Super User

Super User

میانمار میں بوزی قبائل کے دہشت گرد گروپ ‘‘ماگ'' کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کشی میں250 مسلمان جان بحق،500 زخمی اور لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہو گئے ہیں۔

انسانی حقوق کے ایک میانماری مندوب محمد نصرکے مطابق مسلمانوں کے خلاف حالیہ جارحیت میں 300 افراد لاپتہ ہوگئے ہیں جبکہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کرنے والے ہزاروں افراد کو خوراک اور بنیادی اشیاء کی قلت کے باعث سخت مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ایک ہفتہ کے دوران''ماگ‘‘ملیشیا کے دہشت گردوں نے میانمار میں مسلمانوں کے 20دیہات اور 1600 مکانات نقشے سے مٹا دیے جس کے باعث لاکھوں کی تعداد میں شہری نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔

محمد نصر نے مزید کہا ہے کہ ماگ ملیشیا کے حملوں سے مسلمان اکثریتی صوبہ اراکان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام کے بعد ہزاروں کی تعداد میں شہری سرحد پار کر کے بنگلہ دیش میں پناہ گزین کیمپوں میں جانے پر مجبور ہو گئے ہیں، تاہم بنگالی حکام کا رویہ بھی معاندانہ ہے۔''ماگ‘‘کے دہشت گردوں سے جان بچا کر بنگلہ دیش جانے والے مسلمانوں کی کشتیوں کو بنگالی پولیس واپس کر دیتی ہے۔ اس کے باوجود کم سے کم 3لاکھ افراد بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں پہنچ چکے ہیں۔

میانمار میں گزشتہ کئی ہفتوں سے مسلمانوں کیخلاف دہشت گردوں کی کارروائیوں کے باوجود عالم اسلام کی جانب سے کوئی ٹھوس ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، تاہم بعض ممالک میں مذہبی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔

پاکستانی عوام اور حکام کے شدید احتجاج کے باوجود اس ملک کے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری ہے-

پاکستان کے قبائلی علاقہ شمالي وزيرستان ميں امريکي ڈرون طیارے کے آج صبح کے حملے ميں کم از کم 6 افراد جان بحق ہوئے - یہ حملہ شمالي وزيرستان کي تحصيل شوال کے علاقے درئي نشتر ميں ايک گھر پرہوا - امريکي ڈرون طیارے نے اس گھر پر دو ميزائل داغے جسکے نتیجے میں اس میں موجود 6 افراد جان بحق ہوئے - بعض ذرائع کے مطابق اس حملے میں 4 افراد ہلاک اور دو دیگر زخمی ہوئے –

پاکستان کے قبائلی علاقوں پر امریکہ کئي برسوں سے ڈرون حملے کررہا ہے۔ امریکی ڈرون حملوں میں اب تک ہزاروں افراد جاں بحق اور دسیوں ہزار زخمی ہوچکےہیں۔ امریکہ دعوی کرتا ہےکہ وہ طالبان اور القاعدے کے دہشتگردوں کو ڈرون طیاروں سے نشانہ بناتا ہے لیکن مقامی افراد اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ امریکہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے اور ان حملوں میں مارے جانے والے زیادہ تر عام شہری ہیں جن میں معصوم بچے اور بے گناہ خواتین بھی شامل ہیں۔

بين الاقوامی گروپ: دو سال پہلے جرمنی كے صدر كرسٹين ولف نے كہا تھا: اسلام جرمن معاشرے كا حصہ ہے تو قدامت پسند عيسائی ڈيموكریٹس نے انہیں تنقيد كا نشانہ بنايا تھا۔

رپورٹ كے مطابق دو سال قبل جرمنی كے صدر كرسٹين ولف نے اسلام كو جرمن معاشرے كا حصہ قرار ديا تھا جس پر قدامت پسند عيسائی ڈيموكڑیٹس نے انہیں تنقيد كا نشانہ بنايا تھا ليكن اب جرمنی كے نئے صدر نے سابقہ صدر كرسٹين ولف كا دفاع كرتے ہوئے كہا ہے كہ مسلمان جرمن معاشرے كا حصہ ہیں ليكن اسلام ايسے نہیں ہے ليكن 40 لاكھ مسلمانوں كی آبادی اور جرمن آئين میں مذہبی آزادی كے ساتھ كيسے كہہ سكتے ہیں كہ اسلام جرمنی كا حصہ نہیں ہے۔

البتہ حال ہی میں اس حقيقت كو تسليم كرتے ہوئے سائنس اور ہيومينٹيز كونسل نے تجويز دی ہے كہ مسلمان اساتيد اور ائمہ جماعت كی تعليم كے لئے جرمنی كی يونيورسٹيز میں الہيات اسلامی كا شعبہ قائم كيا جائے۔ 1945 میں جرمنی میں 6 ہزار مسلمان رہائش پذير تھے ليكن آج جرمنی میں ۴۰ لاكھ مسلمان آباد ہیں۔

پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے نیٹو کی سپلائي لائينیں کھولنے کے فیصلے پر شدید احتجاج کیا ہے۔ ارنا کی رپورٹ کے مطابق جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ منور حسن نے نیٹو کی سپلائي لائينين کھولنے کے فیصلے پر تنقید کرتےہوئے کہا ہے کہ یہ ایک غلط اقدام ہے۔

منور حسن نے کہا کہ حکومت پاکستان نے ملک کی خود مختاری اور سلامتی کو امریکہ کے ہاتھوں فروخت کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد حکومت نیٹو سپلائي لائينوں کو بند رکھ کر نیٹو کو ڈرون حملے بند کرنے پرمجبور کرسکتی تھی اور نتیجے میں عوام کو قتل عام سے بچایا جاسکتا تھا۔

جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان میں امریکہ کی مداخلت ختم کرنے کا واحد راستہ امریکہ سے تعلقات منقطع کرنا ہے۔

یاد رہے جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر اسلامی پارٹیوں نے بھی حکومت اسلام آباد کے اس فیصلے پرکڑی تنقید کی ہے اور نیٹو کی سپلائي لائنیں بحال کرنے کو پاکستان کے قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش قراردیا ہے۔

یاد رہے افغانستان میں نیٹو کے لئے نوے فیصد رسد پاکستان کےراستے ہی جاتی ہے۔

بنگلہ دیش میں سیلاب کے باعث کم از کم 100 افراد جان بحق ہوئے ہیں –

ڈھاکہ سے ہمارے نمائندے کے مطابق بنگلہ دیش کے جنوب مشرقی علاقوں خاص طور سے چٹاگانگ بندرگاہ میں سیلاب جاری ہونے اور لینڈ سلائیڈنگ کے باعث کم از کم 100 افراد جان بحق ، 100 لاپتہ اور200 زخمی ہوئے ہیں

بنگلہ دیش کے ریسکیو ذرائع کے مطابق اس ملک کے جنوب مشرقی علاقوں میں 150 ہزار افراد سیلاب کے محاصرے میں ہیں جبکہ سیہلٹ ، درگئی بندھ اور کوریگرام کے علاقوں میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہوگئے ہیں –

بنگلہ دیش میں موسلا دھار بارشیں پانچ دنوں سے جاری ہیں اور محکمہ موسمیات کے مطابق آئندہ چند دنوں میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا

حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کے زمانۂ غیبت میں امت اسلامیہ کا ایک بڑا فریضہ یہ ہے کہ وہ امام کی صحیح پہچان اور معرفت پیدا کرے ۔ کسی بھی حقیقت کی شناخت ، اس راہ حقیقت کے بغیر کسی بھی دوسری راہ سے ممکن نہیں ہے اگر کوئی اپنے امام کو صرف اس کے تعارف نامے کی حد تک جانتا ہے تو در حقیقت وہ امام کو نہیں پہچانتا!

شیخ مفید علیہ الرحمہ نے " الارشاد " میں نقل کیا ہے : فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرزندوں میں ایک فرزند نے آپ سے عرض کی آپ اپنے تمام بچوں میں دوسروں کی نسبت موسی کو زیادہ عزیز رکھتے ہیں میں موسی کا بھائی ہوں، ہم دونوں کے دادا بھی ایک ہیں ، باپ بھی ہم دونوں کے ایک ہی ہیں: الیس اصلی و اصلہ واحدا" و ابی و ابوہ واحدا" کیا ہم دونوں کی اصل ایک نہیں کیا میرے اور اس کے باپ ایک نہیں ہیں ؟!

(پھر یہ فرق کیوں ہے ؟! ) جواب میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

انت ابنی وھو من نفسی (الارشاد جلد 2 ص 218)

تم میرے بیٹے ہو ( جیسے تمام بیٹے اپنے باپ کے بیٹے ہوتے ہیں ) لیکن وہ میرے نفس اور جان سے تعلق رکھتا ہے ۔

گویا امام کی شناخت اس کی امامت کی شناخت کے ساتھ وابستہ ہے ۔ اگر موسی کاظم علیہ السلام امام جعفر صادق علیہ السلام کی جان ہیں تو اس کی بنیاد ( سوره آل عمران کی 11 ویں آیۃ مباہلہ ) " انفسنا " ہے کہ جس کے تحت تمام ائمہ ایک دوسرے کی جان ہیں ۔ چنانچہ اس حقیقت کی پہچان لازم ہے اور یہ ہمارا اولین فریضہ ہے کیونکہ " من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیّۃ " جو شخص بھی مرگیا اور اپنے امام کو نہ پہچان سکا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے ۔

اب یہ معرفت جس قدر گہری ہوگي اتنا ہی انسان جاہلیت سے دور ہوگا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیسے پہچانیں ؟ شیخ کلینی علیہ الرحمہ نے کافی میں نقل کیا ہے معصوم کا ارشاد ہے: "اعرفوا اللہ باللہ و الرّسول بالرّسالۃ و اولی الامر بالامر بالمعروف و العدل و الاحسان " یعنی اگر تم خدا کو پہچاننا چاہتے ہو تو خود اس کی خدائی سے پہچانو اگر " الوہیت " کو پہچان گئے تو گویا اللہ کو پہچان لیا ، اگر رسول کی رسالت کو پہچان گئے تو رسول کو پہچان لیا اور اگر امارت کو، امامت کو امربالمعروف ، نہی عن المنکر اور عدل و انصاف اور احسان کو سمجھ لیا تو سمجھ لو امام کو پہچان لیا ۔ امارت کو " اولی الامر" کی پہچان کا وسیلہ قرار دینا ہوگا امامت کے ذریعے امام کو پہچاننا ہوگا یعنی امامت کی حقیقت سے امام کی حقیقت کا پتہ چلے گا، خود رسالت کی پہچان سے رسول کی پہچان حاصل ہوگي الوہیت کے وسیلے سے ہی اللہ پہچانا جا سکتا ہے ۔ اگر کسی نے اللہ کو پہچان لیا تو سمجھ میں آئے گا کہ الوہیت وحدت کی گواہی دیتی ہے الوہیّت کے ساتھ تعدد یعنی دو ، تین یا کئی خدا ہونا سازگار نہیں ہے ۔

" شھد اللہ انّہ لا الہ الّا ھو " یعنی الوہیت خود منادی وحدت ہے ۔ البتہ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ خدا کی ذات مستقل اور غنی علی الاطلاق ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے اس لئے اس کی پہچان بھی کسی غیر کی محتاج نہیں ہے اس کی پہچان خود اس کی الوہیت کی شناخت کے ساتھ وابستہ ہے ۔ لیکن جو ذات خود مستقل نہ ہو بلکہ اس کا وجود اللہ کے ساتھ وابستہ ہو اس کی شناخت اور پہچان بھی خدا کی شناخت کے ساتھ وابستہ ہوگی ۔اسی لئے کسی بھی نبی و رسول کی شناخت کےلئے الہی نبوت و رسالت کی شناخت لازم ہے امام و ولی کی شناخت کے لئے الہی امامت و ولایت کی پہچان ضروری ہے کیونکہ رسالت و امامت ایک الھی شان ہے جو ذات اقدس الہی کی طرف سے اپنے مخصوص بندوں کو ودیعت ہوئی ہے لہذا نبوت و امامت کی شناخت کے لئے سوائے اس کے کوئی اور چارہ ہی نہیں ہے کہ پہلے خدا کی شناخت ہوتا کہ اس کے ذریعے اس کے نبی و رسول اور پھر امام و ولی کی معرفت پیدا کی جائے کیونکہ ان کی جوشان بھی ہے ذات اقدس الہی کی عطا کردہ ہے اگر خداوند عالم کو خود اس کے اوصاف حسنا کے ذریعے پہچان لیں تو اس کے خلفاء کی بھی شناخت پیدا ہوجائے گي ۔انبیاء و اوصیاء بھی سمجھ میں آجائیں گے ۔

اچھا تو چلئے خدا کو پہچانا اس کے رسول اور ائمۂ معصومین کو بھی پہچان لیا اب ہمارا فریضہ کیا ہے؟ زمانۂ غیبت میں ہم کو کیا کرنا چاہئے؟

ذرارہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کرتے ہیں: اگر مجھے امام مہدی(عج) کی غیبت کا زمانہ نصیب ہو تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟! امام علیہ السلام فرماتے ہیں یہ دعا پڑھا کرو۔

" اللّھمّ عرّفنی نفسک فانّک ان لم تعرّفنی نفسک لم اعرف نبیّک ، اللّھمّ عرّفنی رسولک فانّک ان لم تعرّفنی رسولک لم اعرف حجّتک ، اللّھمّ عرّفنی حجّتک فانّک ان لم تعرّفنی حجّتک ضللت عن دینی " ( الکافی ، جلد اول ص 337)

خدایا خود کو جس حد تک بھی مجھ سے مقدور ہے اس طرح مجھ پروا کردے کہ میں تجھے پہچان سکوں کیونکہ اگر تجھ کو نہیں پہچانا تو تیرے رسول کو نہیں پہچان سکتا اور اگر تیرے پیغمبر کو نہیں پہچان سکا تو ان کے جانشین کو بھی نہیں پہچان سکوں گا اگر جانشین کو نہ پہچانا گمراہ ہوجاؤں گا۔

ایک اہم بات

پیروان اہلبیت(ع) کے نزدیک امامت کا مسئلہ ، علم کلام یعنی ایمان و اعتقاد سے تعلق رکھتا ہے اور یہ موضوع فعل خدا کے دائرے میں آتا ہے کوئي فقہی مسئلہ نہیں ہے کہ اس کا فعل مکلف سے تعلق ہو ، اسی لئے اس ذیل میں بحث یہ اٹھتی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلّم کی رحلت کے بعد کےلئے خداوند متعال نے کسی کو خلیفہ ؤ امام منصوب کیا ہے یا نہیں ؟

چنانچہ جو لوگ خود پیغمبر اسلام (ص) کی رسالت کا صحیح طور پر تجزیہ نہیں کرسکے تھے خیال کرلیا کہ امامت ایک انتخابی امر ہے اور ثقیفہ بنی ساعدہ کی مانند اجتماع کے ذریعے بھی امام اور خلیفہ معین کیا جا سکتا ہے ! اور قہری طور پر مسئلہ امامت و ولایت مسئلہ انتخاب و وکالت کی صورت اختیار کرگیا اور علم کلام کا ایک اہم اور بنیادی مسئلہ، فقہی مسئلے تک تنزل اختیار کرگیا در اصل اگر کوئی ایسا مسئلہ ہو کہ جس کا موضوع خود مکلف ( یعنی مسلمانوں ) کا فعل ہو تو وہ مسئلہ، ایک فقہی مسئلہ ہے اس صورت میں فقہی اصطلاح کے مطابق مسئلے کا موضوع فعل مکلف اور محمول فعل مکلف سے متعلق احکام میں ایک حکم ہوتا ہے لیکن جب موضوع فعل خدا ہو تو محمول خدا کے افعال سے کوئی فعل یا خدا کے اوصاف سے کوئی صفت ہوگی اور یہ خدا کے شئون میں سے ایک شان ہے اور اس طرح کے مسائل کا کلامی مسائل میں شمار ہوتا ہے نہ کہ فقہی مسائل میں ، جس طرح ذات اقدس الہی نے ہی اپنے رسول کو اپنی رسالت عطا کی ہے اور رسول کا تعین الہی فعل ہے اسی طرح خداوند متعال نے رسول کے جانشین امام و خلیفہ کو امامت و خلافت دی ہے اور امام کا تعین بھی الہی فعل ہے اور چونکہ خدا نے ہی امام کا تعین کیا ہے ایک ایسا امام دین کا متولی ہے اور خدا کی طرف سے ہمارے لئے اس کو ولی معین کیا گيا ہے ۔ البتہ اسی کلامی مسئلے کے تحت دو فقہی مسائل بھی آتے ہیں ایک تو یہ کہ خود امام پر ، کہ جس کو اللہ نے امام بنایا ہے فریضہ ہے کہ وہ امامت کو قبول کرے اور تا آخر اس کی حفاظت و پاسبانی کرتارہے۔ دوسرے یہ کہ امت اسلامیہ کے تمام مکلفین اور پیرووں پر واجب ہے کہ امام کی امامت و ولایت کو قبول کریں اور اس کی رہبری تسلیم کریں چونکہ یہ دونوں موضوع خود مکلف کے فعل سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے فقہی مسائل میں شمار ہوتے ہیں ورنہ امامت کا موضوع ایک کلامی موضوع ہے ۔

اٹلی كی حكومت نے پوری دنيا میں نسلی اور مذہبی امتياز كا مقابلہ كرنے كے لئے مانیٹرنگ كمیٹی تشكيل دی ہے۔

مذہبی آزادی كے لئے مانِٹرنگ كمیٹی كا ارادہ ہے كہ ان علاقوں میں كام شروع كرے گی جن میں مذہبی اقليتیں زيادہ مذہبی تشدد كا شكار ہوتی ہیں۔ یہ كام وزارت امور خارجہ اٹلی ، روم كی بلدیہ اور دوسری سماجی تنظيموں كی سفارش پر شروع كيا ہے۔

اس آرگنائزيشن كا رسما آغاز 29 جون كو ہوا ہے اس كا چيئرمين وليم لورے كو مقرر كيا ہے۔ وليم لورے كيتھولك راہنماؤں كی كمیٹی كے بھی صدر ہیں، یہ مانیٹرنگ كمیٹی چار اراكين اور ايك كو آرڈينیٹر پر مشتمل ہوگی جسے اٹلی كی وزارت خارجہ اور روم شہر كی بلدیہ انتخاب كرے گی۔

فرانس قومی انسٹی ٹيوٹ سے وابستہ ميگزين نے انكشاف كيا ہے كہ كوكاكولا اور پيپسی كمپنياں اپنے مشروبات میں الكوحل كا استعمال كرتی ہیں اس انكشاف كے بعد قومی مسلم يونين فرانس نے ان دونوں كمپنيوں كے مشروبات كا بائيكاٹ كرديا ہے ۔

فرانس كے اس نيشنل انسٹی ٹيوٹ كے جائزہ كے مطابق كوكاكولا اور پيپسی كے مشروبات میں ہر ايك لیٹر میں 10 ملی لیٹر الكوحل ہوتاہے ۔ قومی مسلم يونين فرانس كے چيئرمين محمد بشاری نے كہا كہ ان كمپنيوں نے مسلمانوں كو دھوكہ دياہے حالانكہ ملٹی نيشنل كمپنياں یہ جانتی ہیں كہ مسلمانوں كے نزديك الكوحل كا استعمال حرام ہے ۔

متقين كی صفات

٫٫ ھدی للمتقين الذين يؤمنون بالغيب و يقيمون الصلاة و مما رزقنا ھم ينفقون ٬٬ ﴿ بقرہ / ۳﴾

اس آيت كی تفسير بيان كرتے ہوۓ قائد انقلاب اسلامی نے فرمايا : پرھيز گار لوگوں كی چھ صفات ہیں اور ان چھ صفات كا ايك انسان میں جمع ہونا درحقيقت انسان كے اندر تقوی كے عناصر كو تشكيل ديتا ہے اور صحيح اور حقيقی تقوی انہی چھ صفات سے عبارت ہے اور انہیں چھ صفات سے انسان راہ كمال پر گامزن ہوتا ہے۔ البتہ اس سے پہلے درس میں ہم بيان كر چكے ہیں كہ تقوی انسان كے لیے تمام مراحل میں مدد گار ثابت ہوتا ہے يعنی جب آپ تقوی كے حامل ہوں گے تو پھر قرآن سے درس بھی حاصل كر سكتے ہیں اور ہدايت بھی اور جوں جوں تقوی كے مراحل بڑھیں گے قرآن فہمی میں اضافہ ہوتا چلا جاۓ گا۔ اگر كوئی شخص تقوی كے اعلی مراتب پر فائز ہو تو وہ قرآن كی ظرافتوں اور عميق نكات اور گہرے معانی تك بہتر رسائی حاصل كر سكتا ہے ۔ تقوی صرف قرآن فہمی كی ابتداء میں ہی ضروری نہیں بلكہ تمام مراحل میں ضروری ہے۔ لہذا يوں نہیں ہے كہ اگر كوئی پاكيزگی كے ساتھ قرآن فہمی میں اترا تو پھر فورا بطن قرآن تك رسائی حاصل كرلے ۔ نہیں ايسا نہیں ہے بلكہ ہرہرمرحلے میں جتنا جتنا پرھيزگاری میں قدم آگے بڑھے گا اسی مقدار میں قرآن فہمی میں بھی پيشرفت حاصل ہوگی ۔ اب یہ چھ صفات تمہيد ہیں اس مرحلہ كے لیے جس سے انسان ايك متوسط حد تك متقی بن سكتا ہے اور اس كے بعد بلند مقامات كا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور ان چھ صفات میں سے پہلی صفت ٫٫ الذين يؤمنون بالغيب ٬٬ ہے ۔

يعنی وہ لوگ جو غيب پر ايمان ركھتے ہیں البتہ ہم نے آيت كے ترجمہ میں كہا ہے كہ جو لوگ غيب پر يقين ركھتے ہیں ۔ قرآن مجيد میں كئی مقامات پہ غيب پر ايمان ركھنے كوغيب پر خشيت اور غيب كی طرف توجہ كی صورت میں بيان كيا گيا ہے؛مثلا قرآن میں ايك مقام پر آيا ہے ٫٫ و خشی الرحمن بالغيب ٬٬ اور اس طرح كی دوسری كئی آيات ۔ غيب يعنی وہ چيز جو انسان كے حواس سے پوشيدہ ہے ۔ تمام عالم كو دو حصوں يعنی عالم غيب اور عالم شہود میں تقسيم كيا جا سكتا ہے ۔ یہاں شہود سے مراد وہ عالم ہے جو ہمارے سامنے موجود ہے ۔ البتہ اس سے مراد صرف آنكھوں كے سامنے ہونا نہیں ہے بلكہ ہر وہ چيز مراد ہے جو حواس كے ذريعہ قابل درك ہويعنی وہ اشياء جنہیں آپ محسوس كرسكتے ہیں اور آپ كے سامنے ہیں ۔ اور آپ كے لیے قابل تجربہ ہیں مثلا كہكشاں جس كا نظارہ آپ ٹيلی سكوپ كے ذريعہ كر سكتے ہیں ۔ يعنی وہ چيزیں جنہیں آپ ديكھ سكتے ہیں؛ سن سكتے ہیں اور حس كر سكتے ہیں ؛ آشكار اور ظاہر ہیں۔ انہیں عالم شہود سے تعبير كيا گيا ہے ۔ تاہم جو اشياء ماورائی حيثيت ركھتی ہیں وہ بھی موجود ہیں۔ صرف موجودات انہی اشياء میں محدود نہیں ہیں جنہیں ميری اور آپ كی آنكھیں ديكھ رہی ہیں بلكہ موجودات كا دائرہ اس قدر وسيع ہے كہ انسان ان كا احساس كرنے سے عاجز ہے يعنی عالم غيب اس كائنات میں الہی رجحانات اور مادی رجحانات كی سرحد كا نام ہے ۔

مادی نظريات اور افكار ركھنے والے افراد معتقد ہیں كہ وہ اشياء جنہیں میں ديكھ رہا ہوں وہی موجود ہیں ليكن وہ چيزیں جنہیں میں نہیں ديكھ رہا وہ موجود بھی نہیں ہیں اگرچہ ممكن ہے كہ وہ اشياء جنہیں آج ہم نہیں ديكھ رہے انہیں كل ديكھ پائیں ۔ اس قسم كےمادی افكار بہت ہی تنگ نظری اور محدود فكر كا نتيجہ ہیں ۔اس لئے كہ﴿ان سے یہ سوال كيا جا سكتا ہے كہ﴾ جس چيز كو آپ نہیں ديكھ رہے ہیں آپ كے پاس كيا دليل ہے آپ اس كے موجود ہونے كی ہی نفی كردیں ؟

آپ تبھی كسی چيز كے موجود ہونے يا معدوم ہونے كا حكم كرسكتے ہیں جب واقعا آپ كے پاس كوئی دليل ہو۔ پھر آپ كا یہ كہنا درست ہو گا ۔ لہذا آپ اس وقت كسی چيز كی موجودگی كا اعلان كر سكتے ہیں جب آپ كو يقين ہو كہ وہ موجود ہے اور اسے ثابت كرسكتے ہوں اور اسی طرح جب آپ كسی چيز كے معدوم ہونے كا حكم كرتے ہیں تو آپ كے لیے یہ ثابت ہونا چاہیے كہ وہ چيز معدوم ہےجبكہ مادہ پرست شخص كے پاس اپنے اس مدعا كو ثابت كرنے كے لیے كوئی دليل نہیں ہے۔ وہ صرف یہی كہنے كا حق ركھتا ہے كہ میں عالم غيب كو نہیں ديكھ سكتا اور اس كے بارے میں مجھے كوئی خبر نہیں ہے ۔ لہذا جب آپ كو اس بارے میں خبرہی نہیں ہے تو آپ كيسے يقين كے ساتھ یہ كہہ سكتے ہیں كہ عالم غيب موجود ہی نہیں ہے؟! وہ كہتے ہیں كہ ہم عالم غيب كا مشاہدہ نہیں كر رہے اور اس كے بارے میں كوئی خبر نہیں ركھتے ہیں۔ ﴿تعجب اس بات پہ ہے كہ﴾ ايك طرف سے تو وہ خود كہہ رہے ہیں ہم عالم غيب كے بارے میں كوئی خبر نہیں ركھتےجبكہ دوسری طرف سے یہ يقين كے ساتھ كہہ بھی رہے ہیں كہ عالم غيب موجود ہی نہیں ہے ۔ اس مقام پر ان سے پہلا سوال كيا جا سكتا ہے كہ جب تم خود كہہ رہے ہو كہ میں اس كے بارے جانتا ہی نہیں ہوں تو پھر كيسے كہہ رہے ہو كہ وہ موجود ہی نہیں ہے ؟ اسی لیے قرآن میں مادہ پرست اور ملحدين كے بارے میں آيا ہے كہ " ان ھم الا يظنون " ﴿ ۲۴ جاثیہ ﴾

يعنی وہ گمان كے ساتھ بات كرتے ہیں ٫٫ ان ھم الا يخرصون ٬٬ ﴿ يونس ۶۶ / ﴾ وہ ايك دوسرے سے محض باتیں كرتے ہیں ۔

اديان الہی اور الہی تفكركا﴿مادی تفكر سے﴾ یہی نقطہ امتيازہے كہ وہ اشياء جنہیں وہ ديكھ رہا ہے اور لمس كر رہا ہے ان كے علاوہ بھی كوئی عالم موجود ہے۔ اب سوال یہ ہے كہ وہ عالم غيب كس طرح انسان كے لیے ثابت ہو سكتا ہے ؟جواب یہ ہے كہ صرف عقلی دليل كے ذريعہ۔ یہی وہ اصلی نكتہ ہے كہ عقل كے ذريعہ وجود خدا كو ثابت كيا جا سكتا ہے ۔ عقل پيغام خدا، درس خدا اور ہدايت خدا ہے۔ عقل ہی ہمارے لیے وحی كو ثابت كرتی ہے؛ عقل ہی قيامت كے وجود اور ان كئی اشياء كو ثابت كرتی ہے جو عالم غيب سے متعلق ہیں ۔

پس ان میں سے بعض امور كو عقل خود ثابت كرتی ہے اور بعض كو وہ اشياء جو برھان عقلی كے ذريعہ ثابت ہوتی ہیں ، ثابت كرتی ہیں ۔ يعنی جب آپ نے ثابت كر ليا كہ خدا ہے اور توحيد كو ثابت كر ليا ، مبداء كو ثابت كر ليا تو پھر نبوت كو بھی ثابت كر لیں گے ۔ اس كے بعد كہ آپ نے وجود نبی كو دليل عقلی كے ذريعہ ثابت كر ليا تو پھر وہ عالم غيب جس سے نبی خبر ديتا ہے وہ بھی ثابت ہو جاۓ گا جيسے فرشتے ، جنت و دوزخ اور وہ اشيا جن پر ہم سب ايمان ركھتے ہیں۔ ان میں سے بعض جيسے جنت و دوزخ اور قيامت كا وجود انہیں دليل عقل كے ذريعہ ثابت كيا جا سكتا ہے ليكن كئی ايسی چيزیں ہیں جن پر عقلی دليل موجود نہیں ہے انہیں حق كا نمائندہ يعنی وحی الہی كو دريافت كرنے والا نبی ہمارے لیے بيان كرتا ہے۔ اور جب وہ ہمارے لیے بيان كرتا ہے تو ہم اس پر ايمان و يقين ركھتے ہیں اور جانتے ہیں كہ وہ سچ كہتا ہے۔ اس لیے كہ اس پيغمبر كا وجود عقلی دليل سے ثابت ہو چكا ہے۔ پس تقوی كی پہلی شرط غيب پر ايمان لانا اور محدوديت سے اپنے وجود كو خارج كرنا يعنی كائنات كو اسی انسانی محسوسات كے دائرے تك محدود نہ سمجھنا ہے ۔ پس یہ غيب پر ايمان ہی مادی تفكر اور الہی تفكر كے درميان بہترين فرق ہے جس سے انسانی افكار اور انسانی اعمال پر بہت زيادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں يعنی وہ انسان جو غيب پر ايمان ركھتا ہے وہ ايك طرح كی زندگی بسر كرتا ہے اور جو لوگ غيب پر ايمان نہیں ركھتے ان كی زندگی ايك اور نوعيت كی ہوتی ہے كيونكہ ايمان انسان كو آزاد نہیں چھوڑتا بلكہ اس كی زندگی ، اس كی فكر اوراس كے اعمال پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے جو كہ ايك مادی انسان اور مادی افكار كے حامل شخص سے سر زد نہیں ہو سكتے ۔ ہم نے ان میں سے بعض خصوصيات كا ذكر كر ديا ہے مثلا غيب پر ايمان ركھنے والا شخص با مقصد زندگی كرتا ہے جبكہ جو لوگ غيب پر ايمان نہیں ركھتے وہ زندگی میں كسی حقيقی مقصد كو قبول كرنے كے لیے تيار نہیں ہوتے ۔

ممكن ہے آپ كہیں كہ كئی ايسے مادی افكار كے حامل افراد ہیں جن كے پاس حقيقی مقاصد بھی ہیں۔ میں عرض كروں گا كہ ان مقاصد كو وہاں ديكھنا چاہیے جہاں احساسات ، عادات اور ضروريات غالب نہ ہوں كيونكہ جہاں پر جذبات ، عادات اور ضروريات موجود نہ ہوں وہاں پر مادہ پرست انسان كی زندگی اور اس كی جدو جہد متوقف ہو جاتی ہے۔ اگرچہ بعض لوگ ضرورت كے پيش نظر مجبور ہیں كہ سعی و كوشش كریں چونكہ مادہ پرست لوگ بھی اپنی ضروريات پورا كرنے كے لیے جدو جہد كرتے ہیں۔ ان میں سے بعض خاص قسم كے جذبات ركھتے ہیں جيسے قوم پرستی كے جذبات۔ یہی قوم پرستی اسے مجبور كرتی ہے كہ وہ اس كے لیے جدوجہد كرے ، كوشش كرے حتی كہ اسی راستے میں اپنی جان قربان كر دے ليكن یہ جذبات عقل و منطق كے تابع نہیں ہیں ۔

اگر ايك ايسے مادی شخص كو جو جذبات میں غرق ہوكر وطن كی راہ میں خود كو فدا كر ديتا ہے،كوئی پكڑ كر عليحدگی میں لے جا ئے اور یہ پوچھے كہ تم كيوں جان قربان كر رہے ہو؟اگرتم مر جاٶ تو كيا ہو جا ۓ گا ؟ كيا تمہارے مرنے سے وطن زندہ ہو جاۓ گا ؟ جب تم خود ہی نہیں رہو گے تو یہ وطن ہو يا نہ ہو تمہارے لیے اس كا كيا فائدہ ہے ؟ تم اس لیے مر رہے ہو تاكہ دوسرے زندگی كر سكیں ؟!

اگرچہ مادہ پرست اس كا اقرار نہیں كرتے ليكن اگر انہیں یہ كہا جاۓ تو وہ جواب میں بلند مقاصد اور اپنے وجدان وغيرہ جيسے عناوين بيان كرتے ہیں ليكن انہی كے اعترافات كو بعض مقامات پر مشاہدہ كيا جا سكتا ہے جيسے ٫٫ روجہ مارٹين ڈاؤگر ٬٬ كی كتاب میں جسے اس فرانسيسی رائٹر نے ناول كی صورت میں لكھا ہے اور اس كا نام ٫٫ ٹيوو خاندان ٬٬ ہے، اس میں ہم نے پڑھا كہ یہ شخص انيسویں صدی اور بيسویں صدی كے اوائل كا اومانيسٹ تھا۔ وہ اور دوسرے اومانيسٹوں كا یہ نظریہ تھا كہ انسان اور انسانيت سے عشق و محبت انسانی وجدان كو اس كے مذھبی رجحانات اور مذھبی جذابيت سے بے نياز كر ديتا ہے۔ یہ لوگ ماركس ازم سے پہلے بہت كتابیں لكھا كرتے تھے اور یہ ٫٫ رجہ مارٹين ٬٬ انہی افراد میں سے ہے جو اپنی كتاب میں اس قصہ كو بہترين انداز میں پيش كرتا ہے ۔ وہ اس میں داستان كے ہيرو كی زبانی یہ بيان كرتا ہے كہ جب ايك لا علاج مرض میں مبتلا ہو گيا تو اس نے سوچا كہ ميری جدو جہد كا كيا فائدہ ہے ۔ پھر اپنی داستان لكھتے ہوے اپنے اومانيسٹی تفكر كو بطور كامل بيان كرتا ہے جس سے یہ سمجھا جا سكتا ہے كہ وہ یہ كہہ رہا ہے كہ زندگی گزارنے كا مقصد صرف یہی ہے كہ تو لطف اندوز ہو سكے ۔ ايك مادہ پرست انسان كا اس سے زيادہ مقصد ہو بھی كيا سكتا ہے كہ وہ اپنا پورا مقصد لذت دنيوی كو ہی سمجھتا ہے ۔

مادی تفكركی بنياد پر آپ كی زندگی ايك نقطہ سے دوسرے نقطہ تك عبارت ہے يعنی پيدائش سے مرنے تك يا يوں كہا جاۓ كہ بچپن سے مرنے تك كيونكہ بچپن كا زمانہ تو كوئی چيز نہیں ہے ليكن بچپن كے بعد سےموت تك ايك دورانیہ ہے اور یہ دورانیہ بہت جلد گزر جاتا ہے۔ پس اس عرصے میں جتنی پرتعيش زندگی بسر كرو گے اتنی ہی زيادہ لذت حاصل كرو گے ۔ انسانی زندگی كا مقصد اس كے سوا كچھ نہیں ہے۔

اب كيا یہ فكر، انسانی زندگی كو سنوارنے اور انسان كی اعلی مقاصد تك رسائی كے لیے اچھا پروگرام پيش كر سكتی ہے ؟ ايسے عالی اہداف كی طرف انسان كی رہنمائی كر سكتی ہے؟ اور اس كٹھن راستے میں انسان كو مشكلات كا سامنا كرنے پر آمادہ كر سكتی ہے ؟ ہر گز نہیں۔ یہ تو ايسا ہی ہے كہ میں خود كو تيزی كے ساتھ ديوار كی دوسری طرف پہنچانے كی كوشش میں اپنا سرديوارپر دے ماروں۔ لہذا میں كس لیے تيزی سے جاٶں ؟ كيوں جد و جہد كروں ؟

یہی فرق ہے ايسے شخص كی فكرمیں جو اس كائنات سے ماوراء كو بھی سمجھتا ہے اور ايسے شخص كی فكر میں جس كا ہم و غم اس چند روزہ زندگی كی لذات میں خلاصہ ہو جاتا ہے اور یہ بہت بڑا فرق ہے

قائد انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ خامنہ ای نے اپنے درس تفسير قرآن میں تقوی كے عنوان پر گفتگو كرتے ہوۓ فرمايا كہ تقوی كا مطلب یہ ہے كہ حركت كی حالت میں دوری اختيار كی جاۓ۔ آپ اپنے درس تفسير میں قرآن پاك كے بنيادی عناوين كو زير بحث لاتے ہیں جن میں سے پہلا عنوان تقوی ہے۔ ان دروس كے اردو ترجمہ كا بیڑا " بين الاقوامی قرآنی خبر رساں ايجنسی " نے اٹھايا ہے

تقوی :

تقوی كا لفظ ايسا ہے جسے معاشرہ میں بہت دہرايا جاتا ہے ۔ تقوی كی تہذيب كو معاشرے میں عام كرنے كی ضرورت ہے۔ میں چاہتا ہوں كہ تقوی كا اس طرح معنی كيا جاۓ جسے آپ آسانی سے سمجھ سكیں ليكن تقوی كا لفظی معنی كيا ہے وہ ايك عليحدہ بحث ہے ۔

تقوی كا مفہوم:

تقوی يعنی حركت كی حالت میں دوری اختيار كرنا ، نہ یہ كہ جمود كا شكار رہ كر پرھيز گار بننے كا خواب ديكھا جائے كيونكہ ايك دفعہ آپ بغير حركت كیے پرھيز گار بنتے ہیں مثلا آپ گھر میں بیٹھ جائیں ﴿اور كسی كے كام سے كام نہ ركھیں﴾ اس غرض سے كہ آپ پہاڑ سے نہ ٹكرا جائیں ، كسی كھائی میں نہ گر جائیں ، ڈرائيونگ يا كوہ پيمائی سے پرھيز كرتے ہیں تاكہ پرخطر راستوں سے اپنے دامن كو بچا سكیں۔ یہ ايك قسم كا اجتناب اور پرھيز ہے ليكن اسلام اس كی تلقين نہیں كرتا ۔ بلكہ اسلام كی تعليم یہ ہے كہ حوادث و واقعات كا سامنا كرتے ہوۓ پرھيز گاری سے كام لیں جيسے ايك ڈرائيور ، ڈرائيونگ كرتے ہوۓ بعض چيزوں سے اجتناب كرتا ہے اور خود كو بچاتا ہے۔ یہ وہی پرھيز گاری ہے جسے ہم نے پہلے عرض كيا ہے يعنی اپنی بابت خبردار رہنا اور احتياط كے ساتھ حركت كرنا ۔ پس یہاں كلمہ پرھيزگاری كا استعمال بالكل ٹھيك ہے ليكن جب ہم ملاحظہ كرتے ہیں تو ديكھتے ہیں كہ كثرت سے" متقين" كا ترجمہ "پرھيزگاروں" كی صورت میں بيان كيا گيا ہے حالانكہ یہ معنی ہمارے ذہنوں اپنی خاص ظرافت كے ساتھ موجود نہیں ہے۔ میں ترجيح ديتا ہوں كہ"پرہيزمندان" كہا جائے ليكن چونكہ یہ لفظ رائج نہیں ہوا ہے اس لئے اسے استعمال كرنے پر مصر نہیں ہوں۔ میں خود بھی گذشتہ سالوں میں تقوی كو پرواہ كرنے اور پرواہ ركھنے كے معنی میں سمجھتا تھا ليكن بعد میں اس طرف متوجہ ہوا كہ پرواكاران اور پروامندان دو نامانوس عبارات ہیں جبكہ كلمات كو اس طرح ہونا چاہیے كہ سننے میں سنگين محسوس نہ ہوں بلكہ رائج كلمات ہوں۔

لہذا تقوی كا معنی ہے حركت كی حالت میں دوری اختيار كرنا اور خبردار رہنا يعنی مختلف ميدانوں میں سرگرم عمل رہیں ليكن خبردار رہتے ہوۓ اور محتاط انداز میں حركت كریں يعنی ٹكراٶ ، بے راہ روی ، اپنے آپ كو اور دوسروں كو نقصان پہنچاۓ بغير اور انسانی حدود كے دائرہ میں رہتے ہوۓ حركت

كی جاۓ تاكہ گمراہی سے بچا جا سكے ۔ اس كی وجہ یہ ہےكہ راستہ بہت خطر ناك ، طويل اور تاريك ہے۔ اس تاريك دنيا كا آپ مشاہدہ كر رہے ہیں جس پر مادی طاقتوں نے گرد و غبار كی تہہ لگا ركھی ہے ۔ وہی طاقتیں اپنے ارادوں كو مسلط كرتی ہیں جس سے بہت سے لوگ گمراہ راستوں پر چل نكلتے ہیں لہذا خبردار رہنے كی ضرورت ہے۔ كتنے ہی لوگ ہیں جو آج كی دنيا میں استكباری راستوں كی حقانيت كو قبول كر چكے ہیں ۔ دنياۓ مغرب كی راہ و روش یہ ہے كہ وہ كسی ايك حقيقت كے خلاف كمر بستہ ہو كر لوگوں كو ابھارتے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے كہ ديكھا جاۓ وہ ايسا كيوں كرتے ہیں ؟

كيا یہی مقصد نہیں ہے كہ وہ چاہتے ہیں انسانوں كے افكار و نظريات كو اپنی طرف متوجہ كریں۔ قابل افسوس كی بات یہ ہے كہ كئی لوگوں كو انہوں نے اپنی طرف جذب بھی كر ليا ہے اور یہی وہ راہ حقيقت سے گمراہی ہے كيونكہ اگر ذرہ برابر غفلت كی گئی تو گمراہ ہونے كے امكانات پوری طرح مہيا ہیں لہذا اگر كوئی شخص چاہتا ہے كہ تقوی اختيار كرے تو پھر قرآن اس كی ہدايت كرتا ہے ليكن جو شخص پرھيز گار نہیں ہے اور آنكھیں بند كر كے آگے بڑھنا چاہتا ہے، كيا قرآن اس كی ہدايت كر سكتا ہے ؟ ہر گز نہیں ۔ اس لئے كہ كوئی اچھی بات كسی ايسے شخص كے لیے كار گر ثابت نہ ہو پاتی جس كا دل كسی حقيقت كو قبول كرنے كے لیے تيارہی نہ ہو۔ ايسا شخص كسی حقيقت پر يقين نہیں كر سكتا اور وہ مدہوشی كی حالت میں اپنی يا دوسرے كی خواہشات كی خاطر گامزن رہتا ہے ۔ ايسے شخص كو قرآن ہرگز ہدايت نہیں كرے گا ۔ ہاں قرآن ايك صدا ہےليكن یہ صدا ايسے لوگوں كے كانوں تك نہیں پہنچ پاتی ۔ اسی مطلب كی طرف قرآن كريم نے ان الفاظ میں اشارہ كيا ہے:

٫٫ اولئك ينادون من مكان بعيد ٬٬ ﴿ ۴۴ / فصلت ﴾

یہ ايسے لوگوں كی طرف ہی اشارہ ہے جنہیں دور سے صدا دی جاتی ہے ۔ آپ كبھی كسی ايسے شخص كی آواز كو دور سے سنتے ہیں جو اپنی طرف سے پوری شد و مد سے كوئی انتہائی اہم ترانہ گا رہا ہوتا ہے ليكن آپ كے اور اس كے درميان ايك كلو میٹر فاصلہ كی وجہ سے اس كی آواز تو آ رہی ہوتی ہے ليكن وہ كيا كہہ رہا ہے معلوم نہیں ہو سكتا كيونكہ اس كے الفاظ سنائی نہیں دے رہے ہوتے بلكہ صرف آوازآرہی ہوتی ہے۔ یہی آواز جتنے بھی اچھے انداز سے بيان كی گئی ہو اسے بالكل نہیں سمجھا جا سكتا ۔ اسی طرح ہے اگر ايك ديوار پر لكير كھينچی گئی ہو اور آپ اسے دور سے ديكھ رہے ہوں۔ ليكن جب اس كے قريب جاتے ہیں تو پتا چلتا ہے كہ اس میں تو بڑی محنت سے نقش و نگاری كی گئی ہے جو دور سے دكھائی نہیں ديتی ۔ اسی بنا پر قرآن ان افراد سے كہہ رہا ہے كہ انہیں دور سے صدا دی جاتی ہے اور وہ كچھ نہیں سن پاتے لہذا انہیں چاہیے كہ وہ خبردار رہیں تاكہ ھدايت پا سكیں ۔