
Super User
تقصير يا حلق
تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف(
يہ حج كے واجبات ميں سے چھٹا اور منى كے اعمال ميں سے تيسرا ہے _
مسئلہ 353_ ذبح كے بعد سر منڈانا يا بالوں يا ناخنوں كى تقصير كرنا واجب ہے _عورت كيلئے تقصير ہى ضرورى ہے پس اس كيلئے حلق كافى نہيں ہے اور احوط يہ ہے كہ تقصير ميں بال بھى كاٹے اور ناخن بھى _ ليكن مرد كو حلق اور تقصير كے درميان اختيار ہے اور اس كيلئے حلق ضرورى نہيں ہے ہاں جس نے پہلے حج نہ كيا ہو اس كيلئے احوط حلق ہے _
مسئلہ 354_ حلق اور تقصير ميں سے ہر ايك عبادت ہے پس ان دونوں ميں رياء سے خالص نيت اور اللہ تعالى كى اطاعت كا قصد واجب ہے پس اگر مذكورہ نيت كے بغير حلق يا تقصير كرے تو اس كيلئے وہ چيزيں حلال نہيں ہوں گى جو ان كے ساتھ حلال ہوتى ہيں _
مسئلہ 355_ اگر تقصير يا حلق كيلئے كسى دوسرے سے مدد لے تو اس پر واجب ہے كہ نيت خود كرے _
مسئلہ 356_ احوط وجوبى يہ ہے كہ حلق عيد كے دن ہو اور اگر اسے روز عيد انجام نہ دے تو اسے گيا رہويں كى رات يا اسكے بعد انجام دے اور يہ كافى ہے _
مسئلہ 357_ جو شخص كسى وجہ سے قربانى كو روز عيد سے مؤخر كر دے اس پر حلق يا تقصير كو مؤخر كرنا واجب نہيں ہے بلكہ بعيد نہيں ہے كہ انہيں عيد والے دن ہى انجام دينا واجب ہو پس اس ميں احتياط كو ترك نہ كيا جائے ليكن اس صورت ميں طواف حج وغيرہ مكہ كے پانچ اعمال كو قربانى سے پہلے انجام دينا محل اشكال ہے _
مسئلہ 358_ واجب ہے كہ حلق يا تقصير منى ميں ہو پس اختيارى صورت ميں غير منى ميں جائز نہيں ہے _
مسئلہ 359_ اگر جان بوجھ كر يا بھول كر يا لاعلمى كى وجہ سے منى سے باہر حلق يا تقصير كرے اور باقى اعمال كو انجام دے دے تو اس پر واجب ہے كہ حلق يا تقصير كيلئے منى كى طرف پلٹے اور پھر ان كے بعد والے اعمال كا اعادہ كرے اور يہى حكم ہے اگر تقصير يا حلق كو ترك كر كے منى سے نكل جائے _
مسئلہ 360_ اگر عيد والے دن قربانى كرسكتا ہو تو واجب ہے كہ عيد والے دن پہلے جمرہ عقبہ كو رمى كرے پھر قربانى كرے اور اس كے بعد حلق يا تقصير كرے اور اگر جان بوجھ كر اس ترتيب پر عمل نہ كرے تو گناہ گار ہے ليكن ظاہر يہ ہے كہ اس پر بالترتيب اعمال كا اعادہ كرنا واجب نہيں ہے اگرچہ تو ان ركھنے كى صورت ميں اعادہ كرنا احتياط كے موافق ہے اور لاعلمى اور بھولنے كى صورت ميں بھى يہى حكم ہے اور اگر عيد والے دن منى ميں قربانى نہ كر سكتا ہو تو اگر اسى دن اس ذبح خانہ ميں قربانى كر سكتا ہو جو اس وقت منى سے باہر قربانى كيلئے مقرر كيا گيا ہے تو بھى احوط كى بنا پر واجب ہے كہ قربانى كو حلق يا تقصير پر مقدم كرے پھر ان ميں سے ايك كو بجا لائے اور اگر يہ بھى نہ كرسكتا ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ عيد والے دن حلق يا تقصير كرنے كى طرف مبادرت كرے اور اس كے ذريعے احرام سے مُحل ہو جائے ليكن مكہ كے پانچ اعمال كو قربانى كے بعد تك مؤخر كردے _
مسئلہ 361_ حلق يا تقصير كے بعد مُحرم كيلئے وہ سب حلال ہوجاتا ہے جو احرام حج كى وجہ سے حرام ہوا تھا سوائے عورتوں اور خوشبوكے_
تقصير
تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف)
يہ عمرہ كے واجبات ميں سے پانچواں ہے _
مسئلہ 311_ سعى كو مكمل كرنے كے بعد تقصير واجب ہے اور اس سے مراد ہے سر، داڑھى يا مونچھوں كے كچھ بالوں كا كاٹنا يا ہاتھ يا پاؤں كے كچھ ناخن اتارنا _
مسئلہ 312_ تقصير ايك عبادت ہے كہ جس ميں انہيں شرائط كے ساتھ نيت واجب ہے جو احرام كى نيت ميں ذكر ہو چكى ہيں_
مسئلہ 313_ عمرہ تمتع سے مُحل ہونے كيلئے سر كا منڈانا تقصير سے كافى نہيں ہے بلكہ اس سے محل ہونے كيلئے تقصير ہى ضرورى ہے پس اگر تقصير سے پہلے سرمنڈا لے تو اگر اس نے جان بوجھ كر ايسا كيا ہو تو نہ فقط يہ كافى نہيں ہے بلكہ سرمنڈانے كى وجہ سے اس پر ايك بكرى كا كفارہ دينا بھى واجب ہے ليكن اگر اس نے عمرہ مفردہ كيلئے احرام باندھا ہو تو حلق اور تقصير كے درميان اسے اختيار ہے _
مسئلہ 314_ عمرہ تمتع كے احرام سے مُحل ہونے كيلئے بالوں كو نوچنا تقصير سے كافى نہيں ہے بلكہ اس سے محل ہونے كيلئے تقصير ہى ضرورى ہے جيسے كے گزر چكا ہے پس اگر تقصير كى بجائے اپنے بالوں كو نوچے تو اگر اسے جان بوجھ كر انجام دے تو نہ فقط يہ كافى نہيں ہے بلكہ اس پر بال نوچنے كا كفارہ بھى ہوگا _
مسئلہ 315_ اگر حكم سے لاعلمى كى وجہ سے تقصير كى بجائے بالوں كو نوچے اور حج كو بجا لائے تو اس كا عمرہ باطل ہے اور جو حج بجا لايا ہے وہ حج افراد واقع ہوگا اور اس وقت اگر اس پر حج واجب ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اعمال حج ادا كرنے كے بعد عمرہ مفردہ بجا لائے پھر آئندہ سال عمرہ تمتع اور حج بجا لائے اور يہى حكم ہے اس بندے كا جو حكم سے لاعلمى كى وجہ سے تقصير كے بدلے اپنے بال مونڈ دے اور حج بجا لائے _
مسئلہ 316_ سعى كے بعد تقصير كى انجام دہى ميں جلدى كرنا واجب نہيں ہے
مسئلہ 317_ اگر جان بوجھ كر يا لاعلمى كى وجہ سے تقصير كو ترك كركے حج كا احرام باندھ لے تو اقوى يہ ہے كہ اس كا عمرہ باطل ہے اور اس كا حج حج افراد ہوجائيگا اور احوط وجوبى يہ ہے كہ حج كے بعد عمرہ مفردہ كو بجا لائے اور اگر اس پر حج واجب ہو تو آئندہ سال عمرہ اور حج كا اعادہ كرے _
مسئلہ 318_ اگر بھول كر تقصير كو ترك كر دے اور حج كيلئے احرام باندھ لے تو اس كا احرام ، عمرہ اور حج صحيح ہے اور اس پر كوئي شے نہيں ہے اگرچہ اسكے لئے ايك بكرى كا كفارہ دينا مستحب ہے بلكہ احوط اس كا ترك نہ كرنا ہے _
مسئلہ 319_ عمرہ تمتع كى تقصير كے بعد اس كيلئے وہ سب حلال ہوجائيگا جو حرام تھا حتى كہ عورتيں بھى _
مسئلہ 320_ عمرہ تمتع ميں طواف النساء واجب نہيں ہے اگرچہ احوط يہ ہے كہ رجاء كى نيت سے طواف النساء اور اسكى نماز كو بجا لائے ليكن اگر اس نے عمرہ مفردہ كيلئے احرام باندھا ہو تو اس كيلئے عورتيں حلال نہيں ہوں گى مگر تقصير يا حلق كے بعد طواف النساء اور نماز طواف كو بجا لانے كے بعد اور اس كا طريقہ اور احكام طواف عمرہ سے مختلف نہيں ہيں كہ جو گزرچكا ہے _
مسئلہ 321_ ظاہر كى بنا پر ہر عمرہ مفردہ اور ہر حج كيلئے الگ طور پر طواف النساء واجب ہے مثلا اگر دو عمرہ مفردہ بجا لائے يا ايك حج اور عمرہ مفردہ بجا لائے تو اگرچہ اس كيلئے عورتوں كے حلال ہونے ميں ايك طواف النساء كا كافى ہونا بعيد نہيں ہے مگر ان ميں سے ہر ايك كيلئے الگ طواف النساء واجب ہے _
اعمال عمرہ كے بارے ميں
مواقيت
تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف(
اور يہ وہ مقامات ہيں كہ جنہيں احرام كيلئے معين كيا گيا ہے اور يہ مندرجہ ذيل ہيں :
اول : مسجد شجرہ اور يہ مدينہ منورہ كے قريب ذو الحليفہ كے علاقہ ميں واقع ہے اور يہ اہل مدينہ اور ان لوگوں كا ميقات ہے جو مدينہ كے راستہ حج كرنا چاہتے ہيں_
مسئلہ87_ احرام كو مسجد شجرہ سے جحفہ تك موخر كرنا جائز نہيں ہے مگر ضرورت كى خاطر مثلا اگر بيمارى ، كمزورى و غيرہ جيسا كوئي عذر ہو _
مسئلہ 79_ مسجد شجرہ كے باہر سے احرام باندھنا كافى نہيں ہے ہاں ان تمام جگہوں سے كافى ہے جنہيں مسجد كا حصہ شمار كيا جاتا ہے حتى كہ وہ حصہ جو نيا بنايا گيا ہے _
مسئلہ 80_ عذر ركھنے والى عورت پر واجب ہے كہ مسجد سے عبور كى حالت ميں احرام باندھے البتہ اگر مسجد ميں ٹھہرنا لازم نہ آئے ليكن اگر مسجد ميں ٹھہرنا لازم آئے اگرچہ بھيڑ وغيرہ كى وجہ سے اور احرام كو عذر كے دور ہونے تك مؤخر نہ كر سكتى ہو تو اس كيلئے ضرورى ہے كہ وہ جحفہ يااسكے بالمقابل مقام سے احرام باندھے _ البتہ اس كيلئے ميقات سے پہلے كسى بھى معين جگہ سے نذر كے ذريعے احرام باندھنا بھى جائز ہے _
مسئلہ81_ اگر شوہر بيوى كے پاس حاضر نہ ہو تو بيوى كا ميقات سے پہلے احرام باندھنے كى نذر كا صحيح ہونا شوہر كى اجازت كے ساتھ مشروط نہيں ہے ليكن اگر شوہر حاضر ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اس سے اجازت حاصل كرے پس اگر اس صورت ميں نذر كرے تو اسكى نذر منعقد نہيں ہوگى _
دوم: وادى عقيق _ يہ اہل عراق و نجد اور جو لوگ عمرہ كيلئے اس سے گزرتے ہيں ان كا ميقات ہے اور اسكے تين حصے ہيں ""مسلخ"" اور يہ اسكے شروع كے حصے كا نام ہے ""غمرہ"" اور يہ اسكے درميان والے حصے كا نام ہے ""ذات عرق"" اور يہ اسكے آخر والے حصے كا نام ہے اور ان سب مقامات سے احرام كافى ہے _
سوم : جحفہ : اور يہ اہل شام ، مصر ، شمالى افريقہ اور ان لوگوں كا ميقات ہے جو عمرہ كيلئے اس سے گزرتے ہيں _ اور اس ميں موجود مسجد وغيرہ سب مقامات سے احرام باندھنا كافى ہے _
چہارم :يلملم : اور يہ اہل يمن اور ان لوگوں كا ميقات ہے جو اس سے گزرتے ہيں اور يہ ايك پہاڑ كا نام ہے اور اسكے سب حصوں سے احرام باندھنا كافى ہے _
پنجم : قرن المنازل اور يہ اہل طائف اور ان لوگوں كا ميقات ہے جو عمرہ كيلئے اس سے گزرتے ہيں اور اس ميں مسجد وغيرہ مسجد سے احرام باندھنا كافى ہے _
مذكورہ مواقيت كے بالمقابل مقام
جو شخص مذكورہ مواقيت ميں سے كسى سے نہ گزرے اور ايسى جگہ پر پہنچ جائے جو ان ميں سے كسى كے بالمقابل ہو تو وہيں سے احرام باندھے اور بالمقابل سے مراد يہ ہے كہ مكہ مكرمہ كے راستے ميں ايسى جگہ پر پہنچ جائے كہ ميقات اسكے دائيں يا بائيں ہو كہ اگر يہ اس جگہ سے آگے بڑھے تو ميقات اسكے پيچھے قرار پا جائے_
مذكورہ مواقيت وہ ہيں كہ جن سے عمرہ تمتع كرنے والے كيلئے احرام باندھنا ضرورى ہے _
حج تمتع و قران و افراد كے مواقيت مندرجہ ذيل ہيں:
اول : مكہ معظمہ اور يہ حج تمتع كا ميقات ہے _
دوم : مكلف كى رہائش گاہ _ اور يہ اس شخص كا ميقات ہے كہ جسكى رہائش گاہ ميقات اور مكہ كے درميان ہے بلكہ يہ اہل مكہ كا بھى ميقات ہے اور ان پر واجب نہيں ہے كہ مذكورہ مواقيت ميں سے كسى ايك پر آئيں _
چند مسائل :
مسئلہ 82 _ اگر ان مواقيت اور انكى بالمقابل جگہ كا علم نہ ہو تو يہ بينہ شرعيہ كے ساتھ ثابت ہو جاتے ہيں يعنى دو عادل گواہ اسكى گواہى دے ديں يا اس شياع كے ساتھ بھى ثابت ہو جاتے ہيں جو موجب اطمينان ہو اور جستجو كركے علم حاصل كرنا واجب نہيں ہے اور اگر نہ علم ہو نہ گواہ اور نہ شياع تو ان مقامات كوجاننے والے شخص كى بات سے حاصل ہونے والا ظن و گمان كافى ہے _
مسئلہ 83 _ ميقات سے پہلے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے مگر يہ كہ ميقات سے پہلے كسى معين جگہ سے احرام باندھنے كى نذر كر لے جيسے كہ مدينہ يا اپنے شہر سے احرام باندھنے كى نذر كرے تو اس كا احرام صحيح ہے _
مسئلہ 84 _ اگر جان بوجھ كر يا غفلت يا لا علمى كى وجہ سے بغير احرام كے ميقات سے گزر جائے تو اس پر واجب ہے كہ احرام كيلئے ميقات كى طرف پلٹے _
مسئلہ 85_ اگر غفلت ، نسيان يا مسئلہ كا علم نہ ہونے كى وجہ سے ميقات سے آگے گزر جائے اور وقت كى تنگى يا كسى اور عذر كى وجہ سے ميقات تك پلٹ بھى نہ سكتا ہو ليكن ابھى تك حرم ميں داخل نہ ہوا ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ جس قدر ممكن ہو ميقات كى سمت كى طرف پلٹے اور وہاں سے احرام باندھے اور اگر حرم ميں داخل ہو چكا ہو تو اگر اس سے باہر نكلنا ممكن ہو تو اس پر يہ واجب ہے اور حرم كے باہر سے احرام باندھے گا اور اگر حرم سے باہرنكلنا ممكن نہ ہو تو حرم ميں جس جگہ ہے وہيں سے احرام باندھے _
مسئلہ 86_ اپنے اختيار كے ساتھ احرام كو ميقات سے مؤخر كرنا جائز نہيں ہے چاہے اس سے آگے دوسرا ميقات ہو يا نہ _
مسئلہ 87 _ جس شخص كو مذكورہ مواقيت ميں سے كسى ايك سے احرام باندھنے سے منع كرديا جائے تو اس كيلئے دوسرے ميقات سے احرام باندھنا جائز ہے _
مسئلہ 88_ جدہ مواقيت ميں سے نہيں ہے اور نہ يہ مواقيت كے بالمقابل ہے لذا اختيار ى صورت ميں جدہ سے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے بلكہ احرام باندھنے كيلئے كسى ميقات كى طرف جانا ضرورى ہے مگر يہ كہ اس پر قدرت نہ ركھتا ہو تو پھر جدہ سے نذر كركے احرام باندھے_
مسئلہ 89_ اگر ميقات سے آگے گزر جانے كے بعد مُحرم متوجہ ہو كہ اس نے صحيح احرام نہيں باندھا پس اگر ميقات تك پلٹ سكتا ہو تو يہ واجب ہے اور اگر نہ پلٹ سكتا ہو مگر مكہ مكرمہ كے راستے سے تو "" ادنى الحل"" سے عمرہ مفردہ كا احرام باندھ كر مكہ ميں داخل ہو اور اعمال بجا لانے كے بعد عمرہ تمتع كے احرام كيلئے ، كسى ميقات پر جائے _
مسئلہ 90_ ظاہر يہ ہے كہ اگر حج كے فوت نہ ہونے كا اطمينان ہو تو عمرہ تمتع كے احرام سے خارج ہونے كے بعد اور حج بجا لانے سے پہلے مكہ مكرمہ سے نكلنا جائز ہے اگرچہ احوط استحبابى يہ ہے كہ ضرورت و حاجت كے بغير نہ نكلے جيسے كہ اس صورت ميں احوط يہ ہے كہ نكلنے سے پہلے مكہ ميں حج كا احرام باندھ لے مگر يہ كہ اس كام ميں اس كيلئے حرج ہو تو پھر اپنى احتياج كيلئے بغير احرام كے باہر جا سكتا ہے اور جو شخص اس احتياط پر عمل كرنا چاہے اور ايك يا چند مرتبہ مكہ سے نكلنے پر مجبور ہو جيسے كاروانوں كے خدام وغيرہ تو وہ مكہ مكرمہ ميں داخل ہونے كيلئے پہلے عمرہ مفردہ كا احرام باندھ ليں اور عمرہ تمتع كو اس وقت تك مؤخر كرديں كہ جس ميں اعمال حج سے پہلے عمرہ تمتع كو انجام دينا ممكن ہو پھر ميقات سے عمرہ تمتع كيلئے احرام باندھيں پس جب عمرہ سے فارغ ہو جائيں تو مكہ سے حج كيلئے احرام باندھيں _
مسلئہ 91_ عمرہ تمتع اور حج كے درميان مكہ سے خارج ہونے كا معيار موجودہ شہر مكہ سے خارج ہونا ہے پس ايسى جگہ جانا كہ جو اس وقت مكہ مكرمہ كا حصہ شمار ہوتى ہے اگرچہ ماضى ميں وہ مكہ سے باہر تھى مكہ سے خارج ہونا شمار نہيں ہو گا _
مسئلہ 92_ اگر عمرہ تمتع كو انجام دينے كے بعد مكہ سے بغير احرام كے باہر چلا جائے تو اگر اسى مہينے ميں واپس پلٹ آئے كہ جس ميں اس نے عمرہ كو انجام ديا ہے تو بغير احرام كے واپس پلٹے ليكن اگر عمرہ كرنے والے مہينے كے غير ميں پلٹے جيسے كہ ذيقعد ميں عمرہ بجا لا كر باہر چلا جائے پھر ذى الحج ميں واپس پلٹے تو اس پر واجب ہے كہ مكہ ميں داخل ہونے كيلئے عمرہ كا احرام باندھے اور حج كے ساتھ متصل عمرہ تمتع ، دوسرا عمرہ ہو گا _
مسئلہ 93_ احوط وجوبى يہ ہے كہ عمرہ تمتع اور حج كے درميان عمرہ مفردہ كو انجام نہ دے ليكن اگر بجا لائے تو اس سے اسكے سابقہ عمرہ كو كوئي نقصان نہيں ہوگا اور اس كے حج ميں بھى كوئي اشكال نہيں ہے _
اعمال حج كے بارے ميں
احرام
تحریر : حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف)
يہ حج كے واجبات ميں سے پہلا واجب ہے _ شرائط ، كيفيت ، محرمات، احكام اور كفارات كے لحاظ سے حج كا احرام عمرہ كے احرام سے مختلف نہيں ہے مگر نيت ميں پس اسكے ساتھ اعمال حج كو انجام دينے كى نيت كريگا اور جو كچھ عمرہ كے احرام كى نيت ميں معتبر ہے وہ سب حج كے احرام كى نيت ميں بھى معتبر ہے اور يہ احرام نيت اور تلبيہ كے ساتھ منعقد ہوجاتا ہے پس جب حج كى نيت كرے اور تلبيہ كہے تو اس كا احرام منعقد ہوجائيگا _ ہاں احرام حج بعض امور كے ساتھ مختص ہے جنہيں مندرجہ ذيل مسائل كے ضمن ميں بيان كرتے ہيں
مسئلہ 322_ حج تمتع كے احرام كا ميقات مكہ معظمہ ہے اور افضل يہ ہے كہ حج تمتع كا احرام مسجدالحرام سے باندھے اور مكہ معظمہ كے ہر حصے سے احرام كافى ہے حتى كہ وہ حصہ جو نيا بنايا گيا ہے _ ليكن احوط يہ ہے كہ قديمى مقامات سے احرام باندھے ہاں اگر شك كرے كہ يہ مكہ كا حصہ ہے يا نہيں تو اس سے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے _
مسئلہ 323_ واجب ہے كہ نو ذى الحج كو زوال سے پہلے احرام باندھے اس طرح كہ عرفات ميں وقوف اختيارى كو پا سكے اور اسكے اوقات ميں سے افضل ترويہ كے دن ( آٹھ ذى الحج) زوال كا وقت ہے _ اور اس سے پہلے احرام باندھنا جائز ہے بالخصوص بوڑھے اور بيمار كيلئے جب انہيں بھيڑ كى شدت كا خوف ہو _ نيز گزرچكا ہے كہ جو شخص عمرہ بجا لانے كے بعد كسى ضرورت كى وجہ سے مكہ سے خارج ہونا چاہے تو اس كيلئے احرام حج كو مقدم كرنا جائز ہے _
مسئلہ 324_ جو شخص احرام كو بھول كر عرفات كى طرف چلا جائے تو اس پر واجب ہے كہ مكہ معظمہ كى طرف پلٹے اور وہاں سے احرام باندھے اور اگر وقت كى تنگى يا كسى اور عذر كى وجہ سے يہ نہ كرسكتا ہو تو اپنى جگہ سے ہى احرام باندھ لے اور اس كا حج صحيح ہے اور ظاہر يہ ہے كہ جاہل بھى بھولنے والے كے ساتھ ملحق ہے _
مسئلہ 325_ جو شخص احرام كو بھول جائے يہاں تك كہ حج كے اعمال مكمل كرلے تو اس كا حج صحيح ہے _ اور حكم سے جاہل بھى بھولنے والے كے ساتھ ملحق ہے اور احوط استحبابى يہ ہے كہ لاعلمى اور بھولنے كى صورت ميں آئندہ سال حج كا اعادہ كرے _
مسئلہ 326: جو شخص جان بوجھ كر احرام كو ترك كردے يہاں تك كہ وقوف بالعرفات اور وقوف بالمشعر كى فرصت ختم ہو جائے تو اس كا حج باطل ہے _
مسئلہ 327_ جس شخص كيلئے اعمال مكہ كو وقوفين پر مقدم كرنا جائز ہو اس پر واجب ہے كہ انہيں احرام كى حالت ميں بجا لائے پس اگر انہيں بغير احرام كے بجا لائے تو احرام كے ساتھ ان كا اعادہ كرنا ہوگا
احرام
مسئلہ 94_ احرام كے مسائل كى چار اقسام ہيں:
1- وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں يا احرام كيلئے واجب ہيں_
2- وہ اعمال جواحرام كى حالت ميں مستحب ہيں_
3-وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں حرام ہيں _
4- وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں مكروہ ہيں_
1- احرام كے واجبات
اول : نيت
اور اس ميں چند امور معتبر ہيں :
الف : قصد،يعنى حج يا عمرہ كے اعمال كے بجا لانے كا قصد كرنا پس جو شخص مثلاً عمرہ تمتع كا احرام باندھنا چاہے وہ احرام كے وقت عمرہ تمتع كو انجام دينے كا قصد كرے۔
مسئلہ 95_ قصد ميں اعمال كى تفصيلى صورت كو دل سے گزارنا معتبر نہيں ہے بلكہ اجمالى صورت كافى ہے پس اس كيلئے جائز ہے كہ اجمالى طور پر واجب اعمال كو انجام دينے كا قصد كرے پھر ان ميں سے ايك ايك كو ترتيب كے ساتھ بجا لائے _
مسئلہ 96_ احرام كى صحت ميں محرمات احرام كو ترك كرنے كا قصد كرنا معتبر نہيں ہے بلكہ بعض محرمات كے ارتكاب كا عزم بھى اسكى صحت كو نقصان نہيں پہنچاتا ہاں ان محرمات كے انجام دينے كا قصد كرنا كہ جن سے حج يا عمرہ باطل ہو جاتا ہے جيسے جماع _ بعض موارد ميں _تو وہ اعمال كے انجام دينے كے قصد كے ساتھ جمع نہيں ہو سكتا بلكہ يہ احرام كے قصد كے منافى ہے_
ب : قربت اور اللہ تعالى كيلئے اخلاص ،كيونكہ عمرہ ، حج اور ان كا ہر ہر عمل عبادت ہے پس ہر ايك كو صحيح طور پر انجام دينے كيلئے ""قربةً الى اللہ ""كا قصد كرنا ضرورى ہے _
ج _ اس بات كى تعيين كہ احرام عمرہ كيلئے ہے يا حج كيلئے اور پھر يہ كہ حج ، حج تمتع ہے يا قران يا افراد اور يہ كہ اس كا اپنا ہے يا كسى اور كى طرف سے اور يہ كہ يہ حجة الاسلام ہے يا نذر كا حج يا مستحبى حج _
مسئلہ 97_ اگر مسئلہ سے لاعلمى يا غفلت كى وجہ سے عمرہ كے بدلے ميں حج كى نيت كرلے تو اس كا احرام صحيح ہے مثلاً اگر عمرہ تمتع كيلئے احرام باندھتے وقت كہے "" حج تمتع كيلئے احرام باندھ رہا ہو ں ""قربةً الى اللہ "" ليكن اسى عمل كا قصد ركھتا ہو جسے لوگ انجام دے رہے ہيں يہ سمجھتے ہوئے كہ اس عمل كا نام حج ہے تو اس كا احرام صحيح ہے _
مسئلہ 98_ نيت ميں زبان سے بولنا يا دل ميں گزارنا شرط نہيں ہے بلكہ صرف فعل كے عزم سے نيت ہو جاتى ہے_
مسئلہ 99_ نيت كا احرام كے ہمراہ ہونا شرط ہے پس سابقہ نيت كافى نہيں ہے مگر يہ كہ احرام كے وقت تك مستمر رہے _
دوم : تلبيہ
مسئلہ 100_ احرام كى حالت ميں تلبيہ ايسے ہى ہے جيسے نماز ميں تكبيرة الاحرام پس جب حاجى تلبيہ كہہ دے تو مُحرم ہو جائيگا اور عمرہ تمتع كے اعمال شروع ہو جائيں گے اور يہ تلبيہ در حقيقت خدائے رحيم كى طرف سے مكلفين كو حج كى دعوت ، كا قبول كرنا ہے اسى لئے اسے پورے خشوع و خضوع كے ساتھ بجا لانا چاہيے اور تلبيہ كى صورت على الاصح يوں ہے
_ ""لَبَّيكَ اَللّہُمَّ لَبَّيكَ لَبَّيكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ ""
اگر اس مقدار پر اكتفا كرے تو اس كا احرام صحيح ہے اور احوط استحبابى يہ ہے كہ مذكورہ چارتلبيوں كے بعد يوں كہے :
""انَّ الْحَمْدَ وَ النّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ""
اور اگر مزيد احتياط كرنا چاہے تو يہ بھى كہے :
""لَبَّيْكَ اللّہُمَّ لَبَّيْكَ انَّ الْحَمْدَ وَ النّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ
اور مستحب ہے كہ اسكے ساتھ ان جملات كا بھى اضافہ كرے جو معتبر روايت ميں وارد ہوئے ہيں :
لَبَّيْكَ ذَا الْمَعارج لَبَّيْك لَبَّيْكَ داعياً الى دار السَّلام لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ غَفَّارَ الذُنُوب لَبَّيْكَ لَبَّيكَ ا َہْلَ التَّلْبيَة لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ ذَا الْجَلال وَالإكْرام لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ تُبْديُ ، وَالْمَعادُ إلَيْكَ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ تَسْتَغْنى وَ يُفْتَقَرُ إلَيْكَ لَبَّيْك، لَبَّيْكَ مَرْہُوباً وَ مَرْغُوباً إلَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ إلہَ الْحَقّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ ذَا النَّعْمَائ وَالْفَضْل: الْحَسَن الْجَميل لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ كَشّافَ الْكُرَب الْعظام لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ عَبْدُكَ وَ ابْنُ عَبْدَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ يا كَريمُ لَبَّيْكَ)
مسئلہ 101_ ايك مرتبہ تلبيہ كہنا واجب ہے ليكن جتنا ممكن ہو اس كا تكرار كرنا مستحب ہے _
مسئلہ 102_ تلبيہ كى واجب مقدار كو عربى قواعد كے مطابق صحيح طور پر ادا كرنا واجب ہے پس صحيح طور پر قادر ہوتے ہوئے اگرچہ سيكھ كر يا كسى دوسرے كے دہروانے سے _غلط كافى نہيں ہے پس اگر وقت كى تنگى كى وجہ سے سيكھنے پر قادر نہ ہو اور كسى دوسرے كے دہروانے كے ساتھ بھى صحيح طريقے سے پڑھنے پر قدرت نہ ركھتا ہو تو جس طريقے سے ممكن ہو ادا كرے اور احوط يہ ہے كہ اسكے ساتھ ساتھ نائب بھى بنائے_
مسئلہ 103_ جو شخص جان بوجھ كر تلبيہ كو ترك كردے تو اس كا حكم اس شخص والا حكم ہے جو جان بوجھ كر ميقات سے احرام كو ترك كردے جو كہ گزرچكا ہے _
مسئلہ 104_ جو شخص تلبيہ كو صحيح طور پر انجام نہ دے اور عذر بھى نہ ركھتا ہو تو اس كا حكم وہى ہے جو جان بوجھ كر تلبيہ كو ترك كرنے كا حكم ہے _
مسئلہ 105_ مكہ مكرمہ كے گھروں كو ديكھتے ہى _ اگرچہ ان نئے گھروں كو جو اس وقت مكہ كا حصہ شمار ہوتے ہيں _ تلبيہ كو ترك كردينا واجب ہے على الاحوط اور اسى طرح روز عرفہ كے زوال كے وقت تلبيہ كو روك دينا واجب ہے _
مسئلہ 106_ حج تمتع ، عمرہ تمتع ، حج افراد اور عمرہ مفردہ كيلئے احرام منعقد نہيں ہو سكتا مگر تلبيہ كے ساتھ ليكن حج قران كيلئے احرام تلبيہ كے ساتھ بھى ہو سكتا ہے اور اشعار يا تقليد كے ساتھ بھى اور اشعار صرف قربانى كے اونٹ كے ساتھ مختص ہے ليكن تقليد اونٹ كو بھى شامل ہے اور قربانى كے ديگر جانوروں كو بھى _
مسلئہ 107_ اشعار ہے اونٹ كى كہاں كے اگلے حصے ميں نيزہ مار كر اسے خون كے ساتھ لتھيڑنا تاكہ پتا چلے كہ يہ قربانى ہے اور تقليد يہ ہے كہ قربانى كى گردن ميں دھاگہ يا جوتا لٹكا ديا جائے تا كہ پتا چلے كہ يہ قربانى ہے_
سوم : دو كپڑوں كا پہننا
اور يہ تہبند اور چادر ہيں پس محرم پر جس لباس كا پہننا حرام ہے اسے اتار كر انہيں پہن لے گا پہلے تہبند باندھ كر دوسرے كپڑے كو شانے پر ڈال لے گا _
مسئلہ 108_ احوط وجوبى يہ ہے كہ دونوں كپڑوں كو احرام اور تلبيہ كى نيت سے پہلے پہن لے _
مسئلہ 109_ تہبند ميں شرط نہيں ہے كہ وہ ناف اور گھٹنوں كو چھپانے والا ہو بلكہ اس كا متعارف صورت ميں ہونا كافى ہے _
مسئلہ 110_ تہبند كا گردن پر باندھنا جائز نہيں ہے ليكن اسكے بكسوا (پن) اورسنگ و غيرہ كے ساتھ باندھنے سے كوئي مانع نہيں ہے اسى طرح اسے دھاگے كے ساتھ باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _ (اگر چادر كے اگلے حصے كو باندھنا متعارف ہو) اسى طرح اسے سوئي اور پن كے ساتھ باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _
مسئلہ 111_ احوط وجوبى يہ ہے كہ دونوں كپڑوں كو قربةًالى اللہ كے قصد سے پہنے _
مسئلہ 112_ ان دو كپڑوں ميں وہ سب شرائط معتبر ہيں جو نمازى كے لباس ميں معتبر ہيں پس خالص ريشم، حرام گوشت جانور سے بنايا گيا ، غصبى اور اس نجاست كے ساتھ نجس شدہ لباس كافى نہيں ہے كہ جو نماز ميں معاف نہيں ہے _
مسئلہ 113_ تہبند ميں شرط ہے كہ اس سے جلد نظر نہ آئے ليكن چادر ميں يہ شرط نہيں ہے جبتك چادر كے نام سے خارج نہ ہو _
مسئلہ 114_ دو كپڑوں كے پہننے كا وجوب مرد كے ساتھ مختص ہے اور عورت كيلئے اپنے كپڑوں ميں احرام باندھنا جائز ہے چاہے وہ سلے ہوئے ہوں يا نہ ،البتہ نمازى كے لباس كے گذشتہ شرائط كى رعايت كرنے كے ساتھ _
مسئلہ 115_ شرط ہے كہ عورت كے احرام كا لباس خالص ريشم كا نہ ہو _
مسئلہ 116_ دونوں كپڑوں ميں يہ شرط نہيں ہے كہ وہ بُنے ہوئے ہوں_ اور نہ بُنے ہوئے ميں يہ شرط ہے كہ وہ كاٹن يا اُون وغيرہ كا ہو بلكہ چمڑے ، نائلون يا پلاسٹك كے لباس ميں بھى احرام باندھنا كافى ہے البتہ اگر ان پر كپڑا ہونا صادق آئے اور ان كا پہننا متعارف ہو اسى طرح نمدے وغيرہ ميں احرام باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _
مسئلہ 117_ اگرا حرام باندھنے كے ارادے كے وقت جان بوجھ كرسلا ہوا لباس نہ اتارے تو اسكے احرام كا صحيح ہونا اشكال سے خالى نہيں ہے پس احوط وجوبى يہ ہے كہ اسے اتارنے كے بعد دوبارہ نيت كرے اور تلبيہ كہے_
مسئلہ 118_ اگر سردى و غيرہ كى وجہ سے سلا ہوا لباس پہننے پر مجبور ہو تو قميص وغيرہ جيسے رائج لباس سے استفادہ كرنا جائز ہے ليكن اس كا پہننا جائز نہيں ہے بلكہ اسكے اگلے اور پچھلے حصے يا اوپرى اور نچلے حصے كو الٹا كركے اپنے اوپر اوڑھ لے _
مسئلہ 119_ محرم كيلئے حمام ميں جانے ، تبديل كرنے يا دھونے وغيرہ كيلئے احرام كے كپڑوں كا اتارنا جائز ہے _
مسئلہ 120_ محرم كيلئے سردى و غيرہ سے بچنے كيلئے دوسے زيادہ كپڑوں كا اوڑھنا جائز ہے پس دو يا زيادہ كپڑوں كو اپنے شانوں كے اوپر يا كمر كے ارد گرد اوڑھ لے _
مسئلہ 121_ اگر احرام كا لباس نجس ہوجائے تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اسے پاك كرے يا تبديل كرے _
مسئلہ 122_ احرام كى حالت ميں حدث اصغر يا اكبر سے پاك ہونا شرط نہيں ہے پس جنابت يا حيض كى حالت ميں احرام باندھنا جائز ہے ہاں احرام سے پہلے غسل كرنا مستحب مؤكد ہے اور اس مستحب غسل كو غسل احرام كہاجاتا ہے اور احوط يہ ہے كہ اسے تر ك نہ كرے_
2- احرام كے مستحبات
مسئلہ 123_ مستحب ہے احرام سے پہلے بدن كا پاك ہونا ،اضافى بالوں كا صاف كرنا ،ناخن كاٹنا _ نيز مستحب ہے مسواك كرنا اور مستحب ہے احرام سے پہلے غسل كرنا ، ميقات ميں يا ميقات تك پہنچنے سے پہلے_ مثلاً مدينہ ميں _ اور ايك قول كے مطابق احوط يہ ہے كہ اس غسل كو ترك نہ كيا جائے اور مستحب ہے كہ نماز ظہر يا كسى اور فريضہ نماز يا دوركعت نافلہ نماز كے بعد احرام باندھے بعض احاديث ميں چھ ركعت مستحب نماز وارد ہوئي ہے اور اسكى زيادہ فضيلت ہے اور ذيقعد كى پہلى تاريخ سے اپنے سر اورداڑھى كے بالوں كو بڑھانا بھى مستحب ہے _
3- احرام كے مكروہات
مسئلہ 124_ سياہ ،ميلے كچيلے اور دھارى دار كپڑے ميں احرام باندھنا مكروہ ہے اور بہتر يہ ہے كہ احرام كے لباس كا رنگ سفيد ہو اور زرد بستر يا تكيے پر سونا مكروہ ہے اسى طرح احرام سے پہلے مہندى لگانا مكروہ ہے البتہ اگر اس كا رنگ احرام كى حالت ميں بھى باقى رہے _اگر اسے كوئي پكارے تو ""لبيك"" كے ساتھ جواب دينا مكروہ ہے اور حمام ميں داخل ہونا اور بدن كو تھيلى وغيرہ كے ساتھ دھونا بھى مكروہ ہے _
4- احرام كے محرمات
مسئلہ 125_ احرام كے شروع سے لے كر جبتك احرام ميں ہے محرم كيلئے چند چيزوں سے اجتناب كرنا واجب ہے _ ان چيزوں كو "" محرمات احرام "" كہا جاتا ہے _
مسئلہ 126_ محرمات احرام بائيس چيزيں ہيں _ان ميں سے بعض صرف مرد پر حرام ہيں _ پہلے ہم انہيں اجمالى طور پر ذكر كرتے ہيں پھر ان ميں سے ہر ايك كو تفصيل كے ساتھ بيان كريں گے اور ان ميں سے ہر ايك پر مترتب ہونے والے احكام كو بيان كريں گے_
احرام كے محرمات مندرجہ ذيل ہيں:
1- سلے ہوئے لباس كا پہننا
2- ايسى چيز كا پہننا جو پاؤں كے اوپر والے سارے حصے كو چھپا لے
3- مرد كا اپنے سر كو اور عورت كا اپنے چہرے كو ڈھانپنا
4- سر پر سايہ كرنا
5- خوشبو كا استعمال كرنا
6- آئينے ميں ديكھنا
7- مہندى كا استعمال كرنا
8- بدن كو تيل لگانا
9- بدن كے بالوں كو زائل كرنا
10- سرمہ ڈالنا
11- ناخن كاٹنا
12- انگوٹھى پہننا
13- بدن سے خون نكالنا
14- فسوق ( يعنى جھوٹ بولنا ، گالى دينا ، فخر كرنا)
15- جدال جيسے ""لا واللہ _ بلى واللہ ""كہنا
16- حشرات بدن كومارنا
17- حرم كے درختوں اور پودوں كواكھيڑنا
18- اسلحہ اٹھانا
19- خشكى كا شكار كرنا
20- جماع كرنا اور شہوت كو بھڑ كانے والا ہر كام جيسے شہوت كے ساتھ ديكھنا بوسہ لينا اور چھونا
21- نكاح كرنا
22- استمنا كرنا
مسئلہ 127_ ان ميں سے بعض محرمات ويسے بھى حرام ہيں اگر چہ محرم نہ ہو ليكن احرام كى حالت ميں ان كا گناہ زيادہ ہے_
محرمات احرام كے احكام :
1-سلے ہوئے لباس كا پہننا
مسئلہ 128_ احرام كى حالت ميں مردپر سلے ہوئے كپڑوں كا پہننا حرام ہے اور اس سے مراد ہر وہ لباس ہے كہ جس ميں گردن ، ہاتھ يا پاؤں داخل ہو جائيں جيسے قميص، شلوار ، كوٹ ، جيكٹ،نيچے كا لباس ، عبا اور قبا و غيرہ اور اسى طرح بٹن لگے ہوئے كپڑے_
مسئلہ 129_ سابقہ مسئلہ كے موضوع كے بارے ميں فرق نہيں ہے كہ وہ لباس سلا ہوا ہو يابُنا ہوا يا ان كى مثل _
مسئلہ 130_ كمربند، و ہ تھيلى كہ جس ميں پيسے ركھے جاتے ہيں اور گھڑى كے پٹے وغيرہ كے پہننے ميں كوئي اشكال نہيں ہے كہ جنہيں لباس شمار نہيں كيا جاتا اگرچہ يہ سلے ہوئے ہوں_
مسئلہ 131-سلے ہوئے بستر يا اس لباس پر بيٹھنے اور سونے سے كوئي مانع نہيں ہے كہ جس كا پہننا حرام ہے جيسے كہ انكا بستر بنانے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے_
مسئلہ132_ لحاف اور استرو غيرہ كوشانے پر ركھنے ميں كوئي اشكال نہيں ہے اگرچہ اس كے اطراف سلے ہوئے ہوں جيسے كہ احرام كے كپڑوں كے اطراف كے سلے ہوئے ہونے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _
مسئلہ 133_ اگر جان بوجھ كر سلا ہوا لباس پہنے تو ايك بكرے كا كفارہ دينا واجب ہے اور اگر سلے ہوئے متعدد كپڑے پہنے جيسے پينٹ اور كوٹ پہنے يا قميص اور اندرونى لباس پہنے تو اس پر ہر ايك كيلئے الگ كفارہ ہو گا _
مسئلہ 134_ اگر سردى وغيرہ كى وجہ سے ان كپڑوں كو پہننے پر مجبور ہوجائے كہ جنہيں پہننا حرام ہے تو گناہ نہيں ہے ليكن احوط يہ ہے كہ ايك بكرا كفارے ميں دے _
مسئلہ 135_ عورتوں كيلئے ہر قسم كاسلا ہوا لباس پہننا جائز ہے اور اس ميں كفارہ نہيں ہے ہاں ان كيلئے دستانے پہننا جائز نہيں ہے_
2- اس چيز كا پہننا جو پاؤں كے اوپر والے پورے حصے كو چھپا لے_
مسئلہ 136_ مرد پر احرام كى حالت ميں موزوں اور جوراب كا پہننا حرام ہے اور احوط وجوبى ہر اس چيز كے پہننے سے اجتناب كرنا ہے جو پاؤں كے اوپر والے پورے حصے كو چھپالے جيسے جو تا اور موزہ وغيرہ _
مسئلہ 137_ اس چوڑى پٹى والے جوتے كے پہننے ميں كوئي اشكال نہيں ہے كہ جو پاؤں كے پورے اوپر والے حصے كو نہيں ڈھانپتا _
مسئلہ138_ بيٹھنے يا سونے كى حالت ميں پاؤںپر لحاف وغيرہ كے ركھنے ميں كوئي اشكال نہيں ہے اسى طرح اگر احرام كا لباس پاؤں پر آپڑے تو بھى اشكال نہيں ہے _
مسئلہ139_ اگر محرم ايسے جوتے وغيرہ كو پہننے پر مجبور ہو كہ جو پاؤں كے پورے اوپر والے حصے كو ڈھانپ ليتا ہے تو اس كيلئے يہ جائز ہے ليكن اس حالت ميں احوط وجوبى يہ ہے كہ اسكے اوپر والے حصے كو چيردے_
مسئلہ 140_ اگر گذشتہ مسئلہ ميں مذكور موزہ اور جوراب وغيرہ پہنے تو كفارہ نہيں ہے اگرچہ جوراب كے سلسلے ميں احوط استحبابى ايك بكرے كا كفارہ دينا ہے _
مسئلہ 141_مذكورہ حكم ( موزے اور جوراب و غيرہ كے پہننے كى حرمت ) مردوں كے ساتھ مختص ہے ليكن عورتوں كيلئے بھى احوط استحبابى اسكى رعايت كرنا ہے _
3- مرد كا اپنے سر اور عورت كا اپنے چہرے كو ڈھانپنا
مسئلہ 142_ مرد كيلئے ٹوپى ، عمامے ، رومال اور توليے وغيرہ كے ساتھ اپنے سر كو ڈھانپنا جائز نہيں ہے_
مسئلہ 143_ احوط وجوبى يہ ہے كہ مرد اپنے سر كے اوپر كوئي ايسى چيز نہ ركھے اور نہ لگائے جو اسكے سر كو ڈھانپ لے جيسے مہندى ،صابون كى جھاگ يا اپنے سر كے اوپر سامان اٹھانا و غيرہ _
مسئلہ 144_ كان ،سر كا حصہ ہيں پس مرد كيلئے احرام كى حالت ميں انہيں ڈھانپنا جائز نہيں ہے _
مسئلہ 145_سركے بعض حصے كو اس طرح ڈھانپنا كہ اسے عرف ميں سر كا ڈھانپنا كہا جائے جائز نہيں ہے جيسے ايك چھوٹى سى ٹوپى اپنے سركے درميان ميں ركھے ورنہ كوئي اشكال نہيں ہے جيسے قرآن وغيرہ كو اپنے سر كے اوپر ركھے يا اپنے سر كے بعض حصے كو بالتدريج تو ليے كے ساتھ خشك كرے اگرچہ احوط اس سے بھى اجتناب كرنا ہے _
مسئلہ 146_ مُحرم كيلئے اپنے سر كو پانى ميں ڈبونا جائز نہيں ہے اور ظاہر يہ ہے كہ اس مسئلہ ميں مرد اور عورت كے درميان فرق نہيں ہے ليكن اگر ڈبوئے تو كفارہ نہيں ہے _
مسئلہ 147_ احوط وجوبى كى بناپر سر كو ڈھانپنے كا كفارہ ايك بكرى ہے _
مسئلہ 148_ اگر غفلت، بھول كر يا لا علمى كى وجہ سے سر كو ڈھانپے تو كفارہ نہيں ہے _
مسئلہ 149_عورتوں كيلئے احرام كى حالت ميں اس طرح چہرے كو ڈھانپنا جائز نہيں ہے كہ جيسے وہ حجاب يا چہرے كو چھپانے كيلئے كرتى ہيں _ اس بنا پر چہرے كے بعض حصے كو ڈھانپنا كہ جس پر چہرے كا ڈھانپنا صدق كرے جيسے پردے يا چھپانے كيلئے رخساروں كو ناك ، منہ اور ٹھوڑى سميت ڈھانپنا تو يہ پورے چہرے كو ڈھانپنے كى طرح ہے پس يہ بھى جائز نہيں ہے _
مسئلہ 150_ احرام كى حالت ميں عورتوں كيلئے ماسك كا استعمال جائز ہے _
مسئلہ 151_ چہرے كے اوپر ، نيچے يا دونوں اطراف كو اتنى مقدار ڈھانپنا كہ جتنا رائج گھونگھٹ كے ذريعے ہوتا ہے اور جس طرح عورتيں نماز كے وقت سر كوڈھانپنے كيلئے كرتى ہيں كہ جس پر چہرے كا ڈھانپنا صادق نہيں آتا اشكال نہيں ركھتا چاہے يہ نماز ميں ہو يا غير نماز ميں _
مسئلہ 152_ چہرے كو پنكھے وغيرہ ( جيسے رسالہ ، كاغذ) كے ساتھ ڈھانپنا حرام ہے ہاں چہرے پر ہاتھ ركھنے ميں كوئي اشكال نہيں ہے _
مسئلہ 153_ محرم عورت كيلے اپنى چادر كو اپنے چہرے پر اس طرح ڈالنا جائز ہے كہ وہ اسكے ناك كے اوپر والے كنارے كے بالمقابل تك اسكے چہرے كے بعض حصے اور اسكى پيشانى كو ڈھانپ لے ليكن احوط اس سے اجتناب كرنا ہے اگر اجنبى كے ديكھنے كى جگہ ميں نہ ہو _
مسئلہ 154_ سابقہ مسئلہ ميں احوط يہ ہے كہ مذكورہ پردے كو اس طرح نہ چھوڑ دے كہ وہ اس كے چہرے كو چھو رہا ہو _
مسئلہ 155_ چہرے كو ڈھانپنے ميں كفارہ نہيں ہوتا اگرچہ يہ احوط ہے_
4- مردوں كيلئے سايہ كرنا _
مسئلہ 156 _ مرد كيلئے احرام كى حالت ميں چلتے ہوئے اور منزليں طے كرتے ہوئے ( جيسے ميقات اور مكہ كے درميان چلنا اور مكہ و عرفات كے درميان چلنا وغيرہ) سايہ كرنا جائز نہيں ہے ہاں اگر راستے ميں كہيں رك جائے يا منزل مقصود تك پہنچ جائے جيسے گھر يا ريسٹورينٹ ميں داخل ہوجائے تو سايہ كرنے ميں كوئي اشكال نہيں ہے پس سفر كے دوران چھت والى گاڑى ميں سوار ہونا جائز نہيں ہے _
مسئلہ 157_ احوط و جوبى يہ ہے كہ محرم مكہ پہنچنے كے بعد اور اعمال عمرہ كو بجا لانے سے پہلے متحرك سائے سے اجتناب كرے جيسے چھت والى گاڑى ميں سوار ہونا يا چھترى كا استعمال كرنا اور اسى طرح حج كا احرام باندھنے كے بعد عرفات اور مزدلفہ كى طرف جاتے ہوئے البتہ اگر دن كے وقت سفر كرے اور مزدلفہ سے منى كى طرف جاتے ہوئے اور اسى طرح عرفات اور منى كے اندر چلتے ہوئے _
مسئلہ 158_ سابقہ دومسئلوں ميں مذكور حكم دن ميں سايہ كرنے كے ساتھ مختص ہے بنابراين رات كے وقت چھت والى گاڑى ميں سوار ہونے سے كوئي مانع نہيں ہے اگرچہ احتياط يہ ہے كہ سايہ سے استفادہ نہ كرے_
مسئلہ 159: بارانى اور ٹھنڈى راتوں ميں احوط يہ ہے كہ چھت والى گاڑى وغيرہ ميں سوار ہوكر اپنے اوپرسايہ نہ كرے_
مسئلہ 160_ ديوار، درخت اور ان جيسے سايہ سے استفادہ كرنے ميں كوئي اشكال نہيں ہے حتى كہ دن كے دوران بھى اسى طرح ثابت سايہ جيسے سرنگ اور پُل كے نيچے سے عبور كرنا _
مسئلہ 161_ محرم پر سايہ سے استفادہ كرنے كى حرمت مردوں كے ساتھ مختص ہے پس عورتوں كيلئے يہ ہر صورت ميں جائز ہے _
مسئلہ 162_ سايہ كرنے كا كفارہ ايك بكرى ہے _
مسئلہ 163_ اگر بيمارى يا كسى اور عذر كى وجہ سے سايہ كرنے پر مجبور ہو تو ايسا كرنا جائز ہے ليكن ايك بكرى كفارہ ميں دينا واجب ہے _
مسئلہ 164_ احرام ميںسايہ كرنے كا كفار ہ ايك مرتبہ واجب ہے اگرچہ بار بار سايہ كرے پس اگر عمرہ كے كفارہ ميں ايك سے زيادہ مرتبہ سايہ كرے تو اس پر ايك سے زيادہ كفارہ واجب نہيں ہے اور اسى طرح حج كے احرام ميں_
5- خوشبو كا استعمال:
مسئلہ 165_ احرام كى حالت ميں ہر قسم كى خوشبو كا استعمال كرنا حرام ہے جيسے كستوري،اگر كى لكڑي، گلاب كا پانى اور رائج خوشبوئيں_
مسئلہ 166_ اس لباس كا پہننا جائز نہيں ہے كہ جسے پہلے سے معطر كيا گيا ہے جب اس سے عطر كى خوشبو اٹھ رہى ہو _
مسئلہ 167_ احوط كى بنا پر خوشبودار صابون كا استعمال كرنا جائز نہيں ہے اور اسى طرح خوشبو دار شيمپو_
مسئلہ 168_ احوط وجوبى خوشبودار چيز كے سونگھنے سے اجتناب كرنا ہے اگرچہ اس پر خوشبو كا عنوان صدق نہ كرتا ہو جيسے گلاب كے پھول يا خوشبودار سبزيوں اور پھلوں كو سونگھنا_
مسئلہ 169_ محرم كيلئے ايسا كھانا كھانا جائز نہيں ہے كہ جس ميں زعفران ڈالا گيا ہو _
مسئلہ 170_ سيب اور مالٹے جيسے خوشبودار پھلوں كے كھانے ميں كوئي اشكال نہيں ہے ليكن احوط وجوبى يہ ہے كہ انہيں سونگھے نہ_
مسئلہ 171_ اگر خوشبو كو جان بوجھ كر استعمال كرے تو احوط وجوبى يہ ہے كہ كفارے ميں ايك بكرى دے اگرچہ وہ كھانے ميں ہو جيسے زعفران يا كھانے ميں نہ ہو_
مسئلہ 172_ محرم كيلئے بدبو سے اپنے ناك كو روكنا جائز نہيں ہے ہاں بدبو والى جگہ سے نكل جانے ميں كوئي اشكال نہيں ہے اور اسى طرح اس سے عبور كرنا
6- آئينے ميں ديكھنا:
مسئلہ 173: احرام كى حالت ميں زينت كى غرض سے آئينے ميں ديكھنا حرام ہے ليكن اگر كسى اور غرض سے ديكھے جيسے گاڑى كا ڈرائيور گاڑى چلاتے وقت اسكے آئينے ميں ديكھتا ہے تو كوئي اشكال نہيں ہے_
مسئلہ 174_ صاف و شفاف پانى يا ديگران صيقل كى ہوئي چيزوں ميں ديكھنا كہ جن ميں شے كى تصوير نظر آتى ہے آئينے ميں ديكھنے كا حكم ركھتا ہے پس اگر زينت كى غرض سے ہو تو جائز نہيں ہے_
مسئلہ 175_ اگر ايسے كمرے ميں رہتا ہو كہ جس ميں آئينہ ہے اور اسے علم ہو كہ بھول كر اسكى آنكھ آئينے پر پڑجائيگى تو آئينے كو اپنى جگہ برقرار ركھنے ميں كوئي اشكال نہيں ہے ليكن بہتر يہ ہے كہ آئينے كو كمرے سے نكال دے يا اسے ڈھانپ دے_
مسئلہ176_ عينك پہننے ميں كوئي اشكال نہيں ہے اگر يہ زينت كيلئے نہ ہو_
مسئلہ 177_ احرام كى حالت ميں تصوير اتارنے ميں كوئي اشكال نہيں ہے_
مسئلہ 178_ آئينے ميں ديكھنے كا كفارہ نہيں ہے ليكن احوط وجوبى يہ ہے كہ اس ميں ديكھنے كے بعد تلبيہ كہے_
7- انگوٹھى پہننا:
مسئلہ 179: احوط وجوبى يہ ہے كہ محرم انگوٹھى كے پہننے سے اجتناب كرے البتہ اگر اسے زينت شمار كيا جائے_
مسئلہ 180_ اگر انگوٹھى زينت كيلئے نہ ہو بلكہ استحباب كے قصد سے انگوٹھى پہنے يا كسى دوسرى غرض سے تو اسكے پہننے ميں كوئي اشكال نہيں ہے _
مسئلہ 181_ احرام كى حالت ميں انگوٹھى پہننے كا كفارہ نہيں ہے _
8- مہندى اور رنگ كا استعمال كرنا :
مسئلہ 182_ احوط وجوبى يہ ہے كہ اگر زينت شمار ہو تو محرم مہندى كے استعمال اور بالوں كو رنگنے سے اجتناب كرے بلكہ ہر اس شے سے جسے زينت شمار كيا جاتا ہے _
مسئلہ 183_ اگر احرام سے پہلے اپنے ہاتھوں ، پيروں اور ناخنوں پر مہندى لگائے يا اپنے بالوں كو رنگ كرے اور احرام كے وقت تك ان كا اثر باقى رہے تو اس ميں كوئي اشكال نہيں ہے _
مسئلہ 184_ مہندى اور رنگ كے استعمال كرنے ميں كفارہ نہيں ہے _
9- بدن پر تيل لگانا :
مسئلہ 185_ محرم كيلئے اپنے بدن اور بالوں پر تيل لگانا جائز نہيں ہے چاہے وہ تيل خوبصورتى كيلئے استعمال كيا جاتا ہو يا نہ اور چاہے خوشبودار ہو يا نہ _
مسئلہ 186_ اگر خوشبودار تيل كى خوشبو احرام كے وقت تك باقى رہے تو احرام سے پہلے بھى ايسا تيل لگانا حرام ہے _
مسئلہ 187_ تيل( گھي) كے كھانے ميں كوئي اشكال نہيں ہے البتہ اگر اس ميں خوشبو نہ ہو _
مسئلہ 188_ اگر تيل لگانے پر مجبور ہو جيسے يہ علاج كى غرض سے ہو يا دھوپ كے نقصان سے بچنے كيلئے يا اس پسينے سے بچنے كيلئے كہ جو بدن كے جلنے كا موجب بنتا ہے تو كوئي اشكال نہيں ہے _
مسئلہ 189_ خوشبو والا تيل لگانے كا كفارہ احوط كى بنا پر ايك بكرى ہے اور اگر خوشبو والا نہ ہو تو ايك فقير كوكھانا كھلانا اگرچہ ان سب موارد ميں كفارے كا واجب نہ ہونا بعيد نہيں ہے _
10- بدن كے بالوں كو زائل كرنا:
مسئلہ 190_ محرم كيلئے سر اور بدن كے بالوں كو زائل كرنا حرام ہے اور اس ميں كم اور زيادہ بالوں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے حتى كہ ايك بال بھى _اسى طرح فرق نہيں ہے كہ كاٹ كر زائل كرے يا نو چ كر نيز كوئي فرق نہيں ہے كہ اپنے سر اور بدن كے بال زائل كرے يا كسى اور كے سر اور بدن كے بال زائل كرے_
مسئلہ 191_ وضو، غسل يا تيمم كى حالت ميں بالوں كے گرنے كى وجہ سے اس پر كوئي شے نہيں ہے البتہ اگر زائل كرنے كے قصد سے نہ ہو _
مسئلہ 192_ اگر بالوں كے زائل كرنے پر مجبور ہو جيسے آنكھ كے بال جب اسكى اذيت كا باعث ہوں يا سر كے بال جب درد كا سبب ہوں تو كوئي اشكال نہيں ہے _
مسئلہ 193_ اگر محرم جان بوجھ كر بغير ضرورت كے اپنا سر مونڈے تو اس پر ايك بكرى كا كفارہ ہے ليكن اگر غفلت ، بھولنے يا مسئلہ سے لاعلمى كى وجہ سے ہو تو كوئي كفارہ نہيں ہے _
مسئلہ 194_ اگر اپنا سر مونڈنے پر مجبور ہو تو اس كا كفارہ بارہ مد طعام ہے _
100 جو چھ مساكين كو ديا جائيگا يا تين دن كے روزے يا ايك بكرى ہے _
مسئلہ 195_ اگر محرم قينچى يامشين كے ساتھ اپنے سر كے بال كاٹے تو احوط وجوبى ايك بكرى كا كفارہ دينا ہے _
مسئلہ 196_ اگر اپنے چہرے پر ہاتھ لگائے پس ايك يا زيادہ بال گرجائيں تو احوط استحبابى يہ ہے كہ مٹھى بھر گندم ، آٹا اور ان جيسى كسى چيز كا فقير كو صدقہ دے _
11- سرمہ ڈالنا:
مسئلہ 197: اگر زينت شمار كيا جائے تو محرم كيلئے سرمہ ڈالنا جائز نہيں ہے اسى طرح پلكوں پر مسكارا (MASCARA) لگانا جيسا كہ عورتيں زينت كيلئے كرتى ہيں اور اس ميں سياہ اور غير سياہ رنگ كے درميان كوئي فرق نہيں ہے_
12- ناخن تراشنا:
مسئلہ 198_ محرم كيلئے ناخن كاٹنا حرام ہے اور اس ميں ہاتھوں اور پاؤں كے ناخنوں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے اور نہ پورے يا بعض ناخنوں كے كاٹنے ميں اور نہ انكے كاٹنے ، تراشنے اور اكھيڑنے كے درميان چاہے يہ قينچى كے ساتھ ہو يا چھرى كے ساتھ ياكسى اور ذريعے سے _
مسئلہ 199_ اگر ناخن كاٹنے پر مجبور ہوجائے تو اس ميں كوئي اشكال نہيں ہے جيسے اگر ناخن كا كچھ حصہ ٹوٹ جائے اور باقى حصہ تكليف كا باعث ہو _
مسئلہ 200_ كسى دوسرے كے ناخن كاٹنے ميں كوئي اشكال نہيں ہے_
احرام-4
مسئلہ 201_ احرام كى حالت ميںناخن كاٹنے كا كفارہ مندرجہ ذيل ہے_
_ اگر اپنے ہاتھ پاؤں كا ايك يا زيادہ ناخن كاٹے تو ہر ايك كے بدلے ايك مد طعام كفارہ دينا ہوگا _
_ اگر ہاتھ يا پاؤں كے سب ناخن كاٹے تو ايك بكرى كفارہ دينا ہوگى _
_ اگر ايك ہى نشست ميں ہاتھ اور پاؤں كے پورے ناخن كاٹے تو ايك بكرى كفارہ ميں دينا ہوگى اور اگر ہاتھ كے ناخن ايك نشست ميں اور پاؤں كے دوسرى نشست ميں كاٹے تو دو بكرياں كفارے ميں دينا ہوں گي_
13- بدن سے خون نكالنا
مسئلہ 202_ احوط وجوبى يہ ہے كہ محرم ايسا كام نہ كرے جس سے اسكے بدن سے خون نكل آئے _
مسئلہ 203_ احرام كى حالت ميں ٹيكا لگانے سے كوئي مانع نہيں ہے ليكن اگر اسكى وجہ سے بدن سے خون نكل آتا ہوتو احوط وجوبى يہ ہے كہ اس سے اجتناب كيا جائے مگر ضرورت كے موارد ميں_
مسئلہ 204_ احوط وجوبى يہ ہے كہ داڑھ نكالنے سے اجتناب كيا جائے البتہ اگر يہ خون نكلنے كا موجب بنے مگر ضرورت اور احتياج كى صورت ميں_
مسئلہ 205_ بدن سے خون نكالنے كى صورت ميںكفارہ نہيں ہے اگرچہ ايك بكرى كفارے ميں دينا مستحب ہے_
14-فسوق:
مسئلہ 206_ فسوق كا معنى ہے جھوٹ بولنا، گالياں دينا اور دوسروں كے مقابل فخر كرنا اس بنا پر پس احرام كى حالت ميں جھوٹ بولنے اور گالى دينے كى حرمت غير احرام كى حالت سے زيادہ ہے _
ليكن دوسروں كے مقابل فخر كرنا تو يہ احرام كى حالت كے بغير حرام نہيں ہے ليكن احرام كے دوران ميں جائز نہيں ہے _
مسئلہ 207_ فسوق ميں كفارہ واجب نہيں ہوتا ليكن استغفار كرنا واجب ہے _
15- جدال
مسئلہ 208_ دوسروں كے ساتھ جدال كرنا اگر لفظ "" اللہ "" كے ساتھ قسم اٹھانے پر مشتمل ہو تو محرم پر حرام ہے جيسے دوسروں كے ساتھ نزاع كرتے ہوئے "" لا واللہ "" يا "" بلى واللہ "" كہنا_
مسئلہ 209_ احوط وجوبى يہ ہے كہ اس لفظ كے ساتھ قسم اٹھانے سے اجتناب كيا جائے كہ جسے ديگر زبانوں ميں لفظ "" اللہ"" كا ترجمہ شمار كيا جاتا ہے جيسے فارسى ميں لفظ "" خدا"" ہے اور اسى طرح احوط وجوبى يہ ہے كہ جھگڑتے وقت اللہ تعالى كے ديگر ناموں كے ساتھ قسم اٹھانے سے اجتناب كيا جائے جيسے "" رحمن، رحيم ، قادر ، متعال و غيرہ"" _
مسئلہ210_ اللہ تعالى كے علاوہ ديگر مقدس چيزوں كى قسم اٹھانا احرام كے محرمات ميں سے نہيں ہے _
مسئلہ 211_ اگر سچى قسم اٹھائے تو پہلى اور دوسرى مرتبہ ميں استغفار واجب ہے اور اس پر كفارہ نہيں ہے ليكن اگر دو مرتبہ سے زيادہ كرے تو كفارے ميں ايك بكرى دينا واجب ہے _
مسئلہ 212_ اگر جھوٹى قسم اٹھائے تو پہلى اور دوسرى مرتبہ ميں ايك بكرى كفارہ ميں دينا واجب ہے ليكن احوط يہ ہے كہ دوسرى مرتبہ ميں دو بكرياں دے اور اگر دومرتبہ سے زيادہ كرے توكفارہ ميں ايك گائے دينا واجب ہے_
16- حشرات بدن كو مارنا:
مسئلہ 213_ احوط كى بناپر احرام كى حالت ميں جوؤں كو مارنا جائز نہيں ہے _ اوراسى طرح كے ديگر حشرات جيسے پسُّو
مسئلہ 201_ احرام كى حالت ميںناخن كاٹنے كا كفارہ مندرجہ ذيل ہے_
_ اگر اپنے ہاتھ پاؤں كا ايك يا زيادہ ناخن كاٹے تو ہر ايك كے بدلے ايك مد طعام كفارہ دينا ہوگا _
_ اگر ہاتھ يا پاؤں كے سب ناخن كاٹے تو ايك بكرى كفارہ دينا ہوگى _
_ اگر ايك ہى نشست ميں ہاتھ اور پاؤں كے پورے ناخن كاٹے تو ايك بكرى كفارہ ميں دينا ہوگى اور اگر ہاتھ كے ناخن ايك نشست ميں اور پاؤں كے دوسرى نشست ميں كاٹے تو دو بكرياں كفارے ميں دينا ہوں گي_
17- حرم كے پودوں اور درختوں كو كاٹنا:
مسئلہ 214_ حرم ميں اگنے والے درختوں اور گھاس كو قطع كرنا ، كاٹنا اور توڑنا حرام ہے اور اس ميں محرم اور غير محرم كے درميان كوئي فرق نہيں ہے _
مسئلہ 215_ مذكورہ حكم سے وہ مستثنى ہے كہ جو چلنے كى وجہ سے ٹوٹ جائے يا جانوروں كو چارہ ڈالٹے كيلئے كاٹا جائے _
مسئلہ 216_ حرم سے گھاس كاٹنے پر كفارہ نہيں ہے بلكہ صرف استغفار واجب ہے ليكن اگر اس درخت كو كاٹے كہ جس كا كاٹنا حرام ہے تو احوط وجوبى يہ ہے كہ ايك گائے كفارے ميں دے _
18- اسلحہ اٹھانا:
مسئلہ 217_ محرم كيلئے اسلحہ اٹھانا جائز نہيں ہے _
مسئلہ 218_ اگر اپنى جان و مال يا كسى دوسرے كى جان كى حفاظت كيلئے اسلحہ اٹھانے كى ضرورت ہو تو يہ جائز ہے_
19- خشكى كا شكار كرنا:
مسئلہ 219_ احرام كى حالت ميں خشكى كا شكار كرنا حرام ہے مگر جب اسكى طرف سے تكليف پہنچانے كا خوف ہو اسى طرح پرندوں اور ٹڈى كا شكار كرنا بھى حرام ہے _
مسئلہ 220_ محرم كيلئے شكار كا گوشت كھانا حرام ہے چاہے اس نے خود اسے شكار كيا ہو يا كسى اور نے اور چاہے شكار كرنے والا محرم ہو يا مُحل _
مسئلہ 221_ دريائي جانوروں كے شكار كرنے ميں كوئي اشكال نہيں ہے جيسے مچھلى كا شكار كرنے اور انكے كھانے ميں بھى كوئي اشكال نہيں ہے_
مسئلہ 222_ پالتو جانوروں كے ذبح كرنے اور كھانے ميں كوئي اشكال نہيں ہے جيسے بكري، مرغى وغيرہ _
مسئلہ 223_ حرم كے دائرے كے اندر جانور كا شكار كرنا جائز نہيں ہے چاہے محرم ہو يا مُحل_
احرام كى حالت ميں شكار كرنے اور اسكے كفارات كے احكام بہت زيادہ ہيں اور چونكہ موجودہ دور ميں يہ پيش نہيں آتے اسلئے ہم ان سے صرف نظر كرتے ہيں _
20- جماع
مسئلہ 224_ احرام كى حالت ميں جماع اور بيوى سے ہر قسم كى لذت حاصل كرنا حرام ہے جيسے اسكے بدن كو چھونا ، اسكى طرف شہوت كے ساتھ ديكھنا اور اسے بوسہ دينا_
مسئلہ 225_ مياں بيوى ميں سے ہر ايك كا دوسرے كى طرف ديكھنا اور اسكے ہاتھ كو چھونا جائز ہے اگر شہوت اور لذت سے نہ ہو_
مسئلہ 226_ انسان كے محارم جسے باپ، ماں ، بھائي ، بہن اور چچا، پھوپھى وغيرہ احرام كى حالت ميں بھى مَحْرَمْ ہى رہتے ہيں_
مسئلہ 227_ بيوى كے ساتھ جماع كرنے كا كفارہ ايك اونٹ ہے اور بعض موارد ميں اس سے حج باطل ہوجاتا ہے اور اسكى تفصيل فقہ كى مفصل كتابوں ميں مذكور ہے_
مسئلہ 228_ ديگر لذات ميں سے ہر ايك كيلئے ايك كفارہ ہے كہ جنكى تفصيل فقہى كتابوں ميں مذكور ہے_
21- عقد نكاح:
مسئلہ 229_ احرام كى حالت ميں اپنے لئے يا كسى اور كيلئے عقد كرنا حرام ہے حتى اگر وہ غير ،مُحل ہو اور ايسا عقد باطل ہے_
مسئلہ 230_ عقد كى حرمت اور اسكے باطل ہونے ميں عقد دائم اورموقت كے درميان كوئي فرق نہيں ہے _
22- استمناء
مسئلہ 231_ احرام كى حالت ميں استمناء كرنا حرام ہے اور اس كا حكم جماع والا حكم ہے_
اور اس سے مراد يہ ہے كہ انسان اپنے ساتھ ايسا كام كرے كہ جس سے اسكى شہوت برانگيختہ ہوجائے يہاں تك كہ منى نكل آئے
محرمات احرام كے كفارات كے احكام
مسئلہ 232_ اگر غفلت كى وجہ سے يا بھول كر احرام كے محرمات ميں سے كسى كا ارتكاب كرے تو كفارہ واجب نہيں ہے مگر شكار كيونكہ اس ميں ہر حال ميں كفارہ واجب ہے _
مسئلہ 233_ عمرہ ميں شكار كے كفارے كے ذبح كرنے كا مقام مكہ مكرمہ ہے اور حج ميں منى ہے اور احوط يہ ہے كہ ديگر كفارات ميں بھى اسى ترتيب كے مطابق عمل كيا جائے ليكن اگر مكہ يا منى ميں كفارہ كو ذبح نہ كرے تو كسى دوسرى جگہ ذبح كردينا كافى ہے حتى كہ حج سے لوٹنے كے بعد اپنے شہر ميں _
مسئلہ 234_ جس پر كفارہ واجب ہو اس كيلئے اسكے گوشت سے كچھ كھانا جائز نہيں ہے ليكن حج كى واجب يا مستحب يا نذر كى قربانى سے كھانے ميں كوئي اشكال نہيں ہے _
مسئلہ 235_ محرمات احرام كا كفارہ فقير كو دينا واجب ہے_
مكہ مكرمہ كى طرف جانا
مسئلہ 236_ ميقات سے احرام باندھ كر حجاج عمرہ كے باقى اعمال كى انجام دہى كيلئے مكہ مكرمہ كى طرف جاتے ہيں اور مكہ پہنچنے سے پہلے حرم كا علاقہ شروع ہوجاتا ہے اور حرم كے علاقے ميں داخل ہونے كيلئے اسى طرح مكہ مكرمہ اور مسجدالحرام ميں داخل ہونے كيلئے بہت سارى دعائيں اور آداب وارد ہوئے ہيں ہم ان ميں سے بعض كو ذكر كرتے ہيں جو شخص ان سب آداب اور مستحبات پر عمل كرنا چاہتا ہے وہ مفصل كتابوں كى طرف رجوع كرے_
حرم ميں داخل ہونے كى دعا
مسئلہ 237_حرم ميں داخل ہوتے وقت يہ دعا مستحب ہے_
اللّہُمَّ انَّكَ قُلْتَ فى كتَابكَ الْمُنْزَل وقَوْلُكَ الْحَقُّ (وَ ا َذّنْ فى النَّاس بالْحَجّ يَا تُوكَ رجالاً وَ عَلى كُلّ ضامر: يَا تينَ منْ كُلّ فَجّ: عَميق:) اللّہُمَّ وَ انّى ا َرْجُو ا َنْ ا َكُونَ ممَّنْ ا َجَابَ دَعْوَتَكَ وَ قَدْ جئْتُ منْ شُقَّة: بَعيدَة: وَ منْ فَجّ: عَميق: سَامعاً لندَائكَ وَ مُسْتَجيباً لَكَ مُطيعاً ل-اَمْركَ وَ كُلُّ ذَلكَ بفَضْلكَ عَلَيَّ وَ احْسَانكَ الَيَّ فَلَكَ الْحَمْدُ عَلى مَا وَفَّقْتَنى لَہُ ا َبْتَغى بذلكَ الزُّلْفَة عنْدَكَ وَالقُرْبَةَ الَيْكَ وَالمَنْزلَةَ لَدَيْكَ وَالمَغْفرَةَ لذُنُوبى وَالتَّوْبَةَ عَلَيَّ منْہَا بمَنّكَ اللّہُمَّ صَلّ عَلى مُحَمَّد: وَ آل مُحَمَّد: وَحَرّمْ بَدَنى عَلى النَّار وَآمنّى منْ عَذَابكَ وَ عقَابكَ برَحْمَتكَ يَا ا رْحَمَ الرَّاحمينَ_
مسجد الحرام ميں داخل ہونے كے مستحبات
مسئلہ 238_ مسجدالحرام ميں داخل ہوتے وقت مندرجہ ذيل اعمال مستحب ہيں _
1_ مكلف كيلئے مستحب ہے كہ مسجدالحرام ميں داخل ہونے كيلئے غسل كرے_
2_ مستحب ہے كہ مسجدالحرام ميں داخل ہوتے وقت وہ دعائيں پڑھے جو احاديث ميں وارد ہوئي ہيں_
امام خمینی کے مکتب فکر کی خصوصیات اور معیارات کا جائزہ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اکیس جمادی الثانی سن چودہ سو اکتیس ہجری قمری مطابق چار جون دو ہزار دس عیسوی برابر چودہ خرداد تیرہ سو نواسی ہجری شمسی کو بانی انقلاب اسلامی اور اسلامی جمہوری نظام کے معمار امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رحلت کی اکیسویں برسی کے موقع پر آپ کے مزار پر دسیوں لاکھ کی تعداد میں جمع ہونے والے عقیدت مندوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ یہ جمعہ کا دن تھا لہذا نماز جمعہ بھی امام خمینی کے مزار پر قائد انقلاب اسلامی کی امامت میں ادا کی گئی۔ قائد انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے خطبوں میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مکتب فکر کی خصوصیات اور معیارات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ اپنے انہی افکار و نظریات اور اپنے مکتب فکر میں منعکس ہیں اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ سے لگاؤ اور انسیت کا تقاضہ آپ کے مکتب فکر پر عملدرآمد ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کی بقا کے تعلق سے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مکتب فکر کی خصوصیات اور معیارات سے واقفیت اور ان کی پابندی کو لازمی قرار دیا۔ نماز جمعہ کے خطبے میں قائد انقلاب اسلامی نے اسی طرح عالمی حالات کا بھی جائزہ لیا اور خاص طور پر امدادی اشیاء لیکر غزہ جانے والے کاروان آزادی پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے اور نیویارک میں تقریبا ایک مہینہ چلنے والے این پی ٹی نظر ثانی اجلاس کا ذکر کیا۔ آپ نے کاروان آزادی پر اسرائیل کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور این پی ٹی نظر ثانی اجلاس کو امریکا اور اسرائیل کی شکست کا مظہر قرار دیا۔ نماز جمعہ کے خطبے حسب ذیل ہیں؛ خطبهى اول بسماللَّهالرّحمنالرّحيم و الحمد للَّه ربّ العالمين نحمده و نستعينه و نتوكّل عليه و نستغفره و نتوب اليه و نصلّى و نسلّم على حبيبه و نجيبه و خيرته فى خلقه حافظ سرّه و مبلّغ رسالاته بشير رحمته و نذير نقمته سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين و صلّ على ائمّة المسلمين و حماة المستضعفين و دعاۃ الى اللَّه اوصيكم عباد اللَّه و نفسى بتقوى اللَّه تمام بھائیوں اور بہنوں کو تقوا و پرہیزگاری کو ملحوظ رکھنے کی دعوت دیتا ہوں۔ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ : «يا ايّها الّذين آمنوا اتّقوا اللَّه و قولوا قولا سديدا. يصلح لكم اعمالكم و يغفر لكم ذنوبكم و من يطع اللَّه و رسوله فقد فاز فوزا عظيما».(1) ہمیں اپنی رفتار و گفتار حتی تصورات و افکار میں بھی تقوا کا پابند رہنا چاہئے۔ یعنی ہم اپنی رفتار و گفتار میں اور اپنے کردار میں رضائے پروردگار اور جادہ حق سے ذرہ برابر بھی تجاوز نہ کریں۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اس بندہ حقیر کو توقیق دے کہ قرآن کے اس بنیادی اصول یعنی تقوا کی اساس پر گفتگو کے ذیل میں اپنے معروضات پیش کر سکوں۔ یہ ایام صدیقہ کبرا فاطمہ زہرا سیدۃ نساء العالمین سلام اللہ علیھا کی ولادت کے ایام ہیں۔ اللہ تعالی کی مخلص کنیز کی ملکوتی روح سے طلب مدد کرتے ہیں کہ یہ نماز جمعہ جو امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی رحلت کی اکیسویں برسی کے دن قائم کی گئی ہے اللہ تعالی کی اس عظیم نشانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ادا ہو اور ہمارے عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی یاد اور بابرکت نام جس طرح ان اکیس برسوں میں ہماری قوم کے دل و جان اور زبان میں، زندگی کی فضا میں بہترین شکل میں بسا رہا اسی طرح آئندہ بھی محفوظ رہے اور ہم اسے آگے لے جائیں۔ میں خطبہ اول میں با عظمت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بارے میں چند معروضات پیش کروں گا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو ایک معیار اور کسوٹی کی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ اس نقطہ نگاہ کی اہمیت اس لئے بہت زیادہ ہے کہ تمام سماجی تبدیلیوں اور انقلابوں کے سامنے سب سے پڑا چیلنج اس انقلاب اور اس تبدیلی کی اصلی سمت اور رخ کی حفاظت کا ہوتا ہے۔ یہ ہر اس عظیم سماجی تبدیلی اور تحریک کا سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے جس کے خاص مقاصد ہوں اور ان اہداف کی جانب وہ بڑھے اور لوگوں کو اس کی دعوت دے۔ اس سمت اور رخ کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ اگر انقلاب اور سماجی تحریک کی سمت اور رخ کی حفاظت نہ کی جائے اور اسے محفوظ نہ رکھا جائے تو وہ انقلاب اپنا ہی مخالف بن جائے گا۔ اپنے اہداف کی برعکس سمت میں بڑھنے لگے گا۔ چنانچہ آپ قرآن میں دیکھتے ہیں کہ سورہ مبارکہ ہود میں اللہ تعالی اپنے پیغمبر سے ارشاد فرماتا ہے کہ «فاستقم كما امرت و من تاب معك و لاتطغوا انّه بما تعملون بصير».(2) پیغمبر کو استقامت و پائيداری کا حکم دیتا ہے۔ استقامت کے معنی ہیں راستے پر سیدھے آگے بڑھتے رہنا، صحیح سمت میں پیش قدمی کرنا۔ اس مستقیم حرکت کے مد مقابل عمل کو آیہ شریفہ میں طغیان اور سرکشی قرار دیا گیا ہے، ولا تطغوا طغیان یعنی سرکشی کرنا اور منحرف ہو جانا۔ پیغمبر سے فرماتا ہے کہ آپ بھی اور آپ کے ہمراہ چلنے والے افراد بھی اس راستے پر صحیح انداز سے آگے بڑھتے رہیں اور ہرگز انحراف کا شکار نہ ہوں۔ انھ بما تعملون بصیر علامہ طباطبائي مرحوم تفسیر المیزان میں فرماتے ہیں کہ اس آيت کا لب و لہجہ سخت ہے، اس میں کسی نرمی اور رحم کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ خود پیغمبر سے خطاب ہے کہ فاستقم اس آيت کا یہ عالم ہے کہ پیغمبر اکرم سورہ ھود کے بارے میں فرماتے ہیں کہ شیبتنی سورۃ ھود سورہ ہود نے مجھے بوڑھا کر دیا۔ یہ اسی آیت کی وجہ سے ہے۔ روایت میں ہے کہ سورہ ھود کا وہ حصہ جس کی وجہ سے پیغمبر اکرم نے ارشاد فرمایا کہ سورہ ھود نے مجھے بوڑھا کر دیا، یہی آيۃ مبارکہ ہے۔ چونکہ اس آیت میں سختی ہے۔ قرآن میں ایک اور جگہ پر بھی کہا گيا ہے فلذالک فادع و استقم کما امرت (3) لیکن «فاستقم كما امرت و من تاب معك و لا تطغوا» کا انداز کہ منحرف نہ ہونا، بیچ راستے سے لوٹ نہ جانا، بڑا سخت خطاب ہے جو خود پیغمبر سے کیا گيا ہے۔ یہ خطاب پیغمبر کے دل کو دہلا دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سمت بدل جانے اور اصلی راستے سے بھٹک جانے کی صورت میں انقلاب اپنے اہداف تک ہرگز نہیں پہنچ پاتا جبکہ ہر انقلاب کی شناخت اور ماہیت کا دارومدار اس کی سمت اور رخ پر ہوتا ہے، انقلابوں کی شناخت ان کی اصلی سمت ہی ہوتی ہے۔ اس معاملے کی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ سمت کی تبدیلی تدریجی اور نامحسوس عمل ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ شروع میں ہی سمت ایک سو اسی درجہ بدل جائے۔ یہ تبدیلی بہت معمولی انحراف اور کجی سے شروع ہوتی ہے اور پھر جیسے جیسے وقت گزرتا ہے اصلی راستے اور منحرف راستے کا فاصلہ روز بروز بڑھتا جاتا ہے۔ یہ تو رہی ایک بات۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ انقلاب کی ماہیت اور شناخت کو بدل دینے پر تلے ہوتے ہیں وہ با ضابطہ پرچم اور بینر کے ساتھ آگے نہیں آتے، وہ اس انداز سے حرکت نہیں کرتے کہ عیاں ہو جائے کہ وہ تحریک کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ بعض اوقات تو انقلابی تحریک کی طرفداری کے نام پر کوئی بیان دیتے ہیں، کوئی اقدام کرتے ہیں، کوئی ایسا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں کہ انقلاب اپنی بنیادی سمت اور رخ سے پوری طرح ہٹ جاتا ہے، الگ ہو جاتا ہے۔ سمت سے انحراف نہ ہو اس کے لئے کچھ معیاروں کا تعین ضروری ہے۔ سامنے کچھ معیاروں کا ہونا لازمی ہے۔ اگر یہ معیار موجود ہوں، واضح ہوں، روشن ہوں، لوگوں کی نظر میں ہوں تو انحراف نہیں ہوگا۔ اگر کوئی غلط سمت میں بڑھنا چاہے گا تو عوام کو اس کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ لیکن اگر یہ معیار موجود نہ ہوں تو سنجیدہ خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ ہمارے انقلاب میں معیار کیا ہے؟ یہ بہت اہم ہے۔ ہم تیس سال سے اس انقلاب کی سمت میں بڑھ رہے ہیں، ہماری قوم نے بصیرت کے ساتھ حرکت کی ہے، شجاعت کا مظاہرہ کیا ہے، واقعی صلاحیت سے کام لیا ہے۔ آپ تیس سال سے اس انقلاب کو آگے لے جا رہے ہیں لیکن خطرات اب بھی موجود ہیں۔ انقلاب کے دشمن، امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) کے دشمن خاموش نہیں بیٹھے ہیں، وہ اس انقلاب کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے کوشاں ہیں، کیسے؟ انقلاب کو غلط سمت میں موڑ کر۔ بنابریں ضروری ہے کہ ہمارے پاس معیار موجود ہوں۔
میں یہ عرض کروں گا کہ بہترین معیار خود امام ( خمینی رضوان اللہ علیہ کی ذات) اور امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) کا مکتب فکر ہے۔ امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) ہمارے لئے بہترین معیار ہیں۔ بلا تشبیہ کہنا چاہئے کہ جس طرح قرآن پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے سلسلے میں فرماتا ہے کہ «لقد كان لكم فى رسول اللَّه اسوة حسنة لمن كان يرجوا اللَّه و اليوم الاخر».(4) خود پیغمبر کی ذات اسوہ اور نمونہ ہے، آپ کی رفتار، آپ کا کردار اور آپ کا اخلاق۔ یا ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ : «قد كانت لكم اسوة حسنة فى ابراهيم و الّذين معه»؛(5) ابراہیم اور ان کے اصحاب اسوہ ہیں۔ یہاں اصحاب حضرت ابراہیم کا بھی تذکرہ کیا گيا ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ پیغمبر تو معصوم ہوتے تھے، حضرت ابراہیم معصوم تھے، ہم ان کے مثل نہیں ہو سکتے۔ جی نہیں، «قد كانت لكم اسوة حسنة فى ابراهيم و الّذين معه اذ قالوا لقومهم انّا براء منكم و ممّا تعبدون من دون اللَّه كفرنا بكم» الی آخرہ، اسی طرح با عظمت امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) کے سلسلے میں بھی جو اسی مکتب کے شاگرد اور انبیائے کرام کی راہ کے مسافر ہیں، یہ چیز صادق آتی ہے۔ خود امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) سب سے بڑا معیار ہیں۔ آپ کا عمل اور آپ کا قول۔
خوش قسمتی سے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بیانات دسترسی میں ہیں، تدوین شدہ ہیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا وصیت نامہ انقلاب کے مستقبل کے تعلق سے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مافی الضمیر کو پوری طرح وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ یہ اجازت نہیں دی جانی چاہئے کہ ان معیاروں کی غلط تفسیر کی جائے، انہیں پنہاں رکھا جائے یا فراموش کر دیا جائے۔ اگر ہم نے ان معیاروں کو غلط انداز سے بیان کیا، غلط طریقے سے پیش کیا تو ایسا ہی ہوگا کہ گویا ہم نے سفر کے دوران اپنا قطب نما گنوا دیا، یا ہمارا قطب نما خراب ہو گیا۔ آپ تصور کیجئے کہ ایک بحری سفر میں یا بیابان میں جہاں کوئی سڑک نہیں ہے انسان کا قطب نما خراب ہو جائے یا اسے کوئی نقصان پہنچ جائے تو وہ شخص حیران و پریشان ہو جائے گا۔ اگر امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے افکار کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا تو یہ قطب نما گنوا دینے والی بات ہوگی، راستہ بھٹک جانے والی بات ہوگی۔ ہر کوئی اپنی مرضی اور پسند کے مطابق بات کرنے لگے گا اور بد خواہ عناصر موقع کا فائدہ اٹھائيں گے اور وہ راستہ دکھائیں گے کہ قوم غلط سمت میں چل پڑے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے نظریات کو بالکل اسی طرح جیسے آپ نے کہا ہے یا لکھا ہے، وضاحت کے ساتھ بیان کیا جائے۔ یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کی اور انقلاب کی راہ مستقیم کی خصوصیت ہے۔ ایک آدمی کھلے عام کہتا ہے کہ میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو نہیں مانتا، تو یہ ایک الگ بات ہے، جو شخص کہتا ہے کہ میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو نہیں مانتا، ان کے بتائے راستے کو غلط سمجھتا ہوں، اس کے ساتھ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے پیروکاروں کا حساب کتاب واضح ہے۔ یہ انقلاب امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اشاروں پر آگے بڑھنے والا ہے تو ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا موقف واضح کیا جانا چاہئے معلوم ہونا چاہئے۔ یہ نہ ہو کہ فلاں صاحب کی اور فلاں صاحب کی مرضی کا لحاظ کرکے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بعض نظریات کا انکار کر دیا جائے یا انہیں چھپایا جائے۔ بعض لوگ اس طرح کی فکر رکھتے ہیں، جو بالکل غلط ہے، کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے ماننے والوں کی تعداد بڑھانے کے لئے آپے کے مخالفین کو بھی آپ کے چاہنے والوں کی صف میں شامل کرنے کے لئے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بعض صریحی خیالات کو چھپا دیا جائے یا کمرنگ کر دیا جائے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا تشخص اور آپ کی شخصیت اسی موقف پر مبنی ہے جو آپ نے واضح ترین الفاظ میں بیان کیا ہے۔ انہی باتوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہی صریحی موقف تھا جس نے کثیر تعداد کو ملت ایران کے چاہنے والوں بلکہ اس کے نقش قدم پر چلنے والوں میں شامل کر دیا تھا۔ یہ عظیم عالمی تحریک جس کے اثرات آج بھی آپ عالم اسلام کے گوشہ و کنار میں ملاحظہ کر رہے ہیں، اسی طریقے سے آگے بڑھی ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی شخصیت کو مکمل صراحت کے ساتھ سامنے لانا چاہئے۔ سامراج کے خلاف آپ کے موقف، رجعت پسندی کے خلاف آپ کے موقف، مغربی لبرل ڈیموکریسی کے خلاف آپ کے موقف، منافقوں اور دوہرے چہرے والوں کے خلاف آپ کے موقف کو صراحت کے ساتھ پیش کرنا چاہئے۔ جو لوگ اس عظیم شخصیت سے متاثر ہوئے انہوں نے اسی موقف کو دیکھا اور پیروی کے لئے آمادہ ہو گئے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم اس لئے کہ فلاں شخص اور فلاں شخص کو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) پسند آنے لگیں، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے موقف کو چھپانا شروع کر دیں، یا (امام خمینی رحمت اللہ علیہ) کی ان باتوں کو جو ہمیں کچھ تند اور سخت لگیں، کمرنگ کرنا شروع کر دیں۔ کچھ لوگوں نے ایک زمانے میں جو ہمیں پوری طرح یاد ہے، وہ ہماری نوجوانی کا زمانہ تھا، اسلام کی جانب لوگوں کو مائل کرنے اور ترغیب دلانے کے لئے اسلام کے بعض احکام کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا، کم رنگ کر دیتے تھے۔ قصاص کے احکام کو، جہاد کے احکام کو، حجاب کے احکام کو چھپاتے اور ان کا انکار کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ یہ اسلام میں نہیں ہے، قصاص اسلام میں نہیں ہے، جہاد اسلام میں نہیں ہے، کسی مستشرق کو اور اسلامی اصولوں کے کسی دشمن کو خوش کرنے کے لئے۔ یہ بالکل غلط ہے، اسلام کو کامل شکل میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو آپ کے مکتب فکر سے الگ کرکے دیکھا جائے تو یہ وہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نہیں ہوں گے کہ ملت ایران نے جن کی ہدایت پر اور جن کی خاطر اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھیں، اپنے بچوں کو جان دینے کے لئے بھیج دیا، اپنی جان اور اپنا مال دینے میں کوئی دریغ نہیں کیا اور دنیا کے اس خطے میں صدی کا عظیم ترین کارنامہ رقم کیا۔ مکتب فکر سے الگ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) در حقیقت اپنی شخصیت اور تشخص سے الگ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) ہیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے آپ کی شناخت اور تشخص سلب کرنا امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی خدمت نہیں ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اصول واضح اور روشن تھے۔ یہ اصول جو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اقوال میں بیانوں میں، خطوط میں اور بالخصوص آپ کے وصیت نامے میں جو آپ کے تمام اصولوں اور موقف کا نچوڑ ہے نمایاں اور ہویدا ہیں۔ یہ وہی فکری بنیادیں اور اصول ہیں کہ جن کے ذریعے آپ نے دنیا میں امریکا کی تسلط پسندی اور مغرب کی غارت گری کے خلاف ایک عطیم لہر پیدا کر دی۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اب جو امریکا کے مختلف صدور جب ایشیا کے کسی ملک اور مشرق وسطی کا سفر کرتے ہیں، حتی بعض یورپی ممالک کے دورز پر جب جاتے ہیں اور عوام جمع ہوکر ان کے خلاف نعرے لگاتے ہیں تو کیا یہ چیز پہلے بھی تھی؟ جی نہیں، یہ تو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا اقدام تھا، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے انکشافات تھے، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا موقف تھا جس نے سامراج کو رسوا کر دیا، صیہونزم کو رسوا کر دیا اور قوموں کے اندر خاص طور پر اسلامی معاشروں میں استقامت و مزاحمت کا جذبہ پیدا کیا۔ یہ کج فکری ہوگی کہ ہم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے موقف کے منکر ہو جائیں۔ افسوس کہ یہ کج فکری بعض اوقات ایسے افراد کے ہاں نظر آتی ہے جو کسی زمانے میں خود بھی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے افکار کے مروج تھے، یا آپ کے پیروکاروں میں شامل تھے۔ بہرحال کسی وجہ سے انحراف پیدا ہو گیا، ہدف نظروں سے اوجھل ہو گیا اور کچھ لوگ پلٹ گئے۔ ان میں سے بعض نے برسوں تک امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے لئے، انہی اہداف کے لئے تقریریں کیں، اقدامات کئے لیکن آج انہی اہداف اور انہی اصولوں کے خلاف محاذ کھولے بیٹھے ہیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کے کئی حصے ہیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کے سلسلے میں سب سے اہم چند نکات ہیں جنہیں میں عرض کروں گا اور خاص طور پر نوجوانوں سے عرض کروں گا کہ آپ جاکر امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے وصیت نامے کا مطالعہ کیجئے۔ جس امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا وہ وہی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) ہیں جو اس وصیت نامے میں منعکس ہیں۔ انہی آثار اور باتوں میں منعکس ہیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اصول و افکار میں سب سے اہم نکتہ ہے حقیقی دین محمدی یعنی ظلم مخالف اسلام کا، انصاف پسند اسلام کا، مجاہد اسلام کا، محروموں کے طرفدار اسلام کا، غریبوں، مستضعفوں اور ستمدیدہ افراد کے حقوق کا دفاع کرنے والے اسلام کا۔ اس اسلام کے مقابلے میں (کھڑے اسلام کے لئے) ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے امریکی اسلام کی ایک نئي اصطلاح وضع کی۔ امریکی اسلام یعنی تکلفاتی اسلام، ظلم و ستم کا خاموش تماشائی اسلام، تسلط پسندوں کا مددگار اسلام، طاقتوروں کا معاون اسلام، وہ اسلام جو اس سب کو برداشت کرے۔ اس اسلام کے لئے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے امریکی اسلام کا نام منتخب کیا۔ حقیقی اسلامی فکر و نظر ہی ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی دائمی فکر و نظر ہے، یہ اسلامی جمہوریہ کے دور تک ہی محدود نہیں تھی تاہم حقیقی اسلام کا نفاذ اسلامی نظام کی تشکیل اور اسلام کی حاکمیت و اقتدار کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اگر ملک کا سیاسی نظام اسلامی فکر اور شریعت اسلامیہ پر استوار نہ ہو تو اسلام دنیا کے ستمگروں سے، عالمی استبدادی طاقتوں سے، معاشرے کے توسیع پسندوں سے حقیقی جنگ نہیں کر پائے گا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اسی لئے اسلامی جمہوریہ کی حفاظت و پاسبانی کو واجبات میں سب سے بڑا واجب قرار دیتے تھے۔ سب سے بڑے واجبات میں سے ایک نہیں بلکہ تمام واجبات میں سب سے بڑا واجب۔ سب سے بڑا واجب اسلامی جمہوریہ کی حفاظت ہے، کیونکہ اسلام کی حفاظت واقعی اسلامی سیاسی نطام پر منحصر ہے، سیاسی نظام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اسلامی جمہوریہ کو اسلامی اقتدار اور حاکمیت کا مظہر مانتے تھے۔ اسی لئے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اسلامی جمہوریہ کے لئے کوششیں کیں، اس راہ میں اتنی محنت کی۔ پوری تندہی کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کے اقتدار پر اصرار کیا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو شخصی جاہ و حشم سے تو کوئی دلچسپی تھی نہیں، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اس کوشش میں تو نہیں تھے کہ خود انہیں کوئی طاقت حاصل ہو۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا سارا ہم و غم تھا اسلام۔ اسی لئے وہ اسلامی جمہوریہ کے لئے اتنے مصر تھے۔ یہ نیا نمونہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے دنیا کے سامنے پیش کیا، اسلامی جمہوریہ کا نمونہ۔ اسلامی جمہوریہ میں سب سے اہم مسئلہ ہے دنیا کی جاہ طلب اور استبدادی حاکمیت کا مقابلہ جو مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ جاہ طلب اور آمر حکومت صرف سلطنتی حکومت نہیں ہے، یہ تو آمرانہ حکومت کی ایک قسم ہے۔ اس زمانے میں بائیں بازو کی آمریت تھی۔ ممالک میں کسی خاص پارٹی کی آمریت تھی، وہ جیسا چاہتی تھی قوم کے ساتھ برتاؤ کرتی تھی اور وہ کسی کو جواب دہ بھی نہیں ہوتی تھی۔ در حقیقت پوری قوم مٹھی بھر لوگوں کی یرغمال بنی ہوئی تھی۔ یہ بھی ایک طرح کی آمریت تھی۔ ایک آمریت سرمایہ داروں کی آمریت ہے جو نام نہاد جمہوری نظاموں میں لبرل ڈیموکریٹک نظاموں میں دیکھنے میں آتی ہے۔ یہ بھی ایک طرح کی آمریت ہے، تاہم بالواسطہ اور زیرکانہ آمریت، یہ سرمایہ داروں اور دولتمندوں کی آمریت ہوتی ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ان انسانی طاغوتوں کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ تشکیل دی۔ اسلام کو، جس میں عوام، عوامی رائے اور عوامی خواہشات کو محور بنایا گيا ہے، اس نظام کی اصلی بنیاد بنایا۔ بنابریں اسلامی جمہوریہ میں جمہوریت بھی ہے یعنی اس کا دارومدار عوامی رائے پر ہے اور اس میں اسلامیت بھی ہے یعنی یہ اسلامی شریعت پر استوار ہے۔ یہ ایک نیا نمونہ ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کی یہ ایک اہم خصوصیت ہے۔ جو بھی اسلامی حاکمیت کے تعلق سے اس سے الگ سوچ رکھتا ہو وہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی فکر کے خلاف ہے۔ اسے یہ دعوی کرنے کا حق نہیں کہ وہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا پیرو بھی ہے اور ساتھ ہی اس فکر کا بھی حامل ہے۔ جی نہیں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا مکتب فکر یہ ہے اور یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کی سب سے واضح خصوصیت ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر اور آپ کے راستے کے تعلق سے ایک اور اہم مسئلہ لوگوں کو قریب اور دور کرنے کا ہے۔ عظیم ہستیوں کے یہاں لوگوں کو خود سے قریب اور دور کرنے کا سلسلہ بھی وسیع ہوتا ہے۔ سب کے یہاں یہ چیز پائی جاتی ہے۔ آپ اپنے برتاؤ سے کسی کو اپنی جانب مائل اور راغب کر لیتے ہیں اور جبکہ دوسرا شخص آپ کے اس برتاؤ سے دل برداشتہ ہو جاتا ہے۔ بڑی ہستیاں بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنی جانب راغب و مائل کر لیتی ہیں اور اسی طرح بڑی تعداد میں لوگ ان کے مخالف بھی ہو جاتے ہیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے تعلق سے یہ دونوں چیزیں دیدنی تھیں۔ لوگوں کو اپنے سے قریب یا دور کرنے کے سلسلے میں بھی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے یہاں معیار وہی مکتب فکر تھا، اسلام تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے امام زین العابدین علیہ السلام صحیفہ سجادیہ میں ماہ رمضان میں وارد ہونے سے متعلق دعا میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں۔ ہم نے بارہا یہ تاکید کی ہے کہ امام سجاد علیہ السلام کی دعائیں واقعی اسلامی معارف و تعلیمات کا بیش بہا خزانہ ہیں۔ ان دعاؤں میں ایسے معارف اور ایسی تعلیمات موجود ہیں کہ جنہیں انسان روایتوں اور احادیث کے ذریعے حاصل نہیں کر سکتا۔ دعاؤں میں یہ چیزیں صراحت کے ساتھ بیان کر دی گئي ہیں۔ صحیفہ سجادیہ کی چوالیسویں دعا میں جو ماہ رمضان میں داخل ہونے پر امام کی زبان پر جاری ہوئی ہے۔ اس دعا میں امام سجاد علیہ السلام اللہ تعالی سے کچھ چیزوں کی التجا کرتے ہیں ان چیزوں میں ایک یہ ہے کہ و ان نسالم من عادانا پالنے والے! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارے تمام دشمنوں سے ہماری صلح و مفاہمت ہو جائے۔ آشتی اور رواداری پر عمل کریں۔ اس کے بعد فورا فرماتے ہیں کہ «حاشى من عودى فيك و لك فأنه العدوّ الّذى لانواليه و الحرب الّذى لانصافيه» سوائے اس دشمن کے جس سے میں نے تیری خاطر دشمنی مول لی ہے، جس سے میں نے تیری راہ میں دشمنی کی ہے۔ یہ ایسی دشمنی ہے جس کے لئے ہم آشتی کا لفظ بھی زبان پر نہیں لا سکتے اور ہمارا دل اس کی طرف سے کبھی صاف نہیں ہوگا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) بھی ایسے ہی تھی۔ کسی سے آپ کی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ اگر کوئی ذاتی اور شخصی کدورت ہوتی بھی تو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اسے نظر انداز کر دیتے تھے۔ لیکن مکتب فکر کی بنا پر ہونے والی دشمنی کے سلسلے میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) بہت سنجیدہ تھے۔ وہی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) جنہوں نے انیس سو باسٹھ میں تحریک کے آغاز کے وقت سے ہی عوام کے لئے اپنا دروازہ کھول دیا تھا، گوناگوں افکار و نظریات والے لوگوں کے لئے آپ کی آغوش کھلی ہوئي تھی، لوگوں کو خواہ وہ کسی بھی قومیت، گروہ اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرتے تھے، لیکن یہی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) انقلاب کے اوائل میں ایک گروہ کو خود سے دور کر دیتے ہیں۔ کمیونسٹوں کو کھل کر خود سے دور کیا۔ اس وقت ہم میں سے بہتوں کے لئے جو اوائل انقلاب سرگرم عمل تھے، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا یہ اقدام بہت عجیب تھا۔ انقلاب کے اوائل میں ہی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے کمیونسٹوں کے سلسلے میں دو ٹوک موقف اپنایا اور انہیں خود سے الگ کر دیا۔ لبرل خیالات والوں اور مغربی تہذیب اور نظاموں کے فریفتہ لوگوں کے سلسلے میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے سختی برتی، انہیں خود سے دور کر دیا، اپنے سے الگ کر دیا۔ کوئی نرمی اور رو رعایت نہیں کی۔ رجعت پسندوں کو جو الہی امور کے حقائق کو، روح قرآنی کو، احکام اسلامی اور عظیم تبدیلی کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھے، اپنے سے الگ کر دیا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے رجعت پسندوں کی سخت اور تند الفاظ میں مذمت کی اور خود سے دور کیا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ان افراد سے خود کو الگ کرنے میں ایک لمحہ بھی دیر نہیں کی جو آپ کے اسلامی اصولوں کے دائرے میں نہیں سماتے تھے، حالانکہ ان سے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ آپ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے وصیت نامے پر غور کیجئے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اسی وصیت نامے میں ملک کے اندر مجرمانہ اقدامات کرکے بیرون ملک بھاگ جانے والے کمیونسٹوں کو مخاطب کرتے ہیں۔ آپ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے لہجے پر غور کیجئے۔ آپ ان سے فرماتے ہیں کہ آپ وطن واپس آئیے! قانون اور انصاف آپ کے لئے جو سزا معین کرے اسے تحمل کیجئے تاکہ آپ کو عذاب الہی اور غضب الہی سے نجات مل جائے۔ ان لوگوں سے ہمدردانہ لہجے میں بات کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اگر آپ میں یہ جرئت نہیں کہ واپس آئیں اور سزا کو قبول کریں تو کم از کم آپ اس وقت جہاں ہیں وہیں اپنا راستہ بدل لیجئے، توبہ کیجئے۔ ملت ایران کے خلاف، اسلامی نظام کے خلاف اور اسلامی تحریک کے خلاف کام نہ کیجئے، بڑی طاقتوں اور استبدادیوں کے لئے، نظام سے برگشتہ افراد کا کردار ادا نہ کیجئے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی لیکن مکتب فکر کے دائرے میں پوری سنجیدگی اور سختی کے ساتھ دور کرنے اور قریب کرنے کے اصول پر عمل کرتے ہیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی زندگی اور آپ کے مکتب فکر کی یہ ایک اہم خصوصیت ہے۔ سیاسی میدان میں بھی دوستی اور دشمنی اسلامی اور دینی اصولوں کی بنیاد پر ہونی چاہئے۔ اس میدان میں بھی معیار اور بنیاد یہی ہونا چاہئے۔ انسان کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اللہ تعالی اس سے کیا چاہتا ہے۔ جو طرز عمل امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اختیار کیا اور جو انداز آپ کی رفتار و گفتار میں نمایاں ہے اس کے مد نظر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ انسان خود کو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کا پیرو بھی قرار دے اور ساتھ ہی خود کو ان افراد کے خیمے میں شامل سمجھے جنہوں نے اسلام اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی مخالفت کا علم بلند کر رکھا ہے۔ یہ قبول نہیں کیا جا سکتا ہے کہ جس نقطے پر امریکا، برطانیہ، سی آئی اے، موساد، منافقین اور سلطنت نواز متفق ہوں، جمع ہوں، اسی نقطے کے بارے میں کہا جائے کہ یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کا جز ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا، یہ قابل قبول نہیں ہے۔ ہر کس و ناکس سے دوستی نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے کل کے دشمنوں نے ہمارے سلسلے میں کیا موقف اختیار کیا ہے۔ اگر ہم دیکھیں کہ سامراجی امریکا، غاصب صیہونی، گوناگوں طاقتوں کے مہرے، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ)، اسلام اور انقلاب کے مخالفین کو ہمارا موقف پسند آنے لگا ہے، وہ اس کی تعریف کر رہے ہیں تو ہمیں اپنے موقف پر نظر ثانی کرنا چاہئے، ہمیں سمجھ جانا چاہئے کہ ہم صحیح راستے پر نہیں ہیں۔ یہ ایک معیار ہے، پیمانہ ہے اور کسوٹی ہے۔ خود امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے بارہا یہی فرمایا ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) فرماتے تھے کہ اگر (دشمنوں نے) ہماری تعریف کی تو ہمیں سمجھ جانا چاہئے کہ ہم سے خیانت سرزد ہوئی ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ یہ باتیں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی تحریروں اور یقینی فرمودات میں ہیں۔ کچھ لوگ آئیں اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کے بالکل مخالف سمت میں چلیں، یوم قدس پر مسئلہ قدس کے سلسلے میں کچھ الگ ہی رخ دکھائیں، عاشور (چودہ سو اکتیس) کے دن وہ نازیبا حرکتیں کریں، اس کے بعد بھی ہم ان لوگوں کے ساتھ جو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اصولوں اور آپ کی تحریک کے سراسر مخالف ہیں یکجہتی کا اظہار کریں، خود کو ان کی معیت میں پہنچا دیں، ان کی تعریف کریں یا ان کے مقابلے میں خاموشی اختیار کر لیں اور ساتھ ہی یہ دعوی بھی کرتے رہیں کہ ہم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے پیروکار ہیں! تو یہ بات ہرگز قابل قبول نہیں ہوگی، یہ کیسے ممکن ہے؟ عوام بھی اس چیز کو خوب سمجھتے ہیں، لوگ دیکھتے ہیں، جانتے ہیں، پہچانتے ہیں، درک کرتے ہیں۔ ایک اور پیمانہ جو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر اور روش کے تعلق سے بہت اہم ہے، روحانی اور الہی محاسبے کا معاملہ ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اپنے فیصلوں اور تدابیر میں محاسبہ الہی کو پہلے درجے پر رکھتے تھے۔ یعنی کیا؟ یعنی یہ کہ انسان جو کچھ بھی کرنا چاہے اس کا اولیں ہدف رضائے الہی کا حصول ہو، فتح کا حصول نہیں، طاقت کا حصول نہیں، فلاں شخص اور فلاں انسان کے سامنے سروخروئی حاصل کرنا نہیں۔ پہلا ہدف رضائے الہی ہو۔ ایک بات تو یہ ہے۔ دوسرے یہ کہ وعدہ الہی پر یقین و اطمینان رکھے۔ جب انسان کا ہدف رضائے پروردگار ہو اور اسے وعدہ الہی پر اعتماد و بھروسہ بھی ہو تو پھر مایوسی کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی، خوف کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوگا، غفلت کا امکان ہی نہیں ہوگا، غرور کا کوئی احتمال ہی نہیں ہوگا۔
امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) جب اکیلے تھے تب بھی خوف میں مبتلا نہیں ہوئے، مایوسی کا شکار نہیں ہوئے، اور جب پوری ایرانی قوم آپ کے نام کے نعرے لگا رہی تھی بلکہ دوسری قومیں بھی آپ کی دلدادہ ہو چکی تھیں اور اس کا اظہار کر رہی تھیں تب بھی آپ غرور کا شکار نہیں ہوئے۔ جب جارح عراقیوں نے خرم شہر پر قبضہ کر لیا تب بھی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) مایوس نہیں ہوئے اور جب ہمارے دلاورں نے خرم شہر کو اپنی فداکاری و جاں نثاری سے آزاد کروا لیا تب بھی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو کوئی غرور نہیں ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ خرم شہر را خدا آزاد کرد یعنی ہماری کوئی وقعت نہیں ہے۔ اس عظیم ہستی کی زعامت کے دوران گوناگوں واقعات میں یہی چیز دیکھنے میں آئی۔ جب آپ تنہا تھے تو گھبرائے نہیں اور جب آپ کے پاس طاقت آ گئی تب مغرور نہیں ہوئے اور کسی طرح کی کوئی غفلت بھی نہیں کی۔ یہ اللہ تعالی پر توکل ہے، جب رضائے پروردگار کا معاملہ ہو تو یہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کے وعدے پر یقین کرنا چاہئے۔ اللہ تعالی سورہ انا فتحنا میں ارشاد فرماتا ہے کہ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء»؛(6) منافق اور مشرک کی خصوصیات میں ایک یہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے بد ظن رہتا ہے۔ اللہ کے وعدوں کو قبول نہیں کرتا، ان پر یقین نہیں رکھتا۔ یہ جو اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ «و لينصرنّ اللَّه من ينصره»،(7) مومن انسان اپنے پورے وجود سے اسے قبول کرتا ہے لیکن منافق کو یقین نہیں آتا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ «عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و ساءت مصيرا».(8) جو لوگ اللہ تعالی کے سلسلے میں بد گمانی رکھتے ہیں ان کی یہ حالت ہوتی ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) وعدہ الہی پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ (آپ فرماتے تھے کہ) ہم اللہ تعالی کے لئے مجاہدت کریں گے، اللہ تعالی کے لئے قدم بڑھائیں گے، اپنی پوری طاقت لگا دیں گے نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے، جیسا کہ اس نے وعدہ کیا ہے۔ ہم اپنے فریضے پر عمل کرتے ہیں لیکن اللہ تعالی اسی فریضے کی ادائیگی کے پر بھی ہمیں بہترین نتائج عطا کرتا ہے۔ یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کی ایک اور اہم خصوصیت ہے۔ راہ انقلاب، انقلاب کا سیدھا راستہ یہی ہے۔ اسی ضمن میں ایک اور اہم چیز ہے تمام امور میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی تقوے کی پاسداری۔ شخصی اور ذاتی مسائل میں تقوی اور ہے، سماجی، سیاسی اور عمومی مسائل میں تقوا بہت مشکل چیز ہے اور ساتھ ہی بہت اہم اور موثر ہے۔ ہم اپنے دوستوں کے بارے میں، اپنے دشمنوں کے بارے میں کیا بات کرتے ہیں؟ اس سلسلے میں تقوا اپنا اثر دکھاتا ہے۔ ممکن ہے کہ ہم کسی کے مخالف ہوں، دشمن ہوں تو اس کے سلسلے میں ہمارا فیصلہ کیا ہوگا؟ اگر اس شخص کے بارے میں، جس سے آپ کی دشمنی ہے، مخالفت ہے، آپ کا فیصلہ خلاف واقع ہو تو یہ جادہ تقوا سے انحراف ہے۔ قرآن کی آیہ شریفہ جس کی میں نے تلاوت کی اس میں تاکید کے ساتھ ارشاد ہوتا ہے کہ «يا ايّها الّذين آمنوا اتّقوا اللَّه و قولوا قولا سديدا» قول سدید یعنی صحیح اور محکم، ہمیں اس طرح کی بات کرنی چاہئے۔ میں اپنے نوجوانوں سے اپنے انقلابی با ایمان اور عاشق امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نوجوانوں سے عرض کروں گا کہ آپ جو کچھ بولتے ہیں، لکھتے ہیں یا جو عمل کرتے ہیں اس کی بابت پوری طرح محتاط رہئے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی شخص کی مخالفت باعث بن جائے کہ ہم اس کے تعلق سے حق سے تجاوز کر جائیں، ظلم کرنے لگیں۔ ظلم نہیں کرنا چاہئے، کسی پر بھی ظلم نہیں کرنا چاہئے۔ میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی ایک بات یہاں نقل کروں گا۔ ایک رات ہم لوگ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی خدمت میں تھے۔ میں نے آپ سے سوال کیا کہ فلاں شخص کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے، میں نام نہیں لینا چاہتا، یہ عالم اسلام کی ایک معروف ہستی تھی، سب نے یہ نام سنا ہے اور پہچانتے ہیں، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے لمحے بھر سوچا اور فرمایا کہ میں نہیں جانتا۔ بعد میں اس شخص کے بارے میں مذمت کا ایک جملہ کہا۔ یہ بات ختم ہو گئی۔ میں اس کے دوسرے دن یا تیسرے دن، صحیح یاد نہیں ہے، صبح ہی کسی کام کے لئے آپ کی خدمت میں پہنچا۔ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا اور بیٹھا اور ابھی اس کام کے بارے میں بات شروع کرنا ہی چاہتا تھا کہ آپ نے فرمایا کہ اس شخص کے بارے میں جو آپ نے سوال کیا میں بس یہی کہوں گا کہ نہیں جانتا۔ یعنی وہ مذمت آمیز جملہ جو آپ نے نہیں جانتا کے بعد کہا تھا کالعدم قرار دے دیا۔ آپ غور کیجئے یہ بہت اہم چیز ہے۔ اس مذمت کے جملے میں نہ کوئی گالی تھی، نہ تہمت تھی، خوش قسمتی سے میں بالکل بھول گیا کہ وہ جملہ کیا تھا، یہ آپ کی روحانی طاقت کا اثر تھا یہ میری کمزور یاد داشت، نہیں معلوم کیا بات تھی۔ صرف اتنا یاد ہے کہ مذمت کا جملہ تھا۔ آپ نے اس رات یہ جملہ کہا تھا اور اس کے دو دن بعد یا ایک دن بعد اسے رد کر دیا، فرمایا کہ بس اتنا ہی کہ میں نہیں جانتا۔ تو آپ دیکھئے کہ یہ اسوہ حسنہ ہے۔ «لقد كان لكم فى رسولاللَّه اسوة حسنة» جس شخص کو آپ نہیں جانتے اس کے بارے میں دو طرح سے بات کی جا سکتی ہے، ایک تو اس طرح کہ بالکل مطابق واقع ہو دوسرے اس طرح کہ اس میں زیادتی اور ناانصافی بھی شامل ہو جائے۔ یہ دوسرا طریقہ برا ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔ صرف وہی بات جو حق ہے، سچ ہے اور جس کے بارے میں آپ بارگاہ پروردگار میں وضاحت کر سکتے ہیں، کہئے اس سے زیادہ نہیں۔ یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کی ایک بنیادی صفت ہے جسے ہم سب کو یاد رکھنا چاہئے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کی ایک اور اہم خصوصیت عوام کا کردار ہے۔ انتخابات کے سلسلے میں جس کے تعلق سے واقعی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ایک عظیم نمونہ پیش کیا اور انتخابات سے ہٹ کر مختلف سماجی مسائل میں بھی۔ بیسویں صدی کے پہلے نصف حصے میں مختلف انقلاب آئے، دنیا کے مشرقی اور مغربی حصے میں مختلف شکلوں کے انقلاب آئے لیکن کسی بھی انقلاب میں یہ چیز دیکھنے میں نہیں آئی کہ کامیابی کے دو مہینے بعد ہی حکومت اور نطام کی نوعیت کے تعین کے لئے استصواب رائے کرایا جائے لیکن امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی ہمت و حوصلے کے نتیجے میں ایران میں ایسا ہوا اور انقلاب کو ایک سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ آئین کی تدوین اور منظوری کا کام مکمل ہو گیا۔ ابتدائی مہینوں میں جب آئین کی تدوین مکمل نہیں ہوئی تھی اور موخر ہو گئي تھی تو مجھے یاد ہے کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ایک دن ہم سب کو بلایا، ہم لوگ قم گئے، اس زمانے میں آپ ہنوز قم میں ہی تھے، آپ نے تیز لہجے میں فرمایا کہ آئین کی تدوین جلد مکمل کیجئے۔ اس کے بعد ماہرین کونسل کے انتخابات ہوئے اور عوام نے آئین کی تدوین کے لئے نمائندوں کا انتخاب کیا۔ جب آئین تیار ہو گيا تو ریفرنڈم کرایا گیا، عوام نے آئین کو منظوری دی۔ اس کے بعد صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہوئے۔ جنگ کے دشوار ترین ایام میں بھی جب تہران پر دشمن کی بمباری ہو رہی تھی، انتخابات رد نہیں کئے گئے۔ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ ایران میں انتخابات کو ایک دن کے لئے بھی ملتوی کیا گيا ہو۔ آپ کو دنیا میں اس طرح کی کون سی جمہوریت ملے گی؟ انقلابوں کی بات چھوڑیئے، کسی بھی جمہوریت میں اس باریک بینی کے ساتھ اور بر وقت ووٹ نہیں پڑتے۔ یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کی خصوصیت ہے۔ انتخابات سے ہٹ کر دیگر مسائل میں بھی بار بار امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے عوام کی مرضی اور رائے پر توجہ دی اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے عوام کے کردار کی اہمیت کا واضح عندیہ دیا اور کبھی صراحت کے ساتھ اسے بیان کیا۔ ایک موقعے پر آپ نے فرمایا کہ اگر حکام فلاں کام کو جو انہیں انجام دینا ہے، انجام نہ دیں تو عوام خود میدان میں آکر انجام دے دیں گے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کی ایک اور خصوصیت آپ کی تحریک کا عالمی ہونا ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اپی تحریک کو عالمی تحریک مانتے تھے اور اس انقلاب کو تمام مسلمان اقوام بلکہ غیر مسلموں سے بھی متعلق سمجھتے تھے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو اس میں کوئی تامل نہیں ہوتا تھا۔ یہ دیگر ممالک کے امور میں مداخلت سے جو ہم کبھی نہیں کرتے، الگ چیز ہے۔ یہ کل کی سامراجی روش کی طرح انقلاب برآمد کرنے سے جو ہم ہرگز نہیں کرتے، مختلف چیز ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اس رحمانی اور الہی حقیقت کی خوشبو پوری دنیا میں پھیلے، قوموں کو پتہ چلے کے ان کا فریضہ کیا ہے؟ مسلمان اقوام کو معلوم ہو کہ ان کا تشخص کیا ہے؟ تحریک کے عالمی ہونے کی ایک مثال مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا موقف ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے صریحی طور پر فرمایا کہ اسرائیل ایک سرطانی پھوڑا ہے۔ اب بتائیے کہ سرطانی پھوڑے کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے؟ اسے آپریشن سے نکال کر باہر پھینک دینے کے علاوہ اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے کوئی تکلف نہیں کیا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی منطق یہ تھی۔ یہ جملہ کوئی نعرہ نہیں ہے۔ یہ ایک منطق ہے۔ فلسطین ایک تاریخی ملک ہے۔ طول تاریخ میں فلسطین نام کا ایک ملک رہا ہے۔ کچھ لوگ دنیا کی ستمگر طاقتوں کی حمایت سے آئے اور وحشیانہ ترین انداز میں انہوں نے عوام کو اس ملک سے نکال باہر کیا، انہیں قتل کیا، جلا وطن کیا، ان پر شکنجہ کسا، ان کی توہین کی، الغرض اس قوم کو نکال باہر کیا۔ نتیجے میں آج کئی ملین بے گھر فلسطینی مقبوضہ فلسطین کے ہمسایہ ممالک میں اور دیگر ملکوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں جن کی اکثریت پناہ گزیں کیمپوں میں رہ رہی ہے۔ اس طرح انہوں نے آکر ایک ملک کو دنیا کے جغرافیا سے ختم کر دیا، ایک قوم کو پوری طرح نابود کر دیا اور اس کی جگہ پر ایک جعلی اور مصنوعی جغرافیائی یونٹ مسلط کر دی اور پھر اس کا نام اسرائیل رکھ دیا۔ اب بتائیے کہ عقل و منطق کا تقاضہ کیا ہے؟ ہم مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں جو بات کہتے ہیں وہ محض نعرے بازی نہیں ہے۔ یہ سو فیصدی منطقی بات ہے۔ چند طاقتور ممالک جن میں پہلے سر فہرست برطانیہ تھا اور اب امریکا ہو گيا ہے ان کے حاشیہ بردار کچھ مغربی ممالک اب آکر کہتے ہیں کہ فلسطینی ریاست اور فلسطینی قوم کو مٹا دیا جانا چاہئے تاکہ اس کی جگہ پر اسرائیل نام کا جعلی ملک اور ملت اسرائيل کے نام سے ایک جعلی قوم کو معرض وجود میں لایا جائے، یہ تو ایک بات ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسری بات امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ نہیں، یہ جعلی اور مسلط کردہ جغرافیائي یونٹ ختم کر دی جانی چاہئے اور اس کی جگہ پر اصلی قوم، اصلی ملک اور اصلی جغرافیائی یونٹ کو بحال کیا جانا چاہئے۔ ان دونوں باتوں میں منطقی بات کون سی ہے؟ وہ بات منطقی ہے جس کے مطابق طاقت کے ذریعے اور سرکوبی کرکے ایک سیاسی نظام کو ایک تاریخی اور جغرافیائی حقیقت کو جس کا کئی ہزار سالہ ماضی ہے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے، یا پھر یہ بات منطقی ہے کہ یہ اصلی جغرافیائی حقیقت باقی رہے اور جعلی و مسلط کردہ یونٹ کو مٹا دیا جائے؟ امام کا یہی کہنا تھا اور یہ غاصب اسرائیل کے سلسلے میں اور مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں کہی جانے والی منطقی ترین بات ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے یہ بات کہی اور پوری صراحت کے ساتھ کہی۔ اب اگر کوئی یہی بات اشارتا بھی بیان کرتا ہے تو بعض لوگ جو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کے پیروکار ہونے کے دعویدار بھی ہیں کہنے لگتے ہیں کہ آپ یہ بات کیوں کرتے ہیں؟! بھئی یہ تو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی بات ہے، یہ تو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا نظریہ ہے، یہ صحیح نظریہ ہے۔ دنیا کے تمام مسلمانوں، دنیا کے تمام حریت پسندوں اور دنیا کی غیر جانبدار قوموں کو یہ بات قبول کرنی چاہئے، تسلیم کرنی چاہئے۔ یہ بالکل صحیح بات ہے اور یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا موقف ہے۔ آخر میں میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں نے دھوپ برداشت کی، اللہ آپ کو ماجور ومثاب فرمائے، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کے تعلق سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ افراد کے سلسلے میں فیصلہ ان کی موجودہ حالت کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے۔ افراد کا ماضی بنیاد قرار نہیں دیا جانا چاہئے۔ ماضی کو بنیاد اس وقت بنایا جائے جب موجودہ صورت حال نامعلوم ہو، ایسی صورت میں انسان ماضی کو بنیاد قرار دیکر کہہ سکتا ہے کہ پہلے ایسا تھا تو اب بھی وہی صورت حال ہوگی
اسلام قبول کرنے والی ناورے کی ایک خاتون کی یادیں
میرا مسلمان ہونا میرےاہل خانہ کےلیۓ قابل قبول نہ تھامیری ماں نے مجھے گھر سے نکال دیا اور میں کئ دنوں تک ناروےکے مسلمان گھروں میں رہی فارس نیوز ایجنسی کے مطابق اوسلو میں مقیم مونیکا ہانگسلم نے "اقرا ء،، ٹیلی وژن پر اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوۓ کہ اس نے کیوں اسلام قبول کیا کہا کہ میں نہ صرف پردے کو عورت کی توھین نہیں سمجھتی بلکہ میں اسے عورت کی سہولت اور آسانی کے لۓ انتہائ ضروری سمجھتی ہوں – مونیکا کہتی ہیں میں نے اتفاقا اسلام قبول نہیں کیا ھے بلکہ یہ مسئلہ چند سال پرانا ھے میں اس علاقے سے تعلق رکھتی ہوں جہاں مرد رات کو نشہ میں دھت گھر آتے ہیں اور اپنی عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر اپنی اوراس کی زندگیوں کو تباہ کرتے ہیں –میں نے اسلام کو ایک امن ، صلح اور رحمت کا دین سمجھ کر انتخاب کیا ھے اس سے پہلے کہ میں اسلام کو قبول کرتی میں نے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا اور اس کا انجیل سے موازنہ کیا ا سکے بعد میں قرآن کی الہی تعلیمات کی مجزوب ہو گئي مونیکاکے بقول اس نے نہ صرف قرآن مجید کا مطالعہ کیا بلکہ فقہ اور سیرت پیغامبر سے بھی آشنائي پیدا کی نومسلم مو نیکا کہتی ہیں یورپ میں لوگ انجیل کا نام تو لیتے لیکن بدقسمتی سے اس ہر عمل نہیں کرتے لیکن جن مسلمانو ں نے مجھے اسلام اور قرآن سے آشنا کیا وہ خدائی اور قرآنی تعلمات پر عمل پیرا ہیں اور جو کچھ قرآن وسنت میں موجود ھے اس کا خاص خیال کرتے ہیں – یہ وہ چند اھم چیزیں تھیں جن کو دیکھ کر میں نے اسلام قبول کیا –
مونیکا کہتی ہیں انجیل کا مطالعہ کرنے کے بعد بھی میں اس کے مطالب کو نہ تو صحیح سمجھ سکی اور نہ وہ قابل عمل تھے لہذا میں نے انجیل کو کنارے پر رکھ کر قرآن کا مطالعہ شروع کر دیا –قرآنی مطالب نے مجھے حیران کر دیا اور میں نے ان سے بہت ذیادہ استفادہ کیا میں سورہ توحید کے مطالعےاور تلاوت کوقرآن سے عشق کا آغاز اور اپنے لیے امن و سلامتی سمجھتی ہوں مونیکا کہتی ہیں میں اس پر بہت ذیادہ خوش ہوں کہ اس وقت میری بہت سی سہلییاں بھی اسلام قبول کر چکی ہیں اور میں بھی ایک مسلمان ہوں مونیکا اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے خاندان کے رد عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہتی ہیں میرے گھرانے کے لیۓ میرا اسلام قبول کرنا نا قابل قبول تھا –میری ماں نے مجھے گھر سے نکال دیا میں کا فی عرصے تک مسلمان گھروں میں رہتی رہی اس میں کوئي شک نہیں میرا مسلمان ہونا شروع میں میرے گھر والوں کے لیئے ایک بڑی مصیبت اور بحران کی مانند تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے حقیقت کو تسلیم کر لیا اور مجھے گھر میں واپس بلا لیا
مونیکا ہانگسلم نے اس سوال کے جواب میں کہ بعض لوگ اس طرح کے شکوک وشبھات کا اظہار کرتے ہیں کہ قرآنی تعلیمات میں عورتوں کے موجودہ امور کےبارے میں کوئی ھدایت نہیں ھے کہا ناروے کے زرائع ابلاغ اسلام کی صحیح تعلیمات اورحقیقی شناخت سے محروم ہیں وہ اسلام کی حقیقت کو لوگوں کوبتانے سے قاصر ہیں اسلام قبول کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ دین اسلام سے ذیادہ کوئي دین عورت کی عظمت اور احترام کا قائل نہیں ھے اسلام عورت کی آزادی اور اکرام پر خصوصی توجہ دیتا ھے –
مغرب کی نظر میں عورت کی آذادی کا یہ مطلب ھے کہ وہ کپڑے اتارکر یا نیم برہنہ ہو کر سڑکوں پر گھومے پھرے آزادی کا حقیقی مفہوم یہ نہیں ھے میرا یہ عقیدہ ھے کہ اسلام نے عورت کو مکمل آزادی عطا کی ھے اور میں نہ صرف یہ کہ اسلامی پردے کو عورت کی توھین نہیں سمجھتی بلکہ حجاب اور پردے کو عورت کی سہولت اور آسانی کے لیۓ ضروری سمجھتی ہوں –
مونیکا اپنی روز مرہ کی مصروفیات کی تفصیلات بتاتے ہوے کہتی ہیں میں آجکل ناروے کی بعض مسلمان خواتین کے ساتھ مل کر اسلامی تعلیمات کی تعلیم و تربیت کا پروگرام چلا رہی ہوں ناروے کے مسلمان اسلام کی وجہ سے گونا گوں مشکلات کا شکار ہیں یہاں کے مسلمان بچے مسلمان اساتذہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے اسلامی تعلیمات سے دور ہیں لہذا مسلمان آبادی میں ایک مسجد کی تعمیر کا پروگرام بنایا گیا لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے یہ منصوبہ ابھی مکمل نہیں ہوا ھے۔ مونیکا مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کی زیارت کے بارے میں کہتی ہیں میں جب مکہ مکرمہ پہنچی تو تو میرے اوپر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی اور مسجد الحرام کی زیارت کے وقت تو مجھے ایسے محسوس ہواجیسے میں خدا کے بہت ہی قریب آگئی ہوں میری آرزوھے کہ یہ زیارت مجھے بار بار نصیب ہو اور اسلام پوری دنیا میں پھیل جاۓ مونیکا ایک شادی شدہ خاتون ہیں اور اس کے تین بچے ہیں جو قرآن پاک کو صحیح عربی لہجے میں تلاوت کرتے ہیں یہ پورا خاندان اسلام کے سا ۓ میں خدا پر ایمان رکھتے ہوۓ مطمئن زندگی گزار رہا ہے۔
امام خمینی ولادت سے رحلت تک
بیس جمادی الثانی 1320 ہجری قمری مطابق 24ستمبر 1902 عیسوی کو ایران کے صوبہ مرکزی کے شہرخمین میں بنت رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی طیب وطاہر نسل کے خاندان میں آپ ہی کے یوم ولادت با سعادت پر روح اللہ الموسوی الخمینی کی پیدائش ہوئي۔ وہ اپنے آباؤ اجداد کے اخلاق حسنہ کے وارث تھے جنہوں نے نسل درنسل لوگوں کی ہدایت ورہنمائی اورمعارف الہی کے حصول کے لئے خود کو وقف کررکھا تھا۔ یہ وہ گھرانہ تھا جو اعلی علمی مفاہیم سے مکمل طور پر آشنا تھا ۔امام خمینی کے پدربزرگوار آیت اللہ سید مصطفی مرحوم جو آیت اللہ العظمی میرزای شیرازی کے ہم عصر تھے نجف اشرف میں اسلامی علوم کے اعلی مدارج طے کرنے کے بعد درجہ اجتہاد پر فائزہوئے اور پھر ایران واپس آگئے اور شہر خمین میں تبلیغ و ہدایت کے فرائض انجام دینے لگے۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ولادت کو ابھی پانچ ماہ سے زیادہ کا عرصہ نہیں گذرا تھا کہ حکومت وقت کے ایجنٹوں نے ان کے والد بزرگوار کی ندائے حق کا جواب بندوق کی گولیوں سے دیا اور انھیں شہید کردیا ۔
اس طرح حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ انتہائی کمسنی کے عالم سے ہی رنج یتیمی سے آشنا اور مفہوم شہادت سے مانوس ہوگئے ۔ انھوں نے اپنا بچپن اور لڑکپن اپنی والدہ محترمہ ہاجرہ خاتون کے دامن شفقت میں گذارا ۔ محترمہ ہاجرہ خاتون خود بھی اہل علم وتقوی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور صاحب زبدالتصانیف آیت اللہ خوانساری کی اولادوں میں سے تھیں۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنی پھوپھی محترمہ صاحبہ خانم کے دامن تربیت میں بھی پرورش پائی جو ایک دلیر اور باتقوی خاتون تھیں لیکن ابھی آپ پندرہ سال کے تھے کہ آپ ان دونوں شفیق اور مہربان ہستیوں کے سایہ عطوفت سے محروم ہوگئے۔
قم کی جانب سفر
جب تیرہ سو چالیس ہجری قمری کو آیت اللہ العظمی شیخ عبدالکریم حائری یزدی نے قم کی جانب ہجرت کی اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ بھی قم کی جانب روانہ ہوگئے اور آپ نے بڑی ہی تیزی کے ساتھ دینی اور حوزوی علوم حاصل کئے اور درجہ اجتہاد پر فائزہوئے۔ اس زمانے میں آپ نے حوزوی دروس جن اساتذہ سے حاصل کئے ان میں مرحوم آقامیرزا محمدعلی ادیب تہرانی، مرحوم آیت اللہ سید محمد تقی خوانساری، مرحوم آیت اللہ سید علی یثربی کاشانی اور زعیم حوزہ علمیہ قم آیت اللہ العظمی حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدی رضوان اللہ علیہم کا نام لیا جاسکتا ہے ۔ آیت اللہ العظمی حائری یزدی کی رحلت کے بعد حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ نے دیگر مجتہدین کے ہمراہ کوشش کی کہ آیت اللہ العظمی بروجردی حوزہ علمیہ قم کی زعامت قبول کرلیں اور ان کی یہ کوشش کامیاب بھی ہوئی اور آیت اللہ العظمی بروجردی حوزہ علمیہ قم کے زعیم کی حیثیت سے بروجرد سے قم تشریف لے آئے۔ اس وقت تک حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو حوزہ علمیہ میں فقہ واصول اورفلسفہ وعرفان میں ایک اعلی سطح کے مدرس اور مجتہد کی حیثيت سے لوگ پہچاننے لگے تھے۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے برسہا برس حوزہ علمیہ قم کے مختلف مراکز میں جن میں مدرسہ فیضیہ ،مسجد اعظم، مسجد محمدیہ، مدرسہ حاج ملاصادق اورمسجد سلماسی شامل ہیں فقہ واصول فلسفہ وعرفان اور اخلاق کے درس دیتے رہے۔ عراق میں قیام کے دوران حوزہ علمیہ نجف اشرف میں بھی چودہ برس تک مسجدشیخ اعظم انصاری میں علوم اہل بیت کے پیاسوں کو سیراب کرتے رہے ۔ آپ نے نجف اشرف میں ہی پہلی بار اسلامی حکومت کا نظریہ اور اصول پیش کئے جو آپ کے ولایت فقیہ کے سلسلے میں دئے جانے والے دروس کے دوران انتہائي مدلل اندازمیں سامنے آئے۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ جہاد کے محاذ پر
اللہ کی راہ میں جہاد کا جذبہ آپ کے اندر بدرجہ اتم موجود تھا۔ آپ نے ظلم وستم کے خلاف جدوجہد لڑکپن سے ہی شروع کردی اور اس جدوجہد کو آپ کی علمی اورمعنوی ترقی کےساتھ ساتھ عروج حاصل ہوتا رہا اور پھر ایران کے سماجی اور اسلامی دنیاکے سیاسی حالات نے اس جذبہ کو اور بھی تقویت بخشی۔ سن 62 ۔ 1961 میں صوبائي اور ضلعی کونسلوں کی تشکیل کے دوران عوام اور علماء کی تحریک میں بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع فراہم ہوا۔ اس طرح علماء اور عوام کی ملک گیرتحریک ایرانی عوام کی جدوجہد کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغازثابت ہوئی ۔ پندرہ خرداد کوشروع ہونے والی یہ تحریک دو اہم خصوصیات اپنے اندر لے کر اٹھی۔ ایک حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی متفق علیہ قیادت اور دوسرے اس تحریک کا اسلامی تشخص، چنانچہ آگے چل کر اس تحریک کو ایران کے اسلامی انقلاب سے جانا اور پہچانا جانے لگا ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ جو پہلی عالمی جنگ کے موقع پر صرف بارہ سال کے تھے اپنی یادوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
مجھے دونوں ہی عالمی جنگيں یاد ہیں۔ میں چھوٹاتھا مگر مکتب جاتا تھا اور سابق سویت یونین کے فوجیوں کو خمین میں آتے جاتے دیکھتا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران ہمیں حملوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ ایک مقام پر مرکزی حکوت سے وابستہ بعض خوانین(زمینداروں) اور راہزنوں کا نام بھی لیتے ہيں جو لوگوں کا مال واسباب لوٹتے اور حتی ان کی ناموس پر بھی حملے کرتے تھے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں تو لڑکپن ہی سے جنگ کی حالت میں تھا۔ ہم زلقی اور رجب علی جیسے خوانین (زمینداروں ) کے ظلم ستم کا شکا ر تھے ہمارے پاس بھی بندوقیں تھیں اور میں شاید تازہ سن بلوغ کو پہنچا تھا اور کمسن تھا۔ ہمارے علاقے میں مورچے بنائے گئے تھے اور یہ لوگ (خوانین) حملہ کرکے لوٹ مار کرنا چاہتے تھے ، اس وقت میں بھی وہاں آتا جاتا تھا۔تین اسفند 1299 ہجری شمسی (1921 ) کو رضاخان کی بغاوت نے جو ناقابل انکار شواہد وثبوت اورتاریخی اسناد کی بنیاد پر برطانیہ کی حمایت سے انجام پائی اورجس کی منصوبہ بندی بھی خود برطانیہ نےکی تھی اگرچہ سلطنت قاجاریہ کاخاتمہ کر دیا اور کسی حدتک زمینداروں کی طوائف الملوکی ختم ہوگئی لیکن اس کے عوض ایک آمر شہنشاہ تخت نشین ہوا اور اس کے زیرسایہ ایران کی مظلوم قوم کی تقدیر پر ہزار خاندان مسلط ہوگۓ اورپہلوی خاندان کی آل اولاد نے زمینداروں اور راہزنوں کی جگہ لےلی۔ ان حالات میں علماء نے جن پر آئيينی انقلاب کے واقعات کے بعد انگریزوں کی آلہ کار حکومت کی یلغار تھی اور دوسری طرف وه مغرب زدہ اور نام نہاد روشن خیال افراد کا نشانہ بن رہے تھے اسلام کے دفاع اور اپنی بقا کے لئے کوششیں شروع کردیں ۔
آیت اللہ العظمی حاج شیخ عبدالکریم حائری نے اس وقت قم کے علما کی دعوت پر اراک سے قم کے لئے ہجرت کی اور اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے جو اپنی غیرمعمولی صلاحتیوں کی بدولت خمین اور اراک کے حوزہ علمیہ میں مقدماتی اورسطوح (درس خارج سے پہلے کے دروس) کوپایہ تکمیل تک پہنچا چکے تھے قم کے لئے ہجرت کی اورعملی طورپر قم کے نئےدینی مرکزکی تقویت کے لئے بھرپورطریقے سے کوشش کرنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آپ کا شمار قم کی چند گنی چنی علمی شخصیات میں ہونے لگا اور آپ فقہ واصول اور فلسفہ وعرفان کے ایک جید عالم کی حیثیت سے معروف ہوگئے ۔
10بہمن 1315 ہجری شمسی ( 30 جنوری 1937 ) کو آیت اللہ العظمی حایری کی رحلت کے بعد حوزہ علمیہ قم کا وجود خطرے میں پڑ گیا۔ چنانچہ حوزہ علمیہ قم کے بہی خواہ علما نے فورا چارہ اندیشی شروع کردی ۔ اس دوران آٹھ برسوں تک آیت اللہ العظمی حجت، آیت اللہ العظمی سید صدرالدین صدر اور آیت اللہ العظمی سید محمد تقی خوانساری رضوان اللہ علیہم نے اس دینی مرکز کی سر پرستی فرمائی۔ اس دوران بالخصوص رضاخان کی حکومت کے خاتمے کے بعد مرجعیت عظمی یعنی ایک بزرگ مرجع کے سامنے آنے کا ماحول سازگارہوگيا۔ آیت اللہ العظمی بروجردی ایک عظیم علمی شخصیت تھے جو مرحوم آیت اللہ العظمی حایری کے مناسب جانشین بن سکتے تھے اور حوزہ علمیہ قم کی زعامت سنبھال سکتے تھے ۔ چنانچہ یہ بات آیت اللہ حایری کے شاگردوں اورخاص طورپر حضرت امام خمینی رحمت اللہ کی طرف سے آیت اللہ بروجردی کے سامنے رکھی گئي اور حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے آیت اللہ بروجردی کو بروجرد سے قم تشریف لانے اور حوزہ کی زعامت قبول کرنے کے لئے راضی کرنے کی بھرپورکوشش کی۔ اس دوران حضرت امام خمینی رحمت اللہ نہایت باریک بینی کے ساتھ معاشرے اور حوزہ علمیہ پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے اور حالات حاضرہ کے بارے میں کتابوں اور اخبارات کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اور ساتھ ہی تہران رفت و آمد اور آيت اللہ مدرس جیسی عظیم علمی اور سیاسی شخیصتوں سے کسب فیض کیاکرتے تھے۔ چنانچہ آپ یہ سمجھ گئے تھے آئيينی انقلاب اور خاص طورپر رضاخان کے برسراقتدار آنے کے بعد کی ذلت آمیزصورت حال سے نجات کا واحد راستہ حوزہ علمیہ کی بیداری اور علما کے ساتھ عوام کا معنوی رابطہ ہے ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے اپنے مقدس اور الہی مشن کی خاطر 1328 ہجری شمسی ( 1950 ۔ 1949 ) میں آیت اللہ مرتضي حایری کے تعاون سے حوزہ علمیہ کے بنیادی ڈھانچے میں اصلاح کا لائحہ عمل تیار کرکے آیت اللہ العظمی بروجردی کو پیش کیا۔ اس اقدام کا حضرت امام خمینی رحمت اللہ کے شاگردوں اور بیدار طلبہ نے بھرپورخیرمقدم کیا اور اس کی زبردست حمایت کی ۔ 16 مہر 1341( 8 اکتوبر 1962 ) کو صوبائی ضلعی کونسلوں کا بل امیر اسداللہ کی کابینہ میں پاس ہوا جس کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لینے کے لئے امیدوار کے مسلمان ہونے، قرآن کریم کے ذریعہ حلف اٹھانے، رائےدہندگان اور خود امیدوار کے لئے مرد ہونے کی شرط ختم کردی گئ البتہ خواتین کے انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی کچھ دیگر مقاصد پر پردہ ڈالنے کے لئے تھی۔ پہلی دوشرطوں کو ختم کرنے کا مقصد بہائی عناصر کوملک کے معاملات میں مکمل طورپر دخیل کرنے کو قانونی شکل دینا تھا کیونکہ شاہ کے لئے امریکہ کی حمایت کی شرط یہ تھی کہ ایران اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے اور ایران کے تینوں اہم اداروں یعنی مجریہ، مقننہ اورعدلیہ میں سامراجی مسلک بہائيت کے پیروکاروں کی موجودگي اسرائیل کے ساتھ ایران کے تعلقات میں فروغ کویقینی بناسکتی تھی۔ البتہ حکومت نے اس بل کے تعلق سےحالات کا اندازہ لگانے میں سخت غلطی کی چنانچہ اس بل کی منظوری کی خبر شائع ہوتےہی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نےقم اورتہران کے بزرگ علماء سے صلاح ومشورہ کرنے کے بعد بھرپور احتجاج کیا ۔ شاہی حکومت کے عزائم سے پردہ ہٹانے اوراس حساس صورت حال میں علما اور حوزہ علمیہ کی خطیر ذمہ داریوں کا احساس دلانے میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے بہت ہی اہم کرداراداکیا ۔ شاہ اور وزیراعظم اسداللہ علم کے نام علما اور حوزہ علمیہ کے خطوط اور کھلے مراسلوں نے پورے ملک میں شاہی حکومت کے اس نئے قانون کے خلاف احتجاجی لہردوڑادی۔ شاہ اور وزیراعظم کے نام حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ٹیلی گراموں کا لب و لہجہ بہت ہی تند اور سخت تھا ۔ ایک ٹیلی گرام میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ فرماتےہیں کہ میں تمہیں ایک بار پھر نصیحت کرتاہوں کہ خداوند متعال کی اطاعت اور بنیادی آئيين کی پیروی کرو اور قرآن، علما قوم اور مسلمان زعما کے احکام کی خلاف ورزی اور بنیادی آئيين سے سرپیچی کے برے انجام سے ڈرو اور جان بوجھ کر اور بلاسبب ملک کو خطرے میں مت ڈالو بصورت ديگر علما اسلام تمھارے بارے میں اپنے نظریے بیان کرنے سے گریزنہیں کریں گے ۔
بہرحال صوبائی اورضلعی کونسلوں کا قضیہ ایرانی قوم کے لئے ایک اچھا تجربہ تھا خاص طورپر اس لئے کہ اس واقعے میں ایرانی قوم نے ایک ایسی شخصیت کو بھی پہچان لیا جو امت مسلمہ کی قیادت کے لئے ہرجہت سے مناسب تھی ۔
صوبائي اورضلعی کونسلوں کی تشکیل میں ناکامی کے باوجود شاہ پر امریکہ کے مجوزہ نام نہاد اصلاحی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے واشنگٹن کا دباؤ جاری رہا۔ شاہ نے دی ماہ 1341 ہجری شمسی (1963 ۔1962 ) کو انقلاب سفید کے نام پر چھ نکاتی پروگرام کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں ریفرنڈم کرائے جانے کی خواہش ظاہر کی ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ ایک بارپھر میدان میں آگئے اور اس سلسلے میں حکمت عملی تیار کرنے کے لئے اور علما قم کا اجلاس بلایا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تجویز پر شاہ کے اقدامات کے خلاف بطور احتجاج عید نوروز نہ منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس سلسلے میں جو اعلامیہ جاری کیا اس میں شاہ کے انقلاب سفید کو انقلاب سیاہ سے تعبیر کیا گیا اور کہاگیا کہ شاہ کے یہ سارے اقدامات امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کی تکمیل کے لئے ہیں ۔
شاہ نے امریکہ کو یہ اطمینان دلا رکھا تھا کہ ایرانی عوام اس پروگرام کے حق میں ہیں ۔ شاہ کے خلاف علما کا احتجاج اس کے لئے کافی مہنگا ثابت ہورہاتھا۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ شاہ کی پرواہ کئے بغیر کھلے عام شاہ کو اسرائیل کا اتحادی قراردیتے تھے اوراس کے ظالمانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے لوگوں کو اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دیتے تھے۔ آپ نے بارہ فروردین 1342 (1 اپریل 1963 ) کو اپنے ایک خطاب میں علما قم ونجف اوردیگراسلامی ملکوں کے علما کی طرف سے شاہ کے ظالمانہ اقدامات پر اختیارکی گئی خاموشی پر کڑی تنقید کی اور فرمایاکہ آج خاموشی کامطلب ظالم وجابرحکومت کا ساتھ دیناہے۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس کے اگلے دن یعنی 13 فروردین 1342 (2 اپریل 1963) اپنا مشہور و معروف اعلامیہ جاری کیا جس کاعنوان تھا شاہ سے دوستی یعنی تباہی وبربادی میں تعاون ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے کلام میں حیرت انگیز تاثیر اور مخاطبین پر آپ کی باتوں کے گہرے اثر کا راز صحیح فکر، مضبوط نظریئے اور عوام کے ساتھ صداقت میں تلاش کرناچاہئے۔ چنانچہ لوگ بھی آپ کے فرمان پر ہمہ وقت اپنی جان قربان کرنے کو تیار رہتے تھے ۔1342 ہجری شمسی (1964 ۔1963 ) کانیا سال عیدنوروزکے بائيکاٹ سے شروع ہوا اور مدرسہ فیضیہ کے مظلوم طلبہ کے خون سے رنگین ہو گیا۔ شاہ، امریکہ کی مرضی کےاصلاحی پروگرام کو نافذ کرنے پر مصرتھا اور حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ اس سازش سے لوگوں کو آگاہ کرنے اورعوام کو امریکہ کی مداخلت اور شاہ کی خیانت کےمقابلے میں ڈٹ جانے پر راضی کر رہے تھے ۔ چودہ فروردین 1342(3 اپریل 1963 ) آیت اللہ العظمی حکیم نے نجف اشرف سے ایران کے علما کے نام اپنے ٹیلی گرام میں فرمایاکہ سب کے سب ایک ساتھ نجف اشرف کی طرف ہجرت کریں۔ یہ تجویزعلما کی جان کی حفاظت اور حوزہ کے تقدس کو بچانے کے لئے پیش کی گئي تھی لیکن حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر آیت اللہ العظمی حکیم کے ٹیلی گرام کاجواب ارسال کردیا جس میں کہاگياتھا کہ علما کا ایک ساتھ نجف چلاجانا اور حوزہ (قم کے دینی مرکز) کو خالی چھوڑدینا مناسب نہیں ہے ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے 12اردیبہشت1342 (1922 ۔1921 ) کو شہدائے فیضیہ کے چہلم کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں غاصب اسرائیل کے خلاف اسلامی ممالک کا ساتھ دینے کے لئے علما اور ایرانی عوام سے اپیل کی اور شاہ اوراسرائیل کے درمیان ہوئے معاہدوں کی مذمت کی.
پندرہ خرداد(4جون) کی تحریک
1342 ہجری قمری (1922 ۔1921 ) کا محرم جو خرداد کےمہینے سے مصادف تھا آن پہنچا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس مہینے کو شاہ کی ظالم حکومت کے خلاف عوام کی تحریک میں تبدیل کردیا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے عاشورہ کی شام مدرسہ فیضیہ میں ایک تاریخی خطاب کیا جو پندرہ خرداد (چارجون) کی تحریک کا نقطہ آغازثابت ہوا۔ حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے اسی خطاب میں بلند آواز کے ساتھ شاہ کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تجھے نصیحت کرتاہوں کہ اس طرح کے کاموں سے بازآجا۔ تجھے بیوقوف بنایا جارہا ہے۔ میں نہیں چاہتاکہ ایک دن سب لوگ تیرے جانے پر شکراداکريں ... اگر ڈکٹیٹ کرکے سب کچھ تجھ سے کہلوایا جاتا ہے تو تو اس پر ذراغور کر. سن لے میری نصیحت . شاہ اور اسرائیل کے درمیان ایسا کیا رابطہ ہے کہ ساواک کہتی ہے کہ اسرائيل کے بارے میں کچھ مت بولو. کیا شاہ اسرائيلی ہے ؟
شاہ نے تحریک کو کچلنے کا حکم جاری کیا ۔سب سے پہلے چودہ خرداد(3جون) کی شام کو حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بہت سے ساتھیوں کو گرفتارکیا گیا اور پھر پندرہ خرداد(چارجون) کو صبح صادق سے پہلے ساڑھے تین بجے تہران سے آئے ہوئے سیکڑوں کمانڈوز حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے گھر کا محاصرہ کرلیتے ہیں اور جس وقت آپ نمازشب میں مشغول تھے آپ کوگرفتارکرلیا جاتا ہے۔ خوفزدہ شاہی کمانڈوز انتہائی سراسیمگی کے عالم میں آپ کو قم سے تہران منتقل کرنے کے بعد پہلے تو آپ کو فوجی افسروں کی جیل ميں بند کردیتے ہیں پھر اسی دن شام کو قصر نامی جیل میں منتقل کردیا جاتاہے۔ پندرہ خرداد (چارجون)کی صبح ہی تہران کے علاوہ مشہد شیراز اور دیگرشہروں میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی گرفتاری کی خبر تیزی کے ساتھ پھیل گئی اور قم میں بھی یہی صورت حال پیداہوگئی۔ شاہ کے سب سے قریبی ساتھی جنرل حسین فردوست اپنی سرگذشت میں پندرہ خرداد (چارجون)کی تحریک کوکچلنے میں امریکہ کے کہنہ کار سفارتی اور خفیہ اہلکاروں کے اقدامات اور قریبی تعاون نیز عین اس موقع پر شاہ، دربار، فوج اور ساواک کے سربراہان و اعلی افسران کے خوف وہراس کا ذکر کرتا ہے اور اس کی منظر کشی کرتا ہے کہ شاہ اور اس کے جنرل کس طرح دیوانہ وار اس تحریک کو کچلنے کا حکم جاری کر رہے تھے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو پندرہ دنوں تک قصر جیل میں رکھنے کے بعد عشرت آباد فوجی چھاؤنی میں منتقل کردیا کیا ۔
تحریک کے رہبر کی گرفتاری اور عوام کے وحشیانہ قتل عام کے بعد بظاہر پندرہ خرداد 1342(5 جون 1963 ) کی تحریک کچل دی گئی ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے قید کے دوران شاہ کی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کے ایک بھی سوال جواب نہیں دیا اور فرمایا کہ ایران کی حکومت اور عدلیہ غیرقانونی ہے ۔ 18 فروردین 1343( 7 اپریل 1964) کی شام کو کسی پیشگي اطلاع کے بغیر حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کوآزاد کرکے قم ان کے گھر پہنچا دیا گيا۔ عوام کو جیسے ہی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رہائي کی اطلاع ملی پورے شہر میں خوشی کی لہر دوڑگئ اورمدرسہ فیضیہ سمیت قم شہر کے گوشہ وکنارمیں کئي دنوں تک جشن منایاگیا۔ پندرہ خرداد کے واقعے اور شہدا کی پہلی برسی کے موقع پر حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ اوردیگر مراجع کرام کے مشترکہ بیان میں شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اورحوزہ علمیہ قم نے بھی ایک علاحدہ بیان جاری کرکے پندرہ خرداد کے واقعہ کی یاد میں اس دن عام سوگ منانے کا اعلان کیا ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے چار آبان 1343 (26 اکتوبر 1964) کو اپناانقلابی بیان جاری کیا اور اس میں تحریر فرمایا کہ دنیا کو جان لینا چاہئے کہ ایرانی عوام اور پوری دنیا کے مسلمان آج جس طرح کی بھی مشکلات اور مصائب میں گھرے ہیں اس کا باعث امریکہ اور بیرونی طاقتیں ہیں، مسلمان اقوام کو بیرونی طاقتوں سے عام طور پر اور امریکہ سے خاص طورپر نفرت ہے. یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی حمایت کرتاہے. یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل کومضبوط بنارہاہے تاکہ عرب مسلمان بے گھر ہوجائيں۔
کیپچولیشن بل کے خلاف حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کےبیان کےباعث اسی سال آبان( نومبر) کے مہینے میں ایک اور تحریک کاآغازہوگيا ۔
13 آبان 1343 (4 نومبر 1964) کی صبح کو ایک بارپھر مسلح کمانڈوز نے جو تہران سے قم پہنچے تھے حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے گھرکا محاصرہ کرلیا اور حیرت کی بات یہ کہ ان کو ٹھیک اسی حالت میں گرفتارکیا گيا جس حالت میں ایک سال پہلے گرفتارکیاگیا یعنی جس وقت آپ نمازشب میں مشغول تھے۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو گرفتار کرکے سخت پہرے میں مہرآباد ہوائی اڈے پر منتقل کردیا گيا اور پھر وہاں سے ایک فوجی طیارے کے ذریعہ جو پہلے سے تیارکھڑا تھا آپ کو ترکی جلاوطن کر دیا گیا۔ اسی دن شام کو ساواک نے یہ خبر اخبارات میں شائع کی کہ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو ملکی سالمیت کے خلاف اقدام کرنے کی وجہ سے جلاوطن کردیاگیا ۔ اس خبرکے شایع ہوتے ہی پورے ملک میں گھٹن کےماحول کے باوجود احتجاجی مظاہروں اور عام ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دوکانیں اورتجارتی مراکزبند ہو گئے اور عوامی، سیاسی اور مذھبی حلقوں کی جانب سے عالمی اداروں اور مراجع تقلید کو احتجاجی مراسلے اور ٹیلیگرام بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس دوران دینی مراکز اور مدارس میں دروس بھی بند رہے۔ ترکی میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی جلاوطنی کی مدت گیارہ مہینے کی رہی۔ اس درمیان شاہی حکومت نے انتہائی سختی کے ساتھ انقلابی عناصرکو کچلنے میں کوئی کسر نہيں چھوڑی اور حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی عدم موجودگي میں امریکہ کی مرضی کی اصلاحات کے پروگرام پر تیزی کے ساتھ عمل کرناشروع کردیا۔ ترکی میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی جلاوطنی سے حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو یہ بہترین موقع ملا کہ آپ اپنی معروف فقہی کتاب تحریرالوسیلہ کی تدوین کا کام شروع کریں۔
تیرہ مہر 1343(5 اکتوبر 1964) کو امام خمینی (رہ) اپنے بڑے بیٹے آیت اللہ الحاج آقا مصطفی خمینی کے ہمراہ ترکی سے عراق بھیج دئے گئے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ بغداد پہنچنے کے بعد کاظمین ، سامرا اور کربلا میں ائمہ اطہارعلہیم السلام اور شہدائے کربلا کی زيارت کے لئے روانہ ہوگئے اور ایک ہفتے کے بعد اپنی قیام گاہ یعنی نجف اشرف پہنچے۔ نجف اشرف میں آپ کے تیرہ سالہ قیام کا آغاز ایسے عالم میں ہوا کہ اگرچہ وہاں بظاہر ایران اور ترکی کی طرح بندش اور گھٹن نہیں تھی لیکن دشمن کے محاذ کی طرف سے مخالفتوں ، آپ کے راستے میں رکاوٹوں اور طعنہ زنی کا سلسلہ شروع ہوگیا اور نہ صرف کھلے دشمنوں بلکہ عالم نمانام نہاد اور دنیا پرست عناصر کی طرف سے حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے خلاف اقدامات اور بیان بازیاں اس قدر وسیع پیمانے پر اور اذیت ناک حد تک پہنچ گئي تھیں کہ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنے تمام تر صبر و تحمل کے باوجود جس کے لئے آپ خاص شہرت رکھتے تھے بارہا ان برسوں کو اپنی جدوجہد کے انتہائي سخت اورتلخ ترین سال سے تعبیر کیا لیکن یہ مصائب و آلام آپ کو آپ کو اپنے مشن سے باز نہ رکھ سکے ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے تمام تر مخالفتوں کے باوجود اپنے دروس خارج فقہ کا سلسلہ آبان ماہ 1344(نومبر1965) میں نجف اشرف میں واقع مسجد شیخ انصاری میں شروع کیا جو عراق سے پیرس کے لئے آپ کی ہجرت تک جاری رہا ۔
آپ کے دروس خارج کو کیفیت و کمیت کے اعتبار سے نجف اشرف میں دئے جانے والے دیگر دروس خارج میں اعلی ترین دروس میں شمار کیا جاتا تھا ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے نجف اشرف پہنچتے ہی ایران میں عوام اور اپنے انقلابی ساتھیوں کے نام خطوط اور بیانات ارسال کرکے انقلابیوں سے اپنے روابط کو برقرار رکھا اور انہیں ہر مناسبت پر پندرہ خرداد کی تحریک کے مقاصد کو آگے بڑھانے کی تلقین فرمائی ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے جلا وطنی کے برسوں میں تمام مصائب و مشکلات کے باوجود کبھی بھی اپنی جد وجہد سے ہاتھ نہیں کھینچا اور اپنی تقریروں اور پیغامات کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں کامیابی و فتح کی امید زندہ رکھی ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے 19 مہر 1347 کو فلسطینی تنظيم الفتح کے نمائندے سے اپنی گفتگو میں عالم اسلام کے مسائل اور ملت فلسطین کے جہاد کے بارے میں اپنے موقف اور نظریات کی تشریح فرمائی اور اپنے اسی انٹرویو میں فرمایا کہ زکات کی رقومات میں سے کچھ حصہ فلسطینی مجاہدین سے مختص کرنا واجب ہے ۔1969 میں ایران کی شاہی حکومت اور عراق کی بعثی حکومت کے درمیان دونوں ملکوں کی آبی حدود کے مسئلے پر اختلافات شدت اختیار کرگئے۔ عراقی حکومت نے عراق میں موجود ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد کو بدترین حالات میں عراق سے نکال دیا۔
عراق کی حکمراں بعث پارٹی نے اس بات کی بہت زيادہ کوشش کی کہ وہ ایران کی شاہی حکومت سے امام خمینی (رہ) کی دشمنی سے فائدہ اٹھائے۔ امام خمینی (رہ) کی چار برسوں تک تدریس سعی و کوشش نے کسی حد تک حوزہ علمیہ نجف کے ماحول کو بدل دیا تھا اور اس وقت تک ایران کے اندر انقلابیوں کے علاوہ خود عراق ، لبنان اور دیگر اسلامی ملکوں میں بھی امام خمینی کے بیشمار حامی پیدا ہوگئے تھے جو آپ کی تحریک کو اپنے لئے نمونہ اور آئیڈیل سمجھتے تھے ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور ( 1350 ۔ 1356 ) جد جہد کا تسلسل
1350 کے دوسرے نصف میں عراق کی بعثی حکومت اور شاہ کے درمیان اختلافات اور بھی شدت اختیار کرگئے اور عراق میں موجود ایرانیوں کو وہاں سے نکالا جانے لگا اور بہت سے ایرانی بے گھر کئے جانے لگے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے عراقی صدر کے نام اپنے ایک ٹیلی گرام میں عراقی حکومت کے ان اقدامات کی سخت مذمت کی ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس صورت حال میں خود بھی عراق سے نکلنے کا فیصلہ کیا لیکن بغداد کے حکام نے حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے عراق سے چلے جانے کے بعد کے نتائج کو بھانپ لیا اور انہیں عراق سے نکلنے کی اجازت نہیں دی ۔
پندرہ خرداد 1354 ہجری شمسی مطابق چار جون سن انیس سو پچہتر عیسوی کو قم کے مدرسۂ فیضیہ میں ایک بار پھر انقلابی طلباء نے ایک شاندار احتجاجی اجتماع منعقد کیا جو اجتماع تحریک کی شکل اختیار کرگیا ۔ دو دنوں تک جاری اس ایجیٹیشن کے دوران درود بر خمینی اور مرگ بر پہلوی، خمینی زندہ باد ، پہلوی حکومت مردہ باد کے نعرے گونجتے رہے ۔
شاہ نے اپنی مذہب مخالف پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے اسفند 1354 مارچ انیس سو پچہتر ہجری شمسی کو ملک کی سرکاری تاریخ کو بیہودہ طریقے سے پجری کےبجائے ہخامنشی شاہوں کی سلطنت کے آغاز کی تاریخ سے تبدیل کردیا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنے سخت رد عمل میں فتوی جاری فرمایا کہ بے بنیاد شہنشاہی تاریخوں سے استفادہ کرنا حرام ہے ۔ اس موہوم تاریخی مبدا اور آغاز سے بطور کلنڈر استفادے کی حرمت کے فتوے کا ایران کے عوام نے اسی طرح سے خیر مقدم کیا جس طرح سے رستاخیز پارٹی کی حرمت کے فتوی کا خیر مقدم کیا گیا تھا اور یہ دونوں ہی شاہی اقدامات شاہ کے لئے ذلت و رسوائی کا سبب بنے اور شاہی حکومت نے مجبور ہو کر انیس سو اٹھہر میں شاہنشاہی کیلنڈر سے پسپائی اور اسے ختم کرنے کا اعلان کیا۔
اسلامی انقلاب کا عروج اور عوامی تحریک
امام خمینی (رہ) نے جو دنیا اور ایران کے حالات پر انتہائي گہری نظر رکھے ہوئے تھے ہاتھ آئے موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور آپ نے مرداد ماہ 1356 مطابق انیس سو ستتر میں اپنے ایک پیغام میں اعلان فرمایا کہ اب ملکی اور غیر ملکی حالات اور شاہی حکومت کے جرائم کے عالمی اداروں اور غیر ملکی اخبارات میں بھی منعکس ہونے کی بنا پر علمی حلقوں، محب وطن شخصیتوں، ملک و بیرون ملک ایرانی طلباء اور اسلامی انجمنوں کو جہاں جہاں بھی ہوں یہ چاہئے کہ اس موقع سے فورا" فائدہ اٹھائیں اور کھل کر میدان میں آجائیں ۔یکم آبان 1356 مطابق انیس سو ستتر کو آیت اللہ حاج آقا مصطفی خمینی کی شہادت اور ایران میں ان کے ایصال ثواب کے لئے منعقد مجالس اور پرشکوہ تعزيتی جلسے ایران کے حوزہ ہای علمیہ اور مذہبی حلقوں کے دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اسی وقت انتہائي حیران کن طریقے سے اس واقعہ کو خداوند عالم کے الطاف خفیہ سے تعبیر کیا ۔ شاہی حکومت نے روزنامہ اطلاعات میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی شان میں اہانت آمیز مقالہ شائع کرکے آپ سے انتقام لینے کی کوشش کی ۔اس مقالے کی اشاعت کے خلاف قم میں ہونے والا احتجاجی مظاہرہ، رواں دواں انقلابی تحریک کو مہمیز دینے کاباعث بنا۔ اس احتجاجی مظاہرے کے دوران متعدد انقلابی طلباء شہید اور زخمی ہوئے ۔ شاہ اس احتجاجی مظاہرے میں طلباء کا قتل عام کرنے کے بعد احتجاج کے بھڑکے ہوئے شعلوں کو خاموش نہیں کرسکا ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی عراق سے پیرس ہجرت "
نیویارک میں ایران اور عراق کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو عراق سے نکالنے کا فیصلہ کیا گيا ۔ چوبیس ستمبر سن انیس سو اٹھتر کو بعثی حکومت کے کارندوں اور سیکورٹی اہلکاروں نے نجف میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ اس خبر کے پھیلتے ہی ایران، عراق اور دیگر ملکوں کے مسلمانوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ۔چار اکتوبر کو حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نجف سے کویت کی سرحد کی جانب روانہ ہوئے کویت کی حکومت نے ایران کی شاہی حکومت کی ایماء پر آپ کو کویت کے اندر آنے کی اجازت نہیں دی۔ اس سے پہلے لبنان یا شام میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ہجرت کی باتیں گردش کررہی تھیں لیکن آپ نے اپنے بیٹے (حجۃ الاسلام حاج سید احمد خمینی ) سے مشورہ کرنے کے بعد پیرس جانے کا فیصلہ کیا اور چھے اکتوبر کو آپ پیرس پہنچ گئے ۔ دو دنوں کے بعد پیرس کے مضافاتی علاقے نوفل لوشاتو میں آپ ایک ایرانی کے گھر میں رہائش پذیر ہوگئے۔ الیزہ پیلیس کے عہدہ داروں نے فرانس کے صدر کا یہ پیغام حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو پہنچایا کہ انہیں کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے۔ آپ نے بھی اپنے سخت ردعمل میں فرمایا کہ اس طرح کی بندشیں ڈیموکریسی کے دعووں کے منافی ہیں اور اگر میں مجبور ہوا کہ اس ایئیرپورٹ سے اس ایئرپورٹ اور ایک ملک سے دوسرے ملک (مسلسل) ہجرت کرتا رہوں پھر بھی اپنے مشن سے دستبردار نہیں ہوں گا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے نومبر انیس سو اٹھتر میں انقلابی کونسل تشکیل دی۔ شاہ سلطنتی کونسل کی تشکیل اور بختیار کی حکومت کے لئے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد سولہ جنوری انیس سو اٹھتر کو ملک سے فرار ہو گیا ۔ شاہ کے فرار کی خبر تہران شہر اور پھر پورے ایران میں پھیل گئی اور لوگ یہ خبر سن کر جشن منانے کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ۔
وطن واپسی
جنوری انیس سو 79 میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی وطن واپسی کی خبریں نشر ہونے لگیں۔ جو بھی سنتا خوشی سے اس کی آنکھیں اشکبار ہوجاتیں ۔ لوگوں نے 14 برسوں تک انتظار کی گھڑیاں گنی تھیں ۔ ساتھ ہی امام خمینی (رح) کے چاہنے والوں کو آپ کی جان کی سلامتی کے بارے میں بھی تشویش تھی کیونکہ شاہ کی آلۂ کار حکومت نے پورے ملک میں ایمرجنسی لگا رکھی تھی۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنا فیصلہ کرلیا اور ایرانی قوم کے نام اپنے پیغامات میں فرمایا تھا کہ وہ چاہتے کہ ان مستقبل ساز اور فیصلہ کن ایام میں اپنے عوام کے درمیان رہیں ۔ بختیار کی حکومت نے جنرل ہایزر کی ہم آہنگی سے ملک کے تمام ہوائی اڈوں کو غیر ملکی پروازوں کے لئے بند کردیا تھا ۔ مگر بختیار کی حکومت نے بہت جلد پسپائی اختیار کرلی اور عوام کے مطالبات کے سامنے وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی۔ امام خمینی (رہ) 12 بہمن 1357 ہجری شمسی مطابق یکم فروری 1979 کو چودہ برسوں کی جلا وطنی کے بعد فاتحانہ انداز میں ایران واپس تشریف لائے۔ ایرانی عوام نے آپ کا ایسا عدیم المثال اور شاندار تاریخی استقبال کیا کہ مغربی خبر رساں ایجنسیاں بھی اس کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکیں اور خود مغربی ذرائع ابلاغ کا کہنا تھا کہ تہران میں چالیس سے ساٹھ لاکھ افراد نے امام خمینی (رہ) کا والہانہ استقبال کیا ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رحلت ، وصال یار فراق یاران "
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے مشن ، نصب العین ، نظریات اور وہ تمام باتیں جو لوگوں تک پہنچانی تھیں سب کچھ پہنچا دیا تھا اور عملی میدان میں بھی اپنی تمام ہستی اور پورا وجود الہی اہداف و مقاصد کی تکمیل کے لئے وقف کر دیا تھا۔ اب چار جون 1989 کو آپ اپنے کو اس عزيز ہستی کے وصال کے لئے آمادہ کررہے تھے کہ جس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے آپ نے اپنی پوری عمر مبارک صرف کردی تھی اور ان کا قامت رعنا سوائے اس عظیم ہستی کے حضور کسی بھی طاقت کے سامنے خم نہیں ہوا اور ان کی آنکھوں نے اس محبوب ذات کے سوا کسی اور کے لئے اشک ریزي نہیں کی۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے عرفانی اشعار و غزلیں سب کی سب محبوب کے فراق کے درد و غم اور وصال محبوب کی تشنگي کے بیان سے ہی عبارت تھیں ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے لئے وہ عظیم اور ان کے شیدائیوں کے لئے وہ جانکاہ لمحہ آن پہنچا ۔آپ نے خود اپنے وصیت نامے میں رقم فرمایا ہے : خدا کے فضل و کرم سے پرسکون دل، مطمئن قلب ، شاد روح اور پر امید ضمیر کے ساتھ بہنوں اور بھائیوں کی خدمت سے رخصت ہوتا ہوں اور ابدی منزل کی جانب کوچ کرتا ہوں۔ آپ لوگوں کی مسلسل دعاؤں کا محتاج ہوں اور خدائے رحمن و رحیم سے دعا کرتاہوں کہ اگر خدمت کرنے میں کوئی کمی یا کوتاہی رہ گئی ہو تو مجھے معاف کردے اور قوم سے بھی یہی امید کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلے میں کوتاہی اور کمی کو معاف کرے گي اور پوری قوت، اور عزم و ارادے کے ساتھ آگے کی سمت قدم بڑھائے گی ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنی ایک غزل میں اپنی رحلت سے کئی سال قبل یہ شعر کہا تھا :
" انتظار فرج از نیمہ خرداد کشم سالہا می گذرد و حادثہ ہا می آید"
13 خرداد 1368 ہجری شمسی مطابق 3 جون 1989 کی رات 10 بج کر بیس منٹ کا وقت محبوب سے وصال کا لمحہ تھا وہ دل دھڑکنا بند ہوگیا جس نے لاکھوں اور کروڑوں دلوں کو نور خدا اور معنویت سے زندہ کیا تھا۔ اس کیمرے کی مدد سے جو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے چاہنے والوں نے اسپتال میں نصب کررکھا تھا آپ کی علالت ، آپریشن اور لقائے حق کے لمحات کو ریکارڈ کیا گيا۔ جس وقت ان ایّام کی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے معنوی اور پرسکون حالات کے محض چند گوشوں کی متحرک تصویریں ٹیلی ویژن سے نشر ہوئیں لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی اور دلوں پر یہ تصویریں اتنا گہرا اثر چھوڑ گئیں کہ جن کا سمجھانا اور بیان کرنا ممکن نہیں مگر یہ کہ کوئی خود اس موقع پر موجود رہ کر ان معنوی کیفیات کو درک کرے۔ آپ کے ہونٹ مسلسل ذکر خدا میں مصروف تھے ۔ زندگي کی آخری راتوں میں اور اس وقت جب آپ کے کئی بڑے آپریشن ہوچکے تھے عمر بھی 87 برس کی تھی آپ نماز شب (تہجد) بجا لاتے اور قرآن کی تلاوت کرتے ۔ عمر کے آخری لمحات میں آپ کے چہرے پر غیر معمولی اور روحانی و ملکوتی اطمینان و سکون تھا۔ ایسے معنوی حالات میں آپ کی روح نے ملکوت اعلیٰ کی جانب پرواز کی۔ جب حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت جانگداز کی خبر نشر ہوئی گویا ایک زلزلہ آگیا۔ لوگوں میں ضبط کا یارا نہ رہا اور پوری دنیا میں وہ لوگ جو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے محبت کرتے تھے رو پڑے، ایران سمیت پوری دنیا میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے چاہنے والوں میں نالہ و شیون کا شور تھا ۔ کوئی بھی اس عظیم سانحے کے پہلوؤں اور عوام کے جذبات کو بیان کرنے کی سکت و توانائی نہیں رکھتا ۔ ایرانی عوام اور انقلابی مسلمان بجاطور پر اس طرح کا سوگ اور غم منارہے تھے۔ اپنے رہبر و قائد کو آخری رخصت اور انہیں الوداع کہنے کے لئے سوگواروں کا اتنا بڑا سیلاب تاریخ نے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔ ان سوگواروں نے ایسی ہستی کو الوداع کہا کہ جس نے ان کی پائمال شدہ عزت کو دوبارہ بحال کردیا تھا جس نے ظالم و جابر شاہوں اور امریکی و مغربی لیڈروں کو پسپائي اختیار کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ مسلمانوں کو عزت و وقار عطا کیا تھا۔ اسلامی جمہوری نظام کی تخلیق کی تھی ۔ جس کی بدولت ایرانی مسلمان دنیا کی جابر اور شیطانی طاقتوں کے مد مقابل اٹھ کھڑے ہوئے اور دس برسوں تک بغاوت و کودتا جیسی سینکڑوں سازشوں اور ملکی و غیر ملکی آشوب و فتنہ کے مقابلے میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے رہے اور آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران تاریخ شجاعت رقم کی۔ جبکہ مد مقابل ایسا دشمن تھا جس کی مشرق و مغرب کی دونوں بڑی طاقتیں وسیع حمایت کررہی تھیں۔ لوگوں کا محبوب قائد ، مرجع تقلید اور حقیقی اسلام کا منادی ان سے جدا ہوگیا تھا ۔
جو لوگ ان مفاہیم کو درک نہیں کرسکے اور یہ سارے واقعات ان کی سمجھ سے بالاتر ہیں اگر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تدفین اور تشییع جنازہ کی تصویریں اور فلمیں دیکھیں اور حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کی خبر سن کر آپ کے دسیوں چاہنے والوں اور شیدائیوں کی حرکت قلب اچانک رک جانے اور ان کی موت واقع ہوجانے اور اس سانحے کی تاب نہ لانے کے واقعات سنیں اور تشییع جنازے کے دوران شدت غم سے سینکڑوں بیہوش سوگواروں کو لوگوں کے ہاتھوں اسپتالوں اور طبی مراکز تک پہنچائے جانے کے مناظر، تصویروں اور فلموں میں دیکھیں تو ان کی توصیف کرنے سے عاجز رہ جائیں گے لیکن جنہیں عشق حقیقی کی معرفت ہے اور جنہوں نے عشق کا تجربہ کیا ان کے لئے یہ ساری باتیں اور واقعات سمجھ لینا مشکل نہیں ہے ۔ حقیقت میں ایران کے عوام حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عاشق تھے اور انہوں نے آپ کی پہلی برسی کے موقع پر کتنا خوبصورت نعرہ انتخاب کیا تھا "خمینی سے عشق تمام خوبیوں اور اچھائیوں سے عشق ہے"
بہرحال چودہ خرداد 1368 مطابق چار جون 1989 ماہرین کی کونسل نے اپنا اجلاس تشکیل دیا اور حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای کے توسط سے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا وصیت نامہ پڑھے جانے کے بعد کہ جس میں دو گھنٹے لگے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین اور رہبر انقلاب اسلامی کے تعین کے لئے تبادلۂ خیال شروع ہوا اور کئی گھنٹوں کے صلاح و مشورے کے بعد حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کو، جو اس وقت اسلامی جمہوریۂ ایران کے صدر تھے اور حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے قریبی شاگرد، اسلامی انقلاب کی ممتاز شخصیتوں اور پندرہ خرداد کی تحریک کے رہنماؤں میں شمار کئے جاتے تھے اور جنہوں نے دیگر انقلابی جانبازوں کے ہمراہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کے تمام مراحل میں ہر طرح کی سختیوں اور مصائب و آلام کا سامنا کیا تھا، اتفاق آراء سے اس عظیم و خطیر ذمہ داری کے لئے منتخب کیا گيا مغربی ممالک اور ملک کے اندر ان کے حمایت یافتہ عناصر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو شکست دینے کی برسوں کی کوششوں کےبعد مایوس ہوچکے تھے اور وہ اس امید میں تھے کہ امام کی رحلت کے بعد وہ اپنی سازشوں اور ناپاک منصوبوں میں کامیاب ہوسکیں گے لیکن ایرانی عوام کے فہم و فراست، ماہرین کی کونسل کے بروقت فیصلے اور اس فیصلے کی امام کے تمام پیروؤں اور چاہنے والوں کی طرف سے بھرپور حمایت سے انقلاب دشمن عناصر کی تمام امیدوں پر پانی پھیر گیا اور نہ فقط یہ کہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات سے ان کا مشن ختم نہیں ہوا بلکہ اسے نئي زندگی مل گئی۔ کہیں الہی افکار و نظریات اور حقائق کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے!
پندرہ خرداد 1368 مطابق 5 جون 1989 کے موقع پر تہران اور ایران کے دیگر شہروں اور قصبوں و دیہاتوں سے آئے ہوئے دسیوں لاکھ سوگواروں کا ایک سیلاب تھا جو تہران کے مصلائے بزرگ ( عیدگاہ ) میں ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ لوگ اس عظیم مرد مجاہد کو، جس نے اپنی تحریک اور انقلاب سے ظلم و ستم کے سیاہ دور میں انسانی اقدار و شرافت کی خمیدہ کمر کو استوار کردیا تھا اور دنیا میں خداپرستی اور پاک انسانی فطرت کی جانب واپسی کی تحریک کا آغاز کیا تھا، الوداع کہنے کے لئے آئے تھے۔ آپ کے جنازے کی آخری رسومات میں سرکاری رسومات کا کوئی نام ونشان نظر نہیں آتا۔ ساری چیزیں عوامی اور عاشقانہ تھیں ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا پیکر مطہر جو سبز تابوت میں تھا کروڑوں سوگواروں اور ماتم کنان عزاداروں کے ہاتھوں پر ایک نگینے کی مانند جلوہ نمائی کررہاتھا اور ہر کوئی اپنی زبان سے اپنے محبوب قائد سے وقت رخصت محو گفتگو تھا اور اشک غم بہارہا تھا ۔
درو دیوار پر سیاہ پرچم لگائے گئے تھے اور فضا میں چاروں طرف صرف تلاوت کی آواز سنائی دے رہی تھی اور جیسے ہی رات آئي ہزاروں شمعیں اس مشعل فروزاں کی یاد میں مصلّی بزرگ (عیدگاہ ) اور اس کے اطراف کے ٹیلوں پر روشن ہوگئیں۔ سوگوار و عزادار کنبے ان شمعوں کے گرد حلقہ بنائے بیٹھے تھے اور ان کی نگاہیں ایک نورانی بلندی پر مرکوز تھیں۔ بسیجیوں (رضاکاروں) کی فریاد "یاحسین" نے جو یتیمی کا احساس اپنے سینے میں لئے تھے اور اپنا سر و سینہ پیٹ رہے تھے ماحول کو عاشورائی بنادیا تھا اور چونکہ انہیں یقین ہوگیا تھا کہ اب حسینیۂ جماران میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دلنشین آواز نہیں سنائی دے گي اس لئے یہ غم انہیں مارے ڈال رہا تھا۔ لوگوں نے پوری رات مصلی بزرگ (عیدگاہ ) میں گزاری۔ 6 جون 1989 کی صبح ہوتے ہی دسیوں لاکھ سوگواروں نے مرجع تقلید آیت اللہ العظمی گلپایگانی کی امامت میں اشکبار آنکھوں کے ساتھ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پیکر مطہر پر نماز جنازہ پڑھی۔
12 بھمن 1357 ہجری شمسی مطابق یکم فروری 1979 کو حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ کی فاتحانہ وطن واپسی اور ان کے استقبال میں شاندار و عدیم المثال اجتماع اور پھر آپ کی آخری رسومات میں سوگواروں کا اس سے بھی عظیم اجتماع تاریخ کے حیران کن واقعات ہیں۔ خبر رساں ایجنسیوں نے یکم فروری سنہ 1979 کو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وطن واپسی کے موقع پر استقبال کے لئے آنے والے عاشقوں اور انقلابیوں کی تعداد 60 لاکھ بتائي تھی اور آپ کے جنازے میں شریک سوگواروں کی تعداد 90 لاکھ بتائي جبکہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دس سالہ قیادت کے دوران انقلاب سے دشمنی، آٹھ سالہ جنگ اور مغربی و مشرقی بلاکوں کی مشتکرہ سازشوں کی وجہ سے ایرانی عوام نے بے پناہ سختیاں اور مشکلات برداشت کیں اور اپنے بے شمار عزیزوں کو اس راہ میں قربان کیا تھا چنانچہ یہ فطری امر تھا کہ اب ان کا جوش و خروش بتدریج کم ہوجاتا لیکن ایسا ہرگز نہ ہوا ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے الہی مکتب میں پرورش پانے والی نسل کو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے اس فرمان پر پورا یقین و اعتقاد تھا کہ اس دنیا میں زحمتوں ،مصیبتوں ، مشکلات ، فداکاری اور جانثاری کی عظمت ان بلند و گرانقدر مقاصد و اہداف کے برابر ہوتی ہے ۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے سوگواروں کا جم غفیر "بہشت زہرا" (تہران کے قبرستان) میں تدفین کے وقت اپنے مقتدا کی آخری جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھا۔ لوگ ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑ رہے تھے جس کی وجہ سے آپ کی تدفین ناممکن ہوگئی تھی اس صورتحال کے پیش نظر ریڈیو سے باربار اعلان کیا گيا کہ لوگ اب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں تدفین کی رسومات بعد میں انجام دی جائیں گی اور بعد میں اس کا اعلان کیا جائے گا۔
ذمہ داران کو بخوبی علم تھا کہ جیسے جیسے وقت گزرے گا لاکھوں عاشقان امام جو دیگر شہروں سے تہران کے لئے روانہ ہوچکے ہیں تشییع جنازہ اور تدفین کی رسومات میں شامل ہو جائیں گے لہذا اسی دن سہ پہر کے وقت سوگواروں فرط غم کے عالم میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے جسد مطہر کی تدفین کی گئی۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت بھی ان کی حیات مبارک کی مانند ایک اور بیداری و تحریک کا سرچشمہ ثابت ہوئی اور ان کی یاد، تعلیمات و افکار اور ان کا مشن زندہ جاوید بن گیا کیونکہ وہ ایک حقیقت تھے اور حقیقت ابدی و لافانی ہوتی ہے ۔
خواتین امام خمینی (رہ) کی نگاہ میں
بیسویں صدی کے بڑے بڑے سیاسی و معاشرتی کارناموں اور اسلامی انقلاب کے واقعات میں مسلمان خواتین کی پوری قوت و شوکت کےساتھ شراکت نے اسلامی حلقوں میں عورتوں سے متعلق معاشرتی مباحث کے دائرے میں ایک نیا طرز فکر جنم دیا ہے آج دنیا کی آبادی کا نصف اعظم عورتوں سے تشکیل پایا ہے لہذا ان کی خصوصیات اور توانائیوں کی شناخت و پہچان انسانی حیات میں بڑا ہی اہم کردار ادا کر سکتی ہے ۔ عورتوں کے سلسلے میں بڑے ہی مختلف و متضاد خیالات ظاہر کئے جاتے رہے ہیں جس کا بنیادی سبب افراط و تفریط سے کام لینا کہا جاسکتا ہے ۔ اسلام نے نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے ابتدائي مراحل سے ہی خواتین کے حقوق کا احیاء اپنی تعلیمات میں سر فہرست قرار دیا ۔ خواتین کی تخلیقی اور مزاجی خصوصیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی وجودی اور انسانی حقیقت کو مردوں کے مثل و مساوی قرار دیا اور مرد و عورت دو نوں کی سرشت ایک قرار دی ۔ اور حضرت امام خمینی رضوان اللّہ علیہ کے لفظوں میں” اسلام نے عورت کو“ شیئیت کے درجے سے نکال کر ایک مستقل ”شخصیت“ عطاکی ہے اور اس کو حقیقی مقام و منزلت سے آشنا بنایا ہے ۔ عورت ایک الہی وجود ہے اور اسلام کے انقلابی مکتب میں ، وہ مردوں سے زیادہ آزادی و انسانیت کی بشارت دیتی ہے ۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انسانی تاریخ کے طویل دور میں کفر و شرک کی حکمرانی کے سبب قدیم و جدید ہر دور میں مختلف شکلوں سے اس کو ذلت و حقارت کے ساتھ کنیز و خدمتگار کی زندگي بسر کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے ۔ اس کی صرف ظاہری شکل و صورت پر نظر رکھی گئی اور لوگ عیش و مستی کے کھلونوں کی طرح اس سے کھیلتے رہے خصوصا´ عصر حاضر میں تو فیشن اور جدت کے نام پر اس سے بد ترین شکل میں فائدہ اٹھایا جارہا ہے ، ایک عورت کے الہی پہلوؤں کو بالکل نظر انداز کردیا گيا ہے ۔ اور لطف یہ ہے کہ سنہری شمشیر سے عورت کاگلا کاٹنے والے یہی افراد خواتین کے حقوق اور آزادی کے علمبردار بنے ہوئے ہیں اور اپنی حقیقت و عظمت سے ناآشنا خواتین کا ایک گروہ ان کی ”شیطانی آیات “میں اپنی رہائي اور نجات کی راہ تلاش کر رہا ہے اور اس بات سے بے خبر ہے کہ یہ لوگ ان کو حیات نہیں موت کے دلدل میں ڈھکیل دینے کے درپے ہیں ۔ جس طرح عرب کے دور جاہلیت کے بعد رسول اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کی الہی تعلیمات اور جناب خدیجہ ، ام سلمہ ، اسماء بنت عمیس ، سمیہ اور فضہ کی مانند خواتین اسلام خصوصا´ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللّہ علیہا کی سیرت اور زندگي آفریں عملی پیغامات نے چودہ سال پہلے خواتین کی زندگی میں ایک انقلاب بر پا کردیا تھا عصر حاضر میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایک بار پھر خواتین عالم کے لئے عصر جدید کی جہالت اور سامراجی قید و اسیری سے رہائی کی راہیں کھلی ہیں اور عورت کا ”حقیقی الہی چہرہ “دنیا کے سامنے نمودار ہواہے ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت کے اس ”انقلابی چہرے “ کی تصویر کشی میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رضوان اللّہ علیہ نے بڑا ہی اہم کردار ادا کیا ہے وہ اپنے حق آخریں پیغامات میں کہا کرتے تھے : ”میں جوانوں ، لڑکوں اور لڑکیوں سے چاہتا ہوں کہ وہ اپنی آزادی و خود مختاری اور انسانی معیارات کو، چاہے رنج و زحمت ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے ، مغرب اور اس کے آوارۂ ملک وقوم آلہ کاروں کے ذریعے کھولے گئے برائیوں کے اڈوں میں جانے اور عیش و عشرت اور تجملات کی زندگی گزارنے پر قربان نہ کریں“ ۔ اور جب وہ اپنی بات خواتین اسلام کے قلوب میں راسخ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو دنیا کے سامنے پورے افتخار کے ساتھ اعلان کرتے ہیں ۔” ہماری محترم خواتین نے ثابت کردیا کہ وہ مغرب کی پر فریب سازشوں کا شکار نہیں ہوئی ہیں ۔ انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ عفت و پاکدامنی کا محکم قلعہ ہیں اور ملک و معاشرے کوصحیح و سالم توانا فرزند اور حیا و عفت کی پیکر بیٹیاں تقدیم کریں گي اور ان راہوں پر ایک قدم بھی آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہیں جو بڑی طاقتوں نے ان کی تباہی و بردباری کے لئے ان کے سامنے کھول رکھی ہیں “۔ ایک پاک و پاکیزہ مثالی معاشرے کی تخلیق میں ماں کی حیثیت سے خواتین کا جو کردار ہے اس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ عشق ومحبت اور ایثارو قربانی کا اعلیٰ ترین جوہر رکھنے والی ”مائیں “ہی ایسے بچوں کی پرورش و تربیت کرسکتی ہیں جو کمال انسانیت پر فائز ہوسکیں ۔ ”انسان سازی “سے بہتر اور شرافت مندانہ اورکون سا کام ہو سکتا ہے ؟ اور خدا نے یہ عظیم خدمت خواتین کے سپرد کی ہے کہ وہ اعلی ترین انسانی کمالات سے خود کومزین کریں اور انسان کہلانے کے سزاوار بچے ملک و قوم کے حوالے کریں ۔ امام خمینی رضوان اللّہ علیہ نے خواتین کو اس مسئلے کی طرف ان الفاظ میں متوجہ کیا ہے کہ” آپ کی آغوش ایک مدرسہ ہے اور اس میں عظیم جوانوں کی آپ کو پرورش کرنی ہے لہذا آپ کمالات حاصل کیجئے تاکہ آپ کے بچے آپ کی آغوش میں صاحب کمال بن سکیں “۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں:” آپ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں انہیں اسلامی تربیت دیں ، انہیں انسان بنائیں اور مجاہد بنائیں “اور اس کی وجہ بھی بیان کردی ہے کہ : ”یہ لوگ اسلام کے فرزند ہیں اور اس کے بعد اسلام اور خود آپ کے ملک کی تقدیر ان کے ہاتھ میں ہوگي “۔ یہ جو بات کہی گئی ہے کہ” مائیں ایک ہاتھ سے گہوارہ جنبانی کرتی ہیں اور دوسرے ہاتھ سے دنیا کو حرکت دیتی ہیں“ ۔ تو یہ اسی لئے ہے کہ آئندہ نسلوں کی تربیت کے سلسلے میں ماؤں کا بڑا ہی اہم کردار ہے ۔ ماں کی آغوش امام خمینی رضوان اللّہ علیہ کی نظر میں ایک مدرسے اور مکتب سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے ایک مقام پر فرماتے ہیں ۔ ”ماں کی آغوش سب سے بڑا مدرسہ ہے جس میں بچہ تربیت پاتا ہے وہ جو کچھ ماں سے سنتااور سیکھتا ہے اس سے مختلف ہے جو وہ اپنے استاد سے سنتا ہے “۔ اس سلسلے میں ایک اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ماں اپنے نونہالوں کی طرف سے عمر کے کسی بھی حصے میں غافل و بے بوجہ نہیں ہوتی اس کی نگاہیں ہر آن اپنے بچوں کاطواف کیا کرتی ہیں وہ ان کو ان کے حال پرچھوڑ دیں اور ان کی طرف سے بے پروا ہوجائیں یہ ان کی مامتا کے خلاف ہے البتہ ضرورت سے زیادہ پیچھے پڑا رہنا بھی ، بچوں کو چڑ چڑا اور اپاہج بنا سکتا ہے لہذا دیکھ بھال میں بھی توازن ضروری ہے ، جوانوں میں استقلال و خود مختاری کے ساتھ شخصیت سازی کا جذبہ پایا جاتا ہے لیکن وہ نئے تجربات سے گزرتے ہیں اور بعض حالات میں انہیں ایک قابل اعتماد، مشیر اور ہم راز و ہم درد دوست اور سہیلی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ فریضہ ایک باشعور ماں بڑی خوش اسلوبی سے ادا کرسکتی ہے ۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ رہبر کبیر امام خمینی (رہ) نے خواتین کو بار بار نصیحت کی ہے کہ آپ اپنے بچوں کی خوب حفاظت کیجئے ، خوب تربیت کیجئے ، کیونکہ یہ بچے ہی ایک ملک کو نجات عطاکرتے ہیں ۔ وہ کہا کرتے تھے ۔” اگر آپ ایک دیندار بچہ معاشرہ کے حوالے کریں گی تو ممکن ہے ایک وقت میں آپ دیکھیں کہ یہی دیندار و پابند مذہب بچہ ایک پورے معاشرے کی اصلاح کردیتا ہے “۔ جہاں تک نمونۂ عملی کا سوال ہے تاریخ اسلام و آدمیت میں ماؤں بیویوں ، بہنوں اور بیٹیوں سبھی کےلئے بہترین اسوہ اور نمونۂ عمل رسول اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللّہ علیہا کا کردار ہے جنہوں نے رسول اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی کی حیثیت سے اگر” ام ابیہا “ کا خطاب پایا اور علی ابن ابی طالب کی بیوی کے طور پر” بہترین کفو“ قرار پائیں تو اپنی عصمت مآب آغوش میں نہ صرف امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو پالا ہے بلکہ ایک خاتون کی حیثیت سے جناب زینب سلام اللّہ علیہا اور ام کلثوم سلام اللّہ علیہا جیسی بیٹیاں اسلام اور اسلامی معاشرہ کے حوالے کی ہیں جو نہ صرف آپ کی تعلیم و تربیت کا شاہکار ہیں بلکہ تاریخ اسلام کا وہ بے نظير کردار ہیں کہ جن کی ان کے عہد کے پانچ اماموں نے مختلف زمانوں میں ضرورت محسوس کی ہے اور ان کی عظمت و جلالت کا اعتراف کیا ہے ۔
حج معصومین [ع] کی زبان سے ۳
مستجار
قَالَ الصَّادِقُ(ع:(
بَنیٰ إِبْراہِیمُ الْبَیْتَ۔۔۔وَجَعَلَ لَہُ بَابَیْنِ بَابٌ إِلَی الْمَشْرِقِ وَ بَابٌ إِلَی الْمَغْرِبِ،وَالْبَابُ الَّذِی إِلَی الْمَغْرِبِ یُسَمَّیالْمُسْتَجَارَ۔[ 81
امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں:
”جنا ب ابراھیم خلیل ںنے کعبہ کی تعمیر فرمائی اور اس کے لئے دو دروازے بنائے،ایک در مشرق کی طرف،اور ایک در مغرب کی طرف،جودر مغرب کی طرف ھے اسے مستجار کھتے ھیں’ ’۔
رکن یمانی
رَا یَٔنٰاکَ تُکْثِرُ اِسْتِلاٰمَ الرُّکْنِ الْمَیٰانیِّ فَقَالَ: مٰا اَتَیْتُ عَلَیْہِ قَطُّ اِلاّ وَٰجَبْرَئیلُ قٰائِمٌ عِنْدَہُ یَسْتَغْفِرُ لِمَنْ اسْتَلَمَہُ۔[ 82
عطا کھتے ھیں:
”لوگوں نے حضرت رسول خد ا صلی الله علیہ و آلہ و سلم سے کھا ھم بھت دیکھتے ھیں کہ آپ(ص)رکن یمانی کا بوسہ لے رھے ھیں فرمایا:میں ھر گز رکن یمانی کے پاس نھیں آیا مگر یہ کہ میں نے دیکھاکہ جبرئیل ع)وھاں کھڑے ھیں اور جولوگ اسے چوم رھے ھیں ان کے لئے مغفرت کی دعا کر رھے ھیں ”۔
سعی کی جگہ
عَنْ ا بَٔی بَصِیرٍ قَالَ:
سَمِعْتُ ا بَٔا عَبْدِ اللّٰہِ (ع)یَقُولُ:
[ مَا مِنْ بُقْعَةٍ ا حَٔبَّ إِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمَسْعَیٰ لِا نَّٔہُ یُذِلُّ فِیھَا کُلَّ جَبَّارٍ۔[ 83
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:“کوئی بھی جگہ خدا وند عالم کے نزدیک سعی کی جگہ سے محبوب اورپسندیدہ نھیں ھے کیونکہ وھاں ھر جبار وستم گر ذلیل خوارھوتا ھے ”۔
مقبول شفاعت
قَالَ عَلِیُّبْنُ الْحُسَیْنِ (ع:(
السَّاعِی بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ تَشْفَعُ لَہُ الْمَلاٰئِکَةُ فَتُشَفَّعُ فِیہِ بِالإِیجَابِ۔[ 84
امام زین العابدین (ع)فرماتے ھیں:
”فرشتہ صفاو مروہ کے درمیان سعی کرنے والے کی(خدا سے) شفاعت طلب کرتے ھیں اور ان کی دعاقبولھوتی ھے ’ ’ ۔
ھرولہ
عَنْ ا بَِٔی عَبْدِ اللّٰہِ(ع) قَالَ:
صَارَ السَّعْیُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ لِا نََّٔ إِبْرَاہِیمَ عَرَضَ لَہُ إِبْلِیسُ فَا مََٔرَہُ جَبْرَئِیلُ(ع)، فَشَدَّ عَلَیْہِ فَھَرَبَ مِنْہُ،فَجَرَتْ بِہِ.السُّنَّةُ - یعنی بالْھَرْوَلَة[ 85
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”صفاو مروہ کے درمیان سعی میں (ھرولہ)اس لئے ھے کہ ابلیس نے خود کو وھاں جناب ابراھیم (ع) پر ظاھرکیا اس وقت جبرئیل (ع)نے جناب ابراھیم (ع) کو شیطان پر حملہ کا حکم دیا آپ (ع) نے اس پر حملہ کیا تو وہ بھاگااس وجہ سے ھرولہ سنت بن گیا ”۔
صفا ومروہ کے درمیان بیٹھنا
عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰہِ (ع:(
لاٰ یَجْلِسُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ إِلاَّ مَنْ جَھَدَ۔[ 86
امام جعفرصادق(ع) نے فرمایا:
”صفاو مروہ کے درمیان نہ بیٹھے مگر وہ شخصجو تھک جائے ’ ’ ۔
اھل عرفات پر فخر
قال رسول الله (ص:(
”إنّ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ یُباھی مَلائِکَتَہُ عَشِیَّةَ عَرَفَة بِاَھْلِ عَرَفَةَ فَیَقُولُ:
[ اُنْظُرُوا اِلی عِبادی ا تَٔوْنی شُعْثاً غُبْراً”۔[ 87
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”بلا شبہ خدا وند عالم روز عرفہ کے عصر کے وقت اھل عرفات کے سلسلہ میں فرشوں سے فخر ومباھات کرتا ھے اور فرماتا ھے :میرے بندوں کو دیکھو جو پریشاں حال اور غبار آلود میرے پاس آئے ھیں”۔
مشعر الحرام
قال رسول الله(ص): - وَھُوَ بِمنیٰ:-
لَوْ یَعْلَمُ اَہْلُ الجَمْعَ بِمَنْ حَلُّوا ا ؤَبِمَنْ نَزَلُوا لاَ سْتَبْشَرُوا بالفَضْلِ مِنْ رَبِّھِمْ بَعْدَ المَغْفِرَةِ”۔[ 88
رسول خدا (ص)جب منیٰ میںتشریف فرماتھے آپ(ص) نے فرمایا: “اگر اھل مشعر جان لیتے کہ کس کی بارگاہ میں آئے ھیں اور کس لئے آئے ھیں تو مغفرت اور بخشش کے بعد خدا کے فضل کی بنا پر وہ ایک دوسرے کو بشارت دیتے ”۔
منیٰ
قال الصادق(ع:(
[ ”إِذَا ا خَٔذَ النَّاسُ مَوَاطِنَھُمْ بِمِنًی،نَادَی مُنَادٍمِنْ قِبَلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ:إِنْ ا رَٔدْتُمْ ا نْٔا رَٔضَی فَقَدْ رَضِیتُ”۔[ 89
امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں:
”جب لوگ منیٰ میں اپنی جگہ ٹھھر جاتے ھیں تو منادی خداوند عالم کی جانب سے ندا دیتا ھے اگر تم یہ چاھتے تھے کہ میں تم سے راضیھو جاو ںٔ تو میں تم سے
راضیھو گیا ”۔
شیطا ن کو کنکریاں مارنا
قالَ الصَّادِقُ(ع:(
”إنَّ عِلَّةَ رَمْیِ الْجَمَراٰتِ ا نََّٔ إِبْراہِیم(ع) تَراء یٰ لَہُ إِبْلِیسُ عِنْدھٰا فَا مَٔرہُ جَبْرائیلُ بِرَمْیِہ بِسَبعِ حَصَیاتٍ وَا نَٔ یُکَبِّر مَعَ
[ کُلِّ حَصَاةٍ فَفَعَلَ وَجَرَتْ بِذلِکَ السُّنَةِ”۔[ 90
امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں:
”ان جمرات کوکنکریاں مارنے کی وجہ یہ ھے کہ ابلیس وھاں پر حضرت ابراھیم) ع) کے سامنے ظاھرھوا اسوقت جبرئیل (ع) نے جناب ابراھیم (ع) کو حکم دیا کے سات کنکریوں سے شیطا ن کو ماریں اور ھر کنکری پر تکبیر بھی کھیں جناب ابراھیم (ع) نے ایسا ھی کیا اور اس کے بعد سے یہ سنت بن گئی”۔
قربانی
عن ا بٔی جعفر (ع)قال: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص:(
[ إِنَّمَا جَعَلَ اللّٰہُ ھَذَا الْا ضَٔحَی لِتَشْبَعَ مَسَاکِینُھُمْ مِنَ اللَّحْمِ فَا طَٔعِمُوھُمْ”۔[ 91
امام محمد باقر (ع)فرماتے ھیں:
”کہ رسو ل خدا (ص)نے فرمایا :خدا وند عالم نے اس قربانی کو واجب قرار دیا ھے تاکہ بےنوا اور مسکین لوگ گوشت سے استفادہ کریں اور سیرھوں پس انھیں کھلاو ”ٔ۔
مغفرت طلب کرنا
قال الصادق(ع:(
”اِسْتَغْفَرَ رَسُولُ اللّٰہِ لِلْمُحَلِّقِینَ ثَلاٰثَ مَرَّاتٍ”۔[ 92
امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں:
”کہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے منیٰ میں سر مڈانے والوں کے لئے تین مرتبہ استغفار کیا (اور خداسے ان کے لئے بخشش طلب کی)ھے”۔
حج کے اسرار
عالم جلیل سید عبد الله مرحوم محدث جزائری کے پوتوں سے نقل کرتےھوئے کتاب شرح نخبہ میں تحریر کرتے ھیں :
متعدد ما خذ میں جن پر میری تائید ھے بعض بزرگوں کی تحریر میں یہ حدیث مرسل اس طرح نقلھوئی ھے کہشبلی حج انجام دینے کے بعد امام زین العابدین ںکی زیارت کو آئے تو حضرت (ع) نے ان سے فرمایا:
حَجَجْتَ یَا شَبْلِیُّ؟
قَالَ:نَعَمْ یَا ابْنَ رَسُولِ اللّٰہِ فَقَالَ(ع):ا نََٔزَلْتَ الْمِیقَاتَ وَ تَجَرَّدْتَ عَنْ مَخِیطِ الثِّیَابِ وَاغْتَسَلْتَ؟ قَالَ:نَعَمْ،
قَالَ:فَحِینَ نَزَلْتَ الْمِیقَاتَ نَوَیْتَ ا نََّٔکَ خَلَعْتَ ثَوْبَ الْمَعْصِیَةِ وَلَبِسْتَ ثَوْبَ الطَّاعَةِ؟ قَالَ:لاٰ،
قَالَ:فَحِینَ تَجَرَّدْتَ عَنْ مَخِیطِ ثِیَابِکَ نَوَیْتَ ا نََّٔکَ تَجَرَّدْتَ مِنَ الرِّیَاءِ وَالنِّفَاقِ وَالدُّخُولِ فِی الشُّبُھَاتِ؟قَالَ:لاٰ،
قَالَ:فَحِینَ اغْتَسَلْتَ نَوَیْتَ ا نََّٔکَ اغْتَسَلْتَ مِنَ الْخَطَایَا وَالذُّنُوبِ؟قَالَ:لاٰ،
قَالَ:فَمَا نَزَلْتَ الْمِیقَاتَ وَلاٰ تَجَرَّدْتَ عَنْ مَخِیطِ الثِّیَابِ وَلاٰ اغْتَسَلْتَ،
اے شبلی! کیا تم نے حج کر لیا؟عرض کیا ھاں اے فرزند رسول خدا !فرمایا:کیا تم میقات میں ٹھھرے اور اپنے
سلےھوئے لباس کو جسم سے اتار کر غسل کیا؟ شبلی نے جواب دیا، ھاں۔امام نے پوچھا جب تم میقات
میںداخلھوئے تو کیا یہ نیت کی کہ میں نے گناہ اور نافرمانی کا لباس اتار دیا ھے اور خدا کی اطاعت و
فرمانبرداری کا لباس پہن لیا ھے ؟
شبلی: نھیں۔امام نے پوچھا:جب تم نے اپنا سلاھوا لباس اتارا تو کیا یہ نیت کی تھی کہ خود کو ریا ،دوروئی اور
شبھات وغیرہ سے دور کر رھےھو ؟شبلی نھیں:
امام (ع): غسل کرتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ خود کو خطاو ںٔ اور گناہوں سے پاک کر
رھےھو؟شبلی نھیں :
امام (ع):(پس در حقیقت تم ) نہ میقات میں واردھوئے اور نہ تم نے سلاھوا لباس اتارا اور نہ غسل کیا ھے ”۔
ثُمَّ قَالَ:تَنَظَّفْتَ وَا حَٔرَمْتَ وَعَقَدْتَ بِالْحَجِّ، قَالَ:نعم۔قَالَ: فَحِینَ تَنَظَّفْتَ وَا حَٔرَمْتَ وَ عَقَدْتَ الْحَجَّ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ تَنَظَّفْتَ بِنُورَةِ
التَّوْبَةِ الْخَالِصَةِ لِلَّہٰ تَعَالیَ؟قَالَ لاٰ،قَالَ:فَحِینَ ا حَٔرَمْتَ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ حَرَّمْتَ عَلَی نَفْسِکَ کُلَّ مُحَرَّمٍ حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ؟قَالَ:لاٰ،
قَالَ:فَحِینَ عَقَدْتَ الْحَجَّ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ قَدْ حَلَلْتَ کُلَّ عَقْدٍ لِغَیْرِ اللّٰہِ؟قَالَ:لاٰ،
قَالَ لَہُ(ع):مَا تَنَظَّفْتَ وَلاٰا حَْٔرَمْتَ وَلاٰ عَقَدْتَ الْحَجَّ ،
”اس کے بعد امام(ع) اس سے پوچھتے ھیں، کیا تم نے خودکو پاک صاف کیا اور احرام پہنا اور حج کا عھد
وپیمان کیا (یعنی حج کی نیت کی)شبلی: ھاں
امام (ع): کیا تم یہ نیت کی تھی کہ خود کو خالصتوبہ کے نور ہ سے پاکیزہ کر رھےھو؟شبلی :نھیں
امام (ع):احرام باندھتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ جو کچھ خدا نے تمھیں کرنے سے روکا ھے اسےاپنے آپ پر حرام سمجھو؟شبلی:نھیں۔ امام: حج کا عھد کرتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ تم نے ھر غیر
الٰھی عھد وپیمان سے خودکو رھا کر لیا ھے؟ شبلی: نھیں۔امام(ع) :پھرتم نے احرام نھیں باندھا پاکیزہ نھیںھوئے اور حج کی نیت نھیںکی ”۔
قَالَ لَہُ: ا دَٔخَلْتَ الْمِیقَاتَ وَصَلَّیْتَ رَکْعَتَیِ الْإِحْرَامِ وَلَبَّیْتَ؟ قَالَ:نَعَمْ،
قَالَ:فَحِینَ دَخَلْتَ الْمِیقَاتَ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ بِنِیَّةِ الزِّیَارَةِ؟قَالَ:لاٰ۔
قَالَ:فَحِینَ صَلَّیْتَ الرَّکْعَتَیْنِ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ تَقَرَّبْتَ إِلَی اللّٰہِ بِخَیْرِ الْا عٔمَالِ مِنَ الصَّلاٰةِ وَا کَٔبَرِ حَسَنَاتِ الْعِبَادِ؟ قَالَ:لا،
قَالَ:فَحِینَ لَبَّیْتَ نَوَیْتَ ا نََّٔکَ نَطَقْتَ لِلّٰہِ سُبْحَانَہُ بِکُلِّ طَاعَةٍ وَصُمْتَ عَنْ کُلِّ مَعْصِیَةٍ؟ قَالَ:لاٰ ،
قَالَ لَہُ(ع): مَا دَخَلْتَ الْمِیقَاتَ وَلاٰ صَلَّیْتَ وَلاٰ لَبَّیْتَ،
”اس کے بعد امام (ع)نے پوچھا :کیا تم میقات میں داخلھوئے اور دو رکعت نماز احرام ادا کی اور لبیک کھی
؟شبلی:ھاں۔
امام (ع):میقات میں داخلھوتے وقت کیا تم نے زیارت کی نیت کی؟ شبلی :نھیں۔
امام (ع):کیا دو رکعت نماز پڑھتے وقت تم نے یہ نیت کی تھی کہ تم بھترین اعمال اور بندوں کے بھترین حسنات یعنی نماز کے ذریعہ خدا سے قریبھو رھےھو؟شبلی: نھیں۔
امام (ع):پس لبیک کھتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ خدا کی خالص فرمانبر داری کی بات کر رھےھواور ھر معصیت سے خاموشی اختیار کر رھےھو؟شبلی :نھیں ۔
امام (ع)نے فرمایا:پھر نہ تم میقات میں داخلھوئے نہ نماز پڑھی اور نہ لبیک کھی ”۔
ثُمَّ قَالَ لَہُ:ا دَٔخَلْتَ الْحَرَمَ وَرَا یَٔتَ الْکَعْبَةَ وَصَلَّیُتَ؟ قَالَ:نَعَمْ،
قَالَ :فَحِینَ دَخَلْتَ الْحَرَمَ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ حَرَّمْتَ عَلَی نَفْسِکَ کُلَّ غَیْبَةٍ تَسْتَغِیبُھَا الْمُسْلِمِینَ مِنْ ا ۂَْلِ مِلَّةِ الْإِسْلاٰمِ؟قَالَ:لاٰ۔
قَالَ فَحِینَ وَصَلْتَ مَکَّةَ نَوَیْتَ بِقَلْبِکَ ا نَّٔکَ قَصَدْتَ اللّٰہَ؟ قَالَ:لاٰ۔
قَالَ(ع):فَمَا دَخَلْتَ الْحَرَمَ وَلاٰ رَا یَٔتَ الْکَعْبَةَوَلاٰ صَلَّیْتَ،
”امام (ع) نے پھر پوچھا :کیا تم حرم میں داخلھوئے، کعبہ کو دیکھا اور نماز ادا کی ؟شبلی :ھاں۔
امام(ع) :حرم میں داخلھوتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ اسلامی معاشرہ کے مسلمانوں کی غیبت کو اپنے
اوپر حرام کرتےھو ؟ شبلی: نھیں۔
امام (ع):مکہ پہنچتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی کہ صرف خدا کو چاھتےھو ؟شبلی:نھیں۔
امام (ع):پھر نہ تم حرم میں واردھوئے اور نہ کعبہ کا دیدار کیا اور نہ نماز ادا کی ”۔
ثُمَّ قَالَ:طُفْتَ بِالْبَیْتِ وَمَسَسْتَ الْا رَٔکَانَ وَسَعَیْتَ؟قَالَ:نَعَمْ۔
قَالَ(ع):فَحِینَ سَعَیْتَ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ ھَرَبْتَ إِلَی اللّٰہِ وَعَرَفَ مِنْکَ ذٰلِکَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ؟قَالَ:لاٰ ۔
قَالَ فَمَا طُفْتَ بِالْبَیْتِ وَلاٰ مَسِسْتَ الْا رَٔکَانَ وَلاٰ سَعَیْتَ۔
”پھر امام نے پوچھا :کیا تم نے خانہ خدا کا طواف کیا ارکان کو مس کیا اور سعی انجام دی ؟شبلی :ھاں۔
امام (ع):سعی کرتے وقت کیا تمھاری یہ نیت تھی کہ شیطان اور اپنے نفس سے بھاگ کر خدا کی پناہ حاصلکرتےھواور وہ غیب سے سب سے زیادہ آگاہ ھے وہ اس بات کو جانتا ھے ؟ شبلی:نھیں۔
امام (ع):پھر نہ تم نے خانہ خدا کاطواف کیا نہ ارکان مس کئے اور نہ سعی کی،
ثُمَّ قَالَ لَہُ:صَافَحْتَ الْحَجَرَوَ وَقَفْتَ بِمَقَامِ إِبْرَاہِیمَ(ع) وَصَلَّیْتَ بِہَ رَکْعَتَیْنِ؟قَالَ:نَعَمْ فَصَاحَ) ع)صَیْحَةً کَادَ یُفَارِقُ الدُّنْیَا ثُمَّ
قَالَ:آہِ آہِ۔
ثُمَّ قَالَ(ع):مَنْ صَافَحَ الْحَجَرَ الْا سَْٔوَدَ فَقَدْ صَافَحَ اللّٰہَ تَعَالَی،فَانْظُرْ یَامِسْکِینُ لاٰ تُضَیِّعْ ا جَْٔرَ مَا عَظُمَ حُرْمَتُہُ،وَتَنْقُضِالْمُصَافَحَةَ بِالْمُخَالَفَةِ،وَقَبْضِالْحَرَامٍ نَظِیرَ ا ۂَْلِ الْآثَامِ۔
ثُمَّ قَالَ(ع):نَوَیْتَ حِینَ وَقَفْتَ عِنْدَ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ(ع)ا نََّٔکَ وَقَفْتَ عَلَی کُلِّ طَاعَةٍ وَتَخَلَّفْتَ عَنْ کُلِّ مَعْصِیَةٍ؟قَالَ:لاٰ۔
قَالَ:فَحِینَ صَلَّیْتَ فِیہِ رَکْعَتَیْنِ نَوَیْتَ ا نََّٔکَ صَلَّیْتَ بِصَلاٰةِ إِبْرَاہِیمَ(ع)،وَا رَْٔغَمْتَ بِصَلاٰتِکَ ا نَْٔفَ الشَّیْطَانِ؟قَالَ:لاٰ۔
قَالَ لَہُ:فَمَا صَافَحْتَ الْحَجَرَ الْا سَْٔوَدَ وَلاٰ وَقَفْتَ عِنْدَ الْمَقَامِ وَلاٰ صَلَّیْتَ فِیہِ رَکْعَتَیْنِ۔
”امام(ع) نے دریافت فرمایا:کیا تم نے حج اسود سے مصافحہ کیا، مقام ابراھیم (ع) کے نزدیک کھڑےھوئے
اوردو رکعت نماز ادا کی ؟شبلی: ھاں،
پس امام (ع):نے فریا د بلند کی ایسا لگتا تھا کہ آپ (ع) دنیا سے ھی کو چ کرجانے والے ھیں اس کے بعد
فرمایا :آہ ،آہ۔۔۔۔
پھر فرمایا :جو حجر اسود کو لمس کرے اس نے خدا سے مصافحہ کیا پس اے مسکین !دیکھ اس عظیم حرمتوعزت کو ضائع نہ کر اور مصافحہ کو مخالفت اور گناہکاروں کے مانند حرام کاری کے ذریعہ نہ توڑ اس کے بعد پوچھا : جب تم مقام ابراھیم (ع)کے نزدیک گئے تو کیا تمھاری نیت یہ تھی کہ خدا کے تمام احکام وفرامین کی پابندی اور ھر معصیت ونافرمانی کی مخالفت کرو گے؟شبلی: نھیں
امام (ع):جب تم نے طواف کی دور کعت نماز ادا کی تو کیا یہ نیت تھی کہ تم نے جناب ابراھیم کے ھمراہ نمازپڑھی ھے اور شیطان کی ناک کو خاک پر رگڑدیاھے ؟شبلی:نھیں۔
امام(ع):پھر درحقیقت نہ تم نے حجر اسود کا مصافحہ کیا نہ مقام ابراھیم کے پاس کھڑےھوئے اور نہ وھاں دورکعت نماز اداکی ۔
ثُمَّ قَالَ(ع):لَہُ ا شَٔرَفْتَ عَلَی بِئْرِ زَمْزَمَ وَ شَرِبْتَ مِنْ مَائِھَا؟ قَالَ:نَعَمْ۔
قَالَ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ ا شَٔرَفْتَ عَلَی الطَّاعَةِ، وَغَضَضْتَ طَرْفَکَ عَنِ الْمَعْصِیَةِقَالَ:لاٰ۔
قَالَ(ع):فَمَا ا شْٔرَفْتَ عَلَیْھَا وَلاٰ شَرِبْتَ مِنْ مَائِھَا۔
پھرامام(ع) نے پوچھا :کیا تم چاہ زمزم پر گئے اور اس کا پانی پیا؟ شبلی :ھاں
امام (ع)نے فرمایا :کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ تم نے خدا کی فرماں برداری حاصل کر لی اور اس کے گناہوںاور معصیت سے آنکھیں بند کر لی ھیں؟شبلی:نھیں
امام (ع)نے فرمایا :پھر درحقیقت نہ تم چاہ زمزم پر گئے اور نہ اس کا پانی پیا ھے ”۔
ثُمَّ قَالَ لَہُ(ع):ا سَٔعَیْتَ بَیْنَ الصَّفَاوَالْمَرْوَةِ وَمَشَیْتَ وَتَرَدَّدْتَ بَیْنَھُمَا؟قَالَ:نَعَمْ۔
قَالَ لَہُ:نَوَیْتَ ا نَّٔکَ بَیْنَ الرَّجَاءِ وَالْخَوْفِ؟ قَالَ:لاٰ۔
قَالَ:فَمَاسَعَیْتَ وَلاٰمَشَیْتَ وَلاٰتَرَدَّدْتَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ۔ ثُمَّ قَالَ:ا خَٔرَجْتَ إِلٰی مِنیٰ؟ قَالَ :نَعَمْ،قَالَ: نَوَیْتَ ا نَّٔکَ آمَنْتَ
النَّاسَ مِنْ لِسَانِکَ وَقَلْبِکَ وَیَدِکَ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَمَا خَرَجْتَ إِلٰی مِنًی۔
ثُمَّ قَالَ:لَہُ ا ؤَقَفْتَ الْوَقْفَةَ بِعَرَفَةَ،وَطَلَعْتَ جَبَلَ الرَّحْمَةِ، وَعَرَفْتَ وَادِیَ نَمِرَةَ،وَدَعَوْتَ اللّٰہَ سُبْحَانَہُ عِنْدَالْمِیْلِ
وَالْجَمَرَاتِ؟قَالَ:نَعَمْ،قَالَ:ھَلْ عَرَفْتَ بِمَوْقِفِکَ بِعَرَفَةَمَعْرِفَةَ اللّٰہِ سُبْحَانَہُ ا مَٔرَ الْمَعَارِف وَالْعُلُومِ وَعَرَفْتَ قَبْضَ اللّٰہِ عَلٰیصَحِیفَتِکَ وَ اطِّلاٰعَہُ عَلَی سَرِیرَ تِکَ وَقَلْبِکَ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ نَوَیْتَ بِطُلُوعِکَ جَبَلَ الرَّحْمَةِ ا نَّٔ اللّٰہَ یَرْحَمُ کُلَّ مُو مْٔنٍ وَ
مُو مْٔنَةٍ وَیَتَوَلَّی کُلَّ مُسْلِمٍ وَمُسْلِمَةٍ؟ قَالَ: لاٰ، قَالَ: فَنَوَیْتَ عِنْدَ نَمِرَةَ ا نَٔکَ لاٰ تَا مُٔرُ حَتَّی تَا تْٔمِرَ،وَلاٰ تَزْجُرُ حَتَّی تَنْزَجِرَ؟
قَالَ: لاٰ، قَالَ:فَعِنْدَمَا وَقَفْتَ عِنْدَ الْعَلَمِ وَالنَّمِرَاتِ، نَوَیْتَ ا نَٔھَا شَاھِدَةٌ لَکَ عَلَی الطَّاعَاتِ حَافِظَةٌ لَکَ مَعَ الْحَفَظَةِبِا مَٔرِ رَبِّ
السَّمَاوَاتِ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَمَا وَقَفْتَ بِعَرَفَةَ،وَلاٰ طَلَعْتَ جَبَلَ الرَّحْمَةِ،وَلاٰ عَرَفْتَ نَمِرَةَ، وَلاٰدَعَوْتَ، وَلاٰ وَقَفْتَ عِنْدَ النَّمِرَاتِ۔
”پھرامام (ع) نے کیا تم نے دریافت کیا، صفاو مروہ کے درمیان سعی انجام دی اور پید ل ان دو پھاڑوں کےدرمیان راہ طے کی ھے ؟ شبلی :ھاں
امام (ع): کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ خوف ورجاء کے درمیان راہ طے کر رھےھو؟شبلی:نھیں
امام (ع):پس تم نے صفاو مروہ کے درمیان سعی نھیں کی پھر فرمایا کیا تم منیٰ کی طرف گئے ؟شبلی:ھاں
امام (ع):کیا تمھاری یہ نیت تھی کہ لوگوں کو اپنی زبان اپنے دل اور اپنے ھاتھوں سے امان میں رکھو؟شبلی:نھیں
امام (ع):پھر تم منیٰ نھیں گئےھو۔ اس کے بعد پوچھا :کیا تم نے عرفات میں وقوف کیا اور جبل رحمت کے
اوپر گئے اور وادی نمرہ کو پہچانااور جمرات کے کنارے خدا سے دعاکی ؟شبلی:ھاں
امام (ع)نے فرمایا:آیا عرفات میں وقوف کے وقت تمھیں معارف و علوم کے ذریعہ الله کی معرفتھوئی اور کیا تم نے جانا کہ الله تمھارے نامہ عٔمل کولے گا اور وہ تمھاری فکر و خیال سے آگاھی رکھتا ھے ؟شبلی:نھیں
امام :کیا جبل رحمت کے اوپر جاتے وقت تمھاری یہ نیت تھی کہ خداوند عالم ھر با ایمان مرد وزن پر رحمت
نازل کرتا ھے اور ھر مسلمان مردوزن کی سرپرستی کرتا ھے ؟شبلی:نھیں
امام :آیا وادی نمرہ میں تم نے یہ خیال کیا کہ کوئی حکم نہ دو جب تکخود فرمانبردار نہھوجاو أور نھی نہ کرو
جب تک خود کو نہ روکو؟ شبلی:نھیں
جب تم نشان اور نمرہ کے نزدیک ٹھھرے تو کیا تمھاری یہ نیت تھی کہ وہ تمھاری عبادات اور طاعت پر گوا ہھوں اور خداوندعالم کے نگھبانوں کے ھمراہ اس کے حکم سے تیری حفاظت کریں؟ شبلی:نھیں
حضرت نے فرمایا:پھر نہ تم عرفات میں ٹھھرے نہ جبل رحمت کے اوپر گئے نہ نمرہ کو پہچانا نہ دعا کی اور نہ نمرہ کے نزدیک وقوف کیاھے۔
ثُمَّ قَالَ:مَرَرْتَ بَیْنَ الْعَلَمَیْنِ،وَصَلَّیْتَ قَبْلَ مُرُورِکَ رَکْعَتَیْنِ،وَمَشَیْتَ بِمُزْدَلِفَةَ، وَل قَطْتَ فِیھَا الْحَصَی،وَمَرَرْتَ بِالْمَشْعَرِ
الْحَرَامِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ :فَحِینَ صَلَّیْتَ رِکْعَتَیْنِ،نَوَیْتَ ا نََّٔھَا صَلاٰةُ شُکْرٍ فِی لَیْلَةِ عَشْرٍ،تَنْفِی کُلَّ عُسْرٍ، وَتُیَسِّرُ کُلَّ یُسْرٍ؟
قَالَ :لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَامَشَیْتَ بَیْنَ الْعَلَمَیْنِ،وَلَمْ تَعْدِلْ عَنْھُمَا یَمِیناً وَشِمَالاً،نَوَیْتَ ا نَْٔ لاٰ تَعْدِلَ عَنْ دِینِ الْحَقِّ یَمِیناً وَشِمَالاً،لاٰ
بِقَلْبِکَ،وَلاٰ بِلِسَانِکَ،وَلاٰبِجَوَارِحِکَ، قَالَ:لاٰ، قَالَ:فَعِنْدَ مَا مَشَیْتَ بِمُزْدَلِفَةَ وَلَقَطْتَ مِنْھَا الْحَصَی،نَوَیْتَ ا نَّٔکَ رَفَعْتَ عَنْکَ
کُلَّ مَعْصِیَةٍ،وَ جَھْلٍ،وَثَبَّتَّ کُلَّ عِلْمٍ وَعَمَلٍ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَا مَرَرْتَ بِالْمَشْعَرِ الْحَرَامِ،نَوَیْتَ ا نَّٔکَ ا شَٔعَرْتَ قَلْبَکَ
إِشْعَارَ ا ۂَلِ التَّقْویٰ وَالْخَوْفَ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ؟ قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَمَا مَرَرْتَ بِالْعَلَمَیْنِ،وَلاٰ صَلَّیْتَ رِکْعَتَیْنِ،وَلاٰ مَشَیْتَ بِالْمُزْدَلِفَةِ،وَلاٰرَفَعْتَ مِنْھَا الْحَصَی،وَلاٰ مَرَرْتَ بِالْمَشْعَرِ الْحَرَامِ۔
پھرامام نے پوچھا کہ کیا تم دونشانوں کے درمیان سے گذرے اور وھاں سے گذرنے سے پھلے دورکعت نمازاداکی اور پیدل مذدلفہ گئے اور وھاں کنکریاں چنیں اور مشعر الحرام سے گذرے؟شبلی:ھاں
امام نے فرمایا:جب دورکعت نماز اداکی تو کیا یہ نیت کی تھی کہ یہ نماز شب دھم کی نماز شکر ھے جو ھرسختی کو دور اور کاموں کو آسان کرتی ھے ؟ شبلی:نھیں
امام :جب تم دو نشانوں کے درمیان سے گذرے اور دائیں اور بائیں منحرف نھیںھوئے تو کیا یہ نیت کی تھی کہدین حق سے دائیں اور بائیں نہ دل سے نہ زبان سے اور نہ اپنے اعضاء بدن سے منحرف نھیں ھوئےھو؟شبلی:نھیں
امام :جب تم مذدلفہ گئے اور وھاں سنگریزے جمع کئے تو کیا یہ نیت کی تھی کہ ھر گناہ اور جھالت کو خودسے دور کیاھے اور ھر علم و نیک عمل کو اپنے آپ میں پائےدار کیا ھے؟شبلی:نھیں
امام :جب تم مشعر الحرام سے گذرے تو کیا یہ نیت کی تھی کہ اپنے دل کو اھل خدا کے تصور اور خدا کے خوف سے آراستہ کرو؟شبلی:نھیں
امام :پھر نہ تم دو پھاڑوں کے درمیان سے گذرےھو، نہ دورکعت نماز ادا کی ھے ،نہ مذدلفہ گئےھو ،نہ سنگریزے چنے ھیں اور نہ مشعر الحرام سے گذرےھو”۔
ثُمَّ قَالَ لَہُ:وَصَلَّتَ مِنٰی،وَرَمَیْتَ الْجَمْرَةَ، وَحَلَقْتَ رَا سْٔکَ، وَذَبَحْتَ ھَدْیَکَ،وَصَلَّیْتَ فِی مَسْجِدِ الْخَیْفِ،وَرَجَعْتَ إِلَی
مَکَّةَ،وَطُفْتَ طَوَافَ الْإِفَاضَةِ؟قَالَ:نَعَمْ،قَالَ:فَنَوَیْتَ عِنْدَ مَا وصَلْتَ مِنًی وَرَمَیْتَ الْجِمَارَ،ا نَّٔکَ بَلَغْتَ إلَی مَطْلَبِکَ،وَقَدْ
قَضَی رَبُّکَ لَکَ کُلَّ حَاجَتِکَ؟قَالَ:لاٰ، قَالَ:فَعِنْدَ مَا رَمَیْتَ الْجِمَارَنَوَیْتَ ا نَّٔکَ رَمَیْتَ عَدُوَّکَ إِبْلِیسَ وَغَضِبْتَہُ بِتَمَامِ
حَجِّکَ النَّفِیسِ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَا حَلَقْتَ رَا سْٔکَ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ تَطَھَّرْتَ مِنَ الْا دَٔنَاسِ، وَمِنْ تَبِعَةِ بَنْی آدمَ،وَخَرَجْتَ مِنَالذَّنُوبِ کَمَا وَلَدَتْکَ ا مُٔکَ؟ قَالَ: لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَا صَلِّیْتَ فِی مَسْجِدِ الْخَیْفِ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ لاٰ تَخَافُ إِلاَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّوَذَنْبَکَ،وَلاٰ تَرْجُو إِلاَّ رَحْمَةَ اللّٰہِ تَعَالیَ؟ قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَا ذَبَحْتَ ھَدْیَکَ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ ذَبَحْتَ حَنْجَرَةَ الطَّمَع بِمَا تَمَسَّکْتَ بِہِ مِنْ حَقِیقَةِالْوَرَعِ،وَا نَّٔکَ اتَّبَعْتَ سُنَّةَ إِبرَاہِیمَ بِذَبْحِ وَلَدِہِ،وَثَمَرَةِ فُو أَدِہِ وَرَیْحَانِ قَلْبِہِ،وَحاَجَّہُ سُنَّتُہُ لِمَنْ بَعْدَہُ،
وَقَرَّبَہُ إِلَی اللّٰہِ تَعَالیٰ؟لِمَنْ خَلْفَہُ قَالَ:لاٰ، قَالَ: فَعِنْدَمَا رَجَعْتَ إِلَی مَکَّةَ وَطُفْتَ طَوَافَ الْإِ فَاضَةِ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ ا فَٔضْتَ مِنْ
رَحْمَةِ ١للّٰہِ تَعَالَی،وَرَجَعْتَ إِلَی طَاعَتِہِ وَتَمَسَّکْتَ بِوُدِّہِ وَا دَّٔیْتَ فَرَائِضہ،وَتَقَرَّبَتَ إِلَی اللّٰہِ تَعَالیٰ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ: لَہُ زَیْنُ
العابدین(ع) فَمَا وَصَلْتَ مِنًی وَلاٰرَمْیَتَ الْجِمَارَ،وَلاٰحَلَقْتَ رَا سْٔکَ، وَلاٰ ا دَّٔیْتَ نُسُکَکَ،وَلاٰ صَلَّیْتَ فِی مَسْجِدِ الْخَیْفِ، وَلاٰ طُفْتَ طَوَافَ الْإِ فَاضَةِ،وَلاٰ تَقَرَّبْتَ۔اْرجِعْ فَإِنَّکَ لَمْ تَحُجَّ۔
”پھر امام (ع)نے پوچھا کیا تم منیٰ پہنچے اور جمرہ کو کنکریاں ماری ،سر کے بال اتارے،اور اپنی قربانی انجام دی؟ نیز مسجد خیف میں نماز ادا کی ، اور مکہ واپس آکر “طواف افاضہ انجام دیا ”؟شبلی:ھاں
امام (ع)نے فرمایا:جب تم منیٰ پہنچے اور رمی جمرات انجام دی تو کیا یہ محسوس کیا کہ تمھاری تمنا پوریھوگئی اور خدا وند عالم نے تمھاری تمام حاجتیں پوری کردیں ؟شبلی:نھیں
امام (ع):جب جمرات کو کنکریاں ماریں تو کیا یہ نیت تھی کہ اپنے دشمن ابلیس کو کنکری ماررھےھواور اپنےقیمتی حج کو مکمل کرنے کے ساتھ تم نے اسے غضب ناک کر دیا ھے؟شبلی:نھیں
امام(ع):جب تم نے اپنے سر کے بال اتارے توکیایہ نیت کی تھی کہ بنی آدم کے گناہوں اور آلودگیوں سے پاکھو گئے اور اپنے گناہوں سے یوںباھر آگئے جیسے تمھیں تمھاری ماں نے ابھی پیدا کیا ھے؟ شبلی:نھیں
امام (ع):جب تم نے مسجد خیف میں نماز ادا کی تو کیا تمھاری یہ نیت تھی کہ خدا ئے متعال اور گناہوں کےعلاوہ کسی چیز سے نھیں ڈرتے اور خدا کی رحمت کے علاوہ کسی اور سے امیدوار نھیں ھو؟شبلی:نھیں
امام(ع):جب تم نے اپنی قربانی کو ذبح کیا تو کیا یہ نیت تھی کہ حقیقی تقویٰ وپرھیز گاری کے ذریعہ تم نے اپنی لالچ کا گلا کاٹ دیا ھے اور جناب ابراھیم (ع)کہ جنھوں نے اپنے میوہ دٔل اور لخت جگر بیٹے کو قربان گاہ میں لا کر خدا سے قرب حاصل کرنے کا ایک وسیلہ اپنے بعد کی نسلوں کے لئے سنت کے طور پر قائم کیا تھا،ان کی پیروی کر رھےھو؟ شبلی: نھیں
امام(ع) :جب تم مکہ واپسھوئے اور “طواف افاضہ” انجام دیاتو کیا یہ نیت کی تھی کہ خدا کی رحمت سے کوچ کر کے اس کی اطاعت کی طرف پلٹ رھےھو،اس کی محبت حاصل کر لی ھے الٰھی واجبات ادا کئے ھیں اور خدا سے نزدیکھو گئےھو؟ شبلی: نھیں
امام :پھر نہ تم منیٰ پہنچے ،نہ شیطانوں کوسنگریزے مارے ھیں،نہ اپنے سر کے بال اتارے ھیں،نہ اپنے حج کے اعمال انجام دیئے ھیں،نہ مسجد خیف میںنماز ادا کی ھے،نہ طواف بجا لائےھواور نہ خدا کے قرب میںپہنچےھوواپس جاو کٔہ تم نے حج انجام نھیں دیا ھے ۔
[ فَطَفِقَ الشِّبْلِیُّ یَبْکِی عَلَی مَافَرَّطَہُ فِی حَجِّہِ،وَمٰا زَالَ یَتَعَلَّمُ حَتَّی حَجَّ مِنْ قَابِلٍ بِمَعْرِفَةٍ وَیَقینٍ۔[ 93
”جنا ب شبلی اس با ت پر بُری طرح رونے لگے کہ جیسا حج کرناچاہئے تھا انجام نھیں دیا اور مناسک حج آگاھی کے ساتھ ادا نھیں کئے آپ اپنی حالت پر شدت سے غم زدہ تھے اور اس کے بعد سے حج کے اسرار ومعارف یاد کرنے میں مشغولھو ئے تاکہ اگلے سال پوری شناخت اور یقین کے ساتھ حج بجالائیں” ۔
ختم قرآن
قَالَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ(ع:(
تَسْبِیحَةٌ بِمَکَّةَ ا فَْٔضَلُ مِنْ خَرَاجِ الْعِرَاقَیْنِ یُنْفَقُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، وَقَالَ:مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ بِمَکَّةَ لَمْ یَمُتْ حَتَّی یَریٰ رَسُولَ اللّٰہِ
[ وَیَریٰ مَنْزِلَہُ فِی الْجَنَّةِ۔[ 94
امام زین العابدین (ع):نے فرمایا:
”مکہ میں سبحان الله کہنے کا ثواب عراق اور شام کے مالیات کو خدا کی راہ میں انفاق کرنے سے بھتر ھے،
نیز فرمایا:جو شخص مکہ میں ایک قرآن ختم کرے وہ اپنی موت سے پھلے حضرت رسول خدا (ص)کی زیارت کر لیتا ھے اور جنت میں اپنی جگہ کا مشاھدہ کر لیتا ھے ”َ
کعبہ سے وداع
عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
[ إِذَا ا رَٔدْتَ ا نَٔ تَخْرُجَ مِنْ مَکَّةَ وَتَا تْٔیَ ا ھَٔلَکَفَوَدِّعِ الْبَیْتَ وَطُفْ بِالْبَیْتِ ا سُٔبُوعاً۔[ 95
معاویہ ابن عمار کھتے ھیں-کہ امام جعفر صادق ں نے فرمایا :
”جب تم مکہ سے نکل کر اپنے گھر والوں کی طرف واپس آنا چاہوتو کعبہ سے وداع کرو اور سات مرتبہ اس کے گرد طواف کرو”۔
قبولیت کی نشانی
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص:(
[ آیَةُ قَبُولِ الْحَجِّ تَرْکُ مَا کَانَ عَلَیْہِ الْعَبْدُ مُقِیماً مِنَ الذُّنُوبِ۔[ 96
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”حج کے قبولیت کی نشانی یہ ھے کہ جو گناہ بندہ پھلے انجام دیتا تھا اسے ترک کردے ”۔
حج کی نورانیت
عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰہِ(ع)قَالَ:
[ الْحَاجُّ لاٰ یَزَالُ عَلَیْہِ نُورُ الْحَجِّ مَا لَمْ یُلِمَّ بِذَنْبٍ۔[ 97
امام جعفرصادق (ع)فرمایا:
”حج کرنے والا جب تک اپنے آپ کو گناہ سے آلودہ نہ کرے ، حج کا نورھمیشہ اس کے ساتھ رھتاھے”۔
دوبارہ آنے کی نیت
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص:(
[ مَنْ ا رَٔادَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةَ فَلْیَو مَُّٔ ھَذَا الْبَیْتَ،وَ مَنْ رَجَعَ مِنْ مَکَّةَ وَھُوَ یَنْوِی الْحَجَّ مِنْ قَابِلٍ زِیدَ فِی عُمُرِہِ۔[ 98
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جو شخص دنیا وآخرت چاھتا ھے وہ اس گھر کی طرف آنے کا قصد کرے اور جو شخص مکہ سے واپس ھو اوریہ نیت رکھے کہ اگلے سال بھی حج سے مشرفھوگا تو اس کی عمر میں اضافہ ھوتا ھے ’ ’ ۔
حج کی تکمیل
قالَ الصادِقُ(ع:(
”اِذاحَجَّ اَحَدُکُمْ فَلْیَخْتِمْ حَجَّہُ بِزِیارَتِنَا لِا نَّٔ ذٰلِکَ مِنْ تَمامِ الحَجِّ”۔[ 99
امام جعفر صادق (ع) اسماعیل ابن مھران سے فرماتے ھیں:
”جب بھی تم میں سے کوئی شخص حج انجام دے اسے چاہئے کہ اپنے حج کو ھماری زیارت پر تمام کرےکیونکہ یہ حج کے کاملھونے کی شرطوں میں سے ھے ”۔
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم کی زیارت
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص:(
[ مَنْ حَجَّ فَزٰارَ قَبْری بَعْدَ مَوْتی کَانَ کَمَنْ زٰارَنی فی حَیٰاتِی۔[ 100
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جس نے حج کیا اور میری موت کے بعد میری زیارت کی وہ اس شخصکے مانند ھے جس نے میری زندگی میں میر ی زیارت کی ھے”۔
پیغمبر (ص)کے ساتھ حج
”عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰہِ(ع) قَالَ:
[ إِنَّ زِیٰارَةَ قَبْرِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی الله علیہ و آلہ و سلم تَعْدِلُ حَجَّةً مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ مَبْرُورَةً۔[ 101
امام محمد باقر(ع) فرماتے ھیں:
”بلا شبہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم کے قبر کی زیارت (کاثواب (آنحضرت(ص) کے ساتھ کئے جانےوالے ایک مقبول حج کے برابر ھے ”۔
عاشقانہ زیارت
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص:(
مَنْ جٰاءَ نی زٰائِراً لایَعْمَلُہُ حٰاجَةً اِلاّٰ زِیٰارَتی، کَانَ حَقّاً عَلَیَّ اَنْ اَکُونَ لَہُ شَفیعاً یَوْمَ الْقِیٰامَةِ۔[ 102
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جو شخص میری زیارت کو آئے اور میری زیارت کے علاوہ کوئی اور کا م نہ کرے تو مجھ پر یہ حق ھےکہ میں روز قیامت اس کی شفاعت کروں” ۔
فرشتو(ع) کی ماموریت
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص:(
خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالیٰ لَیْ مَلَکَیْنِ یَرُدَّانِ السَّلاٰمَ عَلٰی مَنْ سَلَّمَ عَلَیَّ مِنْ شَرْقِ البِلاٰدِ وَغَرْبِھٰا،اِلاّٰ مَنْ سَلَّمَ:
عَلَیَّ فی دٰاری فَاِنّی اَرُدُّ عَلَیْہِ السَّلاٰمَ بِنَفْسی۔[ 103
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”خدا وند عالم نے میرے لئے دو فرشتے خلق فرمائے ھیں کہ جو شخص بھی مشرق ومغرب میں مجھے سلامکرتا ھے اور مجھ پر درود بھیجتا ھے وہ اس کا جواب دیتے ھیں مگر جو شخص میرے گھر آتا ھے اور مجھے سلام کرتا ھے تو میں خودا س کے سلام کا جواب دیتاھو ں ”۔
مسجد النبی میں نماز
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص:(
صَلاٰةٌ فِی مَسْجِدِی ھَذَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰہِ عَشَرَةَ آلاٰ فِ صَلاٰةٍ فِیغَیْرِہِ مِنَ الْمَسَاجِدِإِلاَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ فَإِنَّ الصَّلاٰةَ فِیہِ تَعْدِلُ مِائَةَ ا لَٔفِ صَلاٰةٍ۔[ 104
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”میری مسجد میں نماز دوسری مسجدوں میں پڑھی جانے والی دس ہزار نمازوں کے برابر ھے سوائے مسجدالحرام کے کہ
اس میں پڑھی جانے والے نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ھے ”۔
جنت کا باغ
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص:(
مَا بَیْنَ قَبْرِی وَمِنْبَرِی رَوْضَةٌ مِنْ رِیَاضِالْجَنَّةِ،وَمِنْبَرِی عَلَی تُرْعَةٍ مِنْ تُرَعِ الْجَنَّةِ ۔[ 105
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”میری قبر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ھے اور میرا منبر جنت کے دریچوں میں سے ایک دریچہ کے اوپر ھے ”۔
حضرت فاطمہ (ع)پرسلام
یزید ابن عبد الملک نے اپنے باپ سے سنا کہ اس کے دادا کھتے تھے کہ میں حضرت فاطمہ زھرا (ع) کی خدمت میں حاضرھواآپ (ع)نے مجھے سلام کیا اور اس کے بعد دریافت کیاکہ تم کس لئے یھاں آئےھو؟میں نے عرضکی،برکت کی درخواست کرنے ۔
قَالَتْ:ا خَٔبَرَنِی ا بَٔی وَھُوَ ذَا ھُوَ ا نَّٔہُ مَنْ سَلَّمَ عَلَیْہِ وَعَلَیَّ ثَلاٰثَہَ ا یَّٔامٍ ا ؤَجَبَ اللّٰہُ لَہُ الْجَنَّةَ۔
حضرت فاطمہ سلام الله علیھا نے فرمایا:
”میرے بابا نے مجھے خبر دی ھے کہ :جوشخص ان(ص)پر اور مجھ پرتین روز سلام کرے خدا وند عالم اس پر جنت واجب کردیتا ھے ”۔
[ قُلْتُ لَھَا:فِی حَیَاتِہِ وَحَیَاتِکِ قَالَتْ نَعَمْ وَ بَعْدَ مَوْتِنَا۔[ 106
”میں نے حضرت (ع)سے پوچھا :ان کی اورآپ (ع) کی حیات میں ؟ فرمایا: ھاں اور ھماری موت کے بعد بھی
”۔
ائمہ (ع)پر سلام
قَالَ ا بَٔو جَعْفَرٍ(ع)،وَنَظَرَ النَّاسَ فِی الطَّوَافِ قَالَ:
ا مُٔرُوا ا نَٔ یَطُوفُوا بِھَذَا ثُمَّ یَا تُْٔونَافَیُعَرِّفوُنَا مَوَدَّتَھُمْ ثُمَّ یَعْرِضُوا عَلَیْنَا نَصْرَھُمْ”۔[ 107
امام محمد باقر (ع) نے،اس وقت جب کہ آپ لوگوں کوطواف کرتےھوئے دیکھ رھے تھے فرمایا:
”ان کو حکم دیا گیا ھے کہ یھاں (کعبہ کے گرد)طواف کریں اور اس کے بعد ھمارے پاس آئیں اور اپنی دوستی اور محبت و نصرت ومدد کا ھم سے اظھارکریں اوراسے ھمارے سامنے پیش کریں ”۔
شھیدوں پر سلام
عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
إِنَّ فَاطِمَةَ علیھا السلام کَانَتْ تَا تْٔی قُبُورَ الشُّھَدَاءِ فِی کُلِّ غَدَا__________ةِ سَبْتٍ فَتَا تْٔی قَبْرَ حَمْزَةَ وَ تَتَرَحَّمُ عَلَیْہِ وَتَسْتَغْفِرُ
[ لَہُ۔[ 108
امام جعفرصادق (ع)نے فرمایا:
”حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا:ھر سنیچر کی صبح کوشھیدا کی قبروں پر آتیں پھر جناب حمزہ کی قبر پرآتی تھیں اور ان کے لئے رحمت وبخشش کی دعا کر تی تھیں ” ۔
ائمہ (ع)کی زیارت
قَال الرضا(ع:(
إِنَّ لِکُلِّ اِمامٍ عَہْداً فی عُنُقِ اَوْلِیائِہِ وَشِیعَتِہِ
وَاِنَّ مِنْ تَمامِ الوَفاءِ بالعَھْدِ وَحُسْنِ الا دٔءِ زِیارَةُ قُبُورِھِمْ فَمَنْ زارَھُم رَغْبَةً فی زیارَتِھِمْ وَ تَصْدیقاً بِما رَغبوا فیہِ کانَ ائَٔمَّتُھُم شُفَعائَھُمْ یَوْمَ الْقِیامَةِ۔[ 109
امام علی رضا (ع) نے فرمایا:
”ھر امام (ع)کاعھدان کے دوستوں اور چاہنے والوں کی گردن پر ھے کہ اس عھد کی مکمل وفا ان کی قبروںکی زیارت ھے پس جو شخصعشق و محبت کے ساتھ اور اس کی تصدیق کے ساتھ جس کی طرف وہ رغبتکرتے ھیں ان کی قبروں کی زیارت کرے تو ان کے ائمہ (ع)بھی قیامت میں اپنے ان زائروں کی شفاعت کریں گے ”۔
مسجد قبا میں نماز
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی الله علیہ و آلہ و سلم:
[ الصَّلاٰةُ فی مَسْجِدِ قُبٰاءَ کَعُمْرَةٍ۔[ 110
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”مسجد قبامیں نماز پڑھنا ایک عمرہ انجام دینے کے مانند ھے ”۔
دوسرے ممالک کے مسلمانوں سے سلو ک
زَیْدٌ الشَّحَّامُ عَنِ الصَّادِق(ع)،ا نَّٔہُ قَالَ:“یَا زَیْدُ خَالِقُوا النَّاسَ بِا خَٔلاٰقِھِمْ صَلُّوافِی مَسَاجِدِ ھِمْ وَعُودُوا مَرْضَاھُمْ وَاشْھَدُواجَنَائِزَ ھُمْ وَإِنْ اسْتَطَعْتُمْ ا نَٔ تَکُونُوا الْا ئَٔمَّةَ وَالمُو ذَّٔنِینَ فَافْعَلُوا فَإِنَّکُمْ إِذَا فَعَلْتُمْ ذٰلِکَ قَالُوا ھَو لُٔاٰءِ الْجَعْفَرِیَّةُ رَحِمَ اللّٰہُجَعْفَراً مَا کَانَ ا حَٔسَنَ مَا یُو دَّٔبُ اصَٔحَابَہُ وَإِذَا تَرَکْتُمْ ذٰلِکَ قَالُوا ھَو لُٔاٰءِ الْجَعْفَرِیَّةُ فَعَلَ اللّٰہُ بِجَعْفَرٍ مَاکاَنَ ا سَْٔوَأَ
[ مَایُو دَّٔبُ اصَٔحَابَہُ۔[ 111
”امام جعفر صادق (ع)نے زید شحّام سے فرمایا :اے زید!خود کو لوگوں کے اخلاق سے ھماہنگ کرو ،ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو،ان کی مسجد وں میں نماز اداکرو،ان کے پیماروں کی عیا دت کرو،ان کے جنازوں کی تشییع میں حاضرھو،اور اگربن سکو تو ان کے امام جماعت یا موذن بنو۔ کیونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو وہ لوگ یہ کھیں گے کہ یہ لوگ جعفری(حضرت جعفر بن محمد علیھما السلام کی پیروی کرنے والے )ھیں خدا وند عالم
جعفر (ره) پر رحمت نازل فرمائے اس نے ان لوگوں کی کیا اچھی تربیت کی ھے اور اگر ایسا نہ کروگے تو وہ لوگ کھیں گے کہ یہ جعفری ھیں ،خداوند عالم جعفر (ره)کے ساتھ ایسا ویسا کرے اس نے اپنے ماننے والوں کی کیا بُری تربیت کی ھے!!”۔
حاجیوں کا استقبال
عَنْ ا بِٔی عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
”کَانَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ(ع) یَقُولُ:یَا مَعْشَرَ مَنْ لَمْ یَحُجَّ اسْتَبْشِرُوا بِالْحَاجِّ وَصَافِحُوھُمْ وَ عَظِّمُوھُمْ فَإِنَّ ذَلِکَ یَجِبُ عَلَیْکُمْ تُشَارِکُو ہُمْ فِی الْا جَٔرِ”۔[ 112
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”حضرت علی بن الحسین علیھما السلام ھمیشہ فرماتے تھے اے لوگو!جو حج پر نھیں گئےھو حاجیوں کےاستقبال کے لئے جاو ،ٔ ان سے مصافحہ کرو،اور ان کا حترام کرو کہ یہ تم پر واجب ھے اس طرح تم ان کے ثواب میں شریک ھوگے ”۔
حاجیوں کے اھل خانہ کی مدد کا ثواب
قَالَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ(ع):مَنْ خَلَفَ حَاجّاً
[ فِی ا ھَٔلِہِ وَمَالِہِ کاَنَ لَہُ کَا جَٔرِہِ حَتَّی کَا نَّٔہُ یَسْتَلِمُ الْا حَٔجَارَ۔[ 113
امام زین العابدین (ع) نے فرمایا:
”جو شخص حاجی کی عدم موجودگی میں اس کے اھل خانہ اور اس کے مال کی دیکھ بھال کرے تو اس کا ثواب اسی حاجی کے ثواب کے مانند ھے یھاں تک کہ گویا اس نے کعبہ کے پتھروں کو بوسہ دیا ھے ”۔
مبارک ھو
عَنْ یَحْیَی بْنَ یَسَارٍ قَالَ:حَجَجْنَا فَمَرَرْنَا بِا بَِٔی عَبْدِ اللّٰہِ(ع) فَقَالَ:
[ ”حَاجُّ بَیْتِ اللّٰہِ وَزُوَّارُ قَبْرِ نَبِیِّةِ صلی الله علیہ و آلہ و سلم وَشِیعَةُ آلِ مُحَمَّدٍ(ع) ھَنِیئاً لَکُمْ۔[ 114
یحییٰ بن یسار کھتے ھیں:
”ھم نے حج انجام دینے کے بعد امام جعفر صادق (ع) سے ملاقات کی، حضرت نے فرمایا:الله کے گھر کے حاجی قبر پیغمبر (ص) کے زائر اور شیعہ أٓل محمد(ص)(ھونا تمھیں )مبارک ھو”۔
١۔ / ٩۔تفسیر قمی: ۶٢ / 81 ]مستدرک الوسائل : ٣٢٣ ]
١۔ / 82 ]اخبار مکہ ارزقی: ٣٣٨ ]
۴۔ /۴٣۴/ 83 ]کافی: ٣ ]
٢١۶٨ ۔ /٢/ 84 ]من لایحضرہ الفقیہ: ٢٠٨ ]
١٣/ 85 ]علل الشریع: ۴٣٢ ۔وسائل الشیعہ: ۴۵٠ ]
٢۔ /۴١٧/ 86 ]من لایحضرہ الفقیہ: ٢٨۵۴ ]
٢۔ /۶٩٢/ 87 ]مسنداحمد حنبل : ٧١١١ ]
١١ ۔ /۴۵/ 88 ]معجم الکبیر طبرانی: ١١٠٢١ ]
۴۔ /٢۶٢/ 89 ]کافی: ۴٢ ]
٢۔ / ١۔کنز الفوائد : ٨٢ / 90 ]علل الشرایع: ۴٣٧ ]
١۴ ۔ / 91 ]وسائل الشیعہ: ١۶۶ ]
۵۔ /٢۴٣/ 92 ]تھذیب الاحکام : ٨٢٣ ]
١٠ ۔ / 93 ]مستدرک الوسائل : ١۶۶ ]
۵۔ /۴۶٨/ 94 ]تھذیب الاحکام: ١۶۴٠ ]
۵٣٠ ۔ /١/ 95 ]کافی: ۴ ]
١٠ ۔ / 96 ]مستدرک الوسائل: ١۶۵ ]
۴۔ /٢۵۵/ 97 ]کافی: ١١ ]
٢۔ /١۴١/ 98 ]من لایحضرہ الفقیہ: ۶۴ ]
١۔ / 99 ]علل الشرایع: ۴۵٩ ]
٣۔ /٣۵١/ 100 ]معجم الاوسط طبرانی: ٣٣٧۶ ]
١۴ ۔کامل الزیارات: ۴٧ ۔ / 101 ]وسائل الشیعہ: ٣٣۵ ]
١٢ ۔ /٢٢۵/ 102 ]معجم الکبیر طبرانی: ١٣١۴٩ ]
١٢ ۔ /٢۵۶/ 103 ]کنز العمال: ٣۴٩٢٩ ]
١۔ / ۴ - ،ثواب الاعما- ل ۵٠ /۵۵۶/ 104 ]کافی: ١١ ]
۴۔ /۵۵۴/ 105 ]کافی: ٣ ]
۶۔ /٩/ 106 ]تھذیب الاحکام: ١٨ ]
١٠ ۔ / 107 ]مستدر ک الوسائل : ١٨٩ ]
١۔ /۴۶۵/ 108 ]تھذیب الاحکام: ١۶٨ ]
۴۔ / 109 ]کافی: ۵۶٧ ]
٢ا/ ٣٢۴ ۔ / 110 ]سنن ترمذی: ۴۵ ]
١۔ / ٢ -، من لایحضرہ الفقیہ: ٣٨٣ / 111 ]وافی: ١٨٢ ]
۴۔ /٢۶۴/ 112 ]کافی: ۴٨ ]
١١ ۔ / ١، -وسائل الشیعہ : ۴٣٠ /١۴٧/ 113 ]محاسن : ٢٠۶ ]
۴۔ / 114 ]کافی: ۵۴٩ ]