سلیمانی

سلیمانی

اسلامی جمہوریہ ایران کے مشیر برائے سپریم لیڈر جنرل حسین دہقانی نے خبرنگاروں کیساتھ گفتگو کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ خطے میں موجود بحران، ناامنی اور ہرج و مرج، جو باہر سے آئی فوجی طاقتوں نے بنایا ہے، کی ذمہ دار عبری-عربی-غربی مثلث ہے جبکہ وہ اس عدم استحکام کی صورتحال اور ایران کے خوف کے ذریعے خطے خصوصاً سعودی عرب کی مالی بنیادوں کو متزلزل کرنا اور خطے کے سعودی عرب جیسے ممالک کو، جنکا سیاسی نظام حکومت عوامی بنیادوں پر استوار نہیں، ڈھارس دے کر اپنے پاؤں پر کھڑے رکھنا ہے، کیونکہ یہ ممالک امریکی مفادات کے ضامن ہیں۔ جنرل حسین دہقانی نے کہا کہ امریکہ نے ایران کے متعلق اپنے ذہن میں ایک غلط تصور پال رکھا تھا اور وہ یہ کہ کسی بھی امریکی اقدام پر ایران خاموش رہے گا، لیکن ایران نے پیشرفتہ ترین امریکی ڈرون طیارہ گرا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایران کسی بھی قسم کے جارحانہ اقدام کا نہ صرف فوری اور موثر جواب دینے میں بالکل سنجیدہ ہے بلکہ اسکے ردّعمل کو بھی بخوبی کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی بارہا یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ صرف اپنی فوجی چھاؤنیوں کی حفاظت کریں گے جبکہ خطے کے ممالک کو اپنے دفاع کا خرچ خود اٹھانا ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ اپنے منہ سے سعودی عرب کو دودھ دینے والے گائے کا خطاب دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر امریکہ سعودی عرب کی حمایت نہ کرے تو سعودی نظام حکومت خودبخود ہی گر جائے گا اور اسی وجہ سے سعودی حکام نے بھی امریکی گرتی دیوار کا سہارا لے رکھا ہے۔ ایران کے مشیر برائے سپریم لیڈر جنرل حسین دہقانی نے خطے میں آئے روز بڑھتی امریکی فورسز کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ہم خطے میں بڑھتی امریکی موجودگی کو اپنے لئے کوئی خطرہ (Threat) نہیں سمجھتے بلکہ برعکس، خطے میں زیادہ سے زیادہ امریکی موجودگی کو اپنے اہداف میں زیادہ سے زیادہ اضافہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف واضح اور ثابت شدہ ہے اور وہ یہ کہ خطے میں ہمارے اوپر ہونے والی کوئی بھی جارحیت ردّعمل کے بغیر نہیں رہے گی اور اگر کسی طاقت کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ خطے کی تمامتر اطلاعات پر دسترسی رکھتی ہے تو وہ جان لے کہ آج اسلامی انقلاب کے 40 بیت جانے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران اپنے کسی دشمن کیساتھ کسی قسم کا مذاق نہیں رکھتا۔
 
 
 

جمعرات 12 دسمبر کے دن عراق سے ایک انتہائی دلخراش خبر سننے کو ملی۔ بغداد شہر کے الوثبہ اسکوائر میں ایک 16 سالہ جوان ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے شرپسند عناصر کے ہاتھوں انتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا اور اس کے بعد اس کی لاش کھمبے سے لٹکا دی گئی۔ یہ خبر سوشل میڈیا میں جنگل کی آگ کی طرح گردش کرنے لگی۔ اس واقعے کے بارے میں عراق کی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر عبدالکریم خلف نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا: "اس جوان کا نام ھیثم علی اسماعیل تھا۔ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے ہنگامہ آرائی کرنے والے افراد سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ اس کے گھر سے دور چلے جائیں لیکن انہوں نے اسے بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا۔" بریگیڈیئر خلف نے کہا کہ اس درخواست کے بعد شرپسند عناصر اس جوان پر ٹوٹ پڑے اور اسے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کھمبے سے لٹکا دی۔ انہوں نے صرف اس حد تک اکتفا نہیں کیا بلکہ اس جوان کے گھر کو بھی نذر آتش کر ڈالا۔
 
دوسری طرف عراق کی وزارت داخلہ کے ترجمان خالد محنا نے بھی العراقیہ نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: "وزارت داخلہ نے اس المناک واقعے سے متعلق تمام معلومات حاصل کر لی ہیں اور عدلیہ کے سپرد کر دی ہیں۔" انہوں نے اس واقعے کو وحشت ناک قرار دیتے ہوئے کہا: "قومی سطح پر اس بارے میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ سکیورٹی فورسز کو ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے عملی اقدام انجام دینا ہو گا۔ آئندہ دنوں میں ہم مختلف شہری علاقوں میں مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز کو زیادہ وسیع اختیارات سونپیں گے۔" اسی دن عراق کے دیگر شہر سامرا میں ایک دہشت گردانہ بم حملہ بھی ہوا۔ یہ بم ایک گاڑی میں لگایا گیا تھا۔ باخبر ذرائع کے مطابق ایک خودکش بمبار نے اپنی گاڑی عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کے جوانوں کے قریب لا کر دھماکے سے اڑا دی۔ اس حملے میں حشد الشعبی کے 10 جوان شہید جبکہ کئی دیگر زخمی ہو گئے۔ یہ حملہ ایسے وقت انجام پایا جب حشد الشعبی ملک کے مشرقی اور شمالی علاقوں میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش سے وابستہ عناصر کے خلاف برسرپیکار ہے۔
 
گذشتہ ہفتے ایک اور دہشت گردانہ اقدام بغداد کے علاقے السنک میں پیش آیا تھا جس میں شرپسند مسلح عناصر نے مظاہرین کے ایک کیمپ پر حملہ کیا اور ان میں سے بعض افراد کو اسلحہ کے زور پر بس میں سوار کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ خبری ذرائع کے مطابق اس حملے میں 20 مظاہرین اور 4 پولیس افسران جاں بحق ہو گئے جبکہ 80 سے زیادہ افراد گم ہو گئے ہیں۔ اکتوبر کے مہینے کے آغاز سے ہی تقریبا روزانہ مظاہرین کی کچھ تعداد بغداد اور عراق کے جنوبی شہروں میں گم ہوتی رہی ہے۔ ان میں سے اکثر واقعات اس وقت پیش آئے ہیں جب مظاہرے میں شامل افراد اپنے گھر کو لوٹ رہے ہوتے تھے۔ اسی طرح بغداد میں مظاہرے میں شامل ایک 19 سالہ جوان کی ٹارچر شدہ لاش بھی برآمد ہوئی تھی۔ اغوا اور قتل کے ان واقعات میں ملوث افراد نقاب پوش تھے۔ کربلا میں ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا جس میں موٹرسائیکل پر سوار نقاب پوش افراد نے مظاہرین کے ایک رہنما کو قریب سے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔
 
عراق کی نگران حکومت کے وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے بغداد کے علاقے الوثبہ میں ہنگامہ کرنے والوں کے ہاتھوں 19 سالہ جوان کے قتل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "الوثبہ کے المناک واقعے نے ظاہر کر دیا ہے کہ مظاہرین کے روپ میں بعض کرائے کے قاتل موجود ہیں۔ ہم پرامن مظاہرین کی حمایت کرنے میں کسی اقدام سے دریغ نہیں کریں گے۔" دوسری طرف مرجع عالی قدر آیت اللہ سید علی سیستانی نے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسلحہ تک عوام کی رسائی کو محدود کرے اور غیر ریاستی مسلح عناصر کا خاتمہ کر دے۔ اسی طرح آیت اللہ سید علی سیستانی نے عراق کی مسلح افواج اور سکیورٹی فورسز پر زور دیا کہ وہ عوام کی حفاظت کریں۔ عراق کے سیاسی تجزیہ کار صباح العکیلی نے ملک میں جاری عوامی احتجاج کو اپنے اہداف کیلئے استعمال کرنے کی امریکی کوشش کی ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "مظاہرین نے امریکی توقعات پر پانی پھیر دیا ہے اور وہ امریکی ایماء پر حساس تنصیبات پر حملہ ور نہیں ہو رہے۔"
 

مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس آج ہو گا۔ بین الاقوامی خبر ایجنسی کے مطابق چین کی درخواست پر سلامتی کونسل کا بند کمرہ اجلاس بلایا گیا ہے جس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ 5 اگست کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے غیرقانونی الحاق اور خصوصی حیثیت تبدیل کیے جانے کے بعد مسئلہ کشمیر پر یہ دوسرا اجلاس ہے۔ اگست میں بھی چین کی درخواست پر کشمیر پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا تھا جس میں بھارتی اقدام کی مذمت کی گئی تھی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی 12 دسمبر کو سلامتی کونسل کو خط لکھا ہے جس میں بھارتی اقدامات کے باعث مقبوضہ کشمیر میں کشیدگی بڑھنےکا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

 

ماموستا قادری نے یہ کہتے ہوئے کہ قرآن مسلمان کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیتا ہے اور«إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ» پر سب مفسرین متفق ہیں، صاحب تفسیر الکشاف کا کہنا ہے کہ إِخْوَةٌ قرآنی اصطلاح کے مطابق سب کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیتا ہے کہا: قرآنی کی نظر میں مومنین ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ایک دوسرے کی نسبت بھائی کی طرح حقوق رکھتے ہیں نہ کہ سیاسی یا اجتماعی بھائی۔ ان صفات پر قرآنی حوالے سے عمل ضروری ہے اور انقلاب کے چالیس سالوں میں خدا کے فضل سے اس پر کافی کام ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا: میں نے جمعے کے خطبوں میں عربی انقلابات کے حوالے سے کافی باتیں کی ہیں میں نے کہا ہے کہ انقلاب ایک نتیجے پر پہنچنے کے لیے کیے جاتے ہیں اور اسکے لیے ایک دلیر لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مصر کے عوام نے کافی محنت کی مگر وہ کسی نتیجے تک نہ پہنچے اور سیسی جیسے لوگ اقتدار پر آگیے ، مصری رھنما عوام کو یکجا نہ کرسکے ورنہ مصر میں شیعہ اور سنی کی باتیں نہ ہوتیں۔

اس اہل سنت عالم دین نے کہا: عالم اسلام میں وحدت کے لیے ایک دلیر رھبر کی پیروی ضروری ہے انکی ناکامی کی اہم وجہ یہ ہے کہ انکو ایک حکیم اور دلیر لیڈر نہ مل سکا اور اسلامی انقلاب یہاں ایران میں ایک کامیاب لیڈر کی وجہ سے کامیاب ہوا ۔

انہوں نے مزید کہا : اس وقت تمام مسلمانوں کی وحدت اور ملکر مقابلے کی فضاء مشکل نظر آتی ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کسی ایک طاقت سے منسلک ہوچکا ہے اور وہ ان سے مرضی کے مطابق کام لیتے ہیں۔

ماموستا قادری نے فرمایا: سنی علما کو شیعہ علما کے لئے دعا کرنی چاہئے اگر ہم بھی افغانستان کے علما کی طرح ایک دوسرے کے خلاف فتوے دیتے رہتے اور ایک دوسرے کو مارنے کی تاکید کرتے رہتے تو یہ امن ممکن نہ ہوتا، منطقی فضا میں ہم امن سے رہتے ہیں اور اجتماعی امن پر توجہ کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا: اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن ہماری بقاء وحدت میں قرار دیتا ہے جیسا کہ فرمایا ہے کہ «وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللَّهِ جَميعًا وَلا تَفَرَّقوا». رسول خدا(ص) نے بھی حجةالوداع میں فرمایا کہ تفرقے سے بچو اور آپس میں تقسیم میں نہ پڑو ۔ لہذا کامیابی اور سربلندی اس میں ہے کہ ہم قرآن کی طرف رجوع کریں اور قرآنی زندگی اپنانے کی کوشش کریں۔

الامہ نیوز کے مطابق نے الازھر مرکز نے سورہ نور کی آیت ۳۱ اور سورہ احزاب کی آیت ۵۹ کو حجاب پر عقلی اور منطقی دلیل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر بحث کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور کسی کو حق نہیں کہ حجاب کی مخالفت کرے۔

الازھر کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بعض افراد حجاب کے واجب ہونے پر غیر علمی بحث کرتے ہوئے اس کو نادرست قرار دیتے ہیں۔

مرکز نے حجاب کے حوالے سے قرآنی آیات کا حوالہ دیا ہے جسمیں آیت ۳۱ سوره نور «وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ: جسمیں عورتوں کو نامحرم سے دور رہنے اور چادر اوڑھنے جبکہ آیت  ۵۹ سوره احزاب «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا: جسمیں پیغمبر اسلام سے کہا گیا ہے کہ اپنی عورتوں کو زینت چھپانے کا کہا گیا ہے ۔

الازھر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر منصفانہ انداز میں دیکھا جائے تو حجاب یا پردہ اسلامی خواتین کے فائدے میں ہے اور یہ عین فطرت کے مطابق ہے۔

الازھر نے تاکید کی ہے کہ غیر ماہر افراد حجاب کے موضوع پر غیر منطقی بیانات سے گریز کریں اور اس کو اہل علم افراد پر چھوڑیں کہ وہ فیصلہ کریں۔

قابل ذکر ہے کہ حالیہ دنوں مصر میں حجاب کے واجب یا غیر واجب ہونے کے حوالے سے بحث چھیڑ گیی ہے اور بعض فن کاروں نے مطالبہ کیا ہے کہ حجاب پر پابندی لگائی جائے۔/

Wednesday, 11 December 2019 12:49

فرقۂ امامیہ جعفریہ

١۔دور حاضر میں امامیہ فرقہ مسلمانوں کاایک بڑافرقہ ہے :
1۔دور حاضر میں امامیہ فرقہ مسلمانوں کاایک بڑافرقہ ہے ، جس کی کل تعداد مسلمانوں کے تقریباً ایک چوتھائی ہے ، اور اس فرقہ کی تاریخی جڑیں صدر اسلام کے اس دن سے شروع ہوتی ہیں کہ جس دن سورہ بینہ کی یہ آیت نازل ہوئی تھی :
(اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْاوَعَمِلُواالصَّالِحَاْتِ اُوْلٰئِکَ ہُمْ خَیْرُالْبَرِیَّةِ )(١)
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیا وہی بہترین مخلوق ہیں۔
چنانچہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول خدا ۖ نے اپنا ہاتھ علی ـکے شانے پر رکھا اس وقت اصحاب بھی وہاں موجود تھے، اور آپ نے فرمایا :
'' یٰا عَلِیُّ اَنْتَ وَ شِیْعَتُکَ ہُمُ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ''
…………………
(١)سورہ بینہ ، آیت : ٧.

اے علی! تو اور تیرے شیعہ بہترین مخلوق ہیں ۔
مذکورہ آیت کی تفسیر کے ذیل میں دیکھئے : تفسیر طبری ( جامع البیان ). در منثور ؛مؤلفہ علامہ جلال الدین سیوطی شافعی . تفسیر رو ح المعانی ؛مؤلفہ آلوسی بغدادی شافعی .
اسی وجہ سے یہ فرقہ - جو کہ امام جعفر صادق ـ کی فقہ میں ان کا پیرو ہونے کی بنا پر ان کی طرف منسوب ہے- شیعہ فرقہ کے نام سے مشہورہوا ۔

٢۔شیعہ فرقہ کثیر تعداددنیا کے مختلف ممالک میں زندگی بسرکرتاہے :
2۔شیعہ فرقہ کثیر تعداد میں ایران ، عراق ، پاکستان اور ہندوستان میں زندگی بسرکرتاہے ، اسی طرح اس کی ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک ، ترکی ، سیریا ( شام )، لبنان، روس اور اس سے جدا ہونے ہونے والے جدید ممالک میں موجود ہے ، نیز یہ فرقہ یورپی مالک جیسے انگلینڈ ، جرمنی ، فرانس اور امریکہ ، اسی طرح افریقی ممالک ، اور مشرقی ایشیا میں بھی پھیلا ہوا ہے ، ان مقامات پر ان کی اپنی مسجدیں اور علمی ، ثقافتی اور سماجی مراکز بھی ہیں ۔

3:-۔ اس فرقہ کے افراد دیگر مسلمان بھائیوں کے ساتھ بڑے پیار و محبت سے رہتے ہیں
٣۔ اس فرقہ کے افراد اگرچہ مختلف ممالک ،قوموں اور متعدد رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کے ساتھ بڑے پیار و محبت سے رہتے ہیں ،اور تمام آسان یا مشکل میدانوں میں سچے دل ا ور اخلاص کے ساتھ ان کا تعاون کرتے ہیں،ا ور یہ سب اس فرمان خدا پر عمل کرتے ہوئے انجام دیتے ہیں:(اِنَّمَاالْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَة )(١)
…………………
سورۂ حجرات، آیت١٠.

مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔
یا اس قول خدا پر عمل کرتے ہیں :
(وَتَعاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی )(١)
نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کی مددکرو ۔
اور رسول اکرم ۖکے اس قول کی پابندی کرتے ہوئے:
١۔''المسلمون یدواحد علی من سواہم ''
مسلمان آپس میں ایک دوسرے کیلئے ایک ہاتھ کی طرح ہیں۔(٢)
یا آپ کا یہ قول ان کے لئے مشعل راہ ہے :
٢۔'' المؤمنون کا لجسد الواحد ''
مسلمان باہم ایک جسم کی مانند ہیں۔(٣)

4:-ملت اسلامیہ کے دفاع کے سلسلے میں اس فرقہ کا ایک اہم اورواضح کردار
٤۔ پوری تاریخ اسلام میں دین خدا اور ملت اسلامیہ کے دفاع کے سلسلے میں اس فرقہ کا ایک اہم اورواضح کردار رہا ہے،جیسے اس کی حکومتوں اور ریاستوں نے اسلامی ثقافت اور تمدن کی ہمیشہ خدمت کی ہے ، نیز اس فرقہ کے علماء اور دانشوروں نے اسلامی میراث کو غنی بنانے اور بچانے کے سلسلے میں مختلف علمی اور تجربی میدانوں میںجیسے
…………………
(١)مائدہ ، آیت ٢.
(٢)مسند احمد بن حنبل، ج ١، ص ٢١٥.
(٣)الصحیح البخاری ،ج ١،کتاب الادب، ص ٢٧.

تفسیر،حدیث،عقائد،فقہ،اصول،اخلاق،درایہ،رجال،فلسفہ،موعظہ،حکومت،سماجیات، زبان وادب،بلکہ طب اورفیزیکس کیمیا،ریاضیات،نجوم،اوراس کے علاوہ متعددحیاتیاتی علوم کے بارے میں لاکھوں کتابیں تحریر کرکے اس سلسلے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے، بلکہ بہت سے علوم کے موجد دانشور تو اسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔(١)
…………………
(١)دیکھئے : محمد صدر کی کتاب '' تاسیس الشیعة لعلوم الاسلام؛ الذریعة الی تصانیف الشیعة (٢٩جلد) ؛ مؤلفہ آقا بزرگ طہرانی .کشف الظنون ؛مؤلفہ آفندی .معجم المؤلفین ؛ مؤلفہ عمررضا کحالہ .اعیان الشیعة ؛ مؤلفہ محسن امین عاملی.وغیرہ .

 
Wednesday, 11 December 2019 12:30

باهمی شناخت کی ضرورت

 

باہمی شناخت کی ضرورت
(وَجَعَلْناکُمْ شُعُوْباًوَقَبائِلَ لِتَعارَفُوْا)(١)
اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو ۔
اسلام جب آیا تو لوگ آپس میں متفرق اور مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہی نہیں تھے ،بلکہ ایک دوسرے سے لڑائی، جھگڑے اور خون خرابے میں مبتلا تھے ، مگر اسلامی تعلیمات کے طفیل میںآپسی دشمنی اور ایک دوسرے سے اجنبیت کی جگہ میل جول اور عداوت کی جگہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور قطع تعلق کی جگہ قربت پیدا ہوئی ،او راس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملت اسلامیہ ایک عظیم امت کی شکل میںسامنے آئی ، 
جس نے (اس وقت ) عظیم اسلامی تہذیب و تمدن کو پیش کیا ،اور اسلام سے وابستہ گروہوں کو ہر ظالم و جابر سے بچالیا ،اور ان کی پشت و پناہی کی ،جس کی بناپر یہ امت تمام اقوام عالم میں محترم قرارپائی ،اور سرکش جباروں کی نگاہوں میں رعب و دبدبہ اور ہیبت کے ساتھ ظاہر ہوئی۔
لیکن یہ سب چیزیں نہیں وجود میں آئیں مگر امت مسلمہ کے درمیان آپس کا اتحادو وحدت اور تمام گروہوں کاباہمی ارتباط رکھنے کی بنا پر ،جوکہ د ین اسلام کے سایہ میں حاصل ہواتھا ،حالانکہ ان سب کی شہریت ، رائے ، ثقافت، پہچان ، اور تقلید الگ الگ تھی ، البتہ اصول و اساس ، فرائض و واجبات میں اتفاق و اتحاد کافی حد تک موجود تھا، یقیناً وحدت قوت، اور اختلاف کمزوری ہے ۔
بہرحال یہ مسئلہ اسی طرح جاری رہا یہاں تک کہ باہمی جان پہچان اور آپسی میل جول کی جگہ اختلافات نے لے لی ، اور تفاہم کی جگہ ایک دوسرے سے منافرت آگئی ، اور ایک گروہ دوسرے گروہ کے بارے میں کفر کے فتوے دینے لگا ، اس طرح فاصلے پر فاصلے بڑھتے گئے، جس کی وجہ سے جو رہی سہی عزت تھی وہ بھی رخصت ہوگئی ،اور مسلمانوں کی ساری شان و شوکت ختم ہوگئی اور سارا رعب و دبدبہ جاتا رہا ، اورحالت یہ ہوئی کہ قیادت کی علمبردار قوم سرکشوں کے ہاتھوں ذلت و رسوائی اٹھانے پر مجبور ہوگئی، یہاں تک کہ ان کی نشو و نما کے دہانوں میں لومڑی اور بھیڑئے صفت افراد قابض ہوگئے ،یہی نہیں بلکہ ان کے گھروں کے اندر تمام عالم کی برائیاں،ملعون اشخاص اور نوع بشرکے مبغوض ترین افراد گھس آئے ، نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا سارا مال ومنال لوٹ لیا گیا ،اور ان کے مقدسات کی توہین ہونے لگی ، اور ان کی عزتیں فاسقوں و فاجروںکی مرہون منت ہوگئیں ،اور تنزلی کے بعد تنزلی ، انحطاط کے بعد انحطاط ، اور شکست کے بعد شکست ہونے لگی، کہیں اندلس میں شکست فاش، کہیں بخارا، سمر قند، تاشقند ،بغداد ، ماضی اور حال میں ، اور فلسطین اور افغانستان میں ہار پہ ہار کا سامنا کرنا پڑا ۔
اور حال یہ ہوگیا کہ لوگ مدد کیلئے بلاتے تھے لیکن کوئی جواب دینے والا نہ تھا ، فریاد کرنے والے تھے مگر کوئی فریاد رس نہ تھا ۔
ایسا کیوں ہوا ، اس لئے کہ مرض کچھ اور تھا اور ا س کی دوا اور ، اﷲ نے تمام امور کی باگ ڈور ان کے ظاہری اسباب پر چھوڑ رکھی ہے ،کیا اس امت کی اصلاح اس چیز کے علاوہ کسی اور چیز سے بھی ہوسکتی ہے کہ جس سے ابتداء میں ہوئی تھی؟
آج امت اسلام اپنے خلاف کئے جانے والے سماجی ، عقیدتی اوروحدت کے مخالف شدید اور سخت ترین حملہ سے جوجھ رہی ہے ، مذہبی میدانوں میں اندر سے اختلاف کیا جارہا ہے ، اجتہادی چیزوں کو اختلافی چیز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ، اور یہ حملہ ایسا ہے کہ اس کا ثمرہ اور اس کے ( برے ) نتائج ظاہر ہونے ہی والے ہیں ،کیا ایسے موقع پر ہم لوگوں کے لئے سزاوار نہیںکہ اپنی وحدت کی صفوں کومتصل رکھیں، اور آپسی تعلقات کو محکم اُستوار کریں ؟ ہم مانتے ہیں کہ اگر چہ ہمارے بعض مذہبی رسومات جدا جدا ہیں مگر ہمارے درمیان بیشتر چیزیں ایسی ہیں جو مشترک ہیں جیسے کتاب و سنت جو کہ ہمارا مرکز اور سر چشمہ ہیں وہ مشترک ہیں ، توحید و نبوت ، آخرت پر سب کا ایمان ہے، نماز و روزہ ، حج و زکاة ، جہاد ،اور حلال و حرام یہ سب حکم شریعت ہیں جو سب کیلئے مشترک ہیں ، نبی اکرمۖ اور ان کی آل سے محبت ، اور ان کے دشمنوں سے نفرت کرنا ہمارے مشترکات میںسے ہیں ، البتہ اس میں کمی یا زیادتی ضرور پائی جاتی ہے ، کوئی زیادہ محبت و دشمنی کا دعویٰ کرتا ہے اور کوئی کم ، لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ ایک ہاتھ کی تمام انگلیاں آخر میں ایک ہی جگہ( جوڑ سے) جاکرملتی ہیں ،حالانکہ یہ طول و عرض اور شکل و صورت میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، یا اس کی مثال ایک جسم جیسیہے ، جس کے اعضاء و جوارح مختلف ہوتے ہوئے ہیں، مگر بشری فطرت کے مطابق جسمانی پیکر کے اندر ان میںہر ایک کا کردار جدا جدا ہوتا ہے اور ان کی شکلوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں اور ان کا مجموعہ ایک ہی جسم کہلاتا ہے۔
چنانچہ بعید نہیں کہ امت اسلامیہ کی تشبیہ جو ''ید ِواحد''اور ایک بدن سے دی گئی ہے اس میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہو۔
سابق میں مختلف اسلامی فرقوںا ور مذاہب کے علماء ایک دوسرے کیساتھ بغیر کسی اختلاف وتنازعہ کے زندگی گزارتے تھے ، بلکہ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مددکیا کرتے تھے ، حتی بعض نے ایک دوسرے کی کلامییا فقہی کتابوں کے شرح تک کی ہے، اور ایک دوسرے سے شرف تلمذ حاصل کیا ،یہاں تک کہ بعض تو دوسرے کی تکریم کی بناپر بلند ہوئے، اور ایک دوسرے کی رائے کی تائید کرتے ، بعض بعض کو اجازۂ روایت دیتے ، یا ایک دوسرے سے اجازۂ نقل روایت لیتے تھے تاکہ ان کے فرقے اور مذہب کی کتابوں سے روایت نقل کرسکیں ، اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے ،اور انھیں امام بناتے ، دوسرے کو زکاة دیتے، ایک دوسرے کے مذہب کو مانتے تھے ، خلاصہ یہ کہ تمام گروہ بڑے پیار ومحبت سے ایک دوسرے کے ساتھ ایسے زندگی گزارتے تھے، یہاں تک کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ان کے درمیان کوئی اختلاف ہی نہیں ہے ، جبکہ ان کے درمیان تنقیدیں اور اعتراضات بھی ہوتے تھے لیکن یہ تنقیدیں مہذب اور مؤدب انداز میں کسی علمی موضوعی رد ہوتی تھی ۔
اس کے لئے زندہ اور تاریخی دلیلیں موجود ہیں ،جو اس عمیق اور وسیع تعاون پر دلالت کرتی ہیں ، مسلم علماء نے اسی تعاون کے ذریعہ اسلامی ثقافت اور میراث کو سیراب کیا ہے،انھیں چیزوںکے ذریعہ مذہبی آزادی کے میدان میں انھوں نے تعجب آور مثالیں قائم کی ہیں بلکہ وہ اسی تعاون کے ذریعہ دنیا میں قابل احترام قرار پائے ہیں ۔
یہ مشکل مسئلہ نہیں ہے کہ علمائے امت مسلمہ ایک جگہ جمع نہ ہوسکیں ، اور صلح و صفائی سے کسی مسئلے میں بحث و مباحثہ نہ کرسکیں ، اور کسی اختلافی مسئلے میں اخلاص و صدق نیت کے ساتھ غور و خوض نہ کرسکیں، نیز ہر گروہ کی دلیلوں اور براہین کو نہ پہچان سکیں۔
جیسے یہ بات کتنی معقول اورحسین ہے کہ ہر فرقہ اپنے عقائد اور فقہی و فکری موقف کو آزادانہ طور پر اور واضح فضا میں پیش کرے ، تاکہ ان کے خلاف جو اتہام، اعتراض خصومت اور بیجا جوش میں آنے کا جو امورسبب بنتے ہیں وہ واضح اور روشن ہوجائیں،اوراس بات کو سبھی جان لیں کہ ہمارے درمیان مشترک ،اور اختلافی مسائل کیا ہیں تاکہ اس سے لو گ جان لیں کہ مسلمانوں کے درمیان ایسی چیزیں زیادہ ہیں جن پر سب کااتفاق ہے، اور ان کے مقابلہ میں اختلافی چیزیں کم ہیں ، اس سے مسلمانوں کے درمیان موجود اختلاف کے فاصلے کم ہوں گے اور وہ ایک دوسرے کے نزدیک آجائیں گے ۔
یہ رسالہ اسی راستہ کا ایک قدم ہے ، تاکہ حقیقت روشن ہو جائے ، اور اس کو سب لوگ اچھی طرح پہچان لیں ،بیشک اﷲ توفیق دینے والا ہے ۔
(١)سورہ حجرات١٣.


 

 

Wednesday, 11 December 2019 12:01

باہمی شناخت کی ضرورت

سورہ حجرات١٣
پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو ۔
اسلام جب آیا تو لوگ آپس میں متفرق اور مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہی نہیں تھے ،بلکہ ایک دوسرے سے لڑائی، جھگڑے اور خون خرابے میں مبتلا تھے ، مگر اسلامی تعلیمات کے طفیل میںآپسی دشمنی اور ایک دوسرے سے اجنبیت کی جگہ میل جول اور عداوت کی جگہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور قطع تعلق کی جگہ قربت پیدا ہوئی ،او راس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملت اسلامیہ ایک عظیم امت کی شکل میںسامنے آئی 


١۔ دعا کی اہمیت و فضیلت

آیات وروایات :معصومین کی سیرت اور باقی اعمال کی نسبت دعاکے دنیوی واُخروی فوائد پر نظر کی جائے تو دعاکی اہمیت و فضیلت روزروشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے خدا وند متعال نے خود بھی اپنے بندوں کو دعا کے لئے حکم دیا ہے اور اپنے پیغمبروں کو بھی فرمایا ہے کہ میرے بندوں کودعا کی سفارش کریں ۔
ارشاد رب العزت ہے ۔
اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ مجھے پکارو اور( مجھ سے دعا مانگو )میں تمہای دعا کو قبول کرونگا (١)
قُلْ ادْ عُوْا اَﷲ۔ اے رسول میرے بندوںسے کہو کہ مجھ سے دعا مانگیں (٢)
ےَامُوْ سیٰ مُرعِبَادِی ےَدْ عُوْنِیْ۔ اے موسیٰ میرے بندوں کو حکم دو کہ وہ مجھے پکاریں (اور مجھ سے دعا مانگیں )(٣)
ےَا عِیْسیٰ مُرْھُمْ اَنْ ےَدْ عُوْ نِیْ مَعَکَ۔ اے عیسیٰ مومنین کو حکم دو کہ وہ آپکے ساتھ مل کر دعا کریں (٤)
حضرت موسیٰ و عیسیٰ جیسے بزرگترین انبیاء بلکہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ۖ کو دعا کے لئے مامور کرنا دعا کی فضیلت واہمیت پر بہترین دلیل ہے۔
پیغمبر اکرم ۖ اور آئمہ کے فرامین میں بھی دعا کی اہمیت و فضیلت روز روشن کی طرح واضح ہے ۔
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں :ےَاعَلِیْ اُوْصِیْکَ بِالدُّعَائِ ۔ اے علی میں تمہیں دعا کی سفارش کرتا ہوں (٥)
قال امام محمد باقر ـ:اَفْضَلُ الْعِبَادَةِ اَلْدُّعَائُ ۔ امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں افضل اور بہترین عبادت دعا ہے (٦)
قال علی ـ:اَحَبُّ الْاعَمَال اِلَی اﷲ عَزَّ وَجَلْ فِیْ الْاَرْضِ الدُّ عَائُ۔حضرت علی ـ فرماتے ہیں خدا کے نزدیک زمین پر محبوب ترین عمل دعا ہے (٧)
قال رسول اللہ ۖ :اَلْدُّعَائُ مُخُ الْعِبَادَةِ وَلَاَ یُھْلِکَ مَعَ الّدُعَا ء اُحَد۔ رسول اکرم ۖ:دعاعبادت کی اصل اور بنیاد ہے دعا کی صورت میں کوئی شخص ہلاک نہیں ہوتا (٨)
قال الامام علی ـ: اَلدُّعُا تُرْسُ الْمُوُمِنْ ۔امام علی ـ فرماتے ہیں دعا مومن کے لئے ڈھال اور نگہبان ہے
اور اسے شیطان کے حملہ اور گناہوں سے محفوظ رکھتی ہے (٩)
قال الامام الصادق ـ: عَلَیْکَ بِالدُّعَائِ: فَاِنَّ فِیْہِ شِفَائ مِنْ کُلِّ دَائٍ ۔حضرت امام صادق ـ فرماتے ہیں تیرے لیے دعا ضروری ہے کیونکہ اس میں ہر بیماری کی شفا ہے (١٠)
قال رسول اللہ ۖ:تَرْکُ الدُّ عَائِ مَعْصِےَة :پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں دعا کا ترک کرناگنا ہ ہے (١١)
قال رسول اللہ ۖ:اِدْفَعُوْا اَبْوَابَ الْبَلَائِ بِالّدُ عَائِ :رسول اکر م ۖ فرماتے ہیں مصیبتوں اور مشکلات کو دور کرو دعا کے ذریعے (١٢)
قال امام علی ـ: مَنْ قَرِعَ بَابَ اﷲ سُبْحِانَہُ فُتِحٍَ لَہ:حضرت علی ـ فرماتے ہیں جو شخص بھی (دعا کے ذریعے )اللہ کے دروازے کو کھٹکائے گا تو اس کے لئے (قبولیت کا دروازہ) کھول دیا جا ئے گا(١٣)
دوسری حدیث میں فرماتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا ونددعا کا دروازہ کھلا رکھے لیکن قبولیت کا دروازہ بند کر دے (١٤)

شرائط قبولیت دعا

جس طرح ہر عمل اور عبادت کی قبولیت لئے کچھ شرائط ہیںکہ جن کے بغیر عمل اور عبادت قبول نہیں ہے اسی طرح دعا کے لئے بھی شرائط ہیں جب تک ان شرائط پر عمل نہ کیا جائے تو دعا قبول نہیں ہوتی ۔

١۔ معرفت و شناخت خدا
قال رسول اللہ ۖ:یقول اﷲ عَزَّ وَجَلَّ :مَنْ سَألَنِیْ وَ ھُوَ ےَعْلَمُ اَنِّی اَضُرُّ وَ اَنْفَعُ: اَسْتَجِبْ لَہْ۔حضرت پیغمبر اکرم ۖ سے منقول ہے خدا فرماتا ہے کہ جو شخص مجھ سے سوال اور دعا کرے اور یہ جانتاہو (اور معرفت رکھتا ہو )کہ نفع و نقصان میرے ہاتھ میں ہے تو میں اس کی دعا قبول کروں گا (١٥)
امام صادق ـ سے جب سوال کیا گیا کہ ہم دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں ہو تی تو آپ نے جواب میں فرمایا :
لَاِ نَّکُمْ تَدْعُوْنَ مَنْ لَا تَعْرِفُوْنَہُ ۔آپ اس کو پکارتے ہو( اور اس سے دعا مانگتے ہو )جس کو نہیں جانتے اور جس کی معرفت نہیں رکھتے ہو (١٦)

٢۔محرمات اور گناہ کا ترک کرنا
قال الامام الصادق ـ:اِنَّ اﷲ ےَقُوْلُ اَوْفُوْا بِعَھْدِی اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ :وَاﷲِ لَوْ وَفَےْتُمْ اﷲ لَوَفٰی اللّٰہُ لَکُمْ۔حضرت امام صادق ـ سے منقول ہے : خدا فرماتا ہے میرے عہد و پیمان اور وعدے کو پورا کرو تا کہ میں بھی تمہارے عہد و پیمان (اور وعدے) کو پورا کروںامام فرماتے ہیں اللہ کی قسم اگر تم اپنا وعدہ پورا کرو اور احکام الٰہی پر عمل کرو تو اللہ بھی تمہارے لئے اپنا وعدہ پورا کرے گا تمہاری دعاؤں کو قبول اور تمہاری مشکلات کو حل فرمائے گا (١٧)

٣۔کمائی اور غذا کا پاک و پاکیزہ ہونا
قال الامام الصادق ـ: مَنْ سَرَّہُ اَنْ ےُسْتَجَابَ دُعَائَہُ فَلْیَطَیِّبْ کَسْبُہُ۔امام صادق ـ فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے کاروبار اور کمائی کو پاک کرے (١٨)
حضرت موسیٰ نے دیکھا ایک آدمی ہاتھ بلند کر کے تضرع و زاری کے ساتھ دعا کر رہا ہے خدا نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی کی اور فرمایا اس شخص کی دعا قبول نہیں ہو گی :لَاِنَّ فِیْ بَطْنِہ حَرَاماً وَ عَلَیٰ ظَھُرِہ حَرَاماً وَ فِیْ بَیْتِہ حَرَاماً۔کیونکہ اس کے پیٹ میں حرام ہے ( یعنی اس نے حرام کا مال کھایا ہوا ہے ) اور جو لباس پہنا ہوا ہے وہ بھی حرام ہے اور اس کے گھر میں بھی حرام ہے(١٩)
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری دعا قبول ہو تو اپنی غذا کو پاکیزہ کرو اور اپنے پیٹ میں حرام داخل نہ کرو۔

٤۔حضور ورقت قلب
قال رسول اللہ ۖ: اِعْلَمُوْا اَنَّ اﷲ لَا ےَسْتَجِیْبُ دُعَائَ مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاہٍ۔رسول اکرم ۖ فرماتے ہیں : یہ جان لو کہ خدا وند اس دل سے دعا قبول نہیں کرتا جو غافل اوربے پرواہو (٢٠)

٥۔اخلاص وعبودیت
فَادْعُوْا اﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہ الّدِیْن۔خدا کو پکارو (اور اس سے دعا مانگو خلوص نیت کے ساتھ یعنی )اس حال میں کہ اپنے دین کو اس کے لئے خالص قرار دو (٢١)
امام جعفر صادق ـفرماتے ہیں :وَقَدْ وَعَدَ عِبَادَہُ الْمُوْمِنِیْنَ الْاِسْتِجَا بَةَ۔ بے شک خدا نے اپنے مومنین بندوں سے قبولیت دعا کا وعدہ فرمایا ہے (٢٢)

٦۔سعی و کوشش
یعنی دعا کا معنی یہ نہیں ہے کہ انسان کام و سعی اور کوشش چھوڑ دے اور گھر بیٹھ کر فقط دعا کرتا رہے ۔
امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں : ثَلَاثَة تُرَدُّ عَلَیْھُمْ دَ عْوَتُھُمْ: رَجُل جَلَسَ فِیْ بَیتِہ وَ قَال ےَا رَبِّ اُرْزُقِیِ فَےُقََالُ لَہُ اَلَمْ اَجْعَلْ لَکَ السَّبِیْلَ اِلیٰ طَلَبِ الرَّزْق۔تین قسم کے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہو گی (ان میں سے )ایک وہ شخص ہے جو فقط گھر میں بیٹھ کر یہ دعا کرتا رہے کہ خدا وندا مجھے روزی عطا فرما اسے جواب دیا جائے گا۔ کیا میں نے تیرے لئے روزی کمانے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار نہیں دیا دوسرے لفظوں میں حصول رزق کیلئے تلاش وکو شش کرنا کام کرنا ایک چیز ہے لیکن روزی کا نصیب ہونا اس کا با برکت ہونا توفیق الٰہی کا شامل حال ہونا دوسرا مطلب ہے جس میں دعا بہت مؤثر ہے (٢٣)
اسی طرح علاج کرواناشفاء کیلئے ڈاکٹر یا حکیم کے پاس جانا اس کے دستور کے مطابق دوائی استعمال کرنا ایک مطلب ہے لیکن ڈاکٹرکی تشخیص کا صحیح ہونا دوائی کا شفاء میں مؤثر ہونا دوسرا مطلب ہے جس میں دعا اور صدقہ وغیرہ بہت مؤثر ہیں جب یہ دونوں حصے اکھٹے ہوں تو مؤثر واقع ہونگے اور ہمیں ان دونوں کی طرف تو جہ کرنی ہوگی۔


آداب دعا

١۔بِسْم اللہ پڑھنا :
قال رسول اللہ ۖ:لَا یَرُدُّ دُعَائ: اَوَّلُہُ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔رسول اللہ ۖ فرماتے ہیں: وہ دعا رد نہیں ہوتی جس کے شروع میں بسم اللہ پڑھ لیا جائے (٢٤)

٢۔تمجید
قال رسول اللہ ۖ:اِنَّ کُلُّ دُعَائٍ لَا ےَکُونَ قَبْلَہُ تَمْجَِیْد فَھُوَاَبْتَرْ۔رسول اکرم ۖ:ہر وہ دعا کہ جس سے پہلے اللہ تبارک و تعالیٰ کی تعریف و تمجید اور حمد و ثنا نہ ہو وہ ابتر ہے اور اسکا کوئی نتیجہ نہیں ہو گا (٢٥)

٣۔صلوات بر محمد و آل محمد
قال رسول اللہ ۖ:صَلَاتُکُمْ عَلَّی اِجَابَة لِدُعَائِکُمْ وَزَکاة لاَِعْمَالِکُمْ۔رسول اکرم ۖفرماتے ہیں :تمہارا مجھ پر درود و صلوات بھیجنا تمہاری دعاؤں کی قبولیت کا سبب ہے اور تمہارے اعمال کی زکاة ہے (٢٦)
امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں :لَا ےَزَالُ الدُّ عَاء محجُوباً حَتّٰی یُصَلِّی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ:دعا اس وقت تک پردوں میں چھپی رہتی ہے جب تک محمد ۖ وآل محمدۖ پر صلوات نہ بھیجی جائے (٢٧)
حضرت امام جعفر صادق ـ ایک اور روایت میں فرماتے ہیں جوشخص خدا سے اپنی حاجت طلب کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ پہلے محمد و آل محمد پر صلوات بھیجے پھر دعا کے ذریعہ اپنی حاجت طلب کرے اس کے بعد آخرمیں درود پڑھ کر اپنی دعا کو ختم، کرے (تو اس کی دعا قبول ہو گی ) کیونکہ خدا وند کریم کی ذات اس سے بالاتر ہے کہ وہ دعا کے اول و آواخر (یعنی محمد و آل محمد پر درود و صلواة )کو قبول کرے اور دعا کے درمیانی حصے(یعنی اس بندے کی حاجت )کو قبول نہ فرمائے (٢٨)

٤۔آ ئمہ معصومین کی امامت ولایت کا اعتقاد رکھنا اور انہیں واسطہ اور شفیع قرار دینا
قال اللہ تعالیٰ : فَمَنْ سَأَلَنِیْ بِھِمْ عَارِفَاً بِحَقِّھِمْ وَمَقَامِھِمْ اَوْجَبْتَ لَہ مِنِّی اَلْاِجَابَةَ۔خدا فرماتا ہے کہ جو شخص پیغمبر اکرم ۖ اور آئمہ معصومین کا واسطہ دے کر مجھ سے سوال کرے اور دعا مانگے جبکہ وہ ان کے حق اور مقام کو پہچانتا ہوتو مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں(٢٩)
امام محمدباقر ـ فرماتے ہیں :مَنْ دَعَا اﷲ بِنَا اَفْلَحَ :یعنی جو شخص ہم اہلبیت کا واسطہ دے کر دعا کرے تو وہ شخص کامیاب و کامران ہے (٣٠)
جناب یوسف کے واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ جناب جبرائیل حضرت یعقوب کے پاس آئے اور عر ض کی کیا میں آپ کو ایسی دعا بتاؤں کہ جس کی وجہ سے خدا آپ کی بینائی اور آپ کے دونوں بیٹے (یوسف وبنیامین )آپکو واپس لوٹا دے حضرت یعقوب نے کہا وہ کون سی دعا ہے ۔
فقال جبرائیل :قُلْ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ عَلِّیٍ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسنِ وَالْحُسَےْنِ اَنْ تَأتِیْنیْ بِےُوْسُفَ وَبُنْےَامِیْنَ جَمِیاً وَتُرَدُّ عَلیَّ عَیْنیِ۔حضرت جبرائیل نے حضرت یعقوب سے کہا کہ یوں دعا مانگوخدا یا میں تجھے محمد ۖ ،علی ،فاطمہ، حسن و حسین کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ میرے دونوں بیٹوں (یوسف اور بنیا مین )کو اور میری بینائی کو واپس لوٹا دے جناب یعقوب کی یہ دعا ابھی تمام ہی ہوئی تھی کہ قاصد (بشیر)نے آکر جناب یوسف کی قمیص حضرت یعقوب پر ڈال دی تو آپ کی آنکھیں بینا ہو گئیں(٣١)
حدیث قدسی میں ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے چالیس شب عبادت کرنے کے بعد دعا کی لیکن اس کی دعا قبول نہیں ہوئی تواس نے حضرت عیسیٰ ـ کے پاس شکایت کی حضرت عیسیٰ ـ نے بارگاہ خداوندی سے سوال کیا تو جواب ملا کہ اس نے دعا کا صحیح راستہ اختیار نہیں کیا :اِنَّہُ دُعَانِیْ وَفِیْ قَلْبِہ شَک مِنْکَ۔کیوں کہ وہ مجھ سے تو دعا کرتا ہے اور حاجت طلب کرتا ہے لیکن اسکے دل میں تیری نبوت کے بارے میں شک ہے (یعنی تیری نبوت کا معتقد نہیں ہے )(٣٢)
لہذا وہ اگر اس (شک اور عدم اعتقاد کی )حالت میں اتنا دعا کرے کہ اس کا سانس ختم ہو جائے اور اس کی انگلیاں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تب بھی میں اس کی دعا قبول نہیں کروں گا ۔

٥۔گناہوںکا اقرار کرنا
قال الامام الصادق ـ :انَّمَا ھِیَ اَلْمِدْحَةُ ثُمَّ الْاِقْرَارُ بِا الّذُنُبِ ثُمَّ الْمَسْئَلَة۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں کہ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے خدا کی حمد و تعریف کرو پھر گناہوںکا اقرار اور پھر اپنی حاجت طلب کرو (٣٣)

٦۔خشوع و خضوع کے ساتھ اور غمگین حالت میں دعا مانگنا
قال اللہ :ےَا عِیْسیٰ اَدْعُوْنِیْ دُعَائَ الْحَزِیْنِ الْغَریِقِْ اَلَّذِیْ لَیْسَ لَہُ مُغِےْث۔خدا فرماتا ہے اے عیسیٰ مجھ سے اس غرق ہونے والے غمگین انسان کی طرح دعا مانگو جس کا کوئی فریادرس نہ ہو (٣٤)

٧۔دو رکعت نماز پڑھنا
امام جعفر صادق ـ فرماتے جو شخص دو رکعت نماز بجا لانے کے بعد دعا کرے تو خدا اسکی دعا قبول فرمائے گا (٣٥)

٨۔ اپنی حاجت اور مطلوب کو زیادہ نہ سمجھو
رسول اکرم ۖسے روایت ہے خدا فرماتا ہے کہ اگر ساتوں آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والے مل کر مجھ سے دعا مانگیں اور میں ان سب کی دعاؤں کو قبول کر لوں اور ان کی حاجات پوری کر دوں تو میری ملکیت میں مچھر کے پر کے برابر بھی فرق نہیں آئے گا (٣٦)

٩۔ دعا کو عمومیت دینا
قال رسول اللہ ۖ: اِذادَعَا اَحَدَکُمْ فَلْےُعِمَّ فَاِنَّہُ اَوْجَبَ لِلدُّعَائِ۔پیغمبر اکرم ۖفرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی دعا مانگے تو اسے چاہیے کہ کہ اپنی دعا کو عمومیت دے یعنی دوسروں کو بھی دعا میں شریک کرے کیونکہ ایسی دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہے (٣٧)
قال الامام الصادق ـ :مَنْ قَدَّمَ اَرْبَعِیْنَ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ ثُمَّ دَعَاہ اَسْتُجِیبُ لَہُ۔جو شخص پہلے چالیس مومنین کے لئے دعا کرے اور پھر اپنے لئے دعا مانگے تو اس کی دعا قبول ہوگی (٣٨)

١٠۔قبولیت دعا کے بارے میں حسن ظن رکھنا
مخصوص اوقات وحالات اور مقامات میں دعا کرنا ۔
دعا کیلئے بعض اوقات حالات اور مقامات کو افضل قرار دینا اس کا معنی ہر گز یہ نہیں ہے کہ باقی اوقات اور مقامات میں دعا قبول نہیں ہوتی اور ان میں رحمت خدا کے دروازے بند ہیں کیونکہ تمام اوقات اور مقامات خدا سے متعلق ہیں اور اس کی مخلوق ہیں جس وقت جس مقام اور جس حالت میں بھی خدا کو پکارا جائے تووہ سنتا ہے اور اپنے بندے کو جواب دیتا ہے لیکن جس طرح خدا نے اپنے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت دی ہے اسی طرح بعض اوقات ومقامات کو بھی بعض پر فضیلت حاصل ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم دعا کے لئے افضل ترین کو انتخاب کریں ۔
مفاتیح الجنان اور دیگر کتب دعا میں مفصل طور پر دعا کے مخصوص اوقات اور حالات اور مقامات کو بیان کیا گیا ہے ہم اجمالاً بعض کو ذکر کرتے ہیں ۔

١۔نماز کے بعد
قال الصادق ـ: اِنَّ اللّٰہَ فَرَضَ الْصَّلَوٰتَ فِیْ أَحَبِّ الْاوْقَاتِ فَأسْئَالُوْا حَوَائِجکُمْ عَقِیْبَ فَرَائِضکُمْ۔ امام صادق ـ فرماتے ہیں کہ خدا نے نمازوں کو محبوب ترین اور افضل ترین اوقات میں واجب قرار دیا ہے بس تم اپنی حاجات کو واجب نمازوں کے بعد طلب کرو (٣٩)

٢۔حالت سجدہ میں
قال الرضا ـ: اَقْرَبُ مَا ےَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنَ اللّٰہ تَعَالیٰ وَھُوَ سَاجد۔امام رضا ـ فرماتے ہیں کہ حالت سجدہ میں بندہ اپنے خالق سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے (٤٠)

٣۔ قرآن مجید کی ایک سو آیات کی تلاوت کے بعد
قال امیر المومنین ـ:مَنْ قَرَئَ مِائَةَ آےَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ مِنْ اَیِّ الْقُرْآنِ شَائَ ثُمَّ قَالَ … ےَااﷲُ سَبْعُ مَرَّاتٍ فَلَوْ دَعَا عَلیٰ الْصَخْرَةِ لِقَلْعِھٰا اِنْ شَائَ اﷲ۔امام علی ـ فرماتے ہیں جو شخص قرآن کی ایک سو آیات پڑھے پھر سات مرتبہ یااللہ کہے تو خدا اس کی دعا قبول فرمائے گا (مضمون حدیث)(٤١)

٤۔سحری کے وقت
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں بہترین وقت جس میں تم اللہ سے دعا مانگو سحر کا وقت ہے کیونکہ حضرت یعقوب نے بھی استغفار کو سحر کے وقت لئے مؤخر کر دیا تھا (مضمون حدیث )(٤٢)

٥۔رات کی تاریکی میں مخصوصاً طلوع فجر کے قریب ۔

٦۔ شب و روز جمعہ ۔
٧۔ماہ مبارک رمضان ماہ رجب و ماہ شعبان ۔

٨۔شب ہای قدر (شب ١٩،٢١،٢٣،رمضان )۔

٩۔ماہ رمضان کا آخری عشرہ اور ماہ ذالحجہ کی پہلی دس راتیں ۔

١٠۔ عید میلاد پیغمبر اکرم ۖ و آئمہ معصومین ۔عید فطر ۔عید قربان ،عید غدیر ۔

١١۔بارش کے وقت ۔

١٢۔عمرہ کرنے والے کی دعا واپسی کے وقت یا واپسی سے پہلے ۔

١٣۔جب اذان ہو رہی ہو ۔

١٤ تلاوت قرآن سننے کے وقت ۔

١٥ ۔حالت روزہ میں افطار کے وقت یا افطار سے پہلے ۔


دعا کے لئے مخصوص مقامات

(١) مکہ مکرمہ ،بیت اللہ ،مسجد الحرام ،مسجد النبی ۖ حرم مطہر و مزارات چہاردہ معصومین مخصوصاً حرم مطہر مام حسین ـ
(٢)وہ خاص مساجد جن مین انبیاء و آئمہ معصومین اور اولیاء خدا نے نماز و عبادت انجام دی ہے جیسے مسجد اقصیٰ، مسجد کوفہ، مسجد صعصعہ، مسجد سہلہ، سرداب سامرہ، مسجد جمکران ۔
(٣)مذکورہ خاص مقامات کے علاوہ ہر مسجد قبولیت دعا کیلئے بہترین مقام ہے ۔
اہم نکتہ :حالات اوقات اور مقامات دعا کے انتخاب میں مہم ترین نکتہ یہ ہے کہ ایسا وقت اور مقام انتخاب کرنا چاہیے جس میں انسان ریاکاری تظاہر اور دکھاوے جیسی آفت کا شکار نہ ہو۔اور خلوص تواضع و انکساری اور رقت قلب زیادہ سے زیادہ حاصل ہو یہی وجہ ہے کہ روایات میں سفارش کی گئی ہے کہ رات کی تاریکی میں اور سحر کے وقت دعا مانگی جائے خدا فرماتا ہے ۔ےَا بْنَ عِمْرَان …وَاَدْعُنِیْ فِیْ الظُلُمِ اللَّیلِ فَاِنَّکَ تَجِدُنِیْ قَرِیْباً مُجَیْباً۔اے موسیٰ مجھے رات کی تاریکی میں پکارو تو مجھے اپنے قریب اور دعا قبول کرنے والا پاؤ گے(٤٣)


مقبول دعائیں

قال امیر المومنین ـ:اَرْبَعَة لَا تُرَدُّ لَھُمْ دَعْوَة: اَلْاِمَامُ الْعَادِلُ لِرَعِیَّتِہ وَالْوَالِدُ الْبَارُّ لِوَلْدِہ وَالْوَلَدُ الْبَارُّ لِوَالِدِہ وَالْمَظْلُوْمُ (لِظَالِمِہِ)۔ امام علی ـ فرماتے ہیں چار افراد کی دعا رد نہیں ہوتی امام و حاکم عادل جب اپنی رعیت کے حق میں دعا کرے نیک باپ کی دعا اولاد کے حق میں نیک و صالح اولاد کی دعا باپ کے حق میں مظلوم کی دعا (ظالم کے بر خلاف )(٤٤)
قال رسول اللہ ۖ: دُعَائُ اَطْفَالِ اُمَّتِیْ مُسْتَجَاب مَا لَمْ ےُقَارِفُوْا الذُّنُوْبَ۔پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں کہ میری امت کے بچوں کی دعا قبول ہے جب تک وہ گناہوں سے آلودہ نہ ہوں(٤٥)
قال الامام الحسن ـ:مَنْ قَرَئَ الْقُرْآنَ کَانَتْ لَہُ دَعْوَة مُجَابَة اِمَّا مُعَجَّلَةً وَاِمَّا مُؤَجَّلَةً۔امام حسن ـ فرماتے ہیں جو شخص قرآن کی تلاوت کرے اس کی دعا جلدی یا دیر سے قبول ہوگی (٤٦)

دعا بے فائدہ نہیں ہوتی
قال الامام زین العابدینـ: اَلْمُوْمِنُ مِنْ دُعَائِہ عَلیٰ ثَلَاثٍ اِمَّا اَنْ ےُدَّخَرَ لَہُ، وَاِمَّا اَنْ ےُعَجَّل لَہُ وَاِمَّا اَنْ ےَدْفَعَ عَنْہُ بَلائً ےُرِےْدُ اَنْ ےُصِیْبَ۔ امام زین العابدین ـ فرماتے ہیں مومن کی دعا تین حالات سے خارج نہیں ہے (١)یا اس کے لئے ذخیرہ آخرت ہو گی ۔(٢)یا دنیا میں قبول ہو جاے گی ۔(٣)یا مومن سے اس مصیبت کو دور کر دے گی جو اسے پہنچنے والی ہے ۔(٤٧)

مومنین ومومنات کے لئے دعا کرنے کا فائدہ
قال الامام الصادق ـ : دُعَائُ الْمُوْمِنِ لِلْمُوْمِنِ ےَدْفَعُ عَنْہُ الْبَلَائَ وَےُدِرُّ عَلَےْہِ الْرِّزْقَ۔مومن کا مومن کیلئے دعا کرنا دعا کرنے والے سے مصیبت کو دور کرتا ہے اور اس کے رزق میں اضافہ کاسبب بنتا ہے ۔(٤٨)


مطلب دوم :زیارت آیات اور روایات کی روشنی میں
جب پیغمبر اکرم ۖ اور معصومین سے منقول روایات میں غور فکر کی جائے تو پھر زیارت کی اہمیت و فضیلت بھی واضح ہو جاتی ہے اور اس بحث کی بھی ضرورت محسوس ہو تی ہے آیا انبیا ،آئمہ اور اولیا ء خدا کی مزارات کی زیارت کرنا ان کی بار گاہ میں سلام عرض کرنا اور انہیں ان کی وفات اور شہادت کے بعد بار گاہ الٰہی میں وسیلہ اور شفیع قرار دینا جائز ہے یا نہ چونکہ یہ حضرات قرآن مجید کی اس آیہ مجیدہ کے مصداق اعلیٰ و اکمل ہیں جس میں ارشاد ہوتا ہے :وَ لاَ تَحْسَبَنَ الَّذِیْنَ قُتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ اَمْوَاتاً بَلْ اَحْےَائ عَنْدَ رَبِّھِمْ ےُرْزَقُوْنَ۔جو حضرات راہ خدا میں شہید ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے مہمان ہیں(٤٩)
پیغمبر اکرم ۖبھی فرماتے ہیں :منَ ْزَارَنِی حَےّاً وَمَےَّتاً کُنْتُ لَہ شَفِےْعاً یَومَ الْقِےَامَةِ۔جو شخص میری زندگی یا معرفت یا میری وفات کے بعد میری زیارت کرے میں بروز قیامت اسکی شفاعت کروںگا(٥٠)
امام صادق ـ فرماتے ہیں :مَنْ زَارَنَا فِیْ مَمَاتِنَا کَاَنَّمٰا زَارَنَا فِیْ حِےَاتِنَا جو شخص ہماری وفات کے بعد ہماری زیارت کرے تو گویااس نے ہماری زندگی میں ہماری زیارت کی ہے (٥١)
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں: وَمَنْ سَلَّمَ عَلیَّ فِیْ شَیئٍ مِنْ الْاَرْضِ بَلَغَتْنِی وَمَنْ سَلَّمَ عَلیَّ عَنْدَ الْقَبْرِ سَمِعْتُہ جو شخص زمین کے کسی بھی حصے سے مجھ پر سلام بھیجتا ہے اس کا سلام مجھ تک پہنچ جاتا ہے اور جو شخص میری قبر کے پاس آکر مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اس کا سلام بھی میں سنتا ہوں (٥٢)
مذکورہ آیت و روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ ،،و آئمہ معصومین جس طرح اپنی حیات و زندگی میں خالق اور مخلوق کے درمیان رابط اور وسیلہ ہیں اس طرح اپنی شہادت اور وفات کے بعد بھی ہمارا سلام ہماری زیارت ہماری دعائیں سنتے ہیں اور بار گاہ خدا میں ہماری شفاعت فرماتے ہیں ۔
امام صادق ـ فرماتے ہیں :مَنْ لَمْ ےَقْدِرْ عَلیٰ زِےَارَتِنَا فَلیَزِرْ صَالِحِیْ مَوَالِینَا ےَکْتُبُ لَہ ثَوَّابُ زِےَارَتِنَا۔جو شخص ہماری زیارت پر قدرت و طاقت نہیں رکھتا اسے چاہیے کہ وہ ہمارے نیک و صالح موالی اور دوستوں کی زیارت کرے اس کے لئے (خدا کی طرف سے )ہماری زیارت کا ثواب لکھا جائے گا (٥٣)
قال امام علی ـفرماتے ہیں:زُوْرُوا مَوْتَاکُمْ فَاِنَّھُمْ ےَفْرَحُوْنَ بِزِےَارَتِکُمْ وَالْےَطْلُبُ الْرَجُلُ حَاجَتَہ عَنْدَ قَبْرِ اٰبِےْہِ وَاُمِّہِ بَعْدَ مَا ےَدْعُوا لَھُمَا۔ اپنے مردوں کی (قبر پر جا کر )زیارت کیا کرو کیونکہ وہ تمہاری زیارت سے خوش ہوتے ہیں انسان کو چاہیے کہ جب اپنے ماں باپ کی قبر پر جائے تو پہلے ان کے لئے دعائے خیر کرے اس کے بعد اپنی حاجت خدا سے طلب کرے جب نیک اور صالح لوگوںکی زیارت کا اتنا ثواب ہے اور انسان اپنے ماں باپ کی قبر پر جاکر خدا سے اپنی حاجات طلب کر سکتا ہے تو پھر انبیا ء آئمہ معصومین اور اولیاء خدا کی قبور اور روضہ بارگاہ مطہر کی زیارت وسلام دعا ومناجات اور ان کو اپنی حاجات و مشکالات اور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے بارگاہ خدا میں وسیلہ اور شفیع قرار دینے میں کسی مسلمان کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیئے(٥٤)
خدا فرماتا ہے :ےَا اَےُّھَا الَّذِیْنَ اَمَنُوا اِتَّقُوا اﷲ وَابْتَغُوا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَةَ۔اے ایمان والو تقویٰ اختیار کرو اور اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو (٥٥)
پیغمبر اور اہل بیت سے افضل اور بر تر پیش خدا کونسا وسیلہ ہے ۔
حضرت علی ـ فرماتے ہیں ہم خدا اور مخلوق کے درمیان وسیلہ ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا فرماتی ہیں ہم (اہل بیت پیغمبر )خلق و خالق کے درمیان رابط ہیں )
نہ فقط بزرگ ہستیوں کو وسیلہ قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ بعض مقدس و مبارک اوقات اور مقامات کو بھی وسیلہ قرار دیا گیا ہے حضرت امام سجاد ـ خدا کو ماہ مبارک رمضان کا واسطہ دیتے ہیں(٥٦)
امام حسین ـ خدا کو شب روز عرفہ کی قسم دیتے ہیں ۔
قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق : فَلَمَّا اَنْ جَائَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰہُ عَلیٰ وَجْھِہ فَارْتَدَّ بَصِےْراً ۔جب حضرت یوسف ـ کا قمیص حضرت یعقوب کی آنکھوں کے ساتھ میں ہوتا ہے تو ان کی آنکھوں کی بینائی واپس لوٹ آئی کپڑا خود کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا لیکن چونکہ حضرت یوسف جیسے نبی کے بدن سے متصل رہا ہے اس میں خدا نے یہ اثر عطا فرمایا ہے(٥٧)
امام ہادی ـجب بیمار ہوتے ہیں تو ایک شخص کو کربلا روانہ کرتے ہیں کہ جا کر قبر مطہر امام حسین ـ پر میرے لئے دعا کرو ۔
جب اس شخص نے تعجب سے سوال کیا مولا آ پ معصوم ہیں میں غیر معصوم ہوں آپ کیلئے جا کر میں دعا کروں امام نے جو اب دیا رسول اکرم ۖ خانہ کعبہ اور حجر الاسود سے افضل تھے لیکن خانہ کعبہ کا طواف کرتے اور حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے۔
خدا نے کچھ ایسے مقامات قرار دیے ہیں جہاں خدا چاہتا کہ وہاں جا کر دعا مانگی جائے اور میں دعا قبول کروں گا خانہ کعبہ اور حرم امام حسین ـ بھی انہیں مقامات مقدسہ میں سے ہیں۔
اگر ہم ضریح یا ضریح مطہر کے دروازوں کو بوسہ دیتے ہیں اور چومتے ہیں تو فقط و فقط پیغمبر یا اس معصوم کے احترام کی وجہ سے کیوں کہ اب یہ ضریح و بارگاہ اور یہ در و دیوار اسی معصوم ـ کی وجہ سے مقدس اور با برکت ہو گئے ہیں جس طرح قرآن مجید کی جلد یا کاغذ قرآن کی وجہ سے مقدس ہو گئے ہیں چو نکہ اگر یہی کاغذ اور جلد کسی اور کاپی یاکتاب پر ہوں تو مقدس نہیں ہے ۔


اولیاء خدا پر سلام و درود

خدا نے اپنی کتاب مقدس قرآن مجید میں اپنے انبیاء اور اولیاء پر دروود بھیجتا ہے
(١)سَلاَم عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعَالَمِیْنَ (٢)سَلاَم عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ (٣)سَلاَم عَلٰی مُوسٰی وَھٰرُوْنَ (٤) وَسَلاَم عَلٰی الْمُرَسَلِیْنَ (٥) سَلاَم عَلَیْہِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوْتُ وَیَوْمَ ےُبْعَثُ حَےّاً۔ (١) نوح پر دونوں جہانوں میں سلام ہو(٢) ابراہیم پر سلام ہو (٣) موسیٰ وہارون پر سلام ہو(٤) رسولوں پر سلام ہو(٥) سلام ہو اس پر ولادت کے وقت، موت کے وقت اور جب دوبارہ زندہ کیا جائے گا(٥٨)
ہم بھی قرآن مجید کی پیروی کرتے ہوئے رسول اکرم ۖو آئمہ کی زیارت کرتے ہیں اور ان پر سلام و درود بھیجتے ہیں ۔


معصومین اور زیارت

قال رسول اللہ ۖ: مَنْ اَتَانِی زَائِراً کُنْتُ شَفِےْعَہ ےَوْمَ الْقِےَامَةِ۔رسول اللہ ۖ: فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کے لئے آئے گاقیامت کے دن میںاس کی شفاعت کروں گا (٥٩)
قال الامام موسیٰ کاظم ـ :مَنْ زَارَ اَوّلنَا فَقَدْ زَارَ آخِرَنَا وَمَنْ زَارَ آخِرَنَا فَقَدْ زَارَ اَوَّلنَا۔امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں جس شخص نے ہمارے اول کی زیارت کی گویا اس نے ہمارے آخری کی بھی زیارت کی ہے اور جس نے ہمارے آخر کی زیارت کی گویا اس نے ہمارے پہلے کی بھی زیارت کی ہے (٦٠)
امام حسن ـ اپنے نانا رسول خدا ۖ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں جو شخص آپ کی زیارت کرے اس کو کیا ثواب ملے گا آپ نے فرمایاجو شخص میری زندگی میں یا میری وفات کے بعد زیارت کرے آپ کے بابا علی کی زیارت کرے یا آپ کے بھائی حسین ـ کی زیارت کرے یا آپ کی زیارت کے لئے آئے تو مجھ پر حق بن جاتا ہے قیامت کے دن میں اس کی زیارت کروں اور (اس کی شفاعت کر کے )اس کے گناہ معاف کرادوں ۔(٦١)
قال الامام صادق ـ :مَنْ زَارَ الْحُسَےْن ـ عَارِفاً بِحَقِّہ کَتَبَ اﷲُ لَہ ثَوَّابَ اَلْفِ حِجَّةٍ مَقْبُوْلَةٍ وَاَلْفِ عُمْرَةٍ مَقْبُوْلَةٍ وَغَفَرَلَہ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَمَا تَأَخَّرَ۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں جو شخص امام حسین ـ کی زیارت کرے اس حال میں کہ ان کے حق کو پہچانتا ہو تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار حج مقبول اور ایک ہزار عمرہ مقبول کا ثواب لکھ دے گا اور اس کے گذشتہ اور آئندہ گناہ بھی معاف فرما دے گا (٦٢)
الامام صادق ـ :اِےْتُوا قَبْرَالْحُسَےْنِ فِیْ کُلِ سَنَّةٍ مَرَّةً۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں کہ ہر سال ایک مرتبہ قبر مطہر امام حسین ـ زیارت پر جاؤ (٦٣)
امام صادق ـ نماز کے بعد زائرین امام حسین ـ کے لئے یوں دعا فرماتے ہیں خدایا میرے جد امجدامام حسین ـ کی قبر مطہر کی زیارت کرنے والوں کی مغفرت فرما (٦٤)
قال الامام الصادق ـ:مَنْ زَارَنِی غُفِرَتْ لَہ ذَنُوبُہ وَلَمْ ےَمُتْ فَقِےْراً۔ امام صادق ـ فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کرے اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور وہ حالت فقر میں نہیں مرے گا (٦٥)
قال الامام الرضاـ:مَنْ زَارَنِی عَلَیَّ بُعْدِ دَارِیْ أَتَیْتَہ ےَوْمَ الْقِےَامَةِ فِی ثَلاَثَ مَوَاطِنِ حَتّٰی اَخْلِصْہ مِن اَھْوَالِھٰا اِذَا تَظَاہَرَتِ الْکُتّبُ ےَمِیناً وَشِمَالاً عِنْدَ الصِّرَاطِ وَعَنْدَ الْمِےْزَانِ۔امام رضا ـ فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کے لئے آئے گا (میری قبر کے دور ہونے کے باوجود)میں قیامت کے دن تین مقامات پر اس کے پاس آؤں گا تا کہ شفاعت کروں اور اسے ان مقامات کے ہولناکیوں اور سخت حالات سے اسے نجات دلاؤں (٦٦)
(١)جب اعمال نامے دائیں بائیں پھیلا دئیے جائیں گے ۔
(٢) پل صراط پر
(٣)حساب کے وقت
قال الامام الجواد ـ :مَنْ زَارَ قَبْرَ عَمَتِی بِقُمٍّ فَلَہ الْجَنَّة۔امام جوا د ـ فرماتے ہیں جو شخص قم میں میری پھوپھی(حضرت فاطمہ معصومہ ) کی زیارت کرے خدا اسے جنت عطا فرمائے گا (٦٧)
امام حسن عسکری ـ فرماتے ہیں جو شخص عبد العظیم (حسنی )کی زیارت کرے تو گویا اس نے حضرت امام حسین ـ کی زیارت کی ہے (اور اسے آپ کی زیارت کا ثواب ملے گا )(٦٨)
امام صادق ـ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص اپنے والدین یا کسی رشتہ دار یا غیر رشتہ دار کی قبر پر جاتا ہے اور اس کے لئے دعا کرتا ہے کیا اس سے قبر والے کوکو ئی فائدہ پہنچے گا ؟آپ نے جواب میں فرمایا ہاں اگر تم میں سے کسی کو ہدیہ و تحفہ دیا جائے تو جس طرح تم خوش ہوتے ہو صاحب قبر (مرنے والا)بھی تمہارے اس عمل سے اسی طرح خوش ہوتا ہے (٦٩)


قرآنی آیات اور احادیث کے حوالہ جات

(١)سورہ غافرہ آیة ٦٠(٢)سورہ اسراء آیة ١١٠(٣،٤)کلمة اﷲ صفحہ ٤٠٩ حدیث ٤٠٥و٤٠٦ (٥) وسائل الشیعہ ابواب دعا ،باب دوم حدیث ٣(٦،٧)کافی کتاب الدعائ(٨ تا ١٩)میزان الحکمة باب دعائ(٢١)سورہ غافر آیة ١٤(٢٢)میزان الحکمة (٢٣) وسائل الشیعہ ابواب دعا باب ٥٠ حدیث ٣(٢٤تا ٢٨) میزان الحکمة حدیث ٥٦٢٠ تا ٥٦٢٥(٢٩ تا ٣١) وسائل ،ابواب دعا ،باب ٣٧ حدیث ٧،١٠،١٢(٣٢)کلمة اﷲ حدیث ٩٣(٣٣تا٣٨)میزان الحکمة حدیث ٥٦٣٠،٥٦٣٢،٥٦٣٥،٥٦٣٩،٥٦٤٧،٥٦٤٨ (٣٩) وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ابواب تعقیب حدیث ٨ (٤٠) وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ابواب سجود باب ٢٣ حدیث ٥(٤١) وسائل الشیعہ ابواب دعاء باب ٢٣ حدیث ٤(٤٢) میزان الحکمة حدیث ٥٦٥٨(٤٣)وسائل الشیعہ ابواب دعا باب ٣٠ حدیث ٢ (٤٤ تا ٤٨) میزان الحکمة ٥٦٩٦،٥٦٩٨،٥٧٠٠،٥٧٢٣،٥٧٣٦(٤٩) آل عمران آیة ١٦٩(٥٠ تا ٥٤) میزان الحکمة حدیث ٧٩٤٨،٧٩٥٢، ٧٩٤٨،٧٩٨٦،٧٩٨٧(٥٥) مائدہ آیة ٣٥(٥٦)صحیفہ سجادیہ دعای ٤٤(٥٧)یوسف آیة ٩٦(٥٨) صافات آیة ٧٩،١٠٩،١٢٠،١٨١(٥٩تا ٦٩) میزان الحکمة حدیث ٧٩٤٦،٧٩٥١،٧٩٤٩،٧٩٦١،٧٩٦٣،٧٩٦٦۔:دعا کی اہمیت وفضیلت ، قبولیت دعا کے شرائط، آداب دعا، اور دعا کے مخصوص اوقات، حالات اور مقامات ۔

١۔ دعا کی اہمیت و فضیلت

آیات وروایات :معصومین کی سیرت اور باقی اعمال کی نسبت دعاکے دنیوی واُخروی فوائد پر نظر کی جائے تو دعاکی اہمیت و فضیلت روزروشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے خدا وند متعال نے خود بھی اپنے بندوں کو دعا کے لئے حکم دیا ہے اور اپنے پیغمبروں کو بھی فرمایا ہے کہ میرے بندوں کودعا کی سفارش کریں ۔
ارشاد رب العزت ہے ۔
اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ مجھے پکارو اور( مجھ سے دعا مانگو )میں تمہای دعا کو قبول کرونگا (١)
قُلْ ادْ عُوْا اَﷲ۔ اے رسول میرے بندوںسے کہو کہ مجھ سے دعا مانگیں (٢)
ےَامُوْ سیٰ مُرعِبَادِی ےَدْ عُوْنِیْ۔ اے موسیٰ میرے بندوں کو حکم دو کہ وہ مجھے پکاریں (اور مجھ سے دعا مانگیں )(٣)
ےَا عِیْسیٰ مُرْھُمْ اَنْ ےَدْ عُوْ نِیْ مَعَکَ۔ اے عیسیٰ مومنین کو حکم دو کہ وہ آپکے ساتھ مل کر دعا کریں (٤)
حضرت موسیٰ و عیسیٰ جیسے بزرگترین انبیاء بلکہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ۖ کو دعا کے لئے مامور کرنا دعا کی فضیلت واہمیت پر بہترین دلیل ہے۔
پیغمبر اکرم ۖ اور آئمہ کے فرامین میں بھی دعا کی اہمیت و فضیلت روز روشن کی طرح واضح ہے ۔
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں :ےَاعَلِیْ اُوْصِیْکَ بِالدُّعَائِ ۔ اے علی میں تمہیں دعا کی سفارش کرتا ہوں (٥)
قال امام محمد باقر ـ:اَفْضَلُ الْعِبَادَةِ اَلْدُّعَائُ ۔ امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں افضل اور بہترین عبادت دعا ہے (٦)
قال علی ـ:اَحَبُّ الْاعَمَال اِلَی اﷲ عَزَّ وَجَلْ فِیْ الْاَرْضِ الدُّ عَائُ۔حضرت علی ـ فرماتے ہیں خدا کے نزدیک زمین پر محبوب ترین عمل دعا ہے (٧)
قال رسول اللہ ۖ :اَلْدُّعَائُ مُخُ الْعِبَادَةِ وَلَاَ یُھْلِکَ مَعَ الّدُعَا ء اُحَد۔ رسول اکرم ۖ:دعاعبادت کی اصل اور بنیاد ہے دعا کی صورت میں کوئی شخص ہلاک نہیں ہوتا (٨)
قال الامام علی ـ: اَلدُّعُا تُرْسُ الْمُوُمِنْ ۔امام علی ـ فرماتے ہیں دعا مومن کے لئے ڈھال اور نگہبان ہے
اور اسے شیطان کے حملہ اور گناہوں سے محفوظ رکھتی ہے (٩)
قال الامام الصادق ـ: عَلَیْکَ بِالدُّعَائِ: فَاِنَّ فِیْہِ شِفَائ مِنْ کُلِّ دَائٍ ۔حضرت امام صادق ـ فرماتے ہیں تیرے لیے دعا ضروری ہے کیونکہ اس میں ہر بیماری کی شفا ہے (١٠)
قال رسول اللہ ۖ:تَرْکُ الدُّ عَائِ مَعْصِےَة :پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں دعا کا ترک کرناگنا ہ ہے (١١)
قال رسول اللہ ۖ:اِدْفَعُوْا اَبْوَابَ الْبَلَائِ بِالّدُ عَائِ :رسول اکر م ۖ فرماتے ہیں مصیبتوں اور مشکلات کو دور کرو دعا کے ذریعے (١٢)
قال امام علی ـ: مَنْ قَرِعَ بَابَ اﷲ سُبْحِانَہُ فُتِحٍَ لَہ:حضرت علی ـ فرماتے ہیں جو شخص بھی (دعا کے ذریعے )اللہ کے دروازے کو کھٹکائے گا تو اس کے لئے (قبولیت کا دروازہ) کھول دیا جا ئے گا(١٣)
دوسری حدیث میں فرماتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا ونددعا کا دروازہ کھلا رکھے لیکن قبولیت کا دروازہ بند کر دے (١٤)

شرائط قبولیت دعا

جس طرح ہر عمل اور عبادت کی قبولیت لئے کچھ شرائط ہیںکہ جن کے بغیر عمل اور عبادت قبول نہیں ہے اسی طرح دعا کے لئے بھی شرائط ہیں جب تک ان شرائط پر عمل نہ کیا جائے تو دعا قبول نہیں ہوتی ۔

١۔ معرفت و شناخت خدا
قال رسول اللہ ۖ:یقول اﷲ عَزَّ وَجَلَّ :مَنْ سَألَنِیْ وَ ھُوَ ےَعْلَمُ اَنِّی اَضُرُّ وَ اَنْفَعُ: اَسْتَجِبْ لَہْ۔حضرت پیغمبر اکرم ۖ سے منقول ہے خدا فرماتا ہے کہ جو شخص مجھ سے سوال اور دعا کرے اور یہ جانتاہو (اور معرفت رکھتا ہو )کہ نفع و نقصان میرے ہاتھ میں ہے تو میں اس کی دعا قبول کروں گا (١٥)
امام صادق ـ سے جب سوال کیا گیا کہ ہم دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں ہو تی تو آپ نے جواب میں فرمایا :
لَاِ نَّکُمْ تَدْعُوْنَ مَنْ لَا تَعْرِفُوْنَہُ ۔آپ اس کو پکارتے ہو( اور اس سے دعا مانگتے ہو )جس کو نہیں جانتے اور جس کی معرفت نہیں رکھتے ہو (١٦)

٢۔محرمات اور گناہ کا ترک کرنا
قال الامام الصادق ـ:اِنَّ اﷲ ےَقُوْلُ اَوْفُوْا بِعَھْدِی اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ :وَاﷲِ لَوْ وَفَےْتُمْ اﷲ لَوَفٰی اللّٰہُ لَکُمْ۔حضرت امام صادق ـ سے منقول ہے : خدا فرماتا ہے میرے عہد و پیمان اور وعدے کو پورا کرو تا کہ میں بھی تمہارے عہد و پیمان (اور وعدے) کو پورا کروںامام فرماتے ہیں اللہ کی قسم اگر تم اپنا وعدہ پورا کرو اور احکام الٰہی پر عمل کرو تو اللہ بھی تمہارے لئے اپنا وعدہ پورا کرے گا تمہاری دعاؤں کو قبول اور تمہاری مشکلات کو حل فرمائے گا (١٧)

٣۔کمائی اور غذا کا پاک و پاکیزہ ہونا
قال الامام الصادق ـ: مَنْ سَرَّہُ اَنْ ےُسْتَجَابَ دُعَائَہُ فَلْیَطَیِّبْ کَسْبُہُ۔امام صادق ـ فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے کاروبار اور کمائی کو پاک کرے (١٨)
حضرت موسیٰ نے دیکھا ایک آدمی ہاتھ بلند کر کے تضرع و زاری کے ساتھ دعا کر رہا ہے خدا نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی کی اور فرمایا اس شخص کی دعا قبول نہیں ہو گی :لَاِنَّ فِیْ بَطْنِہ حَرَاماً وَ عَلَیٰ ظَھُرِہ حَرَاماً وَ فِیْ بَیْتِہ حَرَاماً۔کیونکہ اس کے پیٹ میں حرام ہے ( یعنی اس نے حرام کا مال کھایا ہوا ہے ) اور جو لباس پہنا ہوا ہے وہ بھی حرام ہے اور اس کے گھر میں بھی حرام ہے(١٩)
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری دعا قبول ہو تو اپنی غذا کو پاکیزہ کرو اور اپنے پیٹ میں حرام داخل نہ کرو۔

٤۔حضور ورقت قلب
قال رسول اللہ ۖ: اِعْلَمُوْا اَنَّ اﷲ لَا ےَسْتَجِیْبُ دُعَائَ مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاہٍ۔رسول اکرم ۖ فرماتے ہیں : یہ جان لو کہ خدا وند اس دل سے دعا قبول نہیں کرتا جو غافل اوربے پرواہو (٢٠)

٥۔اخلاص وعبودیت
فَادْعُوْا اﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہ الّدِیْن۔خدا کو پکارو (اور اس سے دعا مانگو خلوص نیت کے ساتھ یعنی )اس حال میں کہ اپنے دین کو اس کے لئے خالص قرار دو (٢١)
امام جعفر صادق ـفرماتے ہیں :وَقَدْ وَعَدَ عِبَادَہُ الْمُوْمِنِیْنَ الْاِسْتِجَا بَةَ۔ بے شک خدا نے اپنے مومنین بندوں سے قبولیت دعا کا وعدہ فرمایا ہے (٢٢)

٦۔سعی و کوشش
یعنی دعا کا معنی یہ نہیں ہے کہ انسان کام و سعی اور کوشش چھوڑ دے اور گھر بیٹھ کر فقط دعا کرتا رہے ۔
امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں : ثَلَاثَة تُرَدُّ عَلَیْھُمْ دَ عْوَتُھُمْ: رَجُل جَلَسَ فِیْ بَیتِہ وَ قَال ےَا رَبِّ اُرْزُقِیِ فَےُقََالُ لَہُ اَلَمْ اَجْعَلْ لَکَ السَّبِیْلَ اِلیٰ طَلَبِ الرَّزْق۔تین قسم کے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہو گی (ان میں سے )ایک وہ شخص ہے جو فقط گھر میں بیٹھ کر یہ دعا کرتا رہے کہ خدا وندا مجھے روزی عطا فرما اسے جواب دیا جائے گا۔ کیا میں نے تیرے لئے روزی کمانے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار نہیں دیا دوسرے لفظوں میں حصول رزق کیلئے تلاش وکو شش کرنا کام کرنا ایک چیز ہے لیکن روزی کا نصیب ہونا اس کا با برکت ہونا توفیق الٰہی کا شامل حال ہونا دوسرا مطلب ہے جس میں دعا بہت مؤثر ہے (٢٣)
اسی طرح علاج کرواناشفاء کیلئے ڈاکٹر یا حکیم کے پاس جانا اس کے دستور کے مطابق دوائی استعمال کرنا ایک مطلب ہے لیکن ڈاکٹرکی تشخیص کا صحیح ہونا دوائی کا شفاء میں مؤثر ہونا دوسرا مطلب ہے جس میں دعا اور صدقہ وغیرہ بہت مؤثر ہیں جب یہ دونوں حصے اکھٹے ہوں تو مؤثر واقع ہونگے اور ہمیں ان دونوں کی طرف تو جہ کرنی ہوگی۔


آداب دعا

١۔بِسْم اللہ پڑھنا :
قال رسول اللہ ۖ:لَا یَرُدُّ دُعَائ: اَوَّلُہُ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔رسول اللہ ۖ فرماتے ہیں: وہ دعا رد نہیں ہوتی جس کے شروع میں بسم اللہ پڑھ لیا جائے (٢٤)

٢۔تمجید
قال رسول اللہ ۖ:اِنَّ کُلُّ دُعَائٍ لَا ےَکُونَ قَبْلَہُ تَمْجَِیْد فَھُوَاَبْتَرْ۔رسول اکرم ۖ:ہر وہ دعا کہ جس سے پہلے اللہ تبارک و تعالیٰ کی تعریف و تمجید اور حمد و ثنا نہ ہو وہ ابتر ہے اور اسکا کوئی نتیجہ نہیں ہو گا (٢٥)

٣۔صلوات بر محمد و آل محمد
قال رسول اللہ ۖ:صَلَاتُکُمْ عَلَّی اِجَابَة لِدُعَائِکُمْ وَزَکاة لاَِعْمَالِکُمْ۔رسول اکرم ۖفرماتے ہیں :تمہارا مجھ پر درود و صلوات بھیجنا تمہاری دعاؤں کی قبولیت کا سبب ہے اور تمہارے اعمال کی زکاة ہے (٢٦)
امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں :لَا ےَزَالُ الدُّ عَاء محجُوباً حَتّٰی یُصَلِّی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ:دعا اس وقت تک پردوں میں چھپی رہتی ہے جب تک محمد ۖ وآل محمدۖ پر صلوات نہ بھیجی جائے (٢٧)
حضرت امام جعفر صادق ـ ایک اور روایت میں فرماتے ہیں جوشخص خدا سے اپنی حاجت طلب کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ پہلے محمد و آل محمد پر صلوات بھیجے پھر دعا کے ذریعہ اپنی حاجت طلب کرے اس کے بعد آخرمیں درود پڑھ کر اپنی دعا کو ختم، کرے (تو اس کی دعا قبول ہو گی ) کیونکہ خدا وند کریم کی ذات اس سے بالاتر ہے کہ وہ دعا کے اول و آواخر (یعنی محمد و آل محمد پر درود و صلواة )کو قبول کرے اور دعا کے درمیانی حصے(یعنی اس بندے کی حاجت )کو قبول نہ فرمائے (٢٨)

٤۔آ ئمہ معصومین کی امامت ولایت کا اعتقاد رکھنا اور انہیں واسطہ اور شفیع قرار دینا
قال اللہ تعالیٰ : فَمَنْ سَأَلَنِیْ بِھِمْ عَارِفَاً بِحَقِّھِمْ وَمَقَامِھِمْ اَوْجَبْتَ لَہ مِنِّی اَلْاِجَابَةَ۔خدا فرماتا ہے کہ جو شخص پیغمبر اکرم ۖ اور آئمہ معصومین کا واسطہ دے کر مجھ سے سوال کرے اور دعا مانگے جبکہ وہ ان کے حق اور مقام کو پہچانتا ہوتو مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں(٢٩)
امام محمدباقر ـ فرماتے ہیں :مَنْ دَعَا اﷲ بِنَا اَفْلَحَ :یعنی جو شخص ہم اہلبیت کا واسطہ دے کر دعا کرے تو وہ شخص کامیاب و کامران ہے (٣٠)
جناب یوسف کے واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ جناب جبرائیل حضرت یعقوب کے پاس آئے اور عر ض کی کیا میں آپ کو ایسی دعا بتاؤں کہ جس کی وجہ سے خدا آپ کی بینائی اور آپ کے دونوں بیٹے (یوسف وبنیامین )آپکو واپس لوٹا دے حضرت یعقوب نے کہا وہ کون سی دعا ہے ۔
فقال جبرائیل :قُلْ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ عَلِّیٍ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسنِ وَالْحُسَےْنِ اَنْ تَأتِیْنیْ بِےُوْسُفَ وَبُنْےَامِیْنَ جَمِیاً وَتُرَدُّ عَلیَّ عَیْنیِ۔حضرت جبرائیل نے حضرت یعقوب سے کہا کہ یوں دعا مانگوخدا یا میں تجھے محمد ۖ ،علی ،فاطمہ، حسن و حسین کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ میرے دونوں بیٹوں (یوسف اور بنیا مین )کو اور میری بینائی کو واپس لوٹا دے جناب یعقوب کی یہ دعا ابھی تمام ہی ہوئی تھی کہ قاصد (بشیر)نے آکر جناب یوسف کی قمیص حضرت یعقوب پر ڈال دی تو آپ کی آنکھیں بینا ہو گئیں(٣١)
حدیث قدسی میں ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے چالیس شب عبادت کرنے کے بعد دعا کی لیکن اس کی دعا قبول نہیں ہوئی تواس نے حضرت عیسیٰ ـ کے پاس شکایت کی حضرت عیسیٰ ـ نے بارگاہ خداوندی سے سوال کیا تو جواب ملا کہ اس نے دعا کا صحیح راستہ اختیار نہیں کیا :اِنَّہُ دُعَانِیْ وَفِیْ قَلْبِہ شَک مِنْکَ۔کیوں کہ وہ مجھ سے تو دعا کرتا ہے اور حاجت طلب کرتا ہے لیکن اسکے دل میں تیری نبوت کے بارے میں شک ہے (یعنی تیری نبوت کا معتقد نہیں ہے )(٣٢)
لہذا وہ اگر اس (شک اور عدم اعتقاد کی )حالت میں اتنا دعا کرے کہ اس کا سانس ختم ہو جائے اور اس کی انگلیاں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تب بھی میں اس کی دعا قبول نہیں کروں گا ۔

٥۔گناہوںکا اقرار کرنا
قال الامام الصادق ـ :انَّمَا ھِیَ اَلْمِدْحَةُ ثُمَّ الْاِقْرَارُ بِا الّذُنُبِ ثُمَّ الْمَسْئَلَة۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں کہ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے خدا کی حمد و تعریف کرو پھر گناہوںکا اقرار اور پھر اپنی حاجت طلب کرو (٣٣)

٦۔خشوع و خضوع کے ساتھ اور غمگین حالت میں دعا مانگنا
قال اللہ :ےَا عِیْسیٰ اَدْعُوْنِیْ دُعَائَ الْحَزِیْنِ الْغَریِقِْ اَلَّذِیْ لَیْسَ لَہُ مُغِےْث۔خدا فرماتا ہے اے عیسیٰ مجھ سے اس غرق ہونے والے غمگین انسان کی طرح دعا مانگو جس کا کوئی فریادرس نہ ہو (٣٤)

٧۔دو رکعت نماز پڑھنا
امام جعفر صادق ـ فرماتے جو شخص دو رکعت نماز بجا لانے کے بعد دعا کرے تو خدا اسکی دعا قبول فرمائے گا (٣٥)

٨۔ اپنی حاجت اور مطلوب کو زیادہ نہ سمجھو
رسول اکرم ۖسے روایت ہے خدا فرماتا ہے کہ اگر ساتوں آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والے مل کر مجھ سے دعا مانگیں اور میں ان سب کی دعاؤں کو قبول کر لوں اور ان کی حاجات پوری کر دوں تو میری ملکیت میں مچھر کے پر کے برابر بھی فرق نہیں آئے گا (٣٦)

٩۔ دعا کو عمومیت دینا
قال رسول اللہ ۖ: اِذادَعَا اَحَدَکُمْ فَلْےُعِمَّ فَاِنَّہُ اَوْجَبَ لِلدُّعَائِ۔پیغمبر اکرم ۖفرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی دعا مانگے تو اسے چاہیے کہ کہ اپنی دعا کو عمومیت دے یعنی دوسروں کو بھی دعا میں شریک کرے کیونکہ ایسی دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہے (٣٧)
قال الامام الصادق ـ :مَنْ قَدَّمَ اَرْبَعِیْنَ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ ثُمَّ دَعَاہ اَسْتُجِیبُ لَہُ۔جو شخص پہلے چالیس مومنین کے لئے دعا کرے اور پھر اپنے لئے دعا مانگے تو اس کی دعا قبول ہوگی (٣٨)

١٠۔قبولیت دعا کے بارے میں حسن ظن رکھنا
مخصوص اوقات وحالات اور مقامات میں دعا کرنا ۔
دعا کیلئے بعض اوقات حالات اور مقامات کو افضل قرار دینا اس کا معنی ہر گز یہ نہیں ہے کہ باقی اوقات اور مقامات میں دعا قبول نہیں ہوتی اور ان میں رحمت خدا کے دروازے بند ہیں کیونکہ تمام اوقات اور مقامات خدا سے متعلق ہیں اور اس کی مخلوق ہیں جس وقت جس مقام اور جس حالت میں بھی خدا کو پکارا جائے تووہ سنتا ہے اور اپنے بندے کو جواب دیتا ہے لیکن جس طرح خدا نے اپنے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت دی ہے اسی طرح بعض اوقات ومقامات کو بھی بعض پر فضیلت حاصل ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم دعا کے لئے افضل ترین کو انتخاب کریں ۔
مفاتیح الجنان اور دیگر کتب دعا میں مفصل طور پر دعا کے مخصوص اوقات اور حالات اور مقامات کو بیان کیا گیا ہے ہم اجمالاً بعض کو ذکر کرتے ہیں ۔

١۔نماز کے بعد
قال الصادق ـ: اِنَّ اللّٰہَ فَرَضَ الْصَّلَوٰتَ فِیْ أَحَبِّ الْاوْقَاتِ فَأسْئَالُوْا حَوَائِجکُمْ عَقِیْبَ فَرَائِضکُمْ۔ امام صادق ـ فرماتے ہیں کہ خدا نے نمازوں کو محبوب ترین اور افضل ترین اوقات میں واجب قرار دیا ہے بس تم اپنی حاجات کو واجب نمازوں کے بعد طلب کرو (٣٩)

٢۔حالت سجدہ میں
قال الرضا ـ: اَقْرَبُ مَا ےَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنَ اللّٰہ تَعَالیٰ وَھُوَ سَاجد۔امام رضا ـ فرماتے ہیں کہ حالت سجدہ میں بندہ اپنے خالق سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے (٤٠)

٣۔ قرآن مجید کی ایک سو آیات کی تلاوت کے بعد
قال امیر المومنین ـ:مَنْ قَرَئَ مِائَةَ آےَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ مِنْ اَیِّ الْقُرْآنِ شَائَ ثُمَّ قَالَ … ےَااﷲُ سَبْعُ مَرَّاتٍ فَلَوْ دَعَا عَلیٰ الْصَخْرَةِ لِقَلْعِھٰا اِنْ شَائَ اﷲ۔امام علی ـ فرماتے ہیں جو شخص قرآن کی ایک سو آیات پڑھے پھر سات مرتبہ یااللہ کہے تو خدا اس کی دعا قبول فرمائے گا (مضمون حدیث)(٤١)

٤۔سحری کے وقت
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں بہترین وقت جس میں تم اللہ سے دعا مانگو سحر کا وقت ہے کیونکہ حضرت یعقوب نے بھی استغفار کو سحر کے وقت لئے مؤخر کر دیا تھا (مضمون حدیث )(٤٢)

٥۔رات کی تاریکی میں مخصوصاً طلوع فجر کے قریب ۔

٦۔ شب و روز جمعہ ۔
٧۔ماہ مبارک رمضان ماہ رجب و ماہ شعبان ۔

٨۔شب ہای قدر (شب ١٩،٢١،٢٣،رمضان )۔

٩۔ماہ رمضان کا آخری عشرہ اور ماہ ذالحجہ کی پہلی دس راتیں ۔

١٠۔ عید میلاد پیغمبر اکرم ۖ و آئمہ معصومین ۔عید فطر ۔عید قربان ،عید غدیر ۔

١١۔بارش کے وقت ۔

١٢۔عمرہ کرنے والے کی دعا واپسی کے وقت یا واپسی سے پہلے ۔

١٣۔جب اذان ہو رہی ہو ۔

١٤ تلاوت قرآن سننے کے وقت ۔

١٥ ۔حالت روزہ میں افطار کے وقت یا افطار سے پہلے ۔


دعا کے لئے مخصوص مقامات

(١) مکہ مکرمہ ،بیت اللہ ،مسجد الحرام ،مسجد النبی ۖ حرم مطہر و مزارات چہاردہ معصومین مخصوصاً حرم مطہر مام حسین ـ
(٢)وہ خاص مساجد جن مین انبیاء و آئمہ معصومین اور اولیاء خدا نے نماز و عبادت انجام دی ہے جیسے مسجد اقصیٰ، مسجد کوفہ، مسجد صعصعہ، مسجد سہلہ، سرداب سامرہ، مسجد جمکران ۔
(٣)مذکورہ خاص مقامات کے علاوہ ہر مسجد قبولیت دعا کیلئے بہترین مقام ہے ۔
اہم نکتہ :حالات اوقات اور مقامات دعا کے انتخاب میں مہم ترین نکتہ یہ ہے کہ ایسا وقت اور مقام انتخاب کرنا چاہیے جس میں انسان ریاکاری تظاہر اور دکھاوے جیسی آفت کا شکار نہ ہو۔اور خلوص تواضع و انکساری اور رقت قلب زیادہ سے زیادہ حاصل ہو یہی وجہ ہے کہ روایات میں سفارش کی گئی ہے کہ رات کی تاریکی میں اور سحر کے وقت دعا مانگی جائے خدا فرماتا ہے ۔ےَا بْنَ عِمْرَان …وَاَدْعُنِیْ فِیْ الظُلُمِ اللَّیلِ فَاِنَّکَ تَجِدُنِیْ قَرِیْباً مُجَیْباً۔اے موسیٰ مجھے رات کی تاریکی میں پکارو تو مجھے اپنے قریب اور دعا قبول کرنے والا پاؤ گے(٤٣)


مقبول دعائیں

قال امیر المومنین ـ:اَرْبَعَة لَا تُرَدُّ لَھُمْ دَعْوَة: اَلْاِمَامُ الْعَادِلُ لِرَعِیَّتِہ وَالْوَالِدُ الْبَارُّ لِوَلْدِہ وَالْوَلَدُ الْبَارُّ لِوَالِدِہ وَالْمَظْلُوْمُ (لِظَالِمِہِ)۔ امام علی ـ فرماتے ہیں چار افراد کی دعا رد نہیں ہوتی امام و حاکم عادل جب اپنی رعیت کے حق میں دعا کرے نیک باپ کی دعا اولاد کے حق میں نیک و صالح اولاد کی دعا باپ کے حق میں مظلوم کی دعا (ظالم کے بر خلاف )(٤٤)
قال رسول اللہ ۖ: دُعَائُ اَطْفَالِ اُمَّتِیْ مُسْتَجَاب مَا لَمْ ےُقَارِفُوْا الذُّنُوْبَ۔پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں کہ میری امت کے بچوں کی دعا قبول ہے جب تک وہ گناہوں سے آلودہ نہ ہوں(٤٥)
قال الامام الحسن ـ:مَنْ قَرَئَ الْقُرْآنَ کَانَتْ لَہُ دَعْوَة مُجَابَة اِمَّا مُعَجَّلَةً وَاِمَّا مُؤَجَّلَةً۔امام حسن ـ فرماتے ہیں جو شخص قرآن کی تلاوت کرے اس کی دعا جلدی یا دیر سے قبول ہوگی (٤٦)

دعا بے فائدہ نہیں ہوتی
قال الامام زین العابدینـ: اَلْمُوْمِنُ مِنْ دُعَائِہ عَلیٰ ثَلَاثٍ اِمَّا اَنْ ےُدَّخَرَ لَہُ، وَاِمَّا اَنْ ےُعَجَّل لَہُ وَاِمَّا اَنْ ےَدْفَعَ عَنْہُ بَلائً ےُرِےْدُ اَنْ ےُصِیْبَ۔ امام زین العابدین ـ فرماتے ہیں مومن کی دعا تین حالات سے خارج نہیں ہے (١)یا اس کے لئے ذخیرہ آخرت ہو گی ۔(٢)یا دنیا میں قبول ہو جاے گی ۔(٣)یا مومن سے اس مصیبت کو دور کر دے گی جو اسے پہنچنے والی ہے ۔(٤٧)

مومنین ومومنات کے لئے دعا کرنے کا فائدہ
قال الامام الصادق ـ : دُعَائُ الْمُوْمِنِ لِلْمُوْمِنِ ےَدْفَعُ عَنْہُ الْبَلَائَ وَےُدِرُّ عَلَےْہِ الْرِّزْقَ۔مومن کا مومن کیلئے دعا کرنا دعا کرنے والے سے مصیبت کو دور کرتا ہے اور اس کے رزق میں اضافہ کاسبب بنتا ہے ۔(٤٨)


مطلب دوم :زیارت آیات اور روایات کی روشنی میں
جب پیغمبر اکرم ۖ اور معصومین سے منقول روایات میں غور فکر کی جائے تو پھر زیارت کی اہمیت و فضیلت بھی واضح ہو جاتی ہے اور اس بحث کی بھی ضرورت محسوس ہو تی ہے آیا انبیا ،آئمہ اور اولیا ء خدا کی مزارات کی زیارت کرنا ان کی بار گاہ میں سلام عرض کرنا اور انہیں ان کی وفات اور شہادت کے بعد بار گاہ الٰہی میں وسیلہ اور شفیع قرار دینا جائز ہے یا نہ چونکہ یہ حضرات قرآن مجید کی اس آیہ مجیدہ کے مصداق اعلیٰ و اکمل ہیں جس میں ارشاد ہوتا ہے :وَ لاَ تَحْسَبَنَ الَّذِیْنَ قُتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ اَمْوَاتاً بَلْ اَحْےَائ عَنْدَ رَبِّھِمْ ےُرْزَقُوْنَ۔جو حضرات راہ خدا میں شہید ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے مہمان ہیں(٤٩)
پیغمبر اکرم ۖبھی فرماتے ہیں :منَ ْزَارَنِی حَےّاً وَمَےَّتاً کُنْتُ لَہ شَفِےْعاً یَومَ الْقِےَامَةِ۔جو شخص میری زندگی یا معرفت یا میری وفات کے بعد میری زیارت کرے میں بروز قیامت اسکی شفاعت کروںگا(٥٠)
امام صادق ـ فرماتے ہیں :مَنْ زَارَنَا فِیْ مَمَاتِنَا کَاَنَّمٰا زَارَنَا فِیْ حِےَاتِنَا جو شخص ہماری وفات کے بعد ہماری زیارت کرے تو گویااس نے ہماری زندگی میں ہماری زیارت کی ہے (٥١)
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں: وَمَنْ سَلَّمَ عَلیَّ فِیْ شَیئٍ مِنْ الْاَرْضِ بَلَغَتْنِی وَمَنْ سَلَّمَ عَلیَّ عَنْدَ الْقَبْرِ سَمِعْتُہ جو شخص زمین کے کسی بھی حصے سے مجھ پر سلام بھیجتا ہے اس کا سلام مجھ تک پہنچ جاتا ہے اور جو شخص میری قبر کے پاس آکر مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اس کا سلام بھی میں سنتا ہوں (٥٢)
مذکورہ آیت و روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ ،،و آئمہ معصومین جس طرح اپنی حیات و زندگی میں خالق اور مخلوق کے درمیان رابط اور وسیلہ ہیں اس طرح اپنی شہادت اور وفات کے بعد بھی ہمارا سلام ہماری زیارت ہماری دعائیں سنتے ہیں اور بار گاہ خدا میں ہماری شفاعت فرماتے ہیں ۔
امام صادق ـ فرماتے ہیں :مَنْ لَمْ ےَقْدِرْ عَلیٰ زِےَارَتِنَا فَلیَزِرْ صَالِحِیْ مَوَالِینَا ےَکْتُبُ لَہ ثَوَّابُ زِےَارَتِنَا۔جو شخص ہماری زیارت پر قدرت و طاقت نہیں رکھتا اسے چاہیے کہ وہ ہمارے نیک و صالح موالی اور دوستوں کی زیارت کرے اس کے لئے (خدا کی طرف سے )ہماری زیارت کا ثواب لکھا جائے گا (٥٣)
قال امام علی ـفرماتے ہیں:زُوْرُوا مَوْتَاکُمْ فَاِنَّھُمْ ےَفْرَحُوْنَ بِزِےَارَتِکُمْ وَالْےَطْلُبُ الْرَجُلُ حَاجَتَہ عَنْدَ قَبْرِ اٰبِےْہِ وَاُمِّہِ بَعْدَ مَا ےَدْعُوا لَھُمَا۔ اپنے مردوں کی (قبر پر جا کر )زیارت کیا کرو کیونکہ وہ تمہاری زیارت سے خوش ہوتے ہیں انسان کو چاہیے کہ جب اپنے ماں باپ کی قبر پر جائے تو پہلے ان کے لئے دعائے خیر کرے اس کے بعد اپنی حاجت خدا سے طلب کرے جب نیک اور صالح لوگوںکی زیارت کا اتنا ثواب ہے اور انسان اپنے ماں باپ کی قبر پر جاکر خدا سے اپنی حاجات طلب کر سکتا ہے تو پھر انبیا ء آئمہ معصومین اور اولیاء خدا کی قبور اور روضہ بارگاہ مطہر کی زیارت وسلام دعا ومناجات اور ان کو اپنی حاجات و مشکالات اور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے بارگاہ خدا میں وسیلہ اور شفیع قرار دینے میں کسی مسلمان کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیئے(٥٤)
خدا فرماتا ہے :ےَا اَےُّھَا الَّذِیْنَ اَمَنُوا اِتَّقُوا اﷲ وَابْتَغُوا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَةَ۔اے ایمان والو تقویٰ اختیار کرو اور اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو (٥٥)
پیغمبر اور اہل بیت سے افضل اور بر تر پیش خدا کونسا وسیلہ ہے ۔
حضرت علی ـ فرماتے ہیں ہم خدا اور مخلوق کے درمیان وسیلہ ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا فرماتی ہیں ہم (اہل بیت پیغمبر )خلق و خالق کے درمیان رابط ہیں )
نہ فقط بزرگ ہستیوں کو وسیلہ قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ بعض مقدس و مبارک اوقات اور مقامات کو بھی وسیلہ قرار دیا گیا ہے حضرت امام سجاد ـ خدا کو ماہ مبارک رمضان کا واسطہ دیتے ہیں(٥٦)
امام حسین ـ خدا کو شب روز عرفہ کی قسم دیتے ہیں ۔
قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق : فَلَمَّا اَنْ جَائَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰہُ عَلیٰ وَجْھِہ فَارْتَدَّ بَصِےْراً ۔جب حضرت یوسف ـ کا قمیص حضرت یعقوب کی آنکھوں کے ساتھ میں ہوتا ہے تو ان کی آنکھوں کی بینائی واپس لوٹ آئی کپڑا خود کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا لیکن چونکہ حضرت یوسف جیسے نبی کے بدن سے متصل رہا ہے اس میں خدا نے یہ اثر عطا فرمایا ہے(٥٧)
امام ہادی ـجب بیمار ہوتے ہیں تو ایک شخص کو کربلا روانہ کرتے ہیں کہ جا کر قبر مطہر امام حسین ـ پر میرے لئے دعا کرو ۔
جب اس شخص نے تعجب سے سوال کیا مولا آ پ معصوم ہیں میں غیر معصوم ہوں آپ کیلئے جا کر میں دعا کروں امام نے جو اب دیا رسول اکرم ۖ خانہ کعبہ اور حجر الاسود سے افضل تھے لیکن خانہ کعبہ کا طواف کرتے اور حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے۔
خدا نے کچھ ایسے مقامات قرار دیے ہیں جہاں خدا چاہتا کہ وہاں جا کر دعا مانگی جائے اور میں دعا قبول کروں گا خانہ کعبہ اور حرم امام حسین ـ بھی انہیں مقامات مقدسہ میں سے ہیں۔
اگر ہم ضریح یا ضریح مطہر کے دروازوں کو بوسہ دیتے ہیں اور چومتے ہیں تو فقط و فقط پیغمبر یا اس معصوم کے احترام کی وجہ سے کیوں کہ اب یہ ضریح و بارگاہ اور یہ در و دیوار اسی معصوم ـ کی وجہ سے مقدس اور با برکت ہو گئے ہیں جس طرح قرآن مجید کی جلد یا کاغذ قرآن کی وجہ سے مقدس ہو گئے ہیں چو نکہ اگر یہی کاغذ اور جلد کسی اور کاپی یاکتاب پر ہوں تو مقدس نہیں ہے ۔


اولیاء خدا پر سلام و درود

خدا نے اپنی کتاب مقدس قرآن مجید میں اپنے انبیاء اور اولیاء پر دروود بھیجتا ہے
(١)سَلاَم عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعَالَمِیْنَ (٢)سَلاَم عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ (٣)سَلاَم عَلٰی مُوسٰی وَھٰرُوْنَ (٤) وَسَلاَم عَلٰی الْمُرَسَلِیْنَ (٥) سَلاَم عَلَیْہِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوْتُ وَیَوْمَ ےُبْعَثُ حَےّاً۔ (١) نوح پر دونوں جہانوں میں سلام ہو(٢) ابراہیم پر سلام ہو (٣) موسیٰ وہارون پر سلام ہو(٤) رسولوں پر سلام ہو(٥) سلام ہو اس پر ولادت کے وقت، موت کے وقت اور جب دوبارہ زندہ کیا جائے گا(٥٨)
ہم بھی قرآن مجید کی پیروی کرتے ہوئے رسول اکرم ۖو آئمہ کی زیارت کرتے ہیں اور ان پر سلام و درود بھیجتے ہیں ۔


معصومین اور زیارت

قال رسول اللہ ۖ: مَنْ اَتَانِی زَائِراً کُنْتُ شَفِےْعَہ ےَوْمَ الْقِےَامَةِ۔رسول اللہ ۖ: فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کے لئے آئے گاقیامت کے دن میںاس کی شفاعت کروں گا (٥٩)
قال الامام موسیٰ کاظم ـ :مَنْ زَارَ اَوّلنَا فَقَدْ زَارَ آخِرَنَا وَمَنْ زَارَ آخِرَنَا فَقَدْ زَارَ اَوَّلنَا۔امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں جس شخص نے ہمارے اول کی زیارت کی گویا اس نے ہمارے آخری کی بھی زیارت کی ہے اور جس نے ہمارے آخر کی زیارت کی گویا اس نے ہمارے پہلے کی بھی زیارت کی ہے (٦٠)
امام حسن ـ اپنے نانا رسول خدا ۖ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں جو شخص آپ کی زیارت کرے اس کو کیا ثواب ملے گا آپ نے فرمایاجو شخص میری زندگی میں یا میری وفات کے بعد زیارت کرے آپ کے بابا علی کی زیارت کرے یا آپ کے بھائی حسین ـ کی زیارت کرے یا آپ کی زیارت کے لئے آئے تو مجھ پر حق بن جاتا ہے قیامت کے دن میں اس کی زیارت کروں اور (اس کی شفاعت کر کے )اس کے گناہ معاف کرادوں ۔(٦١)
قال الامام صادق ـ :مَنْ زَارَ الْحُسَےْن ـ عَارِفاً بِحَقِّہ کَتَبَ اﷲُ لَہ ثَوَّابَ اَلْفِ حِجَّةٍ مَقْبُوْلَةٍ وَاَلْفِ عُمْرَةٍ مَقْبُوْلَةٍ وَغَفَرَلَہ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَمَا تَأَخَّرَ۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں جو شخص امام حسین ـ کی زیارت کرے اس حال میں کہ ان کے حق کو پہچانتا ہو تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار حج مقبول اور ایک ہزار عمرہ مقبول کا ثواب لکھ دے گا اور اس کے گذشتہ اور آئندہ گناہ بھی معاف فرما دے گا (٦٢)
الامام صادق ـ :اِےْتُوا قَبْرَالْحُسَےْنِ فِیْ کُلِ سَنَّةٍ مَرَّةً۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں کہ ہر سال ایک مرتبہ قبر مطہر امام حسین ـ زیارت پر جاؤ (٦٣)
امام صادق ـ نماز کے بعد زائرین امام حسین ـ کے لئے یوں دعا فرماتے ہیں خدایا میرے جد امجدامام حسین ـ کی قبر مطہر کی زیارت کرنے والوں کی مغفرت فرما (٦٤)
قال الامام الصادق ـ:مَنْ زَارَنِی غُفِرَتْ لَہ ذَنُوبُہ وَلَمْ ےَمُتْ فَقِےْراً۔ امام صادق ـ فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کرے اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور وہ حالت فقر میں نہیں مرے گا (٦٥)
قال الامام الرضاـ:مَنْ زَارَنِی عَلَیَّ بُعْدِ دَارِیْ أَتَیْتَہ ےَوْمَ الْقِےَامَةِ فِی ثَلاَثَ مَوَاطِنِ حَتّٰی اَخْلِصْہ مِن اَھْوَالِھٰا اِذَا تَظَاہَرَتِ الْکُتّبُ ےَمِیناً وَشِمَالاً عِنْدَ الصِّرَاطِ وَعَنْدَ الْمِےْزَانِ۔امام رضا ـ فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کے لئے آئے گا (میری قبر کے دور ہونے کے باوجود)میں قیامت کے دن تین مقامات پر اس کے پاس آؤں گا تا کہ شفاعت کروں اور اسے ان مقامات کے ہولناکیوں اور سخت حالات سے اسے نجات دلاؤں (٦٦)
(١)جب اعمال نامے دائیں بائیں پھیلا دئیے جائیں گے ۔
(٢) پل صراط پر
(٣)حساب کے وقت
قال الامام الجواد ـ :مَنْ زَارَ قَبْرَ عَمَتِی بِقُمٍّ فَلَہ الْجَنَّة۔امام جوا د ـ فرماتے ہیں جو شخص قم میں میری پھوپھی(حضرت فاطمہ معصومہ ) کی زیارت کرے خدا اسے جنت عطا فرمائے گا (٦٧)
امام حسن عسکری ـ فرماتے ہیں جو شخص عبد العظیم (حسنی )کی زیارت کرے تو گویا اس نے حضرت امام حسین ـ کی زیارت کی ہے (اور اسے آپ کی زیارت کا ثواب ملے گا )(٦٨)
امام صادق ـ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص اپنے والدین یا کسی رشتہ دار یا غیر رشتہ دار کی قبر پر جاتا ہے اور اس کے لئے دعا کرتا ہے کیا اس سے قبر والے کوکو ئی فائدہ پہنچے گا ؟آپ نے جواب میں فرمایا ہاں اگر تم میں سے کسی کو ہدیہ و تحفہ دیا جائے تو جس طرح تم خوش ہوتے ہو صاحب قبر (مرنے والا)بھی تمہارے اس عمل سے اسی طرح خوش ہوتا ہے (٦٩)


قرآنی آیات اور احادیث کے حوالہ جات

(١)سورہ غافرہ آیة ٦٠(٢)سورہ اسراء آیة ١١٠(٣،٤)کلمة اﷲ صفحہ ٤٠٩ حدیث ٤٠٥و٤٠٦ (٥) وسائل الشیعہ ابواب دعا ،باب دوم حدیث ٣(٦،٧)کافی کتاب الدعائ(٨ تا ١٩)میزان الحکمة باب دعائ(٢١)سورہ غافر آیة ١٤(٢٢)میزان الحکمة (٢٣) وسائل الشیعہ ابواب دعا باب ٥٠ حدیث ٣(٢٤تا ٢٨) میزان الحکمة حدیث ٥٦٢٠ تا ٥٦٢٥(٢٩ تا ٣١) وسائل ،ابواب دعا ،باب ٣٧ حدیث ٧،١٠،١٢(٣٢)کلمة اﷲ حدیث ٩٣(٣٣تا٣٨)میزان الحکمة حدیث ٥٦٣٠،٥٦٣٢،٥٦٣٥،٥٦٣٩،٥٦٤٧،٥٦٤٨ (٣٩) وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ابواب تعقیب حدیث ٨ (٤٠) وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ابواب سجود باب ٢٣ حدیث ٥(٤١) وسائل الشیعہ ابواب دعاء باب ٢٣ حدیث ٤(٤٢) میزان الحکمة حدیث ٥٦٥٨(٤٣)وسائل الشیعہ ابواب دعا باب ٣٠ حدیث ٢ (٤٤ تا ٤٨) میزان الحکمة ٥٦٩٦،٥٦٩٨،٥٧٠٠،٥٧٢٣،٥٧٣٦(٤٩) آل عمران آیة ١٦٩(٥٠ تا ٥٤) میزان الحکمة حدیث ٧٩٤٨،٧٩٥٢، ٧٩٤٨،٧٩٨٦،٧٩٨٧(٥٥) مائدہ آیة ٣٥(٥٦)صحیفہ سجادیہ دعای ٤٤(٥٧)یوسف آیة ٩٦(٥٨) صافات آیة ٧٩،١٠٩،١٢٠،١٨١(٥٩تا ٦٩) میزان الحکمة حدیث ٧٩٤٦،٧٩٥١،٧٩٤٩،٧٩٦١،٧٩٦٣،٧٩٦٦۔

نیوز ایجنسی TTG ASIA، کے مطابق مسلمان آبادی کا اہم ملک اب تک موثر انداز میں حلال سیاحت کے حوالے سے موثر کام انجام نہیں دے سکا ہے۔

 

تاہم یہ امکان موجود ہے کہ سیاست میں تبدیلی سے مسلمانوں کی سیاحت کے لیے یہاں پر اس شعبے کو فروغ دیا جائے۔

 

مسلمان حلال اقتصادی رپورٹ کے مطابق  سال ۲۰۱۷ میں ۱۷۷ ارب ڈالر کا حلال کاروبار ہوا ہے اور سال ۲۰۲۳ میں یہ رقم ۲۷۴ ارب ڈالر ہوسکتی ہے۔

 

انڈونیشین ماہر اقتصاد آنانگ سوتونو (Anang Sutono  کے مطابق اس صورتحال کو سنجیدہ لینا چاہیے تاکہ انڈونیشیاء اس حوالے سے فایدہ اٹھا سکے۔

جکارتہ میں حلال کانفرنس سے خطاب میں انکا کہنا تھا: کوشش ہے کہ  سال ۲۰۲۴ تک چھ ملین مسلمان سیاح کو ہم جذب کرسکے جس سے امکانی طور پر ہمیں ۵۔۴ ملین ڈالر جو ہمیں مل رہا ہے ۶۔۷ ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔

 

حلال ٹوریسم کے انچارج ریانتو سوفیان (Riyanto Sofyan  کا کہنا تھا کہ اس شعبے میں مسلمان سیاح اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جس سے ہماری درآمد میں بہترین اضافہ ہوسکتا ہے۔

 

سوفیان کا کہنا تھا: مسلمان سیاح بیس فیصد کل سیاحت کا حصہ ہے اور سال ۲۰۱۸ میں تین ملین سیاح یہاں آئے جن سے ۹۔۳ ارب ڈالر زر مبادلہ حاصل ہوا۔/

3859677