رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
أَفْضَلُ أَعْمَالِ أُمَّتِي اِنْتِظَارُ اَلْفَرَجِ مِنَ اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ۔ (کمال الدین و تمام النعمہ، ج۲ ، صفحہ۶۴۴،رقم الحدیث : ۳۵۷۴۲۱)
’’ میری امت کا سب سے بہترین عمل انتظار ہے ‘‘۔
ایک عالمی مصلح کے ظہور اور پوری دنیا پر اس کی حکومت کے قیام کا تصور تمام ادیان میں پایا جاتا ہے مگر ان تمام میں محکم اور مستدل عقلی ودینی نظریہ، مکتب تشیع کا ہے جس کے مطابق وہ مصلح امام مہدی (ع)ہے جن کی ولادت سنہ۲۵۵ ہجری میں ہوچکی ہے اورمصلحت الٰہی کے تحت پردہ غیب میں ہے اورو ہ خود حکم الٰہی کے منتظر ہیں تاکہ اسلام کو پوری دنیا میں نافذ کر سکے۔
خدا وند عالم نے دین اسلام کو قیامت تک کے لئے آخری شریعت کے طور پر نازل کیا ہے اور اس کی تعلیمات پر عمل کو ہی انسانیت کے لئے نجات اور ابدی سعادت قرار دیا ہے اور وحی ونبوت کا سلسلہ پیغمبر اسلام (ص) پر ختم کرکے دین کی حفاظت اور نشروفروغ کے لئے سلسلہ امامت کو جاری کیا اور آئمہ علیہم السلام نے اہداف رسالت کے تحقق اور اسلام کی نشر واشاعت کی اہم ذمہ داری کو احسن طریقے سے ادا کیا اور اس راہ میں پیش آنے والی تمام تر مشکلات کو برداشت کیا اور اس راہ میں گیارہ آئمہ علیہم السلام نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور خداوندعالم نے بارہویں آخری حجت کوغیب کے پردہ میں رکھا ہے تاکہ اس عالمی وعدہ کی تکمیل ہوسکے جس کی انسان کو ہروقت آرزو رہی ہے یعنی عدل وانصاف پر مبنی ایک الٰہی حکومت کا قیام۔
اب جبکہ دین الہٰی قرآن وسنت اور سیرت آئمہ کی صورت میں ہمارے درمیان موجود ہے اور امام ظہور کے بعد اسی تعلیمات کو اپنی اصلی شکل میں معاشرے میں نافذ کریں گے تو منتظرین امامؑ کی ذمہ داری بھی یہی ہے کہ وہ اس رسالت و پیغام کو پھیلانے کی جدوجہد کریں جن کا آئمہ علیہم السلام ہم سے تقاضا کرتے ہیں ۔
دعائے ندبہ میں امامؑ کے ان اہداف اور مقاصد کا بیان ہے جس میں امامؑ کامنتظر آپؑ کے ظہور کے لئے فریاد واستغاثہ کرتے ہیں تاکہ وہ ہدف پورا ہوجائے۔امامؑ کے فراق میں یہ فریاد اسلام کی آوازہے جو ابتدائے بشریت سے ہی تمام انبیاءؑ اور ان کے پیروکاروں کی آرزو اور حرکت وجدوجہد کا محور رہا ہے اور اسی ہدف کے لئے انہوں نے اپنا تاریخی کردار ادا کیا ہے اور یہی مقصد اپنے مکمل اور عالمی روپ میں امامؑ کے ظہور کے وقت عمل میں آئے گا۔
دُعائے ندبہ کا ایک حصہ یہ ہے کہ:
۔۔۔۔ کہاں ہے وہ ہستی جو ظلم وستم کی جڑیں اکھاڑنے کے لئے تیار ہے؟
کہاں ہے وہ بزرگوار جو آ کر کجیوں اور نقائص کی اصلاح کرے؟
کہا ں ہے وہ شخصیت کہ جس سے ظلم وستم کے ازالہ کی امیدیں وابستہ ہیں؟
کہاں ہے کہ جو واجبات وسنن الہٰی کی تجدید کے لئے ذخیرہ کیا گیا ہے؟
کہاں ہے وہ ہستی کہ جو ملت وشریعت کو پلٹانے کے لئے انتخاب کیا گیا ہے؟
کہاں ہے وہ ہستی کہ جس سے قرآن اورحدود قرآن کو ازسرنو زندہ کرنے کی امیدیں وابستہ ہیں؟
کہاں ہے وہ دین کی نشانیوں اور اہل دین کوزندہ کرنے والی ہستی؟
ان جملات میں ظلم وستم کے خاتمہ،کجیوں اور نقائص کے اصلاح،دین وشریعت کو اپنی حقیقی شکل میں پلٹانے،حدودِقرآن کو زندہ کرنا اور دین اسلام کی سربلندی کو امامؑ کے عالمی قیام کا ہدف قرار دیا ہے۔
اس کے بعد دعائے ندبہ کے عبارات میں امامؑ کو شرک ونفاق کی بنیادیں ڈھانے،انحراف واختلاف کی شاخوں کو کاٹنے، انحراف،ہویٰ وہوس کے آثار کو محوونابود کرنے،سرکشوں اور جباروں کو نابود کرنے اوراہل عناد وگمراہوں کی بیخ کنی کرنے کے لئے ظہور کی دعا کی گئی ہے اور انہی اہداف کی تکمیل کے لئے ہر دور میں انبیا،آئمہ اور فقہاء وعلماء نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور مذکورہ امور ہی انسانیت کی نجات وکامیابی اور ابدی سعادت کا ضامن ہے جس کو اسلام نے انسانوں کے لئے پیش کیا ہے۔
اوریہ انحرافات،اختلافات،کفر ونفاق اور دین سے دوری معاشرے میں اپنے عروج پر ہے۔عشق ومحبت میں امامؑ کے انتظار کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ ان برائیوں کے خاتمے اور امامؑ کے مشن کی تکمیل کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔انتظار کا مطلب یہ نہیں کہ امامؑ کے نام پر نا معقول رسومات واعمال انجام دی جائیں جو فلسفہ انتظار سے نابلد افراد کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے جس نے دیگر مکاتب کے سامنے مکتب تشیع کے حقیقی چہرے کو د اغدار کرنے کے ساتھ اس مذہب کی فکری،اجتماعی اور سیاسی پہلوؤں کو نظروں سے اوجھل کردیا ہے بلکہ انتظا ر کا اصلی مطلب یہ ہے کہ اسلام کی سربلندی،اس کی تعلیمات کے فروغ،عدل وانصاف پر مبنی معاشرے کے قیام اور مستکبرین جہاں کے خلاف عملاً جدوجہد کو اپنی زندگی کا محور قرار دے اور فریضہ امر بالمعروف اور تبلیغ دین اس کی زندگی کا سب سے اہم ہدف ہو۔
دور حاضر میں اس کی واضح مثال امام خمینیؒ کی شخصیت ہے جنہوں نے انتظار کے حقیقی فلسفے کو سمجھا اور عملاً اس کے لئے جدوجہد کی بالآخر ایک اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی۔ پس ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے کردار وعمل،جدوجہد،وحدت کلمہ،اتحاد واتفاق،ایثار وقربانی اور امر بالمعروف کے ذریعے امامؑ کے ظہور کے لئے راہ ہموار کریں۔
انتظارِ مصلح جہاں اور ہماری ذمہ داری
![انتظارِ مصلح جہاں اور ہماری ذمہ داری](/ur/media/k2/items/cache/314cd209cbfdb73c432928129db7d098_XL.jpg)
Published in
اسلامی مناسبتیں