی ٹکراو انجام پایا ہے اور یہ خطرہ اب بھی صیہونی رژیم کے سر پر منڈلا رہا ہے جبکہ شمالی محاذ پر حزب اللہ لبنان کی تلوار بھی اس کے سر پر لٹک رہی ہے کیونکہ صیہونی فوج حالیہ جنگ میں حزب اللہ لبنان کی فوجی طاقت ختم نہیں کر پائی ہے۔ اس خطرے کی سب سے اہم علامت یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے شمال میں واقع یہودی بستیوں سے نقل مکانی کرنے والے آبادکار اب بھی اپنے گھر واپس نہیں لوٹ پائے ہیں۔ دوسری طرف مغربی کنارے سمیت پورے مقبوضہ فلسطین میں مزاحمتی کاروائیاں جاری ہیں۔ ان سب سے ہٹ کر اس سال صیہونی رژیم کو جن نئے اسٹریٹجک چیلنجز کا سامنا ہے وہ درج ذیل ہیں:
 
1)۔ بین الاقوامی حیثیت کا زوال
طوفان الاقصی آپریشن کی ایک اہم کامیابی یہ تھی کہ اس نے غاصب صیہونی رژیم کو گوشہ نشین اور نفرت انگیز رژیم میں بدل کر رکھا دیا اور بین الاقوامی عدالتوں نے اسے ایک مجرم اور باغی رژیم قرار دے دیا۔ اسی سلسلے میں عالمی عدالت انصاف نے صیہونی حکمرانوں پر غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا جرم ثابت کر دیا اور صیہونی وزیراعظم اور سابق وزیر جنگ کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے۔ مزید برآں، خطے اور دنیا کی اکثر اقوام اور حکومتیں جو غزہ جنگ سے پہلے اسرائیل کو جمہوری اقدار کا گہوارہ سمجھتی تھیں اور اس کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کر رہی تھیں، غزہ جنگ کے بعد اسے ایک مجرم اور قاتل رژیم قرار دینے لگیں۔ ان واقعات نے صیہونی کاز پر انتہائی کاری ضرب لگائی ہے اور گذشتہ 76 برس سے تعیین شدہ اسٹریٹجک اہداف اور منصوبوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
 
2)۔ فوج کی ٹوٹ پھوٹ
غاصب صیہونی رژیم اپنے ڈھانچے میں صرف ایک ادارے کو مقدس قرار دیتی ہے اور وہ فوج ہے۔ صیہونی رژیم کا عقیدہ تھا کہ فوج پر کسی قیمت میں کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے لیکن گذشتہ چند سالوں میں اس عقیدے میں بہت حد تک تبدیلی آئی ہے اور صیہونی معاشرے میں فوج ایک متنازعہ ادارہ بن گیا ہے۔ اسی طرح اس پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں جن میں کچھ سیاسی گروہوں کو کچلنے کا الزام بھی شامل ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں صیہونی فوج کو کئی میدانوں میں واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کی وجہ سے اس کی طاقت اور صلاحیتوں میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری طرف ان ناکامیوں کے باعث صیہونی فوج کے حوصلے بھی پست ہو گئے ہیں اور وہ شدید ٹوٹ پھوٹ اور زوال کا شکار ہے۔
 
ان تمام وجوہات کی بنا پر صیہونی فوج کی حیثیت کو شدید صدمہ پہنچا ہے اور اندرونی سطح پر اس پر صیہونی معاشرے کا اعتماد بھی کم ہوا ہے۔ مستقبل میں خاص طور پر غزہ جنگ ختم ہو جانے کے بعد غاصب صیہونی رژیم کے سیکورٹی اور فوجی ادارے کئی چیلنجز سے روبرو ہوں گے جن میں فوج کی رفتہ عزت و وقار کی بحالی اور یہودی آبادکاروں کا اعتماد بحال کرنا بھی شامل ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ گذشتہ چند برس میں فوجی اہداف کے حصول میں صیہونی فوج کی مسلسل ناکامیوں نے اس کی چہرہ بری طرح مسخ کر دیا ہے۔ اگرچہ اس دوران صیہونی فوج کو محدود پیمانے پر کچھ کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں لیکن ناکامیوں کی مقدار اور شدت اس قدر زیادہ ہے کہ ان کے اثرات غالب ہیں جن کے باعث فوج زوال پذیر ہو رہی ہے۔
 
3)۔ اندرونی سطح پر خلیج میں اضافہ
جب غاصب صیہونی رژیم کا ناجائز وجود قائم ہوا ہے اس کی حکمت عملی "سیکورٹی اور ترقی کی حامل جمہوری یہودی حکومت" کے قیام پر استوار رہی ہے تاکہ یوں اندرونی سطح پر اپنی بقا یقینی بنا سکے۔ دوسری طرف جب سے موجودہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور اس کے انتہاپسند اتحادیوں کی جانب سے عدلیہ میں اصلاحات کا منصوبہ شروع ہوا ہے صیہونی معاشرے میں عظیم بھونچال رونما ہونے لگے ہیں۔ صیہونی معاشرہ اس وقت دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکا ہے؛ ایک نیتن یاہو کی اصلاحات کا حامی اور دوسرا مخالف اور روز بروز ان دونوں دھڑوں کے درمیان خلیج اور دراڑ بڑھتی جا رہی ہے۔ اسی طرح طوفان الاقصی آپریشن کے بعد حماس کی جانب سے بڑی تعداد میں اسرائیلی یرغمالی بنا لیے گئے اور ان یرغمالیوں کی آزادی کے مسئلے نے بھی صیہونی معاشرے کو دو لخت کر دیا ہے۔ 

تحریر: علی احمدی


حالیہ دنوں غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے 13 جنوری کو اپنی ایک تقریر میں اعتراف کیا ہے کہ غزہ میں جنگی حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے۔ اس اعتراف کے ساتھ انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ غزہ میں حماس کو ملٹری طریقوں سے شکست نہیں دی جا سکتی۔ حماس نے غزہ میں اپنے شہید ہونے والے جوانوں کی تعداد کے برابر یا زیادہ تعداد میں نئے نوجوانوں کی بھرتی کر لی ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب غزہ میں فلسطینی مزاحمت نے صیہونی فوجیوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کیا ہے اور روز بروز بڑھتی کارروائیوں میں درجنوں صیہونی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تصدیق ہو رہی ہے۔ اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں سے متعلق خود اسرائیلی ذرائع ابلاغ جن میں چینل 14 اور اسرائیل ہیوم شامل ہیں، اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ گذشتہ چند ماہ میں چار سو سے زائد اسرائیلی فوجی غزہ کے محاذ پر ہلاک ہوئے ہیں۔

یہ کارروائیاں خاص طور پر ایسے اوقات میں تیز ہوئی ہیں، جب یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس کی طاقت کو ختم کر دیا گیا ہے، لیکن ان کارروائیوں نے اسرائیل کے تمام تر دعووں کو جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔ امریکی عہدیدار کا بیان اگرچہ کسی حد تک امریکہ اور اسرائیل کی کمزوری کی عکاسی کر رہا ہے، لیکن ایک خطرہ اب بھی موجود ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اب سیاسی عنوان سے غزہ کو حماس کے ہاتھوں سے چھین لینے کی منصوبہ بندی کر رہے ہوں گے اور یقیناً ایسا ہی ہوگا، کیونکہ امریکہ ہمیشہ جنگ کے میدان میں شکست کے بعد سیاسی میدان میں اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرنے کے پوری کوشش کرتا آیا ہے۔اس مرتبہ بھی شاید ایسا ہی کچھ ہو۔

بہرحال دوسری طرف سیاسی میدان بھی تیار نظر آرہا ہے کہ قطری وزارت خارجہ کے سرکاری ترجمان ماجد الانصاری نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر تباہی کی جنگ کو روکنے کے لیے ہونے والے مذاکرات “معاہدے کے حوالے سے آخری مراحل میں پہنچ چکے ہیں، لیکن ہمیں اس وقت تک زیادہ پرامید نہیں ہونا چاہیئے جب تک کہ ہم اس معاہدے کو حاصل نہیں کر لیتے۔‘‘ الانصاری نے دوحہ سے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ "ہم تفصیلات میں نہیں جائیں گے، لیکن مسودہ دونوں فریقوں کو پہنچا دیا گیا ہے۔ اب حتمی تفصیلات پر بات چیت جاری ہے۔ البتہ ابھی جنگ بندی کا باقاعدہ اعلان ہونا باقی ہے اور یہ بات درست ہے کہ حماس اور اسرائیل کے مابین معاہدے کے اصولوں پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔

حماس کا کیا مطالبہ ہے؟ حماس کے چند ایک موٹے موٹے مطالبات میں غزہ سے اسرائیلی فوج کا انخلاء ہے، قیدیوں کا تبادلہ ہے، جس میں لگ بھگ 1600 سے زائد قیدیوں کی فہرست اسرائیل کو پہنچا دی گئی ہے۔ اسی طرح غزہ میں آئندہ حکومت بنانے کے عنوان سے اسرائیل کی شرط ہے کہ غزہ میں مغربی کنارے جیسی اتھارٹی قائم ہو، یعنی حماس کا عمل دخل ختم ہو جائے، اسی طرح اسرائیل کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ حماس کے اعلیٰ کمانڈروں کو غزہ سے ملک بدر کیا جائے اور وہ کسی اور ملک میں جا کر رہ سکتے ہیں، جہاں ان کو نقصان نہ پہنچانے کی اسرائیلی ضمانت دی جا رہی ہے۔

حماس اور اسرائیل کے شرائط اور ایک دوسرے سے مطالبات کو دیکھ کر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ شاید یہ معاہدہ کبھی انجام پانے والا ہے ہی نہیں۔ کیونکہ نہ تو حماس نے ایسی کوئی شرط مان لینی ہے کہ جس کی وجہ سے خود حماس نہ صرف فلسطینیوں میں زیر سوال بن جائے اور ساتھ ساتھ حماس کے اندر بھی ایک اختلافی مسئلہ جنم لے۔ حقیقت میں اسرائیل کی یہ شرائط اس وجہ سے رکھی گئی ہیں کہ حماس کو اندر سے کمزور اور کھوکھلا کیا جائے، کیونکہ جیسا کہ پہلے کہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل جنگ کے میدان میں شکست کھا چکے ہیں اور اب سیاسی میدان یعنی مذاکرات کی میز پر میدان کی شکست کھائی ہوئی جنگ کو سازشوں کے ذریعے جیت کر سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔

میرے اپنے ذاتی تجزیہ کے مطابق حماس ایسی کوئی شرط قبول نہیں کرے گی کہ جس میں حماس کے عہدیداروں کو غزہ بدر ہونا پڑے، اسی طرح دس لاکھ سے زائد فلسطین رفح کراسنگ پر موجود ہیں، جن کو اسرائیل واپس آنے کی اجازت نہیں دینا چاہتا، تاہم اس معاہدے میں ایک اہم شرط یہ بھی موجود ہے۔ اگر حماس ایسی کسی شرط کو قبول کرے تو پھر خود حماس کی فلسطینی عوام میں سیاسی مقبولیت کا جنازہ نکل جائے گا۔ اب دوسری طرف خود غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی اپنی کیا حالت ہوچکی ہے؟ کیوں آخر جنگ بندی کے معاہدے پر بات شروع کی گئی ہے۔؟ ایک وجہ تو حماس کی از سر نو مزاحمتی کارروائیوں میں بڑی تعداد میں مرنے والے صیہونی فوجی ہیں، دوسری اہم وجہ سیاسی میدان کی چال کے ذریعے وہ حماس کو ٹریپ کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے لبنان میں جال بچھایا تھا، لیکن ناکام ہوگئے تھے۔

تیسری وجہ شاید ٹرمپ بھی ہوسکتا ہے، جو نیتن یاہو پر دبائو بڑھا رہا ہوگا کہ جلد از جلد جنگ کو ختم کرو۔ چوتھی وجہ اسرائیلی فوج کا غزہ میں مزید جنگی زمینی کارروائیوں میں حصہ لینے سے انکار کا مسئلہ بھی ہے۔ پانچواں مسئلہ خود اسرائیل کے غاصب حکومت کے عہدیداروں کی باہمی لڑائی اور اختلافات ہیں، یعنی آرمی چیف کو باقاعدہ وزیر جنگ نے ڈانٹ دیا ہے اور اسی طرح آرمی چیف نے اپنے نائب کے ساتھ شدید لڑائی کی ہے، جس کی خبریں اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکی ہے۔ غاصب اسرائیل کے نام نہاد وزیر انصاف نے سپریم کورٹ کے جج کے ساتھ لڑائی کی ہے اور اسی طرح دیگر عہدیداروں کی باہمی لڑائیوں کے قصے عام ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی حزب اختلاف کے اہم عہدیدار لائبر مین کہتے ہیں کہ اگر نیتن یاہو نے غزہ جنگ میں یہی پالیسی جاری رکھی تو پھر اسرائیلی 2026ء تک نابود ہو جائے گا۔

ایسی متعدد اور بھی کئی وجوہات ہیں، جن کی بناء پر غاصب صیہونی حکومت کو مجبور ہو کر غزہ جنگ بندی کا معاہدہ کرنا پڑ رہا ہے، لیکن اس معاہدے کی آڑ میں دشمن کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح حماس کو اس معاہدے کے ذریعے سیاسی اور جنگی میدان سے آئوٹ کر دیا جائے اور اس کام کے لئے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر "ایتمار بن گویر" نے غزہ پر تباہی کی جنگ کو ختم کرنے کے معاہدے کی مخالفت کا اعلان کیا ہے، جسے انہوں نے مصر، قطر اور امریکہ کی قیادت میں بالواسطہ مذاکرات میں ٹھوس پیش رفت کی روشنی میں اسلامی تحریک مزاحمت "حماس کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا معاہدہ” قرار دیا ہے۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں بن گویر نے اپنے اتحادی پارٹنر وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاہدے کی مخالفت میں ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور اگر اس پر عمل درآمد ہوتا ہے تو حکومت سے علیحدگی اختیار کر لیں، "کیونکہ یہ حماس کو تسلیم کرنے کی نمائندگی کرتا ہے۔ بن گویر بہت پریشان نظر آیا، جب اس نے سموٹریچ کو مخاطب کیا کہ "آئیے وزیراعظم (بینجمن نیتن یاہو) کے پاس جائیں اور انہیں بتائیں کہ اگر وہ اس معاہدے کو منظور کرتے ہیں تو ہم حکومت سے دستبردار ہو جائیں گے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بن گویر اور سمورٹریچ کی جماعتیں ایک فہرست کے ساتھ اسرائیلی کنیسٹ میں پہنچی ہیں، لیکن وہ دو الگ الگ جماعتیں ہیں۔

اسرائیلی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اسموٹریچ کو بن گویر کی دعوت قبول کرنے کی طرف راغب نہیں کیا جائے گا، کیونکہ حکومت کو ختم کرنا ان کے مفاد میں نہیں ہے، کیونکہ رائے عامہ کے جائزوں سے انھیں انتخابات میں کامیابی کی امید نہیں۔ بن گویر بھی اکیلے حکومت کو ختم نہیں کرسکتا، کیونکہ اس کے پاس 4 اراکین ہیں۔ اس کی تلافی "نیو ہوپ” پارٹی کے سربراہ گیڈون ساعر کریں گے، جنہیں نیتن یاہو نے حال ہی میں وزیر خارجہ مقرر کیا تھا اور ان کے پاس یہ تعداد پوری ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس تمام تر صورتحال کو دیکھنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر غزہ جنگ بندی کا معاہدہ عملی جامہ پہنتا ہے تو بھی اسرائیل کو ایک بڑی شکست ہوگی اور اگر یہ جنگ اسی طرح جاری رہتی ہے تو پھر بھی اسرائیل خسارے میں ہے، یعنی اسرائیل ہر دو طرح سے ڈوب رہا ہے اور یہی غزہ جنگ بندی کا مستقبل اور نتیجہ نظر آتا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
 
 
 

قرآن مجید میں علی (ع) کے فضائل
قرآن کریم میں ارشاد ہو تا ہے:
( اِنَّماَ وَلِیُّکُمُ اللهُ وَ رسُولُه وَ الَّذِین آمَنُوا الّذِینَ یُقیمُونَ الصَّلوٰة ویُؤتُون الزَّکَاةَ وَهُمْ راکعونَ ) ( ۱۵ )
بےشک اللہ اور اس کا رسول اور اس کے بعد وہ تمہاراولی ہے جو ایمان لایا اورنماز قائم کی اور رکوع کی حالت میں زکات ادا کی۔
زمخشری اپنی کتاب کشاف میں بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں اس وقت نازل ہوئی جب آپ نے نما ز پڑھتے وقت حالت رکوع میں سائل کو اپنی انگوٹھی عطا کی۔ زمخشری مزید کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اعتراض کرے کہ اس آیت میں تو جمع کا لفظ آیا ہے اور یہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے لئے کس طرح درست ہو سکتا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جب کسی کام کا سبب فقط ایک ہی شخص ہو تو وہاں اس کے لئے جمع کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے تا کہ لوگ اس فعل کی شبیہ بجا لانے میں رغبت حاصل کرےں اور ان کی خواہش ہو کہ ہم بھی اس جیسا ثواب حاصل کرلےں۔( ۱۶ )
نیزاللہ تعالی کا ارشاد ہے:
( اٴَفَمَنْ کَانَ عَلیٰ بینةٍ مِنْ رَبّهِ وَ يَتْلُوْهُ شَاهِد مِنْهُ ) ( ۱۷ )
کیا وہ شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی دلےل پر قائم ہے اور اس کے پیچھے پیچھے ایک گواہ ہے جواسی سے ہے۔
سیوطی درمنثور میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں اور مزیدکھتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اٴفمن کان علیٰ بینةٍ من ربهِ و يتلوه شاهدٌ منه
وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے واضح دلےل پر قائم ہے وہ میں ہوں اور اس کے پےچھے پےچھے ایک گواہ بھی ہے جو اسی سے ہے اوروہ حضرت علی علیہ السلام ہیں۔( ۱۸ )
نیزاور اللہ کا یہ ارشاد ہے :
( اٴَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَیَسْتَوُون ) ۱۹ )
کیا ایمان لانے والا اس شخص کے برابر ہے جو بد کاری کرتا ہے ؟یہ دونوں برابر نہیں ہیں۔
واحدی نے مذکورہ آیات کے اسباب نزول کے بارے میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ولےد بن عقبہ بن ابی محےط نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے کہا۔
میں آپ سے عمر میں زیادہ ،زبان میںگویا تر اور زیادہ لکھنا جانتا ہوں۔ حضرت علی علیہ السلا م نے اس سے کھاکہ خاموش ہو جاؤ تم تو فاسق ہو اور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی :
( اٴَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَیَسْتَوُونَ )
کیا ایمان لانے والا شخص اس کے برابر ہے جو کھلی بدکاری کرتا ہے؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے ۔
ابن عباس کہتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی علیہ السلام مومن ہیں اور ولےد بن عقبہ فاسق ہے ۔( ۲۰ )
نیز اللہ کا فرمان ہے :
( إِنْ تَتُوْبَا إِلَی اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَ إِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَاِنَّ اللهَ هُوَ مَوْلٰیه وَجِبْرَيْلُ وَصَالِحُ الْمؤمنین وَالمَلٰا ئِکَةُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِيْرٌ )
( اے نبی کی ازواج ) اگر تم اللہ کے حضور توبہ کر لو (تو بھتر ہے ) کیونکہ تمہارے دل کج ہو گئے ہیں اگر تم دونوں نبی کے خلاف کمر بستہ ہو گئےں توبےشک اللہ ،جبرئےل اور صالح مومنین اس کے مدد گار ہیں اور ان کے بعد ملائکہ کے بعد ملائکہ ان کی پشت پر ہیں ۔( ۲۱ )
ابن حجر کہتے ہیں طبری نے مجاھد کے حوالہ سے نقل کیا ہے صالح المومنین حضرت علی علیہ السلام ‘ ابن عباس ، حضرت امام محمد بن علی ا لباقر اور ان کے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں ۔ ایک دوسری روایت میں مروی ہے کہ صالح المومنین سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں( ۲۲ )
اسی طرح خداوندعالم کا یہ ارشاد :
( لِنَجْعَلَهَا لَکُمْ تَذْکِرَةً وَتَعِیَهَا اٴُذُنٌ وَاعِیَةٌ ) ( ۲۳ )
اس واقعہ کو تمہارے لیئے یادگار بنا دیں تاکہ یاد رکھنے والے کان اس کو یا د رکھیں۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید کی اس آیتوتعیهااٴُذن واعیه کی تلاوت فرمائی اور پھر حضرت علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:
اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ وہ آپ کے کانوں کو ان خصوصیات کا مالک بنا دے حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرم سے جس چیز کو بھی سنتا تھااسے فراموش نہیں کرتا تھا۔( ۲۴ )
حضرت علی کے متعلق اللہ تعالی کا ایک اور یہ فرمان ہے:
( اٴَنْتَ مُنذِرٌ وَلِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ) ( ۲۵ )
آپ تو محض ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم میں ایک نہ ایک ھدایت کرنے والا ہوتا ہے۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:

"اٴنا المنذر وعلي الهادي وبک یا علی يهتدی المهتدون من بعدی"

۔ میں ڈرانے والا اور حضرت علی علیہ السلام ہادی ہیں ،اس کے بعداسی جگہ فرمایا:اے علی(علیہ السلام) میرے بعد ھدایت چا ھنے والے تیرے ذریعے ھدایت پائیں گے( ۲۶ )
اسی طرح خداوند متعال کا ایک اور فرمان ہے:
( الَّذِینَ یُنفِقُونَ اٴَمْوَالَهُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلاَنِیَةً فَلَهُمْ اٴَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلاَخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلاَهُمْ یَحْزَنُونَ )
وہ لوگ جو دن اور رات میں اپنا مال پوشیدہ اور آشکار طور پر اللہ تعالیٰ کی راہ میںخرچ کرتے ہیں ،ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور انھیں کسی قسم کا خوف و غم نہیں ہے۔( ۲۷ )
ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی ابن ابی طالب کی شان میں نازل ہوئی آپ کے پاس چار درھم تھے آپ نے ایک درھم رات میں، ایک درھم دن میں، ایک درھم چھپا کر اور ایک درھم علانیہ اللہ کی راہ میں خرچ کیاتو یہ آیت نازل ہوئی۔( ۲۸ )
نیزاللہ کا فرمان ہے:

( إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَیَجْعَلُ لَهُمْ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ) ( ۲۹ )
بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کئے عنقریب خدائے رحمن ان کی محبت کو لوگوں کے دلوں میں پیدا کرے گا ۔
حضرت علی علیہ السلام کے فضل و کمال کے سلسلہ میں نازل ہونے والی آیات میں خداوند متعال کاارشاد:

"سَیَجْعَلُ لَهُمْ الرَّحْمٰنُ وُدًّا "

خصوصی طور پر آپ کی بابرکت شان کی عکاسی کرتا ہے ۔اسی کے بارے میں ابوحنفیہ کہتے ہیں کہ کوئی مومن نہیں ہے جس کے دل میں حضرت علی علیہ السلام اور ان کے اھلبیت کی محبت قائم نہ ہو۔( ۳۰ )
نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
( إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) ( ۳۱ )
جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کئے یھی لوگ مخلوقات میں سب سے بھتر ہیں۔
ابن عباس کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:
یا علي تاتي اٴنت و شيعتک یوم القیامة راضين مرضين و یاٴتي عدوک غضا باً مقمَّحين
(اے علی (ع))وہ خیر البریہ آپ اور آپ کے شیعہ ہیں آپ اور آپ کے شیعہ قیامت کے دن خوشی و مسرت کی حالت میں آئیں گے اور آپ کے دشمن رنج و غضب کی حالت میں آئیں گے۔
قال: ومن عدوی؟
حضرت علی نے کہایا رسول اللہ میرا دشمن کون ہے ؟
قال:من تبراٴ منک ولعنک
آپ نے فرمایا:
جو آپ سے دوری اختیار کرے اور آپ کو برا بھلا کھے وہ آپ کا دشمن ہے۔( ۳۲ )
اسی طرح خداوندمتعال کا ایک اور فرمان ہے :
( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ ) ( ۳۳ )
اے مومنین ! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ ۔
سورہ تو بہ کی اس آیہ شریفہ کے ذیل میں جناب سیوطی کہتے ہیں: ابن مردویہ نے ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالی کا یہ فرمان :
( اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ ) ( ۳۴ )
اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔( ۳۵ )
اس میں سچوں کے ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ہو جاؤ۔
نیزاللہ کا فرمان ہے:

( اٴَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِی سَبِیلِ اللهِ لاَیَسْتَوُونَ عِنْدَ اللهِ وَاللهُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ) ( ۳۶ )
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کو آبادکرنے کے کام کو اس شخص کی خدمت کے برابر سمجھ لیا ہے جو اللہ تعالی اور روز قیامت پر ایمان لا چکا ہے اور اللہ کی راہ میں جہاد بھی کر چکا ہے یہ دونوں خدا کے نزدیک برابر نہیں ہو سکتے اور خدا ظالموں کو سیدھے راستہ کی ھدایت نہیں کرتا۔
السدی کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام ،جناب عباس اور شبیر بن عثمان آپس میں فخر کیا کرتے تھے ،حضرت عباس کہتے تھے میںآپ سب سے افضل ہوں کیونکہ میں بیت اللہ کے حاجیوں کو پانی پلاتا ہوں ،جناب شبیر کہتے تھے کہ میں نے مسجد خدا کی تعمیر کی ۔حضرت علی علیہ السلام کہتے ہیں: میں نے حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم ) کے ساتھ ہجرت کی اور ان کے ساتھ مل کر اللہ کی راہ میں جہاد کیا تو خدا نے یہ آیت نازل فرمائی:
( الَّذِینَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِی سَبِیلِ اللهِ بِاٴَمْوَالِهِمْ وَاٴَنفُسِهِمْ اٴَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللهِ وَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الْفَائِزُونَ یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِیهَا نَعِیمٌ مُقِیمٌ ) ( ۳۷ )
وہ لوگ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ تعالی کی راہ میں جان ومال کے ذریعہ جہاد کیا اللہ تعالی کے نزدیک انکا بہت بڑا مقام ہے،یھی لوگ کا میاب ہیں اللہ تعالی نے انھیں اپنی رحمت کی بشارت دی ہے باغات اور جنت انھیں کے لیئے ہیں اور وہ ہمیشہ وہاںرھیں گے۔
نیز اللہ تعالی یوں ارشاد فرماتا ہے:
( وَقِفُوْهُمْ اِنّهُمْ مَسْؤلُون ) ( ۳۸ )
انھیں روکو-، ان سے سؤال کیاجائے گا۔
ابن حجر کہتے ہیں کہ دیلمی نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قرآن مجےد کی اس آیت سے مراد یہ ہے کہ انھیںروکو،کیونکہ ان سے ولایت علی (ع)ابن ابی طالب علیہ السلام سے متعلق سوال کیاجائے گا۔
اسی مطلب کو واحدی نے بھی بیان کیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کے فرمان

( وَقِفُوْهُمْ اِنّهُمْ مَسْؤلُون )

کہ انھیں ٹھھراؤ یہ لوگ ذ مہ دار ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت کی ولایت کے سلسلے میں جواب دہ ہیں کیونکہ اللہ تبارک تعالی نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ لوگوں کو بتاؤ کہ میں تم سے تبلیغ رسالت کا فقط یھی اجر مانگتا ہوں کہ میرے قرابت داروں سے محبت رکھو۔
کیا ان لوگوں نے(حضرت) علی علیہ السلام اور اولاد علی (ع) سے اسی طرح محبت کی جس طرح رسول اللہ(ص)نے حکم دیا تھا یا انھوں نے ان سے محبت کرنے کا اھتمام نہیں کیا اور اسے اھمیت نہیں دی لہٰذا اس سلسلہ میں ان لوگوں سے پوچھا جائے گا۔( ۳۹ )
خداوندعالم کا ارشاد ہوتا ہے :
( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِینِهِ فَسَوْفَ یَاٴْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَیُحِبُّونَهُ اٴَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ اٴَعِزَّةٍ عَلَی الْکَافِرِینَ یُجَاهِدُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ وَلاَیَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ ذَلِکَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِیهِ مَنْ یَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ ) ( ۴۰ )
اے ایمان والو!

تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے عنقریب اللہ ایسے لوگوں کو ان کی جگہ پر لے آئے گا جنھیں اللہ دوست رکھتا ہے اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہونگے ،مومنین کے ساتھ نرم اور کافروں کے ساتھ سخت ہونگے اور وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کے ملامت سے نہیں ڈریں گے،یہ خدا کی مھربانی ہے ،جسے چاھے عطا فرمائے اور خدا صاحب وسعت اور جاننے والا ہے۔
فخر الدین رازی اور علماء کا ایک گروہ اس آیہ مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں :
یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ،اور اس پر دو چیزیں دلالت کرتی ہیں پھلی یہ کہ جب حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غدیر کے دن فرمایا:
لاٴدفعن الرایة غداً الیٰ رجلٍ یحب الله ورسوله ویحبه الله ورسوله
کل میں یہ پرچم اس شخص کے حوالے کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول کومحبوب رکھتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت رکھتے ہیں۔اس کے بعد پرچم حضرت علی علیہ السلام کے حوالے کیا لہٰذا یہ وہ صفت ہے جو آیت میں بیان ہوئی ہے ۔
دوسری یہ کہ ا للہ نے اس آیت کے بعد مندرجہ ذیل آیت بھی حضرت علی علیہ السلام کے حق میں بیان فرمائی:
( إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَهُمْ رَاکِعُونَ )
تمہارا حاکم اور سردار فقط اللہ،اس کا رسول،اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور پابندی سے نماز پڑھتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں ۔
ابن جریر کہتے ہیں:
اگریہ آیت یقینا حضرت علی علیہ السلام کے حق میں نازل ہوئی ہے تو اس سے پھلی والی آیت کا حضرت علی کے حق میں نازل ہونا اولی ہے۔( ۴۱ )
نیزاللہ تعالی کا یہ فرمان :
( فَاسْاٴَلُوا اٴَهْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ ) ( ۴۲ )
اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے سوال کرو۔
جابر جعفی کہتے ہیں کہ جب یہ آیت ”فاُسئلوا اٴهل الذکر ان کنتم لا تعلمون “نازل ہوئی تو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے تھے ہم اہل ذکر ہیں۔( ۴۳ )
اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے:
( اٴَفَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلاَمِ فَهُوَ عَلَی نُورٍ مِنْ رَبِّهِ فَوَیْلٌ لِلْقَاسِیَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِکْرِ اللهِ اٴُوْلَئِکَ فِی ضَلاَلٍ مُبِینٍ )
کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیئے کھول دیا ہے اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے نور(ھدایت)پر ہے اس کے برابر ہو سکتا ہے جو کفر کی تاریکیوں میں پڑا رھے پس افسوس ہے ان لوگوں پر جن کے دل یاد خدا کے سلسلے میں سخت ہو گئے ہیں وہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں ۔( ۴۴ )
یہ آیت بھی حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کو بیان کرتی ہے کیونکہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام ،حضرت حمزہ علیہ السلام ‘ابو لھب اور اس کی اولاد کے متعلق نازل ہوئی حضرت علی علیہ السلام اور حضرت حمزہ وہ ہیں جن کے سینوں کو اللہ تبارک تعالی نے اسلام کے لیئے کھول دیا ہے اور ابولھب اور اس کی اولاد وہ ہے جن کے دل سخت ہیں۔( ۴۵ )
ایک اور آیت میں اللہ فرماتا ہے:
( مِنْ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَیْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلًا ) ( ۴۶ )
مومنین میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے خدا سے کیا ہوا عھد سچ کر دکھایا ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اپنی ذمہ داری پوری کر چکے ہیں اور بعض (شہادت) کےمنتظر ہیں اورانھوں نے( ذرا سی بھی)تبدیلی اختیار نہیں کی ۔
حضرت علی علیہ السلام کوفہ میں منبر پر خطبہ دے رھے تھے وہاں آپ سے اس آیت کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :
یہ آیت میرے چچا حمزہ اور میرے چچا زاد بھائی عبیدہ بن الحارث بن عبد المطلب اور میری شان میں نازل ہوئی ہے۔ عبیدہ اپنی ذمہ داری بدر کے دن شھید ہو کر پوری کرگئے اور حمزہ احد کے دن درجہ شہادت پر فائز ہو کر اپنی حیات مکمل کر گئے ۔اور میں اس کا منتظر و مشتاق ہوں۔ پھر اپنی ریش مبارک اور سر کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ وہ عھد ہے جو مجھ سے میرے حبیب حضرت ابوالقاسم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لیاھے ۔( ۴۷ )
اس طرح خدا وند عالم کا ارشاد ہے:
( وَالَّذِی جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ اٴُوْلَئِکَ هُمْ الْمُتَّقُونَ ) ( ۴۸ )
اور جو سچی بات لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی یھی لوگ( تو) پرھیز گار ہیں۔
ابو ھریرہ کھتا ہے کہ صدق کو لانے والے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی تصدیق کرنے والے حضرت علی علیہ السلام ہیں( ۴۹ )
ایضاً اللہ ارشاد فرماتا ہے:
( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ بَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لاَیَبْغِیَان فَبِاٴَیِّ اٰ لآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان ) ( ۵۰ )
اس نے آپس میں ملے ہوئے دو دریا بھادئیے ہیں اور دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے جو ایک دوسرے پر زیادتی نہیں کرتا پھر تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوںکو جھٹلاؤ گے ان دونوں سے موتی اور مونگے ( لو لو اور مرجان) نکلتے ہیں۔
ابن مردویہ نے ابن عباس سے مرج البحرین یلتقیان کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا ان سے مراد حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ (ع) ہیں اور برزخ لا یبغیان سے مراد حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اوریخرج منهما اللؤلؤ و المرجان سے مراد حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام ہیں۔( ۵۱ )
ایضاًاللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
( اٴَمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ اٴَنْ نَجْعَلَهُمْ کَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْیَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ )
جو لوگ برے کاموں کے مرتکب ہوتے رھتے ہیں کیا انھوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ ہم ان کو ان لوگوں کی مانند قرار دیں گے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رھے کیا ان کا جینا و مرنا مساوی ہے یہ لوگ (کیسے کےسے )برے حکم لگایا کرتے ہیں۔( ۵۲ )
کلبی کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ،حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ اور تین مشرکین عتبہ ،شیبہ اور ولید بن شیبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔
یہ تینوں مومنین سے کہتے تھے کہ تم کچھ بھی نہیں ہو اگر ہم حق کہہ دیں تو ھمارا حال قیامت والے دن تم سے بھتر ہو گا۔ جیسا کہ دنیا میں ھماری حالت تم سے بھتر ہے۔لیکن اللہ تبارک و تعالی نے اپنے اس فرمان کے ساتھ ان کی نفی کی ہے کہ یہ واضح ہے کہ ایک فرمانبردار مومن کا مرتبہ و مقام ایک نا فرمان کافر کے برابر ھرگزنھیں ہو سکتا ۔( ۵۳ )
ایضاً اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :
( وَهُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنْ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیرًا )
اور وہی قادر مطلق ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا اور پھر اس کو بیٹا اور داماد بنا دیا (اور)پروردگار ہر چیز پر قادر ہے ۔( ۵۴ )
محمد بن سرین اس آیت کی تفسیر میں کھتا ہے کہ یہ آیت حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و االہ و سلم اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و االہ و سلم) کے چچا زاد اور آنحضرت کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا کے شوہر ہیں گویا ”نسباً“اور” صھراً “کی تفسیرےھی ہستی ہے۔( ۵۵ )
ایضاً پروردگار عالم کا ارشاد ہے:
( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ إِلاَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ) ( ۵۶ )

زمانے کی قسم بےشک انسان خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کیے اور باھم ایک دوسرے کو حق کی وصیت اور صبر کی تلقین کرتے ہیں۔
سیوطی کہتے ہیں کہ ابن مردویہ نے ابن عباس سے یہ قول نقل کیا ہے کہ

وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ ،

سے مراد ابوجھل بن ھشام ہے اور

”إِلاَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ “

سے مرادحضرت علی علیہ السلام اور حضرت سلمان ہیں۔( ۵۷ )
ایضاًاللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے :
وَعَلَی الْاٴَعْرَافِ رِجَالٌ یَعْرِفُونَ کُلًّا بِسِیمَاهُمْ ) ( ۵۸ )
اعراف پر کچھ ایسے لوگ (بھی )ہوں گے جولوگوں کی پیشانیاں دیکھ کر انھیں پہچان لیں گے ۔
ثعلبی نے ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں پل صراط کی ایک بلند جگہ کا نام اعراف ہے اور اس مقام پر حضرت عباس ، حضرت حمزہ اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام موجود ہوں گے وہاں سے دو گروہ گزریں گے یہ لوگ اپنے محبوں کو سفید اور روشن چھروںاور اپنے دشمنوں کو سیاہ چھروں کے ذریعے پہچان لیں گے ۔( ۵۹ )
قارئین کرام !تھی یہ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان اور فضیلت میں نازل ہونے والی آیات کی یہ ایک جھلک ہے کیونکہ آپ کی شان میں نازل شدہ تمام آیات کو اس مقام پر بیان کرنا مشکل ہے۔بھرحال خطیب بغدادی ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت اور شان میں تین سو سے زیادہ آیات نازل ہوئی ہیں ۔( ۶۰ )
ابن حجر اور شبلنجی ابن عامر اور ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ کسی کے متعلق بھی اس قدر آیات نازل نہیں ہوئیں جتنی آیات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔(۶۱ )
ھم حضرت علی علیہ السلام کی بلند و بالا اور اعلیٰ وارفع شان اور آپ کی فضیلت اور اللہ کے نزدیک آپ کی عظیم منزلت کے متعلق نازل ہونے والی آیات کریمہ کا آنے والے ابواب میں تذکرہ کریں گے ۔

---------

[۱۵] سورہ مائدہ آیت ۵۵۔

[۱۶] الکشاف ج۱ ص ۶۴۹۔

[۱۷] سورہ ھود آیت ۱۷۔

[۱۸] سیوطی نے در منثور میں اس آیت کے ذیل میں اس مطلب کو بےان کےا ھے۔

[۱۹] سورہ سجدہ :آیت۱۸۔

[۲۰] واحدی اسباب نزول ص۲۶۳۔

[۲۱] سورہ تحرےم:آیت۴۔

[۲۲] ابن حجر العسقلانی فتح الباری ،ج ۱۳ ص ۲۷۔

[۲۳] سورہ حاقة آیت ۱۲۔

[۲۴] تفسیر ابن جریر الطبری ج ۲۹ ص ۳۵۔

[۲۵] سورہ رعد آیت ۷۔

[۲۶] کنز العمال ج ۶ ص۱۵۷۔

[۲۷] سورہ بقرہ آیت ۲۷۴۔

[۲۸] اس روایت کو اسد الغابہ میں ابن اثیر جزری نے ج ۴ ص ۲۵، ذکر کےا ھے۔ اور اسی مطلب کو زمحشری نے تفسیرکشاف میں نقل کیا ھے ان کے علاوہ دوسری کتب میں بھی ےھی تفسیر مذکور ھے ۔

[۲۹] سورہ مریم آیت ۹۶۔

[۳۰] ریاض النضرہ ج ۲ ص ۲۰۷،الصواعق ابن حجر ص۱۰۲، نور الابصار شبلنجی ص ۱۰۱۔

[۳۱] سورہ البینہ آیت ۷

[۳۲] صواعق محرقہ ابن حجر ص ۹۶،نور الابصار شبلنجی ص ۷۰ اور ص ۱۰۱ ۔

[۳۳] سورہ توبہ آیت ۱۱۹۔

[۳۴] سورہ توبہ آیت ۱۱۹۔

[۳۵] سورہ توبہ آیت ۱۹.

[۳۶] سیوطی در منثور در ذیل آیت۔

[۳۷] سورہ توبہ آیت ۲۰تا ۲۱۔، تفسیر ابن جریر طبری ج ۱۰ ص ۶۸۔

[۳۸] سورہ صافات آیت۲۴۔

[۳۹] الصواعق محرقہ ابن حجر ص ۷۹ ۔

[۴۰] فخر رازی نے تفسیر کبیر میں سورہ مائدہ کی اس آیت کے ذیل میں یہ تفسیر بیان کی ھے ۔

[۴۱] سورہ مائدہ آیت ۵۴۔

[۴۲] سورہ نحل آیت۴۳۔

[۴۳] تفسیر ابن جریرطبری ج ۱۷ ص۵۔

[۴۴] سورہ زمر: ۲۲۔

[۴۵] ریاض النضرہ ‘محب طبری ج ۲ ص ۲۰۷۔

[۴۶] سورہ احزاب :۲۳۔

[۴۷] صواعق محرقہ ابن حجر ص ۸۰۔

[۴۸] سورہ زمر :۳۳۔

[۴۹] سیوطی در منثور ذیل تفسیر آیہ ۔

[۵۰] سورہ رحمن: ۱۹تا ۲۲ ۔

[۵۱] سیوطی در منثور ۔

[۵۲] سورہ جاثیہ : ۲۱۔

[۵۳] تفسیر کبیر ،فخر الدین رازی ذیل تفسیر آیہ۔

[۵۴] سورہ فرقان: ۵۴۔

[۵۵] نور الابصار شبلنجی ص۱۰۲۔

[۵۶] سورہ عصر۔

[۵۷] درمنثور تفسیر سورہ عصر۔

[۵۸] سورہ اعراف :۴۶ ۔

[۵۹] صواعق محرقہ ابن حجرص ۱۰۱۔

[۶۰] تا ریخ بغداد‘ خطیب بغدادی ج۶ ص ۲۲۱۔

[۶۱] صواعق محرقہ ص ۷۶ ،نور الابصار ص ۷۳