سلیمانی

سلیمانی

جمہوریہ ایران کے انقلابی گارڈز سپاہِ پاسداران نے عراقی سرکاری افواج کی اہم ترین رکن اسلامی مزاحمتی فورس حشد الشعبی کے فوجی مراکز پر ہونے والے امریکی حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ تہران سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جارح دہشتگرد امریکی فورسز کیطرف سے حشد الشعبی کے فوجی مراکز پر ہونے والے ہوائی حملے، جو عراقی عوامی اسلامی مزاحمتی محاذ کے مجاہدین کی ایک بڑی تعداد کے شہید و زخمی ہو جانے کا سبب بنا ہے، عراق کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس وقوعے نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ خطے میں ناامنی، ہرج و مرج، افراتفری اور جنگی جنون کی اصلی جڑ خود امریکہ ہے۔

سپاہ پاسداران کے اس بیان میں کہا گیا ہے کہ حشد الشعبی، اسلامی مزاحمتی محاذ کی مقدس اور اصلی ترین فورسز میں سے ایک ہے، داعش اور تکفیری دہشتگردی کیخلاف جس کی لازوال اور فیصلہ کن دلیری کو عراقی عوام نہ صرف کبھی بھول نہیں پائیں گے بلکہ عراقی عوام اپنی سرزمین پر موجود ناامنی اور غیر ملکی طاقتوں کیساتھ مقابلے میں اسی کو اپنے لئے نمونۂ عمل بھی سمجھتے ہیں۔ سپاہ پاسداران کے اس بیان میں دہشتگرد امریکی فورسز کیطرف سے انجام دیئے گئے اس جارحانہ و مجرمانہ اقدام کی شدید مذمت کی گئی ہے اور حشد الشعبی کے غیور و دلیر مجاہدین کی شہادت پر اعلیٰ دینی مرجعیت، مظلوم عوام، عراقی حکومت اور عوامی اسلامی مزاحمتی فورسز کے کمانڈرز کو تسلیت بھی پیش کی گئی ہے۔

سپاہ پاسداران کیطرف سے جاری ہونے والے اس بیان میں عراق سے دہشتگرد و جارح امریکی فورسز کے نکال باہر کئے جانے کو عراقی اندرونی استحکام کی ضمانت قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ کوئی بھی آزاد و خود مختار قوم اپنے سپوتوں کو غیروں کی جارحیت اور سفاکیت کی بھینٹ چڑھتے نہیں دیکھ سکتی اور یہی وجہ ہے کہ غیور عراقی عوام اور تمام میدانوں کی فاتح حشد الشعبی تمامتر بین الاقوامی قوانین کی رو سے امریکہ کے اس مجرمانہ اقدام کا بھرپور جواب دینے اور اپنا انتقام چکانے کا پورا حق رکھتی ہے۔ اس بیان کے آخر میں کہا گیا ہے کہ بچوں کی قاتل غاصب صیہونی رژیم اسرائیل، شیطانِ بزرگ دہشتگرد امریکہ کے اس مجرمانہ اقدام پر خوشیاں نہ منائے کیونکہ اب عظیم اسلامی امت، مزاحمتی محاذوں پر اپنے جوانوں کی قیمت سے بخوبی آشنا ہوچکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پوری امتِ مسلمہ اپنے صیہونی مخالف مقدس ارادے کو عنقریب ایک عظیم عملی اقدام میں بدلنے والی ہے۔

 

۔

 

 
:جس طرح مسلمانوں کے کفر کا فتویٰ دینا قرآن مجید کے مخالف ہے اسی طرح سنت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھی مخالف ہے اس بارے میں ہم یہاں پہ اہل سنت کی معتبر ترین کتب کے اندر موجود احادیث میں سے فقط چند ایک کی طرف اشارہ کریں گے ۔
الف) مسلمانوں کی تکفیر سے شدید ممانعت :
حضرت علی علیہ السلام اور حضرت جابر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
''...اہل لا الہ الا اللہ لاتکفروھم بذنب ولا تشہد وا علیھم بشرک ''(١)
لا الہ الا اللہ پڑھنے والوں کو گناہ کی وجہ سے مت تکفیر کرو اور ان پر شرک کی تہمت نہ لگاؤ۔
حضرت عائشہ کہتی ہیں : میں نے رسول خدا ۖ سے سنا آپ نے فرمایا:
'' لا تکفروا احدا من اہل القبلة بذنب وان عملوا بالکبائر''()
اہل قبلہ میں سے کسی کو گناہ کے سبب تکفیر نہ کرو اگر چہ وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو ۔(٢)
--------------
(١)المعجم الاوسط ٥:٩٦ ؛ مجمع الزوائد ١: ١٠٦.
(٢)مجمع الزوائد ١: ١٠٦و١٠٧.

ب: دوسروں کو تکفیر کرنے والے کا کفر
بخاری نے ابو ذر سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے سنا آپ ۖنے فرمایا:
''لا یرمی رجل رجلا بالفسوق ولایرمیہ بالکفر الا ارتدت علیہ ، ان لم یکن صاحبہ کذلک ''(1)
اگر کوئی شخص دوسرے کو گناہ یا کفر سے متہم کرے جب کہ وہ شخص گنہگار یا کافر نہ ہو تو وہ گناہ و کفر خود تہمت لگانے والے کی طرف پلٹے گا ۔
عبد اللہ بن عمر نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا:
'2ایما رجل مسلم کفر رجلا مسلما فان کان کافرا والا کان ھو الکافر ''.()
جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے اور وہ مسلمان کافر نہ ہوتو کہنے والا خود کافر ہو جائے گا ۔
نیز عبد اللہ بن عمر نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ کہ آپ ۖنے فرمایا:
--------------

(1صحیح بخاری ٧:٦٠٤٥٨٤، کتاب الادب ، باب ماینھیٰ من السباب واللعن.
(2)کنز العمال ٣:٦٣٥از سنن ابی دادؤو مسند احمد ٢:٢٢.تھوڑے سے فرق کے ساتھ .

''کفوا عن اہل لا الہ الا اللہ لا تکفروھم بذنب من اکفر اہل لا الہ الا اللہ فھوا لی الکفر اقرب ''۔(١)
لا الہ الا اللہ کہنے والوں سے دست بردار ہو جاؤ اور انھیں گناہ کی وجہ سے تکفیر نہ کرو۔ جو شخص اہل توحید کی طرف کفر کی نسبت دیتا ہے وہ خود کفر سے نزدیک تر ہے ۔

ج:اہل قبلہ کے قتل کی حرمت
صحیح بخاری نے انس بن مالک کے واسطے سے رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا:
''من صلی صلاتنا ، واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذلک المسلم الذی لہ ذمة اللہ وذمة رسولہ فلا تخفروااللہ فی ذمتہ ''.( ٢)
جو ہماری طرح نماز پڑھے، قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہمارے ذبح شدہ حیوانات کا گوشت کھائے تو وہ مسلمان اور خدا و رسول ۖ کی پناہ میں ہے پس عہد خدا کو نہ توڑو۔

د: خوف سے اسلام لانے والے کے قتل کی حرمت
صحیح مسلم نے اسامنہ بن زید سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں : پیغمبر اکرم ۖ
--------------

(١)معجم الکبیر١٢: ٢١١ ؛ مجمع الزوائد ١:١٠٦ ؛ فیض القدیر شرح جامع الصغیر ٥: ١٢ ؛ جامع الصغیر ٢ : ٢٧٥؛ کنز العمال ٣: ٦٣٥.
(٢) صحیح بخاری ١:٣٩١١٠٢، کتاب الصلاة ، باب فضل استقبال القبلة .

نے ہمیں ایک قبیلہ کے ساتھ جنگ کے لئے بھیجا ، صبح کے وقت ہم اس قبیلہ کے پاس پہنچے ۔ میں نے ایک شخص کا پیچھا کیا تو اس نے کہا : '' لا الہ الا اللہ ''مگر میں نے نیزہ مار کر اسے قتل کر ڈالا ۔ مجھے احساس ہوا کہ میں نے غلط کام کیا ہے ، پیغمبر ۖ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا:''اقال لا الہ الا اللہ وقتلتہ ''کیا تونے اسے ''لا الہ الا اللہ ''کہنے کے باوجود قتل کردیا ؟
میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ۖ !اس نے اسلحہ کے خوف سے کلمہ پڑھا۔ آنحضرت نے فرمایا: کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا ؟ پیغمبر ۖ نے اس بات کا اس قدر تکرار کیا کہ میں آرزو کرنے لگا کہ اے کاش! آج ہی کے دن پیدا ہوا ہوتا ( اوراس عظیم گناہ کا ارتکاب نہ کرتا )
سعد بن وقاص کہتاہے : میں اس وقت تک کسی مسلمان کو قتل نہیں کروں گا جب تک اسامہ اسے قتل نہ کرے ایک شخص نے کہا : کیا خداوند متعال نے یہ نہیں فرمایا: ( وقاتلوھم حتی لا تکون فتنة ویکون الدین کلہ اللہ )اور کافروں کو قتل کر و یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین فقط خد اہی کا رہ جائے ۔
سعد نے کہا: ہم اس لئے جنگ کرتے ہیں کہ فتنہ ختم ہو جب کہ تم اور تمہارے ساتھی اس لئے لڑتے ہوتاکہ فتنہ برپاکرسکو ۔(١)
-----v

 

۔

 

 
:جس طرح مسلمانوں کے کفر کا فتویٰ دینا قرآن مجید کے مخالف ہے اسی طرح سنت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھی مخالف ہے اس بارے میں ہم یہاں پہ اہل سنت کی معتبر ترین کتب کے اندر موجود احادیث میں سے فقط چند ایک کی طرف اشارہ کریں گے ۔
الف) مسلمانوں کی تکفیر سے شدید ممانعت :
حضرت علی علیہ السلام اور حضرت جابر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
''...اہل لا الہ الا اللہ لاتکفروھم بذنب ولا تشہد وا علیھم بشرک ''(١)
لا الہ الا اللہ پڑھنے والوں کو گناہ کی وجہ سے مت تکفیر کرو اور ان پر شرک کی تہمت نہ لگاؤ۔
حضرت عائشہ کہتی ہیں : میں نے رسول خدا ۖ سے سنا آپ نے فرمایا:
'' لا تکفروا احدا من اہل القبلة بذنب وان عملوا بالکبائر''()
اہل قبلہ میں سے کسی کو گناہ کے سبب تکفیر نہ کرو اگر چہ وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو ۔(٢)
--------------
(١)المعجم الاوسط ٥:٩٦ ؛ مجمع الزوائد ١: ١٠٦.
(٢)مجمع الزوائد ١: ١٠٦و١٠٧.

ب: دوسروں کو تکفیر کرنے والے کا کفر
بخاری نے ابو ذر سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے سنا آپ ۖنے فرمایا:
''لا یرمی رجل رجلا بالفسوق ولایرمیہ بالکفر الا ارتدت علیہ ، ان لم یکن صاحبہ کذلک ''(1)
اگر کوئی شخص دوسرے کو گناہ یا کفر سے متہم کرے جب کہ وہ شخص گنہگار یا کافر نہ ہو تو وہ گناہ و کفر خود تہمت لگانے والے کی طرف پلٹے گا ۔
عبد اللہ بن عمر نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا:
'2ایما رجل مسلم کفر رجلا مسلما فان کان کافرا والا کان ھو الکافر ''.()
جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے اور وہ مسلمان کافر نہ ہوتو کہنے والا خود کافر ہو جائے گا ۔
نیز عبد اللہ بن عمر نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ کہ آپ ۖنے فرمایا:
--------------

(1صحیح بخاری ٧:٦٠٤٥٨٤، کتاب الادب ، باب ماینھیٰ من السباب واللعن.
(2)کنز العمال ٣:٦٣٥از سنن ابی دادؤو مسند احمد ٢:٢٢.تھوڑے سے فرق کے ساتھ .

''کفوا عن اہل لا الہ الا اللہ لا تکفروھم بذنب من اکفر اہل لا الہ الا اللہ فھوا لی الکفر اقرب ''۔(١)
لا الہ الا اللہ کہنے والوں سے دست بردار ہو جاؤ اور انھیں گناہ کی وجہ سے تکفیر نہ کرو۔ جو شخص اہل توحید کی طرف کفر کی نسبت دیتا ہے وہ خود کفر سے نزدیک تر ہے ۔

ج:اہل قبلہ کے قتل کی حرمت
صحیح بخاری نے انس بن مالک کے واسطے سے رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا:
''من صلی صلاتنا ، واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذلک المسلم الذی لہ ذمة اللہ وذمة رسولہ فلا تخفروااللہ فی ذمتہ ''.( ٢)
جو ہماری طرح نماز پڑھے، قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہمارے ذبح شدہ حیوانات کا گوشت کھائے تو وہ مسلمان اور خدا و رسول ۖ کی پناہ میں ہے پس عہد خدا کو نہ توڑو۔

د: خوف سے اسلام لانے والے کے قتل کی حرمت
صحیح مسلم نے اسامنہ بن زید سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں : پیغمبر اکرم ۖ
--------------

(١)معجم الکبیر١٢: ٢١١ ؛ مجمع الزوائد ١:١٠٦ ؛ فیض القدیر شرح جامع الصغیر ٥: ١٢ ؛ جامع الصغیر ٢ : ٢٧٥؛ کنز العمال ٣: ٦٣٥.
(٢) صحیح بخاری ١:٣٩١١٠٢، کتاب الصلاة ، باب فضل استقبال القبلة .

نے ہمیں ایک قبیلہ کے ساتھ جنگ کے لئے بھیجا ، صبح کے وقت ہم اس قبیلہ کے پاس پہنچے ۔ میں نے ایک شخص کا پیچھا کیا تو اس نے کہا : '' لا الہ الا اللہ ''مگر میں نے نیزہ مار کر اسے قتل کر ڈالا ۔ مجھے احساس ہوا کہ میں نے غلط کام کیا ہے ، پیغمبر ۖ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا:''اقال لا الہ الا اللہ وقتلتہ ''کیا تونے اسے ''لا الہ الا اللہ ''کہنے کے باوجود قتل کردیا ؟
میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ۖ !اس نے اسلحہ کے خوف سے کلمہ پڑھا۔ آنحضرت نے فرمایا: کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا ؟ پیغمبر ۖ نے اس بات کا اس قدر تکرار کیا کہ میں آرزو کرنے لگا کہ اے کاش! آج ہی کے دن پیدا ہوا ہوتا ( اوراس عظیم گناہ کا ارتکاب نہ کرتا )
سعد بن وقاص کہتاہے : میں اس وقت تک کسی مسلمان کو قتل نہیں کروں گا جب تک اسامہ اسے قتل نہ کرے ایک شخص نے کہا : کیا خداوند متعال نے یہ نہیں فرمایا: ( وقاتلوھم حتی لا تکون فتنة ویکون الدین کلہ اللہ )اور کافروں کو قتل کر و یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین فقط خد اہی کا رہ جائے ۔
سعد نے کہا: ہم اس لئے جنگ کرتے ہیں کہ فتنہ ختم ہو جب کہ تم اور تمہارے ساتھی اس لئے لڑتے ہوتاکہ فتنہ برپاکرسکو ۔(١)
-----v

مریکی کی گورننگ باڈی سمجھ چکی ہے کہ ان کا ملک آج ـ کسی بھی وجہ سے ـ بڑی طاقت ہونے کے لوازمات سے محروم ہے اور عروج کے دور کی طرف پلثنا ناممکن اور ان کی رسائی سے خارج ہے۔

رہبر معظم کے نمائندے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی سیکورٹی کونسل کے سیکریٹری ایڈمرل علی شمخانی نے اپنی مختصر یادداشت میں لکھا:

1۔ گذشتہ دو مہینوں کے دوران امریکی حکام کے تین واضح اعلانات ایسے حقائق کو آشکار کررہے ہیں کہ امریکی حکمران نظام اس سے قبل اننہیں تسلیم کرنے اور ان کا اعلان کرنے کی جرات نہیں رکھتا تھا۔

2۔ سعودی عرب میں آرامکو تیل کمپنی کی تنصیبات پر یمنیوں کے ڈرون حملے اور حملہ کرنے والوں کے خلاف رد عمل دکھانے کے لئے امریکیوں پر سعودی دربار کی طرف سے شدید دباؤ کے بعد امریکی حکام نے دوٹوک الفاظ میں ان کا دباؤ مسترد کردیا اور صاف صاف کہا گیا کہ اس حملے میں سعودی عرب نشانہ بنا ہے اور امریکہ نشانہ نہیں بنا ہے۔

3۔ خطے میں پے درپے سیاسی اور عسکری ناکامیوں اس عجیب حقیقت کی رونمائی عمل میں آئی کہ امریکہ نے اس خطے میں اپنی فوجی موجودگی پر آٹھ کھرب ڈالر خرچ کر ڈال ہیں اور اعلان ہوا کہ مشرق وسطی میں امریکی مداخلت مکمل طور پر بےفائدہ اور بےثمر تھی اور امریکی اقدامات حماقت پر مبنی تھے۔

4۔ چند روز قبل شام پر ترکی جارحیت اور امریکیوں کی طرف سے اس ملک کے کرد اتحادیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے بعد، امریکی حکام نے اعتراف کیا کہ ان کے ملک نے وسیع سطح پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے جھوٹے الزام کی بنیاد پر عراق پر خونریز جنگ مسلط کی تھی اور یہ کہ مشرق وسطی کے جال میں پھنس جانے کا امریکی فیصلہ اس ملک کی تاریخ کا بدترین فیصلہ تھا۔

5۔ لگتا ہے کہ امریکی حکمران عینی اور زمینی تجربات کی بنیاد پر اس نتیجے پہنچنے ہیں کہ دنیا کی طاقت کا قاعدہ اور سیاست کا حساب و کتاب بدل گیا ہے اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ اپنی بھاری بھرکم تشہیری مہم کے باوجود، مزید، بین الاقوامی نظام کے تمام معاملات پر اپنی فوقیت اور تسلط کا دعوی نہیں کرسکتا۔

6۔ امریکہ سمجھ گیا ہے کہ اب اس کے سامنے صرف دو راستے ہیں یا صرف یہ کہ بھاری اخراجات برداشت کرکے بڑی طاقت کی خالی خولی پھیکی تصویر سینے پر سجاکر خوش ہوا کرے یا پھر حقیقت پسندی کی راہ اپنا کر عالمی حقیقت حال کو تسلیم کرے اور اس احمقانہ نمائش پر کھربوں کے اخراجات سے جان چھڑائے۔

7- بہتر بیان یہ کہ، امریکہ کی گورننگ باڈی کو اس حقیقت کو بھانپ گئی ہے کہ یہ ملک آج ـ کسی بھی وجہ سے ـ (مزید) بڑی طاقت ہونے کے اوزاروں اور وسائل سے محروم ہوچکا ہے اور عروج کے دور کی طرف پلٹنا ناممکن اور ان کی رسائی سے خارج ہے۔ "مشرق وسطی کی تقسیم در تقسیم"، "صدی کی ڈیل"، "ایران کے نظام حکومت کی تبدیلی"، "علاقے میں سعودی عرب کو پولیس مین کا عہدہ سونپنے"، "یمن کی جنگ"،"افغانستان میں امن" "شام کے بحران" جیسے تزویری منصوبوں میں امریکہ کی مکمل ناکامی پوری دنیا کے لئے ثابت ہوچکی ہے۔

8۔ امریکی گورننگ باڈی کے نہایت تلخ مگر عبرت آموز اعترافات مغربی ایشیا کے بہت سے ممالک ـ بالخصوص وہ جو عشروں سے اس علاقے میں امریکی مداخلت کے لئے راستہ ہموار کرتے آئے ہیں اور امریکیوں کے میزبان رہے ہیں ـ اس عمومی اقرار کا سبب ہوئے ہیں کہ "مشرق وسطی کے بغیر زیادہ پرامن علاقہ ہے"۔

علی شمخانی

افغان طالبان کے ایک سابق رہنما سید آغا اکبر نے کہا ہے کہ اگر امریکہ افغانستان میں جنگ بندی کا خواہاں ہے تو اسے امن معاہدے پر دستخط کرنے چاہییں۔۔ مہر نیوز کے ساتھ گفتگو میں سید آغا اکبر نے کہا کہ طالبان امن کے خواہاں ہیں ۔ ہم افغانستان کے انتخابات کو جائز نہیں سمجھتے۔ طالبان کے سابق رہنما نے کہا کہ امریکہ اپنے قول اور فعل میں سچا نہیں ، امریکہ متضاد پالیسیوں پر عمل کرتا ہے۔ امریکہ افغانستان میں امن کا خواہاں نہیں ۔  اکبر نے کہا کہ امریکہ افغانستان کے جعلی انتخابات کی حمایت کرتا ہے جبکہ یہ انتخابات باہمی معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ اس نے کہا کہ امریکہ مذاکرات میں سچا نہیں اور وہ خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی پالیسیوں پر گامزن ہے۔

اکبر نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں حقیقی جنگ بندی کرسکتا ہے لیکن وہ کرنا نہیں چاہتا وہ اپنی متضاد اور معاندانہ پالیسیوں پر گامزن ہے۔ اس نے کہا کہ افغانستان کے 95 فیصد عوام امن چاہتے ہیں۔

رسول خدا (ص) اور ا ئمہ معصومين عليہم اسلام اخلاق حسنہ كى اعلى ترين مثاليں ہيں اور يہ بے مثال "" حُسن خلق ""ان كے كردار اور گفتار سے عياں تھا_ ان ہى عظیم شخصيتوں كے ارشادات كى روشنى ميں ہم ""حُسن خلق"" كے اعلى درجہ پر فائز ہو سكتے ہيں_ چنانچہ ہم يہاں اُن كے ارشادات سے چند نمونے پيش كر رہے ہيں تاكہ وہ ہمارى زندگى كے لئے مشعل راہ بن جائيں : رسول خدا (ص) نے صحابہ كو مخاطب كركے فرمايا :
""كيا ميں تمہيں وہ چيز نہ بتائوں كہ اخلاق كے لحاظ سے تم ميں سے كون مجھ سے زيادہ مشابہ ہے ؟ صحابہ نے عرض كى : ""اے اللہ كے رسول (ص) ضرور بتايئے_"" تو آپ (ص) نے فرمايا :
""جس كا اخلاق بہت اچھا ہے""_1
آپ (ص) ہى كا ارشاد گرامى ہے:
""خوش نصيب ہے وہ شخص جو لوگوں سے خوش خلقى سے ملتا ہے " ان كى مدد كرتا ہے اور اپنى برائي سے انہيں محفوظ ركھتا ہے""_2
امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں:
""خداوند عالم نے اپنے ايك پيغمبر كو مخاطب كركے فرمايا :
""خوش خلقى گناہوں كو اُسى طرح ختم كرديتى ہے جس طرح سورج برف كو پگھلا ديتا ہے""_3
آپ (ع) ہى كا ارشاد ہے:
""بے شك بندہ اپنے حسن اخلاق سے دن كو روزہ ركھنے والے اور رات كو نماز قائم كرنے والے كا درجہ حاصل كرليتا ہے""_4

3)_اخلاق معصومين (ع) كے چند نمونے:
ہمارے معصوم رہبروں (ع) نے جس طرح ""اخلاق حسنہ"" كے بارے ميں نہايت ہى سبق آموز ارشادات فرمائے ہيں " اسى طرح دوست اور دشمن كے سامنے نيك اخلاق كے بہترين على نمونے بھى پيش كئے ہيں; ملاحظہ كيجئے:

1_انس (پيغمبر اكرم (ص) كے خادم) سے مروى ہے كہ : ميں نے رسالت مآب (ص) كى نو سال تك خدمت كى "ليكن اس طويل عرصے ميں حضور (ص) نے مجھے حتى ايك بار بھى يہ نہيں فرمايا: ""تم نے ايسا كيوں كيا؟"" _ ميرے كسى كام ميں كبھى كوئي نقص نہيں نكالا، ميں نے اس مدت ميں آنحضرت (ص) كى خوشبو سے بڑھ كر كوئي اور خوشبو نہيں سونگھي، ايك دن ايك باديہ نشين (ديہاتي) آيا اور آنحضرت (ص) كى عبا كو اتنى زور سے كھينچا كہ عبا كے نشان آپ (ص) كى گردن پر ظاہر ہوگئے_ اس كا اصرار تھا كہ حضور اكرم (ص) اسے كوئي چيز عطا فرمائيں_ رسالت مآب (ص) نے بڑى نرمى اور مہربانى سے اُسے ديكھا اور مسكراتے ہوئے فرمايا:
""اسے كوئي چيز دے دو""_
چنانچہ خداوند عالم نے يہ آيت نازل فرمائي:
""انّك لَعلى خُلق: عظيم"" 5
""بے شك آپ اخلاق (حسنہ) كے اعلى درجہ پر فائز ہيں""_

2_حضرت امام زين العابدين _ كے قريبى افراد ميں سے ايك شخص آپ (ع) كے پاس آيا اور بُرا بھلا كہنے لگا " ليكن آپ (ع) خاموش رہے ، جب وہ شخص چلا گيا تو امام (ع) نے حاضرين كو مخاطب كركے فرمايا:
""آپ لوگوں نے سن ليا ہوگا كہ اس شخص نے مجھ سے كيا كہا ہے اب ميں چاہتا ہوں كہ آپ ميرے ساتھ چليں اور ميرا جواب بھى سن ليں""_
امام عليه السلام راستے ميں اس آيت كى تلاوت فرماتے جارہے تھے:
""و الكاظمين الغيظ والعافين عن الناس واللہ يحب المحسنين ""6
""جو لوگ غصے كو پى جاتے ہيں اور لوگوں كو معاف اور درگذر كرديتے ہيں اوراللہ تعالى ايسے احسان كرنے والوں كو دوست ركھتا ہے""_
ساتھيوں نے سمجھ ليا كہ امام (ع) آيت عفو كى تلاوت فرما رہے ہيں، لہذا اسے كوئي تكليف نہيں پہنچائيں گے ،جب اس كے گھر پہنچے تو امام (ع) نے اس كے خادم سے فرمايا :
كہ اپنے مالك سے كہدو كہ على ابن الحسين عليه السلام تمہيں بلا رہے ہيں_
جب اس شخص نے سنا كہ امام (ع) فوراً ہى اس كے پاس آئے ہيں تو اس نے دل ميں كہا كہ يقينا حضرت (ع) مجھے ميرے كئے كى سزا ديں گے اور اس كا انتقام ليں گے_ چنانچہ اس نے يہ سوچ كر خود كو مقابلہ كے لئے تيار كرليا، ليكن جب باہر آيا تو امام (ع) نے فرمايا :
""ميرے عزيز تم نے اب سے كچھ دير پہلے ميرے متعلق كچھ باتيں كہى تھيں " اگر يہ باتيں مجھ ميں پائي جاتى ہيں تو خدا مجھے معاف كرے" اور اگر ميں اُن سے پاك اور بَرى ہوں تو خدا تمہيں معاف كرے""_
اُس شخص نے جب يہ سنا تو بہت شرمندہ ہوا " امام (ع) كى پيشانى پر بوسہ ديا اور معافى مانگنے لگا اور عرض كى :""ميں نے جو كچھ كہا " غلط كہا" بے شك آپ (ع) ايسى باتوں سے پاك ہيں"ہاں " ميرے اندر يہ باتيں موجود ہيں ""_7

حوالہ جات:

1_ اصول كافى (مترجم ) ج2، ص 84يا تحف العقول ص48
2_ تُحف العقول ، ص28
3_ تحف العقول _ ص 28_ بحارالانوار ج 71، ص 383
4_ وسائل الشيعہ ج8، ص 56_ تحف العقول ص 48
5_منتہى الآمال، ج ا ، ص 31_ سورہ قلم ، آيت 4
6 _ سورہ آل عمران آيت 134
7_منتہى الآمال، ج3 ، ص 5_ مطبوعہ انتشارات جاويدان

 ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے کوالالمپور کنونشن سنٹر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے سمٹ میں شرکت نہ کرنے کی اپنی وجوہات ہیں، عمران خان کا فیصلہ ان کی مرضی ہے اور ہم انہیں شرکت کے لیے مجبور نہیں کرسکتے۔ مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ اسلام میں کوئی زور زبردستی نہیں، وہ شرکت نہیں کرسکے، شاید انہیں کچھ اور مسائل کا سامنا ہو، عالم اسلام کو درپیش مسائل پر بات چیت کی جائے گی، کانفرنس میں 50 سے زیادہ ممالک کو مدعو کیا گیا ہے، جن میں سربراہان مملکت بھی شامل ہیں۔ مہاتیر محمد نے مزید کہا کہ اس اجلاس میں مذہب اسلام پر بحث نہیں کی جائے گی بلکہ امت مسلمہ پر بات ہوگی، جو آج زیادہ سے زیادہ دباؤ کا سامنا کر رہی ہے۔

ملائیشیا کے دارالحکومت کوالا لمپور میں مسلم ممالک کے رہنماؤں کی سمٹ کا آغاز ہوگیا ہے، جس میں 20 ریاستوں کے رہنماء جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں لیکن سعودی عرب اور پاکستان غیر حاضر ہیں۔ اجلاس میں عالمی سطح پر مسلم ریاستوں اور مسلمانوں کو درپیش بحرانوں اور پریشان کن موضوعات پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔ ملائیشین وزیراعظم مہاتیر محمد اس بات کا کھلے عام اظہار کرچکے ہیں کہ او آئی سی مسلم امہ کے مفادات کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے، اس لیے نیا اتحاد او آئی سی کا متبادل ثابت ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب نے اس سمٹ کے انعقاد پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کا نیا اسلامی بلاک مسلم دنیا میں اس کے کردار کو کم کرسکتا ہے، اسی تناظر میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے سعودی عرب کے متعدد دورے کیے ہیں۔

Friday, 20 December 2019 04:09

اول وقت میں نمازکی فضیلت

اول وقت میں نمازکی فضیلت

عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ سَئَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اَیُّ الْاَعْمَالِ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ؟
قَالَ: اَلصَّلٰوةُ لَوْ وَقْتِھَا۔
ثُمَّ اَیُّ شَیْءٍ؟
قَالَ: بِرُّ الْوَالِدَیْنِ۔
قُلْتُ ثُمَّ اَیُّ شَیْءٍ؟
قَالَ: اَلْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ (وسا ئل الشیعہ جلد۳صفحہ ۸۲)
تر جمہ :۔
ابن مسعود سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سوال کیا کونسا عمل خدا کو پسند ہے؟
حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: نماز کو بر وقت بجالانا (یعنی نماز کو اول وقت میں اور فضیلت کے وقت میں ادا کرنا)۔
میں نے عرض کیا اس کے بعد کون سا عمل ؟
حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا ۔
میں نے عرض کیا اس کے بعد کونسا عمل ؟
حضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔
فقیر (شیخ عباس قمی(رحمۃ اللہ علیہ))فرماتے ہیں اسی مضمون کو شیخ کلینی(رحمۃ اللہ علیہ)نے منصور ابن حازم کے ذریعے امام جعفر صادق-سے نقل کیا ہے۔نماز کو اول وقت میں بجالانے اور اس کی حفاظت کے بارے میں بہت زیادہ روایات منقول ہیں ایک روایت میں ہے کہ
"مشرق و مغرب میں کوئی گھر ایسا نہیں ملک الموت ہر دن رات میں پانچوں نمازوں کے اوقات میں اس کی طرف نہ دیکھتا ہوپس جب کسی ایسے شخص کی روح قبض کرنا چاہتا ہو جو نماز کا خیال رکھتاہو اور اسے بر وقت بجا لاتا ہو تو ملک الموت اسے کلمہ شہادتین کی تلقین کرتا ہے( کلمہ شہادتین پڑھاتا ہے)اور شیطان ملعون کو اس سے دور کرتا ہے۔"
نیز معلوم ہونا چاہیے کہ والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی روایات بہت ہیں ایک روایات میں ہے کہ ایک جوان جہاد کا شوق رکھتا تھا لیکن اس کے والدین راضی نہیں تھے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اسے حکم دیا :
" اپنے والدین کے پاس رہو اس خدا کی قسم جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے والدین کا تیرے ساتھ ایک دن کا انس تمہارے ایک سال تک جہاد کرنے سے بہتر ہے"۔
ابراہیم ابن شعیب نے امام جعفر صادق-کی خدمت میں عرض کی کہ میرا باپ بوڑھا اور کمزور ہوگیا ہے جب وہ رفع حاجت کا ارادہ کرتا ہے تو ہم اسے اٹھا کر لے جاتے ہیں
حضرت-نے فرمایا: اگر ہو سکے تو تم خود یہ کام کرو یعنی رفع حاجت کے لئے اسے اٹھا کر لے جاوٴاور اسے کھانا کھلاو ٴ کیونکہ تیرا باپ کل تیرے لیے جہنم سے بچنے کی ڈھال ہے۔

بقلم سید نجیب الحسن زیدی

امام کاظم علیہ السلام کی زندگی میں بکھرے ہوئے واقعات پر یوں تو بہت سے بزرگ علماء، دانشوروں اور اسکالرز نے اظہار خیال کیا ہے لیکن  ائمہ طاہرین علھیم السلام کی زندگی کو ۲۵۰ سالہ انسان کی زندگی کے اعتبار سے دیکھتے ہوئے ایک ہی زنجیر کے حلقوں کی صورت ہر امام کی زندگی کو جس رخ سےبر انقلاب اسلامی نے پیش کیا وہ بے نظیر ہے رہ، گرچہ اس سے ملتی جلتی گفتگو شہید صدر علیہ الرحمہ کی بھی ملتی ہے لیکن جس منظم انداز میں تاریخی حوادث کے گوشوں کو آیت اللہ خامنہ ای نے ایک مجاہدانہ حیات کے خط سے جوڑا ہے اسکی نظیر نہیں چنانچہ امام کاظم علیہ السلام کی زندگی میں مختلف پراکندہ واقعات کا باہمی تعلق کیا ہے اور آپ کی سیاسی حکمت عملی کیا تھی آپ کا تصور امامت کیاتھا اور ہم امام کاظم علیہ السلا م کے تصور امامت سے کتنا دور ہیں اس بات کو مختصر سی اس تحریر میں رہبر انقلاب اسلامی کے بیانات کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

 

زررہبر انقلاب اسلامی امام کاظم علیہ السلام کے تصور امامت کو واضح کرتے ہوئے موجودہ دور میں ان لوگوں کی فکر پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں جو  امامت و ولایت کے غلط تصور کی بنا پر دشمنوں کے جال میں پھنسے ہوئے انحطاط و انجماد نا تراشیدہ اصنام کی صورت قوم و مذہب کی ذلت کا سبب بن رہے ہیں آپ فرماتے ہیں :

“ایسے بھی کچھ لوگ تھے جنہوں نے امام کاظم علیہ السلام کی ہارون سے چغلی کی تاکہ امام علیہ السلام کو زندان میں ڈالا جا سکے ،چنانچہ ایک شخص آکر ہارون سے امام علیہ السلام کی سعایت کرتا ہے اور کہتا ہے ، کیا زمین میں تو خلیفہ جمع ہو گئے ہیں اور کیا خراج دو الگ الگ خیلفاوں کے لئے وصول کیا جاتا ہے ، ہارون نے کہا میرے علاوہ اور کون ہے جس کے لئَے یہ کام ہوتا ہو ، جواب دیا گیا خراسان ، ہرات اور دیگر جگہوں سے لوگ اپنے خمس کے اموال و پیسوں کو امام کاظم علیہ السلام کے لئے لے کر جاتے ہیں ، یہاں پر آپ غور کریں امامت کا معاملہ تھا اور اسی راہ میں ہمارے ائمہ طاہرین علیھم السلام شہید ہوئے یا انہیں زندان میں ڈال دیا گیا ، امامت کا تصور کیا ہے ؟ کیا امامت بس یہی ہے کہ مسئلہ بیان کر دیا جائے اور دنیا کو کوئی اور ادارہ کرے کیا امامت کے معنی شیعت میں اور مسلمانوں کے یہاں یہی ہیں ؟ کوئی مسلمان بھی ایسے تصور امامت کا قائل نہیں ہے پھر ہم اور آپ شیعہ ہوتے ہوئے کیونکر ایسے تصور امامت کو قبول کر سکتے ہیں ؟ امام صادق علیہ السلام امامت کے ہاتھوں میں زمام امور آنے کو لیکر سرگرم عمل تھے یعنی دین و دنیا کی حاکمت امامت کے ہاتھوں میں لینے کے لئے آپ نے کوئی دقیقہ فروگزا ر نہ کیا لیکن حالات و شرائط منطبق نہ ہو سکے ، لیکن ایسا نہیں تھا کہ آپ نے اپنے حق سے صرف نظر کر لیا ہو آپ کا دعوی اپنی جگہ قائم تھا اور اسی دعوای امامت کی بنیاد پر ان عظیم ہستیوں کو شہید کیا گیا ،یہی دین کی حاکمیت کے معنی ہیں جنکے لئے پیغمبروں نے جہاد کیا ، اور ائمہ طاہرین علیھم السلام نے قربانی دی ، ۔۔۔ کیا ممکن ہے کہ ایک شخص کہے میں دیندار تو ہوں میں ایک عالم دین ہوں لیکن اس دعوے کے باوجود خود کو دین کا سپاہی تسلیم نہ کرے ، کیا ایسا ممکن ہے ؟ جو بھی دینداری کا دعوی کرتا ہے و دین کے دعوے کے ساتھ دین کی بنیادوں پر مشتمل دینی حکومت کو اپنا نہ سمجھتا ہو اسکے دفاع کرنے کو اپنی ذمہ داری نہ سمجھتا ہو تو ایسا شخص جھوٹا ہے اسے دین سے لگاو نہیں ہے جب ہم کہتے ہیں وہ جھوٹا ہے تو اسکا مطلب یہ ہے وہ خلاف واقع ہے اورغلط راستے پر چل پڑا ہے ،حقیقت کے برخلاف چل رہا ہے لیکن سمجھنے کوتیار نہیں ہے البتہ یہاں بعض ایسے افراد ہیں جو اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہیں انکی تشخیص ہی دوسری ہے اور وہ اس بات ہی کا انکار کرتے ہیں کہ دین کے پاس اس طرح کی چیزوں کی کوئی منصوبہ بندی موجود ہے[۱]”

امام کاظم علیہ السلام کی زندگی کے پراکندہ واقعات اور انکا باہمی تعلق

شک نہیں کہ ہر انسان کی کتاب زندگی میں ہر ایک ورق پر ایک داستان رقم ہوتی ہے ، اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی دن کچھ خاص واقعہ نہ ہوا ہو تو کتاب زندگی کا صفحہ خالی ہو اور کسی دن کئی کئی حوادث رونما ہوں تو ایک ہی صفحے پر کئی واقعات درج ہوں گرچہ کتاب زندگی کا کوئی ورق خالی نہیں رہتا ہمارے حوادث کو دیکھنے کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ کسی چیز کو ہم یاد کے لائق سمجھتے ہیں تو محفوظ رکھتے ہیں اور کچھ کو مٹا دیتے ہیں یا قابل اعتنا نہیں سمجھتے  لیکن اتنا ضرور ہے ہر انسان کی زندگی میں ایک واضح مقصد ہوتا ہے جسکے حصول کے لئے جب انسان بڑھتا ہے تو مختلف حوادث سامنے آتے ہیں جو واضح

ب اسلامی نے ایک زندگی کے خط سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کی ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں :

“امام کاظم علیہ السلام کی زندگی میں آپ کی زندگی سے جڑے سے مختلف اور ایک دوسرے سے لا تعلق واقعات سے گفتگو اور آپکی علمی ، معنوی و قدسی زندگی پر زور دینا اور اسی پر توجہ کرنا نیز آپ کے خاندان سے متعلق واقعات اور آپ کے اصحاب و شاگردوں سے جڑے مسائل کو پیش کرنا ، علمی اور کلامی مباحثوں کو پیش کرنا یہ وہ تمام چیزیں ہیں جنہیں اگر امام کاظم علیہ السلام کے ۳۵ سالہ دور امامت میں آپ کے مجاہدانہ خط پر توجہ کئے بغیر پیش کیا جائے تو یہ ساری باتیں ناقص و ناتمام رہ جائیں گی ، امام علیہ السلام کی زندگی کی مجاہدانہ روش اور آپ کی دائمی جہادی زندگی کے خط کی تشریح و وضاحت آپکی با فیض  زندگی کو ایکد دوسرے سے جوڑ دیتی ہے اور آپکی زندگی کی ایک واضح اور مکمل تصویر سامنے آتی ہے  اور ایک خاص ایسے زاویہ کے تحت گزرنے والی زندگی کی تصویر کو پیش کرتی ہے جس میں ہر حاثہ اورواقعہ اور جس کے اندر پائی جانے والی ہر حرکت با معنی ہوتی ہے کیوں امام صادق علیہ السلام مفضل سے فرماتے ہیں اس نوجوان کی امامت کی بات بس مورد اعتماد افراد سے کہو [۲]عبد الرحمن بن حجاج سے صراحت کے بجائے اشارہ و کنایہ میں فرماتے ہیں زرہ انکے اوپر پوری آتی ہے[۳] یا اپنے نزدیک دوستوں جیسے “صفوان جمال ” سے سے علامت اور نشانیوں کے  ذریعہ تعارف کراتے ہیں[۴]،آخر کیوں اپنے وصیت نامہ میں اپنے فرزند کا نام چار لوگوں کے ذکر کے بعد لاتے ہیں اور اس میں بھی پہلا نام منصور عباسی کا ہے پھر حاکم مدینہ اور اس کے بعد دو خواتین کا نام ہے[۵] ، اور اس طرح ان ناموں کو ذکر کرتے ہیں کہ آپکی شہادت کے بعد شیعوں کے بزرگ عمائدین اس بات کو نہیں جانتے کہ آپ کا جانشین یہی بیس سال کا جوان ہے ؟”[۶]

آخر کیوں؟

انسان کے  ذہن میں جب بھی کسی واقعہ کے سلسلہ سے سوال اٹھے کہ ایسا کیوں ہوا تو اسے غنیمت سمجھنا چاہیے کیونکہ یہی کیوں وہ چابی ہے جو مختلف واقعات کے اسباب و علل کے دروازوں کو کھولتی ہے جس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حادثہ محض حادثہ تھا یا اس کے پیچھے کوئی فکر کارفرما تھی  امام کاظم علیہ السلام کی زندگی کے مختلف مراحل میں بارہا یہ سوال کھڑا ہوتا ہے امام علیہ السلام نے ایسا کیوں کیا رہبر انقلاب اسلامی اس سلسلہ سے فرماتے ہیں :

“کیوں ہارون سے گفتگو میں جب وہ خراج کے وصولنے اور دو خیلفہ ہونے[۷]  کی بات کرتا ہے تو امام کاظم علیہ اسلام نرم لہجہ اختیار کرتے ہیں اوراس بات کا انکار نرم زبان میں کرتے ہیں اور اسکے بعد حسن بن عبد اللہ نامی  ایک مرد زاہد سے خطاب میں کیوں معرفت امام کی بات کرتے ہیں اور خود کو مفترض الطاعہ کی حیثیت کے پیش کرتے ہیں یعنی اس مقام کا حامل جس  پر عباسی خلیفہ نے قبضہ کیا ہوا تھا  کیوں امام کاظم علیہ السلام علی ابن یقطین کو جو کہ ہاروں کی مشینری میں ایک بلند پایہ مقام کے حامل تھے اور امام کے چاہنے والوں میں تھے تقیہ کی سفارش کرتے ہیں لیکن صفوان بن جمال کی اسی ہارون کی خدمت کے سلسلہ سے ملامت کرتے ہیں اور خلیفہ وقت سے رابطہ منقطع کر لینے کی دعوت دیتے ہیں کس طرح اور کن وسائل کے تحت آپ اسلام کے وسیع قلمرو کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کے درمیان ایک ایسا نیٹ ورک قائم کرتے ہیں جس سے سب چین کی سرحدوں تک جڑے رہیں ؟

کیوں منصور ، مہدی ، ہارون ، ہادی ، یہ سب کے سب اپنے اپنے دور اقتدار کے مخلتف زمانوں میں امام کاظم علیہ السلام کو قتل کرنے اور زندان میں ڈالنے کے درپے رہتے ہیں اور کیوں جیسا کہ بعض روایات بیان کرتی ہیں امام علیہ السلام کو ۳۵ سال کے دور امامت میں ایک دور مخفیانہ طور پر گزارنا پڑتا ہے کیوں آپ مخفیانہ طرز حیات اختیار کر کے شام اور بعض طبرستان کے علاقوں تک پہنچ جاتے ہیں اور خلیفہ وقت کی جانب سے آپ کو تلاش کیا جاتا ہے اور وہ آپ کا پیچھا کرتے ہیں جبکہ آپ اپنے دوستوں سے فرماتے ہیں کہ اگر خیلفہ میرے بارے میں تم سے کچھ پوچھے تو اس سے کہہ دینا کہ ہم انہیں نہیں جاتے اور یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کہاں ہیں ۔

کیوں یارون ایک سفر حج کے دوران آپکی از حد تجلیل و تکریم کرتا ہے اور ایک دوسرے سفر میں آ پکو زندان میں ڈالنے کا حکم دیتا ہے ،کیوں آپ ہارون کی خلافت کے ابتدائی ایام میں جبکہ اس نے ملائم و نرم رویہ اختیار کیا ہوا تھا اور درگزشت سے کام لے رہا تھا اس نے علویوں کو بھی قید و بند کی صعوبتوں سے آزاد کر دیا تھا اس دور میں ان تمام چیزوں کے باوجود جب فدک کی بات آتی ہے تو اس طرح فدک کو بیان کرتے ہیں کہ تمام اسلامی ممالک پر منطبق ہو جاتا ہے ، یہاں تک کہ خلیفہ حضرت کی خدمت میں تعریض کی صورت کہتا ہے اگر ایسا ہی ہے تو آپ اٹھیں اور میری جگہ سنبھال لیں ، آخر کیوں اسی خلیفہ کا یہ نرم رویہ چند سالوں میں اتنا سخت ہو جاتا ہے کہ امام علیہ السلام کو خطرناک زندان میں ڈال دیتا ہے اور سالوں سال زندان میں محبوس کرنے کے بعد اس پر بھی راضی نہیں رہ

تا اور زندان میں رہنا بھی گوارا نہیں کرتا اور امام علیہ السلام کو سفاکانہ طور پرمسموم کر کے شہید کر دیتا ہے “[۸]

یہ سب کے سب اور ایسے ہی سیکڑوں قابل توجہ پر معنی حوادث جو ظاہری طور پر ایک دوسرے سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ بسا اوقات ایک دوسرے سے متضاد بھی نظر آتے ہیں انہیں حوادث کو جب ہم امام کاظم علیہ السلام کی زندگی میں آپ کے مجاہدانہ خط کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں تو سب کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے سب کے معنی پتہ چل جاتے ہیں سبکا رابطہ پتہ چل جاتا ہے اور یہ وہ خط ہے جسے ہم امام کاظم علیہ السلام کی امامت کے آغاز سے لیکر آپکی شہادت تک دیکھتے ہیں کہ یہی خط جاری و ساری ہے ، یہ وہ خط ِ جہاد ہے جو ہمارے ائمہ طاہرین علیھم السلام کے ڈھائی سو سالہ مجاہدانہ دور حیات میں مختلف شکلوں میں مستمر نظر آتا ہے اسکا ہدف اول درجے پر  حقیقی اسلام کی وضاحت اور قرآن کریم کی صحیح تفسیر نیز اسلامی معرفت کی ایک روشن و واضح تصویر بیان کرنا ہے ، اور دوسرے درجے  اسلامی سماج میں مسئلہ امامت اور معاشرہ میں سیاسی حاکمیت کے مفہوم کو واضح کرنا ہے اور تیسرے درجہ میں اس بات کی کوشش کرنا ہے کہ ایسا معاشرہ تشکیل پا سکے جس میں حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام کے ہدف کو متحقق کیا جا سکے ، یعنی عدل و انصاف کا قیام اور اللہ کے دشمنوں کو حکومت سے ہٹا کر زندگی کو خلفاء اللہ کے حوالے کرنا[۹]” ۔

امام کاظم علیہ السلام اور زندان سے حرکت و قیام  کا پیغام

یقینا امام کاظم علیہ السلام کی زندگی کو ایک خطِ واحد سے جوڑ کر  ہم اس رخ سے دیکھیں کہ جس میں امام علیہ السلام مختلف انداز سے ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اپنی زندگی کو حرارت بخشتے ہو بلند ہدف کے حصول کے لئے بڑھتے رہو ہیجان عمل کی آگ ہرگز ٹھنڈی نہ ہو ورنہ ہدف تک رسائی مشکل ہو جائے گی اگر ہم آپ کی زندگی کو دائرہ توحید میں  اس انداز سے بڑھتے دیکھیں  تو نہ صرف آپ کی زندگی میں مخلتف سرگرمیوں اور آپ کی جانب سے امت کی ہدایت کی حکمت عملی کو سمجھ سکتے ہیں بلکہ محض   آپ کی زندگی ہی نہیں آپکا زندان میں ہونا بھی  ہمارے لئے ایک پیغام ہوگا آگے بڑھنے کا پیغام ظلم سے مقابلہ کا پیغام رہبر انقلاب اسلامی امام کاظم علیہ السلام کے زندان میں جانے کو بھی اسی رخ سے دیکھتے ہیں:

“امام کاظم علیہ السلام کی شخصیت زندان میں رہتے ہوئے بھی ایک مشعل فروزاں کی حیثیت رکھتی ہےجو اپنی تمام سمتوں کو روشن کئے ہوئے ہے ، آپ ملاحظہ کریں یہی حق ہے ، اسلامی فکر کی سمت  اور قرآنی بنیادوں پر اسلامی جہاد کا تصور

ایسی ہی حرکت اور ایسی ہی سمت پر مبتنی ہے یہ وہ حرکت ہے جو جس میں کبھی توقف نہیں ہے حتی سخت ترین شرائط میں بھی یہاں انجماد کاتصور نہیں” ۔[۱۰]

شک نہیں کہ امام علیہ السلام کی زندگی کو اس رخ سے دیکھا جائے جو رہبر انقلاب اسلامی نے بیان کیا ہے تو ہم آج کی اپنی زندگی میں بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں اور مختلف دشواریوں اور مشکلوں کے باجود اپنا اور اپنی قوم کا سر بلند کر سکتے ہیں ،اس لئے کہ ہمارے ائمہ طاہرین کا پیغام ہے خود زندان میں چلے جاو لیکن قوم کو غلامی کے زندان سے نکال کر آزاد کر دو اور امام کاظم علیہ السلا م زندان میں رہتے ہوئے قوم کو آزاد کرانے والی ایک ایسی شخصیت ہے جسے ہمیشہ ایسے امام کی صورت دنیا سلام کرتی رہے گی جس نے زندان میں رہتے ہوئے قوم کا وقا ر بلند کیا جو زندان میں ضرور تھا لیکن اسکی روح آزاد تھی اور اسی آزاد روح نے ایک ایسے انقلاب کی بنیاد رکھی جسے اکیسویں صدی کے عظیم انقلاب کے طور پر دنیامیں جانا جاتا ہے ۔

حواشی:

[۱]  ۔http://farsi.khamenei.ir/newspart-index?id=2482&nt=2&year=1370&tid=1476

[۲]  ۔كُنْتُ عِنْدَ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع فَدَخَلَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ ع وَ هُوَ غُلَامٌ فَقَالَ اسْتَوْصِ بِهِ وَ ضَعْ أَمْرَهُ عِنْدَ مِنْ تَثِقُ بِهِ مِنْ أَصْحَابِك‏»

كافی ،ثقة الاسلام كلینی ج ۱ ص ۳۰۸ ح۴ ارشاد ، شیخ مفید :ج ۲ ، ص ۲۱۶ كشف الغمه ،محدث اربلی : ج ۲ ، ص ۲۱۹ بحارالانوار : علامه مجلسی :ج ۴۸ ، ص ۱۷،ح۱۳

[۳]  ۔سَأَلْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ فِی السَّنَةِ الَّتِی أُخِذَ فِيهَا أَبُو الْحَسَنِ الْمَاضِی ع فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ صَارَ فِی يَدِ هَذَا وَ مَا نَدْرِی إِلَى مَا يَصِيرُ فَهَلْ بَلَغَكَ عَنْهُ فِی أَحَدٍ مِنْ وُلْدِهِ شَيْ‏ءٌ فَقَالَ لِی مَا ظَنَنْتُ أَنَّ أَحَداً يَسْأَلُنِی عَنْ هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ دَخَلْتُ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ فِی مَنْزِلِهِ فَإِذَا هُوَ فِی بَيْتٍ كَذَا فِی دَارِهِ فِی مَسْجِدٍ لَهُ وَ هُوَ يَدْعُو وَ عَلَى يَمِينِهِ مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ ع يُؤَمِّنُ عَلَى دُعَائِهِ فَقُلْتُ لَهُ جَعَلَنِيَ اللَّهُ فِدَاكَ قَدْ عَرَفْتَ انْقِطَاعِی إِلَيْكَ وَ خِدْمَتِی لَكَ فَمَنْ وَلِيُّ النَّاسِ بَعْدَكَ فَقَالَ إِنَّ مُوسَى قَدْ لَبِسَ الدِّرْعَ وَ سَاوَى عَلَيْهِ فَ

قُلْتُ لَهُ لَا أَحْتَاجُ بَعْدَ هَذَا إِلَى شَيْ‏ء»

كافی ،ثقة الاسلام كلینی ج ۱ ص ۳۰۸ح۳ كشف الغمه ،محدث اربلی :ج ۲،ص ۲۲۰ بحارالانوار، علامه مجلسی : ج ۴۸، ص ۱۷،ح ۱۷

[۴]  ۔ قَالَ لَهُ مَنْصُورُ بْنُ حَازِمٍ بِأَبِی أَنْتَ وَ أُمِّی إِنَّ الْأَنْفُسَ يُغْدَى عَلَيْهَا وَ يُرَاحُ فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ فَمَنْ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع إِذَا كَانَ ذَلِكَ فَهُوَ صَاحِبُكُمْ وَ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى مَنْكِبِ أَبِی الْحَسَنِ ع الْأَيْمَنِ فِی مَا أَعْلَمُ وَ هُوَ يَوْمَئِذٍ خُمَاسِيٌّ وَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ جَالِسٌ مَعَنَا»

الكافی،ثقة الاسلام كلینی ج‏۱ ص ۳۰۹ ح۶ ارشاد ، شیخ مفید :ج ۲ ، ص ۲۱۸ كشف الغمه ،محدث اربلی : ج ۲ ، ص ۲۲۰ بحارالانوار : علامه مجلسی :ج ۴۸ ، ص ۱۸،ح۲۰

[۵]  ۔ بَعَثَ إِلَيَّ أَبُو جَعْفَرٍ الْمَنْصُورُ فِی جَوْفِ اللَّيْلِ فَأَتَيْتُهُ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ وَ هُوَ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ وَ بَيْنَ يَدَيْهِ شَمْعَةٌ وَ فِی يَدِهِ كِتَابٌ قَالَ فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ رَمَى بِالْكِتَابِ إِلَيَّ وَ هُوَ يَبْكِی فَقَالَ لِی هَذَا كِتَابُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ يُخْبِرُنَا أَنَّ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ قَدْ مَاتَ فَ إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ ثَلَاثاً وَ أَيْنَ مِثْلُ جَعْفَرٍ ثُمَّ قَالَ لِيَ اكْتُبْ قَالَ فَكَتَبْتُ صَدْرَ الْكِتَابِ ثُمَّ قَالَ اكْتُبْ إِنْ كَانَ أَوْصَى إِلَى رَجُلٍ وَاحِدٍ بِعَيْنِهِ فَقَدِّمْهُ وَ اضْرِبْ عُنُقَهُ قَالَ فَرَجَعَ إِلَيْهِ الْجَوَابُ أَنَّهُ قَدْ أَوْصَى إِلَى خَمْسَةٍ وَاحِدُهُمْ أَبُو جَعْفَرٍ الْمَنْصُورُ وَ مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَ عَبْدُ اللَّهِ وَ مُوسَى وَ حَمِيدَة »

كافی ،ثقة الاسلام كلینی ج‏۱ ص ۳۱۰ ح ۱۳ اعلام الوری ،شیخ طبرسی: ص۲۹۹ بحار الأنوار،علامه مجلسی : ج‏۴۷ ،ص۳،ح ۸

[۶]  ۔http://farsi.khamenei.ir/newspart-index?id=2482&nt=2&year=1370&tid=1476

[۷]  ۔لَمَّا أُدْخِلْتُ عَلَى الرَّشِيدِ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ ثُمَّ قَالَ يَا مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ خَلِيفَتَانِ يَجِي‏ءُ إِلَيْهِمَا الْخَرَاجُ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أُعِيذُكَ بِاللَّهِ أَنْ تَبُوءَ بِإِثْمِی وَ إِثْمِكَ فَتَقْبَلَ الْبَاطِلَ مِنْ أَعْدَائِنَا عَلَيْنَا فَقَدْ عَلِمْتَ بِأَنَّهُ قَدْ كُذِبَ عَلَيْنَا مُنْذُ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ ص أَ مَا عِلْمُ ذَلِكَ عِنْدَك…‏»

عیون اخبارالرضا، شیخ صدوق ج۱ ص ۸۱ ح ۹ إحتجاج،شیخ طبرسی: ج‏۲ ، ص ۳۸۹ ،ح۲۷۱ بحارالانوار،علامه مجلسی : ج ۴۸ ، ص ۱۲۵ ،ح ۲

[۸]  ۔http://farsi.khamenei.ir/newspart-index?id=2205&nt=4&year=1368&tid=1476

[۹]  ۔ http://farsi.khamenei.ir/newspart-index?id=2205&nt=4&year=1368&tid=1476

[۱۰]  ۔ http://farsi.khamenei.ir/photo-album?id=39369

کرتے ہیں کہ مقصد تک پہنچنے کی لگن میں انسان نے کن کن پر خار وادیوں کو طے کیا ہے کبھی یہ واقعات بہت منسجم ہوتے ہیں کبھی بکھرے ہوئے ہوتے ہیں  امام کاظم علیہ السلام کی زندگی میں بھی ہمیں مختلف واقعات نظر آتے ہیں جنہیں رہبر انقلا