
Super User
روزہ کی اہمیت کے متعلق نبی اکرم (ص) کی چند احادیث
روزه بدن کی زكواة
قال رسول الله صلى الله علیه و آله وسلم :لكل شيئى زكاة و زكاة الابدان الصيام.
رسول خدا صلى الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ہر چیز کے لئے زکواة ہے اور بدن کی زکاة روزه ہے.
(الكافى، ج 4، ص 62، ح 3 )
روزه آتش دوزخ کی ڈهال
قال رسول الله صلى الله علیه و آله وسلم :الصوم جنة من النار.
رسول خدا صلى الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: روزه جہنم کی آگ کے مقابلے میں ڈهال کی حیثیت رکهتا ہے. «يعنى روزه رکهنے کے واسطے سے انسان آتش جہنم سے محفوظ ہو جاتا ہے.»
(الكافى، ج 4 ص 162 )
روزه کی اہميت
قال رسول الله صلى الله علیه و آله وسلم :الصوم فى الحَرِّ جہاد
رسول خدا صلى الله عليہ و آلہ و سلم نے فرمایا: گرمی میں روزه رکهنا جہاد ہے.
(بحار الانوار، ج 96، ص 257 )
روزے کی جزا
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم: قال اللہ تعالى الصوم لى و انا اجزى به
رسول خدا نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: روزہ میرے لئے ہے (اور میرا ہے) اور اس کی جزا میں ہی دیتا ہوں. (وسائل الشیعة ج 7 ص 294، ح 15 و 16 ; 27 و 30 )
طعام و شرابِ جنت نوش کرنے والے
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم:من منعه الصوم من طعام يشتهيه كان حقا على اللہ ان يطعمه من طعام الجنة و يسقيه من شرابها.
رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جس شخص کو روزہ اس کی مطلوبہ غذاؤں سے منع کرکے رکهے خدا کی ذمہ داری ہے کہ اس کو جنت کی غذائیں کهلائے اور انہیں جنیتی شراب پلا دے.
(بحار الانوار ج 93 ص 331 )
خوشا بحال صائمین
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم :طوبى لمن ظما او جاع للہ اولئك الذين يشبعون يوم القيامة
رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: خوش بخت ہیں وہ لوگ جو خدا کے لئے بهوکے اور پیاسے ہوئے ہیں یہ لوگ قیامت کی روز سیر و سیراب ہونگے.
(وسائل الشیعة، ج 7 ص 299، ح2)
جنت اور روزہ داروں کا دروازہ
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم :ان للجنة بابا يدعى الريان لا يدخل منه الا الصائمون.
رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جنت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے اور اس دروازے سے صرف روزہ دار ہی داخل ہونگے.
(وسائل الشیعة، ج 7 ص 295، ح31. معانى الاخبار ص 116 )
مؤمنوں کی بہار
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم: الشتاء ربيع المؤمن يطول فيه ليلہه فيستعين به على قيامه و يقصر فيه نهارہ فيستعين به على صيامه.
رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: سردیوں کا موسم مؤمن کی بہار ہے جس کی طویل راتوں سے وہ عبادت کے لئے استفادہ کرتا ہے اور اس کے چهوٹے دنوں مین روزے رکهتا ہے.
(وسائل الشیعة، ج 7 ص 302، ح 3 )
ماہ رمضان کی فضيلت
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم:ان ابواب السماء تفتح فى اول ليلة من شهر رمضان و لا تغلق الى اخر ليلة منه
رسول خدا صلى الله علیہ و آلہ و سلم فرمود: آسمان کے دروازے ماه رمضان کے پہلی رات کو کهلتے ہیں اور آخری رات تک بند نہیں ہوتے.
(بحار الانوار، ج 93، ص 344 )
ماہ رمضان کی اہميت
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم:لو يعلم العبد ما فى رمضان لود ان يكون رمضان السنة
رسول خدا صلى الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اگر بنده «خدا» کو معلوم ہوتا کہ رمضان کا مہینہ کیا ہے، (اور یہ کن برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے) وه چاہتا کہ پورا سال ہی روزہ رمضان ہوتا.
(بحار الانوار، ج 93، ص 346)
روزہ کی اہمیت پر حضرت علی علیہ السلام کے فرامین
روزه اخلاص کا امتحان
قال اميرالمؤمنين علیه السلام: فرض الله الصيام ابتلاء لاخلاص الخلق
امام على علیہ السلام نے فرمایا: خدا نے روزه واجب کیا تاکہ اس کے ذریعے اپنی مخلوقات کے اخلاص کا امتحان لے.
(نہج البلاغہ، حكمت 252 )
نفس کا روزه
قال اميرالمؤمنين علیه السلام :صوم النفس عن لذات الدنيا انفع الصيام.
اميرالمؤمنین على علیہ السلام نے فرمایا: نفس کا دنیاوی لذتوں سے روزه (واجتناب)، مفید ترین روزوں میں سے ہے.
(غرر الحكم، ج 1 ص 416 ح 64 )
حقیقی روزه
قال اميرالمؤمنين علیه السلام:الصيام اجتناب المحارم كما يمتنع الرجل من الطعام و الشراب.
امام على علیہ السلام نے فرمایا: روزه حرام سے پرهیز کا نام ہے جس طرح کہ انسان کهانے اور پینے سے پرهیز کرتا ہے.
(بحار ج 93 ص 249 )
برترين روزه
قال اميرالمؤمنين علیه السلام :صوم القلب خير من صيام اللسان و صوم اللسان خير من صيام البطن.
امام على علیہ السلام نے فرمایا: قلب کا روزه زبان کے روزے سے بہتر ہے اور زبان کا روزه پیٹ کے روزے سے بہتر ہے. (غرر الحكم، ج 1، ص 417، ح 80 )
قال اميرالمؤمنين علیه السلام
كم من صائم ليس له من صيامه الا الجوع و الظمأ و كم من قائم ليس له من قيامه الا السهر و العناء.
امام على علیہ السلام نے فرمایا: کتنے زیاده ہیں وه روزه دار جن کو روزے سے بهوک اور پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا اور کتنے زیاده ہیں وه تہجد گذار اور شب زنده دار لوگ جن کو بیخوابی اور صعوبت کے سوا کوئی فائده نصیب نہیں ہوتا.
(نہج البلاغہ، حكمت 145 )
روزہ کی اہمیت پر امام باقر علیہ السلام کی چند احادیث
اسلام کے ستون
قال الباقر علیه السلام:
بنى الاسلام على خمسة اشياء، على الصلوة و الزكاة و الحج و الصوم و الولاية.
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:
اسلام پانچ چیزوں پر استوار ہے نماز و زکواة و حج و روزه اور ولایت (اسلامی رهبری). (فروع كافى، ج 4 ص 62، ح 1 (
ناقص روزه
قال الباقر علیه السلام
لا صيام لمن عصى الامام و لا صيام لعبد ابق حتى يرجع و لا صيام لامراة ناشزة حتى تتوب و لاصيام لولد عاق حتى يبر.
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:
ان افراد کا روزه مکمل نہیں ہے:
1 – وه شخص جو اپنے امام و رهبر کی نافرمانی کرتا ہو.
2 – بهاگا ہؤا غلام جب تک واپس نہ آیا ہو.
3 – وه عورت جس نے اپنے شوہر کی اطاعت نہ کرتی ہو جب تک وہ توبہ نہ کرے.
4 – وه فرزند جو نافرمان ہؤا ہے اس وقت تک کہ فرمانبردار نہ ہو جائے.
(بحار الانوار ج 93، ص 295. )
مؤلف: محمد حسين فلاح زادہ
روزہ کا فلسفہ اہلبیت (ع) کی نگاہ میں
روزہ مادی اور معنوی، جسمانی اور روحانی لحاظ سے بہت سارے فوائد کا حامل ہے۔ روزہ معدہ کو مختلف بیماریوں سے سالم اور محفوظ رکھنے میں فوق العادہ تاثیر رکھتا ہے۔ روزہ جسم اور روح دونوں کو پاکیزہ کرتا ہے ۔
پیغمبر اکرم (ص) اور روزہ
پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: المعد ۃ بیت کل داء۔ والحمئۃ راس کل دواء(۱)۔
معدہ ہر مرض کا مرکز ہے اور پرہیزاور (ہر نامناسب غذا کھانے سے ) اجتناب ہر شفا کی اساس اور اصل ہے۔
اور نیز آپ نے فرمایا:صوموا تصحوا، و سافروا تستغنوا۔
روزہ رکھو تا کہ صحت یاب رہو اور سفر کرو تاکہ مالدار ہو جاؤ۔ اس لیے سفر اور تجارتی مال کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجانا اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں لیجانا، انسان کی اقتصادی حالت کو بہتر بناتا ہے اور اس کی مالی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔
حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: لکل شی ء زکاۃ و زکاۃ الابدان الصیام (۲)
ہر چیز کے لیے ایک زکات ہے اور جسم کی زکات روزہ ہے۔
حضرت علی (ع) اور روزہ
امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں: و مجاهدة الصيام في الايام المفروضات ، تسكينا لاطرافهم و تخشيعا لابصارهم ، و تذليلا لنفوسهم و تخفيفا لقلوبهم ، و اذهابا للخيلاء عنهم و لما في ذلك من تعفير عتاق الوجوه بالتراب تواضعا و التصاق كرائم الجوارح بالارض تصاغرا و لحوق البطون بالمتون من الصيام تذللا.(3(
جن ایام میں روزہ واجب ہے ان میں سختی کو تحمل کر کے روزہ رکھنے سے بدن کے اعضاء کو آرام و سکون ملتا ہے۔ اور اس کی آنکھیں خاشع ہو جاتی ہیں اور نفس رام ہو جاتا ہے اور دل ہلکاہو جاتا ہے اور ان عبادتوں کے ذریعے خود پسندی ختم ہو جاتی ہے اور تواضع کے ساتھ اپنا چہرہ خاک پر رکھنے اور سجدے کی جگہوں کو زمین پر رکھنے سے غرور ٹوٹتا ہے۔ اور روزہ رکھنے سے شکم کمر سے لگ جاتے ہیں۔
۱: روزہ اخلاص کے لیے امتحان ہے۔
حضرت علی (ع) دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں: و الصیام ابتلاء الاخلاص الخلق(۴)
روزہ لوگوں کے اخلاص کو پرکھنے کے لیے رکھا گیا ہے۔
روزہ کے واجب ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ لوگوں کے اخلاص کا امتحان لیا جائے۔ چونکہ واقعی معنی میں عمل کے اندر اخلاص روزہ سے ہی پیدا ہوتا ہے۔
۲: روزہ عذاب الٰہی کے مقابلہ میں ڈھال ہے۔
امام علی (ع) نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں: صوم شھت رمضان فانہ جنۃ من العقاب(۵)
روزہ کے واجب ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ روزہ عذاب الٰہی کے مقابلے میں ڈھال ہے اور گناہوں کی بخشش کا سبب بنتا ہے۔
امام رضا (ع) اور روزہ
جب امام رضا (ع) سے روزہ کے فلسفہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: بتحقیق لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ بھوک اور پیاس کی سختی کا مزہ چکھیں۔ اور اس کے بعد روزہ قیامت کی بھوک اور پیاس کا احساس کریں۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے خطبہ شعبانیہ میں فرمایا: واذکروا بجوعکم و عطشکم جوع یوم القیامۃ و عطشہ۔ اپنے روزہ کی بھوک اور پیاس کے ذریعے قیامت کی بھوک و پیاس کو یاد کرو۔ یہ یاد دہانی انسان کو قیامت کے لیے آمادہ اور رضائے خدا کو حاصل کرنے کے لیے مزید جد و جہد کرنے پر تیار کرتی ہے۔(۷)
امام رضا (ع) دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں۔ روزہ رکھنے کا سبب بھوک اور پیاس کی سختی کو درک کرنا ہے تا کہ انسان متواضع، متضرع اور صابر ہو جائے۔ اور اسی طرح سے روزہ کے ذریعے انسان میں انکساری اور شہوات پر کنٹرول حاصل ہوتا ہے۔
ہاں، روزہ سب سے افضل عبادت ہے۔ شریعت ا سلامی اور احکام خداوندی نے شہوات کو حد اعتدال میں رکھنے کے لیے روزہ کو وسیلہ قرار دیا ہے اور نفس کو پاکیزہ بنانے اور بری صفات اور رذیلہ خصلتوں کو دور کرنے کے لیے روزہ کو واجب کیا ہے۔ البتہ روزہ رکھنے سے مراد صرف کھانے پینے کو ترک کرنا نہیں ہے۔ بلکہ روزہ یعنی " کف النفس" نفس کو بچانا۔جیسا کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: روزہ ہر انسان کے لیے سپر اور ڈھال ہے اس لیے روزہ دار کو چاہیے کہ بری بات منہ سے نہ نکالے اور بیہودہ کام انجام نہ دے۔
پس روزہ انسان کو انحرافات، لغزشوں اور شیطان کے فریبوں سے نجات دلاتاہے۔ اور اگر روزہ دار ان مراتب تک نہ پہنچ سکے تو گویا اس نے صرف بھوک اور پیا س کوبرداشت کیا ہے اور یہ روزہ کا سب سے نچلا درجہ ہے۔
حوالہ جات
1- اركان اسلام ، ص 108 .
2- كافي ، ج 4 ، ص 62.
3- نهج البلاغه ، خطبه 192.
4- نهج البلاغه ، حكمت 252.
5- نهج البلاغه ، خطبه 110.
6- وسائل الشيعه ، ج 7 ، ص 3.
7- وہی ، ص 4.
8- علل الشرايع ، شيخ صدوق ، باب الصوم
روزہ کا ظاھر وباطن
انسان جسم اور روح سے مرکّب ھے، جسم روح کی فعّالیت کا وسیلہ اور روح جسم کی حیات ھے۔ اگر جسم سے روح نکل جائے تو جسم مردہ اور بے حرکت ھو جاتا ھے ، اور دوسری طرف روح کی فعّالیت کا سلسلہ متوقّف ھو جاتا ھے ۔انسان کے اعمال و عبادات بھی بالکل انسان کے مانند ھیں ، ان میں بھی ایک جنبہٴ ظاھری و جسمانی ھے یعنی پیکر عمل، اور ایک جنبہٴ باطنی و روحانی ھے یعنی فلسفہ و اسرار عمل۔ جس طرح انسان کی زندگی اس کی روح میں ھے اسی طرح عمل کی حیات بھی اس کے اسرار اور فلسفہ میں ھے اور جس طرح روح کے بغیر انسان مردہ ھے اسی طرح اسرار و فلسفہ کے بغیر اعمال مردہ ھیں ، لیکن اکثر انسانوں کی مشکل یہ ھے کہ وہ جسم پرست اور ظاھر بین ھیں ، وہ جسم کی زینت اور خدمت میں خود کو اتنا مشغول کر لیتے ھیں کہ انھیں روح کی طرف توجہ دینے کی فرصت ھی نھیں ملتی ۔ یہ پوری انسانیت کی مشکل ھے، آج کا انسان روح اور روح کے تقاضوں سے بے خبر صرف جسم کی خدمت میں لگا ھوا ھے اور بغیر روح کے جسم کتنا ھی قوی کیوں نہ ھو جائے مردہ ھے۔ آج کے انسانی معاشروں نے بڑی مضحکہ خیز بلکہ بھیانک شکل اختیار کر لی ھے ۔ شھر، سڑکیں، گلیاں، مکان سب سجے ھوئے ھیں لیکن ان میں حرکت کرنے والے انسان مردہ ھیں ۔جنکی حرکت ایک انسانی حرکت نھیں بلکہ ایک مشین یا روبوٹ کی حرکت کے مانند ھے، جن کی ساری بھاگ دوڑاس لیے ھے کہ ان کے جسم کی تمام ضرورتیں اور خواھشیں پوری ھو جائیں لیکن اسکی کوئی فکر نھیں کہ روح کا کوئی تقاضا پورا ھویانہ ھو۔تعجب اس بات پر ھے کہ پھر یھی انسان شکایت کرتا ھے کہ معاشرے میں فساد اور جرائم بڑھتے جا رھے ھیں جبکہ اسے معلوم ھے کہ مردہ جسم کو اگر دفن نہ کر دیا جائے تو اس میں تعفّن اور فساد کا پیدا ھونا لازمی ھے۔
ایک سنجیدہ مسئلہ
انسانوں ھی کی طرح انسانی اعمال اور عبادتیں بھی اگر بغیر روح کے انجام دی جائیں تو نہ صرف یہ کہ ان کا انسانی زندگی پر کوئی مثبت اثر نھیں پڑتا بلکہ در حقیقت وہ مزید فساد کا باعث بنتی ھیں ۔ تصنّع، ریا کاری ، فریب، تکبّر، اور خود نمائی جیسے اخلاقی مفاسد بعض اوقات انھیں بے روح عبادتوں کے نتیجے میں پیدا ھوتے ھیں جن میں اکثر عباد ت گزار مبتلا ھوجاتے ھیں ۔عبادتوں کے ان نتائج کو دیکہ کر ایک بڑا طبقہ ان سے دور ھو جاتا ھے اور دور ھونا بھی چا ھیے کیونکہ مردہ چیزوں سے ھر شخص دوری اختیار کرتا ھے۔ پھر یہ شکایت کی جاتی ھے کہ جوان نسل مسجد میں نھیں آتی، جوان روزہ نھیں رکھتے اور یہ درست بھی ھے لیکن وہ مسجد میں اس لئے نھیں آتے کیوں کہ انھیں اسرار نماز نھیں معلوم ، وہ روزہ اسلئے نھیں رکھتے کیوں کہ انھیں فلسفھٴ روزہ نھیں بتایا گیا ھے ۔
راہ حل
آج جب کہ پوری بشریت شدّت سے اپنے اندر معنویت اور روحانیت کا خلا محسوس کر رھی ھے او ر دوسری طرف ان بے روح عبادتوں کو قبول بھی نھیں کیا جا سکتا تو ضرورت اس بات کی ھے کہ ان تمام عبادتوں کے اسرار و فلسفے بیان کیے جائیں ، لوگوں کو جتنے احکام بتائے جائیں اس سے کھیں زیادہ ان کے اسرار بتائے جائیں ، احکام کا فلسفہ بیان کیا جائے۔
ممکن ھے کوئی یہ راہ حل پیش کرے کہ جو چیز بے روح ھو جائے اسے ترک کردیا جائے لھٰذا یہ بے روح نمازیں ، بے روح روزے ، بے روح حج، بے روح عبادتيں ، بے روح عزاداری، حتّیٰ بے روح دین ان سب کو ترک کر دیا جائے ۔اگر اس ترک کرنے سے مراد یہ ھو کہ ان بے روح عبادتوں اور اعمال کو ترک کر کے زندہ عبادتےں ، زندہ اعمال اور زندہ دین کو اپنایا جائے تو یہ وھی راہ حل ھے جو پھلے بیان کیا گیاھے یعنی ان میں روح پیدا کی جائے ان کے اسرار وفلسفے بیان کئے جائیں ، لیکن اگر اس سے مراد یہ ھو کہ سرے سے دین کو ترک کر دیا جائے، سرے سے عبادتےں ھی نہ انجام دی جائیں ، سرے سے عزاداری ھی نہ کی جائے تو یہ راہ حل ایسا ھے جیسے کوئی کھے کہ آج اکثر انسان اور انسانی معاشرے روحانیت اور معنویت سے خالی ھیں لھٰذاان سب کا خاتمہ کر دیا جائے۔یہ کوئی راہ حل نھیں ھے کہ ابرو سنوارنے میں آنکھیں پھوڑ دی جائیں ۔
روزوں کی فصیلت پر امام کاظم علیہ السلام کی احادیث
افطار کروانا
قال الكاظم علیه السلام: فطرك اخاك الصائم خير من صيامك.
امام كاظم (علیہ السلام) نے فرمایا: تم جو اپنے روزہ دار بهائی کو افطار کراتے ہو تمهارے اپنے (مستحب) روزے سے بہتر ہے.
(الكافى، ج 4 ص 68، ح 2 )
ماه رجب کا روزه
قال الكاظم (علیہ السلام) : الرجب نهر فى الجنة اشد بياضا من اللبن و احلى من العسل فمن صام يوما من رجب سقاه الله من ذلك النهر.
امام كاظم (علیہ السلام) فرمود: رجب جنت کی ایک نہر کا نام ہے جو دودھ سے زیاده سفید اور شھد سے زیاده شیرین ہے. جو شخص رجب کے مہینے مین ایک روزہ رکهے گا خدا اس کو نهر سے اس کو نوش کرائے گا.
(من لا يحضرہ الفقيہ ج 2 ص 56 ح 2 - وسائل الشیعة ج 7 ص 350 ح 3 )
روزہ داروں کی دعا
قال الكاظم (علیہ السلام) دعوة الصائم تستجاب عند افطارہ
امام كاظم (علیہ السلام) نے فرمایا: روزہ دار کی دعا افطار کے وقت مستجاب ہوتی ہے.
(بحار الانوار ج 92 ص 255 ح 33)
مؤلف: محمد حسين فلاح زادہ
رمضان خودسازی کا مہینہ
خود سازی، خود شناسی (معرفت نفس) سے آغاز ہوتی ہے۔ سب سے پہلے انسان کو اپنی معرفت حاصل کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو پہچاننا چاہیے تاکہ اپنے آپ کو بنا سکیں۔ اس لیے کہ خود شناسی اور معرفت نفس، خدا شناسی اور معرفت خدا کا سبب بنتی ہے۔ اور اگر خدا کو پہچان لیا گویا اپنے آپ کو بنا لیا۔
سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم کیوں پیدا ہوئے ہیں؟ ہماری خلقت کا مقصد کیا ہے؟ خدا وند عالم قرآن کریم میں واضح طور پر بیان کر رہا ہے: وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون۔ میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔
بہت ساری تفاسیر میں لیعبدون کو لیعرفون کے معنی میں لیا ہے۔ یعنی خلقت کا مقصد معرفت ہے۔ ورنہ صرف نماز و روزہ اور دعا کا نام عبادت نہیں ہے۔ نماز و روزہ اور خمس و زکاۃ عبادت کا ایک حصہ ہے۔
کیسے خلیفۃ اللہ بنیں؟
عبادت، سماج میں زندگی گذارنے اور دوسروں کے لیے جینے کا نام ہے۔ یہ جو عبادت کے لیے تاکید کی جاتی ہے کہ عبادت کو اجتماعی طور پر انجام دینا چاہیےاور مسجد اور جمعہ جماعت میں شرکت کرنا چاہیے، اسی وجہ سے ہے کہ انسان کی معرفت اور پہچان اس کی ذات سے منحصر نہ ہو جائے۔ اور اسے دوسروں تک بھی سرایت کرنا چاہیے۔ ہم اس لیے نہیں پیدا ہوئے ہیں کہ صرف اپنی ہی فکر کریں اور اپنی ہی نجات کے بارے میں فکر کریں۔ بلکہ سماج اور سوسائٹی کے درمیان زندگی گذاریں۔ معاشرے کو ساتھ لے کر چلیں۔ دوسروں کی فلاح اور بہبود کی بھی فکر کریں ۔بہرحال ہماری بحث معرفت کے بارے میں نہیں کہ جوایک طولانی بحث ہے جس کی یہاں پر گنجائش نہیں ہے۔ یہاں پر ہمیں یہ بیان کرنا ہے کہ کیسے اپنے آپ کو اچھا بنائیں؟ کیسے انسان اپنے آپ کو ایسا بنائے کہ خدا کا خلیفہ کہلائے؟ خود سازی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے اخلاق کوا یسا بدلے جیسا خدا چاہتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، ہمارا جی تکبر اور خود خواہی کی طرف مائل ہوتا ہے تو اپنے نفس کی ایسی تربیت کریں کہ تکبر اور خود خواہی سے نجات پاجائیں اور تواضع اور انکساری ہمارے اندر پیدا ہو جائے۔ اگر ہمارے اندر بخل اور کنجوسی پائی جاتی ہے تو اس مذموم صفت کو ختم کر کے اس کی جگہ کرامت اور بخشش کی صفت پیدا کریں۔ خلاصہ کلام یہ کہ صفات سلبیہ اور رذیلہ کو اپنے نفس و روح سے دور کر کے صفات ثبوتیہ اور حسنہ کا لباس اپنے وجود کو پہنائیں۔
کیا کرنا چاہیے؟
اپنے دل کو ہر اس چیز سے جو اللہ کی نظر میں ناپسند اور مکروہ ہے پاک اور پاکیزہ بنائیں اور اپنے تمام اعضاء و جوارح کو اس کی رضا اور خشنودی کی راہ میں لگا دیں۔
اپنے اندر حلم اور بردباری کی عادت ڈالیں اس لیے کہ حلم انسان کے مقام کو بلند و بالا کرتا ہے اور لوگوں کے درمیان باعزت و شرف ہونے کا باعث بنتا ہے۔ اور بزرگوں اور بڑوں کا احترام کریں اور ہر وہ چیز جو پستی، سستی اور کہولت کا سبب ہے سے دور رہیں اور جو چیز خدا سے نزدیک اور اس کا تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اسے اپنے وجود کے اندر پیدا کریں۔ اس چیز کی طرف قدم بڑھائیں جو عاقبت بخیر کا باعث ہو اور جس کا ثمرہ اور پھل میٹھا ہو۔
عفت اور پاکدامنی کی حفاظت کریں اور جو چیز نفرت ، خجالت اور شرمندگی کا باعث ہے اور انسان کی شخصیت پر دھبہ لگاتی ہے اس سے پرہیز کریں۔ صبر سے کام لیں تاکہ یقین اور رضا کی منزل پر پہنچ سکیں خدا کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم رہیں مشکلات، مصائب، سختیوں اور پریشانیوں کے سامنے گھٹنا نہ ٹیکیں۔
عقل و روح کے تکامل کی طرف بڑھیں۔ اور تقویٰ اور عمل کے دو پروں کے ساتھ عزت اور عظمت کی بلندیوں کی طرف پرواز کریں۔ دنیا کی محدود لذتوں سے دل نہ لگائیں بلکہ تقویٰ، ورع، پارسائی اور زہد کے اسلحوں سے اپنے آپ کو مسلح کریں۔ تاکہ شیطان کو میدان جنگ میں شکست دے سکیں۔ اس طریقے سے اپنے نفس پر تسلط حاصل کریں اور نفس کی لگام اپنے ہاتھ میں کس کر رکھیں کہ نہ دوسروں کی تعریف اور مدح سرائی ہمارے اوپر اثر کرے اور نہ ان کا برا بلا کہنا اور گالیاں گلوچ دینا۔
اپنے آپ کو خدا کی ہر ناپسند چیز سے محفوظ رکھیں نہ اس سے جسے ہمارا نفس ناپسند کرے۔ مولا کی مرضی کے سامنے اپنی مرضی کوئی معنی نہیں رکھتی۔
آج کل کی فکر کریں اور آج ہی کل کا سرمایہ اگٹھا کریں۔ اور اس ابدی زندگی کے لیے ساز وسامان جمع کریں۔
استقامت اور پائداری کےساتھ تلخ اور ناگوار حادثات کا سامنا کریں اور ہر لمحہ خدا پر بھروسہ رکھیں وہ کل خیر ہے اس کےساتھ وابستہ رہنے سے شر انسان کے قریب نہیں آ سکتا۔ اس کی راہ میں قدم بڑھاتے رہیں اور ہمیشہ اس سے ہدایت کی توفیق طلب کرتے رہیں کہ وہ ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے۔ اھد نا الصراط المستقیم۔
مہر و محبت، دوستی اور ایک دوسرے کا ہاتھ ہمبستگی ، ایثار اور قربانی اور عفو اور بخشش کو نفرت، بغض ،کینہ، خود خواہی اور خود غرضی کا جانشین قرار دیں۔
دوسروں کی زندگیوں سے عبر ت حاصل کریں نہ خود دوسروں کے لیے عبرت بنیں۔
ماہ مبارک رمضان وہ بہترین وقت ہے جس میں انسان کو اپنی فطرت اور سرشت کی طرف رجوع کرنے کا بہترین موقع ملتاہے۔ اور اسے خواب غفلت سے بیدار کرنے اور گناہوں کے پردوں کو ہٹانے کا بہترین مہینہ ہے۔
ماہ مبارک رمضان کے لمحوں کو غنیمت جانیں
بھائیو! اور بہنو! اللہ کا مہینہ آن پہنچا ہے۔ کتنا اچھا ہے کہ اسے بہترین فائدہ اٹھایا جائے۔ ایک لمحہ بھی اس مہینہ کا بیکار میں ضایع نہ ہو۔ اس ایک مہینہ میں ایک سال کی قسمت بلکہ ایک عمر کی قسمت لکھی جاتی ہے۔
ہوشیار رہیں کہ کہیں یہ مہینہ بھی بے توجہی کے ساتھ گذر جائے اور بروز عید ہم شرمندہ ، شرمسار اور رحمت الٰہی سے محروم ٹہلتے ہوئے نظر آئیں۔روایت میں ہے کہ رسول خدا (ص) نے ماہ رمضان سے پہلے ایک خطبہ پڑھا اور اس خطبہ میں فرمایا:
اے لوگو! جبرئیل مجھ پر نازل ہوئے اور کہا: یا محمد! جو آپ کا نام مبارک سنے اور آپ پر درود نہ بھیجے خدا کی رحمت سے دور رہے گا۔ اے محمد! جو شخص ماہ رمضان کو درک کرے اور خدا کی رحمت اور مغفرت کو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے اور دنیا سے گذر جائے ہمیشہ خدا کی رحمت سے دور رہے گا۔ اے پیغمبر آپ آمین کہیے۔ میں نے بھی آمین کہا۔(۱)
اس ماہ میں بہشت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور جھنم کے دروازے بند ہیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے کہ جس کی وجہ سے بہشت کے دروازے ہمارے اوپر بند ہو جائیں۔
اس مبارک ماہ میں جیسا کہ روایات سے معلوم ہوتاہے جنت کو مزین کیا جاتا ہے اور نیک کاموں اور عبادتوں کی جزا دوگنی ہو جاتی ہے۔
رسول خدا ﷺ نے فرمایا: شهر رمضان شهرالله عز و جل و هو شهر يضاعف الله فيه الحسنات و يمحو فيه السيئات، و هو شهر البركة، و هو شهرالانابة، و هو شهر التوبة، و هو شهرالمغفرة ، و هو شهرالعتق من النار و الفوز بالجنة.
الا فاجتنبوا فيه كل حرام و اكثروا فيه من تلاوة القرآن و سلوا فيه حوائجكم واشتغلوا فيه بذكر ربكم و لا يكونن شهر رمضان عندكم كغيره من الشهور فان له عندالله حرمه و فضلا على سائر الشهور، ولا يكونن شهر رمضان، يوم صومكم كيوم فطركم . (2(
ماہ رمضان اللہ کا مہینہ ہے کہ جس میں نیک کاموں کی جزا دوبرابر ہو جاتی ہے اور گناہ محو ہو جاتے ہیں۔ ماہ رمضان رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ ماہ رمضان توبہ اور مغفرت کا مہینہ ہے۔ ماہ رمضان جہنم سے رہائی اور جنت کے حصول کا مہینہ ہے۔
پس اے لوگو! اس مہینہ میں ہر برے اور حرام کام سے دوری اختیار کرو۔ اور قرآن کی کثرت سے تلاوت کرو۔ اور اس کے تمام اوقات کو اللہ کی یاد میں گزارو۔ مبادا یہ مہینہ بھی تمہارے نزدیک دوسرے مہینوں کی طرح رہے اس لیے کہ یہ دوسرے مہینوں پر برتری اور فوقیت رکھتا ہے۔ حضرت امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں: "عليكم فى شهر رمضان بكثرة الاستغفار والدعاء، فاما الدعاء فيدفع البلاء عنكم و اما الاستغفار فتمحى به ذنوبكم ." (3)
آپ پر لازمی ہے کہ ماہ مبارک رمضان میں کثرت سے دعا اور استغفار کریں اس لیے کہ دعا بلاؤں کو ٹال دیتی ہے۔ اور استغفار گناہوں کو محو کر دیتا ہے۔
بہر حال ، ماہ رمضان خودسازی کامہینہ ہے۔ اور خود سازی کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان اپنی خودی کو بھول کر خدا کو اپنا مالک واقعی سمجھے تا کہ خدا کو پہچان سکے اور اس کی عبودیت کا حق ادا کر سکے۔ اور جو چیز رنگ الٰہی کے مخالف ہو اس سے دور رہے۔ خود سازی اور نفسانی ہوی و ہوس سے کنارہ کشی تمام کمالات اور فضائل انسانی کا منشا ہے۔ اگر کوئی اپنے آپ کو مادی تعلقات سے دور رکھنے میں کامیاب ہوگیا اور دنیاکے تجملات میں غرق نہ ہوا تو یقینا خدا کی طرف متوجہ رہے گا اور تکامل کی طرف گامزن ہو گا۔ اور کامیابی اور کامرانی کے بلند ترین مقام پر فائزہوگا۔
خدا شاہد ہے کہ دنیا کےتمام مفاسد ، مظالم، فتنہ وفساد صرف خود پرستی اور ہوس پرستی کی بنا پر ہیں۔لہذا قرآن کریم میں ہمیشہ تزکیہ اورتربیت تعلیم اور تعلم پر مقدم ذکر ہوا ہے اور خود سازی یعنی تزکیہ نفس اور ماہ رمضان تزکیہ اور تطہیر نفس کے لیے ہے۔ پس آئیے اس مبارک مہینہ میں خدا کا قرب حاصل کریں تاکہ روز قیامت سرخرو اس کی بارگا ہ میں حاضر ہوں۔
امام سجاد (ع) کے مناجات کا ایک نمونہ
آخر میں امام سجاد علیہ السلام کی دعا اور مناجات کا ایک حصہ صحیفہ سجادیہ سے نقل کرتے ہیں تاکہ ہماری زندگی کے لیے نمونہ عمل قرار پائے:
" اللهم و انت جعلت من صفايا تلك الوظائف، و خصائص تلك الفروض شهر رمضان، الذى اختصصته من سائر الشهور و تخيرته من جميع الازمنه و الدهور، و آثرته على كل اوقات السنه بما انزلت فيه من القرآن و النور و ضاعفت فيه من الايمان، و فرضت فيه من الصيام، و رغبت فيه من القيام، و اجللت فيه من ليله القدر التى هى خير من الف شهر، ثم آثرتنا به على سائر الامم و اصطفيتنا بفضله دون اهل الملل، فصمنا بامرك نهاره، و قمنا بعونك ليله، متعرضين بصيامه و قيامه لما عرضتنا له من رحمتك و نسبتنا اليه من مثوبتك و انت الملى بما رغب فيه اليك، الجواد بما سئلت من فضلك القريب الى من حاول قربك. " (4(
خدایا تو نے اپنے منتخب کاموں اور مخصوص فرائض سے ماہ مبارک رمضان کو قرار دیا ہے۔ وہ مہینہ جسے تو نے تمام مہینوں میں سے انتخاب کیا ہے اور تمام دنوں اور لمحوں میں سے اسے چنا ہے۔ اور سال کے تمام اوقات پر اسے فوقیت اور برتری عطا کی ہے۔ یہ فوقیت اس لیے ہے کہ اس کے اندر قرآن اور نور کو نازل کیا ہے اور ایمان کو اس مہینہ کے اندر دوگنا کیا ہے اور روزہ کو اس ماہ میں واجب کیا ہے اور شب بیداری کو اس میں عبادت کے لیے قرار دیا ہےاور اس ماہ میں شب قدر کو رکھا ہے کہ جو ہزار راتوں سے بہتر ہے۔ پھر ہمیں اس مہینہ کے وسیلہ سے تمام دیگر مذاہب اور امتوں پر برتری عطا کی ہے۔ پھر تیرے حکم سے ہم اس کے دنوں کو روزہ رکھتے ہیں اور تیری مدد سے اس کی راتوں کو عبادت کرتے ہیں۔ اس حال میں کہ اس کے صیام و قیام کے وسیلہ سے اس کی بارگاہ میں دعوت کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اور اسے تیرے حضور سے اجرو ثواب لینے کا سبب قرار دیتے ہیں تو ہر اس چیز پر قادر ہے جو تیری بارگاہ سے ہم طلب کرتےہیں۔ اور جو کچھ بھی تیرے فضل و کرم سے مانگا جائے تو عطا کرتاہے اور جو تیرے تقرب کی تلاش میں ہو تو اس کے نزدیک ہوتا ہے۔
پروردگار عالم سے دعاگو ہیں کہ ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ ہم اس مہینہ میں اس کی عبادت کر سکیں اور اس کی بارگاہ سے رحمت اور مغفرت طلب کر سکیں۔
حوالہ جات
1-المقنعه، ص 308.
2 -فضائل الاشهر الثلاثه، ص95 .
3 -وسائل الشيعه، ج7، ص220 .
4 -صحيفه سجاديه، دعاى 45.
خود شناسی
روزمرّہ زندگی کی گرفتاریاں انسان کو اجازت نھیں دیتی تھیں کہ وہ اپنے اندر جھانک کر دیکھے اور اپنے آپ کو پھچاننے کی کوشش کرے ۔اب اسے روزہ کے ذریعے اپنے روٹین سے نکالا گیا ھے تا کہ اپنے آپ کو پانے کی کوشش کرے، اپنے اندر جھانک کر دیکھے کہ اسے اتنی قوّتوں ،صلاحیتوں اور استعداد (Abilities) کے ساتھ کیوں پیدا کیا گیا؟
جھان شناسی
انسان اپنے باھر کی دنیاکو دیکھے کہ اتنی وسیع کائنات اور اس میں موجود لا محدود نعمتیں کس لئے ھیں اور ان سب کو کیوں انسان کی خدمت میں قرار دیا گیا ھے؟
ھدف شناسی
انسان اگر اپنے اندر موجود صلاحیتوں و قوتوں اور اس عظیم کائنات کی وسعتوں کو کسی حد تک پھچان لے گا تو لا محالہ اپنی منزل اور اپنے اھداف کو بھی پھچان لے گا کہ ان فوق العادّہ صلاحیتوں اور ان بے شمار نعمتوں کے ذریعے اسے کن اھداف تک پھونچنا ھے، پھر ایک خود شناختہ انسان کی حرکت کا رخ اس مذکورہ شھوانی مثلث کی طرف نھیں ھو گا کیونکہ یہ شھوات وخواھشات خدا نے انسان کے اندراس لئے رکھی ھیں تا کہ یہ ناقص مخلوق اپنے اندر تکامل پیدا کر سکے مثلاً شھوت جنسی کو اس لئے قرار دیاھے تا کہ انسان وجود میں آسکے یعنی اسکے ذریعے تولید نسل کا سلسلہ جاری رھے ۔خواھش آب و غذا اس لئے رکھی گئی تا کہ انسان انھیں استعمال کر کے اپنے آپ کو باقی رکہ سکے لیکن صرف تو لید نسل اور اپنے وجود کی بقاھی انسان کا کل ھدف نھیں ھے ،بلکہ اسکا اصل ھدف اپنے اس ناقص وجود کو کمال تک پھونچانا ھے ۔اسطرح خود شناسی ،جھان شناسی اور ھدف شناسی کے بعد انسان کی حرکت کا رخ کمالات کی طرف مڑ جاتا ھے جو اسکے اندر کا ایک فطری تقاضا ھے ۔
خدا شناسی
کسب کمالات بھی انسان کا آخری ھدف نھیں ھے ۔اسکا آخری ھدف ان کمالات سے متصّف ھو کر کمال مطلق یعنی ذات خدا تک پھونچنا ھے ”یَا اَیُّھَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلَی رَبِّکَ کَدْحاً فَمُلَاقِیْھ“انسان کا سفر خدا کی طرف ھے اور اسے خدا سے ملاقات کرنی ھے ۔یہ انسان کا نھائی ھدف (Last Target)ھے،یہ ھدف کثرت عبادات سے نھیں بلکہ عبادات کے باطن اور اسرار سے حاصل ھوتا ھے ،عبادات کا باطن اپنی تطھیرکرکے کمالات کو حاصل کرنا ھے ،پس انسان اپنے عمل کے ذریعے جتنا پاکیزہ اور با کمال ھو گا اتنا ھی ذات خدا سے قریب ترھوگا”اِلَیْہ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُھ“خدا کی طرف پاکیزہ نفوس بلند ھوتے ھیں اور ان کے بلندکرنے کا وسیلہ اسکے اعمال صالحہ ھیں ۔عمل صالح یعنی ایسا عمل جس میں انسان کو باکمال اور بلند کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ھو ،اسطرح خودشناسی و جھان شناسی انسان کو ھدف شناسی اور کمال طلبی کے راستے سے خدا شناسی تک لے آتی ھے ۔
روزہ در حقیقت خود شناسی سے خدا شناسی تک سفر کرنے کی ایک مشق ھے اورایک مھینہ مشق کرنے کے بعدانسان کو پورے سال اسی سفر کو جاری رکھنا ھے۔
دشمن شناسی
اس سفر کی راہ میں ایک بھت قوی اورنامرئی دشمن بھی موجود ھے جس نے خدا کی عزّت کی قسم کھا کر اعلان کیا ھے کہ صراط مستقیم پر بیٹھ کر اس راہ کے مسافروں کو گمراہ کرے گا”لَاَقْعُدَنَّ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ثُمَّ لَآتِیَنَّھُمْ مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَمِنْ خَلْفِھِمْ وَ عَنْ شَمَائِلِھِمْ“ صراط مستقیم پر بیٹھ کرمیں بندگان خدا کو ھر سمت سے گمراہ کروں گا، لھٰذا ایسے دشمن کی عمیق شناخت کے بغیرانسان اس سفر کو طے نھیں کر سکتا ،یہ ایک ایسا دشمن ھے جسکا سب سے بڑا اسلحہ خود انسان کے اندر موجود ھے ”اعدی عدوک نفسک التی بین جنبک“تمھارا سب سے بڑا دشمن خودتمھارا نفس ھے جوخود تمھارے اندر موجود ھے ،یہ شیطان کا اندرونی اسلحہ ھے ، اور اگر اپنے وجودسے باھر نگاہ کریں تو اسکے فراوان لشکر موجود ھیں جن میں انسان اور جنّات دونوں شامل ھیں ”من الجنّة و النّاس “پس اتنے بڑے دشمن جن کا قرآن نے ”عدو مبین“کہہ کرتعارف کرایا،کے ھوتے ھوئے اس سفر کو طے کرنا بھت آسان نھیں ھے ۔
آج شیطانی طاقتوں نے میڈیا ،سٹ لائٹ ،انٹرنیٹ اور یوروپین کلچر کے ذریعے انسان سے اسکے کمال کا راستہ چھین لیا ھے آج کا انسان یہ اچھی طرح محسوس کر رھا ھے کہ انٹرنیٹ کے عھد کی نسلیں انسانی اقدار (Human Values) سے خالی ھوتی جا رھی ھیں مثلاًغیرت ایک قدر (Value)ھے جو انسان کے کمال میں دخیل ھے لیکن ایک جوان جس نے ساری رات انٹرنٹ کی فحش سائٹوں میں گزاری ھے اسے اگر صبح کے وقت عراق کے ابو غریب جیل کی تصویریں دکھائی جائیں تو اسے ذرا بھی غیرت نھیں آتی ،جبکہ انسانی غیرت کا معیار یہ ھے کہ لشکر معاویہ نے یمن میں یھودی عورت کے پیروں سے پازیب اتارا تو امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر اس عمل پر ایک انسان غیرت سے مر جائے تو وہ اس کا مستحق ھے ۔
روزہ کا ایک فلسفہ یہ ھے کہ انسان اس مھینہ میں اپنے ان دشمنوں کے خلاف آمادہ ھو جنھوں نے اس سے اس کے تکامل کا راستہ چھین لیا ھے ،دشمن سے مقابلہ کرنے اور اس پر غلبہ پانے کے لئے صبر و استقامت کی مشق کرے ،شیطانی فریب سے بچنے وھوائے نفس پر غالب ھونے کے لئے جھاداکبر کی مشق کرے ، شایداسی لئے اس مبارک مھینے میں شیطان کو سخت زنجیروں میں مقیّد کر دیا جاتا ھے تا کہ انسان کی اس آمادگی میں رکاوٹ ایجاد نہ کر سکے ۔
یھیں سے اب ھم دوسرے سوال کی طرف متوجہ ھوتے ھیں کہ کیا روزہ انسان کے اندر ضعف ایجاد کرتا ھے ؟
آزادی یا پابندی؟
انسان کے ذھن میں اٹھنے والے سوالوں میں سے ایک اھم سوال یہ تھا کہ روزہ کے وقت انسان شدید پابندی کی حالت میں ھوتا ھے اور یہ درست بھی ھے لیکن یہ بھی درست ھے کہ انسان کو بلند اھداف تک پھونچنے کے لئے اپنے اوپر پابندیاں عائد کرنی پڑتی ھیں ۔ پابندیاں اگر چہ سخت ھوتی ھیں لیکن بغیر پابندی کے کوئی ھدف اور کمال قابل حصول نھیں ھے ۔
ایک طالب علم ، دانشمند اور فنکار کو اپنے بلند اھداف تک پھونچنے کے لئے اپنے اوپر سخت پابندیاں عائد کرنی پڑتی ھیں جنمیں سر فھرست وقت کی پابندی ھے ۔اس کے علاوہ بھت سی حلال چیزیں اپنے اوپر حرام کرنی پڑتی ھیں ورنہ کامیابی حاصل نھیں ھوتی ۔
خاندان ، قبیلہ ،شھر ، ملک اور دنیا کو ھرج و مرج سے بچانے کے لئے انسان کو اپنے اوپر خاندانی ، قبائلی ، شھری ، ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی پابندیاں عائد کرنی پڑتی ھیں ۔ اسی طرح دین و شریعت اور انکے احکام بھی ایک پابندی ھیں جنکے دو ھدف ھیں :
۱۔ انسان کو فردی و نفسیاتی مشکلات اور اجتماعی ھرج ومرج سے محفوظ رکھنا ۔
۲۔ انسان کے اندر مادی و معنوی ،جسمانی و روحانی اور فردی و اجتماعی تکامل پیدا کرنا ۔
روزہ بھی دیگر احکام دین کی طرح ایک پابندی ضرور ھے لیکن ایک ایسی پابندی جو ایک طرف انسان کے اندر تکامل پیدا کرتی ھے اور دوسری طرف اسکو بھت سے نقائص ،رذائل اور شھوات کے زندان سے آزاد کر دیتی ھے ۔
انسان کےلئے سب سے محکم زندان خود اسکے نفسانی ھویٰ و ھوس اور خواھشات ھیں اور حقیقت میں آزاد انسان وہ ھے جس نے اپنے آپ کو اس زندان سے آزاد کر لیا ھو۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ھیں : ” مَنْ تَرَکَ الشَّھوَاتِ کَانَ حُرّاً“
جو اپنی خواھشات کو ترک کرنے میں کامیاب ھو جائے وہ ایک آزاد انسان ھے-
اورروزہ اپنے اسرار کے ساتھ رکھا جائے تو اسکا سب سے بڑا اثر یہ ھے کہ وہ انسان کو نفسانی خواھشات سے آزاد کر کے بلند اھداف کی طرف متوجہ کر دیتا ھے ۔
مومنین کے مابین خلوص کا رشتہ
قائد انقلاب اسلامی حضرت آيت الله العظمي خامنه اي نے 6 دی تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق اکیس محرم الحرام سنہ چودہ سو بتیس ہجری قمری کو فقہ کے اجتہادی و استنباطی درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا ایک قول مع تشریح بیان کیا۔ اس روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مومنین کے درمیان کیسی اپنائیت اور خلوص کا رشتہ ہونا چاہئے۔
"قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع أَ يَجِيءُ أَحَدُكُمْ إِلَى أَخِيهِ فَيُدْخِلُ يَدَهُ فِی كِيسِهِ فَيَأْخُذُ حَاجَتَهُ فَلَا يَدْفَعُهُ فَقُلْتُ مَا أَعْرِفُ ذَلِكَ فِينَا فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع فَلَا شَيْءَ إِذاً قُلْتُ فَالْهَلَاكُ إِذاً فَقَالَ إِنَّ الْقَوْمَ لَمْ يُعْطَوْا أَحْلَامَهُمْ بَعْد"
كافى، ج 2، ص 174
کتاب الکافی میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی یہ روایت منقول ہے کہ «أ يجىء احدكم الى اخيه فيدخل يده فى كيسه فيأخذ حاجته فلا يدفعه» حضرت نے اپنے اصحاب میں سے ایک سے سوال کیا، اب اس روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ وہ صحابی کون تھے، انہوں نے کیا سوال کیا تھا اور وہ کہاں کے رہنے والے تھے؟ اس تمہید کا ذکر اس روایت میں نہیں ہیں۔ حضرت نے پوچھا کہ آپ جس جگہ رہتے ہیں کیا وہاں ایسا ماحول ہے کہ آپ میں سے کوئی آئے اور اپنے برادر دینی کی جیب میں ہاتھ ڈالے اور اپنی ضرورت کے مطابق پیسہ نکال لے اور اس برادر دینی کو ناگوار بھی نہ گزرے؟ کیا آپ لوگ اس مقام تک پہنچ گئے ہیں کہ آپ کی جیبیں ایک دوسرے کے لئے کھلی ہوئی ہوں۔
مرحوم حرز الدین نے نقل کیا ہے کہ معروف اور جلیل القدر عالم دین کاشف الغطاء مرحوم کے زمانے میں شیخ خضر نام کے بڑے اہم عالم دین گزرے ہیں۔ عید کے دن نجف اشرف کے عوام اور اطراف کے قبائل شیخ خضر کے گھر جاتے تھے اور تحفے کے طور پر سامان اور رقم دیتے تھے۔ عید کا دن تھا اور لوگوں نے ان کے سامنے جو چیزیں لاکر رکھی تھیں ان کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ اسی عالم میں شیخ جعفرکاشف الغطاء وہاں پہنچے۔ انہوں نے سامان اور رقم دیکھی۔ ظہر کا وقت آ گیا اور ملنے والے لوگ رفتہ رفتہ لوٹ گئے۔ کاشف الغطاء اٹھے اور اپنی ابا میں اس رقم اور سونا چاندی کو جمع کیا اور خدا حافظ کرکے روانہ ہو گئے۔ شیخ خضر نے بس ایک نظرڈالی اور کچھ بھی نہیں بولے گویا کوئي خاص بات ہوئی ہی نہ ہو۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ اور بھی دلچسپ ہے۔ بہرحال امام نے سوال کیا کہ کیا آپ لوگوں کے درمیان ذاتی چیزوں کے استعمال کے سلسلے میں یہ عالم ہے۔ مثلا آپ نے اپنی قبا کہیں آویزاں کر رکھی ہے۔ آپ کا دوست آتا ہے اور آپ کی قبا کی جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے، ضرورت کے مطابق رقم نکالتا ہے اور باقی رقم جیب میں چھوڑ کر روانہ ہو جاتا ہے اور آپ کو ذرہ برابر بھی ناگوار نہیں گزرتا؟ کیا تمہارے درمیان اس طرح کے تعلقات ہیں؟ اس راوی نے جواب دیا کہ ہمارے درمیان ایسا ماحول نہیں ہے۔ امام نے فرمایا کہ پھر تو ابھی کچھ ہوا ہی نہیں۔
میں یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ یہ امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے کا واقعہ ہے۔ اس زمانے میں شیعہ معاشرہ رفتہ رفتہ تشکیل پا رہا تھا۔ واقعہ کربلا کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام کے تینتیس چوتیس سال کے دور میں عوام الناس رفتہ رفتہ جمع ہو رہے تھے۔ کیونکہ عاشور کے واقعے کے بعد شیعوں کے خلاف جو سختیاں اور زیادتیاں شروع ہوئیں ان سے شیعہ بکھر کر رہ گئے تھے، گوشہ و کنار میں چلے گئے تھے۔ ان چونتیس برسوں میں لوگ دوبارہ رفتہ رفتہ جمع ہوئے۔ امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے میں لوگ زیادہ جمع ہوئے۔ شہروں اور قرب و جوار کے علاقوں میں لوگ پھر سے جمع ہوئے۔ یہ واقعہ اس زمانے کا ہے اور امام فرما رہے ہیں کہ دنیا کے مختلف گوشوں میں شیعہ مراکز کو اس انداز سے قائم کیا جائے۔ ان کے درمیان آپس میں اس طرح میل محبت ہو۔
حضرت نے جو فرمایا کہ " فلا شئ" تب تو ابھی کوچھ ہوا ہی نہیں، اس کا مطلب یہی ہے کہ جو مطمح نظر ہے وہ ابھی حاصل نہیں ہوا ہے۔ وہ شخص یہ سن کر خوفزدہ ہو گیا اور اس نے پوچھا کہ " فالھلاک اذا؟" ہلاک لفظ کے الگ الگ جگہوں پر مختلف معانی ہوتے ہیں۔ یہاں اس سے مراد ہے بد بختی۔ یعنی تو کیا ہم بد بخت ہیں؟ امام نے جواب دیا " ان القوم لم یعطوا احلامھم بعد" احلام جمع ہے حلم کی۔ اس کا مطلب ہے حلم و بردباری۔ قرآن میں بھی "حلم یحلم" کا لفظ استعمال ہوا ہے خواب کے معنی میں۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ روایت میں امام نے یہ فرمایا کہ ہے پھر بردباری اور رواداری کی مطلوبہ منزل تک نہیں پہنچ سکے ہو۔ لہذا یہاں ہلاک کا مطلب نابودی نہیں ہے اور عذاب خدا میں گرفتار ہونا نہیں ہے۔ یہاں یہ مراد ہے کہ ابھی تمہارے اندر مطلوبہ شرح صدر پیدا نہیں ہوا ہے۔