Super User

Super User

علماء کے درمیان یہ بحث ہے کہ کیا ہر سورے کے شروع میں بسم اللہ سورہ کا جز ہے یا نہیں؟ مکہ کے قدیم علماء (فقہا اور قاریان قرآن) منجملہ ابن کثیر اور اہل کوفہ سے عاصم اور کسائی قاریان قرآن اور اہل مدینہ میں بعض صحابہ اور تابعین اور اسی طرح امام شافعی اپنی کتاب جدید میں اور ان کے پیروکار ، نیز ثوری اور احمد (بن حنبل) اپنے دوقول میں سے ایک قول میں ؛ اسی نظریہ کے قائل ہیں کہ بسم اللہ تمام سوروں کا جز ہے

اس مسئلہ میں شیعہ علما اور دانشوروں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ”بسم اللہ “سورہ حمد اور بقیہ دوسرے سوروں کا جز ہے، اور قرآن مجید کے تمام سوروں کے شروع میں ”بسم اللہ “ کا ذکر ہونا خود اس بات پر محکم دلیل ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید میں کوئی چیز اضافہ نہیں ہوئی ہے، اور پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ سے آج تک ہر سورہ کے شروع میں بسم اللہ کا ذکر ہوتا رہا ہے ۔

لیکن اہل سنت علمامیں سے مشہور و معروف موٴلف صاحب تفسیر المنار نے اس سلسلہ میں مختلف علماکے اقوال نقل کئے ہیں:

علماکے درمیان یہ بحث ہے کہ کیا ہر سورے کے شروع میں بسم اللہ سورہ کا جز ہے یا نہیں؟ مکہ کے قدیم علماء (فقہا اور قاریان قرآن) منجملہ ابن کثیر اور اہل کوفہ سے عاصم اور کسائی قاریان قرآن، اور اہل مدینہ میں بعض صحابہ اور تابعین اور اسی طرح امام شافعی اپنی کتاب جدید میں اور ان کے پیروکار ، نیز ثوری اور احمد (بن حنبل) اپنے دوقول میں سے ایک قول میں ؛ اسی نظریہ کے قائل ہیں کہ بسم اللہ تمام سوروں کا جز ہے، اسی طرح شیعہ علمااور (ان کے قول کے مطابق) اصحاب میں (حضرت ) علی، ابن عباس، عبد اللہ بن عمر اور ابوہریرہ ، اور تابعین میں سے سعید بن جبیر، عطاء، زہری اور ابن المبارک نے بھی اسی عقیدہ کو قبول کیا ہے ۔

اس کے بعد مزید بیان کرتے ہیں کہ ان کی سب سے اہم دلیل صحابہ اور ان کے بعد آنے والے حکمران کا اتفاق اور اجماع ہے کہ ان سب لوگوں نے سورہ توبہ کے علاوہ تمام سوروں کے شروع میں ”بسم اللہ“ کو ذکر کیا ہے، جبکہ یہ سبھی حضرات اس بات پر تاکید کرتے تھے کہ جو چیز قرآن مجید کا جز نہیں ہے اس سے قرآن کو محفوظ رکھو ، اور اسی وجہ سے ”آمین“ کو سورہ حمد کے آخر میں ذکر نہیں کیا ہے ۔

اس کے بعد (امام) مالک اور ابو حنیفہ کے پیرو نیز دوسرے لوگوں سے نقل کیا ہے کہ وہ لوگ ”بسم اللہ“ کو ایک مستقل آیت مانتے تھے جو ہر سورے کے شروع میں سوروں کے درمیان فاصلہ کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے ۔

اور احمد (بن حنبل) (اہل سنت کے مشہور و معروف فقیہ) اور بعض کوفی قاریوں سے نقل کرتے ہیں کہ وہ لوگ ”بسم اللہ“ کو صرف سورہ حمد کا جز مانتے تھے نہ کہ دوسرے سوروں کا،(1)

(قارئین کرام!) مذکورہ اقوال سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اہل سنت کے علماکی اکثریت بھی اسی نظریہ کی قائل ہے کہ بسم اللہ سورہ کا جز ہے، ہم یہاں شیعہ اور سنی دونوں فریقوں کی کتابوں میں منقول روایات کو بیان کرتے ہیں (اور اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان تمام کا یہاں ذکر کرنا ہماری بحث سے خارج ہے، اور مکمل طور پر ایک فقہی بحث ہے)

۱۔ ”معاویہ بن عمار“ جوامام صادق علیہ السلام کے چاہنے والوں میں سے ہیں، کہتے ہیں کہ میں نے امام علیہ السلام سے سوال کیا کہ جب میں نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوجاؤں تو کیاسورہ حمد کے شروع میں بسم اللہ پڑھوں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ہاں، میں نے پھر سوال کیا کہ جس وقت سورہ حمد تمام ہوجائے اور اس کے بعد دوسرا سورہ پڑھنا چاہوں تو کیا بسم اللہ کا پڑھنا ضروری ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں۔(2)

۲۔سنی عالم دین دار قطنی صحیح سند کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ ”السبع المثانی“ سے مراد کیا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اس سے مراد سورہ حمد ہے، تو اس نے سوال کیا کہ سورہ حمد میں تو چھ آیتیں ہیں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی اس کی ایک آیت ہے ۔(3)

۳۔ اہل سنت کے مشہور و معروف عالم بیہقی، صحیح سند کے ساتھ ابن جبیر اور ابن عباس سے اس طرح نقل کرتے ہیں:”استرَقَ الشَّیْطَان مِنَ النَّاسِ، اٴعظم آیة من القرآن بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ “(4) شیطان صفت لوگوں نے قرآن کریم کی سب سے بڑی آیت یعنی ”بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“کو چوری کرلیا ہے“ (اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سوروں کے شروع میں بسم اللہ نہیں پڑھتے)

اس کے علاوہ ہمیشہ مسلمانوں کی یہ سیرت رہی ہے کہ ہر سورے کو شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھتے ہیں اور تواتر کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) بھی ہر سورے کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا کرتے تھے، اس صورت میں کیسے ممکن ہے کہ جو چیز قرآن کا حصہ نہ ہو خود پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کی امت اسے قرآن کے ساتھ ہمیشہ پڑھا کریں؟!۔

لیکن جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بسم اللہ ایک مستقل آیت ہے اور قرآن کا جز ہے مگر سوروں کا جز نہیں ہے، یہ نظریہ بھی بہت ضعیف ہے، کیونکہ بسم اللہ کے معنی کچھ اس طرح کے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کام کی ابتدا اور آغاز کے لئے ہے، نہ یہ کہ ایک مستقل اور الگ معنی ، درحقیقت اس طرح کا شدید تعصب کہ اپنی بات پر اڑے رہیں اور کہیں کہ بسم اللہ ایک مستقل آیت

ہے ،جس کاما قبل مبا لغہ سے کوئی ربط نہیں ہے، لیکن بسم اللہ کے معنی بلند آواز میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ بعد میں شروع ہونے والی بحث کا سر آغاز ہے ۔

صرف مخالفین کا ایک اعتراض قابل توجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے سوروں میں (سورہ حمد کے علاوہ) بسم اللہ کو ایک آیت شمار نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے بعد والی آیت کو پہلی آیت شمار کیا جاتا ہے ۔

اس اعتراض کا جواب”فخر الدین رازی“ نے اپنی تفسیر کبیر میں واضح کردیا کہ کوئی ممانعت نہیں ہے کہ بسم اللہ صرف سورہ حمد میں ایک آیت شمار کی جائے اور قرآن کے دوسرے سوروں میں پہلی آیت کا ایک حصہ شمار کیا جائے، اس لحاظ سے مثلاً سورہ کوثر میں ایک آیت شمار ہو ۔

 

(1)تفسیر المنار ، جلد ۱ صفحہ۳۹۔۴۰

(2) اصول کافی ، ، جلد ۳،صفحہ & (3) الاتقان ، جلد اول، صفحہ ۱۳۶

(4) بیہقی ، جلد ۲، صفحہ ۵۰

ايران كی قرآنی خبر رساں ايجنسی (ايكنا) نے «Press TV» كے حوالے سے نقل كرتے ہوئے كہا ہے كہ اس ويب سائیٹ كے ايك ترجمان نے لبنان سے نكلنے والے اخبار ، روزنامہ"ڈيلی سٹار" كے ساتھ گفتگو كے دوران كہا : اس كمپنی نے اپنی ويب سائیٹ سے حزب اللہ كے ٹی وی چينل "المنار" كے ہوم پيج كو "اشتعال انگيزی" كے الزامات كی وجہ سے حذف كر ديا ہے ۔

فرڈريك وولنس نے كہا : ہم اپنے قوانين اور ذمہ داريوں كی بنياد پر ايسے موضوعات كی اجازت نہیں دے سكتے جو انتہا پسندی كو رواج دیتے ہوں ۔

وولن نے اس بات كا بھی دعوا كيا ہے كہ وزارت خارجہ كی جانب سے حزب اللہ كو ممكنہ طور پر بليك لسٹ میں شامل كيا جا سكتا ہے لہذا المنار كے ہوم پيج كو اس سائیٹ سے حذف كرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔

ترکی کی حکومت اور مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے مقبوضہ فلسطین کے شہر بئر سبع میں اسرائیلی حکومت کی سرپرستی میں ایک قدیم جامع مسجد کے باہر شراب میلے کے انعقاد کی شدید مذمت کی ہے۔ ترک تنظیموں نے مسجد کے باہر شراب میلے جیسے شرمناک اقدام کو شعائر اسلام کی توہین اور آسمانی مذاہب کی تعلیمات کی خلاف ورزی قرار دیا۔

ذرائع کے مطابق ترک محکمہ اوقاف و مذہبی امور کے چیئرمین نوری اونال نے اپنے ایک پریس بیان میں فلسطینی شہر بئر سبع کی قدیم جامع مسجد کے صحن میں شراب اور الکحل فروخت کرنے والے والی کمپنیوں کی مصنوعات کی نمائش اور شراب میلے کے انعقاد کی شدید مذمت کی۔ بیان میں کہا گیا کہ مسجد جیسے مقدس مقام کو شراب جیسی مکروہ اشیاء سے آلودہ کرنے سے صہیونیوں کی اسلام دشمنی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ یہ اقدام واضح کرتا ہے کہ یہودیوں کو فلسطینیوں سے پرخاش نہیں بلکہ اس کی دشمنی کا محور اور مرکز شعائر اسلام ہیں۔ مسجد کے باہر شراب میلے کا انعقاد اپنی نوعیت کا شرمناک اور قابل مذمت اقدام ہی نہیں بلکہ آسمانی مذاہب کی تعلیمات کی بھی کھلی توہین ہے۔

بیان میں ترک عہدیدار کا کہنا ہے کہ مسلمان دنیا بھر میں یہودیوں کے کنیسوں(معابد) اور عیسائیوں کے چرچوں سمیت دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کی اسی طرح حفاظت کرتے ہیں جس طرح وہ مساجد کی حفاظت کرتے ہیں لیکن ہمیں نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فلسطین میں یہودی غنڈہ گردوں کے ہاتھوں نہ مسلمان محفوظ ہیں اور نہ ہی ان کی عبادت گاہیں اور مساجد محفوظ ہیں۔

نوری اونال نے صہیونی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسجد بئر سبع میں شراب خانہ قائم کرنے اور شراب میلے کے انعقاد کا فیصلہ واپس لے اور مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کی سازشوں سے باز آئے۔

اطلاعات کے مطابق 5، 6 ستمبر کو بئر السبع میں منعقد ہونے والے چھٹے سالانہ شراب میلے میں اسرائیل اور بیرون ملک سے 30 شراب بنانے والی کمپنیاں شرکت کریں گی۔ اسرائیل میں عرب اقلیتوں کے سینٹر "العدالہ" کے مطابق میلے میں محفل موسیقی کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔

"العدالہ" نے سن 2002ء میں ایک پٹیشن دائر کی تھی جس میں مسجد کو نماز کے لئے دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ مسجد سنہ 1948ء تک نماز کے لئے کھلی رہی، اس کے بعد اسے جیل اور بعد ازاں 1952ء تک عدالت بنا دیا گیا۔ یہ مسجد 1953 سے 1991ء تک "نقب میوزیم" کے طور استعمال ہوتی رہی۔ اس کے بعد سے مسجد خالی چلی آ رہی ہے۔ اس مسجد کو 1906ء میں عثمانیہ دور میں تعمیر کیا گیا۔

Sunday, 26 August 2012 04:46

مسجد پیرس- فرانس

مسجدِ پیرس فرانس میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ہے۔ یہ فرانس کے دارالحکومت پیرس کے قدیم حصے میں واقع ہے۔

اس مسجد کا باقاعدہ افتتاح 15جولائی 1926ء کو ہوا تھا اگرچہ اس میں پہلی نماز 1922ء میں پڑھی گئی تھی۔

مسجدِ پیرس کا مینار

یہ ایک ہیکٹر رقبے پر واقع ہے اور اس کا مینار 33 میٹر اونچا ہے۔ اس میں مدرسہ اور کتب خانہ قائم ہیں۔ اسے فرانس اور الجزائر کی حکومتیں مسجد کی ایک کمیٹی کی مدد سے مل کر چلاتی ہیں۔

تاریخ

مسجدِ پیرس کا ایک صحن

اس مسجد کا پہلا منصوبہ فرانس کی افریقی کمیٹی نے 1895ء میں بنایا تھا مگر اس وقت فرانسیسی حکومت نے اسے منظور نہ کیا۔ 1916ء میں جنگِ ورداں (Bataille de Verdun) میں پچاس ہزار مسلمان فرانس کی طرف سے جنگ کرتے ہوئے ہلاک ہوئے۔ یہ جنگ جرمنی سے ہوئی تھی۔ اسی طرح پہلی جنگِ عظیم میں فرانس کی مدد کرتے ہوئے ایک لاکھ مسلمان ہلاک ہوئے جن کا تعلق زیادہ تر شمالی افریقہ کے ممالک مراکش، تیونس اور الجزائر سے تھا۔ اس وقت یہ ممالک فرانس کے زیرِ تسلط تھے۔ اس مدد کی وجہ سے فرانس کی حکومت نے مسجد کی تعمیر کا منصوبہ منظور کر لیا۔ حکومت فرانس لے اس کی تعمیر کے لیے روپیہ فراہم کیا۔

1922ء میں تعمیر شروع ہوئی اور زیرِ تعمیر مسجد میں پہلی نماز پڑھی گئی۔ اس کا باقاعدہ افتتاح 15جولائی 1926ء کو فرانس کے اس وقت کے صدر گاستوں دومیغگ (Gaston Doumergue) نے کیا۔ یہ مسجد ایک سابقہ ہسپتال کی جگہ بنائی گئی جو پیرس کے مشہور باغِ اشجار (Jardin des plantes ) کے سامنے واقع تھا۔

طرزِ تعمیر

مسجد کا ایک اندرونی دروازہ

اس مسجد کو مراکش کے شہر فاس کی مشہور مسجد القرویین کی طرح تعمیر کیا گیا ہے جو 859ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس کا مینار ایک اور مسجد 'جامع القیروان الاکبر' (جو تیونس کی ایک قدیم مسجد ہے) کی طرز پر بنایا گیا ہے۔

اس کا بیرونی دروازہ اور اندرونی دروازے اسلامی طرزِ تعمیر کا عمدہ نمونہ ہیں۔ اس کے کئی صحن ہیں جن میں خوبصورت فوارے لگے ہوئے ہیں۔ اس میں ایک مدرسہ، ایک کتاب خانہ، ایک کانفرنس روم، نماز کے لیے ایک ہال اور ایک ریستوراں شامل ہیں۔ ریستوراں میں بہت سے مسلمان اور غیر مسلم عربی کھانے شوق سے کھاتے ہیں۔

مسجد کی دیواریں حسین کاشی کاری سے مزین ہیں۔ مسجد کے اردگرد گھر اور دفاتر کے قائم ہونے کی وجہ سے اس کا حسن چھپ سا گیا ہے۔ مگر مسجد کے اندر داخل ہونے کے بعد اس کا حسن سامنے آجاتا ہے۔ اسے بہت سے فرانسیسی اور غیرملکی دیکھنے آتے ہیں۔

مسجد کی دیوار پر نقش و نگار

مسجد کا فرانس میں کردار

یہ مسجد مسلمانوں اور غیر مسلم فرانسیسیوں کے درمیان اتحاد اور محبت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں فرانس پر جرمنی کے قبضہ کے دوران یہ مسجد فرانس کی آزادی کی تحریک (résistance) کو تحفظ فراہم کرتی رہی ہے۔ اس مسجد میں پیراشوٹ سے نیچے اترنے والے برطانوی فوجیوں نے بھی پناہ لی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے بہت سے یہودی خاندانوں کو بھی جرمنوں سے پناہ دیے رکھی جس کا جرمن افواج کو پتہ نہ چل سکا۔ ان پناہ گزین یہودیوں کی تعداد 1600 سے زیادہ تھی۔ ان کو مختلف طریقوں سے بچایا گیا۔ کچھ کو چھپا لیا گیا اور کچھ کے لیے جعلی دستاویزات مہیا کی گئیں کہ وہ مسلمان ہیں۔ کافی تعداد میں یہودیوں اور ان فرانسیسی عیسائیوں کو، جو جرمنوں کو درکار تھے، المغرب (الجزائر، تیونس، مراکش) یا جنوبی فرانس میں فرار کروایا گیا۔ اس وجہ سے بہت سے یہودی جرمنی کے عقوبت خانوں میں جانے سے بچ گئے۔ اس کے باوجود 1960ء کی دہائی میں فرانس کی فوج نے الجزائر میں بے شمار مظالم ڈھائے۔

موجودہ دور میں مسجد کو فرانس اور الجزائر کی حکومتوں کے تعاون سے اور ایک مسجد کمیٹی کی مدد سے چلایا جاتا ہے۔ اس سے فرانس کے مسلمانوں اور غیر مسلموں میں ایک خوشگوار رابطہ ہوتا ہے۔ اس مسجد میں ہر قومیت کے مسلمان مل سکتے ہیں کیونکہ یہ پیرس شہر کی مرکزی مسجد ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مساجد ہیں مگر وہ مختصر جگہ پر بعض جگہ ایک کمرہ پر مشتمل ہیں۔

نماز کی جگہ

سیاحت

مسجد سارا سال سیاحت کے لیے بھی کھلی رہتی ہے۔ اس میں عربی اور فرانسیسی زبانوں میں درس ہوتے ہیں جن میں غیر مسلم سیاح بھی شرکت کرتے ہیں۔

اندرونی صحن

علامہ اقبال کی نظر میں

حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے 1932ء میں دورۂ پیرس کے موقع پر اس مسجد کا دورہ کیا تھا اور بعد ازاں اپنے مجموعۂ کلام ضرب کلیم میں پیرس کی مسجد کے عنوان سے ایک نظم لکھی :

” مری نگاہ کمالِ ہنر کو کیا دیکھے

کہ حق سے یہ حرمِ مغربی ہے بیگانہ

حرم نہیں ہے، فرنگی کرشمہ بازوں نے

تنِ حرم میں چھپا دی ہے روحِ بت خانہ

یہ بت کدہ انہی غارت گروں کی ہے تعمیر

دمشق ہاتھ سے جن کے ہوا ہے ویرانہ “

خلاصہ :

اگر معاشرے ميں عورت کے بارے ميں غلط فکر و نظر موجود ہو تو صحيح معني ميں اوروسيع پيمانے پر اُسے ازسر نو صحيح کرنا مشکل ہوگا۔ خود خواتين کو بھي چاہيے کہ اسلام ميں خواتين کے موضوع پر کافي مقدار ميں لازمي حد تک اطلاعات رکھتي ہوں تاکہ دين مبين اسلام کے کامل نظريے کي روشني ميں اپنا حقوق کا بھرپور دفاع کر سکيں۔ اسي طرح اسلامي ملک ميں معاشرے کے تمام افراد کو يہ جاننا چاہيے کہ خواتين، مختلف شعبہ ہائے زندگي ميں اُن کي موجودگي، فعاليت،تحصيل علم،اجتماعي ،سياسي ، اقتصادي اورعلمي ميدانوںميں اُن کي شرکت اورگھر اور گھر سے باہر اُن کے کردار کے بارے ميں اسلام کيا بيان کرتا ہے۔

متن:

خواتين کے بارے ميں اسلام کي واضح ، جامع اور کامل نظر

اسلام کي نظر کي کامل شناخت اور مکمل وضاحت کي ضرورت

اگر معاشرے ميں عورت کے بارے ميں غلط فکر و نظر موجود ہو تو صحيح معني ميں اوروسيع پيمانے پر اُسے ازسر نو صحيح کرنا مشکل ہوگا۔ خود خواتين کو بھي چاہيے کہ اسلام ميں خواتين کے موضوع پر کافي مقدار ميں لازمي حد تک اطلاعات رکھتي ہوں تاکہ دين مبين اسلام کے کامل نظريے کي روشني ميں اپنا حقوق کا بھرپور دفاع کر سکيں۔ اسي طرح اسلامي ملک ميں معاشرے کے تمام افراد کو يہ جاننا چاہيے کہ خواتين، مختلف شعبہ ہائے زندگي ميں اُن کي موجودگي، فعاليت،تحصيل علم،اجتماعي ،سياسي ، اقتصادي اورعلمي ميدانوںميں اُن کي شرکت اورگھر اور گھر سے باہر اُن کے کردار کے بارے ميں اسلام کيا بيان کرتا ہے۔

اِن سب موضوعات کے بارے ميں اسلام کي ايک بہت واضح اورروشن نظر ہے ۔ اگرہم اسلام کي نظر کادنيا کي مختلف ثقافتوں خصوصاً مغربي ثقافت سے موازنہ کريں تو ہم ديکھيں گے کہ اسلام کي نظر بہت ترقي يافتہ ہے ۔ اسي طرح آج کے مرد کے ذہن پر چھائے ہوئے افکار و نظريات کے مقابلے ميں اسلامي فکر و نظر بے مثل ونظير ہے اور يہ اسلام ہي کي واضح اور روشن نظر ہے جو ملکي بہبود و ترقي اور ملک ميں خواتين کي زيادہ سے زيادہ ترقي اور اُن کے مقام و منصب ميں اضافے کا باعث ہے۔

ميري بہنو! توجہ فرمايئے،ميں خاص طور پر اِس امر کيلئے تاکيد کررہا ہوں کہ نوجوان خواتين، بلند آرزووں اورآ ہني حوصلوں اورقلبي شوق و تڑپ کي مالک ہيں، وہ بھرپور توجہ ديں تاکہ اِس جلسے کي مناسبت سے مختصر مطالب آپ کي خدمت ميں عرض کروں۔

انساني زندگي اور خواتين کي شان ومنزلت اور اُن کي معاشرتي حيثيت کے بارے ميں اسلام کي نظر تين حصوں ميں قابل تقسيم ہے۔ ميں نے بارہا ان مطالب کو بيان کيا ہے ليکن ميرا اصرار ہے کہ ان مطالب کو معاشرے کي خواتين کے ليے جتنا زيادہ ہوسکے بيان کيا جائے۔ جن افراد کو اِس سلسلے ميں سب سے زيادہ فعال ہونا چاہيے وہ خود ہمارے معاشرے کي خواتين ہيں۔

ظالم اور مقصّر کون، مرد يا عورت يا دونوں؟

ميري بہنو اور بيٹيو! ميرا يقين ہے اور يہ ميري نظر ہے کہ اسلامي معاشرے کے کسي حصے ميں بھي خواہ خود ايران کے اندر ہو يا مختلف ممالک ميں، اگر مسلمان خواتين کے بارے ميں کوتاہي نظر آتي ہے تو اس ميں تھوڑے مقصّر خود مرد بھي ہيں اور تھوڑي مقدار ميں خود خواتين بھي اِس تقصير ميں شامل ہيں۔ کيونکہ جس کسي کو سب سے پہلے خواتين کي اسلامي حيثيت اور مقام و منزلت کو پہنچانا اور اُس کا دفاع کرنا چاہيے، وہ خواتين ہيں۔ اُنہيں جاننا چاہيے کہ خدا، قرآن اور اسلام نے اُن کيلئے کيا احکامات صادر کيے ہيں، اِن کے ذريعے خواتين سے کيسا امر مطلوب ہے اور اُن کي ذمہ داريوں اور فرائض کو کون معين کرے گا؟ ضروري ہے کہ خواتين اپنے بارے ميں اسلامي احکامات اور اسلام کي اُن سے توقع کو جانيں ، اُن کا دفاع کريں اور اُن کے حصول کي کريں۔ اگر وہ يہ سب امور انجام نہ ديں تو وہ افراد جو کسي بھي ’’قدر‘‘ کے شناسا اور پابند نہيں ہيں وہ خواتين پر ظلم و ستم کريں گے۔جيسا کہ آج مغربي دنيا اور اُس ديار غربت ١ ميں رائج مادي نظاموں (سوشلزم، کميونزم، کيپٹلزم، فمينزم?) کے زير سايہ ، خواتين کيلئے لگائے جانے والے ظاہري خوبصورت نعروں کے باوجود ، سب سے زيادہ ظلم مغربي مرد اپني عورتوں پر کررہے ہيں۔ باپ اپني بيٹي پر ،بھائي اپني بہن پر اور شوہر اپني بيوي پر۔ دنيا ميں ديے گئے اعداد و شمار کے مطابق، خواتين، بيويوں، بہنوں يا حتي بيٹيوں پر سب سے زيادہ ظلم و ستم و آبرو ريزي اور اُن کے حقوق کي پائمالي اُن افراد کي طرف سے ہوتي ہے جو مغربي نظاموں ميں زندگي بسر کررہے ہيں۔ يعني اگر کسي معاشرتي نظام ميں معنوي اقدار حاکم نہ ہوں اور خدا کا وجود دلوں ميں نہ ہو تومرد اپني جسماني طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے خواتين پر ظلم وستم کي راہ کو اپنے ليے کھلا پائے گا۔

١ جو معاشرہ اپني خواتين کي حيثيت و آبرو کو پائمال کرے اور جہاں عورت جيسي عظيم ہستي ايک کھلونے سے زيادہ کي حيثيت نہ رکھتي ہو تو وہ معاشرا حقيقت ميں غريب ہے اور اُسے ديار غربت کہنا شائستہ ہے۔ (مترجم)

خواتين پر ظلم کي راہ ميں مانع دو چيزيں

دو چيزيں خواتين پر ظلم و ستم کي راہ ميں مانع بن سکتي ہيں۔ايک خدا، قانون اور ايمان وغيرہ کا خيال رکھنا اوردوسري خود خواتين ہيں جو اپنے انساني اور خدائي حقوق کو اچھي طرح پہچانيں اور اُن کا دفاع کريں اورحقيقي طور پر اُنہيں چاہيں اورحاصل کريں۔ اِس سلسلے ميں اسلام افراط وتفريط سے دورايک درمياني راستے کو متعارف کراتاہے۔ نہ خود عورت کوظلم کرنے اجازت ديتا ہے اور نہ ہي مرد وعورت کي طبيعت ومزاج کو نظر انداز کرتا ہے۔صحيح اور سيدھا راستہ وہي اسلام کا متعارف کردہ راستہ ہے

مصنف:سيّد علي حسيني خامنہ اي

پاکستان نے کہا ہے کہ وہ اپني سرزمين پر ہونے والے غيرقانوني ڈرون حملوں کا مسئلہ حل کرنے کے ليے امريکا سے رابطے ميں ہے اور مختلف آپشن زير غور ہيں.

پاکستانی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان نے کہا ہے کہ وہ اپني سرزمين پر ہونے والے غيرقانوني ڈرون حملوں کا مسئلہ حل کرنے کے ليے امريکا سے رابطے ميں ہے اور مختلف آپشن زير غور ہيں. ترجمان دفترخارجہ نے اسلام آباد ميں ميڈيا کو بريفنگ ميں بتايا کہ ڈرون حملوں میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہے اور نہ ہی پاکستانی اداروں کی نشاندہی پر ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ حملے پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈرون حملوں کے مسئلے کے دو طرفہ حل کے لیے متعدد تجاویز زیرِ غور ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ میں قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے سربراہ نے کہا ہےکہ تہران میں ناوابستہ تحریک کا سربراہی اجلاس پابندیوں کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ بروجردی نے کہا کہ ایسے عالم میں جبکہ امریکہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اپنے تمام تر وسائل و ذرا‏ئع لگا رکھے ہیں تہران میں ناوابستہ تحریک کا سربراہی اجلاس امریکہ کی شکست اور عالمی سطح پر ایران کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا تہران میں ایک سو بیس ملکوں پر مشتمل تنظیم کا سربراہی اجلاس منعقد ہوگا جس سے ایران عالمی سطح اور خارجہ پالیسی کی سطح پر ایک بڑا تجربہ حاصل کرے گا اور آئندہ تین برسوں تک ناوابستہ تحریک کی صدارت ایران کے ہاتھوں میں رہے گي۔ بروجردی نے کہا کہ تہران میں ناوابستہ تحریک کے اجلاس سے صیہونی حکومت بوکھلائي ہوئي ہے اور اقوام متحدہ کے سکیرٹری جنرل بان کی مون پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ تہران نہ جائيں، انہوں نے کہا کہ اس سے پتہ چلتا ہےکہ صیہونی حکومت اسلامی جمہوریہ ایران کے سیاسی اقتدار سے بوکھلائي ہوئي ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ناوابستہ تحریک نے متعدد مرتبہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو پرامن قراردیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ایران کے خلاف امریکہ کے اقدامات غیر قانونی اور غیر دانشمندانہ ہیں۔

ہندوستان کی رياست راجستھان ميں مون سون بارشوں سے اب تک 20 افراد ہلاک اور 20 ہزار سے زائد متاثر ہوئے ہيں.

ہندوستانی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ہندوستان کی رياست راجستھان ميں مون سون بارشوں سے اب تک 20 افراد ہلاک اور 20 ہزار سے زائد متاثر ہوئے ہيں. جے پور ميں شديد بارشوں کے ساتھ ہي سڑکوں اور گليوں ميں پاني کھڑا ہوگيا ہےجس سے معمولات زندگي متاثر ہوئي ہے. بارشوں اور سيلاب سے رياست ميں ہزاروں افراد متاثر ہوئے ہيں.

تہران کے خطيب نماز جمعہ نے ايران کے ميزباني ميں ہونے والے ناوابستہ تحريک کے سربراہي اجلاس کو عالمي سطح پر ايران کے موثر کردار کي علامت قرار ديا ہے-

تہران يونيورسٹي ميں نماز جمعہ کے روح پرور اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آيت اللہ کاظم صديقي نے کہا کہ ايسے وقت ميں جب عالمي سامراجي طاقتيں ايران کو عالمي سطح پر تنہا کرنے کے لئے ايڑي چوٹي کا زور لگار ہي ہيں، ايران دنيا کے ديگر ملکوں کے لئے ايک رول ماڈل ميں تبديل ہوگيا ہے-

انہوں نے کہا کہ تہران ميں دنيا کے ايک سو بيس ملکوں کي شرکت سے ناوابستہ تحريک کا اجلاس مغربي ملکوں کي جانب سے ايران کو تنہا کرنے کي سازشوں کي ناکامي کا ثبوت ہے-

آيت اللہ کاظم صديقي نے ہفتہ حکومت کي قدر داني کي اور ملک و ملت کے لئے شہيد رجائي و باہنر کي خدمات کو خراج تحسين پيش کيا-

شام کي صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے تہران کے خطيب جمعہ نے کہا کہ دشمن شام کے بحران کے ذريعے مسئلہ فلسطين کو ختم کرنے کي کوشش کر رہا ہے-

انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطين کو فراموش نہيں کيا جاسکتا اور ساري دنيا کے مسلمانوں نے غاصب اسرائيل کا وجود صفحہ ہستي سے نابود کرنے کا پکا عزم کر رکھا ہے- انہوں نے کہا بحرين کے عوام ايماني طاقت اور قومي جذبے کے ساتھ جمہوريت کي تحريک چلا رہے ہيں اور کاميابي کے حصول پر يقين رکھتے ہيں-

 

 

مسجد ہوائشنگ (懷聖寺) چین کی ایک قدیم ترین مسجد ہے جو چین میں مسلمانوں کے پہلے قافلے نے 630ء کی دہائی میں تعمیر کروائی تھی۔

یہ چین کے علاقے گوانگ ژو (廣州 ، Guangzhou) میں واقع ہے۔

یہ چین کے صوبہ گوانگ ڈونگ (廣東 ، Guangdong) میں واقع ہے اور ہانگ کانگ سے صرف 120 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

اس مسجد کے بے شمار دوسرے نام بھی ہیں مثلاً مسجد گوانگ ژو، مسجد گوانگ تاسی اور مسجد ہوائی سن سو۔