
Super User
آج لبنان، نیویارک اور واشنگٹن سے زیادہ پرامن ہے/ شکستوں کا دورگزرگیا
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے امریکہ کی طرف سے علاقائی قوموں کے خلاف جاری خفیہ جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شکستوں کا دورگزر چکا ہے اور اب فتح اور کامیابی کا زمانہ آگیا ہے۔
انھوں نے کہا ہمارے پیشوا حضرت امام خامنہ ای نے علاقہ کی قوموں کے خلاف امریکی جنگ کو خفیہ اور نرم جنگ سے تعبیر کیا ہے ہمیں اس وقت امریکہ کی خفیہ جنگ کا سامنا ہے اور اسرائیل علاقہ میں امریکہ کا ایک سپاہی اور ہمارا دشمن ہے، سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اسلامی اقدار کو ختم کرنے کے لئے مسلم معاشرے میں غیر اخلاقی فلمیں اور منشیات کو فروغ دے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ لبنان آج تمام مشکلات کے باوجود واشنگٹن اور نیویارک سے زیادہ پرامن ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں شہداء اور ان کے خاندانوں پر فخر ہے جنھوں نے سامراجی طاقتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور آج ان کے اہل خانہ اپنے گرانقدر شہیدوں کی راہ پر پختہ عزم کے ساتھ گامزن ہیں۔
مذھب اباضیہ
عبداللہ اباض تمیمی کو مذھب اباضیہ کا بانی بتایا جاتاہے البتہ بعض اباضی محققین عبداللہ اباضی کی طرف اپنے مذھب کی تاسیس کی نفی نہیں کرتے ہیں تاہم اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ مذھب اباضیہ کے بانی جابر ابن ابوزید (ابو شعثاء ) تھے اور قائل ہیں کہ عبداللہ ،جابر کے فتووں کے مطابق عمل اور فیصلے کیا کرتے تھے ۔
عبداللہ اباضی اٹھارویں ہجری میں عمان کے شہر نزوی میں پیدا ہوۓ اور 93 ہجری میں بصرہ میں وفات پائي ۔
بعض محققین کا خیال ہےکہ اباضی مذھب کے دراصل دو بانی ہیں ایک نے سیاسی قیادت سنبھال رکھی تھی جو عبداللہ اباض تھے اور دوسرے نے فقہی وعلمی قیادت سنبھا لی ہوئي تھی اور وہ جابر ابن زید تھے ۔
عمان میں بسنے والے اباضی مذھب کے پیرووں کے بارے میں مندرجہ ذیل مطلب قابل توجہ ہے ۔
عمان شبہ جزیرہ سعودی عرب کے جنوب مشرق میں واقع ہے اس ملک میں شاہی نظام قائم ہے اور اس کا دارالحکومت مسقط ہے اس ملک کی آب وہوا گرم و استوائی ہے ،عمان کے اہم شہروں میں صحار ،صور،قلھات و دبا کا نام لیا جاسکتاہے تاہم مسقط اس ملک کی اہم بندرگاہ اور تجارتی مرکز ہے ۔
عمان کے اکثر باشندے اباضی مذھب کے پیرو ہیں ،ماضی میں اباضیہ کی امامت کا مرکز شہر نزوی تھا ۔
سرزمین عمان میں سب سے پہلے مسلمان ہونے والے شخص کا نام "مازن بن غضوبہ "ہے مازن کے اسلام لانے کے ایک سال بعد عمانیوں کا ایک گروہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیتا ہے اس زمانے میں ایران کا بادشاہ شیرویہ تھا ،شیرویہ نے اپنی سرحدی فورس کے سربراہ سے نۓ پیغمبر(ص) کے بارے میں تحقیق کرنے کو کہا یہ فوجی سردار رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے کے بعد مسلمان ہوگیا اور عمان کی اکثریت کو بھی مسلمان بنادیا ۔
حضرت علی علیہ السلام کے زمانے میں جو خوارج کا فرقہ وجود میں آیا تھا کئي گروہوں میں بٹ گیا جن میں صفریان نجدات ،اباضیہ اور عجارہ کا نام قابل ذکر ہے البتہ اس وقت اباضیہ ان شدت پسند عقائد کے حامل نہیں ہیں تاہم ان کا شمار خوارج میں ہوتاہے ۔
عمان کے اباضیہ کی بعض اہم شخصیتیں
1 -امام جابر ابن زید انہوں نے مذھب اباضیہ کے اصول وقواعد ترتیب دۓ ۔
2 -ابو عبیدہ مسلم ابن ابی کریمہ تمیمی ؛ان کے زمانے میں مذھب اباضیہ مستقل مذھب کی حیثیت سے سامنے آیا اور اسی زمانے میں اس مذھب کی فکری و عقیدتی آراء کو مدون کیا گیا ۔
3 -ربیع ابن حبیب فراھیدی : یہ بزرگ فقیہ و محدث تھے ۔
مذھب اباضیہ کی خصوصیات
مذھب اباضیہ میں منابع شریعت قرآن سنت اجماع و قیاس و استدلال ہیں ان کے نزدیک عقائد ، عبادات ،اخلاق و معاملات کا بنیادی منبع قرآن ہے ۔
دوسرامنبع سنت ہے جو تواتر کی حد تک ہو ۔
تیسرا منبع اجماع ہے البتہ اجماع قولی کو حجت قطعی اور اجماع سکوتی کو حجت ظنی قراردیتے ہیں ۔
چوتھا منبع قیاس ہے جس کی تفصیلات اور اصول و قواعد ان کی کتب اصول میں مذکورہیں ۔
پانچواں منبع استدلال ہے جس میں استصحاب ،استحسان و مصالح مرسلہ شامل ہیں ۔
اباضیہ کے فقہی ممیزات :
1 - اباضیہ خداکی یکتائي ،نبوت ،حقانیت قرآن اور روزہ نماز جیسی عبادات کو جز ایمان سمجھتے ہیں
2 - اباضیہ کا ایک فقہی امتیاز اعتدال پسند ہونا ہے وہ مسئلہ حدیث و راي ، نیزسیاسی و مذھبی روش میں میانہ روی کے قائل ہیں ۔
اباضیہ کے بعض فقہی مسائل :
1-طعام اھل کتاب کو حرام سمجھتے ہیں مگر یہ کہ وہ ذمی ہوں ۔
2 - دفع مفسدہ جلب مفسدہ پر تقدم رکھتا ہے ۔
3 - مسافر کی نماز قصر ہے ۔
4 - ان کے نزدیک باب اجتھاد کھلا ہے اور مجتھد کے لۓ لغت و اصول دین ،فقہ و مصادر ادلہ میں ماہر ہونا ضروری ہے ۔
5 - ان کے نزدیک واجبات میں علم و ایمان ۔نماز و روزہ ، زکات حج و توبہ امربہ معروف و نہی ازمنکر و جھاد ہیں ۔
6 - ان کے نزدیک نمازجمعہ واجب ہے
7 - اباضیہ قنوت نہیں پڑھتے ۔
اباضیہ کی بعض کتب فقہی :
اجوبۃ ابی نھیان
اجوبہ فقہیہ ابو یعقوب و ارجلانی
احکام الدماء ابی العباس احمد بن محمد
احکام الزکات جاعد بن خمیس خروصی
احکام السفر فی الاسلام یحی معمر
رسالۃ فی احکام الزکات مسلم بن ابی کریمہ ۔
مذھب اباضیہ کا بانی
مورخین ملل و نحل کے نزدیک جو روایت مشہور ہے وہ یہ ہےکہ اباضی مذھب کا بانی عبداللہ بن اباض تمیمی ہے مشہورہےکہ انہوں نے معاویۃ بن ابوسفیان کا زمانہ دیکھا ہے البتہ بعض مورخین کا خیال ہےکہ اس فرقے کے بانی جابر ابن زید ہیں جابر نے بہت سے صحابہ سے کسب فیض کیا ہے وہ فقہ و حدیث میں مہارت رکھتے تھے انہوں نے حضرت علی علیہ السلام اور ابن عباس و جناب عایشہ سے حدیثیں نقل کی ہیں جابر عمان کے رہنے والے تھے ۔
مذھب اباضیہ تاریخی نشیب و فراز میں ۔
ایک سوبتیس ہجری قمری سے مذھب اباضیہ عمان کا سرکاری مذھب قرارپایا البتہ تاریخ میں یہ ملتاہے کہ اباضیہ 75 سے لیکر 95 ہجری قمری میں سب سے پہلے عمان پہنچے ہیں جب حجاج ابن یوسف نے جابر ابن زید کو عمان کی طرف ملک بدرکیا تھا عاہل عمان کا جابر ابن زید کی دعوت کو قبول کرنے کی وجوہات میں یہ ایک اہم بات ہےکہ وہ خود عمان کے علاقے ازد کے رہنے والے تھے اور ازد ہی عمان کا سب سے بڑا قبیلہ ہے اس کے علاوہ جابر ابن زید کی معتدل آراء و نظریات بھی ان کے مذھب کے پھیلنے میں موثر واقع ہوئي ہیں ۔
اموی دور کے آخر میں اباضی مذھب کے پیرو اپنے مذھب کو مخفی رکھہ کر پہاڑی علاقوں میں زندگی گزارا کرتے تھے یہ لوگ عمرابن عبدالعزیز کو امیرالمومنین کہاکرتے تھے ، عباسی حکمرانوں کے زمانے میں جناح ابن عبادہ اور محمد ابن جناح عمان کے حاکم تھے اور انہو ں نے اباضیہ کو اقتدارتک پہنچانے میں اہم کردار اداکیاہے ۔
اباضی رہنماوں نے برسوں تک خفیہ طور پر تبلیغ کی اور ان ہی کی کوششوں سے اباضیہ مذھب کو ترقی ملی ۔
اباضیہ مذھب کے اماموں کی فہرست حسب ذیل ہے ۔
جلند بن مسعود
محمد بن عبداللہ ابن ابی عفان
وارث ابن کعب خروصی
غسان ابن عبداللہ یحمدی
عبدالمالک ابن حمید
مھنا ابن جیفر
راشد ابن نظر۔
علاقے میں بالخصوص عمان میں سامراجیوں کا وجود اور نویں اور دسویں صدی میں ان کی دینی قیادت کے فقدان سے اس ملک میں مغربی سامراج کا تسلط ہوگیا ۔
اباضیہ کے کلامی نظریات ۔
بعض علماءکا کہنا ہےکہ اباضیہ صرف حکمیت کے بارے میں اور امام کے قرشی ہونے کے مسائل میں دیگرمذاھب سے اختلاف رکھتے ہیں اور دیگر مسائل میں کسی نہ کسی فرقے سے اتفاق رکھتے ہیں چنانچہ صفات خدا ،رویت و تنزیہ تاویل و حدوث قرآن کے بارے میں معتزلہ اور امامیہ سے اتفاق رکھتے ہيں ،شفاعت کے بارے میں اباضیہ کی نظر معتزلہ سے نزدیک ہے ۔
مختلف مذاھب کے ساتھہ اباضیہ کے بعض اختلافات و اتفاقات
اھل سنت و اشاعرہ کے ساتھ ان کے اختلافات
گناہ کبیرہ کے مرتکبین کی شفاعت ممکن ہے
صفات خدا زائد برذات ہیں
گناہ کبیرہ کے مرتکبیں لازمی نہیں ہے کہ دوزخ میں جائيں
بغیر تاویل کے صفات خبریہ کا اثبات ممکن ہے ۔
مومنین قیامت میں خدا کو آنکھوں سے دیکھیں گے ۔
قدریہ اور معتزلہ سے ان امور میں اختلاف رکھتے ہیں ۔
انسان کے افعال میں قدرالھی کی نفی
ارادہ خداوندی افعال قبیح سے متعلق نہیں ہوتا اور یہ کہ گناہ کبیرہ کے مرتکبین کے لۓ ایمان وکفر کے درمیان ایک منزل ہے ۔
ان امور میں قدریہ اور معتزلہ سے موافق ہیں ۔
صفات خدا عین ذات خدا ہيں ،خدا کو آنکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا
مسئلہ امامت میں نص سے انکار ،اثبات استحقاق ثواب براے مومن
اس صورت میں کہ وہ جب بھی گناہ کرے استغفارکرلے ۔
مآخذ
1-الکشف و البیان قلھاتی
2-اللمعۃ المرضیہ من اشعۃ الاباضیہ سالمی ،نورالدین
3 -معجم مصادر الاباضیہ علی اکبرضیائي
4 -الاباضیہ فی المصر والمغرب عبدالحلیم ،رجب محمد
5 -الاباضیہ بین الفرق الاسلامیہ معمر ۔علی یحی
6 –دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی جلد2
7 -مشوھات الاباضیہ بحاز،ابراھیم
رہبر معظم کی ملک کی تینوں قوا اور ملک کے اعلی حکام سے ملاقات ( ۲۰۱۲/۰۷/۲۴)
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حکومت اور اسلامی نظام کے اعلی حکام اور عہدیداروں کے ساتھ ملاقات میں اہداف کے ہمراہ حقیقت پسندی کوحالیہ 32 برسوں میں ایرانی قوم اور اسلامی نظام کی ترقی و پیشرفت کی رمز قراردیا اور ایرانی قوم و اسلامی نظام کی فیصلہ کن توانائیوں اور صلاحیتوں پر تاکید کرتے ہوئے دشمن کے پیچیدہ چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور ضروری اور غیر ضروری امورکے سلسلے میں تفصیل سے روشنی ڈالی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حقیقت پسندی کے ہمراہ اہداف کی ظریف اور حساس ترکیب پر گہری توجہ کو ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: واقیعات کے ہمراہ اہداف کی ترکیب در حقیقت تدبر کے دائرے میں مجاہدانہ حرکت ہے جس کے لئے عوام کو آگاہی فراہم کرنا اور حکام کی تمام میداںوں میں باہمی ہمدردی و ہمدلی اور تعاون ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے آغاز سے ہی قتل ، قومی و لسانی بحران، آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ، مسلمسل اقتصادی پابندیوں ،تیر ماہ 1378 کے واقعات اور سن 1388 میں رونما ہونے والے حوادث اور چیلنجوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کی عظیم صلاحیتوں اور ظرفیتوں کی بدولت اسلامی نظام ان تمام چیلنجوں کے مقابلے میں کامیاب رہا اور دوسرے میں پہلے مرحلے کی نسبت مزید قوی اور مزید مضبوط بن گيا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حقیقت پسندی اور اہداف کے تضاد کےبارے میں بعض افراد کے نظریہ کو رد کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کے بہت سے اہداف عوامی مطالبات کا حصہ ہیں اور اسی وجہ سے وہ معاشرے کے عینی اور مسلم حقائق میں شمار ہوتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قومی عزت و وقار، ایمان سے سرشار زندگی ، ملک کی مدیریت میں شراکت، ہمہ گیر پیشرفت ،اقتصادی و سیاسی استقلال، اور بین الاقوامی سطح پر عزت و عظمت کو عوام کے حقیقی مطالبات میں قراردیتے ہوئے فرمایا: عوام کے یہ مطالبات در حقیقت انقلاب کے اہداف کا حصہ ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت پسندی اور اہداف میں کوئی اختلاف اور منافات نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حقائق پر عدم توجہ اور منطقی اور معقول امورکے بغیر اہداف کو خیال پردازی اور خام و ناقص تصور قراردیتے ہوئے فرمایا: حکام اور اعلی عہدیداروں کو چاہیے کہ وہ اہداف کا منطقی اور معقول طور پر پیچھا کریں تاکہ اہداف صرف نعرے کی حد تک باقی نہ رہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےمعاشرے کے حقائق کو نظر انداز کرنے کو راہ کے انتخاب میں خطا اور فیصلے و قضاوت میں اشتباہ کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: ہمیں حقائق کی بنیاد پر اپنی حرکت کو منظم کرنا چاہیے اور اس راہ میں غلطیوں اور غلطیوں کی جگہوں سے حفاظت بہت ہی اہم مسئلہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حقیقت پسندی کے عنوان کے تحت بعض غلط جگہوں کے بارے میں مزید تشریح فرمائی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: انقلاب اور اسلام کے دشمن عوام اور حکام کو حقیقت اور حقیقت نمائی کے ذریعہ محاسبات او راندازوں میں غلطی اور اشتباہ میں مبتلا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں سامراجی محاذ کو بڑا بنا کر پیش کرنے اور ایرانی قوم کی طاقت و توانائی کو چھوٹا بنا کر پیش کرنے کے سلسلے میں دشمن کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر ہم اس حقیقت میں گرفتار ہوجائیں اور اپنی و دشمن کی طاقت کے درمیان محاسبہ میں خطا کریں تو ہم غلط راستے پر چل پڑیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دنیا کے ساتھ دلبستگی اور نفسانی کمزوریوں کو غلطیوں کا دوسرا مقام قرار دیا جو راہ کے انتخاب اور واقعیات کے محاسبہ کے وقت غلطی اور خطا کا سبب بنتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بغیر قربانی کے اہداف تک پہنچنے کے تصور کو اشتباہ کا ایک دوسرا مقام قراردیتے ہوئے فرمایا: بعض واقعیات پر اعتماد اور تمام واقعی مسائل کو ایکدوسرے کے ساتھ ملا کر نہ دیکھنا بھی ایک غلط مقام اور غلط جگہ ہے جس کے بارے میں ہوشیار رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کے تمام حقائق کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر پیش کرنے کو بہت زيادہ امید افزا قدم قراردیتے ہوئے فرمایا: ان حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ اگر چہ اہداف کی سمت حرکت کرنے میں ہماری قوم کو چیلنجوں کا سامنا ہے لیکن اس راہ میں کوئی تعطل موجود نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمنوں کی طرف سے ایرانی قوم کی راہ میں تعطل پیش کرنے کی کوشش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: وہ صریح اور آشکارا طور پر کہتے ہیں کہ دباؤ اور اقتصادی پابندیوں میں شدت کے ذریعہ ایرانی حکام کو اپنے اندازوں اور محاسبات میں نظر ثانی کرنے پر مجبور کریں لیکن ہم حقائق کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہ صرف اپنے محاسبات میں نظر ثانی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اپنی راہ پر اطمینان کے ساتھ سفربھی جاری رکھنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض موجود واقعیات کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران پر بعض سامراجی طاقتوں کا دباؤ ایک حقیقت ہے اور اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: بعض سامراجی طاقتیں جن کے پاس سیاسی و اقتصادی اور پروپیگنڈہ مشینری موجود ہے وہ اپنے آپ کو عالمی برادری بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن یہ بات حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔
مشہور نیپالی اداکارہ پوجا لاما کا قبول اسلام
نیپال کی سابقہ معروف آرٹسٹ پوجا لاما جنہیں اب آمنہ کے نام سے پکارا جاتا ہے
س: اسلام کی کون سی خصوصیت نے آپ کو قبول اسلام پر آمادہ کیا ؟ ج: میں بودھ خاندان سے تھی، بودھ مت میرے رگ رگ میں سرایت تھا، ایک سال پہلے میرے ذہن میں خیال آیا کہ دوسرے مذاہب کا مطالعہ کیا جائے، ہندو مت، عیسائیت اور اسلام کا تقابلی مطالعہ شروع کیا، اسلام کی جو سب سے بڑی خصوصیت ہے، وہ توحید ہے، ایک اللہ پر ایمان و یقین کا جو مضبوط عقیدہ یہاں دیکھنے کو ملا، وہ کسی اور دھرم میں نہیں مل سکا۔
س: عالمی میڈیا نے اسلام کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے، اسلام کو دہشت کے انداز میں پیش کیا جارہا ہے، کیا آپ اس سے متاثر نہیں ہوئیں؟
ج: اسلام کے خلاف پروپگنڈے نے مجھے اسلام سے قریب کردیا، اس لئے کہ مطالعہ میں اس کے بر عکس پایا، اور اب میں پورے دعوے کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو انسانیت کے مسائل کا عادلانہ و پر امن حل پیش کرتا ہے۔
س: پوجا جی! آپ کا تعلق فلمی دنیا سے رہا ہے، اور آپ ہی سے متعلق میڈیا میں کئی اسکینڈل منظر عام پر آئے، جس سے آپ کو صدمہ لاحق ہوا ، اور ایک مرتبہ آپ نے خودکشی کی ناکام کوشش بھی کی، کچھ بتائیں گی؟
ج: میں نہیں چاہتی تھی کہ میری ذاتی زندگی کے تعلق سے میڈیا تہمت تراشی کرے ، تبصرے شائع کرے ، مجھے بدنام کرے ،میں آپ کو یہ بتادینا ضروری سمجھتی ہوں کہ اب تک میری تین شادیاں ہو چکی ہیں ، مختصر وقفے کے بعد سب سے علیحدگی ہوتی گئی ، پہلے شوہر سے ایک بیٹا ہے جو میری ماں کے ساتھ رہتا ہے، انہی امور کے متعلق میڈیا نے کچھ نا مناسب چیزیں اچھال دیں، جس سے مجھے بے حد تکلیف ہوئی، لوگ مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ شہرت کے لئے میں نے یہ سب کیا، حقیقت یہ ہے کہ میں بد حال تھی خود کشی کرنا چاہتی تھی، مجھے میرے دوستوں نے سنبھالا ، مذہبی کتابوں کے مطالعہ پر اکسایا ، پھر اسلام قبول کیا، میں اپنا ماضی بھول جانا چاہتی ہوں، اس لئے کہ میں اب ایک پرسکون و با وقار زندگی بسر کررہی ہوں۔
س: پوجا جی! قبول اسلام کے بعد آپ کے طرز زندگی میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں ، آپ کے سر پر اسکارف بندھا ہوا ہے، کیا شراب و تمباکو نوشی سے بھی توبہ کر لی ؟
ج: برائے مہربانی مجھے پوجا نہ پکاریں، پوجا میرا ماضی تھا اور اب میں آمنہ ہوں ، قبول اسلام سے پہلے تناؤ بھرے لمحات میں شراب و سگریٹ میرا سہارا تھے، کبھی اس قدر پی لیتی کہ بے ہوش ہوجاتی تھی۔ ڈپریشن کا شکار ہو چکی تھی ، میرے چاروں اور اندھیرا ہی اندھیرا تھا، لیکن قبول اسلام کے بعد سکھ کا سانس لیا ہے، شراب ، سگریٹ سے توبہ کرلی ہے، صرف حلال گوشت ہی کھاتی ہوں۔
س: اسلام نے خواتین کو جسمانی نمائش ، ناچ گانا اور سازو سرود سے روکا ہے، آپ کس حد تک متفق ہیں؟
ج: میرے مسلمان ہونے کے بعد سارے پروڈیوسروں نے مجھ سے ناطہ توڑ لیا ہے، چونکہ سنگیت میرے نس نس میں سمایا ہوا ہے، اس لئے کبھی کبھار تھمیل( کاٹھمانڈو کا پوش علاقہ)کے ایک ریستوران میں گیت گانے چلی جاتی ہوں، برقع (مکمل پردہ) پہننے کی بھی عادت ڈال رہی ہوں، کوشش کروں گی کہ گانے کا سلسلہ بھی ختم ہوجائے۔
س: قبول اسلام کے محرکات کیا تھے؟
ج: چونکہ میرے کئی بودھ ساتھی اسلام قبول کر چکے تھے، جب وہ مجھے پریشان دیکھتے تو اسلام کی طرف رغبت دلاتے، اس کی تعلیمات بتاتے، میں نے مطالعہ شروع کیا، ایک دن مجھے ایک مسلم دوست نے لیکچر دے ڈالا، اس کا ایک جملہ میرے دل میں پیوست ہوگیا کہ کوئی بھی غلط کام انسانوں کے ڈر سے نہیں بلکہ اللہ کے ڈر سے نہیں کرنا چاہئے، چنانچہ اسی وقت اسلام کے دامن میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔
س: قبول اسلام کے بعد آپ کے خاندان کا کیا رد عمل رہا؟
ج: اسلام کو گلے لگانے کے بعد میں نے اپنے خاندان کو اطلاع دی، جو دار جلنگ میں رہتا ہے، میری ماں نے بھر پور تعاون کیا، انہوں نے جب مجھے دیکھا تو پھولے نہیں سمائیں، کہنے لگیں'' واہ بیٹا! تو نے صحیح راہ چنی، تمہیں خوش دیکھ کر مجھے چین مل گیا ہے‘‘۔ میری عادتیں بدل گئی ہیں، اس لئے خاندان کے دوسرے لوگوں نے بھی سراہا۔
س: میڈیا نے شک ظاہر کیا ہے کہ کہیں آپ کسی مسلمان کی محبت میں گرفتار ہیں اور اس سے شادی کے لئے آپ نے اسلام قبول کیا ہے؟
ج: بالکل بے بنیاد خبر، میرے کئی دوست مسلمان ہیں ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں کسی کی محبت میں گرفتار ہوں اور اس سے شادی کے لئے اسلام لائی ہوں ، ہاں اب میں مسلمان ہوں ، لہذا میری شادی بھی کسی مسلمان سے ہی ہوگی ، اور جب اس کا فیصلہ کروں گی تو سب کو پتہ چل جائے گا۔
قبا كي مسجد ( اسلام کی پہلی مسجد)
قبا مدینہ منورہ کے جنوب میں بالائی علاقہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آله و سلم جب ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے قبا میں آباد تھا۔ آپ نے تین دن اس جگہ پر قیام فرماکر اہلِ قبا کی درخواست پر مسجد قبا کی بنیاد ڈالی آپ نے اہلِ قبا کو حکم دیا کہ پتھر جمع کرو اور اپنی چھڑی سے قبلہ کے تعین کےلئے ایک خط کھینچا۔ اور اپنے دستِ مبارک سے ایک پتھر بنیاد میں رکھا۔ پھر صحابہ کرام کو حکم دیا کہ ہر شخص ایک ایک پتھر ترتیب سے رکھے۔ آپ اس مسجد کی تعمیر کےلئے خود پتھر ڈھوتے تھے۔ قرآن کی یہ آیت ترجمہ ”البتہ مسجد وہ ہے جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی“ اسی مسجد قبا کی شان میں نازل ہوئی۔
مسجد قبا صرف عبادت کی ہی جگہ نہیں تھی بلکہ معارف اور احکام اسلام اور تعلیمات دینی اسی مسجد میں بیان ہوتے تھے ان کے علاوہ سیاسی مسائل اور قضاوت و غیرہ بھی یہیں انجام پاتے تھے ۔
مسجد کا ہال کمرہ مستطیل ہے۔ اور اندرون مسجد صحن ہے۔ جس کے اطراف میں دالان ہیں جن کے دروازوں کارخ صحن کی طرف ہے۔ دو منزلہ شمالی حصہ عورتوں کےلئے مخصوص ہے، مردوں اور عورتوں کے داخلے کے دروازے جدا جدا ہیں۔
مسجد پر 56 چھوٹے گنبد ہیں جن کا قطر 6 میٹر ہے، اور چھ بڑے گنبد ہیں جن کا قطر 12 میٹر ہے۔ مسجد کے دروازوں پر آٹھ گنبد ایک دوسرے سے متصل ہیں۔ اور مسجد کے چاروں کونوں پر چار مینار ہیں۔ جو ایک دوسرے کے ہم شکل ہیں۔ اور سطح زمین سے سینتالیس میٹر اونچے ہیں مسجد کی چار دیواری ساڑھے تین میٹر تک گرینا ئٹ پتھر سے تعمیر کی گئی ہے اور صحنِ مسجد میں سنگِ مر مر اور منقش گرینائٹ کا استعمال کیا گیا ہے۔ صحن کو چھپر سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ جو بوقت ضرورت کھولا بند کیا جاسکتا ہے۔ الیکٹرانک ذریعہ سے بوقت ضرورت نمازیوں کو دھوپ کی تمازت سے بچانے کے لئے یہ انتظام مسجد نبوی کے صحن میں بھی چھتریوں کے ذریعے کیا گیا ہے۔
اماموں اور موذنوں کےلئے مشرق کی جانب پانچ مکانات تعمیر کئے گئے ہیں جہاں مختلف انتظامی دفاتر بھی ہیں۔ اس طرح مسجد ومتعلقات کا کل رقبہ13 ہزار500 سو مربع میٹر پر مشتمل ہے اور مسجد کے اندر اور باہر فرش پر بیس ہزار افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ بیرونی فرش کا رقبہ چوبیس سو چوہتر مربع میٹر ہے۔ مسجد کے ارد گرد پارکنگ کا انتظام ہے۔ مردوں کی نماز گاہ 5035 مربع میٹر اور عورتوں کی نماز گاہ 750 مربع میٹر پر مشتمل ہے مردوں کی ضروریات اور وضو خانے 602 مربع میٹر اور عورتوں کےلئے 255 مربع میٹر جگہ رکھی گئی ہے - سمیت مسجد کا کل رقبہ 13500 مربع میٹر ہے۔ اس مسجد کی عمارت میں مختلف حجم کی تینتیس لاکھ اینٹیں استعمال کی گئی ہیں اور چھ ہزار مربع میٹر سنگِ مرمر استعمال کیا گیا ہے۔
امریکی صدر اوبامہ کے بیان پر ہندوستانی سیاسی رہنماؤں کی شدید تنقید/ امریکہ خود معاشی بحران کا شکار
امریکی صدر باراک اوبامہ نے ہندوستانی خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے ساتھ گفتگو میں ہندوستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے سلسلے میں ممنوعیت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان کو بیرونی سرمایہ کاری کی روک اٹھا لینی چاہیے تاکہ ہندوستان کی معاشی صورتحال بہتر ہوسکے۔ اوبامہ کے اس مشورے کو ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ خود معاشی بحران کا شکار ہے اور اوبامہ کو دوسرے ممالک کو درس دینے کے بجائے امریکی معاشی صورتحال کو ٹھیک کرنا چاہیے۔
ہندوستانی ذرائع کے حوالے سے نقل هوا ہے کہ امریکی صدر باراک اوبامہ نے ہندوستانی خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے ساتھ گفتگو میں ہندوستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے سلسلے میں ممنوعیت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان کو بیرونی سرمایہ کاری کی روک اٹھا لینی چاہیے تاکہ ہندوستان کی معاشی صورتحال بہتر ہوسکے۔ اوبامہ کے اس مشورے کو ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ خود معاشی بحران کا شکار ہے اور اوبامہ کو دوسرے ممالک کو درس دینے کے بجائے امریکی معاشی صورتحال کو ٹھیک کرنا چاہیے۔ ہندوستان میں حکمراں محاذ یو پی اے سمیت اپوزیشن جماعتوں نے بھی اوبامہ کے اس بیان پر تنقید کی ہے۔
کانگریس پارٹی کے رہنما اور مرکزی وزیر ہریش راؤت نے کہا ’ہم کسی ملک یا معاشی نظام کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ اپنی معاشی بہتری کے لیے فیصلہ کرتے ہیں۔ آج دنیا میں یہ بات سبھی محسوس کر سکتے ہیں کہ یوروزون جیسے معاشی بحران کے باوجود ہندوستانی معیشت سات فیصد کی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔اپوزیشن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا کہنا ہے کہ خوردہ بازار جیسے شعبوں میں بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت اس لیے نہیں ہونی چاہیے کہ باراک اوبامہ ایسا سوچتے ہیں۔بی جے پی کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ یشونت سنہا کا کہنا تھا: ’اگر اوباما خوردہ بازار میں بیرونی سرمایہ کاری چاہتے ہیں اور ہندوستان اس کے حق میں نہیں ہے تو پھر ان کے چاہنے سے ایسا نہیں ہوسکتا۔
بی جے پی کے ترجمان مختار عباس نقوی نے اوباما کے بیان کو مضحکہ خیز بتایا۔ ’وہ امریکہ جو خود معاشی مندی کا شکار ہو وہ دوسرے ممالک کو سرٹیفکٹ دے تو یہ تو مضحکہ خیز بات ہوئي۔ ہم خود اپنے ملک کے مفاد مطابق فیصلہ کریں گے۔بائیں بازو کی جماعتوں نے بھی امریکی صدر اوبامہ کے بیان پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے ٹھکرا دیا ہے۔
دعا کی تعریف (دعا کسے کہتے ہیں)
تحریر آیة اللہ شیخ محمد مہدی آصفی
دعا یعنی بندے کا خدا سے اپنی حا جتیں طلب کرنا ۔
دعا کی اس تعریف کی اگرتحلیل کی جا ئے تو اس کے مندرجہ ذیل چار رکن ہیں :
١۔مدعو:خدا وند تبارک و تعالیٰ۔
٢۔داعی :بندہ۔
٣۔دعا :بندے کا خدا سے ما نگنا۔
٤۔مدعو لہ:وہ حا جت اور ضرورت جو بندہ خدا وند قدوس سے طلب کر تا ہے ۔
ہم ذیل میں ان چاروں ارکان کی وضاحت کر رہے ہیں :
١۔مدعو : یعنی دعا میں جس کو پکارا جاتا ہے وہ خداوند قدوس کی ذات ہے :
١۔خداوند قدوس غنی مطلق ہے جو آسمان اور زمین کا مالک ہے جیسا کہ ارشاد ہو تا ہے :
(أَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللَّہَ لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ)(١)
''کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان و زمین کی حکو مت صرف اﷲ کیلئے ہے ''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ بقرہ آیت ١٠٧۔
(وَ لِلَّہِ مُلْکُ السَّمَاواتِ وَالْاَرْضِ وَمَابیْنَھُمَایَخْلُقُ مَایَشَا ئُ)(١)
''اور اﷲ ہی کیلئے زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی کل حکو مت ہے ''
٢۔خداوند عالم کا خزانہ جود و عطا سے ختم نہیں ہو تا :
(اِنَّ ھَٰذَالرزْقنَامَالَہُ مِنْ نِفَاد)(٢)
''یہ ہمارا رزق ہے جو ختم ہو نے والا نہیں ہے ''سورئہ ص آیت ٥٤۔
(کُلّاًنُمِدُّ ھٰؤُلَائِ وَھٰؤُلَائِ مِنْ عَطَائِ رَبِّکَ وَمَاکَانَ عَطَائُ رَبِّکَ مَحْظُوراً)(٣)
''ہم آپ کے پر ور دگار کی عطا و بخشش سے اِن کی اور اُن سب کی مدد کر تے ہیں اور آپ کے پر ور دگار کی عطا کسی پر بند نہیں ہے ''
اور دعا ئے افتتاح میں وارد ہو ا ہے :''لَاتَزِیْدُہُ کَثْرَة العَطَائِ اِلَّاجُوْداًوَکَرَماً ''
''اور عطا کی کثرت سوائے جود و کرم کے اور کچھ زیا دہ نہیں کر تی ''
٣۔وہ اپنی ساحت و کبریا ئی میں کو ئی بخل نہیں کر تا ،کسی چیز کے عطا کر نے سے اس کی ملکیت کا دائرہ تنگ نہیں ہو تا ،وہ اپنے بندو ں پر اپنی مر ضی سے جو جو د و کرم کرے اس سے اس کی ملکیت میں کو ئی کمی نہیں آتی اور وہ بندوں کی حا جتوں کو قبول کر نے میں کوئی دریغ نہیں کرتا ۔
اگر کو ئی بندہ اس کو پکا رے تو وہ دعا کو مستجاب کر نے میں کسی چھو ٹے بڑے کا لحاظ نہیں کرتاہے چونکہ خود اسی کا فر مان ہے :(اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ )''مجھ سے دعا کرومیں قبول کرونگا''مگر یہ کہ خود بندہ دعا مستجا ب کرانے کی صلا حیت نہ رکھتا ہو ۔چو نکہ بندہ اس با ت سے آگاہ نہیں ہو تا کہ کو نسی دعا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ ما ئدہ آیت١٧ ۔
(٢)سورئہ ص آیت ٥٤۔
(٣) سورئہ اسرا ء آیت ٢٠۔
قبول ہو نی چا ہئے اور کو نسی دعا قبول نہیں ہو نی چا ہئے فقط خدا وند عالم اس چیز سے واقف ہے کہ بندے کیلئے کونسی دعاقبولیت کی صلاحیت رکھتی ہے اور کو نسی قبولیت کی صلا حیت نہیں رکھتی جیساکہ دعا ئے افتتاح میں آیا ہے :
(وَلَعَلَّ الَّذِیْ اَبْطَأْعَنّیْ ھُوَخَیْرلِیْ لِعِلْمِکَ بِعَاقِبَةِ الْاُمُوْرِ،فَلَمْ اَرَمَوْلیً کَرِیْماًاَصْبِرْعَلَیٰ عَبْدٍلَئِیْمٍ مِنْکَ عَلََّ)
''حالانکہ توجانتا ہے کہ میرے لئے خیر اس تاخیر میںہے اس لئے کہ تو امور کے انجا م سے باخبرہے میں نے تیرے جیساکریم مولا نہیں دیکھا ہے جو مجھ جیسے ذلیل بندے کوبرداشت کرسکے ''
٢۔داعی :(دعا کر نے والا )
بندہ ہر چیز کا محتاج ہے یہا ں تک کہ اپنی حفا ظت کر نے میں بھی وہ اﷲ کا محتا ج ہے ارشاد ہو تا ہے :
(یَٰأَیُّھَاالنَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَائُ اِلَی اللَّہِ وَاللَّہُ ھُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ)(١)
''انسانوں تم سب اﷲ کی بارگاہ کے فقیر ہو اور اﷲ صاحب دو لت اور قابل حمد و ثنا ہے ''
(وَاللَّہُ الغَنُِّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَائُ)(٢)
''خدا سب سے بے نیاز ہے اور تم سب اس کے فقیر اور محتاج ہو ''
انسان کے پاس اپنے فقر سے بہتر اور کو ئی چیز نہیں ہے جو اس کی بار گاہ میں پیش کر سکے۔ اور اﷲ کی بارگاہ میں اپنے کو فقیر بنا کر پیش کر نے سے اس کی رحمتوں کا نزول ہو تا ہے۔
اور جتنا بھی انسان اﷲ کی بارگاہ کا فقیر رہے گا اتنا ہی اﷲ کی رحمت سے قریب رہے گا اور اگر وہ تکبر کر ے گا اور اپنی حا جت و ضرورت کو اس کے سا منے پیش نہیں کر ے گا اتنا ہی وہ رحمت خدا سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ فاطر آیت ١٥
(٢)سورئہ محمد آیت ٣٨۔
دور ہو تا جا ئے گا ۔
٣۔ دعا :(طلب ،چا ہت، مانگنا)
انسان جتنا بھی گڑ گڑا کر دعا ما نگے گا اتنا ہی وہ رحمت خدا سے قریب ہو تا جا ئے گا ۔انسا ن کے مضطر ہو نے کی سب سے ادنیٰ منزل یہ ہے کہ وہ اپنے تمام اختیارات کا مالک خدا کو سمجھے یعنی خدا کے علا وہ کو ئی اس کی دعا قبول نہیں کر سکتا ہے اور مضطر کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے پاس دو سرا کو ئی اختیار نہ رہے یعنی اگر کو ئی اختیار ہے تو وہ صرف اور صرف خدا کا اختیار ہے اور اس کے علا وہ کو ئی اختیار نہیں ہے جب ایسا ہوگا تو انسان اپنے کو اﷲ کی بارگاہ میں نہایت مضطر محسوس کرے گا ۔۔۔اور اسی وقت انسان اﷲ کی رحمت سے بہت زیادہ قریب ہو گا:
(أَ مّنَّ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّاِذَادَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْئَ) (١)
''بھلا وہ کو ن ہے جو مضطر کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ اس کوآوازدیتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کر دیتا ہے ''
مضطر کی دعا اور اﷲ کی طرف سے اس کی قبولیت کے درمیان کو ئی فاصلہ نہیں ہے اور دعا میں اس اضطرار اورچاہت کا مطلب خدا کے علاوہ دنیا اور ما فیہا سے قطع تعلق کر لینا اور صرف اور صرف اسی سے لو لگاناہے اس کے علا وہ غیرخدا سے طلب ا ور دعا نہیںہو سکتی ہے ۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دعا انسان کو کو شش اور عمل کر نے سے بے نیاز کر دیتی ہے ،جس طرح کوشش اور عمل، دعا کر نے والے کو اﷲ سے دعا کرنے سے بے نیاز نہیں کر تے ہیں۔
٤۔مد عوّلہ ( جس کے لئے یاجو طلب کیا جا ئے؟ )
انسا ن کو خدا وند قدوس سے اپنی چھو ٹی سے چھو ٹی اور بڑی سے بڑی تمام جا جتیں طلب کر نا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ النمل آیت ٦٢۔
چاہئیں خدا اس کی حا جتوں کو پورا کر نے سے عا جز نہیں ہو تا اور نہ اس کے ملک و سلطنت میں کو ئی کمی آتی ہے ،اور نہ ہی بخل اس کی ساحتِ کبریا ئی سے ساز گار ہے ۔
انسا ن کیلئے خدا وند عالم سے اپنی چھو ٹی سے چھوٹی حاجت طلب کر نے میں بھی کو ئی حرج نہیں ہے (یہاں تک کہ وہ اپنے لئے جوتی ،جانوروں کیلئے چارا اور اپنے آٹے کیلئے نمک بھی ما نگ سکتا ہے ) جیسا کہ روایت میں وارد ہوا ہے کہ خدا وند عالم چھوٹی بڑی حا جتوں کو پورا کر کے اپنے بندے کو ہمیشہ اپنے سے لو لگانے کو دوست رکھتا ہے ۔نہ چھوٹی دعا ئیں، اور نہ ہی بڑی حاجتیں ہو نے کی وجہ سے خداوند عالم اپنے اور بندوں کے درمیان پردہ ڈالتا ہے ۔خدا وند عالم تو ہمیشہ اپنے بندوں کی چھو ٹی اور بڑی تمام حاجتوں کو پورا کر تا ہے اور اپنے بندے کے دل کو ہر حال میں اپنی طرف متوجہ کرنا چا ہتا ہے ۔
انسان اور خدا کے درمیان دعا اور حاجت کے مثل کوئی چیز واسطہ نہیں بن سکتی ہے ۔دعا کے یہی چار ارکان ہیں ۔
دعاکی قدر و قیمت
(وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِ نَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ )(١)
''اور تمہا رے پر ور دگار کا ارشاد ہے مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا اور یقیناً جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ''
دعا یعنی بندے کا اپنے کو اﷲ کے سامنے پیش کرنا اور یہی پیش کرنا ہی روح عبادت ہے اور عبادت انسان کی غرض خلقت ہے۔
یہی تینوں باتیں ہما ری دعاؤں کی قدر وقیمت کو مجسم کر تی ہیں ،دعا کی حقیقت کو واضح کرتی
(١) سورئہ مومن آیت ٦٠۔
ہیں ،ہم اپنی بحث کا آغاز تیسری بات سے کر تے ہیں اس کے بعد دوسرے مطلب کو بیان کر نے کے بعد پھر پہلی بات بیان کریں گے ۔
قرآن کریم نے صاف طور پر یہ بیان کیا ہے کہ انسان کی پیدائش کا مقصد عبادت ہے خداوند عالم کا ارشاد ہے :
(وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّالِیَعْبُدُوْنِ)(١)
''اور میں نے جن و انس کو نہیں پیدا کیا مگراپنی عبادت کے لئے ''
اسی آخری نقطہ کی دین اسلام میں بڑی اہمیت ہے ۔
اور عبادت کی قدروقیمت یہ ہے کہ یہ انسان کو اسکے رب سے مربوط کر دیتی ہے ۔
عبادت میں اﷲ سے قصد قربت اس کے محقق ہو نے کیلئے اصلی اور جوہر ی امر ہے اور بغیر جو ہر کے عبا دت ،عبادت نہیں ہے ،عبادت اصل میں اﷲ کی طرف حرکت ہے،اپنے کو اﷲ کی بارگاہ میں پیش کر نا ہے۔
اور یہ دوسری حقیقت پہلی حقیقت کی وضا حت کر تی ہے ۔
اور پہلی حقیقت انسان کا اﷲ کی طرف متوجہ ہونا اﷲ سے براہ راست مستحکم رابطہ ہے ۔۔اور عبادات میں دعا کے علاوہ کو ئی عبادت ایسی نہیں ہے جو اس سے زیادہ انسان کو اﷲ سے قریب کرسکتی ہو
سیف تمار سے مر وی ہے :میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ فر ما تے سنا ہے:
(علیکم بالدعاء فانکم لاتتقربون بمثلہ)(١)
''تم دعا کیا کرو خدا سے قریب کر نے میں اس سے بہتر کو ئی چیز نہیں ہے ''
جب بھی انسان کی حا جت اﷲ کی طرف عظیم ہوگی اور وہ اﷲ کا زیادہ محتاج ہوگا اور اس کی طرف وہ زیادہ مضطرہوگاتووہ اتناہی دعاکے ذریعہ اﷲکی طرف زیادہ متوجہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) سورئہ ذاریات آیت ٥٦۔
(٢)بحار الا نوار جلد ٩٣ صفحہ ٢٩٣۔
انسان کے اندر اﷲ کی نسبت زیادہ محتاجی کا احساس اور اس کی طرف زیادہ مضطر ہو نے اور دعا کے ذریعہ اس کی بارگاہ میں ہو نے کے درمیان رابطہ طبیعی ہے ۔بیشک ضرورت اور اضطرار کے وقت انسان اﷲ کی پناہ ما نگتا ہے جتنی زیادہ ضرورت ہو گی اتنا ہی انسان اﷲ کی طرف متوجہ ہوگا اور اس
کے بر عکس بھی ایسا ہی ہے یعنی جتنا انسان اپنے کو بے نیاز محسوس کرے گا خدا سے دور ہو تا جا ئیگا۔
اﷲ تعالیٰ فر ماتا ہے :
(کَلَّااِنَّ الِانْسَانَ لَیَطْغیٰ٭اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنیٰ)(١)
''بیشک انسان سر کشی کرتا ہے جب وہ اپنے کو بے نیاز خیال کرتا ہے ''
بیشک انسان جتنا اپنے کو غنی سمجھتا ہے اتنا ہی وہ اﷲ سے روگردانی کرتا ہے اور سرکشی کرتا ہے اور جتنا اپنے کو فقیر محسوس کرتا ہے اتنا ہی اﷲ سے لو لگاتا ہے ۔قرآن کی تعبیر بہت دقیق ہے :
(أَنْ رَاٰہُ اسْتَغْنیٰ)انسان اﷲ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا بلکہ انسان اﷲ کا محتاج ہے :
(یَااَیُّھاالنَّاسُ اَنْتُمْ الْفُقَرَائُ اِلَی اﷲِ وَاﷲُ ھُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ)(٢)
''انسانوں تم سب اﷲ کی بارگاہ کے فقیر ہو اور اﷲ صاحب دو لت اور قابل حمد و ثنا ہے ''
لیکن انسان اپنے کو مستغنی سمجھتا ہے ،انسان کا غرور صرف خیالی ہے ۔
جب انسان اپنے کو اﷲ سے بے نیاز دیکھتا ہے تو اس سے روگردانی کر تا ہے اور سرکش ہوجاتا ہے ۔
جب اس کو نقصان پہنچتا ہے اور اﷲ کی طرف اپنے مضطر ہو نے کا احساس کر تا ہے تو پلٹ جاتا ہے اور خدا کے سا منے سر جھکا دیتا ہے ۔
معلوم ہوا کہ اﷲ کے سامنے سر جھکا دینے کا نام حقیقت دعا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) سورئہ علق آیت ٦۔٧۔
(٢)سورئہ فاطر آیت ١٥۔
جو اﷲ سے دعا کر تا ہے اور اس کے سا منے گڑگڑاتا ہے تو اﷲ بھی اس کی دعا قبول کر تا ہے ۔
اﷲ کی طرف متوجہ ہونا اور اس سے لو لگانا ہی دعا کی حقیقت، اسکا جوہر اور اس کی قیمت ہے۔
قرآن کریم میںخدا کی بارگاہ میں حاضری کے چار مرحلے
خدا وند عالم نے اپنی بارگاہ میں حاضری کیلئے اپنے بندوں کے سامنے چار راستے رکھے ہیںجن میں دعا سب سے اہم راستہ ہے ان چاروں راستوں کا قر آن و سنت میں تذکرہ ہے ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :انسان کے لئے چار چیزیں انجام دینا اس کے حق میں مفید ہے اور اس میں اس کا کو ئی نقصان نہیں ہے :ایک ایمان اور دوسرے شکر ،خدا وند عالم ارشاد فر ماتا ہے :
(مَایَفْعَل اﷲُ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ )(١)
''خدا تم پر عذاب کر کے کیا کرے گا اگر تم اس کے شکر گزار اور صاحب ایمان بن جا ؤ''
تیسرے استغفار خداوند عالم ارشاد فر ماتا ہے :
(وَمَاکَانَ اﷲُ لِیُعَذِّ بَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ وَمَاکَانَ اﷲُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ) (٢)
''حا لانکہ اﷲ ان پر اس وقت تک عذاب نہیں کرے گا جب تک ''پیغمبر ''آپ ان کے درمیان ہیں اور خدا ان پر عذاب کر نے والا نہیں ہے اگر یہ توبہ اور استغفار کر نے والے ہو جا ئیں ''
چوتھے دعا، خدا وند عالم کا ارشاد ہے :
(قُلْ مَایَعْبَؤُابِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَادُعَاؤُکُمْ )(٣)
''پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعا ئیں نہ ہو تیں تو پرور دگار تمہاری پروا ہ بھی نہ کرتا ''
معاویہ بن وہب نے حضرت امام جعفر صادق سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایاہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ نساء آیت١٤٧۔
(٢)سورئہ انفال آیت ٣٣۔
(٣)سورئہ فرقان آیت ٧٧،بحار الا نوار جلد ٩٣صفحہ ٢٩١۔
''یامعاویة !من اُعطیَ ثلاثة لم یُحرم ثلاثة:من اُعطی الدعاء اُعطی الاجابة،ومن اُعطی الشکراُعطی الزیادة،ومن اُعطی التوکل اُعطی الکفایة :فانّ اللّٰہ تعالیٰ یقول فی کتابہ:(وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلی اﷲِ فَھُوَحَسْبُہ )(١)
ویقول:(لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَ نَّکُمْ )(٢)
ویقول:(اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ )(٣)
''اے معا ویہ !جس کو تین چیزیں عطا کی گئیں وہ تین چیزوں سے محروم نہیں ہوگا :جس کو دعا عطا کی گئی وہ قبول بھی کی جا ئیگی ،جس کو شکر عطا کیا گیا اس کے رزق میں برکت بھی ہو گی اور جس کو توکل عطا کیا گیا وہ اس کے لئے کا فی ہو گا اس لئے کہ خدا وند عالم قر آن کریم میں ارشاد فر ماتا ہے :
(وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلی اﷲِ فَھُوَحَسْبُہ )
''اور جو خدا پر بھروسہ کر ے گا خدا اس کے لئے کا فی ہے ''
(لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَ نَّکُمْ )
''اگر تم ہمارا شکریہ ادا کروگے تو ہم نعمتوں میں اضافہ کر دیں گے''
(اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ )
''اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا ''
عبد اﷲ بن ولید وصافی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ کا فرمان ہے :
''ثلاث لایضرمعھن شیٔ:الدعاء عند الکربات،والاستغفارعندالذنب،و ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) سورئہ طلاق آیت٣۔
(٢) سورئہ ابراہیم آیت٧۔
(٣) سورئہ غافر آیت٦٠،خصال صدوق جلد ١ صفحہ ٥٠،المحاسن للبرقی صفحہ ٣،الکافی جلد ٢ صفحہ ٦٥۔
الشکرعندالنعمة''(١)
''تین چیزوں کے ساتھ کوئی چیزضرر نہیں پہنچا سکتی ہے :بے چینی میں دعا کرنا ،گناہ کے وقت استغفار کرنا اور نعمت کے وقت خدا کا شکر ادا کرنا ''
اﷲ سے لو لگانے کے یہی ذرائع ہیں اور اﷲ سے لو لگانے کے بہت زیادہ ذرائع ہیں جیسے توبہ، خوف و خشیت ،اﷲ سے محبت اور شوق ،امید ،شکر اور استغفار وغیرہ۔
انسان پر اﷲ سے لو لگانے کے لئے اس طرح کے مختلف راستوں کااختیار کرنا ضروری ہے اور اسلام خدا سے رابطہ رکھنے کے لئے صرف ایک راستہ ہی کو کافی نہیں جانتاہے ۔
خدا سے رابطہ کرنے اور اس کی بارگاہ میں اپنے کو پیش کر نے کا سب سے اہم وسیلہ دعا ہے
کیونکہ فقر اور نیاز مندوں سے زیادہ اور کو ئی چیز انسان کو خدا کی طرف نہیں پہونچا سکتی ہے
پس دعا خدا وند عالم سے رابطے اور لو لگا نے کا سب سے وسیع باب ہے ۔
حضرت امام زین العا بدین علیہ السلام فر ما تے ہیں :
(الحمدﷲالذی اُنادیہ کلماشئت لحاجت واخلوبہ حیث شئت لسّر بغیرشفیع فیقض ل حاجت)
''تمام تعریفیں اس خدا کیلئے ہیں جس کو میں آواز دیتا ہوں جب اپنی حا جتیں چا ہتا ہوں اور جس کے ساتھ خلوت کرتا ہوں جب جب اپنے لئے کو ئی رازدار چا ہتا ہوں یعنی سفارش کرنے والے کی حاجت کو پوری کرتا ہے ''
دعا ،روح عبادت ہے
دعا عبادت کی روح ہے ؛انسان کی خلقت کی غرض عبادت ہے ؛اور عبادت کر نے کی غرض
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
أمالی شیخ طوسی صفحہ ١٢٧۔
خدا وند عالم سے شدید رابطہ کرنا ہے ؛اوریہ رابطہ دعا کے ذریعہ ہی محقق ہوتا ہے اور اس کے وسائل وسیع اور قوی ہوتے ہیں :
حضرت رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
(الدعاء مخ العبادة ؛ولایھلک مع الدعاء احد )(١)
دعا عبادت کی روح ہے اور دعا کر نے سے کو ئی بھی ہلاک نہیں ہوتا ہے ''
اور یہ بھی رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہی کا فر مان ہے :
(افزعواالی اللّٰہ فی حوائجکم،والجأواالیہ فی ملمّاتکم،وتضرّعوا الیہ،وادعوہ؛فنّ الدعاء مخ العبادة ومامن مؤمن یدعوااللّٰہ الّااستجاب،فمّاان یُعجّلہ لہ فی الدنیاأویُؤجّل لہ فی الآخرة ،واِمّاأَن یُکفّرعنہ من ذنوبہ بقدرمادعا؛ما لم یدع بمأثم )(٢)
تم خدا کی بارگاہ میں اپنی حا جتوں کو نالہ و فریاد کے ذریعہ پیش کرو ،مشکلوں میں اسی کی پناہ مانگو،اس کے سامنے گڑگڑاؤ،اسی سے دعا کرو ،بیشک دعا عبادت کی روح ہے اور کسی مومن نے دعا نہیں کی مگر یہ کہ اس کی دعا ضرور قبول ہو ئی ،یا تو اسکی دنیا ہی میں جلدی دعا قبول کر لیتا ہے یا اس کو آخرت میں قبول کرے گا،یا بندہ جتنی دعاکرتاہے اتنی مقدارمیںہی اسکے گناہوںکوختم کردیتا ہے۔
گویا روایت ہم کو خدا وند عالم سے دعا کرنے اور ہم کو اس کی بارگاہ میں پیش ہو نے کا طریقہ سکھاتی ہیں ۔
ان فقرات :(افزعواالی اﷲفی حوائجکم )''اپنی حا جتیں خدا کی بارگاہ میں پیش کرو ''(والجاؤاالیہ فی ملمّاتکم)''مشکلوں میں اسی کی پناہ مانگو''(وتضرّعواالیہ)''اسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحارالانوار جلد ٩٣صفحہ ٣٠٠۔
(٢)بحارالانوار جلد ٩٣صفحہ ٣٠٢۔
کی بارگاہ میں گڑگڑاؤ''کے سلسلہ میں غور وفکر کریں ۔
اور دوسری روایت میں حضرت رسول خدا فر ماتے ہیں :
(الدعاء سلاح المؤمن وعمادالدین )(١)
''دعا مو من کا ہتھیار اور دین کا ستون ہے ''
بیشک دعا دین کا ستون ہے اور اس کا مطلب اﷲ کی طرف حرکت کرنا ہے اور اﷲ کی بارگاہ میں اپنے کو پیش کرنے کا نام دعا ہے ۔
اور جب اپنے کو خدا وند عالم کی بارگاہ میں پیش کر نے کا نام دعا ہے تو دعا خدا وندعالم کے نزدیک سب سے محبوب اور سب سے اکرم چیز ہے ۔
حضرت رسول خدا ۖ فرما تے ہیں :
(مامن شی ء اکرم علیٰ اللّٰہ تعالیٰ من الدعاء )(٢)
''خدا وند عالم کے نزدیک سب سے اکرم چیز دعا ہے ''
حنان بن سدیر اپنے پدر بزرگوار سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام محمد باقر کی خدمت اقدس میں عرض کیا :
''ای العبادةافضل؟فقال:''مامن شیٔ أحبّ الیٰ اللّٰہ من أن یُسأل ویُطلب مماعندہ،ومااحدابغض الیٰ اللّٰہ عزّوجلّ ممن یستکبرعن عبادتہ ولایسأل مما عندہ'' ( ٣)
''کونسی عبادت سب سے افضل ہے ؟تو آپ (امام )نے فرمایا: خدا وند عالم کے نزدیک سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اس سے سوال کیا جائے اور خدا وند عالم کے نزدیک سب سے مبغوض ترین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحارالانوار جلد ٩٣صفحہ ٢٨٨۔
(٢)مکارم الاخلاق صفحہ ٣١١۔
(٣)مکارم الاخلاق صفحہ ٣١١۔اور محاسن بر قی صفحہ ٢٩٢۔
شخص وہ ہے جو عبادت کرنے پر غرور کرتا ہے اور خداوند عالم سے کچھ طلب نہیں کرتا ''
بدھ کے دن پڑھی جانے والی دعا میں حضرت امیر المو منین علیہ السلام فر ما تے ہیں :
(الحمدﷲالذی مرضاتہ فی الطلب الیہ،والتماس مالدیہ وسخطہ فی ترک الالحاح فی المسألة علیہ)(١)
دعا ء کمیل میں فر ما تے ہیں :
''فَاِنَّکَ قَضَیْتَ عَلٰی عِبَادِکَ بِعِبَادَتِکَ وَاَمَرْتَھُمْ بِدُعَائِکَ وَضَمِنْتَ لَھُمُ الِاجَابَة،فَاِلَیْکَ یَارَبِّ نَصَبْتُ وَجْھِیْ وَاِلَیْکَ یَارَبِّ مَدَدْتُ یَدِیْ۔۔۔''
''اس لئے کہ تو نے اپنے بندوں کے با رے میں طے کیا ہے کہ وہ تیری عبادت کریں اور تو نے اپنے سے دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور تو اس کے قبول کرنے کا ضامن ہے پس اے خدا !میں نے تیری ہی طرف لو لگا ئی ہے اور اے پروردگار تیری ہی جانب اپنے ہاتھ پھیلائے ہیں ''
دعا سے رو گردانی ، خدا وندعالم سے روگردانی ہے
خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :
(وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ)(٢)
''اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا اور یقیناً جو میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ''
اس آیۂ کریمہ میں عبادت سے استکبار کرنا دعا سے روگردانی کرنا ہے ،پس سیاق آیت دعا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)دعا یوم الاربعائ۔
(٢)سورئہ مومن آیت٦٠۔
کر نے کی دعوت دے رہا ہے ۔خداوند عالم فر ماتا ہے :
(اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ )
''مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا''
اور اس کے بعد فوراً فرماتا ہے :
(اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ)(١)
''اور یقیناجو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ''۔
اس آیۂ کریمہ میں دعا سے اعراض کرنا عبادت نہ کرنے کے مترادف ہے اس لئے کہ یہ اﷲ سے روگردانی کرنا ہے ۔
اور اس آیت کی تفسیر میں یہی معنی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کئے گئے ہیں :
(ھی واﷲ العبادة،ھی واﷲ العبادة)
''خدا کی قسم یہی عبا دت ہے ،خدا کی قسم یہی عبا دت ہے ''۔
حماد بن عیسیٰ نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے :
''انّ الدعاء ھوالعبادة؛انّ اللّٰہ عزّوجلّ یقول:( اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ)(٢)
''بیشک دعا سے مراد عبادت ہے اور خداوند عالم فرماتا ہے :( اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ)
''اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا اور یقیناً جولوگ میری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ مومن آیت٦٠۔
(٢) وسا ئل الشیعہ جلد ٤ صفحہ ١٠٨٣۔
عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ''
اور اﷲ کے نزدیک دعا اور دعا کی مقدار کے علاوہ انسان کی کو ئی قیمت و ارزش نہیں ہے اور خدا وند عالم اپنے بندے کی اتنی ہی پروا ہ کرتا ہے جتنی وہ دعا کرتا ہے اور اس کو قبول کرتا ہے :
(قُلْ مَایَعْبَؤُابِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَادُعَاؤُکُمْ )(١)
''پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہو تیں تو پرور دگار تمہاری پر وا بھی نہ کرتا ''
بیشک دعا خداوند عالم کی بارگاہ میں اپنے کو پیش کر نے کے مساوی ہے جیسا کہ دعا سے اعراض(منھ موڑنا) کرنا اﷲ سے اعراض کرنا ہے ۔
اور جو اﷲ سے منھ مو ڑتا ہے تو خدا وند عالم بھی اس کی پرواہ نہیں کرتا ،اور نہ ہی اﷲ کے نزدیک اس کی کوئی قدر و قیمت ہے ۔
حضرت امام باقر علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں :
(ومااحد ابغض الی اﷲعزّوجلّ ممن یستکبرعن عبادتہ،ولایسأل ما عندہ)(٢)
حضرت رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے :
(لتسألنَّ اﷲ أولیغضبنّ علیکم،انّﷲعبادایعملون فیعطیھم ،وآخرین یسألُونہ صادقین فیعطیھم ثم یجمعھُم فی الجنة،فیقول الذین عملوا:ربناعملنا فاعطیتنا،فبمااعطیت ھؤلائ؟فیقول:ھؤلاء عباد اعطیتکم اجورکم ولم التکم من اعمالکم شیئا،وسألن ھؤلاء فاعطیتھم واغنیتھم،وھوفضل اوتیہ مَنْ أشائ) (٣)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ فرقان آیت٦٠
(٢)وسائل الشیعہ جلد ٤ :صفحہ ١٠٨٤،حدیث ٨٦٠٤۔
(٣) وسا ئل الشیعہ جلد ٤ :صفحہ ١٠٨٤حدیث ٨٦٠٩۔
بیشک اﷲ اپنے بندے کی دعا کا مشتاق ہے
جب بندہ خداوند عالم کی بارگاہ میں دعا کیلئے حاضرہوتا ہے تو اﷲ اس سے محبت کرتا ہے ۔
اور جب بندہ اﷲ سے روگردانی کرتا ہے تو خدا بھی اسے پسندنہیں کرتا ہے ۔
کبھی کبھی خدا وند عالم اپنے مومن بندے کی دعا مستجاب کرنے میں اس لئے دیر لگا دیتا ہے تاکہ وہ دیر تک اس کی بارگاہ میں کھڑا رہے اوراس سے دعا کرکے گڑگڑاتا رہے۔کیونکہ اسے اپنے بندے کا گڑگڑانابھی پسند ہے اسی لئے وہ دعا اور مناجات کا مشتاق رہتا ہے ۔
عالم آل محمد یعنی امام رضا علیہ السلام سے مروی ہے :
(انّ اللّٰہ عزّوجلّ لیؤخّراجابة المؤمن شوقاًالیٰ دعائہ ویقول:صوتاً احبّ أن اسمعہ۔ویعجّل جابة دعاء المنافق،ویقول:صوتاً اکرہ سماعہ)(١)
''خداوند عالم مومن کی دعا کے شوق میں اس کی دعاکودیر سے مستجاب کرتاہے اور کہتا ہے : مجھے یہ آواز پسندہے اورمنافق کی دعاجلدقبول کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ مجھے اس کی آواز پسند نہیں ''
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(أکثروا من أن تدعوااللّٰہ،فنّ اللّٰہ یحبّ من عبادہ المؤمنین أن یدعوہ، وقد وعد عبادہ المؤمنین الاستجابة)(٢)
''تم خدا وند عالم سے بہت زیادہ دعائیں کرو بیشک اﷲ کویہ پسند ہے کہ اس کے مومن بندے اس سے دعائیں کریں اور اس نے اپنے مومن بندوں کی دعا قبول کر نے کا وعدہ کیا ہے''
حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے مروی ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحارالانوار جلد ٩٧صفحہ ٢٩٦۔
(٢)وسائل الشیعہ جلد ٤:صفحہ ١٠٨٦،حدیث ٨٦١٦۔
(احبّ الأعمال لیٰ اللّٰہ عزّوجلّ فی الأرض:الدعاء )(١)
''زمین پر اﷲ کا سب سے پسندیدہ عمل:دعا ہے ''
حضرت امام محمدباقر علیہ السلام سے مروی ہے :
(نّ المؤمن یسأل اللّٰہ عزّوجلّ حاجة فیؤخرعنہ تعجیل اجابتہ حّباً لصوتہ واستماع نحیبہ )(٢)
''بیشک جب کوئی مومن اﷲ عز و جل سے کو ئی سوال کرتا ہے تو خدا وندعالم اس مومن کی دعا کی قبولیت میں اس کی آوازکو دوست رکھنے اور سننے کی خاطرتاخیر کرتا ہے ''
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(انّ العبد لید عوفیقول اﷲ عزّوجلّ للملکین:قداستجبت لہ،ولکن احبسوہ بحاجتہ،فانّی اُحبّ ان اسمع صوتہ،وانّ العبدلیدعوفیقول اﷲ تبارک وتعالیٰ:عجلوا لہ حاجتہ فانی ابغض صوتہ)(٣)
''جب ایک بندہ خدا وند عز وجل سے دعا مانگتا ہے تو خداوند عالم دو فرشتوں سے کہتا ہے: میں نے اس کی دعا قبول کر لی ہے لیکن تم اس کواس کی حاجت کے ساتھ قید کرلو ،چونکہ مجھے اس کی آواز پسند ہے ،اور جب ایک بندہ دعا کرتا ہے تو خداوندعالم کہتا ہے :اس کی حاجت روا ئی میں جلدی کرو چونکہ مجھے اس کی آواز پسندنہیں ہے ''
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(انّ العبد الولی ﷲ لیدعواﷲ عزّوجلّ فی الامرینوبہ،فیُقال للملک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)وسائل الشیعہ جلد ٤صفحہ ١٠٨٩،حدیث ٨٦٣٩۔
(٢)قرب الاسناد صفحہ ١٧١،اصول کافی صفحہ ٥٢٦۔
(٣)وسائل الشیعہ جلد ٤صفحہ ١١١٢،حدیث ٨٧٣١،اصول کافی جلد٢،صفحہ ٥٢٦۔
الموکل بہ:اقض لعبد حاجتہ،ولاتُعجّلھافانّ اشتھی ان اسمع صوتہ ونداء ہ وانّ العبدالعدوﷲ عزّوجلّ یدعواﷲ عزّوجلّ فی الامرینوبہ،فیُقال للملک الموکل بہ:اقض حاجتہ،وعجّلھافانّ اکرہ ان اسمع صوتہ وندائہ )(١)
''اﷲ کو دوست رکھنے والا بندہ دعا کرتے وقت اﷲ کو اپنے امر میں اپنا نائب بنا دیتا ہے تو خدا وندعالم اس بندے پر موکل فرشتو ں سے کہتا ہے :میرے اس بندے کی حاجت قبول کرلو مگر اسے پوری کرنے میں ابھی جلدی نہ کرنا چونکہ میں اس کی آواز سننے کو دوست رکھتا ہوں اورجب اﷲکا دشمن بندہ اﷲ سے دعا کرتے وقت اس کو اپنے کسی کام میںاپنا نائب بنانا چاہتا ہے تو خدا وند عالم اس بندے پر مو کل فرشتوں سے کہتا ہے اس کی حاجت کو پورا کرنے میں جلدی کرو اس لئے کہ میں اس کی آواز سننا پسندنہیں کرتا ہوں ''
خداوند عالم کو ہر گز یہ پسند نہیں ہے کہ اس کے بندے ایک دوسرے سے سوال کریں بلکہ اگروہ اپنی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائیںتواس کو یہی پسند ہے لیکن اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنی بارگاہ میں مومنین کے سوال کوپسندکرتا ہے اور اپنے سامنے ان کے گریہ و زاری اور دعا کرنے کو پسند کرتا ہے ۔
حضرت رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
(انّ اﷲ احبّ شیئاًلنفسہ وابغضہ لخلقہ،ابغض لخلقہ المسألة،واحبّ لنفسہ ان یُسأل،ولیس شیء احبّ الیٰ اﷲ عزّوجلّ من ان یُسأل،فلایستح احدکم من ان یسأل اﷲ من فضلہ،ولوشسع نعل )(٢)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)اصول کافی جلد٢صفحہ ٥٢٧،وسائل الشیعہ جلد ٤صفحہ ١١١٢،حدیث ٨٧٣٢۔
(٢)فرو ع الکافی جلد ١ صفحہ ١٩٦،من لا یحضر ہ الفقیہ جلد ١ صفحہ ٢٣۔
''خدا وند عالم ایک چیز اپنے لئے پسندکرتا ہے لیکن اس کو مخلوق کیلئے پسند نہیں کرتا ،وہ اپنے لئے اس بات کو دوست رکھتا ہے کہ اس سے سوال کیا جائے اور اﷲ کے نزدیک اس سے سوال کر نے کے علا وہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے پس تم میں سے کو ئی اﷲ سے اس کے فضل کاسوال کرنے میں شرم نہ کرے اگر چہ وہ جو تے کے تسمے کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو ''
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(انّ اللّٰہ یحبّ العبد أن یطلب الیہ ف الجرم العظیم،ویبغض العبد أن یستخفّ بالجرم الیسیر )(١)
''اﷲ بندے کی اس بات کو پسندکرتا ہے کہ وہ اس کو بڑے جرم میں پکارے اور اس بات سے ناراض ہو تا ہے کہ وہ اس کو چھوٹے جرم میںنہ پکارے''
محمد بن عجلان سے مروی ہے کہ :(اصابتن فاقة شدیدة واضاقة،ولاصدیق لمضیق ولزمن دین ثقیل وعظیم ،یلحّ ف المطالبة،فتوجّھت نحودارالحسن بن زید۔وھویومئذأمیرالمدینة۔لمعرفة کانت بینی وبینہ،وشعربذلک من حال محمد بن عبد اللّٰہ بن عل بن الحسین علیہ السلام،وکان بینی وبینہ قدیم معرفة،فلقینی فی الطریق فأخذ بید وقال:قد بلغن ماأنت بسبیلہ،فمن تؤمّل لکشف مانزل بک؟
قلت:الحسن بن زید۔فقال اذن لایقض حاجتک،ولاتسعف بطلبتک، فعلیک بمن یقدرعلی ذلک،وھواجودالاجودین،فالتمس ماتؤمّلہ من قبلہ،فنّ سمعت ابن عم جعفربن محمد یُحدّث عن ابیہ،عن جدہ،عن ابیہ الحسین بن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)المحا سن للبرقی صفحہ ٢٩٣،بحارالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٢٩٢۔
عل،عن ابیہ عل بن ابیطالب علیہ السلام عن النب ۖقال:اوحیٰ اللّٰہ الیٰ بعض انبیائہ فی بعض وحیہ:وعزّت وجلال لأقطعن أمل کل آمل امّل غیر بالیاس،ولأکسونّہ ثوب المذلّة فی الناس،ولأبعدنّہ من فَرَجِ وفضلی،أیأمل عبد فی الشدائدغیر والشدائدبید؟ویرجو سوا واناالغن الجواد؟بید مفاتیح الابواب وھی مغلقة،وباب مفتوح لمن دعان۔
الم تعلمواانّ من دھاہ نائبة لم یملک کشفھاعنہ غیری،فمالی أراہ یأملہ معرضا عن وقد اعطیتہ بجود وکرم مالم یسألن؟
فأعْرَضَ عن،ولم یسألن،وسأل فی نائبتہ غیر،وأنااللّٰہ ابتدیٔ بالعطیة قبل المسألة ۔
أفاُسأل فلا أجُوَد؟کلّا۔ألیس الجود والکرم ل ؟ألیس الدنیاوالآخرة بید؟فلوانّ اھل سبع سماوات وارضین سألون جمیعاواعطیت کل واحد منھم مسألتہ مانقص ذلک من ملک مثل جناح البعوضة،وکیف ینقص مُلْک أناقیّمہ فیابؤسا لمن عصان،ولم یراقبن۔
فقلت لہ:یابن رسول اللّٰہ،أعدعلّھذاالحدیث،فأعادہ ثلاثاً،فقلت:لا واللّٰہ ماسألت احدا بعدھاحاجة ۔فمالبث أن جائَ ن اللّٰہ برزق من عندہ )(١)
''میں شدید فقر و فاقہ کی زندگی گزار رہا تھا، میری تنگدستی کو دور کرنے والا بھی کو ئی میرا ساتھی نہیں تھا اور مجھ پر دین کی اطاعت بڑی مشکل ہو گئی تھی اور میں اپنی ضروریات زندگی کیلئے چیخ اور چلارہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحار الانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٠٣۔٣٠٤۔
تھاتو میںنے اس وقت اپنا وظیفہ معلوم کر نے کے لئے حسن بن زید (جو اس وقت مدینہ کے امیر وحاکم تھے) کے گھر کا رخ کیا اور ان تک میرے حالات کی خبر میرے قدیمی ہمنشین محمد بن عبد اﷲ بن علی بن الحسین علیہ السلام نے پہنچا ئی ،میری ان سے راستہ میں ملاقات ہوئی تو انھوں نے میرا ہاتھ پکڑکر کہا :مجھ کو تمہا رے حالات کے بارے میں خبر ملی ہے میں تمہا رے بارے میں نا زل ہو نے والی مشکلات کے بارے میں سوچ رہا ہوں ؟
میں نے کہا :حسن بن زید ،اس نے کہا تمہاری حاجت پوری نہیں ہوگی اور تم اپنے مقصد تک نہیں پہنچ سکتے تم ایسے شخص کے پاس جا ئو جو تمہاری حاجت روائی کی قدرت رکھتا ہے اور تمام سخا وت کرنے والوں سے زیادہ سخی ہے اپنی مشکلات کیلئے ان کے پاس جائو اس لئے کہ میں نے سنا ہے کہ میرے چچازاد بھا ئی جعفر بن محمد علیہما السلام نے اپنے والد کے ذریعہ اپنے جد سے پھر ان کے والد سے حسین بن علی علیہما السلام سے انھوں نے اپنے والد علی بن ابی طالب علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا ہے :خداوند عالم نے اپنے بعض انبیاء علیہم السلام کی طرف وحی نا زل کی کہ مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ہے میں ہر اس شخص کی امید ما یو سی میں بدل دو نگا جو میرے علا وہ کسی اور سے امید لگا ئے گا ،اسے ذلت کا لباس پہنا ئوں گا اور اسے اپنے فضل و کرم سے دور کر دونگا ۔کیا میرا بندہ مشکلات میںمیرے علاوہ کسی اور سے امید کرتا ہے حالانکہ میں غنی جواد ہوں؟ تمام ابواب کی کنجی میرے ہاتھ میں ہے حالانکہ تمام دروازے بند ہیں اور مجھ سے دعا کرنے والے کیلئے میرا دروازہ کھلا ہوا ہے ۔
کیا تم نہیں جانتے کہ جس کو کو ئی مشکل پیش آئے اس کی مشکل کو میرے علا وہ کو ئی اور دور نہیں کر سکتاتو میں اس کو غیر سے امید رکھتے ہوئے اور خود سے رو گردانی کرتے ہو ئے دیکھتا ہوں جبکہ میں نے اپنی سخا وت اور کرم کے ذریعہ وہ چیزیں عطا کی ہیں جن کا اس نے مجھ سے مطالبہ نہیں کیا ہے ؟
لیکن اس نے مجھ سے رو گردانی کی اور طلب نہیں کیا بلکہ اپنی مشکل میں دو سروں سے ما نگا جبکہ میں ایسا خدا ہوں جو ما نگنے سے پہلے ہی دیدیتا ہوں۔
توکیاایسا ہو سکتا ہے کہ مجھ سے سوال کیا جائے اور میں جود و کرم نہ کروں ؟ایساہر گز نہیں ہو سکتا۔کیا جود و کرم میرے نہیں ہیں ؟کیا دنیا اور آخرت میرے ہاتھ میں نہیں ہیں ؟اگرسات زمین اور آسمان کے لوگ سب مل کر مجھ سے سوال کریں اور میں ہر ایک کی ضرورت کے مطابق اس کو عطا کردوں تو بھی میری ملکیت میں ایک مچھرکے پَر کے برابر بھی کمی نہیں آئیگی اور کیسے کمی آبھی سکتی ہے جس کا ذمہ دار میں ہوں ،لہٰذا میری مخالفت کرنے والے اور مجھ سے نہ ڈرنے والے پر افسوس ہے ۔
را وی کہتا ہے کہ میں نے امام علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا : اے فرزند رسول اس حدیث کی میرے لئے تکرار فرمادیجئے تو آپ نے اس حدیث کی تین مرتبہ تکرار فر ما ئی ۔
میں نے عرض کیا :خدا کی قسم آج کے بعد کسی سے کو ئی سوال نہیں کروں گا تو کچھ ہی دیر گذری تھی کہ خداوند عالم نے مجھ کو اپنی جانب سے رزق عطا فر مایا ''
امریکا اور نیٹو کی سازشوں کے مقابلہ میں علماء پاکستان اورعوام اتحاد ویکجہتی کا مظاہرہ کریں ۔ آیت اللہ نوری
حضرت آیت الله نوری همدانی نے امریکا اور نیٹو کی سازشوں کے مقابلہ میں علماء پاکستان اورعوام کو اتحاد ویکجہتی کی دعوت دی ۔ نیوزکے مطابق ، پاکستان وقف بورڈ اور مذھبی مسائل کے چئرمین احسان الدین قریشی ، فرقہ حنفی ، شافعی ، حنبلی کے علماء اور قائد ملت جعفریہ پاکستان نے شھر مقدس قم میں مراجع تقلید قم میں سے حضرت آیت الله حسین نوری همدانی سے ملاقات کی ۔ پاکستان وقف بورڈ اور مذھبی مسائل کے چئرمین نے اس ملاقات میں پاکستان کے مختصر حالات کا تذکرہ کیا اور حالات کی بہتری میں حضرت آیت الله نوری همدانی سے رہنمائی چاہی ۔ حضرت آیت الله نوری همدانی نے اس ملاقات میں مسلمانوں کے درمیان سامراجیت کی اختلافی چالوں سے ہوشیار رہنے کی تاکید کرتے ہوئے مشترکہ عقائد کے پیش نظر امت مسلمہ کو اتحاد و یکجہتی کی تاکید کی ۔ اس مرجع تقلید نے مزید کہا : آج جب کہ عالمی سامراجیت نے اسلام کو نشانہ بنایا ہے اور اس بیچ شیعہ وسنی کے درمیان کوئی فرق نہیں ، پہلا قدم یہ ہے کہ مسلمان قران کے زیرسایہ متحد ہوجائیں ۔ حضرت آیت الله نوری همدانی نے کہا : اسلامی بیداری کی لہروں کے پیش نظر مسلمانوں کی ترقی یقینی ہے اور ھمیں اس موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام کی ترقی کی کوشش کرنی چاھئے ۔
مسجد قبلتین
مدینہ منورہ کے محلہ بنو سلمہ میں واقع ایک مسجد جہاں 2 ھ میں نماز کے دوران تحویل قبلہ کا حکم آیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ کرام نے نماز کے دوران اپنا رخ بیت المقدس سے کعبے کی جانب پھیرا۔ کیونکہ ایک نماز دو مختلف قبلوں کی جانب رخ کر کے پڑھی گئی اس لیے اس مسجد کو "مسجد قبلتین"یعنی دو قبلوں والی مسجد کہا جاتا ہے۔
یہ مسجد بئر رومہ کے قریب واقع ہے۔ مسجد کا داخلی حصہ قبہ دار ہے جبکہ خارجی حصے کی محراب شمال کی طرف ہے۔ عثمانی سلطان سلیمان اعظم نے 1543ء میں اس کی تعمیر نو کرائی۔ اس کی موجودہ تعمیر و توسیع فہد بن عبدالعزیز کے دور میں مکمل ہوئی۔
اس نئی عمارت کی دو منزلیں ہیں جبکہ میناروں اور گنبدوں کی تعداد بھی دو، دو ہے۔
مسجد کا مجموعی رقبہ 3920 مربع میٹر ہے۔
يورپ میں اقتصادي بحران شدت اختیار کرگيا
يورپ ميں معيشتي بحران شديد تر ہوگيا ہے اور ايک تحقيقي سروے ميں بتايا گيا ہے کہ آئر لينڈ اور اٹلي يورو زون سے نکل سکتے ہيں –
بينک آف امريکا کے ايک تحقيقي سروے کے مطابق اٹلي اور آئرلينڈ کے يورو زون سے نکل جانے کے امکانات بڑھ گئے ہيں –
اس تحقيق کے مطابق موجودہ حالات ميں اٹلي يا کوئي بھي دوسرا يورپي ملک يورو زون سے نکل کے اپني اقتصادي حالت بہتر کرسکتا ہے کيونکہ يورو زون سے نکل جانے کي صورت ميں اس کي ناخالص پيداوار بڑھ سکتي ہے اور قرضوں کے اخراجات کم ہوسکتے ہيں - اس تحقيقي سروے ميں کہا گيا ہے کہ اٹلي اور آئر لينڈ يورو زون سے نکل کے اپنا اقتصادي گريڈ اوپر لاسکتے ہيں-
يہ ايسي حالت ميں ہے کہ آئر لينڈ يورپ ميں بحران کا ايک مرکز سمجھا جاتا ہے اور سرکاري اعداد و شمار بتاتے ہيں کہ دو ہزار گيارہ کي آخري سہ ماہي ميں اس ملک کي اقتصادي ترقي کي شرح ميں تيزي کے ساتھ کمي آئي ہے جبکہ دو ہزار بارہ کي پہلي چھے ماہي ميں اس کي اقتصادي ترقي رکي رہي اور دوسري چھے ماہي ميں اس ملک کے اقتصادي بحران سے نکلنے کے آثار نظر نہيں آتے –
دوسري طرف آئر لينڈ کے عوام بھي جو اس سے پہلے لسبن معاہدے کے تعلق سے يورپي حکام کي دھمکيوں کي بھينٹ چڑھ چکے ہيں، اس بار يورپي يونين کي معين کردہ پاليسيوں پر عمل کرنے کے لئے تيار نظر نہيں آتے -
اٹلي کا اقتصادي بحران بھي آئر لينڈ سے کم نہيں ہے بلکہ اس کي تاثير کچھ زيادہ ہي ہے کيونکہ اٹلي يورپ کا ايک بڑا اقتصادي مرکز سمجھا جاتا ہے، اس لحاظ سے اس کا اقتصادي بحران زيادہ خطرناک رخ اختيار کرسکتاہے –
اٹلي جو يورو زون کا ايک ستون اور يورپي يونين کا تيسرا بڑا صنعتي ملک سمجھا جاتا ہے، يورپ کا مقروض ترين ملک ہے –
رواں سال ميں اٹلي کے غير ملکي قرضوں کي رقم دو کھرب کے قريب پہنچ چکي ہے جو يورپي ملکوں ميں قرضوں کي سب سے بڑي رقم ہے –
اس بنا پر اٹلي ميں اقتصادي کفايت شعاري کي پاليسي پر عمل ہورہا ہے جبکہ اٹلي کے عوام اس پاليسي کے سخت مخالف ہيں -