Super User

Super User

Tuesday, 10 July 2012 07:00

طوبٰی مسجد كراچي

طوبٰی مسجد پاکستان کے شہر کراچی میں واقع ایک خوبصورت مسجد جو مقامی سطح پر گول مسجد کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ مسجد طوبیٰ 1969ء میں کراچی کی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں تعمیر کی گئی۔ یہ کورنگی روڈ کے قریب واقع ہے۔ مسجد طوبیٰ غالباً واحد گنبد کی حامل دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ یہ کراچی کے اہم سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ مسجد طوبیٰ کو خالص سفید سنگ مرمر سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کے گنبد کا قطر 72 میٹر (236 فٹ) ہے اور یہ بغیر کسی ستون کے صرف بیرونی دیواروں پر کھڑا ہے۔

مسجد طوبیٰ کا واحد مینار 70 میٹر بلند ہے۔ عبادت گاہ کے مرکزی وسیع و عریض کمرے میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔

 

 

 

Tuesday, 10 July 2012 06:49

بادشاہی مسجد لاهور

بنیادی معلومات

مقام لاہور، پاکستان

معلوماتِ طرزِ تعمیر

رخ بجانب قبلہ

سالِ تکمیل 1673ء

خصوصیات

گنجائش 60 ہزار افراد

لمبائی 804 فٹ (بمعہ صحن)

چوڑائی 612 فٹ (بمعہ صحن)

بلندی 50.5 فٹ

تعدادِ گنبد 3

بلندئ گنبد (بیرونی) مرکزی گنبد: 49 فٹ

دیگر گنبد: 32 فٹ

قطرِ گنبد (بیرونی) مرکزی گنبد: 65 فٹ

دیگر گنبد: 51.5 فٹ

تعدادِ مینار 4

بلندئ مینار 176 فٹ 4 انچ

بادشاہی مسجد 1673 میں اورنگزیب عالمگیر نے لاہور میں بنوائی۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلوں کے دور کی ایک شاندار مثال ہے اور لاہور شہر کی شناخت بن چکی ہہے۔ یہ فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد پورے پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے، جس میں بیک وقت 60 ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس مسجد کا انداز تعمیر جامع مسجد دلی سے بہت ملتا جلتا ہے جو کہ اورنگزیب کے والد شاہجہان نے 1648 میں تعمیر کروائی تھی۔

تاریخ

ہندوستان کے چھٹے مغل بادشاہ اورنگزیب تمام مغلوں میں سے سب سے زیادہ مذہبی بادشاہ تھے۔ انھوں نے اس مسجد کو اپنے سوتیلے بھائی مظفر حسین، جن کو فداے خان کوکا بھی کہا جاتا تھا، کی زیر نگرانی تعمیر کروایا۔ 1671 سے لیکر 1673 تک مسجد کی تعمیر کو دو سال لگے۔ مسجد کو شاہی قلعہ کے برعکس تعمیر کیا گیا، جس سے اس کی مغلیہ دور میں اہمیت کا پتہ لگتا ہے۔ اس مسجد کے بننے کے ساتھ ہی ساتھ اورنگزیب نے اس کے دروازے کے برعکس شاہی قلعہ میں بھی ایک باوقار دروازے کا اضافہ کیا، جس کو عالمگیری دروازہ کہا جاتا ہے۔

 

مرمات

جوں جوں وقت گزرتا گیا، مسجد کو متعدد وجوہات کی بنا پر نقصانات پہنچتے گئے۔ 1850 سے اس کی مرمت کا آغاز ہوا، لیکن یہ مرمت نامکمل تھیں۔ آخرکار مکمل مرمت 1939ء میں شروع ھوئی اور 1960 میں مکمل کی گئی جن پر 48 لاکھ روپے صرف ہوئے۔ اس مرمت کی وجہ سے مسجد ایک بار پھر اپنی اصلی حالت میں واپس آگئی۔

 

خاص واقعات

دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر، جو کہ لاہور میں 22 فروری، 1974 کو ہوئی، 39سربراہان مملکت نے جمعہ کی نماز اس مسجد میں ادا کرنے کی سعادت حاصل کی۔

 

Tuesday, 10 July 2012 06:42

فرقہ طحاویہ

چوتھی صدی میں اہل سنت کے عقاید کے حوالہ سے ایک اصلاح پسند فرقہ کو تین شخصیتوں نے قائم کیا جن میں سے ایک شخصیت ابو جعفر طحاوی ہیں ۔

آپ کا پورا نام احمد بن محمد بن سلامة الازدی الحجری ، کنیت ابو جعفر اور لقب طحاوی (متوفی ٣٢١ھ) ہے ، مصرکے ایک دیہات ، دیہات طحا میں ان کی ولادت ہوئی ، مورخین نے ان کی ولادت کو ٢٢٩، ٢٣٠، ٢٣٨،اور ٢٣٩ ہجری میں نقل کی ہے ۔

طحاوی کو علم حدیث اور فقہ سے بہت زیادہ لگائو تھا اسی وجہ سے وہ اپنے زمانہ کے بہت بڑے محدث اور فقیہ تھے ، یہ شروع میں مذہب حنفی کی پیروی کرتے تھے ۔ اس کے متعلق مختلف وجوہات بیان ہوئی ہیں(١) ۔آپ کی بہت سی اہم کتابیں بھی موجود ہیں:

١۔ شرح معانی الآثار۔ ٢۔ شرح مشکل احادیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ۔ ٣۔ احکام القرآن۔ ٤۔ اختلاف الفقہاء ۔ ٥۔ النوادر الفقھیہ ۔ ٦۔ الشروط الکبیر ۔ ٧۔ الشروط الاوسط ۔ ٨۔ شرح الجامع الصغیر ۔ ٩۔ شرح الجامع الکبیر ۔ ١٠۔ المختصر الصغیر ۔ ١١۔ المختصر الکبیر ۔ ١٢۔ مناقب ابی حنیفہ ۔ ١٣ ۔ تاریخ الکبیر۔ ١٤۔ الرد علی کتاب المدلسین ۔ ١٥۔ کتاب الفرائض ۔ ١٦۔ کتاب الوصایا ۔ ١٧۔ حکم اراضی مکہ ۔ ١٨۔ کتاب العقیدة۔ (٢) ۔

طحاوی نے علم کلام میں ایک چھوٹا سا رسالہ ''بیان السنة والجماعة'' کے نام سے تالیف کیا ہے جو عقیدہ الطحاویہ کے نام سے مشہور ہے ، اس کے مقدمہ میں کہتے ہیں :

'' اس رسالہ میں اہل سنت و الجماعت کے عقاید کو ابوحنیفہ، ابویوسف اور محمد شیبانی کے نظریات کے مطابق بیان کیا جائے گا''۔

طحاوی ، عقاید ابوحنیفہ کی توجیہ یا تفسیربیان نہیں کرنا چاہتے تھے یا نئی دلیلیں پیش کرکے قدیم کلامی مسائل کو حل و فصل نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ ان کا ہدف صرف یہ تھا کہ ابوحنیفہ کے عقاید کا خلاصہ بیان کریں اور اہل سنت والجماعت کے نظریات کے ساتھ ان کے نظریات کو بیان کریں۔

طحاوی اور ماتریدی کے درمیان اختلاف کامل طور سے آشکار اور واضح ہے ۔ طحاوی اصول ایمان کے متعلق عقلی یا نظری تفکر کے موافق نہیں تھے بلکہ وہ ترجیح دیتے تھے کہ اصول عقاید کو بغیر کسی دلیل کے قبول کرلیں، اور ان کی تصدیق بھی کریں، ان کے عقائد میں انتقاد، مآخذ ، اسباب معرفت اورکلامی نظام کے مآخذ کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہوا ہے ، اس بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے عقائد جزمی اور یقینی تھے ، جب کہ ماتریدی کے فکری نظام میں انتقاد پایا جاتا ہے وہ علم حدیث میں بھی تنقید کے طریقہ کی پیروی کرتے ہیں ۔ اس بناء پر جب کہ ماتریدی اور طحاوی دونوں کا تعلق ایک مکتب اور ایک مذہب سے ہے اور دونوں خلوص نیت کے ساتھ اپنے استاد کے نظریات کی پیروی کرتے ہیں لیکن خلق و خو کے اعتبارسے دونوں کے نظریات میں فرق پایا جاتا ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ طحاوی نے علم کلام میں کوئی جدید نظام یا قانون کو ایجاد نہیں کیا ہے بلکہ امانتداری اور سچائی کے ساتھ اپنے استاد کے اہم نظریات کو خلاصہ سے کیاہے ۔

حقیقت میں علم کلام اسلامی میں '' طحاویة'' کے معنی کسی نئے مکتب کے نہیں ہیں بلکہ ابوحنیفہ کے اسی کلامی نظام کو دوسرے الفاظ میں بیان کیا ہے ۔ طحاوی کے نظریات کی اہمیت یہ ہے کہ انہوںنے اپنے استاد کے نظریات کو کامل طور سے واضح کیا ہے ، انہوں نے ابوحنیفہ کے نظریات سے ابہام و شبہات کو دور کرتے ہوئے ان کے نظریات کو واضح طور پر بیان کیا ہے (٣) ۔

حوالہ جات :

١۔ تاریخ فلسفہ در جہان اسلامی، ج ١، ص ٣٤٧۔

٢۔ فہرست ابن ندیم، ص ٢٩٦۔

٣۔ تاریخ فلسفہ در اسلام، ج١، ص ٣٤٩۔ ٣٤٨ ، ٣٦١۔ ٣٦٠۔

کتاب : فرق و مذاہب کلامی ، ص ٢٤٢۔

 

 

روس کے صرف ايک مرکز ميں اسلام قبول کرنے والي دس ہزار خواتين نے رجسٹريشن کرائي ہے-

ماسکو ميں اس وقت بيس لاکھ سے زائد مسلمان رہتے اور کام کرتے ہيں اور اس اعتبار سے وہ يورپ ميں مسلمانوں کے بڑے شہروں ميں سے ايک بن گيا ہے-

يہي وجہ ہے کہ ماسکو ميں موجود چار مساجد نمازيوں کے ليے کافي نہيں ہيں- ہر جمعہ کو نمازيوں کي تعداد اتني ہوتي ہے کہ انہيں مساجد سے باہر برف پر نماز پڑھني پڑتي ہے-

جب نماز جمعہ ہو رہي ہوتي ہے تو کار سوار راستے کے ليے ہارن بجا رہے ہوتے ہيں اور پيدل چلنے والے گذرنے کے ليے دشواريوں کا شکار ہو رہے ہوتے ہيں-

نئے مسلمانوں کي بڑي تعداد ان مہاجرين پر مشتمل ہے جو سوويت يونين کا حصہ رہنے والي وسط ايشيائي رياستوں سے ماسکو منتقل ہوئے ہيں-

غربت اور سوويت يونين کے ختم ہونے کے بعد پيدا ہونے والے جھگڑوں کے نتيجے ميں نئي زندگي شروع کرنے کے ليے نکلنے والے ان لوگوں ميں ازبک، تاجک اور کرغيزيوں کي تعداد سب سے زيادہ ہے-

ازبکستان سے آنے والے ايک نوجوان الوگ بيک کا کہنا ہے ’ہماري تعداد بہت زيادہ ہے، ہميں اس بات پر تو شکر گذار ہونا چاہيے کہ ماسکو ميں مساجد ہيں ليکن شہر، اچانک آنے والے لاکھوں لوگوں کي ميزباني کے ليے تيار نہيں‘-

تاہم دوسرے لوگوں کا خيال ہے کہ حکام مسلمان آبادي کي ضرورتوں کو نظر انداز کر رہے ہيں-

ماسکو کي تاريخي مسجد کے طور پر جاني جانے والي مسجد کے پيش امام، حسين فخرت دينوف کا کہنا ہے کہ ’موجودہ سہولتيں بہر طور ناکافي ہيں‘-

انہوں نے مزيد کہا کہ ’اس ليے ہم حکام سے نئي مساجد تعمير کرنے کے اجازت چاہتے ہيں، ليکن وہ ہمارے مطابے کو نظر انداز کر رہے ہيں، اس ليے لوگوں کو مساجد سے باہر بارش ميں اور برف پر نماز ادا کرني ہو گي‘-

ماسکو کي تاتار نامي قديم مسجد کو ايک نئي بڑي عمارت ميں منتقل کيا جا رہا ہے ليکن اس کے باوجود تمام نمازيوں کے ليے مسجد کے اندر نماز ادا کرنا ممکن نہيں ہو گا-

نئے لوگوں کي وجہ سے ماسکو ميں جو تبديلياں آ رہي ہيں ماسکو کے شہري ان پر مختلف آرا رکھتے ہيں-

مسجد کے پاس سے گذرنے والي دو نوجوان خواتين کا کہنا تھا کہ ’ماسکو ترقي کر رہا ہے اور يہي وجہ ہے کہ لوگ يہاں آ رہے ہيں اور اتفاق ہے کہ ان ميں مسلمانوں کي تعداد زيادہ ہے- اب اگر روسي يہاں چرچ بنا رہے ہيں تو کسي کو يہ حق نہيں کہ وہ مسلمانوں کو مساجد کي تعمير سے روکے‘-

اس کے برخلاف دوسروں کي رائے ہے کہ باہر سے آنے والے ان لوگوں کي وجہ سے روسي ثقافت اور زندگي کے طريقے تبديل ہو رہے ہيں-

شہر ميں نئے لوگوں کي آمد پر کڑي پابندياں لگانے کے حامي اور خود کو روزووٹ کہنے والے ايک قوم پرست گروپ کے يوري گروسکي کا کہنا ہے کہ لوگ مذاق ميں کہتے ہيں کہ ماسکو، ماسکو آباد بنتا جا رہا ہے-

ان کا کہنا ہے کہ ’ذرا آپ ماسکو کي سڑکوں پر نکل کر ديکھيں آپ کو سلاوک کم اور مسلمان زيادہ دکھائي ديں گے- اگر باہر سے لوگوں نے آنا ہي ہے تو سلاوک ملکوں کے لوگوں کو آنا چاہيے ليکن ان مسلمانوں کو روکنا ہو گا‘-

روس ميں نقل مکاني کر کے آنے والے مسلمانوں پر باقاعدگي سے حملے ہونے لگے ہيں اگرچہ اب ان ميں کچھ کمي آئي ہے-

روس ميں انساني حقوق کے ليے کام کرنے والے گروپ سووا کا کہنا ہے کہ 2008 کے دوران نسل پرستانہ حملوں ميں 57 اموات اور196 افراد زخمي ہوئے جب کہ 2011 کے دوران سات افراد ہلاک اور 28 زخمي ہوئے-

يہي نہيں، نئے آنے والے اپنے ساتھ اپني ثقافت اور رہن سہن بھي لائے ہيں، اب ماسکو ميں ايسي دکانيں اور کيفے بڑي تعداد ميں دکھائي ديتے ہيں جن پر حلال اشيا دستياب ہوتي ہيں اور ماسکو کي حلال ٹيک اووے دکانوں پر فروخت ہونے والے سموسوں نے تو سب سے زيادہ مقبوليت حاصل کر لي ہے-

اس کے علاوہ ماسکو ميں اسلام قبول کرنے والوں کي تعداد ميں بھي ڈرامائي اضافہ ہو رہا ہے- ان ميں ايک علي چسلاف بھي ہيں جو سابق آرتھوڈک پادري اور سياستداں ہيں- وہ بارہ سال قبل مسلمان ہوئے اور اب ايک ايسا امدادي مرکز چلا رہے ہيں- جو اسلام قبول کرنے والے نئے لوگوں کي مدد کرتا ہے اور انہيں مشورے ديتا ہے-

اس مرکز ميں کام کرنے والي عائشہ لاريسہ کا کہنا ہے کہ صرف ان کے مرکز ميں اسلام قبول کرنے والي دس ہزار عورتوں نے رجسٹريشن کرائي ہے-

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم ان عورتوں کو عبادت کرنا سکھاتے ہيں اور اگر انہيں اسلام قبول نہ کرنے والے رشتہ داروں کي وجہ سے مسائل پيش آتے ہيں تو انہيں مشورے ديتے ہيں‘-

اسلام ہميشہ ہي سے روس ميں دوسرا بڑا مذہب رہا ہے ليکن يہ حقيقت اس سے پہلے اس طرح ظاہر نہيں ہو رہي تھي جيسے اب دکھائي ديتي ہے-

پیغام سنه 1409

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1410

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1411

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1412

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1413

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1414

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1415

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1416

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1417

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1418

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1419

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1420

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1421

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1422

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1423

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1424

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1425

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1426

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1427

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1428

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1429

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1430

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1431

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1432

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1433

ڈاؤنلوڈ

ایرانی اہلسنت عالم دین :

اخبارات کے مطابق،ایران کے صوبہ خراسان شمالی کے مانہ و سملقان شہر کی مسجد ابوبکرصدیق کے امام جماعت "سید نفس آخوند یزدانی"نے گفتگو کرتے ہوئے اسلام دشمن طاقتوں کا عالم اسلام اور ایران میں حاکم اسلامی نظام کو کسی نہ کسی طرح نقصان پہچانے کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:امت اسلامی کو چاہئے کہ نہایت ہوشیاری اور احتیاط کے ساتھ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھیں اور تفرقہ بازی کی ہر حرکت پر کڑی نظر بنائے رکھیں اور اسے ناکام بنا دیں۔

آخوند یزدانی نے کہا: دشمن نے مسلمانوں میں اتحاد کو نشانہ بنا رکھا ہے تاکہ اسے تفرقہ میں تبدیل کرسکے، اسلئے اتحاد و یکجہتی کی حفاظت اور مضبوط بنائے رکھنا ہر دور سے زیادہ اہم اور ضروری بن گیا ہے۔

انہوں نے مذید کہا :قرآن کی روح بخش تعلیمات اور رسول مکرم اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت پر عمل اور آنحضرت کی آسمانی رہنمای کی روشنی میں امت اسلامی میں حقیقی اتحاد و یکجہتی ممکن ہے۔

اس اہلسنت عالم دین نے وحدت کے مختلف معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : مسلمانوں کے درمیان دوری کو نزدیکی میں تبدیل کرنا ، نظریے اور طرز عمل میں اختلاف کو فروعی تسلیم کرنا ،ماضی کے پیش نظر حال اور مستقل کو مخدوش نہ کرنا ، یکجہتی اختیار کرنا،انفرادیت سے اجتماعیت کی طرف آنا یہ سبھی اتحاد کے معنی ہیں اور مجموعی طور اس سے پتہ چلتا ہے کہ عالم اسلام اور عالم انسانیت میں مسلمان ایک ہاتھ کے مانند متحد ہیں جو کہ قرآن کی تعلیم اور حکم ہے اور ہم سب کو اسلام کی تبلیغ اور ترویج میں جڑے رہنا ہے۔

آخوند یزدانی نے مذید کہا: قرآن میں وحدت کی سفارش موجود ہے اور خدا نے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو رحمت اور وحدت کے ساتھ بھیجا ہے اور مسلمانوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ رہ کر محبت اور اتحاد کی حفاظت کرتے رہیں۔

انہوں نے مذید کہا: ہم سب کو حقیقی اسلام اور رسول مکرم اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عملی سیرت اور حضرت امام خمینی (رہ) کے طریقہ کار اور امام خامنہ ای کی رہنمائی میں آگے بڑھنا ہوگا۔

ایران کے صوبہ خراسان شمالی کے مانہ و سملقان شہرکی مسجد ابو بکر صدیق کے امام جماعت نے کہا: آج ہم عالم اسلام اور مسلمان سماج میں جو اتحاد اور یکجہتی کو مشاہدہ کررہے ہیں یہ سب حضرت امام خمینی (رہ) اور حضرت امام خامنہ ای کی قیادت کا ثمرہ ہے ۔

آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے قومی سیکریٹری:

دنیا بھر میں مساجد و مقابر کی بے حرمتی اور انہیں مسمار کرنے کا جو سلسلہ جاری ہے وہ بہت ہی خطرناک بات ہے اگر اس پر فوری طور پر روک نہیں لگائی گئی تو دنیا بھر میں مقامات مقدسہ کو ان شدت پسندوں سے خطرہ لاحق ہوجائے گا۔

اس خدشہ کا اظہار آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے قومی سیکریٹری سید بابر اشرف کچھو چھوی نے اپنے بیان میں کیا۔

سید بابر اشرف نے کہا کہ مزارات اور بزرگان دین کے آثار و باقیات کو مٹانے کا یہ سلسلہ سعودی عربیہ نے شروع کیا اور آج وہ پیٹرو ڈالر کے ذریعہ ساری دنیا میں اپنے کارندے بھیج کر امن و امان کے علمبردار بزرگان دین کے مزارات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

 

انہوں نے حال ہی میں افریقی ملک مالی میں عظیم بزرگان دین کے مزارات کو بم سے اڑا دئے جانے کے واقعات کی سخت مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ مزارات و دیگر مقدس مقامات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے عملی اقدامات کریں۔

 

مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آف انڈیا کے قومی جنرل سیکریٹری شاہنواز وارثی نے کہا کہ وہ شدت پسند اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور جہاں بھی جاتے ہیں وہاں مسلمانوں کو اور ان سے جڑی ہوئی عقیدت و محبت کی نشانیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

 

انہوں نے کہا کہ افغانستان ، پاکستان کے بعد لیبیا، مصر اور صومالیہ میں مزارات کے توڑنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بہت قابل مذمت فعل ہے جس پر فوری طور سے روک لگائی جائے۔

 

حزب اللہ لبنان کے جنرل سکریٹری نے تاکید کی : دنیا کا کوئی شخص علم، حکمت، دانائی، شجاعت اور مدیریت میں حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے ھم پلہ نہیں جو امت مسلمہ کی قیادت کا صلاحیت رکھتا ہو۔

 

رپورٹ کے مطابق ، حزب اللہ لبنان کے جنرل سکریٹری حجت الاسلام سید حسن نصراللہ نے اسلامی جمہوریہ ایران ٹی وی کے چوتھے چائنل کو انٹرویو میں کہا : ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلامی دنیا اور حتی پوری دنیا میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں جو علم، حکمت، دانائی، شجاعت اور مدیریت میں قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا ہمتا ہو اور امت مسلمہ کی قیادت کی صلاحیت رکھتا ہو۔

 

انہوں نے مزید کہا : میری نظر میں حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای ، امام خمینی (رہ ) کے بعد سب سے بڑی اسلامی شخصیت ہیں ۔

 

حزب اللہ لبنان فقط شیعوں کا نہیں بلکہ پوری قوم کا دفاع کر رہی ہے ۔

 

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہماری تنظیم کا منشور خطے کی تمام اقوام کے دفاع پر مشتمل ہے کیونکہ حزب اللہ لبنان اپنی پوری تاریخ میں امت مسلمہ کی حامی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم ہر روز لبنان کو جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے اور لبنان کے دریایی پانی پر اپنا حق جتاتا ہے لہذا ہمیں ہمیشہ اپنے دفاع کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ بنت جبیل میں امن و امان کا راز اسلامی مزاحمت ہے جسکی وجہ سے دشمن اس خطے پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کرتا، اگر چہ آج لبنان میں جنگ کی صورتحال نہیں لیکن حزب اللہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کی بھرپور آمادگی رکھتی ہے۔

 

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا یہ دعوی درست ہے کہ حزب اللہ لبنان تشیع کی ترویج کرنے میں مصروف ہے؟ کہا کہ حزب اللہ لبنان ایک اسلامی تنظیم ہے جو اسلامی اصولوں کی پابند ہے۔ حزب اللہ لبنان ایسے افراد کا مجموعہ ہے جو مکتب اہلبیت علیھم السلام پر ایمان رکھتے ہیں اور اہل تشیع ہیں لیکن اس تنظیم کی سرگرمیاں لبنان کے تمام عوام کیلئے ہیں چاہے وہ مسلمان ہوں یا عیسائی۔

 

حزب اللہ لبنان کی فوجی طاقت کا نشانہ اسرائیل ہے :

 

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا کہ یہ تنظیم تمام لبنانی عوام کی نمایندہ تنظیم ہے، حزب اللہ لبنان کی کوشش ہے کہ وہ ایک اسلامی تحریک کا اچھا اور ترقی یافتہ نمونہ پیش کرے لہذا اسکی شکل اسلامی مزاحمت اور جہاد والی ہے اور وہ اسلامی قوانین و اصول اور اسلامی اخلاقیات کی پابند تنظیم ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حزب اللہ لبنان کی فوجی طاقت کبھی بھی ملک کے اندر استعمال نہیں کی جائے گی اور ہم ہر گز لبنان آرمی یا سیکورٹی اداروں کے مقابلے میں نہیں آئیں گے، آپ لوگ کبھی بھی کسی کو جنوب لبنان میں مسلح حالت میں نہیں دیکھیں گے کیونکہ حزب اللہ لبنان کی طاقت خفیہ ہے اور جب تک اسرائیل ہم پر حملہ آور نہیں ہوتا ہم اپنی فوجی طاقت کا اظہار نہیں کرتے۔

 

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ قومی مفادات کو اپنے تنظیمی مفادات پر ترجیح دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1982 میں اپنی تنظیمی فعالیت کے آغاز سے ہی ہم نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے ملک کا دفاع کرے لیکن اس نے ایسا نہ کیا لہذا لبنانی عوام کی ایک تعداد مسلح ہو گئی تاکہ یہ کام خود انجام دے سکیں۔

 

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ قومی حکومت ملک میں استحکام کا باعث ہے، موجودہ حکومت ہر قسم کے فتنے کو روکنے کا باعث بنی ہے اور ملک میں امن و امان کی فضا قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوئی ہے۔

 

اسرائیل کے مقابلے میں حزب اللہ کی فتح ایک معجزہ سے کم نہ تھی:

 

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اسرائیل نے 1982 میں لبنان پر حملہ کیا اور دارالحکومت بیروت پر بھی قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا، اسی وقت اس کے خلاف اسلامی مزاحمت کی تحریک معرض وجود میں آئی اور اسرائیل پر کاری ضربیں لگانے میں کامیاب ہوئی، اسلامی مزاحمت نے اسے عقب نشینی پر مجبور کر دیا، اگر صرف لبنان کی فوج ہوتی تو اسرائیل لبنان میں باقی رہتا لیکن جب اس نے دیکھا کہ یہاں حزب اللہ جیسی تنظیم بھی موجود ہے اور اسکے خلاف ملٹری آپریشنز اور گوریلا جنگ کر رہی ہے تو فورا لبنان سے بھاگنے پر مجبور ہو گیا کیونکہ اسے ہمارے آپریشنز اور بم دھماکوں سے شدید نقصان پہنچ رہا تھا۔

 

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا اسرائیل اور حزب اللہ لبنان کے درمیان 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ کی فتح کا باعث اسرائیل کی کمزوری تھی یا حزب اللہ کی طاقت؟ کہا کہ یہ فتح خداوند کریم کی جانب سے ایک عظیم نصرت تھی اور ایک معجزہ سے کم نہیں تھی، اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیلی فوج خطے کی ایک طاقتور ترین فوج سمجھی جاتی ہے اور ہماری اصلی جنگ ہوائی مقابلے کی صورت میں تھی۔

 

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ تعداد، اسلحہ اور دیگر وسائل کے اعتبار سے حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان بالکل موازنہ نہیں کیا جا سکتا لیکن مجاہدین کے ایک گروہ نے اپنے شرعی وظیفے کا احساس کرتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی کوشش کی اور خدا نے انہیں فتح اور کامیابی عطا کی، ہم روزمرہ اور معمولی قوانین کی روشنی میں بالکل سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان 33 دنوں میں کیا گزرا کیونکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل کے پاس کیا ہے اور ہمارے پاس کیا ہے۔

 

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اس سوال کے جواب میں کہ اسرائیل کے خلاف 33 روزہ جنگ میں آپ کی کامیابی کا راز کیا تھا ؟ کہا کہ خداوند اس وقت انسانوں کی مدد کرتا ہے جب وہ امتحان کے مرحلے سے گزر چکے ہوں، لبنان میں جو کچھ گذشتہ کئی عشروں خاص طور پر 1982 کے بعد انجام پایا وہ ان مخلص افراد کی مزاحمتی تحریک تھی جنہوں نے بڑی تعداد میں شہید اور زخمی پیش کئے اور اپنی فداکاری اور ایثار کے ذریعے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ خدا پر ان افراد کا یقین ان چند سالوں کے بعد ایمان میں تبدیل ہو گیا اور انہوں نے ایثار کا عظیم مظاہرہ کیا، ان 33 دنوں میں اسرائیل نے ہمارے مجاہدوں پر اتنی مقدار میں بم اور میزائل گرائے جو اس نے عرب ممالک کے ساتھ اپنے تمام گذشتہ جنگوں میں گرائے تھے لیکن ہمارے ایک مجاہد نے بھی میدان خالی نہیں کیا اور ڈٹ کر اسرائیل کا مقابلہ کیا، یہ معنوی آمادگی گذشتہ 20 یا 30 سال کی مزاحمت کا نتیجہ تھی۔

 

حزب اللہ کی میزائل طاقت دنیا کے 90 ممالک کے پاس نہیں:

 

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ آج اسرائیل خود یہ اعتراف کرتا ہے کہ حزب اللہ 2006 کی نسبت کئی گنا طاقتور ہو چکی ہے، حزب اللہ لبنان کی طاقت پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے اور اسرائیل اس کو مان چکا ہے۔

 

سید حسن نصراللہ نے اس سوال کے جواب میں کہ آج کی حزب اللہ اور 2006 کی حزب اللہ میں کیا فرق ہے؟ کہا کہ حزب اللہ کی عوام میں مقبولیت باعث بنی ہے کہ وہ ماضی کی نسبت زیادہ طاقتور ہو جائے، ہمارے مجاہدین کی تعداد بھی پہلے سے زیادہ ہے اور ہمارا اسلحہ بھی زیادہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کے میزائل مقبوضہ فلسطین کے کسی بھی حصے کو نشانہ بنانے کی بھرپور صلاحیت کے حامل ہیں، حزب اللہ کی فوجی طاقت ماضی کی طاقت سے قابل موازنہ نہیں۔

 

اسلامی جمہوریہ ایران اسلامی مزاحمت کی مضبوط تکیہ گاہ ہے:

 

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ لبنان اور خطے میں جو بات مشہور ہے وہ یہ کہ 2006 میں ہونے والی جنگ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان انجام پائی لیکن پشت پردہ بہت سی باتیں سننے میں آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہران میں نماز جمعہ کے خطبے میں کہا تھا کہ ہم خطے میں اسرائیل مخالف تحریکوں کی مدد اور حمایت کرتے ہیں، یہ ایک واقعیت ہے۔ حزب اللہ ایک لبنانی تنظیم ہے اور اسکے رہنما بھی لبنانی ہیں، حزب اللہ لبنان کی خاطر جنگ لڑ رہی ہے اور ایران خدا کی خاطر ہماری مدد کر رہا ہے، ہمیں ایران کا شکریہ ادا کرنا چاہئے، اسلامی جمہوریہ ایران اسلامی مزاحمت کی ایک مضبوط تکیہ گاہ ہے۔

 

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اگر اسرائیل کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا وہ کمزور ہوتا ہے تو اس میں لبنان، فلسطین، مصر، ایران اور تمام اسلامی ممالک کا فائدہ ہے، ہم اس مسئلے کو اس نظر سے دیکھتے ہیں، یہ ایک خالصانہ سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ اعتقادی، دینی اور سیاسی مسئلہ ہے۔

 

ایران روز بروز طاقتور ہوتا جا رہا ہے:

 

سید حسن نصراللہ نے اس سوال کے جواب میں کہ آپکی نظر میں امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کا کس قدر امکان ہے کہا لبنان میں اسرائیل کی شکست اور عراق اور افغانستان میں امریکہ کی شکست کے پیش نظر اسکا امکان بہت کم ہے، دوسری طرف ایران روز بروز طاقتور ہوتا چلا جا رہا ہے اور خطے میں اسکے طاقتور دوست موجود ہیں۔

 

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایران کے ساتھ کسی قسم کی جنگ ان کیلئے انتہائی مہنگی ثابت ہو سکتی ہے، جنگ کی دھمکیاں صرف اور صرف ایک نفسیاتی حربہ ہے جسکا مقصد ایران کے ساتھ مذاکرات میں اپنے مطالبات منوانا ہے۔ انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا ایران خطے کیلئے ایک خطرہ ہے؟ کہا کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بعض ممالک کی جانب سے یہ منفی پروپیگنڈہ کیا گیا لیکن اس میں کوئی حقیقت نہیں۔

 

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ کیونکہ ایران اسرائیل کیلئے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے لہذا عالمی سطح پر ایران کے خلاف دشمنی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ کوشش 1979 سے جاری ہے۔ گذشتہ کئی سالوں کے دوران جب بھی خطے میں سروے انجام دیا گیا تو لوگوں نے امریکہ اور اسرائیل کو اپنا دشمن نمبر ون قرار دیا اور ایران کو اپنا دوست ظاہر کیا، یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل اپنے منصوبوں میں بری طرح ناکامی کا شکار ہوا ہے، انہوں نے اس منصوبے پر بہت زیادہ اخراجات کئے ہیں لیکن انہیں اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

 

خطے میں جنم لینے والی تحریکیں اسلامی بیداری کی تحریکیں ہیں:

 

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ خطے میں پیدا ہونے والی عوامی تحریکیں ایک ناقابل انکار حقیقت ہیں جنہوں نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کو اپنا رول ماڈل بنا رکھا ہے، ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد خطے میں سیاسی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو گئیں جو بعد میں فسلطینی انتفاضہ، 33 روزہ جنگ، 22 روزہ جنگ اور عراق میں عوامی مزاحمت کے نتیجے میں امریکہ کی شکست کی صورت میں ظاہر ہوئیں۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اگر قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای ان تحریکوں کو اسلامی بیداری کا نام دیتے ہیں تو یہ بالکل صحیح اقدام ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اسکے پٹھو ان تحریکوں کو اغوا کرنا چاہتے ہیں اور انکی ان کوششوں کو لیبیا، تیونس اور مصر میں آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔

سالہا سال کے انتظارکے بعد فرانس کے مسلمانوں نے اس ملک کے شہرسرگی کی مسجد میں پہلی مرتبہ نماز قائم کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق فرانس کے شہر سرگی کے مسلمان باشندوں نے کئی سالوں کے انتظارکے بعد پہلی مرتبہ اس شہرکی جامع مسجد میں نمازجماعت قائم کی ہے۔

یاد رہے کہ اس شہر اور اطراف کے دیگر علاقوں کے باشندوں نے اس مسجد میں نمازجعمہ قائم کی ہے جن میں پانچ ہزارمرد اور ایک ہزار خواتین تھیں۔

قابل ذکرہے کہ فرانس کی چھ کروڑ کی آبادی میں سے ساٹھ لاکھ مسلمان ہیں اور اس مسجد میں اس وقت تقریبا ۱۵۰مساجد کو تعمیرکیا جارہا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس سالوں کے دوران اس ملک میں مساجد کی تعداد دوگنی ہو کر دو ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔

 

 

عائلي اور خانداني نظام زندگي ميں ايک مسلمان عورت اپنے گھرانے ميں بہت سے وظائف کي حامل ہے کہ جو گھرانے ميں اُس کے بنيادي رکن ہونے ، تربيت اولاد، ہدايت اور شوہر کي روحي تقويت کرنے عبارت ہيں- ايران ميں شاہي طاغوتي حکومت سے مقابلوں ميں بہت سے مرد ميدان ِ مبارزہ ميں نبرد ميں مصروف تھے ليکن اُن کي خواتين نے انہيں اجازت نہيں دي کہ وہ شاہي حکومت سے مقابلے کو جاري رکھيں ، کيونکہ ان ميں اِس بات کي قوت نہيں تھي کہ وہ مقابلے کي سختيوں کو تحمل کريں- اِس کے برخلاف بہت سي خواتين اس مبارزے کي راہ ميں استقامت اور ڈٹے رہنے پر نہ صرف يہ کہ اپنے شوہروں کي حوصلہ افزائي کرتيں تھيں بلکہ اُن کي مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کي ہمتوں کو بلند رکھنے کيلئے روحي طور پر اُن کي پشت پناہي بھي کرتيں تھيں-

سن 1977 اور 1978 کے عوامي مظاہروں ميں جب ملک کے کوچہ و بازار سب عوام سے بھرے پڑے تھے تو خواتين اپنے شوہروں اور بچوں کو مظاہروں ،شاہي حکومت سے مبارزے و مقابلے کرنے اور عوامي رضا کار فوجي (بسيج) کو فعال بنانے ميں اہم اور کليدي کردار کي حامل تھيں-

انقلاب اور آٹھ سالہ تھونپي گئي جنگ کے دوران ہماري ماوں نے اپنے بيٹوں کو راہ اسلام ميں سر بہ کف مجاہدوں اور دليروں ميں جبکہ بيويوں نے اپنے شوہروں کو صاحب ِ استقامت اور مضبوط انسان ميں تبديل کرديا تھا- يہ ہے اولاد اور شوہر کيلئے بيوي کا کردار اور اس کے عمل کي تاثير- يہ وہ کردار ہے کہ جسے ايک عورت اپنے گھر ميں ادا کرسکتي ہے اوريہ اُس کے بنيادي کاموں ميں سے ايک کام ہے اور ميري نظر ميں عورت کا يہ کام اُس کے سب سے زيادہ اہم ترين کاموں ميں شامل ہے- اولاد کي صحيح تربيت اور زندگي کے بڑے بڑے ميدانوں اورامتحانوں ميں قدم رکھنے کيلئے شوہر کي روحي طور پر مدد کرنا ايک عورت کے اہم ترين کاموں ميں شامل ہے - ہم خدا کے شکر گزار ہيں کہ ہماري مسلمان ايراني خواتين نے اس ميدان ميں بھي سب سے زيادہ خدمات انجام ديں ہيں-

البتہ ايران کي شجاع، ہوشيار، استقامت اور صبر کرنے والي خواتين نے انقلاب اور جنگ کے زمانے ميں، خواہ محاذ جنگ پر ہوں يا محاذ جنگ کے پيچھے يا پھر گھر کي چار ديواري کے اندر بالعموم تمام ميدانوں ميں بہت فعال کردار ادا کيا ہے اور آج بھي سياست ، ثقافت اورانقلاب کے ميدانوں ميں بھي عالمي دشمنوں کے مقابلے ميں اپنا بھсور کردار ادا کر رہي ہيں-

وہ افراد جو ہمارے وطن اور اسلامي جمہوريہ کے نظام کا تجزيہ و تحليل کرنا چاہتے ہيں جب اِن مصمّم ارادوں، اس آگاہي اورشعوروشوق کا مشاہدہ کريں گے تو ايراني قوم اور اسلامي جمہوريہ کے نظام کے مقابلے ميں ستائش و تعظيم کا احساس کريں گے-

 

کتاب کا نام : عورت ، گوہر ہستي

تحرير : حضرت آيت اللہ العظميٰ امام سيد علي حسيني خامنہ اي دامت برکاتہ