Super User
مسجد قبا ميں نماز
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم :
الصَّلاٰةُ في مَسْجِدِ قُبٰاءَ کَعُمْرَةٍ-
رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
”مسجد قباميں نماز پڑھنا ايک عمرہ انجام دينے کے مانند ھے “-
دوسرے ممالک کے مسلمانوں سے سلو ک
زَيْدٌ الشَّحَّامُ عَنِ الصَّادِق(ع)،اَنَّہُ قَالَ:”يَا زَيْدُ خَالِقُوا النَّاسَ بِاَخْلاٰقِھِمْ صَلُّوافِي مَسَاجِدِ ھِمْ وَعُودُوا مَرْضَاھُمْ وَاشْھَدُوا جَنَائِزَ ھُمْ وَاظ•ِنْ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَکُونُوا الْاَ ئِمَّةَ وَالمُوَذِّنِينَ فَافْعَلُوا فَاظ•ِنَّکُمْ اظ•ِذَا فَعَلْتُمْ ذٰلِکَ قَالُوا ھَوُلاٰءِ الْجَعْفَرِيَّةُ رَحِمَ اللّٰہُ جَعْفَراً مَا کَانَ اَحْسَنَ مَا يُوَدِّبُ اَصْحَابَہُ وَاظِذَا تَرَکْتُمْ ذٰلِکَ قَالُوا ھَوُلاٰءِ الْجَعْفَرِيَّةُ فَعَلَ اللّٰہُ بِجَعْفَرٍ مَاکاَنَ اَسْوَاَ مَايُوَدِّبُ اَصْحَابَہُ-
”امام جعفر صادق (ع) نے زيد شحّام سے فرمايا: اے زيد!خود کو لوگوں کے اخلاق سے ھماہنگ کرو ، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو،ان کي مسجدوں ميں نماز اداکرو، ان کے پيماروں کي عيا دت کرو، ان کے جنازوں کي تشييع ميں حاضرهو، اور اگر بن سکو تو ان کے امام جماعت يا موذن بنو- کيونکہ اگر تم ايسا کرو گے تو وہ لوگ يہ کھيں گے کہ يہ لوگ جعفري (حضرت جعفر بن محمد عليھما السلام کي پيروي کرنے والے ) ھيں خداوند عالم جعفر (ره) پر رحمت نازل فرمائے اس نے ان لوگوں کي کيا اچھي تربيت کي ھے اور اگر ايسا نہ کروگے تو وہ لوگ کھيں گے کہ يہ جعفري ھيں، خداوند عالم جعفر (ره) کے ساتھ ايسا ويسا کرے اس نے اپنے ماننے والوں کي کيا بُري تربيت کي ھے!!“-
حاجيوں کا استقبال
عَنْ ابِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع) قَالَ:
”کَانَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ(ع) يَقُولُ:يَا مَعْشَرَ مَنْ لَمْ يَحُجَّ اسْتَبْشِرُوا بِالْحَاجِّ وَصَافِحُوھُمْ وَ عَظِّمُوھُمْ فَاظ•ِنَّ ذَلِکَ يَجِبُ عَلَيْکُمْ تُشَارِکُو ہُمْ فِي الْاَجْرِ“-
امام جعفر صادق (ع) نے فرمايا:
”حضرت علي بن الحسين عليھما السلام ھميشہ فرماتے تھے اے لوگو!جو حج پر نھيں گئےهو حاجيوں کے استقبال کے لئے جاو، ان سے مصافحہ کرو، اور ان کا احترام کرو کہ يہ تم پر واجب ھے اس طرح تم ان کے ثواب ميں شريک هوگے “-
حاجيوں کے اھل خانہ کي مدد کا ثواب
قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ(ع): مَنْ خَلَفَ حَاجّاً
فِي اَھْلِہِ وَمَالِہِ کاَنَ لَہُ کَاَجْرِہِ حَتَّي کَاَنَّہُ يَسْتَلِمُ الْاَحْجَارَ-
امام زين العابدين (ع) نے فرمايا:
”جو شخص حاجي کي عدم موجودگي ميں اس کے اھل خانہ اور اس کے مال کي ديکھ بھال کرے تو اس کا ثواب اسي حاجي کے ثواب کے مانند ھے يھاں تک کہ گويا اس نے کعبہ کے پتھروں کو بوسہ ديا ھے “-
غزلیاتِ امام خمینی رہ پر ایک فنی نظر
امام خمینی (رہ) کی ہمہ گیر شخصیت کا ایک پہلو ابھی ایسا بھی ہے جس پر سنجیدہ اور وسیع پیمانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ پہلو ان کی ادبی شخصیت ہے۔ اس پہلو پر توجہ نہ دینے کہ وجہ شاید مراجع عظام اور علمائے اعلام کے بارے میں عوامی سطح پر موجود وہ رائے اور تاثر ہے جو انھیں محض فقہی احکامات کے استنباطی عمل، تدریس و تبلیغِ دین کے مذہبی فریضے اور بعض دینی رسومات کی ادائیگی سے ہٹ کر کسی دوسرے تخلیقی اور ادبی میدان میں آنے کو معیوب یا خلافِ مروت قرار دیتا ہے۔
ایران میں بیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں ابھرنے والے مراجع عظام میں سے خصوصی اہمیت و شہرت آیت اللہ سید روح اللہ موسوی المعروف بہ امام خمینی (رہ) کو حاصل ہوئی۔ علمی، نظریاتی، سیاسی اور فقہی میدانوں میں درجہ ارفع کے حامل ہونے اور استعاری سازشوں کی باریک اور خطرناک لہروں کو پہچاننے کی خصوصیات نے انھیں اپنے عہد کی دیگر متعدد علمی و فقہی شخصیات سے ممتاز مقام و منصب عطا کر دیا۔ انقلاب اسلامی ایران ( 1979ء ) سے پہلے ہی خمینی (رہ) کی ہمہ گیر شخصیت نے ایرانی عوام و خواص کے دلوں میں اپنی جگہ بنالی تھی۔ یہی ہر دلعزیزی اور عوام و خواص کا اعتماد تھا جس نے خمینی (رہ) کو استعمار زدہ حکومتِ وقت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے میں معاونت فراہم کی۔ یوں ایک نئے نظریاتی اور عملی نظام حکومت کی بنیاد ڈالی گئی۔
سید روح اللہ خمینی (رہ) کی علمی، سیاسی، فقہی اور نظریاتی شہرت و وقعت کو تو اب تمام دنیا کے آزاد دینی اور نظریاتی حلقوں میں پذیرائی حاصل ہوچکی ہے لیکن ان کی ہمہ گیر شخصیت کا ایک پہلو ابھی ایسا بھی ہے جس پر سنجیدہ اور وسیع پیمانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ پہلو ان کی ادبی شخصیت ہے۔ اس پہلو پر توجہ نہ دینے کہ وجہ شاید مراجع عظام اور علمائے اعلام کے بارے میں عوامی سطح پر موجود وہ رائے اور تاثر ہے جو انھیں محض فقہی احکامات کے استنباطی عمل، تدریس و تبلیغِ دین کے مذہبی فریضے اور بعض دینی رسومات کی ادائیگی سے ہٹ کر کسی دوسرے تخلیقی اور ادبی میدان میں آنے کو معیوب یا خلافِ مروت قرار دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی (رہ) کی عرفانی غزلیات جب ابتدا میں نشر ہوئیں تو ایران اور بیرونِ ایران عوامی و دینی حلقوں میں حیرت آمیز لہریں اٹھیں۔ جب امام (رہ) کے منظوم آثار (یعنی ایک عالم دین اور مرجع روحانی کے شور و حال و ذوق کی حکایت جو کہ خود احکام شرع اور آئین دین مبین کا محافظ و نگہبان تھا اور تقویٰ و تقدس کا نمونہ تھا) شائع ہوئے تو جمود و خمود کے حصار میں دراڑیں پڑ گئیں اور محض ظاہر پر نگاہ رکھنے والوں کے ذہنوں کو جھٹکا لگا۔
ادبیات ایران کی تاریخ کے حوالے سے دیکھیں تو عالمی سطح پر پذیرائی اور شہرت حاصل کرنے والے فارسی زبان و ادب کے شعراء و ادباء کی کوئی کمی نہیں۔ امام خمینی (رہ) کی ادبی شخصیت اور ان کی عرفانی تخلیقات ایک طرف ایران کی کلاسیکی ادب سے اپنا تعلق برقرار رکھتی ہوئی نظر آتی ہیں تو دوسری طرف عرفانی ادب و شعر کی ایک ایسی دنیا بساتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں جس میں محاسنِ شعری اور لوازماتِ شعر نہایت پُر اثر انداز میں روبہ عمل نظر آتے ہیں۔ امام خمینی (رہ) نے مختلف اصناف میں اپنے دردِ دل اور جوشِ عشق کا اظہار کیا ہے۔ قصیدہ، رباعی، مثنوی، قطعہ، مسمط، ترجیعِ بند اورغزل سبھی اصنافِ ادب کو اپنی وارداتِ قلبی اور احساساتِ پُر ثمر کو بیان کرنے کے لیے اپنایا ہے۔ غزل کی صنف کو سب سے زیادہ بروئے کار لایا ہے۔ اس کی غالباً وجہ یہ ہے کہ صوفیانہ و عرفانی موضوعات و وارداتِ قلب کے بیان کے لیے دیگر اصناف میں سے غزل اپنی زبان اور اسلوب بیان کے اعتبار سے بطور خاص موزوں رہی ہے۔
غزل کا موضوع حسن و عشق ہے، خواہ حسن ازلی ہو یا وقتی و فانی اور عشق حقیقی ہو یا مجازی۔ حسن و عشق کے لوازمات اور قلبی واردات کے بیان کے لیے استعمال ہونے والی لفظیات عرفانی شاعر اور غیر عرفانی شاعر دونوں کے ہاں لفظی لحاظ سے یکساں ہوتی ہیں۔ عرفانی شاعر بھی حسن کے گوناگوں جلوؤں کے بیان کے لیے گُل، بلبل، لب، رخسار، کاکل، زلف جیسی لفظیات استعمال کر لیتا ہے اور غیر صوفی شاعر بھی۔ فرق معنوی سطح پر ظاہر ہوتا ہے۔ صوفی و عارف شاعر کے ہاں رخسار و زلف جیسے الفاط حسنِ حقیقی اور جمالِ ازلی کی پرکشش و حیات آفرین عنایتوں کے لیے بطور استعارہ استعمال ہوتے ہیں جبکہ غیر صوفی اور غیر عارف شاعرِ عشق کے یہاں متذکرہ بالا الفاظ اور اس قبیل کے دیگر لفظ گوشت پوست اور حسین خال و خط کے حامل محبوب کی توصیف، اس کی کشش اور خوبصورتی کے لیے۔ صنفِ غزل کی یہی خوبی ہے کہ اس کی لفظیات میں جہاں ظاہری و مادی موضوعات کو بیان کرنے کی اہلیت ہے وہاں معنوی اور عرفانی مفاہیم و معانی اور صوفیانہ مکاشفات و جذبات کے بیان کی صلاحیت بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔
بادہ و ساغر، جم و سبو، غمزہ و ادا اور بے خودی و سرمستی جیسے الفاظ و تراکیب کا استعمال عشقِ مجازی کے معاملے میں تو عموماً استعمال ہوتے چلے آرہے ہیں اور ابھی بھی ہو رہے ہیں۔ عشق حقیقی کے معاملے میں بھی ان ہی کے استعمال کے بنا کوئی چارہ نہیں۔ غالب کے بقول
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
یہاں ہم امام خمینی (رہ) کی عرفانی غزلیات میں بروئے کار آئے ہوئے بعض فنی امور پر ایک نظر ڈالیں گے اور دیکھیں گے کہ ان کی غزلیات میں مشاہدہ حق، جذباتِ عشقِ حقیقی اور مکاشفات و محسوساتِ عرفانی کے بیان کے لیے کن کن تشبیہات، استعارات اور تلمیحات سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ان کی عرفانی غزلیات میں تغزل کا رنگ و آہنگ کس حدتک کار فرما ہے اس کا بھی ایک جائزہ انشاء اللہ بشرطِ زندگی آئندہ کسی وقت تفصیلی طور پر لیا جائے گا۔ اس وقت امام خمینی (رہ) کے فارسی کلام کا ایک اردو منظوم ترجمہ پیش نظر ہے۔ اصل زبان میں موجود شعر کے جذباتی، تاثراتی، احساساتی اور اسلوبیاتی قوت و آہنگ کو بعینہٖ نثری ترجمے کی زبان میں بالعموم اور شعری ترجمے کی صورت میں منتقل کرنا بالخصوص انتہائی مشکل، ریاضت طلب اور دقّت طلب امر ہے۔ امام خمینی (رہ) کے فارسی کلام کا زیر نظر اردو شعری ترجمہ ابن علی واعظ نے کیا ہے اور یہی منظوم ترجمہ یہاں پیش نظر ہے۔ منظوم ترجمے کی بنیاد پر امام خمینی (رہ) کی غزلیات کا فنی جائزہ لینے کا جواز یہ ہے کہ منظوم ترجمے میں مترجم نے یہ کوشش کی ہے کہ امام خمینی (رہ) نے جو تشبیہات اور جو استعارات اور جیسی تلمیحات استعمال کی ہیں انہی کو بعینہ ترجمے میں بھی برقرار رکھا جائے۔
فی الوقت یہاں زیر بحث لائی جانے والی تشبیہات اور تلمیحات کم و بیش اصل متن میں استعمال شدہ الفاظ و عناصر سے بہت زیادہ لفظی و معنوی یکسانیت کی حامل ہیں۔ مثلاً لب، رخسار، میخانہ، خورشید، چشم، ابرو، رُخ، موسیٰ، مجنوں، منصور، قیس وغیرہ بعینہٖ ترجمے میں موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امام خمینی کے کلام میں جو بادہ، ساغر، خال، لب، چشم، ملبوس، میکدہ، عشق، دلبر، مستی اور خرابات اور اسطرح کے کثیر الفاظ استعمال ہوئے ہیں انھیں ان کے لغوی معنی میں نہیں بلکہ عرفانی اصطلاحی معانی میں سمجھنا چاہیے ورنہ کلام امام ناقدری اور ناقدر شناسی کی نظر ہو جائے گا۔
قارئین کی سہولت کے لیے یہاں جو تشبیہات بطور مثال پیش کی جائیں گی ان کے عرفانی اصطلاحی معانی کی مختصر وضاحت بھی کی جائے گی۔ تشبیہات مشترک خصوصیات و صفات کی بنا پر ایک چیز یا وجود کو کسی دوسرے برتر، کامل تر اور اعلیٰ وجود کے مانند قرار دینے کو اصطلاحاً تشبیہ کہتے ہیں۔ مشبہ اور مشبہ بہ میں صفات کا اشتراک کبھی مکمل طور پر ہوتا ہے اور کبھی بلحاظ کمیت و کیمفیت بیشتر لحاظ سے اشتراک ہو۔ عابد علی عابد نے تشبیہ کی دیگر کئی وجوہات کے علاوہ ایک مقصد یہ بھی لکھا ہے:
مشبہ کی کیفیت پڑھنے والے کے ذہن نشین کی جائے یا مشبہ کے حسن یا اس کے اوصاف کی تصویر کشی کی جائے یا مشبہ کی ندرت یا غرابت کا اثبات کیا جائے۔
امام خمینی (رہ) کی غزلیات میں استعمال شدہ تشبیہات اپنے محبوب حقیقی کے جمالیاتی کمالات، اس کے رحم و کرم کی لامتناہیت اور ذرہء خاک (عاشق) پر بے پناہ عنایتوں کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔
اے دوست میرے دل کو اپنا ہدف بنا لے
مژگاں ہیں تیرے ناوک، ابرو ترے کماں ہیں
مژگاں، ابرو اور دوست تینوں الفاظ عرفانی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ ’’ ابرو ‘‘ سے عرفانی شعر و ادب میں الٰہی صفات مراد لی جاتی ہیں جو کہ حاجبِ ذات ہیں اور عالم وجود انہی الٰہی صفات کے باعث قدروقیمت کا حامل بن جاتا ہے۔ ’’ مژہ ‘‘ اس نیزے، پیکان اور تیر کی طرف اشارہ ہے جو محبوب کے کرشمے اور غمزے سے عاشق کے سینے تک پہنچتا ہے۔
اصطلاح میں سالک، عاشق کی طرف سے راہِ وصال میں پیدا شدہ رکاوٹیں مراد ہیں۔ مژگاں کا استعمال محبوب کے حوالے سے ہو تو محبوب حقیقی کے الطاف اور عنایات بھی مراد لی جاتی ہیں۔ دوست سے مراد جمالِ ازلی اور محبوب حقیقی ہیں۔ حسن ازلی کا حسنِ لمحاتی سے موازنہ بنیادی طور پر کوئی بڑا جواز نہیں رکھتا تاہم تخلیق کار بعض اوقات حسن حقیقی کے جلوے کو اپنی پوری شدت و قوت سے ضبط اظہار میں لانے کے لیے حسن لمحاتی وفانی سے اس کا موازنہ کر لیتا ہے۔
اگرچہ یہاں بھی تخلیق کار حسن ازلی کے مقابلے میں حسنِ فانی و لمحاتی کی فرومائیگی اور بے بضاعتی کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کی معنوی تنگ دامنی کا شدید شاکی رہتا ہے۔ بہر حال اظہار تو لفظوں ہی کے ذریعے کرنا ہے لہٰذا موازنے کی راہ اختیار کی جاتی ہے۔
زیبائی خوباں تری زیبائی کے آگے
دریائے غضبناک پہ بہتا ہوا خس ہے
حسن ازل کے کمال و جمال کو حیطۂ اظہار و بیان میں لانے کے لیے ’’ دریائے غضبناک اور بہتے ہوئے خس ‘‘ کی تشبیہات تخلیق کار کے خارجی مشاہدے کے ساتھ ساتھ عرفانی مکاشفے کا بھی پتا دیتی ہیں۔
میں ہوں وہ عاشق کہ میں ہی جانتا ہوں دردِ عشق
غرق ہوں اور نوح جیسا میرا پشتیباں نہ ہو
’’ عشق ‘‘ حد سے بڑھی ہوئی محبت کو کہتے ہیں۔ اصطلاحِ علمِ عرفان میں شدتِ طلب اور کامل طلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا عشق کہلاتا ہے۔ ’’ عاشق ‘‘ اہلِ عرفان کی اصطلاح میں حق تعالیٰ کے متلاشی کو کہا جاتا ہے جو محبوب حقیقی کے علاوہ کسی اور کی طلب و جستجو نہیں کرتا۔
اپنے آتش و دردِ عشق کی حدت و شدت کا احساس داخلی سطح پر یہاں تخلیق کار کو جس کیفیت سے دوچار کر رہا ہے اس کا اظہار طوفانِ نوح ع کے تناظر میں کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ عاشق طوفانِ عشقِ حقیقی میں بہ رضا و رغبت غوطہ زن ہونے کا شدید آرزو مند ہے۔ ایک طرف طوفان عشق کھڑا ہوا اور دوسری طرف بچانے والا بھی کوئی نہ ہو۔
اس نفسیاتی سپردگی اور عاشقانہ آرزو کا جواز محض شدید عشق حقیقی کے تناظر میں ہی قابل تفہیم ہے۔ تلمیحات اپنے مدرکات و احساسات کو شعری اظہار دینے کے لیے تخلیق کار بعض اوقات تاریخی اور مذہبی واقعات و حوادث کی ذکر بطور تلمیح کرتا ہے۔ اس تکنیک کے ذریعے تخلیق کا معنوی دائرہ بے حد وسیع اور تاثیر کا دائرہ بے کراں ہو جاتا ہے۔ غزلیات امام خمینی (رہ) میں تاریخی اور مذہبی پس منظر رکھنے والی تلمیحات کے علاوہ مادی اور عشق مجازی کے حوالے سے شہرت رکھنے والی تلمیحات بھی استعمال ہوئی ہیں۔
تلمیحات خواہ پس منظر جیسا بھی رکھتی ہوں امام خمینی (رہ) کی غزلیات میں ان کے عرفانی مشاہدات و مکاشفات اور احوال و محسوسات کے بیان کے لیے بروئے کار آئی ہیں۔ حضرت موسیٰ ع، کوہ طور، منصور حلاج، لیلیٰ ومجنوں، شیریں و فرہاد، طوفانِ نوح ع، صاعقۂ طور، سلیمان و بلقیس سبھی تلمیحات اُن کے یہاں عرفانی احوال کا وسیلۂ اظہار بن گئی ہیں۔
مذہبی، تاریخی اور ادبی تلمیحات کو امام خمینی (رہ) نے صوفیانہ اور عرفانی نکات کی تعبیر کے لیے استعمال کیا ہے۔
صاعقہ پھر گرنے والا ہے یہ کہہ دو طور سے
موسیٰ ع عمراں پَئے اطفالِ باطل آگیا
’’ صاعقہ ‘‘ ایک قسم کی آگ کو کہتے ہیں جو ابر سے زمین پر گرتی ہے۔ اصطلاحِ عرفاء میں محبت کا وہ شعلہ مراد ہے جو ایک لمحے میں عاشق و محب کو جلا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ تاریخی اور دینی پس منظر کی حامل تلمیح ایک طرف صاعقے کے گرنے کے اسباب کی طرف ذہنِ قاری کو متوجہ کرتی ہے جو کہ حضرت موسیٰ کی اطفالِ باطل کے تعاقب میں آنا ہے تو دوسری طرف روحِ مذہب کی حفاظت و تبلیغ کے لیے نمائندہ الٰہی کی آخری کوشش کو ظاہر کرتی ہے۔
اہل عرفان کا مدعا و مقصد بھی روحِ مذہب کی حفاظت کرنا اور اسکی ترویج و تبلیغ کرنا ہوتاہے۔ خدائے واحد کو کاملاً ماننا اور پھر اسکے پیغام کی ترویج کرنا عارف اور صوفی کا کُل مقصد ہوتا ہے۔ دنیاوی نعمات اور آسائشیں انھیں بالذات مطلوب نہیں ہوتی ہیں۔ وہ (عارف، صوفی) خدا کو دنیاوی یا اخروی نعمتوں کی خاطر نہیں چاہتا۔ کیونکہ اگر ایسا ہو تو اسکا حقیقی اور بالذات مطلوب یہی نعمتیں ہوں گی اور خدا (دراصل) ان نعمتوں کے حصول کا مقدمہ و وسیلہ۔
مرے دل میں جامِ جم ہے نہ ہی مسندِ سلیمانی
کہ مزاج فروانہ مجھے حق سے مل گیا ہے
جامِ جم اور مسندِ سلیمان دنیاوی جاہ و حشمت اور مقام و منصب و سلطنت کے لیے بطور تلمیح استعمال کیے جاتے ہیں یہاں بھی اسی مطلب کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔خسروانہ مزاج سے یہاں مراد قلندرانہ اور خواہشاتِ دنیاوی سے پاک و مبرا مزاج ہے۔ صوفی اور عارف چونکہ مزاجاً وقفِ حق ہوا کرتے ہیں۔ انھیں ہر اس چیز سے بے رغبتی رہتی ہے جو راہِ وصال اور کُوئے حق تک پہنچنے میں رکاوٹ بن سکتی ہو۔ تجلئ حق اور دیدار یار کے حوالے سے موسیٰ ع اور کوہ طور کی تلمیح سے امام خمینی نے عرفانی نکات کے اخذ و بیان کا کام لیا ہے۔
معرفتِ حق کے بغیر دیدارِ حق ممکن نہیں۔ معرفتِ حق کے لیے اپنا باطن اُن تمام خیالات و خواہشات سے پاک و مبرا کرنا لازم ہے جو اپنی تجریدی اور تجسیمی صورتوں میں نگار خانۂ قلب کو آلودہ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ریاضت کی شدید ضرورت پڑتی ہے۔ بصورت دیگر دیدار یار جلوے کے باوجود نہیں ہوسکے گا۔
شاخِ شجر پہ کیسے ہو موسیٰ ع کو دیدِ رُخ
وہ نخلِ معرفت ہی اگر با ثمر نہ ہو
منصور حلاج تیسری صدی کے معروف صوفی اور عارف تھے۔ عالمِ جذب و کیف میں ’’ انا الحق ‘‘ کا نعرہ لگانے کی بنا پر مقتدر عباسی کے دور حکومت میں پھانسی دی گئی۔ فقہِ ظاہری کی بنیاد پر ان پر کافر و مرتد ہونے اور خدائی کا دعویٰ کرنے کا الزام لگا اور زیر عتاب آئے۔ عرفانی اور صوفیانہ مدارج و عوالم کے حوالے سے منصور نہ صرف مرتد و کافر نہیں بلکہ بقول استاد شہید مطہری:
عرفا نے منصور کو ’’ شہید ‘‘ کا لقب دیا ہے۔
امام خمینی (رہ) نے اپنے عرفانی جذب و کیف اور بے خودی و مستی کی بات منصور حلاج کے حوالے ہی سے کی ہے۔ مدارجِ عرفان کے آخری مقامات تک رسائی کے بعد اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہی سے معلوم ہوتے ہیں اور بقول غالب
اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیران ہوں مشاہدہ ہے کس حساب میں
یہی وجہ ہے کہ منصور حلاج نے اپنے آپ کو ’’ حق ‘‘ کہہ دیا۔ اس نعرے کے عارفانہ احوال و مقامات سے نامانوس فقہاء نے ظاہری حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے فتوائے قتل صادر کیا۔ امام خمینی (رہ) بھی سرِ دار کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نظر آتے ہیں۔
کوس انا الحق کا بجایا ہے کہ مثلِ منصور
اتنا بے خود ہوں خریدارِ سرِ دار ہوں میں
یوسف و زلیخا، لیلیٰ و مجنوں، شیریں و فرہاد، سلیمان و بلقیس جیسی تاریخی و ادبی تلمیحات کا استعمال صوفیانہ اور عارفانہ انداز میں امام خمینی نے جابجا کر لیا ہے۔ بطور مثال چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔
دلِ یوسف ہو جو زندانِ زلیخا میں اسیر
دسترس سے مہ و خورشید کو بیروں جانے
رنگ شیرینئ شیریں میں ہے بو بھی خسرو
تُو جو فرہاد کا حالِ دل گلگوں جانے
مجنوں اسیرِ عشق تھا میری طرح نہ تھا
اے کاش مجھ سے کوئی نہ ہو مبتلائے دوست
شاعری ہو یا نثر، منطق ہو یا کلام، فقہ ہو یا فلسفہ، تمام علوم و فنون کی غایتوں کی غایت حصولِ حقیقت، ادراکِ حسنِ کامل، تکاملِ انسانیت اور ترقئ فکر و روح ہے۔ ان اعلیٰ عقلی اہداف کے حصول کے لیے ہر کارآمد علم و فن کو اپنی اپنی حدود اور وسعت کے مطابق بروئے کار لا کر حقیقتِ ازلی تک رسائی کا سفر طے کرنا ایک عقلی ضرورت ہے۔ ادب و شعر بھی اسی سفر میں معاونت فراہم کرنے کا ایک مسرت بخش ذریعہ ہے۔
صوفیائے کرام اور عرفائے عظام نے اظہار حق و حقیقتِ اور بیانِ حسن کے لیے شعر و غزل کا راستہ اختیار کیا ہے تو اسکی ایک وجہ بھی یہی نکتہ ہے۔ تنہا منطق ہی ہمیں ہمہ گیر یا ازلی ہستی کا ادراک کرنے کے قابل نہیں بنا سکتی۔ یہ کام تخلیقی تخیل کا ہے جسے صوفیا نے آرٹسٹوں کی طرح بصیرتوں کا ماخذ قرار دیا ہے۔ غزلیاتِ امام خمینی (رہ) کا مزید کئی حوالوں سے تفصیلی طور پر فنی اور فکری مطالعہ کرنے کی ضرورت اس لیے ہے کہ اس مرد عارف کے شعری سرمایے میں تشنہ گانِ فکر و فن اور علم و ادب کی دلچسپی کا بہت سا مواد موجود ہے۔ ان کے تصورات عشق، اسالیب طنز، موضوعات طنز، رنگِ تغزل اور جوشِ شعری کا مطالعہ کرنا بالیقین کئی حوالوں سے ازحد مفید، معلومات افزا اور باعثِ لطف و حظ ثابت ہوگا۔
تحریر : قادری
آسام ميں حاليہ سيلاب کے نتيجے ميں کم سے کم 109 افراد ہلاک
ہندوستان کي شمال مشرقي رياست آسام ميں حاليہ مون سون کي بارشوں اور سيلاب کے نتيجے ميں کم سے کم 109 افراد ہلاک اور تقريباً 4 لاکھ سے زائد بے گھر ہو گئے ہيں.
ہندوستانی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ہندوستان کي شمال مشرقي رياست آسام ميں حاليہ مون سون کي بارشوں اور سيلاب کے نتيجے ميں کم سے کم 109 افراد ہلاک اور تقريباً 4 لاکھ سے زائد بے گھر ہو گئے ہيں.
اطلاعات کے مطابق زيادہ تر ہلاکتيں رياستي حکومت کے ناقص انتظامات کي وجہ سے ہوئيں. رياستي حکومت کے عہديداروں نے فنڈ بچا کر لاکھوں ڈالر کی کرپشن کي ہے، جس کي وجہ سے يہ تباہي ہوئی ہے. ماہرين نے حکومت سے اس کي وسيع پيمانے پر تحقيقات کرانے کا مطالبہ کيا ہے.
هندوستاني وزيراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بھي اس سيلاب کو بدترين قرار ديتے ہوئے ہر متاثرہ خاندان کي مددکرنے کااعلان کيا ہے.
رسول اﷲ ۖ کی معاشی زندگی پر ایک مختصر نظر
١۔بچپن میں آپ کی معاشی زندگی
رسول اکرم ۖ کی ولادت کے مبارک موقع پر انسانیت کے خزاں رسیدہ گلشن میں ایمان کی بہار آئی ۔ کفر کے ایوانوں میں خاک اڑنے لگی اور ہدایت کے چراغ روشن ہونے لگے ۔ ایوان کسری کے چودہ کنگرے گر گئے ، آتش کدہ فارس بجھ گیااور دریائے ساوا خشک ہو گیا اورآپ ۖسے ایک ایسا نور نکلا جو پورے آسمان پر مشرق سے مغرب تک پھیل گیا۔ ١
مشہور قول کے مطابق آ پ ۖ کے والد گرامی آپ ۖ کی ولادت سے پہلے اس دار فانی سے کوچ کر گئے تھے ۔ ٢
اس لئے آپۖ کی ولادت کے بعدآپۖ کی کفالت کے اخراجات جہاں آپۖ کی والدہ اور چچا کے ذمہ تھے وہاں والد گرامی کی طرف سے وراثت سے بھی آپ کی کفالت کا سامان فراہم ہو نے لگا تھا ۔
ابن سعد اپنی تاریخ الطبقات الکبری میں آپ ۖ کے والد کی میراث کے بارے میں لکھتے ہیں:
'' ترک عبد اﷲ ابن عبد المطلب ام ایمن و خمسة اجمال اوارک یعنی تاکل الاراک و قطعة غنم فورث ذالک رسول اﷲ صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فکانت ام ایمن تحضنہ و اسمہا برکة''۔٤
عبد اﷲ ابن عبد المطلب نے وراثت میں( ایک لونڈی )ام ایمن ، پانچ آوارک اونٹ یعنی ؛وہ اونٹ جو پیلو کے درخت کے پتے کھاتے ہوں، چند بھیڑیں جو آپ ۖ کومیراث میں ملیں۔ یہی ام ایمن ہیں جس نے آپۖ کی پرورش کی تھی، جس کا اصل نام برکة تھا۔
والدہ ماجدہ کی وفات کے بعدآپۖ کی پرورش اور معاشی کفالت کی ذمہ داری آپۖ کے دادا عبد المطلب نے قبول کی۔ عبد المطلب اپنے یتیم پوتے کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ پس دو سال ہی گذرے تھے کہ آپ ۖ کے شفیق دادا کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے آپۖکو آزمائش میں سرخرو ہو نے کا ایک اور موقع فراہم کیا ۔
دادا کی وفات کے بعدآپۖ کی معاشی کفالت کی ذمہ داری آپ ۖ کے چچا حضرت ابوطالب نے قبول کی۔ وہ آپۖ کو اپنی اولاد سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے۔ سفر میں ہوں یا حضر میں وہ آپۖکو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے ۔ قرآن مجید نے ابوطالب کے اس کریمانہ سلوک کو اس طرح بیان کرتا ہے:
'' اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی''٥
''کیا تمہیں نہ پایا یتیم ، پھر ٹھکانا دیا''
یہ حقیقت ہے کہ اس شفیق چچانے اپنے یتیم بھتیجے کی معاشی کفالت ، نصرت ، و حمایت اور تکریم و جمیل میں اپنی بساط کے مطابق کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا تھا۔ حضرت ابو طالب ہی کے زیر سایہ آپ ۖ نے تجارت کے اصول وضوابط سے آگاہی حاصل کی اور اُس زمانے کی تجارتی دنیا سے آشنا ہوئے ۔
٢۔گلہ بانی
اﷲ تعالی کی حکمت میں کیا راز پوشیدہ ہے کہ اس نے اکثر انبیاء کرام سے بکریاں چروائیں۔ آپ ۖ کا ارشاد گرامی ہے کہ:۔
'' لیس من نبی الا و قد رعی الغنم'' ٦
'' کوئی بھی ایسا نبی نہیں جس نے بکریاں نہ چرائیں ہوں''
کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں بکریاں چرانے کے ذریعے لوگوں کے ساتھ رعایت اور مدارا کرنے کی تربیت دی ہے ۔ جیساکہ امام جعفر صادق ـ نے ارشاد فریا کہ:۔
'' ما بعث اﷲ نبیا قط حتی یسترعیہ الغنم و یعلمہ بذالک رعیة الناس''٧
''اﷲ تعالی نے کسی نبی کو مبعوث نہیں کیا یہاں تک کہ اس سے بکریاں چروائیں تاکہ اس کے ذریعے اسے لوگوں کی رعایت سکھائے''
آپ ۖ نے بھی بکریاں چرائیںجیساکہ ابن ہشام اپنی سیرت میں بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ۖنے فرمایا کہ
''ما من نبی الا و قد رعی الغنم و قیل انت یا رسول اﷲ ، قال و انا'' ٨
''کوئی بھی ایسا نبی نہیں جس نے بکریاں نہ چرائیں ہوں، پوچھا گیا کہ آپ ۖ نے بھی ، فرمایا ہاں میں نے بھی (بکریاں چرائیں ہیں)''
ابواب فقہ میں بکریاں چرانے کو مستحب عمل کہا گیا ہے۔لہٰذا آپۖ بچپن ہی میں جب آپۖ کی عمر مبارک دس سے بارہ سال تھی تو آپ ۖ نے اپنے چچا کا معاشی ہاتھ بٹانے کے لیے بکریاں چرانا شروع کیں ۔علامہ مجلسی بحار الانوار میں ابوداؤد کی روایت بیان کرتے ہیں کہ :۔
''کانت لہ ماة شاة لایرید ان یزیدو کان صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کلما ولدت سخلة ذبح مکانہا شاة۔'' ٩
''آپ ۖ کے پاس سو( ١٠٠) بکریاں تھیں ، ان سے زیادہ (تعداد)بڑھانا نہیں چاہتے تھے ، جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تھا تو آپ ۖ اس کی جگہ ایک بکری ذبح کرتے تھے''
(ابو داؤد نے ایک تفصیلی واقع بیان کیا جو اس حدیث میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے)
٣۔تجارت
جب آپ ۖ جوان ہوئے تو آپ ۖ نے تجارت کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔اس ذریعہ معاش کے انتخاب کی وجوہ میں سے نمایاں وجہ یہ تھی کہ آپ ۖ کے خاندان بنوہاشم اور قریش مکہ بھی تجارت پیشہ تھے ۔ آپ کے آباء واجدادتجارت ہی کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔ جیسا کہ ایک روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ:
''کان اصحاب الایلاف اربعة اخوة: ہاشم ، و عبدالشمس، ولمطلب، و نوفل بنو عبد مناف ۔ فاما ہاشم فانہ کان یؤلف ملک الشام ای اخذ منہ حبلا و عہدا یأمن بہ فی تجارتہ الی الشام ۔ اخوہ عبد الشمس کان یؤلف الی الحبشة۔ و المطلب الی الیمن ۔ و نوفل الی فارس۔'' ١٠
اصحاب ایلاف چار بھائی ہیں: ہاشم ، عبد الشمس ، مطلب اور نوفل ہیں جو اولا د عبد المناف میں سے ہیں ۔ ہاشم نے شام کے بادشاہ سے امان نامہ اورتجارتی عہد لیا تھا تاکہ ملک شام کی طرف ان کی تجارت پر امن رہے۔ ان کے بھائی عبد الشمس نے حبشہ کے حاکم سے تجارتی معاہدہ کیا تھا۔ مطلب نے یمن کے بادشاہ اور نوفل نے ایران کے بادشاہ کسری کے ساتھ تجارتی معاہدہ کیا تھا۔
شام کا تجارتی سفر اور حضرت خدیجة الکبری کے ساتھ عقدجیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے آپ ۖ نے بچپنے ہی میں اپنے چچا حضرت ابو طالب کے زیر سایہ تجارت کے بنیادی اصول وضوابط کی تربیت حاصل کرلی تھی ۔لہٰذا اسی دوران پہلی بار آپۖ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب کے ساتھ تجارت کے لیے شام کا سفر کیا تھا، لیکن اس سفر میں آپ ۖ تاجر کی حیثیت سے نہیں تھے ۔
دوسری بار جب آپ ٢٥ سال کے ہوئے تو آپ ۖ کی امانت و دیانت اور سچائی مشہور ہو گئی تھی ۔ حضرت خدیجہ الکبری جو عرب کی شریف ترین اور مالدار ترین خاتون تھیں، ان کا تجارتی کاروان اہل مکہ کے تجارتی کاروان کے برابر ہوتا تھا، وہ اپنا مال دے کر تجارت میں شرکت ہو جاتیں تھیں اور شرکاء کے لیے ایک حصہ بھی مقرر کرتی تھیں،خود قریش کے لوگ بھی تاجر تھے ۔ جب انہیں رسول ۖ کی سچائی ، امانتداری اور شرافت و اخلاق کے واقعات کی خبر پہنچی تو آپ ۖ کو بلوا بھیجا اور درخواست کی کہ آپ ۖ اُن کا مال لیکر میرے ایک غلام کے ساتھ جس کا نام میسرہ تھا، تجارت کے لیے تشریف لے جائیں۔ آپ ۖ کو معاوضہ بھی اس سے زیادہ دونگی جو دوسرے تاجروں کو دیتی ہوں۔ رسول اﷲ ۖ نے حضرت حضرت خدیجہ کی یہ درخواست قبول فرمالی ۔ آپ ۖ ان کا سامان لے کر میسرہ کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوگئے ۔ ١١
اس سفر میں آپ ۖ نے بہت سا منافع کمایا اور بہت سے معجزات بھی آپ ۖ سے وقوع پذیر ہوئے، یہ تمام واقعات اور عظیم الشان خبریں حضرت خدیجة الکبری ۖ کو میسرہ نے سنائیں ۔ اس کے بعد حضرت خدیجہ نے رسول ۖ کے ساتھ وصلت کا پیغام بھیجا ۔چونکہ حضرت خدیجہ قریش کی عورتوں میں نسب و شرف کے لحاظ سے افضل و اعلی اور دولت کے لحاظ سے تمام عورتوں میں مال دار تھیں ۔ قریش کا ہر شخص اُن سے وصلت کا آرزومند تھا ۔ ١٢
رسول اﷲ ۖنے اپنے چچاؤں سے اس کا ذکر کیا ۔ آپۖ حضرت حمزہ بن عبد المطلب کے ہمراہ تشریف گئے اور اس طرح خدیجہ بنت خویلد سے آپۖ کا عقد ہو گیا۔ ١٣
اس وقت رسول اﷲ ۖ نے انہیں ٢٠(بیس) جوان اونٹنیاں دیں۔ ١٤
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ۖ کے پاس اتنا مال تھا کہ آپ ۖ نے انہیں ٢٠ اونٹنیاں حق مہر میں دیں۔ اس کے بعد حضرت خدیجة الکبری نے بھی اپنی تمام دولت آپ ۖ کے سامنے رکھدی یوں اﷲ تعالیٰ نے آپۖ کو غنی کر دیا ۔ یہ گواہی اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں اس طرح بیان کرتا ہے:۔
''وَ وَجَدَکَ عَائِلاً فَاَغْنَی'' ١٥
''اور آپ کو مفلس پایا اور پھر غنی کر دیا''
آپۖ کے تجارتی سفر :
اس کے بعد دوبارہ آپ ۖ حضرت خدیجة الکبری کا سامان تجارت لیکر جرش (یمن) تشریف لے گئے۔جرش یمن کا ایک بہت بڑا شہر تھا۔١٦
اسی طرح آپ ۖ تجارتی غرض سے بحرین بھی تشریف لے گئے۔ ١٧
یہ تو اعلان نبوت سے پہلے کی آپۖ کی معاشی زندگی تھی ،بعثت کے بعد جب آپ ۖ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو وہاں بھی آپ کی معیشت کے مختلف ذرایع تھے ۔
ہجرت مدینہ کے بعد آپ ۖ کے معاشی حالات:
جب آپ ۖ کے دو بڑے سہارے، حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجة الکبری ، یکے بعد دیگرے اس دنیا سے کوچ کر گئے تو اب کوئی ان جیسا مددگار نہ رہا تھا،ان کے فقدان پر آپ ۖ نے ارشاد فرمایا کہ :۔
'' ما نالت منی قریش شیئا اکرہہ حتی مات ابوطالب'' ١٨
ابوطالب کی وفات تک قریش مجھ سے ایسا کوئی (بُرا)سلوک نہ کر سکے ، جو مجھے نا پسند ہوا ہو۔
اسی سال کو رسول اﷲ ۖ نے عام الحزن قرار دیااور آپ ۖ نے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ کافی کی روایت ہے کہ:
''لما توفی ابو طالب نزل جبرئیل علی رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ و آلہ وسلم فقال یا محمد اخرج من مکة فلیس لک فیہا ناصر''١٩
''جب ابو طالب ـ کی وفات ہوئی تو آپ ۖ پر جبریل نازل ہوئے اور کہا اے محمد ۖ ! آپۖ مکہ سے نکلیں، کیونکہ اب وہاں آپۖ کا کوئی مددگار نہیں ہے''
مدینہ منورہ میں ابتداء میں آپ ۖ کے صحابہ کرام ،آپ ۖ اور آپ ۖ کے اہل خانہ کی معاشی کفالت کیا کرتے تھے ۔انصار مدینہ زراعت پیشہ تھے وہ اپنے کھیتوں میں سے کچھ حصہ وقف کر دیتے تھے اور پکنے کے وقت ایک مخصوص حصہ آپۖ کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ ٢٠
جانور پالنا
جب افراد خانہ کی تعداد بڑھتی گئی تو آپۖ نے ان کی گذر بسر کے لیے کچھ معاشی فعالیت شروع کی ۔ آپ ۖ نے چند بکریاں خرید یںجن کا دودھ آپ ۖکے خاندان والے بطور خوراک استعمال کیا کرتے تھے۔ بکریوں کی تعداد بڑھتی رہی ۔ ان کی بکریوں کے ساتھ آپ ۖ کے ذاتی اونٹ اور گھوڑے بھی ہوتے تھے ۔ جب ان کی تعداد کافی بڑھ گئی تو مدینہ منورہ کے قریب ایک چراہ گاہ میں یہ جانور رہنے لگے ۔ ایک صحابی ان کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے اور دودھ آپ ۖ کے گھر بھیجا دیا جاتا تھا۔ ٢١
دیگر بادشاہوں کے تحائف
جب آپ ۖ نے مدینہ منورہ میں باقائدہ اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالی اور آس پاس کے حاکموں کو دین کی دعوت دینے کے لیے مکتوبات لکھے اور اپنے نمائندے بھیجے تو ان بادشاہوں نے آپ ۖ کی خدمت میں تحائف بھیجے ۔ ان تحائف میں اونٹ گھوڑے ، خچر، گدھے وغیرہ شامل تھے۔(اس کی مختصروضاحت ہم آپ ۖ کے جانوروں میں بیان کریں گے۔)
غنائم
آپۖ کی کفار اور اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ بہت سی جنگیں ہوئیں تھیں ان جنگوں میں آپ ۖکو بہت سال مال غنیمت حاصل ہوا، ان میں سے ایک حصہ آپ ۖ کے لئے خاص ہوتا تھا۔ یہ حصہ آپۖ کو دو صورتوں میں ملتا تھا ، ایک مجاہد کی حیثیت سے اور دوسرا سربراہ مملکت کی حیثیت سے ، جس کو قرآن کریم میں خمس کہا گیا ہے، اس مال سے آپ ۖ اپنی اور اپنے قرابتداروں کی ضروریات پوری کیا کرتے تھے:۔
''وَ اعْلَمُوآ اَنََّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَالْمَسَکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ اِنْ کُنْتُمْ اٰ مَنْتُمْ بِاللّٰہِ وَ مَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقََانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِ یْرُ۔''٢٢
''جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ تو اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت داروں کا اور یتیموں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا، اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر اس دن اتارا جو دن حق اور باطل کی جدائی کا تھا جس دن دو فوجیں بھڑ گئی تھیں اور اﷲ ہر شی پر قدرت رکھتا ہے''۔
مخیریق کی جائداد کا آپ ۖ کو ملنا:
مخیریق قبیلہ بنو قینقاع کا ایک مالداریہودی تھا، اسے آپ ۖ سے انتہائی عقیدت تھی ۔اور آپ ۖ ان کو ''خیر یہود'' کہا کرتے تھے۔ ٢٣
اس کے سات باغ تھے ۔ وہ آپ ۖ کے ساتھ غزوہ احد میں شریک تھا ۔ اس نے وصیت کی تھی کہ اگر وہ مر جائیں تو ان کی تمام دولت آپۖ کی ملکیت ہوجائے گی ۔٢٤
وہ اسی غزوہ میں قتل ہو گئے اسی طرح اس کی ساری دولت آپۖ کی ملکیت میں آگئی۔اس کے سات باغات کے نام یہ ہیں:العواف،الدلال، البرقة، المثیب، الحسنی، الصافیة، مشربة ام ابراہیم (یہ نام اس لیے رکھا کہ آپ ۖ کے بیٹے ابراہیم کی والدہ حضرت ماریہ قبطیہ وہاں رہتی تھی)۔٢٥
بنو نضیر کی زمین اور نخلستان
اﷲ تعالی نے آپۖ کو بنو نضیر کے باغات اور زمین کا مالک بنایاجس کی گواہی قرآن کریم کی سورئہ حشر میں موجود ہے کہ:۔
''اور جس مال کو اﷲ نے اپنے رسول کی آمدنی قرار دیا ہے (اس میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے ) کیونکہ اس کے لیے نہ تو تم نے گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ ،لیکن اﷲ اپنے رسولوں کو جن پر چاہتا ہے غالب کردیتا ہے اور اﷲ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔'' ٢٦
بنو نضیر نے جب معاہدے کی خلاف ورزی کی تو آپ ۖ نے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے ان پر چڑھائی کی ، جس کی نتیجے میں انہوں نے جلاوطنی قبول کی اور اپنی تمام جائداد چھوڑ دی سوائے منقولات میں سے صرف جتنا اٹھا سکے اتنا لے گئے۔ آپ ۖ نے ان کے منقولات کو تمام مجاہدین میں تقسیم کردیا اور غیر منقولات (زمین اور باغات وغیرہ)اﷲ کے حکم کے مطابق اپنے لیے رکھ لیئے ۔
عامہ کی روایت کے مطابق بنو نضیر کی زمین اور نخلستان آپ ۖ کے لیے خاص تھے :
''کانت اموال بنی نضیر مما آفاء اﷲ علی رسولہ مما لم یوجف المسلمون علیہ بخیل و لا رکاب ، کانت لرسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ وسلم خالصا ینفق علی اہل بیتہ ۔'' ٢٧
بنو نضیر کے اموال خالصة اﷲ کے رسول ۖ کے لیے تھے جو اﷲ نے اپنے رسول کو عطا کئے تھے جس میں مسلمانوں نے نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ، یہ اموال آپ ۖ اپنے اہل بیت پر خرچ کرتے تھے۔
آپ ۖ نے اپنی ازواج کی کفالت کے لیے بنو نضیر کے نخلستان ،جو آپۖ کو غنیمت کے طور پر ملے تھے ،کی پیداوار میں سے ایک حصہ مقرر کیا تھا ، جسے فروخت کرکے ان کے سال بھر کی گذربسر کا سامان کیا جاتا تھا۔جب خیبر فتح ہوا تو تمام ازواج کے لیے فی کس اسی وسق کھجور اور بیس وسق جو سالانہ مقرر ہوا تھا۔ ٢٨
خیبر کی آمدنی
آپ ۖ نے صلح حدیبیہ کے بعد خیبر کی طرف رخ کیا کیونکہ وہاں کے یہود اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ جب خیبر فتح ہوا تو آپ ۖ نے انہیں اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے کے بجائے وہاں رہائش اختیار کرنے کی اجازت دے دی اس شرط کی بنا پر کہ وہ خیبر کی زمین کاشت کریں گے اور اس کا آدھا حصہ آپۖ کو بھیجیں گے۔ ٢٩
خیبر کی زمینوں کی آمدن آپ ۖ کے لیے تھی۔
فدک
فدک حجاز کے بالائی حصہ میں دوسرے قصبات کی طرح ایک مستقل ریاست کا درجہ رکھتا تھا ۔ اس کی زمین زرخیز اور پیداوار کے لیے مشہور تھی ۔ بلاذری لکھتے ہیں:۔''فدک حجاز کا ایک شہر ہے ، مدینے سے فدک تک دو دن یا تین دن کا سفر ہے ، اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول ۖ کوساتویں ہجری میںیہ بطور غنیمت عطا کیا۔ جب نبی پاک ۖ نے خیبر پر حملہ کیا اور اس کے تمام قلعے فتح ہو گئے اور وہاں کے لوگوں نے رسول اﷲ ۖ کو خیبر کی آمدنی کا آدھا حصہ دینے کا معاہدہ کیا۔ تو یہ خبر فدک والوں تک پہنچی تو انہوں نے رسول اﷲ ۖ کو پیغام بھیجا کہ وہ آپۖ کو اپنی زمین اور اموال کا آدھا حصہ دینے کا معاہدہ کریں گے ۔ آپ ۖ نے ان کی یہ پیش کش قبول کی۔ یہ غنائم خالصة رسول اﷲ ۖکے لیے تھے کیونکہ اس میں مسلمانوں نے (جنگ کے لیے) نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ۔'' ٣٠
اس طرح فدک کی زمین آپۖ کی ملکیت میں آگئی۔٣١
وادی القری
یہ وادی مدینہ اور شام کے درمیان ہے ، جسے یہودیوں نے قبل از اسلام آباد کیا تھا، یہ بہت سے قصبوں پر مشتمل تھی۔ ٣٢
آپ ۖ فدک کے بعد وادی القری کی طرف متوجہ ہوئے ، سب سے پہلے انہیں اسلام کی دعوت دی انہوں نے اس د عوت کو قبول نہ کیا ، بلکہ جنگ کے لیے آمادہ ہوئے ۔ مختصر محاصرہ کے بعدآپ ۖ نے وادی القری کو فتح کیا ۔ وہاں کے لوگوں نے آپۖ کو اپنی زمین کا آدھا حصہ دینے کا معاہد کیا ، جسے آپ ۖ نے قبول کر لیا۔
وادی التیمائ
تیما ء شام کی جانب ایک قصبہ ہے جو وادی القری اور شام کے درمیان تھا، یہ شام اور دمشق سے آنے والے حجاج کے راستے میں پڑتا تھا، یہاں پر سموآل یہودی کا قلعہ الابلق الفرد تھا۔ ٣٣
جب رسول اﷲ ۖ نے اہل خیبر اور اہل فدک اوراہل وادی القری کے ساتھ معاہدہ کئے تو اہل تیماء نے بھی آپۖ کو صلح کا پیغام بھیجا آپ ۖ نے قبول فرمایا اورانہیں اپنی زمین میں رہنے دیااوروہ اپنی زمین کی پیداوار کا نصف حصہ آپۖ کو دینے پر راضی ہوئے۔٣٤
آپ ۖ کے جانور
(الف)آپۖ کے اونٹ
ابن کثیر کی روایت کے مطابق آپۖ کی تین اونٹنیاں تھیں۔(١) القصوی (٢) الجدعائ(٣) العضباء ، ٣٥
تہذیب الکمال للمزی کی روایت کے مطابق آپ ۖ کے پاس بیس دودھ دینے والی اونٹنیاں تھیں:۔(٤) الحناء (٥)السمراء (٦)العریس (٧)السعدیہ (٨) البغوم (٩) الیسیرة (١٠) الربی (١١) بردة جو آپ ۖ کو ضحاک ابن سفیان الکلابی نے ہدیہ کی تھی یہ دو اونٹنیوں کے برابر دودھ دیتی تھی۔(١٢) مہرة (١٣) الشقراء (١٤) القصوی (١٥) الجدعائ(١٦) العضباء (١٧)الصہباء (١٨) الغیم (١٩) النوق (٢٠) مروة۔ ٣٦
مناقب ابن شہر آشوب کی روایت کے مطابق: (١) العضباء (٢) الجدعا(٣) القصوی یا اسے القضواء کہا جاتا ہے (٤)الصہباء (٥) البغوم (٦) الغیم (٧) النوق (٨) مردة اور دس دودھ دینے والی اونٹنیاں (٩) مہرة (١٠) الشقراء (١١) الریا (١٢) الحبا(١٣) السمرا (١٤) العریس (١٥) السعدیة (١٦) البغوم (١٧) الیسیرة (١٨) بردة۔٣٧
سبل الہدی کی روایت کے مطابق آپ ۖ کی ٤٥ دودھ والی اونٹنیاں تھیں۔٣٨
لیکن اس نے تمام کے نام ذکر نہیں کئے۔
(ب)آپۖکے گھوڑے
ابن شہر آشوب کی روایت کیے مطابق آپ ۖ کے گھوڑے یہ تھے :۔ (١)الورد (٢) الطرب (٣) اللزاز (٤) اللحیف (٥) مرتجز (٦) السکب (٧) الیعسوب (٨) السبحة (٩) ذو العقاب (١٠) الملاوح اسے مراوح بھی کہا جاتا ہے۔٣٩
بعض روایات کے مطابق آپ ۖ کے پاس پندرہ گھوڑے تھے بعض کے مطابق بیس تھے۔٤٠
(ج)بغالہ (خچر)
سبل الہدی کی روایت کے مطابق آپ ۖ کے پاس سات خچر تھے ،(١) دلدل جوآپۖ کوشاہ مصر مقوقس نے ہدیہ کیا تھا(٢) فضة جوآپۖ کو فروة بن عمرو الجذامی نے ہدیہ کی تھی۔(٣) ایک خچر ایلیا کے رئیس نے ہدیہ کیا تھا (٤) ایک خچر کسری نے ہدیہ کیا تھا (٥)ایک دومة الجندل (٦) ایک نجاشی نے ہدیہ کی تھی۔(٧) حمارة شامیة ۔٤١
(د)حمارہ(گدھے)
آپ ۖ کے پاس دو گدھے تھے بحار الانوار کی روایت کے مطابق(١)یعفور جو مقوقس نے دلدل کے ساتھ آپۖ کو ہدایہ کیا تھا۔ (٢) عفیر فروة جذامی نے فضة کے ساتھ ہدیہ کیا تھا۔٤٢ سبل الہدی و الرشاد کی روایت کے مطابق ان کی تعداد چار تھی دو یہی اور (٣) سعد بن عبادة نے ہدیہ کیے تھے (٤) آپ ۖ کے کسی صحابی نے ہدیہ کیا تھا۔٤٣
(ھ)آپ ۖ کے بکریاں
آپ ۖ کی ١٠٠ بھیڑ بکریاں تھیں۔٤٤
(١١)آپۖ کی مجموعی زمینی پیداوار
السید مرتضی العسکری نے اپنی کتاب معالم المدرستین میں آپۖ کی معاشیات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے، ان میں سے پہلا حصہ: صدقات جو آٹھ تھے:
(١)سب سے پہلے آپ ۖ کو مخیریق یہودی کی وصیت کے مطابق اس کی زمین جو الحوائط السبعة کے نام سے ہے مشہور تھے، ملکیت میں ملی۔(٢)مدینہ منورہ میںبنو نضیرکی زمین،(٣)(٤)(٥) خیبر کے تین حصے(٦)آدھا فدک(٧) وادی القری کا ثلث (٨)سوق المدینہ جس کو مہزور کہا جاتاہے۔
دوسرا حصہ: آپ کا حق فی تھا جو آپ ۖ کے لیے خاص تھا۔
تیسرا حصہ: خیبر کا خمس تھا ۔ یہ تمام حقوق خاص رسول ۖکے لیے خاص تھے ، اس میں کوئی اور شریک نہیں تھا۔ ٤٥
حوالہ جات
١۔ تاریخ یعقوبی، ج ٢ ، ص ٨، تاریخ دمشق، ج ٣٧، ص ٣٦١
٢۔ طبقات ابن سعد ، ج ١، ٩٩
٣۔ یعقوبی، ج ٢، ص ١٠
٤۔ طبقات الکبری لابن سعد ، ج ١ص ، ١٠٠
٥۔ القرآن ، الضحی،٦
٦۔ اصول الکافی، ج ١، ٤٤٩،۔ صحیح البخاری، ج٢، ص ١٥۔سیرت ابن ہشام، ج ١ ،ص ١٧٨
٧۔ (الشیخ الصدوق (متوفی ٣٨١ھ ناشر مکتبة الحیدریة ، نجف، ١٩٦٦ع)علل الشرائع، ج١، ص ٣٢
٨۔ سیرت ابن ہشام، ج ١، ص ١٠٨
٩۔ بحار الانوار ، ج٦١، ص ١١٦، ابوداؤد ، سنن ابی داؤد ، ج١، ص ٣٨، حدیث نمبر ١٤٢
١٠۔ تفسیر القرطبی ، ج٢٠، ص٢٠٤
١١۔ سیرت ابن ہشام ج ١،ص ١٢١
١٢۔ سیرت ابن ہشام ج ١،ص ١٢٢
١٣۔ ایضاً
١٤۔ ایضاً
١٥۔ القرآن ، الضحی :٨
١٦۔ ڈاکٹر پروفیسر نور محمد غفاری، نبی کریم ۖ کی معاشی زندگی، ص ٨٢
١٧۔ ایضاً
١٨۔ سیرت ابن ہشام،ج ٢، ص٢٨٣، تاریخ الطبری ، ج٢، ص٨٠
١٩۔ الکافی، ج١، ص٤٤٩
٢٠۔ نبی کریم ۖ کی معاشی زندگی، ص ١٥٣
٢١۔ نبی کریم ۖ کی معاشی زندگی، ص ١٥١
٢٢۔ القرآن، الانفال، آیت ،٤١
٢٣۔ بحار الانوار ، ج ٢٠، ص ١٣٠
٢٤۔ ایضا
٢٥۔ تہذیب الاحکام ، ج ٩ ، ص ١٤٥، بحار الانوار ،ج ٢٢، ص ٢٩٨
٢٦۔ القرآن، الحشر ، ٦
٢٧۔ صحیح البخاری ، ج ٦، ص ٥٨،سنن ابو داؤد، ج ٢ ،حدیث نمبر ٢٩٦٥، ص ٢٢ ، سنن الترمذی، ج ٣ ، ص ١٣١
٢٨۔ معجم الاوسط ، الطبرانی، ج٢، ص٢٠٥، عبداﷲ اابن قدامہ، مغنی، ج ٥ ، ص٥٨٤
٢٩۔ صحیح المسلم ، ج ٥، ص٢٧، سنن ابی داؤد ، ج٢، ص١٢٦۔
٣٠۔ معجم البلدان، ج ٤، ص ٢٣٨
٣١۔ الکافی ، ج١، ص ٥٤٣
٣٢۔ معجم البلدان ، ج ٥، ص٣٤٥
٣٣۔ معجم البلدان ، ج٢، ص ٦٦
٣٤۔ ایضاً
٣٥۔ ابن کثیر ، السیرة النبویة، ج ٤ ص ٧١٣، البدیة و النہایة ، ج ٦، ص١٠
٣٦۔ تہذیب الکمال ، ج ١ ، ص ٢١١
٣٧۔ مناقب ابن شہر آشوب ، ج ١ ، ص ١٤٦
٣٨۔ سبل الہدی و الرشاد، ج ٧، ص ٤٠٧
٣٩۔ مناقب آل ابی طالب، ج ١ ،ص ١٤٦
٤٠۔ سبل الہدی و الرشاد ، ج ١١، ص ٤١٩
٤١۔ سبل الہدی و الرشاد ، ج ٧،ص٤٠٥
٤٢۔ بحار الانوار ، ج ١٦ ، ص١٠٨
٤٣۔ سبل الہدی و الرشاد ، ج ٧ ، ص ٤٠٦
٤٤۔ مناقب لابن شہر آشوب، ج ١ ، ١٤٦ ،بحار الانوار ، ج٦١، ص ١١٦، ابوداؤد ، سنن ابی داؤد ، ج١، ص ٣٨، حدیث نمبر ١٤٢
٤٥۔ السید مرتضی العسکری ،معالمة المدرستین، ج٢، ص ١٣١
المراجع والمصادر
١۔ القرآن الکریم
٢ ۔ ابن شہر آشوب ابو عبد اﷲ محمد ابن علی ابن شہر (متوفی ٥٨٨ھ)
''مناقب آل ابی طالب''، المطبعة الحیدریة النجف الاشرف، سنة ١٣٧٦
٣۔ احمد بن حسین بن علی البیہیقی(الموتوفی:٤٥٨):'' السنن الکبریٰ''ناشر دار الفکر بیروت لبنان
٤۔ امام ابوالفداء اسماعیل بن کثیر(المتوفی ٧٧٤): ''البدایہ والنہایہ''، ناشر دار الاحیاء التراث، العربی، الطبعة الاولی سنة ١٩٨٨
٥۔ امام ابوالفداء اسماعیل بن کثیر(المتوفی ٧٧٤) :''السیرة النبویة'' ناشر دار المعرفة بیروت ، طبع اول ،سنة ١٣٩٦ھ
٦۔ امام ابوالفداء اسماعیل بن کثیر(المتوفی ٧٧٤) : ''البدیة و النہایة'' ، الناشر : دار الاحیاء التراث العربی۔
بیروت، الطبعة الاولی ١٤٠٨ھ
٧۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری(المتوفی ٢٥٦ھ) :''صحیح البخاری''،ناشردار الفکربیروت،سنة ١٤٠١ھ
٨۔ امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی(التوفی ٩٤٢ ):'' سبل الہدی و الرشاد''، ناشر دار المکتبة العلمیة بیروت لبنان،
الطبعة الاولیٰ سنة ١٩٩٣ع
٩۔ امام مسلم بن حجّاج ا لقشیری : ''صحیح مسلم ،'' ناشر دار الفکر بیروت ۔ لبنان
١٠۔ الترمذی محمد ابن عیسی (متوفی ٢٧٩ ھ): ''سنن الترمذی''، دار الفکر بیروت ، سنة ١٤٠٣ھ
١١۔ جمال الدین ابو الحجاج یوسف المزی (متوفی ٧٤٢ھ): ''تہذیب الکمال'' ، الناشر :
موسسة الرسالة، الطبعة الرابع سنة ١٤٠٦ھ
١٢۔ (ڈاکٹر پروفیسر نور محمد غفاری، نبی کریم ۖ کی معاشی زندگی، دیال سنگھ لائبرری لاہور
١٣۔ سلیمان ابن اشعث السجستانی (متوفی٢٧٥ھ):
''سنن ابی داؤد''، طبع اولیٰ،دارالفکربیروت،سنة ١٤١٠ھ۔١٩٩٠ع
١٤۔ السید مرتضی العسکری (معاصر)معالمة المدرستین، بیروت، سنة ١٤١٠ھ۔١٩٩٠ع
١٥۔ شہاب الدین ابو عبد اﷲ یاقوت الحموی (متوفی ٦٢٦ھ):
''معجم البلدان'' ، دار الاحیاء التراث العربی ،بیروت سنة ١٣٩٩ھ
١٦۔ (الشیخ الطوسی محمد ابن الحسن (متوفی٤٦٠ھ): ''تہذیب الاحکام''
الناشر : دار الکتب الاسلامیة، الطبعة الرابعة ١٣٦٥ ش
١٧۔ الشیح محمد باقر المجلسی (المتوفی١١١١ھ )''بحار الانوار''،
ناشر مؤسسة الوفاء بیروت لبنان، الطبع الثانیہ ، سنة ١٩٩٣ع
١٨۔ (الطبرانی سلیمان ابن احمد(متوفی٣٦٠ ھ)، ''معجم الاوسط ''،المطبعة دار الحرمین، سنة ١٤١٥ھ ١٩٩٥ع
١٩۔ عبد الملک بن ہشام الحمیری(المتوفی ٢١٨) :''سیرت النبی ۖ ''
طبع مکتبة محمد علی صبیح و اولادہ میدان الازہر بمصر سنة ١٣٨٣ھ
٢٠۔ محمد یعقوب کلینی(المتوفی ٣٢٩ھ) :" اصول کافی " ناشر دارالکتب اسلامیہ تہران، طبع چہارم ،سال ١٣٦٥ھ ش
٢١۔ (یعقوبی احمد بن ابی یعقوب (متوفی٢٨٤):''تاریخ یعقوبی''،الطبع ، دار الصادر، بیروت،
ناشر فرہنگ اہل بیت ، قم ایران
قل شریف مسجد تاتارستان – قازان
نیلے گنبد کی حامل قل شریف مسجد
قل شریف مسجد روس کے علاقے قازان میں واقع مسجد ہے جو روس کی سب سے بڑی مسجد ہے جس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہے۔
یہ مسجد 16 ویں صدی میں تاتارستان قازان میں تعمیر کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کے مینار بھی تھے۔ اسے روایتی وولگا بلغاریہ انداز میں تیار کیا گیا تھا لیکن یورپی نشاۃ ثانیہ کے اولین دور کا اور عثمانی انداز بھی استعمال کیا گیا تھا۔ 1552ء میں سقوط قازان کے بعد روسیوں نے اس مسجد کو شہید کر دیا۔
تاتار دانشوروں کا کہنا ہے کہ قل شریف مسجد کے چند عنصر ماسکو میں قائم مشہور سینٹ بازل گرجے میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں جن میں 8 مینار اور ایک مرکزی گنبد شامل ہے جو روایتی روسی طرز تعمیر سے مطابقت نہیں رکھتا۔
1996ء میں اس مسجد کی دوبارہ تعمیر کا آغاز ہوا جو جدید طرز تعمیر کی حامل ہے۔ نئی مسجد کا افتتاح 24 جولائی 2005ء کو ہوا۔
























ہندوستانی مسلمان طلباء كا فلسطينی ملت كے ساتھ اظہاريكجہتی

ہندوستان كے شہر جے پور میں مسلمان طلباء نے ايك سيمينار منعقد كيا ہے جس میں غاصب اسرائيل كے مقابل فلسطينی ملت كے ساتھ اظہار يكجہتی كيا ہے ۔
ہندوستان كی مسلم سٹوڈنٹ آرگنائزيشن كے چئيرمين سيد محمد قادری نے اس سيمينار میں اعلان كيا : ہم ہندوستانی عوام فلسطين كے بہادر عوام جو صہيونی غاصبوں كے سامنے كھڑے ہیں ۔ يكجہتی كا اعلان كرتے ہیں ۔
انہوں نے مزيد كہا ہم فلسطينی عوام كے استقلال اوراستحكام كی حمايت كرتے ہیں اور صیہونی حكومت كو فلسطين كی نسل كشی اور مقامات مقدسہ كی توہين اور بيت المقدس كو تباہ كرنے پر اس كی شديد مذمت كرتے ہیں ۔
ہم فسلطينی حكومت اور حكام سے مطالبہ كرتے ہیں كہ صیہونی جرائم كی وجہ سے اسرائيل سے رابطہ ختم كرے اسی طرح ہم ہندوستان كی حكومت سے مطالبہ كرتے ہیں كہ غاصب اسرائيل حكومت كے ساتھ اقتصادی ، ثقافتی ، سياسی اور فوجی تعلقات ختم كرے
کوفي عنان کے فارمولے کے لئے روس کي حمايت
روس کے ايوان صدر کرملين نے اعلان کيا ہے کہ وہ شام کے امور ميں اقوام متحدہ کے خصوصي نمائندے کوفي عنان کے امن فارمولے کي حمايت کرتا ہے
کرملين سے جاري ہونےوالے بيان ميں کہا گيا ہے کہ روسي صدر ولاديمير پوتين کے ساتھ کوفي عنان کي ملاقات کا پروگرام يہ ثابت کرديتا ہے کہ کرملين شام کے بحران کو سياسي طريقے سے حل کئے جانے کي حمايت کرتا ہے –
کرملين سے جاري ہونےوالے بيان ميں کہا گيا ہے کہ ماسکو چاہتا ہے کہ شام ميں تعينات بين الاقوامي مبصرين حکومت اور مخالف گروہوں کے درميان فائربندي پر عمل کرنے کے تعلق سے ايک جامع سمجھوتہ کراديں –
روس يہ بھي چاہتا ہے کہ لڑائي والے علاقوں سے شامي فوج اور مسلح افراد کا بيک وقت انخلاء ہو –
اس سے پہلے روسي وزيرخارجہ نے اپنے ايک بيان ميں کہا تھا کہ مغربي ملکوں کي يہ سخت بھول ہوگي اگر وہ يہ سوچيں کہ روس شام کے صدر بشار اسد کو زبردستي ہٹائے جانے کے کسي بھي اقدام يا منصوبے کي حمايت کرے گا-
امريکي صدر کے بيان پر ہندوستان کي سياسي جماعتوں کا ردعمل
ہندوستان کي مختلف سياسي جماعتوں نے امريکي صدر باراک اوباما کے مداخلت پسندانہ بيان پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ان پرشديد تنقيد کي ہے-
امريکي صدر باراک اوباما نے ہندوستان ميں غير ملکي سرمايہ کاري کے مواقع کے بارے ميں مداخلت پسندانہ بيان ديتے ہوئےکہا تھا کہ ہندوستان ميں غير ملکي سرمايہ کاري کي صورتحال بہت ہي تشويشناک ہے- انہوں نے ہندوستان سے کہا تھا کہ وہ ملک ميں اقتصادي اصلاحات کا نيا پروگرام نافذ کرے –
ہندوستان کي مارکسي کميونسٹ پارٹي کے رہنما نيلوتپال باسو نے کہا کہ امريکي چاہتے ہيں کہ ہم اپني معيشت اور منڈي ان کي مرضي کے مطابق چلائيں اور ان کي مرضي کےمطابق ہي اقتصادي اصلاحات انجام ديں –
حزب اختلاف کي جماعت بھارتيہ جنتا پارٹي نے بھي امريکي صدر کے بيانات کو مضحکہ خيز قرار ديا ہے - راجيہ سبھا ميں بي جے پي کے ممبر ترون وجے نے کہا کہ امريکا ايک ايسے وقت ہميں سرمايہ کاري اور اقتصادي اصلاحات کا درس دے رہا ہے جب وہ خود بري طرح معاشي مشکلات سے دو چار ہے –
سماج وادي پارٹي کے رہنما شاہد صديقي نے کہا کہ ہندوستان امريکا کي حمايت ميں کوئي بھي فيصلہ نہيں کرے گا- انہوں نے کہا کہ امريکي چاہتے ہيں کہ وہ اپني منڈيوں کا دائرہ ہندوستان ميں مزيد وسيع کريں
ماہ رمضان کے دنوں کی دعاؤوں کا ماحصل
چاند کی رات ایک روزہ دار اس حالت میں کہ اس کا چہرا خوشی سے کھلا ہوا آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے ہوئے ماہ مبارک رمضان کے چاند کا نظارہ کرتے ہوئےاپنے معبود کے حضور میں یہ عرض کرتا ہے: خدایا! اس مہینہ کو مجھ پر ایمان کی سلامتی،اسلام کی اطاعت اور جسم کی عافیت کا مہینہ قرار دے۔
ماہ مبارک کا پہلا روز تم پر مبارک۔ " تم جانتے ہو کس کے مہمان ہو ؟ اس کے جو تمام جہانوں کا معبود ہے۔ اور تمام گناہ گاروں کو بخشنے والا ہے۔ اس سے اپنےروزہ کی سلامتی اور شب بیداری کی درخواست کرو۔
دو دن سے روزہ کی حالت میں ہو۔ کوشش کرو تاکہ خدا کی خشنودی حاصل ہو جائے اور اس کے خشم و غضب سے نجات مل جائے اس مہربان ترین ذات سے آیات قرآنی کی تلاوت کی توفیق طلب کرو۔
آج تیسری رمضان ہے۔ اپنی سلامتی اور بیداری کے لیے دعا کرو اور ہر غیر معقول اور غلط چیز سے پرہیز کرو۔ اس مہینے کی خیر و برکت میں سے اپنے حصے کو طلب کرو کہ وہ بہترین بخشنے والا ہے۔
چار دن ہو چکے ہیں کہ آسمان کے دروازے تمہارے اوپر کھلے ہوئے ہیں۔ خدا کے حکم اور اس کے دستور کو بجا لانے کے لیے آمادہ ہو جاؤ جیسا کہ تعمیل حکم کا حکم ہے اور اس کے شکرگزار بنو ۔ بے شک تمہارا پروردگار تمہارے حالات سے آگاہ ہے۔
پانچواں دن ہے کہ تمہارا میزبان مہمان کی دل کی دھڑکنوں کو سن رہا ہے۔ دعا کے لیے ہاتھ بلند کرو۔ خدا یا اس مہینے میں مجھے مغفرت طلب کرنے والوں، تیرے حکم کی تعمیل کرنے والوں، اور اپنے بارگاہ کے مقرب بندوں میں سے قرار دے ۔
چھ دن ہو گئے ہیں کہ اپنے صبر کو آزما رہے ہو۔ شک و تردید، ایک لمحہ کے لیے تجھے چھوڑ نہیں رہا ہے۔ اس نا فرمانی سے تم ڈر رہے ہو۔ اس کے تازیانوں سے خوف زدہ ہو۔ اس کے غضب کے اسباب سے فرار کرتے ہو اور اسے نہایت دوست رکھتے ہو جو تمام مشتاقین کا عشق ہے۔
سات دن سے جسم کی پیاس برداشت کی ہے۔ اور اپنی روح کو اس کے ذکر سے سیراب کیا ہے۔ اور ہر طرح کی لغزش اور گمراہی سے اس کی پناہ اختیار کرو جو گمراہوں کی ہدایت کرنے والا ہے۔
آٹھواں دن آ گیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اپنی محبت کو یتیموں کی نسبت کم کر دو۔ اپنے کھانے کو ان کے درمیان تقسیم کرو اور اپنے مسلمان ہونے کو آشکار کرو اور کریم اور سخی افراد کے ساتھ بیٹھنا سیکھو۔
نو دن سے روزہ داروں کی صف میں ہو۔ کیا اس کی رحمت واسعہ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہو؟ کیا اس کے واضح اور آشکار براہین کو دیکھنے میں کامیاب ہوئے ہو؟ کیا اس کی خشنودی کے اسباب کو فراہم کیا ہے؟ وہ تمام مشتاقین کی آرزو ہے۔
ایک تہائی ماہ رمضان گزر چکا ہے ۔ خدا پر توکل کرو تا کہ اس کی بارگاہ کے سعادت مند افرادمیں سے کہلاؤ۔ اس کو طلب کرو کہ جو تمام تلاش کرنے والوں کا آخری ہدف ہے۔
ماہ مبارک کی گیارہویں تاریخ ہے۔ اس سے چاہو کہ وہ تمہیں احسان اور نیکی کو دوست رکھنے والوںمیں سے قرار دے۔ اور فسق و فجور سے دور رکھے۔ اس سے چاہو کہ وہ آتش جھنم کو تم پر حرام کرے۔ وہ تمام فریاد کرنے والوں کی فریاد کو سننے والا ہے۔
ماہ رمضان کے بارہ دن گذر گئے ہیں۔ عفت اور پاکدامنی کا لباس اپنے جسم پر پہنے رہو۔ قناعت کواختیار کرو اور عدل اور انصاف کو مد نظر رکھو۔
آج، رمضان کی تیرہویں تاریخ ہے۔ اور تم دوسروں سے زیادہ سعادتمند ہو ۔ آلودگیوں سے پاک رہو اور اپنے مقدر پر صبر کرو ۔ اور پرہیز گار رہو اور نیک لوگوں کے ساتھ ہمنشین رہو۔
چودہ دن سے اللہ کے مہمان ہو۔ وہ پروردگار جو تمام مسلمانوں کو عزت عطا کرتا ہے اور تمہیں خطا اور لغزش سے محفوظ رکھتا ہے۔ امید ہے کہ بلاؤں اور آفات کا ہدف نہیں بنو گے۔
نصف رمضان میں داخل ہو چکے ہو۔خدایا! اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرما۔ اور میرے سینے کواپنی طرف پلٹنے کے لیے گشادہ کر۔ اے ڈرنے والوں کو امان دینے والے۔
رمضان کی سولہویں ہے۔ آمادہ ہو جاؤ تا کہ نیک لوگوں کا ساتھ دو۔اور برے اور اشرار سے دور رہو۔ اور امن و امان کے گھر میں داخل ہو جاؤ۔
سترہ دن سے تم روزہ سے ہو۔ اور اپنے پروردگار کی رہنمائیوں سے مستفید ہو ۔ اس سے چاہو کہ تمہاری حاجات کو پورا کرے اور آرزؤں کو بھر لائے اس لیے کہ وہ تمہارے دل کے رازؤں سے آگاہ ہے اور تمہارے سوال کرنے سے بے نیاز ہے۔
اٹھارہ دن گزار چکے ہو۔ کتنی برکت ہے رمضان کی سحریوں میں، کیا نور ہے رمضان والوں کے دلوں میں۔ اور کیا لذت ہے اس کی پیروی میں کہ جو عارفوں کے دلوں کو روشنی بخشنے والا ہے۔
آج انیسویں رمضان ہے۔صرف خدا جانتا ہے کہ ان ایام میں ہمارے اوپر کیا گزری ہے اور ہماری اس کے نزدیک کیا قدر و قیمت ہے۔ اے واضح حقیقت کی طرف ہدایت کرنےوالے اور مہربان،ہماری ہدایت فرما۔
بیس دن رمضان کے گزر گئے ہیں۔ خدا سے مناجات کی فرصت کو ہاتھ سے نہ جانے دو کہ وہ اطمینان اور سکون کو مومنین کے دلوں میں پیدا کرتا ہے۔ بہشت کے دروازوں کو آج ہمارے اوپر کھول دے۔
آج اکیسویں ماہ رمضان ہے۔ شیطان کے اپنے اوپر مسلط ہونے کے راستے کو بند کر دو اور اس کی خشنودی کو حاصل کرنے کے راستے کو تلاش کرو۔
بائیسویں بار اسے پکارو۔ اے بے کسوں کی دعا قبول کرنے والے اپنے فضل وکرم کو ہمارے اوپر نازل فرما۔اور ہمیں اپنے رضوان کے منزل پر جگہ عنایت فرما۔
یقین رکھو کہ شب ہائے قدر کی توفیق حاصل ہو۔ اس سے کہ جو گناہ گاروں کو نظر انداز کرتا ہے امید رکھو۔ تا کہ تمہیں بھی اس مہینے میں گناہوں سے دھو دے۔اور تمہیں تمہارے عیوب سے پاک کرے۔
ماہ رمضان کے چوبیس دن گزرچکے ہیں۔ اس کی پناہ حاصل کرو اس چیز سے جس سےتم نے اس کو آزار دیا ہے۔ اور اس کی پیروی کرو جس کا اس نے حکم دیا ہے۔ ہزار بار اس نام کو پکارو کہ جوتمام گناہگاروں کو بخشنے والا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ تمہارا دل بے چین ہے اس لیے کہ پانچ دن رمضان کے باقی بچے ہیں۔ اور تم اسی طریقے سے اس کے دوستوں کے ساتھ دوستی اور اس کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی کے بارے میں فکر کر رہے ہو۔ تمہارا اس کے ساتھ عہد و پیمان ہمیشہ باقی رہے۔
آج کے بعد صرف چار دن اور تین سحر میں اپنے خدا سے ملاقات کے لیے اٹھنا ہو گا۔ اے کاش اس مہینے میں ہماری تلاش و کوشش سے ہماری تقدیر بدل جاتی۔ اور ہمارے گناہ بخشے جاتے۔ ہمارے اعمال قبول ہو جاتے ور ہمارے عیب پوشیدہ رہتے۔
گزشتہ رات آخری شب قدر تھی۔ خدا کی وسعت رحمت سے باہر نہیں ہے کہ وہ ہمارے اشتباہات کو بخش دے اور ہمارے عذر کو قبول کرے۔ اور ہمارے امور کو آسانی کے ساتھ آگے بڑھائے۔ ہاں، وہ اپنے صالح بندوں کی نسبت بہت مہربان ہے۔
با برکت ایام کتنے جلدی گزر گئے ہیں۔ دو دن کے بعد ماہ رمضان تمام ہو جائے گا۔ ایسا نہ ہو کہ ہم مستحبات اور نوافل کی انجام دہی سے غافل رہیں۔
صرف ایک دن بچا ہے ماہ رحمت کا۔ خدایا ہمیں ان دنوں میں اپنی محبت کے سایہ میں جگہ عنایت فرما۔ اور ہمارے دلوں کو ہر طرح کی ظلمت اور تاریکی سے محفوظ رکھ۔ اے اپنے مومن بندوں پر مہربانی کرنے والے۔
آج کی رات الوداع کی رات ہے۔ کتنی لذت تھی ماہ مبارک میں اور کتنا دکھ ہو رہا ہے اس کے جانے پر۔ ہمارا وابستہ ہے خدا کی ضیافت اور مہمانی سے اور گرویدہ ہے اس کی بندگی اور اطاعت سے۔ پس امید ہے کہ اس کی اور اس کے رسول کی خشنودی حاصل ہوئی ہو۔
قرآن میں روزہ کا حکم
قرآن نے جس آیه کریمہ میں روزے کا حکم بیان فرمایا ھے اسی آیت میں دو مطلب کی اور بھی وضاحت کی ھے ۔اوّل یہ کہ روزہ ایک ایسی عبادت ھے جسے امّت مسلمہ سے قبل دیگر امّتوں کے لیے بھی فرض قرار دیا گیا تھا”کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ“ یعنی روزہ کے ذریعے انسان کو جوھدف حاصل کرنا ھے وہ امّت مسلمہ سے مخصوص نھیں ھے بلکہ دیگر امتوں کے لیے بھی تھا ۔
یھاں طبیعی طور پر انسان کے ذھن میں یہ سوال اٹھتا ھے کہ وہ ھدف کیا ھے ؟اور حکم روزہ کا فلسفہ کیا ھے ؟اسمیں کون سے اسرار اور رموز پوشیدہ ھیں جنکی بنا پر اسے نہ صرف امّت مسلمہ بلکہ اس سے قبل دیگر امتوں پر بھی واجب قرار دیا گیا ؟ان سوالوں کے جواب کے لیے قرآن نے اس آیت کے آخری حصّہ میں روزہ کا فلسفہ بیان کیا ھے ۔” لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون “ تاکہ شاید تم صاحب تقویٰ بن جاوٴ۔ پس ایک ھی آیت میں قرآن نے تین چیزیں بیان کی ھیں :
ایک روزہ کا حکم کہ تم پر روزہ واجب ھے ”کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ“
دوسرے سابقہ امّتوں کا تذکرہ کہ ان پر بھی روزہ واجب تھا ”کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ“ تا کہ جن افراد کے لئے یہ حکم سخت اور ناگوار ھو وہ نفسیاتی طور پر اسے آسان اور قابل عمل محسوس کریں ۔
تیسرے روزے کا فلسفہ ”لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون “ تا کہ انسان کی نظر فقط روزہ کے ظاھر پر نہ ھو بلکہ وہ اسکی حقیقت اور روح تک پھونچ سکے ،روزے کے اسرار کو درک کر کے اسکے اھداف کو حاصل کر سکے ۔
روزہ انسان کی روحانی اور جسمانی تربیت کے لیے ھے لھٰذا اس آیت کا لھجہ بھی نھایت مشفقانہ ھے ۔جس طرح ایک ماں اگر اپنے مریض بچّے کو کوئی ایسی تلخ دوا پلانا چا ھے جس کے بغیر اسکا علاج ممکن نہ ھو تو وہ پھلے بچّے کو پیار سے بلاتی ھے پھر اسے نھایت نرمی کے ساتھ دوا پینے کو کھتی ھے ،دوسرے بچّوں کی مثال دیتی ھے پھر اسکے فوائد بیان کرتی ھے کہ اگر دوا پی لو گے تو بالکل ٹھیک ھو جاؤ گے ۔
قرآن نے فرمایا ”یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا“صاحب ایمان کھہ کر ایک محترمانہ لھجے میں خطاب کیا،پھر نرمی سے حکم بیان کیا -”کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَام “تم پر روزہ لکہ دیا گیا ھے ، ”کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ“جس طرح تم سے قبل دیگر امّتوں پر بھی فرض کیا جا چکا ھے ،اسکے بعد روزے کی غرض ،غایت اور فلسفہ بیان کیا ”لعلّکم تتّقون “تاکہ انسان نہ صرف یہ کہ اس عمل میں تلخی محسوس نہ کرے بلکہ فلسفہ اور اسرار سے واقف ھونے کے بعد اسی سخت اور دشوار عمل میں اسے لذّت کا احساس ھونے لگے ۔
فلسفہ بیان کرنا اس لئے بھی ضروری ھے کیوں کہ ممکن ھے انسان کے ذھن میں اور بھت سے سوال اٹھیں اور اگر ان سوالوں کو صحیح جواب نہ ملے تو وہ سوال اعتراض کی شکل میں تبدیل ھو جائیں مثلاً:
(۱)روزہ رکھنے کی صورت میں انسان کو معمول کی زندگی ترک کرنی پڑتی ھے جو اس کے لئے سخت ھے۔
۲) روزہ رکھنے سے انسان ضعیف ھو جاتا ھے ۔دن بھر کی بھوک اور پیاس اگر نا قابل برداشت نھیں توناگوار اور سخت ضرور ھے ، کھانا اور پانی انسانی جسم کا تقاضا ھے جو اسے ملنا چاھیے۔
اپنی محنت سے حاصل کی ھوئی حلال چیزیں انسان پر کیوں حرام ھو جاتی ھیں ؟
(۳)یوں تو تمام عبادتوں میں پابندیاں ھیں لیکن رمضان میں انسان ایک مھینے تک شدید قسم کی پابندیوں میں مقیّدھو جاتا ھے۔
(۴)ایک اعتراض جو روزہ کے علاوہ تمام عبادتوں بلکہ پورے دین پر کیا جاتا ھے وہ یہ کی اگر دین اوراحکام ِدین مطابق فطرت ھیں تو ان کو انجام دینے میں سختی و ناگواری کا احساس کیوں ھوتا ھے؟
(۵)اگر انسان روزہ نہ رکھے تو اس کے اندر کون سا نقص پیدا ھو جاتا ھے؟
مندرجہ بالا سوالات و اعتراضات پر گفتگو کرنے سے پھلے اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے کہ اسطرح کے سوالات اور اعتراضات در حقیقت روزہ کے اسرار و فلسفہ سے ناواقفیت کی بنا پر ھیں لھٰذا ابتداء ً مذکورہ اعتراضات و مسائل پر گفتگو کے دوران انشاء اللہ بعض اسرار بیان کئے جائیں گے ،اسکے بعد روزہ کے بقیہ اھم اسرار میں سے ان بعض اسرار کی طرف اشارہ ھو گا جو قرآن و احادیث میں بیان ھوئے ھیں ۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
