Super User

Super User

Sunday, 08 July 2012 05:44

معتزلہ

دوسری ہجری قمری کے آغاز میں واصل بن عطاء(80 -131 ) نے مذھب اعتزال کی بنیاد رکھی اس زمانے میں ارتکاب گناہ کبیرہ اور اس کے بارے میں حکم دنیوی اور اخروی کا مسئلہ مورد بحث تھا خوارج نے گناہ کبیرہ کے مرتکب ہونے والوں کو کافر اور حسن بصری نے منافق قرار دیاتھا

جبکہ مرجئہ انہیں بدستورمومن سمجھتے تھے اس درمیان واصل بن عطاء نے جو حسن بصری کے شاگرد تھے ایک نیا نظریہ اپنایا وہ یہ ہے کہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا نہ مومن ہے نہ کافر ،اس نطریے کی منزلۃ بین المنزلتین کے عنوان سے شہرت ہوئي اور واصل بن عطا نے اس نظریے کے اعلان کے بعد اپنے استاد حسن بصری کے درس سے کنارہ کشی اختیار کرلی جس کی وجہ سے ان کے پیرو معتزلہ کے طور پر پہچانے جانے لگے ۔

معتزلہ تاریخ کے نشیب و فراز میں

امویوں کے دور میں حکام عقیدہ جبر کی حمایت کرتے تھے اور چونکہ معتزلہ آزادی و ارادہ میں قدریہ کے نظریات کے حامل تھے لھذا انہوں نے نرم رویہ اپنایا لیکن امویوں کے زوال کے بعد اپنے عقائد کی ترویج کرنی شروع کی ،معتزلہ کے بانی واصل بن عطاء نے اپنے شاگردوں جیسے عبداللہ بن حارث کو مراکش اور حفص بن سالم کو خراسان کی طرف روانہ کیا ،امویوں کے بعد عمروبن عبید نے جو اعتزال کے دیگر بانیوں میں شمارہوتے ہیں اور منصور کے قریبی دوستوں میں سے تھے ان سے اور دیگر معتزلہ علماءسے حکام وقت نے زنادقہ اور ان کی الحادی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کا مطالبہ کیا البتہ یہاں یہ یاد رکھنے کی ضرورت کہ واصل بن عطاء نفس زکیہ کے قیام کی حمایت کی بناپر حکومت کے عتاب کاشکار ہوگۓ تھے اسی زمانے میں فلسفی کتب کاعربی میں ترجمہ ہوا اور اعتزالی متکلمین فلسفی نظریات سے آشنا ہوۓ تدریجا معتزلہ کے اوج کا زمانہ شروع ہوا اور ان کے آراء و عقاید حکومت کی حمایت سے رواج پانے لگۓ یا بالفاظ دیگر اعتزال حکومت کا سرکاری مذھب قرارپایا اور ان امربمعروف و نہی ازمنکر کے بارے میں ان کے عقائد کے مطابق ان کے مخالفین (اہل حدیث و حنابلہ ) کے خلاف سخت رویہ اپنایاگیا۔

سختیوں کا زمانہ (مخانفین معتزلہ کے لۓ)

مامون سے واثق باللہ کے زمانے میں معتزلہ متکلمین نے حکومت میں اثر و رسوخ پیداکرکے اپنے نظریات مسلط کرنے شروع کردۓ اور یہ کا شدت پسندی کا رخ اختیارکرگيااسی دور کو تفتیش عقائد کادور کہا جاتاہے مامون نے 218 ہجری قمری میں بغداد میں اپنے کارندے کو حکم دیا کہ عوام کو مسئلہ خلق قرآن سے آشناکریں اور جو بھی اس نظریے کو قبول نہ کرے اسے سزادی جاے ،مامون کی موت کے بعد واثق نے بھی انہی انتہا پسندانہ پالیسوں کو جاری رکھا اور نظریہ خلق قرآن کے مخالفین کو اذیت و آزار پہنچاتا رہا یہی تشد پسند طریقے آیندہ چل کر معتزلہ کے سقوط کا باعث بنے۔

معتزلہ کے عقائد

الف:الھیات، اصول مذھب معتزلہ

1- توحید : معتزلہ نے توحید و نفی صفات زائد از ذات احدیت کے مسائل میں اپنے نظریات کی بناپر خود کو موحدہ کہتے تھے ان کے یہ نظریات صفاتیہ اور مجسمہ کے مقابل ہیں یہ دو گروہ صفات ثبوتیہ کو جن میں جسمانی پہلو کا شائبہ ہوتا ظاہری معنی میں لیتے ہیں لیکن معتزلہ اس مسئلہ میں تاویل کے قائل ہیں جو قدم ذات ،نفی صفات زائد بر ذات اور نفی رویت و نفی شریک کا مستلزم ہے ۔

2- عدل :معتزلہ کو عدلیہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے انسان کے لۓ اختیار و تفویض کا اثبات کیا جو مجبرہ کے مقابل ہے ،اس اصل کے تحت خلق افعال انسان ،ذات خدا سے ظلم کی نفی ،مسئلہ تولد ،عوض ،تکلیف،لطف،مسئلہ حسن وقبح عقلی وغیرہ آتے ہیں ۔

3 -وعد و وعید

خدا کا عادل ہونا اس بات کا متقاضی ہےکہ اس پر واجب ہےکہ آخرت میں نیک اعمال انجام دینے والوں کو جزا دے اور برے کام کرنے والوں کو سزادے اس اصل کے تحت جہنم میں کافروں کا خلود ،مسئلہ شفاعت ،اور توبہ و غیرہ شامل ہیں ۔

4 -المنزلۃ بین المنزلتین :معتزلہ کاخیال ہےکہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا نہ مومن ہے نہ کافربلکہ ان مقاموں کے درمیان مقام میں ہے جس کو المنزلۃ بین المنزلتین سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

5- امربمعروف ونہی اومنکر:معتزلہ اس کے وجوب کے قائل ہیں اور ابو علی جبانی نے اوروے عقل اور ابوہاشم نے ازروے نقل اسے واجب قراردیا ہے ،ان کے نزدیک امربالمعروف اور نہی ازمنکر کے مراتب کراھت قلبی سے لیکر طاقت کے استعمال تک ہیں ۔

ب:طبیعیات ۔معتزلہ کے نزدیک جسم ذات لایتجزا سے مرکب ہے ،بو ہوامیں معلق ذرات سے عبارت ہے اور نورایسے ذرات سے مرکب ہے جو ہوا میں پھیل جاتے ہیں اور اجسام کا تداخل ایک دوسرے میں محال نہیں ہے ۔

طبقات و مشاہیر

معتزلہ بغداد و بصرہ کے دو اہم گروہوں میں تقسیم ہونے کے علاوہ بیس گروہوں میں منقسم ہیں اوران کے درمیان پانچ مذکورہ اصولوں کے علاوہ اکثر مسآئل میں اختلافات پاے جاتے ہیں ان فرقوں میں واصلیہ ،ھذیلیہ ،نظامیہ ،بشریہ ،کعبیہ ،ھشامیہ،جبانیہ ،جاحظیہ ،معمریہ ،خیاطیہ،مرداریہ ہیں ۔

تیسری صدی ہجری مین معتزلہ کے بزرگوں میں ابوھاشم (و321 )ابوالقاسم کعبی 317 جاحظ پیدائیش 225 ھ ق صاحب کتاب البیان والتبیین و کتاب البخلاء ،نظام وفات 231 ھ ق ،صاحب الرد علی الثنویہ ،چوتھی صدی ہجری میں ابوبکر احمد بن علی الاخشیدی ،پانچوین صدی ہجری میں قاضی عبدالجبار صاحب کتب شرح الاصول الخمسہ ،المغنی والمحیط بالتکلیف ،چھٹی صدی ہجری میں معتزلہ کے معروف متکلمین میں زمخشری صاحب کشاف ہیں اور ساتویں صدی ہجری میں معتزلہ کے متکلمین میں نہج البلاغہ کے معروف شارح ابن ابی الحدید کانام لیا جاسکتا ہے اور بیسویں صدی میں معتزلہ کے پیرووں میں شیخ محمد عبدہ قابل ذکر ہیں ۔

ماخذ

فرھنگ عقائد و مذاھب اسلامی ۔ آيت اللہ جعفر سبحانی

تاریخ معتزلہ محمد جعفر لنگرودی

ملل ونحل شہرستانی

تاریخ مذاھب اسلامی محمد ابوزہرہ ۔ترجمہ علی رضا ایمانی۔

جمہوریہ تاجیکستان کے دارالحکومت کے حکام نے ایک مرتبہ پھراس شہرکی مساجد میں بلند آوازسے اذان دینے پرپابندی لگادی ہے۔

رپورٹ کے مطابق تاجیکستان کے دارالحکومت کی میونسپل کمیٹی کے جدید قوانین کے مطابق یکم جولائی بروز اتوار سے اس شہرکی مساجد میں لاوڈ اسپیکروں سے اذان دینے پر پابندی ہے۔

دارالحکومت دوشنبہ کی میونسپل کمیٹی نے اس فیصلے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اونچی آواز کےساتھ اذان سے دیگرادیان کے پیروکاروں اورقائدین کواذیت ہوتی ہے لہذا اذان کی آواز فقط مسجد کےاحاطہ کے اندررہنی چاہیے۔

موصولہ رپورٹ کے مطابق دوشنبہ کے میئر"محمد سعید عبیداللہ اف" کے اس جدید قانون کے مطابق آئندہ چند دنوں کے دوران تاجیکستان کے دارالحکومت کی مساجد میں کیمرے نصب کیے جائیں گے اورماہرین کے بقول مساجد میں ان کیمروں کونصب کرنے کا مقصد جوانوں اور نوجوانوں کومسجد میں آنے سے روکنا ہے۔

میانمار میں بوزی قبائل کے دہشت گرد گروپ ‘‘ماگ'' کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کشی میں250 مسلمان جان بحق،500 زخمی اور لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہو گئے ہیں۔

انسانی حقوق کے ایک میانماری مندوب محمد نصرکے مطابق مسلمانوں کے خلاف حالیہ جارحیت میں 300 افراد لاپتہ ہوگئے ہیں جبکہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کرنے والے ہزاروں افراد کو خوراک اور بنیادی اشیاء کی قلت کے باعث سخت مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ایک ہفتہ کے دوران''ماگ‘‘ملیشیا کے دہشت گردوں نے میانمار میں مسلمانوں کے 20دیہات اور 1600 مکانات نقشے سے مٹا دیے جس کے باعث لاکھوں کی تعداد میں شہری نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔

محمد نصر نے مزید کہا ہے کہ ماگ ملیشیا کے حملوں سے مسلمان اکثریتی صوبہ اراکان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام کے بعد ہزاروں کی تعداد میں شہری سرحد پار کر کے بنگلہ دیش میں پناہ گزین کیمپوں میں جانے پر مجبور ہو گئے ہیں، تاہم بنگالی حکام کا رویہ بھی معاندانہ ہے۔''ماگ‘‘کے دہشت گردوں سے جان بچا کر بنگلہ دیش جانے والے مسلمانوں کی کشتیوں کو بنگالی پولیس واپس کر دیتی ہے۔ اس کے باوجود کم سے کم 3لاکھ افراد بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں پہنچ چکے ہیں۔

میانمار میں گزشتہ کئی ہفتوں سے مسلمانوں کیخلاف دہشت گردوں کی کارروائیوں کے باوجود عالم اسلام کی جانب سے کوئی ٹھوس ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، تاہم بعض ممالک میں مذہبی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔

پاکستانی عوام اور حکام کے شدید احتجاج کے باوجود اس ملک کے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری ہے-

پاکستان کے قبائلی علاقہ شمالي وزيرستان ميں امريکي ڈرون طیارے کے آج صبح کے حملے ميں کم از کم 6 افراد جان بحق ہوئے - یہ حملہ شمالي وزيرستان کي تحصيل شوال کے علاقے درئي نشتر ميں ايک گھر پرہوا - امريکي ڈرون طیارے نے اس گھر پر دو ميزائل داغے جسکے نتیجے میں اس میں موجود 6 افراد جان بحق ہوئے - بعض ذرائع کے مطابق اس حملے میں 4 افراد ہلاک اور دو دیگر زخمی ہوئے –

پاکستان کے قبائلی علاقوں پر امریکہ کئي برسوں سے ڈرون حملے کررہا ہے۔ امریکی ڈرون حملوں میں اب تک ہزاروں افراد جاں بحق اور دسیوں ہزار زخمی ہوچکےہیں۔ امریکہ دعوی کرتا ہےکہ وہ طالبان اور القاعدے کے دہشتگردوں کو ڈرون طیاروں سے نشانہ بناتا ہے لیکن مقامی افراد اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ امریکہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے اور ان حملوں میں مارے جانے والے زیادہ تر عام شہری ہیں جن میں معصوم بچے اور بے گناہ خواتین بھی شامل ہیں۔

بين الاقوامی گروپ: دو سال پہلے جرمنی كے صدر كرسٹين ولف نے كہا تھا: اسلام جرمن معاشرے كا حصہ ہے تو قدامت پسند عيسائی ڈيموكریٹس نے انہیں تنقيد كا نشانہ بنايا تھا۔

رپورٹ كے مطابق دو سال قبل جرمنی كے صدر كرسٹين ولف نے اسلام كو جرمن معاشرے كا حصہ قرار ديا تھا جس پر قدامت پسند عيسائی ڈيموكڑیٹس نے انہیں تنقيد كا نشانہ بنايا تھا ليكن اب جرمنی كے نئے صدر نے سابقہ صدر كرسٹين ولف كا دفاع كرتے ہوئے كہا ہے كہ مسلمان جرمن معاشرے كا حصہ ہیں ليكن اسلام ايسے نہیں ہے ليكن 40 لاكھ مسلمانوں كی آبادی اور جرمن آئين میں مذہبی آزادی كے ساتھ كيسے كہہ سكتے ہیں كہ اسلام جرمنی كا حصہ نہیں ہے۔

البتہ حال ہی میں اس حقيقت كو تسليم كرتے ہوئے سائنس اور ہيومينٹيز كونسل نے تجويز دی ہے كہ مسلمان اساتيد اور ائمہ جماعت كی تعليم كے لئے جرمنی كی يونيورسٹيز میں الہيات اسلامی كا شعبہ قائم كيا جائے۔ 1945 میں جرمنی میں 6 ہزار مسلمان رہائش پذير تھے ليكن آج جرمنی میں ۴۰ لاكھ مسلمان آباد ہیں۔

پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے نیٹو کی سپلائي لائينیں کھولنے کے فیصلے پر شدید احتجاج کیا ہے۔ ارنا کی رپورٹ کے مطابق جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ منور حسن نے نیٹو کی سپلائي لائينين کھولنے کے فیصلے پر تنقید کرتےہوئے کہا ہے کہ یہ ایک غلط اقدام ہے۔

منور حسن نے کہا کہ حکومت پاکستان نے ملک کی خود مختاری اور سلامتی کو امریکہ کے ہاتھوں فروخت کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد حکومت نیٹو سپلائي لائينوں کو بند رکھ کر نیٹو کو ڈرون حملے بند کرنے پرمجبور کرسکتی تھی اور نتیجے میں عوام کو قتل عام سے بچایا جاسکتا تھا۔

جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان میں امریکہ کی مداخلت ختم کرنے کا واحد راستہ امریکہ سے تعلقات منقطع کرنا ہے۔

یاد رہے جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر اسلامی پارٹیوں نے بھی حکومت اسلام آباد کے اس فیصلے پرکڑی تنقید کی ہے اور نیٹو کی سپلائي لائنیں بحال کرنے کو پاکستان کے قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش قراردیا ہے۔

یاد رہے افغانستان میں نیٹو کے لئے نوے فیصد رسد پاکستان کےراستے ہی جاتی ہے۔

بنگلہ دیش میں سیلاب کے باعث کم از کم 100 افراد جان بحق ہوئے ہیں –

ڈھاکہ سے ہمارے نمائندے کے مطابق بنگلہ دیش کے جنوب مشرقی علاقوں خاص طور سے چٹاگانگ بندرگاہ میں سیلاب جاری ہونے اور لینڈ سلائیڈنگ کے باعث کم از کم 100 افراد جان بحق ، 100 لاپتہ اور200 زخمی ہوئے ہیں

بنگلہ دیش کے ریسکیو ذرائع کے مطابق اس ملک کے جنوب مشرقی علاقوں میں 150 ہزار افراد سیلاب کے محاصرے میں ہیں جبکہ سیہلٹ ، درگئی بندھ اور کوریگرام کے علاقوں میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہوگئے ہیں –

بنگلہ دیش میں موسلا دھار بارشیں پانچ دنوں سے جاری ہیں اور محکمہ موسمیات کے مطابق آئندہ چند دنوں میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا

حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کے زمانۂ غیبت میں امت اسلامیہ کا ایک بڑا فریضہ یہ ہے کہ وہ امام کی صحیح پہچان اور معرفت پیدا کرے ۔ کسی بھی حقیقت کی شناخت ، اس راہ حقیقت کے بغیر کسی بھی دوسری راہ سے ممکن نہیں ہے اگر کوئی اپنے امام کو صرف اس کے تعارف نامے کی حد تک جانتا ہے تو در حقیقت وہ امام کو نہیں پہچانتا!

شیخ مفید علیہ الرحمہ نے " الارشاد " میں نقل کیا ہے : فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرزندوں میں ایک فرزند نے آپ سے عرض کی آپ اپنے تمام بچوں میں دوسروں کی نسبت موسی کو زیادہ عزیز رکھتے ہیں میں موسی کا بھائی ہوں، ہم دونوں کے دادا بھی ایک ہیں ، باپ بھی ہم دونوں کے ایک ہی ہیں: الیس اصلی و اصلہ واحدا" و ابی و ابوہ واحدا" کیا ہم دونوں کی اصل ایک نہیں کیا میرے اور اس کے باپ ایک نہیں ہیں ؟!

(پھر یہ فرق کیوں ہے ؟! ) جواب میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

انت ابنی وھو من نفسی (الارشاد جلد 2 ص 218)

تم میرے بیٹے ہو ( جیسے تمام بیٹے اپنے باپ کے بیٹے ہوتے ہیں ) لیکن وہ میرے نفس اور جان سے تعلق رکھتا ہے ۔

گویا امام کی شناخت اس کی امامت کی شناخت کے ساتھ وابستہ ہے ۔ اگر موسی کاظم علیہ السلام امام جعفر صادق علیہ السلام کی جان ہیں تو اس کی بنیاد ( سوره آل عمران کی 11 ویں آیۃ مباہلہ ) " انفسنا " ہے کہ جس کے تحت تمام ائمہ ایک دوسرے کی جان ہیں ۔ چنانچہ اس حقیقت کی پہچان لازم ہے اور یہ ہمارا اولین فریضہ ہے کیونکہ " من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیّۃ " جو شخص بھی مرگیا اور اپنے امام کو نہ پہچان سکا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے ۔

اب یہ معرفت جس قدر گہری ہوگي اتنا ہی انسان جاہلیت سے دور ہوگا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیسے پہچانیں ؟ شیخ کلینی علیہ الرحمہ نے کافی میں نقل کیا ہے معصوم کا ارشاد ہے: "اعرفوا اللہ باللہ و الرّسول بالرّسالۃ و اولی الامر بالامر بالمعروف و العدل و الاحسان " یعنی اگر تم خدا کو پہچاننا چاہتے ہو تو خود اس کی خدائی سے پہچانو اگر " الوہیت " کو پہچان گئے تو گویا اللہ کو پہچان لیا ، اگر رسول کی رسالت کو پہچان گئے تو رسول کو پہچان لیا اور اگر امارت کو، امامت کو امربالمعروف ، نہی عن المنکر اور عدل و انصاف اور احسان کو سمجھ لیا تو سمجھ لو امام کو پہچان لیا ۔ امارت کو " اولی الامر" کی پہچان کا وسیلہ قرار دینا ہوگا امامت کے ذریعے امام کو پہچاننا ہوگا یعنی امامت کی حقیقت سے امام کی حقیقت کا پتہ چلے گا، خود رسالت کی پہچان سے رسول کی پہچان حاصل ہوگي الوہیت کے وسیلے سے ہی اللہ پہچانا جا سکتا ہے ۔ اگر کسی نے اللہ کو پہچان لیا تو سمجھ میں آئے گا کہ الوہیت وحدت کی گواہی دیتی ہے الوہیّت کے ساتھ تعدد یعنی دو ، تین یا کئی خدا ہونا سازگار نہیں ہے ۔

" شھد اللہ انّہ لا الہ الّا ھو " یعنی الوہیت خود منادی وحدت ہے ۔ البتہ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ خدا کی ذات مستقل اور غنی علی الاطلاق ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے اس لئے اس کی پہچان بھی کسی غیر کی محتاج نہیں ہے اس کی پہچان خود اس کی الوہیت کی شناخت کے ساتھ وابستہ ہے ۔ لیکن جو ذات خود مستقل نہ ہو بلکہ اس کا وجود اللہ کے ساتھ وابستہ ہو اس کی شناخت اور پہچان بھی خدا کی شناخت کے ساتھ وابستہ ہوگی ۔اسی لئے کسی بھی نبی و رسول کی شناخت کےلئے الہی نبوت و رسالت کی شناخت لازم ہے امام و ولی کی شناخت کے لئے الہی امامت و ولایت کی پہچان ضروری ہے کیونکہ رسالت و امامت ایک الھی شان ہے جو ذات اقدس الہی کی طرف سے اپنے مخصوص بندوں کو ودیعت ہوئی ہے لہذا نبوت و امامت کی شناخت کے لئے سوائے اس کے کوئی اور چارہ ہی نہیں ہے کہ پہلے خدا کی شناخت ہوتا کہ اس کے ذریعے اس کے نبی و رسول اور پھر امام و ولی کی معرفت پیدا کی جائے کیونکہ ان کی جوشان بھی ہے ذات اقدس الہی کی عطا کردہ ہے اگر خداوند عالم کو خود اس کے اوصاف حسنا کے ذریعے پہچان لیں تو اس کے خلفاء کی بھی شناخت پیدا ہوجائے گي ۔انبیاء و اوصیاء بھی سمجھ میں آجائیں گے ۔

اچھا تو چلئے خدا کو پہچانا اس کے رسول اور ائمۂ معصومین کو بھی پہچان لیا اب ہمارا فریضہ کیا ہے؟ زمانۂ غیبت میں ہم کو کیا کرنا چاہئے؟

ذرارہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کرتے ہیں: اگر مجھے امام مہدی(عج) کی غیبت کا زمانہ نصیب ہو تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟! امام علیہ السلام فرماتے ہیں یہ دعا پڑھا کرو۔

" اللّھمّ عرّفنی نفسک فانّک ان لم تعرّفنی نفسک لم اعرف نبیّک ، اللّھمّ عرّفنی رسولک فانّک ان لم تعرّفنی رسولک لم اعرف حجّتک ، اللّھمّ عرّفنی حجّتک فانّک ان لم تعرّفنی حجّتک ضللت عن دینی " ( الکافی ، جلد اول ص 337)

خدایا خود کو جس حد تک بھی مجھ سے مقدور ہے اس طرح مجھ پروا کردے کہ میں تجھے پہچان سکوں کیونکہ اگر تجھ کو نہیں پہچانا تو تیرے رسول کو نہیں پہچان سکتا اور اگر تیرے پیغمبر کو نہیں پہچان سکا تو ان کے جانشین کو بھی نہیں پہچان سکوں گا اگر جانشین کو نہ پہچانا گمراہ ہوجاؤں گا۔

ایک اہم بات

پیروان اہلبیت(ع) کے نزدیک امامت کا مسئلہ ، علم کلام یعنی ایمان و اعتقاد سے تعلق رکھتا ہے اور یہ موضوع فعل خدا کے دائرے میں آتا ہے کوئي فقہی مسئلہ نہیں ہے کہ اس کا فعل مکلف سے تعلق ہو ، اسی لئے اس ذیل میں بحث یہ اٹھتی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلّم کی رحلت کے بعد کےلئے خداوند متعال نے کسی کو خلیفہ ؤ امام منصوب کیا ہے یا نہیں ؟

چنانچہ جو لوگ خود پیغمبر اسلام (ص) کی رسالت کا صحیح طور پر تجزیہ نہیں کرسکے تھے خیال کرلیا کہ امامت ایک انتخابی امر ہے اور ثقیفہ بنی ساعدہ کی مانند اجتماع کے ذریعے بھی امام اور خلیفہ معین کیا جا سکتا ہے ! اور قہری طور پر مسئلہ امامت و ولایت مسئلہ انتخاب و وکالت کی صورت اختیار کرگیا اور علم کلام کا ایک اہم اور بنیادی مسئلہ، فقہی مسئلے تک تنزل اختیار کرگیا در اصل اگر کوئی ایسا مسئلہ ہو کہ جس کا موضوع خود مکلف ( یعنی مسلمانوں ) کا فعل ہو تو وہ مسئلہ، ایک فقہی مسئلہ ہے اس صورت میں فقہی اصطلاح کے مطابق مسئلے کا موضوع فعل مکلف اور محمول فعل مکلف سے متعلق احکام میں ایک حکم ہوتا ہے لیکن جب موضوع فعل خدا ہو تو محمول خدا کے افعال سے کوئی فعل یا خدا کے اوصاف سے کوئی صفت ہوگی اور یہ خدا کے شئون میں سے ایک شان ہے اور اس طرح کے مسائل کا کلامی مسائل میں شمار ہوتا ہے نہ کہ فقہی مسائل میں ، جس طرح ذات اقدس الہی نے ہی اپنے رسول کو اپنی رسالت عطا کی ہے اور رسول کا تعین الہی فعل ہے اسی طرح خداوند متعال نے رسول کے جانشین امام و خلیفہ کو امامت و خلافت دی ہے اور امام کا تعین بھی الہی فعل ہے اور چونکہ خدا نے ہی امام کا تعین کیا ہے ایک ایسا امام دین کا متولی ہے اور خدا کی طرف سے ہمارے لئے اس کو ولی معین کیا گيا ہے ۔ البتہ اسی کلامی مسئلے کے تحت دو فقہی مسائل بھی آتے ہیں ایک تو یہ کہ خود امام پر ، کہ جس کو اللہ نے امام بنایا ہے فریضہ ہے کہ وہ امامت کو قبول کرے اور تا آخر اس کی حفاظت و پاسبانی کرتارہے۔ دوسرے یہ کہ امت اسلامیہ کے تمام مکلفین اور پیرووں پر واجب ہے کہ امام کی امامت و ولایت کو قبول کریں اور اس کی رہبری تسلیم کریں چونکہ یہ دونوں موضوع خود مکلف کے فعل سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے فقہی مسائل میں شمار ہوتے ہیں ورنہ امامت کا موضوع ایک کلامی موضوع ہے ۔

اٹلی كی حكومت نے پوری دنيا میں نسلی اور مذہبی امتياز كا مقابلہ كرنے كے لئے مانیٹرنگ كمیٹی تشكيل دی ہے۔

مذہبی آزادی كے لئے مانِٹرنگ كمیٹی كا ارادہ ہے كہ ان علاقوں میں كام شروع كرے گی جن میں مذہبی اقليتیں زيادہ مذہبی تشدد كا شكار ہوتی ہیں۔ یہ كام وزارت امور خارجہ اٹلی ، روم كی بلدیہ اور دوسری سماجی تنظيموں كی سفارش پر شروع كيا ہے۔

اس آرگنائزيشن كا رسما آغاز 29 جون كو ہوا ہے اس كا چيئرمين وليم لورے كو مقرر كيا ہے۔ وليم لورے كيتھولك راہنماؤں كی كمیٹی كے بھی صدر ہیں، یہ مانیٹرنگ كمیٹی چار اراكين اور ايك كو آرڈينیٹر پر مشتمل ہوگی جسے اٹلی كی وزارت خارجہ اور روم شہر كی بلدیہ انتخاب كرے گی۔

فرانس قومی انسٹی ٹيوٹ سے وابستہ ميگزين نے انكشاف كيا ہے كہ كوكاكولا اور پيپسی كمپنياں اپنے مشروبات میں الكوحل كا استعمال كرتی ہیں اس انكشاف كے بعد قومی مسلم يونين فرانس نے ان دونوں كمپنيوں كے مشروبات كا بائيكاٹ كرديا ہے ۔

فرانس كے اس نيشنل انسٹی ٹيوٹ كے جائزہ كے مطابق كوكاكولا اور پيپسی كے مشروبات میں ہر ايك لیٹر میں 10 ملی لیٹر الكوحل ہوتاہے ۔ قومی مسلم يونين فرانس كے چيئرمين محمد بشاری نے كہا كہ ان كمپنيوں نے مسلمانوں كو دھوكہ دياہے حالانكہ ملٹی نيشنل كمپنياں یہ جانتی ہیں كہ مسلمانوں كے نزديك الكوحل كا استعمال حرام ہے ۔