Super User

Super User

رپورٹ کے مطابق حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے عرب ممالک اور ایران کے درمیان دشمنی پیدا کرنے کے لئے اسرائیلی اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: علاقائی واقعات کی روشنی میں علاقے کے بارے میں ایران کے نظریئے سے ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور اسرائیل اس بحران سے اپنے لئے مواقع پیدا کررہا ہے۔

انھوں نے یوم القدس کے سلسلے میں براہ راست نشری خطاب میں کہا: ایران اور غزہ کے خلاف اسرائیلی موقف میں شدت آئی ہے اور ایران کے خلاف حملے کا بہانہ بھی "ایران کا جوہری پروگرام" سمجھا جاتا ہے جبکہ سب جانتے ہیں کہ یہ ایک پرامن پروگرام ہے اور ایران نے بھی اپنے پروگرام کے پرامن پہلو پر تاکید کی ہے اور اسرائیل خود بھی جانتا ہے کہ اس نے اس سلسلے میں دنیا والوں سے جھوٹ بولا ہے۔

انھوں نے کہا: اسرائیل کا مسئلہ یہ ہے ایران ایک طاقتور اسلامی ملک ہے اور تمام سازشوں کے باوجود یہ ملک طاقت، بالیدگی اور روز افزوں سائنسی ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے۔

سیدحسن نصراللہ نے کہا: فلسطین کے بارے میں ایران کا موقف تمام سیاسی مسائل سے بالاتر ہے اور ایران نے ثابت کیا ہے کہ وہ سنجیدہ طور پر فلسطین کے مسئلے کے بارے میں اپنے موقف کا پابند ہے کیونکہ ایران نے شدید ترین خطرات اور دھمکیوں میں بھی اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔ تمام تر دباؤ کے باوجود امام خمینی رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا کہ اسرائیل ایک سرطانہ پھوڑا ہے اور اس کی بیخ کنی ہونی چاہئے .. ایران علاقے کی تحریکوں کی حمایت کرتا ہے اور اسی وجہ سے اسرائیل اس ملک کا دشمن نمبر 1 سمجھا جاتا ہے۔

سید حسن نصر اللہ نے امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کی جانب سے رمضان کے آخری جمعے کو یوم القدس کے نام سے متعارف کرائے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس روز کو یوم القدس کا نام دینے کا مقصد یہ ہے کہ پوری اسلامی امت اپنے اصلی راستے پر ـ جو فلسطین اور قدس کی جانب جارہا ہے ـ گامزن ہوجائے۔

انھوں نے کہا: اسلامی ممالک کے واقعات و حوادث ان ملکوں کو قدس کے مسئلے سے دور کردیتے ہیں اسی وجہ سے ہم اس بات کے محتاج ہیں کہ ہر سال ایک دن ـ خاص طور پر ماہ رمضان کے دوران ـ قدس اور اس سرزمین کے عوام کے سلسلے میں اپنے اصولوں اور ذمہ داریوں کو کی یادآوری کریں۔

سید حسن نصر اللہ نے زور دے کر کہا: ہمیں تمام مشکلات و مسائل اور تمام مصروفیات کے باوجود، دنیا والوں سے کہنا چاہئے کہ فلسطین اور قدس کا مسئلہ ہمارے لئے دینی اور اعتقادی مسئلہ ہے اور سیاسی اختلافات ہمیں فلسطین اور قدس کے بارے میں اپنے موقف سے پسپائی پر مجبور نہیں کرسکتے۔

انھوں نے کہا: عراق میں تمام تر دھماکوں کے باوجود عوام اس دن کو مظاہرے کرتے ہیں تا کہ دنیا والوں سے کہہ دیں کہ قدس ہمارا اصلی اور بنیادی مسئلہ ہے اور آج کے دن کا پیغام صہیونی دشمن کے لئے یہ ہے کہ "عرب ممالک میں تمام تر اختلافات کے باوجود قدس کے بارے میں عرب اقوام کے موقف میں کوئی تبدیلی ہرگز نہیں آئے گی۔ ۔ مسئلۂ قدس و فلسطین اور اسرائیل کے خلاف جنگ تمام دشمنیوں سے بالاتر ہے کیونکہ یہ ایک دینی، اعتقادی اور انسانی و اخلاقی مسئلہ ہے جو کبھی بھی ختم نہیں ہوا کرتا۔

سید حسن نصر اللہ نے قدس میں صہیونی آبادکاریوں، زمینوں کو غصب کئے جانے، مسجد الاقصی کے انہدام کی دھمکیوں اور فلسطین کے عوام کو ملنے والی دھمکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: قدس میں رہنے والے مسلمانوں اور عیسائیوں کی 84 فیصد آبادی غربت کی لکیر کی نچلی سطح پر زندگی بسر کررہی ہے جبکہ دوسری طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ عرب ممالک نے اپنے آپ کو اندرونی مسائل میں گھیر لیا ہے۔

سیکریٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے کہا: شام کے مسائل کے بعد اسرائیل کی تشویش میں کافی حد تک کمی آئی ہے اور ترکی جو فلسطین کے حامی محاذ میں کردار ادا کرسکتا تھا، نے شام کے ساتھ اپنے تعلقات کو صفر تک گھٹا دیا اور عرب ممالک بھی اپنے مسائل میں مبتلا ہوگئے۔

 

ایران ایک مطلق حقیقت ہے

سید حسن نصر اللہ نے کہ: اسرائیل باطل مطلق ہے اور اس کے مقابلے میں ایران حقیقت مطلق ہے؛ چنانچہ ہمیں ایران کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔

انھوں ن ےکہا: جو حکام ایران کے خلاف سازشیں کررہے ہیں انہیں جان لینا چاہئے کہ وہ صہیونی و یہودی ریاست کی خدمت میں مصروف ہیں کیونکہ اسرائیل نے خود بارہا اعلان کیا ہے کہ ایران اس کا دشمن ہے۔

انھوں نے کہا: اس وقت یہودی ریاست کے حلقوں میں اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ ایران کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جائے؛ نیتن یاہو اور ایہود بارک کہتے ہیں کہ ایران کے خلاف فوجی کاروائی کی جانی چاہئے اور ان کا اختلاف اس حملے کی ضرورت اور اس کے اخراجات کے حوالے سے ہے .. اسرائیلی فوج کہتی ہے کہ ایران کے خلاف جنگ کے نتیجے میں لاکھوں اسرائیلی ہلاک ہونگے!۔

سیدحسن نصر اللہ نے زور دے کر کہا: اگر ایران کمزور ہوتا تو اسرائیل اس ملک کی ایٹمی تنصیبات پر بمباری کرنے میں لمحہ بھر تامل بھی نہ کرتا؛ اسی وجہ سے اس بمباری کے بارے میں بحث و جدل کا سلسلہ بدستور جاری ہے؛ ایران طاقتور اور بے باک و نڈر ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ ایران پر حملے کی صورت میں اس ملک کا رد عمل بجلی کا سا ہوگا۔

 

صہیونیوں کی زندگی جہنم میں تبدیل کریں گے

حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل اور لبنان کی اسلامی مزاحمت تحریک کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے یہودی ریاست کی طرف سے لبنان پر حملے اور حتی اس ملک کو مکمل طور پر نیست و نابود کرنے کی دھمکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ اسرائیل کی تخریبی قوت زیادہ ہے اور انکار نہیں کرتے کہ اسرائیل کے تفکرات دہشت گردی پر مبنی ہیں لیکن میں نہيں کہتا کہ اسرائیلی ریاست کو ویراں کروں کروں گا لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ہم مقبوضہ فلسطین میں رہنے والے لاکھوں صہیونیوں کی زندگی جہنم میں تبدیل کرسکتے ہیں اور اس ریاست کا چہرہ بگاڑ کر رکھیں گے۔

انھوں نے کہا: لبنان کے لئے جنگ بہت ہی زیادہ مہنگی پڑے گی لیکن مقبوضہ فلسطین میں ایسے اہداف اور نشانے ہیں جنہیں چند ہی میزائلوں سے نشانہ بنایا جاسکتا ہے؛ میں اسرائیلیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ ان کے ہاں ایسے اہداف و مقامات ہیں جنہیں ہم صرف چند ہی میزائلوں سے نشانہ بناکر تباہ کرسکتے ہیں اور ان اہداف کو نشانہ بنانے کے بعد مقبوضہ سرزمین ميں لاکھوں صہیونیوں کی زندگی جہنم بن جائے گی ... "ہم یہاں لاکھوں اسرائیلیوں کی ہلاکت کی بات کررہے ہیں"۔

انھوں نے کہا: ہمارے میزائلوں کی تنصیب کا کام مکمل ہوچکا ہے اور تمام میزائلوں کا رخ متعینہ اہداف کی جانب ہے اور ہم جنگ کے کسی بھی مرحلے میں ان میزائلوں کو بروئے کار لانے میں لمحہ بھر تامل نہیں کریں گے .. اسرائیل کو جان لینا چاہئے کہ لبنان پر جارحیت اس کے لئے بہت زیادہ مہنگی پڑے گی اور آنے والی جنگ 2006 کی (33 روزہ جنگ) سے قابل قیاس نہیں ہوگی۔

 

یہودی ـ صہیونی ریاست کی حالت 2006 سے بہتر نہیں ہوئی

سیدحسن نصر اللہ نے کہا: حال ہی میں صہیونی جرنیلوں نے ایران پر حملے کے سلسلے میں یہودی ریاست کے وزیر جنگ کے ساتھ ایک میٹنگ میں شرکت کی لیکن جرنیلوں کی مخالفت کی وجہ سے ایہود بارک نے ان پر الزام لگایا کہ "2006 کا خوف 2012 میں بھی ان پر چھایا ہوا ہے"۔

انھوں نے کہا: سنہ 2006 میں دو احمقوں "شمعون پیرز اور ایہود اولمرٹ" نے بہت بڑی حماقت کا ارتکاب کیا اور صہیونی ریاست کے لئے ایسی شکست کا سبب بنے جس کے بادل آج بھی پوری صہیونی فوج پر منڈلارہے ہیں اب اگر دو دوسرے احمقوں "نیتن یاہو اور ایہود بارک" ایران پر حملے کی حماقت کریں اور اپنی جعلی ریاست کے لئے تزویری شکست کے اسباب فراہم کریں تو اسرائیلی ریاست کا انجام کیا ہوگآ ؟

صہیونی اخبار "معاریو" نے ایران پر ممکنہ حملے کی بابت صہیونی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایران پر حملے کی صورت میں اسرائیل کا وجود ہی ختم ہوگا-

اخبار معاریو نے "ایران پراحمقانہ حملے سے پرہیز کی ضرورت" کے زیر عنوان اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی صورت میں ، ایران کا جوابی اقدام بہت سے صہیونی باشندوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کا باعث بنے گا –

اس اخبار نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ ایران کےخلاف پیشگی حملہ نہیں کرنا چاہیئے –

اسلامی جمہوریہ ایران نے ملک کے دفاع کےلئے اپنی مسلح افواج کی آمادگی پر تاکید کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ملک کے خلاف صہیونی حملے کی صورت میں اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا جو اسرائیل کے خاتمے پر منتج ہوگا -

كبهي من ماني نہيں كرتے تهے

ان كي ايك خاصيت يہ تهي كہ دوسروں كي جو بات اور جو رائے ان كي نظر ميں صحيح ہوتي تهي اسے مان ليتے تهے اور اس پر عمل بهي كرتے تهے۔كبهي يہ نہيں كہتے تهے كہ جو ميں كہتا ہوں وہي صحيح ہےاور باقي سب غلط ہيں۔ان كا كہنا تها كہ ميں اس پہ عمل نہيں كرتا جسے ميں نے سمجها ہو بلكہ اس پہ عمل كرتا ہوں جو صحيح ہو۔

( آية اللہ ابوالقاسم خز علي )

 

دشمن كي پہچان

اميرالمومنين حضرت علي (ع) نہج البلاغہ ميں فرماتے ہيں '' لا يحملو ا ہٰذا العلم الا اهل البصرة و الصبرة والعلمة بمواضع الحق '' دين كا پرچم وہي بلند كر سكتا ہے جس كے اندر تين خصوصيات پائي جاتي ہوں ۔ صاحب بصيرت ہو،صابر ہواور مقامات حق كو پہچانتا ہو۔يہ تينوں خصوصيات دين كے ايك حقيقي پرچمدار آيۃاللہ سعيدي ميں پائي جاتي تهيں ۔ بصيرت كا كيا مطلب ہے؟ بصيرت يعني يہ كہ انسان خدا كي معرفت ركهتا ہو ، رسول اكرم كي شناخت ركهتا ہو۔خدا كي نعمتوں كو جانتا اور پہچانتا ہو اور سب سے بڑه كر يہ كہ دشمن كو پہچانتا ہو۔ اس دنيا ميں اكثر لوگوں كي ناكا مي كي وجہ دشمن كي شناخت نہ ركهنا ہے۔ اور آقاي سعيدي كي سب سے بڑي خوبي يہي تهي كہ وہ دشمن كو اچهي طرح پہچانتےتهے اسي وجہ سے كامياب بهي تهے۔ يہي وہ بصيرت ہے جسے اميرالمومنين نے اپنے اس كلام ميں بيان فرمايا ہے۔

(آية اللہ سيد احمد خاتمي)

 

ہم قرآن كے تابع ہيں

آيۃ ا للہ سعيدي بہت نڈر اور شجاع تهے ۔ايك بار اپني ايك تقرير ميں فرمايا: پرسوں كچه لوگ ميرے پاس آئے اور كہنے لگے:آقاي سعيدي آپ اپني باتوں ميں ذرا احتياط سے كام ليں ۔ميں نے انہيں جواب ديا :خدا كي قسم ميں جيل ميں بہت آرام و سكون سے تها ۔ مجهے نہ كسي قسم كا كوئي خوف تها اور نہ كسي چيز كا ڈر۔ اگر حكومت يہ چاہتي ہے كہ ميں كچه نہ بولوں اور خاموش رہوں تو اسے چاہئے كہ قرآن كو ہمارے دل و دماغ سے نكال دے ۔اسلئے كہ ہم قرآن كے تابع ہيں ۔ميں آپ سب كو يہ تلقين كرتا ہوں كہ آپس ميں متحد رہيں ۔مجالس اور محافل ميں جوش و خروش كے ساته شركت كريں ۔كيونكہ يہي مسجديں (اور اسلامي مراكز) اسلام كا مورچہ ہيں ۔اپنے اتحاد ،اتفاق اور بهائي چارے سے ان ظالمين اور بے دينوں كي ناك ميں دم كريں۔

(آية اللہ سيد احمد خاتمي)

 

ولايت فقيہ كي حمايت واجب ہے

آج كي نسل سے ميں ايك بہت اہم بات كہنا چاہتا ہوں وہ يہ كہ شہيد آيۃا للہ سعيدي اور اس طرح كے دوسرے لوگوں كا امام خميني كے دفاع كے لئے اٹه كهڑے ہونا خود امام خميني كي حمايت نہيں تهي بلكہ يہ ولايت فقيہ كي حمايت اور اس كادفاع تها ۔ آج بهي اسي چيز كي ضرورت ہے جو آيۃ اللہ سعيدي جيسے افراد نے كيا يعني ولايت فقيہ كي حمايت اور اس كا دفاع۔

(آية اللہ سيد احمد خاتمي)

 

ثريا كے فوٹو

آيةا للہ بروجردي كي مرجعيت كا زمانہ تها ۔ والد محترم آبادان كے لوگوں كي دعوت پر وہاں تبليغ كے لئے گئے ۔ان دنوں كسي دن ايك اخبار نے شاہ كي بيوي ثريا كے فوٹو چهاپے تهے ۔ان كے يہ فوٹو چهاپنے كا كيا مقصد تها نہيں معلوم ليكن والد مرحوم كو اس پر اعتراض تها ۔لہٰذا ايك دن منبر پر جاكر شاہ اور اس كے خاندان كي برائي كرنا شروع كرتے ہيں ان كے كرتوتوں كا پردہ فاش كرتے ہيں جس كي وجہ سے آپ كو گرفتار كر كے جيل بهيج ديا جاتا ہے۔آبادان كي ايك معروف شخصيت وہاں سے جيلر سے سفارش كرتي ہے كہ آقاي سعيدي ايك شريف آدمي ہيں انہيں چهوڑ ديا جائے۔ جيلر اس شرط پر انہيں رہا كرنے پر تيار ہوگيا كہ آقاي سعيدي صرف اتنا كہيں كہ ميں نے شاہ كے بارے ميں كوئي بات نہيں كي ۔ سعيدي نام كے جس شخص نے شاہ كے خلاف تقرير كي ہے وہ كوئي ہے اور اس كا ہمنام ہونے كي وجہ سے مجهے گرفتار كر ليا گيا ہے۔دوسرے دن آقاي سعيدي كو جيلر كے سامنے لايا جاتا ہے اور ان سے پوچها جاتا ہے كہ كيا وہي سعيدي ہيں جس نے شاہ اور اس كي بيوي كے خلاف بدكلامي كي ہے؟ آپ نے فوراً جواب ديا : جي ہاں ميں وہي سعيدي ہوں اور ميں نے ہي يہ باتيں كي ہيں ۔ اس كے بعد انہيں مزيد كئي دن تك جيل ميں رہنا پڑتا ہے۔

(سيد محمد سعيدي ،شہيد سعيدي كے بڑے بيٹے )

 

تن تنہا مقابلہ

جب ايران كے ايك مشہور اخبار ميں يہ خبر چهي كہ امريكہ كے سرمايہ داروں كي ايك ٹيم اب ايران ميں سرمايہ كاري كرے گي۔ تو والد مرحوم نے اس كے خلاف ايك نوٹس لكها جوبہت سخت اور اشتعال انگيز تها ۔يہ نوٹس لكهنے سے پہلے وہ قم گئے اور بہت سے علما سے ملاقات كي كيونكہ ان كا مقصد يہ تها كہ يہ نوٹس كئي علما كي تائيداور ان كے دستخط كے ساته منظر عام پر آئے ۔چونكہ معاملہ بہت حساس تها اس لئے بہت سے علما نے آپ كي موافقت نہيں كي ۔آية اللہ منتظري سے لئے گئے ايك انٹرويو ميں ان كي زباني بهي ميں نے يہ بات سني كہ آقاي سعيدي ان افراد ميں سے تهے جو قم آئے اور امريكي سرمايہ داروں كے خلاف ايك نوٹس نكالنے كي رائے دي۔وہ ميرے پاس بهي آئے ميں نے انہيں جواب ديا كہ آپ تمام علما كے پاس جائيں اگر نو علما نے دستخط كر دئے تو دسواں دستخط ميرا ہوگا وہ گئے اور پلٹ كر نہيں آئے ۔بعد ميں پتہ چلا كہ انہوں نے تن تنہا نوٹس لكها ،اس پر اپنے دستخط كئے ،اسے چهاپا اور پهر سب ميں تقسيم كرديا ۔

(سيد محمد سعيدي ،شہيد سعيدي كے بڑے بيٹے )

 

وقت كا ابوذر

شہيد سعيدي اس شخصيت كا نام ہے جن كي زندگي ايك با مقصد زندگي تهي ۔آية اللہ خز علي ان كے قديمي دوستوں ميں سے ہيںان كي زباني شہيد زندگي كا ايك اہم نكتہ آپ كي خدمت ميں پيش كرنا چاہتا ہوں ۔وہ كہتے ہيں كہ ميں نےآج تك شہيد سعيدي جيسا انسان نہيں ديكها ہے وہ جناب ابوذر كي طرح تهے يعني انہيں اسلام كے بارے ميں جو كچه بهي معلوم تها اسے خود اپنا كر لوگوں كو بتانا چاہتے تهے اور چاہتے تهے كہ جتنا ہو سكے لوگوں كونيك راستے كي طرف لائيں اور برائي سے دور ركهيں ۔جناب ابوذر كے بارے ميں سنا ہوگا كہ جب وہ رسول خدا كي خدمت ميں آئے اور اپنے اسلام كا اظہار كيا تو اس كے بعد ايك دن صبح مسجد الحرام ميں گئے اور ايك بلندي پر چڑه كر آواز دي: اے لوگوں '' اشهد ان لا الٰہ الا اللہ و اشهد ان محمدا رسول اللہ '' لوگ ابوزر كا يہ نعرہ سن كر غصے ميں آگئے اور ان كي خوب پٹائي كي اور اتنا مارا كہ وہ نماز ظہر تك بے ہوش پڑے رہے ۔جب ہوش آيا تو دوبارہ لوگوں كو اكٹها كيا اور كہنے لگے : '' ميں نے پيغمبر خدا سے سنا ہے كہ تم ميں سے كامياب وہي ہے جو خدا كو اپنا معبود اور محمد كو اپنا رسول مانے ۔'' لوگوں نے دوبارہ ان كي پٹائي كي يہاں تك كہ مغرب تك وہيں بے ہوش پڑے رہے ۔ شہيد سعيدي كي مثال بهي ايسي تهي ۔وہ كہتے تهے كہ ہم نے جو كچه اسلام سے سيكها اس پر عمل كريں (چاہے اس كے لئے لوگوں كي باتيں سننا پڑيں،گالياں كهاني پڑيں يا پهر مار كهاني پڑے.

(سيد حسن سعيدي۔شہيد كا بيٹا)

 

امريكي سرمايہ كاروں كے خلاف احتجاج

فروردين ٣١٤٧ ه ش روزنامہ كيہان ميں ايك خبر چهپي كہ :'' عنقريب ايران ميں آج تك كي سب سے بڑي سرمايہ گزاري ہونے جا رہي ہے ۔طے پايا ہے كہ٢٩ اور ٣٠ ارديبہشت كو امريكہ كي پچيس بڑي اور مشہور كمپنيوں اور بنكوں كے رؤ سا تہران كانفرنس ميں شركت كريں گے جس ميں ايران ميں سرمايہ كاري كے طريقوں پر تبادلۂ خيال ہوگا ۔'' ان سرمايہ دار افراد كي لسٹ ميں سر فہرست اس وقت كا مشہور آدمي ريكفلر تها۔ جب يہ خبر حوزۂ علميہ قم تك پہنچي تو انہوں اس پر شديداعتراض كيا اور اس كي مذمت كي اور پهر اس كے خلاف ايك نوٹس بهي جاري كرديا ۔ اس نوٹس كا آغاز اس آيہ كريمہ سے كيا گيا تها: (لن يجعل اللہ للكافرين علي المومنين سبيلاً) ''كافروں كو مومنين پر كسي طرح كي حاكميت اور سرپرستي حاصل نہيں ہے۔''تہران يونيورسٹي كےطلباءنے بهي اس كي مخالفت كي اور اس كے خلاف احتجاج كيا۔ مرحوم آية اللہ سعيدي نے مسجد امام موسيٰ ابن جعفر ميں اس كانفرنس كے خلاف ايك سخت تقرير كي اور پهر قم ،تہران اور دوسرے شہروں كے علما كو خط لكه كر انہيں متوجہ كيا كہ ايران پر كتني بڑي مصيبت آنے والي ہے ۔انہي دنوں نجف ميں مرجع وقت آية اللہ سيد محسن الحكيم كا انتقال ہو گيا ۔

شاہ نے موقع كو غنيمت سمجهتے ہوئے قم ميں آيةاللہ شريعتمداري اور تہران ميں آية اللہ سيد احمد خوانساري كو ايك ٹليگراف بهيجا ۔ در اصل اس كا مقصد يہ تها كہ اس كے ذريعہ قم ميں مرجعيت كا اثر ورسوخ كم ہوجائے اور تاكہ حوزہ قم اور لوگ بيدار نہ ہو سكيں ۔ وہ يہ ثابت كرنا چاہتا تها كہ صرف آية اللہ ہيں جو ميري مخالفت كر رہے ہيں ورنہ باقي علما يا ميرے ساته ہيں يا خاموش ہيں ۔ اور يہ حقيقت ہے كہ اس كانفرنس كے خلاف جس طرح آية اللہ سعيدي ڈٹے رہے دوسرا كوئي نظر نہيں آتا ۔شہيد سعيدي نے در حقيقت اپنے آپ كوقربان كيا تاكہ معاشرہ ميں بيداري كي ايك لہر پيدا ہوا اور ايسا ہي ہوا ۔ايران اور اسرائيل كے فٹبال ميچ ميں بهي انہوں نے بعض افراد كو تيار كيا تاكہ وہ ميچ ميں جاكر خلل ايجاد كريں۔

]سيد صادق قاضي طباطبائي[

 

ہميشہ پہلے سلام كرتے

١٣٤٣ ه ش يا ١٣٤٤ ه ش كا زمانہ تها ۔اپنے محلے كي ايك پهل كي دكان پہ گيا تاكہ كچه پهل خريدوں ۔ميراچہرہ دكاندار كي طرف تها اور پيٹه سڑك كي طرف ۔ ايك شخص نے مجه سلام كيا ۔مڑ كر ديكها توعمامہ اور عبا قبا ميں ايك سيد عالم كا نوراني چہرہ دكها ئي ديا۔ بعض ہوتے ہيں جو پہلي ہي نظر ميں دل ميں گهر كر جاتے ہيں۔ميں بہت شرمندہ تها كہ انہوں نے مجهے سلا م لہٰذا ميں ارادہ كيا كہ اب جب بهي يہ سيد عالم نظر آئے گا ميں پہلے سلام كروں گا ليكن كبهي كامياب نہ ہو سكا كيوں ہميشہ پہلے سلام كرتے تهے ۔وہيں سے ان سے دوستي بهي شروع ہو گئي۔

ا. وحدتي

Wednesday, 22 August 2012 04:50

دعائے کمیل بن زیاد

یہ مشہور و معروف دعاؤں میں سے ہے ۔ امیرالمومنین علي عليه السلام  نے یہ دعا ، کمیل بن زیاد کو تعلیم فرمائی تھی جو حضرت(ع) کے اصحاب خاص میں سے ہیں یہ دعا شب نیمہ شعبان اور ہر شب جمعہ میں پڑھی جاتی ہے ۔ جو شر دشمنان سے تحفظ ، وسعت و فراوانی رزق اور گناہوں کی مغفرت کا موجب ہے۔ اور وہ دعا شریف یہ ہے:

 

اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری رحمت کے ذریعے جوہر شی پر محیط ہے تیری قوت کے ذریعے جس سے تو نے ہر شی کو زیر نگیں کیا اور اس کے سامنے ہر شی جھکی ہوئی اور ہر شی زیر ہے اور تیرے جبروت کے ذریعے جس سے توہر شی پر غالب ہے تیری عزت کے ذریعے جسکے آگے کوئی چیز ٹھہرتی نہیں تیری عظمت کے ذریعے جس نے ہر چیز کو پر کر دیا تیری سلطنت کے ذریعے جو ہر چیز سے بلند ہے تیری ذات کے واسطے سے جوہر چیز کی فنا کے بعد باقی رہے گی اورسوال کرتا ہوں تیرے ناموں کے ذریعے جنہوں نے ہر چیز کے اجزاء کو پر کر رکھا ہے تیرے علم کے ذریعے جس نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے اور تیری ذات کے نور کے ذریعے جس سے ہر چیز روشن ہوئی ہے یانور یاقدوس  اے اولین میں سب سے اول اور اے آخرین میں سب سے آخر اے معبود میرے ان گناہوں کو معاف کر دے جو پردہ فاش کرتے ہیں خدایا! میرے وہ گناہ معاف کر دے جن سے عذاب نازل ہوتا ہے خدایا میرے وہ گناہ بخش دے جن سے نعمتیں زائل ہوتی ہیں اے معبود! میرے وہ گناہ معاف فرما جو دعا کو روک لیتے ہیں اے اللہ میرے وہ گناہ بخش دے جن سے بلائیں نازل ہوتی ہے اے خدا میرا ہر وہ گناہ معاف فرما جو میں نے کیا ہےاور ہر لغزش سے درگزر کر جو مجھ سے ہو ئی ہے اے اللہ میں تیرے ذکر کے ذریعے تیرا تقرب چاہتا ہوں اور تیری ذات کو تیرے حضور اپنا سفارشی بناتا ہوں تیرے جود کے واسطے سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے اپناقرب عطا فرما اور توفیق دے کہ تیرا شکر ادا کروں اور میری زبان پر اپنا ذکر جاری فرما اے اللہ میں سوال کرتا ہوں جھکے ہوئے گرے ہوئے ڈرے ہوئے کیطرح کہ مجھ سے چشم پوشی فرما مجھ پر رحمت کر اور مجھے اپنی تقدیر پر راضی و قانع اور ہر قسم کے حالات میں نرم خو رہنے والا بنا دے یااللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس شخص کیطرح جو سخت تنگی میں ہو سختیوں میں پڑا ہواپنی حاجت لے کر تیرے پاس آیاہوں اور جو کچھ تیرے پاس ہے اس میں زیادہ رغبت رکھتا ہوں اے اللہ تیری عظیم سلطلنت اور تیرا مقام بلند ہے تیری تدبیر پوشیدہ اور تیرا امر ظاہر ہے تیرا قہر غالب تیری قدرت کارگر ہے اور تیری حکومت سے فرار ممکن نہیں خداوندا میں تیرے سوا کسی کو نہیں پاتا جو میرے گناہ بخشنے والا میری برائیوں کو چھپانے والا اور میرے برے عمل کو نیکی میں بدل دینے والا ہو تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے اور حمد تیرے ہی لیے ہے میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا اپنی جہالت کی وجہ سے جرأت کی اور میں نے تیری قدیم یاد آوری اور اپنے لیے تیری بخشش پر بھروسہ کیا ہے اے اللہ : میرے مولا کتنے ہی گناہوں کی تو نے پردہ پوشی کی اور کتنی ہی سخت بلاؤں سے مجھے بچالیا کتنی ہی لغزشیں معاف فرمائیں اور کتنی ہی برائیاں مجھ سے دور کیں تو نے میری کتنی ہی تعریفیں عام کیں جن کا میں ہر گز اہل نہ تھا اے معبود! میری مصیبت عظیم ہے بدحالی کچھ زیادہ ہی بڑھ چکی ہے میرے اعمال بہت کم ہیں گناہوں کی زنجیر نے مجھے جکڑ لیا ہے لمبی آرزوؤں نے مجھے اپنا قیدی بنا رکھا ہے دنیا نے دھوکہ بازی سے اور نفس نے جرائم اور حیلہ سازی سے مجھ کو فریب دیا ہے اے میرے آقا میں تیری عزت کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ میری بدعملی و بدکرداری میری دعا کو تجھ سے نہ روکے اور تو مجھے میرے پوشیدہ کاموں سے رسوا نہ کرے جن میں تو میرے راز کو جانتاہے اور مجھے اس پر سزا دینے میں جلدی نہ کر جو میں نے خلوت میں غلط کام کیا برائی کی ہمیشہ کوتاہی کی اس میں میری نادانی، خواہشوں کی کثرت اور غفلت بھی ہے اور اے میرے اللہ تجھے اپنی عزت کا واسطہ میرے لیے ہر حال میں مہربان رہ اور تمام امور میں مجھ پر عنایت فرما میرے معبود میرے رب  تیرے سوا میرا کون ہے جس سے سوال کروں کہ میری تکلیف دور کر دے اور میرے معاملے پر نظر رکھ میرے معبود اور میرے مولا تو نے میرے لیے حکم صادر فرمایالیکن میں نے اس میں خواہش کا کہا مانا اور میں دشمن کی فریب کاری سے بچ نہ سکا اس نے میری خواہشوں میں دھوکہ دیااور وقت نے اسکا ساتھ دیا پس تو نے جو حکم صادر کیا میں نے اس میں تیری بعض حدود کو توڑا اور تیرے بعض احکام کی مخالفت کی پس اس معاملہ میں مجھ پر لازم ہے تیری حمد بجالانا اور میرے پاس کوئی حجت نہیں اس میں جو فیصلہ تو نے میرے لیے کیا ہے اور میرے لیے تیرا حکم اور تیری آزمائش لازم ہے اور اے اللہ میں تیرے حضور آیا ہوں جب کہ میں نے کو تاہی کی اور اپنے نفس پرزیادتی  کی ہے میں عذر خواہ و پشیماں،ہارا ہوا، معافی کا طالب، بخشش کا سوالی ،تائب گناہوں کا اقراری، سرنگوں اور اقبال جرم کرتا ہوں جو کچھ مجھ سے ہوا نہ اس سے فرار کی راہ ہے نہ کوئی جا ئے پناہ کہ اپنے معاملے میں اسکی طرف توجہ کروں سوائے اسکے کہ تو میرا عذر قبول کر اور مجھے اپنی وسیع تر رحمت میں داخل کرلے اے معبود! بس میرا عذر قبول فرما میری سخت تکلیف پر رحم کر اور بھاری مشکل سے رہائی دے اے پروردگار میرے کمزور بدن، نازک جلد اور باریک ہڈیوں پر رحم فرما اے وہ ذات جس نے میری خلقت ذکر، پرورش، نیکی اور غذا کا آغاز کیا اپنے پہلے کرم اور گزشتہ نیکی کے تحت مجھے معاف فرما اے میرے معبودمیرے آقا اور میرے رب کیا میں یہ سمجھوں کہ تو مجھے اپنی آگ کا عذاب دے گا جبکہ تیری توحید کا معترف ہوں اسکے ساتھ میرا دل تیری معرفت سے لبریز ہے اور میری زبان تیرے ذکر میں لگی ہوئی ہیمیرا ضمیر تیری محبت سے جڑا ہوا ہے اور اپنے گناہوں کے سچے اعتراف اور تیری ربوبیت کے آگے میری عاجزانہ پکار کے بعد بھی تو مجھے عذاب دے گا۔ ہرگز نہیں! تو بلند ہے اس سے کہ جسے پالا ہو اسے ضائع کرے یا جسے قریب کیا ہو اسے دور کرے یا جسے پناہ دی ہو اسے چھوڑ دے یا جسکی سرپرستی کی ہو اور اس پر مہربانی کی ہو اسے مصیبت کے حوالے کر دے اے کاش میں جانتا اے میرے آقا میرے معبود!اور میرے مولا کہ کیا تو ان چہروں کو آگ میں ڈالے گا جو تیری عظمت کے سامنے سجدے میں پڑے ہیں اور ان زبانوں کو جو تیری توحید کے بیان میں سچی ہیں اور شکر کے ساتھ تیری تعریف کرتی ہیں اور ان دلوںکو جو تحقیق کیساتھ تجھے معبود مانتے ہیں اور انکے ضمیروں کو جو تیری معرفت سے پر ہو کر تجھ سے خائف ہیں تو انہیںآ گ میں ڈالے گا؟ اور ان اعضاء کو جو فرمانبرداری سے تیری عبا دت گاہوں کی طرف دوڑتے ہیں اور یقین کے ساتھتیری مغفرت کے طالب ہیں (تو انہیں آگ میں ڈالے) تیری ذات سے ایسا گمان نہیں، نہ یہ تیرے فضلکے مناسب ہے اے کریم اے پروردگار! دنیا کی مختصر تکلیفوں اور مصیبتوں کے مقابل تو میری ناتوانی کو جانتا ہے اور اہل دنیا پر جو تنگیاں آتی ہیں (میں انہیں برداشت نہیں کرسکتا) اگرچہ اس تنگی و سختی کا ٹھہراؤ اور بقاء کا وقت تھوڑا اور مدت کوتاہ ہے تو پھر کیونکر میں آخرت کی مشکلوں کو جھیل سکوں گا جو بڑی سخت ہیں اور وہ ایسی تکلیفیں ہیں جنکی مدت طولانی ،اقامت دائمی ہے اور ان میں سے کسی میں کمی نہیں ہو گی اس لیے کہ وہ تیرے غضب تیرے انتقام اور تیری ناراضگی سے آتی ہیں اور یہ وہ سختیاں ہیں جنکے سامنے زمین وآسمان بھی کھڑے نہیں رہ سکتے تو اے آقا مجھ پر کیا گزرے گی جبکہ میں تیرا کمزور پست، بے حیثیت، بے مایہ اور بے بس بندہ ہوں اے میرے آقا اور میرے مولا! میں کن کن باتوں کی تجھ سے شکایت کروں اور کس کس کے لیے نالہ و شیون کروں؟ دردناک عذاب اور اس کی سختی کے لیے یا طولانی مصیبت اور اس کی مدت کی زیادتی کیلئے پس اگر تو نے مجھے عذاب و عقاب میں اپنے دشمنوں کے ساتھ رکھااور مجھے اوراپنے عذابیوں کو اکٹھا کر دیا اور میرے اور اپنے دوستوں اور محبوں میں دوری ڈال دی تو اے میرے معبود میرے آقا میرے مولا اور میرے رب تو ہی بتا کہ میں تیرے عذاب پر صبر کر ہی لوں تو تجھ سے دوری پر کیسے صبر کروں گا؟ اور مجھے بتاکہ میں نے تیری آگ کی تپش پر صبر کر ہی لیا تو تیرے کرم سے کسطرح چشم پوشی کرسکوں گا یا کیسے آگ میں پڑا رہوں گا جب کہ میں تیرے عفو و بخشش کا امیدوار ہوں پس قسم ہے تیری عزت کی اے میرے آقا اور مولا سچی قسم کہ اگر تو نے میری گویائی باقی رہنے دی تو میں اہل نار کے درمیان تیرے حضور فریاد کروں گا آرزو مندوں کی طرح اور تیرے سامنے نالہ کروں گا جیسے مددگار کے متلاشی کرتے ہیں تیرے فراق میں یوں گریہ کروں گا جیسے ناامید ہونے والے گریہ کرتے ہیں اور تجھے پکاروں گا کہاں ہے تواے مومنوں کے مددگار اے عارفوں کی امیدوں کے مرکز اے بیچاروں کی داد رسی کرنے والے اے سچے لوگوں کے دوست اور اے عالمین کے معبود کیا میں تجھے دیکھتا ہوں تو پاک ہے اس سے اے میرے اللہ اپنی حمد کے ساتھ کہ تو وہاں سے بندہ مسلم کی آواز سن رہا ہے جو بوجہ نافرمانی دوزخ میں ہے اپنی برائی کے باعث عذاب کا ذائقہ چکھ رہا ہے اور اپنے جرم گناہ پر جہنم کے طبقوں کے بیچوں بیچ بند ہے وہ تیرے سامنے گریہ کر رہا ہے تیری رحمت کے امیدوار کی طرح اور اہل توحید کی زبان میں تجھے پکار رہا ہے اور تیرے حضور تیری ربوبیت کو وسیلہ بنا رہا ہے اے میرے مولا! پس کس طرح وہ عذاب میں رہے گا جب کہ وہ تیرے گزشتہ حلم کا امیدوار ہے یا پھر آگ کیونکر اسے تکلیف دے گی جبکہ وہ تیرے فضل اور رحمت کی امید رکھتا ہے یا آگ کے شعلے کیسے اس کو جلائیں گے جبکہ تو اسکی آواز سن رہا ہے اور اس کے مقام کو دیکھ رہا ہے یا کیسے آگ کے شرارے اسے گھیریں گے جبکہ تو اسکی ناتوانی کو جانتا ہے یا کیسے وہ جہنم کے طبقوں میں پریشان رہے گا جبکہ تو اس کی سچائی سے واقف ہے یا کیسے جہنم کے فرشتے اسے جھڑکیں گے جبکہ وہ تجھے پکار رہا ہے اے میرے رب یا کیسے ممکن ہے کہ وہ خلاصی میں تیرے فضل کا امیدوار ہو اور تو اسے جہنم میں رہنے دے ہرگز نہیں! تیرے بارے میں یہ گمان نہیں ہو سکتا نہ تیرے فضل کا ایسا تعارف ہے نہ یہ توحید پرستوں پر تیرے احسان و کرم سے مشابہ ہے پس میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر تو نے اپنے دشمنوں کو آگ کا عذاب دینے کا حکم نہ دیا ہوتا اور اپنے مخالفوں کوہمیشہ اس میں رکھنے کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تو ضرور تو آگ کو ٹھنڈی اور آرام بخش بنا دیتا اور کسی کو بھی آگ میں جگہ اور ٹھکانہ نہ دیا جاتا لیکن تو نے اپنے پاکیزہ ناموں کی قسم کھائی کہ جہنم کو تمام کافروں سے بھر دے گا جنّوں اور انسانوں میں سے اور یہ مخالفین ہمیشہ اس میں رہیں گے اور تو بڑی تعریف والا ہے تو نے فضل و کرم کرتے ہوئے بلا سابقہ یہ فرمایا کہ کیا وہ شخص جو مومن ہے وہ فاسق جیسا ہو سکتا ہے؟یہ دونوں برابر نہیں میرے معبود میرے آقا! میں تیری قدرت جسے تو نے توانا کیا اور تیرا فرمان جسے تو نے یقینی و محکم بنایا اور تو غالب ہے اس پر جس پر اسے جاری کرے اسکے واسطے سے سوال کرتا ہوں بخش دے اس شب میں اور اس ساعت میں میرے تمام وہ جرم جو میں نے کیے تمام وہ گناہ جو مجھ سے سرزد ہوئے وہ سب برائیاں جو میں نے چھپائی ہیں جو نادانیاں میں نے جہل کی وجہ سے کیں ہیں علی الاعلان یا پوشیدہ، رکھی ہوں یا ظاہر کیں ہیں اور میری بدیاں جن کے لکھنے کا تو نے معزز کاتبینکو حکم دیا ہے جنہیں تو نے مقرر کیا ہے کہ جو کچھ میں کروں اسے محفوظ کریں اور ان کو میرے اعضاء کے ساتھ مجھ پر گواہ بنایا اور انکے علاوہ خود تو بھی مجھ پر ناظر اور اس بات کا گواہ ہے جو ان سے پوشیدہ ہے حالانکہ تو نے اپنی رحمت سے اسے چھپایا اور اپنے فضل سے اس پر پردہ ڈالاوہ معاف فرما اور میرے لیے وافر حصہ قرار دے ہر اس خیر میں جسے تو نے نازل کیا یا ہر اس احسان میں جو تو نے کیا یا ہر نیکی میں جسے تو نے پھیلایا رزق میں جسے تو نے وسیع کیا یا گناہ میں جسے تو معاف نے کیا یا غلطی میں جسے تو نے چھپایا یارب یا رب یا رب اے میرے معبود میرے آقا اورمیرے مولا اور میری جان کے مالک اے وہ جسکے ہاتھ میں میری لگام ہے اے میری تنگی و بے چارگی سے واقف اے میری ناداری و تنگدستی سے باخبر یارب یارب یارب میں تجھ سے تیرے حق ہونے، تیری پاکیزگی، تیری عظیم صفات اور اسماء کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ میرے رات دن کے اوقات اپنے ذکر سے آباد کر اور مسلسل اپنی حضوری میں رکھ اور میرے اعمال کو اپنی جناب میں قبولیت عطا فرما حتی کہ میرے تمام اعمال اور اذکار تیرے حضور ورد قرار پائیں اور میرا یہ حال تیری بارگاہ میں ہمیشہ قائم رہے اے میرے آقا اے وہ جس پر میرا تکیہ ہے اے جس سے میں اپنے حالات کی تنگی بیان کرتا ہوں یارب یارب یارب میرے ظاہری اعضاء کو اپنی حضوری میں قوی اور میرے باطنی ارادوں کو محکم و مضبوط بنا دے اور مجھے توفیق دے کہ تجھ سے ڈرنے کی کوشش کروں اور تیری حضوری میں ہمیشگی پیدا کروں تاکہ تیری بارگاہ میں سابقین کی راہوں پر چل پڑ و ں اور تیری طر ف جا نے والوں سے آگے نکل جا ؤں تیرے قرب کا شوق رکھنے والوںمیں زیادہ شوق والا بن جاؤں تیرے خالص بندوں کی طرح تیرے قریب ہو جاؤں اہل یقین کی مانند تجھ سے ڈروں اور تیرے آستانہ پر مومنوں کے ساتھ حاضر رہوں اے معبود جو میرے لئے برائی کا ارادہ کرے تو اسکے لئے ایسا ہی کر جو میرے ساتھ مکر کر ے تو اسکے ساتھ بھی ایسا ہی کر مجھے اپنے بند و ں میں قر ار دے جو نصیب میں بہتر ہیں جومنزلت میں تیرے قریب ہیں جو تیرے حضور تقرب میں مخصوص ہیں کیونکہ تیرے فضل کے بغیر یہ درجات نہیں مل سکتے بواسطہ اپنے کرم کے مجھ پر کرم کر بذریعہ اپنی بزرگی کے مجھ پر توجہ فرما بوجہ اپنی رحمت کے میری حفاظت کر میری زبان کو اپنے ذکر میں گویا فرما اور میرے دل کو اپنا اسیر محبت بنا دیمیری دعا بخوبی قبول فرما مجھ پر احسان فرما میرا گناہ معاف کر دے اور میری خطا بخش دے کیونکہ تو نے بندوں پر عبادت فرض کی ہے اور انہیں دعا مانگنے کا حکم دیا اور قبولیت کی ضمانت دی پس اے پروردگار میں اپنا رخ تیری طرف کر رہا ہوں اور تیرے آگے ہاتھ پھیلا رہا ہوں تو اپنی عزت کے طفیل میری د عا قبول فرما میری تمنائیں برلا اور اپنے فضل سے لگی میری امید نہ توڑ میرے دشمن جو جنّوں اور انسانوں سے ہیں ان کے شر سے میری کفایت کر اے جلدرا ضی ہونے والے مجھے بخش دے جو دعا کے سوا کچھ نہیں ر کھتا بے شک تو جو چا ہے کرنے والاہے اے وہ جس کا نام دوا جس کا ذکر شفا اور اطاعت تونگری ہے رحم فرما اس پرجس کا سرمایہ محض امید ہے اور جس کا ہتھیار گریہ ہے اے نعمتیں پوری کرنے والے اے سختیاں دور کرنے والے اے تاریکیوں میں ڈرنے والوں کیلئے نور اے وہ عالم جسے پڑھایا نہیں گیا محمد آل(ع) محمد پر رحمت فرما مجھ سے وہ سلوک کر جس کا تو اہل ہے خدا اپنے رسول پر اور بابرکت آئمہ پرسلام بھیجتا ہے بہت زیادہ سلام وتحیات جو انکی آل(ع) میں سے ہیں۔

 

اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ وَبِقُوَّتِکَ الَّتِی قَھَرْتَ بِہا کُلَّ شَیْءٍ وَخَضَعَ لَہا کُلُّ شَیْءٍ، وَذَلَّ لَہا کُلُّ شَیْءٍ، وَبِجَبَرُوتِکَ الَّتِی غَلَبْتَ بِہا کُلَّ شَیْءٍ وَبِعِزَّتِکَ الَّتِی لاَ یَقُومُ لَہا شَیْءٌ، وَ بِعَظَمَتِکَ الَّتِی مَلَأَتْ کُلَّ شَیْءٍ، وَ بِسُلْطانِکَ الَّذِی عَلاَ کُلَّ شَیْءٍ،وَ بِوَجْھِکَ الْباقِی بَعْدَ فَنَاءِ کُلِّ شَیْءٍ، وَبِأَسْمَائِکَ الَّتِی مَلأَتْ أَرْکَانَ کُلِّ شَیْءٍ، وَبِعِلْمِکَ الَّذِی أَحَاطَ بِکُلِّ شَیْءٍ، وَبِنُورِوَجْھِکَ الَّذِی أَضَاءَ لَہُ کُلُّ شَیْءٍ یَا نُورُ یَا قُدُّوسُ، یَا أَوَّلَ الْاَوَّلِینَ ، وَیَا آخِرَ الْاَخِرِینَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیَ الذُّنُوبَ الَّتِی تَھْتِکُ الْعِصَمَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیَ  الذُّنُوبَ الَّتِی تُنْزِلُ النِّقَمَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیَ الذُّنُوبَ الَّتِی تُغَیِّرُ النِّعَمَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیَ الذُّنُوبَ الَّتِی تَحْبِسُ الدُّعَاءَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیَ الذُّنُوبَ الَّتِی تُنْزِلُ الْبَلاَءَ ۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِی کُلَّ ذَ نْبٍ أَذْ نَبْتُةُ وَکُلَّ خَطِیئَةٍ أَخْطَأْتُہا ۔ اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَتَقَرَّبُ إِلَیْکَ بِذِکْرِکَ، وَأَسْتَشْفِعُ بِکَ إِلَی نَفْسِکَ وَأَسْأَ لُکَ بِجُودِکَ أَنْ تُدْنِیَنِی مِنْ قُرْبِکَ، وَأَنْ تُوزِعَنِی شُکْرَکَ وَأَنْ تُلْھِمَنِی ذِکْرَکَ اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ سُؤَالَ خَاضِعٍ مُتَذَلِّلٍ خَاشِعٍ أَنْ تُسامِحَنِی وَتَرْحَمَنِی وَتَجْعَلَنِی بِقَسْمِکَ رَاضِیاً قانِعاً، وَفِی جَمِیعِ الْاَحْوَالِ مُتَواضِعاً اَللّٰھُمَّ وَأَسْأَ لُکَ سُؤَالَ مَنِ اشْتَدَّتْ فَاقَتُہُ، وَأَ نْزَلَ  بِکَ عِنْدَ الشَّدایِدِ حَاجَتَہُ، وَعَظُمَ فِیَما عِنْدَکَ رَغْبَتُہُ۔ اَللّٰھُمَّ عَظُمَ سُلْطَانُکَ وَعَلاَ مَکَانُکَ وَخَفِیَ مَکْرُکَ، وَظَھَرَ أَمْرُکَ وَغَلَبَ قَھْرُکَ وَجَرَتْ قُدْرَتُکَ وَلاَ یُمْکِنُ الْفِرارُ مِنْ حُکُومَتِکَ اَللّٰھُمَّ لاَ أَجِدُ لِذُنُوبِی غَافِراً، وَلاَ لِقَبائِحِی سَاتِراً، وَلاَ لِشَیْءٍ مِنْ عَمَلِیَ الْقَبِیحِ بِالْحَسَنِ مُبَدِّلاً غَیْرَکَ لاَ إِلہَ إِلاَّ أَ نْتَ سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ، ظَلَمْتُ نَفْسِی، وَتَجَرَّأْتُ بِجَھْلِی، وَسَکَنْتُ إِلَی قَدِیمِ ذِکْرِکَ لِی وَمَنِّکَ عَلَیَّ ۔ اَللّٰھُمَّ مَوْلاَیَ کَمْ مِنْ قَبِیحٍ سَتَرْتَہُ،وَکَمْ مِنْ فَادِحٍ مِنَ الْبَلاَءِ أَقَلْتَہُ، وَکَمْ مِنْ عِثَارٍ وَقَیْتَہُ، وَکَمْ مِنْ مَکْرُوہٍ دَفَعْتَہُ، وَکَمْ مِنْ ثَنَاءٍ جَمِیلٍ لَسْتُ أَھْلاً لَہُ نَشَرْتَہُ اَللّٰھُمَّ عَظُمَ بَلاَئِی وَأَ فْرَطَ بِی سُوءُ حالِی وَقَصُرَتْ بِی أَعْمالِی،وَقَعَدَتْ بِی أَغْلالِی ، وَحَبَسَنِی عَنْ نَفْعِی بُعْدُ آمالِی، وَخَدَعَتْنِی الدُّنْیا بِغُرُورِہا، وَنَفْسِی بِجِنایَتِہا، وَمِطالِی یَا سَیِّدِی فَأَسْأَ لُکَ بِعِزَّتِکَ أَنْ لاَ یَحْجُبَ عَنْکَ دُعائِی سُوءُ عَمَلِی وَفِعالِی وَلاَ تَفْضَحْنِی بِخَفِیِّ مَا اطَّلَعْتَ عَلَیْہِ مِنْ سِرِّی وَلاَ تُعاجِلْنِی بِالْعُقُوبَةِ عَلی مَا عَمِلْتُہُ  فِی خَلَواتِی مِنْ سُوءِ فِعْلِی وَ إِسائَتِی وَدَوامِ تَفْرِیطِی وَجَہالَتِی، وَکَثْرَ ةِ شَھَواتِی وَغَفْلَتِی، وَکُنِ اَللّٰھُمَّ بِعِزَّتِکَ لِی فِی کُلِّ الْاَحْوالِ رَؤُوفاً، وَعَلَیَّ فِی جَمِیعِ الاَمُورِ عَطُوفاً إِلھِی وَرَبِّی  مَنْ لِی غَیْرُکَ أَسْأَلُہُ کَشْفَ ضُرِّی، وَالنَّظَرَ فِی أَمْرِی ۔ إِلھِی وَمَوْلایَ أَجْرَیْتَ عَلَیَّ حُکْماً اتَّبَعْتُ فِیہِ ھَویٰ نَفْسِی، وَلَمْ أَحْتَرِسْ فِیہِ مِنْ تَزْیِینِ عَدُوِّی، فَغَرَّنِی بِمَا أَھْوی وَأَسْعَدَھُ عَلَی ذلِکَ الْقَضاءُ، فَتَجاوَزْتُ بِما جَری عَلَیَّ مِنْ ذلِکَ بَعْضَ حُدُودِکَ،وَخالَفْتُ بَعْضَ أَوامِرِکَ،فَلَکَ الحُجَّةُ عَلَیَّ فِی جَمِیعِ ذلِکَ وَلاَ حُجَّةَ لِی فِیما جَریٰ عَلَیَّ فِیہِ قَضَاؤُکَ،وَأَ لْزَمَنِی حُکْمُکَ وَبَلاؤُکَ، وَقَدْ أَتَیْتُکَ یَا إِلھِی بَعْدَ تَقْصِیرِی وَ إِسْرافِی عَلی نَفْسِی،مُعْتَذِراً نادِماً مُنْکَسِراً مُسْتَقِیلاً مُسْتَغْفِراً مُنِیباً مُقِرّاً مُذْعِناً مُعْتَرِفاً، لاَ أَجِدُ مَفَرّاً مِمَّا کَانَ مِنِّی وَلاَ مَفْزَعاً أَتَوَجَّہُ إِلَیْہِ فِی أَمْرِی غَیْرَ قَبُو لِکَ عُذْرِی وَ إِدْخالِکَ إِیَّایَ فِی سَعَةٍ مِنْ رَحْمَتِکَ اَللّٰھُمَّ فَاقْبَلْ عُذْرِی وَارْحَمْ شِدَّةَ ضُرِّی وَفُکَّنِی مِنْ شَدِّ وَثاقِی یَا رَبِّ ارْحَمْ ضَعْفَ بَدَنِی وَرِقَّةَ جِلْدِی وَدِقَّةَ عَظْمِی، یَا مَنْ بَدَأَ خَلْقِی وَذِکْرِی وَتَرْبِیَتِی وَبِرِّی وَتَغْذِیَتِی، ھَبْنِی لاِبْتِداءِ کَرَمِکَ وَسالِفِ بِرِّکَ بِی یَا إِلھِی وَسَیِّدِی وَرَبِّی أَتُراکَ مُعَذِّبِی بِنَارِکَ بَعْدَ تَوْحِیدِکَ، وَبَعْدَ مَا انْطَوی عَلَیْہِ قَلْبِی مِنْ مَعْرِفَتِکَ، وَلَھِجَ بِہِ لِسَانِی مِنْ ذِکْرِکَ وَاعْتَقَدَھُ ضَمِیرِی مِنْ حُبِّکَ  وَبَعْدَ صِدْقِ اعْتِرافِی وَدُعَائِی خَاضِعاً لِرُبُوبِیَّتِکَ ھَیْھاتَ أَنْتَ أَکْرَمُ مِنْ أَنْ تُضَیِّعَ مَنْ رَبَّیْتَہُ أَوْ تُبَعِّدَ مَنْ أَدْنَیْتَہُ أَوْ تُشَرِّدَ مَنْ آوَیْتَہُ أَوْ تُسَلِّمَ إِلَی الْبَلاَءِ مَنْ کَفَیْتَہُ وَرَحِمْتَہُ، وَلَیْتَ شِعْرِی یَا سَیِّدِی وَ إِلھِی وَمَوْلایَ، أَ تُسَلِّطُ النَّارَ عَلَی وُ جُوہٍ خَرَّتْ لِعَظَمَتِکَ سَاجِدَةً، وَعَلَی أَلْسُنٍ نَطَقَتْ بِتَوْحِیدِکَ صَادِقَةً، وَبِشُکْرِکَ مَادِحَةً، وَعَلَی قُلُوبٍ اعْتَرَفَتْ بِإِلھِیَّتِکَ مُحَقِّقَةً،وَعَلَی ضَمَائِرَ حَوَتْ مِنَ الْعِلْمِ بِکَ حَتَّی صَارَتْ خَاشِعَةً، وَعَلَی جَوارِحَ سَعَتْ إِلَی أَوْطانِ تَعَبُّدِکَ طَائِعَةً، وَ أَشارَتْ بِاسْتِغْفارِکَ مُذْعِنَةً، مَا ھَکَذَا الظَّنُّ بِکَ، وَلاَ أُخْبِرْنا بِفَضْلِکَ عَنْکَ یَا کَرِیمُ یَا رَبِّ وَأَ نْتَ تَعْلَمُ ضَعْفِی عَنْ قَلِیلٍ مِنْ بَلاءِ الدُّنْیا وَعُقُوباتِہا، وَمَا یَجْرِی فِیہا مِنَ الْمَکَارِھِ عَلَی أَھْلِہا، عَلی أَنَّ ذلِکَ بَلاءٌ وَمَکْرُوہٌ قَلِیلٌ مَکْثُہُ، یَسِیرٌ بَقاؤُھُ، قَصِیرٌ مُدَّتُہُ،فَکَیْفَ احْتِمالِی لِبَلاءِ الاَخِرَةِ وَجَلِیلِ وُقُوعِ الْمَکَارِھِ فِیہا وَھُوَ بَلاءٌ تَطُولُ مُدَّتُہُ وَیَدُومُ مَقامُہُ، وَلاَ یُخَفَّفُ عَنْ أَھْلِہِ، لِاَنَّہُ لاَ یَکُونُ إِلاَّ عَنْ غَضَبِکَ وَانْتِقامِکَ وَسَخَطِکَ، وَہذا ما لاَ  تَقُومُ لَہُ السَّماواتُ وَالْاَرْضُ، یَا سَیِّدِی فَکَیْفَ بِی وَأَ نَا عَبْدُکَ الضَّعِیفُ الذَّلِیلُ، الْحَقِیرُ الْمِسْکِینُ الْمُسْتَکِینُ یَا إِلھِی وَرَبِّی وَسَیِّدِی وَمَوْلایَ، لاَِیِّ الاَْمُورِ إِلَیْکَ أَشْکُو، وَ لِمَا مِنْہا أَضِجُّ وَأَبْکِی، لِاِلِیمِ الْعَذابِ وَشِدَّتِہِ، أَمْ لِطُولِ الْبَلاَءِ وَمُدَّتِہِ۔ فَلَئِنْ صَیَّرْتَنِی لِلْعُقُوبَاتِ مَعَ أَعْدائِکَ، وَجَمَعْتَ بَیْنِی وَبَیْنَ أَھْلِ بَلاَئِکَ، وَفَرَّقْتَ بَیْنِی وَبَیْنَ أَحِبَّائِکَ وَأَوْ لِیائِکَ،فَھَبْنِی یَا إِلھِی وَسَیِّدِی وَمَوْلایَ وَرَبِّی، صَبَرْتُ عَلَی عَذابِکَ، فَکَیْفَ أَصْبِرُ عَلَی فِراقِکَ،وَھَبْنِی صَبَرْتُ عَلی حَرِّ نَارِکَ، فَکَیْفَ أَصْبِرُ عَنِ النَّظَرِ إِلَی کَرامَتِکَ أَمْ کَیْفَ أَسْکُنُ فِی النَّارِ وَرَجائِی عَفْوُکَ فَبِعِزَّتِکَ یَا سَیِّدِی وَمَوْلایَ أُقْسِمُ صَادِقاً لَئِنْ تَرَکْتَنِی نَاطِقاً لَاَضِجَّنَّ إِلَیْکَ بَیْنَ أَھْلِہا ضَجِیجَ الْاَمِلِینَ وَلَاَصْرُخَنَّ إِلَیْکَ صُراخَ الْمُسْتَصْرِخِینَ وَلَااَبْکِیَنَّ عَلَیْکَ بُکَاءَ الْفَاقِدِینَ، وَلاَنادِیَنَّکَ أَیْنَ کُنْتَ یَا وَ لِیَّ الْمُؤْمِنِینَ یَا غَایَةَ آمالِ الْعارِفِینَ یَا غِیاثَ الْمُسْتَغِیثِینَ یَا حَبِیبَ قُلُوبِ الصَّادِقِینَ وَیَا إِلہَ الْعالَمِینَ أَفَتُراکَ سُبْحَانَکَ یَا إِلھِی وَبِحَمْدِکَ تَسْمَعُ فِیہا صَوْتَ عَبْدٍ مُسْلِمٍ سُجِنَ فِیہا بِمُخالَفَتِہِ، وَذاقَ طَعْمَ عَذابِہا بِمَعْصِیَتِہِ، وَحُبِسَ بَیْنَ أَطْباقِہا بِجُرْمِہِ وَجَرِیرَتِہِ، وَھُوَ یَضِجُّ إِلَیْکَ ضَجِیجَ مُؤَمِّلٍ لِرَحْمَتِکَ وَیُنادِیکَ بِلِسانِ أَھْلِ تَوْحِیدِکَ، وَیَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِرُبُوبِیَّتِکَ یَا مَوْلایَ فَکَیْفَ یَبْقی فِی الْعَذابِ وَھُوَ یَرْجُو مَا سَلَفَ مِنْ حِلْمِکَ أَمْ کَیْفَ تُؤْ لِمُہُ النَّارُ وَھُوَ یَأْمُلُ فَضْلَکَ وَرَحْمَتَکَ أَمْ کَیْفَ یُحْرِقُہُ لَھِیبُہا وَأَ نْتَ تَسْمَعُ صَوْتَہُ وَتَری مَکانَہُ أَمْ کَیْفَ یَشْتَمِلُ عَلَیْہِ زَفِیرُہا وَأَ نْتَ تَعْلَمُ ضَعْفَہُ أَمْ کَیْفَ یَتَقَلْقَلُ بَیْنَ أَطْباقِہا وَأَ نْتَ تَعْلَمُ صِدْقَہُ أَمْ کَیْفَ تَزْجُرُھُ زَبانِیَتُہا وَھُوَ یُنادِیکَ یَا رَبَّہُ أَمْ کَیْفَ یَرْجُو فَضْلَکَ فِی عِتْقِہِ مِنْہا فَتَتْرُکُہُ فِیہا، ھَیْہاتَ ما ذلِکَ الظَّنُ بِکَ، وَلاَ الْمَعْرُوفُ مِنْ فَضْلِکَ، وَلاَ مُشْبِہٌ لِمَا عَامَلْتَ بِہِ الْمُوَحِّدِینَ مِنْ بِرِّکَ وَ إِحْسانِکَ، فَبِالْیَقِینِ أَقْطَعُ،لَوْلاَ مَا حَکَمْتَ بِہِ مِنْ تَعْذِیبِ جَاحِدِیکَ، وَقَضَیْتَ بِہِ مِنْ إِخْلادِ مُعانِدِیکَ، لَجَعَلْتَ النَّارَ کُلَّہا بَرْداً وَسَلاماً، وَمَا کانَ لاََِحَدٍ فِیہا مَقَرّاً وَلاَ مُقاماً، لَکِنَّکَ تَقَدَّسَتْ أَسْماوٴُکَ أَقْسَمْتَ أَنْ تَمْلَاَہا مِنَ الْکَافِرِینَ، مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ، وَأَنْ تُخَلِّدَ فِیھَا الْمُعانِدِینَ، وَأَنْتَ جَلَّ ثَناؤُکَ قُلْتَ مُبْتَدِیاً، وَتَطَوَّلْتَ بِالْاِنْعامِ مُتَکَرِّماً، أَفَمَنْ کَانَ مُوَْمِناً کَمَنْ کَانَ فَاسِقاً لاَ یَسْتَوُونَ إِلھِی وَسَیِّدِی، فَأَسْأَ لُکَ بِالْقُدْرَةِ الَّتِی قَدَّرْتَہا وَبِالْقَضِیَّةِ الَّتِی حَتَمْتَہا وَحَکَمْتَہا، وَغَلَبْتَ مَنْ عَلَیْہِ أَجْرَیْتَہا، أَنْ تَھَبَ لِی فِی ھَذِھِ اللَّیْلَةِ وَفِی ھَذِھِ السَّاعَةِ کُلَّ جُرْمٍ أَجْرَمْتُہُ، وَکُلَّ ذَنْبٍ أَذْ نَبْتُہُ، وَکُلَّ قَبِیحٍ أَسْرَرْتُہُ، وَکُلَّ جَھْلٍ عَمِلْتُہُ کَتَمْتُہُ أَوْ أَعْلَنْتُہُ أَخْفَیْتُہُ أَوْ أَظْھَرْتُہُ وَکُلَّ سَیِّئَةٍ أَمَرْتَ بِإِثْباتِھَا الْکِرامَ الْکاتِبِینَ الَّذِینَ وَکَّلْتَھُمْ بِحِفْظِ مَا یَکُونُ مِنِّی وَجَعَلْتَھُمْ شُھُوداً عَلَیَّ مَعَ جَوارِحِی وَکُنْتَ أَ نْتَ الرَّقِیبَ عَلَیَّ مِنْ وَرائِھِمْ وَالشَّاھِدَ لِما خَفِیَ عَنْھُمْ وَبِرَحْمَتِکَ أَخْفَیْتَہُ وَبِفَضْلِکَ سَتَرْتَہُ، وَأَنْ تُوَفِّرَ حَظِّی، مِنْ کُلِّ خَیْرٍ تُنْزِلُہُ، أَوْ إِحْسانٍ تُفْضِلُہُ، أَوْ بِرٍّ  تَنْشِرُھُ، أَوْ رِزْقٍ تَبْسِطُہُ، أَوْ ذَ نْبٍ تَغْفِرُھُ، أَوْ خَطَاًَ تَسْتُرُھُ، یَا رَبِّ یَا رَبِّ یَا رَبِّ یَا إِلھِی وَسَیِّدِی وَمَوْلایَ وَمالِکَ رِقِّی یَا مَنْ بِیَدِھِ نَاصِیَتِی، یَا عَلِیماً بِضُرِّی وَمَسْکَنَتِی یَا خَبِیراً بِفَقْرِی وَفاقَتِی  یَا رَبِّ یَا رَبِّ یَا رَبِّ أَسْأَ لُکَ بِحَقِّکَ وَقُدْسِکَ وَأَعْظَمِ صِفاتِکَ وَأَسْمائِکَ، أَنْ تَجْعَلَ أَوْقاتِی فِی اللَّیْلِ وَالنَّہارِ بِذِکْرِکَ مَعْمُورَةً، وَبِخِدْمَتِکَ مَوْصُولَةً وَأَعْمالِی عِنْدَکَ مَقْبُولَةً،حَتَّی تَکُونَ أَعْمالِی وَأَوْرادِی کُلُّہا وِرْداً وَاحِداً، وَحالِی فِی خِدْمَتِکَ سَرْمَداً۔ یَا سَیِّدِی یَا مَنْ عَلَیْہِ مُعَوَّلِی، یَا مَنْ إِلَیْہِ شَکَوْتُ أَحْوالِی یَا رَبِّ یَا رَبِّ یَا رَبِّ قَوِّ عَلی خِدْمَتِکَ جَوارِحِی وَ اشْدُدْ عَلَی الْعَزِیمَةِ جَوانِحِی، وَھَبْ لِیَ الْجِدَّ فِی خَشْیَتِکَ، وَالدَّوامَ فِی الاتِّصالِ بِخِدْمَتِکَ، حَتّی أَسْرَحَ إِلَیْکَ فِی مَیادِینِ السَّابِقِینَ، وَأُسْرِعَ إِلَیْکَ فِی المُبَادِرِینَ وَأَشْتاقَ إِلی قُرْبِکَ فِی الْمُشْتاقِینَ وَأَدْنُوَ مِنْکَ دُنُوَّ الْمُخْلِصِینَ، وَأَخافَکَ مَخافَةَ الْمُوقِنِینَ وَأَجْتَمِعَ فِی جِوارِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ اَللّٰھُمَّ وَمَنْ أَرادَنِی بِسُوءٍ فَأَرِدْھُ، وَمَنْ کادَنِی فَکِدْھُ وَاجْعَلْنِی مِنْ أَحْسَنِ عَبِیدِکَ نَصِیباً عِنْدَکَ وَأَقْرَبِھِمْ مَنْزِلَةً مِنْکَ، وَأَخَصِّھِمْ زُلْفَةً لَدَیْکَ، فَإِنَّہُ لاَ یُنالُ ذلِکَ إِلاَّ بِفَضْلِکَ،وَجُدْ لِی بِجُودِکَ، وَاعْطِفْ عَلَیَّ بِمَجْدِکَ، وَاحْفَظْنِی بِرَحْمَتِکَ، وَاجْعَلْ لِسانِی بِذِکْرِکَ لَھِجاً، وَقَلْبِی بِحُبِّکَ مُتَیَّماً وَمُنَّ عَلَیَّ بِحُسْنِ إِجابَتِکَ وَأَقِلْنِی عَثْرَتِی وَاغْفِرْ زَلَّتِی فَإِنَّکَ قَضَیْتَ عَلی عِبادِکَ بِعِبادَتِکَ، وَأَمَرْتَھُمْ بِدُعائِکَ، وَضَمِنْتَ لَھُمُ الْاِجابَةَ، فَإِلَیْکَ یارَبّ نَصَبْتُ وَجْھِی، وَ إِلَیْکَ یَا رَبِّ مَدَدْتُ یَدِی، فَبِعِزَّتِکَ اسْتَجِبْ لِی دُعائِی، وَبَلِّغْنِی مُنایَ، وَلاَ تَقْطَعْ مِنْ فَضْلِکَ رَجائِی،وَاکْفِنِی شَرَّ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ مِنْ أَعْدائِی،یَا سَرِیعَ الرِّضا،اغْفِرْ لِمَنْ لاَ یَمْلِکُ إِلاَّ الدُّعاءَ، فَإِنَّکَ فَعَّالٌ لِما تَشَاءُ، یَا مَنِ اسْمُہُ دَوَاءٌ، وَذِکْرُھُ شِفاءٌ وَطَاعَتُہُ غِنیً اِرْحَمْ مَنْ رَأْسُ مالِہِ الرَّجاءُ وَسِلاحُہُ الْبُکَاءُ یَا سَابِغَ النِّعَمِ، یَا دَافِعَ النِّقَمِ، یَا نُورَ  الْمُسْتَوْحِشِینَ فِی الظُّلَمِ، یَا عَالِماً لاَ یُعَلَّمُ، صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَافْعَلْ بِی مَا أَ نْتَ أَھْلُہُ، وَصَلَّی اللهُ عَلی رَسُو لِہِ وَالْاَئِمَّةِ الْمَیامِینَ مِنْ آلِہِ وَسَلَّمَ تَسْلِیماً کَثِیراً ۔

Wednesday, 22 August 2012 04:48

مسجد کوک گمبز - ازبكستان

مسجد کوک گمبز، شہرِ سبز، ازبکستان کی ایک مسجد ہے جو امیر تیمور کے پوتے الغ بیگ نے 1435ء یا 1437ء میں اپنے والد شاہ رخ کے نام پر (ممکنہ طور پر ایصالِ ثواب کے لیے) تعمیر کروائی تھی۔ کوک گمبز کا لفظی مطلب 'نیلا گنبد' کے ہیں جو اس مسجد کی پہچان ہے۔

سابقہ سوویت یونین کی دیگر مساجد کی طرح یہ بھی ستر سال سے زیادہ بند رہی اور اس کا کافی حصہ تباہ ہو گیا۔

یونیسکو نے اس مسجد اور شہرِ سبز کی دیگر کئی یادگاروں کو عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ دیا ہے۔ یہ مسجد 'گبمزِ سیدون' (یا گنبدِ سیداں، جو کچھ عمارتیں ہیں جن میں مسجد کے علاوہ کچھ اور عمارات بھی شامل ہیں) کا ایک حصہ ہے۔ یہاں ایک مدرسہ بھی تھا جس کا نام مدرسہ درود و صلوۃ تھا۔

 

ن . اسماعيل

مقدمہ

''و اعتصموا بحبل اللہ جمیعاً و لا تفرقوا'' خداوند سورۂ آل عمران میں ارشاد فرما رہا ہے کہ ''خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو'' اس مقالہ میں اتحاد مسلمین کو امام خمینی کی نظر سے بیان کررہی ہوں۔ جس طرح حیات و بقا ایک جامعہ و معاشرہ میں ضروری ہے اسی طرح اتحاد اس کے اعضا وہ جامعہ کہلاتا ہے۔ اگر اتحاد ان کے درمیان نہ ہو تو وہ جامعہ زوال پذیر ہوجاتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں جو بزرگان عوام کو وحدت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اس مقالہ میں امام خمینی کی نظر سے اتحاد کو بیان کیا ہے.

جامعہ میں وحدت

امت مسلمہ کی یکسوئی اور مسلمان فرقوں کا اتحاد با بصیرت علمائے اسلام کی دیرینہ آرزو رہی ہے، اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں کہ اس میں یکجہتی کی ایک وجہ استعماری قوتوں کی عسکری، اقتصادی اور سیاسی یلغار کے سامنے متحدہ اسلامی محاذ کا قیام ہے، اسی لئے گزشتہ ایک دو صدیوں کے دوران دشمن کا ہجوم جتنا وسیع تھا اتنا ہی وحدت و یکجہتی کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے اور وحدت کے داعیوں کے فریادیں زیادہ بلند ہوئی ہیں۔ آج جبکہ مغرت کی سپر طاقتوں اور دوسری استعماری طاقتوں کے براہ راست مغربی حملے ختم ہوگئے ہیں، پیچیدہ اور نت نئے طریقوں سے سیاسی و معاشرتی اور ثقافتی غلبے کا وقت آپہنچا ہے اور اسلامی ممالک پہلے سے زیادہ استعماری طاقتوں کی وسیع ثقافتی اور اقتصادی یلغار کی پالیسی کی زد میں ہیں۔

گزشتہ چند عشروں کے دوران اٹھنے والی وحدت و یکجہتی کی آوازیں ہر زمانے سے بلند ترین لیکن وحدت کے مختلف تصورات اور دنیا میں ابھرنے والے اس دینی سیاسی مفہوم کے مختلف نمونوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی اتحاد کے نظریئے کے سامنے ابھرنے والے بنیادی سوال یہ ہے کہ مسلمان مفکرین کے گفتار و کردار میں وحدت کا کوشا تصور تھا؟

اور کیا ان سب کا وحدت کے بارے میں نظریہ یکسان تھا یا ان کی فکر و عمال میں اس دینی سیاسی مفہوم کی مختلف اقسام پائی جاتی تھیں؟ اس صورت میں کونسے نظریئے کو پسندیدہ اور حقیقت پسندانہ قرار دے سکتے ہیں اور کوشانظریہ افراط و تفریط اور ناپسندیدہ نظر آتا ہے، اس سلسلے میں تحقیقی حلقوں کا ایک لازمی اور اولین قدم اسی قسم کی تحقیقات اور ابحاث میں کہ جو وحدت کے اس پہلو کو اجاگر کرتی ہیں۔ اس لئے کہ وحدت کے بعض نظریات کا خطرہ جو آہستہ آہستہ مذہب کے زوال کا سبب بنتے یہں جدائی اور تفرقہ و انتشار سے کم نہیں ہے جس نے برسوں تک امت مسلمہ کو اپنے شعلوں کی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

میدان وحدت میں بانی اسلامی جمہوریہ ایران حضرت امام خمینی کا نظریہ افراط و تفریط سے دور ہے اور امام کے دیگر نظریات کے طرح یہ بھی منزل کے متلاشیوں کے لئے چراغ راہ ثابت ہوسکتا ہے لہٰذا وحدت کے بارے میں امام خمینی کے عملی پہلوئوں سے اس مقالے کا ماحصل قرار دیں گے۔

قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:''و من یعتصم باللہ فقد ھدی الی صراط مستقیم۔'' ((سورۂ آل عمران، آیت١٠١))

اور جو شخص خدا سے وابستہ ہو وہ ضرور سیدھی راہ پر لگا دیا گیا ہے۔

اس آیت میں ''اللہ'' کے محور پر اتحاد کی حقانیت پر زور دیا گیا ہے۔

تضادات کے درمیان سے نظریہ وحدت سے مراد یہ ہے کہ مختلف موضوعات میں یکطرفہ، ایک پہلو والا اور افراط یا تفریط پر مبنی رجحان ہوسکتا ہے۔ حضرت امام خمینی کے نظریات و افکار کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے متضاد اور معارض موقف یکجا کئے ہیں اور حضرت امام خمینی کے طرز فکر میں ان تضادات کے درمیان وحدت پیدا ہوگئی ہے۔

امام خمینی کی سیرت و کردار اور ان کا پسندیدہ تصور اتحاد

حضرت امام خمینی ان چند مفکرین میں سے ہیں جو اپنی فکری زندگی کی ابتداء سے انتہا تک اتحاد و یکجہتی پر زور دیتے رہے۔ انہوں نے عملی زندگی میں بھی وحدت کے حصول کی راہیں ہموار کیں اور اس سلسلے میں موثر قدم اٹھائے۔ امام خمینی کی دعوت اتحاد صرف مسلمان اقوام کے اتحاد تک محدود نہیں تھیں بلکہ ملک کے اندر اور باہر مختلف میدانوں میں اسے کامیابی کی کلید سمجھتے تھے، ان مواقع پر وحدت کا تصور بھی یکساں نہیں تھا ان میں فرق بھی پائے جاتے تھے۔

قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہورہا ہے:''و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا'' ((آل عمران١٠٣))

اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ پیدا نہ کرو۔

رسولخدا ۖ نیز اہمتی وحدت کے مقابل میں جاہل ہونے کے (یعنی تفرقہ) کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:''من فارق الجماعة مات میتة جاہلیة۔'' ((مرتضیٰ فرید تنکابنی، رہنمای انسانیت، ص١٧٤))

اگر امام خمینی کے فرمودات، سیاسی اور اجتماعی رفتار پر دقت کریں تو ان کی باتوں سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ ان کی نظر سے وحدت صرف ایک توصیۂ اخلاقی، ایک ثقافتی و اجتماعی اہمیت کی حامل نہیں بلکہ بہت بڑے اور بہترین روش سیاسی جوامع اسلامی کی قدرت و طاقت کے لئے دشمن سے مقابلہ کے لئے یہی دلیل ہے کہ دشمنان جہان اسلام بھی سالوں سے ہے کہ جوامع اسلامی کے درمیان تفرقہ ایجاد کریں۔ دشمن اپنے اہداف پر کافی حد تک مسلط ہوچکا ہے۔ امام خمینی کے تصور وحدت پر نظر ڈالتے سے غالباً اسٹرٹیجک حکمت عملی کے تحت کیا جانے والا اتحاد کی تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جن میدانوں میں امام خمینی اتحاد و یکجہتی کے خواہاں نظر آتے ہیں ان میں بعض اس طرح ہیں:

١۔ معاشرتی طبقات میں اتحاد: یعنی علمائے کرام، سیاسی، اجتماعی اور مذہبی جماعتوں، دانشوروں، تاجروں، مزدوروں اور عوام و حکومت وغیرہ کے طبقات کے درمیان اتحاد۔ امام خمینی نے فرمایا: آپ کو معلوم ہے جس بات نے اس تحریک کو کامیاب بنا دیا وہ ایمان تھا اور مومنین آپس میں جس طرح قرآن مجید نے فرمایا مومن ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے (انما المومنون اخوہ) ((سورۂ حجرات، آیہ١٠)) حضرت امام خمینی آسمانی عہد و پیمان کی بنیاد پر اخوت اور بھائی چارے کی تاکید کرتے ہوئے اتحاد کی دعوت دیتے ہیں ان میدانوں میں حضرت امام خمینی سب سے بڑھ کر اخوت کے معنوں میں اسٹرٹیجک اتحاد چاہتے تھے اور اتحاد قائم کرنے کے لئے تزکیہ نفس کی تلقین فرماتے اور ملکی امن و سلامتی اور اسلامی نظام کی ترقی اور پیشرفت کے لئے اس قسم کے اتحاد کے قیام کو ضروری سمجھتے تھے اور وہ زیادہ تر شیطانی وسوسوں اور ذاتی اغراض و مقاصد کو ان اختلافات کا سرچشمہ سمجھتے تھے اور وحدت و یکجہتی کے حصول کے لئے تزکیہ نفس کی تلقین فرماتے تھے۔

امام خمینی اپنے دورِ ذمہ داری میں اس طرح کی وحدت کی تلقین فرماتے رہے اس سلسلے میں وہ معاشرتی طبقات اور سیاسی حکام کو متنبہ کرتے رہتے اور بعض مراحل پر ان کی سرزنش کرتے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں ایک مقام پر گورنروں سے مخاطب ہوکر امام نے فرمایا:''گورنر صاحبان کو آپس میں متحد ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کے ساتھ بھی انہیں یک دل ہونا چاہئے اس لئے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ خداوند عالم کے فضل و کرم اور اس قوم کی وجہ سے ہے۔آپ کو متحد ہونا چاہئے تاکہ آپ محفوظ رہیں۔ آپ کے درمیان تفرقہ و اختلاف پیدا کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں اور اس بات کا دھیان رہے کہ تفرقہ انگیز باتیں کرنا گناہ کبیرہ ہے اور مشکل ہے کہ خدا اسے بخشے چاہے ہمارے دشمن اس طرح کی باتیں کریں یا ہمارے دوست اور چاہے ایسی بانی تقدس اور شرافت کے دعویداروں کے منہ سے نکلیں یا ان لوگوں کے جو اس قسم کے دعوے نہیں کرتے۔''

جب امام خمینی کے دفتر کے ایک رکن نے معاشرے میں ابھرنے والے دو قسم کے فکری سیاسی گروہ کے نظریات کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے دونوں گروہ کی سرگرمیوں کو نہ صرف نادرست اور غیر نقصاندہ قرار دیا بلکہ علمائے سلف کی سیرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:''اسلام کے عظیم فقہاء کی کتابیں، مختلف عسکری، ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور عبادی موضوعات پر اختلاف آراء و روش اور مفاہیم میں اختلاف سے پُر ہیں۔ اسلامی حکومت میں ہمیشہ اجتہاد کا دروازہ کھلا رہنا چاہئے اور حکومت اور انقلاب بھی یہی ہے کہ مختلف شعبوں میں فقہی اجتہادی آراء چاہے ایک دوسرے کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں آزادانہ طور پر پیش کی جائیں اور کسی کو اس سلسلہ کو روکنے کا حق نہیں پہنچتا ہے۔'' ((صحیفۂ نور، ج٢١، ٤٦، ٢٧)) مختصراً کہہ سکتے ہیں کہ امام خمینی کی نظرمیں پسندیدہ وحدت مکمل عملی اتحاد اور تمام سرکاری اداروں اور عہدیداروں کے فعل و عمل میں ہم آہنگی اور اسلام و انقلاب کے بنیادی اصول میں فکری یکسوئی ہے۔

٢۔ مخالفین کو امت مسلمہ کے ساتھ اتحاد کی دعوت: ملحد و منافق عناصر اور اسلامی حکومت کے مخالفین بھی امام خمینی کی پند و نصیحت سے بے بہرہ نہیں تھے۔ اگرچہ عام طور پر ان کے کانوں پر مہر لگی ہوئی تھی اور انہیں اس پند و نصیحت کو قبول کرنے کی توفیق حاصل نہیں تھی۔ ان گروہوں کو کی جانے والی امام خمینی کی تلقینوں میں امت مسلمہ کے ساتھ اتحاد اور عوام کی صفوں میں شامل ہونا تھا جس نے امام خمینی کے نظریات کو قبول کرلیا تھا۔ یہ دعوت نظریاتی اتحاد ہے اسٹرٹیجک اتحاد نہیں ہے اور مصلحت اسی میں تھی کہ ان عناصر کو غلط راستوں پر بھٹکنے سے روکا ہے۔

امام خمینی کی اصلاحات

امام خمینی کی اصلاحات کے مصادیق یعنی شیعہ سنی اتحاد کے حوالہ سے وحدت کے نظریئے فرض اور نتیجے کی اصالت کے حوالے سے وحدت کے نظریئے اور ولایت مطلقہ اور ملت کے حقوق کے حوالہ سے وحدت کے نظریئے کا جائزہ لیں گے۔

١۔ شیعہ سنی تضاد کے حوالہ سے وحدت کا نظریہ: شیعہ سنی کے درمیان گہرا اختلاف پایا جاتا ہے جوکہ نظریاتی بھی ہے۔ یہ اختلاف خواص اور علماء کے درمیان ہے اور عملی طور پر بھی یہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ امت اسلامیہ کی بہت ساری صلاحیتیں اسی اختلاف پر صرف ہوچکی ہیں۔ البتہ اس سلسلہ میں غیروں کا کردار بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

شیعہ سنی مسئلہ کے بارے میں حضرت امام خمینی کا موقف کیا تھا؟ اس مسئلہ کی وضاحت کے لئے امام خمینی کے سیاسی وصیت نامہ کی طرف رجوع کررہے ہیں کیونکہ آپ کا وصیت نامہ اس کی وضاحت کا بہترین ذریعہ ہے۔ آپ نے اپنے وصیت نامہ میں تمام دنیائے اسلام کو مخاطب فرمایا ہے۔ وصیت نامہ میں آپ کا خطاب کسی خاص اسلامی فرقے سے نہیں ہے بلکہ تمام فرقوں سے ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ اتحاد بین المسلمین کے قائل تھے۔

امام خمینی کے وصیت نامہ میں غور طلب بات یہ ہے کہ آپ نے اس کا آغاز حدیث ثقلین (انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی) سے کیا ہے۔ عموماً جو لوگ اہل سنت کو مغلوب کرنا اور ان کے خلفاء کو نااہل ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ اس حدیث سے تمسک کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسولۖ کے غسل کا پانی خشک نہیں ہوپایا تھا کہ انہوں نے عترت کے ساتھ یہ سلوک کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ امام خمینی ایک طرف اتحاد بین المسلمین کے قائل ہیں اور دوسری طرف اس حدیث سے اپنے وصیت نامہ کا آغاز کیا جبکہ حدیث ثقلین کی تاکید قرآن اور عترت کے بارے میں ہے کہ شیعہ اس سے اہل سنت پر غلبہ حاصل کرے۔

امام خمینی کا وصیت نامہ احیا کا سرچشمہ ہے کہ اس کے شروع میں حدیث ثقلین بیان کرنے سے امام خمینی کا مقصد مکمل اسلام کی تاکید اور اسلام کے ابتدائی اندرونی مأخذ کے بارے میں تاکید، سنت نبویۖ کے احیائ، قرآن و عترت کی کم پرسی کے تذکرہ ان عظیم ماخذوں سے استفادہ نہ کرنے کی صورت میں پہنچنے والے نقصان کے بیان اور اس خوش خبری سے عبارت ہے کہ انقلاب اس لئے برپا کیا ہے کہ دین کے احیا کے ساتھ قرآن و عترت کو کسمپرسی کی حالت سے باہر نکالے۔

اسلامی حکومتوں کے بارے میں امام خمینی کا فرمان

اسلامی حکومتوں کو ایک ہی حکومت کی طرح ہونا چاہئے ایسا ہونا چاہئے کہ جیسا ان کا معاشرہ ایک ہے اس لئے کہ ان کا پرچم ان کی کتاب ایک ہے اور ان کا پیغمبر ایک ہے۔ ان کو ہمیشہ متحد رہنا چاہئے، ایک دوسرے کے ساتھ ہمہ گیر مفادات رکھنے چاہئیں اور اگر یہ مقاصد حاصل ہوجائیں اور ہر لحاظ سے اسلامی حکومتوں کے درمیان اتحاد وجود میں آئے تو وہ اپنے مسائل پر قابو پاسکتی ہیں۔ ((صحیفۂ نور، ج٤، ص٣٧))

حضرت امام خمینی نے اپنے حقیقت پسندانہ مقاصد کو اپنے سیاسی الٰہی وصیت نامہ میں ایک اسلامی حکومت کی تشکیل کی صورت میں پیش کیا ہے جس میں آزاد اور خود مختار جمہوریں ہوں۔ ((در جستجوی راہ امام از کلام امام، ص٦٦٥))

ایک اور مقام پر امام خمینی نے فرمایا:''سرحدیں ضرور جدا ہوں لیکن دلوں کو ایک ہونا چاہئے اگر مسلمان اپنی سرحدوں کو قائم رکھتے ہوئے متحد ہوجائیں اور ان کے دلوں ایک ہوں تو ان کی بہت بڑی آبادی بن جائے گی۔''

امام خمینی نے امت مسلمہ کے مختلف طبقات اور اسلامی مفکرین کو مسلمانوں کی عظمت رفتہ لوٹانے کے لئے اپنے فرمان میں فرمایا کہ ہم کہتے ہیں کہ آپ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں، تمام مسلمان آپس میں متحد ہوجائیں، ہمارے نہ کسی اور کے ساتھ خصوصی روابط ہیں اور نہ ہی آپ کے ساتھ، بلکہ ہمارا سب کے ساتھ رابطہ ہے۔ ہم آپ سب کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں اور اگر اسلامی احکام پر عمل پیرا ہوں تو ہمارے نزدیک تمام مسلمان عزیز ہیں، ہم امت مسلمہ کے افراد کو محترم سمجھتے ہیں چاہے وہ ترکی ہوں یا عربی ہوں اور عجمی، چاہے ان کا تعلق امریکہ سے ہو یا کسی اور جگہ سے۔

امام خمینی کے گفتار و کردار میں پایا جانے والا ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے کہیں بھی دینی اصولوں سے دستبردار ہونے کا ذکر نہیں کیا ہے اور عملی میدان میں فیصلہ اور حکمت عملی وضع کرنے اور اسی طرح کے دیگر مراحل میں وحدت کی دعوت دیتے تھے، اس کے برعکس ضروری مواقع پر وہ اپنے دس سالہ دور ولایت و حکومت میں مذہبی اصول کا تذکرہ کرتے اور ان کو دل کی گہرائیوں سے حفاظت پر زور دیتے رہتے تھے۔

تاہم امام ان باتوں سے ناراض ہوتے تھے جو دوسرے مسلمان فرقوں کی دل آزاری کا باعث بنتی تھیں اسی بناپر وہ متعصف افراد کے بعض آداب و رسوم کو پسند نہیں کرتے تھے۔ غرض یہ کہ امام خمینی کے نظریہ اتحاد میں اصولوں سے انحراف نہیں پایا جاتا تھا۔

امام خمینی کے ان فرمودات و آیات قرآنی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر سب مسلمان متحد ہوجائیں تو دشمن کبھی ان مسلمانوں کو ضرر نہیں پہنچائے گا اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر ایک فرد تنہا ہو تو دشمن اس کو بآسانی نقصان پہنچا سکتا ہے مگر یہ فرد ملت کی صورت اختیار کرلے تو کبھی بھی دشمن نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے اور یہ سبب بن جاتا ہے کہ اگر بین المسلمین اتحاد قائم ہوجائے تو دشمن کو بآسانی شکست دے سکتے ہیں اس بارے میں علامہ اقبال کا شعر لکھتی چلوں

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا اور بیرون دریا کچھ نہیں

کیونکہ مختلف فرقوں کے درمیان اس طرح کی وحدت و یکجہتی نہ عملی ہوسکتی ہے اور نہ ہی پسندیدہ وسیع پیمانے پر نظریاتی اتحاد کے حصول کے لئے کم از کم دو قسم کے شرائط کا خیال رکھیں؛ سیرت معصومین سنت نبویۖ اور بیان وحی الٰہی کی روشنی میں بعض محدود مراحل کو چھوڑ کر عام حالات میں کفار کے مقابلے میں اہل کتاب کے ساتھ نظریاتی وحدت کی اپیل کی گئی ہے جسے (وحدت نبویۖ) کا نام دے سکتے ہیں۔

امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں کہ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مجھ سے زیادہ کوئی شخص بھی امت محمدۖ کی جماعت بندی اور اتحاد باہمی کا خواہش مند نہیں ہے جس سے میری غرض صرف حسن ثواب اور آخرت کی سرفرازی ہے۔ میں نے جو عہد کیا ہے اسے پورا کرکے رہوں گا اگرچہ تم اس نیک خیال سے کہ مجھ سے آخری ملاقات تک تمہارا تھا اب پلٹ جائو۔ ((نہج البلاغہ، صبحی صالح، نامہ ٧٨))

اتحاد؛ پیروزی و کامیابی

اتحاد اگر ہو تو یہ ان لکڑیوں کی مانند ہیں کہ اگر ان لکڑیوں کو جمع کیا جائے تو کوئی بھی ان کو جدا نہیں کرسکتا۔ اگر فقط ایک لکڑی ہو تو بآسانی اس کو توڑ سکتے ہیں۔ میں اس میں اس قصہ کو بیان کرتی چلوں یہ قصہ بہ ظاہر عام اور نامفہوم سا لگتا ہے مگر اس کی گہرائی میں جائیں تو واقعاً ہمارے لئے ایک بہترین سبق موجود ہے۔ ایک بوڑھا آدمی آدمی جس کے پانچ بیٹے تھے ہمیشہ ان کے درمیان اختلاف پیدا ہوجاتا تھا ۔ ایک دن ان کے والد نے ان سے کہا اور ان کے ہاتھوں میں ایک ایک لکڑی دی اور کہا کہ اس کو توڑو۔ انہوں نے بآسانی اس کو توڑ دیا مگر لکڑیوں کو جمع کرکے کہا کہ ان لکڑیوں کو توڑو تو کوئی بھی ان لکڑیوں کو نہیں توڑ سکا۔ بعد میں ان کے والد نے ان سے کہا کہ اگر تم لوگ متحد رہوگے تو ان لکڑیوں کے جمع کی مانند بن جائوگے اور کوئی تمہیں شکست نہیں دے سکتا اگر تمہارے درمیان اختلاف ہو تو کوئی بھی تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہے اور اگر ہم اپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں تو کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اتحاد کے بارے میں علامہ اقبال کا ایک بہت خوبصورت شعر بیان کرتی چلوں :

ایک ہو مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر

وحدت رحمت و تاثیر کی منزلت میں

امام خمینی معتقد تھے کہ اتحاد و وحدت؛ تائید رحمن و الٰہی ہے اور جب متحد ہوجائیں۔ خدائے تبارک و تعالیٰ کی حمایت اور خداوند تعالیٰ کا ساتھ تمہارے ساتھ ہوگا۔ ((صحیفۂ امام، ج٧، ص١٠٧)) اور آخر میں اپنے مقالہ کا اختتام امام علی علیہ السلام کے اس فرمان سے کرتی ہوں:''اختلاف بنیاد فکر صحیح کو درہم کردیتی ہے۔'' ((نہج البلاغہ، حکمت٢١٥)) خداوند ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں تاکہ کامیابی ہمارا مقدر بن جائے۔

نتیجہ :

پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا:''جماعت اور وحدت سبب رحمت الٰہی اور تفرقہ سبب عذاب الٰہی ہے۔''

اس مقالہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جماعت اور وحدت خداوند کی رحمت کا سبب بنتا ہے اور اگر لوگ گروہ گروہ یا تفرقہ میں پڑ جائیں تو خدا کے عذاب کا سبب بن جاتا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں مقصد بزرگ و شرائع عظام کی توحید کلمہ و توحید عقیدہ جانتے تھے یہ کس چیز پر متحد ہے وحدت و اتحاد پر اور وحدت ہی ہے کہ کلمہ توحید بن سکتے ہیں۔

اس مقالہ میں نظرات امام خمینی کو بیان کای ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اسلام اس لئے آیا ہے کہ تمام ملت دنیا کسی کو کسی پر برتری حاصل نہیں ہے سب اگر متحد ہوجائیں تو امت بزرگ بنام امت اسلام قرار پائے اور اگر ہم اپنی صفوں میں اتحاد و انسجام کو برقرار رکھیں تاکہ دشمن کی ناپاک سازشیں جو ہم مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنا چاہتی ہیں اس کو ہم سب متحد ہوکر ناکام بنائیں کیونکہ ہمارا خدا ایک ہے ہمارا قبلہ ایک ہے، پیغمبر ایک ہے اگر آج ہم متحد ہوجائیں تو دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو شکست دے سکتے ہیں اور اسی وجہ سے مقام معظم رہبی نے ١٣٨٦ھ ش کو سال اتحاد اور انسجام اسلامی کا نام دیا تھا۔ ہم اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے اپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں اور جو ذلت و خواری گزشتہ سالوںمیں پائی اس کا جبران فقط اور فقط وحدت و اتحاد بین المسلمین ہے۔

 

توضیحات :

١۔ آل عمران، آیت١٠١

٢۔ آل عمران، آیت١٠٣

٣۔ مرتضی فریدی تنکابنی، رہنمای

٤۔ حجرات، آیت١٠

٥۔ صحیفۂ نور، جلد٢، ٤٦،٤٧

٦۔ صحیفۂ نور، ج ١٥، ص٢٢٣

٧۔ صحیفۂ نور، ج ، ص٢٧

٨۔ در جستجوی راہ امام از کلام امام، ص٦٦٥

٩۔ نہج البلاغہ، صبحی صالح، نامہ٧٨

١٠۔ صحیفۂ امام، ج٧، ص١٠٧

١١۔ نہج البلاغہ، حکمت٢١٥

رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے قدس شریف اور مظلوم فلسطین کے مسئلے کو عالم اسلام کا بنیادی مسئلہ قراردیا ہے۔ رہبرانقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ ای نے عید سعید فطر کے موقع پر اسلامی حکومت کے حکام ،عوام اور اسلامی ملکوں کے سفیروں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کا بنیادی مسئلہ قدس شریف اور مظلوم فلسطین کا مسئلہ ہے جو اسلامی بیداری کی برکت سے کھل کر سامنے آگیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تمام اسلامی حکومتوں اور قوموں نیز سیاسی اور ثقافتی شخصیتوں کو مسلمانوں کے اس بنیادی مسئلے کو چھپانے کی خطرناک سازش اور امت اسلامی میں اختلافات پھیلاکر جھوٹی باتوں کو حقیقت کا روپ دینے کی سازشوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ رہبرانقلاب اسلامی نے اسلامی حکومتوں اور قوموں کی ماضی کی طویل غفلتوں اور ان پر سامراجی حکومتون کے تسلط اور عالم اسلام کے مرکز میں صیہونی حکومت کے سرطانی پھوڑے کے وجود میں لائے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج اسلامی بیداری اور علاقے کے اہم واقعات کی برکت سے غلفت کا یہ پردہ چاک ہورہا ہے اور اس مسئلے کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔ ولی امرمسلمین عالم نے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین اور قدس علاقے کے مسائل میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے اور اس بنیادی مسئلے کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی نظر انداز کرنا چاہیے کیونکہ عالم اسلام کی بہت سی مشکلات غیر قانونی صیہونی حکومت کی وجہ سے ہیں۔ آپ نے مسلمانوں کے اس بنیادی مسئلے کو پس پشت ڈالنے کی دشمنوں کی پیچیدہ سازشوں کی طرف اشارہ کرتےہوئے فرمایا کہ آج ایک بار پھر سامراجی طاقتیں پھوٹ ڈالو حکومت کرو کے پرانے حربے کو استعمال کررہی ہیں بنابریں اسلامی حکومتوں اور قوموں بالخصوص سیاسی اور ثقافتی شخصیتوں ، روشنفکروں اور علماء دین کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو حقیقت و واقعیت سے آگاہ کریں۔ رہبرانقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے صیہونیت کو ساری انسانیت کے لئے خطرہ قراردیا اور فرمایا کہ دشمن قوم و نسل و مذہب کے فطری اختلافات کو بڑھا چڑھا کر مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنا چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی امۃ کو اسلام پر عمل کرنے اور اتحاد کی برقراری اور اسکو استحکام پہنچا کر برادری قائم کرتے ہوئے امریکہ کی سربراہی میں بڑی طاقتوں کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے۔رہبرانقلاب اسلامی نے مسلمان قوموں کے درمیان اختلاف کو زہر قاتل قراردیا اور فرمایا کہ مسلمانوں کی نگاہ میں دشمن کی یہ پوزیشن واضح رہنی چاہیے کہ دشمن یقینا باطل ہے اور اس کے مد مقابل حق ہے۔

پاکستان کےصدر آصف علي زرداري اور وزيراعظم راجہ پرويز اشرف نے قوم کو عيد الفطر کي مبارکباد ديتے ہوئے کہا ہے کہ خوشي کے اس موقع پر ہميں اخوّت ومحبت، برداشت، صبروتحمل و رواداري کو فروغ ديتے ہوئے عيد الطفر کي خوشيوں ميں اپنے غريب عزيز و اقارب، پڑوسيوں، ضرورت مند اور نادار مسلمان بہن بھائيوں کو شامل کرنا چاہئے، فرقہ واريت اور تشدد اسلامي تعليمات کے منافي ہے، نفرت جيسے رجحانات پر قابو پائيں، ہميں يہ بھي ياد رکھنا چاہيے کہ فرقہ پرستي، تعصب پرستي اور دہشتگردي اسلامي تعليمات کے منافي ہيں صدر آصف علي زرداري نے اپنے مبارکبادي پيغام ميں کہاکہ کامرہ پر دہشت گرد حملہ صريحاً گمراہي اور اسلام کي روح کے منافي ہے، ہميں منفي سوچ کي حامل قوتوں کے پروپيگنڈے کا انسداد کرنا ہوگا وزيراعظم راجہ پرويز اشرف نے اپنے مبارکبادي پيغام ميں کہاکہ عيدالفطر ہميں بھائي چارے، ايثار اور صبروتحمل کا درس ديتي ہے اس موقع پر ہميں اتحاد، يکجہتي اور وطن عزيز کي سلامتي کا عہد کرناچاہيے

Tuesday, 21 August 2012 07:26

عید فطر کی نماز

رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران سمیت دیگر اسلامی ملکوں میں عالمی یوم قدس کے عظیم مظاہرے فلسطین کی حمایت میں ایک نمایاں اور درخشان اقدام ہے ۔ حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے تہران میں عید فطر کی نماز کے خطبوں میں فرمایا کہ حضرت امام خمینی قدس سرہ نے ملت مظلوم فلسطین اور قدس شریف کی حمایت کے لئے یوم قدس معین فرمایا ہے اور ہرسال ایران اور دیگر اسلامی ملکوں میں ان مظاہروں کی شان وشوکت بڑھتی ہی جارہی ہے۔ رہبرانقلاب اسلامی نے عالمی یوم قدس کے مظاہروں کو نہایت اہم قراردیا اور فرمایا کہ دشمن چاہتا ہےکہ عالمی یوم قدس فراموش کردیا جائے لیکن وہ ہرگز کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ امت مسلمہ ہرسال گذشتہ برس کی نسبت مزید شان و شوکت سے ان مظاہروں میں شرکت کرتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ قوموں نے یوم قدس کے موقع پر ملت مظلوم فلسطین اور مسئلہ فلسطین کی جو کہ عالم اسلام کا بنیادی مسئلہ ہے حمایت کی ہے اور یہ صحیح و بروقت اقدام بے شک نہایت وسیع پیمانے پر اثر انداز ہوگا اور عالم اسلام میں اس کے اہم اثرات دیکھے جائيں گے۔ رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ دیگر قوموں نے بھی گذشتہ برسوں کی نسبت اس سال یوم قدس کے موقع پر ملت ایران کی ہمراہی کی ہے لیکن بعض ملکوں میں سرنگوں شدہ حکومتوں کے باقی ماندہ عناصر اس بات کی کوشش کررہے تھے کہ عوام فلسطین کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار نہ کرپائيں لیکن قومیں میدان میں آگئيں اور یہ تحریک جاری رہے گي۔ ولی امر مسلمین نے فرمایا کہ عالم اسلام میں جو واقعات پیش آرہے ہیں وہ قوموں کی امنگوں کے مطابق ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ علاقائي قوموں نے کارہائے نمایان انجام دئے ہیں اور ان کی تحریکیں جاری رہنی چاہیں ۔ رہبرانقلاب اسلامی نے ملت اسلام کے دشمنوں کی سازشوں کی طرف اشارہ کرتےہوئے فرمایا کہ ان سازشوں کو نا کام بنانے کے لئے اسلامی حکومتوں اور قوموں پر سنگين ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکہ صیہونی حکومت اور ان کے اتحادی اسلامی ا مۃ کے بنیادی دشمن ہیں۔ آپ نے تاکید فرمائي دشمن کو مسلمان قوموں کے ساتھ ہرگز ہمدردی نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ علاقے کو تباہ کرکے اپے اھداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ آپ نے شمال مغربی صوبے مشرقی آذربائجان کے زلزلہ زدہ عوام سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اس زلزلہ زدہ علاقے میں اب تک بہت سے مفید کام انجام دئے گئےہیں اور حکام کو زلزلے کے اثرات مٹانے کے لئے سنجیدگي سے کوششیں جاری رکھنی ہونگي ۔

دينداري كا دعويٰ كرنے والے بہت زيادہ ہيں ليكن وہ لوگ غير شرعي امور كي انجام دہي اور لوگوں كے حقوق پر زيادتي كركے اپنے اهداف تك پہونچنے ميں نہيں ہچكچاتے۔ چنانچہ ايسے ہي بعض افراد امام (ع) كو مشورہ ديتے تهے كہ اب تو اسلامي حكومت آپ كے ہاته ميں ہے لهذا اپنے مقاصد تك پہونچنے كے لئے كسي بهي راستہ كا انتخاب كرنے ميں كيا عيب ہے؟

 

دوسروں كے حقوق كو ادا كرنے كي ايك خاص اہميت ہے۔ اور مسلمانوں كي سماجي زندگي كے تمام حالات ميں اس كا ايك خاص مقام ہے۔حضرت علي عليہ السلام ان شخصيات ميں سے ہيں جنهوں نے اس مسئلہ كو خاص اہميت دي ہے اور مختلف حقوق كے سلسلہ ميں آپ كا خاص نظريہ ہے۔

علماء اسلام معتقد ہيں كہ اسلام ميں توحيد كے بعد حق و انصاف كے برابر كسي بهي مسئلہ كو اهميت نہيں دي گئي ہے۔ ويسے ہي جيسے مسئلہ توحيد مسلمانوں كے تمام ديني اور اخلاقي اعتقادات ميں بنيادي حيثيت ركهتا ہے۔ اس سلسلہ ميں حضرت علي عليہ السلام كے نظريات كا مرور ايك خاص اہميت ركهتا ہے۔

 

حق الناس

حضرت علي عليہ السلام لوگوں كے حقوق كي اہميت كے بارے ميں فرماتے ہيں: خدا گواہ ہے كہ ميرے لئے سعدان كي خاردار جهاڑي پر جاگ كر رات گذار لينا يا زنجيروں ميں قيد ہوكر كهينچا جانا اس امر سے زيادہ عزيز ہے كہ ميں روز قيامت پروردگار سے اس عالم ميں ملاقات كروں كہ كسي بندہ پر ظلم كرچكا ہوں، يا دنيا كے كسي معمولي مال كو غصب كيا ہو۔

دينداري كا دعويٰ كرنے والے بہت زيادہ ہيں ليكن وہ لوگ غير شرعي امور كي انجام دہي اور لوگوں كے حقوق پر زيادتي كركے اپنے اهداف تك پہونچنے ميں نہيں ہچكچاتے۔ چنانچہ ايسے ہي بعض افراد امام (ع) كو مشورہ ديتے تهے كہ اب تو اسلامي حكومت آپ كے ہاته ميں ہے لهذا اپنے مقاصد تك پہونچنے كے لئے كسي بهي راستہ كا انتخاب كرنے ميں كيا عيب ہے؟ ليكن امام (ع) ان كے جواب ميں فرماتے ہيں: خدا كي قسم جب تك ميري زندگي ہے اور شب و روز آرہے ہيں ستارے ايك بعد دوسرے طلوع و غروب كررہے ہيں۔ ميں ہرگز كوئي اس طرح كا كام انجام نہيں دوں گا۔

 

لوگوں كے حقوق كا احترام

حضرت علي عليہ السلام نے سن ۳۶ ه ميں اسلامي حكومت كي باگ ڈور اپنے ہاتهوں ميں سنبهالي۔ نہج البلاغہ ميں آيا ہے كہ آپ نے وجوہات شرعيہ كو جمع كرنے والے شخص سے لوگوں كے حقوق كا احترام كرنے كے سلسلہ ميں اس طرح سے فرمايا: اور خبردار نہ كسي مسلمان كو خوف زدہ كرنا اور نہ كسي كي زمين پر جبرا اپنا گذر كرنا۔ مال ميں سے حق خدا سے ذرہ برابر زيادہ مت لينا اور جب كسي قبيلہ پر وارد ہونا تو ان كے گهروں ميں گهسنے كے بجاۓ چشمہ اور كنويں پر وارد ہونا۔ اس كے بعد سكون و وقار كے ساته ان كي طرف جانا اور ان كے درميان كهڑے ہوكر سلام كرنا اور سلام كرنے ميں بخل سے كام نہ لينا۔ اور اس كے بعد ان سے كہنا بندگان خدا مجهے تمهاري طرف خدا كے ولي اور جانشين نے بهيجا ہے تاكہ ميں تمهارے اموال ميں سے خدا كا حق لے لوں تو كيا تمهارے اموال ميں كوئي حق اللہ ہے جسے ميرے حوالہ كرسكو؟ اگر كوئي شخص انكار كردے تو اس سے دوبارہ تكرار نہ كرنا اور اگر كوئي شخص اقرار كرے تو اس كے ساته اس انداز سے جانا كہ نہ كسي كو خوف زدہ كرنا، نہ دهمكي دينا۔ نہ سختي كا برتاؤ كرنا نہ بيجا دباؤ ڈالنا۔

 

دوستوں كے حقوق

بعض اوقات ايسا ہوتا ہے كہ دو دوست برسوں تك ايك ساته مهرباني اور صميميت كے ساته زندگي گذارتے ہيں اور مشكلات ميں ايك دوسرے كا ساته ديتے ہيں ليكن بعد ميں بعض چهوٹي باتوں كي وجہ سے ايك دوسرے سے ناراض ہوكر الگ ہوجاتے ہيں۔

اميرالمومنين عليہ السلام دو دوست كے درميان رابطہ برقرار كرنے كے سلسلہ ميں اپنے نوراني بيان ميں اپنے بيٹے امام حسن عليہ السلام سے فرماتے ہيں: اپنے نفس كو اپنے بهائي كے بارے ميں قطع تعلق كے مقابلہ ميں تعلقات، اعراض كے مقابلہ ميں مهرباني۔ بخل كے مقابلہ ميں عطا، دوري كے مقابلہ ميں قربت، شدت كے مقابلہ ميں نرمي اور جرم كے موقع پر معذرت كے لئے آمادہ كرو گويا كہ تم اس كے بندے ہو اور اس نے تم پر كوئي احسان كيا ہے۔

 

دوستي كےحدود اور حقوق كي رعايت

اميرالمومنين عليہ السلام نہج البلاغہ ميں فرماتے ہيں: خداوند متعال نے بندوں كے حقوق كو اپنے حقوق پر مقدم ركها ہے۔ لهذا اگر كوئي شخص بندگان خدا كے حقوق كو ادا كرنے كے لئے قيام كرے در واقع اس نے خدا كے حقوق كو ادا كيا ہے۔

اسي وجہ سے اميرالمومنين عليہ السلام نےدوستوں كے حقوق كي رعايت كرنے كے سلسلہ ميں امام حسن عليہ السلام كو سفارش كرنے كے بعد برادران ديني اور دوستوں كے درميان محبت كے حدود كو معين كرنے كے لئے بلا فاصلہ فرمايا ہے: كہيں ايسا نہ ہو كہ تم ان فرامين كي رعايت ايسے افراد كے ساته كرو جو ان كے مستحق نہيں ہيں اور دوستي اور عفو گذشت كو بے محل استعمال كرو۔

 

دوستي كے حقوق

اميرالمومنين عليہ السلام دوستي كے حقوق كے بارے ميں فرماتے ہيں:

دوست اس وقت تك دوست نہيں ہوسكتا ہے جب تك اپنے دوست كےتين مواقع پر كامنہ آۓ ۔

مصيبت كے موقع پر۔ اس كي غيبت ميں۔ اس كے مرنے كے بعد۔

 

ماں باپ كے حقوق

اميرالمومنين عليہ السلام نہج البلاغہ ميں فرماتے ہيں: فرزند كا باپ پر ايك حق ہوتا ہے اور باپ كا فرزند پر ايك حق ہوتا ہے۔ باپ كا حق يہ ہے كہ بيٹا ہر مسئلہ ميں اس كي اطاعت كرے معصيت پروردگار كے علاوہ۔ اور فرزند كا حق باپ پر يہ ہے كہ اس كا اچها نام تجويز كرے اور اسے بهترين ادب سكهاۓ۔اور قرآن مجيد كي تعليم دے۔

 

امام اور امت كے متقابل حقوق

اميرالمومنين عليہ السلام امام اور امت كے متقابل حقوق كے بارے ميں خطاب كرتے ہوۓ فرماتے ہيں: اے لوگوں' يقينا ايك حق ميرا تمهارے ذمہ ہے اور ايك حق تمهارا ميرے ذمہ ہے تمهارا حق ميرے ذمہ يہ ہے كہ ميں تمہيں نصيحت كروں اور بيت المال كا مال تمهارے حوالہ كردوں اور تمہيں تعليم دوں تاكہ جاہل نہ رہ جاؤاور ادب سكهاؤں تاكہ باعمل ہوجاؤ۔ اور ميرا حق تمهارے اوپر يہ ہے كہ بيعت كا حق ادا كرو اور حاضر و غائب ہر حال ميں خير خواہ رہو۔ جب پكاروں تو لبيك كہو اور جب حكم دوں تو اطاعت كرو۔

 

حق الناس كي عظمت

حق الناس كي اہميت و بزرگي كے لئے يہي كافي ہے كہ خداوندمتعال نے لوگوں كے حقوق كو اپنے حقوق پر مقدم ركها ہے جيسا كہ اميرالمومنين عليہ السلام نہه البلاغہ ميں فرماتے ہيں: خداوند متعال نے بندوں كے حقوق كو اپنے حقوق پر مقدم ركها ہے۔ لهذا اگر كوئي شخص بندگان خدا كے حقوق كو ادا كرنے كے لئے قيام كرے در واقع اس نے خدا كے حقوق كو ادا كيا ہے۔

 

پيغمبر ﷺكي نگاہ ميں حق اللہ كي عظمت

خداوندمتعال كا حق بندوں پر اس سے بڑه كر ہے كہ ادا كيا جاۓ۔ جيسا كہ پيغمبر اكرم (ص)نے فرمايا: خدا كا اس كے بندوں پر حق اس سے بڑه كر ہے كہ وہ اسے ادا كريں اور اس كي نعميتيں اس سے زيادہ ہيں كہ اس كے بندے انهيں شمار كرسكيں ليكن بندوں كو چاہيئے كہ صبح شام توبہ كريں اور اپنے پروردگار كي بارگاہ ميں رجوع كريں۔

 

قائد اور رعايا كے متقابل حقوق

حضرت اميرالمومنين عليہ قائد اور رعايا كے متقابل حقوق كے بارے ميں اس طرح فرماتے ہيں : ياد ركهو مجهپر تمهارا ايك حق يہ بهي ہے كہ جنگ كے علاوہ كسي موقع پر كسي راز كو چهپا كر نہ ركهوں اور حكم شريعت كے علاوہ كسي مسئلہ ميں تم سے مشورہ كرنے سے پہلو تہي نہ كروں۔ نہ تمهارے حق كو اس كي جگہ سے پيچهے ہٹاؤں اور نہ كسي معاملہ كو آخري حد تك پہونچاۓ بغير دم لوں اور تم سب ميرے نزديك حق كے معاملہ ميں برابر رہو۔ اس كے بعد جب ميں ان حقوق كو ادا كردوں گا تو تم پر اللہ كے لئے شكر اور ميري اطاعت واجب ہوجاۓ گي اور يہ لازم ہوگا كہ ميري دعوت سے پيچهے نہ ہٹو اور كسي اصلاح ميں كوتاہي نہ كرو حق تك پہونچنے كے لئے سختيوں ميں كود پڑوكہ تم ان معاملات ميں سيدهے نہ رہے تو ميري نظر ميں تم ميں سے ٹيڑهے ہوجانے والے سے زيادہ كوئي حقير ذليل نہ ہوگا اس كے بعد ميں اسے سخت سزا دوں گا اور ميرے پاس كوئي رعايت نہ پاۓ گا۔

 

لوگوں كے حقوق كي رعايت كے سلسلہ ميں امام علي عليہ السلام كي مالك اشتر كو نصيحت

مالك اشترامام علي عليہ السلام كے وفادار ساتهيوں ميں سے تهے آپ شجاع، مومن اور متقي انسان تهے امام علي عليہ السلام نے سن ۳۸ ه ميں جب مالك كو مصر كا حاكم بنا كر بهيجا تو آپ كو ايك نوشتہ لكه كر ديا جو نهج البلاغہ كے بہترين خطوط ميں سے ايك ہے اور "فرمان مالك" كے نام سے مشهور ہے۔ امام نے اس نامہ ميں وہ تمام باتيں تحرير كي ہيں جنهيں ايك اسلامي ملك كے حاكم كو جاننا چاہيے اور ملك كے كاموں كو اجرا كرنے ميں جن كي رعايت كرني چاہيئے۔ امام عليہ السلام فرماتے ہيں: تمهارے لئے پسنديدہ كام وہ ہونا چاہيئے جو حق كے اعتبار سے بهترين،انصاف كے اعتبار سے سب كو شامل اور رعايا كي مرضي سے سب اكثريت كے لئے پسنديدہ ہو كہ عام افراد كي ناراضگي خواص كي رضا مندي كو بهي بے اثر بنا ديتي ہےاور خاص لوگوں كي ناراضگي عام افراد كي رضا مندي كے ساته قابل معافي ہوجاتي ہے۔ رعايا ميں خواص سے زيادہ والي پر خوش حالي ميں بوجه بننے والا اور بلاؤں ميں كم سے كم مدد كرنے والا۔ انصاف كو ناپسند كرنے والا اور اصرار كے ساته مطالبہ كرنے والا، عطا كے موقع پر كم سے كم شكريہ ادا كرنے والا اور نہ دينے كے موقع پر بمشكل عذر قبول كرنے والا۔ زمانہ كے مصائب ميں كم سے كم صبر كرنے والا۔ كوئي نہيں ہے۔ دين كا ستون۔ مسلمانوں كي اجتماعي طاقت، دشمنوں كے مقابلہ ميں سامان دفاع عوام الناس ہي ہوتے ہيں لهذا تمهارا جهكاؤ انهيں كي طرف ہونا چاہيئے۔

 

قصاص ميں حق اور عدل كي رعايت كے بارے ميں امام (ع) كي وصيت

نہج البلاغہ ميں پڑهتے ہيں كہ امام علي عليہ السلام نے سن ۴۰ ه ميں ابن ملجم كي ضربت سے زخمي ہونے كے بعد امام حسن عليہ السلام اور امام حسين عليہ السلام بہت سي وصيتيں كي ہيں انهيں وصيتوں كے آخر ميں امام (ع) نے قصاص كے سلسلہ ميں امام حسن (ع) كو تاكيد كي ہے جو ياد گار كے طور پر آج بهي باقي ہے۔ اے اولاد عبدالمطلب خبردار ميں يہ نہ ديكهوں كہ تم مسلمانوں كا خون بہانہ شروع كردو صرف اس نعرہ پر كہ " اميرالمومنين مارے گئے ہيں"ميرے بدلہ ميں ميرے قاتل كے علاوہ كسي كو قتل نہيں كيا جاسكتا ہے۔

ديكهو اگر ميں اس ضربت سے جانبر نہ ہوسكا تو ايك ضربت كا جواب ايك ہي ضربت ہے اور ديكهو ميرے قاتل كے جسم كے ٹكڑے نہ كرنا كہ ميں نے خودسركار دوعالم سے سنا ہے كہ خبردار كاٹنے والے كتے كے بهي ہاتهپير نہ كاٹنا

 

حيوانات كے حقوق كي رعايت

حضرت علي عليہ السلام نے نہج البلاغہ كے ۲۵ مكتوب ميں حيوانات كے حقوق كي حمايت كرتے ہوۓ فرماتے ہيں: خبردار كسي جانور كو ڈرانا نہيں اور اسے آزار و اذيت نہ پہونچانا۔