Super User
جنت البقيع اور اس ميں دفن اسلامی شخصيات
یہ قبرستان پہلے ایک باغ تھا ۔ عربی زبان میں اس جگہ کا نام ”البقیع الغرقد “ ہے بقیع یعنی مختلف درختوں کا باغ اور غرقد ایک مخصوص قسم کے درخت کا نام ہے چونکہ اس باغ میں ایسے درخت زیادہ تھے اس وجہ سے اسے بقیع غرقد کہتے تھے اس باغ میںچاروں طرف لوگوں کے گھر تھے جن میں سے ایک گھر جناب ابو طالب (ع) کے فرزند جناب عقیل (ع) کا بھی تھا جسے ”دارعقیل “ کہتے تھے بعد میں جب لوگوں نے اپنے مرحومین کو اس باغ میں اپنے گھروں کے اندر دفن کرنا شروع کیا تو ”دار عقیل “ پیغمبر اسلام (ص) کے خاندان کا قبرستان بنا اور ”مقبرہ بنی ہاشم “ کہلایا رفتہ رفتہ پورے باغ سے درخت کٹتے گئے اور قبرستان بنتا گیا۔
مقبرہ ٴبنی ہاشم ، جو ایک شخصی ملکیت ہے ، اسی میں ائمہ اطہار (ع) کے مزارتھے (1)
اس مقدس قبرستان میں دفن ہونے والے عمائد اسلام کے تذکرے سے قبل یہ بتا دینا ضروری ہے کہ بقیع کا احترام ، فریقین کے نزدیک ثابت ہے اور تمام کلمہ گویان اس کا احترام کرتے ہیں اس سلسلے میں فقط ایک روایت کافی ہے ” ام قیس بنت محصن کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں پیغمبر (ص) کے ہمراہ بقیع پہونچی تو آپ (ص) نے فرمایا : اس قبرستان سے ستر ہزار افراد محشور ہوں گے جو حساب و کتاب کے بغیر جنت میں جائیں گے ، نیز ان کے چہرے چودھویں کے چاند کی مانند دمک رہے ہوں گے“ (2)
ایسے با فضیلت قبرستان میں عالم اسلام کی ایسی عظیم الشان شخصیتیں آرام کر رہی ہیں جن کی عظمت و منزلت کو تمام مسلمان ،متفقہ طور پر قبول کرتے ہیں ۔
جنت البقيع – ايك پرانا تصوير
آیئے دیکھیں کہ وہ شخصیتیں کون ہیں :
۱)امام حسن مجتبی ٰ (ع) : آپ پیغمبر اکرم (ص) کے نواسے اور حضرات علی (ع) و فاطمہ (ع) کے بڑے صاحب زادے ہیں ۔آپ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسین (ع) نے آپ کو پیغمبراسلام (ص) کے پہلو میں دفن کرنا چاہا مگر جب ایک سرکش گروہ نے راستہ روکا اور تیربرسائے تو امام حسین (ع) نے آپ کو بقیع میں دادی کی قبر کے پاس دفن کیا ۔ اس سلسلہ میں ابن عبد البر سے روایت ہے کہ جب یہ خبر ابو ہریرہ کو ملی تو کہا : واللہ ما ھو الا ظلم ، یمنع الحسن ان ید فن مع ابیہ ؟واللہ انہ لابن رسول اللہ (ص) ( خدا کی قسم یہ سرا سر ظلم ہے کہ حسن (ع) کو باپ کے پہلو مین دفن ہونے سے روکا گیا جب کہ خداکی قسم وہ رسالت مآب صلعم کے فرزند تھے )(3)۔آپ کی مزار کے سلسلہ میں ساتویں ھجری قمری کا سیاح ابن بطوطہ اپنے سفرنامہ میں لکھتا ہے کہ :بقیع میں رسول اسلام (ص) کے چچا عباس ابن عبد المطلب اور ابوطالب کے پوتے حسن بن علی کی قبریں ہیں جن کے اوپر سونے کا قبہ ہے جو بقیع کے باہر ہی سے دکھائی دیتا ہے ۔۔۔دونوں کی قبریں زمین سے بلند ہیں اور نقش و نگار سے مزین ہیں ۔(4)ایک اور سیاح رفعت پاشا بھی نا قل ہے کہ : عباس اور حسن (ع) کی قبریں ایک ہی قبہ میں ہیں اور یہ بقیع کا سب سے بلند قبہ ہے (5) بتنونی نے لکھا ہے کہ : امام حسن (ع) کی ضریح چاندی کی ہے اور اس پر فارسی میں نقوش ہیں (6)
۲) حضرت امام زین العابدین سجاد (ع) :آ پ کا نام علی (ع) ہے اور امام حسین (ع) کے بیٹے ہیں ۔ آپ کی ولادت ۳۸ ھ میں ہوئی آپ کے زمانے کا مشہور محدث و فقیہ محمد بن مسلم زہری آپ کے بارے میں کہتا ہے کہ :ما رایت قرشیا اورع منہ ولا افضل(7) (میں نے قریش میں سے کسی کو آپ سے بڑھکر پرہیزگار اور بلند مرتبہ نہیں دیکھا ) یہی نہیں بلکہ کہتا ہے کہ : ما رایت افقہ منہ(8) ، نیز یہ کہتا ہے کہ : علی (ع) ابن الحسین (ع) اعظم الناس علیّ منة (9) (دنیا میں سب سے زیادہ میری گردن پر جس کا حق ہے وہ علی بن حسین (ع) کی ذات ہے )۔ آپ کی شہادت ۴ ۹ ء ھ میں ۲۵ محرم الحرام کو ہوئی اور بقیع میں چچا امام حسن (ع) کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ رفعت پاشا نے اپنے سفر نامے میں ذکر کیا ہے کہ امام حسن (ع) کے پہلو میں ایک اور قبر ہے جو امام سجاد (ع) کی ہے جس کے اوپر قبہ ہے ۔
۳)حضرت امام محمد باقر (ع) : آپ وصی اور امام سجاد (ع) کے بیٹے ہیں نیز امام حسن (ع) کے نواسے اور امام حسین (ع) کے پوتے ہیں ۔ ۵۶ ھ میں ولادت اور ۱۱۴ ء میں شہادت ہوئی ۔ واقعہ کربلا میں آپ کا سن مبارک چار سال تھا ، ابن حجرھیثمی (الصواعق المحرقہ کے مصنف ) کا بیا ن ہے کہ : امام محمد باقر (ع) سے علم و معار ف ، حقائق احکام ، حکمت اور لطائف کے ایسے چشمے پھوٹے جن کا انکا ر بے بصیرت یا بد سیرت و بے بہرہ انسان ہی کر سکتا ہے ۔ اسی وجہ سے یہ کہا گیا ہے کہ آپ علم کو شگافتہ کرکے اسے جمع کرنے والے ہیں یہی نہیں بلکہ آپ ہی پرچم علم کے آشکار و بلند کرنے والے ہیں ۔ (۱0) اسی طرح عبد اللہ ابن عطاء کا بیان ہے کہ میں نے علم و فقہ کے مشہور عالم حکم بن عتبہ (سنی عالم دین ) کو امام محمد باقر (ع) کے سامنے اس طرح زانوئے ادب تہ کرکے آپ سے علمی استفادہ کرتے ہوئے دیکھا جیسے کوئی بچہ کسی بہت عظیم استاد کے سامنے بیٹھا ہو ۔ (۱1)
آپ کی عظمت کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت رسول اکرم نے جناب جابر بن عبد اللہ انصاری جیسے جلیل القدر صحابی سے فرمایا تھا کہ : فان ادرکتہ یا جا بر فا قراٴ ہ منی السلام (۱2) (ائے جابر اگر باقر سے ملاقات ہو تو میری طرف سے سلام کہنا) اسی وجہ سے جناب جابر آپ کی دست بوسی میں افتخار محسوس کرتے تھے اور اکثر و بیشتر مسجد النبوی میں بیٹھ کر رسالت پناہ کی طرف سے سلام پہونچانے کی فرمایش کا تذکرتے تھے (۱3)
۴) حضرت امام جعفر صادق (ع) : آپ امام محمد باقر (ع)کے فرزند ارجمند ہیں ۔ ۸۳ھ میں ولادت اور ۱۴۸ء میں شہادت ہوئی آپ کے سلسلہ میں حنفی فرقہ کے پیشوا امام ابوحنیفہ کا بیان ہے کہ ”میں نے نہیں دیکھا کہ کسی کے پاس امام جعفر صادق (ع) سے زیادہ علم ہو “(۱4) اسی طرح مالکی فرقہ کے امام مالک کہتے ہیں : کسی کو علم و عبادت و تقوی ٰ میں امام جعفر صادق (ع) سے بڑھ کر نہ تو کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے ذ ہن میں یہ بات آسکتی ہے ۔(۱5) نیزآٹھویں قرن میں لکھی جانے والی کتاب ”الصواعق المحرقة “کے مصنف نے لکھا ہے کہ : (امام ) صادق (ع) سے اس قدر علوم صادر ہوئے کہ لوگوں کے زبان زد ہو گیا تھا یہی نہیں بلکہ بقیہ فرقوں کے پیشوا جیسے یحییٰ بن سعید ، مالک، سفیان ثوری ، ابو حنیفہ ․․․ و غیرہ آپ سے نقل روایت کرتے تھے (۱6) مشہور مورخ ابن خلکان رقمطراز ہےکہ ”وکان تلمیذ ہ ابو موسیٰ جابر بن حیان “(۱7) (مشهور زمانہ شخصیت اورعلم الجبرا کے موجد جابر بن حیان آپ کے شاگرد تھے ) .
6) جناب حضرت فاطمه زهرا (س) بنت رسول الله (ص) : سني حضرات كا عقيده ہے كه جناب حضرت فاطمه زهرا (س) بنت رسول الله (ص) بقيع ميں دفن ہیں اور جناب فاطمه بنت اسد بقيع ميں اور جگه ہیں .
7) جناب فاطمہ بنت اسد : آپ حضرت علی (ع) کی ماں ہیں اور آپ ہی نے رسالت پناہ صلعم کی والدہ کے انتقال کے بعد آنحضرت کی پرورش فرمائی تھی آنحضرت کو آپ سے بیحد انسیت و محبت تھی اور ٓاپ بھی اپنی اولاد سے زیادہ رسالت مآب کا خیال رکھتی تھیں - ہجرت کے وقت حضرت علی (ع) کے ہمراہ مکہ تشریف لائیں اور آخر عمر تک وہیں رہیں۔ آپ کے انتقال پررسالت مآب کو بہت زیادہ صدمہ ہوا تھا اور آپ نے کفن کے لئے اپنا کرتا عنایت فرمایاتھا نیز دفن سے قبل چند لمحوں کے لئے قبر میں لیٹے تھے اور قرآن کی تلاوت فرمائی تھی ، نماز میت پڑھنے کے بعد آپ نے فرمایا تھا : کسی بھی انسان کو فشار قبر سے نجات نہیں ہے سوائے فاطمہ بنت اسد کے - نیز آپ نے قبر دیکھ کر فرمایا تھا ”جزاک اللہ من ام و ربیبة خیرا ، فنعم الام و نعم الربیبة کنت لی“(۱8)
8)جناب عباس ابن عبد المطلب : آپ رسول اسلام (ص) کے چچا اور مکہ کے شرفاء و بزرگان میں سے تھے . عام الفیل سے تین سال قبل ولادت ہوئی اور ۳۳ء ھ میں انتقال ہوا آپ عالم اسلام کی متفق فیہ شخصیت ہیں ۔ (19)
9) جناب رقيه ، ام کلثوم ، زينب : آپ تينوں کی پرورش جناب رسالت مآب اور حضرت خديجہ (ع) نے فرمائی تھی ، اسی وجہ سے بعض مورخین نے آپ کی قبروں کو ” قبور بنات رسول اللہ“ کے نام سے ياد کیا ہے . (2۰)
10) ازواج پیغمبر معظم (ص) کی قبریں : بقیع میں مندرجہ ذیل ازواج محترم کی قبریں ہیں
_ جناب زینب بنت خزیمہ
_ جناب ریحانہ بنت زید
_ جناب ماریہٴ قبطیہ
_ جناب زینب بنت جحش
_ جناب عائشه بنت ابابكر
_ جناب ام حبیبہ
_ جناب حفصہ بنت عمر
_ جناب سودہ بنت زمعہ
_ جناب صفیہ بنت حی
_ جناب جویریہ بنت حارث
_ جناب ام سلمہ
11) جناب عقیل ابن ابی طالب : آپ حضرت علی (ع) کے بڑے بھا ئی تھے اورنبی کریم (ص) آپ کو بہت چاہتے تھے عرب کے مشہور نساب تھے اور آپ ہی نے حضرت امیر (ع) کا عقد جناب ام البنین سے کرایا تھا ۔ انتقال کے بعد آپ کو آپ کے گھر (دارعقیل ) میں دفن کیا گیا . (۲۱)
12)جناب عبداللہ ابن جعفر : آپ جناب جعفر طیار ذوالجناحین کے بڑے صاحبزادے اور امام علی (ع) کے داماد (جناب زینب سلام اللہ علیھا کے شوہر ) تھے آپ نے دو بیٹوں محمد اور عون کو کربلا اس لئے بھیجاتھا تا کہ امام حسین (ع) پر اپنی جان نثار کرسکیں آپ کا انتقال ۸۰ ء ھ میں ہوا اور بقیع میں چچا عقیل کے پہلو میں دفن کیا گیا ، ابن بطوطہ کے سفر نامہ میں آپ کی قبر کا ذکر ہے (۲۲) اهلسنت عالم سمہودی نے لکھا ہے : چونکہ آپ بہت سخی تھے اس وجہ سے خدا وند کریم نے آ پ کی قبر کو لوگوں کی دعائیں قبول ہونے کی جگہ قرار دیا ھے(۲۳) ۔
13) جناب امام مالك ابن انس اور جناب نافع
14)جناب ام البنین: آپ حضرت علی (ع) کی زوجہ اور حضرت ابوالفضل عباس (ع) کی والدہ ہیں ، صاحب ”معالم مکہ والمدینہ“ کے مطابق آپ کا نام فاطمہ تھا مگر صرف اس وجہ سے آپ نے اپنا نام بدل دیا کہ مبادا حضرات حسن و حسین (ع) کو شہزادی کونین (س) نہ یاد آجائیں اور تکلیف پہونچے ۔ (۲۴) آپ ان دو شہزادوں سے بے پناہ محبت کرتی تھیں ۔ واقعہ کربلا میں آپ کے چار بیٹوں نے امام حسین (ع) پر اپنی جان نثار کی ہے ۔ انتقال کے بعد آپکو بقیع میں رسالت مآب کی پھوپھیوں کے بغل میں دفن کیا گیا ، یہ قبر موجودہ قبرستان کی بائیں جانب والی دیوار سے متصل ہے اور زائریں یہاں کثیر تعداد میں آتے ہیں ۔
۱5)جناب صفیہ بنت عبد المطلب :آپ رسول اسلام (ص) کی پھوپھی اور عوام بن خولد کی زوجہ تھیں ، آپ ایک با شہامت اور شجاع خاتون تھیں ایک جنگ میں جب بنی قریظہ کا ایک یہودی ، مسلمان خواتین کے تجسس میں، خیموں میں گھس آیا تو آپ نے حسان بن ثابت سے اس کو قتل کرنے کے لئے کہا مگر جب انکی ہمت نہ پڑی تو آپ خود بہ نفس نفیس اٹھیں اور حملہ کر کے اسے قتل کر دیا ۔ آپ کا انتقال ۲۰ ھ میں ہوا آپ کو بقیع میں مغیرہ بن شعبہ کے گھر کے پاس دفن کیا گیا ․پہلے یہ جگہ ”بقیع العمات“کے نام سے مشہور تھی۔ مورخین اور سیاحوں کے نقل سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے تعویذ قبر واضح تھی (۲۵)۔
۱6)جناب عاتکہ بنت عبد المطلب : آپ رسول اللہ (ص ) کی پھوپھی تھیں آپ کا انتقال مدینہ منورہ میں ہوا اور بہن صفیہ کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ رفعت پاشا نے اپنے سفر نامہ میں آپ کی قبر کا تذکرہ کیا ہے (۲۶) ۔
۱7)جناب ابراہیم بن رسول اللہ (ص): آپ کی ولادت ساتویں ھجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی مگر سولہ سترہ ماہ بعد ہی آپ کا انتقال ہو گیا اس موقع پر رسول (ص) مقبول نے فرمایاتھا :ادفنو ہ فی البقیع فان لہ مرضعا فی الجنة تتم رضاعہ (۲۸)(اس کو بقیع میں دفن کرو بے شک اس کی دودھ پلانے والی جنت میں موجود ہے جو اس کی رضاعت کو مکمل کرے گی )۔ آپ کے دفن ہونے کے بعد بقیع کے تمام درختوں کو کاٹ دیا گیا اور اس کے بعد ہر قبیلے نے اپنی جگہ مخصوص کردی جس سے یہ باغ قبرستان بن گیا ۔
18)شہداء احد : یوں تو میدان احد میں شہید ہونے والے فقط ستر افراد تھے مگر بعض شدید زخموں کی وجہ سے مدینہ میں آکر شہید ہوئے ان شہداء کو بقیع میں ایک ہی جگہ دفن کیا گیا جو جناب ابراہیم کی قبر سے تقریبا ۲۰ میٹر کے فاصلے پر ہے اب فقط ان شہد اء کی قبروں کا نشان باقی رہ گیا ہے ۔
19) واقعہ حرہ کے شہداء : کربلا میں امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد مدینے میں ایک ایسی بغاوت کی آندھی اٹھی جس سے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ بنی امیہ کے خلاف پورا عالم اسلام اٹھ کھڑا ہوگا اور خلافت تبدیل ہو جائیگی مگر اہل مدینہ کو خاموش کرنے کے لئے یزید نے مسلم بن عقبہ کی سپہ سالاری میں ایک ایسا لشکر بھیجا جس نے مدینہ میں گھس کر وہ ظلم ڈھائے جن کے بیان سے زبان و قلم قاصر ہیں ۔ اس واقعہ میں شہید ہونے والوں کو بقیع میں ایک ساتھ دفن کیا گیا اس جگہ پہلے ایک چہار دیواری اور چھت تھی مگر اب چھت کو ختم کر کے فقط چھوٹی چھوٹی دیواریں چھوڑ دی گئی ہیں ۔
19) جناب عثمان بن عفان : آپ حضور پاك ( ص) کے وفادار صحابي اور تيسري خليفه تھے . آپ جنت البقيع کے درميانه دفن ہیں
20) جناب عثمان بن مظعون : آپ رسالت مآب (ص) کے باوفا و باعظمت صحابی تھے آپ نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا جب فقط ۱۳ آ دمی مسلمان تھے اس طرح آپ کائنات کے چودہویں مسلما ن تھے۔ آپ نے پہلی ہجرت میں اپنے صاحبزادے کے ساتھ شرکت فرمائی پھر اس کے بعد مدینہ منورہ بھی ہجرت کرکے آئے ۔ جنگ بدر میں بھی شریک تھے ، عبادت میں بھی بے نظیر تھے آپ کا انتقال ۲ ھ ق میں ہوا اس طرح آپ پہلے مہاجر ہیں جسکا انتقال مدینہ میں ہوا ۔ جناب عائشہ سے منقول روایت کے مطابق حضرت رسول اسلام (ص) نے آپ کے انتقال کے بعد آپ کی میت کا بوسہ لیا ، نیز آپ (ص) شدت سے گریہ فرما رہے تھے (۳۱)۔ آنحضرت نے جناب عثمان کی قبر پر ایک پتھر نصب کیاتھا تا کہ علامت رہے مگر مروان بن حکم نے اپنی مدینہ کی حکومت کے زمانے میں اس کو اکھاڑ کر پھینک دیا تھا جس پر بنی امیہ نے اس کی بڑی مذمت کی تھی ۔ (۳۲)
21)جناب حلیمہ سعدیہ : آپ رسول اسلام (ص) کی رضاعی ماں تھیں آپ کا تعلق قبیلہ سعد بن بکر سے تھا انتقال مدینہ میں ہوا اور بقیع کے شمال مشرقی سرے پر دفن ہوئیں ۔ رسالت مآب (ص) اکثر و بیشتر یہاں آکر آپ کی زیارت فرماتے تھے ․(۲۷)
22) جناب اسمعٰیل بن صادق (ع) : آپ امام صادق (ع) کے بڑے صاحبزادے تھے اور آنحضرت (ع) کی زندگی ہی میں آپ کا انتقال ہو گیا تھا ۔ سمہودی نے لکھا ہے کہ آپ کی قبر زمین سے کافی بلند تھی(۳۳) اسی طرح مطری نے ذکر کیا ہے کہ جناب اسمعٰیل کی قبر اور اس کے شمال کا حصہ (امام) سجاد (ع) کا گھر تھا جس کے بعض حصے میں مسجد بنائی گئی تھی جس کا نام مسجد زین العابدین تھا (۳۴) ۱۳۹۵ ھ ق میں جب سعودی حکومت نے مدینہ کی شاہراہوں کو وسیع کرنا شروع کیا تو آپ کی قبر کھود ڈالی مگر جب اندر سے سالم بدن بر آمد ہوا تو اسے بقیع میں شہداء احد کے قریب دفن کیا گیا ۔
23) جنا ب ابو سعید حذری : رسالت پناہ کے جاں نثار اور حضرت علی (ع) کے عاشق و پیرو تھے ۔مدینہ میں انتقال ہو ا اور حسب وصیت بقیع میں دفن ہوے ۔رفعت پاشا نے اپنے سفر نامہ میں لکھا ہے کہ آپ کی قبر کا شمار معروف قبروں میں ہوتا ہے ۔(۳۶)امام رضا (ع) نے مامون رشید کو اسلام کی حقیقت سے متعلق جوخط لکھا تھااسمیں جناب ابو سعید حذری کو ثابت قدم اور با ایمان قرار دیتے ہوے آپ کے لئے رضی اللہ عنھم و رضوان اللہ علیھم کی لفظیں استعمال فرمائی تھیں (۳۷)
24)جناب عبد اللہ بن مسعود : آپ بزرگ صحابی اور قرآن مجید کے مشہور قاری تھے (۳۸)آپکا انتقال ۳۳ ھ ق میں ہوا تھا آپ نے وصيت فرمائی تھی کہ جناب عثمان بن مظعون کے پہلو میں دفن کیا جائے اور کہا تھا کہ : ”فانہ کان فقےھا “( بے شک عثمان ابن مظعون فقيه تھے) رفعت پاشا کے سفر نامہ میں آپ کی قبر کا تذکرہ ہے ۔
25) جناب محمد بن حنفیہ : آپ حضرت امیر (ع) کے بہادر صاحبزادے تھے۔ آپ کو آپ کی ماں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے امام حسین (ع) کا وہ مشہور خط جسمیں آپ نے کربلا کی طرف سفر کا سبب بیان فرمایا ہے ؛آپ ہی کے نام لکھا گیا ہے ۔(39)آپ کا انتقال ۸۳ ء ھ میں ہوا اور بقیع میں دفن کیا گیا ۔
26)جناب جابر بن عبد اللہ انصاری : آپ رسالت پناہ (ص) کے جلیل القدر صحابی تھے آنحضرت (ص) کی ہجرت سے پندرہ سال قبل ، مدینہ میں پیدا ہوے اور آپ (ص) کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے اسلام لا چکے تھے ۔ آنحضرت (ص) نے امام محمد باقر (ع) تک سلام پہونچانے کا ذمہ آپ ہی کو دیا تھا آپ نے ہمیشہ اہل بیت (ع) کی محبت کادم بھرا ۔ امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد کربلا کا پہلا زائر بننے کا شرف آپ ہی کو ملا مگر حجاج بن یوسف ثقفی نے محمد وآل محمد (ع) کی محبت کے جرم میں بدن کو جلوا ڈالا تھا آپ کا انتقال ۷۷ ھ میں ہوا اور بقیع میں دفن ہوے (۴0)
27)جناب مقداد بن اسود :حضرت رسول خدا(ص) کے نہایت ہی معتبر صحابی تھے۔ آخری لمحہ تک حضرت امیر(ع) کی امامت پر باقی رہے اور آپ کی طرف سے دفاع بھی کرتے رہے امام محمد باقر (ع) کی روایت کے مطابق آپ کا شمار ان جلیل القدر اصحا ب میں ہوتا ہے جو پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد ثابت قدم اور با ایمان رہے (۴1)
حوالہ جات:
(1)معالم مکہ والمدینہ ص ۴۴۱
(2)صحیح بخاری ج ۴ ح ۴ و سنن نسائی ج ۴ ح ۹۱وسنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۴۹۳
(3) وفاء الوفاء ج ۴ ص ۹۰۹
(4) رحلة ابن بطوطہ ج ۱ ص ا۴۴
(5) مرآة الحرمین ج۱ ص ۴۲۶
(6) گنجینہ ہای ویران ص ۱۲۷
7) و (8) و (9) البدایة والنھایة ج ۹ ص ۱۲۲و ۱۲۴ و ۱۲۶
(۱0) الصواعق المحرقة ص ۱۱۸
(۱1) تذکرة الخواص ص ۳۳۷
(۱2)و(۱3)تذکرة الخواص ص ۳۰۳
(۱4)تذکرة الحفاظ ج ۱ص ۱۶۶
(۱5)الامام الصادق والمذاھب الاربعہ ج ۱ ص ۵۳
(۱6)الصواعق المحرقہ ص ۱۱۸
(۱7)وفیات الاعےان ج ۱ ص ۳۲۷
(۱8)معالم مکہ والمدینہ ص ۴۲۸
(19) رحلة ابن بطوطہ ج ۱ ص ۱۴۳، مرآة الحرمین ج ۱ ص ۴۲۶، المرحلة الحجازیہ و وفاء الوفاء ج ۳
(2۰)مرآة الحرمین ج۱ ص۴۲۶
(21) معالم مکہ والمدینہ ص ۴۴۱
(۲۲) رحلة ابن بطوطہ ج ۱ ص ۱۴۴
(۲۳) معالم مکہ والمدینہ ص ۴۴۱
(۲۴) معالم مکہ والمدینہ ص ۴۴۰
(۲۵) رحلة ابن بطوطہ ج ۱ ص ۱۴۴
(۲۶) مرآة الحرمین ج ۱ ص ۴۲۶
(۲۷) معالم مکہ والمدینہ ص۴۴۳
(۲۸) معالم مکہ والمدینہ ص ۴۴۳
(۲۹) رحلة ابن بطوطہ ج ۱ ص ۱۴۴
(۳۰) مرآة الحرمین ج ۱ ص ۴۲۶
(۳۱) معالم مکہ والمدینہ ص۴۲۲
(۳۲) معالم مکہ والمدینہ ص۴۴۳
(۳۳) معالم مکہ والمدینہ ص۴۴۵
(۳۴) معالم مکہ والمدینہ ص۴۲۶
(۳۵) معالم مکہ والمدینہ ص۴۴۵
(۳۶) مرآة الحرمین ج ۱ ص ۴۲۶
(۳۷)عیون اخبار الر ضا (ع) ص ۱۲۶باب ۳۵حدیث ۱
(۳۸)سیرہ پیشوایان ص ۳۲۴
(39)بحار الانوار ج ۴۴ص ۳۲۹
(۴0)سوگنامہ آل محمد (ص) ص ۵۰۷
(۴1)معجم رجال الحدیث ج ۱۸ص ۳۱۵
سچا دوست كون ہے؟!
قائد انقلاب اسلامي نے بيس دي تيرہ سو نواسي ہجري شمسي مطابق پانچ صفر چودہ سو بتيس ہجري قمري كو فقہ كے اجتہادي و استنباطي درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام كا ايك قول مع تشريح بيان كيا۔ اس روايت ميں حقيقي اور سچے دوست كي خصوصيات بيان كي گئي ہيں۔ يہ قول زريں، اس كا ترجمہ اور شرح پيش خدمت ہے؛
قائد انقلاب اسلامي نے بيس دي تيرہ سو نواسي ہجري شمسي مطابق پانچ صفر چودہ سو بتيس ہجري قمري كو فقہ كے اجتہادي و استنباطي درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام كا ايك قول مع تشريح بيان كيا۔ اس روايت ميں حقيقي اور سچے دوست كي خصوصيات بيان كي گئي ہيں۔ يہ قول زريں، اس كا ترجمہ اور شرح پيش خدمت ہے؛
"عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ لَا تَكُونُ الصَّدَاقَةُ إِلَّا بِحُدُودِهَا فَمَنْ كَانَتْ فِيهِ هَذِهِ الْحُدُودُ أَوْ شَيْءٌ مِنْهَا فَانْسُبْهُ إِلَي الصَّدَاقَةِ وَ مَنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ شَيْءٌ مِنْهَا فَلَا تَنْسُبْهُ إِلَي شَيْءٍ مِنَ الصَّدَاقَةِ فَأَوَّلُهَا أَنْ تَكُونَ سَرِيرَتُهُ وَ عَلَانِيَتُهُ لَكَ وَاحِدَةً وَ الثَّانِي أَنْ يَرَي زَيْنَكَ زَيْنَهُ وَ شَيْنَكَ شَيْنَهُ وَ الثَّالِثَةُ أَنْ لَا تُغَيِّرَهُ عَلَيْكَ وِلَايَةٌ وَ لَا مَالٌ وَ الرَّابِعَةُ أَنْ لَا يَمْنَعَكَ شَيْئاً تَنَالُهُ مَقْدُرَتُهُ وَ الْخَامِسَةُ وَ هِيَ تَجْمَعُ هَذِهِ الْخِصَالَ أَنْ لَا يُسْلِمَكَ عِنْدَ النَّكَبَات"
شافي، ص 651
ترجمہ و تشريح: كتاب الكافي ميں حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے منقول ہے كہ دوستي كي كچه شرطيں ہوتي ہيں۔ اگر يہ شرائط موجود ہيں تو اس دوستي سے وہ تمام شرعي ثمرات اور اس كے نتيجے ميں ايماني اخوت حاصل ہوگي جو دوستي كا فطري نتيجہ ہوتي ہے، ورنہ نہيں۔ "فمن كانت فيه هذه الحدود او شي ء منها فانسبه الي الصّداقة" اب اگر كسي انسان ميں يہ شرطيں اور خصوصيتيں مكمل طور پر نہ سہي ايك حد تك بهي موجود ہوں تو بهي وہ دوستي كا اہل بن سكتا ہے۔
"و من لم يكن فيه شي ء منها فلا تنسبه الي شي ء من الصّداقة فأوّلها ان تكون سريرته و علانيته لك واحدة" اور جس ميں يہ شرطيں بالكل ندارد ہوں اسے دوست كا نام مت دو۔ پہلي شرط يہ ہے كہ اس كا ظاہر و باطن تمہارے لئے يكساں ہو۔ ايسا نہ ہو كہ بظاہر تو تمہاري دوستي كا دم بهرے ليكن بباطن تمہارا دشمن ہو يا يہ كہ تمہارا خير خواہ نہ ہو۔ يہ دوستي كي پہلي شرط ہے۔
"و الثّانية ان يري زينك زينه و شينك شينه" دوسري شرط يہ ہے كہ تمہاري اچهائي كو اپني اچهائي سمجهے اور تمہارے عيب كو اپنا عيب شمار كرے۔ اگر تم نے كوئي بڑا علمي مرتبہ حاصل كر ليا يا كوئي كار نماياں انجام ديا جس سے تہماري شان و شوكت ميں اضافہ ہوا تو اسے وہ اپني شان ميں اضافہ سمجهے اور اگر خدانخواستہ تمہارے اندر كوئي بات، عادت يا عمل ايسا ہے جو عيب سجمها جاتا ہے تو اسے وہ اپنا عيب شمار كرے۔ ظاہر ہے كہ اس طرز فكر كے كچه خاص نتائج اور اثرات ہوں گے۔ وہ اس عيب كو برطرف كرنے كي كوشش كرے گا يا كم از كم اس كي پردہ پوشي كرے گا۔ ايسا نہ ہو كہ اسے تہماري كسي لغزش اور غلطي كا انتظار رہے اور جيسے ہي تم سے كوئي غلطي سرزد ہو زير لب مسكرانا شروع كر دے۔ ايسا شخص دوست نہيں ہو سكتا۔
"و الثّالثة ان لاتغيّره عليك ولاية و لا مال" تيسري شرط يہ ہے كہ اگر اسے كوئي مقام، طاقت يا اختيار حاصل ہو گيا ہے يا پهر دولت حاصل ہو گئي، اس كي مالي حالت بہتر ہو گئي ہے تو وہ بدل نہ جائے۔ بعض لوگ اس قسم كے ہوتے ہيں كہ دوستي كا دم بهرتے نہيں تهكتے ليكن جيسي ہي مال و منال ہاته لگ گيا، كچه دولت حاصل ہو گئي تو پهر ان كے مزاج ہي نہيں ملتے، وہ پہچاننے سے بهي انكار كر ديتے ہيں۔ ايسے پيش آتے ہيں جيسے كبهي شناسائي كي كوئي رمق بهي نہ رہي ہو۔ ايسے لوگوں كو ہم نے ديكها ہے۔ تو ايسا نہيں ہونا چاہئے۔ مال و دولت كا حصول اسے بدل نہ دے۔
"و الرّابعة ان لا يمنعك شيئا تناله مقدرته" چوتهي شرط يہ ہے كہ جو كچه بهي اس سے بن پڑے وہ تمہارے لئے انجام دينے سے دريغ نہ كرے۔ تمہاري كوئي خدمت كر سكتا ہے، كوئي مدد كر سكتا ہے، كوئي سفارش كر سكتا ہے، تمہارے لئے ثالثي كر سكتا ہے، كوئي كام كر سكتا ہے تو ہرگز تامل ميں نہ پڑے۔
"و الخامسة و هي تجمع هذه الخصال ان لا يسلمك عند النّكبات" پانچويں شرط يہ ہے كہ ناسازگار حالات ميں، ايسے عالم ميں جب دنيا نے تم سے منہ پهير ليا ہے تمہيں اكيلا نہ چهوڑے۔ اگر تم كسي مصيبت ميں پهنس گئے ہو، كسي بيماري ميں مبتلا ہو گئے ہو، سياسي، اقتصادي اور دوسري گوناگوں مشكلات جو پيدا ہو جاتي ہيں، ہم طرح طرح كي مشكلات ديكه رہے ہيں جو ماضي ميں نظر نہيں آتي تهيں ليكن آج نظروں كے سامنے ہيں، انواع و اقسام كي آزمائشيں ہيں، اگر تم ان ميں گرفتار ہو گئے ہو تو تمہيں ترك نہ كر دے بلكہ مدد كرنے پر آمادہ ہو جائے۔
حزب اللہ کي توانائي صيہوني حکومت کے تصور سے باہر ہے
لبنان کي پارليمنٹ ميں اسلامي مزاحمتي دھڑے حزب اللہ کے پارليماني ليڈر نے کہا ہے کہ حزب اللہ کي دفاعي قوت اس سے کہيں زيادہ ہے جتنا اسرائيل تصور کرتا ہے -
محمد رعد نے زور دے کر کہا کہ حزب اللہ نے صہيوني دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے جو توانائي اور صلاحيت حاص کرلي ہے وہ اسرائيل کے تصور سے کہيں زيادہ ہے - محمد رعد نے کہا کہ لبنان پر ہر طرح کي ممکنہ جارحيت کے جواب ميں حزب اللہ دشمن کو يہ احساس کرنے پر مجبور کردے گي کہ جب تک لبنان ميں اسلامي مزاحمت ہے اس وقت تک اس کو اپنے کسي بھي مقصد ميں کاميابي حاصل نہيں ہوسکے گي -
لبنان کي پارليمنٹ ميں حزب اللہ کے پارليماني ليڈر محمد رعد نے زور دے کر کہا کہ اسلامي مزاحمت سبھي لبنانيوں کي جانب اپنا ہاتھ بڑھاتي ہے حتي ان لوگوں کي جانب بھي جن سے اس کے سياسي اختلافات ہيں -
محمد رعد نے اس اميد کا اظہار کيا کہ حزب اللہ اور لبنان کي فوج کے لئے ايسا ماحول سازگار ہوگا کہ جس سے ملک ميں استحکام کو تقويت ملے تاکہ ہر طرح کے ممکنہ حملوں کا مقابلہ کيا جاسکے-
آمنہ بنت الہديٰ ، ايک جليل القدرخاتون
يہ بات صدر اسلام کي خواتين ہي سے مخصوص نہيں تھي بلکہ کفر اور ظلم و تشدد کے سياہ ترين دور ميں بھي يہ سب ممکن ہے ۔ اگر ايک گھرانے نے اپني بيٹي کي اچھي طرح تربيت کي ہے تو يہ بيٹي ايک عظيم انسان بني ہے۔ اس کي زندہ مثاليں ايران، ايران سے باہر اور خود ہمارے زمانے ميں موجود تھيں۔ ہمارے اسي زمانے ميں (اسلامي انقلاب کي کاميابي سے قبل) ايک جوان، شجاع ،عالمہ ، مفکر اور ہنرمند خاتون ’’بنت الہديٰ‘‘ (آيت اللہ سيد محمد باقر شہيد کي خواہر) نے پوري تاريخ کو ہلا کر رکھ ديا، وہ مظلوم عراق ميں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے ميں کامياب ہوئيں اور درجہ شہادت کو حاصل کيا۔ بنت الہديٰ جيسي خاتون کي عظمت و شجاعت، عظيم مردوں ميں سے کسي ايک سے بھي کم نہيں ہے۔ اُن کي فعاليت ايک زنانہ فعاليت تھي اور ان کے برادر کي جد و جہد و فعاليت ايک مردانہ کوشش تھي ليکن دونوں کي جد و جہد و فعاليت دراصل کمال کے حصول اور ان دونوں انسانوں کي ذات اور شخصيت کے جوہر و عظمت کي عکاسي کرتي تھي۔ اس قسم کي خواتين کي تربيت و پرورش کرني چاہيے۔
خود ہمارے معاشرے ميں بھي ان جيسي خواتين کي تعداد بہت زيادہ ہے۔ شاہي ظلم کے زمانے ميں کم و بيش ايسي مثاليں ہمارے پاس موجود ہيں۔ شاہي حکومت سے مقابلے اور اسلامي نظام کے قيام کے زمانے ميں بہت سي عظيم خواتين تھيں۔ ان عظيم القدر خواتين نے اپنے دامن ميں شہدا کي پرورش کي، انہوں نے اپنے شوہروں يا فرزندوں کو فداکار انسانوں کي صورت ميں معاشرے کو تحويل ديا تاکہ وہ اپنے وطن و انقلاب اور اپني قوم اور اُس کي عزت و آبرو کا دفاع کر سکيں۔ يہ سب ان عظيم خواتين کا صلہ ہے اور يہ خواتين بڑے اور عظيم کاموں کو انجام دينے ميں کامياب ہوئي ہيں کہ جن کي ايک کثير تعداد سے ميں خود آشنا ہوں۔
نام کتاب عورت ، گوہر ہستي
صاحب اثر حضرت آيت اللہ العظميٰ سيد علي حسيني خامنہ اي دامت برکاتہ
مسجد کتبیہ مراكش
مسجد کتبیہ یا جامع کتبیہ مراکش کے شہر مراکیش کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس مسجد کا مینار یعقوب المنصور (1184ء تا 1199ء) کے دور حکومت میں مکمل ہوا۔
یہ مسجد کتبیہ اس لئے کہلاتی ہے کیونکہ اس کے نیچے کتابوں کی دکانیں تھیں۔ اس زمانے میں مراکش میں لکھنے پڑھنے کا شوق انتہا درجے تک پہنچا ہوا تھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کتابوں کی ان دکانوں کی تعداد ڈھائی سو تھی۔
اس مسجد کا مینار 69 میٹر (221 فٹ) بلند ہے۔ یہ مینار طرز تعمیر میں اپنے ہم عصر میناروں اشبیلیہ کے جیرالڈ اور رباط کے برج الحسان کے جیسا ہے کیونکہ یہ تینوں یعقوب المنصور کے عہد میں ہی تعمیر ہوئے۔ جیرالڈا اشبیلیہ کی جامع مسجد کا مینار ہے جبکہ برج الحسان یعقوب کے نامکمل منصوبوں میں سے ایک ہے۔ یعقوب نے رباط میں دنیا کی سب سے بڑی مسجد کی تعمیر شروع کروائی لیکن اس کی تکمیل سے قبل ہی انتقال کر گیا جس کے باعث یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا اور صرف برج حسان اور بنیادی تعمیر ہی مکمل ہو سکی جو آج تک موجود ہے۔
جامع کتبیہ کی ایک دلچسپ چیز اس کا مقصورہ ہے۔ معماروں نے یہ مقصورہ اس طرح بنایا تھا کہ منصور کے مسجد میں داخل ہوتے ہی نمودار ہوجاتا اور جب وہ واپس چلا جاتا تو مقصورہ غائب ہوجاتا اور مسجد کی دیوار پہلے کی طرح برابر ہوجاتی۔
فیصل مسجد - اسلام آباد
بنیادی معلومات
مقام اسلام آباد، پاکستان
ماہر تعمیرات ویدات دلوکے
رخ بجانب قبلہ
سالِ تکمیل 1986ء
تعمیری لاگت 120 ملین امریکی ڈالر
خصوصیات
گنجائش 80 ہزار (بشمول صحن)
تعدادِ مینار 4
بلندئ مینار 90 میٹر
فیصل مسجد پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ایک عظیم الشان عبادت گاہ ہے جسے جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ عظیم مسجد اپنے انوکھے طرز تعمیر کے باعث تمام مسلم دنیا میں معروف ہے۔
مسجد کا اندرونی منظرمسجد 5000 مربع میٹر پر محیط ہے اور بیرونی احاطہ کو شامل کرکے اس میں بیک وقت میں 80ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ یہ دنیا کی بڑی مساجد میں سے ایک اور برصغیر کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ فن تعمیر جدید ہے، لیکن ساتھ ہی روایتی عربی فن تعمیر کی نمائندگی کرتا ہے جو ایک بڑا تکونی خیمے اور چار میناروں پر مشتمل ہے۔ روایتی مسجدی نمونوں سے مختلف اس میں کوئی گنبد نہیں ہے اور ایک خیمہ کی طرح مرکزی عبادت گاہ کو چار میناروں سے سہارا دیا گیا ہے۔
مینار ترکی فن تعمیر کے عکاس ہیں جو عام مینار کے مقابلے میں باریک ہیں۔ مسجد کے اندر مرکز میں ایک بڑا برقی فانوس نسب ہے اور مشہور زمانہ پاکستانی خطاط صادقین نے دیواروں پر پچی کاری کے ذریعے قرآنی آیات تحریر کی ہیں جو فن خطاطی کا عیم شاہکار ہیں۔ پچی کاری مغربی دیوار سے شروع ہوتی ہے جہاں خط کوفی میں کلمہ لکھا گیا ہے۔
مسجد کا فن تعمیر عرصہ دراز سے ہونے والے جنوبی ایشیائی مسلم فن تعمیر سے مختلف ہے اور کئی انداز میں روایتی عربی، ترکی اور ہندی طرز تعمیر کا امتزاج ظاہر کرتا ہے۔
مسجد شاہراہ اسلام آباد کے اختتام پر واقع ہے، جو شہر کے آخری سرے پر مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں ایک خوبصورت منظر دیتی ہے۔ یہ اسلام آباد کے لیے ایک مرکز اور شہر کی سب سے مشہور پہچان ہے۔
طوبٰی مسجد كراچي
طوبٰی مسجد پاکستان کے شہر کراچی میں واقع ایک خوبصورت مسجد جو مقامی سطح پر گول مسجد کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ مسجد طوبیٰ 1969ء میں کراچی کی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں تعمیر کی گئی۔ یہ کورنگی روڈ کے قریب واقع ہے۔ مسجد طوبیٰ غالباً واحد گنبد کی حامل دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ یہ کراچی کے اہم سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ مسجد طوبیٰ کو خالص سفید سنگ مرمر سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کے گنبد کا قطر 72 میٹر (236 فٹ) ہے اور یہ بغیر کسی ستون کے صرف بیرونی دیواروں پر کھڑا ہے۔
مسجد طوبیٰ کا واحد مینار 70 میٹر بلند ہے۔ عبادت گاہ کے مرکزی وسیع و عریض کمرے میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔
بادشاہی مسجد لاهور
بنیادی معلومات
مقام لاہور، پاکستان
معلوماتِ طرزِ تعمیر
رخ بجانب قبلہ
سالِ تکمیل 1673ء
خصوصیات
گنجائش 60 ہزار افراد
لمبائی 804 فٹ (بمعہ صحن)
چوڑائی 612 فٹ (بمعہ صحن)
بلندی 50.5 فٹ
تعدادِ گنبد 3
بلندئ گنبد (بیرونی) مرکزی گنبد: 49 فٹ
دیگر گنبد: 32 فٹ
قطرِ گنبد (بیرونی) مرکزی گنبد: 65 فٹ
دیگر گنبد: 51.5 فٹ
تعدادِ مینار 4
بلندئ مینار 176 فٹ 4 انچ
بادشاہی مسجد 1673 میں اورنگزیب عالمگیر نے لاہور میں بنوائی۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلوں کے دور کی ایک شاندار مثال ہے اور لاہور شہر کی شناخت بن چکی ہہے۔ یہ فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد پورے پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے، جس میں بیک وقت 60 ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس مسجد کا انداز تعمیر جامع مسجد دلی سے بہت ملتا جلتا ہے جو کہ اورنگزیب کے والد شاہجہان نے 1648 میں تعمیر کروائی تھی۔
تاریخ
ہندوستان کے چھٹے مغل بادشاہ اورنگزیب تمام مغلوں میں سے سب سے زیادہ مذہبی بادشاہ تھے۔ انھوں نے اس مسجد کو اپنے سوتیلے بھائی مظفر حسین، جن کو فداے خان کوکا بھی کہا جاتا تھا، کی زیر نگرانی تعمیر کروایا۔ 1671 سے لیکر 1673 تک مسجد کی تعمیر کو دو سال لگے۔ مسجد کو شاہی قلعہ کے برعکس تعمیر کیا گیا، جس سے اس کی مغلیہ دور میں اہمیت کا پتہ لگتا ہے۔ اس مسجد کے بننے کے ساتھ ہی ساتھ اورنگزیب نے اس کے دروازے کے برعکس شاہی قلعہ میں بھی ایک باوقار دروازے کا اضافہ کیا، جس کو عالمگیری دروازہ کہا جاتا ہے۔
مرمات
جوں جوں وقت گزرتا گیا، مسجد کو متعدد وجوہات کی بنا پر نقصانات پہنچتے گئے۔ 1850 سے اس کی مرمت کا آغاز ہوا، لیکن یہ مرمت نامکمل تھیں۔ آخرکار مکمل مرمت 1939ء میں شروع ھوئی اور 1960 میں مکمل کی گئی جن پر 48 لاکھ روپے صرف ہوئے۔ اس مرمت کی وجہ سے مسجد ایک بار پھر اپنی اصلی حالت میں واپس آگئی۔
خاص واقعات
دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر، جو کہ لاہور میں 22 فروری، 1974 کو ہوئی، 39سربراہان مملکت نے جمعہ کی نماز اس مسجد میں ادا کرنے کی سعادت حاصل کی۔
فرقہ طحاویہ
چوتھی صدی میں اہل سنت کے عقاید کے حوالہ سے ایک اصلاح پسند فرقہ کو تین شخصیتوں نے قائم کیا جن میں سے ایک شخصیت ابو جعفر طحاوی ہیں ۔
آپ کا پورا نام احمد بن محمد بن سلامة الازدی الحجری ، کنیت ابو جعفر اور لقب طحاوی (متوفی ٣٢١ھ) ہے ، مصرکے ایک دیہات ، دیہات طحا میں ان کی ولادت ہوئی ، مورخین نے ان کی ولادت کو ٢٢٩، ٢٣٠، ٢٣٨،اور ٢٣٩ ہجری میں نقل کی ہے ۔
طحاوی کو علم حدیث اور فقہ سے بہت زیادہ لگائو تھا اسی وجہ سے وہ اپنے زمانہ کے بہت بڑے محدث اور فقیہ تھے ، یہ شروع میں مذہب حنفی کی پیروی کرتے تھے ۔ اس کے متعلق مختلف وجوہات بیان ہوئی ہیں(١) ۔آپ کی بہت سی اہم کتابیں بھی موجود ہیں:
١۔ شرح معانی الآثار۔ ٢۔ شرح مشکل احادیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ۔ ٣۔ احکام القرآن۔ ٤۔ اختلاف الفقہاء ۔ ٥۔ النوادر الفقھیہ ۔ ٦۔ الشروط الکبیر ۔ ٧۔ الشروط الاوسط ۔ ٨۔ شرح الجامع الصغیر ۔ ٩۔ شرح الجامع الکبیر ۔ ١٠۔ المختصر الصغیر ۔ ١١۔ المختصر الکبیر ۔ ١٢۔ مناقب ابی حنیفہ ۔ ١٣ ۔ تاریخ الکبیر۔ ١٤۔ الرد علی کتاب المدلسین ۔ ١٥۔ کتاب الفرائض ۔ ١٦۔ کتاب الوصایا ۔ ١٧۔ حکم اراضی مکہ ۔ ١٨۔ کتاب العقیدة۔ (٢) ۔
طحاوی نے علم کلام میں ایک چھوٹا سا رسالہ ''بیان السنة والجماعة'' کے نام سے تالیف کیا ہے جو عقیدہ الطحاویہ کے نام سے مشہور ہے ، اس کے مقدمہ میں کہتے ہیں :
'' اس رسالہ میں اہل سنت و الجماعت کے عقاید کو ابوحنیفہ، ابویوسف اور محمد شیبانی کے نظریات کے مطابق بیان کیا جائے گا''۔
طحاوی ، عقاید ابوحنیفہ کی توجیہ یا تفسیربیان نہیں کرنا چاہتے تھے یا نئی دلیلیں پیش کرکے قدیم کلامی مسائل کو حل و فصل نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ ان کا ہدف صرف یہ تھا کہ ابوحنیفہ کے عقاید کا خلاصہ بیان کریں اور اہل سنت والجماعت کے نظریات کے ساتھ ان کے نظریات کو بیان کریں۔
طحاوی اور ماتریدی کے درمیان اختلاف کامل طور سے آشکار اور واضح ہے ۔ طحاوی اصول ایمان کے متعلق عقلی یا نظری تفکر کے موافق نہیں تھے بلکہ وہ ترجیح دیتے تھے کہ اصول عقاید کو بغیر کسی دلیل کے قبول کرلیں، اور ان کی تصدیق بھی کریں، ان کے عقائد میں انتقاد، مآخذ ، اسباب معرفت اورکلامی نظام کے مآخذ کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہوا ہے ، اس بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے عقائد جزمی اور یقینی تھے ، جب کہ ماتریدی کے فکری نظام میں انتقاد پایا جاتا ہے وہ علم حدیث میں بھی تنقید کے طریقہ کی پیروی کرتے ہیں ۔ اس بناء پر جب کہ ماتریدی اور طحاوی دونوں کا تعلق ایک مکتب اور ایک مذہب سے ہے اور دونوں خلوص نیت کے ساتھ اپنے استاد کے نظریات کی پیروی کرتے ہیں لیکن خلق و خو کے اعتبارسے دونوں کے نظریات میں فرق پایا جاتا ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ طحاوی نے علم کلام میں کوئی جدید نظام یا قانون کو ایجاد نہیں کیا ہے بلکہ امانتداری اور سچائی کے ساتھ اپنے استاد کے اہم نظریات کو خلاصہ سے کیاہے ۔
حقیقت میں علم کلام اسلامی میں '' طحاویة'' کے معنی کسی نئے مکتب کے نہیں ہیں بلکہ ابوحنیفہ کے اسی کلامی نظام کو دوسرے الفاظ میں بیان کیا ہے ۔ طحاوی کے نظریات کی اہمیت یہ ہے کہ انہوںنے اپنے استاد کے نظریات کو کامل طور سے واضح کیا ہے ، انہوں نے ابوحنیفہ کے نظریات سے ابہام و شبہات کو دور کرتے ہوئے ان کے نظریات کو واضح طور پر بیان کیا ہے (٣) ۔
حوالہ جات :
١۔ تاریخ فلسفہ در جہان اسلامی، ج ١، ص ٣٤٧۔
٢۔ فہرست ابن ندیم، ص ٢٩٦۔
٣۔ تاریخ فلسفہ در اسلام، ج١، ص ٣٤٩۔ ٣٤٨ ، ٣٦١۔ ٣٦٠۔
کتاب : فرق و مذاہب کلامی ، ص ٢٤٢۔
ماسکو: يورپ ميں مسلمانوں کے بڑے شہروں ميں سے ايک
روس کے صرف ايک مرکز ميں اسلام قبول کرنے والي دس ہزار خواتين نے رجسٹريشن کرائي ہے-
ماسکو ميں اس وقت بيس لاکھ سے زائد مسلمان رہتے اور کام کرتے ہيں اور اس اعتبار سے وہ يورپ ميں مسلمانوں کے بڑے شہروں ميں سے ايک بن گيا ہے-
يہي وجہ ہے کہ ماسکو ميں موجود چار مساجد نمازيوں کے ليے کافي نہيں ہيں- ہر جمعہ کو نمازيوں کي تعداد اتني ہوتي ہے کہ انہيں مساجد سے باہر برف پر نماز پڑھني پڑتي ہے-
جب نماز جمعہ ہو رہي ہوتي ہے تو کار سوار راستے کے ليے ہارن بجا رہے ہوتے ہيں اور پيدل چلنے والے گذرنے کے ليے دشواريوں کا شکار ہو رہے ہوتے ہيں-
نئے مسلمانوں کي بڑي تعداد ان مہاجرين پر مشتمل ہے جو سوويت يونين کا حصہ رہنے والي وسط ايشيائي رياستوں سے ماسکو منتقل ہوئے ہيں-
غربت اور سوويت يونين کے ختم ہونے کے بعد پيدا ہونے والے جھگڑوں کے نتيجے ميں نئي زندگي شروع کرنے کے ليے نکلنے والے ان لوگوں ميں ازبک، تاجک اور کرغيزيوں کي تعداد سب سے زيادہ ہے-
ازبکستان سے آنے والے ايک نوجوان الوگ بيک کا کہنا ہے ’ہماري تعداد بہت زيادہ ہے، ہميں اس بات پر تو شکر گذار ہونا چاہيے کہ ماسکو ميں مساجد ہيں ليکن شہر، اچانک آنے والے لاکھوں لوگوں کي ميزباني کے ليے تيار نہيں‘-
تاہم دوسرے لوگوں کا خيال ہے کہ حکام مسلمان آبادي کي ضرورتوں کو نظر انداز کر رہے ہيں-
ماسکو کي تاريخي مسجد کے طور پر جاني جانے والي مسجد کے پيش امام، حسين فخرت دينوف کا کہنا ہے کہ ’موجودہ سہولتيں بہر طور ناکافي ہيں‘-
انہوں نے مزيد کہا کہ ’اس ليے ہم حکام سے نئي مساجد تعمير کرنے کے اجازت چاہتے ہيں، ليکن وہ ہمارے مطابے کو نظر انداز کر رہے ہيں، اس ليے لوگوں کو مساجد سے باہر بارش ميں اور برف پر نماز ادا کرني ہو گي‘-
ماسکو کي تاتار نامي قديم مسجد کو ايک نئي بڑي عمارت ميں منتقل کيا جا رہا ہے ليکن اس کے باوجود تمام نمازيوں کے ليے مسجد کے اندر نماز ادا کرنا ممکن نہيں ہو گا-
نئے لوگوں کي وجہ سے ماسکو ميں جو تبديلياں آ رہي ہيں ماسکو کے شہري ان پر مختلف آرا رکھتے ہيں-
مسجد کے پاس سے گذرنے والي دو نوجوان خواتين کا کہنا تھا کہ ’ماسکو ترقي کر رہا ہے اور يہي وجہ ہے کہ لوگ يہاں آ رہے ہيں اور اتفاق ہے کہ ان ميں مسلمانوں کي تعداد زيادہ ہے- اب اگر روسي يہاں چرچ بنا رہے ہيں تو کسي کو يہ حق نہيں کہ وہ مسلمانوں کو مساجد کي تعمير سے روکے‘-
اس کے برخلاف دوسروں کي رائے ہے کہ باہر سے آنے والے ان لوگوں کي وجہ سے روسي ثقافت اور زندگي کے طريقے تبديل ہو رہے ہيں-
شہر ميں نئے لوگوں کي آمد پر کڑي پابندياں لگانے کے حامي اور خود کو روزووٹ کہنے والے ايک قوم پرست گروپ کے يوري گروسکي کا کہنا ہے کہ لوگ مذاق ميں کہتے ہيں کہ ماسکو، ماسکو آباد بنتا جا رہا ہے-
ان کا کہنا ہے کہ ’ذرا آپ ماسکو کي سڑکوں پر نکل کر ديکھيں آپ کو سلاوک کم اور مسلمان زيادہ دکھائي ديں گے- اگر باہر سے لوگوں نے آنا ہي ہے تو سلاوک ملکوں کے لوگوں کو آنا چاہيے ليکن ان مسلمانوں کو روکنا ہو گا‘-
روس ميں نقل مکاني کر کے آنے والے مسلمانوں پر باقاعدگي سے حملے ہونے لگے ہيں اگرچہ اب ان ميں کچھ کمي آئي ہے-
روس ميں انساني حقوق کے ليے کام کرنے والے گروپ سووا کا کہنا ہے کہ 2008 کے دوران نسل پرستانہ حملوں ميں 57 اموات اور196 افراد زخمي ہوئے جب کہ 2011 کے دوران سات افراد ہلاک اور 28 زخمي ہوئے-
يہي نہيں، نئے آنے والے اپنے ساتھ اپني ثقافت اور رہن سہن بھي لائے ہيں، اب ماسکو ميں ايسي دکانيں اور کيفے بڑي تعداد ميں دکھائي ديتے ہيں جن پر حلال اشيا دستياب ہوتي ہيں اور ماسکو کي حلال ٹيک اووے دکانوں پر فروخت ہونے والے سموسوں نے تو سب سے زيادہ مقبوليت حاصل کر لي ہے-
اس کے علاوہ ماسکو ميں اسلام قبول کرنے والوں کي تعداد ميں بھي ڈرامائي اضافہ ہو رہا ہے- ان ميں ايک علي چسلاف بھي ہيں جو سابق آرتھوڈک پادري اور سياستداں ہيں- وہ بارہ سال قبل مسلمان ہوئے اور اب ايک ايسا امدادي مرکز چلا رہے ہيں- جو اسلام قبول کرنے والے نئے لوگوں کي مدد کرتا ہے اور انہيں مشورے ديتا ہے-
اس مرکز ميں کام کرنے والي عائشہ لاريسہ کا کہنا ہے کہ صرف ان کے مرکز ميں اسلام قبول کرنے والي دس ہزار عورتوں نے رجسٹريشن کرائي ہے-
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم ان عورتوں کو عبادت کرنا سکھاتے ہيں اور اگر انہيں اسلام قبول نہ کرنے والے رشتہ داروں کي وجہ سے مسائل پيش آتے ہيں تو انہيں مشورے ديتے ہيں‘-
اسلام ہميشہ ہي سے روس ميں دوسرا بڑا مذہب رہا ہے ليکن يہ حقيقت اس سے پہلے اس طرح ظاہر نہيں ہو رہي تھي جيسے اب دکھائي ديتي ہے-




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
