سلیمانی
جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت اور جنگی اصولوں میں تبدیلی
حریر: رامین حسین آبادیان
جمعہ 3 جنوری کی صبح ایک بجے کے قریب بغداد ایئرپورٹ کے قریب سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی رضاکار عوامی فورس حشد الشعبی کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس کی گاڑیوں پر امریکی ہوائی حملہ ہوا جس کے نتیجے میں گاڑیوں میں سوار تمام دس افراد شہید ہو گئے۔ مختلف ممالک کے حکومتی عہدیداروں، سیاسی رہنماوں، سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے اس ہولناک واقعے پر ردعمل سامنے آیا ہے۔ عراق کے صدر برہم صالح نے کہا: "ہم عراق کی مسلح افواج سے وابستہ سیکورٹی کمانڈرز پر امریکہ کے ہوائی حملے کی مذمت کرتے ہیں اور بلا شک عراق اور خطے کیلئے اس کے ناگوار سکیورٹی اثرات ظاہر ہوں گے۔" بدر آرگنائزیشن کے چیف کمانڈر ہادی العامری نے کہا: "امریکہ کے اس مجرمانہ اقدام نے جہاد کے راستے اور الہی اصولوں اور اقدار کی پاسداری کیلئے جدوجہد میں ہمارا عزم مزید پختہ کر دیا ہے۔" اسی طرح عراق میں شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ العظمی علی سیستانی نے اس واقعے کے بارے میں کہا: "گذشتہ رات بغداد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب یہ بزدلانہ حملہ عراق کی خودمختاری اور بین الاقوامی چارٹر کی کھلی خلاف ورزی تھی۔"
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنے بیان میں کہا: "امریکی قاتل انشاء اللہ اپنے مجرمانہ اہداف کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے اور برادر قاسم سلیمانی کے اہداف امت مسلمہ میں عالمی استکبار کے سامنے ڈٹے ہوئے ان کے بھائیوں، بیٹوں اور شاگردوں کے ذریعے حقیقت کا روپ دھار کر رہیں گے۔" اسی طرح عراق کے نگران وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے کہا: "ہم برادر ابو مہدی المہندس اور قاسم سلیمانی کے قتل پر مبنی امریکی حکومت کے اقدام کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ یہ دونوں شہید داعش کے خلاف فتح کی علامت تھے۔" روس کی وزارت خارجہ کے ایک اعلی سطحی عہدیدار نے بھی جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کو خطرناک مہم جوئی قرار دیا اور کہا کہ اس کا نتیجہ خطے میں تناو کی شدت میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ انہوں نے ایران سے ہمدردی کے اظہار اور ایرانی قوم سے اظہار تسلیت کرتے ہوئے کہا کہ جنرل سلیمانی اپنے ملک کے قومی مفادات کے محافظ تھے۔ عراق کے اہم سیاسی رہنما مقتدا صدر نے کہا: "استکبار جہانی کی جانب سے جنرل قاسم سلیمانی اور دیگر مومن مجاہدین کو نشانہ بنانا درحقیقت جہاد اور عالمی سطح پر موجود انقلابی جذبے کو نشانہ بنانا ہے لیکن اس سے ہمارا جہاد کا عزم کم نہیں ہو گا۔"
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی حکومت کا یہ مجرمانہ اقدام "ریاستی دہشت گردی" کا واضح مصداق ہے۔ امریکی حکام نے اب تک ایسے بے شمار اقدامات انجام دیے ہیں جس سے ثابت ہو گیا ہے کہ وہ خطے اور عالمی سطح پر ریاستی دہشت گردی کا سرغنہ ہیں۔ امریکہ کی اس ریاستی دہشت گردی کے مقابلے میں اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں کی خاموشی بھی قابل مذمت ہے۔ خطے کے ممالک نے بھی امریکہ کے مجرمانہ اقدامات اور ریاستی دہشت گردی کے سامنے چپ سادھ رکھی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کھلم کھلا امریکہ کی ریاستی دہشت گردی کی حمایت کرنے میں مصروف ہے۔ درحقیقت اس مجرمانہ اقدام سے امریکہ کا مقصد نہ صرف عراق اور ایران بلکہ پورے خطے میں اسلامی مزاحمت کو کمزور کرنا ہے۔ لیکن وہ اس حقیقت سے غافل ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی شہادت اسلامی مزاحمتی بلاک میں نئی روح پھونک دے گی اور مجاہدین اسلام پہلے سے زیادہ پرعزم ہو کر نئے جذبے سے اس کی شیطانی سازشوں کے خلاف سرگرم عمل ہو جائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کا پاکیزہ خون اسلامی مزاحمت کے درخت کی آبیاری کرتے ہوئے اسے مزید طاقتور بنا دے گا۔
ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا ہے: "تمام دوست نیز دشمن جان لیں کہ مزاحمتی جہادی تحریک پہلے سے زیادہ عزم اور جذبے سے جاری رہے گی اور حقیقی فتح اس مبارک راستے پر گامزن مجاہدین کے قدم چومے گی۔ ہمارے عزیز اور جاں نثار کمانڈر کا فقدان تلخ ہے لیکن جدوجہد کا تسلسل اور حتمی فتح کا حصول ان کے قاتلوں اور مجرموں کو تلخ کام کر دے گا۔" یہ ایک واضح امر ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی اور حشد الشعبی کے کمانڈرز کی شہادت کے جرم میں امریکی دہشت گردوں کے خلاف سخت انتقامی کاروائی انجام پانے والی ہے۔ امریکہ نے عراق کی سرزمین پر ایران کی مسلح افواج کے اعلی سطحی کمانڈر کی ٹارگٹ کلنگ کر کے اپنے خلاف انتقامی کاروائی کے بھی نئے باب کھول دیے ہیں اور اب خطے میں ایران اور امریکہ کے درمیان جاری جنگ کے اصول تبدیل ہو چکے ہیں۔ امریکہ اور اب دنیا کے کسی کونے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی جانب سے اپنے خلاف شدید انتقامی کاروائی کی توقع رکھنی چاہئے۔
جنرل قاسم سلیمانی کی زندگی کی مختصر داستان پیدائش 11مارچ 1957ء جائے پیدائش: رابر ،صوبہ کرمان ،ایران القاب: الحاج قاسم ،جنرل ،شیڈو لیڈر تعارف: جنرل سلیمانی 11مارچ 1957ءکو ایرانی صوبہ کرمان کے شہر رابر کے قنات ملک نامی علاقے میں پیداہوئے ۔جوانی میں
ز
11مارچ 1957ء جائے پیدائش: رابر ،صوبہ کرمان ،ایران
القاب: الحاج قاسم ،جنرل ،شیڈو لیڈر
تعارف: جنرل سلیمانی 11مارچ 1957ءکو ایرانی صوبہ کرمان کے شہر رابر کے قنات ملک نامی علاقے میں پیداہوئے ۔جوانی میں جنرل قاسم پانی کے محکمے میں ملازمت کرتے تھے، ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد جنرل قاسم نے 1980ءمیں پاسداران انقلاب اسلامی فورس میں شمولیت اختیار کی۔جنرل قاسم نے صوبہ کرمان میں 41بریگیڈ(ثاراللہ)کی قیادت کرتے ہوئے ایران عراق جنگ میں حصہ لیا، جسکے بعد جنرل قاسم کی ترقی کی گئی اور انہیں ایرانی فوج کے 10اہم فوجیوں میں شمار کیا جانے لگا۔ 1998ءمیں جنرل قاسم سلیمانی کو جنرل احمد وحیدی کی جگہ القدس بریگیڈ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ 24جنوری 2011ء میں جنرل سلیمانی کو میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ عملی زندگی: ایران میں شاہی حکومت کے خاتمے کے بعد جب اسلامی حکومت کا آغاز ہوا تو جنرل سلیمانی نے پاسداران انقلاب میں شمولیت اختیار کی ،جنرل سلیمانی کے مطابق اُس دور میں اُن کی عسکری تربیت محدود پیمانے پر ہونے کے باوجود وہ تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہے تھے، ان کےمطابق ابتداء میں وہ ا یک سپاہی تھے اور ایران کے شمال مغربی حصے میں خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ جہاں وہ صوبہ مغربی آذربائیجان میں کردی علیحدگی پسند تحریک کا مقابلہ کررہے تھے۔ 22ستمبر 1980ءکو آٹھ سالہ طویل عرصے تک جاری رہنے والی ایران ،عراق جنگ شروع ہوئی۔ جنرل سلیمانی نے جنگ میں صوبہ کرمان کے جوانوں پر مشتمل ایک بریگیڈ کی قیادت کرتے ہوئے حصہ لیا، اس بریگیڈ میں شامل جوانوں کی تربیت جنرل سلیمانی نے بذات خود کی تھی۔ جلد ہی جنرل سلیمانی نے شہرت پائی اور ایرانیوں سے داد و تحسین حاصل کی، عراق فوجیوں کے قبضے سے ایرانی زمینوں کو پھر سے حاصل کرنے میں جنرل سلیمانی نے اہم کردار ادا کیا تھا اور آخر کار جنرل سلیمانی کو 20،22سال کی عمر میں صوبہ کرمان کی بریگیڈ 41’’ثاراللہ ‘‘کی قیادت سونپ دی گئی۔ جنگ کے اختتام کے بعد جنرل قاسم کو صوبہ کرمان میں پاسداران انقلاب فورس کی قیادت کے لئے منتخب کیا گیا۔یہ صوبہ افغانستان سے قریب ہونیکی وجہ سے افغانستان میں کاشت ہونیوالی منشیات کی گزر گاہ تھی، جسکے ذریعے یہ مواد ترکی اور پھر یورپ سمگل کیے جاتے تھے ۔مگر جنرل سلیمانی نے اس غیر قانونی مواد کی سمگلنگ کا بھرپور مقابلہ کیااورمنشیات سمگلنگ کی روک تھام میں شہرت حاصل کی۔ جنرل سلیمانی کو 1998ء میں القدس بریگیڈ کی کمانڈسونپی گئی جوکہ پاسداران انقلاب کا اہم حصہ مانا جاتا ہے۔2007ء میں جنرل سلیمانی پاسداران انقلاب کی سربراہی کیلئے بھی دیگر چند جنرنلز کیساتھ نامزد ہوئے تھے جب جنرل یحییٰ رحیم صفوی دستبردارہوئے تھے۔ 24جنوری 2011ء میں جنرل سلیمانی کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کےحکم پر میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی، کہاجاتا ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر اور جنرل قاسم کے درمیان گہرے تعلقات ہیں اور آیت اللہ علی خامنہ ای نے جنرل قاسم سلیمانی کو ’’زندہ شہید ‘‘کا لقب دیا ہے۔ موجودہ دور میں جنرل قاسم سلیمانی کو مشرق وسطیٰ کی سب سے طاقتور فوجی شخصیت قرار دیا جاتا ہے۔امریکہ کی طرف سے جنرل قاسم سلیمانی پر دہشت گردی کے الزامات عائد ہونے کیساتھ ساتھ اُن پر پابندیاںبھی عائد ہیں،سعودی عرب بھی جنرل قاسم ،القدس بریگیڈاور پاسداران انقلاب پر دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات عائد کرتا رہتا ہے، اقوام متحدہ نے بھی جنرل قاسم سلیمانی کو اپنی قرارداد نمبر 1747کے تحت دہشت گرد افراد کی لسٹ میں شامل کیا ہوا ہے۔جنرل قاسم سلیمانی ان تمام الزامات کے برعکس مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں انتہائی فعال اور ناقابل فراموش کردار ادا کررہے ہیں۔ عراق میں داعش کیخلاف جنگ میں جنرل قاسم سلیمانی کے کردار سے سبھی واقف ہیں، عراقی حکومت کی گزارش پر جنرل قاسم سلیمانی متعدد عراقی شہروں کو آزاد کرنے کیلئے عراق میں موجود رہے۔ شامی حکومت نے بھی جنرل قاسم سلیمانی کی خدمات سے استفادہ کرنے کیلئے ایرانی حکومت سے درخواست کی تھی جس کے بعدجنرل قاسم سلیمانی نے شام میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں کی شکست میں فعال کردار ادا کیا-
رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس بریگیڈ کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر ایک اہم پیغام جاری کیا ہے۔
ز
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ملت عزیز ایران
اسلام کے عظیم، باعث فخر اور مایۂ ناز کمانڈر عالم ملکوت کی جانب پرواز کر گئے۔گزشتہ شب شہدا کی پاکیزہ ارواح نے قاسم سلیمانی کی پاکیزہ روح کو اپنی آغوش میں لیا۔دنیا کے شیطانوں اور شرپسندوں کے مقابلے میں برسوں کی مخلصانہ اور شجاعانہ جد و جہد اور راہ خدا میں شہید ہونے کی انکی آرزو رنگ لائی اور سلیمانی کو اس بلند و بالا مقام سے ہمکنار کیا اور ان کا خون بشریت کے شقی ترین افراد کے ہاتھوں زمین پر بہا دیا گیا۔
میں اس عظیم شہادت پر حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ اور خود شہید کی روح کی خدمت میں مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایرانی عوام کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں۔
وہ مکتب اسلام اور مکتب خمینی کے ہاتھوں پروان چڑھنے والوں میں ایک نمایاں چہرہ تھے جنہوں نے اپنی تمام تر عمر راہ خدا میں جہاد کرتے ہوئے گزاری۔
برسوں پر مشتمل انکی انتھک جدو جہد کا پھل انہیں شہادت کی شکل میں ملا اور ان کے چلے جانے سے بلطف و اذن خدا ان کا مشن رکنے اور تعطل کا شکار ہونے والا نہیں ہے۔مگر سخت انتقام ان مجرموں کے انتظار میں ہے جنہوں نے اپنے ناپاک ہاتھوں کو انکے اور گزشتہ شب شہید ہونے والوں کے خون سے رنگا ہے۔
شہید سلیمانی مزاحمتی و استقامتی محاذ کا ایک بین الاقوامی چہرہ ہیں اور اس محاذ سے وابستہ تمام افراد انکی خونخواہی اور انتقام کے طالب ہیں۔
سبھی دوست اور سبھی دشمن یہ سمجھ لیں کہ مزاحمت و استقامت کی راہ مزید مستحکم عزم و حوصلے کے ساتھ جاری و ساری رہے گی اور یقینی طور پر کامیابی اس مبارک راہ میں گامزن رہنے والوں کے قدم چومے گی۔
ہمارے عزیز اور جانثار کی شہادت ہمارے لئے تلخ ضرور ہے مگر آخری کامیابی کے حصول تک اپنی جد و جہد قاتلوں اور مجرموں کے لئے اِس سے کہیں زیادہ تلخ ثابت ہوگی۔
ایرانی عوام شہید والا مقام میجر جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ہمراہ شہید ہونے والوں بالخصوص عظیم مجاہدِ اسلام جناب ابو مہدی المہندس کی قدرداں رہیں گے۔
میں ملک میں تین روزہ عام سوگ کا اعلان کرتا ہوں اور ان کی اہلیہ، ان کے بچوں اور دیگر اعزا و اقارب کو مبارکباد اور تعزیت پیش کرتا ہوں۔
سید علی خامنہ ای
۱۳ دی ۱۳۹۸ مطابق ۳ جنوری
30 دسمبر ایرانی عوام کی عزت و آزادی اور بصیرت کا دن
9 دی ماہ مطابق 30 دسمبر 2019 کی عظیم الشان ملک گیر ریلیوں میں ایرانی عوام اپنی تاریخی اور بھرپور شرکت سے پوری دنیا پر ثابت کریں گےکہ وہ اپنے انقلاب اور رہبر کے وفادار ہیں اور دل و جان سے اس راہ میں قربانیاں دینے کیلئے تیار ہیں۔ اس موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران کی فضا عالمی سامراجی عناصر خاص طور سے امریکہ کے خلاف فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھے گی۔
نو دی ماہ مطابق تیس دسمبر کی تاریخ استقلال و آزادی اور ایرانی عوام کی بصیرت کے مظاہرے کا دن ہے جو اسلامی اصولوں اور انقلابی امنگوں کی راہ میں ڈٹ گئے اور ببانگ دہل اعلان کیا کہ اگر دشمن ان کے دین کے مقابلے میں آیا تو وہ پوری دنیا کے سامنے ڈٹ جائیں گے۔
اس دن کو ایران کی اسلامی انقلاب کی تاریخ میں یوم اللہ قرار دیا گیا اس لئے کہ اس تاریخی دن اور اہم موقع پر ایرانی قوم نے جو ہمیشہ اسلامی اور انقلابی امنگوں کے راستے پر گامزن رہی ہے ایک اور عظیم کارنامہ انجام دیا۔
آج کی تاریخ میں ایرانی عوام نے میدان عمل میں اپنی بھرپور موجودگی کے ساتھ فتنہ پرور عناصر کے عزائم پسپا کرتے ہوئے اسلامی جمہوری نظام کی حمایت کا اعلان اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی رح اور رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی اعلی و ارفع امنگوں سے تجدید عہد کیا۔
اس دن ایرانی عوام نے فتنہ پرور عناصر کو شکست دیتے ہوئے اہم کامیابی حاصل کی اور دارالحکومت تہران اور ایران کے مختلف بڑے چھوٹے شہروں میں جوش و ولولے کے ساتھ باہر نکل کر پوری دنیا کے لوگوں کو اپنے پختہ عزم و ارادےسے آگاہ کیا کہ وہ اسلامی و انقلابی امنگوں اور اس مقدس راہ پر گامزن ہیں اور ان امنگوں کا کبھی بھی سودا نہیں کریں گے۔
واضح رہے کہ آج کی یہ تاریخ 30 دسمبر2009 کو اس سازش کی یاد دلاتی ہے جسے ایران کے غیور اور انقلابی قوم نے اپنی ہوشیاری، آگاہی اور بصیرت افروز اقدامات سے ناکام بنا اور امریکہ اور اس کے آلہ کاروں کو ایک بار پھر ذلت آمیز شکست سے دوچار کر دیا۔ کیونکہ دشمن اس بار ایران کے صدارتی انتخابات میں دھاندلی کا بہانہ بنا کر ایران کے حالات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا تھا جس میں اسے ایک بار پھر منہ کی کھانی پڑی اور ایرانی عوام اور قوم ایک بار پھر سے سرخرو ہوئی۔
بلاشبہ اگر رہبر انقلاب اسلامی کی عظیم بصیرت و درایت اور عوام کی حمایت و ہوشیاری نہ ہوتی اور ایرانی عوام ولایت فقیہ کے ہمراہ نہ ہوتے تو فتنے کی آگ اتنی جلدی خاموش نہ ہو جاتی اور ملک کے لئے منفی نتائج برآمد ہونے لگتے۔ مگر اس حساس موقع پر رہبر انقلاب اسلامی کی گرانقدر تدبیر و بصیرت اور رہنمائی کے نتیجے میں پوری قوم دشمنوں کی جانب سے پیدا کئے جانے والے فتنے میں اسیر ہونے سے بچ گئی اور اپنی راہ جاری رکھنے پر گامزن ہو گئی۔
قابل ذکر ہے کہ نو دے ماہ مطابق تیس دسمبر2009 کو ایران کے انقلابی عوام نے سڑکوں پر نکل کر ایران کی اسلامی و انقلابی تاریخ میں اس دن کو یادگار دن بنا دیا اور فتنے کی بساط لپیٹ کر رکھ دی۔
خطے میں ناامنی اور جنگی جنون کی اصلی جڑ امریکہ ہے، سپاہ پاسداران
جمہوریہ ایران کے انقلابی گارڈز سپاہِ پاسداران نے عراقی سرکاری افواج کی اہم ترین رکن اسلامی مزاحمتی فورس حشد الشعبی کے فوجی مراکز پر ہونے والے امریکی حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ تہران سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جارح دہشتگرد امریکی فورسز کیطرف سے حشد الشعبی کے فوجی مراکز پر ہونے والے ہوائی حملے، جو عراقی عوامی اسلامی مزاحمتی محاذ کے مجاہدین کی ایک بڑی تعداد کے شہید و زخمی ہو جانے کا سبب بنا ہے، عراق کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس وقوعے نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ خطے میں ناامنی، ہرج و مرج، افراتفری اور جنگی جنون کی اصلی جڑ خود امریکہ ہے۔
سپاہ پاسداران کے اس بیان میں کہا گیا ہے کہ حشد الشعبی، اسلامی مزاحمتی محاذ کی مقدس اور اصلی ترین فورسز میں سے ایک ہے، داعش اور تکفیری دہشتگردی کیخلاف جس کی لازوال اور فیصلہ کن دلیری کو عراقی عوام نہ صرف کبھی بھول نہیں پائیں گے بلکہ عراقی عوام اپنی سرزمین پر موجود ناامنی اور غیر ملکی طاقتوں کیساتھ مقابلے میں اسی کو اپنے لئے نمونۂ عمل بھی سمجھتے ہیں۔ سپاہ پاسداران کے اس بیان میں دہشتگرد امریکی فورسز کیطرف سے انجام دیئے گئے اس جارحانہ و مجرمانہ اقدام کی شدید مذمت کی گئی ہے اور حشد الشعبی کے غیور و دلیر مجاہدین کی شہادت پر اعلیٰ دینی مرجعیت، مظلوم عوام، عراقی حکومت اور عوامی اسلامی مزاحمتی فورسز کے کمانڈرز کو تسلیت بھی پیش کی گئی ہے۔
سپاہ پاسداران کیطرف سے جاری ہونے والے اس بیان میں عراق سے دہشتگرد و جارح امریکی فورسز کے نکال باہر کئے جانے کو عراقی اندرونی استحکام کی ضمانت قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ کوئی بھی آزاد و خود مختار قوم اپنے سپوتوں کو غیروں کی جارحیت اور سفاکیت کی بھینٹ چڑھتے نہیں دیکھ سکتی اور یہی وجہ ہے کہ غیور عراقی عوام اور تمام میدانوں کی فاتح حشد الشعبی تمامتر بین الاقوامی قوانین کی رو سے امریکہ کے اس مجرمانہ اقدام کا بھرپور جواب دینے اور اپنا انتقام چکانے کا پورا حق رکھتی ہے۔ اس بیان کے آخر میں کہا گیا ہے کہ بچوں کی قاتل غاصب صیہونی رژیم اسرائیل، شیطانِ بزرگ دہشتگرد امریکہ کے اس مجرمانہ اقدام پر خوشیاں نہ منائے کیونکہ اب عظیم اسلامی امت، مزاحمتی محاذوں پر اپنے جوانوں کی قیمت سے بخوبی آشنا ہوچکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پوری امتِ مسلمہ اپنے صیہونی مخالف مقدس ارادے کو عنقریب ایک عظیم عملی اقدام میں بدلنے والی ہے۔
مسلمانوں کی تکفیر سنت پیغمبر ۖ کی مخالفت کرنا ہے
الف) مسلمانوں کی تکفیر سے شدید ممانعت :
حضرت علی علیہ السلام اور حضرت جابر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
''...اہل لا الہ الا اللہ لاتکفروھم بذنب ولا تشہد وا علیھم بشرک ''(١)
لا الہ الا اللہ پڑھنے والوں کو گناہ کی وجہ سے مت تکفیر کرو اور ان پر شرک کی تہمت نہ لگاؤ۔
حضرت عائشہ کہتی ہیں : میں نے رسول خدا ۖ سے سنا آپ نے فرمایا:
'' لا تکفروا احدا من اہل القبلة بذنب وان عملوا بالکبائر''()
اہل قبلہ میں سے کسی کو گناہ کے سبب تکفیر نہ کرو اگر چہ وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو ۔(٢)
--------------
(١)المعجم الاوسط ٥:٩٦ ؛ مجمع الزوائد ١: ١٠٦.
(٢)مجمع الزوائد ١: ١٠٦و١٠٧.
ب: دوسروں کو تکفیر کرنے والے کا کفر
بخاری نے ابو ذر سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے سنا آپ ۖنے فرمایا:
''لا یرمی رجل رجلا بالفسوق ولایرمیہ بالکفر الا ارتدت علیہ ، ان لم یکن صاحبہ کذلک ''(1)
اگر کوئی شخص دوسرے کو گناہ یا کفر سے متہم کرے جب کہ وہ شخص گنہگار یا کافر نہ ہو تو وہ گناہ و کفر خود تہمت لگانے والے کی طرف پلٹے گا ۔
عبد اللہ بن عمر نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا:
'2ایما رجل مسلم کفر رجلا مسلما فان کان کافرا والا کان ھو الکافر ''.()
جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے اور وہ مسلمان کافر نہ ہوتو کہنے والا خود کافر ہو جائے گا ۔
نیز عبد اللہ بن عمر نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ کہ آپ ۖنے فرمایا:
--------------
(1صحیح بخاری ٧:٦٠٤٥٨٤، کتاب الادب ، باب ماینھیٰ من السباب واللعن.
(2)کنز العمال ٣:٦٣٥از سنن ابی دادؤو مسند احمد ٢:٢٢.تھوڑے سے فرق کے ساتھ .
''کفوا عن اہل لا الہ الا اللہ لا تکفروھم بذنب من اکفر اہل لا الہ الا اللہ فھوا لی الکفر اقرب ''۔(١)
لا الہ الا اللہ کہنے والوں سے دست بردار ہو جاؤ اور انھیں گناہ کی وجہ سے تکفیر نہ کرو۔ جو شخص اہل توحید کی طرف کفر کی نسبت دیتا ہے وہ خود کفر سے نزدیک تر ہے ۔
ج:اہل قبلہ کے قتل کی حرمت
صحیح بخاری نے انس بن مالک کے واسطے سے رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا:
''من صلی صلاتنا ، واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذلک المسلم الذی لہ ذمة اللہ وذمة رسولہ فلا تخفروااللہ فی ذمتہ ''.( ٢)
جو ہماری طرح نماز پڑھے، قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہمارے ذبح شدہ حیوانات کا گوشت کھائے تو وہ مسلمان اور خدا و رسول ۖ کی پناہ میں ہے پس عہد خدا کو نہ توڑو۔
د: خوف سے اسلام لانے والے کے قتل کی حرمت
صحیح مسلم نے اسامنہ بن زید سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں : پیغمبر اکرم ۖ
--------------
(١)معجم الکبیر١٢: ٢١١ ؛ مجمع الزوائد ١:١٠٦ ؛ فیض القدیر شرح جامع الصغیر ٥: ١٢ ؛ جامع الصغیر ٢ : ٢٧٥؛ کنز العمال ٣: ٦٣٥.
(٢) صحیح بخاری ١:٣٩١١٠٢، کتاب الصلاة ، باب فضل استقبال القبلة .
نے ہمیں ایک قبیلہ کے ساتھ جنگ کے لئے بھیجا ، صبح کے وقت ہم اس قبیلہ کے پاس پہنچے ۔ میں نے ایک شخص کا پیچھا کیا تو اس نے کہا : '' لا الہ الا اللہ ''مگر میں نے نیزہ مار کر اسے قتل کر ڈالا ۔ مجھے احساس ہوا کہ میں نے غلط کام کیا ہے ، پیغمبر ۖ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا:''اقال لا الہ الا اللہ وقتلتہ ''کیا تونے اسے ''لا الہ الا اللہ ''کہنے کے باوجود قتل کردیا ؟
میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ۖ !اس نے اسلحہ کے خوف سے کلمہ پڑھا۔ آنحضرت نے فرمایا: کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا ؟ پیغمبر ۖ نے اس بات کا اس قدر تکرار کیا کہ میں آرزو کرنے لگا کہ اے کاش! آج ہی کے دن پیدا ہوا ہوتا ( اوراس عظیم گناہ کا ارتکاب نہ کرتا )
سعد بن وقاص کہتاہے : میں اس وقت تک کسی مسلمان کو قتل نہیں کروں گا جب تک اسامہ اسے قتل نہ کرے ایک شخص نے کہا : کیا خداوند متعال نے یہ نہیں فرمایا: ( وقاتلوھم حتی لا تکون فتنة ویکون الدین کلہ اللہ )اور کافروں کو قتل کر و یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین فقط خد اہی کا رہ جائے ۔
سعد نے کہا: ہم اس لئے جنگ کرتے ہیں کہ فتنہ ختم ہو جب کہ تم اور تمہارے ساتھی اس لئے لڑتے ہوتاکہ فتنہ برپاکرسکو ۔(١)
-----v
مسلمانوں کی تکفیر سنت پیغمبر ۖ کی مخالفت کرنا ہے
الف) مسلمانوں کی تکفیر سے شدید ممانعت :
حضرت علی علیہ السلام اور حضرت جابر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
''...اہل لا الہ الا اللہ لاتکفروھم بذنب ولا تشہد وا علیھم بشرک ''(١)
لا الہ الا اللہ پڑھنے والوں کو گناہ کی وجہ سے مت تکفیر کرو اور ان پر شرک کی تہمت نہ لگاؤ۔
حضرت عائشہ کہتی ہیں : میں نے رسول خدا ۖ سے سنا آپ نے فرمایا:
'' لا تکفروا احدا من اہل القبلة بذنب وان عملوا بالکبائر''()
اہل قبلہ میں سے کسی کو گناہ کے سبب تکفیر نہ کرو اگر چہ وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو ۔(٢)
--------------
(١)المعجم الاوسط ٥:٩٦ ؛ مجمع الزوائد ١: ١٠٦.
(٢)مجمع الزوائد ١: ١٠٦و١٠٧.
ب: دوسروں کو تکفیر کرنے والے کا کفر
بخاری نے ابو ذر سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے سنا آپ ۖنے فرمایا:
''لا یرمی رجل رجلا بالفسوق ولایرمیہ بالکفر الا ارتدت علیہ ، ان لم یکن صاحبہ کذلک ''(1)
اگر کوئی شخص دوسرے کو گناہ یا کفر سے متہم کرے جب کہ وہ شخص گنہگار یا کافر نہ ہو تو وہ گناہ و کفر خود تہمت لگانے والے کی طرف پلٹے گا ۔
عبد اللہ بن عمر نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا:
'2ایما رجل مسلم کفر رجلا مسلما فان کان کافرا والا کان ھو الکافر ''.()
جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے اور وہ مسلمان کافر نہ ہوتو کہنے والا خود کافر ہو جائے گا ۔
نیز عبد اللہ بن عمر نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ کہ آپ ۖنے فرمایا:
--------------
(1صحیح بخاری ٧:٦٠٤٥٨٤، کتاب الادب ، باب ماینھیٰ من السباب واللعن.
(2)کنز العمال ٣:٦٣٥از سنن ابی دادؤو مسند احمد ٢:٢٢.تھوڑے سے فرق کے ساتھ .
''کفوا عن اہل لا الہ الا اللہ لا تکفروھم بذنب من اکفر اہل لا الہ الا اللہ فھوا لی الکفر اقرب ''۔(١)
لا الہ الا اللہ کہنے والوں سے دست بردار ہو جاؤ اور انھیں گناہ کی وجہ سے تکفیر نہ کرو۔ جو شخص اہل توحید کی طرف کفر کی نسبت دیتا ہے وہ خود کفر سے نزدیک تر ہے ۔
ج:اہل قبلہ کے قتل کی حرمت
صحیح بخاری نے انس بن مالک کے واسطے سے رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا:
''من صلی صلاتنا ، واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذلک المسلم الذی لہ ذمة اللہ وذمة رسولہ فلا تخفروااللہ فی ذمتہ ''.( ٢)
جو ہماری طرح نماز پڑھے، قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہمارے ذبح شدہ حیوانات کا گوشت کھائے تو وہ مسلمان اور خدا و رسول ۖ کی پناہ میں ہے پس عہد خدا کو نہ توڑو۔
د: خوف سے اسلام لانے والے کے قتل کی حرمت
صحیح مسلم نے اسامنہ بن زید سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں : پیغمبر اکرم ۖ
--------------
(١)معجم الکبیر١٢: ٢١١ ؛ مجمع الزوائد ١:١٠٦ ؛ فیض القدیر شرح جامع الصغیر ٥: ١٢ ؛ جامع الصغیر ٢ : ٢٧٥؛ کنز العمال ٣: ٦٣٥.
(٢) صحیح بخاری ١:٣٩١١٠٢، کتاب الصلاة ، باب فضل استقبال القبلة .
نے ہمیں ایک قبیلہ کے ساتھ جنگ کے لئے بھیجا ، صبح کے وقت ہم اس قبیلہ کے پاس پہنچے ۔ میں نے ایک شخص کا پیچھا کیا تو اس نے کہا : '' لا الہ الا اللہ ''مگر میں نے نیزہ مار کر اسے قتل کر ڈالا ۔ مجھے احساس ہوا کہ میں نے غلط کام کیا ہے ، پیغمبر ۖ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا:''اقال لا الہ الا اللہ وقتلتہ ''کیا تونے اسے ''لا الہ الا اللہ ''کہنے کے باوجود قتل کردیا ؟
میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ۖ !اس نے اسلحہ کے خوف سے کلمہ پڑھا۔ آنحضرت نے فرمایا: کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا ؟ پیغمبر ۖ نے اس بات کا اس قدر تکرار کیا کہ میں آرزو کرنے لگا کہ اے کاش! آج ہی کے دن پیدا ہوا ہوتا ( اوراس عظیم گناہ کا ارتکاب نہ کرتا )
سعد بن وقاص کہتاہے : میں اس وقت تک کسی مسلمان کو قتل نہیں کروں گا جب تک اسامہ اسے قتل نہ کرے ایک شخص نے کہا : کیا خداوند متعال نے یہ نہیں فرمایا: ( وقاتلوھم حتی لا تکون فتنة ویکون الدین کلہ اللہ )اور کافروں کو قتل کر و یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین فقط خد اہی کا رہ جائے ۔
سعد نے کہا: ہم اس لئے جنگ کرتے ہیں کہ فتنہ ختم ہو جب کہ تم اور تمہارے ساتھی اس لئے لڑتے ہوتاکہ فتنہ برپاکرسکو ۔(١)
-----v
ایڈمرل شمخانی کی مختصر یادداشت؛ امریکی انحطاط و زوال کی آٹھ دلیلیں
مریکی کی گورننگ باڈی سمجھ چکی ہے کہ ان کا ملک آج ـ کسی بھی وجہ سے ـ بڑی طاقت ہونے کے لوازمات سے محروم ہے اور عروج کے دور کی طرف پلثنا ناممکن اور ان کی رسائی سے خارج ہے۔
رہبر معظم کے نمائندے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی سیکورٹی کونسل کے سیکریٹری ایڈمرل علی شمخانی نے اپنی مختصر یادداشت میں لکھا:
1۔ گذشتہ دو مہینوں کے دوران امریکی حکام کے تین واضح اعلانات ایسے حقائق کو آشکار کررہے ہیں کہ امریکی حکمران نظام اس سے قبل اننہیں تسلیم کرنے اور ان کا اعلان کرنے کی جرات نہیں رکھتا تھا۔
2۔ سعودی عرب میں آرامکو تیل کمپنی کی تنصیبات پر یمنیوں کے ڈرون حملے اور حملہ کرنے والوں کے خلاف رد عمل دکھانے کے لئے امریکیوں پر سعودی دربار کی طرف سے شدید دباؤ کے بعد امریکی حکام نے دوٹوک الفاظ میں ان کا دباؤ مسترد کردیا اور صاف صاف کہا گیا کہ اس حملے میں سعودی عرب نشانہ بنا ہے اور امریکہ نشانہ نہیں بنا ہے۔
3۔ خطے میں پے درپے سیاسی اور عسکری ناکامیوں اس عجیب حقیقت کی رونمائی عمل میں آئی کہ امریکہ نے اس خطے میں اپنی فوجی موجودگی پر آٹھ کھرب ڈالر خرچ کر ڈال ہیں اور اعلان ہوا کہ مشرق وسطی میں امریکی مداخلت مکمل طور پر بےفائدہ اور بےثمر تھی اور امریکی اقدامات حماقت پر مبنی تھے۔
4۔ چند روز قبل شام پر ترکی جارحیت اور امریکیوں کی طرف سے اس ملک کے کرد اتحادیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے بعد، امریکی حکام نے اعتراف کیا کہ ان کے ملک نے وسیع سطح پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے جھوٹے الزام کی بنیاد پر عراق پر خونریز جنگ مسلط کی تھی اور یہ کہ مشرق وسطی کے جال میں پھنس جانے کا امریکی فیصلہ اس ملک کی تاریخ کا بدترین فیصلہ تھا۔
5۔ لگتا ہے کہ امریکی حکمران عینی اور زمینی تجربات کی بنیاد پر اس نتیجے پہنچنے ہیں کہ دنیا کی طاقت کا قاعدہ اور سیاست کا حساب و کتاب بدل گیا ہے اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ اپنی بھاری بھرکم تشہیری مہم کے باوجود، مزید، بین الاقوامی نظام کے تمام معاملات پر اپنی فوقیت اور تسلط کا دعوی نہیں کرسکتا۔
6۔ امریکہ سمجھ گیا ہے کہ اب اس کے سامنے صرف دو راستے ہیں یا صرف یہ کہ بھاری اخراجات برداشت کرکے بڑی طاقت کی خالی خولی پھیکی تصویر سینے پر سجاکر خوش ہوا کرے یا پھر حقیقت پسندی کی راہ اپنا کر عالمی حقیقت حال کو تسلیم کرے اور اس احمقانہ نمائش پر کھربوں کے اخراجات سے جان چھڑائے۔
7- بہتر بیان یہ کہ، امریکہ کی گورننگ باڈی کو اس حقیقت کو بھانپ گئی ہے کہ یہ ملک آج ـ کسی بھی وجہ سے ـ (مزید) بڑی طاقت ہونے کے اوزاروں اور وسائل سے محروم ہوچکا ہے اور عروج کے دور کی طرف پلٹنا ناممکن اور ان کی رسائی سے خارج ہے۔ "مشرق وسطی کی تقسیم در تقسیم"، "صدی کی ڈیل"، "ایران کے نظام حکومت کی تبدیلی"، "علاقے میں سعودی عرب کو پولیس مین کا عہدہ سونپنے"، "یمن کی جنگ"،"افغانستان میں امن" "شام کے بحران" جیسے تزویری منصوبوں میں امریکہ کی مکمل ناکامی پوری دنیا کے لئے ثابت ہوچکی ہے۔
8۔ امریکی گورننگ باڈی کے نہایت تلخ مگر عبرت آموز اعترافات مغربی ایشیا کے بہت سے ممالک ـ بالخصوص وہ جو عشروں سے اس علاقے میں امریکی مداخلت کے لئے راستہ ہموار کرتے آئے ہیں اور امریکیوں کے میزبان رہے ہیں ـ اس عمومی اقرار کا سبب ہوئے ہیں کہ "مشرق وسطی کے بغیر زیادہ پرامن علاقہ ہے"۔
علی شمخانی
امریکہ ، افغانستان میں جنگ بندی کا خواہاں نہیں / امن معاہدے پر دستخط کرے
افغان طالبان کے ایک سابق رہنما سید آغا اکبر نے کہا ہے کہ اگر امریکہ افغانستان میں جنگ بندی کا خواہاں ہے تو اسے امن معاہدے پر دستخط کرنے چاہییں۔۔ مہر نیوز کے ساتھ گفتگو میں سید آغا اکبر نے کہا کہ طالبان امن کے خواہاں ہیں ۔ ہم افغانستان کے انتخابات کو جائز نہیں سمجھتے۔ طالبان کے سابق رہنما نے کہا کہ امریکہ اپنے قول اور فعل میں سچا نہیں ، امریکہ متضاد پالیسیوں پر عمل کرتا ہے۔ امریکہ افغانستان میں امن کا خواہاں نہیں ۔ اکبر نے کہا کہ امریکہ افغانستان کے جعلی انتخابات کی حمایت کرتا ہے جبکہ یہ انتخابات باہمی معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ اس نے کہا کہ امریکہ مذاکرات میں سچا نہیں اور وہ خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی پالیسیوں پر گامزن ہے۔
اکبر نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں حقیقی جنگ بندی کرسکتا ہے لیکن وہ کرنا نہیں چاہتا وہ اپنی متضاد اور معاندانہ پالیسیوں پر گامزن ہے۔ اس نے کہا کہ افغانستان کے 95 فیصد عوام امن چاہتے ہیں۔