Super User

Super User

حضرت آيت الله العظمي سيد علي خامنه اي :

آج عراق میں شیعہ اورسنی کو ایک دوسرے کے خلاف لڑانا چاہتے ہیں پاکستان میں بھی یہ کام کرنا چاہتے ہیں افغانستان میں اگر ممکن ہوتا یہ کام کرنا چاہتےہیں اگر ایران میں انہیں موقع ملے تو ایسا کریں گے جہاں بھی انہیں موقع ملے وہ یہ کام کریں گے ہمیں اطلاع ملی ہےکہ سامراج کے آلہ کار لبنان بھی گۓ ہیں تاکہ شیعہ اورسنی اختلافات پھیلائيں ۔

وہ لوگ جو اختلافات پھیلاتے ہیں وہ نہ شیعہ ہیں نہ سنی، نہ شیعوں سے انہیں کوئي لگاؤ ہے اور نہ سنیوں سے، نہ شیعوں کے مقدسات کو مانتے ہیں اور نہ سنیوں کے ، چند دنوں قبل امریکی صدر بش نے اپنی تقریر میں عراق کے شہر سامرا میں حضرت امام علی نقی اور حضرت امام حسن عسکری علیھما السلام کے روضوں میں بم دھماکوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سلفیوں کو اس کا ذمہ دار قراردیا اور شیعوں کو اس طرح بھڑکایا اور اس میں کامیاب بھی رہے ،مقدس روضوں میں بم دھماکے امریکیوں کے سامنے ہوئے ہیں ،اسی شہر میں حضرات عسکرییں علیھماالسلام کے روضوں میں بم دھماکے ہوئے ہیں جو امریکیوں کے زیرکنٹرول ہے اور امریکہ کی مسلح افواج اس شہرمیں گشت کررہی ہیں امریکیوں کی آنکھوں کے سامنے یہ ہوا ہے ،کیا یہ ممکن ہے کہ امریکیوں کی اطلاع کے بغیر امریکیوں کی اجازت کے بغیر اور امریکیوں کی منصوبہ بندی کے بغیر یہ واقعہ ہواہو خود امریکیوں نے یہ کام کیا ہے ۔

(شیعہ سنی علماء سے خطاب، 15/01/2007)

جامعہ قرویین یا مسجد قرویین (عربی: جامعة القرويين ) مراکش کے شہر فاس میں واقع ایک جامعہ اور (کاسا بلانکا کی مسجد حسن ثانی کے بعد) ملک کی دوسری سب سے بڑی مسجد ہے۔ 859ء میں قائم ہونے والی یہ جامعہ مسلم دنیا کے اہم تعلیمی مراکز میں سے ایک ہے اور دنیا کی سب سے قدیم جامعہ ہے جہاں آج تک تعلیم دی جاتی ہے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز اسے "اب تک موجود دنیا کا سب سے قدیم تعلیمی ادارہ" قرار دیتا ہے۔

جامعہ قرویین نے قرون وسطیٰ میں یورپ اور اسلامی دنیا کے درمیان ثقافتی ور اکادمی تعلقات میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ اس میں تعلیم حاصل کرنے والے معروف غیر مسلموں میں یہودی فلسفی موسیٰ بن میمون (1135ء تا 1204ء) سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ معروف جغرافیہ دان محمد الادریسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے فاس میں کچھ عرصہ گذارا تھا اور اس دوران القرویین میں تعلیم حاصل کی۔ یورپ کو عربی اعداد اور صفر کا نظریہ دینے والے پوپ سلویسٹر ثانی نے بھی اس جامعہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔

 

تاریخ

مسجد قرویین کو محمد الفہری نامی ایک دولت مند تاجر کی صاحبزادی فاطمہ الفہری نے 859ء میں تعمیر کروایا تھا۔ الفہری خاندان نویں صدی کے اوائل میں تیونس کے شہر قیروان سے فاس ہجرت کر گیا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ فاطمہ اور ان کی بہن مریم نے وراثت میں والد سے بڑی دولت پائی اور فاطمہ نے اپنے حصے میں آنے والی تمام دولت مسجد کی تعمیر پر خرچ کر دی۔ اور مسجد کو اپنے آبائی شہر کا نام دیا۔ یہ واقعہ مسلم تہذیب میں عورتوں کے کردار اور ان کی قربانیوں کا عکاس ہے اور موجودہ دور میں اسلام کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا بھرپور جواب بھی۔

1349ء میں بنو مرین کے سلطان ابو انس فارس نے مسجد کے ساتھ کتب خانے کا اضافہ کیا جہاں نادر قلمی نسخے رکھے گئے جن میں امام مالک کی موطا المالک، سیرت ابن اسحاق، 1602ء میں سلطان منصور ذہبی کی جانب سے جامعہ کو دیے گئے نسخۂ قرآن اور ابن خلدون کی کتاب العبر (Al-"Ibar) شامل ہیں۔

جائے عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ جلد ہی یہ مسجد دنیا بھر کے علوم کا مرکز بن گئی۔ 1957ء میں شاہ محمد پنجم نے ریاضی، طبیعیات، کیمیا اور غیر ملکی زبانوں کے علوم بھی متعارف کرائے۔ جامعہ میں قرآن اور فقہ کے علامہ صرف و نحو، منطق، ادویات، ریاضیات، فلکیات، کیمیا، تاریخ، جغرافیہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔

 

مسجد

مختلف حکمرانوں نے قرویین مسجد میں توسیع کی اور بالآخر یہ شمالی افریقہ کی سب سے بڑی مسجد بن گئی جس میں 20 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہوگئی۔ اصل میں مسجد صرف 30 میٹر طویل تھی۔ اس میں پہلی بڑی توسیع زیناتا قبیلے نے 956ء میں کی۔ تاریخی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ اندلس میں اموی خلیفہ عبدالرحمٰن الثالث نے اس توسیع کے لیے کثیر رقم بھیجی۔ اس توسیع میں اس میں مینار کا اضافہ بھی کیا گیا۔

موحدین کی حکومت میں مسجد میں مزید توسیع ہوئی۔ 1135ء میں امیر علی بن یوسف نے مسجد میں 18 سے 21 صفوں کی توسیع کی ہدایت کی جس سے مسجد کا رقبہ تین ہزار مربع میٹر ہو گیا۔

اِس وقت مسجد میں دو مینار ہے جن میں ایک قدیم اور ایک برج النفارہ نامی نیا مینار ہے۔ قدیم مینار فاس میں قدیم ترین اسلامی یادگار ہے۔

اس مسجد کا طرز تعمیر قرطبہ کی جامع مسجد سے ملتا جلتا ہے۔

اس مسجد میں غیر مسلموں کے داخلے کی ممانعت ہے تاہم وہ باہر سے مسجد کا دلکش نظارہ دیکھ سکتے ہیں۔

 

 

Saturday, 14 July 2012 04:13

ماتریدیہ

فرقہ ماتریدیہ سرزمیں ماوراء النھرمیں وجود میں آیا ہے جب ماوراء النھر کو مسلمانوں نے فتح کیا تو اس میں نیم خودمختار حکومتیں قائم ہوگئیں عباسی حکمران مامون نے بنی اسد بن سامان کو اس سرزمین کے بعض حصوں پر حکومت کے لۓ منتخب کیا۔

 

ماتریدیہ فرقے کا بانی ابومنصور ماتریدہ ہے جس کی پیدائیش 238 ہجری قمری اور وفات 333 ہجری قمری میں ہوئي ابو منصور ذکاوت و نبوغ و جدل میں کافی مہارت رکھتے تھے انہون نے اپنے فرقے کی تاسیس میں بزرگ اساتذہ سے استفادہ کیا ہے ان میں محمد بن مقاتل رازی ،ابو نصر عیاضی ،ابوبکر احمد بن اسحاق الجوزجانی اور نصیر جن یحی بلخی قابل ذکر ہیں ۔

ابو منصور نے بزرگ اساتذہ سے استفادہ کرنے کے علاوہ بہت سے شاگردوں کی تربیت کی ہے ان میں ابوالقاسم حکیم سمرقندی ،علی رستغفنی ،ابو محمد عبدالکریم بردوی اور احمد عیاضی قابل ذکر ہیں ۔

ابو منصور نے تاویلات قرآن کے بارے میں ایک تاویلی تفسیر لکھی ہے اور علم کلام میں کتاب التوحید تحریر کی ہے جس میں مختلف فرقوں کے کلامی آراء کا ذکر کیا ہے ان کی دو اور کتابیں ہیں جس کے نام شرح فقہ الاکبر اور رسالۃ فی العقیدہ ہے ان کی فقہی کتابوں میں ماخذالشرایع والجدل قابل ذکر ہیں ۔

ماتریدیہ کی مشہورشخصیتیں

1- ابو یسر بزدوی

2-ابولمعین نسفی

3 -نجم الدین نسفی

4 -نورالدین صابونی

 

ماتریدیہ کی کلامی روش کے بارے مین تین قول ہیں ۔

1- ماتریدیہ کی روش اشعری کی طرح ہے

2 -ان کی روش معتزلہ سے نزدیک ہے

3 -اشعری اور معتزلہ کے مابین ہے

 

ماتریدیہ کے نزدیک عقل و سمع دین و شریعت کے سمجھنے کے دو اہم منابع ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ خدا کی معرفت حصول نقل سے پہلے عقل سے ثابت ہوتی ہے اور ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ خدا کی معرفت عقل کے ذریعے حاصل کرے اسی بناپر حسن و قبح عقلی پر بھی یقین رکھتے ہیں ،ان کے دیگر نظریات بطور اختصار حسب ذیل ہیں ۔

ماتریدیہ اور ابومنصور کا عقیدہ ہےکہ نصوص کو ان کے حقیقی معنی پر حمل کرنے سے تجسم و تشبیہ لازم آتی ہے بنابریں قرآن و حدیث میں مجاز کا استعمال ہواہے لھذا تاویل و تفویض ایسے اصول ہیں جن پر ماتریدیہ کے اصول عقائد استوار ہیں

 

ماتریدیہ کی نظر میں توحید کی کئي قسمیں ہیں ۔

1- توحید در صفات یعنی خدا کی کس صفت میں اس کا کوئي نظیر نہیں ہے ۔

2-توحید در ذات یعنی ذات خداوندی میں کثرت نہیں ہے ۔

3 -توحید در افعال یعنی نفی خدا اپنے افعال کی انجام دہی میں غیر خدا سے تاثیر قبول نہیں کرتا ہے ۔

4- توحید ربوبی یعنی انسان کے لۓ خدا کی معرفت فطری معرفت سے مکمل نہیں ہوتی اور اسے صرف عقل سے ہی مکمل کیا جاسکتا ہے ۔

 

تکلم خداوند

خدا کےتکلم پر ماتریدیہ جو دلیل لاتے ہیں وہ عقلی دلیل ہے جو جسب ذیل ہے ۔

کلام صفات مدح و کمال میں سے ہے اور خدا متعال حی و قدیم ہے اور اس کے قدم کی شرط میں سے ہے کہ تمام کمالات کا ثبوتا حامل ہو لھذا اس کا متکلم ہونا ضروری ہے ورنہ اس میں نقص لازم آے گا ۔

 

نبوت

اثبات نبوت اور عوام کا اسے قبول کرنا نبی کی طرف سے معجزہ پیش کۓ جانے پر اور اس کی طرف سے چلینج قبول کرنے پر منحصرہے ماتریدیہ کے نزدیک اولیاء کی کرامات بھی یہی حکم رکھتی ہی‍ں ۔

قابل ذکر ہے کہ اہل سنت کے کلامی فرقوں میں ماتریدیہ کلام شیعہ سے سب سے زیادہ نزدیک ہے اوراس وقت مذھب اشعری کے بعد اہل سنت کا دوسرا کلامی مکتب ہے اور اہل سنت کی ایک بڑی تعداد بالخصوص مذھب حنفی کے پیرو کلام ماتریدی کی اتباع کرتے ہیں ۔

 

ماخذ

1 -الماتریدیہ دراسۃ وتقویما ڈاکٹر احمد بن عوض اللہ الحربی

2 -آراء ابن منصور الماتریدیہ الکلامیہ القاسم بن حسن

3 -ابکار والافکار الآمدی

4- تاویلات اہل السنۃ لابی منصور الماتریدی

5- رسالۃ فی الخلاف بین اشاعرہ والماتریدیہ محمد بن محمد بن شرف الخلیلی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے (بروز بدھ ۲۰۱۲/۰۷/۱۱ ) عالم اسلام کی ایک ہزار سے زائد مجاہد، دانشور اور ممتاز خواتین سے ملاقات میں اسلامی بیداری کی عظيم تحریک میں خواتین کے نقش کو بےمثال قراردیا اورانقلاب اسلامی ایران کی کامیابی اور دوام میں ایرانی خواتین کے پر برکت اور شاندار کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بیشک اسلامی بیداری کی مبارک تحریک میں خواتین کی وسیع پیمانے پر شرکت ، دوام اور استحکام ،مسلمان قوموں کے لئے بیشمار کامیابیوں کا موجب بنےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بیداری اسلامی اور خواتین کے بین الاقوامی اجلاس میں 85 ممالک سے ممتاز مسلمان خواتین کی شرکت کو عالم اسلام کی خواتین کی ایکدوسرے کے ساتھ پہچان اور شناخت کے سلسلے میں بہت ہی اہم موقع قراردیتے ہوئے فرمایا: اس اجلاس میں حاصل ہونے والی آشنائی اور باہمی شناخت کو مسلمان خواتین کی شخصیت اور تشخص کے احیاء کے لئے مؤثر اور یادگار تحریک کا مقدمہ اور شروعات قراردینا چاہیے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی تشخص سے مسلمان عورتوں کو دور کرنے کے لئے مغربی اور سامراجی طاقتوں کی 100 سالہ پیچیدہ اور ہمہ گیر کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس تشخص کو بحال کرنے کے سلسلے میں عالم اسلام کی ممتاز خواتین کی کوششیں درحقیقت امت اسلامی کی عظیم خدمت ہے کیونکہ امت مسلمہ کی عزت و کرامت اور اسلامی بیداری پر مسلمان خواتین کی بصیرت، آگاہی اور تشخص کےاحساس کے دوچنداں اور حیرت انگیز اثرات مرتب ہوں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عورت کے بارے میں مغربی نقطہ نظر کو عورتوں کی توہین قراردیتے ہوئے فرمایا: مغربی ممالک اپنے سماج و ثقافت میں عورتوں کو اجناس کی فروخت اور مردوں کی لذت کا وسیلہ سمجھتے ہیں اوروہ اس ہدف کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے تمام وسائل سے استفادہ کررہےہیں اور اس کے ساتھ وہ اپنی اس پست ، ذلت آمیز ، گمراہ اور بری حرکت کو آزادی کا نام بھی دے رہے ہیں اور اسی طرح وہ انسانی حقوق، حریت پسندی اور جمہوریت کے نام پر اپنے ہولناک جرائم کا ارتکاب، قوموں کی لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت اوردوسرے ممالک پر فوجی یلغار بھی کرتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عورت کے بارے میں اسلام کے نقطہ نظر کو مغربی نقطہ نظر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہوئے فرمایا: اسلام عورت کی عزت ،کرامت اور رشد و ترقی کا خواہاں ہے اور عورت کے لئے مستقل شخصیت اور تشخص کا قائل ہے۔

 

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران کی ممتاز خواتین کے مختلف سیاسی، سماجی ، مدیریتی اور علمی میدانوں میں کامیاب تجربے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی ماحول میں عورت علمی رشد و ترقی کے ساتھ سیاسی میدان میں حاضر ہوتی ہے اور سماج کے سب سے بنیادی مسائل میں پہلی صفوں میں کام انجام دیتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ اسی طرح عورت ہی باقی رہتی ہے اور اس مسئلہ پر افتخار بھی کرتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مغربی معاشرے میں خاندانی سقوط اور غیر مشروع بچوں کی پیدائش میں اضافہ کو عورت پر مغربی نقطہ نگاہ کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: مغربی ممالک پر اسی جگہ سے مہلک چوٹ پڑےگی اور مغربی ممالک میں پے درپے سماجی حوادث کی بنا پرخاندانی نظام درہم و برہم ہوجائےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مرد و عورت کو اسلام میں مشترکہ انسانی خصوصیات کا حامل قراردیتے ہوئے فرمایا: مرد و عورت ہر ایک اپنی خصوصیات اورجسمانی ساخت کی بنا پر خلقت کے دوام ، انسان کی ترقی و بلندی اور تاریخ کی حرکت کے سلسلے میں خاص نقش اپنے دوش پر لئے ہوئے ہیں اور اس میں نسل انسانی کو دوام بخشنے کے سلسلے میں عورت کا نقش بہت ہی اہم اور ممتازہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: خاندان اور جنسی روابط کے متعلق اسلام کے قوانین و مقررات کو بھی اس نقطہ نظر سے دیکھنا اور سمجھنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی نقطہ نظر سے عورت کے نقش و کردار کو ممتاز اور برجستہ کرنے کے لئے عالم اسلامی کی ممتاز اور دانشور خواتین کی سب سے اہم اور بڑی ذمہ داری قراردیا اور ایران میں حالیہ 33 برسوں میں ایرانی خواتین کے بنیادی نقش کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: سماجی حالات، انقلابات اور اسلامی بیداری تحریک میں خواتین کا نقش فیصلہ کن نقش ہوتا ہے کیونکہ جہاں بھی کسی سماجی تحریک میں عورتوں کی آگاہانہ شرکت ہوتی ہے اس تحریک کی پیشرفت اور کامیابی یقینی ہوجاتی ہے اور اس حقیقت کے پیش نظر مصر، لیبیا، بحرین، یمن اور عالم اسلام کے دیگر نقاط میں عورتوں کی شرکت کو مضبوط بنانے اور دوام بخشنے کی اہمیت مزید نمایاں ہوجاتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی بیداری تحریک کو بے نظیر اور بے مثال قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر اسلامی بیداری تحریک کو درپیش خطرات اور چیلنجوں کو پہچان لیا جائے اور ان کا صحیح طریقہ سےمقابلہ کیا جائے تو موجودہ تاریخ کی راہ کو تبدیل کیاجاسکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شمال افریقہ اور دیگر علاقوں میں اسلامی بیداری اور مسلمان قوموں کے انقلاب کی تجلیل اور تعریف کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ اور صہیونیزم کی سرپرستی میں سامراجی طاقتیں اس عظیم تحریک کے مقابلے میں غافلگیر ہوگئی ہیں اور وہ اپنی تمام کوششوں کے ذریعہ اس عظیم عوامی تحریک کو منحرف کرنے اور اس عظیم لہر پر سوار ہونے کی تلاش و کوشش کررہی ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی بیداری کو کنٹرول کرنے کے لئے عالمی سامراجی طاقتوں کے طریقہ کار کے سلسلےمیں قوموں کے میدان میں موجود رہنے کے جذبات کو کم کرنے ، علاقائی ممالک کے عوام میں اختلاف ڈالنے اور فریبکارانہ مسائل پیدا کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر مسلمان قومیں دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں اسی طرح میدان میں موجود رہیں تو سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں ان کی کامیابی یقینی ہے کیونکہ قوموں کے ایمان اور ان کے حضور کے مقابلے میں تمام سامراجی طاقتوں کی طاقت و قدرت کی شمشیر کند اور ناکارہ ہوجائے گی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حالیہ 33 برسوں میں ایرانی قوم اور اسلام کے شکست خوردہ دشمنوں کی پیہم اور مسلسل سازشوں اور اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:مغربی ممالک آج ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں پر شور اور جنجال برپا کرتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ انھوں نے حالیہ 30 برسوں میں ایرانی قوم کے خلاف ہر پابندی عائد کرکے خود ایرانی کو تحفظ فراہم کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نےفرمایا: حالیہ تین عشروں میں ایرانی قوم اپنی جان و مال اور اپنے عزیزوں کے ذریعہ دشمنوں کی تمام سازشوں اور پابندیوں کے خلاف استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترقی اور پیشرفت کی سمت گامزن رہی ہے اور ہم آج 30 برس پہلے کی نسبت سوفیصد طاقتور اور مضبوط ہوگئے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف شعبوں میں ایران کی ترقیات کی طرف اشارہ کیا اور عالم اسلام کی ممتاز دانشور خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: آج ایران کی سرافراز و سربلند خواتین ملک کی ترقیات کے تمام شعبوں میں سرگرم عمل ہیں اور ایران کی ممتاز دانشور خواتین ملک کی سب سے مؤمن، پاک اور انقلابی خواتین ہیں جبکہ مغربی ممالک اپنے تمام تبلیغاتی وسائل اور ذرائع کے ذریعہ اس درخشاں حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی تلاش و کوشش کررہے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین سے اسلامی جمہوریہ ایران کو الگ تھلگ اور دور کرنے کی مغربی ممالک کی ناکام کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہم شیعہ و سنی کےانحرافی و اختلافی مسائل سے دور رہ کر تمام مسلمان بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ ایران فلسطینی قوم، تمام انقلابی اور بیدار قوموں اور تمام ان افراد کے ساتھ کھڑی ہے جو امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ہیں اور ایران ان تمام قوموں کا دفاع کرنے میں کسی شخص اور کسی طاقت کو ملحوظ نہیں رکھےگا۔

اس ملاقات میں خواتین کے بین الاقوامی سمینار اور اسلامی بیداری اجلاس کی سکریٹری محترمہ حجازی نے دنیا کے 85 ممالک سے 1200 ممتاز دانشور خواتین کی سمینار میں موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خواتین کے بین الاقوامی سمینار اور اسلامی بیداری کے بارے میں جامع رپورٹ پیش کی۔

 

عالمی اسلامی بیداری کونسل کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر ولایتی نے بھی اپنے خطاب میں گذشتہ سال سے اب تک اسلامی بیداری کے چوتھے بین الاقوامی سمینار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: عالمی اسلامی بیداری کونسل ،سمیناروں کے انعقاد کے ذریعہ اسلامی بیداری کی تحریک کو زندہ اور مؤثر بنانے کی تلاش و کوشش کررہی ہے۔

اس ملاقات کے آغاز میں اسلامی بیداری اور خواتین کے بین الاقوامی اجلاس میں شریک بعض مہمان خواتین نے اپنے نظریات اور خیالات کا اظہار کیا:

خواتین:

محترمہ ھنا محبی صابر الشلبی – اسرائیلی جیل سے آزاد

ڈاکٹر نجلی محمد کامل- مصر یونیورسٹی کی فیکلٹی کی رکن

ھاجر عبد الکافی- پی ایچ ڈی حقوق، تیونس کی سیاستداں اور جیل سے آزاد

حوریہ محمد احمد- یمن میں مذہبی و سیاسی سرگرم رکن

انسجام عبد الزھرہ جواد- عراق میں میڈيا اور ثقافتی امور کی سرگرم کارکن

وجدان میلاد- لیبیا کی الزیتونیہ یونیورسٹی کی فیکلٹی کی رکن

بحرین کے چودہ سالہ نوجوان شہید علی شیخ کی ماں

رضا آوا – آذربائیجان میں ثقافتی امور سے منسلک

محترمہ مجتہد زادہ- لبنان میں اغوا شدہ ایرانی سفارتکار کی ھمسر

بتول موسوی- لبنان کے شہید سید عباس موسوی کی بیٹی

مذکورہ خواتین نے مندرجہ ذيل نکات پر تاکید کی:

٭ علاقہ میں جاری اسلامی بیداری پر انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے اثرات

٭ علاقائی اسلامی تحریکوں میں خواتین کا ممتاز کردار و مقام

٭ اسلام کی بنیاد پر عربی اور اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد پر تاکید

٭ مسلمان خواتین کے نظریات اور خیالات کے باہمی تبادلے پر تاکید

٭ اسلامی تشخص و ثقافت کے خلاف مغربی ممالک کی سازشوں کا مقابلہ کرنے پر تاکید

٭ حضرت امام حسین (ع) کی تحریک اور حضرت زینب (س) کی استقامت کو نمونہ عمل بنانے پر تاکید

یہ قبرستان پہلے ایک باغ تھا ۔ عربی زبان میں اس جگہ کا نام ”البقیع الغرقد “ ہے بقیع یعنی مختلف درختوں کا باغ اور غرقد ایک مخصوص قسم کے درخت کا نام ہے چونکہ اس باغ میں ایسے درخت زیادہ تھے اس وجہ سے اسے بقیع غرقد کہتے تھے اس باغ میںچاروں طرف لوگوں کے گھر تھے جن میں سے ایک گھر جناب ابو طالب (ع) کے فرزند جناب عقیل (ع) کا بھی تھا جسے ”دارعقیل “ کہتے تھے بعد میں جب لوگوں نے اپنے مرحومین کو اس باغ میں اپنے گھروں کے اندر دفن کرنا شروع کیا تو ”دار عقیل “ پیغمبر اسلام (ص) کے خاندان کا قبرستان بنا اور ”مقبرہ بنی ہاشم “ کہلایا رفتہ رفتہ پورے باغ سے درخت کٹتے گئے اور قبرستان بنتا گیا۔

مقبرہ ٴبنی ہاشم ، جو ایک شخصی ملکیت ہے ، اسی میں ائمہ اطہار (ع) کے مزارتھے (1)

اس مقدس قبرستان میں دفن ہونے والے عمائد اسلام کے تذکرے سے قبل یہ بتا دینا ضروری ہے کہ بقیع کا احترام ، فریقین کے نزدیک ثابت ہے اور تمام کلمہ گویان اس کا احترام کرتے ہیں اس سلسلے میں فقط ایک روایت کافی ہے ” ام قیس بنت محصن کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں پیغمبر (ص) کے ہمراہ بقیع پہونچی تو آپ (ص) نے فرمایا : اس قبرستان سے ستر ہزار افراد محشور ہوں گے جو حساب و کتاب کے بغیر جنت میں جائیں گے ، نیز ان کے چہرے چودھویں کے چاند کی مانند دمک رہے ہوں گے“ (2)

ایسے با فضیلت قبرستان میں عالم اسلام کی ایسی عظیم الشان شخصیتیں آرام کر رہی ہیں جن کی عظمت و منزلت کو تمام مسلمان ،متفقہ طور پر قبول کرتے ہیں ۔

جنت البقيع – ايك پرانا تصوير

آیئے دیکھیں کہ وہ شخصیتیں کون ہیں :

۱)امام حسن مجتبی ٰ (ع) : آپ پیغمبر اکرم (ص) کے نواسے اور حضرات علی (ع) و فاطمہ (ع) کے بڑے صاحب زادے ہیں ۔آپ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسین (ع) نے آپ کو پیغمبراسلام (ص) کے پہلو میں دفن کرنا چاہا مگر جب ایک سرکش گروہ نے راستہ روکا اور تیربرسائے تو امام حسین (ع) نے آپ کو بقیع میں دادی کی قبر کے پاس دفن کیا ۔ اس سلسلہ میں ابن عبد البر سے روایت ہے کہ جب یہ خبر ابو ہریرہ کو ملی تو کہا : واللہ ما ھو الا ظلم ، یمنع الحسن ان ید فن مع ابیہ ؟واللہ انہ لابن رسول اللہ (ص) ( خدا کی قسم یہ سرا سر ظلم ہے کہ حسن (ع) کو باپ کے پہلو مین دفن ہونے سے روکا گیا جب کہ خداکی قسم وہ رسالت مآب صلعم کے فرزند تھے )(3)۔آپ کی مزار کے سلسلہ میں ساتویں ھجری قمری کا سیاح ابن بطوطہ اپنے سفرنامہ میں لکھتا ہے کہ :بقیع میں رسول اسلام (ص) کے چچا عباس ابن عبد المطلب اور ابوطالب کے پوتے حسن بن علی کی قبریں ہیں جن کے اوپر سونے کا قبہ ہے جو بقیع کے باہر ہی سے دکھائی دیتا ہے ۔۔۔دونوں کی قبریں زمین سے بلند ہیں اور نقش و نگار سے مزین ہیں ۔(4)ایک اور سیاح رفعت پاشا بھی نا قل ہے کہ : عباس اور حسن (ع) کی قبریں ایک ہی قبہ میں ہیں اور یہ بقیع کا سب سے بلند قبہ ہے (5) بتنونی نے لکھا ہے کہ : امام حسن (ع) کی ضریح چاندی کی ہے اور اس پر فارسی میں نقوش ہیں (6)

۲) حضرت امام زین العابدین سجاد (ع) :آ پ کا نام علی (ع) ہے اور امام حسین (ع) کے بیٹے ہیں ۔ آپ کی ولادت ۳۸ ھ میں ہوئی آپ کے زمانے کا مشہور محدث و فقیہ محمد بن مسلم زہری آپ کے بارے میں کہتا ہے کہ :ما رایت قرشیا اورع منہ ولا افضل(7) (میں نے قریش میں سے کسی کو آپ سے بڑھکر پرہیزگار اور بلند مرتبہ نہیں دیکھا ) یہی نہیں بلکہ کہتا ہے کہ : ما رایت افقہ منہ(8) ، نیز یہ کہتا ہے کہ : علی (ع) ابن الحسین (ع) اعظم الناس علیّ منة (9) (دنیا میں سب سے زیادہ میری گردن پر جس کا حق ہے وہ علی بن حسین (ع) کی ذات ہے )۔ آپ کی شہادت ۴ ۹ ء ھ میں ۲۵ محرم الحرام کو ہوئی اور بقیع میں چچا امام حسن (ع) کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ رفعت پاشا نے اپنے سفر نامے میں ذکر کیا ہے کہ امام حسن (ع) کے پہلو میں ایک اور قبر ہے جو امام سجاد (ع) کی ہے جس کے اوپر قبہ ہے ۔

۳)حضرت امام محمد باقر (ع) : آپ وصی اور امام سجاد (ع) کے بیٹے ہیں نیز امام حسن (ع) کے نواسے اور امام حسین (ع) کے پوتے ہیں ۔ ۵۶ ھ میں ولادت اور ۱۱۴ ء میں شہادت ہوئی ۔ واقعہ کربلا میں آپ کا سن مبارک چار سال تھا ، ابن حجرھیثمی (الصواعق المحرقہ کے مصنف ) کا بیا ن ہے کہ : امام محمد باقر (ع) سے علم و معار ف ، حقائق احکام ، حکمت اور لطائف کے ایسے چشمے پھوٹے جن کا انکا ر بے بصیرت یا بد سیرت و بے بہرہ انسان ہی کر سکتا ہے ۔ اسی وجہ سے یہ کہا گیا ہے کہ آپ علم کو شگافتہ کرکے اسے جمع کرنے والے ہیں یہی نہیں بلکہ آپ ہی پرچم علم کے آشکار و بلند کرنے والے ہیں ۔ (۱0) اسی طرح عبد اللہ ابن عطاء کا بیان ہے کہ میں نے علم و فقہ کے مشہور عالم حکم بن عتبہ (سنی عالم دین ) کو امام محمد باقر (ع) کے سامنے اس طرح زانوئے ادب تہ کرکے آپ سے علمی استفادہ کرتے ہوئے دیکھا جیسے کوئی بچہ کسی بہت عظیم استاد کے سامنے بیٹھا ہو ۔ (۱1)

آپ کی عظمت کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت رسول اکرم نے جناب جابر بن عبد اللہ انصاری جیسے جلیل القدر صحابی سے فرمایا تھا کہ : فان ادرکتہ یا جا بر فا قراٴ ہ منی السلام (۱2) (ائے جابر اگر باقر سے ملاقات ہو تو میری طرف سے سلام کہنا) اسی وجہ سے جناب جابر آپ کی دست بوسی میں افتخار محسوس کرتے تھے اور اکثر و بیشتر مسجد النبوی میں بیٹھ کر رسالت پناہ کی طرف سے سلام پہونچانے کی فرمایش کا تذکرتے تھے (۱3)

۴) حضرت امام جعفر صادق (ع) : آپ امام محمد باقر (ع)کے فرزند ارجمند ہیں ۔ ۸۳ھ میں ولادت اور ۱۴۸ء میں شہادت ہوئی آپ کے سلسلہ میں حنفی فرقہ کے پیشوا امام ابوحنیفہ کا بیان ہے کہ ”میں نے نہیں دیکھا کہ کسی کے پاس امام جعفر صادق (ع) سے زیادہ علم ہو “(۱4) اسی طرح مالکی فرقہ کے امام مالک کہتے ہیں : کسی کو علم و عبادت و تقوی ٰ میں امام جعفر صادق (ع) سے بڑھ کر نہ تو کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے ذ ہن میں یہ بات آسکتی ہے ۔(۱5) نیزآٹھویں قرن میں لکھی جانے والی کتاب ”الصواعق المحرقة “کے مصنف نے لکھا ہے کہ : (امام ) صادق (ع) سے اس قدر علوم صادر ہوئے کہ لوگوں کے زبان زد ہو گیا تھا یہی نہیں بلکہ بقیہ فرقوں کے پیشوا جیسے یحییٰ بن سعید ، مالک، سفیان ثوری ، ابو حنیفہ ․․․ و غیرہ آپ سے نقل روایت کرتے تھے (۱6) مشہور مورخ ابن خلکان رقمطراز ہےکہ ”وکان تلمیذ ہ ابو موسیٰ جابر بن حیان “(۱7) (مشهور زمانہ شخصیت اورعلم الجبرا کے موجد جابر بن حیان آپ کے شاگرد تھے ) .

6) جناب حضرت فاطمه زهرا (س) بنت رسول الله (ص) : سني حضرات كا عقيده ہے كه جناب حضرت فاطمه زهرا (س) بنت رسول الله (ص) بقيع ميں دفن ہیں اور جناب فاطمه بنت اسد بقيع ميں اور جگه ہیں .

7) جناب فاطمہ بنت اسد : آپ حضرت علی (ع) کی ماں ہیں اور آپ ہی نے رسالت پناہ صلعم کی والدہ کے انتقال کے بعد آنحضرت کی پرورش فرمائی تھی آنحضرت کو آپ سے بیحد انسیت و محبت تھی اور ٓاپ بھی اپنی اولاد سے زیادہ رسالت مآب کا خیال رکھتی تھیں - ہجرت کے وقت حضرت علی (ع) کے ہمراہ مکہ تشریف لائیں اور آخر عمر تک وہیں رہیں۔ آپ کے انتقال پررسالت مآب کو بہت زیادہ صدمہ ہوا تھا اور آپ نے کفن کے لئے اپنا کرتا عنایت فرمایاتھا نیز دفن سے قبل چند لمحوں کے لئے قبر میں لیٹے تھے اور قرآن کی تلاوت فرمائی تھی ، نماز میت پڑھنے کے بعد آپ نے فرمایا تھا : کسی بھی انسان کو فشار قبر سے نجات نہیں ہے سوائے فاطمہ بنت اسد کے - نیز آپ نے قبر دیکھ کر فرمایا تھا ”جزاک اللہ من ام و ربیبة خیرا ، فنعم الام و نعم الربیبة کنت لی“(۱8)

8)جناب عباس ابن عبد المطلب : آپ رسول اسلام (ص) کے چچا اور مکہ کے شرفاء و بزرگان میں سے تھے . عام الفیل سے تین سال قبل ولادت ہوئی اور ۳۳ء ھ میں انتقال ہوا آپ عالم اسلام کی متفق فیہ شخصیت ہیں ۔ (19)

9) جناب رقيه ، ام کلثوم ، زينب : آپ تينوں کی پرورش جناب رسالت مآب اور حضرت خديجہ (ع) نے فرمائی تھی ، اسی وجہ سے بعض مورخین نے آپ کی قبروں کو ” قبور بنات رسول اللہ“ کے نام سے ياد کیا ہے . (2۰)

10) ازواج پیغمبر معظم (ص) کی قبریں : بقیع میں مندرجہ ذیل ازواج محترم کی قبریں ہیں

_ جناب زینب بنت خزیمہ

_ جناب ریحانہ بنت زید

_ جناب ماریہٴ قبطیہ

_ جناب زینب بنت جحش

_ جناب عائشه بنت ابابكر

_ جناب ام حبیبہ

_ جناب حفصہ بنت عمر

_ جناب سودہ بنت زمعہ

_ جناب صفیہ بنت حی

_ جناب جویریہ بنت حارث

_ جناب ام سلمہ

11) جناب عقیل ابن ابی طالب : آپ حضرت علی (ع) کے بڑے بھا ئی تھے اورنبی کریم (ص) آپ کو بہت چاہتے تھے عرب کے مشہور نساب تھے اور آپ ہی نے حضرت امیر (ع) کا عقد جناب ام البنین سے کرایا تھا ۔ انتقال کے بعد آپ کو آپ کے گھر (دارعقیل ) میں دفن کیا گیا . (۲۱)

12)جناب عبداللہ ابن جعفر : آپ جناب جعفر طیار ذوالجناحین کے بڑے صاحبزادے اور امام علی (ع) کے داماد (جناب زینب سلام اللہ علیھا کے شوہر ) تھے آپ نے دو بیٹوں محمد اور عون کو کربلا اس لئے بھیجاتھا تا کہ امام حسین (ع) پر اپنی جان نثار کرسکیں آپ کا انتقال ۸۰ ء ھ میں ہوا اور بقیع میں چچا عقیل کے پہلو میں دفن کیا گیا ، ابن بطوطہ کے سفر نامہ میں آپ کی قبر کا ذکر ہے (۲۲) اهلسنت عالم سمہودی نے لکھا ہے : چونکہ آپ بہت سخی تھے اس وجہ سے خدا وند کریم نے آ پ کی قبر کو لوگوں کی دعائیں قبول ہونے کی جگہ قرار دیا ھے(۲۳) ۔

13) جناب امام مالك ابن انس اور جناب نافع

14)جناب ام البنین: آپ حضرت علی (ع) کی زوجہ اور حضرت ابوالفضل عباس (ع) کی والدہ ہیں ، صاحب ”معالم مکہ والمدینہ“ کے مطابق آپ کا نام فاطمہ تھا مگر صرف اس وجہ سے آپ نے اپنا نام بدل دیا کہ مبادا حضرات حسن و حسین (ع) کو شہزادی کونین (س) نہ یاد آجائیں اور تکلیف پہونچے ۔ (۲۴) آپ ان دو شہزادوں سے بے پناہ محبت کرتی تھیں ۔ واقعہ کربلا میں آپ کے چار بیٹوں نے امام حسین (ع) پر اپنی جان نثار کی ہے ۔ انتقال کے بعد آپکو بقیع میں رسالت مآب کی پھوپھیوں کے بغل میں دفن کیا گیا ، یہ قبر موجودہ قبرستان کی بائیں جانب والی دیوار سے متصل ہے اور زائریں یہاں کثیر تعداد میں آتے ہیں ۔

۱5)جناب صفیہ بنت عبد المطلب :آپ رسول اسلام (ص) کی پھوپھی اور عوام بن خولد کی زوجہ تھیں ، آپ ایک با شہامت اور شجاع خاتون تھیں ایک جنگ میں جب بنی قریظہ کا ایک یہودی ، مسلمان خواتین کے تجسس میں، خیموں میں گھس آیا تو آپ نے حسان بن ثابت سے اس کو قتل کرنے کے لئے کہا مگر جب انکی ہمت نہ پڑی تو آپ خود بہ نفس نفیس اٹھیں اور حملہ کر کے اسے قتل کر دیا ۔ آپ کا انتقال ۲۰ ھ میں ہوا آپ کو بقیع میں مغیرہ بن شعبہ کے گھر کے پاس دفن کیا گیا ․پہلے یہ جگہ ”بقیع العمات“کے نام سے مشہور تھی۔ مورخین اور سیاحوں کے نقل سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے تعویذ قبر واضح تھی (۲۵)۔

۱6)جناب عاتکہ بنت عبد المطلب : آپ رسول اللہ (ص ) کی پھوپھی تھیں آپ کا انتقال مدینہ منورہ میں ہوا اور بہن صفیہ کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ رفعت پاشا نے اپنے سفر نامہ میں آپ کی قبر کا تذکرہ کیا ہے (۲۶) ۔

۱7)جناب ابراہیم بن رسول اللہ (ص): آپ کی ولادت ساتویں ھجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی مگر سولہ سترہ ماہ بعد ہی آپ کا انتقال ہو گیا اس موقع پر رسول (ص) مقبول نے فرمایاتھا :ادفنو ہ فی البقیع فان لہ مرضعا فی الجنة تتم رضاعہ (۲۸)(اس کو بقیع میں دفن کرو بے شک اس کی دودھ پلانے والی جنت میں موجود ہے جو اس کی رضاعت کو مکمل کرے گی )۔ آپ کے دفن ہونے کے بعد بقیع کے تمام درختوں کو کاٹ دیا گیا اور اس کے بعد ہر قبیلے نے اپنی جگہ مخصوص کردی جس سے یہ باغ قبرستان بن گیا ۔

18)شہداء احد : یوں تو میدان احد میں شہید ہونے والے فقط ستر افراد تھے مگر بعض شدید زخموں کی وجہ سے مدینہ میں آکر شہید ہوئے ان شہداء کو بقیع میں ایک ہی جگہ دفن کیا گیا جو جناب ابراہیم کی قبر سے تقریبا ۲۰ میٹر کے فاصلے پر ہے اب فقط ان شہد اء کی قبروں کا نشان باقی رہ گیا ہے ۔

19) واقعہ حرہ کے شہداء : کربلا میں امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد مدینے میں ایک ایسی بغاوت کی آندھی اٹھی جس سے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ بنی امیہ کے خلاف پورا عالم اسلام اٹھ کھڑا ہوگا اور خلافت تبدیل ہو جائیگی مگر اہل مدینہ کو خاموش کرنے کے لئے یزید نے مسلم بن عقبہ کی سپہ سالاری میں ایک ایسا لشکر بھیجا جس نے مدینہ میں گھس کر وہ ظلم ڈھائے جن کے بیان سے زبان و قلم قاصر ہیں ۔ اس واقعہ میں شہید ہونے والوں کو بقیع میں ایک ساتھ دفن کیا گیا اس جگہ پہلے ایک چہار دیواری اور چھت تھی مگر اب چھت کو ختم کر کے فقط چھوٹی چھوٹی دیواریں چھوڑ دی گئی ہیں ۔

19) جناب عثمان بن عفان : آپ حضور پاك ( ص) کے وفادار صحابي اور تيسري خليفه تھے . آپ جنت البقيع کے درميانه دفن ہیں

20) جناب عثمان بن مظعون : آپ رسالت مآب (ص) کے باوفا و باعظمت صحابی تھے آپ نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا جب فقط ۱۳ آ دمی مسلمان تھے اس طرح آپ کائنات کے چودہویں مسلما ن تھے۔ آپ نے پہلی ہجرت میں اپنے صاحبزادے کے ساتھ شرکت فرمائی پھر اس کے بعد مدینہ منورہ بھی ہجرت کرکے آئے ۔ جنگ بدر میں بھی شریک تھے ، عبادت میں بھی بے نظیر تھے آپ کا انتقال ۲ ھ ق میں ہوا اس طرح آپ پہلے مہاجر ہیں جسکا انتقال مدینہ میں ہوا ۔ جناب عائشہ سے منقول روایت کے مطابق حضرت رسول اسلام (ص) نے آپ کے انتقال کے بعد آپ کی میت کا بوسہ لیا ، نیز آپ (ص) شدت سے گریہ فرما رہے تھے (۳۱)۔ آنحضرت نے جناب عثمان کی قبر پر ایک پتھر نصب کیاتھا تا کہ علامت رہے مگر مروان بن حکم نے اپنی مدینہ کی حکومت کے زمانے میں اس کو اکھاڑ کر پھینک دیا تھا جس پر بنی امیہ نے اس کی بڑی مذمت کی تھی ۔ (۳۲)

21)جناب حلیمہ سعدیہ : آپ رسول اسلام (ص) کی رضاعی ماں تھیں آپ کا تعلق قبیلہ سعد بن بکر سے تھا انتقال مدینہ میں ہوا اور بقیع کے شمال مشرقی سرے پر دفن ہوئیں ۔ رسالت مآب (ص) اکثر و بیشتر یہاں آکر آپ کی زیارت فرماتے تھے ․(۲۷)

22) جناب اسمعٰیل بن صادق (ع) : آپ امام صادق (ع) کے بڑے صاحبزادے تھے اور آنحضرت (ع) کی زندگی ہی میں آپ کا انتقال ہو گیا تھا ۔ سمہودی نے لکھا ہے کہ آپ کی قبر زمین سے کافی بلند تھی(۳۳) اسی طرح مطری نے ذکر کیا ہے کہ جناب اسمعٰیل کی قبر اور اس کے شمال کا حصہ (امام) سجاد (ع) کا گھر تھا جس کے بعض حصے میں مسجد بنائی گئی تھی جس کا نام مسجد زین العابدین تھا (۳۴) ۱۳۹۵ ھ ق میں جب سعودی حکومت نے مدینہ کی شاہراہوں کو وسیع کرنا شروع کیا تو آپ کی قبر کھود ڈالی مگر جب اندر سے سالم بدن بر آمد ہوا تو اسے بقیع میں شہداء احد کے قریب دفن کیا گیا ۔

23) جنا ب ابو سعید حذری : رسالت پناہ کے جاں نثار اور حضرت علی (ع) کے عاشق و پیرو تھے ۔مدینہ میں انتقال ہو ا اور حسب وصیت بقیع میں دفن ہوے ۔رفعت پاشا نے اپنے سفر نامہ میں لکھا ہے کہ آپ کی قبر کا شمار معروف قبروں میں ہوتا ہے ۔(۳۶)امام رضا (ع) نے مامون رشید کو اسلام کی حقیقت سے متعلق جوخط لکھا تھااسمیں جناب ابو سعید حذری کو ثابت قدم اور با ایمان قرار دیتے ہوے آپ کے لئے رضی اللہ عنھم و رضوان اللہ علیھم کی لفظیں استعمال فرمائی تھیں (۳۷)

24)جناب عبد اللہ بن مسعود : آپ بزرگ صحابی اور قرآن مجید کے مشہور قاری تھے (۳۸)آپکا انتقال ۳۳ ھ ق میں ہوا تھا آپ نے وصيت فرمائی تھی کہ جناب عثمان بن مظعون کے پہلو میں دفن کیا جائے اور کہا تھا کہ : ”فانہ کان فقےھا “( بے شک عثمان ابن مظعون فقيه تھے) رفعت پاشا کے سفر نامہ میں آپ کی قبر کا تذکرہ ہے ۔

25) جناب محمد بن حنفیہ : آپ حضرت امیر (ع) کے بہادر صاحبزادے تھے۔ آپ کو آپ کی ماں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے امام حسین (ع) کا وہ مشہور خط جسمیں آپ نے کربلا کی طرف سفر کا سبب بیان فرمایا ہے ؛آپ ہی کے نام لکھا گیا ہے ۔(39)آپ کا انتقال ۸۳ ء ھ میں ہوا اور بقیع میں دفن کیا گیا ۔

26)جناب جابر بن عبد اللہ انصاری : آپ رسالت پناہ (ص) کے جلیل القدر صحابی تھے آنحضرت (ص) کی ہجرت سے پندرہ سال قبل ، مدینہ میں پیدا ہوے اور آپ (ص) کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے اسلام لا چکے تھے ۔ آنحضرت (ص) نے امام محمد باقر (ع) تک سلام پہونچانے کا ذمہ آپ ہی کو دیا تھا آپ نے ہمیشہ اہل بیت (ع) کی محبت کادم بھرا ۔ امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد کربلا کا پہلا زائر بننے کا شرف آپ ہی کو ملا مگر حجاج بن یوسف ثقفی نے محمد وآل محمد (ع) کی محبت کے جرم میں بدن کو جلوا ڈالا تھا آپ کا انتقال ۷۷ ھ میں ہوا اور بقیع میں دفن ہوے (۴0)

27)جناب مقداد بن اسود :حضرت رسول خدا(ص) کے نہایت ہی معتبر صحابی تھے۔ آخری لمحہ تک حضرت امیر(ع) کی امامت پر باقی رہے اور آپ کی طرف سے دفاع بھی کرتے رہے امام محمد باقر (ع) کی روایت کے مطابق آپ کا شمار ان جلیل القدر اصحا ب میں ہوتا ہے جو پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد ثابت قدم اور با ایمان رہے (۴1)

حوالہ جات:

(1)معالم مکہ والمدینہ ص ۴۴۱

(2)صحیح بخاری ج ۴ ح ۴ و سنن نسائی ج ۴ ح ۹۱وسنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۴۹۳

(3) وفاء الوفاء ج ۴ ص ۹۰۹

(4) رحلة ابن بطوطہ ج ۱ ص ا۴۴

(5) مرآة الحرمین ج۱ ص ۴۲۶

(6) گنجینہ ہای ویران ص ۱۲۷

7) و (8) و (9) البدایة والنھایة ج ۹ ص ۱۲۲و ۱۲۴ و ۱۲۶

(۱0) الصواعق المحرقة ص ۱۱۸

(۱1) تذکرة الخواص ص ۳۳۷

(۱2)و(۱3)تذکرة الخواص ص ۳۰۳

(۱4)تذکرة الحفاظ ج ۱ص ۱۶۶

(۱5)الامام الصادق والمذاھب الاربعہ ج ۱ ص ۵۳

(۱6)الصواعق المحرقہ ص ۱۱۸

(۱7)وفیات الاعےان ج ۱ ص ۳۲۷

(۱8)معالم مکہ والمدینہ ص ۴۲۸

(19) رحلة ابن بطوطہ ج ۱ ص ۱۴۳، مرآة الحرمین ج ۱ ص ۴۲۶، المرحلة الحجازیہ و وفاء الوفاء ج ۳

(2۰)مرآة الحرمین ج۱ ص۴۲۶

(21) معالم مکہ والمدینہ ص ۴۴۱

(۲۲) رحلة ابن بطوطہ ج ۱ ص ۱۴۴

(۲۳) معالم مکہ والمدینہ ص ۴۴۱

(۲۴) معالم مکہ والمدینہ ص ۴۴۰

(۲۵) رحلة ابن بطوطہ ج ۱ ص ۱۴۴

(۲۶) مرآة الحرمین ج ۱ ص ۴۲۶

(۲۷) معالم مکہ والمدینہ ص۴۴۳

(۲۸) معالم مکہ والمدینہ ص ۴۴۳

(۲۹) رحلة ابن بطوطہ ج ۱ ص ۱۴۴

(۳۰) مرآة الحرمین ج ۱ ص ۴۲۶

(۳۱) معالم مکہ والمدینہ ص۴۲۲

(۳۲) معالم مکہ والمدینہ ص۴۴۳

(۳۳) معالم مکہ والمدینہ ص۴۴۵

(۳۴) معالم مکہ والمدینہ ص۴۲۶

(۳۵) معالم مکہ والمدینہ ص۴۴۵

(۳۶) مرآة الحرمین ج ۱ ص ۴۲۶

(۳۷)عیون اخبار الر ضا (ع) ص ۱۲۶باب ۳۵حدیث ۱

(۳۸)سیرہ پیشوایان ص ۳۲۴

(39)بحار الانوار ج ۴۴ص ۳۲۹

(۴0)سوگنامہ آل محمد (ص) ص ۵۰۷

(۴1)معجم رجال الحدیث ج ۱۸ص ۳۱۵

Wednesday, 11 July 2012 03:34

سچا دوست كون ہے؟!

قائد انقلاب اسلامي نے بيس دي تيرہ سو نواسي ہجري شمسي مطابق پانچ صفر چودہ سو بتيس ہجري قمري كو فقہ كے اجتہادي و استنباطي درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام كا ايك قول مع تشريح بيان كيا۔ اس روايت ميں حقيقي اور سچے دوست كي خصوصيات بيان كي گئي ہيں۔ يہ قول زريں، اس كا ترجمہ اور شرح پيش خدمت ہے؛

قائد انقلاب اسلامي نے بيس دي تيرہ سو نواسي ہجري شمسي مطابق پانچ صفر چودہ سو بتيس ہجري قمري كو فقہ كے اجتہادي و استنباطي درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام كا ايك قول مع تشريح بيان كيا۔ اس روايت ميں حقيقي اور سچے دوست كي خصوصيات بيان كي گئي ہيں۔ يہ قول زريں، اس كا ترجمہ اور شرح پيش خدمت ہے؛

"عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ لَا تَكُونُ الصَّدَاقَةُ إِلَّا بِحُدُودِهَا فَمَنْ كَانَتْ فِيهِ هَذِهِ الْحُدُودُ أَوْ شَيْ‏ءٌ مِنْهَا فَانْسُبْهُ إِلَي الصَّدَاقَةِ وَ مَنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ شَيْ‏ءٌ مِنْهَا فَلَا تَنْسُبْهُ إِلَي شَيْ‏ءٍ مِنَ الصَّدَاقَةِ فَأَوَّلُهَا أَنْ تَكُونَ سَرِيرَتُهُ وَ عَلَانِيَتُهُ لَكَ وَاحِدَةً وَ الثَّانِي أَنْ يَرَي زَيْنَكَ زَيْنَهُ وَ شَيْنَكَ شَيْنَهُ وَ الثَّالِثَةُ أَنْ لَا تُغَيِّرَهُ عَلَيْكَ وِلَايَةٌ وَ لَا مَالٌ وَ الرَّابِعَةُ أَنْ لَا يَمْنَعَكَ شَيْئاً تَنَالُهُ مَقْدُرَتُهُ وَ الْخَامِسَةُ وَ هِيَ تَجْمَعُ هَذِهِ الْخِصَالَ أَنْ لَا يُسْلِمَكَ عِنْدَ النَّكَبَات"

شافي، ص 651

ترجمہ و تشريح: كتاب الكافي ميں حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے منقول ہے كہ دوستي كي كچه شرطيں ہوتي ہيں۔ اگر يہ شرائط موجود ہيں تو اس دوستي سے وہ تمام شرعي ثمرات اور اس كے نتيجے ميں ايماني اخوت حاصل ہوگي جو دوستي كا فطري نتيجہ ہوتي ہے، ورنہ نہيں۔ "فمن كانت فيه هذه الحدود او شي ء منها فانسبه الي الصّداقة" اب اگر كسي انسان ميں يہ شرطيں اور خصوصيتيں مكمل طور پر نہ سہي ايك حد تك بهي موجود ہوں تو بهي وہ دوستي كا اہل بن سكتا ہے۔

"و من لم يكن فيه شي ء منها فلا تنسبه الي شي ء من الصّداقة فأوّلها ان تكون سريرته و علانيته لك واحدة" اور جس ميں يہ شرطيں بالكل ندارد ہوں اسے دوست كا نام مت دو۔ پہلي شرط يہ ہے كہ اس كا ظاہر و باطن تمہارے لئے يكساں ہو۔ ايسا نہ ہو كہ بظاہر تو تمہاري دوستي كا دم بهرے ليكن بباطن تمہارا دشمن ہو يا يہ كہ تمہارا خير خواہ نہ ہو۔ يہ دوستي كي پہلي شرط ہے۔

"و الثّانية ان يري زينك زينه و شينك شينه" دوسري شرط يہ ہے كہ تمہاري اچهائي كو اپني اچهائي سمجهے اور تمہارے عيب كو اپنا عيب شمار كرے۔ اگر تم نے كوئي بڑا علمي مرتبہ حاصل كر ليا يا كوئي كار نماياں انجام ديا جس سے تہماري شان و شوكت ميں اضافہ ہوا تو اسے وہ اپني شان ميں اضافہ سمجهے اور اگر خدانخواستہ تمہارے اندر كوئي بات، عادت يا عمل ايسا ہے جو عيب سجمها جاتا ہے تو اسے وہ اپنا عيب شمار كرے۔ ظاہر ہے كہ اس طرز فكر كے كچه خاص نتائج اور اثرات ہوں گے۔ وہ اس عيب كو برطرف كرنے كي كوشش كرے گا يا كم از كم اس كي پردہ پوشي كرے گا۔ ايسا نہ ہو كہ اسے تہماري كسي لغزش اور غلطي كا انتظار رہے اور جيسے ہي تم سے كوئي غلطي سرزد ہو زير لب مسكرانا شروع كر دے۔ ايسا شخص دوست نہيں ہو سكتا۔

"و الثّالثة ان لاتغيّره عليك ولاية و لا مال" تيسري شرط يہ ہے كہ اگر اسے كوئي مقام، طاقت يا اختيار حاصل ہو گيا ہے يا پهر دولت حاصل ہو گئي، اس كي مالي حالت بہتر ہو گئي ہے تو وہ بدل نہ جائے۔ بعض لوگ اس قسم كے ہوتے ہيں كہ دوستي كا دم بهرتے نہيں تهكتے ليكن جيسي ہي مال و منال ہاته لگ گيا، كچه دولت حاصل ہو گئي تو پهر ان كے مزاج ہي نہيں ملتے، وہ پہچاننے سے بهي انكار كر ديتے ہيں۔ ايسے پيش آتے ہيں جيسے كبهي شناسائي كي كوئي رمق بهي نہ رہي ہو۔ ايسے لوگوں كو ہم نے ديكها ہے۔ تو ايسا نہيں ہونا چاہئے۔ مال و دولت كا حصول اسے بدل نہ دے۔

"و الرّابعة ان لا يمنعك شيئا تناله مقدرته" چوتهي شرط يہ ہے كہ جو كچه بهي اس سے بن پڑے وہ تمہارے لئے انجام دينے سے دريغ نہ كرے۔ تمہاري كوئي خدمت كر سكتا ہے، كوئي مدد كر سكتا ہے، كوئي سفارش كر سكتا ہے، تمہارے لئے ثالثي كر سكتا ہے، كوئي كام كر سكتا ہے تو ہرگز تامل ميں نہ پڑے۔

"و الخامسة و هي تجمع هذه الخصال ان لا يسلمك عند النّكبات" پانچويں شرط يہ ہے كہ ناسازگار حالات ميں، ايسے عالم ميں جب دنيا نے تم سے منہ پهير ليا ہے تمہيں اكيلا نہ چهوڑے۔ اگر تم كسي مصيبت ميں پهنس گئے ہو، كسي بيماري ميں مبتلا ہو گئے ہو، سياسي، اقتصادي اور دوسري گوناگوں مشكلات جو پيدا ہو جاتي ہيں، ہم طرح طرح كي مشكلات ديكه رہے ہيں جو ماضي ميں نظر نہيں آتي تهيں ليكن آج نظروں كے سامنے ہيں، انواع و اقسام كي آزمائشيں ہيں، اگر تم ان ميں گرفتار ہو گئے ہو تو تمہيں ترك نہ كر دے بلكہ مدد كرنے پر آمادہ ہو جائے۔

لبنان کي پارليمنٹ ميں اسلامي مزاحمتي دھڑے حزب اللہ کے پارليماني ليڈر نے کہا ہے کہ حزب اللہ کي دفاعي قوت اس سے کہيں زيادہ ہے جتنا اسرائيل تصور کرتا ہے -

محمد رعد نے زور دے کر کہا کہ حزب اللہ نے صہيوني دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے جو توانائي اور صلاحيت حاص کرلي ہے وہ اسرائيل کے تصور سے کہيں زيادہ ہے - محمد رعد نے کہا کہ لبنان پر ہر طرح کي ممکنہ جارحيت کے جواب ميں حزب اللہ دشمن کو يہ احساس کرنے پر مجبور کردے گي کہ جب تک لبنان ميں اسلامي مزاحمت ہے اس وقت تک اس کو اپنے کسي بھي مقصد ميں کاميابي حاصل نہيں ہوسکے گي -

لبنان کي پارليمنٹ ميں حزب اللہ کے پارليماني ليڈر محمد رعد نے زور دے کر کہا کہ اسلامي مزاحمت سبھي لبنانيوں کي جانب اپنا ہاتھ بڑھاتي ہے حتي ان لوگوں کي جانب بھي جن سے اس کے سياسي اختلافات ہيں -

محمد رعد نے اس اميد کا اظہار کيا کہ حزب اللہ اور لبنان کي فوج کے لئے ايسا ماحول سازگار ہوگا کہ جس سے ملک ميں استحکام کو تقويت ملے تاکہ ہر طرح کے ممکنہ حملوں کا مقابلہ کيا جاسکے-

 

 

يہ بات صدر اسلام کي خواتين ہي سے مخصوص نہيں تھي بلکہ کفر اور ظلم و تشدد کے سياہ ترين دور ميں بھي يہ سب ممکن ہے ۔ اگر ايک گھرانے نے اپني بيٹي کي اچھي طرح تربيت کي ہے تو يہ بيٹي ايک عظيم انسان بني ہے۔ اس کي زندہ مثاليں ايران، ايران سے باہر اور خود ہمارے زمانے ميں موجود تھيں۔ ہمارے اسي زمانے ميں (اسلامي انقلاب کي کاميابي سے قبل) ايک جوان، شجاع ،عالمہ ، مفکر اور ہنرمند خاتون ’’بنت الہديٰ‘‘ (آيت اللہ سيد محمد باقر شہيد کي خواہر) نے پوري تاريخ کو ہلا کر رکھ ديا، وہ مظلوم عراق ميں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے ميں کامياب ہوئيں اور درجہ شہادت کو حاصل کيا۔ بنت الہديٰ جيسي خاتون کي عظمت و شجاعت، عظيم مردوں ميں سے کسي ايک سے بھي کم نہيں ہے۔ اُن کي فعاليت ايک زنانہ فعاليت تھي اور ان کے برادر کي جد و جہد و فعاليت ايک مردانہ کوشش تھي ليکن دونوں کي جد و جہد و فعاليت دراصل کمال کے حصول اور ان دونوں انسانوں کي ذات اور شخصيت کے جوہر و عظمت کي عکاسي کرتي تھي۔ اس قسم کي خواتين کي تربيت و پرورش کرني چاہيے۔

خود ہمارے معاشرے ميں بھي ان جيسي خواتين کي تعداد بہت زيادہ ہے۔ شاہي ظلم کے زمانے ميں کم و بيش ايسي مثاليں ہمارے پاس موجود ہيں۔ شاہي حکومت سے مقابلے اور اسلامي نظام کے قيام کے زمانے ميں بہت سي عظيم خواتين تھيں۔ ان عظيم القدر خواتين نے اپنے دامن ميں شہدا کي پرورش کي، انہوں نے اپنے شوہروں يا فرزندوں کو فداکار انسانوں کي صورت ميں معاشرے کو تحويل ديا تاکہ وہ اپنے وطن و انقلاب اور اپني قوم اور اُس کي عزت و آبرو کا دفاع کر سکيں۔ يہ سب ان عظيم خواتين کا صلہ ہے اور يہ خواتين بڑے اور عظيم کاموں کو انجام دينے ميں کامياب ہوئي ہيں کہ جن کي ايک کثير تعداد سے ميں خود آشنا ہوں۔

نام کتاب عورت ، گوہر ہستي

صاحب اثر حضرت آيت اللہ العظميٰ سيد علي حسيني خامنہ اي دامت برکاتہ

 

 

Tuesday, 10 July 2012 07:10

مسجد کتبیہ مراكش

مسجد کتبیہ یا جامع کتبیہ مراکش کے شہر مراکیش کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس مسجد کا مینار یعقوب المنصور (1184ء تا 1199ء) کے دور حکومت میں مکمل ہوا۔

 

یہ مسجد کتبیہ اس لئے کہلاتی ہے کیونکہ اس کے نیچے کتابوں کی دکانیں تھیں۔ اس زمانے میں مراکش میں لکھنے پڑھنے کا شوق انتہا درجے تک پہنچا ہوا تھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کتابوں کی ان دکانوں کی تعداد ڈھائی سو تھی۔

 

اس مسجد کا مینار 69 میٹر (221 فٹ) بلند ہے۔ یہ مینار طرز تعمیر میں اپنے ہم عصر میناروں اشبیلیہ کے جیرالڈ اور رباط کے برج الحسان کے جیسا ہے کیونکہ یہ تینوں یعقوب المنصور کے عہد میں ہی تعمیر ہوئے۔ جیرالڈا اشبیلیہ کی جامع مسجد کا مینار ہے جبکہ برج الحسان یعقوب کے نامکمل منصوبوں میں سے ایک ہے۔ یعقوب نے رباط میں دنیا کی سب سے بڑی مسجد کی تعمیر شروع کروائی لیکن اس کی تکمیل سے قبل ہی انتقال کر گیا جس کے باعث یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا اور صرف برج حسان اور بنیادی تعمیر ہی مکمل ہو سکی جو آج تک موجود ہے۔

 

جامع کتبیہ کی ایک دلچسپ چیز اس کا مقصورہ ہے۔ معماروں نے یہ مقصورہ اس طرح بنایا تھا کہ منصور کے مسجد میں داخل ہوتے ہی نمودار ہوجاتا اور جب وہ واپس چلا جاتا تو مقصورہ غائب ہوجاتا اور مسجد کی دیوار پہلے کی طرح برابر ہوجاتی۔

 

 

Tuesday, 10 July 2012 07:07

فیصل مسجد - اسلام آباد

بنیادی معلومات

مقام اسلام آباد، پاکستان

ماہر تعمیرات ویدات دلوکے

رخ بجانب قبلہ

سالِ تکمیل 1986ء

تعمیری لاگت 120 ملین امریکی ڈالر

خصوصیات

گنجائش 80 ہزار (بشمول صحن)

تعدادِ مینار 4

بلندئ مینار 90 میٹر

فیصل مسجد پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ایک عظیم الشان عبادت گاہ ہے جسے جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ عظیم مسجد اپنے انوکھے طرز تعمیر کے باعث تمام مسلم دنیا میں معروف ہے۔

مسجد کا اندرونی منظرمسجد 5000 مربع میٹر پر محیط ہے اور بیرونی احاطہ کو شامل کرکے اس میں بیک وقت میں 80ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ یہ دنیا کی بڑی مساجد میں سے ایک اور برصغیر کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ فن تعمیر جدید ہے، لیکن ساتھ ہی روایتی عربی فن تعمیر کی نمائندگی کرتا ہے جو ایک بڑا تکونی خیمے اور چار میناروں پر مشتمل ہے۔ روایتی مسجدی نمونوں سے مختلف اس میں کوئی گنبد نہیں ہے اور ایک خیمہ کی طرح مرکزی عبادت گاہ کو چار میناروں سے سہارا دیا گیا ہے۔

مینار ترکی فن تعمیر کے عکاس ہیں جو عام مینار کے مقابلے میں باریک ہیں۔ مسجد کے اندر مرکز میں ایک بڑا برقی فانوس نسب ہے اور مشہور زمانہ پاکستانی خطاط صادقین نے دیواروں پر پچی کاری کے ذریعے قرآنی آیات تحریر کی ہیں جو فن خطاطی کا عیم شاہکار ہیں۔ پچی کاری مغربی دیوار سے شروع ہوتی ہے جہاں خط کوفی میں کلمہ لکھا گیا ہے۔

مسجد کا فن تعمیر عرصہ دراز سے ہونے والے جنوبی ایشیائی مسلم فن تعمیر سے مختلف ہے اور کئی انداز میں روایتی عربی، ترکی اور ہندی طرز تعمیر کا امتزاج ظاہر کرتا ہے۔

مسجد شاہراہ اسلام آباد کے اختتام پر واقع ہے، جو شہر کے آخری سرے پر مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں ایک خوبصورت منظر دیتی ہے۔ یہ اسلام آباد کے لیے ایک مرکز اور شہر کی سب سے مشہور پہچان ہے۔