
Super User
29ویں بین الاقوامی مقابلوں کے شرکاء کی ملاقات رہبر معظم سے قرآن مجید کے
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قرآن مجید کے ساتھ ایرانی قوم کے والہانہ عشق و محبت کو اللہ تعالی کا عظیم تحفہ قراردیا اور اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کے لئے یہ بات باعث فخر اور مایہ ناز ہے کہ اس نے اس مادی دنیا میں اسلام اور قرآن کا پرچم بلند کررکھا ہے اور روزبروز، صبر و استقامت اور دشواریوں کو تحمل کرنے کے ساتھ اس نورانی پرچم کی چمک اور درخشندگی میں مزید اضافہ کررہی ہے اور ہوشیاری ، اقتدار اورپیہم ترقی و پیشرفت کے ذریعہ دشمنوں کی سازشوں اوران کے فریب کو ناکام بنا رہی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قرآن مجید کے حیات بخش دروس پر عمل کو ایرانی قوم کی عزت و عظمت کا موجب قراردیتے ہوئے فرمایا: مسلمان قومیں اس درخشاں نمونے سے یہ سبق سیکھتی ہیں کہ اگر کسی قوم کے پاس ایمان ہو اور اسے اللہ تعالی کے وعدوں پر یقین ہو اور وہ قرآن اور اسلام کے راستے پراستقامت کا مظاہرہ کرے، دشمن کے مکر و فریب پر اعتماد اور توجہ نہ دے تو وہ قوم دشمن کے پیچيدہ فوجی نظام اور اس کی وسیع اقتصادی، تجارتی اور سیاسی سازشوں کے باوجود کامیاب ہوجائےگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے علاقائي قوموں کی اسلامی تحریکوں کو روکنے کے لئے امریکہ اور صہیونیوں کے اقدامات اور منصوبوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: علاقائی مسلمان قوموں کی اسلامی تحریکوں کو دبانے کے لئے غدار اور خونخوار دشمن مقاومت کررہا ہے لیکن قرآن کے راستے میں قوموں کی حرکت جاری رہنے سے دشمن کی سازشیں ناکام ہوجائیں گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قرآن کریم کی تلاوت ، قرائت اور حفظ کے جلسات کی روز افزوں تشکیل اور قرآنی تعلیمات کے فروغ کو ملک کی عمومی فضا کے قرآنی ہونے کا سبب قراردیتے ہوئے فرمایا: تمام تخریبی عوامل کے باوجود معنویت اور دعا سے عشق و محبت رکھنے والے ایرانی جوانوں کی تعداد کا دیگر ممالک کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جاسکتا اورہمیں اس پر بھی اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عالمی متوسط پیشرفت کی نسبت ایرانی قوم کی علمی سرعت و پیشرفت کے 11 برابر اضافہ کے بارے میں عالمی مراکز کے اعتراف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم اپنے مؤمن جوانوں پر تکیہ کرتے ہوئے تمام سیاسی ، سائنسی اور تعمیراتی شعبوں میں اپنی پیشرفت و ترقی کا سلسلہ جاری رکھےگی۔
اس ملاقات میں ادارہ اوقاف و امور خیریہ میں ولی فقیہ کے نمائندے حجۃ الاسلام والمسلمین محمدی نے قرآن مجید کے 29 ویں بین الاقوامی مقابلوں کے بارے میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا: قرآن مجید کے ان مقابلوں میں 68 ممالک سے 103 قاریوں اور حفاظ نے 14 بین الاقوامی اساتید کی موجودگی میں حصہ لیا۔
جامع مسجد دهلی - هندوستان
مسجد جہاں نما، جو جامع مسجد دہلی کے نام سے مشہور ہے، بھارت کے دارالحکومت دہلی کی اہم ترین مسجد ہے۔ اسے مغل شہنشاہ شاہجہاں نے تعمیر کیا جو 1656ء میں مکمل ہوئی۔ یہ بھارت کی بڑی اور معروف ترین مساجد میں سے ایک ہے۔ یہ پرانی دلی کے مصروف اور معروف ترین مرکز چاندنی چوک کے آغاز پر واقع ہے۔
مسجد کے صحن میں 25 ہزار سے زائد نمازی عبادت کرسکتے ہیں۔ اس کی تعمیر پر 10 لاکھ روپے کی لاگت آئی۔
شاہجہاں نے اپنے دور حکومت میں دہلی، آگرہ، اجمیر اور لاہور میں بڑی مساجد تعمیر کرائیں جن میں دہلی کی جامع مسجد اور لاہور کی بادشاہی مسجد کا طرز تعمیر تقریباً ایک جیسا ہے۔
مسجد کے صحن تک مشرقی، شمالی اور جنوبی تین راستوں سے بذریعہ سیڑھیاں رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مسجد کے شمالی دروازے میں 39، جنوبی میں 33 اور مشرقی دروازے میں 35 سیڑھیاں ہیں۔ مشرقی دروازہ شاہی گذر گاہ تھی جہاں سے بادشاہ مسجد میں داخل ہوتا تھا۔
مسجد 261 فٹ طویل اور 90 فٹ عریض ہے، اس کی چھت پر تین گنبد نصب ہیں۔ 130 فٹ طویل دو مینار بھی مسجد کے رخ پر واقع ہیں۔ مسجد کے عقبی جانب چار چھوٹے مینار بھی واقع ہیں۔
حجۃ الاسلام والمسلمين قاضی عسگر : اسلام نے عورت کو عظیم مقام عطا کیا ہے
نمائندہ ولی فقیہ اور ایرانی حجاج کے سرپرست حجۃ الاسلام قاضی عسگرنے اسلام میں عورت کے عظیم مقام و منزلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام نے جو مقام عورت کو عطا کیا ہے اسے صحیح طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ مسلمان عورتوں کے لئے بہترین نمونہ پیغمبر اسلام (ص) کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا(س) ہیں جنھوں نے مختصر مدت میں مسلمان خواتین کے لئے عبادی سماجی،سیاسی اور تربیتی شعبوں میں تاریخی نمونے پیش کئے ہیں انھوں نے کہا کہ اسلام میں علمی ، سماجی اور سیاسی میدان میں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرسکتی ہیں اور حجاب عورتوں کے لئےعلمی ، سیاسی و سماجی پیشرفت میں رکاوٹ نہیں بلکہ عورت کی عزت ، آبرو اور اس کی شخصیت کی حفاظت کا ضامن ہے انھوں نے کہا کہ عورت کے بارے میں اسلام کے نظریہ کو صحیح اور درست انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
نہج البلاغہ اور اخلاقیات
اخلاق کیا ہے ؟
مقدمہ:
اخلاق حکمت عملی کا ایک حصہ ہے اخلاقی قواعد کی بنا پر انسان کا رفتا ر سعادت اور کمال تک پہنچنے لے لئے درست کیا جا تا ہے اور ان ہی قواعد کی بنا پر انسان کی فردی اور اجتماعی ذمہ داریاں مشخص ہو تی ہے چاہے اخلاق کے محا سن ہو یا چاہے اسکے مکارم ہو یہ انسان کے اندر اچھی صفتوں کو وجود میں لاتے ہیں محاسن اخلاق ان صفات کو کہا جا تا ہے جو صرف انسان کے ظاہری رفتار میں منعکس ہو تی ہیں جب کہ وہ انسان ایک اعلی شخصیت بھی نہ ہوں جیسے صفائی کا خیال رکھنا ،ظاہری صورت ٹھیک کرنا ،خوشحالی اور خندہ روئی سے ملنا، معاشرے میں اجتماعی آداب کی رعایت کرنا۔ ممکن ہے ایک انسان ظاہری طور پر ان صفات کا حامل ہو لیکن اندر سے ظالم، منافق ، خائن اور جھوٹا بھی ہو اور یہ صفا ت ایسے انسان کو انسانیت کے دائرے سے خارج کر کے اسے حیوانیت کی منزل تک لے جا تے ہیں.
مکارم اخلاق ان صفا ت کو کہا جا تا ہے جوصفتیں انسان کے اند ر پائی جاتی ہیںاور اسکے دل و جان سے تعلق رکھتی ہیں جیسے مودت دوستی،آزادگی، عد الت طلبی ،سچائی ،زہد، تقوی ،تواضع اور...جو انسان کی عظمت کا سبب بنتی ہیں اور ان صفا ت سے وہ کمال اور سعادت کی بلندیاں طے کر تا ہے .
انسان کو فردی اور اجتماعی زندگی گزارنے کے لئے اخلاق کا پابند ہو نا ضروری ہے امام علی فرماتے ہیں :''مقاربة الناس فی اخلاقھم أمن من غوائلھم ''(خطبہ ٣٩٣) جی ہا ں لو گو ں کے ساتھ اخلاقیات میں قربت رکھنا انکے شر سے بچانے کا بہترین ذریعہ ہے یعنی جواخلاق اسلام کے زاویے سے صحیح ہوں اور انسان کو کما ل اور سعادت کے حصول مراتب میں اسکے حامی اور مدد گا ر ثابت ہو ں ان ہی اخلاقیات میں انسان کو چاہیے کہ دوسروں سے قریب ہو .
نہج البلاغہ کے مکتب اخلاق کی اہمیت اور عظمت کا اندازہ ہمیں اسوقت ہو تا ہے جب اسے دوسرے مکتبوں اور انکے اخلاقیات کے ساتھ مقایسہ کرتے ہیںکیونکہ بہت سے مکتب اور مذہب ایسے ہیں جو مادیت اور حب دنیا سے بنحو مطلق انکا ر کرتے ہیں اور دنیاوی زندگی کو تحقیر آمیز نگاہ سے دیکھتے ہیں جیسے ہندو اور بودائی ،مسیحیت ۔یہ کمال اور سعادت کے اعلی مراتب کو صرف ترک دنیا اور رہبانیت میں ہی پا تے ہیں یعنی در واقع خدا کی طرف سے حلال کی گئی چیزو ں کو حرام قرار دیتے ہیں. انکے مقابلے میں کمونیزم اور کپٹالیسم ایسے مکتب ہیں جن کی اساس اور بنیاد مادہ اور مادی گری پر ہیں اور انکے پیرو کارمادی سہولتیں اور جسمانی لذتوں کے علاوہ کچھ سوچتے بھی نہیں ہیںاور نتیجہ میں فساد اور تباہی کے دلدل میں پھنس جا تے ہیں .لیکن نہج البلاغہ جس مکتب اخلاق کو انسان کے سامنے پیش کر تا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اسکے اخلاقیات توحید پر مبنی ہیں جو مادی اور معنوی دو نوں امور کو واقعی شکل دے رہا ہے جس کا پیرو کا ر نہ ہی فساد میں مبتلا ہو سکتا ہے اور نہ ہی گمراہ ہو کے حلال چیزوں کو حرام اور حرام چیزوںکو حلال بنا تا ہے بلکہ اس مادی دنیا کو وسیلہ اور ابزار بنا کے کمال و سعادت کی بلندیوں پر فائز ہو سکتا ہے یہ مکتب انسان کو کسی بھی چیز سے محروم نہیں کرتا بلکہ ہر چیز سے صحیح استفا دہ کرنے کی معرفت اور پہچان عطا کر تا ہے .
امام علی عليه السلام نہج البلاغہ میں بہت سا رے اخلاقیات کی طرف اشارہ فر ماتے ہیں اور ان صفات اور اخلاق کو انسان کامل کی زندگی کے لئے ضروری جانتے ہیں نہج البلاغہ ایک منظم اور بہترین اسلامی اخلاقی نظام کو پیش کرتا ہے بندہ حقیر ندرت وقت اور لاعلمی کی وجہ سے اس بحر بیکرا ں سے اخلاقیات کے ان گوہروں کی مکمل غواصی نہ کر سکا تا ہم کو شش یہی رہی کہ ان ہی اخلاقیات کی فہرست بندی کروں جو آج کے دور میں ،جہان اخلاق کی مہک کے لئے انسانیت تڑپتی اور سسکتی ہے ،انسان کی زندگی کے ہر پہلوں چاہے فردی ہو یا اجتماعی ،ثقافتی ہو یا سیاسی ،سے رابطہ رکھتے ہوںآئے دیکھتیں ہیں کہ اخلاق کے مجسمے امام علی انسان کی سعادت اور کمال کے لئے کن اخلا ق پہ روشنی ڈالتے ہیں اور تکمیل زندگی کے لئے اخلاقیات کے ماہر حکیم اور روانشناس نے کون سا نسخہ کھینچا ہے کہ اگر آج کا بنی نو ع انسان اسے اپنی زندگی کے عملی میدان میں لائے تو کبھی بھی وہ فساد اور گناہ میں مبتلا نہیں ہوگا .
مکتب نہج البلاغہ اور اخلاقیات
١) تقوی۔
مکتب اسلام اور نہج البلاغہ میں تقوی کو اخلاقیات کا بنیادی رکن ماناجاتا ہے اور اسے اخلاق کا سردار کہا گیا ہے اور بار بار امام المتقین تقوی پہ زور دیتے ہیں حتی تقوی اختیا ر کرنے والوں کے صفات کی فہرست ایک طویل خطبے میں ھمام کے حوالے کر دیتے ہیںاس خطبے کے بارے میں الگ سے اگرایک کتاب بھی لکھی جائے وہ بھی کم ہے چہ رسد کہ ان چند صفحات پر مشتمل مضمون میں اسکو بیان کرنے کی ناکام کوشش کی جائے اور دوسری طرف سے دیکھا جائے تو یہاں پہ خود مقولہ اخلاق ہمارا اصلی موضوع بھی نہیں ہے اور نہ ہی اس سے وابستہ عوارضات اور لوازمات۔مختصر یہ کہ تقوی کو اخلاقیات کا ایک اہم حصہ مانا جاتا ہے یہاں یہ ذکرکرنا بہتر سمجھتا ہو ں کہ سب سے پہلے ہمیں تقوی کی حقیت کو سمجھنا ہوگا کیونکہ عصر حاضر کا جوان تقوی کا نا م سنتے ہی فرار کرنے لگتا ہے اسکی نظر میں تقوی کسی ایسی سنگین شئی کا نام ہے جو اس کے لئے قابل حمل نہیں ہے اسکی وجہ صاف ہے یاتوتقوی کا مفہوم صحیح طریقے سے واضح نہیں ہو ا یا پھر اسکا صحیح معنی سمجھنے میں اشتباہ ہو رہا ہے تقوی کو ئی خطرناک شئی نہیں ہے بلکہ اپنے آپ کو گناہوں سے بچانے کا نام تقوی ہے اور بس۔
الف ۔ امام علی عليه السلام مدینہ کے لوگوں سے بیعت کے دوران فرماتے ہیں:'جو زمانے کے حوادث اور انقلابوں سے۔ جو اس شخص کے دور میں رونماہوتے ہیں۔ عبرت حاصل کر تا ہے تقوی اور پرہیز گاری اسے شبہات میں گر جانے سے با ز رکھتی ہے ...آگاہ ہو جاؤتقوی اور پرہیز گاری ایک آرام اونٹ کی طرح ہے جس کی لگام اسکے سوار کے ہاتھ میں ہو تی ہے جو اپنے صاحبو ں کو سوار کرتا ہے اور انہیں جنت میں وارد کر تا ہے ... وہ محکم اساس جو تقوی پر استوار ہو کبھی ہلاک نہیں ہو تی اور قوم کی زراعت اسکی وجہ سے پیاسی نہیں رہتی''(خطبہ ١٦)
ب۔''التقی رئیس الاخلاق''(حکمت ٤١٠)'تقوی اخلاق کا سردار ہے'
ج۔''اوصیکم بتقوی اللہ...'' (خطبہ ١٦۔ ٨٢۔١١٣۔١٨١۔١٨٢۔١٨٥۔١٨٦۔١٨٧۔٢٣٠۔٢٣٣)
'میں تمہیں تقوی الھی کی وصیت کرتاہوں...'
د۔ ''لاخیر فی شئی من ازواد ھا الا التقوی''(خطبہ ١١)'دنیا کی کسی چیز میں خیر و نیکی نہیں ہے سواے تقوا کے'
پس تقوی او رپرہیز گاری انسان کو ہر برائی سے دور رکھتی ہے انسان کے کردار ،گفتار اور رفتار میں یہ اپنا جلوہ دکھاتی ہے آج کے دور کا انسان کتنا عاری ہے اس انسان صفت چیز سے ۔کتنی ضرورت ہے آج ایسے تقوی کی جو انسان کو فساد اور تباہی کے اس منجلاب سے نجا ت دلاکے بھشت کا راہی بنا دے.
٢) زہد ۔
مکت نہج البلاغہ میں مال و متاع اور مقام کی لمبی لمبی آرزو کرنا جسمانی لذتوں اور ہوای نفسانی کی خاطر دنیا سے وابستہ رہنے کی مذمت کی گئی ہے اور جس زہد سے مکتب اسلام اور نہج البلاغہ میں تمجید و تعریف کی گئی ہے وہ مسیحیت کی رہبانیت یا صوفیوں کی طرح گوشہ نشینی نہیں ہے کیونکہ ایسا زہد ترک دنیا اور معاشرے سے دوری اختیا ر کرنے اور اپنے روز مرہ کے کام و کاج سے دستبردار ہو نے کے مرادف ہے جسے اسلام ہر گز پسند نہیں کر تا ہے. نہج البلاغہ کے مکتب اخلاق سے پروان چڑھا ہوانسان باوجود اسکے کہ ناپائدار اور فانی دنیا کا عاشق نہیں ہو تا اور مادی دنیا کا اس پہ تأثیر نہیں پڑتا بلکہ کبھی بھی اپنی کوشش،جدو جہد اور روز مرہ کی کا م سے ہا تھ نہیں کھینچتا بلکہ اپنی انفرادی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اجتماعی امور کو انجام دینے سے غافل نہیں رہتا اس دنیا میںرہ کر اپنے حصے کو فرامو ش نہیں کر تابلکہ اس مادی دنیا کو وسیلہ قرار دے کے اپنی آخرت کو سنوار تا ہے یوں تو نہج البلاغہ زہد حقیقی کی مدح وثنا سے بھرا پڑا ہے لیکن یہاں اختصا ر کے ساتھ چند اقوال پہ اکتفا کرتے ہیںامام الزاہدیں فرماتے ہیں:
الف۔' اے لوگو!زہد امیدوں کو کم کونے ،نعمتوں کا شکریہ ادا کر نے اور محرمات سے پرہیز کر نے کا نام ہے اب اگر یہ کا م تمہارے لئے مشکل ہو جائے تو کم از کم اتنا کرنا کہ حرام تمہاری قوت برداشت پر غالب نہ آنے پائے اور نعمتوں کے موقع پر شکریہ کا فراموش نہ کر دینا کہ پر ور دگار نے نہایت درجہ واضح اور روشن دلیلوں اور حجت تمام کر نے والی کتابوں کے ذریعہ تمہارے ہر عذر کا خاتمہ کر دیا ہے '(خطبہ٨١ )
ب۔ امام علی عليه السلام زاہدوں کی کچھ اسطرح توصیف کر تے ہیں : 'یہ۔زاہدین۔ انہی دنیا والوں میںسے تھے اہل دنیا نہیں تھے ۔ایسے تھے جیسے اس دنیا کے نہ ہوں دیکھ بال کر عمل کیا اور خطرات سے آگے نکل گئے ۔گویا انکے بدن اہل آخرت کے درمیان کروٹیں بدل رہے ہیں اور وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ اہل دنیا انکی موت کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں حالانکہ وہ خود ان زندوں کے دلوں کی موت کو زیادہ بڑا حادثہ قرار دے رہے ہیں'(خطبہ٢٣٠)
ج۔دوسری جگہ فرماتے ہیں:''الزھد کلہ بین کلمتین فی القرآن ۔لکیلاتأسو ا علی ما فا تکم ولا تفرحوا علی ما آتا کم ۔''(حکمت٤٣٩)
'زہد کا مفہوم خدا وند عالم کے ان دو جملوں میں تما م ہو تاہے جو قرآن مجید میں آیا ہے ۔ہرگز اس چیز پہ افسوس مت کرنا جو تمہا رے ہا تھ سے نکل جائے اور جو کچھ تمہیں ملے اس پر خوشحال نہ ہو نا ۔'
پس ان بیانا ت سے یہ با ت صاف ظاہر ہو تی ہے کہ ایک حقیقی زاہد اپنی زندگی میں معتدل ہے وہ دنیا میں رہ کربھی نہ ہی دنیا وی ذمہ داریوں کو بھول جا تا ہے اور نہ آخرت سے غفلت برتتا ہے اور اسے حزن و ملال اور خوشحالی یا د خدا سے غافل نہیں کر تی اگر آج کا انسان اس معنی میں زاہد بنے کبھی بھی اسکی زندگی میں اختلال پیدا نہیں ہو گا آج کے دور میں یہ لوٹ ،مار ،چوری ،ڈکیٹی حتی ایک فرد کی لوٹ مار سے لیکر ملکوں کے ما بین کا ٹکراؤ بھی اسی کا نتیجہ ہے کہ زہد ان زندگی کے کسی بھی پہلوں میں داخل نہیں ہوا ہے آج کے انسان کو چاہیے کہ اس زہد کے لباس کو زیب تن کرے تاکہ ایک اطمئنان بخش زندگی پا سکے.
٣ ) آزادی ۔
ایک اور اخلاقی نشان نہج البلاغہ میں یہ ہے کہ انسان آزاد پسند ہوجی ہاں اپنے آپ کو غیر خدا کی بندگی سے نجات دلانا اور خدا کی بار گاہ کا اسیر ہو نے کانا م آزاد ی ہے امام علی فرماتے ہیں :
الف۔''ولا تکن عبد غیرک وقد جعلک اللہ حرا''(نامہ ٣١)'دوسروں کا غلام مت بنو بیشک خدا نے تمہے آزاد بنایا ہے'
ب۔''الاحر یدع ھذہ اللمأظة لاھلہا؛انہ لیس لانفسکم ثمن الا الجنةفلا تبیعوا ھا الا بھا''(حکمت٤٤٨)
'کیا کوئی ایسا آزاد مرد نہیں ہے جو دنیا کے اس چبائے ہوئے لقمے کودوسروں کے لئے چھوڑ دے ؟یاد رکھونفس کی کوئی قیمت جنت کے علاوہ نہیں ہے لہذا اسے کسی اور قیمت پر بیچنے کا ارادہ مت کرو!'
یہاں آزادی سے مراد غرب کی وہ جان لیوہ آزادی نہیں ہے جو لیبرالسم(libralism) اور اومانیسم (humaninm) جیسے کھولے مکتبوں کی دین ہے جہاں صرف انسان کو محور قرار دے کے اسے اصالت اور آزادی کے نا م پہ ہر میدان میں عریان اور ننگا کرکے اخلاقی اقدار سے بہت نیچے گرادیاگیا ہے اور خداکا کہیں کو ئی پتہ ہی نہیں چلتا اگر انسا ن آزادی کا حقیقی مفہو م سمجھ لیتا تو کبھی بھی اسکی زندگی میں اخلاقی انحطاط پیدا نہ ہوتا عصر حا ضر کے انسان کو چاہیے کہ مکتب نہج البلاغہ سے آزادی کا حققی مفہوم لے کے اپنی زندگی کے اس اخلاقی خلأکو پر کریں.
٤) علم با عمل۔
مکتب نہج البلاغہ کے اخلاقیات کی ایک اور تصویر انسان کا باعمل ہو نا ہے مکتب نہج البلاغہ میں ایسے انسان کی بہت سراہنا کی گئی ہے جو زندگی کے ہر میدان میں علم کے ساتھ ساتھ عمل کا مظاہرہ بھی کرتا ہے اس مکتب میں جہاں علم پہ زور دیا گیا ہے وہیں اسے عمل میں لانے پر بھی خاصی تاکید کی گئی ہے .
الف ۔امام علی مال کے مقابلے میں علم کی فضیلت کو اپنے صحابی کمیل سے کچھ یو ں بیا ن فرما تے ہیں:'علم ما ل سے بہتر ہے کیونکہ علم تمہاری حفاظت کر تا ہے اور مال کی حفاظت کر نی پڑتی ہے مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے اور عمل خرچ کرنے سے بڑھتاہے جو مقا م اور شخصیت مال سے ہاتھ میں آتی ہے مال کے ختم ہو نے سے ختم ہو جا تی ہے اے کمیل ابن زیاد !صحیح علم کی پہچان ایک ایسا آئینہ ہے جس پر ثواب دیا جائے گا اور انسان اسکی وجہ سے اپنی زندگی میں خدا کی عبادت کی توفیق حاصل کر تا ہے اور مرنے کے بعد اسکا نیک نام بھی زندہ رہتا ہے علم حکو مت کرتا ہے اور ما ل پہ حکو مت کی جا تی ہے '(حکمت١٤٧)
ب۔ امام علی علم پر عمل کر نے بارے میں فرماتے ہیں :'جو دانشمند اپنے علم کے بر عکس عمل کر یگا وہ ایک ایسا سرگرداں اور پریشان جاہل ہے جو اپنی جہالت سے کبھی آگا ہ نہیں ہو گابلکہ اس پر حجت زیا دہ ہو گئی ہے حسرت اور غمگینی زیادہ ہو چکی ہے اور وہ خدا کے نزدیک سزا کے لائق ہے'(خطبہ ١١٠)
ج۔''واعلم انہ لا خیر فی علم لا ینفع،ولا ینتفع بعلم لا یحق تعلمہ''(نامہ٣١)
'اور جان لوجو علم نفع نہ پہنچائے اس میں کو ئی خیر نہیں ہے اور جس علم سے فایدہ بھی نہ پہنچے اسے سیکھنے کا کو ئی حق نہیں ہے'
د۔''رب عالم قد قتلہ علمہ و علمہ معہ لاینفعہ''(حکمت١٠٤)
'بہت سے عالم ایسے ہیں جنہیں اپنی ناواقفیت نے مار ڈالااور انہیں انکے علم نے بھی فائدہ نہ پہنچایا'
اس سے صاف ظاہر ہو تا علم اگر عمل کے ساتھ ہو تو وہ نہ صرف اسکی فردی زندگی کو سنوار سکتا ہے بلکہ اجتماعی زندگی کو بھی سدھار سکتاہے اورانسان کو اخلاق کا نمو نہ بنا سکتا ہے لیکن اگر علم کو عمل سے مقرون نہ کیاتو وہ اپنے ساتھ ساتھ ایک معا شرے کے لئے بھی ناسور بن جاتا ہے وہ رزیلتوں کا پیکر بنتا ہے اسی لئے عذا ب کا مستحق بن جا تاہے آج کے دور میں اسکی لاکھوں زندہ مثالیں شرق و غرب میں موجود ہیں جہاں علم پہ عمل نہ کرنے کی وجہ سے ایک فرد کے ساتھ ساتھ ایک معاشرہ اور جامعہ بھی تباہ ہو گیا آج کے دور کی تباہ کی ایک اہم وجہ یا تو لاعلمی ہے یا علم پہ عمل نہ کرنا ہے بنی نوع انسان کے لئے اب بھی یہ باب کھلا ہے اسے چاہیے کہ مکتب نہج البلاغہ کے اس انمول اخلاقیات پہ عمل پیرا ہوں تاکہ اور بڑتی ہو تباہی کا خاتمہ کیا جا سکے .
٥) نظم و انظباط۔
اس میں کو ئی شک نہیں کہ اگر ایک انسان کی زندگی کے روز مرہ کے پروگرام دقیق،منظم اور وقت کی پابندی کے ساتھ اجرا ہوں اسکی فردی اور اجتماعی زندگی کا میاب ہو سکتی ہے نظم انسان کو اسکی زندگی کا وقت ، امکانات اور طاقت تلف ہونے سے بچاتی ہے ایک منظم آدمی نظم کے سائے میں اپنی زندگی کے سارے وعدو وعید کو پورا کر سکتا ہے منظم انسان جہاں کہیں بھی ہو خیرو برکت اور لوگوں کے اعتماد کا سبب بناتا ہے امام عالیمقام نے نظم پہ بہت تاکید کی ہے.
الف۔''للمؤمن ثلاث ساعات :فساعة ینا جی فیھا ربہ ، وساعة یرم معاشہ، و ساعة یخلی بین نفسہ و بین لذتھا فیمایحل و یجمل .و لیس للعاقل ان یکون شاخصا الا فی ثلاث: مرمة لمعاش ،او خطوة فی معاد، او لذة فی غیر محرم''(حکمت٣٨٢)
'مؤمن کی زندگی کے تین اوقات ہو تے ہیں ۔ایک ساعت میں وہ اپنے رب سے راز و نیاز کر تا ہے اور دوسرے وقت میں اپنے معاش کی اصلاح کر تا ہے اور تیسرے وقت میں اپنے نفس کو ان لذتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتا ہے جو حلال اور پاکیزہ ہیں.کسی عقل مند کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اپنے گھر سے دور ہو جائے مگر یہ کہ تین میں سے ایک کام ہو ۔اپنے معاش کی اصلاح کرے ،آخرت کی طرف قدم آگے بڑھائے ،حلال اور پاکیزہ لذت حاصل کرے.'
ب ۔امام علی مسجد کوفہ میں ابن ملجم کے ہاتھوں زخمی ہو نے کے بعد اپنی آخری وصیت میں تقویٰ پہ زور دینے کے علاوہ اپنے کا مو ں میں نظم ایجاد کر نے کی تلقین فرماتے ہیں:''اوصیکما و جمیع ولدی و اھلی ومن بلغہ کتا بی ،بتقویٰ اللہ و نظم امرکم''(نامہ٤٧)
'میں تم دونوں (امام حسن و امام حسین) اور میرے سا رے اولادوں اور اھل و عیال اور جس تک میری یہ وصیت پہنچے ۔کو خدا سے ڈرنے اور اپنی کاموں میں نظم رعایت کرنے کی وصیت کر تا ہوں'
امام علی نظم کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اس کا اندازہ اس سے ہو تا ہے کہ آپ زندگی کی آخری لمحات میں بھی اس پر تاکید کر تے ہیں پس منظم انسان نہج البلاغہ کی نظرمیں کامیاب محسوب ہو تا ہے لیکن امام علی کی اتنی تاکید کے بعد بھی اگر غیر منظم کو ئی ہے تو وہ مسلمان ہیں آخر کیوں؟!
یہی بے نظمی انکی ذلت اور عدم ترقی کا سبب ہے اگر وہ واقعی معنوں میں اپنی زندگی سے جڑے ہرپہلو میں منظم ہو تے تو آج یہ حالت نہ ہو تی واقعا شرم کی بات ہے کہ ہمارا دین اسلام نظم و انضباط پہ کتنا مصر ہے مکتب نہج البلاغہ انسان کو ہر جہت سے منظم دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ جو انسان اپنی زندگی میں منظم ہے وہی انسان کامیابی اور ترقی کی سیڑھیاں بڑی آسانی سے طے کر سکتا ہے .
٦ ) حیا۔
حیا ایک ایسی صفت ہے جسے مکتب نہج البلاغہ کے اخلاقی سٹیج میں ایک خاص اہمیت ہے بنی نوع انسان اگر اپنی زندگی کے تمام ابعاد میںشرم وحیا کو جگہ دے اپنی انفرادی ،اجتماعی ،سیاسی،ثقافتی اور...کاموں میں حیاسے کام لے ،کبھی بھی ناامید اور مایوس نہیں ہو گا امام علی فرماتے ہیں:
الف۔''لا ایمان کا لحیاء و الصبر'' (حکمت ١٠٩)'کوئی بھی ایمان حیا اور صبر کی مانند نہیں ہے'
ب۔''من کساہ الحیاء ثوبہ لم یرالناس عیبہ''(حکمت ٢١٤)'جس نے شرم و حیا کا جامہ اپنے آپ کو پہنا یا اسکے عیبو ں کو لوگ نہیں دیکھ پائیں گے'
ج۔''من کثر خطاء ہ قل حیاء ہ و من قل حیا ء ہ قل ورعہ''(حکمت ٢٤١)'جس کے خطا'گناہ' زیادہ ہو جاتے ہیں اسکی شرم و حیا کم ہو جا تی ہے اور جسکی شرم وحیاء کم ہو جاتی ہے اسکی پرہیز گاری کم ہو جاتی ہے '
پس مکتب نہج البلاغہ میں حیا انسان کی زندگی میں ایک اہم رول ادا کر تا ہے ایمان کا ایک حصہ ما نا جاتا ہے حتی حیا کا باقی رہنا دین کا باقی رہنے کے مساوی ہے عصر حاضر کے لوگوں میںاس اخلاقی صفت کافقدان حد سے زیادہ ہو چکا ہے نہ حیا ہے نہ شرم ہے دین کی بات ہی نہیں ہے! امیر المؤمنین کا یہ نایاب کلام سینٹ پر سنٹ آج کے دور کے انسان پہ تطبیق ہو تا ہے کیونکہ یا تو گناہ انتے زیادہ ہو چکے ہیں کہ شرم و حیا اور دین کا نام بھی نہیںملتا ہے یا جہاں گناہ کم ہورہے ہیں وہاں با حیااور دیندار آدمی بہت کم پا ئے جاتے ہیں مغربی سرزمین حیا سے بالکل عاری ہوچکی ہے اورمشرقی عوام کہیں اس رئیس میں پیچھے نہ رہ جائیں اسی سمت روان دوان ہے استعمار کی کو شش ہمیشہ یہی رہی کہ گناہوں کا بازار گرم کر کے لوگوں سے انکا دیں چھین لیں تاکہ وہ اپنے نامطلوب اہداف تک پہنچ سکیںاسی لئے ہر جگہ اور ہر مقام پہ (tv,cinema.nightclub & sexywebsites.magazines) رقص و موسیقی ،سیکس اورعریانگی کا بازار گرم کر کے شرم و حیا کوکچھ اس حد تک ان سے چھین لیا کہ اب محرمیت اور نا محرمیت کی سرحد ہی ختم ہوچکی ہے ۔اب بھی وقت ہے کہ انسان نہج البلاغہ کے مکتب اخلاق کی آغوش میں آکر حیا کی چادر کو زیب تن کر کے اپنے معاشرے ،آنے والی نسلیں خاص کر اپنے ایمان اور دین کا محافظ بن جائے ۔یہاں یہ بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ حیا نہج البلاغہ میں دوسرے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے جیسے حق بات ،شرعی اور دینی مسائل کہنے میں شرم کر نا جو قابل مذمت ہے اور اسکو ناامیدی اور مایوسی کے برابر جانا گیا ہے .
٧ ) حلم ا ور بردباری۔
مکتب نہج البلاغہ کی اخلاقیات کی فہرست میں حلم اور بردباری کی بہت تعریف کی گئی ہے گو اسے ایک انسان کی پہچان بتایا گیا ہے حلم اور بردباری سے کام لینے والے کو اچھے اور با اخلاق آدمی سے تعبیر کی گئی ہے اور اسے انفرادی اور اجتماعی کاموں میں کامیابی کا راز بتایا گیا ہے امام علی میں فرماتے ہیں :
الف۔''اول عوض الحلیم من حلمہ ان النا س انصارہ علی الجاھل'' (حکمت )
'صبر کرنے والے کا اسکی قوت بر داشت پر پہلا اجر یہ ملتا ہے کہ لوگ جاہل کے مقابلے میں اسکے مدد گار ہو جاتے ہیں '
ب۔ ''ان لم تکن حلیما فتحلم، فانہ قل من تشبہ بقوم الا او شک ان یکون منھم'' (حکمت ٢٠٧)
'اگر تم واقعا برد بار نہیں بھی ہو تو بردباری کا اظہار کرو بہت کم ایسا ہو تا ہے کہ کسی قوم کی شباہت اختیا ر کرے اور ان میں سے نہ ہو جائے '
ج ۔' امام سے پو چھا گیا نیکی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : نیکی یہ نہیں ہے کہ آپ کی اولاد اور ثروت زیادہ ہو جائے بلکہ نیکی یہ ہے کہ آپ کا علم زیادہ ہو آپ کا حلم بڑ ھ جائے اپنے پر ور دگار کی بندگی کی وجہ سے لو گو ں پہ مباھات کرو پس اگر نیکی کی خدا شکر کرو اور اگر بدی کی خدا کی بارگاہ میں استغفار کرو '(حکمت ٩٤)
د ۔ 'حلم اور بردباری ایک چھپانے والا پردہ ہے اورعقل کاٹنے والی شمشیر ۔ پس اپنے عیوب کو بردباری سے چھپاؤ اور اپنی ھوای نفس کوعقل سے قتل کرو'(حکمت٤٢٤)
اور بھی بہت سارے اقوال زریں اس اخلاقی صفت کے متعلق امام علی سے صادر ہوئیں ہیں اختصا ر کے لئے یہاں پہ ان ہی چند نمو نوں پہ اکتفا کر تے ہیں پس حلم اور برد باری انسان کے لئے دوستی سازی کام کرتی ہے اسکے عیوب چھپا تی ہے اور سب سے بڑی نیکی مانی جاتی ہے مکتب نہج البلاغہ مکتب اخلاق ہے جو انسان کو حلم کے زیور میں آراستہ دیکھنا چاہتا ہے آج کے معاشرے میں اس زیور کی کمی ہے آج کے دور میں اس حلم اور بردباری کے فقدان کی وجہ سے بنی نوع انسان ایک دوسرے کا دشمن بنے ہوئے ہیں ایک دوسرے کا مزاق اڑاتے ہیں ایک دوسرے کی تباہی اور بربادی کے اسباب فراہم کرتے ہیں یہ صرف اسی لئے ہو رہا ہے کیونکہ وہ حلم اور بردباری کا دامن کہیں دور چھوڑ چکے ہیں اب بھی مو قع ہے انسان کو مکتب نہج البلاغہ کی اخلاقی روشنی میں آکر اپنے آپ کو ظلمت اور جہالت کے دلدل سے نجات دلانا چاہیے اپنے آپ کو حلیم بنانا چاہیے یا حد اقل حلم اور بردبار انسانوں کے مثل بنانا چاہیے.
٨ ) تواضع ۔
تواضع مکتب نہج البلاغہ کی اخلاقیات کا ایک اہم با ب ہے تواضع اور انکساری کی وجہ انسان دوسروں کو اپنے قریب لاتا ہے انکے دلوں میں اپنے لئے محبت پیدا کر تا ہے اسلام تواضع پہ خاصی توجہ دیتا ہے اور انکساری کرنے والوںکو صحیح معنوں میں انسان واقعی جا نتا ہے حقیقت بھی یہی ہے اگر آج کا انسان تواضع کے اسلحہ سے لیس ہو جائے انفرادی زندگی سے لیکر اجتماعی زندگی کا ہر پہلو بدل سکتا ہے ذات ،پات، رنگ ،نسل ،چھوٹا ۔بڑے کی تعصب آمیز دیواریں ہمیشہ کے لئے گر سکتی ہیں امام علی اس بارے میں فرماتے ہیں :
الف ۔''واعتمدوا وضع التذلل علی رؤسکم والقاء تعزز تحت اقدامکم...''(حکمت ١٩١)
'اپنے سر پر تواضع کا تاج رکھنے کا عزم کرو اور تکبر کو اپنے پیرو تلے رکھ کر کچل دو...'
ب۔''واتخذوا التواضع مسلحة بینکم وبین عدوکم ابلیس و جنودہ''(حکمت ١٩١)
' اپنے اور اپنے دشمن ابلیس اور اسکے لشکروں کے درمیان تواضع اور انکساری کا مورچہ قائم کرلو کہ اس نے ہر قوم میں اپنے لشکر،مددگار، پیادہ، سوار سب کا انتظام کر لیا ہے '
ج۔'تواضع سے بڑھکر کو ئی چیز نہیں ہے تواضع کی وجہ سے نعمتیں کا مل ہو جا تی ہیں کتنا اچھا ہے دولتمندوں کا تواضع فقیروں کے لئے اس درجہ کو حاصل کر نے کے لئے جو خدا کے نزدیک ہے '(حکمت ١١٣۔٢٢٤۔٤٠٦)
د۔''من اٰتی غنیا فتواضع لہ لغنا ہ ذھب ثلثادینہ''(حکمت٢١))
'جو کسی دولتمند کے سامنے دولت کی بنا پر جھک جائے اسکا دوتہائی حصہ دین برباد ہو گیا
پس تواضع کو اگر انسان اپنا اسلحہ بنائے تو اس سے شیطان کا مقابلہ کر سکتا ہے اور دوسر ے انسانوں کے ساتھ متواضع انداز میں پیش آنے سے اس کمال اور درجے پہ فائز ہو سکتاہے جو اسے خدا کے نزدیک ہے آ ج کا انسان جو ہر طرح سے شیطا ن کے چنگل میں پھنس چکا ہے اسکی وجہ یہی ہے کہ اس نے اپنے اس اسلحے اور ہتھیا ر، جسے وہ شیطان ا ور شیطان صفات انسان اور اسکے جنگجؤ ں کے خلاف استعمال کر سکتا تھا ، کو کھو دیا ہے تکبر ،غرور اور گمنڈ کی وجہ سے دوسروں پہ ظلم و ستم ڈھاتا ہے ایسے میں پھر اسے شیطانی منافع اور منصوبو ں کے علاوہ کچھ سوجتا ہی نہیں ہے تبھی تو غریب اور پسماندہ لوگوں کے اوپر اپنی استعماری پکڑ جمائے رہتا ہے اب بھی وقت ہے کہ بنی نوع انسان دوبارہ اس اسلحہ کو اٹھا کے شیطان اور اسکے ہمنواؤں کا قلع قمع کرکے اس جہاں میں پھیلتی ہو ئی ہر فساد اور برائی کا خاتمہ کرے .
٩ ) عفو اورمعاف کرنا۔
دوسروں کی غلطیوں کو معاف کر نا ایک اچھے شخص ہو نے کی پہچان ہے جس کے اندر ایسی اخلاقی صفت پائی جائے وہ شخص لو گوں اور معاشرے میںہر لحاظ سے کا میاب اور ہر قدم پہ انکا خاص احترام کیا جاتا ہے مکتب نہج البلاغہ میں دوسروں کو معاف کر نے اور انکے عیبوں اور خطاؤں کو بخشنے کی تاکید کی جارہی ہے اس بات کی گواہ خود امیرالمؤمنین کی ذات مقدس ہے جو گھر کی دہلیز سے لیکر میدان جنگ کے آخری خط تک بخشش اور عفو کا مکمل نمو نہ نظر آتے ہیںآپ اس بارے میں فرماتے ہیں:
الف ۔''واکظم الغیظ و تجاوز عند المقدرة...''(نامہ٦٩)
'غصہ کو پیو اور حصول قدرت کے وقت معاف کرو '
ب۔''اذا قدرت علی عدوّک فا جعل العفو عنہ شکرا للقدرة علیہ ''(حکمت١٠)
'جب دشمن پر قدرت حاصل ہو جائے تو معاف کر دینے ہی کو اس قدرت کا شکریہ قرار دو'
ج۔''اولی الناس بالعفو اقدر ھم علی العقوبة''(حکمت٤٩)
'معافی دینا اس جگہ معنی رکھتا ہے جہاں شخصی حقوق میں تجاوز ہو اہو لیکن جہاں حریم عمومی میں تجاوز ہو اہو وہاں معاف کرنا بی معنی ہے کیونکہ ایسے مواقع پہ معاف کر نا تجاوز کرنے والو کو زیادہ جسارت کرنے پہ آمادہ کرتا ہے اورسب سے زیادہ معاف کرنے کا حقدار وہ ہے جو سب سے زیادہ سزا دینے کی طاقت رکھتا ہے ' (نہج البلاغہ از دیدگاہ قرآن)
د۔''ان اعف فالعفو لی قربة و ھو لکم حسنة فاعفوا۔الا تحبون ان یغفر اللہ لکم ۔''(نامہ٢٣)
'اگر میں معاف کرتا ہوں تویہ میرے لئے قربت الھی کا ذریعہ ہوگااور یہ تمہارے لئے نیکی ہے پس تم بھی معاف کردینا کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا تمہیں بخش دے'
پس ان بیانات سے صاف ظاہر ہو تا ہے کہ اپنی قدرت کے با وجود دوسروں کو معاف کرنا یہی سب سے بڑی مردانگی ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی خیال رکھنا ضروری ہے اگر انتقام بھی لینا ہو تو وہ بھی خدا کے لئے ہو نا چاہیے یعنی اگر عمو می معاشرے میں عام لوگوں کے حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے تو ایسے میں اپنی قدرت کا استعمال ضروری ہو تا ہے تاکہ دوسروں کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے لیکن اس میں بھی وہ غصے سے کام نہ لیا جائے آج کا انسان اس قدرت کا محتاج ہے ایک ایسی قدرت جو اسے دوسروں کے حریم کے تجاوز کرنے سے باز رکھے دوسروں کے ساتھ قدرت اور طاقت کے باوجود بھی نرمی،رفعت اور انکساری کر ناسکھائے آج کا انسان جیسے ہی معمولی قدرت حاصل کر تا ہے ایک درندے کی طرح اپنے دوسرے بھائیوں کے حریم کا تجاوز کرتا ہے اور جو استکباری اور استعماری قدرتیں ہیں وہ عالم کاری ،اور جھانی سازی (golobalization)کا نعرہ دے کے اس جھان کے ہر فردی ،اجتماعی ،سیاسی ،ثقافتی حریم کا تجاوز کررہے ہیں کیا ایسے میں ہم کسی اچھے اور با اخلاق فرد کی امید کر سکتے ہیں نہیں نہیں! اب بھی وقت ہے کہ انسان مکتب اسلام اور نہج البلاغہ کے ممتازبہادر اور شجاعت سے لبریز حیدر کرار کے اقوال اور رفتار کو اپنا نمونہ عمل بنائے تاکہ اپنے انسانیت کے دائرے کی حفاظت کرسکے.
١٠) حفظ زبان۔
مکتب نہج البلاغہ میں حفظ زبان پہ بہت تاکید کی گئی ہے انسان کا اچھا کلام اسکی شخصیت کی نشاندہی کر تا ہے انسان کو چاہیے کہ ہر کلام سے پہلے اس بات کی طرف توجہ کر ے کہ کیا کہناچاہتاہے دوسرے الفاظ میں پہلے تولے پھر بولے یہان اس ضمن میں امام علی کی نقل کی گئی کچھ حدیثیں نہج البلاغہ سے ذکرکر تا ہوں.
الف ۔ 'جب تک تم بات نہیں کرو گے وہ تمہارے قبضہ میں ہے اور جیسے ہی زبان پہ لائی تم اسکے قبضہ میں ہو جاؤ گے پس اپنی زبان کو اسی طرح محفوظ رکھو جس طرح سونا چاندی کو مخزن میں رکھتے ہو''(حکمت ٣٧٢)
ب۔''من علم ان کلامہ من عملہ قل کلامہ الا فیما یعینہ ''(حکمت ٣٤٢)
'جسے معلوم ہو تا ہے کہ کلام بھی عمل کا ایک حصہ ہے وہ ضرورت سے زیادہ کلام نہیں کر تا ہے'
ج۔''رب قول انفد من صول''(حکمت٣٨٨)
''کتنے ہی قول ایسے ہیں جو زخم سے بھی زیادہ گہرے ہوتے ہیں''
د۔''اللسان سبع ان خلی عنہ عقر''(حکمت٥٧)
'زبان ایک درندہ ہے زرہ آزاد کیا جائے کاٹ کھائے گا'
اور بھی بہت سارے کلمات حفظ زبان پہ مولائے کائینات سے وارد ہوے ہیں جنکا ذکر کرنا طوالت کا سبب بنتا ہے جی ہاں نہج البلاغہ کی روشنی میں ضرورت سے زیادہ کلام کرنے والے کو بیوقوف کہا گیا ہے اور بالکل خاموش رہنے والے کی بھی مذمت کی گئی ہے بلکہ یہاں سوچ سمجھ کے کلام کر نے کی تاکید کی گئی ہے اور زبان پہ کنٹرول کرنے اور اسے ہر کوئی بھی صحیح اور ناصحیح بات کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ یہی زبا ن فساد اورہدایت کا سبب بنتی ہے آ ج کے دور میں یہ اخلاقی صفت نایاب ہی ہو چکی ہے تبھی تو انسان ہر دم پریشان صبح سے شام تک ایک دوسرے کے مسایل الجھنے اور سلجھنے میںلگا رہتا ہے ہمیں چاہیے کہ ان اقوال کو اپنے عمل میںلائے تاکہ یہ اخلاقی صفت دوبارہ ہمیںتازہ حیات سے بہرہ مندکرسکے.
١١) عزت نفس۔
مکتب نہج البلاغہ کی اخلاقیات کا ایک اہم اور بنیادی اخلاق عزت نفس اور انسان کی خودی ہے انسان کی کرامت اور شرافت کو اسی کے گرو میں پہچانا جاتا ہے امام عالی مقام سے اس بارے میں چند اقوال ذکر کر تے ہیں آپ فرماتے ہیں:
الف ۔''واکرم نفسک عن کل دنیة و ان ساقتک الی الرغائب فانک من تعتاض بما تبذل من نفسک عوضا ولا تکن عبد غیرک و قد جعلک اللہ حرا''(نامہ ٣١ )
' اپنے نفس کو ہر پستی سے دور رکھو گر چہ تمہیں بہت ساری نعمتوں تک پہنچائے کیونکہ جو کچھ اپنے نفس سے خرچ کر رہے ہو اسکاعوض نہیں پاؤ گے اور دوسروںکے غلام مت بنو خدا نے تمہیں آزاد بنا یا ہے'
ب۔'' ازری بنفسہ من استشعر الطمع و رضی با لذل من کشف عن ضرہ و ھا نت علیہ نفسہ من امر علیھا لسا نہ'' (حکمت ٢)
' جس نے طمع اور لالچ کو شعا ر بنالیا اس نے اپنے نفس کو رسوا کر دیا اور جس نے اپنی پریشا نی کا اظہا ر کر دیا وہ اپنی ذلت پر راضی ہو گیا اور جس نے نفس پر زبان کو حاکم بنا دیا اس نے نفس کو سبک تر بنادیا'
ج۔''المنیة ولا الدنیة!و التقلل ولا التوسل''(٣٩٠)'موت ہو لیکن خبر دار ذلت نہ ہوکم ہو لیکن دوسروں کو وسلیہ نہ بنانا پڑے'
د۔'آیا کو ئی آزاد مرد نہیں جو دھان سے بچے ہوئے غذا کو ( پست دنیا ) اسکے صاحبون کے لئے چھوڑ دے تمہارے نفسوں کی قیمت بہشت کے سو ا کچھ بھی نہیں ہے پس اسے اسکے علاوہ کسی اور چیز کے عوض مت بیچو! ''
ان اقوال سے واضح ہو رہا ہے کہ مکتب نہج البلاغہ انسان کو کریم النفس دیکھنا چاہتا ہے اپنے نفس کو پستیوں اور رزیلتوں سے دوررکھنے اور دوسروں کے سامنے ذلیل اور خوار ہو نے سے بچنے کی تاکید کر رہا ہے مکتب اسلام عزت نفس کا حامی ہے نہ اسکی ذلت کا۔ھیھات مناالذلة ۔انسان کو اپنی فردی زندگی سے لیکر اجتماع تک کے تمام ابعاد میں اپنے نفس کو محترم جاننا چاہیے اور عزت نفس کی اہم مثال یہی ہے کہ وہ دوسروں کا محتاج اور غلام نہ رہے بلکہ استقلال اور آزادی سے جینے کا انگیزہ اپنے آپ میں پیدا کرے عصر حاضر کے انسان نے اگر کسی شئی کو ذلت اور خواری کے منجلاب میں گرفتار کیا ہے تو وہ یہی نفس ہے خاص کر آج کا مسلما ن اس کے فقدان کا کچھ زیادہ ہے شکار ہو اہے مکتب عزت نفس ہو نے کے باوجود بھی ذلت اور پستی میں گرفتار ہے جودین اور مکتب اسے سراسر استقلال ،آزادی اور کسی غیر کے سامنے سر نہ جھکاکے چلنے کی راہ سکھلاتا ہے آج وہی مسلمان دوسروں کی غلامی کر کے ذلت کی طوق اپنے گردن میںڈالے ہوئے نظر ہے جدہر دیکھو ادہر محتاج مسلمان ہے ذلت اور پستی میں گرفتار مسلمان ہے عدم ترقی کا شکار مسلمان ہے۔ آخر کیوں؟!! وجہ یہی ہے کہ اس نے مکتب قرآن اور نہج البلاغہ کے اخلاقی پروگرام اور اسکی اسٹریٹجک(strategic) کو نہیں سمجھا کہ جو اسلام اسے ان اخلاقیات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی اتنی تاکید کرتا ہے وہ نہ صرف اسے فردی ذلت اور ہوسرانیوں سے نجات دے گا بلکہ اسے اجتماعی ،سیاسی ،ثقافتی اور...امور میں بھی ذلت کی زنجیروں کو توڑکے آزادانہ زندگی گزارنے کی ایک اہم اسٹریٹجک سے آگاہ کر رہا ہے اگر آج بھی مسلما ن ان اخلاقی صفات کی حقیقت کو سمجھ نے کی کوشش کریں گے تو وہ دن دور نہیں جب اسلام کا پرچم پو رے جہاں میں لہراتے ہوے نظر آئے گاانشاء اللہ.
١٢) صداقت ۔
نہج البلاغہ میں مدارج اخلاق اور انسان کے اقدا ر کو مد نظر رکھتے ہوئے اسکے ایک خاص اخلاقی زاوئے کو نظر میں رکھا گیا جس میں نہ اسکے دین کو دیکھا جا تا ہے اور نہ ہی اسکے مذہب کو ۔بلکہ اخلاق کے اہم ارکان میں اسکا حساب ہو تا ہے جی ہاں اسکا نا م صداقت ہے صداقت جو امیر المؤمنین کے وجود مبارک میں بنحو کامل پائی جاتی ہے اس تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
الف۔''جانبو االکذب فانہ مجانب الایمان ،الصادق علی شفا منجاة و کرامة ولکاذب علی شرف مھواة ومھانة''(خطبہ ٨٥)
'جھوٹ سے دوری کرو کیونکہ وہ ایمان سے دور ہے اور سچا نجات اور کرامت سے آراستہ ہے اور جھوٹا بلندی کی ایسی چوٹی پہ چاہ میں گر نے کے قریب ہے'
ب۔'ایمان کی علامت یہ ہے کہ اپنی جان کو نقصان پہونچنے کے باوجود بھی سچ بولواور جہاں جھوٹ سے نفع پہونچنے کے باوجود بھی سچ بولو'(حکمت٤٥٠)
ج ۔''و صدقہ علی قدر مروئتہ''(حکمت٤٤) 'اور اسکی صداقت اسکے مردانگی کے اعتبار سے ہو تی ہے'
پس انسان کو ہر حال میں سچا ہو نا چاہیے سچائی سے وہ نجات کا راستہ پاتا ہے اور جھوٹ اسے تباہ اور بر باد کر دیتاہے نہج البلاغہ کے مایہ ناز اور مشہور مفسر و مترجم علامہ محمد تقی جعفر فرماتے ہیں : کہ دنیا میں فقط ایک موجو د ایسا ہے جو جھوٹ بول سکتا ہے اور وہ ہے انسان۔ترجمہ وتفسیر نہج البلاغہ ج١٣۔
جی ہاں یہ انسان ہی توہے جو اتنا فھم شعور رکھنے کے باوجود بھی صداقت اور سچائی کا دامن چھوڑ کے ہر پل جھوٹ کا سہارا لیتا ہے تبھی تو روز بروز تباہی اور فساد میں اضافہ ہی ہو تا ہے اور اپنے ایمان اور اعتقاد کو کھوتا ہی جارہا ہے اگر انسان سچائی اور صداقت کو اپنا شعار بنائے جھوٹ اور جھوٹوں سے پرہیز کرے ہر طرف سے نجا ت اور کرامت کا عالم ہو گا .
١٣) قناعت ۔
قناعت یعنی انسان جس حال میں ہے اس سے راضی ہو خدا کی طرف سے مقرر کے گئے رزق و روزی پہ ہر حال میں راضی اور خوشنود ہو مکتب نہج البلاغہ قناعت کے مجسمے کے نورانی کلمات سے منور ہے امام علی اخلاقیا ت کے اس حصہ کو زندگی کے ہر پہلو میں اجاگر کر نے کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
الف۔''القناعة مال لا تنفد''(حکمت٥٤) 'قناعت ایک ایسا مال ہے جو کبھی ختم نہیں ہو تا ہے'
ب۔''اذا لم یکن ما ترید فلا تبل کیف کنت ''(حکمت٦٦) 'جب تم اپنی من پسند چیز کو نہ پاؤ گے تو جس حالت میں ہو اسے مت ڈرو'
ج۔''کفی بالقناعة ملکا بحسن الخلق نعیما و سئل علیہ السلام عن قول اللہ عز وجل فلنحیینہ حیٰوة طیبة فقال ھی القناعة ''(حکمت٢٢١)
' قناعت سے انسان حاکم بنتا ہے اور حسن خلق سے نعمتوں میں زندگی بسر کر تا ہے امام سے خدا وند عالم کے اس قول کے بارے میں پوچھا گیا ۔پس ضرور میں اسے پاک و پاکیزہ حیات دو ں گا۔ آ پ نے فرمایا :پاک و پاکیزہ زندگی قناعت ہے '
د۔'قناعت سے زیادہ مالدار کوئی خزانہ نہیں ہے اور اس سے بہتر کو ئی ثروت نہیں ہے کہ انسان کو جو کچھ بھی ملے اس پہ راضی ہو جائے اور جو جتنے پہ راضی ہو ا سائش اور راحت میں ہمیشہ رہے گا'
جی ہاں قناعت انسان کو سکون اور آرامش عطاکرتی ہے کتنے ہی مالدار لوگ پائے جاتے ہیں جو سکون قلب سے محروم ہیں اور سکوں حاصل کر نے کے لئے انہیں ہروقت ڈاکٹروں کی ضرورت پڑ تی ہے قناعت انسان کو برے صفات سے اور برے کامو ں کو انجام دینے سے بچاتی ہے کیو نکہ وہ ہر حال میں راضی ہو تا ہے اس لئے کھبی بھی فساد کی طرف نہیں کھنچتا اسکے بر عکس جو اس صفت سے محروم ہو وہ ہر وقت نہ ہونے یا کم ہونے پہ کف افسوس ملتا ہے اسی لئے برائی اور فساد کی طرف بڑھتا جا تا ہے اس کی زندہ مثال آج کا انسان ہے جو اتنا سب کچھ ہو نے کے با وجود بھی نا شکری اور رنج وملال کی زندگی بسرکرکے برائی اور فساد کے دلدل میں دھنس چکا ہے ایک دوسرے کے حریم کا لحاظ کئے بغیر مال و دولت حتی ایک دوسرے کے ناموس کا تجاوز کرکے اپنے آپ کو سعادت حقیقی سے کوسوں دور چھوڑ چکا ہے کتنا اچھا ہو تا اگر انسان مکتب نہج البلاغہ کے اخلاقیات کی اس صفت کی حقیقت اور ہدف کو سمجھ کے اپنی زندگی کی ہر میدان میں عملی جامہ پہناتا تو آج پو رے عالم کی یہ حالت نہ ہو تی جو آج پائی جاتی ہے ہمیں چاہیے کہ اس کا ملکہ اپنے نفس کے اندر پیدا کرے تاکہ انسانیت کے حریم سے کبھی خارج نہ ہو نے پائے .
١٤) عفت ۔
عفت اور پاکدامنی ایک ایسی صفت ہے جسے انسان کے بہترین اخلاق میں سے ماناجاتا ہے اسی طرح ایک عفیف اور پاکدامن انسان معاشرے کے لئے ہر جہت سے خیر و برکت کا سبب بنتا ہے مکتب نہج البلاغہ میں عفت اور پاکدامنی پہ خاص تاکید کی گئی ہے کیونکہ ایک اچھے گھر ،شہر اور ملک کی پہچان اس میں زندگی بسر کرنے والے افراد کے پاکدامن اور عفیف ہو نے کی بنیا د پہ کی جا تی ہے امام علی فرماتے ہیں:
الف۔''ما المجاھد الشھید فی سبیل اللہ باعظم اجرا ممن قدر فعف، تکاد العفیف ان یکو ن ملکا من الملائکة''(حکمت٤٦٦)
'راہ خدا میں شہید ہو جانے والا اس سے زیادہ اجر کا حقدار نہیں ہو تا ہے ،جتنا اجر اس کا ہے جو اختیارات کے با وجود عفت سے کام لے کہ عفیف اور پاکدامن انسان قریب ہے کہ ملائکہ آسمان میں شمار ہوجائے'
ب۔ ''عفتہ علی قدر غیرتہ''(حکمت ٤٤)'عفت اور اسکی پاکدامنی اسکے غیرت کے مطابق ہے'
ج۔ ''العفاف زینةالفقر و الشکر زینة الغنی''(حکمت ٦٥) 'پاکدامنی فقیری کی زینت ہے اور شکر مالداری کی زینت ہے'
د۔ ''والحرفة مع العفة خیر من الغنی مع الفجور''(نامہ ٣١)'اور پاکدامنی کے ساتھ محنت مشقت کر نا فسق فجور کے ساتھ مالداری سے بہتر ہے' اور بھی بہت سارے اقوال نہج البلاغہ میں عفت کے حوالے سے وارد ہوئے ہیں جن کو طوالت مضمون کی وجہ سے ذکر نہیں کیا گیا پس امام علی ایک پاکدمن انسان کو ملائکہ کا درجہ دیتے ہیں خاص کر جب اس میں عفت اور پاکدمنی کے پردوں کو پارہ پارہ کرنے کی پوری قدرت بھی ہو لیکن اگرایسے حالات میں انسان اپنی عفت کو باقی رکھے واقعا اس شخص سے زیادہ اجر کا مستحق ہے جو مجا ہد خداکی راہ میں شہید ہو تا ہے کیونکہ وہ جہاد اصغر ہو تا ہے اور یہ جہاد اکبر۔اور اس سے بڑھ کر یہ انسان کے فردی اور اجتماعی امور میں بہت ہی مؤثر ہے انسان کی عفت کا زیادہ انداہ اسوقت ہو تا ہے جب وہ غریب اور لاچار ہوکیونکہ اسوقت اسکے گمراہ ہو نے اور پاکدامنی کے مرتبے سے گر نے کے زیادہ چانسز ہو تے ہیں پس پاکدامنی گھر سے لیکر ایک ملک تک اس کی سعادت اور کمال کی ضامن بنتی ہے لیکن آج کے دور میں اس اہم اخلاقی صفت کو، ایک گھرسے لیکر پورے ملک تک ،خودغرض اور منفعت طلب انسانوںنے نابود کیا ہے اپنے سیاسی اور اجتماعی فائدے کے لئے استعمار اور استکبار نے ہر طرح کے ان وسائل کو مھیا کیا جو انسان کو پاکدامنی کے درجے سے گرا دے مکتب اسلام میں عورت کی عصمت اور عفت کا خاص انتظام کر کے اسے حجاب اور نقاب کی زینت سے نوازالیکن پورپ اور غربی استعمار نے چونکہ جان لیا یہ ایک چھے اور پاک و پاکیزہ معاشرے کا ضامن ہے لہذا منع حجاب کے بے جا اور بے غیرت قوانین بناکے عفت اور پاکدامنی کی راہوں کو مسدود کر دینا چاہتے ہیں اور کچھ گنے چنے مسلمانو ں کو چھوڑ کے کسی بھی بے غیرت مسلمان نے اسکی مذمت میں آہ تک نہ کھینچی آخر کیوں؟!! ۔اسی لئے کہ پاکدامنی کے ساتھ ساتھ وہ اپنی غیرت بھی کھو بیٹھے ہیں اب بھی وقت ہے کہ انسان خاص کر مسلمان اس عفت اور پاکدامنی کی صفت کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہناکے اسکے صحیح اور اصلی ہدف کو جان لیں.
١٥) غیرت ۔
غیرت ایک ایسی اخلاقی صفت ہے جو انسان کی شخصیت کی پہچان ہے مکتب اسلام اور نہج البلا غہ غیرت مند انسان کی تعریف کرتے ہوئے اسکی راہیں مشخص کر تے ہیں اور اسے بے جا اور بے موقع غیرت کا اظہار کرنے سے منع کر تے ہوئے اس کے نقصان اور زیان سے بھی واقف کرتے ہیں امام علی اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
الف۔''غیرة المرأة کفر و غیرة الرجل ایمان''(حکمت ١١٩)'عورت کا غیرت کر نا کفر ہے اور مرد کا غیور ہو نا عین ایمان ہے'
ب۔''ایاک والتغایر فی غیر موضع غیرة فان ذالک یدعو الصحیحة السقیم و البریئة الی الریب ''(نامہ ٣١)
'خبر دار غیرت کے مواقع کے علاوہ غیرت کا اظہار مت کرنا کہ اس طرح اچھی عورت بھی برائی کے راستہ پر چلی جا ئے گی اور بے عیب بھی مشکو ک ہو جا تی ہے'
ج۔''ما زنی غیور قط''(حکمت ٢٩٧)'غیرت مند انسان ہرگز زنا نہیں کر تا '
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ (حکمت١١٩) کے با رے میں شارحین نہج البلاغہ کے نظریات مختلف ہیں بعض کہتے ہیں مرد کی دوسری شادیوں پہ عورت کا اعتراض کرنا اور غیرت سے کام لینا کفر ہے لیکن بعض کا کہنا ہے جس طرح مرد نہیں چاہتا کہ اپنی بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھے ا سی طرح عورت بھی پسندنہیں کر تی کہ اپنے شوہر کو کسی دوسری عورت کے ساتھ دیکھے ایسے میں مرد قانون الھی کو مدنظر رکھ کر اقدام کرتا ہے لیکن عورت آبروریزی ،سحر ،جادو،شکایت وغیرہ، جن کی نشأت بے ایمانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ،سے کام لیتی ہے دونوں غیرت سے کام لیتے ہیں لیکن مرد کی غیرت کرنا بجا اور عورت کا غیرت کر نا بے جاہو تا ہے جو کفر کا سبب بنتا ہے( نہج البلاغہ از دید گاہ قرآن ج٤ص١١١، شرح نہج البلاغہ۔محمد قزوینی۔ج٤ص١٣٤ ، شرح نہج البلاغہ ابن میثم ج٥ ص٥١٢،نہج البلاغہ۔جوادی ص٦٧٤)
پس غیرت مرد کی پہچان ہے اسکے با اخلاق ہو نے کی علامت ہے اور بے موقع اور بے جا غیرت کا اظہار بھی نہیں کر نا چاہیے عصر حاضر میں غیرت نا م کی کوئی چیز ہی نہیںپائی جاتی اگر ہے تو بے جا اور بے موقع غیرت ہے جو اور بھی تباہی اور فساد کا سبب بنا ہے انسان اتنا بے غیرت ہو چکا ہے کہ اگر کو ئی اسکے ناموس اور محرموں کے ساتھ غیر مؤدبانہ کا م انجام دیتا ہے وہ آنکھیں نیچے کر کے چپ چاپ چلا جا تا ہے آج کے دور کا انسان اپنی بہن ،بیوی کا ہاتھ نامحرم افراد کے ہاتھ میں دینے کو فخر اور غیرت سمجھتا ہے دوسروں کے ساتھ رقص و موسیقی کے پروگرام انجام دینے کو غیرت سے تعبیر کر تا ہے اگر وہ ایسا نہیں کرے گا اسے پھر دوسروں کے سامنے شرمندگی کا احساس ہو تا ہے کتنا بے غیرت ہو چکا ہے یہ انسان ؟!!اسکے علاوہ آج استعمار مسلمان ملکوں پہ چڑھائی کر کے ،جنگ صلیبی کو دوبارہ حیات دے کے ،انکے گھروں میں گھس کے انکے ناموس کو للکار رہاہے انہیں لہولہاں کر کے انکے بیوی ،بچوں کے ساتھ نازیبا رفتار کر کے طرح طرح کی اذیت کر تا ہے لیکن بے غیرتی کی حد یہ ہے کہ مسلمان اتنا سب دیکھنے کے با وجود بھی ٹس سے مس نہیں ہو تا ہے ؟؟!!کہا ںہے وہ غیرت جس کا داعی قرآن اور نہج البلاغہ ہے کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم غیرت کی زرہ پہن کر استعمار کے ہر طرح کے حربے کے مقابلے کے لئے آمادہ ہو جائے آج اس با ت کی ضرورت ہے کہ ہم غیرت جیسے اور ہزاروں صفات کے حقیقی ہدف اور اصلی ۔ strategic۔ کو درک کر لیں .
١٦) امانت داری۔
امانت داری ایک ایسی اخلاقی صفت ہے جس میں انسان کا دین و ایمان نہیں دیکھا جاتا بلکہ امانت داری کوایک اچھے انسان ہونے کی پہچا ن بتا یا گیا ہے مکتب نہج البلاغہ میں امانت داری پہ بہت تاکید کی گئی ہے زندگی سے متعلق تمام شعبوں میں امانت داری کی شمع روشن کر نے کی تاکید کی گئی ہے مکتب نہج البلاغہ کے امین امیر المؤمنین کے چندبے مثال کلمات کچھ اسطرح سے ہیں:
الف ۔ آنحضرت آذر بیجان کے گورنر اشعث بن قیس کے نام لکھتے ہیں:' تمہارا کام ،تمہارا رزق اور خوراک نہیں ہے بلکہ وہ عمل امانت ہے تمہاری گردن پر ۔اور تم فقط محافظ ہو اپنے مافوق کے لئے ۔تمہیں اپنے میل اور رغبت کے مطابق رعایاکے ساتھ رفتار نہیں کرنا چاہیے اور تمہیں اسی کام کی طرف متوجہ ہو نا چاہیے جس کام کا حکم اور امر میری جانب سے پہونچے تمہارے ہاتھ میں خدا وند عالم کا مال ہے اور تم میرے خزانہ دارو ں میں سے ایک خازن ہوجب تک کہ مجھے میری امانت واپس دے دو امید ہے میں تیرے لئے برا حاکم نہ ہوں'(نامہ٥)
ب۔ اسی طرح بہت سے خطوط اپنے گور نروں کے نام جس میں عبد اللہ بن عباس ،عبید اللہ بن عباس اور مالک اشترکے نام لکھے گئے خطوط قابل ذکر ہیں آپ ان سے فرماتے ہیں:'اس کے بعد ان عمال کی بھی تفتیش کرتے رہنا اور نہایت معتبر قسم کے اھل صدق وصفا کو ان پر جاسوسی کے لئے مقرر کردینا کہ یہ طرز عمل انہیں امانت دارای کے استعمال پر اور رعایا کے ساتھ نر می کے برتاؤ پر آمادہ کرے گا.اور دیکھو اپنے مددگاروں سے بھی اپنے کو بچا کر رکھنا کہ اگر ان میں کوئی ایک بھی خیانت کی طرف ہاتھ بڑھائے اور تمہارے جاسوس متفقہ طور پر یہ خبر دیں تو اس شہادت کو کافی سمجھ لینا اور اسے جسمانی اعتبار سے سزادینا اور جو مال حاصل کیا ہے اسے چھین بھی لینا اور سماج میں ذلت کے مقام پر رکھ کے خیانت کاری کے مجرم کی حثیت سے روشناس کرانا اور ننگ و رسوائی کا طوق اسکے گلے میں ڈال دینا'(نامہ٥٣)
آنحضرت کی یہ فرمایشات قابل غور ہے جس میں آپ امانت داری جو کہ ایک اہم اخلاقی صفت ہے، پہ خاصی تاکید کرتے ہیںاور امانت میں خیانت کرنے والوں کے ساتھ سخت رویہ اپنا نے پہ زور دیتے ہے یہ اسی لئے ہے کہ اگر انسان واقعی معنوں میں امانت داری کا ملکہ اپنے اندر پیدا کرتا تو کبھی بھی فساد نہیں ہو تا آج کے دور کا انسان اس اخلاقی صفت سے عاری ہے بہت ہی کم امانت کے رکھوالے پیدا ہو تے ہیں گھر سے لیکر ایک ملک کے سیاسی سٹیج تک ،مال سے لیکر ایک فرد کی نامو س تک میں خیانت ہو تی ہے تبھی تو فحشا ،ابتذال ،رشوت کا بازار گرم ہے کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ انسان امانت داری کا لباس زیب تن کرکے خیانت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکے.
١٧ ) آداب معاشرت ۔
مکتب نہج البلاغہ میں انسان کو آداب معاشرت کا لحاظ کر نے پر خاصی تاکید کی گئی ہے اور ایسے انسان کی اخلاقی اعتبار سے سراہنہ کی گئی ہے اور بااخلاق مانا گیا ہے جو معاشرتی آداب اور نظام کی صحیح معنوں میں اتباع کر تا ہو اس ضمن میں یہاں اس کے متعلقا ت مختلف اور جدا ہیں جیسے اھل و عیال ،بچے ،ماں باپ،رشتہ دار ،یتیم،دینی اور غیر دینی بھائیوں سے مسالمت آمیز زندگی بسر کرنے کے لئے آداب معاشرت پہ خاص توجہ دی گئی ہے آئے ایک ایک کر کے مکتب نہج البلاغہ میں ہر کسی کے ساتھ آداب معاشرت کی ضروریات اور قوانین کو ملاحظہ کریںکیونکہ انہیں اخلاقیات کے اہم باب میں شمار کیا جاتا .
١٧۔١) بیوی ، بچوں اور والدین کے ساتھ حسن معاشرت۔
اپنے اھل و عیال او رما ں باپ کے ساتھ حسن سلو ک کرناایک انسان کے بااخلاق ہو نے پہ دلالت کر تی ہے اور یہ ایک ایسی اخلاقی صفت ہے جس میں انسان کے دین و مذہب کو دیکھا نہیں جاتا مکتب نہج البلاغہ یعنی مکتب اسلام اس پہ کا فی زور دے رہا ہے.
الف ۔''لا تجعلن اکثر شغلک باھلک و ولدک فان یکن اھلک و ولدک اولیاء اللہ فان اللہ لا یضیع اولیائہ و ای یکون اعداء اللہ فما ھمک و شغلک باعداء اللہ ؟!''(حکمت٣٤٤)
'زیادہ حصہ بیوی بچوں کی فکر میں مت رہا کروکہ اگر یہ اللہ کے دوست ہیں تو اللہ انہیں بر باد ہو نے نہیں دے گا اور اگر اسکے دشمن ہے تو تم دشمنان خدا کے با رے میں کیوں فکر مند ہو'
ب۔''ان للولد علی الوالد حقا و ان للوالد علی الولد حقا فحق الوالد علی الولد ای یعطیہ فی کل شیئی الا فی معصیة اللہ سبحانہ ،و حق الولد علی الوالد ان یحسن اسمہ و یحسن ادبہ و یعلمہ القرآن''(حکمت٣٩١)
'فرزند کا باپ پر ایک حق ہو تا ہے اور باپ کا فرزند پر ایک حق ہو تا ہے باپ کا حق یہ ہے کہ بیٹا ہر مسئلہ میں اسکی اطاعت کرے معصیت پر ور دگار کے علاوہ ۔اور فرزند کا حق باپ پر یہ ہے کہ اسکا اچھا سا نام تجویز کرے اور اسے بہترین ادب سکھائے اور قرآن مجید کی تعلیم دے '
ج۔ 'امام علی اپنے بیٹے امام حسن سے وصیت کرتے ہیں:'انہیں۔عورتوں کو۔ پردہ میں رکھ کر انکی نگاہوں کو تاک جھانک سے محفوظ رکھو کہ پردہ کی سختی اسکی عزت و آبرو کو باقی رکھنے والی ہے اور انکا گھر سے نکل جانا غیر معتبر افراد کے اپنے گھر میں داخل کر نے سے زیادہ خطر ناک نہیں ہے اگر ممکن ہو کہ وہ تمہارے علاوہ کسی کو نہ پہنچانیں تو ایسا ہی کرو ۔اور خبر دار انہیں انکے ذاتی مسائل سے زیادہ اختیا ر نہ دو اسلئے کہ عورت ایک پھو ل ہے اور حاکم نہیں ہے۔اسکے پاس اور لحاظ کو اسکی ذات سے آگے نہ بڑھاؤ اور اس میں دوسروں کی سفارش کا حوصلہ پیدا نہ ہو نے دے ۔دیکھو خبر دار غیرت کے مواقع کے علاوہ غیرت کا اظہار مت کرنا اس طرح اچھی عورت بھی برائی کے راستہ پر چلی جائے گی اور بے عیب بھی مشکو ک ہو جا تی ہے'(نامہ ٣١)
مکتب نہج البلاغہ گھر میں رہنے والے افرادکو ایک دوسرے کے حق کی رعایت کرنے پہ تاکید کر تا ہے ہر حال میں والدین کی اطاعت۔بیٹے کو صحیح ادب اور قرآن کی تعلیم ۔عورتوں کی باہر نہ جانے کی اجازت۔گھر کا حاکم مرد۔وغیرہ وغیرہ... لیکن عصر حاضر کو ان اخلاقیات کی قلت کا سامنا ہے بچے والدین کو اپنے حال پہ چھوڑ دیتے ہیں ماں باپ بچوں کو اسلامی آداب اور قرآنی تعلیم سکھانے میں ذلت کا احساس کر تے ہیں اسلئے انہیں انگلش میڈیم بھیجنا پسند کرتے ہیں جہاں انہیں دنیوی علم تو ملتا ہے لیکن عمل اور آداب انسانی سے وہ محروم رہتے ہیں والدین قرآنی تعلیم کے بجائے انہیں فلمی نغمیں سنانا پسند کر تے ہیں جو ان کے فسا د کا سبب بن جا تا ہے اور کل وہ معاشرے میں بڑے ہو کردوسروں کے لئے وبا ل جان بن جاتے ہیں اور طبیعی ہے کہ یہیں بچے اپنے والدین کو پھر اپنے حال پے چھوڑ دیتے ہیں .آج مکتب نہج البلاغہ کے برعکسfamanism) اور (humanismپہ عمل کرکے عورت کو حاکم بنایا اور اسے آزاد چھوڑ کے گھر اور معاشرے دونوں کی بر با دی کے اسباب فراہم کئے اور اسکی پھول جیسی نزاکت کو پامال کر دیااب بھی موقع ہے کہ انسان مکتب نہج البلاغہ کے اس اخلاقی برنامے پہ غور کرکے اسے عملی شکل عطاکرے .
١٧۔٢) رشتہ دارو ں کے ساتھ حسن معاشرت ۔
مکتب نہج البلاغہ ہمیں صلہ رحم اور اپنے رشتہ داروں اور قرابت داروں کے سے محبت اور حسن اخلاق سے پیش آنے کی تلقین کر تا ہے امام علی فرماتے ہیں:
الف ۔'اے لوگو!کوئی انسان اپنے طائفے (رشتہ داروں ) سے بے نیاز نہیں ہے گر چہ کتنا ہی ثروت مند اور مالدار ہی کیوں نہ ہو وہ ان ہاتھو ں کا محتاج ہے جن سے وہ اسکا دفاع کرتے ہیں اسکے رشتہ دار حفظ عیب کے لئے اہم افراد ہیں اور اچھی طرح سے اسکی سختیوں کو دور کر سکتے ہیں اور دشواریوں کے وقت اس پر سب سے زیادہ مہر بان ہیں اور خدا جسے لوگوں کے درمیاں اچھا نا م عطا کر ے وہ اس ثروت اور مال سے بہتر ہے جو دوسروں کے لئے میراث میں چھوڑتا ہے .
خبر دار !کو ئی اپنے رشتہ داروں سے منہ نہ موڑے جس وقت اسے فقیری اور پریشانی میں دیکھے اسے چاہیے کہ اس پر احسان کرے اگر مال امساک کیا جائے تو وہ زیادہ نہیں ہو تا اور خرچ کر نے سے کم نہیں ہو تا جو کوئی اپنے رشتہ داروں سے دستبردار ہو اس سے بہت سارے ہاتھ دستبردار ہو نگے اور جو کوئی تواضع اور مہربانی سے پیش آئے انکی ہمیشہ باقی رہنے والی دوستی کو اپنی طرف جلب کر تا ہے'(فیض ،خطبہ ٢٣۔تصنیف نہج البلاغہ ص٦٦٤)
ب۔''اکرم عشیرتک فانھم جناحک الذی بہ تطیر و اصلک الذی الیہ تصیر و یدک التی بھا تصول ''(نامہ ٣١)
'اپنے قبیلہ کا احترام کرو کہ یہی تمہارے لئے پر پرواز کا مرتبہ رکھتے ہیںاور یہی تمہاری اصل ہے جنکی طرف تمہاری بازگشت ہے 'اور تمہارے ہاتھ ہیں جن کے ذریعہ حملہ کر سکتے ہو'
ج۔ ''من ضیع الاقرب اتیح لہ الابعد''(حکمت ١٤) 'جسے قریب والے چھوڑدیتے ہیں اسے دور والے مل جاتے ہیں'
د۔و صلة الرحم فانھا مثرأة فی المال ومنأة فی الاجل''(خطبہ ١٠٩ فیض) 'بیشک صلہ رحم مال کو اضافہ اور اجل کو ٹالنے کا بہترین ذریعہ ہے'
نہج البلاغہ کی اخلاقیات کے حسن معاشرت کے باب میں سے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ مہربان اور مل جل کر رہنے کی تاکید کی گئی ہے کیونکہ وہی اسکے رنج وغم میں مددگار ہو تے ہیں اور صلہ رحم کی طرف خاص توجہ دی گئی ہے تاکہ انسان میل ملاپ سے ایک اچھاجامعہ اور معاشرے کو تشکیل دے سکے یہ سب اسی لئے ہے تاکہ برائی اور فساد کی روک تھا م ہو سکے کیونکہ اپنا بن کے رہنا انسان کو کدورت ،حسادت اور بھی بہت سی برائیوں سے پاک رکھتی ہے آج کا معاشرہ بلکل اس سے خالی ہے لو گ کے پاس اپنے والدین یا بیوی کے ساتھ مل جل کر رہنے کے لئے ٹائم نہیں ہے تو صلہ رحم کے لئے کہا ں سے وقت نکال کر لائیں گے تبھی تو اپنے قریب ہو تے ہوئے بھی دور ہو جا تے ہیں اور برائی اور فساد کا امکا ن زیادہ ہی بڑتا جا تا ہے ہمیں چاہیے کہ نہج البلاغہ کے اس اخلاقی نکتہ پہ خاصی توجہ دی جا ئے تاکہ آئیندہ نسل کو فساد اور برائیوں میں دھکیل نے سے روک سکیں.
١٧۔٣) ہمسایئوں اور یتموں سے حسن معاشرت ۔
اسلام ہمیں ہمسایئوں اور یتیموں سے حسن معاشرت کی بہت تاکید کر تا ہے مکتب نہج البلاغہ میں اسے خاصی اہمیت دی گئی ہے کہ انسا ن اپنے معاشرے میں ہمسایئوں اور یتیموں کا خا ص خیال کرے ان سے ہمدردی کر کے اپنے حسن خلق کا اظہار کرے اما م علی جو خود اس عمل کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے ،فرماتے ہیں:
الف۔''اللہ اللہ فی الایتام فلا تغبوا افوھھم ولایضیعو بحضرتکم ...''(نامہ ٤٧)
'دیکھو یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا اور انکے فاقو ں کی نو بت نہ آجائے اور وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے بربا د نہ ہو جائے '
ب۔''اللہ اللہ فی جیرانکم ،فانھم وصیة نبیکم ؛ مازال یوصی بھم حتی ظنناانہ سیورثھم ''(نامہ ٤٧)
'اور دیکھو ہمسایہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا کہ انکے بارے میں تمہارے پیغمبر (ص) کی وصیت ہے اور آپ برابر انکے بارے میں نصحیت فرماتے رہتے تھے یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ شائد آپ انہیں وارث بنانے والے ہیں '
ج۔'بیشک خدا وند کریم سے نزدیک ہو نے کا بہتریں وسیلہ خدا اور پیغمبر ص پر ایمان لانا...احسان اور نیکی کرنا ،صلہ رحم کرنا ہے یہ چیزیں مال کو زیادہ کرتی ہیں اور موت کو ٹال دیتے ہیں'(خطبہ ١٠٩۔فیض)
یہ فرمایشات واضح طور پر بتارے ہیں کہ یتیموں کا خاص خیا ل رکھا جائے کیونکہ ممکن ہے کہ اگر انکے ساتھ حسن سلوک سے کام نہ لیا گیا تووہ بٹک سکتے ہیں گمراہ ہو سکتے ہیںاور اسی طرح سے ہمسایہ کے ساتھ نیکی سے پیش آنے کی تلقین کی گئی ہے حتی حدیث سے پتہ چلتا ہے انکے ساتھ گھر کے ایک فرد کے مانند سلوک کیا جائے کیو نکہ ہمسایہ کے ساتھ ایک زندگی گزارنی ہوتی ہے اور مکتب اسلام اور نہج البلاغہ چہتا ہے کہ محبت اور رفعت کے ساتھ انسان ایک دوسرے کے ساتھ رہے آج کے دور میں ان دونوں چیزوں کا فقدان پایا جا تا ہے تبھی تو تباہی اور برباد ی عام ہے عصر حاضر کے انسان کو ان دونوں صفات کو اپنا کے زندگی کی شکل کو چینج کرنا چاہیے.
١٧۔٤) دینی بھائیوں سے حسن معاشرت ۔
اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ نیک اور اچھے رفتار سے پیش آنا مکتب اسلام اور نہج البلاغہ کا اہم اخلاقی نکتہ ہے اس پر امام علی عليه السلام فرماتے ہیں :
الف ۔'آپ ایک دوسرے کے دینی بھائی ہیں غلط سوچ اور باطن کی ناپاکی نے تمہارے درمیاں جدائی ڈالی ہے لہذا تم ایک دوسرے کا با ر نہیں اٹھاتے اور ایک دوسرے کو نصحیت نہیں کر تے ہو اور ایک دوسرے پر بخشش اور خرچ نہیں کر تے ہوایک دوسرے سے دوستی نہیں کرتے ہو، سوائے اسکے کو ئی بھی چیز تمہیں اپنے دینی بھائی کی عیبجوئی کر نے سے مانع نہیں بنتی ہے کہ تم ڈرتے ہو کہ کہیں وہ بھی آپ کے عیبوں کو بر ملا نہ کرے'(فیض،خطبہ٢٣۔تصنیف نہج البلاغہ٦٤٩)
ب۔ ''اعجز الناس من عجز عن اکتساب الاخوان و اعجز منہ من ضیع من ظفر بہ منھم ''(حکمت ١١)
'عاجز ترین انسان وہ ہے جو دوست بنا نے سے بھی عاجز ہواور اس سے عاجز وہ ہے جو رہے سہے دوستوں کو بھی بربا د کر دے'
ج۔''لا یکو ن صدیق صدیقا حتی یحفظ اخاہ ثلاث، فی نکبتہ وغیبتہ و وفاتہ ''(حکمت ١٢٩)
'دوست اس وقت تک ایک دوست نہیں ہو تا جب تک اپنے دوست کے تین موقع پر کا م نہ آسکے۔مصیبت کے موقع پر ۔اسکی غیبت میں ۔اور مر نے کے بعد'
د۔''عاتب اخاک بالاحسان الیہ واردد شرہ بالانعام علیہ ''(حکمت١٥٠) 'اپنے بھائی کو تنبیہ کرو تو احسان کرنے کے بعداور اسکے شر کا جواب دو لطف و کرم کے ذریعہ '
اپنے دینی بھائی کے ساتھ حسن ظن ،حسن سلوک اور حسن خلق سے پیش آنا چاہیے اور حتی الامکان کو شش کر نی چاہیے کہ انسان اپنے لئے ایک اچھے دوست کا انتخاب کرے جو نہ ہی اسکی عیبجوئی کرے ،نہ ہی اسے مصیبتوں میں تنھا چھوڑدے اور نہ ہی اسے بھول جائے اسلام اور نہج البلاغہ کی تلقین یہی ہے کہ اپنے دینی بھائیوں کی فکر میں رہنا چاہیے لیکن آج کا انسان اور مسلما ن یہ سب کچھ بھول کے اپنی مستی میں مگن ہے اسے تو اپنے لئے ہر طرح کا آرام مہیا ہو اسے دوسرے مسلمان کی فکر ہو تو کیوں کر؟!کو ئی مررہا ہے کوئی لٹ رہا ہے کوئی پٹ رہا اسے کیا مطلب؟!وہ تو امنیت میں ہے !!
١٧۔٥) تمام لوگوں سے حسن معاشرت ۔
ایک اور اخلاق جو مکتب نہج البلاغہ میں حسن معاشرت ،خوش خلقی،اور لوگوں کے ساتھ نیک رفتار کر نے پر مبنی ہے امام اپنے تمام گورنروں کو یہی وصیت کرتے ہیں کہ تمام انسانوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں.مالک اشتر کے نام لکھے ہوئے عھد نامے میں کچھ اسطرح آیا ہے .
الف۔'اپنے دل کو اپنی رعایا کے لئے چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلمان ،مہربان بناؤانکے ساتھ محبت اور لطافت سے پیش آؤایک شکاری جانور بن کے انہیں غنیمت سمجھ کے ،ان پہ حملہ نہ کر نا کیونکہ لوگ دو قسم کے ہیں یا تمہارے دینی بھائی ہیں یا خلقت میں تمہارے ہی جیسے ہیں عمدا یا سہوا ان سے خطا ہو سکتی ہے ان کے خطا کی طرف مت دیکھو انکے گناہوں کو معاف کرو'
ب ۔دوسری جگہ امام علی تمام جھان کے لوگوں سے مخاطب ہو کے فرماتے ہیں :''خالطوا الناس مخالطة ان متم بکو اعلیکم وان عشتم حنوا الیکم''(حکمت١٠)
'لوگوں کے ساتھ اسطرح سے رہو کہ اگر مرگئے تو تم پر گریہ کریں اور اگر زندہ رہے تووہ تم سے ملنے کے مشتاق رہیں'
ج ۔ایک اور جگہ فرماتے ہیں :''الشبابة حبالةالمودة الاحتمال قبر العیوب''(حکمت ٦)
'بشاشت اور خندہ روی کے ساتھ دوسروں سے ملنا دوستی کا جال ہے اور لوگوں سے دوستی عیوب کو چھپاتی ہے'
پس ان نورانی کلمات سے یہ صاف ظاہر ہو تا ہے کہ خندہ روئی سے پیش آنا اور دوسری کے ساتھ رفعت اور مہربانی اور نیک رفتار سے ملنا انسان کو دوسری کی نظروں میں محبوب اور مورد اعتماد بناتا ہے اور یہ انسان کے بہتریں اخلاق میں محسوب ہو تا ہے تاریخ اسلام میں ایسی سینکڑوں شخصیتیں ملیں گی جنکے چاہنے والوں اور ماننے والوں کی تعداد کم نہیں ہے اور یہ سب صرف اسی اخلاق حسنہ کی وجہ سے ہے آج کے دور میں اس اخلاق حسنہ کا فقدان واضح اور روشن ہے جہاں انسان صرف مادیات میں غرق ہو نے کی وجہ سے ہر وقت غم و غصے میں مبتلاہے اور اپنے آپ کواس غم وغصے سے نجات دینے کے لئے طرح طرح کے وسائل کا استعمال کر تا ہے لیکن چونکہ صرف اپنی فکر میں لگا رہتا ہے اسلئے بشاشت کا اسکی پیشانی پہ نام ونشان تک نہیں ملتا دوسروں سے خندہ روئی سے ملنا، محب اور دوست بنانایا پھردوست بنا کے دوستی نبھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو تاآج ضرورت اس بات کی ہے کہ نہج البلاغہ کی اس اہم اخلاقی صفت کو اپنی زندگی میں عملی شکل دیکر دوسروں کے ساتھ مل کر جینا سیکھیں ۔
یہ کچھ اہم اخلاقیات تھیں جن کومختصر طور پر یہا ں بیا ن کیا گیااسکے علا وہ امام علی ایک طولانی وصیت میں اپنے فرزند امام حسن سے۔جو دو واقع تمام بشریت خاص کر نسل جوان کے نام ہے ۔ مخاطب ہو کے بہت سارے اخلاقیات کی طرف اشارہ کر کے انہیں اپنی زندگی میں عملی شکل دینے پر تاکید کر تے ہیں ا خر میں طوالت موضوع کی وجہ سے ان میں بعض کی طرف اجمالی نظر ڈالتے ہیں.
''ایک باپ کی طرف سے جو فنا کے قریب ہے جس نے زمانے کی تلخیوں کو قبول کیا ہے زندگی گزار چکا ہے زمانے کی گردش کے آگے گردن جھکائی ہے ...ایک بیٹے کے نام ۔تمام جوانوں کے نام ۔جو ایسی چیز کی آرزو میں ہے جو ہاتھ آنے والی نہیں ہے ...تم کو وصیت کر تا ہوں :١۔خدا سے ڈرو اور ہمیشہ اسکے تابع رہو.٢۔اپنے دل کو وعظ و نصحیت سے زندہ رکھو اور پارسائی ۔زھد ۔سے مار ڈالو.٣۔آ خرت کو دنیا کے عوض مت بیچو.٤۔نیک کاموں کا حکم کرو اور اپنے آپ کو نیک کا م کرنے والوں میں قرار دو.٥۔خدا کی راہ میں کوشش کرو اور ملامت کرنے والوں کی ملامت سے مت ڈرو.٦۔اپنے آپ کو صبر کا عادی بناؤ.٧۔اپنے بزرگوں۔زاہدوں۔ کی راہ پر چلو.٨۔دنیا سے دل نہ لگاؤ.٩۔لمبا راستہ طے کر نا ہے پس اسکے خرچے کا انتظام کرو.١٠۔تم دوسری دنیا۔آخرت۔ کے لئے پیدا کئے گئے ہو نہ دنیا کے لئے .١١۔کم بو لو اور زیادہ سوچو.١٢۔دوسروں کا حق ضائع مت کرو.اور...
اور بھی ہزاروں اخلاقی صفات جو نہج البلاغہ میں پائے جاتے ہیں سب کے سب انسان کیلئے مایہ حیا ت ہیں انسان اگر ان تما م اخلاقیات کو اپنی زندگی میں عملی شکل دے کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گا ہر طرح سے اپنی منزل مقصود جو سعادت اور کمال کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ،کوضرور پائے گا اب بھی وقت ہے کہ انسان گمراہی اور ضلالت کے وسائل کو دور پھنک کے نہج البلاغہ کی صحیح ہدایت کی روشنی میں آئے تمام بشریت کے لئے امام علی نے یہ باب ہمیشہ کے لئے کھول کے رکھا ہے جو بھی اخلاق کے صحیح مفہوم اور صحیح ہدف کو پہنچانے گا اسے زندگی کے ہر موڑ پہ کار آمد پائے گاآج کی اخلاق سے عاری بشریت کو اپنی انسانی ھویت بچانے کے لئے اخلاق کی ہر چیز سے زیادہ ضرورت ہے اسے گھر کی دہلیز سے لیکر اجتماع اور سیاست کی اونچی سٹیج تک کے ہر موڑ پہ اخلاق کی ضرورت ہے وہ اپنی ھویت اور اپنا کلچر جس کی اساس اور بنیاد اخلاق پر ہے ، کھو چکا ہے اسے اپنی ھویت اور کلچر کو دوبارہ زندہ کر نے اور آنے والی نسل کو ہر طرح کی برائی اور فساد سے بچانے کے لئے مکتب اسلام اور نہج البلاغہ کے انمول اور بے مثال اخلاقیا ت کے گوہروںکو انتخاب کر کے انہیں اپنی زندگی کے ہر میدان ۔چاہے فردی ہو یا اجتماعی ،سیاسی ہو یا ثقافتی ۔میں عملی شکل دینی ہو گی رب ا لعزت سے یہی دعاہے کہ ہمیں نہج البلاغہ کے تما م وصایا پہ عمل کر نے کی توفیق عنائت فرمائے خاص کر باب اخلاق کو اپنی زندگی میں جامہ عمل پہنانے میں مدد فرمائے الھی آمین۔
(منابع و مأخذ)
١)نہج البلاغہ:ترجمہ محمد دشتی ؛ناشر مؤسسہ انتشارات مشہور ، قم ایران ،نوبت چاپ دھم ١٣٨٠ھ ش۔
٢)نہج البلاغہ:ترجمہ ،تشریح ،تفسیر؛ علامہ ذیشان حیدر جوادی ،ناشر انصاریان پیبلیکیشنز قم ،ایران،طبع اول ١٩٩٩ئ۔
٣)ترجمہ و تفسیرنہج البلاغہ:محمد تقی جعفری؛دفتر نشر فرھنگ اسلامی ،تہران چاپ ھفتم ١٣٦٧ھ ش۔
٤)نہج البلاغہ از دید گاہ قرآن:مصطفی زمانی؛انتشارات پیام اسلام ،قم،چاپ اول ١٣٦٠۔
٥)شرح نہج البلاغہ:محمد صالح بن محمد باقری،چاپ اسلامیہ١٣٨٠ق ھ۔
٦)شرح نہج البلاغہ ابن میثم:ترجمہ؛قربانعلی محمدی مقدم؛ بنیاد پژوھشھای اسلامی آ ستان قدس رضوی ،مشھدچاپ اول۔
٧)تصنیف نہج البلاغہ:
٨)نہج البلاغہ :فیض الاسلام؛
ایران کے تیل کے بائيکاٹ کے خطرناک نتائج
ایشیا ٹائمز نے ایک رپورٹ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف امریکہ کی تازہ پابندیوں کو اقتصادی جنگ سے تعبیر کرتےہوئے کہاہے کہ یہ جنگ صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاھو اور امریکہ اسرائيل لابی ایپیک کے براہ راست حکم سے امریکی صدر باراک اوباما نے شروع کی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کی حکومتوں نے بھی اپنے ملکوں میں تیل کے بے نہایت ذخائر پر اطمئنان کرتےہوئے ایران کے تیل کا بائیکاٹ کرنے کا بات کی ہے تاہم ابھی انہوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہےکہ ایران کے تیل کا بائیکاٹ کب سے شروع ہونا چاہیے۔ یورپی یونین کے اس فیصلے کی خبریں تیل کی عالمی منڈیوں تک پہنچ چکی ہیں جس کے نتیجے میں تیل کی قیمت تقریبا چودہ ڈالر فی بیرل ہوچکی ہے۔
یورپی یونین کے ممالک چین کے بعد ایرانی تیل کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ اس کےباوجود یورپی یونین کے انرجی کمیشن کے سربراہ گونتر اوتنیگر نے دعوی کیا ہے کہ سعودی عرب ایران کے تیل کی کمی پوری کرسکتا ہے اور بازار میں تیل بھر سکتا ہے۔ تیل کی عالمی منڈیوں پر نظر رکھنےوالا ہر شخص یہ کھ سکتا ہےکہ سعودی عرب ایران کے تیل کی کمی کو پورا کرنے کی توانائي نہیں رکھتا اس کے علاوہ اسلامی بیداری کی تحریک سے خوفزودہ سعودی دربار کو اپنے تیل کی بے حد ضرورت ہے تاکہ وہ ہر تحریک کوکنٹرول کرنے کےلئے اپنے عوام کو رشوت دے سکے۔ ان امور کے علاوہ آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی ایران کی دھمکی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ دنیا کی ضرورت کے تیل کا چھٹا حصہ اس آبی راستے سے ہوکر جاتا ہے۔ اگر ایران نے آبنائے ہرمز کو بند کردیا تو تیل کی یہ بھاری مقدار اور اوپک کے ملکوں کی ستر فیصد پٹرولیم مصنوعات دنیا کی منڈیوں تک نہیں پہنچ سکیں گی بنابریں اس بات پر کوئي تعجب نہیں ہے کہ تیل کے بیوپاری زیادہ سے زیادہ تیل خرید رہے ہیں، اگر یہی صورتحال جاری رہی تو دوہزآر آٹھ کی طرح تیل کی قیمت ایک بار پھر ایک سو پچاس ڈالر فی بیرل ہوجائے گي۔ ان حالات کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہےکہ اسرائيل نے جو کھیل شروع کیا تھا اب وہ ایک مہلک کھیل میں تبدیل ہوچکا ہے جس سے عالمی اقتصاد بری طرح متاثر ہورہا ہے۔
ایران کی پارلمنٹ میں قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے سربراہ کی دھمکی کو کوئي عقل مند انسان نظر انداز نہيں کرسکتا جو انہوں نے کہا تھا کہ مغرب ایران کے تیل کا بائيکاٹ کرکے اسٹراٹیجیک غلطی کررہا ہے۔ اگر مغرب کی ہٹ دھرمی جاری رہی تو دوہزار بارہ کو عالمی معیشت کے جمود کا سال قراردیا جاے گا۔
ایشیا ٹائمز کے مطابق نئي پابندیوں سے ایران کو کچھ مسائل تو ضرور پیش آ ئيں گے لیکن اسکے بعد امریکی کانگریس کے غیر ذمہ دار اراکین آخر کار یہ باور کرنے پر مجبور ہوجائيں گے کہ عالمی منڈیوں سے پچیس لاکھ بیرل تیل کے غائب ہونے کے نہایت ہی خطرناک نتائج ہونگے۔
ایشیائي ملکوں میں تیل کی ضرورت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور یہ ممالک اکثر ایران سے تیل خریدتے ہیں۔ ایران کے تیل کے بائيکاٹ سے تیل کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں گي بنابریں یہ سوال کیا جاسکتا ہےکہ امریکی صدر اوباما نے کس بناپر ایران کے تیل کے بائیکاٹ کے قانون پر دستخط کئےہیں؟ اوباما کی انتطامیہ کے لئے اگلے صدارتی انتخابات نہایت اہمیت رکھتے ہیں، ری پبلیکن امیدوار متفقہ طور پر ایران پرحملوں اور جنگ کی بات کررہے ہیں اور امریکی عوام تو ظاہر سی بات ہے دنیا کے حالات سے بے خبرہے اور ان باتوں پر یقین کرلیتی ہے۔اسکے باوجود شاید ہی کوئي انسان اس بات پر یقین کرسکے کہ رواں برس میں امریکہ اور یورپ کی معیشتوں میں تھوڑی بہت بہتری کے باوجود یہ ممالک تیل کی ایک سوبیس ڈالر فی بیرل قیمت کے ساتھ اپنی معیشت کو آگے بڑھاسکتے ہیں۔
یورپ میں اقتصادی بحران کے شکار اور نیٹو کے رکن ملکوں کے علاوہ کوئي بھی ایران کے تیل کے بائيکاٹ پر راضی نہیں ہے۔ روس نے پہلے سے ہی ان پابندیوں کی مخالفت کردی ہے اور ہندوستان، ترکی کے ہالک بینک کے ذریعے ایران کے تیل کا پیسہ ادا کررہا ہے اور چين نے ایران سے مزید تیل کی خریداری کے مذاکرات شروع کردئےہیں۔ چین، ایران کے تیل کی قیمت یورو میں ادا کرتا ہے اور عنقریب یوان میں ادا کرنے لگے گا ۔ دونوں ملکوں نے یوان میں معاملے کرنے کے لئے مذاکرات شروع کردئے ہیں۔
لاطینی امریکہ میں بھی ونزوئيلا نے ایران کے ساتھ دوہزار نو میں بائي نیشنل بینک قائم کیا تھا جس کے ذریعے ایران لاطینی امریکہ سے تجارت کرتا ہے۔ امریکہ کے روایتی حلیف جیسے ترکی ایران سے تیس فیصد ضرورت کا تیل خریدتےہیں وہ بھی ان پابندیوں سے مستثنی ہونے کا مطالبہ کریں گے۔
ادھر جنوبی کوریا ہے اسکی بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے وہ روزآنہ ایران سے دو لاکھ بیرل تیل خریدتا ہے وہ بھی اپنی اس ضرورت کے مد نظر امریکی پابندیوں سے مستثنی ہونے کا مطالبہ کررہا ہے۔ ہندوستان چین اور جنوبی کوریا کے ایران کے ساتھ پیچیدہ تجارتی تعلقات ہیں۔ مثال کے طور پر ایران اور چین کے تجارتی لین دین کی شرح تین ارب ڈالر سے بڑھنے ہی والی ہے۔ یہ تجارتی تعلقات محض امریکہ اور تیل ابیب کی نادانیوں کی بناپر ختم نہیں ہونگے بلکہ ترقی پذیر ملکوں کے نجی بینک ایران کے تیل کی خریداری میں عجلت ہی دکھائيں گے۔
امریکہ، چین کے بینکوں پر پابندیاں عائد کرنے کی توانائي نہیں رکھتا۔
ایشیا ٹائمز لکھتا ہےکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی شجاعت اور دانشمندی کی تعریف کئے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ امریکہ اور اسرائيل نے اس کے متعدد ایٹمی سائنس دانوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا، سائنس دانوں کو اغوا کیا، سیستان وبلوچستان صوبے میں دہشتگردانہ کاروائياں کروائيں، اسرائيل نے سائبر حملوں کے ذریعے اس کا ایٹمی پروگرام تباہ کرنے کی کوشش کی، امریکہ نے ڈرون طیارے بھیج کر جاسوسی کرنے کی کوشش کی اور روزآنہ کی حملوں کی دھمکیاں اپنی جگہ جاری ہیں اور سعودی عرب کو ساٹھ ارب ڈالر کے ہتھیار دینے کا معاہدہ کیا ان تمام سازشوں کے باوجود ایران اپنی جگہ اٹل ہے اور اپنا کام کررہا ہے۔
تہران نے حال ہی میں اپنے کروز میزائلوں کا کامیاب تجربہ کیا ہے اور جب تہران مغرب کے کبھی نہ ختم ہونے والے پروپگينڈوں کاجواب دیتا ہے تو اس پر اشتعال انگیزی کا الزام لگایا جاتا ہے۔
ایشیا ٹائمز لکھتا ہےکہ ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہےکہ ایران کو مشکلات پیش آئيں گي اسی طرح سے یورپ میں بھی مشکلات کا دور دورہ ہوگا اور ساتھ ساتھ امریکی معیشت کو بھی نقصان پہنچے گا اور تہران جب یہ دیکھے گا کہ مغرب کا جنون بڑھتا ہی جارہا ہے توتہران ایسے اقدامات کرنےکا حق اپنے لئے محفوظ رکھے گا جن سے تیل کی قیمتوں میں نہایت شدید اضافہ ہوجاے گا، تہران میں یہ توانائي ہے۔ یہ اخبار لکھتا ہےکہ تہران کی حکومت اپنا تیل فروخت کرتی رہےگي اور یورینیم کی افزودگي بھی جاری رکھے گي اور سب سے اہم بات یہ کہ تہران کی حکومت ہرگز نہیں گرے گي۔ یہ اخبار لکھتا ہےکہ امریکہ کی یہ پابندیاں افغانستان میں شادی کی تقریب پر گرنے والے ہیل فائر میزائل کی طرح بری طرح سے ناکام ہوجائيں گي لیکن بعد از خرابی بسیار جو خود مغرب میں پھیلے گي۔
قرآن کی نظر میں وحدت کا مفہوم
تمام اہل ایمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں ، لہذا تم لوگ اپنے بھائیوں کے درمیان صلح وصلاح بر قرار کرو ،قرآن مجید نے ایجاد وحدت کے لئے جو روش اختیار کی ہے کہ اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح قائم کرو ، اسکی تاثیر جامعہ اسلام میں مثبت ہے
واعتصموا بحبل اللّہ جمیعاًولا تفرقوا
تاریخ بشریت پر اگر غور وفکر کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائیگی کہ آغاز تاریخ سے ہی دو طرح کی سیاست وجود میں آئی ایک سیاست الٰہی دوسری سیاست طاغوتی ، سیاست الٰہی پایۂ توحید پر استوار تھی کہ جسکی رہبریت کی زمہ داری انبیاء و ائمہ معصومین علیہم السلام کے دوش پر تھی لیکن سیاست طاغوتی کی عمارت پایۂ شرک و تفرقہ و جدائی و اختلاف کے بل بوتے پر ٹکی ہوئی تھی ، کہ جسکی باگ ڈور طاغوتی و شیطانی ہاتھوں میں تھی .اگر حکومت اسلامی کی بقاء و حیات توحید سے انسلاک بشریت کی بنا پر ہے ، تو پھر حکومت طاغوتی و استعماری کی بقاء و حیات بشریت کے درمیان تفرقہ و جدائی سے وابستہ ہے چاہے وہ زمانہ ماضی کا ہو یا حال کا قرآ ن مجید بھی اس بات کی تائید کرتے ہوئے فرماتا ہے :
ان فرعون علا فی الارض وجعل اھلھا شیعاً یستضعف طائفة منھم یذبح ابنائھم و یستحی نسائھم انہ کان من المفسدین (قصص ٤)
بیشک فرعون نے روئے زمین پر بلندی اختیار کی اوراس نے اہل زمین کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا کہ ایک گروہ نے دوسرے کو بالکل کمزور بنادیا ، وہ لڑکوں کو تہہ تیغ کر تا تھا اور عورتوں کو زندہ رکھتا تھا ، وہ یقینا مفسدین میں سے تھا .
لیکن سیاست الٰہی کے رہبروں کی سعی تھی کہ لوگوں کو توحید کی دعوت دیں اور اتحاد و اتفاق کے راستے پر گامزن رکھیں لہٰذا فرمایا : الحمد للّٰہ رب العالمین ، ساری تعریف عالمین کے پروردگار کیلئے ہے یہ آیت فقط خدا کی خالقیت کی نشاندہی نہیں کر رہی ہے بلکہ منشاء وحدت کو بھی بیان کر رہی ہے کہ سارے جہان کے افراد ایک خدا سے وابستہ ہیں اور ایک امت سے متصل ہیں ، کہ جسکا مبداء و محور مذہب و ملت نہیں بلکہ خدا وآخرت پر ایمان اور انجام عمل صالح ہے .
قرآن اور دعوت وحدت
قرآن کریم نے متعدد طریقوں سے مسلمانوں کو وحدت کی دعوت دی ہے ارشاد ہوتا ہے :
و انّ ھذہ امتکم امة واحدة وانا ربکم فاتقون (مومنون ٥٢)
بیشک تمہاری امت کا دین ایک دین ہے اور میں تمہار ا پروردگار ہوں لہذا مجھ سے ڈرو .
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے :
انماالمومنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم (الحجرات ١٠)
تمام اہل ایمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں ، لہذا تم لوگ اپنے بھائیوں کے درمیان صلح وصلاح بر قرار کرو ،قرآن مجید نے ایجاد وحدت کے لئے جو روش اختیار کی ہے کہ اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح قائم کرو ، اسکی تاثیر جامعہ اسلام میں مثبت ہے ، قبائل عرب جو ہمیشہ آپس میں جنگ و جدال میں مشغول رہا کرتے تھے اور اختلاف وافتراق انکا شعار بن چکا تھا ، ظہور اسلام کے بعد قرآن نے ان سے بھی وحدت کا کلمہ پڑھوالیا ، اور یہ وحدت کی طاقت تھی کہ جنگ بدر میں تین سو تیرہ افراد ہزار پر غالب ہو گئے ، اگر عالم اسلام اس دور میں اصلاح اخوت کو اپنا فریضہ سمجھ کر وحدت کے راستے پر گامزن ہو جائے تو نہ صرف ظلم وبربریت کے سیلاب سے اپنے کو نجات دے سکتا ہے بلکہ اس کے مقابل ایک مستحکم و پائدار چٹان کے مانند ہوگا
پیغمبر اسلام کی یہی کوشش تھی کہ مسلمان ایک قوت و طاقت کے حامل ہو جائیں ، لہذا انکے درمیان میں برادری کو برقرار کیا اور پھر علی علیہ السلام کو اپنا بھائی کہکر وحدت کے راستے کو ہموار کر دیا ،
قران ومفہوم وحدت
دیکھنا یہ ہے کہ قرآن کی نظر میں وحدت کا کیا مفہوم ہے،آیا وحدت اتحادو اتفاق کا نام ہے، اخوت ومحبت کا نام ہے یا کوئی اور شیٔ ہے، قرآن مجید آواز دیتا ہے واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا(عمران ١٥٣)تم سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبو طی کے ساتھ پکڑ لو اور متفرق نہ ہو ، یہ آیت صریحا لوگوں کے اتحاد کی دعوت دے رہی اور ہر طرح کے تفرقہ سے روک رہی ہے، مفسران نے حبل اللہ سے جو مراد لیا ہے وہ یہ ہے کہ ، ہر طرح کا وسیلہ اور ارتباط خدا کی ذات اقدس سے منسلک ہے ، چاہے یہ وسیلہ اسلام ہے یا قرآن ،یا پیامبر و اہلبیت علیھم السلام .اس آیت کے پہلے جملہ سے ظاہر ہو تا ہے کہ امت مسلمہ متحد ہے اور وحدت مسلمین برقرار ہے ، کیونکہ ظاہرا ساری امت اس ایک پلیٹ فارم پرجمع ہے ، اور ہر فرقہ واعتصموابحبل اللہ کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن جب دوسرے جملہ پر نظر پڑتی ہے تو مفہوم وحدت ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ یہ امت تفرقہ کے شکنجہ میں گرفتار ہے، لہذا جب تک تفرقہ کو دور نہ کرو گے مفہوم وحدت سمجھ میں نہ آئیگا ، اور جس دن تفرقہ کو دور کرکے ریسمان الٰہی سے متمسک ہو کر جامعہ کو وحدت کا لباس پہنا دیا تو پھر اسلام کے سامنے کفر کی بڑی سے بڑی طاقت بھی گھٹنے ٹیک دے گی، کیونکہ اس وحدت میں اتنا عظم و استحکام پایا جاتا ہے کہ انسان اقلیت کے باوجودبھی دشمن کے سامنے کانھم بنیان مرصوص کا مصداق ہوتا ہے، اور فتح اسکے قدم چومتی ہے اور اسی اتحاد کا نتیجہ تھا کہ ابتداء اسلام میں مسلمانوں کی اقلیت ہونے کے باوجود فتح کامرانی کا تاج انکے سررہا ، اس بات کو قرآن مجید نے بھی بیان کیا ہے:
واذکروااذانتم قلیل مستضعفون فی الا رض تخافون ان یتخطّفکم الناس فاواکم و ایدکم بنصرہ ورزقکم من الطیبات لعلکم تشکرون(انفال٢٦)
مسلمانوں اس وقت کو یاد کرو کہ جب تم قلیل تعداد میں اور کمزور تھے تمھیں ہر وقت اس بات کا خوف تھا کہ لوگ تمھیں اچک لیجا ئینگے ، لیکن خدا نے تمھیں پناہ دی اور اپنی مدد سے تمھاری تائید کی ، اور تمھیں پاکیزہ رزق عطا کیا کہ تم اس کا شکریہ ادا کرو.
وحدت ایک ایسا کلمہ ہے کہ جسکی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان محبت و شفقت پیدا ہوتی ہے، قرآن مجید نے اصحا ب پیغمبر کے بارے میں فرمایا :
محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم(فتح٢٩)
محمد اللہ کے رسول ہیں اور انکے ساتھی کفار کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مشفق و مہربان ہیں، پس مفہوم دحدت فقط یہ نہیں کہ تمام مسلمان آپس میں دوستی و محبت کو برقرار رکھیں ، بلکہ عملی طور پر متحد ہو کر قرآن و اسلام اور اسکے اصول سے دفاع کی خاطر دشمن اسلام کے سامنے شمشیر بکف ہو جائیںقرآن و حدیث کے مطابق مفہوم وحدت بہت وسیع ہے وحدت نام ہے امت واحدہ کا ، وحدت نام ہے اخوت مسلمین کا ، وحدت نام ہے حبل اللہ کی گرفت کا ، وحدت نام ہے ولاتفرقوافی الدین کا ، وحدت نام ہے ولاتکونوامن المشرکین کا ، وحدت نام ہے فالف قلوبکم کا ، وحدت نام ہے کان من الذین آمنوا کا، وحدت نام ہے واحبب لہ ما تحب لنفسک کا وحدت نام ہے دین الٰہی سے تمسک کا ، وحدت نام ہے اصول وفروع کی حفاظت کا ، پس اگر وحدت اسلامی ، اخلاقی و قرآنی و ہمکاری کی بنیاد پر مملکت اسلامی میں مسلمانوں کے درمیان ایجاد ہو جائے تو پھر وہ ملک کبھی بھی غلامی کے طوق میں نہیں جکڑ سکتا ، اس لئے کہ لطف الٰہی ہر لحاظ سے اسکے شامل حال ہوگی ، اور ساتھ ہی ساتھ دشمن کا کلیجہ وحشت وترس سے دھل اٹھے گا.
اسلام میں تفرقہ کیوں ؟
شرق وغرب کی استعماری طاقتوں کو اگر آج کسی چیز سے خوف ہے تو وہ وحدت مسلمین کا ہے انکو معلوم ہے کہ جس دن مسلمان متحد ہو جائیںگے اس دن سے ہم مشکلوں میں گرفتار ہو جائیں گے ، لہٰذا انکی ساری طاقت اس بات پر صرف ہو رہی ہے کہ انکے درمیان تفرقہ بر قرار رہے ، انھوں نے پیسوں کے ذریعہ نہ جانے کتنے اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو خرید لیا ہے ، اب انکے سامنے قرآن کی کوئی حیثیت نہیں ، اتحاد مسلمین کی کوئی بات نہیں ، ورنہ بوسنیا کی سر زمین سے یا للمسلمین کی صدا بلند نہ ہوتی ، افغانستان کے مسلمانوں کو ظلم کی چکیوں میں نہ پیساجاتا ، فلسطینیوں کے خون سے ہولی نہ کھیلی جاتی ، لیکن افسوس کہ قرآن نے جس قدر وحدت کی تاکید کی ہے اتنا ہی مسلمان تفرقہ و اختلاف میں گرفتار ہے ، جبکہ قرآن نے کھل کر مسلمانوں کو تفرقہ و اختلاف کا نتیجہ بتا دیا ہے : ارشاد ہوتا ہے :
ولا تنازعو ا فتفشلوا وتذہب ریحکم واصبر وا انَّ اللہ مع الصابرین (انفال ٤٦)
تم لوگ آپس میں اختلاف نہ کرو کہ کمزور پڑ جائو اور تمہاری طاقت ختم ہو جائے بلکہ مقاومت کرو کہ خدا مقاومت کرنے والوں کے ساتھ ہے لیکن اسکے باوجود بھی اسلامی ممالک اس طرح سے خاموش ہیں کہ جیسے صم بکم عمی فہم لا یرجعون کے اصل مصداق یہی ہیں .
توبہ کے منافع اور فوائد
گناھوں سے توبہ کے متعلق قرآن کریم کی آیات اور اھل بیت علیھم السلام سے مروی احادیث و روایات کے پیش نظر دنیا و آخرت میں توبہ کے بھت سے منافع و فوائد ذکر ھوئے ھیں، جن کو ذیل میں بیان کیا جاتا ھے:
(( ۔۔۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّہُ کَانَ غَفَّارًا۔ یُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا ۔ وَیُمْدِدْکُمْ بِاٴَمْوَالٍ وَبَنِینَ وَیَجْعَلْ لَکُمْ جَنَّاتٍ وَیَجْعَلْ لَکُمْ اٴَنْھارًا))۔
”۔۔۔اور کھا کہ اپنے پروردگار سے استغفار کرو کہ وہ بھت زیادہ بخشنے والا ھے۔ وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار پانی برسائے گا۔اور اموال واولاد کے ذریعہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے لئے باغات اور نھریں قرار دے گا“۔
(( ۔۔۔ تُوبُوا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَةً نَصوحاً عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّئاتِکُمْ وَ یُدْخِلَکُمْ جَنّاتٍ تَجْریٖ مِنْ تَحْتِھَا الاَنْھارُ۔۔۔)) ۔
”توبہ کرو، عنقریب تمھارا پرودگار تمھاری برائیوں کو مٹادے گا اور تمھیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نھریں جاری ھوں گی“۔
توبہ سے متعلق اکثر آیات خداوندعالم کی دو صفات ”غفور“ و ”رحیم“ پر ختم ھوتی ھیں، جس کا مطلب یہ ھے کہ خداوندعالم حقیقی توبہ کرنے والے پر اپنی بخشش اوررحمت کے دروازے کھول دیتاھے۔
(( وَلَوْ اٴَنَّ اٴَھل الْقُرَی آمَنُواوَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھم بَرَکَاتٍ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ۔۔۔))۔
”اور اگر بستی کے لوگ ایمان لے آتے ھیں اور تقویٰ اختیا رکر لیتے تو ھم ان کے لئے زمین اور آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے “۔
”مجمع البیان“ جو ایک گرانقدر تفسیر ھے اس میں ایک بھترین روایت نقل کی گئی ھے:
” ایک شخص حضرت امام حسن علیہ السلام کی خدمت میں آکر قحط اور مہنگائی کی شکایت کرتا ھے، اس وقت امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا: اے شخص اپنے گناھوں سے استغفار کرو، ایک دوسرے شخص نے غربت اور نداری کی شکایت کی ، اس سے (بھی) امام علیہ السلام نے فرمایا: اپنے گناھوں سے مغفرت طلب کرو، اسی طرح ایک اور شخص امام علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور عرض کی: مولا دعا کیجئے کہ مجھے خداوندعالم اولاد عطا کرے تو امام علیہ السلام نے اس سے بھی یھی فرمایا: اپنے گناھوں سے استعفار کرو۔
اس وقت آپ کے اصحاب نے عرض کیا: (فرزند رسول!) آنے والوں کی درخواستیں اور شکایات مختلف تھی، لیکن آپ نے سب کو توبہ و استغفار کرنے کاحکم فرمایا! امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے یہ چیز اپنی طرف سے نھیں کھی ھے بلکہ سورہ نوح کی آیات سے یھی نتیجہ نکلتا ھے جھاں خداوندعالم نے فرمایا ھے: (( استغفروا ربّکم۔۔۔)) (اپنے رب کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرو) ، لہٰذا میں نے سبھی کو استغفار کے لئے کھا، تاکہ ان کی مشکلات ، توبہ و استغفار کے ذریعہ حل ھوجائیں۔
بھر حال قرآن مجید اور احادیث سے واضح طور پر یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ توبہ کے منافع و فوائد اس طرح سے ھیں: گناھوں سے پاک ھوجانا، رحمت الٰھی کا نزول ، بخشش خداوندی،عذاب آخرت سے نجات، جنت میں جانے کا استحقاق، روح کی پاکیزگی، دل کی صفائی، اعضاء و جوارح کی طھارت، ذلت و رسوائی سے نجات، باران نعمت کا نزول، مال و دولت اور اولاد کے ذریعہ امداد ، باغات او رنھروں میں برکت، قحطی ،مہنگائی اور غربت کا خاتمہ۔
(( ۔۔۔ تُوبُوا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَةً نَصوحاً عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّئاتِکُمْ وَ یُدْخِلَکُمْ جَنّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِھَا الاَنْھارُ۔۔۔)) ۔
”توبہ کرو، عنقریب تمھارا پرودگار تمھاری برائیوں کو مٹادے گا اور تمھیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نھریں جاری ھوں گی“۔
توبہ سے متعلق اکثر آیات خداوندعالم کی دو صفات ”غفور“ و ”رحیم“ پر ختم ھوتی ھیں، جس کا مطلب یہ ھے کہ خداوندعالم حقیقی توبہ کرنے والے پر اپنی بخشش اوررحمت کے دروازے کھول دیتاھے۔
(( وَلَوْ اٴَنَّ اٴَھل الْقُرَی آمَنُواوَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھم بَرَکَاتٍ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ۔۔۔))۔
”اور اگر بستی کے لوگ ایمان لے آتے ھیں اور تقویٰ اختیا رکر لیتے تو ھم ان کے لئے زمین اور آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے “۔
”مجمع البیان“ جو ایک گرانقدر تفسیر ھے اس میں ایک بھترین روایت نقل کی گئی ھے:
” ایک شخص حضرت امام حسن علیہ السلام کی خدمت میں آکر قحط اور مہنگائی کی شکایت کرتا ھے، اس وقت امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا: اے شخص اپنے گناھوں سے استغفار کرو، ایک دوسرے شخص نے غربت اور نداری کی شکایت کی ، اس سے (بھی) امام علیہ السلام نے فرمایا: اپنے گناھوں سے مغفرت طلب کرو، اسی طرح ایک اور شخص امام علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور عرض کی: مولا دعا کیجئے کہ مجھے خداوندعالم اولاد عطا کرے تو امام علیہ السلام نے اس سے بھی یھی فرمایا: اپنے گناھوں سے استعفار کرو۔
اس وقت آپ کے اصحاب نے عرض کیا: (فرزند رسول!) آنے والوں کی درخواستیں اور شکایات مختلف تھی، لیکن آپ نے سب کو توبہ و استغفار کرنے کاحکم فرمایا! امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے یہ چیز اپنی طرف سے نھیں کھی ھے بلکہ سورہ نوح کی آیات سے یھی نتیجہ نکلتا ھے جھاں خداوندعالم نے فرمایا ھے: (( استغفروا ربّکم۔۔۔)) (اپنے رب کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرو) ، لہٰذا میں نے سبھی کو استغفار کے لئے کھا، تاکہ ان کی مشکلات ، توبہ و استغفار کے ذریعہ حل ھوجائیں۔
بھر حال قرآن مجید اور احادیث سے واضح طور پر یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ توبہ کے منافع و فوائد اس طرح سے ھیں: گناھوں سے پاک ھوجانا، رحمت الٰھی کا نزول ، بخشش خداوندی ،عذاب آخرت سے نجات ، جنت میں جانے کا استحقاق ، روح کی پاکیزگی ، دل کی صفائی ، اعضاء و جوارح کی طھارت، ذلت و رسوائی سے نجات، باران نعمت کا نزول ، مال و دولت اور اولاد کے ذریعہ امداد ، باغات اور نھروں میں برکت ، قحطی ، مہنگائی اور غربت کا خاتمہ ۔
عقیدہٴ ظہور کا اخلاق پر اثر
مشہور مصری مفسر "طنطاوی" نے اپنی تفسیر میں قرب ساعت" قیامت" اور ظہور مہدی کے بارے میں ابن خلدون کے نظریات نقل کرنے کے بعد ان دونوں موضوعات کو پست ہمتی، تساہلی اور اختلاف و تفرقہ کا سبب قرار دیا ہے اور علمائے اسلام کی جانب غفلت بلکہ جہالت و ضلالت کی نسبت دی ہے
اختلاف و تفرقہ کے بارے میں گذشتہ مقالہ میں وضاحت پیش کی جا چکی ہے اور یہ بتایا گیا
ہےکہ تمام اچھے عنوانات یا حقائق کا فاسد اور مفاد پرست افراد کے ہاتھوں غلط استعمال ہوا ہے یہاں تک کہ مذہبی و قومی اتحاد کے ذریعہ بھی اختلافات برپا کئے گئے اورتحفظ اتحاد کے نام پر بھی اختلاف پیدا ہوئے اور شرم سے سر جھکا دینے والے جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔
لیکن اس کے باوجود اتحاد کی اچھائی اور ضرورت پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔
دوسرے اسلامی عقائد کی مانند ظہور مہدی کے عقیدہ کو بھی اسلامی فرقوں کے درمیان قدر مشترک اور اتحاد کا ذریعہ ہونا چاہئے تھا، غلطی آپ کی ہے جو ایسے موضوع کا انکار کر رہے ہیں یا اس کے ذریعہ امت کے درمیان تفرقہ پیدا کر رہے ہیں جس پر پوری امت مسلمہ متفق و متحد ہے اور جس کے لئے دوسرے اسلامی عقائد سے زیادہ معتبر مدارک و منابع پائے جاتے ہیں۔
رہا قرب ساعت "قیامت" کا مسئلہ پہلی بات تو یہ کہ اقتراب اور قرب قیامت پر ایمان، قرآن مجید کی صریح و محکم آیات سے ماخوذ ہے۔
دوسری بات یہ کہ یہ عقیدہ کسی بھی قیمت پر ضعف یا سستی کا موجب نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے برخلاف قوت ارادی، احساس ذمہ داری، خلوص نیت، تہذیب نفس، اور کارِ خیر اور اعمال صالح کی جانب رغبت کا باعث ہوگا۔ غلطی سے آپ نے چونکہ حقائق کی تصدیق یا تکذیب کا معیار مادی نتائج کو بنا رکھا ہے اس لئے آپ "اقترا ب ساعت" کو براہ راست ممالک کی فتح کا سبب، مختلف ایجادات اور صنعتی و مادی ترقی کی دعوت کا موجب قرار دینا چاہتے ہیں اور آپ معنویات و اخلاقیات کی تاثیر اور اسلام کے مقصد ِ نظر "مدینہ فاضلہ" اوراس کے رابطہ سے بے خبر ہیں اور یہ بھول گئے ہیں کہ انبیاء کی دعوت اور تعلیم و تربیت کی اساس مبداء ومعاد کے ایمان پرہے۔
مسلمانوں نے مبد ا ء ومعاد اور اسی اقتراب ساعت کے ایمان کے ساتھ بڑے بڑے ممالک کو فتح کیا ہے اور دور دراز علاقوں میں اسلامی پرچم لہرایا ہے اور دنیا بھر میں انسانی آزادی کا پیغام دیا ہے۔
اسی ایمان کے ساتھ دنیا والوں کو علم و دانش، تحقیق و تفکر اور علمی و صنعتی ترقی کی دعوت دی ہے ۔مسلمان اسی ایمان کے ساتھ علم و دانش اور تہذیب و تمدن کے علمبردار بنے ۔ سائنس کے مختلف شعبوں میں بھی اسلام نے نامورعلماء پیش کےٴ۔
قیام مہدی اور قیامت کے وقت کی تعیین کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ "یہ عقائد انحراف و گمراہی کا ذریعہ ہیں اور فلاں دھوکہ باز سنی صوفی نے اس کا وقت مقرر کر دیا ہے" اس طرح آپ اپنے سنی بھائیوں سے شکوہ کر رہے ہیں۔ آپ کو شکوہ کا حق بھی ہے لیکن اگر کوئی مسلمان اس دھوکہ باز صوفی کی بات تسلیم کرلے تو اس کا گناہ اہل سنت کے آپ جیسے رہبروں کی گردن پر ہے کہ آپ افکار و اذہان کو روشن نہیں کرتے مبداء و معاد سے متعلق قرآنی معارف مسلمانوں کو نہیں بتاتے۔
قرآن نے صاف و صریح طور پر اعلان کیا کہ قیامت کا علم صرف خدا کو ہے اور ہمارا عقیدہ یہی ہے کسی کو قیامت کے وقت کا علم نہیں ہے اور اگر کوئی اس کا وقت معین کرے تو وہ جھوٹا ہے۔ عوام کی اکثریت بلکہ تمام مسلمان چاہے سنی ہوں یا شیعہ انہیں علم ہے کہ قیامت کی اطلاع کسی کو نہیں ہے۔ علماء اور خواص کو تو جانے دیجئے۔ قرآن کا اعلان ہے:
"انّ اللہ عندہ علم السّاعة" (۱(
اس کے باوجودبھی اگر نادان اس بارے میں اظہار خیال کرے تو اس کی بات قابل قبول نہ ہوگی اور نہ ہی کوئی اس کی بات پر دھیان دے گا۔ ایسے عقائد ضعف یا سستی کا موجب نہیں ہیں۔ بلکہ ضعف ِمسلمین کا سبب حقائق کا چھپایا جانا، حکام کی غلط سیاست اور اسلامی معاشرہ کو اسلام کے واضح راستہ سے گمراہ کرنا ہے۔
قیام ساعت اور قرب قیامت کی طرح ظہور مہدی پر ایمان بھی ضعف، پست ہمتی اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کا سبب نہیں ہے۔ کسی نے نہیں کہا کہ چونکہ مہدی کا ظہور ہوگا لہٰذا تمام ذمہ داریاں ختم اب مسلمانوں کو کفار کے حملوں کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں کرنا ہے بس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔
کسی نے نہیں کہا کہ آیہٴ کریمہ :
"واعدوا لہم مااستطعتم من قوة" (۱)
امربالمعروف و نہی عن المنکر، حق کی طرف دعوت، اسلام کے دفاع اور سیاسی و سماجی فرائض سے متعلق آیات کا نفاذنہیں ہونا چاہئے۔
کسی نے نہیں کہا کہ ظہور مہدی کا عقیدہ کاہل سست، ضعیف الارادہ اور بہانہ تلاش کرنے والوں اور اپنے گھر، وطن اور اسلامی علاقوں میں اغیار کے ظلم و ستم برداشت کرنے والوں کے لئے "عذر" ہے۔
ایک بھی روایت میں یہ نہیں ملتا کہ تمام امور مستقبل یا ظہور مہدی تک معطل رکھو،اس کے برعکس روایات میں صبروثبات، سعی واستقامت اور شدت کے ساتھ اسلامی تعلیمات اور قرآنی احکام پر عمل پیرا رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔
جیسے کہ پیغمبر اکرم اوراسلام کے اولین مجاہد حضرت علی اور دیگر صحابہٴ والا مقام نے ظہور مہدی کے انتظار میں گوشہ نشینی اختیار نہیں کی اورگھر میں خاموش نہیں بیٹھے رہے بلکہ کلمہ ٴ اسلام کی برتری کے لئے ایک لمحہ کے لئے بھی غافل نہیں ہوئے اوراس راہ میں کسی قسم کی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا آج بھی مسلمانوں کی یہی ذمہ داری ہے۔
ظہور مہدی کا ایمان اور امام وقت کی موجودگی کا احساس، ذمہ داریوں سے غافل نہیں بناتا بلکہ احساس ذمہ داری میں اضافہ کرتا ہے۔
ظہور مہدی کا عقیدہ طہارت نفس، زہدوتقویٰ اور پاکیزگی کردار کا سبب ہے۔
ظہور مہدی کے ایمان کا مطلب امور کو آئندہ پر اُٹھا رکھنا، گوشہ نشینی اختیار کرنا اورآج کوکل پر ٹالنا اور کفار واغیار کے تسلط کو قبول کرنا، علمی وصنعتی ترقی نہ کرنا اور سماجی امور کی اصلاح ترک کردینا ہرگز نہیں ہے۔
ظہور مہدی کا عقیدہ رشد فکر کا باعث اور ضعف وناامیدی اور مستقبل کے تئیں مایوسی سے روکتاہے چنانچہظہور مہدی کے عقیدے سے وہی فوائد حاصل ہوتے ہیں جو:
"انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون"(۱)
"ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔"
"یریدون لیطفئوا نور اللّٰہ بافواہھم"(۲)
"یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنی پھونکوںسے بجھا دیں۔"
"ولاتہنوا ولاتحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم موٴمنین"(۳)
"مسلمانوں! خبردار (دینی معاملات میں) سستی نہ کرو اور (مال غنیمت اور متاع دنیا فوت ہوجانے کے ) مصائب سے محزون نہ ہونا اگر تم صاحبان ایمان ہو تو سربلندی تمہارے ہی لئے ہے۔"
جیسی آیات سے حاصل ہوتے ہیں جس طرح ان آیات کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان سستی کا شکار ہوجائے اور ذمہ داریوں سے گریزاں رہے اسی طرح ظہور مہدی ، آپ کے غلبہ اور عالمی حکومت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم سستی اور ذمہ داریوں میں کوتاہی کو جائز سمجھ لیں۔
جس طرح صدر اسلام کے مسلمانوں نے ان آیات اور پیغمبر اکرم کی بشارتوں سے مستقبل کی فتوحات اور مسلمانوں کے ہاتھوں ممالک کی فتح کے بارے میں یہ نہیں سمجھا کہ ہمیں گھر میں بیٹھ کر مستقبل کا انتظار کرنا چاہئے اور دور سے مسلمانوں کی شکست، اور کفار کے مقابل علم وصنعت اور اسباب قوت میں مسلمانوں کی پسماندگی کا نظارہ کرتے رہنا چاہئے اور اس دور کے مسلمان یہ سوچ کر
خاموش نہیں بیٹھ گئے کہ خدا حافظ وناصر ہے اس نے نصرت کا وعدہ کیا ہے اس کا نور کبھی بجھ نہیں سکتااسی طرح جو لوگ حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کا عقیدہ رکھتے ہیں خصوصاً اگرانہوں نے شیعہ طرق سے نقل ہونے والی روایات پڑھی ہیں تو انھیں اوامر خدا کی اطاعت اور احکام الٰہی کی ادائیگی میں دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ آگے ہونا چاہئے اور قرآن وشریعت، حریم اسلام، عظمت مسلمین کے دفاع کے لئے زیادہ غیرت وحمیت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
اللھّم عجّل فرجہ وسہّ-ل مخرجہ واجعلنا من انصارہ واعوانہ
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العالمین۔
(۱)یقینا الله ہی کے پاس قیامت کا علم ہے ،سورئہ لقمان ۳۴۔
(۱) اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت کا انتظام کرو، سورئہ انفال۔ ۶۰
(۱)سورہٴ حجر آیت۹۔
(۲)سورہٴ صف آیت۸۔
())سورہٴ آل عمران آیت۱۳۹۔
صفات مومن 7
کچھ حدیثوں کے مطابق ۲۵/ ذیقعدہ روز” دحو الارض“ اور امام رضا علیہ السلام کے مدینہ سے طوس کی طرف سفر کی تاریخ بھی ہے۔”دحو“کے معنی پھیلانے کے ہیں۔ قرآن کی آیت < والارض بعد ذلک دحیہا [1] اسی قبیل سے ہے ۔زمین کے پھیلاؤ سے کیا مراد ہے؟ اور یہ اس علم جدید سے کس طرح سازگار ہے جس میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ زمین نظام شمسی کا جز ہے اور سورج سے جدا ہوئی ہے؟
جب زمین سورج سے جدا ہوئی تھی تو آگ کا ایک دہکتا ہوا گولا تھی،بعد میں اس کی گرمی سے اس کے چاروں طرف پانی وجود میں آیا جس سے سیلابی بارش کا سلسلہ شروع ہوا اور نتیجہ میں زمین کی پوری سطح پانی میں پوشیدہ ہوگئی۔ پھر آہستہ آہستہ یہ پانی زمین میں سمانے لگااور زمین پر جگہ جگہ خشکی نظر آنے لگی۔ بس ” دحو الارض“ پانی کے نیچے سے زمین کے ظاہر ہونے کا د ن ہے۔ کچھ روایتوں کی بنا پر سب سے پہلے خانہ کعبہ کا حصہ ظاہر ہوا۔ آج کا جدید علم میںبھی اس کے خلاف کوئی بات ثابت نہیں ہوئی ہے۔ یہ دن حقیقت میں الله کی ایک بڑی نعمت حاصل ہونے کا دن ہے اس دن الله نے زمین کو پانی کے نیچے سے ظاہر کرکے زندگی کے لئے آمادہ کیا۔
کچھ تواریخ کے مطابق اس دن امام رضا علیہ السلام نے مدینہ سے طوس کی طرف سفر شروع کیا اور یہ بھی ہم ایرانیوں کے لئے الله کی ایک بہت بڑی نعمت ہے، کیوںکہ حضرت کے قدموں کی برکت سے یہ ملک آبادی،معنویت، روحانیت اور الله کی برکتوں کے سر چشموں میں تبدیل ہو گیا۔ اگر ہمارے ملک میں امام کی بارگاہ نہ ہوتی تو شیعوںکے لئے کوئی پناہ گاہ نہ تھی۔ ہر سال تقریباً ۵۰۰۰۰۰۰,۱ افراد اہل بیت علیہم السلام سے تجدید بیعت کے لئے آپ کے روضئہ مبارک پر جاتے ہیں اورآپ کی زیارت سے شرفیاب ہوتے ہیں۔ آپ کی معنویت ہمارے پورے ملک پر سایہ فگن ہے اور ہم سے بلاؤں کو دور کرتی ہے۔ بہرحال آج کا دن کئی وجہوں سے مبارک دن ہے۔ میں الله سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم کو اس دن کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
مقدمہ :
اس ہفتہ کی اخلاقی بحث میں رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث نقل کی جو آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے خطاب فرمائی تھی ۔ اس حدیث میں مومن کامل کی ۱۰۳ صفتیں بیان کی گئی ہیں، ہم گذشتہ جلسہ تک ان میں سے ۳۱/ صفتیں بیان کرچکے ہیں اور آج کے اس جلسہ میں چار صفات اور بیان کریں گے۔
حدیث :
” ….. حلیماً اذا جہل علیہ، صبوراً علی من اساء الیہ، یبجل الکبیر ویرحم الصغیر“ [2]
ترجمہ :
مومن کامل الایمان جاہلوں کے جہل کے مقابل بردبار اور برائیوں کے مقابل بہت زیادہ صبر کرنے والا ہوتا ہے،وہ بزرگوں کے کے ساتھ احترام سے پیش آتا ہے اور اپنے سے چھوٹوں پر رحم کر تا ہے۔
حدیث کی شرح :
مومن کی بتیسویں صفت: ” حلیماً اذا جہل علیہ“ ہے۔
یعنی وہ جاہلوں کے جہل کے مقابل بردباری سے کام لیتاہے اگر کوئی اس کے ساتھ برائی کرتا ہے تو وہ اس کی برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتا۔
مومن کی تینتسویںصفت: ” صبوراً علی من اساء علیہ“ ہے۔
یعنی اگر کوئی مومن کے ساتھ عمداً برا سلوک کرتا ہے تو وہ اس پر صبر کتا ہے۔پہلی صفت میں اور اس صفت میں یہ فرق پایا جاتا ہے کہ پہلی صفت میںزبان کی برائی مراد ہے اور اس صفت میں عملی برائی مراد ہے۔اسلام میں دو چیزیں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک کا نام قانون اور دوسری کا نام اخلاق ہے ، قانون یہ ہے کہ اگر کوئی آپ کے ساتھ برائ کرے تو آپ اس کے ساتھ اسی اندازہ میں برائی کرو۔قرآن میں ارشاد ہوتاہے کہ فمن اعتدیٰ علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدیٰ علیکم [3] یعنی جو تم پر زیادتی کرے تم اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اس نے تم پرکی ہے۔ یہ قانون اس لئے ہے تاکہ برے لوگ برے کام انجام نہ دیں۔لیکن اخلاق یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ برائی کے بدلہ میں برائی نہ کروبلکہ برائی کا بدلہ بھلائی سے دو۔ قرآن فرماتا ہے کہ < واذا مرو باللغو مروا کراماً [4] یا <ادفع باللتی ہی احسن السیئہ [5] یعنی آپ برائی کواچھائی کے ذریعہ ختم کیجئے۔ یا< واذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاماً [6] جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں تو وہ انھیں سلامتی کی دعا دیتے ہیں۔
مومن کی چوتیسویں صفت:”یبجل الکبیر“ہے ۔
یعنی مومن بزرگوں کی تعظیم کرتا ہے ۔ بزرگوں کے احترام کا مسئلہ بہت سی روایات میں بیان زیر غور آیا ہے ۔ مرحوم شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب”سفینة البحار“ میں ایک روایت نقل کی ہے کہ ” من وقر ذا شیبہة لشیبتہ آمنہ الله تعالیٰ من فزع یوم القیامة“ [7] جو کسی بزرگ کا احترام اس کی بزرگی کی وجہ سے کرے تو الله اسے روز قیامت کے عذاب سے محفوظ کرے گا۔ایک دوسری روایت میں ملتا ہے کہ ” ان من اجلال الله تعالیٰ اکرام ذی الشیبة المسلم“ [8] یعنی الله تعالیٰ کی تعظیم میں سے ایک یہ ہے کہ مسلم بزرگوں کا احترام کرو۔
مومن کی پیتیسویں صفت:”یرحم الصغیر“ہے
یعنی چھوٹوں پر رحم کرتا ہے۔ یعنی محبت کے ساتھ پیش آتا ہے۔
مشہور ہے کہ جب بزرگوں کے پاس جاؤ تو ان کی بزرگی کی وجہ سے ان کا احترام کرو اور جب بچوں کے پاس جاؤ تو ان کا احترام اس وجہ سے کرو کہ انھوں نے کم گنا ہ انجام دیئے ہیں۔
[1] سورہٴ نازعات: آیہ/ ۳۰
[2] بحارالانوار،ج/ ۶۴ ، ص/ ۳۱۱
[3] سورہٴ بقرہ: آیہ/ ۱۹۴
[4] سورہٴ فرقان: آیہ/ ۷۲
[5] سورہٴ مومنون:آیہ/ ۹۶
[6] سورہٴ فرقان:آیہ/ ۶۳
[7] سفینة البحار ، مادہ” شیب “
[8] سفینة البحار، مادہ ”شیب “
صفات مومن 6
مقدمہ:
اس اخلاقی بحث میں پیغمبر اکرم کی و ہ حدیث بیان کی جو آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے بیان فرمائی تھی۔ اس حدیث میں مومن کی ۱۰۳ صفتیں بیان کی گئی ہیں جن میں سے ۲۶ صفتیں بیان ہو چکی ہیں اور آج کے اس جلسہ میں مومن کے پانچ صفات اوربیان کرنے ہیں۔
حدیث :
” ۔ ۔ ۔ لطیف الحرکات، حلو المشاہدات، کثیر العبادة، حسن الوقار، لین الجانب“۔ ۔ ۔ [1]
ترجمہ :
مومن کی حرکتیں ہمیشہ لطیف ہو تی ہیں،وہ خوش مزاج اورکثیرالعبادة ہوتاہے ،اس سے سبک حرکتیں سرزد نہیں ہوتی اور اس کی ذات میں بہت زیادہ محبت و عاطفیت پائی جاتی ہے۔
شرح حدیث :
مومن کی ستائیسویں صفت: ” لطیف حرکات“ ہوناہے ۔
یعنی مومن کے حرکات و سکنات بہت لطف ہوتے ہیںاور وہ الله کی مخلوق کے ساتھ محبت آمیز سلوک کرتا ہے ۔
مومن کی اٹھائیسویں صفت:” حلو المشاہد“ ہونا ہے ۔
یعنی مومن خوش مزاج ہوتا ہے اور ہمیشہ شاد رہتا ہے وہ کبھی بھی ترش رو نہیں ہوتا۔
مومن کی انتیسویں صفت: ” کثیر العبادات“ ہے ۔
یعنی مومن بہت زیادہ عبادت کرتا ہے ۔ یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ عبادت سے روزہ، نمازمراد ہے یا اس کے کوئی اور معنی ہیں؟
عبادت کی دوقسمیں ہیں :
عبادت اپنے خاص معنی میں :
یہ وہ عبادت ہے کہ اگر اس میں قصد قربت نہ کیا جائے تو باطل ہو جاتی ہے۔
عبادت اپنے عام معنی میں :
ہر وہ کام کہ جس کواگر قصد قربت کے ساتھ کیا جائے تو ثواب رکھتا ہو مگر قصد قربت اس کے صحیح ہونے کے لئے شرط نہ ہو ۔ اس صورت میں تمام کاموں کو عبادت کا لباس پہنایاجا سکتا ہے ۔ عبادت روایت میں اسی معنی میں ہو سکتی ہے ۔
مومن کی تیسویں صفت: ” حسن الوقار“ ہے ، یعنی مومن چھوٹی اور نیچی حرکتیں انجام نہیں دیتا۔ وِقار یا وَقار کامادہ وَقَ رَ ہیں جس کے معنی سنگینی کے ہیں۔
مومن کی اکتیسویں صفت: ” لین الجانب “ ہے یعنی مومن میں محبت و عاطفت پائی جاتی ہے۔
اوپر ذکر کی گئی پانچ صفتوں میں سے چار صفتیں لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے سے مربوط ہیں۔ لوگوں سے اچھی طرح ملنا اور ان سے نیک سلوک کرنا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے مخاطبین متاثر ہوتے ہیں چاہے دینی افراد ہوں یا دنیوی۔
دشمن ہمارے ماتھے پر تند خوئی کا کلنک لگانے کے لئے کوشاں ہے لہٰذا یہ ثابت کرنا چاہئے کہ ہم جہاں” اشداء علی الکفار“ ہیں، وہیں ” رحماء بینہم“ بھی ہیں۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت میں ملتا ہے کہ وہ ان غیر مسلم افراد سے بھی محبت کے ساتھ ملتے تھے جو در پئے قتال نہیں تھے ۔نمونہ کے طور پر تاریخ میںملتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی علیہ السلام ایک یہودی کے ہم سفر تھے۔ اور آپ نے اس سے پہلے ہی بتا دیاتھا کہ دو راہے پر پہونچ کر میں تجھ سے جدا ہو جاؤںگا۔ لیکن دو راہے پر پہونچ کر بھی جب حضرت اس کے ساتھ چلتے رہے تو اس یہودی نے کہا کہ آپ کو تو دو راہ پر مجھ سے جدا ہو جا نا تھا لیکن آپ اب بھی میرے ساتھ چل رہے ہیں شاید آپ بھل گئے ہیں اور غلط راستے پر چل رہے ہیں ، حضرت نے اس کے جواب میں فرمایا کہ نہیں! میں بھولا نہیں ہوں بلکہ اپنے دین کے حکم کے مطابق ہم سفر کے حق کو ادا کرنے کے لئے تھوڑی دو رتیرے ساتھ چل رہا ہوں۔ آپ کا یہ عمل دیکھ کر اس نے تعجب کیا اور مسلمان ہو گیا۔ اسلام کے ایک سادے حکم پر عمل کرنا بہت سے لوگوں کے مسلمان بن نے کا سبب بنتا ہے۔< یدخل فی دین الله افواجاً>لیکن افسوس ہے کہ کچھ مقدس افراد بہت زیادہ خشک ہو تے ہیں اور اپنے اس عمل کے ذریعہ دشمن کو بولنے کا موقعہ دیتے ہیں جب کہ دین کی بنیاد تند خوئی پر نہیں ہے۔ قرآن کریم میں ۱۱۴ سورہٴ ہیں جن میں سے ۱۱۳ سورہ ” الرحمٰن الرحیم“ سے شروع ہوتے ہیں۔ یعنی ۱۱۴/۱ میں تندی اور ۱۱۳ میں رحمت ہے۔
دنیا میں دو طریقہ کے اخلاقات پائے جاتے ہیں :
1. ریاکارانہ اخلاق( دنیاوی فائدے حاصل کرنے کے لئے
2. مخلصانہ اخلاق( جو دل کی گہرائیوں سے ہوتا ہے
پہلی قسم کا اخلاق یوروپ میں پایا جاتاہے جیسے وہ لوگ ہوائی جہاز میں اپنے مسافروں کو خوش کرنے کے لئے ان کے ساتھ بہت محبت سے پیش آتے ہیں کیونکہ یہ کام ان کی آمدنی کا ذریعہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اچھا سلوک مسافرون کو متاثر کرتا ہے۔
دوسری قسم کا اخلاق مومن کی صفت ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ مومن کا اخلاق بہت اچھا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن دنیاوی فائدے حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ آپس میں میل محبت بڑھانے کے لئے اخلاق کے ساتھ پیش آتا ہے۔ قرآن کریم میں حکیم لقمان کے قصے میںان کی نصیحتوں کے تحت ذکر ہوا ہے کہ < ولا تصعر خدک للناس و لا تمش فی الارض مرحا [2] ” تعصر“ کا مادہ” صعر“ ہے اور یہ ایک بیماری ہے جو اونٹ میں پائی جاتی ہے ۔ اس بیماری کی وجہ سے اونٹ کی گردن دائیں یا بائیں طرف مڑ جاتی ہے ۔ آیت فرمارہی ہے کہ گردن مڑ ے بیماراونٹ کی طرح نہ رہو اور لوگوں کی طرف سے اپنے چہرے کو نہ موڑو۔ اس تعبیرسے معلوم ہوتا ہے کہ بد اخلاق افراد ایک قسم کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ آیت کے آخرمیں بیان ہوا ہے کہ تکبرکے ساتھ نہ چلو۔
________________________________________
[1] بحار،ج/ ۶۴ ، ص/ ۳۱۰
[2] سورہٴ لقمان: آیہ/ ۱۸