سلیمانی
اول وقت میں نمازکی فضیلت
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ سَئَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اَیُّ الْاَعْمَالِ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ؟
قَالَ: اَلصَّلٰوةُ لَوْ وَقْتِھَا۔
ثُمَّ اَیُّ شَیْءٍ؟
قَالَ: بِرُّ الْوَالِدَیْنِ۔
قُلْتُ ثُمَّ اَیُّ شَیْءٍ؟
قَالَ: اَلْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ (وسا ئل الشیعہ جلد۳صفحہ ۸۲)
تر جمہ :۔
ابن مسعود سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سوال کیا کونسا عمل خدا کو پسند ہے؟
حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: نماز کو بر وقت بجالانا (یعنی نماز کو اول وقت میں اور فضیلت کے وقت میں ادا کرنا)۔
میں نے عرض کیا اس کے بعد کون سا عمل ؟
حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا ۔
میں نے عرض کیا اس کے بعد کونسا عمل ؟
حضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔
فقیر (شیخ عباس قمی(رحمۃ اللہ علیہ))فرماتے ہیں اسی مضمون کو شیخ کلینی(رحمۃ اللہ علیہ)نے منصور ابن حازم کے ذریعے امام جعفر صادق-سے نقل کیا ہے۔نماز کو اول وقت میں بجالانے اور اس کی حفاظت کے بارے میں بہت زیادہ روایات منقول ہیں ایک روایت میں ہے کہ
"مشرق و مغرب میں کوئی گھر ایسا نہیں ملک الموت ہر دن رات میں پانچوں نمازوں کے اوقات میں اس کی طرف نہ دیکھتا ہوپس جب کسی ایسے شخص کی روح قبض کرنا چاہتا ہو جو نماز کا خیال رکھتاہو اور اسے بر وقت بجا لاتا ہو تو ملک الموت اسے کلمہ شہادتین کی تلقین کرتا ہے( کلمہ شہادتین پڑھاتا ہے)اور شیطان ملعون کو اس سے دور کرتا ہے۔"
نیز معلوم ہونا چاہیے کہ والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی روایات بہت ہیں ایک روایات میں ہے کہ ایک جوان جہاد کا شوق رکھتا تھا لیکن اس کے والدین راضی نہیں تھے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اسے حکم دیا :
" اپنے والدین کے پاس رہو اس خدا کی قسم جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے والدین کا تیرے ساتھ ایک دن کا انس تمہارے ایک سال تک جہاد کرنے سے بہتر ہے"۔
ابراہیم ابن شعیب نے امام جعفر صادق-کی خدمت میں عرض کی کہ میرا باپ بوڑھا اور کمزور ہوگیا ہے جب وہ رفع حاجت کا ارادہ کرتا ہے تو ہم اسے اٹھا کر لے جاتے ہیں
حضرت-نے فرمایا: اگر ہو سکے تو تم خود یہ کام کرو یعنی رفع حاجت کے لئے اسے اٹھا کر لے جاوٴاور اسے کھانا کھلاو ٴ کیونکہ تیرا باپ کل تیرے لیے جہنم سے بچنے کی ڈھال ہے۔
امام کاظم علیہ السلام کی زندگی میں مختلف پراکندہ واقعات کا باہمی تعلق کیا ہے
بقلم سید نجیب الحسن زیدی
امام کاظم علیہ السلام کی زندگی میں بکھرے ہوئے واقعات پر یوں تو بہت سے بزرگ علماء، دانشوروں اور اسکالرز نے اظہار خیال کیا ہے لیکن ائمہ طاہرین علھیم السلام کی زندگی کو ۲۵۰ سالہ انسان کی زندگی کے اعتبار سے دیکھتے ہوئے ایک ہی زنجیر کے حلقوں کی صورت ہر امام کی زندگی کو جس رخ سےبر انقلاب اسلامی نے پیش کیا وہ بے نظیر ہے رہ، گرچہ اس سے ملتی جلتی گفتگو شہید صدر علیہ الرحمہ کی بھی ملتی ہے لیکن جس منظم انداز میں تاریخی حوادث کے گوشوں کو آیت اللہ خامنہ ای نے ایک مجاہدانہ حیات کے خط سے جوڑا ہے اسکی نظیر نہیں چنانچہ امام کاظم علیہ السلام کی زندگی میں مختلف پراکندہ واقعات کا باہمی تعلق کیا ہے اور آپ کی سیاسی حکمت عملی کیا تھی آپ کا تصور امامت کیاتھا اور ہم امام کاظم علیہ السلا م کے تصور امامت سے کتنا دور ہیں اس بات کو مختصر سی اس تحریر میں رہبر انقلاب اسلامی کے بیانات کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
زررہبر انقلاب اسلامی امام کاظم علیہ السلام کے تصور امامت کو واضح کرتے ہوئے موجودہ دور میں ان لوگوں کی فکر پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں جو امامت و ولایت کے غلط تصور کی بنا پر دشمنوں کے جال میں پھنسے ہوئے انحطاط و انجماد نا تراشیدہ اصنام کی صورت قوم و مذہب کی ذلت کا سبب بن رہے ہیں آپ فرماتے ہیں :
“ایسے بھی کچھ لوگ تھے جنہوں نے امام کاظم علیہ السلام کی ہارون سے چغلی کی تاکہ امام علیہ السلام کو زندان میں ڈالا جا سکے ،چنانچہ ایک شخص آکر ہارون سے امام علیہ السلام کی سعایت کرتا ہے اور کہتا ہے ، کیا زمین میں تو خلیفہ جمع ہو گئے ہیں اور کیا خراج دو الگ الگ خیلفاوں کے لئے وصول کیا جاتا ہے ، ہارون نے کہا میرے علاوہ اور کون ہے جس کے لئَے یہ کام ہوتا ہو ، جواب دیا گیا خراسان ، ہرات اور دیگر جگہوں سے لوگ اپنے خمس کے اموال و پیسوں کو امام کاظم علیہ السلام کے لئے لے کر جاتے ہیں ، یہاں پر آپ غور کریں امامت کا معاملہ تھا اور اسی راہ میں ہمارے ائمہ طاہرین علیھم السلام شہید ہوئے یا انہیں زندان میں ڈال دیا گیا ، امامت کا تصور کیا ہے ؟ کیا امامت بس یہی ہے کہ مسئلہ بیان کر دیا جائے اور دنیا کو کوئی اور ادارہ کرے کیا امامت کے معنی شیعت میں اور مسلمانوں کے یہاں یہی ہیں ؟ کوئی مسلمان بھی ایسے تصور امامت کا قائل نہیں ہے پھر ہم اور آپ شیعہ ہوتے ہوئے کیونکر ایسے تصور امامت کو قبول کر سکتے ہیں ؟ امام صادق علیہ السلام امامت کے ہاتھوں میں زمام امور آنے کو لیکر سرگرم عمل تھے یعنی دین و دنیا کی حاکمت امامت کے ہاتھوں میں لینے کے لئے آپ نے کوئی دقیقہ فروگزا ر نہ کیا لیکن حالات و شرائط منطبق نہ ہو سکے ، لیکن ایسا نہیں تھا کہ آپ نے اپنے حق سے صرف نظر کر لیا ہو آپ کا دعوی اپنی جگہ قائم تھا اور اسی دعوای امامت کی بنیاد پر ان عظیم ہستیوں کو شہید کیا گیا ،یہی دین کی حاکمیت کے معنی ہیں جنکے لئے پیغمبروں نے جہاد کیا ، اور ائمہ طاہرین علیھم السلام نے قربانی دی ، ۔۔۔ کیا ممکن ہے کہ ایک شخص کہے میں دیندار تو ہوں میں ایک عالم دین ہوں لیکن اس دعوے کے باوجود خود کو دین کا سپاہی تسلیم نہ کرے ، کیا ایسا ممکن ہے ؟ جو بھی دینداری کا دعوی کرتا ہے و دین کے دعوے کے ساتھ دین کی بنیادوں پر مشتمل دینی حکومت کو اپنا نہ سمجھتا ہو اسکے دفاع کرنے کو اپنی ذمہ داری نہ سمجھتا ہو تو ایسا شخص جھوٹا ہے اسے دین سے لگاو نہیں ہے جب ہم کہتے ہیں وہ جھوٹا ہے تو اسکا مطلب یہ ہے وہ خلاف واقع ہے اورغلط راستے پر چل پڑا ہے ،حقیقت کے برخلاف چل رہا ہے لیکن سمجھنے کوتیار نہیں ہے البتہ یہاں بعض ایسے افراد ہیں جو اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہیں انکی تشخیص ہی دوسری ہے اور وہ اس بات ہی کا انکار کرتے ہیں کہ دین کے پاس اس طرح کی چیزوں کی کوئی منصوبہ بندی موجود ہے[۱]”
امام کاظم علیہ السلام کی زندگی کے پراکندہ واقعات اور انکا باہمی تعلق
شک نہیں کہ ہر انسان کی کتاب زندگی میں ہر ایک ورق پر ایک داستان رقم ہوتی ہے ، اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی دن کچھ خاص واقعہ نہ ہوا ہو تو کتاب زندگی کا صفحہ خالی ہو اور کسی دن کئی کئی حوادث رونما ہوں تو ایک ہی صفحے پر کئی واقعات درج ہوں گرچہ کتاب زندگی کا کوئی ورق خالی نہیں رہتا ہمارے حوادث کو دیکھنے کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ کسی چیز کو ہم یاد کے لائق سمجھتے ہیں تو محفوظ رکھتے ہیں اور کچھ کو مٹا دیتے ہیں یا قابل اعتنا نہیں سمجھتے لیکن اتنا ضرور ہے ہر انسان کی زندگی میں ایک واضح مقصد ہوتا ہے جسکے حصول کے لئے جب انسان بڑھتا ہے تو مختلف حوادث سامنے آتے ہیں جو واضح
ب اسلامی نے ایک زندگی کے خط سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کی ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں :
“امام کاظم علیہ السلام کی زندگی میں آپ کی زندگی سے جڑے سے مختلف اور ایک دوسرے سے لا تعلق واقعات سے گفتگو اور آپکی علمی ، معنوی و قدسی زندگی پر زور دینا اور اسی پر توجہ کرنا نیز آپ کے خاندان سے متعلق واقعات اور آپ کے اصحاب و شاگردوں سے جڑے مسائل کو پیش کرنا ، علمی اور کلامی مباحثوں کو پیش کرنا یہ وہ تمام چیزیں ہیں جنہیں اگر امام کاظم علیہ السلام کے ۳۵ سالہ دور امامت میں آپ کے مجاہدانہ خط پر توجہ کئے بغیر پیش کیا جائے تو یہ ساری باتیں ناقص و ناتمام رہ جائیں گی ، امام علیہ السلام کی زندگی کی مجاہدانہ روش اور آپ کی دائمی جہادی زندگی کے خط کی تشریح و وضاحت آپکی با فیض زندگی کو ایکد دوسرے سے جوڑ دیتی ہے اور آپکی زندگی کی ایک واضح اور مکمل تصویر سامنے آتی ہے اور ایک خاص ایسے زاویہ کے تحت گزرنے والی زندگی کی تصویر کو پیش کرتی ہے جس میں ہر حاثہ اورواقعہ اور جس کے اندر پائی جانے والی ہر حرکت با معنی ہوتی ہے کیوں امام صادق علیہ السلام مفضل سے فرماتے ہیں اس نوجوان کی امامت کی بات بس مورد اعتماد افراد سے کہو [۲]عبد الرحمن بن حجاج سے صراحت کے بجائے اشارہ و کنایہ میں فرماتے ہیں زرہ انکے اوپر پوری آتی ہے[۳] یا اپنے نزدیک دوستوں جیسے “صفوان جمال ” سے سے علامت اور نشانیوں کے ذریعہ تعارف کراتے ہیں[۴]،آخر کیوں اپنے وصیت نامہ میں اپنے فرزند کا نام چار لوگوں کے ذکر کے بعد لاتے ہیں اور اس میں بھی پہلا نام منصور عباسی کا ہے پھر حاکم مدینہ اور اس کے بعد دو خواتین کا نام ہے[۵] ، اور اس طرح ان ناموں کو ذکر کرتے ہیں کہ آپکی شہادت کے بعد شیعوں کے بزرگ عمائدین اس بات کو نہیں جانتے کہ آپ کا جانشین یہی بیس سال کا جوان ہے ؟”[۶]
آخر کیوں؟
انسان کے ذہن میں جب بھی کسی واقعہ کے سلسلہ سے سوال اٹھے کہ ایسا کیوں ہوا تو اسے غنیمت سمجھنا چاہیے کیونکہ یہی کیوں وہ چابی ہے جو مختلف واقعات کے اسباب و علل کے دروازوں کو کھولتی ہے جس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حادثہ محض حادثہ تھا یا اس کے پیچھے کوئی فکر کارفرما تھی امام کاظم علیہ السلام کی زندگی کے مختلف مراحل میں بارہا یہ سوال کھڑا ہوتا ہے امام علیہ السلام نے ایسا کیوں کیا رہبر انقلاب اسلامی اس سلسلہ سے فرماتے ہیں :
“کیوں ہارون سے گفتگو میں جب وہ خراج کے وصولنے اور دو خیلفہ ہونے[۷] کی بات کرتا ہے تو امام کاظم علیہ اسلام نرم لہجہ اختیار کرتے ہیں اوراس بات کا انکار نرم زبان میں کرتے ہیں اور اسکے بعد حسن بن عبد اللہ نامی ایک مرد زاہد سے خطاب میں کیوں معرفت امام کی بات کرتے ہیں اور خود کو مفترض الطاعہ کی حیثیت کے پیش کرتے ہیں یعنی اس مقام کا حامل جس پر عباسی خلیفہ نے قبضہ کیا ہوا تھا کیوں امام کاظم علیہ السلام علی ابن یقطین کو جو کہ ہاروں کی مشینری میں ایک بلند پایہ مقام کے حامل تھے اور امام کے چاہنے والوں میں تھے تقیہ کی سفارش کرتے ہیں لیکن صفوان بن جمال کی اسی ہارون کی خدمت کے سلسلہ سے ملامت کرتے ہیں اور خلیفہ وقت سے رابطہ منقطع کر لینے کی دعوت دیتے ہیں کس طرح اور کن وسائل کے تحت آپ اسلام کے وسیع قلمرو کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کے درمیان ایک ایسا نیٹ ورک قائم کرتے ہیں جس سے سب چین کی سرحدوں تک جڑے رہیں ؟
کیوں منصور ، مہدی ، ہارون ، ہادی ، یہ سب کے سب اپنے اپنے دور اقتدار کے مخلتف زمانوں میں امام کاظم علیہ السلام کو قتل کرنے اور زندان میں ڈالنے کے درپے رہتے ہیں اور کیوں جیسا کہ بعض روایات بیان کرتی ہیں امام علیہ السلام کو ۳۵ سال کے دور امامت میں ایک دور مخفیانہ طور پر گزارنا پڑتا ہے کیوں آپ مخفیانہ طرز حیات اختیار کر کے شام اور بعض طبرستان کے علاقوں تک پہنچ جاتے ہیں اور خلیفہ وقت کی جانب سے آپ کو تلاش کیا جاتا ہے اور وہ آپ کا پیچھا کرتے ہیں جبکہ آپ اپنے دوستوں سے فرماتے ہیں کہ اگر خیلفہ میرے بارے میں تم سے کچھ پوچھے تو اس سے کہہ دینا کہ ہم انہیں نہیں جاتے اور یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کہاں ہیں ۔
کیوں یارون ایک سفر حج کے دوران آپکی از حد تجلیل و تکریم کرتا ہے اور ایک دوسرے سفر میں آ پکو زندان میں ڈالنے کا حکم دیتا ہے ،کیوں آپ ہارون کی خلافت کے ابتدائی ایام میں جبکہ اس نے ملائم و نرم رویہ اختیار کیا ہوا تھا اور درگزشت سے کام لے رہا تھا اس نے علویوں کو بھی قید و بند کی صعوبتوں سے آزاد کر دیا تھا اس دور میں ان تمام چیزوں کے باوجود جب فدک کی بات آتی ہے تو اس طرح فدک کو بیان کرتے ہیں کہ تمام اسلامی ممالک پر منطبق ہو جاتا ہے ، یہاں تک کہ خلیفہ حضرت کی خدمت میں تعریض کی صورت کہتا ہے اگر ایسا ہی ہے تو آپ اٹھیں اور میری جگہ سنبھال لیں ، آخر کیوں اسی خلیفہ کا یہ نرم رویہ چند سالوں میں اتنا سخت ہو جاتا ہے کہ امام علیہ السلام کو خطرناک زندان میں ڈال دیتا ہے اور سالوں سال زندان میں محبوس کرنے کے بعد اس پر بھی راضی نہیں رہ
تا اور زندان میں رہنا بھی گوارا نہیں کرتا اور امام علیہ السلام کو سفاکانہ طور پرمسموم کر کے شہید کر دیتا ہے “[۸]
یہ سب کے سب اور ایسے ہی سیکڑوں قابل توجہ پر معنی حوادث جو ظاہری طور پر ایک دوسرے سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ بسا اوقات ایک دوسرے سے متضاد بھی نظر آتے ہیں انہیں حوادث کو جب ہم امام کاظم علیہ السلام کی زندگی میں آپ کے مجاہدانہ خط کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں تو سب کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے سب کے معنی پتہ چل جاتے ہیں سبکا رابطہ پتہ چل جاتا ہے اور یہ وہ خط ہے جسے ہم امام کاظم علیہ السلام کی امامت کے آغاز سے لیکر آپکی شہادت تک دیکھتے ہیں کہ یہی خط جاری و ساری ہے ، یہ وہ خط ِ جہاد ہے جو ہمارے ائمہ طاہرین علیھم السلام کے ڈھائی سو سالہ مجاہدانہ دور حیات میں مختلف شکلوں میں مستمر نظر آتا ہے اسکا ہدف اول درجے پر حقیقی اسلام کی وضاحت اور قرآن کریم کی صحیح تفسیر نیز اسلامی معرفت کی ایک روشن و واضح تصویر بیان کرنا ہے ، اور دوسرے درجے اسلامی سماج میں مسئلہ امامت اور معاشرہ میں سیاسی حاکمیت کے مفہوم کو واضح کرنا ہے اور تیسرے درجہ میں اس بات کی کوشش کرنا ہے کہ ایسا معاشرہ تشکیل پا سکے جس میں حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام کے ہدف کو متحقق کیا جا سکے ، یعنی عدل و انصاف کا قیام اور اللہ کے دشمنوں کو حکومت سے ہٹا کر زندگی کو خلفاء اللہ کے حوالے کرنا[۹]” ۔
امام کاظم علیہ السلام اور زندان سے حرکت و قیام کا پیغام
یقینا امام کاظم علیہ السلام کی زندگی کو ایک خطِ واحد سے جوڑ کر ہم اس رخ سے دیکھیں کہ جس میں امام علیہ السلام مختلف انداز سے ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اپنی زندگی کو حرارت بخشتے ہو بلند ہدف کے حصول کے لئے بڑھتے رہو ہیجان عمل کی آگ ہرگز ٹھنڈی نہ ہو ورنہ ہدف تک رسائی مشکل ہو جائے گی اگر ہم آپ کی زندگی کو دائرہ توحید میں اس انداز سے بڑھتے دیکھیں تو نہ صرف آپ کی زندگی میں مخلتف سرگرمیوں اور آپ کی جانب سے امت کی ہدایت کی حکمت عملی کو سمجھ سکتے ہیں بلکہ محض آپ کی زندگی ہی نہیں آپکا زندان میں ہونا بھی ہمارے لئے ایک پیغام ہوگا آگے بڑھنے کا پیغام ظلم سے مقابلہ کا پیغام رہبر انقلاب اسلامی امام کاظم علیہ السلام کے زندان میں جانے کو بھی اسی رخ سے دیکھتے ہیں:
“امام کاظم علیہ السلام کی شخصیت زندان میں رہتے ہوئے بھی ایک مشعل فروزاں کی حیثیت رکھتی ہےجو اپنی تمام سمتوں کو روشن کئے ہوئے ہے ، آپ ملاحظہ کریں یہی حق ہے ، اسلامی فکر کی سمت اور قرآنی بنیادوں پر اسلامی جہاد کا تصور
ایسی ہی حرکت اور ایسی ہی سمت پر مبتنی ہے یہ وہ حرکت ہے جو جس میں کبھی توقف نہیں ہے حتی سخت ترین شرائط میں بھی یہاں انجماد کاتصور نہیں” ۔[۱۰]
شک نہیں کہ امام علیہ السلام کی زندگی کو اس رخ سے دیکھا جائے جو رہبر انقلاب اسلامی نے بیان کیا ہے تو ہم آج کی اپنی زندگی میں بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں اور مختلف دشواریوں اور مشکلوں کے باجود اپنا اور اپنی قوم کا سر بلند کر سکتے ہیں ،اس لئے کہ ہمارے ائمہ طاہرین کا پیغام ہے خود زندان میں چلے جاو لیکن قوم کو غلامی کے زندان سے نکال کر آزاد کر دو اور امام کاظم علیہ السلا م زندان میں رہتے ہوئے قوم کو آزاد کرانے والی ایک ایسی شخصیت ہے جسے ہمیشہ ایسے امام کی صورت دنیا سلام کرتی رہے گی جس نے زندان میں رہتے ہوئے قوم کا وقا ر بلند کیا جو زندان میں ضرور تھا لیکن اسکی روح آزاد تھی اور اسی آزاد روح نے ایک ایسے انقلاب کی بنیاد رکھی جسے اکیسویں صدی کے عظیم انقلاب کے طور پر دنیامیں جانا جاتا ہے ۔
حواشی:
[۱] ۔http://farsi.khamenei.ir/newspart-index?id=2482&nt=2&year=1370&tid=1476
[۲] ۔كُنْتُ عِنْدَ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع فَدَخَلَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ ع وَ هُوَ غُلَامٌ فَقَالَ اسْتَوْصِ بِهِ وَ ضَعْ أَمْرَهُ عِنْدَ مِنْ تَثِقُ بِهِ مِنْ أَصْحَابِك»
كافی ،ثقة الاسلام كلینی ج ۱ ص ۳۰۸ ح۴ ارشاد ، شیخ مفید :ج ۲ ، ص ۲۱۶ كشف الغمه ،محدث اربلی : ج ۲ ، ص ۲۱۹ بحارالانوار : علامه مجلسی :ج ۴۸ ، ص ۱۷،ح۱۳
[۳] ۔سَأَلْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ فِی السَّنَةِ الَّتِی أُخِذَ فِيهَا أَبُو الْحَسَنِ الْمَاضِی ع فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ صَارَ فِی يَدِ هَذَا وَ مَا نَدْرِی إِلَى مَا يَصِيرُ فَهَلْ بَلَغَكَ عَنْهُ فِی أَحَدٍ مِنْ وُلْدِهِ شَيْءٌ فَقَالَ لِی مَا ظَنَنْتُ أَنَّ أَحَداً يَسْأَلُنِی عَنْ هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ دَخَلْتُ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ فِی مَنْزِلِهِ فَإِذَا هُوَ فِی بَيْتٍ كَذَا فِی دَارِهِ فِی مَسْجِدٍ لَهُ وَ هُوَ يَدْعُو وَ عَلَى يَمِينِهِ مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ ع يُؤَمِّنُ عَلَى دُعَائِهِ فَقُلْتُ لَهُ جَعَلَنِيَ اللَّهُ فِدَاكَ قَدْ عَرَفْتَ انْقِطَاعِی إِلَيْكَ وَ خِدْمَتِی لَكَ فَمَنْ وَلِيُّ النَّاسِ بَعْدَكَ فَقَالَ إِنَّ مُوسَى قَدْ لَبِسَ الدِّرْعَ وَ سَاوَى عَلَيْهِ فَ
قُلْتُ لَهُ لَا أَحْتَاجُ بَعْدَ هَذَا إِلَى شَيْء»
كافی ،ثقة الاسلام كلینی ج ۱ ص ۳۰۸ح۳ كشف الغمه ،محدث اربلی :ج ۲،ص ۲۲۰ بحارالانوار، علامه مجلسی : ج ۴۸، ص ۱۷،ح ۱۷
[۴] ۔ قَالَ لَهُ مَنْصُورُ بْنُ حَازِمٍ بِأَبِی أَنْتَ وَ أُمِّی إِنَّ الْأَنْفُسَ يُغْدَى عَلَيْهَا وَ يُرَاحُ فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ فَمَنْ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع إِذَا كَانَ ذَلِكَ فَهُوَ صَاحِبُكُمْ وَ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى مَنْكِبِ أَبِی الْحَسَنِ ع الْأَيْمَنِ فِی مَا أَعْلَمُ وَ هُوَ يَوْمَئِذٍ خُمَاسِيٌّ وَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ جَالِسٌ مَعَنَا»
الكافی،ثقة الاسلام كلینی ج۱ ص ۳۰۹ ح۶ ارشاد ، شیخ مفید :ج ۲ ، ص ۲۱۸ كشف الغمه ،محدث اربلی : ج ۲ ، ص ۲۲۰ بحارالانوار : علامه مجلسی :ج ۴۸ ، ص ۱۸،ح۲۰
[۵] ۔ بَعَثَ إِلَيَّ أَبُو جَعْفَرٍ الْمَنْصُورُ فِی جَوْفِ اللَّيْلِ فَأَتَيْتُهُ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ وَ هُوَ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ وَ بَيْنَ يَدَيْهِ شَمْعَةٌ وَ فِی يَدِهِ كِتَابٌ قَالَ فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ رَمَى بِالْكِتَابِ إِلَيَّ وَ هُوَ يَبْكِی فَقَالَ لِی هَذَا كِتَابُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ يُخْبِرُنَا أَنَّ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ قَدْ مَاتَ فَ إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ ثَلَاثاً وَ أَيْنَ مِثْلُ جَعْفَرٍ ثُمَّ قَالَ لِيَ اكْتُبْ قَالَ فَكَتَبْتُ صَدْرَ الْكِتَابِ ثُمَّ قَالَ اكْتُبْ إِنْ كَانَ أَوْصَى إِلَى رَجُلٍ وَاحِدٍ بِعَيْنِهِ فَقَدِّمْهُ وَ اضْرِبْ عُنُقَهُ قَالَ فَرَجَعَ إِلَيْهِ الْجَوَابُ أَنَّهُ قَدْ أَوْصَى إِلَى خَمْسَةٍ وَاحِدُهُمْ أَبُو جَعْفَرٍ الْمَنْصُورُ وَ مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَ عَبْدُ اللَّهِ وَ مُوسَى وَ حَمِيدَة »
كافی ،ثقة الاسلام كلینی ج۱ ص ۳۱۰ ح ۱۳ اعلام الوری ،شیخ طبرسی: ص۲۹۹ بحار الأنوار،علامه مجلسی : ج۴۷ ،ص۳،ح ۸
[۶] ۔http://farsi.khamenei.ir/newspart-index?id=2482&nt=2&year=1370&tid=1476
[۷] ۔لَمَّا أُدْخِلْتُ عَلَى الرَّشِيدِ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ ثُمَّ قَالَ يَا مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ خَلِيفَتَانِ يَجِيءُ إِلَيْهِمَا الْخَرَاجُ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أُعِيذُكَ بِاللَّهِ أَنْ تَبُوءَ بِإِثْمِی وَ إِثْمِكَ فَتَقْبَلَ الْبَاطِلَ مِنْ أَعْدَائِنَا عَلَيْنَا فَقَدْ عَلِمْتَ بِأَنَّهُ قَدْ كُذِبَ عَلَيْنَا مُنْذُ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ ص أَ مَا عِلْمُ ذَلِكَ عِنْدَك…»
عیون اخبارالرضا، شیخ صدوق ج۱ ص ۸۱ ح ۹ إحتجاج،شیخ طبرسی: ج۲ ، ص ۳۸۹ ،ح۲۷۱ بحارالانوار،علامه مجلسی : ج ۴۸ ، ص ۱۲۵ ،ح ۲
[۸] ۔http://farsi.khamenei.ir/newspart-index?id=2205&nt=4&year=1368&tid=1476
[۹] ۔ http://farsi.khamenei.ir/newspart-index?id=2205&nt=4&year=1368&tid=1476
[۱۰] ۔ http://farsi.khamenei.ir/photo-album?id=39369
کرتے ہیں کہ مقصد تک پہنچنے کی لگن میں انسان نے کن کن پر خار وادیوں کو طے کیا ہے کبھی یہ واقعات بہت منسجم ہوتے ہیں کبھی بکھرے ہوئے ہوتے ہیں امام کاظم علیہ السلام کی زندگی میں بھی ہمیں مختلف واقعات نظر آتے ہیں جنہیں رہبر انقلا
خطے میں موجود ناامنی اور ہرج و مرج کی ذمہ دار عبری-عربی-غربی مثلث ہے، جنرل حسین دہقانی
انہوں نے کہا کہ امریکی بارہا یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ صرف اپنی فوجی چھاؤنیوں کی حفاظت کریں گے جبکہ خطے کے ممالک کو اپنے دفاع کا خرچ خود اٹھانا ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ اپنے منہ سے سعودی عرب کو دودھ دینے والے گائے کا خطاب دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر امریکہ سعودی عرب کی حمایت نہ کرے تو سعودی نظام حکومت خودبخود ہی گر جائے گا اور اسی وجہ سے سعودی حکام نے بھی امریکی گرتی دیوار کا سہارا لے رکھا ہے۔ ایران کے مشیر برائے سپریم لیڈر جنرل حسین دہقانی نے خطے میں آئے روز بڑھتی امریکی فورسز کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ہم خطے میں بڑھتی امریکی موجودگی کو اپنے لئے کوئی خطرہ (Threat) نہیں سمجھتے بلکہ برعکس، خطے میں زیادہ سے زیادہ امریکی موجودگی کو اپنے اہداف میں زیادہ سے زیادہ اضافہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف واضح اور ثابت شدہ ہے اور وہ یہ کہ خطے میں ہمارے اوپر ہونے والی کوئی بھی جارحیت ردّعمل کے بغیر نہیں رہے گی اور اگر کسی طاقت کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ خطے کی تمامتر اطلاعات پر دسترسی رکھتی ہے تو وہ جان لے کہ آج اسلامی انقلاب کے 40 بیت جانے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران اپنے کسی دشمن کیساتھ کسی قسم کا مذاق نہیں رکھتا۔
عراق کے ہنگاموں میں داعشی اخلاق اور امریکی روح
جمعرات 12 دسمبر کے دن عراق سے ایک انتہائی دلخراش خبر سننے کو ملی۔ بغداد شہر کے الوثبہ اسکوائر میں ایک 16 سالہ جوان ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے شرپسند عناصر کے ہاتھوں انتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا اور اس کے بعد اس کی لاش کھمبے سے لٹکا دی گئی۔ یہ خبر سوشل میڈیا میں جنگل کی آگ کی طرح گردش کرنے لگی۔ اس واقعے کے بارے میں عراق کی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر عبدالکریم خلف نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا: "اس جوان کا نام ھیثم علی اسماعیل تھا۔ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے ہنگامہ آرائی کرنے والے افراد سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ اس کے گھر سے دور چلے جائیں لیکن انہوں نے اسے بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا۔" بریگیڈیئر خلف نے کہا کہ اس درخواست کے بعد شرپسند عناصر اس جوان پر ٹوٹ پڑے اور اسے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کھمبے سے لٹکا دی۔ انہوں نے صرف اس حد تک اکتفا نہیں کیا بلکہ اس جوان کے گھر کو بھی نذر آتش کر ڈالا۔
دوسری طرف عراق کی وزارت داخلہ کے ترجمان خالد محنا نے بھی العراقیہ نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: "وزارت داخلہ نے اس المناک واقعے سے متعلق تمام معلومات حاصل کر لی ہیں اور عدلیہ کے سپرد کر دی ہیں۔" انہوں نے اس واقعے کو وحشت ناک قرار دیتے ہوئے کہا: "قومی سطح پر اس بارے میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ سکیورٹی فورسز کو ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے عملی اقدام انجام دینا ہو گا۔ آئندہ دنوں میں ہم مختلف شہری علاقوں میں مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز کو زیادہ وسیع اختیارات سونپیں گے۔" اسی دن عراق کے دیگر شہر سامرا میں ایک دہشت گردانہ بم حملہ بھی ہوا۔ یہ بم ایک گاڑی میں لگایا گیا تھا۔ باخبر ذرائع کے مطابق ایک خودکش بمبار نے اپنی گاڑی عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کے جوانوں کے قریب لا کر دھماکے سے اڑا دی۔ اس حملے میں حشد الشعبی کے 10 جوان شہید جبکہ کئی دیگر زخمی ہو گئے۔ یہ حملہ ایسے وقت انجام پایا جب حشد الشعبی ملک کے مشرقی اور شمالی علاقوں میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش سے وابستہ عناصر کے خلاف برسرپیکار ہے۔
گذشتہ ہفتے ایک اور دہشت گردانہ اقدام بغداد کے علاقے السنک میں پیش آیا تھا جس میں شرپسند مسلح عناصر نے مظاہرین کے ایک کیمپ پر حملہ کیا اور ان میں سے بعض افراد کو اسلحہ کے زور پر بس میں سوار کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ خبری ذرائع کے مطابق اس حملے میں 20 مظاہرین اور 4 پولیس افسران جاں بحق ہو گئے جبکہ 80 سے زیادہ افراد گم ہو گئے ہیں۔ اکتوبر کے مہینے کے آغاز سے ہی تقریبا روزانہ مظاہرین کی کچھ تعداد بغداد اور عراق کے جنوبی شہروں میں گم ہوتی رہی ہے۔ ان میں سے اکثر واقعات اس وقت پیش آئے ہیں جب مظاہرے میں شامل افراد اپنے گھر کو لوٹ رہے ہوتے تھے۔ اسی طرح بغداد میں مظاہرے میں شامل ایک 19 سالہ جوان کی ٹارچر شدہ لاش بھی برآمد ہوئی تھی۔ اغوا اور قتل کے ان واقعات میں ملوث افراد نقاب پوش تھے۔ کربلا میں ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا جس میں موٹرسائیکل پر سوار نقاب پوش افراد نے مظاہرین کے ایک رہنما کو قریب سے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔
عراق کی نگران حکومت کے وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے بغداد کے علاقے الوثبہ میں ہنگامہ کرنے والوں کے ہاتھوں 19 سالہ جوان کے قتل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "الوثبہ کے المناک واقعے نے ظاہر کر دیا ہے کہ مظاہرین کے روپ میں بعض کرائے کے قاتل موجود ہیں۔ ہم پرامن مظاہرین کی حمایت کرنے میں کسی اقدام سے دریغ نہیں کریں گے۔" دوسری طرف مرجع عالی قدر آیت اللہ سید علی سیستانی نے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسلحہ تک عوام کی رسائی کو محدود کرے اور غیر ریاستی مسلح عناصر کا خاتمہ کر دے۔ اسی طرح آیت اللہ سید علی سیستانی نے عراق کی مسلح افواج اور سکیورٹی فورسز پر زور دیا کہ وہ عوام کی حفاظت کریں۔ عراق کے سیاسی تجزیہ کار صباح العکیلی نے ملک میں جاری عوامی احتجاج کو اپنے اہداف کیلئے استعمال کرنے کی امریکی کوشش کی ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "مظاہرین نے امریکی توقعات پر پانی پھیر دیا ہے اور وہ امریکی ایماء پر حساس تنصیبات پر حملہ ور نہیں ہو رہے۔"
مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس آج ہو گا
مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس آج ہو گا۔ بین الاقوامی خبر ایجنسی کے مطابق چین کی درخواست پر سلامتی کونسل کا بند کمرہ اجلاس بلایا گیا ہے جس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ 5 اگست کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے غیرقانونی الحاق اور خصوصی حیثیت تبدیل کیے جانے کے بعد مسئلہ کشمیر پر یہ دوسرا اجلاس ہے۔ اگست میں بھی چین کی درخواست پر کشمیر پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا تھا جس میں بھارتی اقدام کی مذمت کی گئی تھی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی 12 دسمبر کو سلامتی کونسل کو خط لکھا ہے جس میں بھارتی اقدامات کے باعث مقبوضہ کشمیر میں کشیدگی بڑھنےکا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
«إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ»
ماموستا قادری نے یہ کہتے ہوئے کہ قرآن مسلمان کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیتا ہے اور«إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ» پر سب مفسرین متفق ہیں، صاحب تفسیر الکشاف کا کہنا ہے کہ إِخْوَةٌ قرآنی اصطلاح کے مطابق سب کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیتا ہے کہا: قرآنی کی نظر میں مومنین ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ایک دوسرے کی نسبت بھائی کی طرح حقوق رکھتے ہیں نہ کہ سیاسی یا اجتماعی بھائی۔ ان صفات پر قرآنی حوالے سے عمل ضروری ہے اور انقلاب کے چالیس سالوں میں خدا کے فضل سے اس پر کافی کام ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا: میں نے جمعے کے خطبوں میں عربی انقلابات کے حوالے سے کافی باتیں کی ہیں میں نے کہا ہے کہ انقلاب ایک نتیجے پر پہنچنے کے لیے کیے جاتے ہیں اور اسکے لیے ایک دلیر لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مصر کے عوام نے کافی محنت کی مگر وہ کسی نتیجے تک نہ پہنچے اور سیسی جیسے لوگ اقتدار پر آگیے ، مصری رھنما عوام کو یکجا نہ کرسکے ورنہ مصر میں شیعہ اور سنی کی باتیں نہ ہوتیں۔
اس اہل سنت عالم دین نے کہا: عالم اسلام میں وحدت کے لیے ایک دلیر رھبر کی پیروی ضروری ہے انکی ناکامی کی اہم وجہ یہ ہے کہ انکو ایک حکیم اور دلیر لیڈر نہ مل سکا اور اسلامی انقلاب یہاں ایران میں ایک کامیاب لیڈر کی وجہ سے کامیاب ہوا ۔
انہوں نے مزید کہا : اس وقت تمام مسلمانوں کی وحدت اور ملکر مقابلے کی فضاء مشکل نظر آتی ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کسی ایک طاقت سے منسلک ہوچکا ہے اور وہ ان سے مرضی کے مطابق کام لیتے ہیں۔
ماموستا قادری نے فرمایا: سنی علما کو شیعہ علما کے لئے دعا کرنی چاہئے اگر ہم بھی افغانستان کے علما کی طرح ایک دوسرے کے خلاف فتوے دیتے رہتے اور ایک دوسرے کو مارنے کی تاکید کرتے رہتے تو یہ امن ممکن نہ ہوتا، منطقی فضا میں ہم امن سے رہتے ہیں اور اجتماعی امن پر توجہ کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا: اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن ہماری بقاء وحدت میں قرار دیتا ہے جیسا کہ فرمایا ہے کہ «وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللَّهِ جَميعًا وَلا تَفَرَّقوا». رسول خدا(ص) نے بھی حجةالوداع میں فرمایا کہ تفرقے سے بچو اور آپس میں تقسیم میں نہ پڑو ۔ لہذا کامیابی اور سربلندی اس میں ہے کہ ہم قرآن کی طرف رجوع کریں اور قرآنی زندگی اپنانے کی کوشش کریں۔
الازھر کے فتوی مرکز نے سورہ نور کی آیت ۳۱ اور سورہ احزاب کی آیت ۵۹ کو حجاب کے واجب ہونے پر دلیل قرار دیا۔
الامہ نیوز کے مطابق نے الازھر مرکز نے سورہ نور کی آیت ۳۱ اور سورہ احزاب کی آیت ۵۹ کو حجاب پر عقلی اور منطقی دلیل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر بحث کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور کسی کو حق نہیں کہ حجاب کی مخالفت کرے۔
الازھر کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بعض افراد حجاب کے واجب ہونے پر غیر علمی بحث کرتے ہوئے اس کو نادرست قرار دیتے ہیں۔
مرکز نے حجاب کے حوالے سے قرآنی آیات کا حوالہ دیا ہے جسمیں آیت ۳۱ سوره نور «وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ: جسمیں عورتوں کو نامحرم سے دور رہنے اور چادر اوڑھنے جبکہ آیت ۵۹ سوره احزاب «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا: جسمیں پیغمبر اسلام سے کہا گیا ہے کہ اپنی عورتوں کو زینت چھپانے کا کہا گیا ہے ۔
الازھر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر منصفانہ انداز میں دیکھا جائے تو حجاب یا پردہ اسلامی خواتین کے فائدے میں ہے اور یہ عین فطرت کے مطابق ہے۔
الازھر نے تاکید کی ہے کہ غیر ماہر افراد حجاب کے موضوع پر غیر منطقی بیانات سے گریز کریں اور اس کو اہل علم افراد پر چھوڑیں کہ وہ فیصلہ کریں۔
قابل ذکر ہے کہ حالیہ دنوں مصر میں حجاب کے واجب یا غیر واجب ہونے کے حوالے سے بحث چھیڑ گیی ہے اور بعض فن کاروں نے مطالبہ کیا ہے کہ حجاب پر پابندی لگائی جائے۔/
فرقۂ امامیہ جعفریہ
باهمی شناخت کی ضرورت
باہمی شناخت کی ضرورت
(وَجَعَلْناکُمْ شُعُوْباًوَقَبائِلَ لِتَعارَفُوْا)(١)اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو ۔ اسلام جب آیا تو لوگ آپس میں متفرق اور مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہی نہیں تھے ،بلکہ ایک دوسرے سے لڑائی، جھگڑے اور خون خرابے میں مبتلا تھے ، مگر اسلامی تعلیمات کے طفیل میںآپسی دشمنی اور ایک دوسرے سے اجنبیت کی جگہ میل جول اور عداوت کی جگہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور قطع تعلق کی جگہ قربت پیدا ہوئی ،او راس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملت اسلامیہ ایک عظیم امت کی شکل میںسامنے آئی ، جس نے (اس وقت ) عظیم اسلامی تہذیب و تمدن کو پیش کیا ،اور اسلام سے وابستہ گروہوں کو ہر ظالم و جابر سے بچالیا ،اور ان کی پشت و پناہی کی ،جس کی بناپر یہ امت تمام اقوام عالم میں محترم قرارپائی ،اور سرکش جباروں کی نگاہوں میں رعب و دبدبہ اور ہیبت کے ساتھ ظاہر ہوئی۔ لیکن یہ سب چیزیں نہیں وجود میں آئیں مگر امت مسلمہ کے درمیان آپس کا اتحادو وحدت اور تمام گروہوں کاباہمی ارتباط رکھنے کی بنا پر ،جوکہ د ین اسلام کے سایہ میں حاصل ہواتھا ،حالانکہ ان سب کی شہریت ، رائے ، ثقافت، پہچان ، اور تقلید الگ الگ تھی ، البتہ اصول و اساس ، فرائض و واجبات میں اتفاق و اتحاد کافی حد تک موجود تھا، یقیناً وحدت قوت، اور اختلاف کمزوری ہے ۔ بہرحال یہ مسئلہ اسی طرح جاری رہا یہاں تک کہ باہمی جان پہچان اور آپسی میل جول کی جگہ اختلافات نے لے لی ، اور تفاہم کی جگہ ایک دوسرے سے منافرت آگئی ، اور ایک گروہ دوسرے گروہ کے بارے میں کفر کے فتوے دینے لگا ، اس طرح فاصلے پر فاصلے بڑھتے گئے، جس کی وجہ سے جو رہی سہی عزت تھی وہ بھی رخصت ہوگئی ،اور مسلمانوں کی ساری شان و شوکت ختم ہوگئی اور سارا رعب و دبدبہ جاتا رہا ، اورحالت یہ ہوئی کہ قیادت کی علمبردار قوم سرکشوں کے ہاتھوں ذلت و رسوائی اٹھانے پر مجبور ہوگئی، یہاں تک کہ ان کی نشو و نما کے دہانوں میں لومڑی اور بھیڑئے صفت افراد قابض ہوگئے ،یہی نہیں بلکہ ان کے گھروں کے اندر تمام عالم کی برائیاں،ملعون اشخاص اور نوع بشرکے مبغوض ترین افراد گھس آئے ، نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا سارا مال ومنال لوٹ لیا گیا ،اور ان کے مقدسات کی توہین ہونے لگی ، اور ان کی عزتیں فاسقوں و فاجروںکی مرہون منت ہوگئیں ،اور تنزلی کے بعد تنزلی ، انحطاط کے بعد انحطاط ، اور شکست کے بعد شکست ہونے لگی، کہیں اندلس میں شکست فاش، کہیں بخارا، سمر قند، تاشقند ،بغداد ، ماضی اور حال میں ، اور فلسطین اور افغانستان میں ہار پہ ہار کا سامنا کرنا پڑا ۔ اور حال یہ ہوگیا کہ لوگ مدد کیلئے بلاتے تھے لیکن کوئی جواب دینے والا نہ تھا ، فریاد کرنے والے تھے مگر کوئی فریاد رس نہ تھا ۔ ایسا کیوں ہوا ، اس لئے کہ مرض کچھ اور تھا اور ا س کی دوا اور ، اﷲ نے تمام امور کی باگ ڈور ان کے ظاہری اسباب پر چھوڑ رکھی ہے ،کیا اس امت کی اصلاح اس چیز کے علاوہ کسی اور چیز سے بھی ہوسکتی ہے کہ جس سے ابتداء میں ہوئی تھی؟ آج امت اسلام اپنے خلاف کئے جانے والے سماجی ، عقیدتی اوروحدت کے مخالف شدید اور سخت ترین حملہ سے جوجھ رہی ہے ، مذہبی میدانوں میں اندر سے اختلاف کیا جارہا ہے ، اجتہادی چیزوں کو اختلافی چیز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ، اور یہ حملہ ایسا ہے کہ اس کا ثمرہ اور اس کے ( برے ) نتائج ظاہر ہونے ہی والے ہیں ،کیا ایسے موقع پر ہم لوگوں کے لئے سزاوار نہیںکہ اپنی وحدت کی صفوں کومتصل رکھیں، اور آپسی تعلقات کو محکم اُستوار کریں ؟ ہم مانتے ہیں کہ اگر چہ ہمارے بعض مذہبی رسومات جدا جدا ہیں مگر ہمارے درمیان بیشتر چیزیں ایسی ہیں جو مشترک ہیں جیسے کتاب و سنت جو کہ ہمارا مرکز اور سر چشمہ ہیں وہ مشترک ہیں ، توحید و نبوت ، آخرت پر سب کا ایمان ہے، نماز و روزہ ، حج و زکاة ، جہاد ،اور حلال و حرام یہ سب حکم شریعت ہیں جو سب کیلئے مشترک ہیں ، نبی اکرمۖ اور ان کی آل سے محبت ، اور ان کے دشمنوں سے نفرت کرنا ہمارے مشترکات میںسے ہیں ، البتہ اس میں کمی یا زیادتی ضرور پائی جاتی ہے ، کوئی زیادہ محبت و دشمنی کا دعویٰ کرتا ہے اور کوئی کم ، لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ ایک ہاتھ کی تمام انگلیاں آخر میں ایک ہی جگہ( جوڑ سے) جاکرملتی ہیں ،حالانکہ یہ طول و عرض اور شکل و صورت میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، یا اس کی مثال ایک جسم جیسیہے ، جس کے اعضاء و جوارح مختلف ہوتے ہوئے ہیں، مگر بشری فطرت کے مطابق جسمانی پیکر کے اندر ان میںہر ایک کا کردار جدا جدا ہوتا ہے اور ان کی شکلوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں اور ان کا مجموعہ ایک ہی جسم کہلاتا ہے۔ چنانچہ بعید نہیں کہ امت اسلامیہ کی تشبیہ جو ''ید ِواحد''اور ایک بدن سے دی گئی ہے اس میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہو۔ سابق میں مختلف اسلامی فرقوںا ور مذاہب کے علماء ایک دوسرے کیساتھ بغیر کسی اختلاف وتنازعہ کے زندگی گزارتے تھے ، بلکہ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مددکیا کرتے تھے ، حتی بعض نے ایک دوسرے کی کلامییا فقہی کتابوں کے شرح تک کی ہے، اور ایک دوسرے سے شرف تلمذ حاصل کیا ،یہاں تک کہ بعض تو دوسرے کی تکریم کی بناپر بلند ہوئے، اور ایک دوسرے کی رائے کی تائید کرتے ، بعض بعض کو اجازۂ روایت دیتے ، یا ایک دوسرے سے اجازۂ نقل روایت لیتے تھے تاکہ ان کے فرقے اور مذہب کی کتابوں سے روایت نقل کرسکیں ، اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے ،اور انھیں امام بناتے ، دوسرے کو زکاة دیتے، ایک دوسرے کے مذہب کو مانتے تھے ، خلاصہ یہ کہ تمام گروہ بڑے پیار ومحبت سے ایک دوسرے کے ساتھ ایسے زندگی گزارتے تھے، یہاں تک کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ان کے درمیان کوئی اختلاف ہی نہیں ہے ، جبکہ ان کے درمیان تنقیدیں اور اعتراضات بھی ہوتے تھے لیکن یہ تنقیدیں مہذب اور مؤدب انداز میں کسی علمی موضوعی رد ہوتی تھی ۔ اس کے لئے زندہ اور تاریخی دلیلیں موجود ہیں ،جو اس عمیق اور وسیع تعاون پر دلالت کرتی ہیں ، مسلم علماء نے اسی تعاون کے ذریعہ اسلامی ثقافت اور میراث کو سیراب کیا ہے،انھیں چیزوںکے ذریعہ مذہبی آزادی کے میدان میں انھوں نے تعجب آور مثالیں قائم کی ہیں بلکہ وہ اسی تعاون کے ذریعہ دنیا میں قابل احترام قرار پائے ہیں ۔ یہ مشکل مسئلہ نہیں ہے کہ علمائے امت مسلمہ ایک جگہ جمع نہ ہوسکیں ، اور صلح و صفائی سے کسی مسئلے میں بحث و مباحثہ نہ کرسکیں ، اور کسی اختلافی مسئلے میں اخلاص و صدق نیت کے ساتھ غور و خوض نہ کرسکیں، نیز ہر گروہ کی دلیلوں اور براہین کو نہ پہچان سکیں۔ جیسے یہ بات کتنی معقول اورحسین ہے کہ ہر فرقہ اپنے عقائد اور فقہی و فکری موقف کو آزادانہ طور پر اور واضح فضا میں پیش کرے ، تاکہ ان کے خلاف جو اتہام، اعتراض خصومت اور بیجا جوش میں آنے کا جو امورسبب بنتے ہیں وہ واضح اور روشن ہوجائیں،اوراس بات کو سبھی جان لیں کہ ہمارے درمیان مشترک ،اور اختلافی مسائل کیا ہیں تاکہ اس سے لو گ جان لیں کہ مسلمانوں کے درمیان ایسی چیزیں زیادہ ہیں جن پر سب کااتفاق ہے، اور ان کے مقابلہ میں اختلافی چیزیں کم ہیں ، اس سے مسلمانوں کے درمیان موجود اختلاف کے فاصلے کم ہوں گے اور وہ ایک دوسرے کے نزدیک آجائیں گے ۔ یہ رسالہ اسی راستہ کا ایک قدم ہے ، تاکہ حقیقت روشن ہو جائے ، اور اس کو سب لوگ اچھی طرح پہچان لیں ،بیشک اﷲ توفیق دینے والا ہے ۔ (١)سورہ حجرات١٣. |