Super User

Super User

تحریک منہاج القرآن کے صدر شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے دہشتگردوں کو انسانیت کا بدترین دشمن بتایا ۔

رسا نیوزایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ، تحریک منہاج القرآن کے صدر طاہر القادری نے اپنے ایک بیان میں لنڈی کوتل پاکستان میں ہونے والے بم دھماکہ پر اظھار افسوس کرتے ہوئے کہا : اسلام میں انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ۔

انہوں نے لنڈی کوتل کے بم دھماکے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا تاکید کی : دہشتگردوں کا تعلق کسی مذھب سے نہیں ہوتا وہ انسانیت کے بدترین دشمن ہیں اور ایسے عناصر انسانیت کے قاتل ہوتے ہیں ۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ انتہا پسندی کی آگ میں جھلس رہا ہے اور اسکے خاتمے کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جارہی ہے کہا : حکومت ہاتھوں سے مصلحت کے دستانے اتارنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے، ایسے واقعات کا تسلسل صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی کھلی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔

انہوں نے اخر میں شہیدوں کے لئے دعائے مغفرت اوران کے لواحقین کے ساتھ اظہار ہمدردی کی ۔

رہبر انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینی رہ اس صدی کے عظیم مفکر اور اسلامی معاشرے کی برجستہ علمی و انقلابی شخصیت ہیں۔ آپ نے علم و شعور اور عمل و کردار کے ذریعے مسلمانوں کی رہنمائی کرکے پیغمبرانہ فریضہ انجام دیا اور عوام کو اسلامی انقلاب کے ذریعہ اسلام کی صحیح اور آئیڈیل تصویر دکھائی۔ امام خمینی رہ نے اپنی ذاتی زندگی قرآن کریم کے فیضان، سیرت النبی ص سے الہام اور اہل بیت ع سے وابستگی کے ساتھ بسر کی، جبکہ اپنی اجتماعی زندگی میں بھی انہوں نے قرآن وسنت اور اہل بیت اطہار ع کی سیرت کے عملی پہلوؤں سے استفادہ کیا اور عوام کو اپنے ذاتی و اجتماعی مسائل کے حل کی طرف متوجہ کیا۔

امام خمینی رہ جیسی نابغہ روزگار شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔ امام خمینی رہ دنیائے اسلام کی ایسی معتبر اور ارفع شخصیت ہیں جو علمی اور تحقیقی میدان میں سرکردہ حیثیت کی حامل ہیں اور عملی میدان میں بھی کامل رہبری و رہنمائی کا بہترین اور مثالی عملی نمونہ ہیں۔ ایسی ہمہ جہت شخصیات ہی وقت کے دھارے اور عوام کی تقدیر بدلتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ امام خمینی رہ نے اپنے اعلٰی و ارفع کردار سے تمام میدانوں میں عوام کی رہنمائی کی اور انہیں اسلامی انقلاب کے ذریعے جدید اسلامی ایران عطا کیا۔

امام خمینی رہ کی شخصیت میں بلاشبہ انبیاء ع کے اوصاف اور آئمہ کے کردار کی جھلک نظر آتی ہے۔ آپ نے ذاتی و اجتماعی زندگی میں انبیاء و مرسلین اور آئمہ معصومین ع کی جدوجہد سے الہام لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی زیر قیادت رونما ہونے والے انقلاب میں معاشرے کے تمام طبقات بلاتفریق شامل اور شریک تھے۔ اور جب انقلاب برپا ہوگیا تو ریاست کے تمام طبقات پر ثابت ہوگیا کہ امام خمینی رہ کی شخصیت فقط مذہبی، مکتبی، مسلکی یا جذباتی نہیں بلکہ نظریاتی، سیاسی، اجتماعی اور عالمی حیثیت کی حامل ہے۔ امام خمینی رہ کی اعلٰی اور دور اندیش قیادت کا اثر ہے کہ انقلاب ایران آج تک اپنی توانائی کے ساتھ موجود اور جاری ہے۔ حالانکہ دنیا کے دیگر انقلابات اپنی کمزور یا جذباتی قیادت یا عارضی ایشوز کی وجہ سے زوال کا شکار ہوتے چلے آئے ہیں۔ اسی صدی میں رونما ہونے والے انقلابات اور ان کی قیادتوں کا ماضی اور مستقبل ہمارے سامنے ہے۔

امام خمینی رہ اسلامی معاشروں میں فکری و عملی بیداری کا اس کے تمام پہلوؤں کے ساتھ ایک جامع اور کامل تصور رکھتے تھے۔ ہم ان کے خطابات میں اور ان کے تحریری شہ پاروں میں ان کے انقلابی منصوبوں کا بخوبی مطالعہ کرسکتے ہیں، جس میں انسان ایک طرف مشکلات کی گہرائیوں میں اترنے اور دوسری طرف ان مشکلات کے حل کی راہوں کو محسوس کرتا ہے۔ امام خمینی رہ نے اپنے سیاسی تجربے کی روشنی میں ایسی پالیسیاں تشکیل دیں جن سے ایک طرف ایرانی عوام کے افکار و نظریات اور عمل پر گہرے اثرات مرتب ہوتے تھے تو دوسری طرف شہنشاہی اور استبدادی نظام بھی ان پالیسیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ پالیسیوں کا یہ تسلسل انقلاب کے بعد بھی جاری رہا کہ جب بھی آپ کسی پالیسی کا اعلان فرماتے یا اجراء فرماتے تو اس کے اثرات جہاں ایران کے داخلی حالات پر پڑتے وہاں عالمی سطح پر بھی ایران کی عزت، مقام اور طاقت میں اضافے کا باعث بنتے۔

امام خمینی رہ کا انداز قیادت شہید کربلا حضرت امام حسین ع کے انداز کی طرح کا تھا۔ آپ نے عوام کی شعور اور علم کے ساتھ رہنمائی کی۔ جبر، جذبات یا مجبوری کو آپ نے اپنی کسی پالیسی یا اقدام میں شامل نہیں کیا، بلکہ اصول اور شعور کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں تشکیل دیں اور پھر جب انہی پالیسیوں کے اجراء اور منزل کے حصول کے لئے قربانیاں دینے کا مرحلہ درپیش آیا تو جانثاران کربلا کی طرح قربانی کے جذبے سے سرشار ہو کر ہزاروں جانیں قربان کر دیں۔ لیکن انقلاب کے لئے ڈالی گئی بنیاد کو کمزور نہیں ہونے دیا بلکہ علماء، شخصیات، سیاسی قائدین و کارکنان کی قربانیاں انقلاب کا زینہ ثابت ہوئیں اور انقلاب کی تقویت و استحکام کا باعث بنیں۔

امام خمینی رہ نے بظاہر صرف ایران کے عوام کی قیادت کرکے انہیں ایک عظیم اسلامی مملکت اور ایک عظیم اسلامی نظام کا تحفہ دیا، لیکن دراصل آپ فقط ایران نہیں بلکہ عالم اسلام کے رہبر و رہنما تھے کیونکہ آپ نے جن خطوط پر اپنی جدوجہد کی بنیاد رکھی وہ مقامی سے زیادہ عالمی نوعیت کے تھے۔ آپ نے جن طاقتوں کو ایران کا دشمن قرار دیا وہی طاقتیں دراصل اسلام اور مسلمین کی دشمن تھیں اور ان سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرنا یقیناً ایک عظیم ذمہ داری تھی، جو امام خمینی رہ نے بخوبی ادا کی اور پورے عالم اسلام کو استعمار اور استبداد کی اسلام دشمن پالیسیوں اور اقدامات سے آگاہ کیا اور دیگر اسلامی ممالک کے باشعور اور باضمیر عوام کو متوجہ کیا کہ وہ ایرانی عوام کی اعلی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اپنے ملک میں جدوجہد کی آغاز کریں اور پھر دنیا نے دیکھا کہ آپ کی قیادت نے بہت سارے اسلامی ممالک پر اثرات مرتب کئے اور وہاں اسلامی تحریکوں نے تقویت حاصل کی اور آج جن جن ممالک میں اسلام اور جمہوریت پسند یا استعمار و استکبار مخالف قوتیں سرگرم ہیں، وہ امام خمینی رہ کی شخصیت اور قیادت سے رہنمائی لے کر آگے بڑھ رہی ہیں۔

امام خمینی رہ کی اجتماعی شخصیت کا سب سے طاقتور اور اہم پہلو ان کا اتحاد بین المسلمین کا نظریہ تھا، یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ امام خمینی رہ سے قبل کسی شخصیت نے اس انداز میں عالمی سطح پر مسلمانوں کو متحد ہونے اور وحدت کے ساتھ اسلام دشمن طاقتوں کا مقابلہ کرنے کی دعوت اور رغبت نہیں دی۔ امام خمینی رہ کو امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے فقط لفظی نہیں بلکہ عملی طور پر وحدت کو قائم کیا اور مسلمانوں کو وحدت کے نئے انداز اور نئے جذبے دیئے۔ آج امام کے وحدت کے نظریے کا اثر ہے کہ دنیا بھر کے تمام اسلامی ممالک اور اسلامی تحریکیں اسلامی جمہوریہ ایران سے والہانہ عقیدت رکھتی ہیں۔

ہم بھی امام خمینی رہ کے اسی نظریے کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان میں اتحاد و وحدت کے لئے تصوراتی نہیں بلکہ عملی میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ ملی یکجہتی کونسل سے لے کر متحدہ مجلس عمل تک کا وجود ہم نے امام خمینی رہ کے نظریات اور تصورات کی روشنی میں تشکیل دیا۔ جس کے اثرات یقیناً مثبت اور تعمیری انداز میں مرتب ہوئے ہیں۔

امام خمینی رہ کی شخصیت فقط اسلام کے ایک جید عالم دین، مجتہد یا مذہبی و روحانی قائد کی نہیں اور نہ ہی آپ کی نظر یا مشاہدہ و مطالعہ علوم اسلامی تک محدود تھا بلکہ آپ اپنے وقت کے تمام سیاسی نظاموں، نظام ہائے حکومت و مملکت اور عالمی سطح پر رونما ہونے والے انقلابات اور تبدیلیوں سے آگاہ و باخبر تھے۔ حتٰی کہ ان میں موجود نقائص و نقصانات اور انداز نفاذ پر گہری نظر رکھ کر اس کی نشاندہی فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے سوشلزم، کمیونزم، بادشاہت، آمریت اور نام نہاد جمہوریت کو متعدد بار چیلنج کیا اور ان نظاموں کی ناکامیوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اسلام کے اعلٰی سیاسی و دینی نظام حکومت و نظام زندگی کی برتری اور فضیلت و اہمیت کو ثابت کیا۔

روس کے صدر کے نام آپ کا معروف زمانہ خط تو آج تاریخ کا ایک یادگار حصہ بن چکا ہے کہ جس میں آپ نے کمیونزم کی دیوار گرنے کی سچی پیشن گوئی فرمائی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ روس کی شکست و ریخت اسی نظام کی وجہ سے ہوئی۔ عراق کی آمر قیادت کے بارے میں بھی امام خمینی رہ کے ارشادات سماعتوں میں ابھی تک گونج رہے ہیں۔ اس آمریت کا حشر بھی آج سب کے سامنے ہے۔

امام خمینی رہ کو ایک اور امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ انہوں نے اقتدار اعلٰی کا محور و مرکز صرف خدا تعالٰی کی ذات کو قرار دینے کا نظریہ متعارف کرایا اور دنیا بھر میں سپر پاورز کی دعویدار طاقتوں اور ملکوں کے نظریے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے ’’سپر طاقت ہے خدا۔۔۔لاالہ الا اللہ ‘‘ کا ایسا نظریہ عطا کیا جو اس سے قبل عالمی سطح پر نہیں دیا گیا تھا۔ امام کی رحلت کے بعد بھی نام نہاد سپر طاقتوں کے مقابل صف آراء ہونے والی تمام مسلمان طاقتوں نے اس نظریے اور نعرے سے حوصلہ لے کر اپنی جدوجہد کی۔ امام امت کی ہمہ گیر شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ ان پر مختصر گفتگو یا تبصرہ کرنے کے لئے ایک دفتر درکار ہے۔

کسی شخصیت کے کردار پر روشنی ڈالنے کا مقصد محض اس شخصیت کے فضائل و مناقب بیان کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس شخصیت کے عمل و کردار کو یاد کرکے اپنے وقت اور معاشرے کی تعمیر اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کو منظم کرنا ہوتا ہے۔ لہذا امام خمینی رہ کے ساتھ عقیدت اور وابستگی کا حقیقی اور عملی تقاضا یہی ہے کہ ہم ان کی عظیم اور آفاقی تعلیمات پر خصوصی توجہ دیں۔ اپنی ذات سے لے کر اپنے معاشرے تک انقلاب برپا کرنے کے لئے امام خمینی رہ کی ذات سے استفادہ کریں۔ امام خمینی رہ کی خدمات کا بہترین صلہ یہی ہوگا کہ ان کے علمی اور نظریاتی افکار کی ترویج کے ساتھ ان کے سب سے بڑے اثاثے یعنی ’’اسلامی انقلاب‘‘ کو اصل حالت میں محفوظ رکھ کر آگے بڑھایا جائے۔

Wednesday, 20 June 2012 05:02

نيابتى حج

تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف)

نائب و منوب عنہ كى شرائط كو بيان كرنے سے پہلے حج كى وصيت اور اس كيلئے نائب بنانے كے بعض موارد اور ان كے احكام كو ذكر كرتے ہيں _

مسئلہ 40_ جس پر حج مستقر ہو جائے پھر وہ بوڑھا ہے يا بيمارى كى وجہ سے حج پر جانے سے عاجر ہو يا اس كيلئے حج پر جانے ميں عسر و حرج ہو اور بغير حرج كے قادر ہونے سے مايوس ہو حتى كہ آئندہ سالوں ميں بھى تو اس پر نائب بنانا واجب ہے ليكن جس پر حج مستقر نہ ہوا تو اس پر نائب بنانا واجب نہيں ہے _

مسئلہ 41_ نائب جب حج كو انجام دے دے تو منوب عنہ كہ جو حج كو انجام دينے سے معذور تھا اس سے حج كا وجوب ساقط ہو جائيگا اور اس پر دوبارہ حج بجا لانا واجب نہيں ہے اگرچہ نائب كے انجام دينے كے بعد اس كا عذر ختم بھى ہو جائے ۔ ہاں اگر نائب كے عمل كے دوران ميں اس كا عذر ختم ہو جائے تو پھر منوب عنہ پر حج كا اعادہ كرنا واجب ہے اور ايسى حالت ميں اس كيلئے نائب كا حج كافى نہيں ہے _

مسئلہ 42_ جس شخص پر حج مستقر ہے اگر وہ راستے ميں فوت ہو جائے تو اگر وہ احرام اور حرم ميں داخل ہونے كے بعد فوت ہو تو يہ حجة الاسلام سے كافى ہے اور اگر احرام سے پہلے فوت ہو جائے تو اس كيلئے يہ كافى نہيں ہے اور اگر احرام كے بعد ليكن حرم ميں داخل ہونے سے پہلے فوت ہو تو احوط وجوبى كى بنا پريہ كافى نہيں ہے _

مسئلہ 43_ جو شخص فوت ہو جائے اور اسكے ذمے ميں حج مستقر ہو چكا ہو تو اگر اس كا اتنا تركہ ہو جو حج كيلئے كافى ہو اگرچہ ميقات سے ، تو اس كى طرف سے اصل تركہ سے حج كيلئے نائب بنانا واجب ہے مگر يہ كہ اس نے تركہ كے تيسرے حصے سے مخارج حج نكالنے كى وصيت كى ہو تو يہ اسى تيسرے حصے سے نكالے جائيں گے اور يہ مستحب وصيت پر مقدم ہوں گے اور اگر يہ تيسرا حصہ كافى نہ ہو تو باقى كو اصل تركہ سے ليا جائيگا_

مسئلہ 44_ جن موارد ميں نائب بنانا مشروع ہے ان ميں يہ كام فوراً واجب ہے چاہے يہ نيابت زندہ كى طرف سے ہو يا مردہ كى طرف سے _

مسئلہ 45_ زندہ شخص پر شہر سے نائب بنانا واجب نہيں ہے بلكہ ميقات سے نائب بنا دينا كافى ہے اگر ميقات سے نائب بنانا ممكن ہو ورنہ اپنے وطن يا كسى دوسرے شہر سے اپنے حج كيلئے نائب بنائے اسى طرح وہ ميت كہ جسكے ذمے ميں حج مستقر ہو چكا ہے تو اسكى طرف سے ميقات سے حج كافى ہے اور اگر نائب بنانا ممكن نہ ہو مگر ميت كے وطن سے يا كسى دوسرے شہر سے تو يہ واجب ہے اور حج كے مخارج اصل تركہ سے نكالے جائيں گے ہاں اگر اس نے اپنے شہر سے حج كرانے كى وصيت كى ہو تو وصيت كو نافذ كرنا واجب ہے اور ميقات كى اجرت سے زائد كو تركہ كے تيسرے حصے سے نكالا جائيگا _

مسئلہ 46_ اگر وصيت كرے كہ اسكى طرف سے استحباباً حج انجام ديا جائے تو اسكے اخراجات تركہ كے تيسرے حصے سے نكالے جائيں گے _

مسئلہ 47_ جب ورثاء يا وصى كو ميت پر حج كے مستقر ہونے كا علم ہو جائے اور اسكے ادا كرنے ميں شك ہو تو ميت كى طرف سے نائب بنانا واجب ہے ليكن اگر استقرار كا علم نہ ہو اور اس نے اسكى وصيت بھى نہ كى ہو تو ان پر كوئي شے واجب نہيں ہے _

نائب كى شرائط :

1- بلوغ ، احوط كى بنا پر ،پس نابالغ كا حج اپنے غير كى طرف سے حجة الاسلام كے طور پر كافى نہيں ہے بلكہ كسى بھى واجب حج كے طور پر _

2- عقل ، پس مجنون كا حج كافى نہيں ہے چاہے وہ دائمى ہو يا اسے جنون كے دورے پڑتے ہوں البتہ اگر جنون كے دورے كى حالت ميں حج انجام دے _

3- ايمان ، احوط كى بناپر ،پس مؤمن كى طرف سے غير مؤمن كا حج كافى نہيں ہے _

4-اس كا حج كے اعمال اور احكام سے اس طرح واقف ہونا كہ اعمال حج كو صحيح طور پر انجام دينے پر قادر ہو اگرچہ اس طرح كہ ہر عمل كے وقت معلم كى راہنمائي كے ساتھ اسے انجام دے_

5-اس سال ميں خود اس كا ذمہ واجب حج كے ساتھ مشغول نہ ہو ہاں اگر اسے اپنے اوپر حج كے وجوب كا علم نہ ہو تو اسكے نيابتى حج كے صحيح ہونے كا قائل ہونا بعيد نہيں ہے _

6-حج كے بعض اعمال كے ترك كرنے ميں معذور نہ ہو _ اس شرط اور اس پر مترتب ہونے والے احكام كى وضاحت اعمال حج ميں آ جائيگي_

مسئلہ 48_نائب بنانے كے كافى ہونے ميں شرط ہے كہ نائب كے منوب عنہ كى طرف سے حج كے بجا لانے كا وثوق ہو ليكن يہ جان لينے كے بعد كہ اس نے حج انجام دے ديا ہے اس بات كا وثوق شرط نہيں ہے كہ اس نے حج كو صحيح طور پر انجام ديا ہے بلكہ اس ميں اصالة الصحة كافى ہے (يعنى اس كا عمل صحيح ہے)

منوب عنہ كى شرائط :

منوب عنہ ميں چند چيزيں شرط ہيں_

اول : اسلام ، پس كافر كى طرف سے حج كافى نہيں ہے _

دوم : يہ كہ منوب عنہ فوت ہو چكا ہو يا بيمارى يا بڑھاپے كى وجہ سے خود حج بجا لانے پر قادر نہ ہو يا خود حج بجا لانے ميں اس كے لئے حرج ہو اور آئندہ سالوں ميں بھى بغير حرج كے حج پر قادر ہونے كى اميد نہ ركھتا ہو البتہ اگر نيابت واجب حج ميں ہو _ ليكن مستحب حج ميں غير كى طرف سے نائب بننا مطلقا صحيح ہے _

چند مسائل :

مسئلہ 49_ نائب اور منوب عنہ كے درميان ہم جنس ہونا شرط نہيں ہے پس عورت مرد كى طرف سے نائب بن سكتى ہے اور مرد عورت كى طرف سے نائب بن سكتا ہے _

مسئلہ 50_ صرورہ ( جس نے حج نہ كيا ہو) صرورہ اور غير صرورہ كى طرف سے نائب بن سكتا ہے چاہے نائب يا منوب عنہ مرد ہو ياعورت _

مسلئہ 51_ منوب عنہ ميں نہ بلوغ شرط ہے نہ عقل_

مسلئہ 52_ نيابتى حج كى صحت ميں نيابت كا قصد اور منوب عنہ كو معين كرنا شرط ہے اگرچہ اجمالى طور پر ليكن نا م كا ذكر كرنا شرط نہيں ہے_

مسئلہ 53_ اس بندے كو اجير بنانا صحيح نہيں ہے كہ جسكے پاس، حج تمتع كے اعمال كو مكمل كرنے كا وقت نہ ہو اور اس وجہ سے اس كا فريضہ حج افراد كى طرف عدول كرنا ہو ہاں اگر اجير بنائے اور اتفاق سے وقت تنگ ہو جائے تو اس پر عدول كر نا واجب ہے اور يہ حج تمتع سے كافى ہے اور اجرت كا بھى مستحق ہو گا _

مسئلہ 54_ اگر اجير احرام اور حرم ميں داخل ہونے كے بعد فوت ہو جائے تو پورى اجرت كا مستحق ہو گا البتہ اگر اجارہ منوب عنہ كے ذمہ كو برى كرنے كيلئے ہو جيسا كہ اگر اجارہ مطلق ہو اور اعمال كو انجام دينے كے ساتھ مقيد نہ ہو تو ظاہر حال يہى ہوتا ہے _

مسئلہ 55_ اگر معين اجرت كے ساتھ حج كيلئے اجير بنايا جائے اور وہ اجرت حج كے اخراجات سے كم پڑ جائے تو اجير پر حج كے اعمال كو مكمل كرنا واجب نہيں ہے جيسے كہ اگر وہ حج كے اخراجات سے زيادہ ہو تو اس كا واپس لينا جائز نہيں ہے_

مسئلہ 56_ نائب پر واجب ہے كہ جن موارد ميں اسكے حج كے منوب عنہ سے كافى نہ ہونے كا حكم لگايا جائے _ نائب بنانے والے كو اجرت واپس كر دے البتہ اگر اجارہ اسى سال كے ساتھ مشروط ہو ورنہ اس پر واجب ہے كہ بعد ميں منوب عنہ كى طرف سے حج بجا لائے _

مسئلہ 57_ جو شخص حج كے بعض اعمال انجام دينے سے معذور ہے اسے نائب بنانا جائز نہيں ہے اور معذور وہ شخص ہے جو مختار شخص كے فريضے كو انجام نہ دے سكتا ہو مثلاً تلبيہ يا نماز طواف كو صحيح طور پر انجام نہ دے سكتا ہو يا طواف اور سعى ميں خود چلنے كى قدرت نہ ركھتا ہو يا رمى جمرات پر قادر نہ ہو ، اس طرح كہ اس سے حج كے بعض اعمال ميں نقص پيدا ہوتا ہو ، پس اگر عذر اس نقص تك نہ پہنچائے جيسے صرف بعض تروك احرام كے ارتكاب ميں معذور ہو تو اسكى نيابت صحيح ہے _

مسئلہ 58_ اگر نيابتى حج كے دوران ميں عذر كا طارى ہونا نائب كے اعمال ميں نقص كا سبب بنے تو اجارے كا باطل ہو جانا بعيد نہيں ہے اور اس صورت ميں احوط وجوبى يہ ہے كہ اجرت اور منوب عنہ كى طرف سے دوبارہ حج بجا لانے پر مصالحت كريں_

مسئلہ 59_ جو لوگ مشعرالحرام ميں اختيارى وقوف سے معذور ہيں انہيں نائب بنانا صحيح نہيں ہے ۔ پس اگر انہيں اس طرح نائب بنايا جائے تو وہ اس پر اجرت كے مستحق نہيں ہوں گے جيسے كاروانوں كے خدام كہ جو كمزور لوگوں كے ہمراہ رہنے اور كاروان كے بعض كاموں كو انجام دينے پر مجبور ہوتے ہيں چنانچہ طلوع فجر سے پہلے ہى مشعر سے منى كى طرف نكل جاتے ہيں پس اگر ايسے لوگوں كو نيابتى حج كيلئے اجير بنايا جائے تو ان پر اختيار ى وقوف كو درك كرنا اور حج كو بجالانا واجب ہے _

مسلئہ 60_معذور نائب كے حج كے كافى نہ ہونے ميں فرق نہيں ہے كہ وہ اجير ہو يا مفت ميں حج كو انجام دے رہا ہو اور كافى نہ ہونے ميں كوئي فرق نہيں ہے كہ خود نائب اپنے معذور ہونے سے جاہل ہو يا منوب عنہ اس سے جاہل ہو اور اسى طرح ہے اگر ان ميں سے كوئي ايك اس بات سے جاہل ہو كہ يہ ايسا عذر ہے كہ جسكے ساتھ نائب بنانا جائز نہيں ہوتا جيسا كہ اس بات سے جاہل ہو كہ مشعر الحرام ميں وقوف اضطرارى پر اكتفا كرنا صحيح نہيں ہے _

مسئلہ 61_ نائب پر واجب ہے كہ وہ تقليد يا اجتہاد كے لحاظ سے اپنے فريضے پر عمل كرے _

مسئلہ 62_ اگر نائب احرام اور حرم ميں داخل ہونے كے بعد فوت ہو جائے تو يہ منوب عنہ سے كافى ہے اور اگر احرام كے بعد ليكن حرم ميں داخل ہونے سے پہلے فوت ہو تو احوط وجوبى كى بنا پركافى نہيں ہے اور اس حكم كے لحاظ سے كوئي فرق نہيں ہے كہ نائب اجير ہو يا مفت ميں كام انجام دے رہا ہو يا اسكى نيابت حجة الاسلام ميں ہو يا كسى اور حج ميں _

مسئلہ 63_ جس شخص نے اپنى طرف سے حجة الاسلام انجام نہيں ديا اسكے لئے احوط استحبابى يہ ہے كہ نيابتى حج كے اعمال مكمل كرنے كے بعد جب تك مكہ ميں ہے اپنے لئے عمرہ مفردہ بجا لائے اگر يہ كر سكتا ہو _

مسئلہ 64_ نيابتى حج كے اعمال سے فارغ ہونے كے بعد نائب كيلئے اپنى طرف سے اور غير كى طرف سے طواف كرنا جائز ہے اسى طرح اس كيلئے عمرہ مفردہ بجا لانا بھى جائز ہے _

مسئلہ 65_ جيسا كہ حج كيلئے نائب ميں احوط كى بنا پر ايمان شرط ہے اسى طرح اعمال حج ميں سے ہر اس كام ميں بھى شرط ہے كہ جس ميں نيابت صحيح ہے جيسے طواف ، رمى ،قرباني_

مسئلہ 66_ نائب پر واجب ہے كہ وہ اعمال حج ميں منوب عنہ كى طرف سے نيابت كا قصد كرے اور اس پر واجب ہے كہ منوب عنہ كى طرف سے طواف النساء كو انجام دے ۔

Wednesday, 20 June 2012 04:59

كنكرياں مارنا

تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف(

يہ حج كے واجبات ميں سے چوتھا اور منى كے اعمال ميں سے پہلا ہے _ دس ذى الحج كو جمرہ عقبہ ( سب سے بڑا) كوكنكرياں مارنا واجب ہے _

كنكرياں مارنے (رمي) كى شرائط

كنكرياں مارنے (رمي) ميں چند چيزيں شرط ہيں :

اول: نيت اپنى تمام شرائط كے ساتھ جيسے كہ احرام كى نيت ميں گزرچكا ہے_

دوم: يہ كہ رمى اسكے ساتھ ہو جسے كنكرياں كہا جائے پس نہ اتنے چھوٹے كے ساتھ صحيح ہے كہ وہ ريت ہو اور نہ اتنے بڑے كے ساتھ كہ جو پتھر ہو _

سوم : يہ كہ رمى عيد والے دن طلوع آفتاب اورغروب آفتاب كے درميان ہو البتہ جس كيلئے يہ ممكن ہو _

چہارم: يہ كہ كنكرياں جمرے كو لگيں پس اگر نہ لگے يا اسے اسكے لگنے كا گمان ہو تو يہ شمار نہيں ہوگى اور اسكے بدلے دوسرى كنكرى مارنا واجب ہے اور اس كا لگے بغير صرف اس دائرے تك پہنچ جانا جو جمرے كے اردگرد ہے كافى نہيں ہے_

پنجم: يہ كہ رمى سات كنكريوں كے ساتھ ہو-

ششم: يہ كہ پے در پے كنكرياں مارے پس اگر ايك ہى دفعہ مارے تو صرف ايك شمار ہو گى چاہے سب جمرے كو لگ جائيں يا نہ _

مسئلہ 338_ جمرے كو رمى كرنا جائز ہے اس پر لگے ہوئے سيمنٹ سميت_ اسى طرح جمرہ كے نئے بنائے گئے حصے پر رمى كرنا بھى جائز ہے البتہ اگر عرف ميں اسے جمرہ كا حصہ شمار كيا جائے_

مسئلہ 339_ اگر متعارف قديمى جمرہ كے آگے اور پيچھے سے كئي ميٹر كا اضافہ كر ديں تو اگر بغير مشقت كے سابقہ جمرہ كو پہچان كر اسے رمى كرنا ممكن ہو تو يہ واجب ہے ورنہ موجودہ جمرہ كى جس جگہ كو چاہے رمى كرے اور يہى كافى ہے _

مسئلہ 340_ ظاہر يہ ہے كہ اوپر والى منزل سے رمى كرنا جائز ہے اگرچہ احوط اس جگہ سے رمى كرنا ہے جو پہلے سے متعارف ہے_

كنكريوں كى شرائط:

كنكريوں ميں چند چيزيں شرط ہيں :

اول : يہ كہ وہ حرم كى ہوں اور اگر حرم كے باہر سے ہوں تو كافى نہيں ہيں_

دوم: يہ كہ وہ نئي ہوں كہ جنہيں پہلے صحيح طور پر نہ مارا گيا ہو اگرچہ گذشتہ سالوں ميں _

سوم: يہ كہ مباح ہوں پس غصبى كنكريوں كا مارنا جائز نہيں ہے اور نہ ان كنكريوں كا مارنا جنہيں كسى دوسرے نے جمع كيا ہو اسكى اجازت كے بغير ہاں كنكريوں كا پاك ہونا شرط نہيں ہے _

مسئلہ 341_ عورتيں اور كمزور لوگ _ كہ جنہيں مشعر الحرام ميں صرف وقوف كا مسمى انجام دينے كے بعد منى كى طرف جانے كى اجازت ہے اگر وہ دن كو رمى كرنے سے معذور ہوں تو ان كيلئے رات كے وقت رمى كرنا جائز ہے بلكہ عورتوں كيلئے ہر صورت ميں رات كے وقت رمى كرنا جائز ہے البتہ اگر وہ اپنے حج كيلئے رمى كر رہى ہوں يا ان كا حج نيابتى ہو ليكن اگر عورت صرف رمى كيلئے كسى كى طرف سے نائب بنى ہو تو رات كے وقت رمى كرنا صحيح نہيں ہے اگرچہ دن ميں رمى كرنے سے عاجز ہو بلكہ نائب بنانے والے كيلئے ضرورى ہے كہ وہ ايسے شخص كو نائب بنائے جو دن كے وقت رمى كر سكے اگر اسے ايسا شخص مل جائے _اور ان لوگوں كى ہمراہى كرنے والا اگر وہ خود معذور ہو تو اس كيلئے رات كے وقت رمى كرنا جائز ہے ورنہ اس پر واجب ہے كے دن وقت رمى كرے _

مسئلہ 342 _ جو شخص عيد والے دن رمى كرنے سے معذور ہے اس كيلئے شب عيد يا عيد كے بعد والى رات ميں رمى كرنا جائز ہے اور اسى طرح جو شخص گيارہويں يا بارہويں كے دن رمى كرنے سے معذور ہے اسكے لئے اسكى رات يا اسكے بعد والى رات رمى كرنا جائز ہے _

تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف(

مسا لہ 1 ۔ جو شخص حج كى استطاعت ركھتا ہو اس پر اصل شريعت كے اعتبار سے پورى عمر ميں صرف ايك مرتبہ حج واجب ہوتا ہے اور اسے ""حجة الاسلام"" كہا جاتا ہے۔

مسا لہ 2_ حجة الاسلام كا وجوب فورى ہے يعنى جس سال استطاعت حاصل ہوجائے اسى سال حج پر جانا واجب ہے اور كسى عذر كے بغير مؤخر كرنا جائز نہيں ہے اور اگر اسے مؤخر كرے تو گناہ گار ہے اور حج اس كے ذمے ثابت ہوجائيگا اور اسے آئندہ سال انجام دينا واجب ہے و على ہذا القياس۔

مسا لہ3_ اگر استطاعت والے سال حج كو انجام دينا بعض مقدمات پر موقوف ہو۔ جيسے سفر كرنا اور حج كے وسائل و اسباب كو مہيا كرنا۔ تو اس پر واجب ہے كہ ان مقدمات كو حاصل كرنے كيلئے اس طرح مبادرت سے كام لے كہ اسے اسى سال حج كو پا لينے كا اطمينان ہو۔

اور اگر اس ميں كوتاہى كرے اور حج كو بجا نہ لائے تو گناہ گار ہے اور حج اسكے ذمے ميں ثابت اور مستقر ہو جائيگا اور اس پر اسے بجا لانا واجب ہے اگرچہ استطاعت باقى نہ رہے۔

حجة الاسلام كے وجوب كے شرائط

حجة الاسلام مندرجہ ذيل شرائط كے ساتھ واجب ہوتا ہے:

پہلى شرط :

عقل پس مجنون پر حج واجب نہيں ہوتا_

دوسرى شرط:

بلوغ پس نابالغ پر حج واجب نہيں ہوتا اگر چہ وہ بلوغ كے قريب ہو اور اگر نابالغ بچہ حج بجا لائے تو اگرچہ اس كا حج صحيح ہے ليكن يہ حجة الاسلام سے كافى نہيں ہے_

مسا لہ 4: اگر بچہ احرام باندھ كر مشعر ميں وقوف كو بالغ ہونے كى حالت ميں پالے اور حج كى استطاعت بھى ركھتا ہو تو اس كا يہ حج حجة الاسلام سے كافى ہے_

مسا لہ5: وہ بچہ جواحرام باندھے ہوئے ہے اگر محرمات ( جو كام احرام كى حالت ميں حرام ہيں ) ميں سے كسى كام كا ارتكاب كرے تو اگر وہ كام شكار ہو تو اس كا كفارہ اسكے ولى پر ہوگا اور اسكے علاوہ ديگر كفارات تو ظاہر يہ ہے كہ وہ نہ تو ولى پر واجب ہيں اور نہ ہى بچے كے مال ميں -

مسا لہ 6: بچے كے حج ميں قربانى كى قيمت اسكے ولى پر ہے_

مسا لہ 7: واجب حج ميں شوہر كى اجازت شرط نہيں ہے پس بيوى پر حج واجب ہے اگر چہ شوہر سفر حج پر راضى نہ ہو _

مسا لہ 8_ مستطيع شخص سے حجة الاسلام كے صحيح ہونے ميں والدين كى اجازت شرط نہيں ہے ۔

تيسرى شرط :

استطاعت اور يہ مندرجہ ذيل امور پر مشتمل ہے۔

الف : مالى استطاعت

ب : جسمانى استطاعت

ج : سربى استطاعت (راستے كا با امن اور كھلا ہونا)

د : زمانى استطاعت

ہر ايك كى تفصيل

الف : مالى استطاعت :

يہ متعدد امور پر مشتمل ہے۔

1-زاد و راحلہ

2- سفر كى مدت ميں اپنے اہل و عيال كے اخراجات

3-ضروريات زندگي

- رجوع الى الكفاية

مندرجہ ذيل مسائل كے ضمن ميں انكى تفصيل بيان كرتے ہيں:

1- زاد و راحلہ

زاد سے مراد ہر وہ شے ہے كہ جسكى سفر ميں ضرورت ہوتى ہے جيسے كھانے پينے كى چيزيں اور اس سفر كى ديگر ضروريات اور راحلہ سے مراد ايسى سوارى ہے كہ جسكے ذريعے سفر طے كيا جا سكے _

مسا لہ 9_ جس شخص كے پاس نہ زاد و راحلہ ہے اور نہ انہيں حاصل كرنے كيلئے رقم اس پر حج واجب نہيں ہے اگرچہ وہ كما كر يا كسى اور ذريعے سے انہيں حاصل كر سكتا ہو _

مسا لہ 10_ اگر پلٹنے كا ارادہ ركھتا ہو تو شرط ہے كہ اسكے پاس اپنے وطن يا كسى دوسرى منزل مقصود تك واپس پلٹنے كے اخراجات ہوں_

مسا لہ 11_ اگر اسكے پاس حج كے اخراجات نہ ہوں ليكن اس نے حج كے اخراجات يا انكى تكميل كى مقداركے برابر كسى شخص سے قرض واپس لينا ہو اورقرض حال ہو يا اسكى ادائيگى كا وقت آ چكا ہو اور مقروض مالدار ہو اور قرض خواہ كيلئے قرض كا مطالبہ كرنے ميں كوئي حرج بھى نہ ہو تو قرض كا مطالبہ كرنا واجب ہے۔

مسا لہ 12_ اگر عورت كا مہر اسكے شوہر كے ذمے ميں ہو اور وہ اسكے حج كے اخراجات كيلئے كافى ہو تو اگر شوہر تنگدست ہو تو يہ اس سے مہر كا مطالبہ نہيں كر سكتى اور مستطيع بھى نہيں ہو گى ليكن اگر شوہر مالدار ہے اور مہر كا مطالبہ كرنے ميں عورت كا كوئي نقصان بھى نہ ہو تو اس پر مہر كا مطالبہ كرنا واجب ہے تاكہ اسكے ساتھ حج كر سكے ليكن اگر مہر كا مطالبہ كرنے ميں عورت كا كوئي نقصان ہو مثلاً يہ لڑائي جھگڑے اور طلاق تك منتج ہو تو عورت پر مطالبہ كرنا واجب نہيں ہے اور عورت مستطيع بھى نہيں ہو گى _

مسا لہ 13_ جس شخص كے پاس حج كے اخراجات نہيں ہيں ليكن وہ قرض ليكر اسے آسانى سے ادا كر سكتا ہو تو اس پر واجب نہيں ہے كہ وہ قرض ليكر اپنے آپ كو مستطيع بنائے ليكن اگر قرض لے لے تو اس پر حج واجب ہو جائيگا۔

مسا لہ 14_ جو شخص مقروض ہے اور اسكے پاس حج كے اخراجات سے اتنا اضافى مال نہ ہو كہ جس سے وہ اپنا قرض ادا كر سكے تو اگر قرض كى ادائيگى كا وقت مخصوص ہو اور اسے اطمينان ہے كہ وہ اس وقت اپنے قرض كو ادا كرنے پر قادر ہوگا تو اس پر واجب ہے كہ انہيں اخراجات كے ساتھ حج بجا لائے _

اور يہى حكم ہے اگر قرض كى ادائيگى كا وقت آچكا ہو ليكن قرض خواہ اسے مؤخر كرنے پر راضى ہو اور مقروض كو اطمينان ہو كہ جب قرض خواہ مطالبہ كريگا اس وقت يہ قرض كى ادائيگى پر قادر ہوگا اور مذكورہ دو صورتوں كے علاوہ اس پر حج واجب نہيں ہے۔

مسئلہ 15_ جس شخص كو شادى كرنے كى ضرورت ہے اس طرح كہ اگر شادى نہ كرے تو اسے مشقت يا حرج كا سامنا ہوگا اور اس كيلئے شادى كرنا ممكن بھى ہو تو اس پر حج واجب نہيں ہوگا مگر يہ كہ اس كے پاس حج كے اخراجات كے علاوہ شادى كرنے كا انتظام بھى ہو ۔

مسئلہ 16_ اگر استطاعت والے سال ميں اسے سفر حج كيلئے سوارى نہ ملتى ہو مگر اسكى رائج اجرت سے زيادہ كے ساتھ تو اگر يہ شخص زائد مال دينے پر قادر ہو اور يہ اس كے حق ميں زيادتى بھى نہ ہو تو اس پر اس زائد مال كا دينا واجب ہے تاكہ حج بجا لا سكے پس صرف مہنگائي اور كرائے كا بڑھ جانا استطاعت كيلئے مضر نہيں ہے _ ليكن اگر يہ زائد مال كے دينے پر قادر نہيں ہے يا يہ اسكے حق ميں زيادتى ہو تو واجب نہيں ہے اور يہ مستطيع بھى نہيں ہوگا اور يہى حكم ہے سفر حج كى ديگر ضروريات كے خريدنے يا انكے كرائے پر لينے كا نيز يہى حكم ہے اگر يہ حج كے اخراجات كيلئے كوئي چيز بيچنا چاہتا ہے ليكن اسے خريدار صرف وہ ملتا ہے جو اسے اسكى رائج قيمت سے كم پر خريد تا ہے

مسئلہ 17_ اگر كوئي شخص يہ سمجھتا ہو كہ اگر وہ اپنى موجودہ مالى حيثيت كے ساتھ حج پر جانا چاہے تو وہ اس طرح حج كيلئے استطاعت نہيں ركھتا جيسے ديگر لوگ حج بجا لاتے ہيں ليكن اسے احتمال ہے كہ تلاش و جستجو كرنے سے اسے ايسا راستہ مل جائيگا كہ يہ اپنى موجودہ مالى حيثيت كے ساتھ حج كيلئے مستطيع ہو جائيگا تو اس پر تلاش و جستجو كرنا واجب نہيں ہے كيونكہ استطاعت كا معيار يہ ہے كہ يہ حج كيلئے اسى طرح استطاعت ركھتا ہوجو ديگر لوگوں كيلئے متعارف ہے ۔

ہاں ظاہر يہ ہے كہ اگر اسے اپنے مستطيع ہونے ميں شك ہو اور جاننا چاہتا ہو كہ استطاعت ہے يا نہيں تو اس پر واجب ہے كہ اپنى مالى حيثيت كے بارے ميں جستجو كرے

2- سفر كى مدت ميں اپنے اہل و عيال كے اخراجات

مسئلہ18_ مالى استطاعت ميں يہ شرط ہے كہ يہ حج سے واپس آنے تك اپنے اہل و عيال كے اخراجات ركھتا ہو

مسئلہ19_ اہل و عيال _ كہ مالى استطاعت ميں جنكے اخراجات كا موجود ہونا شرط ہے _سے مراد وہ لوگ ہيں كہ جنہيں عرف عام ميں اہل و عيال شمار كيا جاتا ہے اگر چہ شرعاً اس پر ان كا خرچہ واجب نہ بھى ہو _

3-ضروريات زندگي :

مسئلہ 20_ شرط ہے كہ اسكے پاس ضروريات زندگى اور وہ چيزيں ہوں كہ جنكى اسے عرفاً اپنى حيثيت كے مطابق زندگى بسر كرنے كيلئے احتياج ہے البتہ يہ شرط نہيں ہے كہ بعينہ وہ چيزيں اس كے پاس موجود ہوں بلكہ كافى ہے كہ اس كے پاس رقم وغيرہ ہو كہ جسے اپنى ضروريات زندگى ميں خرچ كرنا ممكن ہو _

مسئلہ 21_ عرف عام ميں لوگوں كى حيثيت مختلف ہوتى ہے چنانچہ رہائش كيلئے گھر كا مالك ہونا جسكى ضروريات زندگى ميں سے ہے يا يہ عرف ميں اسكى حيثيت كے مطابق ہے يا كرائے كے ، يا عاريہ پر ليئے ہوئے يا موقوفہ گھر ميں رہنا اس كيلئے حرج يا سبكى كا باعث ہو تو اسكے لئے استطاعت كے ثابت ہونے كيلئے گھر كا مالك ہونا شرط ہے ۔

مسئلہ 22_ اگر حج كيلئے كافى مال ركھتا ہو ليكن اسے اسكى ايسى لازمى احتياج ہے كہ جس ميں اسے خرچ كرنا چاہتا ہے جيسے گھر مہيا كرنا يا بيمارى كا علاج كرانا يا ضروريات زندگى كو فراہم كرنا تو يہ مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے۔

مسلئہ 23_ يہ شرط نہيں ہے كہ مكلف كے پاس خود زاد و راحلہ ہوں بلكہ كافى ہے كہ اس كے پاس اتنى رقم وغيرہ ہو كہ جسے زاد و راحلہ ميں خرچ كرنا ممكن ہو _

مسئلہ 24_ اگر كسى شخص كے پاس ضروريات زندگى _گھر ، گھريلو سامان ، سوارى ، آلات صنعت وغيرہ _ كى ايسى چيزيں ہيں جو قيمت كے لحاظ سے اسكى حيثيت سے بالاتر ہيں چنانچہ اگر يہ كر سكتا ہو كہ انہيں بيچ كر انكى قيمت كے كچھ حصے سے اپنى ضروريات زندگى خريد لے اور باقى قيمت كو حج كيلئے خرچ كرے اور اس ميں اسكے لئے حرج ، كمى يا سبكى بھى نہ ہو اور قيمت كا فرق حج كے اخراجات يا انكى تكميل كى مقدار ہو تو اس پر ايسا كرنا واجب ہے اور يہ مستطيع شمار ہوگا _

مسئلہ 25_ اگر مكلف اپنى زمين يا كوئي اور چيز فروخت كرے تاكہ اسكى قيمت كے ساتھ گھر خريدے تو اگر اسے گھر كے مالك ہونے كى ضرورت ہو يا يہ عرف كے لحاظ سے اسكى حيثيت كے مطابق ہو تو زمين كى قيمت وصول كرنے سے يہ مستطيع نہيں ہو گا اگرچہ وہ حج كے اخراجات يا انكى تكميل كى مقدار ہو۔

مسئلہ 26_ جس شخص كو اپنى بعض مملوكہ چيزوں كى ضرورت نہ رہے مثلا اسے اپنى كتابوں كى ضرورت نہ رہے اور ان كى قيمت سے مالى استطاعت مكمل ہوتى ہو يا يہ مالى استطاعت كيلئے كافى ہو تو ديگر شرائط كے موجود ہونے كى صورت ميں اس پر حج واجب ہے_

4- رجوع الى الكفاية:

مسئلہ 27_ مالى استطاعت ميں "" رجوع الى الكفاية"" شرط ہے ( مخفى نہ رہے كہ يہ شرط حج بذلى ميں ضرورى نہيں ہے جيسا كہ اسكى تفصيل عنقريب آجائيگى ) اور اس سے مراد يہ ہے كہ حج سے پلٹنے كے بعد اسكے پاس ايسى تجارت ، زراعت ، صنعت ، ملازمت ، يا باغ ، دكان وغيرہ جيسے ذرائع آمدنى كى منفعت ہو كہ جنكى آمدنى عرف ميں اسكى حيثيت كے مطابق اسكے اور اسكے اہل و عيال كے معاش كيلئے كافى ہو اور اس سلسلے ميں دينى علوم كے طلاب( خدا تعالى ان كا حامى ہو ) كيلئے كافى ہے كہ پلٹنے كے بعد انہيں وہ وظيفہ ديا جائے جو حوزات علميہ ( خدا تعالى انكى حفاظت كرے) ميں انكے درميان تقسيم كيا جاتا ہے_

مسئلہ 28_ عورت كيلئے بھى رجوع الى الكفاية شرط ہے بنابراين اگر اس كا شوہر ہو اور يہ اسكى زندگى ميں حج كى استطاعت ركھتى ہو تو اس كيلئے ""رجوع الى الكفاية"" وہ نفقہ ہے جسكى وہ اپنے شوہر كے ذمے ميں مالك ہے ليكن اگر اس كا شوہر نہيں ہے تو حج كيلئے اسكے مستطيع ہونے كيلئے مخارج حج كےساتھ ساتھ شرط ہے كہ اسكے پاس ايسا ذريعہ آمدنى ہو جواسكى حيثيت كے مطابق اسكى زندگى كيلئے كافى ہو ورنہ يہ حج كيلئے مستطيع نہيں ہوگى۔

مسئلہ 29_ جس شخص كے پاس زاد و راحلہ نہ ہو ليكن كوئي اور شخص اسے دے اور اسے يوں كہے تو ""حج بجا لا اور تيرا اور تيرے اہل و عيال كا خرچہ مير ے ذمے ہے ""تو اس پر حج واجب ہے اور اس پر اسے قبول كرنا واجب ہے اور اس حج كو حج بذلى كہتے ہيں اور اس ميں "" رجوع الى الكفايہ "" شرط نہيں ہے نيز خود زاد و راحلہ كا دينا ضرورى نہيں ہے بلكہ قيمت كا دينا بھى كافى ہے۔

ليكن اگر اسے حج كيلئے مال نہ دے بلكہ صرف اسے مال ہبہ كرے تو اگر وہ ہبہ كو قبول كر لے تو اس پر حج واجب ہے ليكن اس پر اس مال كو قبول كرنا واجب نہيں ہے پس اس كيلئے جائز ہے كہ اسے قبول نہ كرے اور اپنے آپ كو مستطيع نہ بنائے_

مسئلہ 30_ حج بذلى ، حجة الاسلام سے كافى ہے اور اگر اسكے بعد مستطيع ہو جائے تو دوبارہ حج واجب نہيں ہے۔

مسئلہ 31_ جس شخص كو كسى ادارے يا شخص كى طرف سے حج پر جانے كى دعوت دى جاتى ہے تو اگر اس دعوت كے مقابلے ميں اس پركسى كام كو انجام دينے كى شرط لگائي جائے تو اسكے حج پر حج بذلى كا عنوان صدق نہيں كرتا_

مالى استطاعت كے عمومى مسائل

مسئلہ 32_جس وقت حج پر جانے كيلئے مال خرچ كرنا واجب ہوتا ہے اسكے آنے كے بعد مستطيع كيلئے اپنے آپ كو استطاعت سے خارج كرنا جائز نہيں ہے بلكہ احوط وجوبى يہ ہے كہ اس وقت سے پہلے بھى اپنے آپ كو استطاعت سے خارج نہ كرے _

مسئلہ 33_ مالى استطاعت ميں شرط نہيں ہے كہ وہ مكلف كے شہر ميں حاصل ہو بلكہ اس كا ميقات ميں حاصل ہو جانا كافى ہے پس جو شخص ميقات تك پہنچ كر مستطيع ہو جائے اس پرحج واجب ہے اور يہ حجة الاسلام سے كافى ہے _

مسئلہ 34_ مالى استطاعت اس شخص كيلئے بھى شرط ہے جو ميقات تك پہنچ كر حج پر قادر ہو جائے پس جو شخص ميقات تك پہنچ كر حج پر قادر ہو جائے جيسے قافلوں ميں كام كرنے والے وغيرہ تو اگر ان ميں استطاعت كى ديگر شرائط بھى ہوں جيسے اہل و عيال كا نفقہ ، ضروريات زندگى اور اسكى حيثيت كے مطابق جن چيزوں كى اسے اپنى زندگى ميں احتياج ہوتى ہے اور ""رجوع الى الكفاية"" تو اس پر حج واجب ہے اور يہ حجة الاسلام سے كافى ہے ورنہ اس كا حج مستحبى ہو گا اور اگر بعد ميں استطاعت حاصل ہو جائے تو اس پر حجة الاسلام واجب ہو گا _

مسئلہ 35_ اگر كسى شخص كو حج كے راستے ميں خدمت كيلئے اتنى اجرت كے ساتھ اجير بنايا جائے كہ جس سے وہ مستطيع ہو جائے تو اجارے كو قبول كرنے كے بعد اس پر حج واجب ہے البتہ يہ اس صورت ميں ہے جب اعمال حج كو بجا لانا اس خدمت كے ساتھ متصاوم نہ ہو جو اسكى ڈيوٹى ہے ورنہ يہ اسكے ساتھ مستطيع نہيں ہوگا جيسا كہ عدم تصادم كى صورت ميں اس پر اجارے كو قبول كرنا واجب نہيں ہے _

مسئلہ 36_ جو شخص مالى استطاعت نہ ركھتا ہو اور نيابتى حج كيلئے اجير بنے پھر اجارے كے بعد مال اجارہ كے علاوہ كسى اور مال كے ساتھ مستطيع ہو جائے تو اس پر واجب ہے كہ اس سال اپنے لئے حجة الاسلام بجا لائے اور اجارہ اگر اسى سال كيلئے ہو تو باطل ہے ورنہ اجارے والا حج آئندہ سال بجا لائے _

مسئلہ 37_ اگر مستطيع شخص غفلت كى وجہ سے يا جان بوجھ كر مستحب حج كى نيت كر لے اگرچہ اعمال حج كى تمرين كے قصد سے تاكہ آئندہ سال اسے بہتر طريقے سے انجام دے سكے يا اس لئے كہ وہ اپنے آپ كو غير مستطيع سمجھتا ہے پھر اس كيلئے ظاہر ہو جائے كہ وہ مستطيع تھا تو اسكے اس حج كے حجة الاسلام سے كافى ہونے ميں اشكال ہے پس احوط كى بنا پر اس پر آئندہ سال حج كو بجا لانا واجب ہے_مگر يہ كہ اس نے شارع مقدس كے اس حكم كى اطاعت كا قصد كيا ہو جو اس وقت ہے اس وہم كے ساتھ كہ وہ حكم، حكم استحبابى ہے تو پھر اس كا حج حجة الاسلام سے كافى ہے _

ب۔ جسمانى استطاعت:

اس سے مراد يہ ہے كہ جسمانى لحاظ سے حج كو انجام دينے كى قدرت ركھتا ہو پس اس مريض اور بوڑھے پر حج واجب نہيں ہے جو حج پر جا نہيں سكتے يا جن كيلئے جانے ميں حرج اورمشقت ہے۔

مسئلہ 38_ جسمانى استطاعت كا باقى رہنا شرط ہے پس اگر راستے كے درميان ميں احرام سے پہلے بيمار ہو جائے تو اگر اس كا حج پر جانا استطاعت والے سال ميں ہو اور بيمارى اس سے سفر كو جارى ركھنے كى قدرت كو سلب كر لے تو اس سے منكشف ہو گا كہ اس ميں جسمانى استطاعت نہيں تھى اور ايسے شخص پر حج كيلئے كسى كو نائب بنانا واجب نہيں ہے ليكن اگر يہ حج كے اس پر مستقر ہونے كے بعد حج پر جا رہا ہو اور بيمارى كى وجہ سے سفر كو جارى ركھنے سے عاجز ہو جائے اور آئندہ سالوں ميں بھى اسے بغير مشقت كے حج پر قادر ہونے كى اميد نہ ہو تو اس پر واجب ہے كہ كسى اور كو نائب بنائے اور اگر اسے اميد ہو تو اس سے خود حج كو بجا لانے كا وجوب ساقط نہيں ہوگا_اور اگر احرام كے بعد بيمار ہو تو اسكے اپنے خاص احكام ہيں _

ج_ سربى استطاعت:

اس سے مراد يہ ہے كہ حج پر جانے كا راستہ كھلا اور باامن ہو پس اس شخص پر حج واجب نہيں ہے كہ جس كيلئے راستہ بند ہو اس طرح كہ اس كيلئے ميقات يا اعمال حج كى تكميل تك پہنچنا ممكن نہ ہو اسى طرح اس شخص پر بھى حج واجب نہيں ہے كہ جس كيلئے راستہ كھلا ليكن نا امن ہو چنانچہ اس راستے ميں اسے اپنى جان ، بدن ، عزت يا مال كا خطرہ ہو _

مسئلہ 39_ جس شخص كے پاس حج كے اخراجات ہوں اور وہ حج پرجانے كيلئے تيار ہوجائے جيسا كہ حج كيلئے اپنا نام لكھوا دے ليكن چونكہ اسكے نام قرعہ نہيں نكلا اسلئے اس سال حج پر نہ جا سكا تو يہ شخص مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے ليكن اگر آئندہ سالوں ميں حج كرنا اس سال اپنا نام لكھوانے اور مال دينے پر موقوف ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اس كام كو انجام دے

د_ زمانى استطاعت :

اس سے مراد يہ ہے كہ ايسے وقت ميں استطاعت حاصل ہو جس ميں حج كو درك كرنا ممكن ہو پس اس بندے پر حج واجب نہيں ہے كہ جس پر اس طرح وقت تنگ ہو جائے كہ وہ حج كو درك نہ كر سكتا ہو يا سخت مشقت اور سخت حرج كے ساتھ درك كر سكتا ہو _

Wednesday, 20 June 2012 04:45

حج کے متفرق مسائل

تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف(

س1: مسجدالحرام كا فرش قليل پانى كے ساتھ پاك كيا جاتا ہے اس طرح كہ نجاست پر قليل پانى ڈالا جاتا ہے كہ جس سے عام طور پر نجاست كے باقى رہنے كا علم ہوتا ہے تو كيا مسجد كے فرش پر سجدہ كرنا جائز ہے يا نہيں ؟

ج: اس سے عام طور پر مسجد كى ہر جگہ كے نجس ہونے كا علم نہيں ہوتا اور جستجو كرنا واجب نہيں ہے پس فرش پر سجدہ كرنا صحيح ہے _

س 2: كيا خانہ كعبہ كے اردگرد دائرے كى صورت ميں نماز جماعت كافى ہے؟

ج: جو شخص امام كے پيچھے يا دائيں بائيں كھڑا ہو اسكى نماز صحيح ہے اور احوط استحبابى يہ ہے كہ جو شخص امام كے دائيں بائيں كھڑا ہو وہ اس فاصلے كى رعايت كرے جو امام اور كعبہ كے درميان ہے پس امام كى نسبت كعبہ كے قريب تر كھڑا نہ ہو ليكن جو شخص خانہ كعبہ كى دوسرى طرف امام كے بالمقابل كھڑا ہوتا ہے اسكى نماز صحيح نہيں ہے _

س3: كيا مكہ معظمہ اور مدينہ منورہ ميں اہل سنت كے امام كے پيچھے جماعت كے ساتھ نماز پڑھنا كافى ہے ؟

ج : ان شاء اللہ كافى ہے _

س4: جس شخص نے مكہ معظمہ ميں دس دن ٹھہرنے كى نيت كى ہے تو عرفات ، مشعر اور منى ميں اور ان كے درميان مسافت طے كرتے ہوئے اسكى نماز كا حكم كيا ہے ؟

ج: جس شخص كى نيت يہ ہے كہ عرفات كى طرف جانے سے پہلے دس دن مكہ معظمہ ميں رہيگا اور اسكے ساتھ ايك چار ركعتى صحيح نماز بھى پڑھ لے تو جبتك نيا سفر نہ كرے نماز پورى پڑھے گا اور ٹھہرنے كا حكم ثابت ہونے كے بعد عرفات ، مشعرالحرام اور منى كى طرف جانا سفر نہيں ہے _

س5: كيا قصر و اتمام كے درميان اختيار والا حكم مكہ اور مدينہ ميں بھى جارى ہوگا يا يہ فقط مسجد الحرام اور مسجد نبوى كے ساتھ مختص ہے اور كيا انكى پرانى اور نئي جگہوں كے درميان كوئي فرق ہے يا نہيں ؟

ج: قصر اور اتمام كے درميان اختيار والا حكم ان دو شہروں كى ہر جگہ ميں جارى ہوگا اور ظاہر يہ ہے كہ پرانى اور نئي جگہوں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے اگرچہ احوط يہ ہے كہ اس مسئلہ ميں ان دو شہروں كى پرانى جگہوں پر اكتفا كرے بلكہ صرف مسجدوں پر _پس نماز قصر پڑھے مگر يہ كہ دس دن ٹھہرنے كى نيت كرے_

س 6: جو شخص مشركين سے برائت كے پروگرام ميں شركت نہ كرے اسكے حج كا حكم كيا ہے ؟

ج: اس سے اسكے حج كى صحت كو نقصان نہيں پہنچتا اگرچہ اس نے اپنے آپ كو دشمنان خدا سے اعلان برائت كے پروگرام ميں شركت كرنے كى فضيلت سے محروم كر ديا ہے_

س 7: كيا حيض يا نفاس والى عورت كيلئے اس ديوار پر بيٹھنا جائز ہے جو مسجدالحرام كے برآمدے اور سعى كرنے كى جگہ كے درميان واقع ہے يہ جانتے ہوئے كہ يہ ان كے درميان مشترك ہے؟_

ج: اس ميں كوئي اشكال نہيں ہے مگر جب ثابت ہو جائے كہ وہ مسجدالحرام كا حصہ ہے

س8: جس شخص كو چاند ديكھنے كى وجہ سے دو وقوف اور روز عيد كے درك كرنے ميں شك ہو اسكے حج كا كيا حكم ہے اور كيا اس پر حج كا اعادہ واجب ہے يا نہيں ؟

ج: سنى قاضى كے نزديك ذى الحج كا چاند ثابت ہونے اور اسكى طرف سے چاند ثابت ہوجانے كے فيصلے كے مطابق عمل انجام دينا كافى ہے پس اگر لوگوں كى پيروى كرتے ہوئے دو وقوف كو درك كرلے تو اس نے حج كو درك كرليا اور يہ كافى ہے _

س9: بعض فتاوى ميں آيا ہے كہ آپ مكہ مكرمہ كے ہوٹلوں ميں جماعت قائم كرنے كى اجازت نہيں ديتے تو كيا آپ كى طرف سے ان رہائش گاہوں اور گھروں ميں جماعت قائم كرنے كى اجازت ہے كہ جن ميں عام طور پر قافلے آتے ہيں يہ جانتے ہوئے كہ ان قافلوں كى اپنى مستقل رہائشے گاہ اور اپنى مستقل جماعت ہوتى ہے پس يہ حجاج كيلئے مسجدالحرام ميں نماز ترك كرنے كا ذريعہ نہيں بنتے _

ج: ہمارى طرف سے ان رہائش گا ہوں اور گھروں ميں جماعت قائم كرنے كى اجازت نہيں ہے اگر يہ دوسروں كى توجہ كے مبذول كرنے كا موجب بنے اور مسجد ميں مسلمانوں كے ساتھ انكى نماز ميں شركت نہ كرنے كى وجہ سے تنقيد كا سبب بنے_

س 10: ڈرائيور حضرات بھيڑ سے بچنے كيلئے منى اور مزدلفہ تك پہنچنے والے بعض شاق راستوں اور سرنگوں سے اندرونى راستوں كے طور پر استفادہ كرتے ہيں پس ان جگہوں تك پہنچنے كيلئے مكہ كے بعض محلوں سے ہوتے ہوئے ايسے راستوں سے جاتے ہيں جو منى كے اندر سے گزرتے ہيں تو كيا اسے مكہ سے نكلنا شمار كيا جائيگا يا نہيں ؟

ج: ظاہر يہ ہے كہ نكلنے كے جائز نہ ہونے كى دليل اس سے منصرف ہے بہرحال اس سے عمرہ اور حج كى صحت كو نقصان نہيں پہنچتا_

س 11: كاروانوں كے خدام جو عيد والے دن عورتوں اور كمزور لوگوں كے ہمراہ ہوتے ہيں اور ان كے ہمراہ فجر سے پہلے ہى مشعرالحرام سے كوچ كرجاتے ہيں اگر ان كيلئے طلوع فجر سے پہلے پلٹنا اور وقوف اختيارى كو درك كرنا ممكن ہو تو كيا يہ ان پر واجب ہے يا نہيں ؟ اور اگر ان كيلئے پلٹنا ممكن نہ ہو ليكن دن كے وقت جمرہ عقبہ كو كنكرياں مارنے كيلئے پلٹنا ممكن ہو تو كيا عورتوں اور كمزور لوگوں كى متابعت ميں ان كيلئے بھى رات كے وقت كنكرياں مارنا كافى ہے يا ان پر واجب ہے كہ دن كے وقت كنكرياں ماريں؟اور پلٹنے اور وقوف اختيارى كو درك كرنے كى صورت ميں كيا يہ انہيں نائب بنانے كے امكان كيلئے كافى ہے يا وہ محض رات كو نكل آنے سے صاحبان عذر ميں سے شمار ہوں گے كہ جنہيں نائب بنانا جائز نہيں ہے_

ج1: وقوف اختيارى كو در ك كرنے كيلئے ان پر پلٹنا واجب نہيںہے_

2 _ رات ميں كنكرياں مارنا ان كيلئے كافى نہيں ہے مگر يہ كہ دن ميں ايسا كرنے سے عذ ر ركھتے ہوں_

3_ نائب كى نسبت احوط يہ ہے كہ وہ رات كے وقت مشعر الحرام سے نہ نكلے اگرچہ پلٹ كر مشعر الحرام كے اختيارى وقوف كو درك كر لے ہاں اگر فرض كريں كہ وہ عذر نہيں ركھتا اور اختيار كے برخلاف نكلے تو اگر پلٹ آئے اور اختيارى اور پورے واجب وقوف كو درك كرلے تو يہ اسكى نيابت كيلئے مضر نہيں ہے_

س 12: جو شخص شب عيد اور مزد لفہ ميں معمولى سا وقوف كرنے كے بعد عورتوں اور مريضوں كے ہمراہ ہوتا ہے كيا اس پر واجب ہے كہ انہيں مكہ پہنچانے كے بعد فجر سے پہلے مزدلفہ كى طرف پلٹ آئے يا اس كيلئے طلوع فجر اور طلوع آفتاب كے درميان وقوف كر لينا كافى ہے يا اس كيلئے وہى معمولى سا وقوف ہى كافى ہے جبكہ اس كے ساتھ تھكن ، مشقت اور ٹريفك كى وہ پابندياں بھى ہوتى ہيں جو انتظاميہ نافذ كرتى ہے اور كيا نيابتى حج كرنے والے اور اسكے غير كے درميان كوئي فرق ہے؟

ج: جو شخص صاحبان عذر كى نگرانى اور تيمار دارى كيلئے ان كے ہمراہ كوچ كرتا ہے اس پر طلوع فجر اور طلوع شمس كے درميان وقوف كرنا واجب نہيں ہے بلكہ اس كيلئے رات كے اضطرارى وقوف پر اكتفا كرنا جائز ہے ہاں جو شخص نيابتى حج انجام دے رہا ہے اس كيلئے يہ جائز نہيں ہے اور اس پر اختيارى اعمال كو انجام دينا واجب ہے_

س 13 : كيا اختيارى صورت ميں نذر كےساتھ ميقات سے پہلے احرام باندھنا جائز ہے جبكہ انسان جانتا ہو كہ وہ سايہ ميں جانے پر مجبور ہوجائيگا جيسے اگر نذر كركے اپنے شہر سے احرام باندھے اور پھر دن كے وقت ہوائي جہاز ميں سوار ہوجائے؟

ج: نذر كركے ميقات سے پہلے احرام باندھنا جائز ہے اور دن كے وقت سايہ ميں جانا حرام ہے اور ايك عنوان كا حكم دوسرے عنوان تك سرايت نہيں كرتا_

س 14 : ايك شخص فوج ميں كام كرتا ہے اور بعض اوقات جبرى حكم كے ذريعے اسكى ڈيوٹى لگائي جاتى ہے جيسے كسى اہم كام كيلئے فوراً مكہ پہنچنا اور اس نے پہلے عمرہ نہيں كيا ہوتا اور تنگى وقت كى وجہ سے احرام كى حالت ميں مكہ ميں داخل نہيں ہوسكتا تو كيا وہ اس صورت ميں گناہ گار ہوگا كيا اس پر كفارہ ہے؟

ج: سوال كے فرض ميں اس كيلئے بغير احرام كے مكہ مكرمہ ميں داخل ہونا جائز ہے اور اس سلسلے ميں اس پر كوئي شے نہيں ہے_

س 15: اگر ماہ ذيقعد ميں مكہ ميں عمرہ مفردہ بجا لائے اور پھر ذى الحج ميں دوبارہ مكہ ميں داخل ہونا چاہے جبكہ ابھى اس عمرے كو دس دن نہ ہوئے ہوں تو كيا اس كيلئے نيا احرام باندھنا ضرورى ہے يا وہ بغير احرام كے داخل ہو سكتا ہے؟

ج: احوط كى بناپر اس وقت اس كيلئے احرام باندھنا ضرورى ہے _

س 16: ايك شخص جدہ ميں رہتا ہے اور مكہ مكرمہ ميں كام كرتا ہے يعنى وہ چھٹى كے دنوں كے علاوہ تسلسل كے ساتھ ہر دن مكہ جاتاہے يا آدھا ہفتہ جاتاہے يعنى تين دن مكہ جاتا ہے اور چار دن نہيں جاتا اگر چھٹى كے ايام يا چار دن ختم ہوجائيں تو كيا اس كيلئے دوبارہ عمرہ كرنا واجب ہے؟

ج: سوال كى مفروضہ صورت ميں عمرہ كرنا واجب نہيں ہے_

س 17: اگر عمرہ ختم ہوجائے اور انسان مكہ ميں ہى ہو تو كيا اس پر نيا عمرہ كرنا واجب ہے؟ اور كہاں سے ؟ كيا حرم كى حدود سے يا مسجد تنعيم سے؟

ج: جبتك وہ مكہ مكرمہ ميں ہے نياعمرہ بجا لانا واجب نہيں ہے اور اگر نيا عمرہ بجا لانا چاہے تو ضرورى ہے كہ اطراف حرم سے ادنى الحل كى طرف جائے اور يا پھر مسجد تنعيم جائے_

س 18: ايك شخص ٹيكسى كا ڈرائيور ہے اور سوارى اسے مكہ جانے كا كہتى ہے يہ جانتے ہوئے كہ ڈرائيور نے پہلے عمرہ نہيں كر ركھا كيا اس پر واجب ہے كہ احرام كى حالت ميں داخل ہو اور اگر بغير احرام كے داخل ہو تو اس كا كيا حكم ہے ؟

ج: سوال كى مفروضہ صورت ميں اس پر واجب ہے كہ مكہ مكرمہ ميں داخل ہونے كيلئے احرام باندھے اور عمرہ مفردہ كے اعمال بجا لائے اور اگر بغير احرام كے مكہ ميں داخل ہو جائے تو فعل حرام كا مرتكب ہوا ہے ليكن اس پر كفارہ نہيں ہے_

س 19: جو شخص سخت بھيڑ كے وقت كئي مستحب طواف كرتا ہے اس طرح كے ان حجاج كو مزاحم ہوتا ہے جو واجب طواف كرتے ہيں تو كيا اس پر كوئي اشكال ہے بالخصوص اگر اسكے پاس مستحب طواف كيلئے وسيع وقت ہو_

ج: اس پر كوئي اشكال نہيں ہے ہاں اولى بلكہ احوط يہ ہے كہ اس بھيڑ كے ہوتے ہوئے مستحب طواف نہ كرے_

س 20:جو شخص استطاعت كى وجہ سے حج افراد كو بطور واجب بجا لاتا ہے يا اسے بطور مستحب انجام ديتا ہے اور اس سے پہلے متعدد دفعہ عمرہ كر چكا ہو تو كيا اس پر ايك نيا عمرہ واجب ہے جو اس حج كے متعلق ہو؟

ج: عمرہ واجب نہيں ہے مگر جن موارد ميں تمتع سے افراد كى طرف عدول كرنا ہو_

س 21: جس شخص نے حج افراد كيلئے طواف باندھا ہوا ہے كيا وہ طواف حج اور سعى كے بعد اپنے اختيار كےساتھ مكہ سے نكل كر جدہ جا سكتا ہے؟ كہ پھر سيدھا عرفہ ميں حجاج كے ساتھ ملحق ہوجائے؟

ج: طواف اور سعى كے بعد جدہ يا كسى اور جگہ جانے سے مانع نہيں ہے ليكن اگر اس كى وجہ سے اسے دو وقوف كے فوت ہوجانے كا خوف نہ ہو_

س 22: شرعى مسافت كہ جسكے ساتھ حج افراد جائز ہوتا ہے سولہ فرسخ ہے تو يہ مسافت كہاں سے شمار كى جائيگي؟

الف: كيا آپ كى رائے ميں مكہ قابل توسيع ہے اور ہر وہ جگہ جسے عرف ميں مكہ كہا جاتا ہے وہ مكہ كا حصہ ہے؟

ب: جو مكلف مكہ سے سولہ فرسخ سے كم فاصلے پر رہتا ہے كيا وہ اپنے گھر سے احرام باندھے گا يا مدينہ كى كسى جگہ سے؟

ج: كيا آپ كى نظر ميں مسافت كا آغاز مكلف كے شہر كے آخر سے ہوگا؟

ج: الف) مسافت مكلف كے شہر يا ديہات كے آخر سے شہر مكہ كے شروع تك حساب كى جائيگى اور شہر مكہ قابل توسيع ہے اور مسافت كے حساب كرنے كا معيار وہ جگہ ہے جسے اس وقت عرف ميں شہر مكہ كى ابتدا كہا جاتا ہے_

ب: اس كيلئے اپنے شہر كى ہر جگہ سے احرام باندھنا جائز ہے اگرچہ اولى اور احوط يہ ہے كہ اپنے گھر سے احرام باندھے_

ج: ابھى ابھى گزرا ہے كہ مسافت كا معيار اسكے اپنے شہر اور موجودہ شہر مكہ كے درميان كى مسافت ہے اگرچہ احوط يہ ہے كہ اپنے گھر سے مسافت كى ابتدا كا حساب كرے_

س 23: عمرہ كرنے والا شخص جو مدينہ منورہ يا اسكے مضافات ميں رہتا ہے كيا اس كيلئے جائز ہے كہ وہ مكہ مكرمہ جانے كے قصد سے جدہ آئے اور پھر احرام كيلئے ادنى الحل جيسے مسجد تنعيم كا قصد كرے_

ج: اگر وہ مدينہ سے نكلتے وقت عمرہ كا قصد ركھتا ہو تو اس پر لازم ہے كہ مسجد شجرہ سے احرام باندھے اور اس كيلئے بغير احرام كے ميقات سے آگے جانا جائز نہيں ہے اگرچہ مكہ مكرمہ جاتے ہوئے جدہ سے گزرنے كا ارادہ ركھتا ہو اور اگر بغير احرام كے ميقات سے گزر كر جدہ پہنچ جائے پھر عمرہ كا ارادہ كرے تو اس پر واجب ہے كہ وہ احرام باندھنے كيلئے كسى ميقات پر جائے اور اس كيلئے جدہ اور ادنى الحل سے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے كيونكہ ادنى الحل صرف ان لوگوں كيلئے عمرہ مفردہ كا ميقات ہے جو مكہ مكرمہ ميں رہتے ہيں _

س 24: مدينہ يا اسكے مضافات سے دو راستے جدہ كى طرف جاتے ہيں ايك حجفہ كے قريب سے گزرتا ہے كہ جسكے ساتھ محاذات (مقابل) بن جاتا ہے اور دوسرا جو كہ تيز راستہ ہے ، جحفہ كے مقابل سے گذرتاہے ليكن وہ جحفہ سے سو كيلوميٹر سے بھى زيادہ دور ہے اور سيدھا راستہ نہيں ہے تو كيا اسے بھى محاذات (مقابل) شمار كيا جائيگا يا نہيں؟

ج: محاذات اور مقابل سے مراد يہ ہے كہ مكہ مكرمہ كى طرف جانے والا شخص راستے ميں ايسے نقطے پر پہنچ جائے كہ جسكى دائيں يا بائيں جانب ميقات ہو اس بنا پر پس نقطہ محاذات كے اعتبار سے دو راستوں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے_

س 25: دوسرى صورت ميں اگر بالفرض وہ محاذات نہ بنتى ہو تو جو شخص اس راستے سے جا رہا ہے كيا اس كيلئے جائز ہے كہ وہ ادنى الحل جا كر وہاں سے عمرہ مفردہ يا حج كا احرام باندھے ؟

ج: ميقات اور اسكى بالمقابل جگہ سے بغير احرام كے گزرنا جائز نہيں ہے اور ادنى الحل سے احرام باندھنا بھى صحيح نہيں ہے جيسے كہ ابھى ابھى گزرا ہے _

س26: جس شخص كو ميقات سے احرام باندھنے ميں اپنے يا اپنے اہل و عيال پر خوف كا وہم ہو كيا اس كيلئے ادنى الحل سے احرام باندھنا جائز ہے؟

ج: اگر ميقات ميں احرام باندھنے سے كوئي عذر ہو جو ميقات سے گزرنے كے بعد زائل ہوجائے تو اس پر واجب ہے كہ احرام باندھنے كيلئے ميقات كى طرف واپس پلٹے البتہ اگر ممكن ہو ورنہ اپنى جگہ سے احرام باندھے اگر اسكے آگے كوئي ميقات نہ ہو اور كسى دوسرے ميقات پر جانے كى قدرت بھى نہ ركھتا ہو_

س 27: كيا احرام كى حالت ميں رات كے وقت بارش سے بچنے كيلئے كسى چيز كے نيچے جانا جائز ہے ؟

ج: احوط مراعات كرنا ہے_

س 28: جو شخص مقام ابراہيم كے پيچھے قرآن كريم يا مستحب نمازيں پڑھنا چاہتا ہے يا دعاء كيلئے بيٹھنا چاہتا ہے جب كہ اس كيلئے ان چيزوں كو مسجد الحرام كى دوسرى جگہوں ميں انجام دينا بھى ممكن ہے تو كيا بھيڑ كے باوجود اس كيلئے يہ كام جائز ہے جبكہ طواف كى واجب نماز پڑھنے والوں كيلئے مشكل كا باعث ہو_

ج: اولى بلكہ احوط يہ ہے كہ مذكورہ چيزوں كو اس جگہ بجا لائے جہاں بھيڑ نہ ہو_

س 29: كيا حاجى ( مرد يا عورت) كيلئے احرام كى حالت ميں پانى كو زائل كرنے كيلئے اپنے چہرے كو توليے سے پونچھنا جائز ہے ؟

ج: اس كام ميں مرد كيلئے تو ہر صورت ميں كوئي حرج نہيں ہے اور عورت كيلئے بھى كوئي حرج نہيں ہے اگر اس پر چہرے كو ڈھانپنا صدق نہ كرے اس طرح كہ يہ كام توليے كو بالتدريج اپنے چہرے پر گزارنے كے ساتھ ہو ورنہ اس كيلئے يہ جائز نہيں ہے بہر حال چہرے كو ڈھانپنے ميں كفارہ نہيں ہے_

س 30: حاجى كيلئے جائز ہے كہ حج كے موقع پر منى ميں رات گزارنے كى بجائے مكہ مكرمہ ( حرم ) ميں عبادت كے ساتھ رات گزارے تو كيا كھانا كھانا، نہانا، قضائے حاجت يا مومن كے جنازہ كى تشييع كرنا ايسے كام ہيں جو عبادت كےساتھ مشغول ہونے كو باطل كرديتے ہيں؟

ج: ضرورت كے مطابق كھانے پينے ميں مشغول ہونا اور كسى احتياج كى وجہ سے باہر جانا اور وضو يا واجب غسل بجا لانا عبادت كے ساتھ مشغول ہونے كو نقصان نہيں پہنچاتا_

س 31: سابقہ سوال ميں مذكور مصروفيات اگر عبادت كو باطل كرديں تو كيا كفارہ بھى ہے ؟

ج: اگر ايسے كام ميں مشغول ہو جو عبادت نہيں ہے اگرچہ مكہ مكرمہ ميں، اور ضروريات ميں سے بھى شمار نہ كيا جاتا ہوجيسے كھانا پينا اور كوئي ضرورت پورى كرنا تو اس پر كفارہ واجب ہے _

س32: كيا چند ماہ تك مال كو جمع كرنا حج كى استطاعت كو حاصل كرنے كيلئے كافى ہے ؟ بالخصوص اگر وہ جانتا ہو كہ وہ اس طريقے كے علاوہ مستطيع نہيں ہوسكتا_

ج: استطاعت كا حاصل كرنا واجب نہيں ہے ليكن اگر انسان حجة الاسلام كرنا چاہتا ہو تو اس سے كوئي مانع نہيں ہے كہ وہ كسى جائز طريقے سے مال حاصل كرے يا اپنى منفعت سے ذخيرہ كرتا رہے يہاں تك كہ اس كے حج كا خرچ جمع ہوجائے مگر جب وہ اپنى منفعت سے ذخيرہ كرے اور اس پر خمس كا سال گزر جائے تو اس پر اس كا خمس دينا واجب ہے _

س 33: كيا والدين كو ملنا :معاشرتي، شرعى يا ذاتى ضرورت شمار ہوتى ہے اور اگر ايسا ہے تو كيا جو شخص استطاعت ركھتا ہے اس كيلئے جائز ہے كہ وہ اپنا مال والدين كو ملنے كيلئے خرچ كردے جب ملنے كيلئے سفر و غيرہ كى ضرورت ہو اور حج كو مؤخر كردے؟

ج: مستطيع پر واجب ہے كہ حج كرے اور اپنے آپ كو استطاعت سے خارج كرنا جائز نہيں ہے اور صلہ رحمى صرف ملنے ميں منحصر نہيں ہے بلكہ رشتہ داروں كى احوال پرسى اور صلہ رحمى ديگر طريقوں سے بھى ممكن ہے جيسے خط لكھنا يا ٹيليفون كرنا وغيرہ ہاں اگر والدين كہ جو دوسرے شہر ميں ہيں ان سے ملنا اسكى اپنى حالت اور انكى حالت كے پيش نظر ضرورى ہو اس طرح كہ اسے اسكى عرفى ضروريات ميں سے شمار كيا جائے اور اسكے پاس اتنا مال بھى نہ ہو جو والدين كى ملاقات اور حج كے اخراجات دونوں كيلئے كافى ہو تو وہ اس حالت ميں مستطيع ہى نہيں ہے_

س34: اگر دودھ پلانے والى عورت مستطيع ہو جائے ليكن اسكے حج پر جانے سے شيرخوار بچے كو نقصان پہنچتا ہو تو كيا وہ حج كو ترك كرسكتى ہے؟

ج: اگر نقصان اس طرح ہو كہ دودھ پلانے والى كيلئے شير خوار كے پاس رہنا ضرورى ہے يا اس سے دودھ پلانے والى عورت كيلئے حرج ہے تو اس پر حج واجب نہيں ہے _

س 35:جو عورت سونے كے كچھ زيورات كى مالك ہے اوروہ انہيں پہنتى ہے اور اسكے پاس اسكے علاوہ كوئي دوسرا مال نہيں ہے اگر وہ انہيں بيچ دے تو وہ حج كرنے پر قادر ہوجاتى ہے تو كيا عورتوں كے زيورات استطاعت سے مستثنى ہيں يا اس پر واجب ہے كہ وہ حج كے اخراجات كيلئے انہيں بيچے اور انكے ساتھ وہ مستطيع ہوگي_؟

ج: اگر ان زيورات كو وہ پہنتى ہو اور وہ اسكى حيثيت سے زيادہ نہ ہوں تو اس پرحج كيلئے انہيں بيچنا واجب نہيں ہے اور وہ مستطيع نہيں ہوگي_

س 36: ايك عورت حج كيلئے استطاعت ركھتى ہے ليكن اس كا شوہر اسے اسكى اجازت نہيں ديتا تو اسكى ذمہ دارى كيا ہے ؟_

ج: واجب حج ميں شوہر كى اجازت معتبر نہيں ہے ہاں اگر شوہر كى اجازت كے بغير حج پر جانے سے عورت حرج ميں مبتلا ہوتى ہو تو وہ مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے_

 

س 37: اگر شادى كے عقد كے وقت ميرے شوہر نے مجھے حج كرانے كا وعدہ ديا ہو تو كيا ميرے ذمے ميں حج مستقر ہو جائيگا؟

ج: صرف اس سے حج ذمے ميں مستقر نہيں ہوتا_

 

س 38: كيا حج كى استطاعت حاصل كرنے كيلئے ضروريات زندگى ميں تنگى لانا جائز ہے ؟

ج: يہ جائز ہے ليكن شرعا واجب نہيں ہے البتہ يہ تب ہے جب تنگى اپنے آپ پر كرے ليكن جن اہل و عيال كا خرچ اس پر واجب ہے ان پر معمول كى حد سے تنگى كرنا جائز نہيں ہے_

 

س 39:ماضى ميں ميرى طرف سے دين كى پابندى اور اس كا اہتمام كوئي اچھا نہيں تھا اور ميرے پاس اتنا مال تھاجو سفر حج كيلئے كافى تھا ( يعنى ميں مستطيع تھا) ليكن اپنى اس حالت كيوجہ سے ميں حج پر نہيں گيا تو اس وقت ميرے لئے كيا حكم ہے؟جبكہ اس وقت ميرے پاس لازمى رقم نہيں ہے _ جيسا كہ اسكے دو راستے ہيں ايك ادارہ حج ميں نام لكھوا كر اور ايك دوسرا راستہ كہ جس ميں زحمت زيادہ ہے تو كيا حكومت كے ہاں نام لكھوا دينا كافى ہے ؟

ج: اگر آپ ماضى ميں مستطيع تھے اور فريضہ حج كى ادائيگى كيلئے سفر پر قادر تھے اسكے باوجود آپ نے حج كو مؤخر كيا تو آپ پر حج مستقر ہوچكا ہے اور آپ پر ہر جائز اور ممكن طريقے سے حج پر جانا واجب ہے البتہ جبتك عسر وحرج نہ ہو اور اگر آپ سب جہات سے مستطيع نہيں تھے تو سوال كى مفروضہ صورت ميں آپ پر حج واجب نہيں ہے_

 

س 40: جب مسجدالحرام خون يا پيشاب كے ساتھ نجس ہوجاتى ہے تو جو لوگ اسے پاك كرنے پر مامور ہيں وہ ايسے طريقے كو استعمال كرتے ہيں جو پاك نہيں كرتا تو رطوبت ہونے يا نہ ہونے كى صورت ميں مسجد كى زمين پر نماز پڑھنے كا كيا حكم ہے ؟

ج: جبتك سجدے والى جگہ كے نجس ہونے كا علم نہ ہو نماز پڑھنے ميں كوئي حرج نہيں ہے _

 

س 41: كيا مسجد نبوى ميں جائے نماز پر سجدہ كرنا صحيح ہے؟ بالخصوص روضہ شريفہ ميں كہ جہاں كوئي ايسى چيز ركھنا جس پر سجدہ كرنا صحيح ہے _جيسے كاغذ يا درخت كى شاخوں سے بنى ہوئي جائے نماز _توجہ كو جذب كرتا ہے اور نمازى لوگوں كى نظروں كا نشانہ بنتا ہے جيسے كہ اس سے مخالفين كو مذاق اڑانے كا بھى موقع ملتا ہے_

ج: كسى ايسى چيز كا ركھنا كہ جس پر سجدہ صحيح ہے اگر تقيہ كے خلاف ہو تو جائز نہيں ہے اور اس پر واجب ہے كہ ايسى جگہ كا انتخاب كرے كہ جس ميں مسجد كے پتھروں پريا كسى ايسى چيز پر سجدہ كرسكے كہ جس پر سجدہ كرنا صحيح ہے البتہ اگر اس كيلئے يہ ممكن ہو ورنہ تقيةً اسى جائے نماز پر سجدہ كرے_

 

س 42: اذان و اقامت كے وقت دو مسجدوں سے نكلنے كا كيا حكم ہے جبكہ اہل سنت برادران انكى طرف جا رہے ہوتے ہيں اور اس وقت ہمارے نكلنے كے بارے ميں باتيں كر رہے ہوتے ہيں ؟

ج: اگر دوسروں كى نظر ميں يہ كام نماز كو اسكے اول وقت ميں قائم كرنے كو ہلكا سمجھنا شمار ہوتا ہو تو جائز نہيں ہے بالخصوص اگر اس ميں مذہب پر عيب لگتا ہو_

 

س 43: ايك شخص اپنے شہر پلٹنے كے بعد متوجہ ہوتا ہے كہ عمل كے دوران اس كا احرام نجس تھا تو كيا وہ احرام سے خارج ہے يا نہيں ؟

ج: اگر وہ موضوع يعنى عمل كى حالت ميں اپنے احرام ميں نجاست كے وجود سے جاہل ہو تو وہ احرام سے خارج ہے اور اس كا طواف اور حج صحيح ہے ؟

 

س 44: جس مكلف نے كسى كو نائب بنايا ہو كہ اسكى طرف سے قربانى كرے تو كيا نائب كے پلٹنے اور اسكے يہ خبر دينے سے پہلے كہ قربانى ہوچكى ہے اس كيلئے تقصير يا حلق كرنا جائز ہے ؟

ج: اس پر واجب ہے كہ انتظار كرے يہاں تك كہ نائب كى طرف سے قربانى ہوجانے كا انكشاف ہوجائے ليكن اگر حلق يا تقصير ميں جلدى كرے اور اتفاقاً يہ نائب كى طرف سے قربانى ہو جانے سے پہلے ہو تو اس كا عمل صحيح ہے اور اس پر اعادہ واجب نہيں ہے _

 

س45: جس مكلف نے اپنى طرف سے قربانى كرنے كيلئے كسى كو نائب بنايا ہوا ہے كيا اس كيلئے نائب كى طرف سے اسے ذبح كرنے كى خبر پہنچنے سے پہلے سونا جائز ہے ؟

ج: اس سے كوئي مانع نہيں ہے _

 

س46: موجودہ دور ميں منى ميں قربانى كو ذبح كرنا ممكن نہيں ہے بلكہ اس كيلئے انہوں نے منى سے باہر ليكن منى كے قريب ہى ايك جگہ معين كرركھى ہے اور دوسرى جانب سے قربانى كے جانور كہ جن كيلئے بڑى رقوم خرچ كى جاتى ہيں كہا جاتا ہے كہ ان كا گوشت وہيں پھينك ديا جاتا ہے اور وہ گل سٹر كر ضائع ہوجاتا ہے جبكہ اگر انہيں ديگر ممالك ميں ذبح كيا جائے تو ان كا گوشت ضرورت مند فقرا كو ديا جا سكتا ہے تو كيا حاجى كيلئے جائز ہے كہ وہ اپنے ملك ميں قربانى كرے اور كسى كے ساتھ طے كر لے كہ وہ اسكى طرف سے قربانى كردے يا ديگر ممالك ميں اور ٹيليفون كے ذريعے قربانى كرلے يا اسے مقررہ جگہ پر ہى ذبح كرنا واجب ہے اور كيا اس مسئلہ ميں اس مرجع كى طرف رجوع كرنا جائز ہے جو اسكى اجازت ديتا ہے جيسے كے بعض بزرگ فقہاء سے يہ منقول ہے ؟

ج: يہ كام جائز نہيں ہے اور قربانى صرف منى ميں ہو سكتى ہے اور اگر يہ ممكن نہ ہو تو جہاں اس وقت قربانى كى جاتى ہے وہيں كى جائيگى تا كہ قربانى كے شعائر كى حفاظت كى جاسكے كيونكہ قربانى شعائر اللہ ميں سے ہے _

 

س 47: اگر حكومت منى كے اندر قربانى كرنے پر پابندى لگا دے تو كيا حجاج كيلئے مكہ مكرمہ سے باہر قربانى كرنا جائز ہے اور كيا مكہ كے اندر قربانى كرنا كافى ہے ؟

ج: حج كى قربانى كافى نہيں ہے مگر منى ميں ہاں اگر اس ميں قربانى كرنے پر پابندى لگ جائے تو اس كيلئے جو جگہ تيار كى گئي ہے وہاں قربانى كرنا كافى ہے جيسے كہ اس صورت ميں مكہ كے اندر قربانى كرنا بھى كافى ہے ليكن اگر قربانى كى جگہ كا منى سے فاصلہ اتنا ہى ہو جتنا اس جگہ كا ہے جو قربانى كيلئے تيار كى گئي ہے يا اس سے كم ہو_

 

48: ايسے خيراتى ادارے موجود ہيں جو حاجى كى نيابت ميں قربانى كرتے ہيں اور پھر اسے ضرورتمند فقرا كے حوالے كرديتے ہيں اس سلسلے ميں راہبر معظم كى رائے كيا ہے اور كيا جناب عالى كى نظر ميں اسكى شرائط ہيں ؟

ج: قربانى كى ان شرائط كا احراز كرنا ضرورى ہے كہ جو مناسك ميں ذكر ہوچكى ہيں _

 

س 49: كيا قربانى كو ذبح كرنے كے بعد اسے ان خيراتى اداروں كو دينا جائز ہے جو اسے فقرا تك پہنچاتے ہيں ؟

ج: اس ميں كوئي حرج نہيں ہے _

 

س 50: صفا و مروہ كے درميان سعى كرتے وقت صفا و مروہ كے پہاڑوں كے پاس لوگوں كى بڑى تعداد جمع ہوجاتى ہے جو سعى كرنے والوں كى بھيڑ كا سبب بنتى ہے تو كيا سعى كرنے والے پر واجب ہے كہ وہ ہر چكر ميں خود پہاڑ تك جائے يا سنگ مر مر سے بنى ہوئي پہلى بلندى كافى ہے كہ جو چلنے سے عاجز لوگوں كے راستے كے ختم ہونے كے ساتھ شروع ہوتى ہے ؟

ج: اس حد تك چڑھنا كافى ہے كہ جسكے ساتھ يہ صدق كرے كہ يہ پہاڑ تك پہنچا ہے اور اس نے دو پہاڑوں كے درميان كے پورے فاصلے كى سعى كى ہے _

 

س 51: كيا عمرہ مفردہ اور حج تمتع كيلئے ايك طواف النساء كافى ہے ؟

ج: عمرہ مفردہ اور حج تمتع ميں سے ہر ايك كيلئے الگ طواف النساء ہے پس ايك طواف دو طواف سے كافى نہيں ہے ہاں مُحل ہونے كيلئے ايك طواف كا كافى ہونا بعيد نہيں ہے_

 

س 52: جو شخص بارہويں كى رات منى ميں بسر كرے اور آدھى رات كے بعد كوچ كرے تو كيا اس پر واجب ہے كہ زوال سے پہلے اسكى طرف واپس پلٹ آئے تاكہ يہ بھى وہ كوچ كرسكے جو وہاں پر موجود لوگوں كيلئے زوال كے بعد واجب ہوتا ہے اور اس بات سے كوئي مانع ہے كہ وہ صبح كے وقت منى آكر جمرات كو كنكرياں مارلے پھر مكہ پلٹ جائے يا اس پر وہيں رہنا واجب ہے ؟ بالخصوص جب وہ اپنے اختيار كے ساتھ ظہر كے بعد جمرات كو كنكرياں مارنے اور مغرب سے پہلے منى سے نكلنے پر قادر ہے_

ج : جو شخص منى ميں ہے اس پر واجب ہے كہ زوال كے بعد كوچ كرے اگرچہ اس طرح كے زوال كے بعد جمرات كو كنكرياں مارنے كيلئے مكہ سے آ جائے اور كنكرياں مارنے كے بعد غروب سے پہلے كوچ كر جائے پس آدھى رات كے بعد مكہ جانا جائز ہے ليكن كنكرياں مارنے كيلئے بارہويں كے دن پلٹ آئيگا اور زوال كے بعد كوچ كرے گا_

 

س 53: آيت اللہ گلپايگانى (قدس سرہ) كے اعمال حج كى كتاب ميں اعمال حج سے متعلقہ بہت سارے مستحبات مذكور ہيں _ ان مستحبات پر عمل كرنے كے سلسلے ميں جناب كى كيا رائے ہے؟

ج: قصد رجاء كے ساتھ ان پر عمل كرنے ميں كوئي حرج نہيں ہے_

 

س 54: كيا اس آب زمزم سے وضو كرنا جائز ہے جو پينے كيلئے مخصوص ہے_

ج: مشكل ہے اور احتياط كى رعايت كرنا ضرورى ہے _

Tuesday, 19 June 2012 09:55

پرده كا فلسفه

 

 

 

تحرير : آيت الله العظمي ناصر مكارم شيرازي

 

بے شک عصر حاضر میں جس کو بعض لوگوں نے عریانی اور جنسی آزادی کا زمانہ قرار دیا ہے، اور مغرب نواز لوگوں نے اس کو عورتوں کی آزادی کا ایک حصہ قرار دیا ہے، لہٰذا ایسے لوگ پردہ کی باتوں کو سن کر منہ بناتے ہیں اور پردہ کو گزشتہ زمانہ کا ایک افسانہ شمار کرتے ہیں۔لیکن اس آزادی اور بے راہ روی سے جس قدر فسادات اور برائیاں بڑھتی جارہی ہیں اتنا ہی پردہ کی باتوں پر توجہ کی جارہی ہے۔

البتہ اسلامی اور مذہبی معاشرہ میں بہت سے مسائل حل ہوچکے ہیں اور بہت سے سوالات کا اطمینان بخش جواب دیا جا چکا ہے، لیکن چونکہ یہ مسئلہ بہت اہم ہے لہٰذا اس مسئلہ پر مزید بحث و گفتگو کی ضرورت ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ (بہت ہی معذرت کے ساتھ)کیا عورتوں سے (ہمبستری کے علاوہ) سننے، دیکھنے اور لمس کرنے کی دوسری لذتیں تمام مردوں کے لئے ہیں یا صرف ان کے شوہروں سے مخصوص ہیں؟

بحث اس میں ہے کہ عورتیں اپنے جسم کے مختلف اعضا کی نمائش کے ایک بے انتہا مقابلہ میں جوانوں کی شہوتوں کو بھڑکائیں اور آلودہ مردوں کی ہوس کا شکار بنیں یا یہ مسائل شوہروں سے متعلق ہیں؟

اسلام اس دوسری قسم کا طرف دار ہے ، اور حجاب کو اسی لئے قرار دیا ہے. حالانکہ مغربی ممالک اور مغرب نواز لوگ پہلے نظریہ کے قائل ہیں۔

اسلام کہتا ہے کہ جنسی لذت, دیکھنے ، سننے اور چھونے کی لذت شوہر سے مخصوص ہے اس کے علاوہ دوسرے کے لئے گناہ، آلودگی اور معاشرہ کے لئے ناپاکی کا سبب ہے۔

 

فلسفہ حجاب کوئی مخفی اور پوشیدہ چیز نہیں ہے، کیونکہ:

 

۱۔ بے پردہ عورتیں معمولاً بناؤ سنگار اور دیگر زرق و برق کے ذریعہ جوانوں کے جذبات کو ابھارتی ہیں جس سے ان کے احساسات بھڑک اٹھتے ہیں اور بعض اوقات نفسیاتی امراض پیدا ہوجاتے ہیں،انسان کے احساسات کتنے ہیجان آور وزن کو برداشت کرسکتے ہیں؟ کیا نفسیاتی ڈاکٹر یہ نہیں کہتے کہ ہمیشہ انسان میں ہیجان سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔

خصوصاً جب یہ بھی معلوم ہو کہ جنسی غریزہ انسان کی سب سے بنیادی فطرت ہوتی ہے جس کی بنا پر تاریخ میں ایسے متعدد خطرناک حوادث اور واقعات ملتے ہیں جس کی بنیاد یہی چیز تھی، یہاں تک بعض لوگوں کا کہنا ہے: ''کوئی بھی اہم واقعہ نہیں ہوگا مگر یہ کہ اس میں عورت کا ہاتھ ضرور ہوگا''

ہمیشہ بازاروں اور گلی کوچوں میں عریاں پھر کر احساسات کو بھڑکانا؛ کیا آگ سے کھیلنا نہیں ہے؟ اور کیا یہ کام عقلمندی ہے؟

اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ مسلمان مرد اور عورت چین و سکون کے ساتھ زندگی بسر کریں اور ان کی آنکھیں اور کان غلط کاموں سے محفوظ رہیں اور اس لحاظ سے مطمئن طور پر زندگی بسر کریں، پردہ کا ایک فلسفہ یہ بھی ہے۔

 

۲۔ مستند اور قطعی رپورٹ اس چیزکی گواہی دیتی ہے کہ دنیا بھر میں جب سے بے پردگی بڑھی ہے اسی وقت سے طلاقوں میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، کیونکہ ''ہر چہ دیدہ بیند دل کند یاد'' انسان جس کا عاشق ہوجاتا ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا انسان ہر روز ایک دلبرکو تلاش کرتا ہے تو دوسرے کو الوداع کہتا ہوا نظر آتا ہے۔

جس معاشرہ میں پردہ پایا جاتا ہے (اور اسلامی شرائط کی رعایت کی جاتی ہے) اس میں یہ رشتہ صرف میاں بیوی میں ہوتا ہے ان کے احساسات، عشق اور محبت ایک دوسرے کے لئے مخصوص ہوتے ہیں۔

لیکن ''اس آزادی کے بازار'' میں جبکہ عورتیں ؛ عملی طور پر ایک سامان کی حیثیت رکھتی ہیں (کم از کم جنسی ملاپ کے علاوہ) تو پھر ان کے لئے میاں بیوی کا عہد و پیمان کوئی مفہوم نہیں رکھتا، اور بہت سی شادیاں مکڑی کے جالے کی طرح بہت جلد ہی جدائی کی صورت اختیار کرلیتی ہیں، اور بچے بے سر پرست ہوجاتے ہیں۔

 

۳۔ فحاشی کا اس قدر عام ہوجانا اور نا جائز اولادیں پیدا ہونا، بے پردگی کے نتیجہ کا ایک معمولی سا درد ہے، جس کے بارے میں بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ مسئلہ خصوصاً مغربی ممالک میں اس قدر واضح ہے جس کے بارے میں بیان کرنا سورج کو چرا غ دکھانا ہے، سبھی لوگ اس طرح کی چیزوں کے بارے میں ذرائع ابلاغ سے سنتے رہتے ہیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ فحاشی اور نا جائز بچوں کی پیدائش کی اصل وجہ یہی بے حجابی ہے،ہم یہ نہیں کہتے کہ مغربی ماحول اور غلط سیاسی مسائل اس میں موثر نہیں ہے، بلکہ ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ عریانی اور بے پردگی اس کے موثر عوامل اور اسباب میں سے ایک ہے۔

فحاشی اور ناجائز اولاد کی پیداوار کی وجہ سے معاشرہ میں ظلم و ستم اور خون خرابہ میں اضافہ ہوا ہے، جس کے پیش نظر اس خطرناک مسئلہ کے پہلو واضح ہوجاتے ہیں۔

جس وقت ہم سنتے ہیں کہ ایک رپورٹ کے مطابق انگلینڈ میں ہر سال پانچ لاکھ بچے ناجائز طریقے سے پیدا ہوتے ہیں، اور جب ہم سنتے ہیں کہ انگلینڈ کے بہت سے دانشوروں نے حکومتی عہدہ داروں کو یہ چیلنج دیا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ملک کی امنیت کو خطرہ ہے، (انھوں نے اخلاقی اور مذہبی مسائل کی بنیاد پر یہ چیلنج نہیں کیا ہے) بلکہ صرف اس وجہ سے کہ حرام زادے بچے معاشرہ کے امن و امان کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں، کیونکہ جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عدالت کے مقدموں میں اس طرح کے افراد کا نام پایا جاتا ہے، تو واقعاً اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ دین و مذہب کو بھی نہیں مانتے ،اس برائی کے پھیلنے سے وہ بھی پریشان ہیں، لہٰذا معاشرہ میں جنسی فساد کو مزید پھیلانے والی چیزمعاشرہ کی امنیت کے لئے خطرہ شمار ہوتی ہے اور اس کے خطر ناک نتائج ہر طرح سے معاشرہ کے لئے نقصان دہ ہیں۔

تربیتی دانشوروں کی تحقیق بھی اسی بات کی عکاسی کرتی ہے کہ جن کالجوں میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے ہیں یا جن اداروں میں مرد اور عورت ایک ساتھ کام کرتے ہیں اور ان کو ہر طرح کی آزادی ہے تو ایسے کالجوں میں پڑھائی کم ہوتی ہے اور اداروں میں کام کم ہوتا ہے اور ذمہ داری کا احساس بھی کم پایا جاتا ہے۔

 

۴۔ بے پردگی اور عریانی عورت کی عظمت کے زوال کا بھی باعث ہے، اگر معاشرہ عورت کو عریاں بدن دیکھنا چاہے گا تو فطری بات ہے کہ ہر روز اس کی آرائش کا تقاضا بڑھتا جائے گا اور اس کی نمائش میں اضافہ ہوتا جائے گا، جب عورت جنسی کشش کی بنا پر سازو سامان کی تشہیر کا ذریعہ بن جائے گی ، انتظار گاہوں میں دل لگی کا سامان ہوگی اور سیّاحوں کو متوجہ کرنے کا ذریعہ بن جائے گی تو معاشرہ میں اس کی حیثیت کھلونے یا بے قیمت مال و اسباب کی طرح گرجائے گی، اور اس کے شایانِ شان انسانی اقدار فراموش ہوجائیں گے، اور اس کا افتخار صرف اس کی جوانی، خوبصورتی اور نمائش تک محدود ہوکر رہ جائے گا۔

اس طرح سے وہ چند ناپاک فریب کار انسان نما درندوں کی سر کش ہوس پوری کرنے کےلۓ آلہ کار میں بدل جائے گی!۔

ایسے معاشرہ میں ایک عورت اپنی اخلاقی خصوصیات، علم و آگہی اور بصیرت کے جلووں کو کیسے پورا کرسکتی ہے اور کوئی بلند مقام کیسے حاصل کرسکتی ہے؟

واقعاً یہ بات کتنی تکلیف دِہ ہے کہ مغربی اور مغرب زدہ ممالک میں عورت کا مقام کس قدر گرچکا ہے خود ہمارے ملک ایران میں انقلاب سے پہلے یہ حالت تھی کہ نام، شہرت، دولت اور حیثیت ان چند ناپاک اور بے لگام عورتوں کے لئے تھی جو ''فنکار'' اور آرٹسٹ کے نام سے مشہور تھیں، جہاں وہ قدم رکھتی تھیں اُس گندے ماحول کے ذمہ دار اُن کے لئے آنکھیں بچھاتے تھے اور انھیں خوش آمدید کہتے تھے۔

اللہ کا شکر ہے کہ ایران میں وہ سب گندگی ختم کردی گئی اور عورت اپنے اس دور سے نکل آئی ہے جس میں اسے رُسوا کردیا گیا تھا، اور وہ ثقافتی کھلونے اور بے قیمت ساز و سامان بن کر رہ گئی تھی، اب اس نے اپنا مقام و وقار دوبارہ حاصل کرلیا ہے اور اپنے کو پردہ سے ڈھانپ لیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ گوشہ نشین ہوگئی ہو، بلکہ معاشرہ کے تمام مفید اور اصلاحی کاموں میں یہاں تک کہ میدان جنگ میں اسی اسلامی پردے کے ساتھ بڑی بڑی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

 

حجاب کے مخالفین کے اعتراضات

 

قارئین کرام! ہم یہاں پر حجاب کے مخالفین کے اعتراضات کو بیان کرتے ہیں اور مختصر طور پر ان کے جوابات بھی پیش کرتے ہیں:

 

۱۔ حجاب کے مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ معاشرہ میں تقریباً نصف عورتیں ہوتی ہیں لیکن حجاب کی وجہ سے یہ عظیم جمعیت گوشہ نشین اور طبعی طور پر پسماندہ ہوجائے گی ، خصوصاً جب انسان کو کاروبار کی ضرورت ہوتی ہے اور انسانی کار کردگی کی ضرورت ہوتی ہے، تو اگر عورتیں پردہ میں رہیں گی تو اقتصادی کاموں میں ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا، نیز ثقافتی اور اجتماعی اداروں میں ان کی جگہ خالی رہے گی۔ اس طرح وہ معاشرہ میں صرف خرچ کریں گی اور معاشرہ کے لئے بوجھ بن کر رہ جائیں گی۔

لیکن جن لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے وہ چند چیزوں سے غافل ہیں یا انھوں نے اپنے کو غافل بنا لیا ہے، کیونکہ:

 

پہلی بات : یہ کون کہتا ہے کہ اسلامی پردہ کی وجہ سے عورتیں گوشہ نشین اور معاشرہ سے دور ہوجائیں گی؟ اگر گزشتہ زمانہ میں اس طرح کی دلیل لانے میں زحمت تھی تو آج اسلامی انقلاب [ایران] نے ثابت کر دکھایا ہے کہ عورتیں اسلامی پردہ میں رہ کر بھی معاشرہ کے لئے بہت سے کام انجام دے سکتی ہیں، کیونکہ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ خواتین ؛اسلامی پردہ کی رعایت کرتے ہوئے معاشرہ میں ہر جگہ حاضر ہیں، اداروں میں، کارخانوں میں، سیاسی مظاہروں میں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں، ہسپتالوں میں، کلینکوں میں، خصوصاً جنگ کے دوران جنگی زخمیوں کی مرہم پٹی اور ان کی نگہداشت کے لئے، مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں، دشمن کے مقابلہ میں میدان جنگ میں، خلاصہ ہر مقام پر عورتوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔

مختصر یہ کہ موجودہ حالات خود اس اعتراض کا دندان شکن جواب ہیں، اگرچہ ہم گزشتہ زمانہ میں ان جوابات کے لئے ''امکان'' کی باتیں کرتے تھے(یعنی عورتیں پردہ میں رہ کر کیا اجتماعی امور کو انجام دے سکتی ہیں) لیکن آج کل یہ دیکھ رہے ہیں، اور فلاسفہ کا کہنا ہے کہ کسی چیز کے امکان کی دلیل خود اس چیز کا واقع ہونا ہے، یہ بات خود آشکار ہے اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

 

دوسری بات: اگر ان چیزوں سے قطع نظر کریں تو کیا عورتوں کے لئے گھر میں رہ کر بچوں کی تربیت کرنا اور ان کو آئندہ کے لئے بہترین انسان بنانا تاکہ معاشرہ کے لئے بہترین اور مفید واقع ہوں، کیا یہ ایک بہتر ین اور مفید کام نہیں ہے؟

جو لوگ عورتوں کی اس ذمہ داری کو مثبت اور مفید کام نہیں سمجھتے، تو پھر وہ لوگ تعلیم و تربیت، صحیح و سالم اور پر رونق معاشرہ کی اہمیت سے بے خبر ہیں، ان لوگوں کا گمان ہے کہ مردو عورت مغربی ممالک کی طرح اداروں اور کارخانوں میں کام کرنے کے لئے نکل پڑیں اور اپنے بچوں کو شیر خوار گاہوں میں چھوڑ دیں، یا کمرہ میں بند کرکے تالا لگا دیا جائے اور ان کو اسی زمانہ سے قید کی سختی کا مزا چکھا دیں۔

وہ لوگ اس چیز سے غافل ہیں کہ اس طرح بچوں کی شخصیت اور اہمیت درہم و برہم ہو جاتی ہے، بچوں میں انسانی محبت پیدا نہیں ہوتی،جس سے معاشرہ کو خطرہ در پیش ہوگا۔

 

۲۔ پردہ کے مخالفین کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ پردہ کے لئے برقع یا چادر کے ساتھ اجتماعی کاموں کو انجام نہیں دیا جاسکتا خصوصاً آج جبکہ ماڈرن گاڑیوں کا دور ہے، ایک پردہ دار عورت اپنے کو سنبھالے یا اپنی چادر کو، یا اپنے بچہ کو یا اپنے کام میں مشغول رہے؟

لیکن یہ اعتراض کرنے والے اس بات سے غافل ہیں کہ حجاب ہمیشہ برقع یا چادر کے معنی میں نہیں ہے بلکہ حجاب کے معنی عورت کا لباس ہے اگر چادر سے پردہ ہوسکتا ہو تو بہتر ہے ورنہ اگر امکان نہیں ہے تو صرف اسی لباس پر اکتفا کرے [یعنی صرف اسکاف کے ذریعہ اپنے سر کے بال اور گردن وغیرہ کو چھپائے رکھیں]

ہمارے دیہی علاقوں کی عورتوں نے زراعتی کاموں میں اپنا پردہ باقی رکھتے ہو ئے یہ ثابت کردکھایا ہے کہ ایک بستی کی رہنے والی عورت اسلامی پردہ کی رعایت کرتے ہوئے بہت سے اہم کام بلکہ مردوں سے بہتر کام کرسکتی ہیں، اور ان کا حجاب ان کے کام میں رکاوٹ نہیں بنتا۔

 

۳۔ ان کا ایک اعتراض یہ ہے کہ پردہ کی وجہ سے مرد اور عورت میں ایک طرح سے فاصلہ ہوجاتا ہے جس سے مردوں میں دیکھنے کی طمع بھڑکتی ہے، اور ان کے جذبات مزید شعلہ ور ہوتے ہیں کیونکہ

 

''الإنسَانُ حَرِیصٌ عَلٰی مَا مُنِعَ'') جس چیز سے انسان کو روکا جاتا ہے اس کی طرف مزید دوڑتا ہے(

 

اس اعتراض کا جواب یا صحیح الفاظ میں یہ کہا جائے کہ اس مغالطہ کا جواب یہ ہے کہ آج کے معاشرہ کا شاہ کے زمانہ سے موازنہ کیا جائے آج ہر ادارہ میں پردہ حکم فرما ہے، اور شاہ کے زمانہ میں عورتوں کو پردہ کرنے سے روکا جاتا تھا۔

اُس زمانہ میں ہر گلی کوچہ میں فحاشی کے اڈے تھے، گھروں میں بہت ہی عجیب و غر یب ماحول پایا جاتا تھا، طلاق کی کثرت تھی، ناجائز اولاد کی تعداد زیادہ تھی، وغیرہ وغیرہ۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ اب یہ تمام چیزیں بالکل ختم ہوگئی ہیں لیکن بے شک اس میں بہت کمی واقع ہوئی ہے، ہمارے معاشرہ میں بہت سدھار آیا ہے اور اگر فضل خدا شامل حال رہا اور یہی حالات باقی رہے اور دوسری مشکلات برطرف ہو گئی تو ہمارا معاشرہ اس برائی سے بالکل پاک ہوجائے گا اور عورت کی اہمیت اجاگر ہوتی جائے گی۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا جب دنیا عالمی اور خطے کے سیاسی حالات پر اسلامی جمہوریہ ایران کی تاسیس کے اثرات کو اچھی طرح درک کر سکے گی۔

فارس نیوز ایجنسی کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے بیروت میں امام خمینی رہ کی تئیسویں برسی کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب میں تقریر کے دوان کہا ہے کہ امام خمینی رہ ایک عظیم مجتہد، فلاسفر، عارف اور اسلامی مفکر تھے۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی رہ ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی تھے کیونکہ سب سے پہلے انہوں نے اس تحریک کا آغاز کیا اور لوگوں کو بیداری اور آگاہی کی دعوت دی اسکے بعد آہستہ آہستہ حوزہ علمیہ قم کے طلبہ اور انکے شاگرد آپ کے گرد اکٹھا ہونا شروع ہو گئے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ امام خمینی رہ ایک انقلابی رہنما تھے جسکے نتیجے میں انہیں دھمکیاں ملیں، انہیں گرفتار کیا گیا اور انکے گھر پر حملہ کیا گیا اور حتی انکو سزائے موت جاری کئے جانے کا بھی امکان تھا۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے تاکید کی کہ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی میں امام خمینی رہ کا عظیم اور باارزش کردار اور ملک کے سیاسی ڈھانچے کی تشکیل انتہائی قابل تعریف ہے۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی رہ اگرچہ اس امکان سے واقف تھے کہ پیرس سے تہران جانے والا انکا ہوائی جہاز گرایا جا سکتا ہے لیکن وہ بالکل خوفزدہ نہیں ہوئے اور انتہائی شجاعت سے انقلاب اسلامی ایران کو کامیابی سے ہمکنار کروایا۔

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ وہ دن ضرور آئے گا جب دنیا والے عالمی سیاسی حالات پر حضرت امام خمینی رہ کی سربراہی میں کامیاب ہونے والے انقلاب اسلامی ایران کے اثرات کو اچھی طرح درک کر سکیں گے اور ان کیلئے اسلامی بیداری کی تحریک میں امام خمینی رہ کا کردار مزید واضح ہو جائے گا۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے امام خمینی رہ کی بعض ذاتی خصوصیات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ چیزوں کو نابود کرنا انہیں تعمیر کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہے، بہت سی قوتیں ایسی ہیں جو نابودی پھیلانے میں تو بہت پھرتی کا مظاہرہ کرتی ہیں لیکن جب تعمیر و ترقی کی باری آتی ہے تو ان سے کچھ بن نہیں پڑتا، تعمیر و ترقی کا مرحلہ انتہائی اہم اور حساس مرحلہ ہے اور آج جن عرب ممالک میں انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہو چکا ہے وہ اسی مرحلے سے دچار ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ حضرت امام خمینی رہ نے ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے عوام کے اندر دینی جذبہ پیدا کیا۔

امام خمینی رہ نے مسئلہ فلسطین کو زندہ کر دیا

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا کہ امام خمینی رہ نے ابتدا سے ہی مسئلہ فلسطین اور قدس شریف کو بہت اہمیت دی اور پیش آنے والی مشکلات انکے اس موقف کو ذرہ بھر تبدیل نہیں کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی رہ نے اتحاد بین المسلمین اور مستصعفین کی حمایت میں بہت کام کیا اور اس سلسلے میں ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے کیونکہ یہ ان کیلئے ایک اعتقادی مسئلہ تھا اور کوئی بھی دوسرا شخص انکی جگہ ہوتا جس کیلئے اپنے ذاتی مفادات اہم ہوتے تو وہ مغربی دنیا کے آگے سر تسلیم خم کر لیتا جیسا کہ ترکی کے رہنما کمال اتاترک نے کیا۔

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ امام خمینی رہ کی شخصیت عوام کے اندر انتہائی محبوبیت اور مقبولیت کی حامل تھی لہذا جب انہوں نے اندرونی آمریت اور بیرونی استعمار کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تو عوام کا سمندر انکی اس آواز پر لبیک کہنے لگا۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی رہ اقتدار کے پیاسے نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں ملک کی تعمیر و ترقی پر خرچ کر دیں۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے ایران کے عراق کے درمیان آٹھ سالہ جنگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور مغربی دنیا نے کھل کر صدام حسین کی حمایت کی، اس جنگ میں ساری دنیا صدام حسین کی حمایت میں مصروف تھی اور بہت کم ممالک ایسے تھے جو امام خمینی رہ کے حامی تھے جن میں سے ایک ملک شام تھا۔

سب سے پہلی مسجد کعبہ تھی۔ کعبۃ اللہ کے ارد گرد مسجد الحرام کی تعمیر ہوئی۔ ایک روایت کے مطابق کعبہ وہ جگہ ہے جہاں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام نے زمین پر عبادت کی تھی۔ اسی جگہ پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر ایک عبادت گاہ تعمیر کی۔ یہی جگہ مسجد الحرام کہلائی۔ کئی روایات کے مطابق یہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے پہل نمازیں ادا کیں اگرچہ وہاں کعبہ میں اس وقت بت موجود تھے

اهميت

دنیا بھر کےمسلمان دن میں 5 مرتبہ مسجد حرام میں قائم خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکےنماز ادا کرتےہیں جبکہ یہ دنیا کا واحد مقام ہےجس کا حج کیا جاتا ہے۔ یہ زمین پر قائم ہونےوالی پہلی مسجد ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوذر رضی اللہ

تعالی عنہ سےحدیث مروی ہےکہ : ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ میں نےرسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلےکونسی مسجد بنائی گئی ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : مسجدحرام ، میں نےکہا کہ اس کے بعد کونسی ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : مسجداقصیٰ ، میں نےنبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سےسوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنی مدت کا فرق ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : چالیس برس

Tuesday, 19 June 2012 09:12

بابری مسجد

بابری مسجد مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر نے 16 ویں صدی میں ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں تعمیر کرائی۔ یہ مسجد رام کوٹ پہاڑی پر تعمیر کی گئی۔

 

بابری مسجد بھارتی ریاست اتر پردیش کی بڑی مسجد میں سے ایک تھی۔

1528ء کے لگ بھگ انتہا پسند ہندوؤں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ مسجد رام کی جنم بھومی یعنی جائے پیدائش کو گرا کر تعمیر کی گئی ہے۔ 1949 میں مسجد کو بند کرا دیا گیا۔ اس طرح 40 سال سے زائد عرصے تک یہ مسجد متنازع رہی۔ 6 دسمبر 1992ء کو انتہا پسند ہندوؤں نے مسجد کو شہید کردیا۔ جس کے بعد بھارت میں اپنی تاریخ کے بدترین ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ جن میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

بابری مسجد تاریخ کے آئینے میں

 

1528: ایک ایسے مقام پر مسجد کی تعمیر جو ہندوؤں کے دعویٰ کے مطابق ’رام‘ کی جائے پیدائش تھی۔

1853: ایودھیا کے پہلے مذہبی فسادات۔

1859: برطانوی نوآبادیاتی حکومت کی جانب سے عبادت کی جگہ کی تقسیم کر دی گئی۔

1949: مسجد کے اندر سے ’رام‘ کی مورتی کی دریافت۔ حکومت نے متنازعہ مقام قرار دے کر مسجد بند کروا دی۔

1984: وشوا ہندو پریشد کی جانب سے’رام‘ کی جائے پیدائش کو آزاد کروانےکے لیے تحریک کا اعلان۔ بی جے پی کے رہنما لعل کرشن ایڈوانی نے اس تحریک کی قیادت سنبھال لی۔

1986: ضلعی عدالت کی جانب سے ہندوؤں کو متنازعہ مقام پر پوجا کی اجازت۔ مسلمانوں کا جانب سے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام۔

1989: وشوا ہندو پریشد نے مسجد سے ملحقہ زمین پر رام مندر کی بنیاد رکھ دی۔

1990: وشوا ہندو پریشد کے حامیوں نے مسجد کو جزوی طور پر نقصان پہنچایا۔ بھارتی وزیرِاعظم کی جانب سے مسئلے کے حل کی کوشش۔

1991: ریاست اتر پردیش میں بی جے پی حکومت کا قیام۔

1992: وشوا ہندو پریشد کے حامیوں کی جانب سے بابری مسجد کی شہادت۔ ہندو مسلم فسادات، تین ہزار افراد ہلاک۔

2001: انہدام کے 9 برس مکمل ہونے پر وشوا ہندو پریشد کی جانب سے رام مندر کی تعمیر کا عزمِ نو۔

جنوری 2002: وزیرِاعظم واجپائی کے دفتر میں ’ایودھیا سیل‘ کا قیام۔

فروری 2002: بی جے پی کی جانب سے انتخابی منشور میں سے رام مندر کی تعمیر کی شق خارج۔ ایودھیا سے واپس آنیوالے ہندوؤں کی ٹرین پر حملہ 58 ہلاک۔ وشوا ہندو پریشد کی جانب سے رام مندر کی تعمیر کےآغاز کے لیے پندرہ مارچ کی تاریخ کا اعلان۔

مارچ2002: گجرات مسلم کش فسادات میں دو ہزار افراد ہلاک۔

اپریل 2002: ایودھیا کے متنازعہ مقام کی ملکیت کے بارے میں مقدمے کی سماعت کا آغاز۔

جنوری 2003: ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی جانب سے عدالت کے حکم پر متنازعہ مقام کےجائزہ کا آغاز۔

اگست2003: ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی جانب سے مسجد کے نیچے مندر کی موجودگی کے شواہد کا اعلان۔ مسلمانوں کی جانب سے اعتراضات۔

ستمبر 2003:عدالت کی طرف سے بابری مسجد کے انہدام پر ا کسانے کے الزام میں سات ہندو رہنماؤں پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ۔

اکتوبر 2003: مسلم تنظیموں کی جانب سے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی رپورٹ کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا مطالبہ۔

دسمبر 2003: انہدام کی گیارہویں برسی پر حیدرآباد دکن میں فسادات۔ پانچ افراد ہلاک۔

جولائی 2004: شیوسینا کے رہنما بال ٹھاکرے کی جانب سے مسئلے کے حل کے لیے متنازعہ مقام پر قومی یادگار کی تعمیر کی تجویز۔

اکتوبر2004: لال کرشن ایڈوانی کی جانب سے مندر کی تعمیر کی عزم کا اعادہ۔

نومبر 2004: الہٰ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے بابری مسجد معاملہ میں لعل کرشن ایڈوانی کو نوٹس۔