سلیمانی
دعا کی اہمیت وفضیلت ، قبولیت دعا کے شرائط، آداب دعا، اور دعا کے مخصوص اوقات، حالات اور مقامات
آیات وروایات :معصومین کی سیرت اور باقی اعمال کی نسبت دعاکے دنیوی واُخروی فوائد پر نظر کی جائے تو دعاکی اہمیت و فضیلت روزروشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے خدا وند متعال نے خود بھی اپنے بندوں کو دعا کے لئے حکم دیا ہے اور اپنے پیغمبروں کو بھی فرمایا ہے کہ میرے بندوں کودعا کی سفارش کریں ۔
ارشاد رب العزت ہے ۔
اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ مجھے پکارو اور( مجھ سے دعا مانگو )میں تمہای دعا کو قبول کرونگا (١)
قُلْ ادْ عُوْا اَﷲ۔ اے رسول میرے بندوںسے کہو کہ مجھ سے دعا مانگیں (٢)
ےَامُوْ سیٰ مُرعِبَادِی ےَدْ عُوْنِیْ۔ اے موسیٰ میرے بندوں کو حکم دو کہ وہ مجھے پکاریں (اور مجھ سے دعا مانگیں )(٣)
ےَا عِیْسیٰ مُرْھُمْ اَنْ ےَدْ عُوْ نِیْ مَعَکَ۔ اے عیسیٰ مومنین کو حکم دو کہ وہ آپکے ساتھ مل کر دعا کریں (٤)
حضرت موسیٰ و عیسیٰ جیسے بزرگترین انبیاء بلکہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ۖ کو دعا کے لئے مامور کرنا دعا کی فضیلت واہمیت پر بہترین دلیل ہے۔
پیغمبر اکرم ۖ اور آئمہ کے فرامین میں بھی دعا کی اہمیت و فضیلت روز روشن کی طرح واضح ہے ۔
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں :ےَاعَلِیْ اُوْصِیْکَ بِالدُّعَائِ ۔ اے علی میں تمہیں دعا کی سفارش کرتا ہوں (٥)
قال امام محمد باقر ـ:اَفْضَلُ الْعِبَادَةِ اَلْدُّعَائُ ۔ امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں افضل اور بہترین عبادت دعا ہے (٦)
قال علی ـ:اَحَبُّ الْاعَمَال اِلَی اﷲ عَزَّ وَجَلْ فِیْ الْاَرْضِ الدُّ عَائُ۔حضرت علی ـ فرماتے ہیں خدا کے نزدیک زمین پر محبوب ترین عمل دعا ہے (٧)
قال رسول اللہ ۖ :اَلْدُّعَائُ مُخُ الْعِبَادَةِ وَلَاَ یُھْلِکَ مَعَ الّدُعَا ء اُحَد۔ رسول اکرم ۖ:دعاعبادت کی اصل اور بنیاد ہے دعا کی صورت میں کوئی شخص ہلاک نہیں ہوتا (٨)
قال الامام علی ـ: اَلدُّعُا تُرْسُ الْمُوُمِنْ ۔امام علی ـ فرماتے ہیں دعا مومن کے لئے ڈھال اور نگہبان ہے
اور اسے شیطان کے حملہ اور گناہوں سے محفوظ رکھتی ہے (٩)
قال الامام الصادق ـ: عَلَیْکَ بِالدُّعَائِ: فَاِنَّ فِیْہِ شِفَائ مِنْ کُلِّ دَائٍ ۔حضرت امام صادق ـ فرماتے ہیں تیرے لیے دعا ضروری ہے کیونکہ اس میں ہر بیماری کی شفا ہے (١٠)
قال رسول اللہ ۖ:تَرْکُ الدُّ عَائِ مَعْصِےَة :پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں دعا کا ترک کرناگنا ہ ہے (١١)
قال رسول اللہ ۖ:اِدْفَعُوْا اَبْوَابَ الْبَلَائِ بِالّدُ عَائِ :رسول اکر م ۖ فرماتے ہیں مصیبتوں اور مشکلات کو دور کرو دعا کے ذریعے (١٢)
قال امام علی ـ: مَنْ قَرِعَ بَابَ اﷲ سُبْحِانَہُ فُتِحٍَ لَہ:حضرت علی ـ فرماتے ہیں جو شخص بھی (دعا کے ذریعے )اللہ کے دروازے کو کھٹکائے گا تو اس کے لئے (قبولیت کا دروازہ) کھول دیا جا ئے گا(١٣)
دوسری حدیث میں فرماتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا ونددعا کا دروازہ کھلا رکھے لیکن قبولیت کا دروازہ بند کر دے (١٤)
جس طرح ہر عمل اور عبادت کی قبولیت لئے کچھ شرائط ہیںکہ جن کے بغیر عمل اور عبادت قبول نہیں ہے اسی طرح دعا کے لئے بھی شرائط ہیں جب تک ان شرائط پر عمل نہ کیا جائے تو دعا قبول نہیں ہوتی ۔
١۔ معرفت و شناخت خدا
قال رسول اللہ ۖ:یقول اﷲ عَزَّ وَجَلَّ :مَنْ سَألَنِیْ وَ ھُوَ ےَعْلَمُ اَنِّی اَضُرُّ وَ اَنْفَعُ: اَسْتَجِبْ لَہْ۔حضرت پیغمبر اکرم ۖ سے منقول ہے خدا فرماتا ہے کہ جو شخص مجھ سے سوال اور دعا کرے اور یہ جانتاہو (اور معرفت رکھتا ہو )کہ نفع و نقصان میرے ہاتھ میں ہے تو میں اس کی دعا قبول کروں گا (١٥)
امام صادق ـ سے جب سوال کیا گیا کہ ہم دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں ہو تی تو آپ نے جواب میں فرمایا :
لَاِ نَّکُمْ تَدْعُوْنَ مَنْ لَا تَعْرِفُوْنَہُ ۔آپ اس کو پکارتے ہو( اور اس سے دعا مانگتے ہو )جس کو نہیں جانتے اور جس کی معرفت نہیں رکھتے ہو (١٦)
٢۔محرمات اور گناہ کا ترک کرنا
قال الامام الصادق ـ:اِنَّ اﷲ ےَقُوْلُ اَوْفُوْا بِعَھْدِی اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ :وَاﷲِ لَوْ وَفَےْتُمْ اﷲ لَوَفٰی اللّٰہُ لَکُمْ۔حضرت امام صادق ـ سے منقول ہے : خدا فرماتا ہے میرے عہد و پیمان اور وعدے کو پورا کرو تا کہ میں بھی تمہارے عہد و پیمان (اور وعدے) کو پورا کروںامام فرماتے ہیں اللہ کی قسم اگر تم اپنا وعدہ پورا کرو اور احکام الٰہی پر عمل کرو تو اللہ بھی تمہارے لئے اپنا وعدہ پورا کرے گا تمہاری دعاؤں کو قبول اور تمہاری مشکلات کو حل فرمائے گا (١٧)
٣۔کمائی اور غذا کا پاک و پاکیزہ ہونا
قال الامام الصادق ـ: مَنْ سَرَّہُ اَنْ ےُسْتَجَابَ دُعَائَہُ فَلْیَطَیِّبْ کَسْبُہُ۔امام صادق ـ فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے کاروبار اور کمائی کو پاک کرے (١٨)
حضرت موسیٰ نے دیکھا ایک آدمی ہاتھ بلند کر کے تضرع و زاری کے ساتھ دعا کر رہا ہے خدا نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی کی اور فرمایا اس شخص کی دعا قبول نہیں ہو گی :لَاِنَّ فِیْ بَطْنِہ حَرَاماً وَ عَلَیٰ ظَھُرِہ حَرَاماً وَ فِیْ بَیْتِہ حَرَاماً۔کیونکہ اس کے پیٹ میں حرام ہے ( یعنی اس نے حرام کا مال کھایا ہوا ہے ) اور جو لباس پہنا ہوا ہے وہ بھی حرام ہے اور اس کے گھر میں بھی حرام ہے(١٩)
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری دعا قبول ہو تو اپنی غذا کو پاکیزہ کرو اور اپنے پیٹ میں حرام داخل نہ کرو۔
٤۔حضور ورقت قلب
قال رسول اللہ ۖ: اِعْلَمُوْا اَنَّ اﷲ لَا ےَسْتَجِیْبُ دُعَائَ مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاہٍ۔رسول اکرم ۖ فرماتے ہیں : یہ جان لو کہ خدا وند اس دل سے دعا قبول نہیں کرتا جو غافل اوربے پرواہو (٢٠)
٥۔اخلاص وعبودیت
فَادْعُوْا اﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہ الّدِیْن۔خدا کو پکارو (اور اس سے دعا مانگو خلوص نیت کے ساتھ یعنی )اس حال میں کہ اپنے دین کو اس کے لئے خالص قرار دو (٢١)
امام جعفر صادق ـفرماتے ہیں :وَقَدْ وَعَدَ عِبَادَہُ الْمُوْمِنِیْنَ الْاِسْتِجَا بَةَ۔ بے شک خدا نے اپنے مومنین بندوں سے قبولیت دعا کا وعدہ فرمایا ہے (٢٢)
٦۔سعی و کوشش
یعنی دعا کا معنی یہ نہیں ہے کہ انسان کام و سعی اور کوشش چھوڑ دے اور گھر بیٹھ کر فقط دعا کرتا رہے ۔
امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں : ثَلَاثَة تُرَدُّ عَلَیْھُمْ دَ عْوَتُھُمْ: رَجُل جَلَسَ فِیْ بَیتِہ وَ قَال ےَا رَبِّ اُرْزُقِیِ فَےُقََالُ لَہُ اَلَمْ اَجْعَلْ لَکَ السَّبِیْلَ اِلیٰ طَلَبِ الرَّزْق۔تین قسم کے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہو گی (ان میں سے )ایک وہ شخص ہے جو فقط گھر میں بیٹھ کر یہ دعا کرتا رہے کہ خدا وندا مجھے روزی عطا فرما اسے جواب دیا جائے گا۔ کیا میں نے تیرے لئے روزی کمانے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار نہیں دیا دوسرے لفظوں میں حصول رزق کیلئے تلاش وکو شش کرنا کام کرنا ایک چیز ہے لیکن روزی کا نصیب ہونا اس کا با برکت ہونا توفیق الٰہی کا شامل حال ہونا دوسرا مطلب ہے جس میں دعا بہت مؤثر ہے (٢٣)
اسی طرح علاج کرواناشفاء کیلئے ڈاکٹر یا حکیم کے پاس جانا اس کے دستور کے مطابق دوائی استعمال کرنا ایک مطلب ہے لیکن ڈاکٹرکی تشخیص کا صحیح ہونا دوائی کا شفاء میں مؤثر ہونا دوسرا مطلب ہے جس میں دعا اور صدقہ وغیرہ بہت مؤثر ہیں جب یہ دونوں حصے اکھٹے ہوں تو مؤثر واقع ہونگے اور ہمیں ان دونوں کی طرف تو جہ کرنی ہوگی۔
١۔بِسْم اللہ پڑھنا :
قال رسول اللہ ۖ:لَا یَرُدُّ دُعَائ: اَوَّلُہُ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔رسول اللہ ۖ فرماتے ہیں: وہ دعا رد نہیں ہوتی جس کے شروع میں بسم اللہ پڑھ لیا جائے (٢٤)
٢۔تمجید
قال رسول اللہ ۖ:اِنَّ کُلُّ دُعَائٍ لَا ےَکُونَ قَبْلَہُ تَمْجَِیْد فَھُوَاَبْتَرْ۔رسول اکرم ۖ:ہر وہ دعا کہ جس سے پہلے اللہ تبارک و تعالیٰ کی تعریف و تمجید اور حمد و ثنا نہ ہو وہ ابتر ہے اور اسکا کوئی نتیجہ نہیں ہو گا (٢٥)
٣۔صلوات بر محمد و آل محمد
قال رسول اللہ ۖ:صَلَاتُکُمْ عَلَّی اِجَابَة لِدُعَائِکُمْ وَزَکاة لاَِعْمَالِکُمْ۔رسول اکرم ۖفرماتے ہیں :تمہارا مجھ پر درود و صلوات بھیجنا تمہاری دعاؤں کی قبولیت کا سبب ہے اور تمہارے اعمال کی زکاة ہے (٢٦)
امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں :لَا ےَزَالُ الدُّ عَاء محجُوباً حَتّٰی یُصَلِّی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ:دعا اس وقت تک پردوں میں چھپی رہتی ہے جب تک محمد ۖ وآل محمدۖ پر صلوات نہ بھیجی جائے (٢٧)
حضرت امام جعفر صادق ـ ایک اور روایت میں فرماتے ہیں جوشخص خدا سے اپنی حاجت طلب کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ پہلے محمد و آل محمد پر صلوات بھیجے پھر دعا کے ذریعہ اپنی حاجت طلب کرے اس کے بعد آخرمیں درود پڑھ کر اپنی دعا کو ختم، کرے (تو اس کی دعا قبول ہو گی ) کیونکہ خدا وند کریم کی ذات اس سے بالاتر ہے کہ وہ دعا کے اول و آواخر (یعنی محمد و آل محمد پر درود و صلواة )کو قبول کرے اور دعا کے درمیانی حصے(یعنی اس بندے کی حاجت )کو قبول نہ فرمائے (٢٨)
٤۔آ ئمہ معصومین کی امامت ولایت کا اعتقاد رکھنا اور انہیں واسطہ اور شفیع قرار دینا
قال اللہ تعالیٰ : فَمَنْ سَأَلَنِیْ بِھِمْ عَارِفَاً بِحَقِّھِمْ وَمَقَامِھِمْ اَوْجَبْتَ لَہ مِنِّی اَلْاِجَابَةَ۔خدا فرماتا ہے کہ جو شخص پیغمبر اکرم ۖ اور آئمہ معصومین کا واسطہ دے کر مجھ سے سوال کرے اور دعا مانگے جبکہ وہ ان کے حق اور مقام کو پہچانتا ہوتو مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں(٢٩)
امام محمدباقر ـ فرماتے ہیں :مَنْ دَعَا اﷲ بِنَا اَفْلَحَ :یعنی جو شخص ہم اہلبیت کا واسطہ دے کر دعا کرے تو وہ شخص کامیاب و کامران ہے (٣٠)
جناب یوسف کے واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ جناب جبرائیل حضرت یعقوب کے پاس آئے اور عر ض کی کیا میں آپ کو ایسی دعا بتاؤں کہ جس کی وجہ سے خدا آپ کی بینائی اور آپ کے دونوں بیٹے (یوسف وبنیامین )آپکو واپس لوٹا دے حضرت یعقوب نے کہا وہ کون سی دعا ہے ۔
فقال جبرائیل :قُلْ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ عَلِّیٍ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسنِ وَالْحُسَےْنِ اَنْ تَأتِیْنیْ بِےُوْسُفَ وَبُنْےَامِیْنَ جَمِیاً وَتُرَدُّ عَلیَّ عَیْنیِ۔حضرت جبرائیل نے حضرت یعقوب سے کہا کہ یوں دعا مانگوخدا یا میں تجھے محمد ۖ ،علی ،فاطمہ، حسن و حسین کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ میرے دونوں بیٹوں (یوسف اور بنیا مین )کو اور میری بینائی کو واپس لوٹا دے جناب یعقوب کی یہ دعا ابھی تمام ہی ہوئی تھی کہ قاصد (بشیر)نے آکر جناب یوسف کی قمیص حضرت یعقوب پر ڈال دی تو آپ کی آنکھیں بینا ہو گئیں(٣١)
حدیث قدسی میں ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے چالیس شب عبادت کرنے کے بعد دعا کی لیکن اس کی دعا قبول نہیں ہوئی تواس نے حضرت عیسیٰ ـ کے پاس شکایت کی حضرت عیسیٰ ـ نے بارگاہ خداوندی سے سوال کیا تو جواب ملا کہ اس نے دعا کا صحیح راستہ اختیار نہیں کیا :اِنَّہُ دُعَانِیْ وَفِیْ قَلْبِہ شَک مِنْکَ۔کیوں کہ وہ مجھ سے تو دعا کرتا ہے اور حاجت طلب کرتا ہے لیکن اسکے دل میں تیری نبوت کے بارے میں شک ہے (یعنی تیری نبوت کا معتقد نہیں ہے )(٣٢)
لہذا وہ اگر اس (شک اور عدم اعتقاد کی )حالت میں اتنا دعا کرے کہ اس کا سانس ختم ہو جائے اور اس کی انگلیاں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تب بھی میں اس کی دعا قبول نہیں کروں گا ۔
٥۔گناہوںکا اقرار کرنا
قال الامام الصادق ـ :انَّمَا ھِیَ اَلْمِدْحَةُ ثُمَّ الْاِقْرَارُ بِا الّذُنُبِ ثُمَّ الْمَسْئَلَة۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں کہ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے خدا کی حمد و تعریف کرو پھر گناہوںکا اقرار اور پھر اپنی حاجت طلب کرو (٣٣)
٦۔خشوع و خضوع کے ساتھ اور غمگین حالت میں دعا مانگنا
قال اللہ :ےَا عِیْسیٰ اَدْعُوْنِیْ دُعَائَ الْحَزِیْنِ الْغَریِقِْ اَلَّذِیْ لَیْسَ لَہُ مُغِےْث۔خدا فرماتا ہے اے عیسیٰ مجھ سے اس غرق ہونے والے غمگین انسان کی طرح دعا مانگو جس کا کوئی فریادرس نہ ہو (٣٤)
٧۔دو رکعت نماز پڑھنا
امام جعفر صادق ـ فرماتے جو شخص دو رکعت نماز بجا لانے کے بعد دعا کرے تو خدا اسکی دعا قبول فرمائے گا (٣٥)
٨۔ اپنی حاجت اور مطلوب کو زیادہ نہ سمجھو
رسول اکرم ۖسے روایت ہے خدا فرماتا ہے کہ اگر ساتوں آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والے مل کر مجھ سے دعا مانگیں اور میں ان سب کی دعاؤں کو قبول کر لوں اور ان کی حاجات پوری کر دوں تو میری ملکیت میں مچھر کے پر کے برابر بھی فرق نہیں آئے گا (٣٦)
٩۔ دعا کو عمومیت دینا
قال رسول اللہ ۖ: اِذادَعَا اَحَدَکُمْ فَلْےُعِمَّ فَاِنَّہُ اَوْجَبَ لِلدُّعَائِ۔پیغمبر اکرم ۖفرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی دعا مانگے تو اسے چاہیے کہ کہ اپنی دعا کو عمومیت دے یعنی دوسروں کو بھی دعا میں شریک کرے کیونکہ ایسی دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہے (٣٧)
قال الامام الصادق ـ :مَنْ قَدَّمَ اَرْبَعِیْنَ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ ثُمَّ دَعَاہ اَسْتُجِیبُ لَہُ۔جو شخص پہلے چالیس مومنین کے لئے دعا کرے اور پھر اپنے لئے دعا مانگے تو اس کی دعا قبول ہوگی (٣٨)
١٠۔قبولیت دعا کے بارے میں حسن ظن رکھنا
مخصوص اوقات وحالات اور مقامات میں دعا کرنا ۔
دعا کیلئے بعض اوقات حالات اور مقامات کو افضل قرار دینا اس کا معنی ہر گز یہ نہیں ہے کہ باقی اوقات اور مقامات میں دعا قبول نہیں ہوتی اور ان میں رحمت خدا کے دروازے بند ہیں کیونکہ تمام اوقات اور مقامات خدا سے متعلق ہیں اور اس کی مخلوق ہیں جس وقت جس مقام اور جس حالت میں بھی خدا کو پکارا جائے تووہ سنتا ہے اور اپنے بندے کو جواب دیتا ہے لیکن جس طرح خدا نے اپنے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت دی ہے اسی طرح بعض اوقات ومقامات کو بھی بعض پر فضیلت حاصل ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم دعا کے لئے افضل ترین کو انتخاب کریں ۔
مفاتیح الجنان اور دیگر کتب دعا میں مفصل طور پر دعا کے مخصوص اوقات اور حالات اور مقامات کو بیان کیا گیا ہے ہم اجمالاً بعض کو ذکر کرتے ہیں ۔
١۔نماز کے بعد
قال الصادق ـ: اِنَّ اللّٰہَ فَرَضَ الْصَّلَوٰتَ فِیْ أَحَبِّ الْاوْقَاتِ فَأسْئَالُوْا حَوَائِجکُمْ عَقِیْبَ فَرَائِضکُمْ۔ امام صادق ـ فرماتے ہیں کہ خدا نے نمازوں کو محبوب ترین اور افضل ترین اوقات میں واجب قرار دیا ہے بس تم اپنی حاجات کو واجب نمازوں کے بعد طلب کرو (٣٩)
٢۔حالت سجدہ میں
قال الرضا ـ: اَقْرَبُ مَا ےَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنَ اللّٰہ تَعَالیٰ وَھُوَ سَاجد۔امام رضا ـ فرماتے ہیں کہ حالت سجدہ میں بندہ اپنے خالق سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے (٤٠)
٣۔ قرآن مجید کی ایک سو آیات کی تلاوت کے بعد
قال امیر المومنین ـ:مَنْ قَرَئَ مِائَةَ آےَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ مِنْ اَیِّ الْقُرْآنِ شَائَ ثُمَّ قَالَ … ےَااﷲُ سَبْعُ مَرَّاتٍ فَلَوْ دَعَا عَلیٰ الْصَخْرَةِ لِقَلْعِھٰا اِنْ شَائَ اﷲ۔امام علی ـ فرماتے ہیں جو شخص قرآن کی ایک سو آیات پڑھے پھر سات مرتبہ یااللہ کہے تو خدا اس کی دعا قبول فرمائے گا (مضمون حدیث)(٤١)
٤۔سحری کے وقت
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں بہترین وقت جس میں تم اللہ سے دعا مانگو سحر کا وقت ہے کیونکہ حضرت یعقوب نے بھی استغفار کو سحر کے وقت لئے مؤخر کر دیا تھا (مضمون حدیث )(٤٢)
٥۔رات کی تاریکی میں مخصوصاً طلوع فجر کے قریب ۔
٦۔ شب و روز جمعہ ۔
٧۔ماہ مبارک رمضان ماہ رجب و ماہ شعبان ۔
٨۔شب ہای قدر (شب ١٩،٢١،٢٣،رمضان )۔
٩۔ماہ رمضان کا آخری عشرہ اور ماہ ذالحجہ کی پہلی دس راتیں ۔
١٠۔ عید میلاد پیغمبر اکرم ۖ و آئمہ معصومین ۔عید فطر ۔عید قربان ،عید غدیر ۔
١١۔بارش کے وقت ۔
١٢۔عمرہ کرنے والے کی دعا واپسی کے وقت یا واپسی سے پہلے ۔
١٣۔جب اذان ہو رہی ہو ۔
١٤ تلاوت قرآن سننے کے وقت ۔
١٥ ۔حالت روزہ میں افطار کے وقت یا افطار سے پہلے ۔
(١) مکہ مکرمہ ،بیت اللہ ،مسجد الحرام ،مسجد النبی ۖ حرم مطہر و مزارات چہاردہ معصومین مخصوصاً حرم مطہر مام حسین ـ
(٢)وہ خاص مساجد جن مین انبیاء و آئمہ معصومین اور اولیاء خدا نے نماز و عبادت انجام دی ہے جیسے مسجد اقصیٰ، مسجد کوفہ، مسجد صعصعہ، مسجد سہلہ، سرداب سامرہ، مسجد جمکران ۔
(٣)مذکورہ خاص مقامات کے علاوہ ہر مسجد قبولیت دعا کیلئے بہترین مقام ہے ۔
اہم نکتہ :حالات اوقات اور مقامات دعا کے انتخاب میں مہم ترین نکتہ یہ ہے کہ ایسا وقت اور مقام انتخاب کرنا چاہیے جس میں انسان ریاکاری تظاہر اور دکھاوے جیسی آفت کا شکار نہ ہو۔اور خلوص تواضع و انکساری اور رقت قلب زیادہ سے زیادہ حاصل ہو یہی وجہ ہے کہ روایات میں سفارش کی گئی ہے کہ رات کی تاریکی میں اور سحر کے وقت دعا مانگی جائے خدا فرماتا ہے ۔ےَا بْنَ عِمْرَان …وَاَدْعُنِیْ فِیْ الظُلُمِ اللَّیلِ فَاِنَّکَ تَجِدُنِیْ قَرِیْباً مُجَیْباً۔اے موسیٰ مجھے رات کی تاریکی میں پکارو تو مجھے اپنے قریب اور دعا قبول کرنے والا پاؤ گے(٤٣)
قال امیر المومنین ـ:اَرْبَعَة لَا تُرَدُّ لَھُمْ دَعْوَة: اَلْاِمَامُ الْعَادِلُ لِرَعِیَّتِہ وَالْوَالِدُ الْبَارُّ لِوَلْدِہ وَالْوَلَدُ الْبَارُّ لِوَالِدِہ وَالْمَظْلُوْمُ (لِظَالِمِہِ)۔ امام علی ـ فرماتے ہیں چار افراد کی دعا رد نہیں ہوتی امام و حاکم عادل جب اپنی رعیت کے حق میں دعا کرے نیک باپ کی دعا اولاد کے حق میں نیک و صالح اولاد کی دعا باپ کے حق میں مظلوم کی دعا (ظالم کے بر خلاف )(٤٤)
قال رسول اللہ ۖ: دُعَائُ اَطْفَالِ اُمَّتِیْ مُسْتَجَاب مَا لَمْ ےُقَارِفُوْا الذُّنُوْبَ۔پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں کہ میری امت کے بچوں کی دعا قبول ہے جب تک وہ گناہوں سے آلودہ نہ ہوں(٤٥)
قال الامام الحسن ـ:مَنْ قَرَئَ الْقُرْآنَ کَانَتْ لَہُ دَعْوَة مُجَابَة اِمَّا مُعَجَّلَةً وَاِمَّا مُؤَجَّلَةً۔امام حسن ـ فرماتے ہیں جو شخص قرآن کی تلاوت کرے اس کی دعا جلدی یا دیر سے قبول ہوگی (٤٦)
دعا بے فائدہ نہیں ہوتی
قال الامام زین العابدینـ: اَلْمُوْمِنُ مِنْ دُعَائِہ عَلیٰ ثَلَاثٍ اِمَّا اَنْ ےُدَّخَرَ لَہُ، وَاِمَّا اَنْ ےُعَجَّل لَہُ وَاِمَّا اَنْ ےَدْفَعَ عَنْہُ بَلائً ےُرِےْدُ اَنْ ےُصِیْبَ۔ امام زین العابدین ـ فرماتے ہیں مومن کی دعا تین حالات سے خارج نہیں ہے (١)یا اس کے لئے ذخیرہ آخرت ہو گی ۔(٢)یا دنیا میں قبول ہو جاے گی ۔(٣)یا مومن سے اس مصیبت کو دور کر دے گی جو اسے پہنچنے والی ہے ۔(٤٧)
مومنین ومومنات کے لئے دعا کرنے کا فائدہ
قال الامام الصادق ـ : دُعَائُ الْمُوْمِنِ لِلْمُوْمِنِ ےَدْفَعُ عَنْہُ الْبَلَائَ وَےُدِرُّ عَلَےْہِ الْرِّزْقَ۔مومن کا مومن کیلئے دعا کرنا دعا کرنے والے سے مصیبت کو دور کرتا ہے اور اس کے رزق میں اضافہ کاسبب بنتا ہے ۔(٤٨)
مطلب دوم :زیارت آیات اور روایات کی روشنی میں
جب پیغمبر اکرم ۖ اور معصومین سے منقول روایات میں غور فکر کی جائے تو پھر زیارت کی اہمیت و فضیلت بھی واضح ہو جاتی ہے اور اس بحث کی بھی ضرورت محسوس ہو تی ہے آیا انبیا ،آئمہ اور اولیا ء خدا کی مزارات کی زیارت کرنا ان کی بار گاہ میں سلام عرض کرنا اور انہیں ان کی وفات اور شہادت کے بعد بار گاہ الٰہی میں وسیلہ اور شفیع قرار دینا جائز ہے یا نہ چونکہ یہ حضرات قرآن مجید کی اس آیہ مجیدہ کے مصداق اعلیٰ و اکمل ہیں جس میں ارشاد ہوتا ہے :وَ لاَ تَحْسَبَنَ الَّذِیْنَ قُتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ اَمْوَاتاً بَلْ اَحْےَائ عَنْدَ رَبِّھِمْ ےُرْزَقُوْنَ۔جو حضرات راہ خدا میں شہید ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے مہمان ہیں(٤٩)
پیغمبر اکرم ۖبھی فرماتے ہیں :منَ ْزَارَنِی حَےّاً وَمَےَّتاً کُنْتُ لَہ شَفِےْعاً یَومَ الْقِےَامَةِ۔جو شخص میری زندگی یا معرفت یا میری وفات کے بعد میری زیارت کرے میں بروز قیامت اسکی شفاعت کروںگا(٥٠)
امام صادق ـ فرماتے ہیں :مَنْ زَارَنَا فِیْ مَمَاتِنَا کَاَنَّمٰا زَارَنَا فِیْ حِےَاتِنَا جو شخص ہماری وفات کے بعد ہماری زیارت کرے تو گویااس نے ہماری زندگی میں ہماری زیارت کی ہے (٥١)
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں: وَمَنْ سَلَّمَ عَلیَّ فِیْ شَیئٍ مِنْ الْاَرْضِ بَلَغَتْنِی وَمَنْ سَلَّمَ عَلیَّ عَنْدَ الْقَبْرِ سَمِعْتُہ جو شخص زمین کے کسی بھی حصے سے مجھ پر سلام بھیجتا ہے اس کا سلام مجھ تک پہنچ جاتا ہے اور جو شخص میری قبر کے پاس آکر مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اس کا سلام بھی میں سنتا ہوں (٥٢)
مذکورہ آیت و روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ ،،و آئمہ معصومین جس طرح اپنی حیات و زندگی میں خالق اور مخلوق کے درمیان رابط اور وسیلہ ہیں اس طرح اپنی شہادت اور وفات کے بعد بھی ہمارا سلام ہماری زیارت ہماری دعائیں سنتے ہیں اور بار گاہ خدا میں ہماری شفاعت فرماتے ہیں ۔
امام صادق ـ فرماتے ہیں :مَنْ لَمْ ےَقْدِرْ عَلیٰ زِےَارَتِنَا فَلیَزِرْ صَالِحِیْ مَوَالِینَا ےَکْتُبُ لَہ ثَوَّابُ زِےَارَتِنَا۔جو شخص ہماری زیارت پر قدرت و طاقت نہیں رکھتا اسے چاہیے کہ وہ ہمارے نیک و صالح موالی اور دوستوں کی زیارت کرے اس کے لئے (خدا کی طرف سے )ہماری زیارت کا ثواب لکھا جائے گا (٥٣)
قال امام علی ـفرماتے ہیں:زُوْرُوا مَوْتَاکُمْ فَاِنَّھُمْ ےَفْرَحُوْنَ بِزِےَارَتِکُمْ وَالْےَطْلُبُ الْرَجُلُ حَاجَتَہ عَنْدَ قَبْرِ اٰبِےْہِ وَاُمِّہِ بَعْدَ مَا ےَدْعُوا لَھُمَا۔ اپنے مردوں کی (قبر پر جا کر )زیارت کیا کرو کیونکہ وہ تمہاری زیارت سے خوش ہوتے ہیں انسان کو چاہیے کہ جب اپنے ماں باپ کی قبر پر جائے تو پہلے ان کے لئے دعائے خیر کرے اس کے بعد اپنی حاجت خدا سے طلب کرے جب نیک اور صالح لوگوںکی زیارت کا اتنا ثواب ہے اور انسان اپنے ماں باپ کی قبر پر جاکر خدا سے اپنی حاجات طلب کر سکتا ہے تو پھر انبیا ء آئمہ معصومین اور اولیاء خدا کی قبور اور روضہ بارگاہ مطہر کی زیارت وسلام دعا ومناجات اور ان کو اپنی حاجات و مشکالات اور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے بارگاہ خدا میں وسیلہ اور شفیع قرار دینے میں کسی مسلمان کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیئے(٥٤)
خدا فرماتا ہے :ےَا اَےُّھَا الَّذِیْنَ اَمَنُوا اِتَّقُوا اﷲ وَابْتَغُوا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَةَ۔اے ایمان والو تقویٰ اختیار کرو اور اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو (٥٥)
پیغمبر اور اہل بیت سے افضل اور بر تر پیش خدا کونسا وسیلہ ہے ۔
حضرت علی ـ فرماتے ہیں ہم خدا اور مخلوق کے درمیان وسیلہ ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا فرماتی ہیں ہم (اہل بیت پیغمبر )خلق و خالق کے درمیان رابط ہیں )
نہ فقط بزرگ ہستیوں کو وسیلہ قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ بعض مقدس و مبارک اوقات اور مقامات کو بھی وسیلہ قرار دیا گیا ہے حضرت امام سجاد ـ خدا کو ماہ مبارک رمضان کا واسطہ دیتے ہیں(٥٦)
امام حسین ـ خدا کو شب روز عرفہ کی قسم دیتے ہیں ۔
قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق : فَلَمَّا اَنْ جَائَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰہُ عَلیٰ وَجْھِہ فَارْتَدَّ بَصِےْراً ۔جب حضرت یوسف ـ کا قمیص حضرت یعقوب کی آنکھوں کے ساتھ میں ہوتا ہے تو ان کی آنکھوں کی بینائی واپس لوٹ آئی کپڑا خود کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا لیکن چونکہ حضرت یوسف جیسے نبی کے بدن سے متصل رہا ہے اس میں خدا نے یہ اثر عطا فرمایا ہے(٥٧)
امام ہادی ـجب بیمار ہوتے ہیں تو ایک شخص کو کربلا روانہ کرتے ہیں کہ جا کر قبر مطہر امام حسین ـ پر میرے لئے دعا کرو ۔
جب اس شخص نے تعجب سے سوال کیا مولا آ پ معصوم ہیں میں غیر معصوم ہوں آپ کیلئے جا کر میں دعا کروں امام نے جو اب دیا رسول اکرم ۖ خانہ کعبہ اور حجر الاسود سے افضل تھے لیکن خانہ کعبہ کا طواف کرتے اور حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے۔
خدا نے کچھ ایسے مقامات قرار دیے ہیں جہاں خدا چاہتا کہ وہاں جا کر دعا مانگی جائے اور میں دعا قبول کروں گا خانہ کعبہ اور حرم امام حسین ـ بھی انہیں مقامات مقدسہ میں سے ہیں۔
اگر ہم ضریح یا ضریح مطہر کے دروازوں کو بوسہ دیتے ہیں اور چومتے ہیں تو فقط و فقط پیغمبر یا اس معصوم کے احترام کی وجہ سے کیوں کہ اب یہ ضریح و بارگاہ اور یہ در و دیوار اسی معصوم ـ کی وجہ سے مقدس اور با برکت ہو گئے ہیں جس طرح قرآن مجید کی جلد یا کاغذ قرآن کی وجہ سے مقدس ہو گئے ہیں چو نکہ اگر یہی کاغذ اور جلد کسی اور کاپی یاکتاب پر ہوں تو مقدس نہیں ہے ۔
خدا نے اپنی کتاب مقدس قرآن مجید میں اپنے انبیاء اور اولیاء پر دروود بھیجتا ہے
(١)سَلاَم عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعَالَمِیْنَ (٢)سَلاَم عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ (٣)سَلاَم عَلٰی مُوسٰی وَھٰرُوْنَ (٤) وَسَلاَم عَلٰی الْمُرَسَلِیْنَ (٥) سَلاَم عَلَیْہِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوْتُ وَیَوْمَ ےُبْعَثُ حَےّاً۔ (١) نوح پر دونوں جہانوں میں سلام ہو(٢) ابراہیم پر سلام ہو (٣) موسیٰ وہارون پر سلام ہو(٤) رسولوں پر سلام ہو(٥) سلام ہو اس پر ولادت کے وقت، موت کے وقت اور جب دوبارہ زندہ کیا جائے گا(٥٨)
ہم بھی قرآن مجید کی پیروی کرتے ہوئے رسول اکرم ۖو آئمہ کی زیارت کرتے ہیں اور ان پر سلام و درود بھیجتے ہیں ۔
قال رسول اللہ ۖ: مَنْ اَتَانِی زَائِراً کُنْتُ شَفِےْعَہ ےَوْمَ الْقِےَامَةِ۔رسول اللہ ۖ: فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کے لئے آئے گاقیامت کے دن میںاس کی شفاعت کروں گا (٥٩)
قال الامام موسیٰ کاظم ـ :مَنْ زَارَ اَوّلنَا فَقَدْ زَارَ آخِرَنَا وَمَنْ زَارَ آخِرَنَا فَقَدْ زَارَ اَوَّلنَا۔امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں جس شخص نے ہمارے اول کی زیارت کی گویا اس نے ہمارے آخری کی بھی زیارت کی ہے اور جس نے ہمارے آخر کی زیارت کی گویا اس نے ہمارے پہلے کی بھی زیارت کی ہے (٦٠)
امام حسن ـ اپنے نانا رسول خدا ۖ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں جو شخص آپ کی زیارت کرے اس کو کیا ثواب ملے گا آپ نے فرمایاجو شخص میری زندگی میں یا میری وفات کے بعد زیارت کرے آپ کے بابا علی کی زیارت کرے یا آپ کے بھائی حسین ـ کی زیارت کرے یا آپ کی زیارت کے لئے آئے تو مجھ پر حق بن جاتا ہے قیامت کے دن میں اس کی زیارت کروں اور (اس کی شفاعت کر کے )اس کے گناہ معاف کرادوں ۔(٦١)
قال الامام صادق ـ :مَنْ زَارَ الْحُسَےْن ـ عَارِفاً بِحَقِّہ کَتَبَ اﷲُ لَہ ثَوَّابَ اَلْفِ حِجَّةٍ مَقْبُوْلَةٍ وَاَلْفِ عُمْرَةٍ مَقْبُوْلَةٍ وَغَفَرَلَہ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَمَا تَأَخَّرَ۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں جو شخص امام حسین ـ کی زیارت کرے اس حال میں کہ ان کے حق کو پہچانتا ہو تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار حج مقبول اور ایک ہزار عمرہ مقبول کا ثواب لکھ دے گا اور اس کے گذشتہ اور آئندہ گناہ بھی معاف فرما دے گا (٦٢)
الامام صادق ـ :اِےْتُوا قَبْرَالْحُسَےْنِ فِیْ کُلِ سَنَّةٍ مَرَّةً۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں کہ ہر سال ایک مرتبہ قبر مطہر امام حسین ـ زیارت پر جاؤ (٦٣)
امام صادق ـ نماز کے بعد زائرین امام حسین ـ کے لئے یوں دعا فرماتے ہیں خدایا میرے جد امجدامام حسین ـ کی قبر مطہر کی زیارت کرنے والوں کی مغفرت فرما (٦٤)
قال الامام الصادق ـ:مَنْ زَارَنِی غُفِرَتْ لَہ ذَنُوبُہ وَلَمْ ےَمُتْ فَقِےْراً۔ امام صادق ـ فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کرے اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور وہ حالت فقر میں نہیں مرے گا (٦٥)
قال الامام الرضاـ:مَنْ زَارَنِی عَلَیَّ بُعْدِ دَارِیْ أَتَیْتَہ ےَوْمَ الْقِےَامَةِ فِی ثَلاَثَ مَوَاطِنِ حَتّٰی اَخْلِصْہ مِن اَھْوَالِھٰا اِذَا تَظَاہَرَتِ الْکُتّبُ ےَمِیناً وَشِمَالاً عِنْدَ الصِّرَاطِ وَعَنْدَ الْمِےْزَانِ۔امام رضا ـ فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کے لئے آئے گا (میری قبر کے دور ہونے کے باوجود)میں قیامت کے دن تین مقامات پر اس کے پاس آؤں گا تا کہ شفاعت کروں اور اسے ان مقامات کے ہولناکیوں اور سخت حالات سے اسے نجات دلاؤں (٦٦)
(١)جب اعمال نامے دائیں بائیں پھیلا دئیے جائیں گے ۔
(٢) پل صراط پر
(٣)حساب کے وقت
قال الامام الجواد ـ :مَنْ زَارَ قَبْرَ عَمَتِی بِقُمٍّ فَلَہ الْجَنَّة۔امام جوا د ـ فرماتے ہیں جو شخص قم میں میری پھوپھی(حضرت فاطمہ معصومہ ) کی زیارت کرے خدا اسے جنت عطا فرمائے گا (٦٧)
امام حسن عسکری ـ فرماتے ہیں جو شخص عبد العظیم (حسنی )کی زیارت کرے تو گویا اس نے حضرت امام حسین ـ کی زیارت کی ہے (اور اسے آپ کی زیارت کا ثواب ملے گا )(٦٨)
امام صادق ـ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص اپنے والدین یا کسی رشتہ دار یا غیر رشتہ دار کی قبر پر جاتا ہے اور اس کے لئے دعا کرتا ہے کیا اس سے قبر والے کوکو ئی فائدہ پہنچے گا ؟آپ نے جواب میں فرمایا ہاں اگر تم میں سے کسی کو ہدیہ و تحفہ دیا جائے تو جس طرح تم خوش ہوتے ہو صاحب قبر (مرنے والا)بھی تمہارے اس عمل سے اسی طرح خوش ہوتا ہے (٦٩)
(١)سورہ غافرہ آیة ٦٠(٢)سورہ اسراء آیة ١١٠(٣،٤)کلمة اﷲ صفحہ ٤٠٩ حدیث ٤٠٥و٤٠٦ (٥) وسائل الشیعہ ابواب دعا ،باب دوم حدیث ٣(٦،٧)کافی کتاب الدعائ(٨ تا ١٩)میزان الحکمة باب دعائ(٢١)سورہ غافر آیة ١٤(٢٢)میزان الحکمة (٢٣) وسائل الشیعہ ابواب دعا باب ٥٠ حدیث ٣(٢٤تا ٢٨) میزان الحکمة حدیث ٥٦٢٠ تا ٥٦٢٥(٢٩ تا ٣١) وسائل ،ابواب دعا ،باب ٣٧ حدیث ٧،١٠،١٢(٣٢)کلمة اﷲ حدیث ٩٣(٣٣تا٣٨)میزان الحکمة حدیث ٥٦٣٠،٥٦٣٢،٥٦٣٥،٥٦٣٩،٥٦٤٧،٥٦٤٨ (٣٩) وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ابواب تعقیب حدیث ٨ (٤٠) وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ابواب سجود باب ٢٣ حدیث ٥(٤١) وسائل الشیعہ ابواب دعاء باب ٢٣ حدیث ٤(٤٢) میزان الحکمة حدیث ٥٦٥٨(٤٣)وسائل الشیعہ ابواب دعا باب ٣٠ حدیث ٢ (٤٤ تا ٤٨) میزان الحکمة ٥٦٩٦،٥٦٩٨،٥٧٠٠،٥٧٢٣،٥٧٣٦(٤٩) آل عمران آیة ١٦٩(٥٠ تا ٥٤) میزان الحکمة حدیث ٧٩٤٨،٧٩٥٢، ٧٩٤٨،٧٩٨٦،٧٩٨٧(٥٥) مائدہ آیة ٣٥(٥٦)صحیفہ سجادیہ دعای ٤٤(٥٧)یوسف آیة ٩٦(٥٨) صافات آیة ٧٩،١٠٩،١٢٠،١٨١(٥٩تا ٦٩) میزان الحکمة حدیث ٧٩٤٦،٧٩٥١،٧٩٤٩،٧٩٦١،٧٩٦٣،٧٩٦٦۔:دعا کی اہمیت وفضیلت ، قبولیت دعا کے شرائط، آداب دعا، اور دعا کے مخصوص اوقات، حالات اور مقامات ۔
آیات وروایات :معصومین کی سیرت اور باقی اعمال کی نسبت دعاکے دنیوی واُخروی فوائد پر نظر کی جائے تو دعاکی اہمیت و فضیلت روزروشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے خدا وند متعال نے خود بھی اپنے بندوں کو دعا کے لئے حکم دیا ہے اور اپنے پیغمبروں کو بھی فرمایا ہے کہ میرے بندوں کودعا کی سفارش کریں ۔
ارشاد رب العزت ہے ۔
اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ مجھے پکارو اور( مجھ سے دعا مانگو )میں تمہای دعا کو قبول کرونگا (١)
قُلْ ادْ عُوْا اَﷲ۔ اے رسول میرے بندوںسے کہو کہ مجھ سے دعا مانگیں (٢)
ےَامُوْ سیٰ مُرعِبَادِی ےَدْ عُوْنِیْ۔ اے موسیٰ میرے بندوں کو حکم دو کہ وہ مجھے پکاریں (اور مجھ سے دعا مانگیں )(٣)
ےَا عِیْسیٰ مُرْھُمْ اَنْ ےَدْ عُوْ نِیْ مَعَکَ۔ اے عیسیٰ مومنین کو حکم دو کہ وہ آپکے ساتھ مل کر دعا کریں (٤)
حضرت موسیٰ و عیسیٰ جیسے بزرگترین انبیاء بلکہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ۖ کو دعا کے لئے مامور کرنا دعا کی فضیلت واہمیت پر بہترین دلیل ہے۔
پیغمبر اکرم ۖ اور آئمہ کے فرامین میں بھی دعا کی اہمیت و فضیلت روز روشن کی طرح واضح ہے ۔
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں :ےَاعَلِیْ اُوْصِیْکَ بِالدُّعَائِ ۔ اے علی میں تمہیں دعا کی سفارش کرتا ہوں (٥)
قال امام محمد باقر ـ:اَفْضَلُ الْعِبَادَةِ اَلْدُّعَائُ ۔ امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں افضل اور بہترین عبادت دعا ہے (٦)
قال علی ـ:اَحَبُّ الْاعَمَال اِلَی اﷲ عَزَّ وَجَلْ فِیْ الْاَرْضِ الدُّ عَائُ۔حضرت علی ـ فرماتے ہیں خدا کے نزدیک زمین پر محبوب ترین عمل دعا ہے (٧)
قال رسول اللہ ۖ :اَلْدُّعَائُ مُخُ الْعِبَادَةِ وَلَاَ یُھْلِکَ مَعَ الّدُعَا ء اُحَد۔ رسول اکرم ۖ:دعاعبادت کی اصل اور بنیاد ہے دعا کی صورت میں کوئی شخص ہلاک نہیں ہوتا (٨)
قال الامام علی ـ: اَلدُّعُا تُرْسُ الْمُوُمِنْ ۔امام علی ـ فرماتے ہیں دعا مومن کے لئے ڈھال اور نگہبان ہے
اور اسے شیطان کے حملہ اور گناہوں سے محفوظ رکھتی ہے (٩)
قال الامام الصادق ـ: عَلَیْکَ بِالدُّعَائِ: فَاِنَّ فِیْہِ شِفَائ مِنْ کُلِّ دَائٍ ۔حضرت امام صادق ـ فرماتے ہیں تیرے لیے دعا ضروری ہے کیونکہ اس میں ہر بیماری کی شفا ہے (١٠)
قال رسول اللہ ۖ:تَرْکُ الدُّ عَائِ مَعْصِےَة :پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں دعا کا ترک کرناگنا ہ ہے (١١)
قال رسول اللہ ۖ:اِدْفَعُوْا اَبْوَابَ الْبَلَائِ بِالّدُ عَائِ :رسول اکر م ۖ فرماتے ہیں مصیبتوں اور مشکلات کو دور کرو دعا کے ذریعے (١٢)
قال امام علی ـ: مَنْ قَرِعَ بَابَ اﷲ سُبْحِانَہُ فُتِحٍَ لَہ:حضرت علی ـ فرماتے ہیں جو شخص بھی (دعا کے ذریعے )اللہ کے دروازے کو کھٹکائے گا تو اس کے لئے (قبولیت کا دروازہ) کھول دیا جا ئے گا(١٣)
دوسری حدیث میں فرماتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا ونددعا کا دروازہ کھلا رکھے لیکن قبولیت کا دروازہ بند کر دے (١٤)
جس طرح ہر عمل اور عبادت کی قبولیت لئے کچھ شرائط ہیںکہ جن کے بغیر عمل اور عبادت قبول نہیں ہے اسی طرح دعا کے لئے بھی شرائط ہیں جب تک ان شرائط پر عمل نہ کیا جائے تو دعا قبول نہیں ہوتی ۔
١۔ معرفت و شناخت خدا
قال رسول اللہ ۖ:یقول اﷲ عَزَّ وَجَلَّ :مَنْ سَألَنِیْ وَ ھُوَ ےَعْلَمُ اَنِّی اَضُرُّ وَ اَنْفَعُ: اَسْتَجِبْ لَہْ۔حضرت پیغمبر اکرم ۖ سے منقول ہے خدا فرماتا ہے کہ جو شخص مجھ سے سوال اور دعا کرے اور یہ جانتاہو (اور معرفت رکھتا ہو )کہ نفع و نقصان میرے ہاتھ میں ہے تو میں اس کی دعا قبول کروں گا (١٥)
امام صادق ـ سے جب سوال کیا گیا کہ ہم دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں ہو تی تو آپ نے جواب میں فرمایا :
لَاِ نَّکُمْ تَدْعُوْنَ مَنْ لَا تَعْرِفُوْنَہُ ۔آپ اس کو پکارتے ہو( اور اس سے دعا مانگتے ہو )جس کو نہیں جانتے اور جس کی معرفت نہیں رکھتے ہو (١٦)
٢۔محرمات اور گناہ کا ترک کرنا
قال الامام الصادق ـ:اِنَّ اﷲ ےَقُوْلُ اَوْفُوْا بِعَھْدِی اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ :وَاﷲِ لَوْ وَفَےْتُمْ اﷲ لَوَفٰی اللّٰہُ لَکُمْ۔حضرت امام صادق ـ سے منقول ہے : خدا فرماتا ہے میرے عہد و پیمان اور وعدے کو پورا کرو تا کہ میں بھی تمہارے عہد و پیمان (اور وعدے) کو پورا کروںامام فرماتے ہیں اللہ کی قسم اگر تم اپنا وعدہ پورا کرو اور احکام الٰہی پر عمل کرو تو اللہ بھی تمہارے لئے اپنا وعدہ پورا کرے گا تمہاری دعاؤں کو قبول اور تمہاری مشکلات کو حل فرمائے گا (١٧)
٣۔کمائی اور غذا کا پاک و پاکیزہ ہونا
قال الامام الصادق ـ: مَنْ سَرَّہُ اَنْ ےُسْتَجَابَ دُعَائَہُ فَلْیَطَیِّبْ کَسْبُہُ۔امام صادق ـ فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے کاروبار اور کمائی کو پاک کرے (١٨)
حضرت موسیٰ نے دیکھا ایک آدمی ہاتھ بلند کر کے تضرع و زاری کے ساتھ دعا کر رہا ہے خدا نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی کی اور فرمایا اس شخص کی دعا قبول نہیں ہو گی :لَاِنَّ فِیْ بَطْنِہ حَرَاماً وَ عَلَیٰ ظَھُرِہ حَرَاماً وَ فِیْ بَیْتِہ حَرَاماً۔کیونکہ اس کے پیٹ میں حرام ہے ( یعنی اس نے حرام کا مال کھایا ہوا ہے ) اور جو لباس پہنا ہوا ہے وہ بھی حرام ہے اور اس کے گھر میں بھی حرام ہے(١٩)
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری دعا قبول ہو تو اپنی غذا کو پاکیزہ کرو اور اپنے پیٹ میں حرام داخل نہ کرو۔
٤۔حضور ورقت قلب
قال رسول اللہ ۖ: اِعْلَمُوْا اَنَّ اﷲ لَا ےَسْتَجِیْبُ دُعَائَ مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاہٍ۔رسول اکرم ۖ فرماتے ہیں : یہ جان لو کہ خدا وند اس دل سے دعا قبول نہیں کرتا جو غافل اوربے پرواہو (٢٠)
٥۔اخلاص وعبودیت
فَادْعُوْا اﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہ الّدِیْن۔خدا کو پکارو (اور اس سے دعا مانگو خلوص نیت کے ساتھ یعنی )اس حال میں کہ اپنے دین کو اس کے لئے خالص قرار دو (٢١)
امام جعفر صادق ـفرماتے ہیں :وَقَدْ وَعَدَ عِبَادَہُ الْمُوْمِنِیْنَ الْاِسْتِجَا بَةَ۔ بے شک خدا نے اپنے مومنین بندوں سے قبولیت دعا کا وعدہ فرمایا ہے (٢٢)
٦۔سعی و کوشش
یعنی دعا کا معنی یہ نہیں ہے کہ انسان کام و سعی اور کوشش چھوڑ دے اور گھر بیٹھ کر فقط دعا کرتا رہے ۔
امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں : ثَلَاثَة تُرَدُّ عَلَیْھُمْ دَ عْوَتُھُمْ: رَجُل جَلَسَ فِیْ بَیتِہ وَ قَال ےَا رَبِّ اُرْزُقِیِ فَےُقََالُ لَہُ اَلَمْ اَجْعَلْ لَکَ السَّبِیْلَ اِلیٰ طَلَبِ الرَّزْق۔تین قسم کے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہو گی (ان میں سے )ایک وہ شخص ہے جو فقط گھر میں بیٹھ کر یہ دعا کرتا رہے کہ خدا وندا مجھے روزی عطا فرما اسے جواب دیا جائے گا۔ کیا میں نے تیرے لئے روزی کمانے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار نہیں دیا دوسرے لفظوں میں حصول رزق کیلئے تلاش وکو شش کرنا کام کرنا ایک چیز ہے لیکن روزی کا نصیب ہونا اس کا با برکت ہونا توفیق الٰہی کا شامل حال ہونا دوسرا مطلب ہے جس میں دعا بہت مؤثر ہے (٢٣)
اسی طرح علاج کرواناشفاء کیلئے ڈاکٹر یا حکیم کے پاس جانا اس کے دستور کے مطابق دوائی استعمال کرنا ایک مطلب ہے لیکن ڈاکٹرکی تشخیص کا صحیح ہونا دوائی کا شفاء میں مؤثر ہونا دوسرا مطلب ہے جس میں دعا اور صدقہ وغیرہ بہت مؤثر ہیں جب یہ دونوں حصے اکھٹے ہوں تو مؤثر واقع ہونگے اور ہمیں ان دونوں کی طرف تو جہ کرنی ہوگی۔
١۔بِسْم اللہ پڑھنا :
قال رسول اللہ ۖ:لَا یَرُدُّ دُعَائ: اَوَّلُہُ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔رسول اللہ ۖ فرماتے ہیں: وہ دعا رد نہیں ہوتی جس کے شروع میں بسم اللہ پڑھ لیا جائے (٢٤)
٢۔تمجید
قال رسول اللہ ۖ:اِنَّ کُلُّ دُعَائٍ لَا ےَکُونَ قَبْلَہُ تَمْجَِیْد فَھُوَاَبْتَرْ۔رسول اکرم ۖ:ہر وہ دعا کہ جس سے پہلے اللہ تبارک و تعالیٰ کی تعریف و تمجید اور حمد و ثنا نہ ہو وہ ابتر ہے اور اسکا کوئی نتیجہ نہیں ہو گا (٢٥)
٣۔صلوات بر محمد و آل محمد
قال رسول اللہ ۖ:صَلَاتُکُمْ عَلَّی اِجَابَة لِدُعَائِکُمْ وَزَکاة لاَِعْمَالِکُمْ۔رسول اکرم ۖفرماتے ہیں :تمہارا مجھ پر درود و صلوات بھیجنا تمہاری دعاؤں کی قبولیت کا سبب ہے اور تمہارے اعمال کی زکاة ہے (٢٦)
امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں :لَا ےَزَالُ الدُّ عَاء محجُوباً حَتّٰی یُصَلِّی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ:دعا اس وقت تک پردوں میں چھپی رہتی ہے جب تک محمد ۖ وآل محمدۖ پر صلوات نہ بھیجی جائے (٢٧)
حضرت امام جعفر صادق ـ ایک اور روایت میں فرماتے ہیں جوشخص خدا سے اپنی حاجت طلب کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ پہلے محمد و آل محمد پر صلوات بھیجے پھر دعا کے ذریعہ اپنی حاجت طلب کرے اس کے بعد آخرمیں درود پڑھ کر اپنی دعا کو ختم، کرے (تو اس کی دعا قبول ہو گی ) کیونکہ خدا وند کریم کی ذات اس سے بالاتر ہے کہ وہ دعا کے اول و آواخر (یعنی محمد و آل محمد پر درود و صلواة )کو قبول کرے اور دعا کے درمیانی حصے(یعنی اس بندے کی حاجت )کو قبول نہ فرمائے (٢٨)
٤۔آ ئمہ معصومین کی امامت ولایت کا اعتقاد رکھنا اور انہیں واسطہ اور شفیع قرار دینا
قال اللہ تعالیٰ : فَمَنْ سَأَلَنِیْ بِھِمْ عَارِفَاً بِحَقِّھِمْ وَمَقَامِھِمْ اَوْجَبْتَ لَہ مِنِّی اَلْاِجَابَةَ۔خدا فرماتا ہے کہ جو شخص پیغمبر اکرم ۖ اور آئمہ معصومین کا واسطہ دے کر مجھ سے سوال کرے اور دعا مانگے جبکہ وہ ان کے حق اور مقام کو پہچانتا ہوتو مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں(٢٩)
امام محمدباقر ـ فرماتے ہیں :مَنْ دَعَا اﷲ بِنَا اَفْلَحَ :یعنی جو شخص ہم اہلبیت کا واسطہ دے کر دعا کرے تو وہ شخص کامیاب و کامران ہے (٣٠)
جناب یوسف کے واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ جناب جبرائیل حضرت یعقوب کے پاس آئے اور عر ض کی کیا میں آپ کو ایسی دعا بتاؤں کہ جس کی وجہ سے خدا آپ کی بینائی اور آپ کے دونوں بیٹے (یوسف وبنیامین )آپکو واپس لوٹا دے حضرت یعقوب نے کہا وہ کون سی دعا ہے ۔
فقال جبرائیل :قُلْ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ عَلِّیٍ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسنِ وَالْحُسَےْنِ اَنْ تَأتِیْنیْ بِےُوْسُفَ وَبُنْےَامِیْنَ جَمِیاً وَتُرَدُّ عَلیَّ عَیْنیِ۔حضرت جبرائیل نے حضرت یعقوب سے کہا کہ یوں دعا مانگوخدا یا میں تجھے محمد ۖ ،علی ،فاطمہ، حسن و حسین کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ میرے دونوں بیٹوں (یوسف اور بنیا مین )کو اور میری بینائی کو واپس لوٹا دے جناب یعقوب کی یہ دعا ابھی تمام ہی ہوئی تھی کہ قاصد (بشیر)نے آکر جناب یوسف کی قمیص حضرت یعقوب پر ڈال دی تو آپ کی آنکھیں بینا ہو گئیں(٣١)
حدیث قدسی میں ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے چالیس شب عبادت کرنے کے بعد دعا کی لیکن اس کی دعا قبول نہیں ہوئی تواس نے حضرت عیسیٰ ـ کے پاس شکایت کی حضرت عیسیٰ ـ نے بارگاہ خداوندی سے سوال کیا تو جواب ملا کہ اس نے دعا کا صحیح راستہ اختیار نہیں کیا :اِنَّہُ دُعَانِیْ وَفِیْ قَلْبِہ شَک مِنْکَ۔کیوں کہ وہ مجھ سے تو دعا کرتا ہے اور حاجت طلب کرتا ہے لیکن اسکے دل میں تیری نبوت کے بارے میں شک ہے (یعنی تیری نبوت کا معتقد نہیں ہے )(٣٢)
لہذا وہ اگر اس (شک اور عدم اعتقاد کی )حالت میں اتنا دعا کرے کہ اس کا سانس ختم ہو جائے اور اس کی انگلیاں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تب بھی میں اس کی دعا قبول نہیں کروں گا ۔
٥۔گناہوںکا اقرار کرنا
قال الامام الصادق ـ :انَّمَا ھِیَ اَلْمِدْحَةُ ثُمَّ الْاِقْرَارُ بِا الّذُنُبِ ثُمَّ الْمَسْئَلَة۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں کہ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے خدا کی حمد و تعریف کرو پھر گناہوںکا اقرار اور پھر اپنی حاجت طلب کرو (٣٣)
٦۔خشوع و خضوع کے ساتھ اور غمگین حالت میں دعا مانگنا
قال اللہ :ےَا عِیْسیٰ اَدْعُوْنِیْ دُعَائَ الْحَزِیْنِ الْغَریِقِْ اَلَّذِیْ لَیْسَ لَہُ مُغِےْث۔خدا فرماتا ہے اے عیسیٰ مجھ سے اس غرق ہونے والے غمگین انسان کی طرح دعا مانگو جس کا کوئی فریادرس نہ ہو (٣٤)
٧۔دو رکعت نماز پڑھنا
امام جعفر صادق ـ فرماتے جو شخص دو رکعت نماز بجا لانے کے بعد دعا کرے تو خدا اسکی دعا قبول فرمائے گا (٣٥)
٨۔ اپنی حاجت اور مطلوب کو زیادہ نہ سمجھو
رسول اکرم ۖسے روایت ہے خدا فرماتا ہے کہ اگر ساتوں آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والے مل کر مجھ سے دعا مانگیں اور میں ان سب کی دعاؤں کو قبول کر لوں اور ان کی حاجات پوری کر دوں تو میری ملکیت میں مچھر کے پر کے برابر بھی فرق نہیں آئے گا (٣٦)
٩۔ دعا کو عمومیت دینا
قال رسول اللہ ۖ: اِذادَعَا اَحَدَکُمْ فَلْےُعِمَّ فَاِنَّہُ اَوْجَبَ لِلدُّعَائِ۔پیغمبر اکرم ۖفرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی دعا مانگے تو اسے چاہیے کہ کہ اپنی دعا کو عمومیت دے یعنی دوسروں کو بھی دعا میں شریک کرے کیونکہ ایسی دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہے (٣٧)
قال الامام الصادق ـ :مَنْ قَدَّمَ اَرْبَعِیْنَ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ ثُمَّ دَعَاہ اَسْتُجِیبُ لَہُ۔جو شخص پہلے چالیس مومنین کے لئے دعا کرے اور پھر اپنے لئے دعا مانگے تو اس کی دعا قبول ہوگی (٣٨)
١٠۔قبولیت دعا کے بارے میں حسن ظن رکھنا
مخصوص اوقات وحالات اور مقامات میں دعا کرنا ۔
دعا کیلئے بعض اوقات حالات اور مقامات کو افضل قرار دینا اس کا معنی ہر گز یہ نہیں ہے کہ باقی اوقات اور مقامات میں دعا قبول نہیں ہوتی اور ان میں رحمت خدا کے دروازے بند ہیں کیونکہ تمام اوقات اور مقامات خدا سے متعلق ہیں اور اس کی مخلوق ہیں جس وقت جس مقام اور جس حالت میں بھی خدا کو پکارا جائے تووہ سنتا ہے اور اپنے بندے کو جواب دیتا ہے لیکن جس طرح خدا نے اپنے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت دی ہے اسی طرح بعض اوقات ومقامات کو بھی بعض پر فضیلت حاصل ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم دعا کے لئے افضل ترین کو انتخاب کریں ۔
مفاتیح الجنان اور دیگر کتب دعا میں مفصل طور پر دعا کے مخصوص اوقات اور حالات اور مقامات کو بیان کیا گیا ہے ہم اجمالاً بعض کو ذکر کرتے ہیں ۔
١۔نماز کے بعد
قال الصادق ـ: اِنَّ اللّٰہَ فَرَضَ الْصَّلَوٰتَ فِیْ أَحَبِّ الْاوْقَاتِ فَأسْئَالُوْا حَوَائِجکُمْ عَقِیْبَ فَرَائِضکُمْ۔ امام صادق ـ فرماتے ہیں کہ خدا نے نمازوں کو محبوب ترین اور افضل ترین اوقات میں واجب قرار دیا ہے بس تم اپنی حاجات کو واجب نمازوں کے بعد طلب کرو (٣٩)
٢۔حالت سجدہ میں
قال الرضا ـ: اَقْرَبُ مَا ےَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنَ اللّٰہ تَعَالیٰ وَھُوَ سَاجد۔امام رضا ـ فرماتے ہیں کہ حالت سجدہ میں بندہ اپنے خالق سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے (٤٠)
٣۔ قرآن مجید کی ایک سو آیات کی تلاوت کے بعد
قال امیر المومنین ـ:مَنْ قَرَئَ مِائَةَ آےَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ مِنْ اَیِّ الْقُرْآنِ شَائَ ثُمَّ قَالَ … ےَااﷲُ سَبْعُ مَرَّاتٍ فَلَوْ دَعَا عَلیٰ الْصَخْرَةِ لِقَلْعِھٰا اِنْ شَائَ اﷲ۔امام علی ـ فرماتے ہیں جو شخص قرآن کی ایک سو آیات پڑھے پھر سات مرتبہ یااللہ کہے تو خدا اس کی دعا قبول فرمائے گا (مضمون حدیث)(٤١)
٤۔سحری کے وقت
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں بہترین وقت جس میں تم اللہ سے دعا مانگو سحر کا وقت ہے کیونکہ حضرت یعقوب نے بھی استغفار کو سحر کے وقت لئے مؤخر کر دیا تھا (مضمون حدیث )(٤٢)
٥۔رات کی تاریکی میں مخصوصاً طلوع فجر کے قریب ۔
٦۔ شب و روز جمعہ ۔
٧۔ماہ مبارک رمضان ماہ رجب و ماہ شعبان ۔
٨۔شب ہای قدر (شب ١٩،٢١،٢٣،رمضان )۔
٩۔ماہ رمضان کا آخری عشرہ اور ماہ ذالحجہ کی پہلی دس راتیں ۔
١٠۔ عید میلاد پیغمبر اکرم ۖ و آئمہ معصومین ۔عید فطر ۔عید قربان ،عید غدیر ۔
١١۔بارش کے وقت ۔
١٢۔عمرہ کرنے والے کی دعا واپسی کے وقت یا واپسی سے پہلے ۔
١٣۔جب اذان ہو رہی ہو ۔
١٤ تلاوت قرآن سننے کے وقت ۔
١٥ ۔حالت روزہ میں افطار کے وقت یا افطار سے پہلے ۔
(١) مکہ مکرمہ ،بیت اللہ ،مسجد الحرام ،مسجد النبی ۖ حرم مطہر و مزارات چہاردہ معصومین مخصوصاً حرم مطہر مام حسین ـ
(٢)وہ خاص مساجد جن مین انبیاء و آئمہ معصومین اور اولیاء خدا نے نماز و عبادت انجام دی ہے جیسے مسجد اقصیٰ، مسجد کوفہ، مسجد صعصعہ، مسجد سہلہ، سرداب سامرہ، مسجد جمکران ۔
(٣)مذکورہ خاص مقامات کے علاوہ ہر مسجد قبولیت دعا کیلئے بہترین مقام ہے ۔
اہم نکتہ :حالات اوقات اور مقامات دعا کے انتخاب میں مہم ترین نکتہ یہ ہے کہ ایسا وقت اور مقام انتخاب کرنا چاہیے جس میں انسان ریاکاری تظاہر اور دکھاوے جیسی آفت کا شکار نہ ہو۔اور خلوص تواضع و انکساری اور رقت قلب زیادہ سے زیادہ حاصل ہو یہی وجہ ہے کہ روایات میں سفارش کی گئی ہے کہ رات کی تاریکی میں اور سحر کے وقت دعا مانگی جائے خدا فرماتا ہے ۔ےَا بْنَ عِمْرَان …وَاَدْعُنِیْ فِیْ الظُلُمِ اللَّیلِ فَاِنَّکَ تَجِدُنِیْ قَرِیْباً مُجَیْباً۔اے موسیٰ مجھے رات کی تاریکی میں پکارو تو مجھے اپنے قریب اور دعا قبول کرنے والا پاؤ گے(٤٣)
قال امیر المومنین ـ:اَرْبَعَة لَا تُرَدُّ لَھُمْ دَعْوَة: اَلْاِمَامُ الْعَادِلُ لِرَعِیَّتِہ وَالْوَالِدُ الْبَارُّ لِوَلْدِہ وَالْوَلَدُ الْبَارُّ لِوَالِدِہ وَالْمَظْلُوْمُ (لِظَالِمِہِ)۔ امام علی ـ فرماتے ہیں چار افراد کی دعا رد نہیں ہوتی امام و حاکم عادل جب اپنی رعیت کے حق میں دعا کرے نیک باپ کی دعا اولاد کے حق میں نیک و صالح اولاد کی دعا باپ کے حق میں مظلوم کی دعا (ظالم کے بر خلاف )(٤٤)
قال رسول اللہ ۖ: دُعَائُ اَطْفَالِ اُمَّتِیْ مُسْتَجَاب مَا لَمْ ےُقَارِفُوْا الذُّنُوْبَ۔پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں کہ میری امت کے بچوں کی دعا قبول ہے جب تک وہ گناہوں سے آلودہ نہ ہوں(٤٥)
قال الامام الحسن ـ:مَنْ قَرَئَ الْقُرْآنَ کَانَتْ لَہُ دَعْوَة مُجَابَة اِمَّا مُعَجَّلَةً وَاِمَّا مُؤَجَّلَةً۔امام حسن ـ فرماتے ہیں جو شخص قرآن کی تلاوت کرے اس کی دعا جلدی یا دیر سے قبول ہوگی (٤٦)
دعا بے فائدہ نہیں ہوتی
قال الامام زین العابدینـ: اَلْمُوْمِنُ مِنْ دُعَائِہ عَلیٰ ثَلَاثٍ اِمَّا اَنْ ےُدَّخَرَ لَہُ، وَاِمَّا اَنْ ےُعَجَّل لَہُ وَاِمَّا اَنْ ےَدْفَعَ عَنْہُ بَلائً ےُرِےْدُ اَنْ ےُصِیْبَ۔ امام زین العابدین ـ فرماتے ہیں مومن کی دعا تین حالات سے خارج نہیں ہے (١)یا اس کے لئے ذخیرہ آخرت ہو گی ۔(٢)یا دنیا میں قبول ہو جاے گی ۔(٣)یا مومن سے اس مصیبت کو دور کر دے گی جو اسے پہنچنے والی ہے ۔(٤٧)
مومنین ومومنات کے لئے دعا کرنے کا فائدہ
قال الامام الصادق ـ : دُعَائُ الْمُوْمِنِ لِلْمُوْمِنِ ےَدْفَعُ عَنْہُ الْبَلَائَ وَےُدِرُّ عَلَےْہِ الْرِّزْقَ۔مومن کا مومن کیلئے دعا کرنا دعا کرنے والے سے مصیبت کو دور کرتا ہے اور اس کے رزق میں اضافہ کاسبب بنتا ہے ۔(٤٨)
مطلب دوم :زیارت آیات اور روایات کی روشنی میں
جب پیغمبر اکرم ۖ اور معصومین سے منقول روایات میں غور فکر کی جائے تو پھر زیارت کی اہمیت و فضیلت بھی واضح ہو جاتی ہے اور اس بحث کی بھی ضرورت محسوس ہو تی ہے آیا انبیا ،آئمہ اور اولیا ء خدا کی مزارات کی زیارت کرنا ان کی بار گاہ میں سلام عرض کرنا اور انہیں ان کی وفات اور شہادت کے بعد بار گاہ الٰہی میں وسیلہ اور شفیع قرار دینا جائز ہے یا نہ چونکہ یہ حضرات قرآن مجید کی اس آیہ مجیدہ کے مصداق اعلیٰ و اکمل ہیں جس میں ارشاد ہوتا ہے :وَ لاَ تَحْسَبَنَ الَّذِیْنَ قُتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ اَمْوَاتاً بَلْ اَحْےَائ عَنْدَ رَبِّھِمْ ےُرْزَقُوْنَ۔جو حضرات راہ خدا میں شہید ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے مہمان ہیں(٤٩)
پیغمبر اکرم ۖبھی فرماتے ہیں :منَ ْزَارَنِی حَےّاً وَمَےَّتاً کُنْتُ لَہ شَفِےْعاً یَومَ الْقِےَامَةِ۔جو شخص میری زندگی یا معرفت یا میری وفات کے بعد میری زیارت کرے میں بروز قیامت اسکی شفاعت کروںگا(٥٠)
امام صادق ـ فرماتے ہیں :مَنْ زَارَنَا فِیْ مَمَاتِنَا کَاَنَّمٰا زَارَنَا فِیْ حِےَاتِنَا جو شخص ہماری وفات کے بعد ہماری زیارت کرے تو گویااس نے ہماری زندگی میں ہماری زیارت کی ہے (٥١)
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں: وَمَنْ سَلَّمَ عَلیَّ فِیْ شَیئٍ مِنْ الْاَرْضِ بَلَغَتْنِی وَمَنْ سَلَّمَ عَلیَّ عَنْدَ الْقَبْرِ سَمِعْتُہ جو شخص زمین کے کسی بھی حصے سے مجھ پر سلام بھیجتا ہے اس کا سلام مجھ تک پہنچ جاتا ہے اور جو شخص میری قبر کے پاس آکر مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اس کا سلام بھی میں سنتا ہوں (٥٢)
مذکورہ آیت و روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ ،،و آئمہ معصومین جس طرح اپنی حیات و زندگی میں خالق اور مخلوق کے درمیان رابط اور وسیلہ ہیں اس طرح اپنی شہادت اور وفات کے بعد بھی ہمارا سلام ہماری زیارت ہماری دعائیں سنتے ہیں اور بار گاہ خدا میں ہماری شفاعت فرماتے ہیں ۔
امام صادق ـ فرماتے ہیں :مَنْ لَمْ ےَقْدِرْ عَلیٰ زِےَارَتِنَا فَلیَزِرْ صَالِحِیْ مَوَالِینَا ےَکْتُبُ لَہ ثَوَّابُ زِےَارَتِنَا۔جو شخص ہماری زیارت پر قدرت و طاقت نہیں رکھتا اسے چاہیے کہ وہ ہمارے نیک و صالح موالی اور دوستوں کی زیارت کرے اس کے لئے (خدا کی طرف سے )ہماری زیارت کا ثواب لکھا جائے گا (٥٣)
قال امام علی ـفرماتے ہیں:زُوْرُوا مَوْتَاکُمْ فَاِنَّھُمْ ےَفْرَحُوْنَ بِزِےَارَتِکُمْ وَالْےَطْلُبُ الْرَجُلُ حَاجَتَہ عَنْدَ قَبْرِ اٰبِےْہِ وَاُمِّہِ بَعْدَ مَا ےَدْعُوا لَھُمَا۔ اپنے مردوں کی (قبر پر جا کر )زیارت کیا کرو کیونکہ وہ تمہاری زیارت سے خوش ہوتے ہیں انسان کو چاہیے کہ جب اپنے ماں باپ کی قبر پر جائے تو پہلے ان کے لئے دعائے خیر کرے اس کے بعد اپنی حاجت خدا سے طلب کرے جب نیک اور صالح لوگوںکی زیارت کا اتنا ثواب ہے اور انسان اپنے ماں باپ کی قبر پر جاکر خدا سے اپنی حاجات طلب کر سکتا ہے تو پھر انبیا ء آئمہ معصومین اور اولیاء خدا کی قبور اور روضہ بارگاہ مطہر کی زیارت وسلام دعا ومناجات اور ان کو اپنی حاجات و مشکالات اور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے بارگاہ خدا میں وسیلہ اور شفیع قرار دینے میں کسی مسلمان کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیئے(٥٤)
خدا فرماتا ہے :ےَا اَےُّھَا الَّذِیْنَ اَمَنُوا اِتَّقُوا اﷲ وَابْتَغُوا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَةَ۔اے ایمان والو تقویٰ اختیار کرو اور اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو (٥٥)
پیغمبر اور اہل بیت سے افضل اور بر تر پیش خدا کونسا وسیلہ ہے ۔
حضرت علی ـ فرماتے ہیں ہم خدا اور مخلوق کے درمیان وسیلہ ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا فرماتی ہیں ہم (اہل بیت پیغمبر )خلق و خالق کے درمیان رابط ہیں )
نہ فقط بزرگ ہستیوں کو وسیلہ قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ بعض مقدس و مبارک اوقات اور مقامات کو بھی وسیلہ قرار دیا گیا ہے حضرت امام سجاد ـ خدا کو ماہ مبارک رمضان کا واسطہ دیتے ہیں(٥٦)
امام حسین ـ خدا کو شب روز عرفہ کی قسم دیتے ہیں ۔
قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق : فَلَمَّا اَنْ جَائَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰہُ عَلیٰ وَجْھِہ فَارْتَدَّ بَصِےْراً ۔جب حضرت یوسف ـ کا قمیص حضرت یعقوب کی آنکھوں کے ساتھ میں ہوتا ہے تو ان کی آنکھوں کی بینائی واپس لوٹ آئی کپڑا خود کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا لیکن چونکہ حضرت یوسف جیسے نبی کے بدن سے متصل رہا ہے اس میں خدا نے یہ اثر عطا فرمایا ہے(٥٧)
امام ہادی ـجب بیمار ہوتے ہیں تو ایک شخص کو کربلا روانہ کرتے ہیں کہ جا کر قبر مطہر امام حسین ـ پر میرے لئے دعا کرو ۔
جب اس شخص نے تعجب سے سوال کیا مولا آ پ معصوم ہیں میں غیر معصوم ہوں آپ کیلئے جا کر میں دعا کروں امام نے جو اب دیا رسول اکرم ۖ خانہ کعبہ اور حجر الاسود سے افضل تھے لیکن خانہ کعبہ کا طواف کرتے اور حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے۔
خدا نے کچھ ایسے مقامات قرار دیے ہیں جہاں خدا چاہتا کہ وہاں جا کر دعا مانگی جائے اور میں دعا قبول کروں گا خانہ کعبہ اور حرم امام حسین ـ بھی انہیں مقامات مقدسہ میں سے ہیں۔
اگر ہم ضریح یا ضریح مطہر کے دروازوں کو بوسہ دیتے ہیں اور چومتے ہیں تو فقط و فقط پیغمبر یا اس معصوم کے احترام کی وجہ سے کیوں کہ اب یہ ضریح و بارگاہ اور یہ در و دیوار اسی معصوم ـ کی وجہ سے مقدس اور با برکت ہو گئے ہیں جس طرح قرآن مجید کی جلد یا کاغذ قرآن کی وجہ سے مقدس ہو گئے ہیں چو نکہ اگر یہی کاغذ اور جلد کسی اور کاپی یاکتاب پر ہوں تو مقدس نہیں ہے ۔
خدا نے اپنی کتاب مقدس قرآن مجید میں اپنے انبیاء اور اولیاء پر دروود بھیجتا ہے
(١)سَلاَم عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعَالَمِیْنَ (٢)سَلاَم عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ (٣)سَلاَم عَلٰی مُوسٰی وَھٰرُوْنَ (٤) وَسَلاَم عَلٰی الْمُرَسَلِیْنَ (٥) سَلاَم عَلَیْہِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوْتُ وَیَوْمَ ےُبْعَثُ حَےّاً۔ (١) نوح پر دونوں جہانوں میں سلام ہو(٢) ابراہیم پر سلام ہو (٣) موسیٰ وہارون پر سلام ہو(٤) رسولوں پر سلام ہو(٥) سلام ہو اس پر ولادت کے وقت، موت کے وقت اور جب دوبارہ زندہ کیا جائے گا(٥٨)
ہم بھی قرآن مجید کی پیروی کرتے ہوئے رسول اکرم ۖو آئمہ کی زیارت کرتے ہیں اور ان پر سلام و درود بھیجتے ہیں ۔
قال رسول اللہ ۖ: مَنْ اَتَانِی زَائِراً کُنْتُ شَفِےْعَہ ےَوْمَ الْقِےَامَةِ۔رسول اللہ ۖ: فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کے لئے آئے گاقیامت کے دن میںاس کی شفاعت کروں گا (٥٩)
قال الامام موسیٰ کاظم ـ :مَنْ زَارَ اَوّلنَا فَقَدْ زَارَ آخِرَنَا وَمَنْ زَارَ آخِرَنَا فَقَدْ زَارَ اَوَّلنَا۔امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں جس شخص نے ہمارے اول کی زیارت کی گویا اس نے ہمارے آخری کی بھی زیارت کی ہے اور جس نے ہمارے آخر کی زیارت کی گویا اس نے ہمارے پہلے کی بھی زیارت کی ہے (٦٠)
امام حسن ـ اپنے نانا رسول خدا ۖ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں جو شخص آپ کی زیارت کرے اس کو کیا ثواب ملے گا آپ نے فرمایاجو شخص میری زندگی میں یا میری وفات کے بعد زیارت کرے آپ کے بابا علی کی زیارت کرے یا آپ کے بھائی حسین ـ کی زیارت کرے یا آپ کی زیارت کے لئے آئے تو مجھ پر حق بن جاتا ہے قیامت کے دن میں اس کی زیارت کروں اور (اس کی شفاعت کر کے )اس کے گناہ معاف کرادوں ۔(٦١)
قال الامام صادق ـ :مَنْ زَارَ الْحُسَےْن ـ عَارِفاً بِحَقِّہ کَتَبَ اﷲُ لَہ ثَوَّابَ اَلْفِ حِجَّةٍ مَقْبُوْلَةٍ وَاَلْفِ عُمْرَةٍ مَقْبُوْلَةٍ وَغَفَرَلَہ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَمَا تَأَخَّرَ۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں جو شخص امام حسین ـ کی زیارت کرے اس حال میں کہ ان کے حق کو پہچانتا ہو تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار حج مقبول اور ایک ہزار عمرہ مقبول کا ثواب لکھ دے گا اور اس کے گذشتہ اور آئندہ گناہ بھی معاف فرما دے گا (٦٢)
الامام صادق ـ :اِےْتُوا قَبْرَالْحُسَےْنِ فِیْ کُلِ سَنَّةٍ مَرَّةً۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں کہ ہر سال ایک مرتبہ قبر مطہر امام حسین ـ زیارت پر جاؤ (٦٣)
امام صادق ـ نماز کے بعد زائرین امام حسین ـ کے لئے یوں دعا فرماتے ہیں خدایا میرے جد امجدامام حسین ـ کی قبر مطہر کی زیارت کرنے والوں کی مغفرت فرما (٦٤)
قال الامام الصادق ـ:مَنْ زَارَنِی غُفِرَتْ لَہ ذَنُوبُہ وَلَمْ ےَمُتْ فَقِےْراً۔ امام صادق ـ فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کرے اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور وہ حالت فقر میں نہیں مرے گا (٦٥)
قال الامام الرضاـ:مَنْ زَارَنِی عَلَیَّ بُعْدِ دَارِیْ أَتَیْتَہ ےَوْمَ الْقِےَامَةِ فِی ثَلاَثَ مَوَاطِنِ حَتّٰی اَخْلِصْہ مِن اَھْوَالِھٰا اِذَا تَظَاہَرَتِ الْکُتّبُ ےَمِیناً وَشِمَالاً عِنْدَ الصِّرَاطِ وَعَنْدَ الْمِےْزَانِ۔امام رضا ـ فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کے لئے آئے گا (میری قبر کے دور ہونے کے باوجود)میں قیامت کے دن تین مقامات پر اس کے پاس آؤں گا تا کہ شفاعت کروں اور اسے ان مقامات کے ہولناکیوں اور سخت حالات سے اسے نجات دلاؤں (٦٦)
(١)جب اعمال نامے دائیں بائیں پھیلا دئیے جائیں گے ۔
(٢) پل صراط پر
(٣)حساب کے وقت
قال الامام الجواد ـ :مَنْ زَارَ قَبْرَ عَمَتِی بِقُمٍّ فَلَہ الْجَنَّة۔امام جوا د ـ فرماتے ہیں جو شخص قم میں میری پھوپھی(حضرت فاطمہ معصومہ ) کی زیارت کرے خدا اسے جنت عطا فرمائے گا (٦٧)
امام حسن عسکری ـ فرماتے ہیں جو شخص عبد العظیم (حسنی )کی زیارت کرے تو گویا اس نے حضرت امام حسین ـ کی زیارت کی ہے (اور اسے آپ کی زیارت کا ثواب ملے گا )(٦٨)
امام صادق ـ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص اپنے والدین یا کسی رشتہ دار یا غیر رشتہ دار کی قبر پر جاتا ہے اور اس کے لئے دعا کرتا ہے کیا اس سے قبر والے کوکو ئی فائدہ پہنچے گا ؟آپ نے جواب میں فرمایا ہاں اگر تم میں سے کسی کو ہدیہ و تحفہ دیا جائے تو جس طرح تم خوش ہوتے ہو صاحب قبر (مرنے والا)بھی تمہارے اس عمل سے اسی طرح خوش ہوتا ہے (٦٩)
(١)سورہ غافرہ آیة ٦٠(٢)سورہ اسراء آیة ١١٠(٣،٤)کلمة اﷲ صفحہ ٤٠٩ حدیث ٤٠٥و٤٠٦ (٥) وسائل الشیعہ ابواب دعا ،باب دوم حدیث ٣(٦،٧)کافی کتاب الدعائ(٨ تا ١٩)میزان الحکمة باب دعائ(٢١)سورہ غافر آیة ١٤(٢٢)میزان الحکمة (٢٣) وسائل الشیعہ ابواب دعا باب ٥٠ حدیث ٣(٢٤تا ٢٨) میزان الحکمة حدیث ٥٦٢٠ تا ٥٦٢٥(٢٩ تا ٣١) وسائل ،ابواب دعا ،باب ٣٧ حدیث ٧،١٠،١٢(٣٢)کلمة اﷲ حدیث ٩٣(٣٣تا٣٨)میزان الحکمة حدیث ٥٦٣٠،٥٦٣٢،٥٦٣٥،٥٦٣٩،٥٦٤٧،٥٦٤٨ (٣٩) وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ابواب تعقیب حدیث ٨ (٤٠) وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ابواب سجود باب ٢٣ حدیث ٥(٤١) وسائل الشیعہ ابواب دعاء باب ٢٣ حدیث ٤(٤٢) میزان الحکمة حدیث ٥٦٥٨(٤٣)وسائل الشیعہ ابواب دعا باب ٣٠ حدیث ٢ (٤٤ تا ٤٨) میزان الحکمة ٥٦٩٦،٥٦٩٨،٥٧٠٠،٥٧٢٣،٥٧٣٦(٤٩) آل عمران آیة ١٦٩(٥٠ تا ٥٤) میزان الحکمة حدیث ٧٩٤٨،٧٩٥٢، ٧٩٤٨،٧٩٨٦،٧٩٨٧(٥٥) مائدہ آیة ٣٥(٥٦)صحیفہ سجادیہ دعای ٤٤(٥٧)یوسف آیة ٩٦(٥٨) صافات آیة ٧٩،١٠٩،١٢٠،١٨١(٥٩تا ٦٩) میزان الحکمة حدیث ٧٩٤٦،٧٩٥١،٧٩٤٩،٧٩٦١،٧٩٦٣،٧٩٦٦۔
انڈونیشیاء حلال سیاحت کے لیے کوشاں
نیوز ایجنسی TTG ASIA، کے مطابق مسلمان آبادی کا اہم ملک اب تک موثر انداز میں حلال سیاحت کے حوالے سے موثر کام انجام نہیں دے سکا ہے۔
تاہم یہ امکان موجود ہے کہ سیاست میں تبدیلی سے مسلمانوں کی سیاحت کے لیے یہاں پر اس شعبے کو فروغ دیا جائے۔
مسلمان حلال اقتصادی رپورٹ کے مطابق سال ۲۰۱۷ میں ۱۷۷ ارب ڈالر کا حلال کاروبار ہوا ہے اور سال ۲۰۲۳ میں یہ رقم ۲۷۴ ارب ڈالر ہوسکتی ہے۔
انڈونیشین ماہر اقتصاد آنانگ سوتونو (Anang Sutono کے مطابق اس صورتحال کو سنجیدہ لینا چاہیے تاکہ انڈونیشیاء اس حوالے سے فایدہ اٹھا سکے۔
جکارتہ میں حلال کانفرنس سے خطاب میں انکا کہنا تھا: کوشش ہے کہ سال ۲۰۲۴ تک چھ ملین مسلمان سیاح کو ہم جذب کرسکے جس سے امکانی طور پر ہمیں ۵۔۴ ملین ڈالر جو ہمیں مل رہا ہے ۶۔۷ ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔
حلال ٹوریسم کے انچارج ریانتو سوفیان (Riyanto Sofyan کا کہنا تھا کہ اس شعبے میں مسلمان سیاح اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جس سے ہماری درآمد میں بہترین اضافہ ہوسکتا ہے۔
سوفیان کا کہنا تھا: مسلمان سیاح بیس فیصد کل سیاحت کا حصہ ہے اور سال ۲۰۱۸ میں تین ملین سیاح یہاں آئے جن سے ۹۔۳ ارب ڈالر زر مبادلہ حاصل ہوا۔/
اسلام اور جدید سائنس
ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری
اِسلام نے اپنی پہلی وحی کے دِن سے ہی بنی نوعِ اِنسان کو آفاق و انفس کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہونے کا حکم دیا۔ یہ اِسلام ہی کی تعلیمات کا فیض تھا کہ دُنیا کی اُجڈ ترین قوم ’عرب‘ أحکامِ اِسلام کی تعمیل کے بعد محض ایک ہی صدی کے اندر دُنیا بھر کی اِمامت و پیشوائی کی حق دار ٹھہری اور دیکھتے ہی دیکھتے اُس نے دُنیا کو یونانی فلسفے کی لاحاصل مُوشگافیوں سے آزاد کراتے ہوئے فطری علوم کو تجربے (experiment)کی بنیاد عطا کی۔ قرآنِ مجید کی تعلیمات کے زیر اثر یہ اُنہی کے اِختیار کردہ ’سائنسی طریقِ تحقیق‘ (scientific method)کی بنیاد تھی جس کی بدولت ہزار ہا سال سے جاری سلسلۂ علمِ انسانی نے عظیم کروَٹ لی اور موجودہ صدی نے اُس کا پھل پایا۔
اسلام ميں ’’گھرانے‘‘ کے مقام و منزلت
ج کے زمانے ميں سب ہي ’’گھرانے‘‘ کے متعلق باتيں کرتے ہيں اور سب ہي کو اس بارے ميں تشويش لاحق ہے۔ معاشرتي اور تاريخي علوم کے ماہرين کسي بھي معاشرے کي سب سے پہلي اور بنيادي ترين شکل ’’گھرانے‘‘ کو قرار ديتے ہيں۔ اس طرح ماہرين نفسيات بھي انسانوں کے نفساني حالات کي جڑوں کوا ’’گھرانے‘‘ ميں ہي تلاش کرتے ہيں۔ جب کہ تربيت کے شعبے سے منسلک مفکرين اور دانش مند حضرات ’’گھر‘‘ کو ہي تربيتي امور کا مرکز جانتے ہيں اور اجتماعي مصلح حضرات بھي ہر قسم کي اصلاح طلب تبديلي و انقلاب کو ’’گھرانے‘‘ سے ہي مربوط قرار ديتے ہيں اور
سچ مچ، گھرانے کي اہميت کتني زيادہ ہے؟
اسلام کي اس بارے ميں کيا نظر ہے؟
کس طرح ايک ’’گھرانے‘‘ کي بنيادوں کو مستحکم بنايا جا سکتا ہے؟
اور ، اور، اور
اسلام اور معاشرے ميں ’’گھرانے‘‘ کے مقام و منزلت اور اس کے مختلف اثرات کو اسلام کے مايہ ناز مفکر اور فلسفہ شناس دانشمند کي حيثيت سے اپنے ہر دلعزيز قائد و رہبر سے سننا اس عظيم بنياد کو رکھنے والے نوجوانوں کے لئے راہ گُشا ہے۔
گھرانہ ’’کلمہ طيبہ‘‘ ١ کي مانند ہے اور کلمہ طيبہ کي خاصيت يہ ہے کہ جب يہ وجود ميں آتا ہے تو مسلسل اس کے وجود سے خير و برکت اور نيکي ہي ملتي رہتي ہے اور وہ اپنے اطراف کي چيزوں ميں نفوذ کرتا رہتا ہے۔ کلمہ طيبہ وہي چيزيں ہيں کہ جنہيں خداوند متعال نے انسان کي فطري ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کي صحيح بنيادوں کے ساتھ اُسے تحفہ ديا ہے۔ يہ سب کلمہ طيبہ ہيں خواہ وہ معنويات ہوں يا ماديات۔
جس طرح ايک انساني بدن ايک اکائي ’’سيل‘‘ يا ’’خليے‘‘ سے تشکيل پاتا ہے کہ ان خليوں کي نابودي،خرابي اور بيماري خود بخود اور فطري طور پر بدن کي بيماري پر اختتام پذير ہوتي ہے۔ اگر ان اکائيوں ’’خليوں‘‘ ميں پلنے والي بيماري بڑھ جائے تو خطرناک شکل ميں بڑھ کر پورے انساني بدن کے لئے خطرے کا باعث بن سکتي ہے۔ اسي طرح انساني معاشرہ بھي اکائيوں سے مل کر بنا ہے جنہيں ہم ’’گھرانہ‘‘ کہتے ہيں۔ ہر گھر اور گھرانہ انسان کے معاشرتي بدن کي اکائي ہے۔ جب يہ صحيح و سالم ہوں گے اور صحيح اور اچھا عمل انجام ديں گے تو معاشرے کا بدن بھي يقيناًصحيح و سالم ہو گا۔
اگر کسي معاشرے ميں ايک گھرانے کي بنياديں مستحکم ہو جائيں، مياں بيوي ايک دوسرے کے حقوق کا خيال رکھيں، آپس ميں خوش رفتاري، اچھے اخلاق اور باہمي تعاون سے پيش آئيں، مل کر مشکلات کو حل کريں اور اپنے بچوں کي اچھي تربيت کريں تو وہ معاشرہ بہترصورتحال اور نجات سے ہمکنار ہوجائے گا اور اگر معاشرے ميں کوئي مصلح موجود ہو تو وہ ايسے معاشروں کي باآساني اصلاح کر سکتا ہے۔ ليکن اگر صحيح و سالم اور اچھے گھرانے ہي معاشرے ميں موجود نہ ہوں تو کتنے ہي بڑے مصلح کيوں نہ آ جائيں وہ بھي معاشرے کي اصلاح نہيں کر سکتے۔
١ سورہ ابراہيم کي آيت ٢٤ کي طرف اشارہ ہے کہ ارشاد رب العزت ہے : ’’اللہ تعاليٰ نے کلمہ طيبہ کي مثال پيش کي ہے جيسے ايک شجر طيبہ کہ جس کي جڑيں زمين ميں مستحکم ہوں اور شاخيں آسمان ميں پھيلي ہوئي ہوں اور اپنے رب کے حکم سے اپنا پھل بھي لے کر آتا ہے‘‘۔
ہر وہ ملک کہ جس ميں گھرانے کي بنياديں مضبوط ہوں تو اس ملک کي بہت سي مشکلات خصوصاً معنوي اور اخلاقي مشکلات اس مستحکم اور صحيح و سالم گھرانے کي برکت سے دور ہو جائيں گي يا سرے ہي سے وجود ميں نہيں آئيں گي۔ يہ بندھن اور ملاپ اور زندگي کا نيا روپ دراصل خداوند عالم کي بڑي نعمتوں ميں سے ايک نعمت اور اُس کے اسرارِ خلقت ميں سے يک سرّ ہے۔ اسي طرح معاشروں کي صحت و سلامتي اور اصلاح و بہتري نيز ان کے بقا اور دوام کا دارو مدار اسي ازدواجي زندگي پر ہے۔
اگر ايک گھرانہ صحيح صورت ميں تشکيل پائے اور منطقي، عقلي اور اخلاقي اصول دونوں مياں بيوي پر حاکم ہوں اور وہ گھر، خدا او ر شريعت مقدسہ کے معيّن شدہ اصولوں کے مطابق چلے تو يہ گھرانہ اصلاح معاشرہ کي بنياد قرار پائے گا نيز اس معاشرے کے تمام افراد کي سعادت کي بنياد بھي يہي گھر بنے گا۔
گھر کو بسانا دراصل انسان کي ايک اجتماعي ضرورت ہے۔ چنانچہ اگر کسي معاشرے ميں ’’گھرانے‘‘ صحيح و سالم اور مستحکم ہوں، حالاتِ زمانہ ان کے پائے ثبات ميں لغزش پيدا نہ کريں اور وہ مختلف قسم کي اجتماعي آفات سے محفوظ ہوں تو ايسا معاشرہ اچھي طرح اصلاح پا سکتا ہے، اس کے باشندے فکري رشد پا سکتے ہيں، وہ روحاني لحاظ سے مکمل طور پر صحيح و سالم ہوں گے اور ممکن ہے کہ وہ نفسياتي بيماريوں سے بھي دور ہوں۔
اچھے گھرانوں سے محروم معاشرہ ايک پريشان، غير مطمئن اور زبوں حالي کا شکار معاشرہ ہے اور ايک ايسا معاشرہ ہے کہ جس ميں ثقافتي، فکري اور عقائدي ورثہ آنے والي نسلوں تک با آساني منتقل نہيں ہوسکتا۔ ايسے معاشرے ميں انساني تربيت کے بلند مقاصد آساني سے حاصل نہيں ہو پاتے يا اس ميں صحيح و سالم گھرانوں کا فقدان ہوتا ہے يا ان کي بنياديں متزلزل ہوتي ہيں۔ ايسے معاشروں ميں انسان اچھے تربيتي مراکز اور پرورش گاہوں ميں بھي اچھي پرورش نہيں پا سکتے۔
صحيح و سالم گھرانے کا فقدان اس بات کا سبب بنتا ہے کہ نہ اس ميں بچے صحيح پرورش پاتے ہيں، نہ نوجوان اپني صحيح شخصيت تک پہنچ سکتے ہيں اور انسان بھي ايسے گھرانوں ميں کامل نہيں بنتے۔ جب کہ اس گھر سے تعلق رکھنے والے مياں بيوي بھي صالح اور نيک نہيں ہوں گے، اس گھر ميں اخلاقيات کا بھي فقدان ہو گا اور گذشتہ نسل کے اچھے اور قيمتي تجربات بھي اگلي نسلوں تک منتقل نہيں ہو سکتے ہيں۔ جب ايک معاشرے ميں اچھا گھرانہ موجود نہ ہو تو جان ليجئے کہ اس معاشرے ميں ايمان اور دينداري کو وجود ميں لانے والا کوئي مرکز موجود نہيں ہے۔
ايسے معاشرے کہ جن ميں گھرانوں کي بنياديں کمزور ہيں يا جن ميں اچھے گھرانے سرے ہي سے وجود نہيں رکھتے يا کم ہيں يا اگر ہيں تو ان کي بنياديں متزلزل ہيں تو وہ فنا اور نابودي کے دھانے پر کھڑے ہيں۔ ايسے معاشروں ميں نفسياتي الجھنوں اور بيماريوں کے اعداد و شمار ان معاشروں سے زيادہ ہيں کہ جن ميں اچھے اور مستحکم گھرانے موجود ہيںاور مرد و عورت گھرانے جيسے ايک مظبوط مرکز سے متصل ہيں۔
انساني معاشرے ميں گھرانہ بہت اہميت اور قدر و قيمت کا حامل ہے۔ آنے والي نسلوں کي تربيت اور معنوي، فکري اور نفسياتي لحاظ سے صحيح و سالم انسانوں کي پرورش کے لئے گھرانے کے فوائد تک نہ کوئي پہنچ سکتا ہے اور تعليم و تربيت کے ميدان ميں نہ ہي کوئي چيز بھي گھر و گھرانے کي جگہ لے سکتي ہے۔ جب خانداني نظامِ زندگي بہتر انداز ميں موجود ہو تو ان کروڑوں انسانوں ميں سے ہر ايک کے لئے ديکھ بھال کرنے والے (والدين جيسے دو شفيق وجود) ہميشہ ان کے ہمراہ ہوں گے کہ جن کا کوئي بھي نعم البدل نہيں ہوسکتا۔
’’گھرانہ‘‘ ايک امن و امان کي داوي محبت اور پُر فضا ماحول کا نام ہے کہ جس ميں بچے اور والدين اس پر امن ماحول اور قابل اعتماد فضا ميں اپني روحي، فکري اور ذہني صلاحيتوں کو بہتر انداز ميں محفوظ رکھتے ہوئے ان کي پرورش اور رُشد کا انتظام کر سکتے ہيں۔ ليکن جب خانداني نظام ہي کي بنياديں کمزورپڑ جائيں تو آنے والي نسليں غير محفوظ ہو جاتي ہيں۔
انسان، تربيت، ہدايت اور کمال و ترقي کے لئے خلق کيا گيا ہے اور يہ سب اہداف صرف ايک پر امن ماحول ميں ہي حاصل کئے جا سکتے ہيں۔ ايسا ماحول کہ جس کي فضا کو کوئي نفسياتي الجھن آلودہ نہ کرے اور ايسا ماحول کہ جس ميں انساني صلاحيتيں اپنے کمال تک پہنچيں۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے ايسے ماحول کا وجود لازمي ہے کہ جس ميں تعليمات ايک نسل کے بعد دوسري نسل ميں منعکس ہوں اور ايک انسان اپنے بچپنے سے ہي صحيح تعليم، مددگار نفسياتي ماحول اور دو فطري معلّموں يعني والدين کے زير سايہ تربيت پائے جو عالَمِ دنيا کے تمام انسانوں سے زيادہ اس پر مہربان ہيں۔
اگر معاشرے ميں صحيح خانداني نظام رائج نہ ہو تو انساني تربيت کے تمام اقدامات ناکام ہو جائيں گے اور اس کي تمام روحاني ضرورتوں کو مثبت جواب نہيں ملے گا۔ يہي وجہ ہے کہ انساني تخليق اور فطرت ايسي ہے کہ جو اچھے گھرانے، صحيح و کامل خانداني نظام کے پُر فضا اور محبت آميز ماحول اور والدين کي شفقت و محبت کے بغير صحيح و کامل تربيت، بے عيب پرورش اور نفسياتي الجھنوں سے دور اپني لازمي روحاني نشو و نما تک نہيں پہنچ سکتي ہے۔ انسان اپني باطني صلاحيتوں اور اپنے احساسات و جذبات کے لحاظ سے اسي وقت کامل ہو سکتا ہے کہ جب وہ ايک مکمل اور اچھے گھرانے ميں تربيت پائے۔ ايک مناسب اور اچھے نظام زندگي کے تحت چلنے والے گھر ميں پرورش پانے والے بچوں کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ نفسياتي لحاظ سے صحيح و سالم اور ہمدردي اور مہرباني کے جذبات ١ سے سرشار ہوں گے۔
ايک گھرانے ميں تين قسم کے انسانوں کي اصلاح ہوتي ہے۔ ايک مرد ہيں جو اس گھر کے سرپرست يا والدين ہيں، دوسرے درجے پر خواتين کہ جو ماوں کا کردار ادا کرتي ہيں اور تيسرے مرحلے پر اولاد کہ جو اس معاشرے کي آنے والي نسل ہے۔
ايک اچھا گھرانہ يعني ايک دوسرے کي نسبت اچھے، مہربان، پُر خلوص جذبات و احساسات کے مالک اور ايک دوسرے سے عشق و محبت کرنے والے مياں بيوي جو کہ ايک دوسرے کي جسماني اور روحاني حالت کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے ضرورت کے مطابق ايک دوسرے کي مدد کريں، ايک دوسرے کي فعاليت، کام کاج اور ضرورتوں کو اہميت ديں اور ايک دوسرے کے آرام و سکون اور بہتري و بھلائي کو مدّنظر رکھيں۔ يہ سب پہلے درجے پر ہيں۔
١ ماہرين نفسيات اس بات کے قائل ہيں اور ہماري احاديث و روايات بھي اس مطلب پر تاکيد کرتي ہيں کہ گھر ميں والدين کا اپني اولاد سے ہمدردي، محبت، شفقت اور مہرباني و پيار سے پيش آنا بچوں کي تربيت اور ان کي نشو و نما ميں بہت زيادہ موثر ہے۔ والدين کا خشک رويہ بچوں سے مہرباني، ہمدردي، اور پيار و محبت کو سلب کر لے گا اور وہ بچے سخت مزاج، ناقص اور نا ہموار طبيعت کے مالک ہوں گے۔ (مترجم)
دوسرے درجے پر اس گھرانے ميں پرورش پانے والي اولاد ہے کہ جس کي تربيت کے لئے وہ احساس ذمّہ داري کريں اور مادي اور معنوي لحاظ سے انہيں صحيح و سالم پرورش کا ماحول فراہم کريں۔ ان کي خواہش يہ ہوني چاہيے کہ ان کے بچے مادي اور معنوي لحاظ سے سلامتي اور بہتري تک پہنچیں، انہيں بہترين تعليم و تربيت ديں، انہيں مودّب بنائيں، اچھے طريقوں سے اپني اولاد کو برے کاموں کي طرف قدم بڑھانے سے روکيں اور بہترين صفات سے ان کي روح کو مزيّن کريں۔ ايک ايسا گھر دراصل ايک ملک ميں ہونے والي تمام حقيقي اصلاحات کي بنياد فراہم کر سکتا ہے۔ چونکہ ايسے گھرانوں ميں اچھے انسان ہي اچھي تربيت پاتے ہيں اور بہترين صفات کے مالک ہوتے ہيں۔ جب کوئي معاشرہ شجاعت، عقلي استقلال، فکري آزادي، احساس ذمہ داري، پيار و محبت، جرآت و بہادري، وقت پر صحيح فيصلہ کرنے کي صلاحيت، دوسروں کي خير خواہي اور اپني خانداني پاکيزگي و نجابت کے ساتھ پرورش پانے والے لوگوں کا حامل ہو گا تو وہ کبھي بد بختي و روسياہي کے شکل نہيں ديکھے گا۔
ايک معاشرے ميں اس کي تہذيب و تمدّن اور ثقافت کے اصولوں کي حفاظت اور آئندہ آنے والي نسلوں تک ان کي منتقلي اچھے گھرانے يا بہترين خانداني نظام کي برکت ہي سے انجام پاتي ہے۔
رشتہ ازدواج ميں نوجوان لڑکے لڑکي کے منسلک ہونے کا سب سے بہترين فائدہ ’’گھر بسانا‘‘ ہے۔ اس کا سبب بھي يہي ہے کہ اگر ايک معاشرہ اچھے گھرانوں، خانداني افراد اور بہترين نظام تربيت پر مشتمل ہو تو وہ بہترين معاشرہ کہلائے جانے کا مستحق ہے اور وہ اپني تاريخي اور ثقافتي خزانوں اورورثہ کو بخوبي احسن اگلي نسلوںں تک منتقل کرے گا اور ايسے معاشرے ميں بچے بھي صحيح تربيت پائيں گے۔ چنانچہ وہ ممالک اور معاشرے کہ جن ميں خانداني نظام مشکلات کا شکار ہوتا ہے تو وہاں ثقافتي اور اخلاقي مسائل پيش آتے ہيں۔
اگر موجودہ نسل اس بات کي خواہش مند ہے کہ وہ اپنے ذہني اور فکري ارتقائ، تجربات اور نتائج کو آنے والي نسلوں کو منتقل کرے اور ايک معاشرہ اپنے ماضي اور تاريخ سے صحيح معنيٰ ميں فائدہ حاصل کرے تو يہ صرف اچھے گھرانوں يا اچھے خانداني نظام زندگي کے ذريعے ہي ممکن ہے۔ گھر کي اچھي فضا ميں اس معاشرے کي ثقافتي اور تاريخي بنيادوں پر ايک انسان اپنے تشخص کو پاتا ہے اور اپني شخصيت کي تعمير کرتا ہے۔ يہ والدين ہي ہيں کہ جو غير مستقيم طور پر بغير کسي جبر اور تصنّع (بناوٹ) کے فطري اور طبيعي طور پر اپنے فکري مطالب، عمل، معلومات، عقائد اور تمام مقدس امور کو آنے والي نسلوں تک منتقل کرتے ہيں۔
اسلام ’’گھرانے‘‘ پر مکمل توجہ ديتاہے اور گھرانے پر اس کي نظر خاص الخاص اہتمام کے ساتھ جمي ہوئي ہيں کہ جس کي وجہ سے خانداني نظام يا گھرانے کو انساني حيات ميں مرکزيت حاصل ہے۔ اسي لئے اس کي بنيادوں کو کمزور يا کھوکھلا کرنے کو بدترين فعل قرار ديا گيا ہے۔
اسلام ميں گھرانے کا مفہوم يعني ايک چھت کے نيچے دو انسانوں کي سکونت، دو مختلف مزاجوں کا بہترين اور تصوراتي روحاني ماحول ميں ايک دوسرے کا جيون ساتھي بننا، دو انسانوں کے انس و الفت کي قرار گاہ اور ايک انسان کے ذريعے دوسرے انسان کے کمال اور معنوي ترقي کا مرکز، يعني وہ جگہ کہ جہاں انسان پاکيزگي حاصل کرے اور اسے روحاني سکون نصيب ہو۔ يہ ہے اسلام کي نگاہ ميں خوشحال گھرانہ اور اسي ليے اسلام اس مرکز ’’گھرانے‘‘ کو اس قدر اہميت ديتا ہے۔
قرآن کے بيان کے مطابق اسلام نے مرد و عورت کي تخليق، ان کے ايک ساتھ زندگي گزارنے اور ايک دوسرے کا شريکِ حيات بننے کو مياں بيوي کے لئے ايک دوسرے کے آرام و سکون کا باعث قرار ديا ہے۔
قرآن ميں ارشاد ِ خداوندي ہے کہ ’’وَجَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا لِيَسْکُنَ اِلَيْھَا‘‘ ١
----------
١ سورہ اعراف ١٨٩
جنسی اخلاق کا اسلام اور مغرب میں تصور
معصومين (ع) كے ارشادات اخلاق حسنہ کے بارے میں
رسول خدا (ص) اور ا ئمہ معصومين عليہم اسلام اخلاق حسنہ كى اعلى ترين مثاليں ہيں اور يہ بے مثال "" حُسن خلق ""ان كے كردار اور گفتار سے عياں تھا_ ان ہى عظیم شخصيتوں كے ارشادات كى روشنى ميں ہم ""حُسن خلق"" كے اعلى درجہ پر فائز ہو سكتے ہيں_ چنانچہ ہم يہاں اُن كے ارشادات سے چند نمونے پيش كر رہے ہيں تاكہ وہ ہمارى زندگى كے لئے مشعل راہ بن جائيں : رسول خدا (ص) نے صحابہ كو مخاطب كركے فرمايا :
""كيا ميں تمہيں وہ چيز نہ بتائوں كہ اخلاق كے لحاظ سے تم ميں سے كون مجھ سے زيادہ مشابہ ہے ؟ صحابہ نے عرض كى : ""اے اللہ كے رسول (ص) ضرور بتايئے_"" تو آپ (ص) نے فرمايا :
""جس كا اخلاق بہت اچھا ہے""_1
آپ (ص) ہى كا ارشاد گرامى ہے:
""خوش نصيب ہے وہ شخص جو لوگوں سے خوش خلقى سے ملتا ہے " ان كى مدد كرتا ہے اور اپنى برائي سے انہيں محفوظ ركھتا ہے""_2
امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں:
""خداوند عالم نے اپنے ايك پيغمبر كو مخاطب كركے فرمايا :
""خوش خلقى گناہوں كو اُسى طرح ختم كرديتى ہے جس طرح سورج برف كو پگھلا ديتا ہے""_3
آپ (ع) ہى كا ارشاد ہے:
""بے شك بندہ اپنے حسن اخلاق سے دن كو روزہ ركھنے والے اور رات كو نماز قائم كرنے والے كا درجہ حاصل كرليتا ہے""_4
3)_اخلاق معصومين (ع) كے چند نمونے:
ہمارے معصوم رہبروں (ع) نے جس طرح ""اخلاق حسنہ"" كے بارے ميں نہايت ہى سبق آموز ارشادات فرمائے ہيں " اسى طرح دوست اور دشمن كے سامنے نيك اخلاق كے بہترين على نمونے بھى پيش كئے ہيں; ملاحظہ كيجئے:
1_انس (پيغمبر اكرم (ص) كے خادم) سے مروى ہے كہ : ميں نے رسالت مآب (ص) كى نو سال تك خدمت كى "ليكن اس طويل عرصے ميں حضور (ص) نے مجھے حتى ايك بار بھى يہ نہيں فرمايا: ""تم نے ايسا كيوں كيا؟"" _ ميرے كسى كام ميں كبھى كوئي نقص نہيں نكالا، ميں نے اس مدت ميں آنحضرت (ص) كى خوشبو سے بڑھ كر كوئي اور خوشبو نہيں سونگھي، ايك دن ايك باديہ نشين (ديہاتي) آيا اور آنحضرت (ص) كى عبا كو اتنى زور سے كھينچا كہ عبا كے نشان آپ (ص) كى گردن پر ظاہر ہوگئے_ اس كا اصرار تھا كہ حضور اكرم (ص) اسے كوئي چيز عطا فرمائيں_ رسالت مآب (ص) نے بڑى نرمى اور مہربانى سے اُسے ديكھا اور مسكراتے ہوئے فرمايا:
""اسے كوئي چيز دے دو""_
چنانچہ خداوند عالم نے يہ آيت نازل فرمائي:
""انّك لَعلى خُلق: عظيم"" 5
""بے شك آپ اخلاق (حسنہ) كے اعلى درجہ پر فائز ہيں""_
2_حضرت امام زين العابدين _ كے قريبى افراد ميں سے ايك شخص آپ (ع) كے پاس آيا اور بُرا بھلا كہنے لگا " ليكن آپ (ع) خاموش رہے ، جب وہ شخص چلا گيا تو امام (ع) نے حاضرين كو مخاطب كركے فرمايا:
""آپ لوگوں نے سن ليا ہوگا كہ اس شخص نے مجھ سے كيا كہا ہے اب ميں چاہتا ہوں كہ آپ ميرے ساتھ چليں اور ميرا جواب بھى سن ليں""_
امام عليه السلام راستے ميں اس آيت كى تلاوت فرماتے جارہے تھے:
""و الكاظمين الغيظ والعافين عن الناس واللہ يحب المحسنين ""6
""جو لوگ غصے كو پى جاتے ہيں اور لوگوں كو معاف اور درگذر كرديتے ہيں اوراللہ تعالى ايسے احسان كرنے والوں كو دوست ركھتا ہے""_
ساتھيوں نے سمجھ ليا كہ امام (ع) آيت عفو كى تلاوت فرما رہے ہيں، لہذا اسے كوئي تكليف نہيں پہنچائيں گے ،جب اس كے گھر پہنچے تو امام (ع) نے اس كے خادم سے فرمايا :
كہ اپنے مالك سے كہدو كہ على ابن الحسين عليه السلام تمہيں بلا رہے ہيں_
جب اس شخص نے سنا كہ امام (ع) فوراً ہى اس كے پاس آئے ہيں تو اس نے دل ميں كہا كہ يقينا حضرت (ع) مجھے ميرے كئے كى سزا ديں گے اور اس كا انتقام ليں گے_ چنانچہ اس نے يہ سوچ كر خود كو مقابلہ كے لئے تيار كرليا، ليكن جب باہر آيا تو امام (ع) نے فرمايا :
""ميرے عزيز تم نے اب سے كچھ دير پہلے ميرے متعلق كچھ باتيں كہى تھيں " اگر يہ باتيں مجھ ميں پائي جاتى ہيں تو خدا مجھے معاف كرے" اور اگر ميں اُن سے پاك اور بَرى ہوں تو خدا تمہيں معاف كرے""_
اُس شخص نے جب يہ سنا تو بہت شرمندہ ہوا " امام (ع) كى پيشانى پر بوسہ ديا اور معافى مانگنے لگا اور عرض كى :""ميں نے جو كچھ كہا " غلط كہا" بے شك آپ (ع) ايسى باتوں سے پاك ہيں"ہاں " ميرے اندر يہ باتيں موجود ہيں ""_7
حوالہ جات:
1_ اصول كافى (مترجم ) ج2، ص 84يا تحف العقول ص48
2_ تُحف العقول ، ص28
3_ تحف العقول _ ص 28_ بحارالانوار ج 71، ص 383
4_ وسائل الشيعہ ج8، ص 56_ تحف العقول ص 48
5_منتہى الآمال، ج ا ، ص 31_ سورہ قلم ، آيت 4
6 _ سورہ آل عمران آيت 134
7_منتہى الآمال، ج3 ، ص 5_ مطبوعہ انتشارات جاويدان