
Super User
اسماعیلیہ (بوہرہ)
ایک ہزار چورانویے صدی عیسوی میں فاطمی حکمران المستنصر کی موت کے بعد ان کی جانشینی کے سلسلے میں اسماعیلی فرقے میں شدید اختلافات پیداہوگۓ مستنصر نے اپنے بڑے بیٹے ابو منصورنزار کو اپنا جانشین معین کیا تھا لیکن ان کے وزیر افضل نے ان کی وفات کے بعد بغاوت کردی اور ان کے چھوٹے بیٹے القاسم احمد معروف بہ المستعلی باللہ کو تخت نشین کردیا ۔
بوہرے
داودی بوہروں کی آبادی کے بارے میں صحیح معلومات نہیں ہیں تاہم ھندوستان میں تقریبا دولاکھ دس ہزار بوہرے رہتے ہیں بعض تخمینوں کے مطابق عالمی سطح پر بوہروں کی تعداد پانچ لاکھ بتائي جاتی ہے ،داودی بوہرے ھندوستان ،پاکستان ،یمن ،سری لنکا مشرق بعید اور خلیج فارس کے جنوبی علاقوں میں بستے ہیں ان ملکوں میں داودی بوہروں کی تعداد میں کمی آرہی ہے ۔
عقائد
بوہروں کا امام اور ان کے جانشین سب غائب ہیں یہ بوہروں کا اہم ترین اصول عقیدہ ہے اور جو داعی ہیں وہ امام کے حکم سے اس کے جانشین بنتے ہیں ان کی پہلی دینی کتاب قرآن ہے صرف داعی ہی قرآن کے باطن تک رسائي حاصل کرسکتاہے ،حدیث و سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ان کے منابع دینی میں شامل ہیں ،بوہرے خداکی وحدانیت پر یقین رکھتے ہیں اور مفہوم خدا نہایت مجرد اور دور از ذھن ہے،بوہرے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم الانبیاء اور اپنے داعی کو رسول کی صلاحیتوں کا حامل سمجھتے ہیں ۔
دینی فرائض
بوہروں کے نزدیک رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اھل بیت کی مودت و محبت رکن اسلام ہے یہ لوگ قسم میثاق میں جس پر تمام بوہرے متفق ہیں کہتے ہیں کہ " صدق دل سے امام ابوالقاسم امیرالمومنین جو تمہارے امام ہیں پیروی کریں "ان کے فرائض پنجگانہ اس طرح ہیں ،اذان انکی اذان شيعه کی طرح ہے لیکن وضو کا طریقہ اھل سنت کی طرح ہے ،بوہرے نمازکے دوران ہاتھہ کھلے رکھتے ہیں نمازکے لۓ ان کا لباس مخصوص ہوتا ہے یہ لوگ تین وقت نمازپڑھتے ہیں اور ہر نماز کے اختتام پر رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،حضرت علی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھم اور اپنے اکیس اماموں کا نام لیتے ہیں ۔
بوہرے نمازجمعہ کے قائل نہیں ہیں ان کی دعاؤں کی کتاب کانام "صحیفۃ الصلاۃ "ہے بوہروں کے نزدیک شفاعت کانہایت اہم مقام ہے ۔
زکات
ہربوہرے پر زکات واجب ہے ان پر چھہ طرح کی زکاتیں واجب ہیں جو حسب ذیل ہیں ۔
1- زکات صلات ؛اس کی مقدار چار آنہ ہے اور ہرفرد پرواجب ہے
2 - زکات فطرہ اس کی مقدار بھی چارآنہ ہے ۔
3 - زکات حق النفس یہ زکا ت عروج ارواح اموات ہے جس کی مقدار ایک سو انیس روپیے ہے ۔
4 جق نکاح ؛یہ زکات حق ازدواج کے طور پر اداکی جاتی ہے اس کی مقدار گیارہ روپیے ہے ۔
5 - زکات سلامی سیدنا؛یہ داعی مطلق کے لۓ نقدی تحفے ہیں ۔
6- زکات دعوت؛یہ زکات دعوت کے اخراجات پورے کرنے کے لۓ ادا کی جاتی ہے اور تین طرح کی ہے ۔
الف ؛ آمدنی پر ٹیکس جو کہ تاجربرادری سے لی جاتی ہے
ب؛ خمس جوکہ متوقع آمدنی کا ایک بٹاپانچ حصہ ہوتا ہے جیسے وراثت میں ملنے والے اموال ۔
ج وہ لوگ جو بیماری کی وجہ سے نماز وروزہ ادا نہیں کرسکتے ان پر بھی یہ زکات واجب ہے ۔
7- نذر مقام ،امام غائب کی نذر کےلے جوپیسہ رکھاجاتا ہے اسے کہتے ہیں ۔
روزہ
بوہروں کاروزہ تیس دنون کا ماہ رمضان میں ہوتا ہے یہ لوگ ہرمہینے کی پہلی اور آخری تاریخ اور ہر پنچ شنبہ کوبھی روزہ رکھتے ہيں اس کے علاوہ ہرمہینے کے وسطی چہارشنبہ کوبھی روزہ رکھتے ہیں ۔روزے اھل سنت سے چند روزقبل شروع کرکے چند روزپہلے ہی تمام کرتے ہیں ۔
حج وزیارت
بوہروں کے نزدیک استطاعت رکھنے والون پر حج واجب ہے اور اس فریضے کے لۓ ضروری ہےکہ قسم میثاق کھائی جاۓ یہ لوگ مکہ کے علاوہ کربلا کی زیارت کو بھی جاتے ہيں اور کچہ لوگ نجف و قاہرہ بھی جاتے ہيں ھندوستان میں بوہروں کی مشہور زیارتگاہیں احمد آباد ، سورت ، جام نگر ، مانڈوی ، اجین اور برھانپور میں ہیں ۔
بوہروں کے مشاہد اولیاء میں ان مقامات کانام لیا جاسکتا ہے مقبرہ جندابای بمبئی ،مقبرہ نتابائی ،مقبرہ مولانا وحید بائی ،مقبرہ مولانا نورالدین بمبئی ۔
بوہروں کے نزدیک محرم کے تابوتوں اور تعزیوں کے لۓ نذر کرنا شرک ہے لیکن انکے نزدیک اولیاء خدا کے مزارت پرنذر کرنا جائزہے اس علاوہ وہ اور بھی نذورات کے قائل ہیں جیسے معین دنوں میں نذر کاروزہ رکھنا ،بعض دعائيں باربار پڑھنا،کھانا کھلانا ،مذھبی مقامات تعمیرکرنا ،اور وقف کرنا ۔
بوہروں پر عھد اولیآءکی بناپر جھاد واجب ہے اور جھاد ہرزمانے میں جب بھی امام یا داعی ضروری سمجھیں واجب ہے اور اس میں خلوص سے شرکت ضروری ہے ۔
حشرونشر
بوہرے حشرونشر و قیامت کے بارے میں فاطمیوں کے عقائد کے تابع ہیں سعادت کی واحد راہ امام کی پیروی ہے موت کے بعد بھی سعادت کی راہ جاری رہتی ہے یہانتک کہ مومن بوہرہ خدا سےجاملتا ہے اور دونوں ایک ہوجاتے ہیں بنابریں نیک بوہرے کی روح موت کے بعد اس کے نفس سے جو ابھی دنیا میں ہے نزدیک ہوتی جاتی ہے اس طرح زندہ شخص کو خیر و شر کا الھام ہوتاہے اور اسی کے ساتھ ساتھ اس سے تعلیم بھی حاصل کرتی ہے ۔
مسجد نبوی
شہر مدینہ منورہ میں قائم اسلام کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے ۔ مکہ مکرمہ میں مسجد حرام مسلمانوں کے لئے مقدس ترین مقام ہے جبکہ بیت المقدس میں مسجد اقصی اسلام کا تیسرا مقدس مقام ہے ۔
تعمیر
مسجد الحرام کے بعد دنیا کی سب سے اہم مسجد ”مسجد نبوی“ کی تعمیر کا آغاز 18 ربیع الاول سنہ 1ھ کو ہوا ۔ حضور اکرم )ص( نے مدینے ہجرت کے فوراً بعد اس مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور خود بھی اس کی تعمیر میں بھر پور شرکت کی ۔مسجد کی دیواریں پتھر اور اینٹوں سے جبکہ چھت درخت کی لکڑیوں سے بنائی گئی تھی ۔مسجد سے ملحق کمرے بھی بنائے گئے تھے جو آنحضرت –(ص( اور ان کے اہل بیت اور بعض اصحاب رضی اللہ تعالٰی عنہم کے لئے مخصوص تھے ۔
پرانا تصوير - باب السلام مسجد النبي (ص)
مسجد نبوی جس جگہ قائم کی گئی وہ دراصل دو یتیموں کا پلاٹ تھا۔ ورثاء اور سرپرست اسے ہدیہ کرنے پر آمادہ تھے اور اس بات کو اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھتے تھے کہ ان کی زمیں شرف قبولیت پا کر مدینہ منورہ کی پہلی مسجد بنانے کیلئے استعمال ہوجائے مگر رسول اللہ (ص) نے بلا معاوضہ وہ پلاٹ قبول نہیں فرمایا، دس دینار قیمت طے پائی اور آپ (ص) نے جناب ابوبکر کو اس کی ادائیگی کا حکم دیا اور اس جگہ پر مسجد اور مدرسہ کی تعمیر کا فیصلہ ہوا۔
پرانا تصوير- مسجد النبي (ص)
پتھروں کو گارے کے ساتھ چن دیا گیا۔ کھجور کی ٹہنیاں اور تنے چھت کیلئے استعمال ہوئے اور اس طرح سادگی اور وقار کے ساتھ مسجد کا کام مکمل ہوا۔
مسجد سے متصل ایک چبوترہ بنایا گیا جو ایسے افراد کے لئے دار الاقامہ تھا جو دوردراز سے آئے تھے اور مدینہ منورہ میں ان کا اپنا گھر نہ تھا۔
آپ (ص) نے اپنے دست مبارک سے مسجد نبوی کی تعمیر شروع کی جبکہ کئی مسلم حکمرانوں نے اس میں توسیع اور تزئین و آرائش کا کام کیا۔ گنبد خضراء کو مسجد نبوی میں امتیازی خصوصیت حاصل ہے جس کے نیچے آنحضرت (ص) ، جناب ابوبکر اور جناب عمر کے روضہ مبارک ہیں۔ یہ مقام در اصل جناب عائشہ کا حجرہ مبارک تھا ۔
ریاست مدینہ میں مسجد نبوی کی حیثیت مسلمانوں کے لئے معبد ، کمیونٹی سینٹر، عدالت اور مدرسے کی تھی۔
مسجد کے قلب میں عمارت کا اہم ترین حصہ نبی کریم (ص) کا روضہ مبارک واقع ہے جہاں ہر وقت زائرین کی بڑی تعداد موجود رہتی ہے ۔ یہاں مانگی جانے والی کوئی دعا رد نہیں ہوتی۔ خصوصاً حج کے موقع پر رش کے باعث روضہ مبارک کے حصے میں داخلہ انتہائی مشکل ہوجاتا ہے ۔ اسی مقام پر منبر رسول بھی ہے ۔ سنگ مرمر حالیہ منبر عثمانی سلاطین کاتیار کردہ ہے جبکہ اصل منبر رسول کھجور کے درخت سے بنا ہوا تھا۔
مسجد نبوی میں کئی مرتبہ توسیع ہوئی لیکن مرحوم فہد بن عبد العزیز کے دور میں مسجد کی توسیع کا عظیم ترین منصوبہ تشکیل دیاگیا جس کے تحت حضرت محمد (ص) کے دور کے تمام شہر مدینہ کو مسجد کا حصہ بنادیا گیا۔ اس عظیم توسیعی منصوبے کے نتیجے میں مسجد تعمیرات کا عظیم شاہکار بن گئی۔
مسجد امیر چخماق (نئی جامع مسجد) یزد
مسجد امیر چخماق ، یزد کی تاریخ میں نئی جامع مسجد کے نام سے بھی یاد کی جاتی ہے یہ مسجد صفوی دور میں یزد کے حاکم امیر جلال الدین چخماق شامی اور اس کی بیوی بی بی فاطمہ خاتون کی ہمت و کوشش سے بنائی گئی ہے ۔
امیر جلال الدین کا شمار شاہرخ کے قریبی سرداروں اور امراء میں ہوتا تھا۔ اس مسجد کی تعمیرکا کام سنہ 841 ہجری قمری میں پایہ تکمیل کو پہنچا ۔ حسن و زیبائی اور وسعت کے اعتبار سے شہر کی جامع مسجد کے بعد اس کا دوسرامقام ہے ۔
اس مسجد کی تعریف و توصیف میں بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ اس کا ورودی دروازہ میر چخماق میدان کی طرف کھلتا ہے جہاں ایک پتھر نصب ہے جس پر خط نسخ میں وقف نامہ لکھا ہوا ہے ورودی دروازہ سے جب صحن میں داخل ہوتے ہیں توشمالی راہرو کی جالیاں بہترین و خوبصورت ٹائل سے مزین ہیں۔
ایوان کے بالائی حصہ پر بھی معرق کاشیکاری کی گئی ہے ۔ محراب کے اطراف میں بھی خوبصورت ٹائل اور اس کے وسط میں بہترین تراشا ہوا سنگ مرمر نصب کیا گیا ہے۔ مسجد کا گنبد بھی سبز رنگ کی خوبصورت ٹائلوں سے مزین ہے جس پر کوفی خط میں عبارت کندہ ہے ۔
اشاعرہ
ابوالحسن اشعری ۲۶۰ ہجری میں بصرہ میں پیدا ہوئے ، ان کا شجرہ نسب مشہور صحابی ابوموسی اشعری تک پہنچتا ہے ، یہ ابوعلی جبائی کے شاگرد تھے ، انہوں نے معتزلہ سے کلام اور دوسرے فقہاء اور محدثین سے بہت سے نظریات سیکھے ۔ اپنے علم میں غوروفکر کرنے کے بعد انہوں نے جو عقاید معتزلہ سے لئے تھے ان پر تنقید کی ۔
ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری کے کلامی نظریات کے ماننے والوں کو اشاعرہ کہا جاتا ہے، اشعریوں کی پیدائش کی جب تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں معتزلہ کا سب سے بڑا دخل رہا ہے ، چونکہ معتزلہ نے حقیقت کو کشف کرنے میں تغیر و تبدل کو ملاک قرار دیدیا تھا اس کے علاوہ ان کے فقہاء اور محدثین کے درمیان بہت زیادہ اختلاف ہوگئے تھے اور اس طرح ان کے درمیان اشعریوں کا ایک نیا فرقہ بن گیا ۔
سنتی عقاید کے لئے عقلی دلیل قائم کرنے کو اشاعرہ قبول کرتے تھے اور تیسری صدی کے آخر میں مندرجہ ذیل تین علماء نے اس روش پر بہت زیادہ کام کیا :
۱۔ بغداد میں ابوالحسن اشعری ۔
۲۔ مصر میں طحاوی (م ۳۳۱) ۔
۳۔ سمرقند میں ابومنصور ماتریدی (م ۳۳۳) ۔
اگر چہ ان کے درمیان فرق پایا جاتا تھا لیکن ان سب میں جو چیز مشترک تھی وہ معتزلہ کا مقابلہ تھا ۔
ابوالحسن اشعری ۲۶۰ ہجری میں بصرہ میں پیدا ہوئے ، ان کا شجرہ نسب مشہور صحابی ابوموسی اشعری تک پہنچتا ہے ، یہ ابوعلی جبائی کے شاگرد تھے ، انہوں نے معتزلہ سے کلام اور دوسرے فقہاء اور محدثین سے بہت سے نظریات سیکھے ۔ اپنے علم میں غور و فکر کرنے کے بعد انہوں نے جو عقاید معتزلہ سے لئے تھے ان پر تنقید کی ۔ ان کے پہلے عقاید میں سے کچھ عقیدے مندرجہ ذیل ہیں :
خلق قرآن (قرآن کریم کا مخلوق ہونا) ، خدا کا دکھائی نہ دینا، خداوند عالم کی طرف شرور کی نسبت دینے سے پرہیزکرنا وغیرہ۔ کتاب ”الابانة میں اشعری نے معتزلہ پر بہت زیادہ تنقید کی ہے ،اس کتاب میں معتزلہ کو قرآن کی تاویل کرنے والا بیان کیا ہے اور اپنے متعلق کہا ہے کہ ہم قرآن کریم ، سنت نبوی اور احمدبن حنبل کے طور طریقہ پر چلتے ہیں ۔ ابن عساکر نے ان کی ۹۸ کتابوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں سے چار کتابیں بہت زیادہ مشہور ہیں :
۱۔ اللمع فی الرد ع لی اھل الزیغ والبدع
۲۔ الابانة فی اصول الدیانة۔
۳۔ استحسان الخوض فی علم الکلام ۔
۴۔ مقالات الاسلامیین و اختلاف مصلین ۔
شروع کی تین کتابیں علم کلام اور چوتھی کتاب علم فرق کے بارے میں لکھی ہیں ۔
اشعری کے نظریات: اشعری نے عقلی اور نقلی روش کو معتدل روش کے عنوان سے انتخاب کیا ، مثلا وہ توحید کے مسئلہ میں ذات پر صفات کے زائد ہونے کے قائل تھے اور ان کے نظریات میں میانہ روی پائی جاتی تھی ۔ اشاعرہ ، وجود خدا کو تین طریقوں سے ثابت کرتے ہیں : روش نقلی، روش عقلی اور گذشتہ صوفی علماء کی روش(جیسے غزالی اور فخر الدین رازی) ۔فخر الدین رازی کے نظریہ کی بنیاد پر اشاعرہ خدا وند عالم کے وجود کے اثبات کے لئے دو فلسفی دلیلیں یعنی برہان امکان اجسام (ذوات) اور برہان امکان اعراض (صفات) اور دو کلامی دلیلیں یعنی برہان اجسام اور برہان اعراض سے استفادہ کرتے ہیں ۔خداوند عالم کی شناخت کے سلسلہ میں بعض معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ یہ ممکن امر نہیں ہے (جوینی اور غزالی) اور دوسرے بعض لوگ جیسے باقلانی وغیرہ اس کے ممکن ہونے کے قائل ہیں ۔
صفات خدا وند :
خداوند عالم کے صفات یا ثبوتی ہیں یا سلبی ہیں یا انسانوں کے صفات (جیسے آنکھ اور ہاتھ) کی طرح ہیں ۔ اشعریوں کا عقیدہ ہے کہ آخری صفات کو بلاکیف (بغیر کیفیت )کی صورت میں قبول کرنا چاہئے ، کیونکہ ان کی ماہیت ہمارے لئے معین نہیں ہے ۔
جبر و اختیار :
اس مسئلہ میں اشاعرہ نے دونوں پہلو یعنی قضا و قدر الہی کی رعایت کی ہے اور اختیار انسان یعنی ”نظریہ کسب“ کو جو کہ ایک قرآن لفظ ہے ، انتخاب کیا ہے اور خود اشعری کی تفسیر یہ ہے : قدرت کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ قدرت قدیم جو کہ خدا وندعالم سے مخصوص ہے ۔اور مخلوق میں فعل موثر ہے ۔
۲۔ قدرت حادث جو کہ بندوں سے مخصوص ہے اور اس کا فائدہ صرف یہ ہے کہ انسان اپنے اندر آزادی کا احساس کرتا ہے ، لہذا کسب فعل یعنی مخلوق کا فعل قدرت کے خلق کے ساتھ انسان میں حادث ہوتا ہے اگر چہ اشعری خود کسب کو بھی خدا کی مخلوق جانتے ہیں اوران کا عقیدہ ہے : جو فعل کو کسب کرتا ہے وہ ایسی جگہ ہے جہاں پر خداوند عالم فعل کو محقق کرتا ہے اور کسب کرنے والا ایک وسیلہ کے ذریعہ عمل کرتا ہے ۔
حسن وقبح فعل :
اشعری نے حسن و قبح کے تین مختلف معنی بیان کرنے کے بعد تیسرے معنی کو صحیح تسلیم کیا ہے ، یہ تین معنی یہ ہیں :
۱۔ کمال اور نقص ۔ ۲۔ مصلحت اور مفسدہ ۔ ۳۔ مدح و ذم کا مستحق ہونا ۔ کوئی بھی فعل اپنے آپ مدح اور ذم کا اقتضاء نہیں کرتا اور صرف شارع کی امر و نہی کے ذریعہ ایسی خاصیت پیدا ہوجاتی ہے ۔
جہان شناسی :
الف : جہان کی بناوٹ :
اشاعرہ کا عقیدہ ذرہ گرائی(جوہر فرد) کے نظریہ کو قبول کرتا ہے ، اشاعرہ کو اس نظریہ کی روشنی میں یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ حدوث جہان کے راستہ سے خداوند عالم کی ذات کوصرف ذات قدیم کے عنوان سے ثابت کریں ۔
ب : جہان کا محکم و استوار نہ ہونا :
اشاعرہ دنیا کی ناپائداری کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جس سے اعراض کو ناپائدار اور جوہر کو باقی رہنے والا جانتے ہیں ۔ اس نظریہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اشاعرہ اس کے ذریعہ خداوند عالم کی ذات کو قدیم اور اس دنیا میں اس کے ہمیشہ موثر ہونے کو ثابت کرتے ہیں ۔
انسا شناسی :
اس میں دو نظریہ پائے جاتے ہیں :
الف : انسان کی حقیقت جوہر جسمانی ہے (جوینی) ۔
ب : انسان ایک روحانی حقیقت ہے (باقلانی) ۔
مذہب اشعری کے بزرگ علماء:
اس سلسلہ میں کتاب ”التمہید“ کے مولف ابوبکر باقلانی کا نام لیا جاسکتا ہے ، اس مذہب کے دوسرے علماء غزالی، امام الحرمین جوینی، بیضاوی، سید شریف جرجانی وغیرہ ہیں ۔
اس مقالہ کے آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ اس کلامی فرقہ نے مسلمانوں کے درمیان ایک خاص اثر چھوڑا ہے ، اگر چہ خود ان کے زمانہ میں اشعری کا ستارہ زیادہ نہ چمک سکا ، در واقع دوسرے مذاہب کی مخالفت اور اہل حدیث سے بحث و مجادلہ کی وجہ سے یہ مذہب بالکل مہجور ہوگیا ، لیکن بعد میں خصوصا امام الحرمین جوینی کے بعد اور خواجہ نظام الملک طوسی کے زمانہ میں سلجوقیوں کی حمایت کی وجہ سے اہل سنت والجماعت میں کلامی نظریات پر اشعری گری کو غالب حاصل ہوگیا اور آج بھی پوری دنیا میں اکثر اہل سنت مسلمان خصوصا شافعی اور حنفیوں کی ایک کثیر تعداد کلامی لحاظ سے اشعری مذہب کی پیروی کرتے ہیں ۔
ورامین کی جامع مسجد
ورامین کی جامع مسجد ایران کی خوبصورت ترین اور کامل ترین مساجد میں سے ہے اور ہر سال ہزاروں اندرونی اور بیرونی سیاح اس کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں یہ مسجد آٹھویں صدی ہجری کی اسلامی معماری کا شاہکار ہے اس میں نقاشی ، کاشی کاری اور تحریری خطوط اس طرح ترتیب دیئے گئے ہیں کہ ایران کی دیگر تاریخی عمارتوں میں ایسا کم نظر آتا ہے
مسجد کے جنوبی ایوان کے بالائی حصے میں آیات قرآنی اور مقدس ناموں بہترین اور خوبصورت انداز میں لکھا گیا ہے اس مسجد میں جگہ جگہ راز و رموز کو مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔
ورامین کی جامع مسجد کا گنبد دیگر حصوں سے بلند تر ہے اور ورودی دروازے اور شبستان کے دروازے کے بالائی حصے کو کم ارتفاع بنایا گیا ہے تاکہ مسجد کا گنبد بخوبی نماياں رہے اس مسجد کا محراب چھ میٹر بلند ہے تین میٹر کے حصے میں کسی قسم کی کوئی زینت نہیں ہے بعض محققین کا خیال ہے یہ محراب ابتدا ہی سے ایسا تھا لیکن بعض کا خیال ہے کہ حوادث روزگار کی بنا پراس کی گچکاری گر گئی اور اس کی زینت ختم ہوگئی ہے ۔
شیعہ اور اہل سنت کے متعلق آیت اللہ العظمی وحید خراسانی کا اہم فتوی
جو شخص بھی اللہ تعالی کی وحدانیت اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رسالت کی شہادت دے وہ مسلمان ہے ۔ اور اس کی جان، مال اور عزت و آبرو ، مذہب جعفری کی پیروی کرنے والے کی طرح محفوظ و محترم ہے ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جو شخص بھی اللہ تعالی کی وحدانیت اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رسالت کی شہادت دے وہ مسلمان ہے ۔ اور اس کی جان، مال اور عزت و آبرو ، مذہب جعفری کی پیروی کرنے والے کی طرح محفوظ و محترم ہے ۔
آپ کا شرعی وظیفہ یہ ہے کہ شہادتین کہنے والے کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں چاہے وہ تمہیں کافر ہی کیوں نہ جانتا ہو اور اگر وہ تمہارے ساتھ برا سلوک کرے تو تم صراط مستقیم اور حق و عدالت سے منحرف نہ ہو ، اگر ان میں سے کوئی مریض ہوجائے تو تم اس کی عیادت کے لئے جاؤ ، اگران کا انتقال ہوجائے تو تم ان کی تشیع جنازہ میں شرکت کرو ، اگر ان کو تم سے کسی چیز کی ضرورت ہو تو اس کو پورا کرو اور خداوند عالم کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرلو ، کیونکہ وہ فرماتا ہے : ” یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامینَ لِلَّہِ شُہَداء َ بِالْقِسْطِ وَ لا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلی اٴَلاَّ تَعْدِلُوا اعْدِلُوا ہُوَ اٴَقْرَبُ لِلتَّقْوی وَ اتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ خَبیرٌ بِما تَعْمَلُونَ“۔ ایمان والو خدا کے لئے قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو اور خبردار کسی قوم کی عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف کو ترک کردو -انصاف کرو کہ یہی تقوٰی سے قریب تر ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے ۔
اور خداوندعالم کے حکم پر عمل کرتے رہو۔ ” یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا إِذا ضَرَبْتُمْ فی سَبیلِ اللَّہِ فَتَبَیَّنُوا وَ لا تَقُولُوا لِمَنْ اٴَلْقی إِلَیْکُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِناً تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیاةِ الدُّنْیا فَعِنْدَ اللَّہِ مَغانِمُ کَثیرَةٌ کَذلِکَ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللَّہُ عَلَیْکُمْ فَتَبَیَّنُوا إِنَّ اللَّہَ کانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبیراً “ ایمان والو جب تم راسِ خدا میں جہاد کے لئے سفر کرو تو پہلے تحقیق کرلو اور خبردار جو اسلام کی پیش کش کرے اس سے یہ نہ کہنا کہ تو مومن نہیں ہے کہ اس طرح تم زندگانی دنیا کا چند روزہ سرمایہ چاہتے ہو اور خدا کے پاس بکثرت فوائد پائے جاتے ہیں- آخر تم بھی تو پہلے ایسے ہی کافر تھے- خدا نے تم پر احسان کیا کہ تمہارے اسلام کو قبول کرلیا (اور دل چیرنے کی شرط نہیں لگائی) تو اب تم بھی اقدام سے پہلے تحقیق کرو کہ خدا تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے ۔
والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ
سيد حسن نصر اللہ ؛ اس طرح وجود ميں آئي حزب اللہ !
حزب اللہ كے سكريٹري جنرل نے جنوب لبنان كي آزادي كے سالانہ جشن كے موقع پر گفتگو كرتے ہوئے كہا: جب امام موسيٰ صدر لبنان آئے تو حكومت سے جنوبي لبنان كے صورت حال كر بہتر بنانے اور اس كے دفاع كي درخواست كي ليكن حكومت نے كوئي توجہ نہيں دي اس لئے امام موسيٰ صدر نے مجبور ہوكر لوگوں سے كہا كہ اپنے دفاع كے لئے ہتهيار خريديں۔
حزب اللہ كے سكريٹري جنرل نے جنوب لبنان كي آزادي كے سالانہ جشن كے موقع پر گفتگو كرتے ہوئے كہا:جب امام موسيٰ صدر لبنان آئے تو حكومت سے جنوبي لبنان كے صورت حال كر بہتر بنانے اور اس كے دفاع كي درخواست كي ليكن حكومت نے كوئي توجہ نہيں دي اس لئے امام موسيٰ صدر نے مجبور ہوكر لوگوں سے كہا كہ اپنے دفاع كے لئے ہتهيار خريديں۔
حزب اللہ كے سكريٹري جنرل سيد حسن نصر اللہ نے جنوبي لبنان كي آزادي كے بارهويں سالانہ جسن كے موقع پر تقرير كرتے ہوئے شامي شہريوں پر حملے كو شرعا حرام بتايا اور بتايا كہ حاليہ واقعات كا ان سے كوئي تعلق نہيں ہے اور كسي كو حق بهي نہيں كہ وہ وقوانين كے خلاف عمل كرے۔
نصر اللہ نے لبناني شہريوں كي اغوا كاري كي مذمت كرتے ہوئے كہا: بے گناہ لوگوں كو اغوا كرنا آپ كے تمام صلح پسندانہ باتوں كے خلاف ہے جن كا دعويٰ كرتے آئے ہيں۔اگر آپ كي ان حركتوں كا مطلب يہ ہے كہ ہم اپني پاليسيوں ميں كوئي تبديلي لائيں تو جان ليں كہ ايسا ہرگز نہيں ہوسكتا كيونكہ ہم اصلاح طلب گفتگو كے قائل ضرور ہيں ليكن ہم چاہتے ہيں كہ ملك ميں قومي اتحاد پيدا ہو اور مسلحانہ جهڑپوں كا خاتمہ ہو۔
انہوں نے كہا : كوئي بهي لبنانيوں كے خلاف ان دہشتگرانہ كاروائيوں كا اقدام نہ كرے كيونكہ اس نے بد امني ميں اضافہ ہوگا۔نصراللہ نے اس حوالے سے حكومت كي ذمہ داريوں كو بيان كرتے ہوئے كہا كہ حكومت اس سلسلے ميں جو بهي مثبت قدم اٹهائے گي ہم اس كي حمايت كريں گے۔
حزب اللہ كے سكريٹري جنرل نے كہا :جب امام موسيٰ صدر لبنان آئے اور انہوں نے حكومت سے كہا كہ ہميں لبنان كے سرحدي علاقوں ميں فوج كي ضرورت ہے اس لئے ہم لبناني جوانوں كو مسلح كرنا چاہتے ہيں تو حكومت نے ان كے ساته تعاون نہيں كيا۔اس زمانے ميں ہمارے سياستمدار كسي اور ہي خواب و خيال ميں تهے اس لئے وہ سرحدي علاقوں كي حفاظت كو چنداں اہميت نہيں ديتے تهے۔
انہوں نے مزيد كہا:اس لئے امام موسيٰ صدر جنوبي لبنان ميں مزاحتمي ڈهانچہ كي تشكيل پر مجبور ہوئے اور انہوں نے لوگوں سے تقاضا كيا كہ اپنے دفاع كے لئے اسلحے خريديں۔ جب ہم مزاحمت كے بارے ميں گفتگو كرتے ہيں تو يہ نكتہ ہمارے ذہن ميں ہونا چاہيے كہ ہماري مجبور تهي كہ خود اسلحے خريدے كيونكہ سياستمداروں اور قوم كے بڑے افراد نے اس ميں كوئي مثبت رول نہيں نبهايا۔ حكومت كو لوگوں كي جان و آبرو كي پرواہ نہيں تهي اسي لئے وہ مقبوضہ علاقوں كو آزاد كرانے كي فكر ميں بهي نہيں تهے البتہ ہمارے فلسطيني بهائيو اور جماعتوں نے بهي اس سلسلے ميں بنيادي كردار ادا كيا ہے۔
حسن نصر اللہ نے كہا : اسي لئے ہم نے گزشتہ تمام مراحل ميں حكومت سے درخواست كي كہ اپني ذمہ داريوں كو انجام دے ہم بهي ان كا ساته دينے كے لئے تيار ہيں۔
مالک اشتر کے نام حضرت علی علیہ السلام کا خط۔
مالک اشتر کے نام حضرت علی علیہ السلام کا خط۔ اس وقت جب انہیں محمد بن ابی بکر کے حالات کے خراب ہوجانے کے بعد مصر اور اس کے اطراف کا عامل مقرر فرمایا۔ اور یہ عہد نامہ حضرت کے تمام سرکاری خطوط میں سب سے زیادہ مفصل اور محاسن کلام کا جامع ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ وہ فرمان ہے جو بندہ خدا، امیر المومنین علی نے مالک بن اشتر نخعی کے نام لکھا ہے جب انہیں کراج جمع کرنے، دشمن سے جہاد کرنے، حالات کی اصلاح کرنے اور شہروں کی آبادکاری کے لئے مصرف کا عامل قرار دے کر کر روانہ کیا۔
سب سے پہلا امر یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو، اس کی اطاعت کو اختیار کرو اور جن فرائض و سنن کا اپنی کتاب میں حکم دیا ہے ان کا اتباع کرو کہ کوئی شخص ان کے اتباع کے بغیر نیک بخت نہیں ہوسکتا ہے اور کوئی شخص ان کے انکار اور بربادی کے بغیر بدبخت نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ اپنے دل، ہاتھ اور زبان سے دین خدا کی مدد کرتے رہنا کہ خدائے "عز اسمہ" نے یہ ذمہ داری لی ہے کہ اپنے مددگاروں کی مدد کرے گا اور اپنے دین کی حمایت کرنے والوں کو عزت و شرف عنایت کرے گا۔
دوسرا حکم یہ ہے کہ اپنے نفس کے خواہشات کو کچل دو اور اسے منہ زوریوں سے روکے رہو کہ نفس برائیوں کا حکم دینے والا ہے جب تک پروردگار کا رحم شامل نہ ہوجائے۔ اس کے بعد مالک یہ یاد رکھنا کہ میں نے تم کو ایسے علاقہ کی طرف بھیجا ہے جہاں عدل و ظلم کی مختلف حکومتیں گذر چکی ہیں اور لوگ تمہارے معاملات کو اس نظر سے دیکھ رہے ہیں جس نظر سے تم ان کے اعمال کو دیکھ رہے تھے اور تمہارے بارے میں وہی کہیں گے جو تم دوسرں کے بارے میں کہہ رہے تھے۔ نیک کردار بندوں کی شناخت اس ذکر خیر سے ہوتی ہے جو ان کے لئے لووگں کی زبانوں پر جاری ہوتا ہے۔ لہذا تمہارا محبوب ترین ذخیرہ عمل صالح کو ہونا چاہیے۔ خواہشات کو روک کر رکھو اور جو چیز حلال نہ ہو اس کے بارے میں نفس کو صرف کرنے سے بخل کرو کہ یہی بخسل اس کے حق میں اصاف ہے، چاہے اسے اچھا گلے یا برا – رعایا کے ساتھ مہربانی اور محبت و رحمت کو اپنے دل کا شعار بنا لو اور خبردار ان کے حق میں بھاڑ کھانے والے درندہ کے مثل نہ ہوجانا کہ انہیں کھا جانے ہی کو غنیمت سمجھنے لگے – کہ مخوقات خدا کی دو قسمیں ہیں بعض تمہارے دینی بھائی ہیں اور بعض خلقت میں تمہارے جیسے بشیر ہیں جن سے لغزشیں بھی ہوجاتی ہیں اور انہیں خطائوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور جان بوجھ کر یا دھوکے سے ان سے غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں – لہذا انہیں ویسے ہی معاف کردینا جس طرح تم چاہتے ہو کہ پروردگار تمہاری غلطیوں سے درگذر کرے کہ تم ان سے بالاتر ہو اور تہمارا ولی امر تم سے بالاتر ہے اور پروردگار تمہارے والی سے بھی بالاتر ہے اور اس نے تم سے ان کے معاملات کی انجام دہی کا مطالبہ کیا ہے اور اسے تمہارے لئے ذریعہ آزمائش بنا دیا ہے اور خبردار اپنے نفس کو اللہ کے مقابلہ پر نہ اتار دینا۔ کہ تمھارے پاس اس کے عذاب سے بچنے کی طاقت نہیں ہے اور تم اس کے عضو اور رحم سے بے نیازبھی نہیں ہو۔ اور خبر دار کسی کو معاف کردینے پرنادم نہ ہونا اور کسی کو سزادے کراکڑ نہ جانا۔ غیط و غضب کے اظہار میں جلدی نہ کرنا اگر اس کے ٹال دینے کی گنجائش پائی جاتی ہو اور خبر دار یہ نہ کہنا کہ مجھے حاکم بنا یا گیا ہے لہٰذا میری شان یہ ہے کہ میں حکوم دوں اور میری اطاعت کی جائے کہ اس طرح دل میں فساد داخل ہو جا ئے گا اور دین کمزور پڑجائے گا اور انسان تغیرات زما نہ سے قریب تر ہو جائے گا۔ اور اگر کبھی سلطنت و حکومت کو دیکھ کر تمھارے دل میں عظمت و کبریائی اور غرور پیدا ہونے لگے تو پروردگار کے عظیم ترین ملک پر غورکرنا اور یہ دیکھنا کہ وہ تمھارے اوپر تم سے زیادہ قدرت رکھتا ہے کہ اس طرح تمھاری سرکشی دب جائے گی۔ تمھاری طغیانی رُک جائے گی اور تمھاری گئی ہوئی عقل واپس آجائے گی۔ دیکھو خبر دار اللہ سے اس کی عظمت میں مقابلہ اور اس کے جبروت سے تشابہ کی کوشش نہ کرنا کہ وہ ہرجبار کو ذلیل دیتا ہے اور ہر مغرور کو پست بنادیتا ہے۔ اپنی ذات' اپنے اہل و عیال اور رعایا میں جن سے تمھیں تعلق خاطر ہے سب کے سلسلہ میں اپنے نفس اور اپنے پروردگار سے انصاف کرنا کہ ایسا نہ کرو گے تو ظلم ہو جاؤ گے اور جو اللہ کے بندوں پر ظلم کرے گا اس کے دشمن بندے نہیں خود پروردگار ہوگا اور جس کا دشمن پروردگار ہو جائے گا اس کی ہر دلیل باطل ہوجائے گی اور وہ پروردگار کا مد مقابل شمار کیا جائے گا جب تک اپنے ظلم سے بازنہ آجائے یا توبہ نہ کرلے ۔ اللہ کی نعمتوں کی بر بادی اور اس کے عذاب میں عجلت کا کوئی سبب ظلم پر قائم رہنے سے بڑا نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ مظلومین کی فریاد کا سننے والا ہے اور ظالموں کے لئے موقع کا انتظار کر رہا ہے۔ تمھارے لئے پسندیدہ کام وہ ہونا چا ہئے جو حق کے اعتبار سے بہترین انصاف کے اعتبار سے کو شامل اور رعایا کو مرضی سے اکثریت کے لئے پسندیدہ ہو کہ عام افراد کی ناراضگی خواص کی رضامندی کو بھی بے اثر بنا دیتی ہے اور خاص لوگوں کی ناراضگی عام افراد کی رضامند کے ساتھ قابل معافی ہو جاتی ہے۔ رعایا ہیں خواص سے زیادہ والی پر خوشحال میں بوجھ نبنے والا اور بلاؤں میں کم سے کم مدد کرنے والا۔ انصاف کو نا پسند کرنے والا اور اصرار کے ساتھ مطالبہ کرنے والا عطا کے موقع پر کم سے کم شکریہ ادا کرنے والا اور نہ دینے کے موقع پر بمشکل عذر قبول کرنے والا۔ زمانہ کے مصائب میں کم سے کم صبر کرنے والا۔کوئی نہیں ہوتا ہے ۔ دین کا ستون۔ مسلمانوں کی اجتماعی طاقت دشمنوں کے مقابلہ میں سامان دفاع عوام الناس ہی ہوتے ہیں لہٰذا تمھارا جھکاؤ انھیں کی طرف ہونا چاہئے اور تمھارا رجحان انھیں کی طرف ضروری ہے۔ رعا یا میں سب سے زیادہ دور اور تمھارے نزدیک مبغوض اس شخص کو ہونا چاہئے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے عیوب کا تلاش کرنے والاہو۔ اس لئے کہ لوگوں میں بہر حال کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور ان کی پردہ پوشی کی سب سے بڑی ذمہ داری والی پر ہے لہٰذا خبر دار جو عیب تمھارے سامنے نہیں ہے اس کا انکشاف نہ کرنا ۔ تمھاری ذمہ داری صرف عیوب کی اصلاح کر دینا ہے اور غائبات کا فیصلہ کرنے والا پروردگار ہے۔ جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے ا ن تمام عیوب کی پردہ پوشی کرتے رہو جن اپنے عیوب کی پردہ پوشی کی پروردگار سے تمنا کرتے ہو۔ لوگوں کی طرف سے کینہ کی ہر گر ہ کو کھول دو اور دشمنی کی ہر رسّی کو کاٹ دو اور جو بات تمھارے لئے واضح نہ ہو اس سے انجان بن جاؤ اور ہر چغل خور کی تصدق میں عجلت سے کام نہ لوکہ چغل خور ہمیشہ خیانت کار ہوتا ہے چاہے وہ مخلصین ہی کے بھیس میں کیوں نہ آئے۔(مشاورت) ٰدیکھو اپنے مشورہ میں کسی بخیل کو شامل نہ کرنا کہ وہ تم کو فضل و کرم کے راستہ سے ہٹادے گا اور فقر و فاقہ کا خوف دلاتا رہیگا اور اسی طرح بزدل سے مشورہ نہ کرنا کہ وہ ہر معاملہ میں کمزور بنا دے گا ۔ اور حریص سے بھی مشورہ نہ کرنا کہ وہ ظالما نہ طرقہ سے مال جمع کرنے کو بھی تمارے نگاہوں میں آراستہ کردے گا۔ یہ بخل بُزدلی اور طمع اگر چہ الگ جذبات و خصائل ہیں لیکن ان کا قدر مشترک پروردگار سے سوء ظن ہے جس کے بعد ان خصلتوں کا ظہور ہوتا ہے۔
(وزارت ) اور دیکھو تمھارے وزراء میں سب سے زیادہ بدتر وہ ہے جوتم سے پہلے اشرارکا وزیر رہ چکاہو اور ان کے گناہوں میں شریک رہ چکا ہو۔ لہٰذا خبردار ایسے افراد کو اپنے خواص میں شامل نہ کرنا کہ یہ ظالموں کے مددگار اور خیانت کاروں کے بھائی بند ہیں اور تمھیں ان کے بدلے بہترین افراد مل سکتے ہیں جن کے پاس انھیں کی جیسی عقل اور کار کردگی ہو اور ان کے جیسے گناہوں کے بوجھ اور خطاؤں کے انبارنہ ہوں۔ نہ انھوں نے کسی ظالم کی اس کے ظلم کی ہو اور نہ کسی گناہگار کا اس کے گناہ میں ساتھ دیا ہو ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا بوجھ تمہارے لئے ہلکا ہوگا اور یہ تمھارے بہترین مدد گاہوں گے اور تمھاری طرف محبّت کا جھکاؤ بھی رکھتے ہوں گے اور اغیار سے انس و الفت بھی نہ رکھتے ہوں گے۔ انھیں کو اپنے مخصوص اجتماعات میں اپنا مصاحب قرار دینا اور پھر ان میں بھی سب زیادہ حیثیت اسے دنیا جو حق کے حرف تلخ کو کہنے کی زیادہ ہمت رکھتا ہو اور تمھارے کسی ایسے عمل میں تمھارا ساتھ دے جیسے پروردگار اپنے اولیاء کے لئے نا پسند کر تا ہو چاہے وہ تمھاری خواہشات سے کتنی زیادہ میل کیوں نہ کھاتی ہوں
(مصاحب ) اپنا قریبی رابطہ اہل تقویٰ اور اہل صداقت سے رکھنا اور انھیں بھی اس امر کی ترتیب دینا کہ بلاسب تمھاری تعریف نہ کریں اور کسی ایسے بے بنیاد عمل کا غرور نہ پیدا کرائیں جوتم نے انجام نہ دیا ہو کہ زیادہ تعریف سے غرور پیدا ہوتا ہے اور غرور انسان کو سر کشی سے قریب تر بنادیتا ہے دیکھو خبردار نیک کردار اور بد کردار تمھارے نزدیک یکساں نہ ہونے پائیں کہ اس طرح نیک کرداروں میں نیکی سے بدلی پیدا ہوگی اور بد کرداروں میں بدکرداری کا حوصلہ پیدا ہوگا۔ ہر شخص کے ساتھ ویسا ہی برتا ؤ کرنا جس کے قابل اس نے اپنے کو بنایا ہے اور یاد رکھنا کہ حاکم میں رعا یا سے حسن ظن کی اسی قدر تو قع کرنی چاہئے جس قدران کے ساتھ احسان کیا ہے اور ان کے بوجھ کو ہلکا بنا یا ہے اور ات کو کسی ایسے کام پر مجبور نہیں کیا ہے جوان کے امکان میں نہ ہو۔ لہٰذا تمھارا برتاؤ اس سلسلہ میں ایسا ہی ہونا چاہئے جس سے تم رعایا ٍسے زیادہ سے زیادہ حسن ظن پیدا کر سکو کہ یہ حسن ظن بہت سی اندرونی زحمتوں کو قطع کردیتا ہے اور تمھارے حسن ظن کا بھی سب سے زیادہ حقدار وہ ہے جس کے ساتھ تم نے بہترین سلوک کیا ہے اور سب سے زیادہ بدظنی کا حقدار وہ ہے جس کا برتارے ساتھ خراب رہا ہو دیکھ کسی ایسی نیک سنت کو توڑدینا جس پراسس امت کے بزرگوں نے عمل کیا ہظ اور اسی کے ریعہ سماج میں الفت قائم ہوتی ہے اور رعا کے حالات کی اصلاح ہوئی ہے اور کسی ایسی سنت کو رائج نہ کر دینا جو گذشتہ سنتوں کے حق میں نقصاندہ ہو کہ اس طرح اجر اس کے لئے ہوگا جس نے کسنت کو ایجاد ہے اور گناہ تمھاری گردن پر ہوگا کہ تم نے اسے توڑدیا ہے۔ علماء کنے ساتھ علمی مباحثہ اور حکماء کےساتھ سنجیدہ بحث جاری رکھنا ان مسائل کے بارے میں جن سے علاقہ کے امور کی اصلاح ہوتی اور وہ امور قائم رہتے ہیں جن سے گذشتہ افراد کے حالات کی اصلاح ہوئی ہے اور یاد رکھو کہ رعایا کے بہت سے طبقات ہوتے میں جن میں کسی کی اصلاح دوسرے کے بغیر نہیں ہوسکتی ہے اور کوئی دوسرے سے متغنی نہیں ہو سکتا ہے ۔ انھیں میں اللہ کے شکر کے سپاہی میں اور انھیں میں عام اور خاص اور کے کاتب ہیں انھں میں عدالت سے فصیلہ کرنے والے ہیں اور انھیں میں انصاف اور نرمی قائم کرنے والے عمال ہیں۔ انھیں میں مسلمان اہل خراج اور کافر اہل ذمہ ہیں اور انھیں میں تجارت اور صنعت و حرفت والے افراد میں اور پھر انھیں میں فقر اور مساکن کا پست ترین طبقہ بھی شامل ہے اور سب کے لئے پروردگار نے ایک حصّہ معین کردیا ہ۔ اور اپنی کتاب کے فرائض یا اپنے پیغمبر کی سنت میں اس کی حدیں قائم کردی ہیں اور یہ وہ عہد ہے جو ہمارے پاس محفوظ ہے ۔ فوجی دستے یہ حکم خدا سے رعا یا کے محافظ اور والیوں کی زینت ہیں ۔انھیں سے دین کی عزت ہے اور یہی امن وامان کے وسائل ہیں۔ رعایا کے امور کاقیام ان کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے اور یہ دستے بھی قائم نہیں رہ سکتے ہیں جب تک وہ خر اج نہ نکال دیاجائے جس کے ذریعہ دشمن سے جہاد کی طاقت فراہم ہوتی ہے اور جس پر حالات کی اصلاح میں اعتماد کیا جاتا ہے اور وہی ان کے حالات کے درست کرنے کا ذریعہ ہے اس کے بعد ان دونوں صنیوں کا قیام قا ضیوں۔ عاملوں ہور کاتبوں کے طبقہ کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے کہ یہ سب عہد و پیمان کو مستحکم بناتے ہیں منافع کو جمع کرتے ہیں اور معمولی اور غیر معمولی معاملات میں ان پر اعتماد کیاجاتا ہے۔ اس کے بعد ان سب کا قیام تجار اور صنعت کاروں کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ وہ وسائل حیات کو فراہم کرتے ہیں۔ بازاروں کو قائم رکھتے میں اور لوگوں کی ضرورت کا سامان ان کی زحمت کے بغیر فراہم کردیتے ہیں۔ اس کے بعد فقراء و مساکین کا پست طبقہ ہے جو اعانت وامداد کا حقدار ہے اور اللہ کے یہاں ہر ایک کے لئے سامان حیات مقرر ہے اور ہر ایک کا والی پر اتنی مقدار میں حق ہے جس سے اس کے امر کی اصلاح ہوسکے اور والی اس فریضہ سے عہد ہ بر آنہیں ہو سکتا ہے جب تک ان مسائل کا اہتمام نہ کرے اور اللہ سے مدد طلب نہ کرے اور اپنے نفس کو حقوق کی ادائیگی اور اس راہ کے خفیف وثقیل پر صبر کرنے کے لئے آمادہ نہ کرے لہذا لشکر کا سردار اسے قرار دینا جو اللہ' رسول اور امام کا سب سے زیادہ مخلص' سب سے زیادہ پا کدامن اور سب سے زیادہ برداشت کرنے والاہو۔ غصہ کے موقع پر جلد بازی نہ کر تا ہو۔ عذر کو قبول کر لیتاہو۔ کمزوروں پر مہربانی کرتا ہو۔ طاقتور افراد کے سامنے اکڑ جاتاہو۔ بد خوئی اسے جوش میں نہ لے آئے اورکمزوری اسے ٹبھانہ دے ۔علاقاتِ عامّہ پھراس کے بعد اپنا رابطہ بلند خاندان۔ نیک گھرانے۔ عمدہ روایات والے اور صاحبانِ ہمّت و شجاعت و سخاوت وکرم سے مضبوط رکھو کہ یہ لوگ کرم کا سرمایہ اور نیکیوں کا سر چشمہ ہیں۔ ان کے حالات کی اسی طرح دیکھ بھال رکھنا جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کے حالات پر نظر رکھتے ہیں اور اگر ان کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کر نا جوا نھیں قوت بخشتا ہو تو اسے عظیم نہ خیال کر لینا اور اگر کوئی معمولی بر تاؤبھی کیا ہے تو اسے حقیر سمجھ کر روک نہ دنیا۔ اس لئے کہ اچھا سلوک انھیں اخلاص کی دعوت دے گا اور ان میں حسن ظن پیدا کرائے گا اور خبردار بڑے بڑے کاموں پر اعتبار کر کے چھوٹی چھوٹی ضروریات کی نگرانی کو نظر اندازنہ کردینا کہ معمولی مہربانی کا بھی ایک اثر ہے جس سے لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے اور بڑے کرم کا بھی ایک مقام ہے جس سے لوگ مستغنی نہیں ہو سکتے ہیں۔
دفاع
اور دیکھو تمام سردارانِ لشکر میں تمھارے نزدیک سب سے زیادہ افضل اسے ہونا چاہئے جو فوجیوں کی امداد میں ہاتھ بٹا تاہوا ور اپنے اضافی مال سے ان پر اس قدر کرم کرتا ہو کہ ان کے پسماندگان اور متعلقین کے لئے بھی کافی ہو جائے تا کہ سب کا ایک ہی مقصد رہ جائے اور وہ ہے دشمن سے جہاد۔ اس لئے کہ ان سے تمھاری مہربانی ان کے دلوں کو تمھاری طرف موڑدے گی۔ اور والیوں کے حق میں بہترین خنکئی چشم کا سامان یہ ہے کہ ملک بھرمیں عدل و انصاف قائم ہو جائے اور رعایا میں محبت و الفت ظاہر ہوجائے اور یہ کام اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک سینے سلامت نہ ہوں اور ان کی خیر خواہی مکمل نہیں ہو سکتی ہے جب تک اپنے حاکموں کے گرد گھیرا ڈال کر ان کی حفاظت نہ کریں اور پھران کے اقتدار کو سر کا بوجھ نہ سمجھیں اور ان کی حکومت کے خاتمہ کا انتظار نہ کریں لہٰذا ان کی امیدوں میں وسعت دنیا اور دیکھو تمام سردارانِ لشکر میں تمھارے نزدیک سب سے زیادہ افضل اسے ہونا چاہئے جو فوجیوں کی امداد میں ہاتھ بٹا ہوا اور اپنے اضافی مال سے ان پر اس قدر کرم کرتا ہو کہ ان کے پسماندگان اور متعلقین کے لئے بھی کافی ہو جائے تا کہ سب کا ایک ہی مقصد رہ جائے اور وہ ہے دشمن سے جہاد۔ اس لئے کہ ان سے تمھاری مہربانی ان کے دلوں کو تمھاری طرف موڑدے گی۔ اور والیوں کے حق میں بہترین خنکئی چشم کا سامان یہ ہے کہ ملک بھرمیں عدل و انصاف قائم ہو جائے اور رعایا میں محبت والفت ظاہر ہوجائے اور یہ کام اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک سینے سلامت نہ ہوں اور ان کی خیر خواہی مکمل نہیں ہو سکتی ہے جب تک اپنے حاکموں کے گرد گھیرا ڈال کر ان کی حفاظت نہ کریں اور پھر ان کے اقتدار کو سر کا بوجھ نہ سمجھیں اور ان کی حکومت کے خاتمہ کا انتظار نہ کریں لہٰذا ان کی امیدوں میں وسعت دنیا اور برابر کارنا موں کی تعریف کرتے رہنا بلکہ عظیم لوگوں کے کارناموں کو شمار کرتے رہنا کہ ایسے تذکروں کی کثر ت بہادروں کو جوش دلاتی ہے اور پیچھے ہٹ جانے والوں کو ابھا ردیا کرتی ہے۔ انشاء اللہ اس کے بعد ہر شخص کے کارنامہ کو پہچانتے رہنا اور کسی کے کارنامہ کو دوسرے کے نامئہ اعمال میں نہ درج کر دنیا اور ان کامکمل بدلہ دینے میں کوتاہی نہ کرنا اور کسی شخص کی سماجی حیثیت تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم اس کے معمولی کام کو بڑا قرار دے دویا کسی چھوٹے آدمی کے بڑے کارنامہ کو معمولی بنادو۔
جو امور مشکل دکھائی دیں ا ور تمھارے لئے مشتبہ ہو جائیں۔ انھیں اللہ اور رسول کی طرف پلٹا دو کہ پروردگار نے جس قوم کو ہدایت دینا چاہی ہے اس سے فریاد ہے کہ ایمان والو! اللہ ' رسول اورصاحبانِ امر کی اطاعت کرو۔ اس کے بعد کسی شے میں تمھارا اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پلٹادو۔ تو اللہ کی طرف پلٹانے کا مطلب اس کی کتاب محکم کی طرف پلٹانا ہے اور رسول کی طرف پلٹا نے مقصد اس سنت کی طرف پلٹا ناہے جوامت کو جمع کرنے والی ہو' تفرقہ ڈالنے والی نہ ہو۔
قضاوت
اس کے بعد لوگوں کے درمیاں فیصلہ کرنے کے لئے ان افراد کا انتخاب کرنا جو رعا یا یں تمھارے نزدیک سب سے زیادہ بہتر ہوں۔ اس اعتبار سے کہ نہ معاملات میں تنگی کا شکار ہوتے ہوں اور نہ جھگڑا کر نے والوں پر غصّہ کرتے ہوں۔ نہ غلطی پر اَڑ جاتے ہوں اور حق کے واضح ہو جانے کے بعد اس کی طرف پلٹ کر آنے میں تکلّف کرتے ہوں اور نہ ان کا نفس لا لچ کی طرف جُھکتاہو اور نہ معاملات کی تحقیق میں ادنیٰ فہم پر اکتفا کرکے مکمل تحقیق نہ کرتے ہوں۔ شہادت میں توقف کرنے والے ہوں اور دلیلوں کو سب سے زیادہ اختیار کرنے والے ہوں۔ فریقین کی بحشوں سے اُکتانہ جاتے ہوں اور معاملات کی چھان بین میں پوری قوت برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوں اور حکم کے واضح ہو جانے کے بعد نہایت وضاحت سے فیصلہ کردیتے ہوں۔ نہ کسی کی تعریف سے مغرور ہوتے ہوں اور نہ کسی کے اُبھارنے پراو نچے ہوجاتے ہوں۔ ایسے افرادیقینًا کم ہیں۔ لیکن ہیں۔پھراس کے بعد تم خود بھی ان کے فیصلوں کی نگرانی کرتے رہنا اور ان کے عطا یا میں اتنی وسعت پیدا کردینا کہ ان کی ضرورت ختم ہو جائے اور پھر لوگوں کے محتا ج نہ رہ جائیں انھیں اپنے پاس ایسا مرتبہ اور مقام عطا کرنا جس کی تمھارے خواص بھی طمع نہ کرتے ہوں کہ اس طرح وہ لوگوں کے ضرر پہو نچا نے سے محفوظ ہو جائیں گے۔ مگر اس معاملہ پر بھی گہری نگاہ رکھنا کہ یہ دین بہت دنوں اشرارکے ہاتھوں میں قیدی رہ چکاہے جہاں خواہشات کی بنیاد پر کام ہو تا تھا اور مقصد صرف دنیا طلبی تھا۔
عمّال
اس کے بعد اپنے عاملوں کے معاملات پر بھی نگاہ رکھنا اور انھیں امتحان کے بعد کام سپرد کرنا اور خبر دار تعلقات یا جا نبداری کی بنا پر غہدہ نہ دے دنیا کہ یہ باتیں ظلم اور خیانت کے اثرات میں شامل ہیں ۔ اور دیکھو ان میں بھی جو مخلص اور غیرت مند ہوں انکو تلاش کرنا جو اچھے گھرانے کے افراد ہوں اور ان کے اسلام میں سابق خدمات رہ چکے ہوں کہ ایسے لوگ خوش اخلاق اور بے داغ عزّت والے ہوتے ہیں ۔ان کے اندر فضول خرچی کی لا لچ کم ہوتی ہے اور یہ انجام کار پر زیادہ نظر رکھتے ہیں۔ اس کے بعدان کے بھی تمام اخراجات کا انتظام کردینا کہ اس سے انھیں اپنے نفس کی اصلاح کا بھی موقع ملتا ہے اور دوسروں کے اموال پر قبضہ کرنے سے بھی بے نیاز ہوجاتے ہیں اور پھر تمھارے امر کی مخالفت کریں یا امانت میں رخنہ پیدا کریں توان پرحُجّت بھی تمام ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد ان عمال کے اعمال کی بھی تفتیش کرتے رہنا اور نہایت معتبر قسم کے اہل صدق و صفا کو ان پر جاسوسی کے لئے مقرر کردینا کہ یہ طرزِ عمل انھیں امانتداری کے استعمال پر اور رعایا کے ساتھ نرمی کے بر تا ؤپر آمادہ کرے گا۔ اور دیکھو اپنے مددگاروں سے بھی اپنے کو بچاکر رکھنا کہ اگر ان میں کوئی ایک بھی خیانت کی طرف ہاتھ بڑھائے اور تمھارے جاسوس متفقہ طور پر یہ خبر دیں تو اس شہادت کو کافی سمجھ لینا اوراسے جسمانی اعتبار سے بھی سزادینا او ر جومال حاصل کیا ہے اسے چھین بھی لینا اور سماج میں ذلّت کے مقام پر رکھ کر خیانت کاری کے مجرم کی حیثیت سے رو شناس کرانا او ر ننگ و رُسوائی کا طوق اس کے گلے میں ڈال دینا۔
خراج
خراج اور مالگذاری کے بارے میں وہ طریقہ اختیار کرنا جو ما لگذاروں کے حق میںزیادہ مناسب ہو کہ خراج اور اہل خراج کے صلاح ہی میں سارے معاشرہ کی صلاح ہے اور کسی کے حالات کی اصلاح خراج کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی ہے' لوگ سب کے سب اسی خراج کے بھرو سے زندگی گذار تے ہیں۔ خراج میں تمھاری نظر مال جمع کرنے سے زیادہ زمین کی آباد کاری پر ہونی چاہئے کہ مال جمع آوری زمین کی آبادکاری کے بغیر ممکن نہیں ہے اور جس نے آباد کاری کے بغیر مالگذاری کا مطالبہ کیا اس نے شہروں کو بر باد کردیا اور بندوں کوتباہ کردیا اور اس کی حکومت چند دنوں سے زیادہ قائم نہیں رہ سکتی ہے۔ اس کے بعد اگر لوگ گر انباری ۔ آفت ناگہانی ۔ نہروں کی خشکی' بارش کی کمی ۔ زمین کی غرقابی کی بناپر تباہی اور خشکی کی بناپر بر بادی کی کوئی فریاد کریں تو ان کے خراج میں اس قدرت تخفیف کردینا کہ ان کے امور کی اصلاح ہوسکے اور خبرداریہ تخفیف تمھارے نفس پرگراں نہ گذرے اس لئے کہ یہ تخفیف اور سہولت ایک ذخیرہ ہے جس کا اثر شہروں کی آبادی اور حکام کی زیب و زینت کی شکل میں تمھاری ہی طرف واپس آئے گا اور اس کے علاوہ تمھیں بہترین تعریف بھی حاصل ہو گی اور عدل و انصاف کے پھیل جانے سے مسرت بھی حاصل ہو گی' پھران کی راحت و رفاہیت اور عدل و انصاف ' نرمی و سہولت کی بناپر جو اعتماد حاصل کیا ہے اس سے ایک اضافی طاقت بھی حاصل ہوگی جو بوقت ضرورت کام آسکتی ہے۔ اس لئے کہ بسا اوقات ایسے حالات پیش آجاتے ہیں کہ جن میں اعتماد و حسن ظن کے بعدان پر اعتماد کر و تو نہایت خوشی سے مصیبت کو برداشت کر لیتے ہیں اور اس کا سبب زینوں کی آبادکاری ہی ہوتا ہے۔ زینوں کی بر بادی اہل زمین کی تنگدستی سے پیدا ہوتی ہے اور تنگدستی کا سبب حکام کے نفس کا جمع آوری کی طرف رجحان ہوتا ہے اور ان کی یہ بد ظنی ہوتی ہے کہ حکومت باقی رہنے والی نہیں ہے اور وہ دوسرے لوگوں کے حالات سے عبرت حاصل نہیں کرتے ہیں۔
کاتب
اس کے بعد اپنے منشیوں کے حالات پر نظر رکھنا اور اپنے امور کو بہترین افراد کے حوالے کرنا اور پھر وہ خطوط جن میں رموز ِ سلطنت اور اسرارِ مملکت ہوں ان افراد کے حوالے کر نا جو بہترین اخلاق و کردار کے مالک ہوں اور عزت پاکراکڑ نہ جاتے ہوں کہ ایک دن لوگوں کے سامنے تمھاری مخالفت کی جرأات پیدا کر لیں اور غفلت کی بناپر لین دین کے معاملات میں تمھارے عمال کے خطوط کے پیش کرنے اور ان کے جوابات دینے میں کوتاہی سے کام لینے لگیں اور تمھارے لئے جو عہد و پیمان باندھین اسے کمزور کردیں اور تمھارے خلاف سازبازکے توڑنے میں عاجزی کا مظاہرہ کر نے لگیں۔ دیکھو یہ لوگ معاملات میں اپنے صحیح مقام سے نا واقف نہ ہوں کہ اپنی قدرو منزلت کانہ پہچاننے والا دوسرے کے مقام دومرتبہ سے یقینًا زیادہ نا واقف ہوگا۔
اس کے بعد ان کا تقرر بھی صرف ذاتی ہوشیاری' خوش اعتمادی اور حسن ظن کی بناپر نہ کر نا کہ اکثر لوگ حکام کے سامنے بناوٹی کرداراور بہترین خدمت کے ذریعہ اپنے کو بہترین بنا کر پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جب کہ اس کے پشت نہ کوئی اخلاص ہوتا ہے اور نہ اما نتداری پہلے ان کا امتحان لینا کہ تم سے پہلے دالے نیک کردار حکام کے ساتھ ان کابر تا ؤ کیا رہا ہے پھر جو عوا م میں اچھے اثرات رکھتے ہوں اور امانتداری کی بنیاد پر پہچانے جاتے ہوں انھیں کا تقر رکردینا کہ یہ اس امر کی دلیل ہوگا کہ تم اپنے پروردگارکے بندئہ مخلص اور اپنے امام کے وفادار ہو۔ اپنے جملہ شعبوں کے لئے ایک ایک افسر مقرر کر دینا جوبڑٍے سے بڑے کام سے مقہور نہ ہوتا ہو اور کاموں کی زیادتی پر پراگندہ حواس نہ ہو جاتا ہو۔ اور یہ یاد رکھنا کہ ان منشیوں میں جو بھی عیب ہو گا اور تم اس سے چشم پوشی کرد گے اس کا مواخذہ تمھیں سے کیا جائے گا۔اس کے بعد تاجروں اور صنعت کاروں کے بارے میں نصیحت حاصل کرو اور دوسروں کو ان کے ساتھ نیک بر تاؤ کی نصیحت کروچاہے وہ ایک مقام پرکام کرنے و الے ہوں یا جا بجا گردش کرنے والے ہوں اور جسمانی محنت سے روزی کمانے والے ہوں۔ اس لئے کہ یہی افراد منافع کامرکز اور ضروریات زندگی کے مہیاکرنے کا وسیلہ ہوتے ہیں ۔ یہی دور از مقامات بردبحر 'کوہ و میدان ہر جگہ سے ان ضروریات کے فراہم کرنے والے ہوتے ہیںجہاں لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی ہے اور جہاں تک جانے کی لوگ ہمّت نہیں کرتے ہیں ۔یہ وہ امن پسند لوگ ہیں جن سے فساد کا خطرہ نہیں ہوتا ہے اور وہ صلح و آشتی والے ہوتے ہیں جن سے کسی شورش کا اندیشہ نہیں ہوتا ہے۔اپنے سامنے اور دو سرے شہروں میں پھیلے ہوئے ان کے معاملات کی نگرانی کرتے رہنا اور یہ خیال رکھنا کہ ان میں بہت سے لوگوں میں انتہائی تنگ نظری اور بدترین قسم کی کنجو سی پائی جاتی ہے یہ منافع ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور اونچے اونچے دام خود ہی معین کردیئے میں' جس سے عوام کو نقصان ہو تا ہے اور حکام کی بد نامی ہوتی ہے۔ لوگوں کو ذخیرہ اندوزی سے منع کرو کہ رسول اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایاہے خرید و فروخت میں سہولت ضروری ہے جہاں عادلانہ میزان ہوا ور وہ قیمت معین ہو جس سے خریدار یا بیچنے والے کسی فریق پر ظلم نہ ہو ۔ اس کے بعد تمھارے منع کرنے کے با وجود اگر کوئی شخص ذخیرہ اندوزی کرے تو اسے سزا دو لیکن اس میںبھی حدسے تجاوز نہ ہونے پائے ۔ اس کے بعد اللہ سے ڈرو اس پسماندہ طبقہ کے بارے میں جو مساکین 'محتاج فقراء اور مغدور افراد کا طبقہ ہے جن کا کوئی سہارا نہیں ہے۔ اس طبقہ میں مانگنے والے بھی ہیں اور غیرت داربھی ہیں جن کی صورت سوال ہے۔ ان کے جس حق اللہ نے تمھیں محافظ بنا یا ہے اس کی حفاظت کرو اور ان کے لئے بیت المال اورارض غنیمت کے غلات میں سے ایک حصہ مخصوص کر دو کہ ان کے دو ر افتادہ کا بھی وہی حق ہے جوقریب والوں کا ہے اور تمھیں سب کا نگراں بنا یا گیا ہے اہٰذا خبر دار کہیں غروتکبرّ تمھیں ان کی طرف سے غافل نہ بنادے کہ تمھیں بڑے کا موں کے مستحکم کر دینے سے چھوٹے کاموں کی بربادی سے معاف نہ کیا جائے گا۔ لہٰذا نہ اپنی توجہ کوان کی طرف سے ہٹانا اور نہ غرور کی بناپر اپنا منھ موڑلینا۔ جن لوگوں کی رسائی تم تک نہیں ہے اور انھیں نگاہوں نے گرادیا ہے اور شخصیتوںنے حقیر بنادیا ان کے حالات کی دیکھ بھال بھی تمھارا ہی فریضہ ہے لہٰذا ان کے لئے متواضع اور خوفِ خدا رکھنے والے معتبر افراد کو مخصوص کردو جوتم تک ان کے معاملات کو پہونچاتے رہیں اور تم ایسے اعمال انجام دیتے رہو جن کی بنا پر روز قیامت پیش پروردگار معذور کہے جا سکو کہ یہی لوگ سب سے زیادہ انصاف کے محتاج ہیں اور پھر ہرا ایک کے حقوق کو اداکرنے میں پیش پرودگار اپنے کو معذور ثابت کرو۔اور یتیموں اور کبیرا لسن بوڑ ھوں کے حالات کی بھی نگرانی کرتے رہنا کہ ان کا کوئی وسیلہ نہیں ہے اور یہ سوال کرنے کے لئے کھڑے بھی نہیں ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ ان کا خیال رکھنا حکام کے لئے بڑا سنگین مسئلہ ہوتا ہے لیکن کیا جائے حق تو سب کا سب ثقیل ہی ہے۔ البتہ کبھی کبھی پرورگار اسے ہلکا قرار دے دیتا ہے ان اقوام کے لئے جو عاقیبت کی طلبگار ہوتی ہیں اور اس راہ میں اپنے نفس کو صبر کا خو گر بناتی ہیں اور خدا کے وعدہ پر اعتماد کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اور دیکھو صاحبانِ ضرورت کے لئے ایک وقت معین کر دو جس میں اپنے کو ان کے لئے خالی کر لو اور ایک عمومی مجلس میں بٹیھو۔ اس خدا کے سامنے متوا ضع رہو جس نے پیدا کیا ہے او راپنے تمام نگہبان' پولیس ' فوج اعوان وانصار سب کو دور بٹھا دو تا کہ بولنے والا آزادی سے بول سکے اور کسی طرح کی لکنت کا شکارنہ ہو کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خود سُنا ہے کہ آپ نے بار بار فرمایا ہے کہ وہ امت پاکیزہ کردار نہیں ہو سکتی ہے جس میں کمزور کو آزادی کے ساتھ طاقتور سے اپنا حق لینے کا موقع نہ دیا جائے ۔ اس کے بعد ان سے بد کلامی یا عاجزی کلام کا مظاہرہ ہو تو اسے برداشت کرو اور دل تنگی اور غرورکو دور رکھو تا کہ خدا تمھارے لئے رحمت کے اطراف کشادہ کرے اور اطاعت کے ثواب کو لازم قرار دیدے۔ جسے جو کچھ دو خوشگوار کے ساتھ دو اور جسے منع کرو اسے خوبصورتی کے ساتھ ٹال دو۔اس کے بعدتمھارے معاملا ت میں بعض ایسے معاملات بھی ہیں جنھیں تمھیں خودبراہ راست انجام دینا ہے۔ جیسے حکام کے ان مسائل کے جوابات جن کے جوابات محر را فرادنہ دے سکیںیا لوگوں کے ضروریات کو پورا کر نا جن کے پورا کرنے سے تمھارے مددگار افراد جی چُراتے ہوں اور دیکھو ہر کام کو اسی کے دن مکمل کر دنیا کہ ہر دن کا اپنا ایک کام ہوتا ہے۔ اس کے بعد اپنے اور پروردگار کے روابط کے لئے بہترین وقت کا انتخاب کرنا جو تمام اوقات سے افضل او ربہترہو۔ اگر چہ تمام ہی اوقات اللہ کے لئے شمار ہو سکتے ہیں اگر انسان کی نیت سالم رہے اور رعایا اس کے طفیل خوشحال ہو جا ئے ۔ اورتمھارے وہ اعمال جنھیں صرف اللہ کے لئے انجام دیتے ہو ان میںسے سب سے اہم کام ان فرائض کا قیام ہو جو صرف پروردگار کے لئے ہوتے ہیں ۔ اپنی جسمانی طاقت میںسے رات اور دن دونوےں وقف ایک حصہ اللہ کے لئے قرار دینا اور جس کام کے ذریعہ اس کی قربت چاہتے ہو اسے مکمل طور سے انجام دینا نہ کوئی رخنہ پڑ نے پائے اور نہ کوئی نقص پیدا ہو چاہے بدن کو کسی قدرزحمت کیوں نہ ہو جائے۔ اور جب لوگوں کے ساتھ جماعت کی نماز ادا کر و تو نہ اس طرح پڑھو کہ لوگ بیزار ہو جائیں اور نہ اس طرح کہ نماز برباد ہو جائے اس لئے کہ لوگوں میں بیمار اور ضرورت مندا فراد بھی ہوتے ہیں اور میں نے یمن کی مہم پر جاتے ہوئے حضور اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ نماز جماعت کا انداز کیا ہونا چاہئے تو آپ نے فرمایا تھا کہ کمزور ترین آدمی کے اعتبار سے نماز ادا کرنا اور مومنین کے حال پر مہربان رہنا۔
اس کہ بعد یہ بھی خیال رہے کہ اپنی رعایا سے دیرتک الگ نہ رہنا کہ حکام کا رعایا سے پس پرندہ رہنا ایک طرح کی تنگ دلی پیدا کرتا ہے اور ان کے معاملات کی اطلاع کی اطلاع نہیں ہوپاتی ہے اور یہ پردہ داری انھیں بھی ان چیزوں کے جاننے سے روک دیتی ہے جن کے سامنے حجابات قائم ہوگئے ہیں اور اس طرح بڑی چیز چھوٹی چیزبڑی ہوجاتی ہے۔ اچھابرُ ابن جاتا ہے اور بُرا اچھا ہوجاتا ہے اور حق باطل سے مخلوط ہوجاتا ہے۔ اور حاکم بھی بالآخر ایک بشرہے وہ پس پردہ امور کی اطلاع نہیں رکتھا ہے اور نہ حق پیشانی پرایسے نشانات ہوتے ہیں جن کے ذریعہ صداقت کے اقسام کو غلط بیانی سے الگ کر کے پہچانا جا سکے۔ اور پھر تم دو میں سے ایک قسم کے ضرور ہوگے۔ یا وہ شخص ہوگے جس کا نفس حق کی راہ میں بذل وعطا پر مائت ہے تو پھر تمیں واجب حق عطاکرنے کی راہ میں پردہ حائل کرنے کی کیا ضرورت ہے اور کریموں جیسا عمل کیوں نہیں انجام دیتے ہو ۔ یا تم بخل کی بیماری میں مبتلا ہو گے تو بہت جلدی لوگ تم سے مایوس ہو کر خود ہی اپنے ہاتھ کھینچ لیں گے اور تمھیں پردہ ڈالنے ضرورت ہی نہ پڑے گی حلا نکہ لوگو ں کے اکثر ضروریات وہ میں جن میں تمھیں کسی طرح کی زحمت نہیں ہے جیسے کسی ظالم کی فریاد یا کسی معاملہ میں انصاف کا مطالبہ اس کے بعد یہ بھی خیال رہے کہ ہر والی کے کچھ مخصوص اور راز دار قسم کے افراد ہوتے ہیں جن میں خود غرضی۔ دوست درازی اور معاملات میں بے انصافی پائی جاتی ہے لہٰذا خبردار ایسے افراد کے فساد کا علاج ان اسباب کے خاتمہ سے کرنا جن سے یہ حالات پیدا ہوتے ہیں ۔اپنے کسی بھی حشیہ نشین اور اقرابت دار کو کوئی جا گیر مت بخش دنیا اور اسے تم سے کوئی ایسی توقع نہ ہو نی چاہئے کہ تم ایسی زمین پر قبضہ دیدوگے جس کے سبب آبپاشی یا کسی مشترک معاملہ میں شریک رکھنے والے افراد کو نقصان پہونچ جائے کہ اپنے مصارف بہی دوسرے کے سرڈال دے اور اس طرح اس معاملہ کا مزہ اس کے حصہ میں آئے اور اس کی ذمہ داری دنیا اور آخرت میں تمھارے ذمہ رہے۔ اور جس پر کوئی حق عائد ہو اس پراس کے نافد کرنے کی ذمہ داری ڈالو چاہے وہ تم سے نزدیک ہو یا دور اور راس مسئلہ میں اللہ کی راہ میں صبر و تحمّل سے کام لینا' چاہے اس کی زد تمھارے قرابتداروں اور خاص افراد ہی پر کیوں نہ پڑتی ہو اور اس سلسلہ میں تمھارے مزاج پر جو بار ہو اسے آخرت کی امیدمیں برداشت کرلینا کر لینا کہ اس کا انجام بہتر ہوگا۔ اور اگر کبھی رعا یا کو یہ کو یہ خیال ہو جائے کہ تم نے ان پر ظلم کیا ہے تو ان کے لئے اپنے عذر کا اظہار کرو اور اسی ذریعہ سے ان کی بدگمانی کا علاج کرو کہ اس میں تمھارے نفس کی ترتیب بھی ہےاور رعا یا پر نرمی کا اظہار بھی ہے اور وہ عذر خواہی بھی ہے جس کے ذریعہ تم رعایا کو راہِ حق پر چلانے کا مقصد بھی حاصل کر سکتے ہو اور خبردار کسی ایسی دعود صلح کا انکارنہ کر نا جس کی تحریک دشمنی کی طرف سے ہو اور جس میں مالک کی رضا مند پائی جاتی ہو کہ صلح کے ذریعہ فوجوں کو قدرے سکون مل جاتاہے اور تمھارے نفس کو بھی افکار سے نجات مل جائےگی اور شہروں میں بھی امن وامان کی فضا قائم ہو جائے گی۔ البتہ صلح کے بعد دشمنی کی طرف سے مکمل طور پر ہوشیار رہنا کہ کبھی کبھی وہ تمھیں غافل بنانے کے لئے تم سے قریب اختیار کرنا چا ہتا ہے لہٰذا اس سلسلہ میں مکمل ہوشیاری سے کام لینا اور کسی حسن ظن سے کام نہ لینا اور اگر اپنے اور اس کے در میان کوئی معاہدہ کرنا یا اسے کسی طرح کی پناہ دینا تو اپنے عہد کی پاسداری و وفاداری کے ذریعہ کرنا اور اپنے دمہ کو امانتداری کے ذریعہ محفوظ بنانا اور اپنے قول و قرار کی راہ میں اپنے نفس کو سپر بنادینا کہ اللہ کے فرائض میں ایفائے عہد جیسا کوئی فریضہ نہیں ہے جس پر تمام لوگ خواہشات کے اختلاف اور افکار کے تضاد کے باو جو متحد ہیں اور راس کا مشرکین نے بھی اپنے معاملات میں لحاظ رکھاہے عہد شکنی کے نتیجہ میں تباہیوں کا اندازہ کرلیا ہے ۔ تو خبردارتم اپنے عہد و پیمان سے غداری نہ کرنا اور اپنے قول و قرار میں خیانت سے کام نہ لینا اور اپنے دشمن پر اچانک حملہ نہ کردینا ۔ اس لئے کہ اللہ کے مقابلہ میں جاہل و بدبخت کے علاوہ کو ئی جرأات نہیں کرتا ہے اور اللہ نے عہد و پیمان کو امن وامن کا وسیلہ قراردیا ہے جسے اپنی رحمت سے تمام بندوں کے در میان عالم کردیا ہے اور ایسی پناہ گاہ بنادیا ہے جس کے دامن حفاظت میں پناہ لینے والے پناہ لیتے ہیں اور اس کے جوار میں منزل کرنے کے لئے تیزی سے قدم
آگے بڑھاتے ہیں لہذا اس میں کوئی جعل سازی ' فریب کاری اور مکاری نہ ہونی چاہئے اور کوئی ایسا معاہدہ نہ کر نا جس میں تاویل کی ضرورت پڑے اور معاہدہ کے پختہ ہوجا نے کے بعد اس کے کسی مبہم لفظ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرنا اور عہد الٰہی میں تنگی کا احساس غیر حق کے ساتھ وسعت کی جستجو پر آمادہ نہ کردے کہ کسی امر کی تنگی پر صبر کر لینا اور کشائش حال اور بہترین عاقبت کا انتظار کرنا اس غداری سے بہترہے جس کے اثرات خطر ناک ہوں اور تمھیں اللہ کی طرف سے جواب دہی کی مصیبت گھیر لے اور دنیا وآخرت دونوں تباہ ہوجا ئیں۔ دیکھو خبردار۔ نا حق خون بہانے سے پر ہیز کرنا کہ اس سے زیادہ عذاب الٰہی سے قریب تراور پاداش کے ااعتبار سے شدیدتر اور نعمتوں کے زوال۔ زندگی کے خاتمہ کے لئے مناسب تر کوئی سبب نہیں ہے اور پروردگار روزقیامت اپنے فیصلہ کا آغاز خونریزیوں کے معاملہ سے کرے گا۔ لہٰذا خبر دار اپنی حکومت کا استحکام ناحق خونریزی کے ذریعہ نہ پیدا کرنا کہ یہ بات حکومت کو کمزور اور بے جان بنا دیتی ہے بلکہ تباہ کرکے دوسروں کی طرف منتقل کردیتی ہے اور تمھارے پاس نہ خدا کے سامنے اور نہ میرے سامنے عمدََاقتل کرنے کا کوئی عذر نہیں ہے اور اس میں زندگی کا قصاص بھی ثابت ہے۔ البتہ اگر دھوکہ سے اس غلطی میں مبتلا ہو جاؤ اور تمھارا تازیانہ' تلوار یا ہاتھ سزادینے میں اپنی حدسے آگے بڑھ جائے کہ کبھی کبھی گھونسہ و غیرہ بھی قتل کا سبب بن جاتا ہے۔ تو خبر دار تمھیں سلطنت کا غر و راتنا او نچانہ بنادے کہ تم خون کے وارثوں کو ان کا حق خون ہا بھی ادا نہ کرو۔ اور دیکھو اپنے نفس کو خودپسندی سے بھی محفوظ رکھنا اور اپنی پسند پر بھر وسہ بھی نہ کرنا اور زیادہ تعریف کا شوق بھی نہ پیدا ہوجائے کہ یہ سب باتیں شیطان کی فرصت کے بہترین وسائل ہیں جن کے ذریعہ وہ نیک کرداروں کے عمل کوضائع اور برباد کر دیا کرتا ہے اور خبر دار عایا پر احسان بھی نہ جتا نا اور جو سلوک کیا ہے اسے زیادہ سمجھنے کی کوشش بھی نہ کرنا یا ان سے کوئی وعدہ کرکے ا س کے بعد وعدہ خلافی بھی نہ کرنا کہ یہ طرز عمل احسان کو برباد کردیتا ہے اور زیادتی عمل کا غرور حق کی نورانیت کو فنا کردیتا ہے اور وعدہ خلافی خدا اور بندگانِ خدا دونوں کے نزدیک ناراضگی کا باعث ہوتی ہے جیسا کہ اس نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناراضگی کی بات ہے کہ تم کوئی بات کہو اور پھر اس کے مطابق عمل نہ کرو۔ اور خبر دار وقف سے پہلے کاموں میں جلدی نہ کرنا اور وقف آجانے کے بعد سُستی کا مظاہرہ نہ کر نا اور بات سمجھ میں نہ آئے تو جھگڑانہ کرنا اور واضح ہو جائے تو کمزوری کا اظہار نہ کرنا۔ ہر بات کو اس کی جگہ رکھو اور ہر امر کو اس کے محل پر قرار دو۔ دیکھو جس چیز میں تمام لوگ برابر کے شریک ہیں اسے اپنے ساتھ مخصوص نہ کر لینا اور جو حق نگا ہوں کے سامنے واضح ہو جائے اس سے غفلت نہ بر تنا کہ دوسروں کے لئے یہی تمھار ی ذمہ داری ہے اور عنقریب تمام امور سے پر دے اُ ٹھ جائیں گے اور تم سے مظلوم کابدلہ لے لیا جا ئے گا۔ اپنے غضب کی تیزی' اپنی سر کشی کے جوش' اپنے ہاتھ کی جنبش اور اپنی زبان کی کاٹ پر قابور رکھنا اور ان تمام چیزوں سے اپنے کو اس طرح محفوظ رکھنا کہ جلدبازی سے کام نہ لینا اور سزاد ینے میں جلدی نہ کرنا یہانتک کہ غصہ ٹھہر جائے اور اپنے اور پر قابو حاصل ہو جائے۔ اور اس امر پر بھی اختیار اس وقف تک حاصل نہیں ہو سکتا ہے جب تک پروردگار کی بارگاہ میں واپسی کا خیال زیادہ سے زیادہ نہ ہوجائے۔ تمھارا فریضہ ہے کہ ماضی میں گذر جانے والی عادلانہ حکومت اور فاضلانہ سیرت کو یاد رکھو' رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار اور کتاب خدا کے احکام کو نگاہ میں رکھو ا ورجس طرح ہمیں عمل کرتے دیکھا ہے اسی طرح ہمارے نقشِ قدم پر چلو اور جو کچھ اس عہد نامہ میں ہم نے بتا یا ہے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو کہ میں نے تمھارے اوپر اپنی حجت کو مستحکم کردیا ہے تا کہ جب تمھارا نفس خواہشات کی طرف تیزی سے بڑھے تو تمھارے پاس کوئی عذر نہ رہے۔ اور میں پروردگار کی وسیع رحمت اور ہر مقصد کے عطا کرنے کی عظیم قدرت کے وسیلہ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ مجھے اور تمھیں ان کاموں کی توفیق دے جن میں اس کی مرضی ہو اور ہم دونوں اس کی بارگاہ میں اور بندوں کے سامنے عذر پیش کرنے کے قابل ہو جائیں۔ بندوں کی بہترین تعریف کے حقدار ہوں اور علاقوں میں بہترین آثار چھوڑ کر جائیں۔ نعمت کی فراوانی اور عزّت کے روز افزوں اضافہ کو برقرار رکھ سکیں اور ہم دونوں کا خاتمہ سعادت اور شہادت پر ہو کہ ہم سب اللہ کے لئے ہیں اور اس کی بارگاہ میں پلٹ کر جانے والے ہیں۔ سلام ہو رسول خدا (ص) پر اور ان کی طیب و طاہر آل پر۔ اور سب پر سلام بے حساب۔ والسلام
تفرقہ انگیزی تاریخی گناہ ہے
آج ہر وہ اقدام جو عالم اسلام میں تفرقہ انگیزی کا باعث ہو تاریخی گناہ ہے وہ لوگ جو دشمنانہ طریقے سے مسلمانوں کےایک عظیم گروہ کو بے بنیاد بہانوں سے کافر قرار دے رہے ہیں ، وہ لوگ جو باطل گمان و خیالات کی بنیاد پر مسلمانوں کے کچھ فرقوں کے مقدسات اور مذہبی مقامات کی اہانت کررہے ہیں ، وہ لوگ جو لبنان کے ان جانباز جوانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے ہیں جو امت اسلامیہ کی سربلندی اور عالم اسلام کے لئے باعث فخرہیں وہ لوگ جو امریکہ اور صیہونیوں کی خوشامد کے لئے ہلال شیعی یا شیعہ بیلٹ کے نام سے موہوم خطرے کی باتیں کررہے ہیں ، وہ لوگ جو عراق میں عوامی اور مسلمان حکومت کو ناکام بنانے کے لئے اس ملک میں بد امنی اور برادر کشی کو ہوا دے رہے ہیں وہ لوگ جو حماس کی حکومت پر ہرطرف سے دباؤ ڈال رہے ہیں جو ملّت فلسطین کی محبوب اور منتخب حکومت ہے وہ لوگ خواہ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں ایسے مجرم شمار ہوتے ہیں کہ تاریخ اسلام اورآئندہ کی نسلیں ان سے نفرت کریں گی اور انہیں غدار دشمنوں کا پٹھو سمجھیں گی ۔
دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ عالم اسلام کی حقارت و پسماندگی کا دور ختم ہوچکاہے اوراب نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے یہ خیال باطل ہے کہ مسلمان ملکوں کو ہمیشہ مغرب کے سیاسی و ثقافتی اقتدار کے پنجہ میں اسیر رہنا ہے اور انفرادی و اجتماعی فکر و گفتار و عمل میں مغرب کی ہی تقلید و پیروی کرنا چاہیے اب خود مغرب والوں کے غرور و تکبر و ظلم و ستم اور انتہا پسندی کی وجہ سے یہ تصور مسلمان قوموں کے ذہنوں سے پاک ہوچکا ہے۔
اسلامی اتحاد اور عالم اسلام میں تفرقے کے خطرات
"میری تمنا یہ ہے کہ میری زندگی اتحاد بین المسلمین کی راہ میں گزرے اور میری موت بھی مسلمانوں کے اتحاد کی راہ میں واقع ہو"(مقام معظم رھبری آیۃ اللھ العظمیٰ خامنہ ای دامت بر کاتہ)
امت مسلمہ کا مقام اور توانائیاں
ہمدلی اور باہمی اخوت کے جذبے سے سرشار یہ قومیں جو سیاہ فام، سفید فام اور زرد فام نسلوں پر مشتمل ہیں اور جو درجنوں مختلف زبانوں سے تعلق رکھتی ہیں، سب کی سب خود کو عظیم امت مسلمہ کا جز جانتی اور اس پر فخر کرتی ہیں۔ سب ہر دن ایک ہی مرکز کی سمت رخ کرکے بیک آواز اللہ تعالی سے راز و نیاز کرتی ہیں، سب کو ایک ہی آسمانی کتاب سے درس و الہام ملتا ہے۔
یہ عظیم مجموعہ جس کا نام مسلم امہ ہے بے حد قیمتی ثقافت اور با عظمت میراث کے ساتھ اور بے مثال درخشندگی اور بارآوری کے ساتھ، تنوع اور رنگارنگی کے باوجود بڑی حیرت انگیز یکسانیت اور یگانگت سے بہرہ مند ہے جو اسلام کی گیرائی و نفوذ، اس کی خاص اور خالص وحدانیت کے باعث اس (عظیم پیکر) کے تمام اجزا، ستونوں اور پہلوؤں میں نمایاں و جلوہ فگن ہے۔
امت مسلمہ کے پاس اپنے وجود اور اپنے حقوق کے دفاع کے تمام وسائل موجود ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی بہت بڑی ہے۔ ان کے پاس عظیم قدرتی دولت ہے۔ ان میں نمایاں ہستیاں اور روحانی سرمائے سے مالامال شخصیات ہیں جو لوگوں میں توسیع پسندوں کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ و جذبہ پیدا کرتی ہیں۔ مسلمانوں کے پاس قدیم تہذیب و تمدن ہے جو دنیا میں کم نظیر ہے، ان کے پاس لا محدود وسائل ہیں، بنابریں صلاحیت کے اعتبار سے مسلمان اپنے دفاع پر قادر ہیں۔ عالم اسلام کو آج اپنے عز و وقار کے لئے قدم بڑھانا چاہئے، اپنی خود مختاری کے لئے مجاہدت کرنا چاہئے، اپنے علمی ارتقاء اور روحانی طاقت و توانائی یعنی دین سے تمسک، اللہ کی ذات پر توکل اور نصرت پروردگار پر تیقن کے لئے کوشش کرنا چاہئے۔ " وعداتک لعبادک منجزہ" (اپنے بندوں سے کیا جانے والا تیرا وعدہ بالیقیں پورا ہونے والا ہے، وسائل الشیعہ ج 14 ص 395) یہ وعدہ الہی ہے۔ یہ حتمی وعدہ الہی ہے کہ" ولینصرن اللہ من ینصرہ" (اللہ اس کی مدد کرےگا جو اللہ کی نصرت کرے گا، حج 40) اس وعدے پر یقین کامل کے ساتھ میدان عمل میں قدم رکھیں۔ میدان عمل میں قدم رکھنے سے مراد صرف یہ نہیں کہ بندوق اٹھا لی جائے۔ اس سے مراد فکری عمل ہے، عقلی عمل ہے، علمی عمل ہے، سماجی عمل ہے، سیاسی عمل ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالی کے لئے اور عالم اسلام کے اتحاد کی راہ میں انجام پائے۔ اس سے قوموں کو بھی فائدہ پہنچے گا اور اسلامی حکومتوں کو بھی ثمرہ حاصل ہوگا۔
اسلامی اتحاد و یکجہتی کا مفہوم
اتحاد کا معنی و مفہوم بہت آسان اور واضح ہے۔ اس سے مراد ہے مسلمان فرقوں کا باہمی تعاون اور آپس میں ٹکراؤ اور تنازعے سے گریز۔ اتحاد بین المسلمین سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کی نفی نہ کریں، ایک دوسرے کے خلاف دشمن کی مدد نہ کریں اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر ظالمانہ انداز میں تسلط قائم کریں۔
مسلمان قوموں کے درمیان اتحاد کا مفہوم یہ ہے کہ عالم اسلام سے متعلق مسائل کے سلسلے میں ایک ساتھ حرکت کریں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور ان قوموں کے درمیان پائے جانے والے ایک دوسرے کے سرمائے اور دولت کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔
اتحاد بین المسلمین کا مطلب مختلف فرقوں کا اپنے مخصوص فقہی اور اعتقادی امور سے اعراض اور روگردانی نہیں ہے بلکہ اتحاد بین المسلمین کے دو مفہوم ہیں اور ان دونوں کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔ پہلا مفہوم یہ کہ گوناگوں اسلامی مکاتب فکر، جن کے اندر بھی کئی ذیلی فقہی اور اعتقادی فرقے ہوتے ہیں، دشمنان اسلام کے مقابلے میں حقیقی معنی میں آپس میں تعاون اور ایک دوسرے کی اعانت کریں اور ہم خیالی اور ہمدلی برقرار کریں۔
دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے مختلف فرقے خود کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کریں، ہم خیالی پیدا کریں، مختلف فقہی مکاتب کا جائزہ لیکر ان کے اشتراکات کی نشاندہی کریں۔ علما و فقہا کے بہت سے فتوے ایسے ہیں جو عالمانہ فقہی بحثوں کے ذریعے اور بہت معمولی سی تبدیلی کے ساتھ دو فرقوں کے ایسے فتوے میں تبدیل ہو سکتے ہیں جو ایک دوسرے کے بہت قریب ہوں۔
اسلامی اتحاد و یکجہتی کے محور
توحید
جب یکتا پرست معاشرے میں کے جس کی نظر میں عالم ہستی کا موجد و مالک، عالم وجود کا سلطان اور وہ حی و قیوم و قاہر کہ دنیا کی تمام اشیاء اور ہر جنبش جس کے ارادے اور جس کی قدرت کی مرہون منت ہے، واحد و یکتا ہے تو پھر (اس معاشرے کے انسان) خواہ سیاہ فام ہوں، سفید فام ہوں یا دیگر رنگ والے اور مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے ہوں اور ان کی سماجی صورت حال بھی مختلف ہو، ایک دوسرے کے متعلقین میں ہیں۔ کیونکہ وہ سب اس خدا سے وابستہ ہیں۔ ایک ہی مرکز سے جڑے ہوئے ہیں اور ایک ہی جگہ سے نصرت و مدد حاصل کرتے ہیں۔ یہ عقیدہ توحید کا لازمی و فطری نتیجہ ہے۔ اس نقطہ نظر کی رو سے انسان ہی ایک دوسرے سے منسلک اور وابستہ نہیں ہیں بلکہ توحیدی نقطہ نظر تو دنیا کے تمام اجزاء و اشیاء، حیوانات و جمادات، آسمان و زمین، غرضیکہ ہر چیز ایک دوسرے سے وابستہ اور جڑی ہوئي ہے اور ان سب کا بھی انسانوں سے رشتہ و ناطہ ہے۔ بنابریں وہ تمام چیزیں جو انسان دیکھتا اور محسوس کرتا اور جس کا ادراک کرتا ہے وہ ایک مجموعہ، ایک ہی افق اور ایک دنیا ہے جو ایک پر امن اور محفوظ دائرے میں سمائی ہوئی ہے۔
اسلامی شناخت اور تشخص
دنیا کے ہر خطے میں آج مسلمان، خواہ وہ مسلم ممالک ہوں یا ایسی ریاستیں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، اسلام کی سمت جھکاؤ اور میلان اور اپنی اسلامی شناخت کی بازیابی کا احساس کر رہے ہیں۔ آج علم اسلام کا روشن خیال طبقہ اشتراکیت اور مغربی مکاتب سے بد دل ہوکر اسلام کی سمت بڑھ رہا ہے اور عالم انسانیت کے درد و الم کی دوا کے لئے اسلام کا دامن تھام رہا ہے اور اس سے راہ حل چاہ رہا ہے۔ آج مسلم امہ میں اسلام کی جانب ایسی رغبت پیدا ہوئی ہے جو گزشہ کئی صدیوں میں دیکھنے میں نہیں آئی۔ اسلامی ممالک پر کئی عشروں تک مغربی اور مشرقی بلاکوں کے گہرے سیاسی و ثقافتی تسلط کے بعد اب عالم اسلام کے نوجوانوں کی فکروں کا افق اور نگاہوں کا مرکز اسلام بن گيا ہے۔ یہ ایک سچائی ہے۔ خود مغرب والے اور دنیا کی سامراجی طاقتیں بھی اس کی معترف ہیں۔ اکابرین سامراج کے لئے جو چیز سوہان روح بنی ہوئی ہے وہ مسلمانوں کا اسلامی تشخص اور یہ احساس ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ یہ چیز مسلمانوں کو متحد کرتی اور ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔
دین اسلام
اسلام بھی اس کا باعث ہے کہ امت مسلمہ کے اندر ایک دوسرے سے رابطے اور تعلق کا احساس پیدا ہو اور یہ ایک ارب اور کئی کروڑ کی آبادی عالم اسلام کے مختلف مسائل میں اپنا کردار ادا کرے۔
مقدس دین اسلام میں اتحاد ایک بنیادی اصول کا درجہ رکھتا ہے۔ ذات اقدس باری تعالی سے لیکر کہ جو وحدت و یکتائی کی بنیاد اور حقیقی مظہر ہے، اس وحدت کے جملہ آثار تک آپ دیکھئے پورے عالم وجود کی توجہ اسی عظیم و ارفع مرکز کی جانب مرکوز ہے، "کل الینا راجعون" (سب ہماری جانب ہی لوٹنے والے ہیں، انبیاء 93) سب کے سب اسی ذات الہی کی جانب حرکت کر رہے ہیں۔ " و الی اللہ المصیر" (سب کی واپسی اسی کی جانب ہے، نور42) اتحاد، اسلام اور اعتصام بحبل اللہ کی اساس پر قائم ہونا چاہئے توہمات اور بے معنی قومیتی تعصب کی بنیاد پر نہیں۔ امت مسلمہ کا دار و مدار اسی پر ہے۔ اتحاد، اسلام کی حاکمیت کے لئے ہونا چاہئے ورنہ بصورت دیگر وہ عبث اور بے معنی ہوگا.
قرآن كريم
قرآن کریم نے مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دی ہے۔ قرآن نے مسلمانوں کو انتباہ بھی دیا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے اتحاد و یکجہتی کو گنوایا تو ان کی عزت و آبرو، شناخت و تشخص اور طاقت و توانائی سب کچھ مٹ جائے گا۔ آج بد قسمتی سے عالم اسلام میں مشکلات سامنے کھڑی ہیں۔ آج اسلام کے خلاف جو سازش کی جا رہی ہے وہ بہت گہری سازش ہے۔ موجودہ حالات میں اگر اسلام کے خلاف منظم سازشیں مزید شدت و سرعت کے ساتھ جاری ہیں تو اس کی وجہ امت مسلمہ میں آنے والی وہ بیداری ہے جسے دیکھ کر دشمنوں پر خوف طاری ہو گیا ہے۔ عالمی استکبار، اسلامی ممالک میں موجود لالچی عناصر، اسلامی حکومتوں اور ملکوں میں مداخلت کرنے والے، امت مسلمہ کے اتحاد سے مضطرب ہیں۔
اسلام میں خطاب " یا ایھا الذین آمنوا"( اے ایمان لانے والو!) کے ذریعے کیا گيا ہے۔ " یا ایھا الذین تشیعوا" (اے اہل تشیعہ) یا " یا ایھا الذین تسننوا" (اے اہل تسنن) کہہ کر مخاطب نہیں کیا گیا ہے۔ خطاب تمام اہل ایمان سے کیا گیا ہے۔ کس چیز پر ایمان رکھنے والے؟ قرآن پر ایمان رکھنے والے، اسلام پر ایمان رکھنے والے، پیغمبر پر ایمان رکھنے والے۔ ہر شخص کا اپنا الگ عقیدہ بھی ہے جو دوسرے افراد سے مختلف ہے۔ جب ارشاد ہوا کہ " و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا" (اور سب کے سب ایک ساتھ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو، آل عمران 103) تو مخاطب تمام مومنین کو قرار دیا گیا ہے۔ مومنین کے کسی مخصوص گروہ کو مخاطب قرار نہیں دیا گیا۔ جب ارشاد ہوا کہ " و ان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما" (اگر مومنین کے دو گروہوں میں جنگ ہو جائے تو ان کے درمیان مصالحت و مفاہمت کروائیے، حجرات9) تمام مومنین کو مخاطب بنایا گيا ہے، کسی مخصوص گروہ کو نہیں۔ اسلام ان بنیادی کاموں کے ذریعے مذہبی تعصب اور تنازعے کو پائیدار بنیادوں پر ختم کر سکتا ہے جس سے تمام انسانیت دوچار ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ " و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا" اعتصام بحبل اللہ، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہر مسلمان کا فرض ہے، لیکن قرآن نے اتنے پر ہی اکتفا نہیں کیا کہ ہر مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے بلکہ حکم دیتا ہے کہ تمام مسلمان اجتماعی شکل میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں۔ "جمیعا" یعنی سب کے سب ایک ساتھ مضبوطی سے پکڑیں۔ چنانچہ یہ اجتماعیت اور یہ معیت دوسرا اہم فرض ہے۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے ساتھ ہی ساتھ اس کا بھی خیال رکھنا ہے کہ یہ عمل دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اجتماعی طور پر انجام دیا جانا ہے۔ اس اعتصام کی صحیح شناخت حاصل کرکے اس عمل کو انجام دینا چاہئے۔ قرآن کی آیہ کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ " فمن یکفر بالطاغوت و یومن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی" (جو طاغوت کی نفی کرتا اور اللہ پر ایمان لاتا ہے بے شک اس نے بہت مضبوط سہارے کو تھام لیا ہے، بقرہ 256) اس میں اعتصام بحبل اللہ کا مطلب سمجھایا گيا ہے۔ اللہ کی رسی سے تمسک اللہ تعالی کی ذات پر ایمان اور طاغوتوں کے انکار کے صورت میں ہونا چاہئے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
نبی مکرم و رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وجود مقدس اہم ترین نقطہ اتحاد ہے۔ ہم پہلے بھی یہ بات عرض کر چکے ہیں کہ عالم اسلام اس نقطے پر آکر ایک دوسرے سے منسلک ہو سکتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو تمام مسلمانوں کے جذبات کا سنگم ہے۔ یہ عالم اسلام کے عشق و محبت کا قبلہ ہے۔ اب آپ دیکھئے کہ صیہونیوں کے ہاتھوں بکے ہوئے قلم اسی مرکز کو نشانہ بنا رہے ہیں اور اس کی توہین کر رہے ہیں تاکہ امت مسلمہ کی توہین اور عالم اسلام کی تحقیر رفتہ رفتہ ایک عام بات بن جائے۔ یہ بنیادی نقطہ ہے۔ سیاستداں حضرات، علمی شخصیات، مصنفین، شعرا، ہمارے فن کار اس (اتحاد کے) نقطہ پر توجہ دیں اور اسی نعرے کو وسیلہ بنا کر مسلمان خود کو ایک دوسرے کے نزدیک لائیں۔ اختلافی باتوں میں نہ الجھیں، ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیاں نہ کریں، ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے صادر نہ کریں، ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے خارج نہ کریں۔ مسلم امہ کے قلوب ذکر پیغمبر اسلام اور عشق رسول اعظم سے تازگی پاتے ہیں، ہم سب کے سب اس عظیم ہستی کے پروانے اور عاشق ہیں۔
اہل بیت پیغمبر علیہم السلام
جو عوامل اتحاد کا محور قرار پا سکتے ہیں اور جن پر تمام مسلمان اتفاق رائے قائم کر سکتے ہیں ان میں ایک اہل بیت پیغمبر علیہم السلام کا اتباع ہے۔ اہل بیت پیغمبر سے تمام مسلمانوں کو عقیدت ہے۔
عالم اسلام اہل بیت سے متعلق دو باتوں کو اپنے اتحاد و اتفاق کا محور قرار دے سکتا ہے۔ ایک ہے محبت جو قلبی اور اعتقادی معاملہ ہے اور تمام مسلمانوں کو اہل بیت اطہار علیہم السلام سے محبت و مودت رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور سب نے اسے قبول بھی کیا ہے۔ بنابریں یہ وہ نقطہ ہے جو تمام مسلمانوں کے احساسات و جذبات کا محور قرار پا سکتا ہے۔ دوسری بات ہے دین کی تعلیم اور معارف و احکام الہی کے معاملے میں قرآن کا شریک کار ہونا جس کی جانب حدیث ثقلین میں اشارہ کیا گيا ہے۔ اس حدیث کو شیعہ سنی اور دوسرے بہت سے اسلامی فرقے نقل کرتے ہیں۔
تاریخ بشریت کی عظیم ہستی
امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے محبت و عقیدت اور تاریخ انسانیت اور تاریخ اسلام کی عظیم ہستی سے عشق و الفت نہ سنیوں سے مختص ہے اور نہ ہی مسلمانوں تک محدود ہے۔ یہ تو وہ چیز ہے جس میں دنیا کے تمام حریت پسند اور آزاد منش انسان مسلمانوں کے ساتھ شریک ہیں۔ ایسی شخصیات جو مسلمان بھی نہیں ہیں اس چہرہ تابناک اور اس خورشید عالم تاب کی بارگاہ میں عقیدت کے پھول نچھاور کرتی ہیں، طبع آزمائی کرتی ہیں۔ لہذا یہ بڑی غلط بات ہوگی کہ عالم اسلام میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات کو اختلاف کا موضوع بنا دیا جائے۔ یہ وہ با عظمت ذات ہے جس سے تمام مسلمانوں اور تمام اسلامی فرقوں کو دل و جان سے پیار اور عقیدت ہے۔ اس عقیدت و محبت کی وجہ آپ کی وہ اعلی صفات و خصوصیات ہیں کہ ہر با شعور انسان جن کی عظمت کو سلام کرتا ہے۔ تو نقطہ اشتراک اور نقطہ اجتماع یہ ذات ہے۔
سنت و سیرت معصومین علیہم السلام
دلوں کی پاکیزگی اور اتحاد
امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے فرزندوں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام کو جو وصیت فرمائی اس کے دوسرے حصے میں تیسرا اہم نکتہ ہے "صلاح ذات بین" یعنی ایک دوسرے کے ساتھ محبت آمیز برتاؤ رکھیں، ایک دوسرے کی طرف سے دل صاف رکھیں، اتحاد قائم رکھیں اور آپ دونوں کے درمیان اختلاف اور دوری پیدا نہ ہونے پائے۔ آپ نے اس جملے کو بیان کرنے کے ساتھ ہی اسی مناسبت سے ایک حدیث نبوی بھی نقل کی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس مسئلے پر آپ خصوصی تاکید کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں آپ فکر مند ہیں۔ " صلاح ذات بین" کی اہمیت تمام امور کو منظم رکھنے سے ( جس پر حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے خاص تاکید فرمائي ہے) کم نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ " صلاح ذات بین" کے لئے خطرات زیادہ ہیں۔ چنانچہ ایک حدیث نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے تمہارے نانا کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " صلاح ذات البین افضل من عامۃ الصلاۃ و الصیام"( کافی ج4 ص51 باب صدقات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) آپس میں بھائي چارہ اور میل محبت اور لوگوں کے درمیان انسیت و الفت ہر نماز و روزے سے بہتر ہے۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ " تمام روزوں اور نمازوں سے بہتر ہے" بلکہ ارشاد فرمایا کہ " ہر نماز اور روزے سے بہتر ہے" یعنی تم اپنے نماز اور روزے کی فکر میں رہنا چاہتے ہو لیکن ایک کام ایسا ہے جو ان دونوں سے افضل ہے۔ وہ کیا ہے؟ وہ " صلاح ذات البین" ہے۔ اگر آپ نے دیکھا کہ امت مسلمہ میں کہیں اختلاف اور شگاف پیدا ہو رہا ہے تو فور آگے بڑھ کر اس خلیج کو ختم کیجئے۔ اس کی فضیلت نماز روزے سے زیادہ ہے۔
برادر دینی اور شریک انسانیت
اسلام کا پیغام اتحاد، تحفظ اور اخوت کا پیغام ہے۔ امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کا ایک یادگار جملہ ہے جو تمام انسانوں کے سلسلے میں آپ نے ارشاد فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ انسان جو تمہارے سامنے ہے یا تمہارا دینی بھائی ہے یا پھر خلقت میں تمہارا شریک ہے، بہرحال وہ بھی ایک انسان ہے۔ تمام انسانوں کو آپس میں متحد اور مہربان رہنا چاہئے۔ یہ چیز کسی ایک گروہ اور ایک دستے سے مخصوص نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جو افراد دین و عقیدے کے لحاظ سے تم سے مختلف ہیں ان کے ساتھ بھی اچھا سلوک رکھا جائے۔ " ولا ینھاکم اللہ عن اللذین لم یقاتلوکم فی الدین و لم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم و تقسطوا الیھم ان اللہ یحب المقسطین" (اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے قتال نہیں کیا اور تمہیں تمہارے گھروں سے باہر نہیں نکالا، نیکی اور بھلائی اور ان کے ساتھ انصاف کرنے سے نہیں روکتا، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، ممتحنہ 8) یہ ہے اسلامی روش۔ یعنی جو شخص فکری لحاظ سے تم سے الگ ہے اور ایک الگ عقیدہ رکھتا ہے وہ اپنے اس عقیدے کی وجہ سے یہاں ( اس دنیا میں) سزا پانے کا مستحق نہیں ہے اور نہ اس کی ذمہ داری تم پر ہے۔ "والحکم اللہ و المعود الیہ القیامۃ" (داور و قاضی خدا ہے اور قیامت اس کی وعدہ گاہ ہے، بحار الانوار ج29 ص485) یہ بھی امیر المومنین علیہ السلام کا کلام ہے۔ آپ کا واسطہ ایسے انسان سے ہے جو تمہارا ہم عقیدہ اور تمہارا بھائی ہے اور اگر ہم عقیدہ نہیں تو خلقت میں تمہارا شریک ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران
دشمن نے اسلامی معاشرے میں شگاف و اختلاف پیدا کرنے کے لئے متعدد حربے آزمائے لیکن آج اسے ایک ایسی بے مثال حقیقت کا سامنا ہے جو تمام مسلمانوں کے اتحاد کا مرکز بن گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے "اسلامی جمہوریہ" یہ بلند پرچم اور یہ ہمہ گیر آواز ایک نئی شئ ہے، اس کا آئین، اس کے نعرے اور اس کا عمل اسلام کے مطابق ہے اور فطری طور پر دنیا بھر میں مسلمانوں کے دل اس کے لئے دھڑکتے ہیں۔ آج دنیا میں کوئی بھی خطہ اس سنجیدگی اور دلجمعی کے ساتھ احکام اسلامی کے نفاذ کی خاطر کوشاں نہیں ہے۔ میری مراد قومیں نہیں ہیں، مسلمان قومیں تو خیر ہر جگہ ہی اسلام کے عشق میں غلطاں اور اسلام کی ہر خدمت کے لئے آمادہ ہیں۔ میری مراد وہ پالیسیاں، وہ نظام اور وہ حکومتیں ہیں جنہوں نے اپنا کام اسلام کے نام سے شروع تو کیا تھا لیکن جب انہیں عالمی سطح پر حملوں کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے پسپائی اختیار کر لی۔
ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور پورے عالم اسلام میں اس نئی فکر کی ترویج کے بعد اس ہمہ گیر اسلامی موج کا مقابلہ کرنے کے لئے سامراج نے ایک حربہ یہ اپنایا کہ اس نے ایک طرف تو ایران کے اسلامی انقلاب کو ایک شیعہ تحریک یعنی ایک عام اسلامی تحریک نہیں ایک فرقہ وارانہ تحریک ظاہر کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف شیعہ سنی اختلاف اور شقاق کو ہوا دینے پر توجہ مرکوز کی۔ ہم نے شروع سے ہی اس شیطانی سازش کو محسوس کرتے ہوئے ہمیشہ اسلامی فرقوں کے درمیان اتفاق و یکجہتی پر زور دیا اور یہ کوشش کی ہے کہ اس فنتہ انگیزی کو دبائیں، اللہ کے فضل و کرم سے ہمیں بڑی کامیابیاں بھی ملیں جن میں ایک " تقریب مذاہب اسلامی عالمی کونسل" کی تشکیل ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اوائل انقلاب سے آج تک مسلمان ممالک کو اتحاد کی دعوت دی ہے۔ ایران نے اسلامی حکومتوں کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات قائم کرنے کی اگر بلا وقفہ کوششیں کی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ ایران کی حکومت یا عوام کو اس ہمراہی کی احتیاج اور ضرورت ہے۔ نہیں، یہ کوششیں صرف اس لئے تھیں کہ اس رابطے سے پورے عالم اسلام کو فائدہ پہنچے۔
اسلامی اتحاد و یکجہتی کے ثمرات
مسلمانوں کی فتح و کامرانی اور عزت و وقار
مسلمان قوموں کو چاہئے کہ اپنی طاقت و توانائی کو، جو در حقیقت ان کے ایمان اور اسلامی ممالک کے باہمی اتحاد کی طاقت ہے، پہچانیں اور اس پر تکیہ کریں۔ اسلامی ممالک اگر ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں تو ایک ایسی طاقت معرض وجود میں آ جائے گی کہ دشمن اس کے سامنے کھڑے ہونے کی جرائت نہیں کر پائے گا اور ان ملکوں سے تحکمانہ انداز میں بات نہیں کر سکے گا۔ اگر مسلمان ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں اور اپنے اندر اپنائیت کا جذبہ پیدا کر لیں، ان کے عقائد میں اختلاف ہو تب بھی وہ دشمن کے آلہ کار نہ بنیں تو عالم اسلام کی سربلندی بالکل یقینی ہوگی۔
قومیں جہاں کہیں بھی میدان عمل میں اتر چکی ہیں، وہ اپنی اس موجودگی کو جاری رکھیں اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو برداشت کریں تو امریکا ہو یا امریکا جیسا کوئی دوسرا ملک ان کے خلاف اپنی منمانی نہیں کر سکیں گے، فتح قوموں کا مقدر ہوگی۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ عالم اسلام اگر مسلم امہ کی حرکت کو فتح و کامرانی کی سمت صحیح انداز سے جاری رکھنا چاہتا ہے تو کچھ ذمہ داریاں تو اسے قبول کرنی ہی پڑیں گی۔ ان ذمہ داریوں میں سب سے پہلا نمبر ہے اتحاد کا۔
مشکلات پر غلبہ
اگر مسلمان متحد ہو جائیں، اگر ان میں بیداری آ جائے، اگر وہ اپنی طاقت سے آشنا ہو جائیں، اگر انہیں یقین ہو جائے کہ موجودہ صورت حال کو تبدیل کیا جا سکتا ہے اور اپنی سرنوشت اور اپنے مستقبل کے امور کو ہاتھ میں لیا جا سکتا ہے اور اگر وہ دیکھ لیں کہ عظیم ملت ایران کی مانند بعض قوموں نے کس طرح اپنے مستقبل کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے، اگر وہ بڑی طاقتوں کے زیر نگیں نہ رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ عالم اسلام کی مشکلات کا خاتمہ نہ ہو۔ اس وقت سب سے بنیادی چیز یہی ہے۔
نہ التماس و خوشآمد، نہ سر جھکانا، نہ مذاکرات اور نہ وہ راستے جن کی تجویز بعض لوگوں نے بڑے سادہ لوحانہ انداز میں مسلمانوں کے سامنے پیش کر دی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی مسلمانوں کی نجات کا راستہ اور ان کی مشکلات کا حل نہیں ہے۔ راہ حل بس ایک ہے اور وہ ہے اتحاد بین المسلمین، اسلام، اسلامی اصولوں اور اسلامی اقدار پر ثابت قدمی، دباؤ اور مخالفتوں کا مقابلہ اور دراز مدت میں دشمن پر عرصہ حیات تنگ کر دینا۔
آج عالم اسلام کے لئے واحد راہ حل اسلام، روحانیت اور اسلامی احکام کی سمت واپسی اور دوسرے اتحاد بین المسلمین ہے، یہ اتحاد بھی اسلام کے احکامات اور تعلیمات کا ہی جز ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کے اتحاد اور ان کے درمیان کدورت و بغض و کینے کو راہ نہ دئے جانے پر خاص تاکید کی ہے۔
معاشی اور سیاسی قدرت میں اضافہ
اسلامی ممالک کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہے۔ ایک اسلامی اتحاد اور ایک اسلامی بلاک سب کے لئے مفید اور اچھا ہے، کسی مخصوص گروہ کے لئے نہیں۔ عالم اسلام کے بڑے ممالک بھی اسلامی بلاک اور اتحاد سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ چیز سب کے فائدے میں ہے۔ بلا شبہ اگر بوسنیا کے مسلمانوں کو عالم اسلام کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو آج یورپ میں بوسنیائی مسلمانوں کا کوئی نام و نشان نہ ہوتا، ان کا صفایا ہو چکا ہوتا۔
موجودہ حالات میں عالم اسلام کے مغربی ترین علاقوں یعنی مغربی افریقہ سے لیکر عالم اسلام کے مشرقی ترین خطوں یعنی مشرقی ایشیا تک کا علاقہ مسلمان نشین علاقہ ہے۔ دنیا کے اہم ترین علاقے مسلمانوں کے پاس ہیں۔ اس کا ایک حصہ تو یہی خلیج فارس ہے، اس علاقے کے قدرتی ذخائر سے اپنی جھولی بھرکر لے جانے کے لئے پوری دنیا صف باندھے کھڑی ہے۔ پوری دنیا کو اس خطے کے تیل کی احتیاج ہے۔ اگر مسلمان آپس میں متحد ہ جائیں تو عالم اسلام کو بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
قیادت و اقتدار
موجودہ دور میں مسلمانوں کو متحد ہونے سے روکنے اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کے لئے بہت بڑے پیمانے پر کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ کوششیں اب جبکہ مسلمانوں کو ہمیشہ سے زیادہ اتحاد کی ضرورت ہے اور بھی تیز ہو گئی ہیں۔ تقریبا یقینی اندازہ یہ ہے کہ دشمنوں کی ان کوششوں کا مقصد اسلام کے اقتدار اور قائدانہ کردار کی دیرینہ خواہش کو جو عملی طور پر تکمیل کے نزدیک پہنچ گئي ہے پورا نہ ہونے دینا ہے۔ یہ تو فطری بات ہے کہ اگر اسلام کو دنیا میں برتری اور قائدانہ کردار دلانا ہے اور عالم اسلام میں مسلمان اپنے دین سے متمسک ہونے کا ارادہ کر چکے ہیں تو یہ ہدف ان اختلافات کے ساتھ پورا ہونے والا نہیں ہے۔ اسلام کی برتری اور اس کے قائدانہ کردار کا سد باب کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسلامی معاشروں میں خواہ وہ کوئي ایک ملک ہو یا متعدد اسلامی ممالک کے معاشرے ہوں، مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا جائے۔
تفرقے کے علل و اسباب
شرک
شرک آمیز افکار انسانوں کو تقسیم کر دیتے ہیں۔ جس معاشرے کی بنیاد مشرکانہ عقیدے پر ہو اس میں انسان ایک دوسرے سے جدا اور ایک دوسرے کے لئے اجنبی اور مختلف طبقات میں تقسیم ہوں گے۔ جب مشرک معاشرے میں سر آغاز وجود اور پورے عالم پر مسلط و محیط ہستی سے انسانوں کے رابطے کا موضوع اٹھے گا تو فطری بات ہے کہ اس معاشرے کے انسان ایک دوسرے سے جدا ہوں گے کیونکہ کوئی ایک طبقہ کسی ایک خدا سے متعلق ہوگا تو دوسرا طبقہ کسی دوسرے خدا سے اور تیسرا طبقہ کسی تیسرے خدا سے۔ جس معاشرے میں شرک کا بول بالا ہوگا وہاں انسانوں اور انسانی طبقات کے درمیان ایک ناقابل تسخیر دیوار اور کبھی نہ پٹنے والی خلیج ہوگی۔
شیطان
جہاں بھی مومنین اور اللہ تعالی کے صالح بندوں کے درمیان اختلاف نظر آ رہا ہے وہاں یقینا شیطان اور دشمن خدا کا عمل دخل ہے۔ جہاں بھی آپ کو اختلاف نظر آئے، آپ غور کریں تو آپ کو بڑی آسانی سے شیطان بھی نظر آ جائے گا۔ یا پھر وہ شیطان، جو ہمارے نفس کے اندر موجود ہے جسے نفس امارہ کہتے ہیں اور جو سب سے خطرناک شیطان ہے، ہمیں دکھائی دے گا۔ بنابریں ہر اختلاف کے پس پردہ یا تو ہماری انانیت، جاہ طلبی اور مفاد پرستی ہے اور یا پھر خارجی اور ظاہری شیطان یعنی دشمن، سامراج اور ظالم طاقتوں کا ہاتھ کارفرما ہے۔
جہالت و کج فہمی
اگر آپ امت اسلامیہ کو تفرقے کا شکار دیکھ رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو صحیح طور پر اس کا ادراک نہیں ہے کہ اتحاد بھی دین کا جز ہے۔ اب وہ دور ہے کہ جس میں امت اسلامیہ کو خواہ وہ سیاسی شخصیات ہوں، علمی ہستیاں ہوں یا دینی عمائدین اور یا پھر عوامی طبقات سب کو ہمیشہ سے زیادہ ہوشیار رہنا چاہئے، دشمن کے حربوں کو پہچاننا اور اس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ ان کا ایک موثر ترین حربہ اختلاف کی آگ بھڑکانا ہے۔ وہ پیسے خرچ کرکے اور مربوط سازشوں کے ذریعے اس کوشش میں ہیں کہ مسلمانوں کو آپسی اختلافات میں الجھائے رکھیں اور ہماری غفلتوں، کج فہمیوں اور تعصب کو استعمال کرکے ہمیں ایک دوسرے کی نابودی پر مامور کر دیں۔
آج بعض مکاتب فکر میں تنگ نظری دکھائی دیتی ہے۔ وہ اپنے علاوہ پورے عالم اسلام کو کافر سمجھتے ہیں۔ جسے بھی پیغمبر اسلام سے عشق و محبت ہے وہ کافر ہے؟! اس تنگ نظری کے عوامل کیا ہیں؟ ہمیں تو بے حد خوشی ہوگی کہ ان اختلافات سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے کا ہاتھ گرمجوشی سے تھامیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں۔
نسلی تعصب
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مسلمان قوموں کے درمیان قومیتی، قومی، لسانی اور اسی جیسے دوسرے پہلوؤں پر زور دیا جاتا ہے۔ بالکل واضح ہے کہ یہ حالت امت اسلامیہ کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کے عمل کی شروعات کی علامت ہے۔ ہم نے دیکھا کہ اسی ملک میں گزشتہ (شاہی) حکومت کے دور میں کس طرح نسل، حسب و نسب اور خون سے متعلق غلط افسانوں اور خیالات کی جانب بازگشت اور فارسیت اور ایرانیت کا مسئلہ کس زور و شور سے اٹھایا گيا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ ملت ایران کو اس سے کیا فائدہ پہنچ سکتا تھا؟ ضرر و زیاں کے علاوہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں ہو سکتا تھا۔ سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ اس سے دیگر اسلامی قوموں کے مقابلے میں ملت ایران کے اندر علاحدگی پسندی کا جذبہ پیدا ہوا اور دوسری قوموں کے ساتھ اس قوم کی کشیدگی شروع ہوئی۔ یہی کام عرب قوموں کے ساتھ کیا گيا اور یہی چال علاقے کی دیگر قومیتوں کے ساتھ بھی چلی گئی اور آج بھی چلی جا رہی ہے۔
صاحبان اقتدار
مسلمان فرقوں اور مسلکوں کے درمیان صدیوں قبل سے آج تک اختلافات، ٹکراؤ، تنازعہ اور تضاد جاری رہا ہے اور ان اختلافات کا نقصان ہمیشہ مسلمانوں کو پہنچا ہے۔ تاریخ اسلام میں ان اختلافات اور تنازعات کے بہت بڑے حصے کی ساری ذمہ داری مادی طاقتوں کی ہے۔ ابتدائی اختلافات یعنی قرآن کے مخلوق ہونے یا نہ ہونے اور اسی جیسے دوسرے مسائل سے لیکر ديگر اختلافی موضوعات تک جو طول تاریخ میں اسلامی فرقوں کے ما بین خاص طور پر شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان نظر آتے ہیں تقریبا تمام اسلامی خطوں میں ان اختلافات کے تار سیاسی طاقتوں سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ البتہ عمومی جہالت، عقل و منطق سے خالی تعصب اور ایک دوسرے کے اختلافات کو برانگيختہ کرنے کا بھی بہت اثر پڑتا ہے لیکن یہ سب کچھ مقدمہ ہے اور صرف انہی عوامل کی بنیاد پر تاریخ کے وہ اندوہناک واقعات رونما نہیں ہو سکتے تھے۔ ان بڑے سانحوں کی ذمہ داری زمانے کی طاقتوں پر ہے جنہوں نے ان اختلافات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ جب استعمار اسلامی ممالک میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر گھس آیا تو واضح ہو گیا کہ اس کی نظریں بھی اسی ہدف پر ٹکی ہوئی ہیں۔
عالم اسلام میں اختلافات اور تفرقہ پیدا کرنے والے حلقے
آج دنیا میں "مسجد ضرار" (وہ مسجد جہاں بیٹھ کر منافقین مسلمانوں کے خلاف سازشیں تیار کرتے تھے وحی الہی سے پیغمبر اسلام کو منافین کی سازش کا علم ہوا اور آپ کو پتہ چلا کہ "مسجد ضرار" کی تعمیر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے لئے کی گئی ہے چنانچہ آپ نے اس مسجد کو مسمار کر دینے کا حکم دیا) کی تعمیر کے لئے پیسے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ آج مسلمانوں کے اتحاد پر ضرب لگانے اور اسلامی فرقوں کے درمیان اختلاف اور تنازعے کو ہوا دینے کے مقصد سے مراکز اور ادارے قائم کرنے کے لئے پیسے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ کچھ شیطان صفت افراد ہیں جو بالکل اسی طرح جیسے اس نے اللہ سے کہا تھا کہ " ولاغونھم اجمعین" ( اور یقینا میں ان سب کو گمراہ کروں گا حجر39) اور اس نے اپنے وجود کو بندگان خدا کو بہکانے اور گمراہ کرنے کے لئے وقف کر دیا، ان افراد نے بھی خود کو اختلافات پیدا کرنے کے لئے وقف کر رکھا ہے۔
اسلامی بیداری کا مظہر وہ افراد نہیں جو آج عالم اسلام میں دہشت گردی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ جو لوگ عراق میں مجرمانہ کارروائیاں کر رہے ہیں، جو لوگ عالم اسلام میں اسلام کے نام پر مسلمانوں کے خلاف سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں، جو لوگ شیعہ سنی کے نام پر یا نسل پرستی کے نام پر مسلمانوں کے بیچ فتنہ و فساد پھیلانے کو اپنا فرض اولیں سمجھتے ہیں وہ ہرگز اسلامی بیداری کا نمونہ اور آئینہ نہیں قرار پا سکتے، یہ بات تو خود سامراجی طاقتیں بھی جانتی ہیں۔ جو لوگ رجعت پسند اور دہشت گرد گروہوں کے ذریعے مغربی دنیا میں اسلام کو متعارف کرانے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں بھی معلوم ہے کہ حقیقت اس سے الگ ہے۔
آج عالم اسلام کے اندر بعض تفرقہ انگیز عناصر اہل بیت علیہم السلام کے مکتب فکر اور تعلیمات کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کی ایسی تصویر کشی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو حقیقت سے بالکل پرے ہے۔ آج مختلف ممالک میں بڑی طاقتوں کے ہاتھوں بکے ہوئے درباری علماء شیعوں کے خلاف کفر کے فتوے دے رہے ہیں۔ شیعہ سنی اختلاف آج امریکا کا سب سےمرغوب ہدف ہے، عالمی تسلط پسندانہ نظام کا اہم ہدف ہے اور ان کی آلہ کار حکومتوں کا بنیادی مقصد ہے۔
بعض اسلامی حکومتیں
یہ بے پناہ زمین دوز ذخائر، یہ قدرتی دولت اور یہ بے شمار ہتھیار اسلامی ممالک اور مسلمان معاشروں کے پاس ہیں۔ ہم اپنا دفاع کرنے پر قادر کیوں نہیں ہیں؟ اس لئے کہ ہم متحد نہیں ہیں۔ ہم متحد کیوں نہیں ہیں؟ اس لئے کہ جن حکومتوں کو اتحاد کی ضمانت فراہم کرنا چاہئے ان کے اہداف کچھ اور ہی ہیں، قوم پرستانہ اہداف، کفر آلود اہداف اور غیر اسلامی اہداف۔ البتہ قوموں کے دل ایک ساتھ ہیں۔ کون سی دو قومیں ہیں جن میں ایک دوسرے کے لئے کینہ و نفرت ہو؟ آٹھ سالہ جنگ کے بعد ملت ایران اور ملت عراق کی آغوش ایک دوسرے کے لئے کھلی ہوئی ہے۔ جنگ کا تعلق قوموں سے نہیں ہے، اختلافات سے قوموں کا کچھ لینا دینا نہیں ہے، یہ سارا کیا دھرا حکومتوں کا ہوتا ہے جن کے پیش نظر غیر اسلامی اہداف ہوتے ہیں۔ اس کا علاج کیا جانا چاہئے۔
مسلمانوں کے مفادات سے علمائے اسلام کی لا تعلقی!
حقیقت یہ ہے کہ ایک ہزار سال تک شیعہ اور سنی فرقوں کو لڑوایا گيا، انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف کتابیں لکھیں، ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین کی۔ مسلمانوں بشمول شیعہ سنی کے درمیان اختلافات کی ذہنیت موجود ہے۔ دشمن مسلمانوں کے ان دونوں بڑے فرقوں کے ما بین اختلافات کی آگ بھڑکانے کے لئے اسی ذہنیت کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ چنانچہ بعض اسلامی ممالک میں کبھی شیعہ اہل علم کو سنی حضرات کے جذبات کو برانگیختہ کرنے والا بیان دینے کے لئے تیار کیا جاتا ہے اور کبھی سنی عالم دین کو ایسا بیان دینے کے لئے اکسایا جاتا ہے جس سے شیعہ فرقے کے جذبات مجروح ہوتے ہوں۔ بعض اسلامی ممالک میں بد قسمتی سے یہ سلسلہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اگر اس سلسلے میں علماء اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں اور اپنے فریضے کو پہچانیں اور اس بات پر اکتفا نہ کریں کہ حقیقت خود ان کی نظر میں واضح ہے، وہ اس بات پر اکتفا نہ کریں کہ شخصی طور پر شیعہ فرقے سے ان کے اپنے برادرانہ تعلقات ہیں بلکہ تمام لوگوں کو اس اسلامی اخوت و برادری کا درس دیں، اس کی تلقین کریں اور دشمنوں کی سازشوں سے انہیں آگاہ کریں، اگر یہ کام انجام دیا جائے تو عوامی سطح پر بروئے کار لائے جانے والے دشمن کے حربوں کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہے گی۔
اغیار سے وابستہ عناصر
بد قسمتی سے عالم اسلام میں ایسے عناصر پائے جاتے ہیں جو امریکا اور سامراجی طاقتوں کی قربت حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کر گزرنے اور شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے کے لئے تیار ہیں۔ میں اس وقت ایران کے بعض ہمسایہ ممالک میں کچھ ایسے ہاتھوں کا مشاہدہ کر رہا ہوں جو بڑے منظم طریقے سے اور عمدی طور پر شیعہ سنی فساد برپا کرنے کے در پے ہیں، مسلکوں، قومیتوں کو ایک دوسرے سے دور کر رہے ہیں اور سیاسی حلقوں کو آپس میں دست بگریباں کر رہے ہیں تاکہ گدلے پانی سے اپنے مفادات کی مچھلیوں کا شکار کر سکیں اور اسلامی ممالک میں اپنے ناجائز اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے۔ قومیں، حکومتیں، تمام مسلمان، سیاسی حلقے، روشن خیال افراد اور سرکردہ شخصیات کو چاہئے کہ دشمن کی اس سازش کی جانب سے ہوشیار رہیں اور مختلف بہانوں سے اختلاف بھڑکانے کی دشمن کی کوششوں کو کامیاب نہ ہونے دیں۔
جعلی مسلک
علمائے اسلام بہت ہوشیار رہیں، آپ اتحاد کو پارہ پارہ کر دینے والے ان جعلی مسلکوں کی جانب سے بہت ہوشیار رہئے۔ تیل سے ملنے والے ان ڈالروں سے جو تفرقہ کے لئے استعمال ہو رہے ہیں بہت زیادہ محتاط رہئے۔ ان بکے ہوئے پلید ہاتھوں کی جانب سے جو مسلمانوں کے اتحاد کے "عروۃ الوثقی" کو پارہ پارہ کر دینے کے در پے ہیں محتاط رہئے۔ ان کا مقابلہ کیجئے۔ یہی اتحاد سے لگاؤ اور اسلامی اتحاد کی راہ پر چلنے کا تقاضہ ہے۔ اس کے بغیر ( اتحاد) ممکن ہی نہیں ہے۔
اختلاف و شگاف کی ان دراز مدت سازشوں نے جو سو، دو سو یا پانچ سو سال سے جاری ہیں سامراجی مسلک پیدا کر دئے ہیں جو عالم اسلام کے پیکر عظیم میں ایسے زخم لگائیں جن کا آسانی سے مداوا نہ ہو سکے۔ مثال کے طور پر وہابیت اور بعض دیگر جعلی مسلک اور مکاتب جو عالم اسلام میں شگاف اور انتشار پید کرنے کے لئے وجود میں لائے گئے ہیں۔
شروع سے ہی وہابیت کو اسلامی اتحاد پر ضرب لگانے اور مسلم برادری کے درمیان اسرائیل جیسا اڈہ قائم کرنے کے لئے تیار کیا گیا۔ جس طرح اسلام پر ضرب لگانے کے لئے ایک ٹھکانے کے طور پر اسرائیل کی تشکیل عمل میں لائی گئی اسی طرح وہابیوں اور ان نجد کے حکمرانوں کی حکومت تیار کی گئی تاکہ اسلامی برادری کے اندر ان کا ایک محفوظ مرکز ہو جو ان سے وابستہ ہو اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہی ہو رہا ہے۔
مقدسات کی توہین
اسلامی نظام کے نقطہ نگاہ سے ایک دوسرے کے مقدسات کی بے حرمتی ریڈ لائن کا درجہ رکھتی ہے۔ جو افراد نادانستہ طور پر، غفلت میں پڑ کر یا بعض اوقات اندھے اور نا معقول تعصب کی بنا پر، خواہ وہ شیعہ ہوں یا سنی، ایک دوسرے کے مقدسات کی بے حرمتی کرتے ہیں انہیں اس کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کر کیا رہے ہیں؟! دشمن کے بہترین حربے یہی افراد ہیں۔
شیعہ اور سنی دونوں ہی اپنے اپنے مذہبی پروگرام، اپنے اپنے طور طریقے اور اپنے اپنے دینی امور انجام دیتے ہیں اور انہیں دینا بھی چاہئے۔ ریڈ لائن یہ ہے کہ ان کے درمیان مقدسات کی بے حرمتی کی بنا پر خواہ بعض شیعہ افراد غفلت میں پڑ کر اس کے مرتکب ہوں یا سنی حضرات جیسے سلفی اور دیگر مسلکوں کی جانب سے دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک دوسرے کی نفی کرنے پر تلے رہتے ہیں، اس طرح کا کوئی کام انجام دیں تو یہ در حقیقت وہی چیز ہوگی جو دشمن کی مرضی کے مطابق ہے۔ ایسے مواقع پر آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے۔
قومی اختلافات کی آگ
انتہا پسندانہ قوم پرستی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قومی اختلافات زیادہ تر اغیار سے وابستہ روشن خیال افراد کی جانب سے بھڑکائے جاتے ہیں۔
اتحاد مخالف بعض عوامل جیسے قومی اختلافات، مذہبی اختلافات، مسلکی اختلافات، فرقہ وارانہ اختلافات اور سیاسی اختلافات کا موجود ہونا تقریبا ایک فطری امر ہے، اس کا مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ انہی قومی، مسلکی، مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات کی آڑ لیکر اسلام دشمن طاقتیں اپنی دائمی سازش کے تحت مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دیتی ہیں۔ ان اختلافات کے پیچھے دشمن کا ہاتھ، دشمن کی سازشیں اور دشمن کی چالیں صاف دکھائی دیتی ہیں۔ اس کا علاج ضروری ہے۔ تمام فرقوں کے اہل نظر حضرات کو چاہئے کہ مسلمانوں کے درمیان فتنہ کی آگ پھیلنے اور باہمی بھائي چارے اور محبت و الفت کو مٹنے نہ دیں جو دشمنان اسلام کی کوشش ہے۔
امت اسلامیہ میں تفرقے کے اندیشے
دشمنان اسلام کا طمع و لالچ
اس وقت عالم اسلام میں ہمیں در پیش سب سے بڑا خطرہ تفرقہ کا ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے سے الگ الگ ہوں گے تو ہمیں دیکھ کر دشمن کے حوصلے بلند ہوں گے۔ عالم اسلام کی تمام حکومتوں اور مسلمان قوموں کو ہم اتحاد، وحدت اور قربت کی دعوت دیتے ہیں۔ اختلافات کو پس پشت ڈال دینا اور نظر انداز کرنا چاہئے۔ بعض اختلافات قابل حل ہیں، ہمیں چاہئے کہ مل بیٹھ کر انہیں حل کر لیں۔ بعض اختلافات ممکن ہے کہ کوتاہ مدت میں حل ہونے والے نہ ہوں، ان سے ہمیں چشم پوشی کرکے آگے بڑھ جانا چاہئے۔ یہ ٹھیک وہ چیز ہوگی جو امریکیوں اور صیہونیوں کو نقصان پہنچائے گی۔ اسی لئے ان سب نے اس کے لئے جان لگا دی ہے۔
امت اسلامیہ پر مظالم
اگر آج ملت فلسطین اس تلخ سرنوشت سے دوچار ہے، اگر آج ملت فلسطین کا پیکر خون میں غلطاں ہے اور اس قوم کا درد و غم تمام دردمند انسانوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اتر گیا ہے تو یہ مسلمانوں کے اختلافات کا نتیجہ ہے۔ اگر اتحاد ہوتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔ اگر اسلامی مملکت عراق قابضوں کے بوٹوں تلے روندی جا رہی ہے تو یہ مسلمانوں کے اختلافات کا نتیجہ ہے، اگر آج مشرق وسطی کے ممالک امریکا کی مغرورانہ اور بدمستانہ دہاڑ کی زد پر ہیں تو یہ مسلمانوں کے اختلاف کی ہی وجہ سے ہے۔
تزلزل اور اسلام و مسلمین سے خیانت
جو بھی عالمی تسلط پسند طاقتوں سے مرعوب ہے وہ اس لئے ہے کہ اسے تنہائی اور پشتپناہی کے فقدان کا احساس ستا رہا ہے۔ اگر کوئی حکومت اور قوم مرعوب ہے تو اس کی بھی وجہ یہی ہے۔ اگر اسلامی حکومتوں اور قوموں میں ایک دوسرے کے لئے اپنائیت کے جذبات پیدا ہو جائیں تو حکومتیں پائیں گی کہ قومیں ان کی پشتپناہی کے لئے کھڑی ہوئی ہیں۔ قومیں یہ دیکھیں کہ حکومتیں حقوق کی بحالی کے لئے کوشاں ہیں، قومیں دیکھیں کہ وہ آپس میں بھائی بھائي ہیں۔ ان میں ہمدلی اور ہمفکری ہے تو اس کے نتیجے میں رعب و دہشت کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی جو سامراج نے بعض قوموں اور سربراہان مملکت کے دلوں میں پیدا کر رکھی ہے۔ اتحاد کا سب سے پہلا ثمرہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے اندر طاقت و توانائی کا احساس ابھرتا ہے جبکہ انتشار کا سب سے پہلا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان اندر سے کھوکھلا ہوکر رہ جاتا ہے۔ " و تذھب ریحکم" انسان بلکہ پوری ایک قوم اپنی شادابی اور تازگی سے محروم ہو جاتی ہے۔
اصلی دشمن سے غفلت
موجودہ دور عالم اسلام کے اتحاد کا دور ہے۔ اسی موجودہ کمزور اتحاد کو درہم برہم کر دینے کے لئے دشمن کتنی بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ عراق اور دیگر اسلامی خطوں میں حالات انہی سازشوں کی زد پر ہیں۔ اسلامی جماعتوں، اسلامی فرقوں، اسلامی قومیتوں اور اسلامی قوموں کے درمیان مختلف بہانوں سے اختلافات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ ایک ہے جو دوسرے کی جان کو آ گیا ہے اور دوسرا پہلے کو تہہ تیغ کئے در رہا ہے۔ ایک کے دل میں دوسرے کا بغض بھرا ہوا ہے اور دوسرے کے دل میں پہلے کا کینہ ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ مسلمان عالم اسلام کے اصلی دشمنوں، دنیا کے اس خطے پر تسلط اور غلبہ کے منصوبہ سازوں کی جانب سے غافل ہیں۔
ہر فرقے اور مسلک کے محبان قرآن و اسلام اگر اپنی بات میں سچے ہیں اور واقعی انہیں ہمدردی ہے اور چاہتے ہیں کہ قرآن کی عظمت اور اس کا وقار برقرار رہے تو انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ بعض ممالک میں اختلافات پھیلانے کے لئے لٹائي جا رہی یہ رقم یہ بکے ہوئے قلم اور زبانیں، اسلام کی سربلندی کی رکاوٹیں ہیں اور یہ دشمن کی کارستانیاں ہیں۔
اتحاد کے قیام اور تقویت کے طریقے
اتحاد کے دو مراحل ہیں۔ ایک مرحلہ الفاظ اور بیان کا ہے جو آسان ہے، ایسا کوئی خاص مشکل نہیں۔ البتہ بعض لوگ ایسے ہیں جو یہ آسان کام کرنے کے لئے بھی آمادہ نہیں ہیں اور بعض افراد مسلمان فرقوں کے خلاف اعلانیہ کفر کے فتوے صادر کر رہے ہیں۔ موجود ہیں ایسے افراد جو اتحاد مسلمین اور اسلامی فرقوں کی یکجہتی کے باب میں ایک لفظ منہ سے نکالنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بہرحال لفظی کوششوں کا مرحلہ بہت عام تو نہیں ہو سکا ہے لیکن بہرحال یہ کوئی مشکل اور دشوار مرحلہ نہیں ہے۔ دوسرا مرحلہ ہے عملی اقدام کا۔ اس کے لئے واقعی مجاہدت اور تندہی کی ضرورت ہے۔ بڑا سخت اور دشوار کام ہے لیکن یہ امر واجب ہے۔ بہت سے عناصر ہیں جو عمدا اتحاد کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس راہ میں لٹائے جانے والے پیسے سے ان کی تقویت بھی ہو رہی ہے اور تیل کی قیمت کے طور پر ملنے والے ڈالر کی بہت بڑی مقدار اسی راہ میں خرچ ہو رہی ہے۔ بہرحال چونکہ موجودہ دور میں یہ ( اتحاد کی عملی کوشش) واجب و لازم و ضروری ہے اس لئے اس کی سختیوں اور دشواریوں کو برداشت کرنا ہے۔
ثقافتی طریقے
نبی اعظمۖ کی شخصیت کے پہلوؤں کی ترسیم
دنیا کے مسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اسم مبارک کے سائے میں زیادہ آسانی کے ساتھ متحد اور مجتمع ہو سکتے ہیں۔ یہ اس عظیم ذات کا کرشمہ ہے۔ میں نے بارہا عرض کیا ہے کہ " یہ عظیم ہستی مسلمانوں کے جذبات کا محور اور نقطہ اجتماع ہے، مسلمان کو اپنے پیغمبر سے الفت ہے" پالنے والے! تو خود گواہ ہے کہ ہمارے قلوب محبت رسول سے سرشار ہیں۔ اس محبت کے ثمرات سے ہمیں مستفیض ہونا چاہئے۔ یہ محبت بڑی کارساز اور مشکل کشا ہے۔
علمائے اسلام، مسلم دانشور، مصنفین، شعراء اور عالم اسلام کے اہل فن حضرات کا عصری فریضہ ہے کہ جہاں تک ان سے ہو سکے نبی اکرم کی شخصیت اور اس مقدس وجود کی عظمت کے پہلوؤں کی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لئے تصویر کشی کریں۔ یہ امر امت اسلامیہ کے اتحاد اور امت کے نوجوانوں میں اس وقت اسلام کی جانب شدید رغبت کی لہر جو نظر آ رہی ہے اس کے سلسلے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔
اگر علمائے اسلام یہ قبول کرتے ہیں کہ قرآن کے مطابق " و ما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ" (ہم نے کسی بھی رسول کو مبعوث نہیں کیا، سوائے اس کے کہ اس کی اطاعت کی جائے، نساء 64) پیغمبر اس لئے نہیں آئے کہ وعظ و نصیحت کریں، کچھ بیان کریں اور امت اپنا کام کرتی رہے اور آپ کا احترام بھی کر لیا کرے۔ آپ اس لئے مبعوث کئے گئے کہ آپ کی اطاعت کی جائے، آپ معاشرے اور زندگی کی سمت و جہت کا تعین فرمائیں، نظام حکومت تشکیل دیں اور صحیح طرز زندگی کے اہداف کی جانب انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کریں۔
دشمن کے سلسلے میں ہوشیاری
قرآن کہتا ہے کہ " اے بیدار ذہن مسلمانو! دشمن کو کبھی بھی فراموش نہ کرو، تمہارے ذہن سے نکل نہ جائے کہ تمہارا دشمن موجود ہے، یہ نہ بھولو کے دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے، یہ نہ بھولو کہ اگر تم نے پسپائی اختیار کی، اگر کمزوری کا مظاہرہ کیا تو دشمن وار کر بیٹھے گا" دشمن ضرب لگانے کے لئے ہر راستہ آزماتا ہے، اقتصادی راستہ، ثقافتی راستہ، سیاسی راستہ اور سلامتی کا راستہ۔ مسلم امہ کو بیدار رہنا چاہئے۔ " الم اعھد الیکم یا بنی آدم ان لا تعبدوا الشیطان انھ لکم عدو مبین" ( اے بنی آدم کیا ہم نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا کہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے، یس 60) دشمن کے آگے ہتھیار نہ ڈال دیجئے، دشمن کو فراموش نہ کیجئے، یاد رکھئے کہ دشمن موجود ہے۔ اسی شیطان کے سلسلے میں اللہ تعالی اتنی زیادہ تاکید کے ساتھ فرماتا ہے کہ " انّ کید الشیطان کان ضعیفا" ( شیطان کے مکر و حیلے کمزور ہیں، 76) یہی شیطان جس کی جانب سے بہت محتاط رہنا پڑتا ہے اور اگر احتیاط کا دامن چھوٹ جائے تو آپ پر اس کا وار چل جائے گا۔ ہاں اگر آپ بیدار ہیں، چوکنے ہیں، متحد ہیں، متوجہ ہیں اور اپنے فرائض پر عمل کر رہے ہیں تو پھر اس کا مکر و فریب بے حد کمزور ہوگا اور وہ کچھ بھی نہیں بگاڑ پائے گا۔
" انما سلطانہ علی اللذین یتولونہ" ( اس کا غلبہ صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جنہوں نے اسے اپنا سرپرست بنا لیا ہے، نحل100) شیطان کا زور ان پر چلتا ہے جو اس سے ڈرتے ہیں، اس سے خوف کھاتے ہیں، اس کو بہت بڑا سمجھتے ہیں۔ جو شخص اللہ تعالی کی ذات پر تکیہ کئے ہوئے ہے اور جو بندہ خدا ہے اس سے تو خود شیطان کو ڈرنا پڑتا ہے۔
علمائے کرام کی ہمفکری و ہم خیالی
مختلف مسلکوں کے درمیان فقہی میدان میں نظریات کے تبادلے سے بہت سے فقہی مسائل میں ایک دوسرے کے قریب بلکہ مشترکہ فتوؤں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ بعض اسلامی فرقوں کے ہاں فقہی میدان میں قابل قدر پیشرفت اور تحقیقات نظر آتی ہیں۔ ان سے دوسرے فرقے استفادہ کر سکتے ہیں۔ کبھی یہ بھی ممکن ہے کہ قرآن و سنت سے بعض احکام اور اسلامی امور کے استنباط میں بعض فرقوں کے پاس جدت عمل ہو جس سے دوسرے فرقے بھی مستفیض ہو سکتے ہیں اور اس راستے سے مشترکہ فتوے تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کسی فرقے کے حوالے سے کوئی فتوا نقل کیا جاتا ہے جبکہ وہ فتوا اس فرقے کا بہت ہی غیر معروف فتوا ہے جسے اس فرقے کے بہت کم افراد ہی مانتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس فرقے کے افراد اس فتوے کو زیادہ قابل اعتنا نہ سمجھیں اور ان کا اس پر کوئي اصرار نہ ہو۔ ہم مشترک فتوؤں کی نشاندہی کی کوشش کیوں نہ کریں؟
علماء کا فریضہ، حقائق پر روشنی ڈالنا
علمائے اسلام آگے بڑھیں اور اسلامی اتحاد کو عملی جامہ پہنائیں اور ایک ایسا منشور تیار کریں جس کی تائید اور جسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش عالم اسلام کے تمام روشن خیال حضرات، تمام سرکردہ اور مخلص سیاسی شخصیات کریں تاکہ کسی مسلمان کی یہ جرئت نہ ہو کہ کسی اور مسلک سے تعلق رکھنے والے کلمہ گو کو کافر قرار دے۔
مسلمان بھائی خواہ وہ ایران میں، یا عراق میں ہوں، یا پاکستان میں ہوں، یا لبنان میں ہوں یا پھر دنیا کے دیگر علاقوں میں آباد ہوں، ان کا تعلق کسی بھی مسلک و فرقے سے ہو، سب یہ بات جانتے ہیں کہ حقیقی علمائے اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ " اپنے مسلمان بھائی کے خون سے اپنا ہاتھ رنگین کرنا نا قابل بخشش گناہوں میں ہے" کچھ لوگ اسلام کی پیروی کے نام پر اور اسلام کی پابندی کے نام پر اپنے ہاتھ اپنے مسلمان بھائی کے خون سے آلودہ کر لیتے ہیں، یہ تو دائرہ اسلام سے نکل جانے والا اقدام ہے۔ سب کے سب یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ دیگر مسلم اقوام کے ساتھ ملت ایران کا برادری و اخوت کا رشتہ حقیقی رشتہ ہے۔ مسلکی اختلاف اپنی جگہ۔ شیعہ، شیعہ ہے اور سنی، سنی ہے۔ اہل تشیع اور اہل تسنن کے ما بین فکری اور عقیدتی اختلافات ہیں لیکن پھر بھی یہ سارے کے سارے لوگ "لا الہ الا اللہ و محمد رسول اللہ" کے پرچم تلے برادرانہ جذبے کے ساتھ جمع ہوں اور دشمنان اسلام اور دشمنان امت اسلامیہ کے مقابلے میں پامردی کا مظاہرہ کریں۔
اختلافی باتوں کو بنیاد نہ بنائیں
حقیقی اسلام اور وہ اسلام جس کی بنیاد پر اسلامی نظام کی تشکیل عمل میں آئی ہے اس کا نعرہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو عقائد اور مذہبی بنیادوں میں اختلافات کے باوجود متحد رہنا چاہئے، مشترکہ نکات کو بنیاد بنانا چاہئے، ایک دوسرے کے جذبات کو مجروح کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اس طرز فکر والی یہ دینی فضا جس میں آزادی، انصاف، جمہوریت اور پورے عالم اسلام پر اور امت اسلامیہ کے درمیان اتحاد کی تقویت کی راہ ہموار ہو، ہماری سعی و کوشش کے شعبوں میں سے ایک ہے، ہمیں اس میدان میں مجاہدت کرنا چاہئے۔
شیعہ اور سنی حضرات اپنے اختلافات کو اپنے تک محدود رکھیں، عالمی برادری کی سطح پر اور منظر عام پر اختلافات کا دکھاوا کرنے سے گریز کریں۔ اتحاد کا مظاہرہ کریں اور امت اسلامیہ کے اتحاد کو سامنے لائیں۔ جو افراد تبلیغ کے فرائض انجام دیتے ہیں وہ تبلیغی عمل خوش اسلوبی کے ساتھ اور مدلل اور علمی بیان کے ذریعے انجام دیں تاکہ دلوں کو حق و حقیقت کی جانب متوجہ کیا جا سکے۔
آپ جہاں کہیں بھی ہوں، اگر آپ کو یہ نظر آئے کہ کوئی مقرر کوئی خطیب، کوئي اخبار اور کوئي مقالہ نگار اپنی باتوں سے، اپنے کنایوں سے، اپنے صریحی بیانوں سے عوام میں تشویش پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لوگوں کے اتحاد کو ختم کر دینے کے در پے ہے تو آپ یقین جانئے کہ وہ بہت بڑی غلطی کر رہا ہے اور غلط راستے پر چل رہا ہے۔ اگر آپ یہی بات ذہن نشین رکھیں تو بھی کافی ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ آپ کوئی اقدام بھی کریں۔ بس آپ اپنے ذہن میں یہ بات رکھئے کہ جو کوئی بھی یہ طرز عمل اختیار کر رہا ہے وہ بہت بڑی غلطی کا شکار ہے اور اس سے بہت بڑی بھول ہوئی ہے۔
سیاسی طریقے
مشترکہ دشمن کے مقابلے میں باہمی اتحاد
امت اسلامیہ کا اتحاد ایک مقدس اور عظیم تمنا ہے جو عالم اسلام کے ہر گوشے میں لوگوں کے دلوں میں موجود ہے۔ اس ہدف کے حصول کے کچھ مقدمات اور کچھ شرائط ہیں کیونکہ یہ بڑا سنگین کام اور بہت اونچی چوٹی ہے اور اس کے علاوہ اس راستے میں دشواریاں اور مشکلات بھی بہت زیادہ ہیں۔ اسی آج کے دور میں دنیا بھر میں ایسے حلقے موجود ہیں جو مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی پیہم کوششوں میں مصروف ہیں۔ اگر ان کے بس میں ہوتا ہے تو وہ دو مسلم ملکوں کے درمیان جنگ کروا دیتے ہیں اور اگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے تو سیاسی جنگ، عقیدتی تنازعہ مذہبی اختلاف اور فرقہ وارانہ عناد پیدا کر دیتے ہیں۔ جو لوگ ان کاموں میں لگے ہوئے ہیں وہ گلی کوچے کے عام افراد نہیں بلکہ وہ طاقتور مراکز ہیں جن کے پاس عالمی سلامتی، سیاست اور دولت ہے۔ بنابریں اتحاد مسلمین کی کوششوں کی راہ میں ان کی جانب سے ان دشواریوں کا کھڑا کیا جانا طے ہے، اس سے بچا نہیں جا سکتا۔
اسلامی ممالک کا سربراہی اجلاس ممالک کے حکام و عوام کے مابین اور اسی طرح حکام کی صفوں کے اندر دوستانہ تعاون، مضبوط انتظامی توانائی اور اتحاد و یکجہتی کی علامت ہے۔ امریکی حکام کو اس میں عظیم، مشترکہ اور پیچیدہ کارناموں کی انجام دہی کی صلاحیت و توانائی صاف نظر آ گئی ہے اور سامراج کے لئے اسلامی بیداری بہت بڑا خطرہ ہے۔ جہاں بھی اسے یہ خطرہ نظر آتا ہے وہ حملہ آور ہو جاتا ہے، اسے اپنے حملوں کی آماجگاہ بنا دیتا ہے۔ (اس خطرے کا عامل) خواہ شیعہ ہوں یا اہل سنت۔ سامراج فلسطین میں حماس کے سلسلے میں وہی نقطہ نگاہ اور وہی سلوک اپنائے ہوئے ہے جو لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ اس نے روا رکھا ہے۔ وہ (حماس) سنی ہے اور یہ ( حزب اللہ) شیعہ تنظیم ہے۔ دنیا کے ہر گوشے میں دیندار اور فرض شناس مسلمانوں کے ساتھ سامراج کا رویہ ایک ہی ہے وہ مسلمان خواہ شیعہ ہوں یا سنی۔
اقتصادی طریقے
ایسا ہر عمل جو اسلامی قوتوں کو یکجا کرنے کے لئے انجام دیا جائے اور جس سے عظیم امت اسلامیہ زندگی کے مختلف امور سے متعلق فیصلوں میں منظم ہو وہ اسلام کی خدمت، اسلامی ممالک کی خدمت اور انسانیت کی خدمت کا درجہ رکھتا ہے۔ اسلامی ممالک کے مرکزی بینکوں کے سربراہوں، اسلامی ترقیاتی بینک کے سربراہ اور مالیاتی خدمات انجام دینے والے اداروں کے سربراہوں کے بنکاری کے کام اسی زمرے میں آتے ہیں اور اسی سمت و جہت میں قرار پاتے ہیں۔
اگر اسلامی ممالک حقیقی معنی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو جائیں، ہم یہ نہیں کہتے کہ ان کے درمیان سیاسی اتحاد تشکیل پا جائے بلکہ ان کے ما بین دوستانہ روابط و تعلقات قائم ہو جائیں، مثلا مشترکہ بازار کے لئے جو زیر بحث بھی ہے سنجیدہ اقدام اور فیصلہ کیا جائے۔ اس راستے کی مشکلات کی نشاندہی کرکے ان کے حل تلاش کئے جائیں تو عالم اسلام کی فکرمندی بڑی حد تک ختم ہو جائے گی۔ بالفاظ دیگر بہت سی مشکلات کی شدت میں کمی واقع ہوگی۔