Super User

Super User

استقلال مسجد انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں واقع ایک مسجد ہے۔

جسے جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

یہ مسجد 1975ء میں حکومت انڈونیشیا نے تعمیر کرائی تھی۔

اس مسجد میں بیک وقت 120،000 نمازی عبادت کر سکتے ہیں۔ مسجد کے مرکزی گنبد کا قطر 45 میٹر قطر ہے۔

نماز و عبادت کے علاوہ مسجد مختلف سماجی و ثقافتی سرگرمیوں کا بھی مرکز ہے جس میں دروس، نمائشیں، مذاکرے، مباحثے اور عورتوں، نوجوانوں اور بچوں کے لیے مختلف نوعیت کے تقریبات شامل ہیں ۔

شوال کا پہلا دن عید سعید فطر ہے اور یہ دن عالم اسلام کی مشترک عید ہے ۔ مؤمنین رمضان مبارک کے گزرجانے اور اس مہینے میں عبادت وتقوی پرہیز گاری و تہذیب نفس کے ساتھ گزارنے پر خوشی اور اللہ سے ان نعمات کا شکریہ کرنے کیلۓ ایک دوسرے کے ساتھ اچھے روابط قائم کرتے ہوۓ عید کی نماز پڑھتے ہیں-

 

حضور پاك حضرت محمد مصطفي صلي الله عليه و آله و سلم نے اس دن کی فضیلت کے بارے میں فرمایا: اذا کان اول یوم من شوال نادی مناد : ایھا المؤمنون اغدو الی جوائزکم، ثم قال : یا جابر ! جوائز اللہ لیست کجوائز ھؤلاء الملوک ، ثم قال ھو یوم الجوائز ۔

یعنی جب شوال کا پہلا دن ہوتا ہے ، آسمانی منادی نداء دیتا ہے : اے مؤمنو! اپنے تحفوں کی طرف دوڑ پڑو ، اس کے بعد فرمایا: اے جابر ! خدا کا تحفہ بادشاھوں اور حاکموں کے تحفہ کے مانند نہیں ہے ۔ اس کے بعد فرمايا" شوال کا پہلا دن الھی تحفوں کا دن ہے ۔

 

اميرالمومنين امام علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے عید فطر کے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا:

اے لوگو ! یہ دن وہ ہے جس میں نیک لوگ اپنا انعام حاصل کرتے ہیں اور برے لوگ ناامید اور مایوس ہوتے ہیں اور اس دن کی قیامت کے دن کے ساتھ کافی شباھت ہے اس لۓ گھر سے نکلتے وقت اس دن کو یاد جس دن قبروں سے نکال کرخدا کی کی بارگاہ میں حاضر کۓ جاؤ، نماز میں کھڑے ہونے کے وقت خدا کے سامنے کھڑے ہونے کو یاد کرو اور اپنے گھروں میں واپس آنے میں اس وقت کو یاد کرو جس وقت بہشت میں اپنی منزلوں کی طرف لوٹو گے۔ اے خدا کے بندو ! سب سے کم چیز جو روزہ دار مردوں اور خواتین کو رمضان المبارک کےآخری دن عطا کی جاتی ہے وہ یہ فرشتے کی بشارت ہے جو صدا دیتا ہے :

اے بندہ خدا مبارک ہو ! جان لے تمہارے پچھلے سارے گناہ معاف ہو گۓ ہیں اب اگلے دن کے بارے میں ہوشیار رہنا کہ کیسے گذارو گے ۔

 

امام انس بن مالک نے مومن کي عيد کو بہت خوبصورت پيرائے ميں بيان فرمايا ہے. فرماتے ہيں کہ “مومن کي پانچ عيديں ہيں”

(1) جس دن گناہ سے محفوظ رہے (2) جس دن دنيا سے اپنا ايمان سلامت لے جائے. (3) پل صراط سے سلامتي کے ساتھ گزر جائے- (4) دوزخ سے بچ کر جنت داخلہ مل جائے- (5) اپنے رب کي رضا کو پالے اور اسکے ديدار سے آنکھيں ٹھنڈي ہو جائيں وہ عيد کا دن ہے-

 

عيد الفطر رب کا شکر ادا کرنے کا دن ہے. اس سے رمضان کي مشقتوں کي قبوليت کي التجا کا دن ہے. کيا شان ہے اسلامي تہواروں کي. حقيقت تو يہ ہے کہ ميں اپنے تہواروں سے ہي پہچاني جاتي ہوں کوئي لہو لعب نہيں، کہيں حيا سوز نظارے نہيں، کہيں مخلوط مجالس اور رقص و سرور نہيں بلکہ خوشي کے اظہار کے لئيے ذکر ہے، تسبيح ہے اور تحليل ہے جو اسکي فکر کي بلند پروازي کا غماز ہے. يہ دنيا اسکا گھر نہيں اسلئے اسکو يہاں کے لہولعب سے بھي کوئي سروکار نہيں اور دنياپرستوں کي مصنوعي لذتوں ميں بندہ مومن کے لئے کوئي حقيقي لذت نہيں.

حقيقت يہي ہے کہ عيد کي خوشيوں ميں اس بد نصيب کا کيا حصہ جس پر رحمتوں کے ڈول کے ڈول انڈيلے جاتے رہے، مغفرت کے لئے پکارا جاتا رہا، ليکن اس نے توجہ ہي نہ کي، دنيا اور اسکي فکروں ميں ہي دل اسکا منہمک رہا- توبہ استغفار اور تراويح کي توفيق ہي نہ مل سکي کہ کاروبار دنيا اتنا پھيل چکا ہے. رمضان جيسا مہمان جو اپنے دامن ميں خزانے بھر کر لايا تھا پکارتا رہا خزانے لٹاتا رہا ليکن کتنے غافل ان خزانوں سے بھي حصہ نہ پا سکے!!! يقيناً عيد انکے لئے و عيد کا دن ہے اور وہ “مبارکباد ”‌ کے نہيں “تعزيت”‌ کے مستحق ہيں کيونکہ اس شخص کي ہلاکت اور محرومي ميں بھلا کسے شک ہو سکتا ہے جسکي ہلاکت کي دعا جبريل امين کريں اور رحمت العالمين اس بد دعا پر آميں کہيں. آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ”‌ جب ميں منبر پر خطبہ دينے چڑھنے لگا اور منبر کے پہلے زينے پر قدم رکھا تو جبريل امين نمودار ہوئے اور انھوں نے کہا “خدا اس شخص کو ہلاک کر ےد ے جس نے رمضان کا مہينہ پايا اور اپني بخشش نہ اور مغفرت کا سامان نہ کيا ”‌ اس پر ميں نے کہا ”‌ آمين.

۔ حوصلہ

سردار سرتيپ عبدالله عراقي :

عراق كي ايران كے ساته جنگ كے دوران حضرت ايۃ اللہ خامنہ اي نے شہيد ڈاكٹر مصطفي چمران كے ساته جنگ ميں بہت قريبي اور فعال كردار ادا كيا ۔ آيۃ اللہ موصوف ہتهيار لے كر رات ميں دشمن كي شناخت كے ليے نكل جاتے تهے، مجاهدان اسلام كي حمايت كرتے تهے اور انهيں حوصلہ ديتےتهے۔ سال 1988 كي جنگ كے آخر ميں جب ميدان جنگ كي صورتحال كچه بدل رہي تهي اور كچه لوگ اپنا حوصلہ كهو بيٹهے تهے اس وقت قائد انقلاب اسلامي كے صدر جمهوريہ ہونے كے باوجود، خود فوجي لباس زيب تن كر كے ، اور ايك جديد ٹكنك كے ساته ميدان جنگ ميں آ پہونچے ۔ موصوف كا جنگ ميں آنا فوجيوں كي حوصلہ افزايي كا بہت زيادہ باعث بنا ، يہاں تك كے انقلاب اسلامي كے فوجيوں نے جنگ كو منظم طريقےسے جاري ركهتے ہوے دشمنوں كا حملات كو ناكام بناكر جمهوري اسلامي ايران كو كامياب بنايا۔

 

۔خرّمشهر كي جنگ

حجت الاسلام والمسلمين ذوالنور :

ہم نے تقريباً چاليس دن خرمشهر ميں مضبوطي كے ساته مقابلہ كيا اور عراقيوں كو شهر ميں داخل نہ ہو نے ديا ، اس دوران قائد انقلاب اسلامي نے دشمنوں پر حملہ كرنے ميں ايك بے نظير بهادري اور دليري كا مظاهرہ كيا، عراقيوں كے ٹينكوں كو تباہ و برباد كر كے ان كي پيش قدمي كو ناكام بنايا۔ مقام معظم رهبري كبهي كبهي ۳يا ۵ نفرہ ٹكڑي كے ساته دشمن كي فوج كے بيچ تك چلے جاتے تهے اور دقيق اور ناب طريقہ سے انكي اطلاعات كو فراہم كر كے امام خميني ۔رہ۔ كے ليے لاتے تهے۔

 

۔ پہچان

سرداربرگيڈئر پاسدار علي فدوي :

جنگ كے ابتداي دنوں ميں جب ہم ملك كي خفيہ ايجنسي ميں كام كر رہے تهےاور ہمارا كام دشمن كي پہچان كرنا تها اور ان كے منصّبوں كا پتہ لگانا تها۔ ہم ايك دن ايك علاقہ ميں دشمن كي شناسايي كے ليے گيے ہوے تهے جہاں كچه عرصہ پہلے دشمن كا پڑاو تها ، اس جگہ ايك كنواں تها ، كنويں كو دونوں طرف گهنا جنگل تها ، جس طرف بهي ہم كهڑے ہوتے تهے دوسري طرف سے، گهنے درختوں كي بنا پر كويي بهي ہميں ديكه نہيں سكتا تها۔ ہم يہ سوچ رہے تهے كہ عراقي كنويں كے اس پار ہيں اور يہي سوچتے ہوے ہم پوري نگراني كے ساته آگے بڑه رہے تهے اچانك ہميں كچه لوگوں كے چلنے كي آواز سنايي دي ، ہم نے سوچا دشمن عراقي ہماري طرف آگے بڑه رہے ہيں۔ وہ بهي ہماري طرح يہي سوچ رہے تهے ، ہم پوري تياري اور حفاظت كے ساته كنويں كے اس پار دوڑ كر گيے ، اچانك ہمار نظر رهبر معظم انقلاب كے چہرے پر پڑي كہ وہ بهي حضرت امام خميني كي طرف سے نمايندگي كر رہے ہيں اور چند لوگوں كے ساته ہم سے پہلے ہي اس منطقہ كا جايزہ لے كر واپس لوٹ رہے ہيں

مقام معظم رهبري كا يہ كام ہمارے ليے بڑا حيران كن تها ہم نے اس ديدار سے ہميں بہت بڑا ہوصلہ ملا ہم نے اپنے ہتهياروں كونيچے اتارہ اور قائد انقلاب اسلامي آيۃ اللہ خامنہ اي سے ملاقات كي آقا نے ہم سب سے مصافحہ كيا اور ہم سب كےبوسے ليے۔

 

۔ قائد انقلاب اسلامي فوجيوں كے ساته

اميربرگيڈئر احمد دادبي :

حضرت آيۃ اللہ خامنہ اي جنگ كے دوران صدر جمهوريہ تهے، مريوان گيے اور وہاں لوگوں سے ملاقات كي، ملاقات كے بعد ہم سولہ گيے ،فوجي ، رضا كار اور فوجيوں كے بچے ، سب لوگ وہاں جمع تهے سولہ كي گيلري ميں دسترخوان بچهايا ۔ ہم نے حضرت سے كہا سولہ ميں بهيڑ ہے ہم ايك دوسري جگہ چلتے ہيں اور كهانا تناول فرماتے ہيں ،حضرت نے فرمايا: نہيں انہيں بچوں كے ساته كهانا كهاوں گا بہت زيادہ لوگ تهے رهبر معظم انہيں فوجيوں كے درميان بيٹهے ، بچوں نے رهبر معظم كے ساته بيٹه كر كهانا كهايا ، اس دن كا يہ منظر ميرے ليے ايك بہترين ياد گار تها كہ جو كبهي بهِ ميرے ذهن سے نكلنے والا نہيں تها۔

 

۔ مضبوط ستون

كمانڈر درپايان علي شمخاني

جنگ كے ابتدايي دنوں ميں ہم محاظ جنوب ميں كچه مشكلات كے شكار تهے جب بهي ہم اپني سختيوں اور مشكلوں كو بيان كرنا چاہتے تهے ، تو ہم رهبر معظم كي خدمت ميں چلے جاتے تهے جنوب كے محاظ پر انكا حاضر ہونا ہمارے ليے ايك مضبوط ستون كي طرح تها ، ہم اكثر اوقات رهبر معظم كے ساته ميٹنگ ركهتے تهے اور اپني مشكلات ان سے بيان كرتے تهَ اور ان سے مدد مانگتے تهے رهبر معظم آيۃ اللہ خامنہ اي بهي ہماري مشكلات كو امام زمانہ كے سامنے پيش كرتے تهے اور جہاں تك ہو سكتا تها حضور خود بهي ہماري مدد كرتے اور ہماري رهنمايي كرتے تهے۔

 

۔فوجي لباس

حجت الاسلام والمسلمين ذوالنور :

قائد انقلاب اسلامي آيۃ اللہ خامنہ اي نے مجه سے فرمايا : كہ ميں جنگ كے زمانے ميں ہميشہ فوجي لباس ميں ہوتا تها، ليكن ہميشہ مجهے يہ تشويش رہتي تهي كہ ميں كيا كروں فوجي لباس پہن كر ميدان ميں آوں يا روحاني پيغمبرانہ لباس پہن كر آوں ۔ ليكن جب بهي واپس تہران جايا كرتے تهے ، روحاني لباس اسي فوجي لباس كے اوپر پہن ليا كرتے تهے ، اور ساري رپوٹ امام خميني كي خدمت ميں پيش كر كے نماز جمعہ پڑحنے كے ليے جاتے تهے ۔ اپنے بات كو آگے بڑہاتے ہوے يہ بهي فرمايا: كہ ايك روز ميں ميدان جهاد سے جماران رپوٹ دينے كے ليے گيا امام خميني اپنے حجرے كي كهڑكي كے سامنے كهڑے تهے ۔ ميں اپني قميض كے بٹن كهول رہا تها كہ تهوڑي دير ہو گيي امام كهڑے مسكرا رہے تهے اور ميري طرف ديكه رہے تهے جب ميں كمرے ميں داخل ہوا ميں نے سلام كيا اور امام كے ہا تهوں كو چوما ، امام نے بهي ميري پشت پر ہاته مارا اور ارشاد فرمايا: كہ ايك زمانہ تها كہ يہ فوجي لباس ہمارے ليے شايان شان نہيں تها اور عرف عام ميں ہمارے ليے زيب نہيں ديتا تها ليكن آج يہ لباس آپ كے تن پر كتنا سج رہا ہے اور كتنا اچها لگ رہا ہے ،آيۃ اللہ خامنہ اي نے فرمايا : امام كے اس كلام نے ميرے دل سے اس تشويش كو ختم كر ديا كہ جوميں فوجي لباس كے بارے ميں ركهتا تها اور اس كے بعد ميں فوجي لباس پہننے ميں فخر محسوس كرتا تها۔

 

۔اصرار

سردار برگيڈئر پاسدار محمّد كوثري :

قائد انقلاب اسلامي آيۃ اللہ العظميٰ سيد علي خامنہ اي كے صدر جمہوريہ منتخب ہونے كے بعد امام خميني نے ان كو جنگ ميں جانے سے منع كر ديا تها ۔ آيۃ اللہ خامنہ اي نے بہت زيادہ اصرار كے بعد آيۃ اللہ خميني سے جنگ ميں جانے كي اجازت لي اور دوبارہ جنگ ميں قدم ركها ، رهبر معظم نے جنگ ميں جانے سے پہلے امام جمعہ تہران ہو نے كے ناطے تمام آيمہ جمعہ كوپيغام ديا اور انہيں جنگ ميں آنے كي دعوت دي ۔ رهبر معظم كي اس انقلابي حركت نے ميدان جنگ ميں ايك بہت بڑي تبديلي لايي ۔ اس دوران رهبر معظم لشكروں كے درميان جاتے اور ان كے درميان آپسي اتحاد و بهايي چارے كي تحقيق كرتے ، ايك ايك سے ان كي مشكلات كو سنتے اور ہميشہ ايك باپ كي طرح سلوك كرتے، مہرباني اور عطوفت كے ساته ان كي باتوں كو سنتے تهے ۔ رهبر معظم كے اس طريقہ كار نے فوجيوں كے حوصلہ كو بلند كر ديا اور ان كے اندر ايسا اثر ڈالا كہ جو دشمنوں كي شكست كا باعث بنا۔

Saturday, 18 August 2012 05:27

کوبے مسجد جاپان

کوبے مسجد (جاپانی: 神戸モスク ) جاپان کے شہر کوبے میں واقع ایک مسجد ہے جو اکتوبر 1935ء میں تعمیر کی گئی۔ اسے جاپان کی پہلی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ کوبے مسلم مسجد کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ اس کی تعمیر اسلامی مجلس کوبے کی جانب سے 1928ء سے 1935ء میں اس کی تکمیل تک ہونے والے مالی تعاون اور جمع کردہ عطیات کے باعث ممکن ہو سکی۔

1943ء میں جاپانی شاہی بحریہ نے اس مسجد پر قبضہ کر لیا تھا۔ تاہم اب اس کی مسجد کی حیثیت بحال ہے اور یہ شہر کے مسلمانوں کا مرکز ہے۔ اپنے مضبوط ڈھانچے اور بنیاد کے باعث ہانشن کے عظیم زلزلے میں بھی یہ مسجد محفوظ رہی۔ یہ مسجد روایتی ترکی انداز میں تعمیر کی گئی اور اسے چیک ماہر تعمیرات جان جوزف سواگر (1885ء تا 1969ء) نے تعمیر کیا جو جاپان میں متعدد مغربی مذہبی عمارات کے ماہر تعمیرات ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: جیسا کہ ایک بار انقلاب اسلامی کی کامیابی میں امید کا ستارہ چمکا، ایک بار دفاع مقدس میں ، ایک بار جنگی قیدیوں کی آزادی و وطن واپسی کے وقت امیدکا ستارہ روشن ہوا، اللہ تعالی کی مدد سے اسی طرح مسئلہ فلسطین کےافق پر بھی امید کا ستارہ روشن ہوگا، مقبوضہ فلسطینیسرزمین یقینی طور پر فلسطینیوں کو واپس مل جائے گي اور اسرائیل کی غاصب و صہیونی حکومت صفحہ روزگار سے محو ہوجائےگي۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے (۲۰۱۲/۰۸/۱۵) سیکڑوں آزادگان سے ملاقات میں مشرقی آذربائیجان کے بعض علاقوں میں آنے والے حالیہ زلزلے سے متاثرہ افراد سے ہمدردی کا اظہارکیا اور مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا بنیادی مسئلہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اس سال بھی ایرانی قوم یوم قدس کے موقع اسلام اور فلسطین کے دشمنوں کے منہ پر زوردارطمانچہ رسید کرےگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسطینی سرزمین پر صہیونیوں کے غاصبانہ قبضہ و تسلط کو مشرق وسطی کا سب سے اہم مسئلہ اور اس علاقہ کی اقوام کی حالیہ برسوں کی مشکلات کی اصلی وجہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر علاقہ میں یہ سازش وجود میں نہ آتی تو علاقہ میں منہ زوراور سامراجی طاقتوں کی طرف سے مسلط کردہ جنگیں اور اختلافات بھی وجود میں نہ آتے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: صہیونی اورانکےحامی اقوام عالم کے نزدیک مسئلہ فلسطین کو فراموش کرانے کے سلسلے میں سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں لیکن عالم اسلام کو ان کی اس سازش اور فریب کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران میں اسلامی تحریک کےآغاز سے ہی مسئلہ فلسطین پر امام خمینی (رہ) کی خصوصی توجہ اورتاکید کی طرف اشارہ کرتےہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کی کامیابی نے مسئلہ فلسطین کوفراموش کرنےکےسلسلے میں سامراجی طاقتوں کی کوششوں کو ایک تاریخی رکاوٹ سے دوچارکردیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےمسئلہ فلسطین کو فراموش کرنے کےسلسلے میں بعض کوششوں کیطرف اشارہ کرتےہوئے فرمایا: شیعہ وسنی اورہلال شیعی بحث کو اسی دائرےمیں پیش کیا جاتا ہےجبکہ 60 سال سے فلسطینی قوم شدید مشکلات اور دباؤ کا شکارہے اور فلسطینیوں کے بارےمیں انکی کوئی آوازبلند نہیں ہوتی۔

رہبر معظم نے سوال کیا: اسلامی جمہوریہ ایران جس نے مسئلہ فلسطین کو دوبارہ زندہ کیا ، کیا اسے عالم اسلام کے لئے خطرہ بنا کرپیش کرنا اور صہیونیوں کے سنگین جرائم کے مقابلے میں سکوت اور خاموشی خیانت نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کوفراموش کرنے کی سازش کے خلاف ایرانی عوام کی استقامت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: مسئلہ فلسطین ہمارےلئے کوئی ٹیکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ اس کی جڑیں ہمارے اعتقادات سے وابستہ ہیں اور ہم اس اسلامی ملک کی غاصب صہیونیوں اور ان کے حامیوں سے آزادی کو اپنا مذہبی اور دینی فریضہ سمجھتے ہیں، اور دوسری مسلم اقوام اور اسلامی حکومتوں کو بھی مسئلہ فلسطین پر اسی زاویہ سے دیکھنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جیسا کہ امید کاستارہ ایک بارانقلاب اسلامی کی کامیابی میں چمکا، ایک بار دفاع مقدس میں روشن ہوا اورایک بار آزادگان کی رہائی اور وطن واپسی کے وقت درخشاں ہوا اللہ تعالی کےفضل و کرم سے اسی طرح امید کا ستارہ ایک بار مسئلہ فلسطین کےافق پربھی روشن ہوگا، اوریہ اسلامی سرزمین یقینی طورپرایکبارپھر فلسطینیوں کی آغوش میں واپس آجائے گي اوراسرائیل کی جعلی اورغاصب حکومت صفحہ روزگار سے محوہوجائےگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوسرےحصہ میں مشرقی آذربائیجان میں آنےوالے زلزلہ سے متاثرہ افراد کےساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کیا اور اسے پوری ایرانی قوم کےلئے درد وغم کاباعث قراردیا اورحکام پر زوردیا کہ وہ زلزلہ سے متاثرہ افراد کی مشکلات کوکم کرنے کے سلسلے میں تلاش وکوشش کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے زلزلہ سے متاثرہ افراد کے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ سےصبر تحمل اور ان کےدلوں کو آرام و سکون پہنچانےکی دعا کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سرافراز آزادگان کو ایمان کا ذخیرہ اور باز یافتہ گوہر قراردیتےہوئے فرمایا: قیداوراسارت کے مشکل دور نےہمارےآزادگان کو درخشاں جواہرات اورچمکتےہوئے موتیوں میں تبدیل کردیاہے۔

تہران کے خطيب جمعہ نے کہا ہے کہ عالم اسلام اپنے اتحاد کے ذريعے صہيوني حکومت کو صفحہ ہستي سے مٹا سکتا ہے

تہران کي مرکزي نماز جمعہ کے خطيب آيت اللہ سيد احمد خاتمي نے عالمي يوم قدس کے موقع پرنمازجمعہ کے خطبوں ميں گذشتہ ساٹھ برس کے دوران ملت فلسطين پر صہيوني حکومت کے مظالم کي مذمت کرتے ہوئے کہا کہ صہيوني ، فقط طاقت کي ہي زبان سمجھتے ہيں –

تہران کے خطيب جمعہ نے صہيوني حکومت کے ساتھ ہر طرح کے مذاکرات کو بے سود قرارديا اور کہا کہ جو چيز اب تک سرزمين فلسطين ميں اسرائيل کے خلاف موثر ثابت ہوئي ہے وہ تحريک انتفاضہ کا جاري رہنا اور صہيوني حکومت کے خلاف جد وجہد ہے کيونکہ مذاکرات سے صرف اسرائيل کو فائدہ پہنچتا ہے جبکہ فلسطينيوں کو مذاکرات سے ہميشہ نقصان ہوتا ہے –

تہران کے خطيب جمعہ نے علاقے کے بعض عرب ملکوں پر جن کے صہيوني حکومت کے ساتھ تعلقات ہيں اور جو علاقائي اور بين الاقوامي فورم پر اسرائيلي مظالم کي حمايت کرتے ہيں تنقيد کرتے ہوئے کہا کہ صہيوني حکومت پر کاري وار لگانے کا بہترين طريقہ اس کو الگ تھلگ کردينا ہے –

تہران کے خطيب جمعہ نے علاقائي اور عالمي سطح پر صہيوني حکومت کے مجرمانہ اقدامات کو برملاکئے جانے کي ضرورت پر زور ديتے ہوئے کہاکہ يہ حکومت کسي بھي طرح کي انساني اقدار اور بين الاقوامي قانون کي پابند نہيں ہے –

آيت اللہ سيد احمد خاتمي نے تہران ميں ناوابستہ تحريک کے آئندہ سربراہي اجلاس کے انعقاد کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ توقع ہے کہ اس تحريک کے سربراہان علاقے منجملہ فلسطين، بحرين اور شام ميں امريکا اور صہيوني حکومت کي توسيع پسنديوں کے مقابلے ميں ٹھوس موقف اختيار کريں گے –

تہران کے خطيب جمعہ نے شام کے حالات کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ امريکا شام ميں دہشت گردوں کي مسلسل پشتپناہي کررہا ہے اور دہشت گردوں کے توسط سے وہ مختلف جرائم کا ارتکاب کررہا ہے ليکن شام کے عوام اور حکومت ان کے مقابلے ميں کامياب ہوکر رہے گي -

آيت اللہ سيد احمد خاتمي نے علاقے کے بعض عرب ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے جو شام کي حکومت اور عوام کے خلاف امريکا اور صہيوني حکومت کے ساتھ ہوگئے ہيں کہاکہ يہ ممالک پشيمان ہوں گے کيونکہ انہيں اپنے ملک کے عوام کي حمايت سے ہاتھ دھونا پڑے گا - تہران کے خطيب جمعہ نے کہا دہشت گرد تنظيم القاعدہ جو آج امريکا کي سرپرستي ميں شام ميں دہشت گردانہ کاروائياں انجام دے رہي ہے يہي دہشت گرد نيٹ ورک آگے چل کر امريکا کے اتحادي ممالک ميں بھي بحران پيدا کرے گا –

آيت اللہ سيد احمد خاتمي نے ايران کے صوبہ مشرقي آذربائجان ميں زلزلزلے کے حادثے پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس حادثے سے ايران مخالف ذرائع ابلاغ کے ذريعے غلط فائدہ اٹھائے جانے پر مبني اقدامات کي مذمت کرتے ہوئے کہا متاثرہ علاقوں کا رہبر انقلاب اسلامي کے دورے سے اس بات کا بخوبي اندازہ لگايا جاسکتا ہے کہ ايران کي حکومت متاثرين کي مدد اور متاثرہ علاقوں کي بازآبادکاري کے لئے پوري طرح سنجيدہ ہے

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے(۲۰۱۲/۰۸/۱۶) صوبہ مشرقی آذربائیجان کے زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور زلزلہ سے متاثرہ افرادکےساتھ ہمدردی اور ہمدلی کا اظہار کرتے ہوئے امدادی کارروائیوں کا قریب سے جائزہ لیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے زلزلہ سے متاثرہ ضلع ہریس کےسرند گاؤں کا دورہ کیا۔ اس کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کوویج گاؤں کے لوگوں کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی اورانکی مشکلات کا قریب سے جائزہ لیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کوویج گاؤں کے لوگوں سے خطاب کرتےہوئے فرمایا: میں آپ لوگوں سے ہمدردی اورہمدلی کااظہارکرنے اور تعزیت وتسلیت پیش کرنےکے لئے حاضرہواہوں اور ایران کی پوری قوم زلزلہ سے متاثرہ افراد کے ساتھ ہمدردی اور ہمدلی کا اظہار کرتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: ایرانی عوام متحد اور متفق ہیں اور یہی اتحاد اور اتفاق ایرانی قوم کی طاقت اور قدرت کا مظہر ہے۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے زلزلہ سے متاثرہ افراد کو صبر وتحمل کی سفارش کرتےہوئے فرمایا: اس علاقہ کے عوام باہمی تعاون اورہمدردی کے ذریعہ اس علاقہ کی تقدیربدل سکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے زلزلہ سے متاثرہ افراد کے لئے امدادی کارروائیوں کو خوب توصیف کرتےہوئے فرمایا: حکام کے دوش پر زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کی پختہ اور مضبوط تعمیر کرنےکی سنگین ذمہ داری عائد ہےاوراس علاقہ کےعوام کو بھی چاہیے کہ وہ یہ ذمہ داری انجام دینے میں مقامی حکام کےساتھ تعاون کریں۔

کشمیری حریت پسند لیڈر میر واعظ عمر فارو‍ق نے ہندوستان کے وزیر دفاع کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان کے حکمرانوں کے کشمیر سے متعلق حقائق ، تاریخ اور بین الاقوامی وعدوں کے برعکس بیانات سے نہ صرف پاک –ھند تعلقات میں کشیدگی اور بدگمانی بڑھ سکتی ہے بلکہ اس سے جاری مذاکراتی عمل بھی متاثر ہو سکتا ہے۔

حریت (ع) چیئرمین میرواعظ عمر فاروق نے ایک عوامی اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے مزید کہا ہے کہ ایک طرف ہندوستان کے حکمران ، پاکستان کے ساتھ تمام حل طلب مسائل جن میں اہم اور بنیادی مسئلہ مسئلہ کشمیر ہے، کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی باتیں کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ارباب اقتدار کے ذمہ داران ایسے بیانات بھی دیتے ہیں جو حقائق ، تاریخ اور بین الاقوامی وعدوں اور معاہدوں کیخلاف ہے اور ان سے نہ صرف ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی اور بدگمانی بڑھ سکتی ہے بلکہ اس سے جاری مذاکراتی عمل بھی متاثر ہو سکتا ہے ۔

میرواعظ نےہندوستان کے وزیر دفاع اے کے انٹونی کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جموںوکشمیر کی 14 اگست 1947 کی جو حیثیت اور پوزیشن تھی ،وہ تمام علاقہ متنازعہ ہے ،جس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اور اسے منصفانہ بنیادوں پر حل کئے بغیر نہ تو خطے میں امن و سلامتی کا قیام ممکن ہے اور نہ ہی دونوں ہمسایہ ملکوں میں خوشگوار تعلقات استوار ہو سکتے ہیں ۔

ہندوستان کے وزیر دفاع اے کے انٹونے نے لوک سبھا میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہے اور پاکستان نے کشمیر کے ایک حصے کا قبضہ کرلیا ہے -

 

 

روس نے ايک بار پھر ايران کے خلاف امريکہ کي عائد کردہ يکطرفہ پابنديوں پر کڑي نکتہ چيني کي ہے-

روس کي وزارت خارجہ کے جاري کردہ بيان ميں کہا گيا ہے کہ واشنگٹن کو يہ بات اچھي طرح سمجھ لينا چاہيے کہ اگر ان پابنديوں سے روس پر کوئي اثر پڑا دونوں ملکوں کے تعلقات بري طرح متاثر ہوسکتے ہيں-

روسي وزارت خارجہ نے ايران کے خلاف يکطرفہ پابنديوں کو کھلي باج گيري اور عالمي قوانين کي خلاف ورزي قرار ديا ہے-

روسي وزارت خارجہ کے جاري کردہ بيان ميں يہ بھي کہا گيا ہے کہ ماسکو امريکہ کے داخلي قوانين کو دنيا کے ديگر ملکوں پر مسلط کرنے کي امريکي کوشش کو ہرگز برداشت نہيں کرے گا-

نئي امريکي پابنديوں کے تحت ايران سے تيل کي خريد و فروخت کرنے والے ملکوں کو واشنگٹن کي جانب سے ‎معاشي سزاوں کا سامنا کرنا پڑے گا-

ان پابنديوں پر اٹھائيس جون سے عملدرآمد شروع ہوگيا ہے-

ايران کے خلاف امريکہ کي يکطرفہ پابندياں تہران کے ايٹمي پروگرام کو بہانا بناکر لگائي ہيں-

ايران اپنے جوہري پروگرام کے بارے ميں امريکي الزامات کو سختي کے ساتھ مسترد کرچکا ہے -

ايران کا کہنا ہے اس کا جوہري پروگرام پرامن مقاصد کے لئے اور اين پي ٹي معاہدے کے رکن کي حثيت سے اسے يورينيئم کي افزودگي کا بھي حق حاصل ہے-

 

 

Wednesday, 15 August 2012 10:17

احسان نہ جتائیں!

قائد انقلاب اسلامی نے پندرہ محرم الحرام سنہ چودہ سو بتیس ہجری قمری کو فقہ کے اجتہادی و استنباطی درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک قول مع تشریح بیان کیا۔ اس روایت میں بے لوث دوستی اور احسان نہ جتانے کی بات کی گئی ہے۔ یہ قول زریں، اس کا ترجمہ اور شرح پیش خدمت ہے؛

"‫عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ الْمُؤْمِنُونَ خَدَمٌ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ قُیل وَ كَيْفَ يَكُونُونَ خَدَماً بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ قَالَ يُفِيدُ بَعْضُهُمْ بَعْضاً"

كافى، ج 2، ص 167

ترجمہ و تشریح: کتاب الکافی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت منقول ہے کہ «المؤمنون خدم بعضهم لبعض» مومنین ایک دوسرے کے خدمت گار ہیں۔ "خدم" جمع ہے " خادم" کی۔ خادم کے لئے فارسی (اور اردو) میں خدمت گار کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو ذرا شائستہ لفظ ہے، اس کے لئے دوسرا لفظ نوکر کا ہے جو ذرا عامیانہ ہے۔ ایک تیسرا لفظ بھی ہے خدمت گزار جس کے فارسی زبان میں ایک الگ ہی معنی ہیں۔ یہاں خدم کا جو لفظ استعمال کیا گيا ہے اس سے خدمت گار ہی مراد ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ مومنین ایک دوسرے کے خادم ہیں۔ حاضرین کو یہ سن کا تعجب ہوا اور انہوں نے سوال کیا کہ وہ کیسے؟ سب ایک دوسرے کے خادم کیسے ہو سکتے ہیں؟ یا یوں کہا جائے کہ سب ایک دوسرے کے نوکر کیسے ہو سکتے ہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے گھر جاکر ایک دوسرے کی خدمت کریں؟ ارشاد فرمایا کہ «يفيد بعضهم بعضا» ایک دوسرے کو فائدہ پہنچائيں۔ معلوم ہوا کہ مومنین کا ایک دوسرے کو فائندہ پہنچانا باہمی خدمت ہے۔ یہاں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اس میں احسان جتانے والی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ اگر ہم نے ایک دوسرے کی خدمت کی ہے، ایک دوسرے کو فائدہ پہنچایا ہے خواہ ہمارا مقام و مرتبہ آپس میں برابر اور یکساں ہو، جیسے کوچہ و بازار میں ایک جیسی سماجی حیثیت رکھنے والے افراد ہوتے ہیں اور خواہ ان میں ایک، سماجی مقام و مرتبے کے لحاظ سے بلند ہو مثلا کسی ادارے کا سربراہ ہو اور دوسرا شخص معمولی انسان ہو تو بھی ان میں کسی نے بھی دوسرے کی خدمت کرکے احسان نہیں کیا ہے۔ ہماری نظر میں اس حدیث کا اہم نکتہ صرف یہی نہیں ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو فائدہ پہنچائیں بلکہ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ فائدہ پہنچانے کے اس عمل کے بعد کوئی کسی پر احسان نہ جتائے اور خدمت کو احسان جتا کر نابود نہ کرے۔