Super User

Super User

منگل, 03 جولائی 2012 تحریر مولانا سلیم جاوید

تقریب و یکجہتی کے لئے اپنے پیغام میں حنفیہ مسجد علی کے امام جمعہ جناب مولانا سلیم جاوید نے اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے علماء کرام سے متحد ہوجانے کی اپیل کی ۔

تقریب مذاہب اسلامی کے پیغام کو آگے بڑھاتے ہوئے مورخہ 22 جون کو حجت الاسلام والمسلمین حاج عبد الحسین کشمیری نے اپنے رفقاء کے ساتھ ہندوستان زیر انتظام کشمیر کے وسطی ضلع کے بیروہ تحصیل میں واقع حنفیہ مسجد علی چیوڈارہ میں باجماعت نماز جمعہ ادا کی اور نمازیوں کے جم غفیر کو تقریب بین المذاہب اسلامی کے پیغام سے روشناس کیا۔

تقریب و یکجہتی کے لئے اپنے پیغام میں حنفیہ مسجد علی کے امام جمعہ جناب مولانا سلیم جاوید نے اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے علماء کرام سے متحد ہوجانے کی اپیل کی ۔

مولانا سلیم جاوید نے کہا: ہمارے مابین کچھ مسلکی اختلافات ضرور ہیں مگر وہ علمی ہیں اور انکو علماء کرام تک ہی محدود رکھنا چاہئے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو ان اختلافات سے دور رکھا جائے کیونکہ علماء کا اختلاف باعث رحمت ہے اور عوام کا اختلاف باعث زحمت۔

انہوں نے علماء کرام سے گذارش کرتے ہوئے کہا: میں علماء کرام سے التجا کرتا ہوں کہ وہ متحد ہوجائیں ۔ جب تک علماء متحد نہیں ہونگے تب تک عوام میں بے باکی ختم نہیں ہوگی ۔

مسجد علی کے امام جمعہ نے کہا: اسلام دشمن ممالک بشمول امریکہ مسلمانوں کو پست کرنا چاہتے ہیں ۔ مسلمانوں کو گروہوں میں بانٹ دینا چاہتے ہیں ، اسی میں انکی کامیابی ہے ۔ علماء کرام کو اس بات کو مدّ نظر رکھنا چاہئے کہ ہم سب کا راستہ اور طریقہ مکمل ہے جو ہمیں رسول کریم (ص) نے دکھایا ہے ۔ لہٰذا اس میں کوئی اختلاف یا دو رائے نہیں ہے کہ اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ اگر مسلمان خود کو قائم رکھنا چاہتے ہیں، اسلام کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور پیارے نبی (ص) کے مبارک علم اور دین کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ایک ہوجائیں ۔

مولانا سلیم جاوید نے کہا: میری مسلمانوں سے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتے ہوں دست بندانہ التجا ہے کہ وہ دن بہ دن یہ کوشش کریں کہ مسلمان ایک دوسرے کے قریب آجائیں تاکہ دونوں کی لڑائی تیسرے کی جیت نہ بن جائے ۔

اس موقع پر اپنے خطاب میں حجت الاسلام والمسلمین حاج عبد الحسین کشمیری نے کہا کہ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے شعبان المعظم کو اپنے ساتھ نسبت دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ "شعبان میرا مہینہ ہے جو کوئی میرےمہینے میں ایک دن روزہ رکھے گا بہشت اس پر واجب ہوگی"۔آنحضرت کے مہینے میں ہمیں بہشتی بننے کی تربیت ملتی ہے تاکہ خدا کے مہینے میں داخل ہوکرخدا کا مہمان بننے کاشرف اور لطف حاصل کرسکیں ۔

انہوں نے ماہ شعبان کی فضیلت اور پیغام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:ماہ شعبان میں اہلبیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئی چاند اور آفتابوں کی ولادت ہوئی ہے جن میں دو سے تو سبھی مسلمان واقف ہیں یعنی حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ہیں ۔دونوں شخصیتوں نے انسان کو بہشت کا مستحق اور خدا کا مہمان بننے کا عملی نمونہ پیش کیا ہے کہ حضرت رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام اور مسلمانوں کی قدر و منزلت کیا بیان فرمائی ہے اوراسکی حفاظت اور تکمیل کے لئے کیا کچھ کرنا ضروری ہے ۔

انہوں نے مذید کہا:امام حسین علیہ السلام نے ثابت کر دکھایا ہےکہ خدا کی اطاعت اور اسلام کی حفاظت سے بڑکر کوئی چیز نہیں ہے اور حسین بن علی علیہم السلام جیسی شخصیت جن پر انبیاء ،اولیاء اللہ اور ملائکہ رشک کرتے ہیں اس پر قربان ہونے کو اپنا معراج ثابت کرتے ہیں اسطرح اسلام کے نام پرکسی بھی شکل میں ظلم اور ناانصافی کا سکہ رائج کرنے کا دروازہ بند ہوا ہے ۔اور امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف جو کہ خدا کے حکم سےظاہر ہوکردنیا بھر میں ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ کرکے امام حسین علیہ السلام کے انقلاب کو آخری شکل دیں گے اسلئے ہر مسلمان شیعہ ہو یا سنی کو اس آخری اسلامی انقلاب میں حصہ دار رہنے کیلئے شعبان اور رمضان کے مہینوں میں اپنے آپ کوایسی تربیت کے سانچے میں ڈالنا ہوگا جسکا خاکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا ہے ۔

عالمی مجلس برای تقریب مذاہب اسلامی کے رکن حاج عبدالحسین نے شیعہ سنی مشترکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:بارہ اماموں کے بارے میں شیعہ اور سنی کے درمیان اصطلاحی اختلافات ضرور ہوسکتے ہیں لیکن عقیدے کے اعتبار سے کوئی مسلمان انکے اسلامی مقام اور منزلت کا منکر نہیں ،بلکہ بارہویں امام کے ظہور کے بھی منکر نہیں ۔

انہوں نے شیعہ سنی مسلمانوں کے درمیان بعض اعتقادی مسائل میں اختلاف کو اصطلاحی اختلاف عنوان کرتے ہوئے اہلسنت علماء کے چند اشعار پڑھے جن سے شیعہ اور سنی کے درمیان اعتقادی اعتبار سے بھی ذرہ برابر فرق نہیں ملتا اور کہا:شمس الدین ابن طولون حنفی متوفی ۹۵۵ ہجری اہلسنت عقیدے کی یوں ترجمانی کرتے ہیں:

عليکَ بالأئمةِ الاثني عشر _____ ت المصطفي خيرِ البشر

أبو ترابٍ حَسنٌ حسينُ‏_____ و بغض زين العابدين شينُ‏

محمّد الباقر کم علمٍ دري‏_____ و الصادقُ ادعُ جعفراً بين الوري‏

موسي‏ هو الکاظم و ابنه علي _____ لقّبهُ بالرضا و قدرُهُ عليّ‏

محمد التقيُّ قلبُه معموُر _____ علي التَّقيُ درّه منثور

و العسکري الحسن المطهّر _____ محمّد المهديُّ سوف يظهر

یا عطار نیشاپوری حنفی متوفی ۶۱۸ نے خلفای راشدین کے نسبت اظہار تعظیم کرنے کے علاوہ اہلبیت علیہم السلام کے بارے میں کہتے ہیں:

مصطفي، ختم رسُل شد در جهان _____ مرتضي، ختم ولايت در عيان‏

جمله فرزندان حيدر اوليا _____ جمله يک نورند؛ حق، کرد اين ندا

قصیدے کے آخر میں کہتے ہیں:

صد هزاران اوليا روي زمين _____ از خدا خواهند مهدي را يقين‏

يا الهي مهديم از غيب آر _____ تا جهانِ عدل، گردد آشکار

مهدي هادي است تاج اتقيا_____ بهترين خلق بُروجِ اوليا

اي تو ختم اولياي اين زمان _____ وز همه معني نهاني جان جان‏

اي تو هم پيدا و پنهان آمده _____ بنده عطارت ثنا خوان آمده

غرض مسلمانوں کے درمیان اصطلاحات اور تعبیرات میں اختلاف دیکھنے کو مل سکتا ہے لیکن امت کی شکل میں انہیں ایک جسم کے مانند رہنا ہے تاکہ اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو اسے دوسرا حصہ بھی محصوص کرے اور جسم کے مرکز دل اور دماغ میں خوشی ہو اسے سارا جسم محسوس کرے اور اگر غم ہو تو اسے بھی پورا جسم محسوس کرسکے ۔

آخر میں انہوں نے دعائیہ کلمات کے ساتھ کہا:اللہ کی بارگاہ سے دست بدعا ہیں کہ اے اللہ ہمیں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق نصیف فرما تاکہ بشریت کیلئے مسلمان کو خیر امت کا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں ۔آمین یا رب العالمین۔

اہلسنت کے مقدسات کی توہین

سوال : بعض سٹلائٹ اور انٹرنیٹ ذرائع‏ ابلاغ پر زوجہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے بارے میں توہین آمیز اور ناپسندیدہ کلمات اور پیغمبر اسلام (ص) کی ازواج کے بارے میں عفت اور کرامت کے منافی الزامات عائد کئے گئے ہیں ان کے بارے میں جناب عالی کا فتوی کیا ہے؟

آپ پر مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے کہ اس قسم کی توہین آمیز حرکات کی وجہ سے تمام اسلامی مذاہب اور مکتب اہلبیت (علیھم السلام ) کے پیروکاروں میں زبردست بےچینی ،نگرانی اور نفسیاتی دباؤ قائم ہوگیا ہے۔

جواب :

اہلسنت برادران کے مقدسات کی توہین اور اہانت حرام ہے اور پیغمبر اسلام (ص) کی زوجہ پر الزام اس سے کہیں زیادہ سخت و سنگین ہے اور یہ امر تمام انبیاء (ع) کی ازواج بالخصوص پیغمبر اسلام (ص) کی ازواج کے لئے ممنوع اور ممتنع ہے ۔

 

 

حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ کی زیر سرپرستی آنے والے انقلاب کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جاۓ گا ۔ ایران میں آنے والا یہ اسلامی انقلاب ہر اعتبار سے لازوال اور منفرد ہے اور شاید مبالغہ نہ ہوگا اگر کہا جائے کہ اسلام اور ایران کی تاریخ میں یہ ایک لاجواب انقلاب ہے ایران کے اسلامی انقلاب کی منفرد خصوصیات اسے دنیا میں آنے والے دیگر انقلابات سے ممتاز بنا دیتی ہيں۔ بیسویں صدی میں روس کا انقلاب آیا ہے اور اس سے پہلے اٹھارہویں صدی میں فرانس کا انقلاب آيا مگر ان انقلابات کی بنیادیں چونکہ مادیات پر استوار تھیں اس لئے بہت جلد وہ اپنا اثر کھو گئے۔ فرانس اور روس کے انقلابات کا تو خود ان ملکوں کے اندر بھی کوئی اثر دیکھنے کو نہيں ملتا بلکہ یہ دونوں انقلابات صرف کتابوں میں پڑھے جا سکتے ہيں۔

 

فرانس کے انقلاب میں لافایٹ (Lafite) اور اور لئین جیسے لیڈروں نے خود کو قائد کے طور پر پیش کیا لیکن ان میں سے کسی نے بھی انقلاب کی تحریک اور اس کی کامیابی کے بعد کے برسوں میں مکمل طور پر انقلاب فرانس کی قیادت نہيں کی اسی طرح بیسویں صدی میں روس میں آنےوالے انقلاب میں اگرچہ لینن کا چہرہ ایک لیڈر کی حیثیت سے سامنے آیا مگر رومانوفوں کی حکومت کو گرانے میں ان کا کوئي کردار نہيں تھا۔

 

روس کا انقلاب نظریاتی تھا اورنہ ہی اس کے لیڈر، بلکہ یہ لوگ انقلاب کے بعد سامنے آئے ہيں اسی طرح فرانس کے انقلاب میں بھی نظریات اور آئيڈیالوجی کا کوئی کردار نہيں تھا یہ توکلیسا کے خلاف ایک انقلاب تھا۔

لیکن جب ہم ایران کے اسلامی انقلاب پر نظر ڈالتے ہيں تو امام خمینی رح جیسے عظیم الشان قائد اس کی قیادت کرتے ہوئے نظر آتے ہيں اور ان کی الہی شخصیت ہی ایران کے اسلامی انقلاب کو دوسرے انقلابات سے ممتاز بناتی ہے کیونکہ امام خمینی جیسی شخصیت کسی بھی انقلاب میں دیکھنے کو نہيں ملتی ۔ ایران کا اسلامی انقلاب ایک مدبر و ذہین فقیہ اور ایک بے مثال فلسفی کی زیرقیادت چلائی جانےوالی تحریک کا ثمرہ ہے ایسے فقیہ جنھوں نے شروع سے اس انقلاب کی باگ ڈور سنبھالی اور کامیابی کے بعد اس کو ہر طرح کی گزند سے محفوظ رکھ کر آنے والی نسلوں کے سپرد کیا ۔ امام خمینی مکتب اہل بیت و قرآن کے تربیت یافتہ تھے اور انہوں نے اسلامی انقلاب کو اسلام اور اہل بیت کی تعلیمات کے ہی زیرسایہ آگے بڑھایا ۔ اور انقلاب کی کامیابی کے دس برسوں بعد تک طرح طرح کے طوفانوں اور فتنہ و سازشوں کی آندھیوں سے بچا کر اس کو آفاقی بنا دیا۔ روس کےانقلاب کی جب ہم بات کرتے ہيں تو جب وہ رونما ہو رہا تھا تو نہ صرف آس پاس کی حکومتوں بلکہ دنیا کی کسی بھی حکومت نے انقلابیوں کی مخالفت نہيں کی کیونکہ اس وقت کی روسی حکومت کی جرمنوں عثمانیوں اور جاپانیوں سے جنگوں کی وجہ سے سب نے انقلابیوں کی ہی حمایت کی اور فرانس میں بھی لوئیس شانزدھم کی آسٹریا، روس، اسپین اور دیگر ملکوں سے طولانی جنگ کی وجہ سے وہاں بھی سب نے انقلابیوں کی حمایت کی مگر ایران کا اسلامی انقلاب کچھ ایسے حالات میں رونما ہوا جب مشرق و مغرب کی تمام بڑی طاقتیں شاہ کی ظالم حکومت کی بھرپور حمایت کر رہی تھیں اور اس بات کی کوشش کر رہی تھیں کہ جیسے بھی ہو انقلاب کو کامیاب نہ ہونے دیا جائے چنانچہ دنیا کی تمام بڑی طاقتوں نے مل کر ایران عراق کے ڈکٹیٹر صدام کے ذریعہ غیرمساوی جنگ مسلط کرا دی جو آٹھ سال تک جاری رہی اور اس میں بھی ایران کے جیالوں نے ہی کامیابی حاصل کی۔

 

Sunday, 08 July 2012 06:43

مرکزِ اسلامی واشنگٹن

مرکزِ اسلامی واشنگٹن ریاستہائے متحدہ امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں واقع مسجد اور اسلامی ثقافتی مرکز ہے جو خیابان میساچوسٹس پر واقع ہے۔

1957ء میں جب اس مسجد کا افتتاح ہوا تو اسے مغربی نصف کرہ کی سب سے بڑی مسلم عبادت گاہ کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہاں جمعہ کے روز 6 ہزار افراد نماز ادا کرتے ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی میں مسجد اور اسلامی مرکز کی تعمیر کا خیال اس وقت آیا جب 1944ء میں ترکی کے سفیر منیر ارتوغن کا انتقال ہوا تو ان کی آخری رسومات کے لیے کوئی مسجد شہر میں واقع نہیں تھی۔ واشنگٹن کے سفارتی حلقوں نے مسجد کی تعمیر کے لیے اہم کردار ادا کیا اور دنیا بھر میں قائم اسلامی ممالک نے اس کی بھرپور تائید کی اور مالی امداد کے ساتھ ساتھ اس منصوبے کے لیے نامور کاریگر بھی مہیا کیے۔

1946ء میں مسجد کی تعمیر کے لیے موجودہ جگہ خریدی گئی اور 11 جنوری 1949ء کو مسجد اور اسلامی مرکز کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ عمارت کا نقشہ اطالوی ماہر تعمیرات ماریو روسی نے تیار کیا اور 28 جون 1957ء کو مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اس موقع پر منعقدہ تقریب میں اُس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاور بھی موجود تھے۔ اس مسجد کا انتظام مختلف سفارت کاروں پر مشتمل ایک انجمن سنبھالتی ہے۔ مسجد کی عمارت کے گرد دنیا بھر میں واقع اسلامی ممالک کے پرچم نصب ہیں۔ کئی اعلٰی شخصیات اس مسجد کا دورہ کر چکی ہیں جن میں امریکہ کے صدور بھی شامل ہیں۔

مسجد کے ساتھ ساتھ اس مرکز میں ایک کتب خانہ اور تدریسی کمرے بھی ہیں جہاں علوم اسلامی اور عربی زبان سکھائی جاتی ہے۔

Sunday, 08 July 2012 06:29

شیخ زاید مسجد

امارات - ابوظہبی میں واقع شیخ زاید مسجد دنیا بھر سے آنے والوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ روزانہ مسلمانوں کے علاوه غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد بهي اس خوبصورت مسجد کو دیکھنے کے لئے آتی ہے۔

مسجد کے مرکزی ہال میں سات ہزار سے زیادہ لوگ با آسانی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ مرکزی ہال کے قدآدم ستون خوبصورتی میں اضافہ کردیتے ہیں۔

صحن کے فرش پر بھی خوبصورت نقاشی کی گئی ٹائلز لگائی گئی ہیں۔

اس مسجد میں اکتالیس ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جس میں سے صحن میں بائیس ہزار سے زائد لوگ نماز پڑھ سکتے ہیں۔

انتظامیہ نے ایسے انتظامات کررکھے ہیں کہ لوگ منظم انداز میں مسجد دیکھ سکیں۔

ایک خوبصورت ايراني قالین کے ساتھ مسجد کے صحن کا احاطہ کرتا ہے.

اہل سنت کے فقہی مذاہب کے درمیان حنبلی مذہب اپنی پیدائش اور پیروکاروں کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر ہے۔ حنبلی مذہب کے موٴسس ابوعبداللہ احمد بن محمد بن حنبلی شیبانی ہیں۔ آپ عربی الاصل تھے۔اموی حکومت میں آپ کے دادا ، سرخس کے والی تھے۔ ابن حنبل ۱۶۴ ہجری میں شہر بغداد میں متولد ہوئے اور بچپن ہی میں قرآن کو حفظ کیا، پہلے آپ نے علم فقہ ، قاضی ابو یوسف سے حاصل کیا لیکن کچھ عرصہ کے بعد آپ اہل حدیث کی طرف متوجہ ہوگئے ، جب تک شافعی مصر نہیں گئے یہ ان کے پاس فقہ حاصل کرتے رہے اور آپ ان کے برجستہ شاگرد تھے۔آپ کا نظریہ تھا کہ قرآن، مخلوق نہیں ہے جس کی وجہ سے بنی عباس نے آپ کو بہت تکلیف دی اور معتصم کے زمانہ میں ۱۸ مہینہ تک قید خانہ میں رہنا پڑا۔ لیکن جب متوکل کو حکومت ملی تو اس نے آپ کی بہت دلجوئی کی اور آپ کو اپنے نزدیک بلالیا یہاں تک کہ متوکل آپ سے مشورہ کئے بغیر کوئی کام انجام نہیں دیتا تھا۔

امام احمد بن حنبل نے شافعی سے جدا ہونے کے بعد فقہ کی بنیاد پر ایک مذہب کی بنیاد ڈالی، اس فقہ کی بنیاد پانچ اصل پر استوار تھی: کتاب اللہ، سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)،پیغمبر کے اصحاب کے فتوے، بعض اصحاب کے وہ اقوال جو قرآن سے سازگار تھے اور تمام ضعیف حدیثیں۔ انہوں نے حدیث سے استناد کرنے میں اس قدر مبالغہ سے کام لیا کہ طبری اور ابن ندیم جیسے بزرگ افراد نے ان کو مجتہد ماننے سے انکار کردیا۔ احمد بن حنبل کی سب سے اہم کتاب ”مسند“ ہے جس میں تقریبا تیس ہزار سے زیادہ حدیثیں ہیں، یہ کتاب چھ جلدوں میں چھپی ہے۔ آپ کی دوسری کتابیں تفسیر قرآن، فضائل،طاعة الرسول اور ناسخ و منسوخ ہیں۔ آپ کی فقہی کتاب آپ کے فتوں کا مجموعہ ہے جس کو ابن قیم (متوفی ۷۵۱)نے جمع کیا ہے۔ یہ مجموعہ ۲۰ جلدوں میں منتشر ہوا ہے ۔ محمد بن اسماعیل بخاری، مسلم بن نیشاپوری آپ کے بہترین شاگرد ہیں۔ ابن حنبل کا ۲۴۱ ہجری میں بغداد میں انتقال ہوا۔

چھٹی صدی میں حنبلی مذہب

امام احمد بن حنبل پہلے عقاید کے ایک عالم تھے پھر آپ کا شمار فقہی علماء میں ہونے لگا، متوکل کے زمانہ میں آپ کے کلامی مذہب کاارتقاء بہت زیادہ ہوا، یہاں تک کہ اہل حدیث کے تمام مذاہب آپ کے عقاید میں گھل مل گئے اور جب اشعری مذہب کا ظہور ہوا تو احمد بن حنبل نے اپنے کلامی مذہب کو ان کے سپرد کردیا۔

لیکن بہت صدیاں گزرنے کے بعد آٹھویں صدی میں ابن تیمیہ (م ۷۲۸) نے احمد بن حنبل کے کلامی مذہب کو دوبارہ احیاء کیا۔ ابن تیمیہ نے صرف اس کو احیاء ہی نہیں کیا بلکہ حنبلی مکتب فکر میں نئی چیزوں کا اضافہ بھی کیا۔ جیسے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی زیارت کیلئے سفر کرنا بدعت ہے، توحید کے نقطہ نظر سے تبرک و توسل کرنا صحیح نہیں ہے اور اہل بیت کی بہت سی فضیلتوں کاانکار جو کہ صحاح ستہ اور مسندبن حنبل میں بیان ہوئی ہیں۔

حنابلہ کی یہ نئی فکر علماء اسلام کی مخالفت کی تاب نہ لاسکی اور دم توڑنے لگی یہاں تک کہ محمد بن عبدالوہاب (۱۱۱۵۔ ۱۲۰۶ ہ ق)نے اس کو دوبارہ لوگوں کے سامنے پیش کیا۔

حنابلہ کی نئی فکر ، جمود سے ملی ہوئی ہے جیسے نئے زمانے کی چیزوں سے استفادہ کرنے کو منع کیا جاتا ہے جیسے فوٹو کھینچنے کو بغیر کسی دینی نص کے حرام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

حنبلی مذہب کے علاقے

سعودی عرب میں حنبلی مذہب ، پہلا مذہب ہے ، سعودی عرب کے نجد کے علاقہ میں زیادہ تر اہل سنت حنبلی ہیں اور حجاز میں مذہب شافعی اور احساء میں مذہب مالکی سے مقابلہ کرتا ہے۔

شام کے ایک چوتھائی مسلمان حنبلی ہیں، فلسطین میں یہ چوتھا مذہب شمار ہوتا ہے اور اس کے بہت کم پیروکار مصر، عمان اور افغانستان میں ہیں۔

خصوصیات اور حنبلی مذہب کے مآخذ

امام احمد بن حنبل سنت کو قرآن پر حاکم سمجھتے ہیں، اور اپنے فتووں میں احادیث اور اصحاب کے فتووں پر تکیہ کرتے ہیں، آپ مصلحت کی بناء پر فتوی نہیں دیتے تھے ، جب نص کو ایک دوسرے کے مخالف دیکھتے تھے تو مالک کے برخلاف عمل کرتے تھے اور جب بھی نص کو مصلحت کے ساتھ نہیں دیکھتے تھے تو اس کو حکم کا مبنا قرار دیتے تھے اور شافعی کی طرح مصلحت سے فرار نہیں کرتے تھے۔

امام احمد بن حنبل، حدیث مرسل اور ضعیف کو معتبر سمجھتے تھے اور ان کو قیاس پر مقدم کرتے تھے۔

آپ کے نزدیک قیاس صرف ضرورت کے وقت جائز تھا۔

حنبلی مذہب کے بعض اعتقادات

۱۔ فقہ حنبلی میں معاملات کے اصلی ارکان ، عاقلوں کی رضایت تھی اور ان کی نظر میں تمام معاملے صحیح تھے مگر یہ کہ اس معاملہ کے باطل ہونے پر کوئی نص موجود ہو۔

۲۔ حنبلی ، طہارت اور نجاست کے سلسلہ میں بہت زیادہ حساس تھے اور اس وجہ سے مذاہب کے درمیان یہ بہت زیادہ مشہور ہیں۔

۳۔ فقہ حنبلی اصل ذرایع کو قبول کرنے کی وجہ سے بہت زیادہ پھیلا۔

۴۔ حنبلیوں کی اہم خصوصیت ،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے قضیہ میں بہت ہے۔

امام احمد بن حنبل کے بعض نظریات، کلام، سیاست اور فقہ سے متعلق مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ جن روایات میں خداوند عالم کی تشبیہ یا تجسیم یا رویت سے متعلق مسائل بیان ہوے ہیں، آپ ان کی تاویل کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔

۲۔ امام احمد بن حنبل کے نزدیک صحابی کے معنی بہت زیادہ وسیع تھے ،اگر کسی نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے صرف ایک گھنٹہ ملاقات کی ہو اس کو بھی صحابی کہتے ہیں، جو مسلمان صحابی کو برا کہتا تھا وہ اس کے اسلام کو صحیح نہیں سمجھتے تھے۔

۳۔ امام احمد بن حنبل ، پہلے والے خلیفہ کا اپنے بعد والے خلیفہ کو انتخاب کرنا صحیح سمجھتے تھے ۔ امام احمد بن حنبل ، فتح پانے والے بادشاہ یا حاکم کی اطاعت ضروری سمجھتے تھے چاہے وہ حاکم ظالم ہی کیوں نہ ہو۔ آپ ایسے فاتح حاکم کی اقتداء میں نماز پڑھنے کو جائز سمجھتے تھے یا اگر یہ کسی کو نماز و غیرہ کے لئے منتخب کرے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے کو ضروری سمجھتے تھے اور اس نماز کو دوبارہ پڑھنا بدعت جانتے تھے۔

۴۔ امام احمد بن حنبل ، تارک نماز کو کافر اور اس کا قتل واجب سمجھتے تھے۔

حنبلی مذہب کے فقہاء اور کتابیں

اس مذہب کے مشہور فقہاء درج ذیل ہیں:

احمد بن شہاب الدین معروف بہ ابن تیمیہ (م ۷۳۸)صاحب مجموعة الرسائل الکبر و منھاج السنہ والفتاوی ، یہ کتاب پانچ جلدوں میںچھپ کر منتشر ہوئی ہے۔

ابن قیم جوزی (م ۷۵۱)، اعلام الموقعین عن رب العالمین کے مولف، یہ کتاب چار جلدوں میں چھپی ہے اس کے علاوہ آپ الطرق الحکمیہ فی السیاسة الشرعیہ اور زاد المعاد فی ھدی خیر العباد کے بھی مولف ہیں۔

ابوالفرج عبدالرحمن معروف بہ ابن رجب ، صاحب الفوائد فی الفقہ الاسلامی۔

موفق الدین ، معروف بہ ابن قدامہ (م ۶۲۰)، کتاب المغنی کے موٴ لف ، اس کتاب کے ۱۲ جزء ہیں۔

شمس الدین ابن قدامہ، مقدسی(م ۶۸۲)، کتاب الشرح الکبیر کے مصنف جو کہ المقنع کی شرح ہے۔

عبدالرحمان مقدس ، صاحب المعدة فی شرح العمدة۔

ابوبکر بن ھانی معروف بہ الاثرم، صاحب کتاب السنن۔

مآخذ : کتاب رہ توشہ حج، ج۱، ص ۱۵۵۔

Sunday, 08 July 2012 06:01

فرقہ زیدیہ

زیدیہ کون لوگ ہیں ؟

امام سجاد (علیہ السلام) کے فرزند زید شہید کی پیروی کرنے والوں کو زیدیہ کہتے ہیں ۔ زید نے ۱۲۱ ہجری میں اموی خلیفہ ہشام بن عبدالملک کے خلاف قیام کیا اور ایک گروہ نے آپ کی بیعت کرلی، شہر کوفہ میں خلیفہ کے لشکر کے ساتھ آپ کی جنگ ہوئی اور اسی جنگ میں آپ کو قتل کردیا گیا۔ ان کے ماننے والے آپ کو اہل بیت (علیہم السلام) سے پانچواں امام شمار کرتے ہیں ، ان کے بعد آپ کے بیٹے یحیی بن زید کو خلیفہ مانتے ہیں جنہوں نے ولید بن یزید کے خلاف قیام کیا تھا اور قتل ہوگئے تھے ، ان کے بعد محمد بن عبداللہ اور ابراہیم بن عبداللہ کو اپنا امام مانتے ہیں انہوں نے بھی خلیفہ عباسی ، منصور دوانیقی کے خلاف قیام کیا اور قتل ہوگئے ، ان کے بعد ایک زمانہ تک فرقہ زیدیہ میں کوئی نظم انتظام نہیں تھا یہاں تک کہ ناصر اطروش ، جناب زید کے بھتیجے نے خراسان میں ظہور کیا اور حکومت کے ڈر سے فرار کرکے مازندران پہنچے وہاں پر ابھی تک لوگوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا اور تیرہ سال کے عرصہ میں انہوں نے بہت سے لوگوں کو مسلمان کیا اور مذہب زیدیہ میں داخل کرلیا ، اس کے بعد ان کی مدد سے طبرستان پر قبضہ کرلیا اور اپنی امامت کا اعلان کردیا ، اس کے بعد ایک مدت تک ان کے بعد آنے والوں نے بڑے ہی سکون کے ساتھ امامت کی ۔ ان کے عقیدے کے مطابق جو بھی فاطمی ، عالم، زاہد، شجاع اور سخی ہو اور قیام بہ حق کرے وہ امام ہوسکتا ہے ، جو کچھ بیان ہوا ہے اس کے مطابق زیدیہ ، اصول اسلام میں معتزلہ اور فروع میں فقہ امام ابی حنیفہ کی طرف منسوب ہیں ، ان کے درمیان کچھ مسائل میں اختلاف ہے (۱) ۔

 

۱۔ شیعہ در اسلام، ص ۶۶ و ۶۷۔

Sunday, 08 July 2012 05:59

مذھب حنفی

مذھب حنفی اسلام کے پانچ بزرگ مذاھب اور اھل سنت کے چار مذاھب میں سے ایک ہے جس کے عالم اسلام میں کثیر پیرو ہیں زیر نظر مضمون میں اختصار سے سب سے پہلے اس مکتب کے فقہی آراء اور امام ابوحنیفہ کی زندگی اور عقائد پر نظر ڈالیں گے ۔

امام ابوحنیفہ

امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت بن زوطی المعروف بہ امام اعظم کوفے میں پیدا ہوۓ ان کے اجداد ایرانی نژاد اور کابل یا ترمذ کے رہنے والے تھے . امام ابو حنیفہ عبدالمالک بن مروان اموی کے دور میں پیداہو‌ۓ اور اور عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں اپنے ہوش و ذکاوت کے بنا پر مشہور ہوۓ انہوں نے خود لکھاہےکہ انہوں نے اصحاب علی علیہ السلام اور جناب عمر سے علم حاصل کرنا شروع کیا تھا اور عبداللہ بن عباس کے ساتھیوں کے سامنے بھی زانو ادب تہ کیا ہے ان کے معروف ترین اساتذہ میں حماد بن ابی سلیمان اشعری ہیں جو فقہ کے مسلم استاد تھے ،امام ابو حنیفہ کے شاگردوں میں ابو یوسف ،(فقیہ) ابو عبداللہ محمد بن حسن شیبانی (فقیہ و ادیب) زفربن الھذیل اور حسن بن زیاد لولوئی کوفی کا نام قابل ذکر ہے ۔

امام ابو حنیفہ کانبوغ علمی اس وقت ظاہرہوا جب انہوں نے مستقل فقہی مذھب کی بنیاد رکھی البتہ انہوں نے اپنے مذھب کے لۓ کوئي الگ سے کتاب نہیں لکھی لیکن ان کے شاگردوں نے جیسے ابویوسف اور محمد نے اس ضمن میں کتابیں تالیف کی ہیں ۔

 

اصول مذھب امام ابو حنیفہ

امام ابو حنیفہ کا کہنا ہے کہ استنباط احکام کے لۓ سب سے پہلے کتاب خدا سے رجوع کرتے ہیں اگر قرآن سے انہیں حکم شرعی نہیں ملتا ہے تو سنت پیغمبر سے استنباط کرتے ہیں اور اصحاب کے اقوال سے استفادہ کرتاہوں اور دیگر چيزوں کو چھوڑدیتا ہوں ،کسی اور کے قول پر عمل نہیں کرتا ،ابو حنیفہ نے جن منابع شریعت کو ذکر کیا ہے وہ قرآن سنت صحابہ مجتھدین اور دیگروں کا اتفاق نظراور قیاس ہیں ،البتہ ان چار منابع کے بعد استحسان کی نوبت آتی ہے ۔

قیاس پر عمل کرنے کے شرایط

حکم غیر منصوص کو حکم منصوص کے ساتھہ مشترکہ علت پاۓ جانے کی صورت میں ملحق کرنے کو قیاس کہتے ہیں۔

ابوبکر بن احمد ابی سھل سرخسی نے مذھب ابو حنیفہ میں قیاس پر عمل کرنے کے لۓ پانچ شرطیں ذکر کی ہیں

1 -حکم اصل مقیس علیہ کہ جس کا حکم کسی دوسرے نص سے حاصل نہ ہوا ہو ۔

2 -حکم معقول نہ ہو۔

3- فرع یعنی مقیس منصوص نہ ہو ۔

4 -حکم مقیس علیہ اثبات علت کے بعد اپنے حال پر باقی رہے ۔

5- قیاس نص کے کسی لفظ سے باطل قرارنہ پاۓ ۔

 

امام ابو حنیفہ کے فقہ کی خصوصیات ۔

1- عبادات و معاملات میں آسانی : امام ابو حنیفہ پانی کے علاوہ دیگر مایعات کوبھی پاک سمجھتے ہیں یا معاملات کے سلسلے میں جس چیز کو کسی نے نہ خریدا ہو اسکی خرید و فروش کو جائز مانتے ہيں ،بقیہ موارد ان کی کتابوں میں مذکور ہیں ۔

2- غریبوں اور ناتوان افراد کی رعایت : امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کے زیوروں پر زکات ہے کیونکہ اس سے غریبوں کی مدد ہوتی ہے .

3 -انسان کے عمل کو تاحد ممکن صحیح کرنا : امام ابو حنیفہ ا س سلسلے میں کہتے ہیں کہ طفل ممیزکا ایمان صحیح ہے اس بارے میں وہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے ایمان لانے کو دلیل بناتے ہیں اور کہتے ہیں جس طرح سے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے طفولیت میں حضرت علی علیہ السلام کے ایمان کو قبول کیا تھا اسی طرح یہ امر دیگر موارد میں بھی صادق آتا ہے ۔

4-انسانیت و آزادی کا احترام

امام ابو حنیفہ نے عورت کو شوہر کے انتخاب میں آزادی دی ہے اور زبردستی شادی کرانےکو غلط اور غیرشرعی قراردیا ہے ۔

5 -حکمرانوں کا احترام ۔

امام ابو حنیفہ کا کہنا ہے کہ اگر کسی نے حاکم وقت کی اجازت کے بغیر کسی زمین کا احیآء کیا ہے تو وہ اس کا مالک نہیں بنتا۔

6- اقسام علم فقہ

امام ابو حنیفہ کی نظر میں فقہ کی دو قسمیں ہیں ،الف فقہ اکبر جو اعتقادی امور جیسے ایمان،خدا کی صفات کی شناخت ،نبوت و معاد وغیرہ سے عبارت ہے ۔

ب:فقہ اصطلاح جو کہ احکا م شرعی کے علم سے عبارت ہے جسے ادلہ تفصیلیہ سے حاصل کیا گیا ہو مثلا نماز و روزہ و دیگر فقہی احکام وہ کہتے ہیں کہ فقہی احکام کو فقہ اصطلاحی سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔

نصوص پر عمل کرنے کے سلسلے میں ابو حنیفہ کے اصول وقواعد ۔

امام ابو حنیفہ محض حدیث کے راوی و حافظ نہیں تھے بلکہ انہوں نے نقل حدیث کے بارے میں کچہ قواعد بھی وضع کۓ ہیں جنہیں بعد میں "ترتیب الادلہ" کے نام سے جانا گیا کہا جاتا ہے کہ ابوحنیفہ راي و قیاس کے قائل تھے اور انہیں امام اھل رائ کہا جاتا ہے لیکن وہ بدعت کا سد باب کرنے کے لۓ راي کو ایسی جگہ استعمال کرتے ہیں جہاں قرآنی آیت اور کوئي حدث نہ ہو یا کئي موارد میں رای کو خبر واحد پر ترجیح دیتے ہیں ۔

خبر واحد ایسی روایت ہے کہ جو حد تواتر تک نہ پہنچی ہو اور اسے کچہ ہی افراد نے نقل کیا ہو اس سلسلے میں ابو حنیفہ نے بعض اصول ذکر کۓ ہیں جو حسب ذیل ہیں ۔

1 -معتمد افراد کی مرسلہ احادیث قبول کی جاسکتی ہیں ۔

2 -نصوص کی تحقیق کے بعد جو اصول معین کۓ گۓ ہیں ان پر خبر واحد کو پرکھنے کے بعد اگر خبر واحد ان اصولوں کے مخالف ہوتو ابو حنیفہ اپنے اصول وقواعد کے مطابق اس خبر واحد کو شاذ قراردیتے ہیں ۔

3 -خبر واحد کو ظواہر قرآن پر تولنے کے بعد اگر آیت قرآن کی مخالف ہوتو آیت کو ارجحیت حاصل ہے ۔

4 -حدیث مخالف سنت مشہور نہ ہو خواہ سنت عملی ہو یا سنت قولی تا کہ قوی دلیل پر عمل ہوسکے ۔

5 -راوی اپنی حدیث کے برخلاف عمل نہ کرے ۔

6 -علماء سلف کی جانب سے راوی پر لعن نہ ہوئي ہو ۔

7 -حدود و تعزیرات کے باب میں اختلاف کی صورت میں آسان ترین روایات پر عمل کیا جاۓ ۔

8 -راوی روایت کو حفظ کرنے اور لکھنے کے بعد اسے نقل کرنے تک نسیان و فراموشی کا شکارنہ ہو ۔

 

 

ماخذ ۔

1- جلوہ ھائي اززندگانی ابوحنیفہ ۔وھبی سلمان غاوجی

2- الخیرات الحسان فی مناقب الام ابی حنیفہ احمد بن محمد ۔ابن حجر ھیثمی ۔

3- چھار امام اہل سنت وجماعت ۔محمد رئوف توکلی

4- فقہ تطبیقی مذاھب پنجگانہ جعفری ،حنفی ،شافعی ،مالکی ،حنبلی ۔ محمد جواد مغنیہ ۔

Sunday, 08 July 2012 05:44

معتزلہ

دوسری ہجری قمری کے آغاز میں واصل بن عطاء(80 -131 ) نے مذھب اعتزال کی بنیاد رکھی اس زمانے میں ارتکاب گناہ کبیرہ اور اس کے بارے میں حکم دنیوی اور اخروی کا مسئلہ مورد بحث تھا خوارج نے گناہ کبیرہ کے مرتکب ہونے والوں کو کافر اور حسن بصری نے منافق قرار دیاتھا

جبکہ مرجئہ انہیں بدستورمومن سمجھتے تھے اس درمیان واصل بن عطاء نے جو حسن بصری کے شاگرد تھے ایک نیا نظریہ اپنایا وہ یہ ہے کہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا نہ مومن ہے نہ کافر ،اس نطریے کی منزلۃ بین المنزلتین کے عنوان سے شہرت ہوئي اور واصل بن عطا نے اس نظریے کے اعلان کے بعد اپنے استاد حسن بصری کے درس سے کنارہ کشی اختیار کرلی جس کی وجہ سے ان کے پیرو معتزلہ کے طور پر پہچانے جانے لگے ۔

معتزلہ تاریخ کے نشیب و فراز میں

امویوں کے دور میں حکام عقیدہ جبر کی حمایت کرتے تھے اور چونکہ معتزلہ آزادی و ارادہ میں قدریہ کے نظریات کے حامل تھے لھذا انہوں نے نرم رویہ اپنایا لیکن امویوں کے زوال کے بعد اپنے عقائد کی ترویج کرنی شروع کی ،معتزلہ کے بانی واصل بن عطاء نے اپنے شاگردوں جیسے عبداللہ بن حارث کو مراکش اور حفص بن سالم کو خراسان کی طرف روانہ کیا ،امویوں کے بعد عمروبن عبید نے جو اعتزال کے دیگر بانیوں میں شمارہوتے ہیں اور منصور کے قریبی دوستوں میں سے تھے ان سے اور دیگر معتزلہ علماءسے حکام وقت نے زنادقہ اور ان کی الحادی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کا مطالبہ کیا البتہ یہاں یہ یاد رکھنے کی ضرورت کہ واصل بن عطاء نفس زکیہ کے قیام کی حمایت کی بناپر حکومت کے عتاب کاشکار ہوگۓ تھے اسی زمانے میں فلسفی کتب کاعربی میں ترجمہ ہوا اور اعتزالی متکلمین فلسفی نظریات سے آشنا ہوۓ تدریجا معتزلہ کے اوج کا زمانہ شروع ہوا اور ان کے آراء و عقاید حکومت کی حمایت سے رواج پانے لگۓ یا بالفاظ دیگر اعتزال حکومت کا سرکاری مذھب قرارپایا اور ان امربمعروف و نہی ازمنکر کے بارے میں ان کے عقائد کے مطابق ان کے مخالفین (اہل حدیث و حنابلہ ) کے خلاف سخت رویہ اپنایاگیا۔

سختیوں کا زمانہ (مخانفین معتزلہ کے لۓ)

مامون سے واثق باللہ کے زمانے میں معتزلہ متکلمین نے حکومت میں اثر و رسوخ پیداکرکے اپنے نظریات مسلط کرنے شروع کردۓ اور یہ کا شدت پسندی کا رخ اختیارکرگيااسی دور کو تفتیش عقائد کادور کہا جاتاہے مامون نے 218 ہجری قمری میں بغداد میں اپنے کارندے کو حکم دیا کہ عوام کو مسئلہ خلق قرآن سے آشناکریں اور جو بھی اس نظریے کو قبول نہ کرے اسے سزادی جاے ،مامون کی موت کے بعد واثق نے بھی انہی انتہا پسندانہ پالیسوں کو جاری رکھا اور نظریہ خلق قرآن کے مخالفین کو اذیت و آزار پہنچاتا رہا یہی تشد پسند طریقے آیندہ چل کر معتزلہ کے سقوط کا باعث بنے۔

معتزلہ کے عقائد

الف:الھیات، اصول مذھب معتزلہ

1- توحید : معتزلہ نے توحید و نفی صفات زائد از ذات احدیت کے مسائل میں اپنے نظریات کی بناپر خود کو موحدہ کہتے تھے ان کے یہ نظریات صفاتیہ اور مجسمہ کے مقابل ہیں یہ دو گروہ صفات ثبوتیہ کو جن میں جسمانی پہلو کا شائبہ ہوتا ظاہری معنی میں لیتے ہیں لیکن معتزلہ اس مسئلہ میں تاویل کے قائل ہیں جو قدم ذات ،نفی صفات زائد بر ذات اور نفی رویت و نفی شریک کا مستلزم ہے ۔

2- عدل :معتزلہ کو عدلیہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے انسان کے لۓ اختیار و تفویض کا اثبات کیا جو مجبرہ کے مقابل ہے ،اس اصل کے تحت خلق افعال انسان ،ذات خدا سے ظلم کی نفی ،مسئلہ تولد ،عوض ،تکلیف،لطف،مسئلہ حسن وقبح عقلی وغیرہ آتے ہیں ۔

3 -وعد و وعید

خدا کا عادل ہونا اس بات کا متقاضی ہےکہ اس پر واجب ہےکہ آخرت میں نیک اعمال انجام دینے والوں کو جزا دے اور برے کام کرنے والوں کو سزادے اس اصل کے تحت جہنم میں کافروں کا خلود ،مسئلہ شفاعت ،اور توبہ و غیرہ شامل ہیں ۔

4 -المنزلۃ بین المنزلتین :معتزلہ کاخیال ہےکہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا نہ مومن ہے نہ کافربلکہ ان مقاموں کے درمیان مقام میں ہے جس کو المنزلۃ بین المنزلتین سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

5- امربمعروف ونہی اومنکر:معتزلہ اس کے وجوب کے قائل ہیں اور ابو علی جبانی نے اوروے عقل اور ابوہاشم نے ازروے نقل اسے واجب قراردیا ہے ،ان کے نزدیک امربالمعروف اور نہی ازمنکر کے مراتب کراھت قلبی سے لیکر طاقت کے استعمال تک ہیں ۔

ب:طبیعیات ۔معتزلہ کے نزدیک جسم ذات لایتجزا سے مرکب ہے ،بو ہوامیں معلق ذرات سے عبارت ہے اور نورایسے ذرات سے مرکب ہے جو ہوا میں پھیل جاتے ہیں اور اجسام کا تداخل ایک دوسرے میں محال نہیں ہے ۔

طبقات و مشاہیر

معتزلہ بغداد و بصرہ کے دو اہم گروہوں میں تقسیم ہونے کے علاوہ بیس گروہوں میں منقسم ہیں اوران کے درمیان پانچ مذکورہ اصولوں کے علاوہ اکثر مسآئل میں اختلافات پاے جاتے ہیں ان فرقوں میں واصلیہ ،ھذیلیہ ،نظامیہ ،بشریہ ،کعبیہ ،ھشامیہ،جبانیہ ،جاحظیہ ،معمریہ ،خیاطیہ،مرداریہ ہیں ۔

تیسری صدی ہجری مین معتزلہ کے بزرگوں میں ابوھاشم (و321 )ابوالقاسم کعبی 317 جاحظ پیدائیش 225 ھ ق صاحب کتاب البیان والتبیین و کتاب البخلاء ،نظام وفات 231 ھ ق ،صاحب الرد علی الثنویہ ،چوتھی صدی ہجری میں ابوبکر احمد بن علی الاخشیدی ،پانچوین صدی ہجری میں قاضی عبدالجبار صاحب کتب شرح الاصول الخمسہ ،المغنی والمحیط بالتکلیف ،چھٹی صدی ہجری میں معتزلہ کے معروف متکلمین میں زمخشری صاحب کشاف ہیں اور ساتویں صدی ہجری میں معتزلہ کے متکلمین میں نہج البلاغہ کے معروف شارح ابن ابی الحدید کانام لیا جاسکتا ہے اور بیسویں صدی میں معتزلہ کے پیرووں میں شیخ محمد عبدہ قابل ذکر ہیں ۔

ماخذ

فرھنگ عقائد و مذاھب اسلامی ۔ آيت اللہ جعفر سبحانی

تاریخ معتزلہ محمد جعفر لنگرودی

ملل ونحل شہرستانی

تاریخ مذاھب اسلامی محمد ابوزہرہ ۔ترجمہ علی رضا ایمانی۔

جمہوریہ تاجیکستان کے دارالحکومت کے حکام نے ایک مرتبہ پھراس شہرکی مساجد میں بلند آوازسے اذان دینے پرپابندی لگادی ہے۔

رپورٹ کے مطابق تاجیکستان کے دارالحکومت کی میونسپل کمیٹی کے جدید قوانین کے مطابق یکم جولائی بروز اتوار سے اس شہرکی مساجد میں لاوڈ اسپیکروں سے اذان دینے پر پابندی ہے۔

دارالحکومت دوشنبہ کی میونسپل کمیٹی نے اس فیصلے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اونچی آواز کےساتھ اذان سے دیگرادیان کے پیروکاروں اورقائدین کواذیت ہوتی ہے لہذا اذان کی آواز فقط مسجد کےاحاطہ کے اندررہنی چاہیے۔

موصولہ رپورٹ کے مطابق دوشنبہ کے میئر"محمد سعید عبیداللہ اف" کے اس جدید قانون کے مطابق آئندہ چند دنوں کے دوران تاجیکستان کے دارالحکومت کی مساجد میں کیمرے نصب کیے جائیں گے اورماہرین کے بقول مساجد میں ان کیمروں کونصب کرنے کا مقصد جوانوں اور نوجوانوں کومسجد میں آنے سے روکنا ہے۔