
Super User
آسام ميں حاليہ سيلاب کے نتيجے ميں کم سے کم 109 افراد ہلاک
ہندوستان کي شمال مشرقي رياست آسام ميں حاليہ مون سون کي بارشوں اور سيلاب کے نتيجے ميں کم سے کم 109 افراد ہلاک اور تقريباً 4 لاکھ سے زائد بے گھر ہو گئے ہيں.
ہندوستانی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ہندوستان کي شمال مشرقي رياست آسام ميں حاليہ مون سون کي بارشوں اور سيلاب کے نتيجے ميں کم سے کم 109 افراد ہلاک اور تقريباً 4 لاکھ سے زائد بے گھر ہو گئے ہيں.
اطلاعات کے مطابق زيادہ تر ہلاکتيں رياستي حکومت کے ناقص انتظامات کي وجہ سے ہوئيں. رياستي حکومت کے عہديداروں نے فنڈ بچا کر لاکھوں ڈالر کی کرپشن کي ہے، جس کي وجہ سے يہ تباہي ہوئی ہے. ماہرين نے حکومت سے اس کي وسيع پيمانے پر تحقيقات کرانے کا مطالبہ کيا ہے.
هندوستاني وزيراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بھي اس سيلاب کو بدترين قرار ديتے ہوئے ہر متاثرہ خاندان کي مددکرنے کااعلان کيا ہے.
قل شریف مسجد تاتارستان – قازان
نیلے گنبد کی حامل قل شریف مسجد
قل شریف مسجد روس کے علاقے قازان میں واقع مسجد ہے جو روس کی سب سے بڑی مسجد ہے جس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہے۔
یہ مسجد 16 ویں صدی میں تاتارستان قازان میں تعمیر کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کے مینار بھی تھے۔ اسے روایتی وولگا بلغاریہ انداز میں تیار کیا گیا تھا لیکن یورپی نشاۃ ثانیہ کے اولین دور کا اور عثمانی انداز بھی استعمال کیا گیا تھا۔ 1552ء میں سقوط قازان کے بعد روسیوں نے اس مسجد کو شہید کر دیا۔
تاتار دانشوروں کا کہنا ہے کہ قل شریف مسجد کے چند عنصر ماسکو میں قائم مشہور سینٹ بازل گرجے میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں جن میں 8 مینار اور ایک مرکزی گنبد شامل ہے جو روایتی روسی طرز تعمیر سے مطابقت نہیں رکھتا۔
1996ء میں اس مسجد کی دوبارہ تعمیر کا آغاز ہوا جو جدید طرز تعمیر کی حامل ہے۔ نئی مسجد کا افتتاح 24 جولائی 2005ء کو ہوا۔
ہندوستانی مسلمان طلباء كا فلسطينی ملت كے ساتھ اظہاريكجہتی
ہندوستان كے شہر جے پور میں مسلمان طلباء نے ايك سيمينار منعقد كيا ہے جس میں غاصب اسرائيل كے مقابل فلسطينی ملت كے ساتھ اظہار يكجہتی كيا ہے ۔
ہندوستان كی مسلم سٹوڈنٹ آرگنائزيشن كے چئيرمين سيد محمد قادری نے اس سيمينار میں اعلان كيا : ہم ہندوستانی عوام فلسطين كے بہادر عوام جو صہيونی غاصبوں كے سامنے كھڑے ہیں ۔ يكجہتی كا اعلان كرتے ہیں ۔
انہوں نے مزيد كہا ہم فلسطينی عوام كے استقلال اوراستحكام كی حمايت كرتے ہیں اور صیہونی حكومت كو فلسطين كی نسل كشی اور مقامات مقدسہ كی توہين اور بيت المقدس كو تباہ كرنے پر اس كی شديد مذمت كرتے ہیں ۔
ہم فسلطينی حكومت اور حكام سے مطالبہ كرتے ہیں كہ صیہونی جرائم كی وجہ سے اسرائيل سے رابطہ ختم كرے اسی طرح ہم ہندوستان كی حكومت سے مطالبہ كرتے ہیں كہ غاصب اسرائيل حكومت كے ساتھ اقتصادی ، ثقافتی ، سياسی اور فوجی تعلقات ختم كرے
کوفي عنان کے فارمولے کے لئے روس کي حمايت
روس کے ايوان صدر کرملين نے اعلان کيا ہے کہ وہ شام کے امور ميں اقوام متحدہ کے خصوصي نمائندے کوفي عنان کے امن فارمولے کي حمايت کرتا ہے
کرملين سے جاري ہونےوالے بيان ميں کہا گيا ہے کہ روسي صدر ولاديمير پوتين کے ساتھ کوفي عنان کي ملاقات کا پروگرام يہ ثابت کرديتا ہے کہ کرملين شام کے بحران کو سياسي طريقے سے حل کئے جانے کي حمايت کرتا ہے –
کرملين سے جاري ہونےوالے بيان ميں کہا گيا ہے کہ ماسکو چاہتا ہے کہ شام ميں تعينات بين الاقوامي مبصرين حکومت اور مخالف گروہوں کے درميان فائربندي پر عمل کرنے کے تعلق سے ايک جامع سمجھوتہ کراديں –
روس يہ بھي چاہتا ہے کہ لڑائي والے علاقوں سے شامي فوج اور مسلح افراد کا بيک وقت انخلاء ہو –
اس سے پہلے روسي وزيرخارجہ نے اپنے ايک بيان ميں کہا تھا کہ مغربي ملکوں کي يہ سخت بھول ہوگي اگر وہ يہ سوچيں کہ روس شام کے صدر بشار اسد کو زبردستي ہٹائے جانے کے کسي بھي اقدام يا منصوبے کي حمايت کرے گا-
امريکي صدر کے بيان پر ہندوستان کي سياسي جماعتوں کا ردعمل
ہندوستان کي مختلف سياسي جماعتوں نے امريکي صدر باراک اوباما کے مداخلت پسندانہ بيان پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ان پرشديد تنقيد کي ہے-
امريکي صدر باراک اوباما نے ہندوستان ميں غير ملکي سرمايہ کاري کے مواقع کے بارے ميں مداخلت پسندانہ بيان ديتے ہوئےکہا تھا کہ ہندوستان ميں غير ملکي سرمايہ کاري کي صورتحال بہت ہي تشويشناک ہے- انہوں نے ہندوستان سے کہا تھا کہ وہ ملک ميں اقتصادي اصلاحات کا نيا پروگرام نافذ کرے –
ہندوستان کي مارکسي کميونسٹ پارٹي کے رہنما نيلوتپال باسو نے کہا کہ امريکي چاہتے ہيں کہ ہم اپني معيشت اور منڈي ان کي مرضي کے مطابق چلائيں اور ان کي مرضي کےمطابق ہي اقتصادي اصلاحات انجام ديں –
حزب اختلاف کي جماعت بھارتيہ جنتا پارٹي نے بھي امريکي صدر کے بيانات کو مضحکہ خيز قرار ديا ہے - راجيہ سبھا ميں بي جے پي کے ممبر ترون وجے نے کہا کہ امريکا ايک ايسے وقت ہميں سرمايہ کاري اور اقتصادي اصلاحات کا درس دے رہا ہے جب وہ خود بري طرح معاشي مشکلات سے دو چار ہے –
سماج وادي پارٹي کے رہنما شاہد صديقي نے کہا کہ ہندوستان امريکا کي حمايت ميں کوئي بھي فيصلہ نہيں کرے گا- انہوں نے کہا کہ امريکي چاہتے ہيں کہ وہ اپني منڈيوں کا دائرہ ہندوستان ميں مزيد وسيع کريں
ماہ رمضان کے دنوں کی دعاؤوں کا ماحصل
چاند کی رات ایک روزہ دار اس حالت میں کہ اس کا چہرا خوشی سے کھلا ہوا آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے ہوئے ماہ مبارک رمضان کے چاند کا نظارہ کرتے ہوئےاپنے معبود کے حضور میں یہ عرض کرتا ہے: خدایا! اس مہینہ کو مجھ پر ایمان کی سلامتی،اسلام کی اطاعت اور جسم کی عافیت کا مہینہ قرار دے۔
ماہ مبارک کا پہلا روز تم پر مبارک۔ " تم جانتے ہو کس کے مہمان ہو ؟ اس کے جو تمام جہانوں کا معبود ہے۔ اور تمام گناہ گاروں کو بخشنے والا ہے۔ اس سے اپنےروزہ کی سلامتی اور شب بیداری کی درخواست کرو۔
دو دن سے روزہ کی حالت میں ہو۔ کوشش کرو تاکہ خدا کی خشنودی حاصل ہو جائے اور اس کے خشم و غضب سے نجات مل جائے اس مہربان ترین ذات سے آیات قرآنی کی تلاوت کی توفیق طلب کرو۔
آج تیسری رمضان ہے۔ اپنی سلامتی اور بیداری کے لیے دعا کرو اور ہر غیر معقول اور غلط چیز سے پرہیز کرو۔ اس مہینے کی خیر و برکت میں سے اپنے حصے کو طلب کرو کہ وہ بہترین بخشنے والا ہے۔
چار دن ہو چکے ہیں کہ آسمان کے دروازے تمہارے اوپر کھلے ہوئے ہیں۔ خدا کے حکم اور اس کے دستور کو بجا لانے کے لیے آمادہ ہو جاؤ جیسا کہ تعمیل حکم کا حکم ہے اور اس کے شکرگزار بنو ۔ بے شک تمہارا پروردگار تمہارے حالات سے آگاہ ہے۔
پانچواں دن ہے کہ تمہارا میزبان مہمان کی دل کی دھڑکنوں کو سن رہا ہے۔ دعا کے لیے ہاتھ بلند کرو۔ خدا یا اس مہینے میں مجھے مغفرت طلب کرنے والوں، تیرے حکم کی تعمیل کرنے والوں، اور اپنے بارگاہ کے مقرب بندوں میں سے قرار دے ۔
چھ دن ہو گئے ہیں کہ اپنے صبر کو آزما رہے ہو۔ شک و تردید، ایک لمحہ کے لیے تجھے چھوڑ نہیں رہا ہے۔ اس نا فرمانی سے تم ڈر رہے ہو۔ اس کے تازیانوں سے خوف زدہ ہو۔ اس کے غضب کے اسباب سے فرار کرتے ہو اور اسے نہایت دوست رکھتے ہو جو تمام مشتاقین کا عشق ہے۔
سات دن سے جسم کی پیاس برداشت کی ہے۔ اور اپنی روح کو اس کے ذکر سے سیراب کیا ہے۔ اور ہر طرح کی لغزش اور گمراہی سے اس کی پناہ اختیار کرو جو گمراہوں کی ہدایت کرنے والا ہے۔
آٹھواں دن آ گیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اپنی محبت کو یتیموں کی نسبت کم کر دو۔ اپنے کھانے کو ان کے درمیان تقسیم کرو اور اپنے مسلمان ہونے کو آشکار کرو اور کریم اور سخی افراد کے ساتھ بیٹھنا سیکھو۔
نو دن سے روزہ داروں کی صف میں ہو۔ کیا اس کی رحمت واسعہ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہو؟ کیا اس کے واضح اور آشکار براہین کو دیکھنے میں کامیاب ہوئے ہو؟ کیا اس کی خشنودی کے اسباب کو فراہم کیا ہے؟ وہ تمام مشتاقین کی آرزو ہے۔
ایک تہائی ماہ رمضان گزر چکا ہے ۔ خدا پر توکل کرو تا کہ اس کی بارگاہ کے سعادت مند افرادمیں سے کہلاؤ۔ اس کو طلب کرو کہ جو تمام تلاش کرنے والوں کا آخری ہدف ہے۔
ماہ مبارک کی گیارہویں تاریخ ہے۔ اس سے چاہو کہ وہ تمہیں احسان اور نیکی کو دوست رکھنے والوںمیں سے قرار دے۔ اور فسق و فجور سے دور رکھے۔ اس سے چاہو کہ وہ آتش جھنم کو تم پر حرام کرے۔ وہ تمام فریاد کرنے والوں کی فریاد کو سننے والا ہے۔
ماہ رمضان کے بارہ دن گذر گئے ہیں۔ عفت اور پاکدامنی کا لباس اپنے جسم پر پہنے رہو۔ قناعت کواختیار کرو اور عدل اور انصاف کو مد نظر رکھو۔
آج، رمضان کی تیرہویں تاریخ ہے۔ اور تم دوسروں سے زیادہ سعادتمند ہو ۔ آلودگیوں سے پاک رہو اور اپنے مقدر پر صبر کرو ۔ اور پرہیز گار رہو اور نیک لوگوں کے ساتھ ہمنشین رہو۔
چودہ دن سے اللہ کے مہمان ہو۔ وہ پروردگار جو تمام مسلمانوں کو عزت عطا کرتا ہے اور تمہیں خطا اور لغزش سے محفوظ رکھتا ہے۔ امید ہے کہ بلاؤں اور آفات کا ہدف نہیں بنو گے۔
نصف رمضان میں داخل ہو چکے ہو۔خدایا! اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرما۔ اور میرے سینے کواپنی طرف پلٹنے کے لیے گشادہ کر۔ اے ڈرنے والوں کو امان دینے والے۔
رمضان کی سولہویں ہے۔ آمادہ ہو جاؤ تا کہ نیک لوگوں کا ساتھ دو۔اور برے اور اشرار سے دور رہو۔ اور امن و امان کے گھر میں داخل ہو جاؤ۔
سترہ دن سے تم روزہ سے ہو۔ اور اپنے پروردگار کی رہنمائیوں سے مستفید ہو ۔ اس سے چاہو کہ تمہاری حاجات کو پورا کرے اور آرزؤں کو بھر لائے اس لیے کہ وہ تمہارے دل کے رازؤں سے آگاہ ہے اور تمہارے سوال کرنے سے بے نیاز ہے۔
اٹھارہ دن گزار چکے ہو۔ کتنی برکت ہے رمضان کی سحریوں میں، کیا نور ہے رمضان والوں کے دلوں میں۔ اور کیا لذت ہے اس کی پیروی میں کہ جو عارفوں کے دلوں کو روشنی بخشنے والا ہے۔
آج انیسویں رمضان ہے۔صرف خدا جانتا ہے کہ ان ایام میں ہمارے اوپر کیا گزری ہے اور ہماری اس کے نزدیک کیا قدر و قیمت ہے۔ اے واضح حقیقت کی طرف ہدایت کرنےوالے اور مہربان،ہماری ہدایت فرما۔
بیس دن رمضان کے گزر گئے ہیں۔ خدا سے مناجات کی فرصت کو ہاتھ سے نہ جانے دو کہ وہ اطمینان اور سکون کو مومنین کے دلوں میں پیدا کرتا ہے۔ بہشت کے دروازوں کو آج ہمارے اوپر کھول دے۔
آج اکیسویں ماہ رمضان ہے۔ شیطان کے اپنے اوپر مسلط ہونے کے راستے کو بند کر دو اور اس کی خشنودی کو حاصل کرنے کے راستے کو تلاش کرو۔
بائیسویں بار اسے پکارو۔ اے بے کسوں کی دعا قبول کرنے والے اپنے فضل وکرم کو ہمارے اوپر نازل فرما۔اور ہمیں اپنے رضوان کے منزل پر جگہ عنایت فرما۔
یقین رکھو کہ شب ہائے قدر کی توفیق حاصل ہو۔ اس سے کہ جو گناہ گاروں کو نظر انداز کرتا ہے امید رکھو۔ تا کہ تمہیں بھی اس مہینے میں گناہوں سے دھو دے۔اور تمہیں تمہارے عیوب سے پاک کرے۔
ماہ رمضان کے چوبیس دن گزرچکے ہیں۔ اس کی پناہ حاصل کرو اس چیز سے جس سےتم نے اس کو آزار دیا ہے۔ اور اس کی پیروی کرو جس کا اس نے حکم دیا ہے۔ ہزار بار اس نام کو پکارو کہ جوتمام گناہگاروں کو بخشنے والا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ تمہارا دل بے چین ہے اس لیے کہ پانچ دن رمضان کے باقی بچے ہیں۔ اور تم اسی طریقے سے اس کے دوستوں کے ساتھ دوستی اور اس کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی کے بارے میں فکر کر رہے ہو۔ تمہارا اس کے ساتھ عہد و پیمان ہمیشہ باقی رہے۔
آج کے بعد صرف چار دن اور تین سحر میں اپنے خدا سے ملاقات کے لیے اٹھنا ہو گا۔ اے کاش اس مہینے میں ہماری تلاش و کوشش سے ہماری تقدیر بدل جاتی۔ اور ہمارے گناہ بخشے جاتے۔ ہمارے اعمال قبول ہو جاتے ور ہمارے عیب پوشیدہ رہتے۔
گزشتہ رات آخری شب قدر تھی۔ خدا کی وسعت رحمت سے باہر نہیں ہے کہ وہ ہمارے اشتباہات کو بخش دے اور ہمارے عذر کو قبول کرے۔ اور ہمارے امور کو آسانی کے ساتھ آگے بڑھائے۔ ہاں، وہ اپنے صالح بندوں کی نسبت بہت مہربان ہے۔
با برکت ایام کتنے جلدی گزر گئے ہیں۔ دو دن کے بعد ماہ رمضان تمام ہو جائے گا۔ ایسا نہ ہو کہ ہم مستحبات اور نوافل کی انجام دہی سے غافل رہیں۔
صرف ایک دن بچا ہے ماہ رحمت کا۔ خدایا ہمیں ان دنوں میں اپنی محبت کے سایہ میں جگہ عنایت فرما۔ اور ہمارے دلوں کو ہر طرح کی ظلمت اور تاریکی سے محفوظ رکھ۔ اے اپنے مومن بندوں پر مہربانی کرنے والے۔
آج کی رات الوداع کی رات ہے۔ کتنی لذت تھی ماہ مبارک میں اور کتنا دکھ ہو رہا ہے اس کے جانے پر۔ ہمارا وابستہ ہے خدا کی ضیافت اور مہمانی سے اور گرویدہ ہے اس کی بندگی اور اطاعت سے۔ پس امید ہے کہ اس کی اور اس کے رسول کی خشنودی حاصل ہوئی ہو۔
قرآن میں روزہ کا حکم
قرآن نے جس آیه کریمہ میں روزے کا حکم بیان فرمایا ھے اسی آیت میں دو مطلب کی اور بھی وضاحت کی ھے ۔اوّل یہ کہ روزہ ایک ایسی عبادت ھے جسے امّت مسلمہ سے قبل دیگر امّتوں کے لیے بھی فرض قرار دیا گیا تھا”کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ“ یعنی روزہ کے ذریعے انسان کو جوھدف حاصل کرنا ھے وہ امّت مسلمہ سے مخصوص نھیں ھے بلکہ دیگر امتوں کے لیے بھی تھا ۔
یھاں طبیعی طور پر انسان کے ذھن میں یہ سوال اٹھتا ھے کہ وہ ھدف کیا ھے ؟اور حکم روزہ کا فلسفہ کیا ھے ؟اسمیں کون سے اسرار اور رموز پوشیدہ ھیں جنکی بنا پر اسے نہ صرف امّت مسلمہ بلکہ اس سے قبل دیگر امتوں پر بھی واجب قرار دیا گیا ؟ان سوالوں کے جواب کے لیے قرآن نے اس آیت کے آخری حصّہ میں روزہ کا فلسفہ بیان کیا ھے ۔” لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون “ تاکہ شاید تم صاحب تقویٰ بن جاوٴ۔ پس ایک ھی آیت میں قرآن نے تین چیزیں بیان کی ھیں :
ایک روزہ کا حکم کہ تم پر روزہ واجب ھے ”کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ“
دوسرے سابقہ امّتوں کا تذکرہ کہ ان پر بھی روزہ واجب تھا ”کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ“ تا کہ جن افراد کے لئے یہ حکم سخت اور ناگوار ھو وہ نفسیاتی طور پر اسے آسان اور قابل عمل محسوس کریں ۔
تیسرے روزے کا فلسفہ ”لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون “ تا کہ انسان کی نظر فقط روزہ کے ظاھر پر نہ ھو بلکہ وہ اسکی حقیقت اور روح تک پھونچ سکے ،روزے کے اسرار کو درک کر کے اسکے اھداف کو حاصل کر سکے ۔
روزہ انسان کی روحانی اور جسمانی تربیت کے لیے ھے لھٰذا اس آیت کا لھجہ بھی نھایت مشفقانہ ھے ۔جس طرح ایک ماں اگر اپنے مریض بچّے کو کوئی ایسی تلخ دوا پلانا چا ھے جس کے بغیر اسکا علاج ممکن نہ ھو تو وہ پھلے بچّے کو پیار سے بلاتی ھے پھر اسے نھایت نرمی کے ساتھ دوا پینے کو کھتی ھے ،دوسرے بچّوں کی مثال دیتی ھے پھر اسکے فوائد بیان کرتی ھے کہ اگر دوا پی لو گے تو بالکل ٹھیک ھو جاؤ گے ۔
قرآن نے فرمایا ”یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا“صاحب ایمان کھہ کر ایک محترمانہ لھجے میں خطاب کیا،پھر نرمی سے حکم بیان کیا -”کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَام “تم پر روزہ لکہ دیا گیا ھے ، ”کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ“جس طرح تم سے قبل دیگر امّتوں پر بھی فرض کیا جا چکا ھے ،اسکے بعد روزے کی غرض ،غایت اور فلسفہ بیان کیا ”لعلّکم تتّقون “تاکہ انسان نہ صرف یہ کہ اس عمل میں تلخی محسوس نہ کرے بلکہ فلسفہ اور اسرار سے واقف ھونے کے بعد اسی سخت اور دشوار عمل میں اسے لذّت کا احساس ھونے لگے ۔
فلسفہ بیان کرنا اس لئے بھی ضروری ھے کیوں کہ ممکن ھے انسان کے ذھن میں اور بھت سے سوال اٹھیں اور اگر ان سوالوں کو صحیح جواب نہ ملے تو وہ سوال اعتراض کی شکل میں تبدیل ھو جائیں مثلاً:
(۱)روزہ رکھنے کی صورت میں انسان کو معمول کی زندگی ترک کرنی پڑتی ھے جو اس کے لئے سخت ھے۔
۲) روزہ رکھنے سے انسان ضعیف ھو جاتا ھے ۔دن بھر کی بھوک اور پیاس اگر نا قابل برداشت نھیں توناگوار اور سخت ضرور ھے ، کھانا اور پانی انسانی جسم کا تقاضا ھے جو اسے ملنا چاھیے۔
اپنی محنت سے حاصل کی ھوئی حلال چیزیں انسان پر کیوں حرام ھو جاتی ھیں ؟
(۳)یوں تو تمام عبادتوں میں پابندیاں ھیں لیکن رمضان میں انسان ایک مھینے تک شدید قسم کی پابندیوں میں مقیّدھو جاتا ھے۔
(۴)ایک اعتراض جو روزہ کے علاوہ تمام عبادتوں بلکہ پورے دین پر کیا جاتا ھے وہ یہ کی اگر دین اوراحکام ِدین مطابق فطرت ھیں تو ان کو انجام دینے میں سختی و ناگواری کا احساس کیوں ھوتا ھے؟
(۵)اگر انسان روزہ نہ رکھے تو اس کے اندر کون سا نقص پیدا ھو جاتا ھے؟
مندرجہ بالا سوالات و اعتراضات پر گفتگو کرنے سے پھلے اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے کہ اسطرح کے سوالات اور اعتراضات در حقیقت روزہ کے اسرار و فلسفہ سے ناواقفیت کی بنا پر ھیں لھٰذا ابتداء ً مذکورہ اعتراضات و مسائل پر گفتگو کے دوران انشاء اللہ بعض اسرار بیان کئے جائیں گے ،اسکے بعد روزہ کے بقیہ اھم اسرار میں سے ان بعض اسرار کی طرف اشارہ ھو گا جو قرآن و احادیث میں بیان ھوئے ھیں ۔
فلسفہٴ روزہ
ایک انسان جب کسی عمل کو انجام دینا چاھتا ھے تو اسے یہ حق حاصل ھوتا ھے کہ وہ اس عمل کی غرض و غایت، فلسفہ وحکمت اور اسرار سے واقف ھو کیوں کہ اسکی عقل کسی ایسے عمل کو انجام دینے سے منع کرتی ھے جسکی غرض وغایت ا ورحکمت معلوم نہ ھو ۔ حکمت جانے بغیریا تو وہ سرے سے عمل ھی انجام نھیں دیتا یاپھر کسی جاذبہ اور خوف مثلاً جاذبہٴ بھشت اور خوف عذاب کی بناء پر عمل تو انجام دیتا ھے لیکن اسکے تحت الشعور میں یہ نکتہ بار بار ابھرتا ھے کہ کیا یہ ممکن نھیں تھاکہ اس عمل کو انجام دیے بغیرھی مورد نظرھدف حاصل ھو جاتا اوراس خوف سے نجات مل جاتی ۔در حقیقت اگر انسان کسی عمل کے ا سرار سے واقف نہ ھو تو اسکی دلی تمنّا یہ ھوتی ھے کہ اس عمل کے انجام دئے بغیر ھی اسے بھشت اپنے تمام لوازمات کے ساتھ حاصل ھو جائے اور عذاب جھنّم سے بھی نجات مل جائے۔
یہ بھی ممکن ھے کہ حکم خداکا احترام کرتے ھوئے کوئی کسی عمل کو تعبّداً انجام دے لیکن اس طرح تعبّداً عمل انجام دینے کے لئے بھی شرط ھے کہ عمل کرنے والا ذات خدا کی عمیق معرفت رکھتا ھو ورنہ اسکے تعبّد میں دوام اور تسلسل پیدا نھیں ھو سکتا۔خدا کی معرفت اگرچہ انسان کے لئے باعث بنتی ھے کہ وہ احکام الٰھی کی تعمیل کرے تاکہ حرمت الٰھی ٹوٹنے نہ پائے لیکن اگر خود عمل پر نظر کریں تو جب تک اسکا فلسفہ اور راز معلوم نہ ھو وہ فقط ایک بے کیف ،بے جان اور بے روح عمل ھوتا ھے ۔انسان تعبّداً ایک عمل کو انجا م ضرور دے لیتا ھے لیکن اس عمل کے ثمرات اور اثرات سے محروم رھتا ھے ۔
یہ نکتہ انسان کے لئے بھت اھم ھے کہ جب وہ کسی عمل کو انجام دے رھا ھو مثلاًنماز پڑھ رھا ھو ،روزہ رکہ رھا ھو،انفاق کر رھا ھو ،حج،جھاد،امرباالمعروف و نھی عن المنکر جیسے اھم فرائض کو انجام دے رھا ھو تو وہ ان اعمال کے اثرات،ثمرات اور برکات سے بھی واقف ھو۔وہ یہ جانتا ھو کہ یہ عمل مثلاً نماز اگر اپنے اسرار کے ساتھ پڑھی جائے تو یہ اسکی زندگی میں کتنا بڑا تحوّل وتغیر ایجاد کر سکتی ھے۔ اسرار سے واقفیت انسان کے اندر تحریک ایجاد کرتی ھے اور اس کی ھمّت کو بلند کر دیتی ھے ،پھر وہ کسی بھی حال میں اس عمل کو ترک کرنے پر راضی نھیں ھوتا کیونکہ وہ اس کے ثمرات سے محروم نھیں ھونا چاھتا۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ھیں :
”قَدرُ الرَّجُلِ عَلَی قَدْرِ ھِمَّتِہ “
انسان کی قدروقیمت اور اسکی شناخت خوداسکی ھمتوں کے ذریعے کی جاسکتی ھے ۔ وہ جتنی بلند ھمّت کرتا ھے اتنا ھی بڑا اور قیمتی انسان ھوتا ھے۔ چھوٹے،معمولی اور پست انسانوں کی ھمّتیں بھی چھوٹی اور پست ھوتی ھیں ،جو نہ صرف یہ کہ بڑی ھمّتیں نھیں کر سکتے بلکہ اگر اسکا تذکرہ بھی سنتے ھیں تو خوفزدہ ھو جاتے ھیں اوراپنے دل میں تنگی کا احساس کرنے لگتے ھیں مثلاًبعض افراد اتنے کم ھمّت ھوتے ھیں کہ وہ روزہ رکھنے کی ھمّت ھی نھیں کر پاتے،بعض ھمّت تو کر لیتے ھیں لیکن اگر صبح میں ارادہ کرتے ھیں تو شام میں ٹوٹ جاتا ھے،اور اگر شام میں ارادہ کرتے ھیں تو سحر تک ٹوٹ جاتاھے۔
بعض افراد تھوڑی بلندھمت کرتے ھیں اور روزہ رکہ لیتے ھیں لیکن ذرا سا حلق میں خشکی کا احساس ھوتا ھے اور انھیں یہ فکر لاحق ھوجاتی ھے کہ کسی طرح کوئی ایسا بھانہ ھاتہ آجائے جسکی وجہ سے یہ روزہ توڑاجاسکے ، خواہ وہ حلق کی خشکی سحر کے وقت زیادہ کھا لینے یا زیادہ دیر تک سو لینے کی وجہ سے ھی کیوں نہ ھو ۔
بعض دیگر افراد ذرااورھمت بلند کرتے ھیں اور اپنا روزہ کامل کر لیتے ھیں لیکن دو چار روزے گزرنے کے بعد ھمّت ھار جاتے ھیں ،بعض افراد سردیوں کے موسم کو دیکہ کر اپنی ھمّت کو بلندکرتے ھیں اور پورے مھینے کا روزہ رکہ لیتے ھیں ،لیکن گرمیوں میں ھمّت جواب دے جاتی ھے ،ایسی ھمّت رکھنے والے انسان کو ایک بلند ھمّت انسان نھیں کھا جا سکتا۔کم سے کم امام علی علیہ السلام کی نظرمیں یہ ایک کم ھمّت انسان ھوگا کیوں کہ آپ(ع) کو گرمیوں کے روزے زیادہ عزیزتھے۔
ایک انسان مزید ھمّت کرتا ھے اور اپنے اوپر فرض تمام روزوں کو گرمی وسردی کی پرواہ کئے بغیر رکھتا ھے لیکن روزے کے آداب واسرار سے بے خبر ھوتاھے ،اسکی قسمت میں بھی بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نھیں آتا جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:
کَم مِن صَائِمٍ لَیسَ لَہ مِنْ صِیَامِھ الْجُوع وَالظَّمَاء۔ ۔ ۔ ۔
کتنے روزہ دار ایسے ھیں جن کو ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نھیں ملتا‘۔
ایک انسان آداب روزہ کی بھی رعایت توکرتا ھے لیکن اسرار روزہ سے باخبر نھیں ھے لھٰذا اسے بھی ایک بلند ھمّت انسان نھیں کھا جا سکتا،اگرچہ اس کی ھمّت دوسروں کی بہ نسبت کافی بلند ھے لیکن اسکی زندگی روزہ کے اثرات و ثمرات سے بے بھرہ ھے۔ اسکے نصیب میں فقط روزہ کاثواب آتا ھے،اسے جنّت توضرور مل جاتی ھے لیکن خدا نھیں ملتا،اس کی زندگی پر روزے کا کوئی اثر نھیں ھوتا لھٰذاجس طرح ایک نمازی مسجد سے نکل کر فحشاء ومنکر کا مرتکب ھوتا ھے اور اپنے آپ کو طرح طرح کی برائیوں سے آلودہ کر لیتا ھے ،کیوں کہ وہ نماز کے اسرار سے واقف نھیں ھے اور نماز اس کی زندگی پر کوئی اثر نھیں ڈالتی اسی طرح یہ روزہ د ار بھی ماہ رمضان کے بعد یا ممکن ھے خود روزہ ھی کی حالت میں بڑے سے بڑے فردی یا اجتماعی جرم و گناہ کا مرتکب ھو اور اس کی پرواہ بھی نہ کرے کیونکہ وہ فلسفہٴ روزہ سے بے خبر ھے اور اس نے اسرار روزہ کو درک کرنے کی کوشش نھیں کی ،حتیٰ ممکن ھے وہ شب قدر میں بھی کسی بڑے جرم یا خیانت کا مرتکب ھو جائے کیوں کہ وہ اسرار شب قدرسے بے خبرتھا۔
رمضان کے باب میں ایک بلند ھمّت انسان وہ ھے جو روزے کو اسکے آداب اور اسرار کے ساتھ رکھے لیکن یہ آخری حد نھیں ھے ،مقام انسان اتنا بلند ھے کہ اس کی کوئی حد معیّن نھیں کی گئی ھے، و ہ اس سے بھی زیادہ اپنی ھمّت کوبلندکر سکتا ھے اور وہ اس طرح کہ روزے کو اسکے پورے آداب و اسرار کے ساتھ کامل کرے اور جب افطارکاوقت آئے تو اپنی افطارکی روٹیاں فقیر کو دے کر پانی پر اکتفاکر لے اور یہ عمل تین دنوں تک جاری رھے ----”و یطعمون الطعام علیٰ حبہ مسکینا و یتیما و اسیرا“ یھاں پر قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ اس عمل میں ایک غیر معصوم کنیز(فضّھ) بھی شریک ھے جو اس بات کی علامت ھے کہ ایک غیر معصوم انسان بھی اپنے آپ کو ایسے بلند مقام تک پھونچا سکتا ھے جھاں وہ ایک ایسا عمل انجام دے جو معصوم کے لئے بھی فضیلت شمار کیا جاتا ھو۔یہ کسی بھی انسان کے لئے ایک بھت بڑا مقام ھے اور اس اطعام کی لذّت ان روٹیوں کے کھانے سے کھیں زیادہ ھے ۔
ضعف یا قوت ؟ روزہ میں نقاھت کا احساس
یہ درست ھے کہ حالت روزہ میں انسان کو بعض اوقات نقاھت کا احساس ھوتا ھے جو پیاس اور گرسنگی کا ایک طبیعی تقاضا ھے ،اسی نقاھت کو بعض افراد ضعف سے تعبیر کرتے ھیں جبکہ ضعف اورنقاھت میں فرق ھے ۔نقاھت ایک وقتی احساس ھے جو بھت جلدی ختم ھو جاتا ھے بلکہ انسان اگر اسرار و فلسفھٴ روزہ سے واقف ھو توشدیدترین گرمیوں کے روزے میں بھی اسے بجائے سستی اور نقاھت کے لذّت ،نشاط اور طمانینت کا احساس ھوتا ھے جیسا کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے منقول حدیث میں بیان ھواھے کہ آپ گرمیوں کے روزوں کوبے حد عزیز رکھتے تھے۔ یہ بھی درست ھے کہ روزہ بعض افراد کے لئے جسمانی ضعف کا بھی باعث بنتا ھے لیکن جسمانی ضعف اس بات کی دلیل نھیں ھے کہ اس سے ا نسان بھی ضعیف ھو جائےبلکہ ممکن ھے کہ اس جسما نی ضعف کے باوجود انسان خود کو عزم و ارادے اور استقامت کے لحاظ سے اتنا قوی کر لے کہ جسمانی ضعف اسکے عزم و ارادے کی راہ میں رکاوٹ ایجاد نہ کر سکے کیونکہ یہ بات علمی اور تاریخی شواھدکے اعتبار سے مسلّم ھے کہ مضبوط عزم و ارادے کے سامنے جسمانی تھکاوٹ یا ضعف مانع ایجاد نھیں کر سکتا ۔اس کے بر خلاف جسم کتنا ھی قوی کیوں نہ ھو لیکن عزم و ارادے کی سستی اس کے حوصلوں کو سرد کر دیتی ھے اور انسان عمل کے میدان میں پیچھے رہ جاتا ھے ۔ پس روزہ ممکن ھے بعض افراد کے لئے وقتی ضعف کا سبب بنے لیکن دوسری طرف یھی روزہ انسان کے اندر صبر ، تحمّل، استقامت ، قوت برداشت اور قوت عزم و ارادہ پیدا کرتا ھے ۔ ان معنوی قوتوں کے حاصل ھونے کے بعد جسمانی ضعف کسی طرح کی رکاوٹ ایجاد نھیں کر سکتا اور انسان کی بلند رو ح جسمانی ضعف پر غالب آجاتی ھے ۔ یہ اس صورت میں ھے کہ جب یہ فرض کیا جائے کہ روزہ رکھنے سے جسمانی ضعف پیدا ھوتا ھے ورنہ حقیقت یہ ھے کہ روزہ انسان کو جسمانی اعتبار سے سالم اور متعدد قسم کے امراض سے محفوظ کر دیتا ھے _
یھیں سے ھمیں تیسرے اور چوتھے سوال کا جواب بھی مل جاتا ھے اور وہ یہ کہ آب و غذا اگر چہ جسم کا تقاضا ھے اور عام حالات میں انسان کے لئے بھوک اور پیاس ناگوار اور سخت ھوتی ھے ،لیکن مذکورہ اھداف وفوائد اور بعد میں بیان ھونے والے عظیم اسرار کی خاطر انسان کے لئے یہ ناگوار چیز نھایت عزیز، لذّت بخش اور پسندیدہ ھوتی ھے یھاں تک کہ وہ عاشق اور محب روزہ ھو جاتا ھے جس طرح امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور نماز کے لئے فرمایاتھا کہ خداجانتا ھے ” اِنِّی اُحِبُّ الصَّلَوٰةَ “میں عاشق نماز ھوں یا امام سجاد علیہ السلام ماہ رمضان کے آخر میں شدید ترین گریہ کے عالم میں اس مبارک مھینہ کو الوداع کرتے ھیں
:
” اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَکْرَمَ مَصْحُوبٍ مِنَ الْاَوْقَاتِ “اے کریم ترین ساتھی تجھ پر سلام ۔
روزہ کے ان اھداف کو دیکھتے ھوئے انسان بھت خوشی کے ساتھ اپنے ھاتھوں سے حاصل کی ھوئی حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لیتا ھے جس طرح ایک طبیب کے مشورے پر انسان بھت سی حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لیتا ھے حتّیٰ ضرورت پڑنے پر قطع اعضا اور آپریشن کے لئے بھی تیار ھوجاتا ھے بلکہ اس عمل کے لئے ڈاکٹر کو بڑی سے بڑی مقدار میں اجرت دیکر بعد میں شکر گزار بھی ھوتا ھے ۔
حلال چیزوں کے حرام ھونے کا ایک اور بڑا مقصد وھی ھے جو پھلے بیان ھوا یعنی زندگی کی یکسانیت سے نجات تاکہ انسان ان روزمرّہ عادتوں کے زندان سے نکل کر بلند امور و معارف کی طرف متوجہ ھو سکے ۔
روزہ کی فضیلت پر امام صادق علیہ السلام کے فرمان
فلسفہ روزه
قال الصادق علیه السلام: انما فرض الله الصيام ليستوى به الغنى و الفقير.
ترجمہ: امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:خدا نے روزه واجب کیا تا کہ اس وسیلے سے دولتمند اور غریب (غنى و فقير) یکسان ہو جائیں.
(من لا يحضره الفقيہ، ج 2 ص 43، ح 1 )
آنکھ اور کان کا روزه
قال الصادق علیه السلام :اذا صمت فليصم سمعك و بصرك و شعرك و جلدك.
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:جب تم روزه رکهتے ہو تمهاری آنکھ، کان، بالوں اور جلد کا بهی روزه ہونا چاہئے « یعنی انسان کے تمام اعضاء و جوارح کو بهی گناہوں سے پرهیز کرنا چاہئے.»
(الكافى ج 4 ص 87، ح 1 )
روزہ اور صبر
عن الصادق علیه السلام فى قول اللہ عزوجل :«واستعينوا بالصبر و الصلوة» قال: الصبر الصوم.
امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ: یہ جو اللہ جلَّ شأنُہ نے فرمایا ہے کہ صبر اور نماز سے مدد و اعانت حاصل کرو اس میں صبر سے مراد روزہ ہے.
(وسائل الشیعة، ج 7 ص 298، ح 3
روزہ داروں کو خوشخبری
قال الصادق علیه السلام :من صام للہ عزوجل يوما فى شدة الحر فاصابه ظما و كل اللہ به الف ملك يمسحون وجهه و يبشرونہه حتى اذا افطر.
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص بہت گرم دنوں میں خدا کے لئے روزہ رکهے اور اس کو پیاس لگے خدا هزار فرشتوں کو مأمور فرماتا ہے کہ اپنے ہاتھ اس کے چہرے پر مسح کرتے رہیں اور اس کو مسلسل جنت کی بشارت دیں حتی کہ وہ افطار کرے.
(الكافى، ج 4 ص 64 ح 8; بحار الانوار ج 93 ص 247 )
روزہ دار کی خوشی
قال الصادق علیہ السلام :للصائم فرحتان فرحة عند افطارہ و فرحة عند لقاء ربه
امام صادق علیہ السلام فرمود: روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں:
1 – افطار کے وقت 2 – لقاء رب کے وقت (یعنی مرتے وقت اور قیامت میں)
(وسائل الشیعة، ج 7 ص 290 و 294 ح6 و 26)
مستحب روزہ
قال الصادق علیہ السلام: من جاء بالحسنة فله عشر امثالها من ذلك صيام ثلاثة ايام من كل شهر.
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص عملِ نیک انجام دے 10 گنا انعام پاتا ہے اور انہی نیک اعمال مین سے ایک یہ ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکهے جائیں.
(وسائل الشیعة، ج 7، ص 313، ح 33 )
ماہ شعبان کا روزہ
من صام ثلاثة ايام من اخر شعبان و وصلها بشہر رمضان كتب اللہ له صوم شہرين متتابعين.
امام صادق (علیہ السلام) فرمود: جو شخص ماہ شعبان مین تین روزے رکهے اور اپنے روزوں کو ماه رمضان سے ملا دے خداوند متعال اسے دو متواتر مہینوں کے روزوں کا ثواب عطا کرے گا. (وسائل الشیعة ج 7 ص 375،ح 22 )
افطار کروانا
قال الصادق (علیہ السلام) :من فطر صائما فله مثل اجرہ
امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کروائے گا اس کے لئے روزہ دار شخص کے روزے جتنا ثواب ہے.
(الكافى، ج 4 ص 68، ح 1 )
روزه خوارى
قال الصادق علیه السلام : من افطر يوما من شهر رمضان خرج روح الايمان منه
امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: جو شخص رمضان کے ایک دن کا روزہ (بغیر کسی عذر کے) کهالے روحِ ایمان اس سے الگ ہوجاتی ہے.
(وسائل الشیعة، ج 7 ص 181، ح 4 و 5 - من لا يحضرہ الفقيہ ج 2 ص 73، ح 9 )
فیصلہ کن رات
قال الصادق علیه السلام :راس السنة ليلة القدر يكتب فيها ما يكون من السنة الى السنة.
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: سال (اور حساب اعمال) کا آغاز شب قدر ہے. اس رات آنے والے سال کا پورا پروگرام لکها جاتا ہے.
(وسائل الشیعة، ج 7 ص 258 ح 8)
شب قدر کی برتری
قيل لابى عبد اللہ علیه السلام :كيف تكون ليلة القدر خيرا من الف شهر؟ قال: العمل الصالح فيها خير من العمل فى الف شهر ليس فيها ليلة القدر.
امام صادق علیہ السلام سے پوچها گیا: شب قدر کس طرح ایک ہزار راتوں سے بہتر ہے ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: اس رات کے دوران عمل ان ہزار مہینوں کے عمل سے بہتر ہے جن میں شب قدر نہ ہو.
(وسائل الشیعة، ج 7 ص 256، ح 2 )
تقدير اعمال
قال الصادق علیه السلام : التقدير فى ليلة تسعة عشر و الابرام فى ليلة احدى و عشرين و الامضاء فى ليلة ثلاث و عشرين.
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اعمال کا تخمینہ (اور اعمال کی مقدار کا اندازہ) انیسوین کی رات کو لگایا جاتا ہے اور ان کی منظوری اکیسوین کی رات کو دی جاتی ہے اور ان کا نفاذ تئیسویں کی رات کو ہوتا ہے.
(وسائل الشیعة، ج 7 ص 259)
زكواة فطرہ
قال الصادق علیه السلام :ان من تمام الصوم اعطاء الزكاة يعنى الفطرة كما ان الصلوة على النبى صلى اللہ علیه و آله و سلم من تمام الصلوة.
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: روزوں کی تکمیل زکواة فطرہ کی ادائیگی سے ہوتی ہے جس طرح کہ نماز کی تکمیل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود و سلام بهیجنے سے ہوتی ہے.
(وسائل الشیعة، ج 6 ص 221، ح 5 )
مؤلف : محمد حسين فلاح زادہ