Super User

Super User

ميانمار ميں مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند بودھسٹوں کے مظالم بدستور جاري ہيں اور انہوں نےمسلمانوں کي ايک مسجد کو آگ لگادي ہے

پريس ٹي وي کے مطابق ميانمارکے انتہا پسند بودھسٹوں نے مغربي صوبے راخين ميں ايک مسجد کو آگ لگادي خبروں ميں بتايا جارہا ہے کہ اس وقت راخين ميں حالات انتہائي کشيدہ ہيں پچھلے دنوں اس صوبے ميں انتہا پسند بودھسٹوں کے ہاتھوں دوہزار کے قريب مسلمانوں کا بے دردي کے ساتھ قتل عام کيا گيا ہے ميانمار ميں مسلمانوں کے حاليہ قتل عام کے واقعات کے بعد ہزاروں کي تعداد ميں روہنگيا مسلمان بے گھر ہوگئے ہيں

ميانمار کے مسلمانوں پر ظلم کے يہ پہاڑ ايک ايسے وقت توڑے جارہے ہيں جب عالمي برادري اور خاص طور پر امريکا و مغربي ممالک خاموش تماشائي بنے ہوئے ہيں ان کے ساتھ ساتھ سعودي عرب اور قطر جيسے ملکوں کي طرف سے بھي اس واقعے پر کوئي بيان سامنے نہيں آيا ہے

ہندوستان کے اہم شہر ممبئی میں سینکڑوں مسلمانوں نے میانمار اور آسام میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور انہیں غیر ملکی قرار دینے کی سازشوں کے خلاف زبردست احتجاج کیا-

ہندوستانی ذرائع کے مطابق آج سینکڑوں مسلمانوں نے رضا اکیڈمی کی کال پر ممبئی کے آزاد میدان میں اجتماع کیا – اس موقع پر مظاہرین نے میانمار اور آسام میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور انہیں غیر ملکی قراردے کر شہری حقوق سے محروم کرنے کےلئے بعض فرقہ پرست جماعتوں کی سازشوں کی شدید مذمت کی –

اس احتجاج کے دوران بعض مشتعل افراد کی جانب سے سنگباری کے نتیجے میں کئی گاڑیوں اور بسوں کو نقصان پہنچا–

پولیس نے اس موقع پر مظاہرین کو منتشر کرنے کےلئے ہوائی فائرنگ کی اور مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا -

ہندوستان سے موصولہ تازہ اطلاع کے مطابق اس مظاہرے کے دوران دو افراد ہلاک اور چالیس دیگر زخمی ہوگئے -

ایران کےشمال مغربی صوبہ "مشرقی آذربائیجان" کے شھر اھر، ورزقان اور ھریس میں رونما ہونیوالے دو شدید زلزلوں میں جان بحق ہونیوالوں کی تعداد بڑھ کر250 ہوگئی جبکہ اس سانحے میں کم از کم دو ہزار افراد زخمی ہیں –

جيولوجيکل سروے کے مطابق پہلے زلزلے کي شدت 6.4 اور اس کے گيارہ منٹ بعد آنے والے زلزلے کي شدت6.3 ريکارڈ کي گئي.

ہونیوالے زلزلوں میں 60 کے قریب دیہاتوں کو شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ چار گاؤں مکمل طور پر ویران ہوگئے ہیں -

صوبہ مشرقی آذربائیجان کے کرائسز منیجمینٹ کے سربراہ خلیل ساعی کے مطابق زلزلوں سے متاثرہ مقامات پر امدادی کارروائیاں جاری ہیں اور زخمیوں کو طبی امداد کے لئے ہسپتال منتقل کیا جارہا ہے- ملبے ميں پھنسے لوگوں کو نکالنے اور زخميوں کو اسپتال منتقل کرنے کا کام رات ميں بھي جاري رہی تاہم بجلي اور مواصلاتي نظام متاثر ہونے کي وجہ سے امدادي کارروائيوں ميں مشکلات کا سامنا ہے-

حکام کے مطابق زلزلے سے شہري علاقوں ميں نقصان نہيں ہوا اورتمام اموات ديہي علاقوں ميں ہوئي ہيں-

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے زلزلے سے جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقين سے تعزيت اور ہمدردي کا اظہار کرتے ہوئے مقامي حکام کو ہدايت کي کہ متاثرہ علاقوں ميں امدادي کارروائياں تيز کي جائيں-

ايران ميں زلزلوں سے تباہي اور اموات پر پاکستان کے صدر آصف علي زرداري اور وزير اعظم راجہ پرويز اشرف سميت دنيا بھر کے حکمرانوں نے دکھ اور افسوس کا اظہارکيا ہے.پاکستاني حکومت نے ايران کو مدد کي پيشکش بھي کي ہے.

زینب بوٹلر ولندیزی نو مسلم خاتون ہیں جو اسلام اختیار کرنے کے بعد دینی و ثقافتی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئی ہیں. اکیڈمک تعلیم بھی انہوں نے علوم انسانی (Humanities) کے مضمون میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی ہے. وہ شادی شدہ ہیں اور دو فرزندوں کی ماں ہیں اور پرمشغلہ خاندانی زندگی کے با وجود «حضرت فاطمة الزہراء (س)» کے نام پر ایک دینی - ثقافتی ادارے کی تأسیس کی کوشش کر رہی ہیں.

یہ انٹرویو «شناخت علی (ع)» کے بارے میں ہے. جنہیں خدا و محمد (ص) کے بغیر کسی نے نہیں پہچانا:

سوال: آج کل کے نوجوانوں کے جذبات و احساسات کو مدنظر رکھتے ہوئے علی (ع) کیونکر ان کے لئے نمونہ عمل بن سکتے ہیں؟

بوٹلر: امام علی (ع) پہلے مرد ہیں جنہوں نے پیغمبر (ص) کی اطاعت و پیروی کی ہے جبکہ ان کی عمر ایک قول کے مطابق 9 سال سے زیادہ نہ تھی اور یہی حقیقت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ ہر زمانے اور ہر جگہ نوجوانوں کے لئے نمونہ عمل ہیں. امام علی (ع) اس چھوٹی سی عمر میں اسلام کے انتخاب و اختیار کرنے کی جرأت کے حامل تھے حالانکہ اس وقت ان سے پہلے صرف دو مسلمان موجود تھے.

انہوں نے اپنی نوجوانی پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں گذار دی اور بہترین و برترین مثال و نمونہ و اسوہ حسنہ کے عنوان سے اسلام و اسلامی اقدار، سماجی و روحانی اخلاقیات رسول خدا (ص) سے سیکھے جو خُلق عظیم کے مالک و اسوہ حسنہ کا مصداق اولین تھے.

امام علیہ السلام نے انسانوں کے عہد شباب، نوجوانوں کے اخلاقیات اور نوجوانوں کو درپیش مختلف سماجی و اخلاقی مراحل کے لئے فصیح ترین و بلیغ ترین جواہر کلام کی صورت میں نہایت عمدہ نصیحتیں چھوڑ رکھی ہیں اور ان میں سے بہت سی احادیث میں نوجوانوں کے وجد و ہیجان اور نوجوانانہ جذبات کو قابو میں رکھنے کی ترکیبیں دیکھنے کو ملتی ہیں اور ہم بھی بآسانی ان دروس کو سیکھ سکتے ہیں جو آپ کو کسی ماہر نفسیات کے کلینک کسی صوفی و ژندہ پوش تارک دنیا کے ڈیرے پر دیکھنے اور سیکھنے کو نہیں ملتیں.}

سوال: عام لوگوں میں علی (ع) کی کون سی خصوصیت ان کے ہردلعزیز و مقبول عام ہونے کا باعث ہوئی ہے ؟

بوٹلر: میں امام علی (ع) کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں ان کے عظیم کارناموں کی خاطر، درست کردار کی خاطر، ان کی شجاعت کی خاطر اور ان کے صبر و بردباری کی خاطر.

حضرت علی(ع) کیاست و فراست اور روشن بینی کے ساتھ دشمنوں کی سازشوں کے سامنے رد عمل دکھایا کرتے اور صبر و استقامت کو پیشہ کیا کرتے تھے.

سوال: اگر اہل مغرب کو علی (ع) کا تعارف کرانا چاہیں تو کرنا چاہئے؟

بوٹلر: بے شک حضرت علی (ع) دیگر مسلمان مجاہدین کے ہمراہ دشمن کے خلاف شدیدترین انداز میں نبردآزما ہوا کرتے تھے مگر ان کے جذبات و احساسات کبھی بھی «انسانی حقوق» کے سلسلے میں ان کے احساس ذمہ داری پر غلبہ نہ پاسکے؛ وہ دشمن کے انسانی حقوق کا بھی پاس رکھا کرتے تھے.

امام علی(ع) اور ان کے اہل خاندان کئی روز تک بھوکے رہتے تھے صرف اس لئے کہ وہ غرباء و مساکین اور دردمندوں کو اپنے اوپر مقدم رکھتے تھے اور اپنا کھانا انہیں کھلایا کرتے تھے.

اور یہ بات خاص طور پر اہمیت رکھتی ہے کہ امام علی علیہ السلام اپنے اوپر لازم سمجھتے تھے کہ وہ لوگوں کو جو نصیحتیں فرمایا کرتے تھے، سب سے پہلے خود ان پر عمل پیرا ہوں.

سوال: آج کے نوجوان کیونکر امام علی علیہ السلام کی زندگی سے درس حاصل کرسکتے ہیں؟

بوٹلر: امام علی علیہ السلام نے نصایح، گوہرہائے سخن, اور زندگی کے مختلف پہلؤوں کے بارے میں کثیر معلومات ہمارے لئے چھوڑ رکھی ہیں؛ ہم امام علیہ السلام کی تعلیمات کے ذریعے خداوند علیم کی بارے میں آگہی حاصل کرسکتے ہیں. امام علی اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہما کے دشمن بھی بہت تھے جو اسلام کو نابود کردینا چاہتے تھے یا پھر اسلام کی تعلیمات و احکام و اہداف میں تحریف کرنا چاہتے تھے لیکن امام علی علیہ السلام [اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا] نے اسلام کا دفاع کیا اور اس راہ میں قوت بیان اور شمشیر کا استعمال کیا اور اسی اسلام پر جان بھی نچھاور کردی.

امام علی علیہ السلام کے نصایح ایسے بڑے بھائی کے نصائح ہیں جو بہت زیادہ عالم و آگاہ بھی ہو اور خیرخواہ و ہمدرد بھی؛ امام علیہ السلام ان سب احکام کی وضاحت کرتے ہیں جو خداوند عالم کے احکام ہیں اور خداوند عالم ہم سے ان کی تعمیل کی توقع رکھتا ہے اور ساتھ ہی ہمیں سوچنے کا موقع بھی دیتے ہیں اور ہمیں موقع دیتے ہیں کہ ان احکام کو اپنی زندگی پر لاگو کریں اور زندگی کو ان احکام و تعلیمات سے ہماہنگ کریں اور زندگی میں ان تعلیمات کو بروئے کار لانے کی روش بھی سیکھ لیں تا کہ انشاء اللہ تمام امور میں بہترین فیصلے کرسکیں.

صحيفہ سجاديہ سے بہتر آشنائي

خدا كي طرف توجہ اور اس كي ذات پر بهروسہ، معنويت اور قرآن اور دعاؤں من جملہ صحيفۂ سجاديہ سے انسيت، يونيورسٹي كے طلباءاوراساتيذ كي كوششوں ميں بركت عطا كرتي ہے اور ان لوگوں كي سازش كو ختم كرنے كا سبب بنتي ہے جن كا هدف ان كے ديني، انقلابي اور سماجي جذبہ كو ختم كرنا ہے۔(اسلامي انقلاب كے قائد كا شيراز يونيورسٹي كے طلباء سے خطاب)

 

دعا اسلامي تعليمات كا سرچشمہ

صحيفۂ سجاديہ سے آشنائي كو معارف اسلامي سے آشنائي كا مقدمہ قرار ديا جاسكتا ہے انسان "عقائد" "اخلاق" اور "ديني معلومات" كے لئے صحيفۂ سجاديہ كي طرف رجوع كرسكتا ہے۔دين سے آشنائي كے لئے ايسے منابع پاۓ جاتے ہيں جو اطمينان و يقين اور صحت سے بہرہ مند ہيں اور جن كا ريشہ كلام خدا اور علم لدني سے ملتا ہے۔ ان ميں سے بعض منابع يہ ہيں:

۱۔ قرآن كريم

۲۔ پيغمبر (ص) اور ائمۂ معصومين عليهم السلام كي احاديث

۳۔ معصومين عليهم السلام كي دعائيں

۴۔ ماثورہ زيارات

 

ہماري بحث كا محور ان منابع ميں سے ايك كے بارے ميں ہے يعني وہ دعائيں جو امام سجاد (ع) كي زبان سے بيان ہوئي ہيں اور ہم تك پہونچي ہيں اور جو بہت ہي اعلي اور ظريف معارف كي حامل ہيں۔ ہميں دعاؤں كے اس مجموعہ كي قدر كرني چاہيئے اور اس سے مانوس ہونا چاہيئے اور اپنے شب و روز كو ان دعاؤں كے ذريعہ معنوي بنانا چاہيئے۔ اہل بيت عليهم السلام اہلدعا اور ذكر تهے اور قرآن بهي دعا كي تاكيد كرتے ہوۓ فرمارہا ہے "ادعوني استجب لكم" لهذا پيروان اہل بيت كو بهي اہل دعا اور تضرع ہونا چاہيئے۔

 

شايد ہماري فكر و فہم اس بات سے قاصر ہو كہ ہميں خدا سے كيا مانگنا چاہيئے ور اس كي بارگاہ ميں ہميں كيا دعا كرنا چاہيئےليكن اس ميدان ميں بهي اولياء الہي ہمارے قائد ہيں جو اعلي اور ظريف دعاؤں كو مطرح كركے، جو ہماري دنياوي اور اخروي سعادت سے مربوط ہيں ہمارے فہم كي سطح اور دعا كرنے كے طريقہ كو حد درجہ بالا لے جاتے ہيں اور ہم ان دعاؤں كے پڑهنے كے ذريعہ سے معصومين عليهم السلام اور اس كے پاك اور مقرب بندوں كے ہم نوا ہوجاتے ہيں اور خدا كو اس كي حجت كي زبان سے آواز ديتے ہيں اور دعا كے ميدان ميں بهي اہل بيت عليہم السلام كے مكتب كے شاگرد ہوجاتے ہيں۔

 

دعاؤں كي بحث ميں بہت سي سرخياں پائي جاتي ہيں جن كي طرف توجہ كرنا ضروري ہے:

دعا كے معنا اور اس كي اہميت، دعا اور اس كي ضرورت، دعا كے روحي، فردي، اور سماجي آثار، دعا كے آداب، دعا كرنے كا صحيح طريقہ، دعا كے قبول ہونے كے شرائط، دعا كے قبول ہونے ميں پيش آنے والے موانع، دعا اور اس كے قبول ہونے كے بارے ميں بحث، بعض دعاؤں كے قبول نہ ہونے كي وجہ، ائمہ عليهم السلام اور اولياء الہي كي دعائيں،(ماثورہ دعائيں)دعا كے بارے ميں علماء و عرفاء كے حالات اور ائمہ كي سيرت، دعا اور عمل (دعا كے ساته عمل) دعا اور سرنوشت و مقدرات، دعا كا فايدہ، وہ لوگ جن كي دعائيں قبول نہيں ہوتي، مستجاب الدعوۃ(وہ لوگ جن كي دعائيں قبول ہوتي ہيں) دعا اور بد دعا، (كسي كے فايدہ كے لئے يا نقصان كے لئے دعا كرنا) اپنے اور دوسروں كے كے لئے دعائيں كرنا، قرآني دعائيں۔

 

امام سجاد عليہ السلام اور دعا

واقعہ كربلا كے بعد امام سجاد عليہ السلام نا مساعد حالات ميں اموي حاكموں كي طرف سے پے در پے زير نظر تهے اور امام كي رفت آمد ان كے زير نظر تهي اس طرح سے كہ امامؑ كو گهر ميں نظر بند كرديا تها اور آپ كے گهر ميں آپ كے چاہنے والوں كو جانے كي اجازت نہيں تهي تاكہ لوگ امامؑ كے ذريعہ معارف الہي سے استفادہ نہ كرسكيں۔

امام سجاد عليہ السلام نے ان درد ناك حالات ميں ظلم و جارحيت كے هجوم ميں تنها موثر اسلحہ دعا اور مناجات كو قرار ديا اور الہي اور نوراني رسالت كو دعا كي شكل ميں لوگوں كے سامنے پيش كيا حقيقت ميں دعا كي تاثير ان درد ناك شرائط ميں جنگ سے زيادہ موثر تهي يہاں تك كہ امام خمينيؒ اپنے سياسي اور الہي وصيت نامہ ميں اس كو قرآن صاعد كے نام سے ياد كرتے ہيں اور اس كو زبور آل محمد كا نام ديتے ہيں امام فرماتے ہيں: ہم اس بات پر افتخار كرتے ہيں كہ حيات بخش دعائيں جن كو قرآن صاعد كہا جاتا ہے وہ ہمارے ائمہ سے وارد ہوئي ہيں ۔ وصيت نامہ امام خميني ص ۳

يہ دعائيں اور مناجات صحيفۂ سجاديہ كے نام سے مشہور ہيں اور قرآن و نہج البلاغہ كے بعد معارف الہي اور حقايق كا غني ترين خزانہ ہےاس طرح سے كے اسے بزرگ شيعہ علماء نے اخت القرآن، انجيل اہل بيتؑ اور زبور آل محمد عليهم السلام كا نام ديا ہے _معالم العلماء ص ۱۳۵_

 

صحيفہ سجاديہ

صحيفہ سجاديہ كاملہ ۷۵ دعاؤں پر مشتمل ہے جس كو امام سجادعليہ السلام نے املأ كيا ہے اور امام باقر عليہ السلام اور انكے بهائي جناب زيد بن علي نے اس كو دو نسخوں ميں لكها ہے۔

متوكل بن هارون موجودہ صحيفہ سجاديہ كا پہلا راوي كہتا ہے: سفر حج كے بعد ميں نے يحيي بن زيد بن علي (ع) سے ملاقات كي اور ان كو جناب زيد كي شہادت كے بارے ميں امام صادق كے حزن و غم سے آگاہ كيا اور ان سے كہا كے امام صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ يحيي بهي اپنے والد زيد كي طرح شہيد كردئے جائيں گے اس گفتگو كے بعد (جو صحيفہ سجاديہ كے مقدمہ ميں آئي ہے ) يحيي نے امام سجاد عليہ السلام كي دعاؤں كا ايك نفيس مجموعہ كہ جو جناب زيدكے ذريعہ لكها گيا تها متوكل كے حوالہ كيا تاكہ ان كي شہادت كے بعد بني اميہ كے ہاته نہ لگ جاۓ۔

متوكل اس نسخہ كو امام صادق عليہ السلام كے سامنے پيش كرتے ہيں اور جب اس كو امام باقر عليہ السلام كے ذريعہ تحرير شدہ نسخہ سے ملاتے ہيں تو دونوں ميں كوئي فرق نہيں پاتے ہيں۔ وہ ۷۵ دعاؤں ميں سے ۶۴ دعائيں لكهتے ہيں ليكن موجودہ نسخہ ميں ۵۴ دعائيں ہيں۔

دور حاضر ميں ہم شيعوں كے پاس جو نسخہ ہے وہ صحيفہ سجاديہ كاملہ ہے جو ۵۴ دعاؤ پر مشتمل ہے۔ اس كتاب كو صحيفہ كاملہ اس لئے كہتے ہيں كيوں كہ اس كتاب كے دونسخے تهے ايك چهوٹا جو زيديہ كے پاس تها جو اس كتاب كا آدها تها اور ايك بزرگ كے جو صحيفہ كاملہ ہے۔يہ نسخہ سن ۵۱۶ قمري ميں امام علي عليہ السلام كے حرم كے خازن ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن شهريار نے اسے ابومنصور محمد عكبوي سے سنا اور اس نے اسے شيباني سے دريافت كيا جہاں تك شيباني ثقہ نہيں ہے وہيں اصلي راوي متوكل بن هارون كي وضعيت بهي مشخص نہيں ہے اور اس كي شخصيت بهي مجهول ہے۔ شيعہ متقدمين كے درميان صحيفہ سجاديہ كي طرف زيادہ توجہ نہيں كي جاتي تهي يہاں تك كے محمد تقي مجلسيؒ نے خواب ميں ديكهنے كے بعد اس دعا كو لوگوں كے درميان رائج كيا۔ البتہ دوسرے مولف كي نقل كے مطابق نجم الدين بها الشرف ابو الحسن علويم قرن ۶ قمري (۳۸۔ ۹۸ هق) كي كتاب امام علي بن حسين عليہ السلام سے روايت ہوئي ہے اور اس كا وقف كرنے والا عندليب ہے۔

امام عليہ السلام نے بہت سے اسلامي معارف كو صحيفہ سجاديہ كي دعاؤں كي شكل ميں بيان كيا ہے۔ اس طرح سے ہم ديكهتے ہيں كہ اس كتاب كي دعاؤں ميںخدا شناسي، دنيا شناسي، علم غيب اور فرشتہ، انبياء كي رسالت، پيغمبر (ص) اور اہلبيت عليهمالسلام كا مقام ، فضائل اور رزائل اخلاقي، انسان كےخاص حالات، شيطان كے انسان كو گمراہ كرنےكےمختلف طريقہ، قدرت خدا، خدا كي مختلف نعمتوں كي ياد آوري اور اس كے مقابلہ ميں انسان كا شكريہ كرنے كا وظيفہ، پروردگار كي آفاقي اور انفسي نشانياں، دعا كرنے كے آداب اور اس كا طريقہ، تلاوت، ذكر، عبادت و و و۔۔ اور دوسرے دسيوں موضوع كے بارے ميں ظريف ترين مطالب مطرح كئے گئے ہيں۔جس كا انداز دعا اور عبادتہے ليكن مضمون دين اور اخلاقي خصوصيات، معارف قرآني،وظايف عبادي اور آداب بندگي كو بيان كرنا ہے۔ (جواد محدثي ، صحيفہ سجاديہ، زبور آل محمد "ص" )

مقالہ نگار: علم الهدي

Saturday, 11 August 2012 06:03

شب قدر کے حقيقي معني

لغت ميں ''قدر'' کے معني مقدار اور اندازہ کرنے کے ہيں(1) - ''تقدير'' بھي اندازہ کرنے اور معين کرنے کو کہتے ہيں (2) ليکن ''قدر'' کے اصطلاحي معني کسي چيز کے وجود کي خصوصيت اور اس کي پيدائش کي کيفيت کے ہيں (3) دوسرے لفظوں ميں يہ کہا جائے کہ ہر چيز کے وجود کي محدوديت اور اندازے کو ''قدر'' کہتے ہيں(4) -

حکمت الہي کے نظريہ کے مطابق خلقت کے نظام ميں ہر چيز کا ايک خاص اندازہ ہے اور کسي بھي چيز کو بغير حساب و کتاب کے خلق نہيں کيا گيا ہے - اس دنيا کا بھي حساب و کتاب ہے اور يہ رياضي کے حساب کي بنياد پر تنظيم ہوئي ہے ، اس کا ماضي، حال اور آئندہ ايک دوسرے سے مرتبط ہے - استاد مطہري نے قدر کي تعريف ميں فرمايا: '' ... قدر کے معني اندازہ اور معين کرنے کے ہيں... حوادث جہاني ... چونکہ اس کي حديں، مقدار اور زماني و مکاني موقعيت معين کي گئي ہيں ، لہذا يہ تقدير الہي کے اندازے کے مطابق ہے(5) - پس خلاصہ يہ کہ ''قدر'' کے معني کسي چيز کي جسماني اور فطري خصوصيات کے ہيں جس ميں شکل، طول، عرض اور زماني و مکاني موقعيت شامل ہے اور يہ تمام مادي اور فطري موجودات کو اپنے دائرہ ميں لئے ہوئے ہے -

يہي معني روايات سے بھي استفادہ ہوتے ہيں ، جيسا کہ ايک روايت ميں امام رضا(عليہ السلام) سے سوال کيا گيا: قدر کے کيا معني ہيں؟: امام (عليہ السلام) نے فرمايا: ''تقدير الشئي ، طولہ و عرضہ''- ہرچيز کا اندازہ جو طول و عرض کے اعتبار سے وسيع تر ہو (6) ،ايک دوسري روايت ميں امام رضا (عليہ السلام) نے قدر کے معني بيان کرتے ہوئے فرمايا: ہرچيزکا اندازہ جو طول و عرض اور باقي رہنے کے اعتبار سے وسيع تر ہو(7) -

اس بناء پر تقدير الہي کے معني يہ ہيں کہ مادي دنيا ميں مخلوقات اپنے وجود ، آثاراور خصوصيات کے اعتبار سے محدود ہيں اور يہ محدوديت ،خاص امور سے مرتبط ہے ايسے امور جو اس کي علت اور شرايط ہيں، اور علل و شرايط اور وجود کے مختلف ہونے کي وجہ سے موجودات کے آثار اور خصوصيتيں بھي مختلف ہيں، ہر مادي موجود کو مخصوص پيمانے کے ذريعہ اندر اور باہر سے اندازہ کيا جاتا ہے - يہ قالب ، حدوديعني طول ، عرض، شکل،رنگ ، مکان اور زمان کي کيفيت اور تمام عوارض، مادي خصوصيات شمار کي جاتي ہيں ، لہذا مادي موجودات ميں تقدير الہي کا مطلب يہ ہے کہ موجودات کو ان کے شايان شان وجود کي طرف ہدايت کرنا جو ان کے لئے مقدور ہوا ہے (8) -

ليکن قدر کي فلسفي تعبيرکے اعتبار سے اصل عليت ہے '' اصل عليت يعني حوادث کا ايک دوسرے کے ساتھ ضروري اور قطعي ارتباط - اور دوسرے يہ کہ ہر حادثہ کا ضروري اور يقيني ہونا نيز اپنے وجود کي خصوصيات اور تقدير کو ايک امر يا امور سے مقدم سمجھنا (9) -

پوري دنيا اور تمام حوادثات کے اوپر اصل عليت اور نظام اسباب و مسببات حاکم ہے اور ہر حادثہ اپنے وجود کي ضرورت نيز زماني اور مکاني خصوصيت ، شکل و صورت اوراپني دوسري تمام خصوصيات کو اپني علتوں کے مقدمہ سے کسب کرتا ہے ، ہر وجود کے ماضي، حال اور استقبال اوراس کے متقدمہ علتوں کے درميان جدا نہ ہونے والا رابطہ پايا جاتا ہے (1ظ ) -

مادي موجودات کي علتيں فاعل، مادہ ، شرايط اور عدم مانع ہے اور ان ميں سے ہر ايک کا خاص اثر ہے اوريہ تمام تاثيرات ايک خاص وجود کے قالب کو تشکيل ديتے ہيں - اگر يہ تمام عليتں، شرايط اور عدم مانع ايک جگہ جمع ہوجائيں توعلت تامہ بن جائے گي اور اپنے معلول کو ضرورت اور وجود عطا کرتي ہے جس کو ديني متون ميں ''قضائے الہي'' سے تعبير کرتے ہيں ليکن ہر موجودکا اس کے علل و شرايط کو مدنظر رکھتے ہوئے ايک خاص قالب ہوتا ہے جو اپنے وجود کي خصوصيت اور عوارض کو تشکيل ديتا ہے اور ديني متون ميں اس کو ''قدر الہي '' سے تعبير کرتے ہيں -

قدر کے معني واضح ہونے سے شب قدر کي حقيقت کو سمجھنا ممکن ہوجاتا ہے - شب قدر وہ رات ہے جس ميں تمام مقدرات لکھے جاتے ہيں، اور ہر چيز کا معين قالب اور اندازہ تيار کيا جاتا ہے -

بہ عبارت ديگر ، شب قدر ، ماہ رمضان کي آخري دس راتوں ميں سے ايک ہے - ہماري روايات کے مطابق انيسويں يا اکيسويں يا تيسويں راتوں ميں کوئي ايک رات ، شب قدر ہے -(11) اس رات ميں (جس ميں قرآن کريم بھي نازل ہوا ہے)لوگوں کے تمام اچھے اور برے امور ، ولادت، موت، روزي، حج، طاعت، گناہ ، خلاصہ يہ کہ پورے سال ميں جو بھي حادثہ رونما ہونے والا ہے وہ سب امورمعين ہوتے ہيں(12) - شب قدر ہميشہ اور ہر سال آتي ہے ،اس رات ميں عبادت کرنے کا بے حد ثواب ہے اور ايک سال کي زندگي پر بہت زيادہ موثر ہے(913- اس رات ميں آنے والے سال کے تمام حوادث کو امام زمانہ کي خدمت ميں پيش کيا جاتا ہے اور آپ اپنے اور دوسروںکے حالات سے باخبر ہوجاتے ہيں - امام باقر(عليہ السلام) فرماتے ہيں : '' انہ ينزل في ليلة القدر الي ولي الامر تفسير الامور سنة سنہ، يومر في امر نفسہ بکذا و کذا و في امر الناس بکذا و کذا '' - شب قدر ميں ولي امر (ہر زمانہ کے امام) کو کاموں کي تفسير اور حوادث کي خبر دي جاتي ہے اور وہ اپنے اور دوسرے لوگوں کے کاموں کي طرف مامور ہوتے ہيں(14)

پس شب قدر وہ رات ہے :

1- جس ميں قرآن کريم نازل ہوا -

2- آئندہ سال کے حوادث اس رات ميں مقدر ہوتے ہيں -

3- يہ حوادث امام زمانہ (روحي و جسمي فداہ)کو پيش کئے جاتے ہيں، اورآپ کچھ کاموں پر مامور ہوتے ہيں -

اس بناء پر يہ کہا جاسکتا ہے کہ شب قدر ، تقدير، اندازہ گيري اور دنيا کے حوادث کو معين کرنے کي رات ہے -

يہ بات قرآن کريم کي آيات سے بھي ثابت ہے کيونکہ سورہ بقرہ کي 185 ويں آيت ميں فرمايا ہے : '' شھر رمضان الذي انزل فيہ القرآن'' ماہ رمضان ميں قرآن کريم نازل ہوا ہے - اس آيت کے مطابق قرآن کريم (نزول دفعي) ماہ رمضان ميں ہوا ہے - سورہ دخان کي تيسري آيت سے پانچويں آيت تک بيان ہوا ہے : '' انا انزلناہ في ليلة مبارکة انا کنا منذرين فيھا يفرق کل امر حکيم امرا من عندنا انا کنا مرسلين'' -

ترجمہ

اسي طرح سورہ قدر ميں تصريح ہوئي ہے کہ قرآن کريم شب قدر ميں نازل ہوا ہے -

مذکورہ تينوں آيتوں سے واضح ہوتا ہے :

1- قرآن کريم ماہ رمضان ميں نازل ہوا ہے -

2- قرآن کريم ماہ مبارک رمضان کي راتوں ميں سے مبارک رات ميں نازل ہوا ہے -

3- قرآن کريم ميں اس رات کا نام شب قدر ہے -

4- سورہ دخان کي آيات کے مطابق اس رات کي دو خصوصيتيں ہيں:

الف : قرآن کا نازل ہونا -

ب : اس رات ميں امرحکيمي جدا ہوتے ہيں -

ليکن سورہ قدر ميںجو کہ بمنزلہ سورہ دخان کي تفسير اور شرح کے ہے ، شب قدر کي چھ خصوصيات بيان ہوئي ہيں:

الف : شب قدر ، قرآن کريم کے نازل ہونے کي رات ہے (انا انزلناہ في ليلة القدر) -

ب : شب قدر کي عظمت و اہميت کسي کے اوپر روشن نہيں ہے (وما ادراک ما ليلة القدر) -

ج : شب قدر ہزار راتوں سے بہتر ہے - ''ليلة القدر خير من الف شھر''-

د : اس رات ميں ملائکہ اور روح رب العالمين کي اجات سے نازل ہوتے ہيں (تنزل الملائکة و الروح فيھا باذن ربھم) اور روايات ميں تصريح ہوئي ہے کہ يہ سب امام زمانہ کے قلب پر نازل ہوتے ہيں -

ھ : ان کا نازل ہونا ہر کام کے محقق ہونے کے لئے ہے جيسا کہ سورہ دخان ميں اس کي طرف اشارہ ہوا ہے (من کل امر) اور يہ نزول (جو کہ شب بيداري کرنے والے مومنين پر خدا کي خاص رحمت کے برابر ہے) طلوع فجر تک جاري رہتا ہے (سلام ھي حتي مطلع الفجر) -

و : شب قدر ميں تقدير ا ور اندازہ گيري ہوتي ہے کيونکہ اس سورہ ميں (جس ميں صرف پانچ آيتيں ہيں) تين بار ''ليلة القدر '' کي تکرار ہوئي ہے اور قرآن کريم کا يہ خاص اہتمام اس رات ميں اندازہ گيري اور تقدير کي وجہ سے ہے -

مرحوم کليني نے اپني کتاب کافي ميں امام صادق (عليہ السلام) سے نقل کيا ہے کہ آپ نے اس آيت ''انا انزلناہ في ليلة مبارکة'' کي تفسير کے جواب ميں فرمايا: جي ہاں شب قدر ايسي شب ہے جو ہر سال ماہ رمضان کي آخري دس راتوں ميں آتي ہے - اسي رات ميں قرآن کريم نازل ہوا ہے اور يہ ايسي رات ہے جس کے متعلق خداوند عالم نے فرمايا : ''فيھا يفرق کل امر حکيم'' اس رات ميں حکمت آميز امور معين اور جدا ہوتے ہيں، اس کے بعد فرمايا: '' پورے سال ميں جو بھي پيش آنے والا ہے وہ شب قدر ميں معين ہوتا ہے - خير و شر، طاعت و معصيت اسي طرح اگر کوئي بچہ پيدا ہونے والا ہے يا کسي کو موت آنے والي ہے يا کسي کو رزق ملنے والا ہے وہ سب اسي رات ميں معين ہوتے ہيں (15) -

حوالہ جات:

1- قاموس قرآن، سيد علي اکبر قرشي، ج5، ص 246 و 247-

2- گذشتہ حوالہ، ص 248-

3- الميزان ، سيد محمد حسين طباطبائي ،ج 12، ص 15ظ و 151-

4- گذشتہ حوالہ، ج 19، ص 1ظ 1-

5- انسان و سرنوشت ، شہيد مطہري ، ص 52-

6- المحاسن البرقي، ج 1، ص 244-

7- بحار الانوار، ج 5، ص 122-

8- الميزان، ج19، ص 1ظ 1- 1ظ 3-

9- انسان و سرنوشت ، شہيد مطہري ، ص53-

فلپائن ميں 12 دنوں سے جاري شديد بارشوں نے سيلاب کي شکل اختيار کر لي جس کے باعث 51 افراد ہلاک جبکہ 538,000 افراد بے گھر ہوگئے.

فرانسیسی خبررساں ایجنسی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ فلپائن ميں 12 دنوں سے جاري شديد بارشوں نے سيلاب کي شکل اختيار کر لي جس کے باعث 51 افراد ہلاک جبکہ 538,000افراد بے گھر ہوگئے. فلپائن کے دارالحکومت منيلا سميت کئي صوبوں ميں 12 دنوں سے جاري مون سون بارشوں اور سيلاب نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر ديا ،درياوں ميں پاني کي سطح 18فٹ سے بھي تجاوز کر گئي.حکومت نے خراب صورتحال پر قابوپانے کے ليے امدادي کام شروع کر دئيے ہيں۔ محکمہ موسميات کے مطابق بارشوں کے مسلسل جاري رہنے کا امکان ہے۔

پاکستان کے وزير خارجہ حنا رباني کھر نے کہا ہے کہ شام ميں بيروني مداخلت پہلے سے خراب صورت حال کو مزيد پيچيدہ کردے گي۔

رپورٹ کے مطابق انہوں نے تہران ميں 10(اگست 2012ء ) شام کے موضوع پر مشاورتي وزارتي اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شام کے بارے ميں اقوام متحدہ کے خصوصي نمائندے کوفي عنان کے استعفے سے پاکستان کو شديد مايوسي ہوئي ہے. کوفي عنان کے چھ نکاتي منصوبے سے شام ميں امن کي اميد پيدا ہوگئي تھي. انہوں نے شامي حکومت اور اپوزيشن گروپوں پر زور ديا کہ وہ عوام کي سلامتي کے لئے تحمل سے کام ليں. ان کا کہنا تھا کہ شام ميں عدم استحکام سے پورے خطے ، مسلم امہ اور دنيا کے لئے سنگين نتائج برامد ہوں گے. يہي وقت ہے کہ شام ميں خوں ريزي روکنے کے لئے مسئلے کا سب کے لئے قابل قبول حل تلاش کيا جائے.

Saturday, 11 August 2012 05:54

مسجد الاقصي

مسجد الاقصي

مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول اور خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔

مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصیٰ یا الحرم القدسی الشریف کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ 2000ء میں الاقصیٰ انتفاضہ کے آغاز کے بعد سے یہاں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔

 

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔

قرآن مجید کی سورہ الاسراء میں اللہ تعالی نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:

 

" سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آَيَاتِنَا إِنَّه هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ"

 

قرأن كريم، سورة الإسراء أيه 1)

 

" پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقینا اللہ تعالی ہی خوب سننے والا اوردیکھنے والا ہے (سورہ الاسراء آیت نمبر 1( "

احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میں مسجد حرام،مسجد نبوی اور مسجد اقصٰی شامل ہیں۔

مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور معراج میں نماز کی فرضیت 16 سے 17 ماہ تک مسلمان مسجد اقصٰی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔

مسلم تعمیرات

جب جناب عمر کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو آپ نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔

یہی مسجد بعد میں مسجد اقصٰی کہلائی کیونکہ قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصٰی کہا گیا ہے۔

اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔

عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔

عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔

پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا۔

صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔

سانحہ بیت المقدس

21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگادی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہوگیا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔

یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گراکر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا۔

حرم قدسی کے جنوبی حصے میں واقع مسجد اقصیٰ

 

مسجد اقصیٰ و قبۃ الصخرۃ

مسجد اقصی کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبۃ الصخرۃ ہے جو اسلامی طرز تعمیر کے شاندار نمونوں میں شامل ہے ۔ تاہم آجکل یہ نام حرم کے جنوبی جانب والی بڑی مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے ۔

وہ مسجد جو کہ نماز کی جگہ ہے وہ قبۃ الصخرۃ نہیں، لیکن آج کل قبہ کی تصاویر پھیلنے کی بنا پر اکثر مسلمان اسے ہی مسجد اقصیٰ خیال کرتے ہيں حالانکہ فی الواقع ایسی کوئی بات نہیں مسجد تو بڑے صحن کے جنوبی حصہ میں اور قبہ صحن کے وسط میں ایک اونچی جگہ پر واقع ہے۔

19 ماہ رمضان المبارک کو نماز فجر میں سجدہ معبود میں امیرالمومنین حضرت علی (ع) کی پیشانی جس وقت خون میں غلطاں ہوئی اور پیغمبر اسلام (ص)کے وصی ، یتیموں اور بےکسوں کے حامی کا سر مبارک شمشیر ظلم سےشگافتہ ہوا تو مشکلکشا ، شیر خدا ، شاہ لافتی کے شاگرد جبرائیل امین نے تڑپ کر آواز دی " ان تَہَدّمَت و اَللہ اَرکان الہُدیٰ" خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہوگئے،

سن40 ھ ق حضرت علی علیہ السلام مسجد کوفہ میں عبد االرحمن بن ملجم کےقاتلانہ حملہ سے شدید زخمی ہوۓ ۔

حضرت علی علیہ السلام انیسویں رمضان کے شب اپنی بیٹی ام کلثوم کے ہاں مہمان تھے .

روایت میں آیا ہے کہ آپ اس رات بیدار تھے اور کئی بار کمرے سے باہر آ کر آسمان کی طرف دیکھ کر فرماتے تھے :خدا کی قسم ، میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ ہی مجھے جھوٹ کہا گيا ہے ۔ یہی وہ رات ہے جس میں مجھے شھادت کا وعدہ دیا گيا ہے ۔ حضرت علی (ع) نماز صبح کیلۓ مسجد کوفہ کی طرف روانہ ہوئے مسجد میں داخل ہوئے اور سوۓ ہوے افراد کو نماز کیلۓ بیدار کیا، عبد الرحمن بن ملجم مرادی کوبھی بیدار کیا جو پیٹ کے بل سویا ہوا تھا اور اسے نماز پڑھنے کوکہا ۔

جب حضرت محراب میں پہنچے اور نماز فجر کا آغاز کیا تو پہلے سجدے سے ابھی سر اٹھا ہی رہے تھے کہ عبد الرحمن بن ملجم مرادی نے زہر آلودہ تلوار سے آپ کے سر پر وار کیا اور آنحضرت کا سر زخمی ہوگیا .

حضرت علی علیہ السلام محراب میں گر پڑے اسی حالت میں فرمایا : بسم اللہ و بااللہ و علی ملّۃ رسول اللہ ، فزت و ربّ الکعبہ ؛ خدای کعبہ کی قسم ، میں کامیاب ہو گيا ۔

بعض نمازگذار ابن ملجم کو پکڑنے کیلئےباہر کی طرف دوڑ پڑے اور بعض حضرت علی (ع) کی طرف بڑھے اور کچھ سر و صورت پیٹنے اور ماتم کرنے لگے ۔

حضرت علی (ع) کے سر مبارک سے خون جاری تھا آپ نے فرمایا: ھذا وعدنا اللہ و رسولہ ؛یہ وہی وعدہ ہے جو خدا اور اسکے رسول (ص)نے میرے ساتھ کیا تھا ۔

حضرت علی (ع) نے اپنےفرزند امام حسن مجتبی (ع) سے نماز جماعت کو جاری رکھنے کو کہا اور خود بیٹھ کر نماز ادا کی ۔اس کے بعد حضرت کو مسجد سے گھر لایا گیا اصحاب آپ کے ہمراہ تھے آپ نے گھر پہنچنے کے بعد امام حسن مجتبی سے فرمایا: اصحاب سے کہہ دیجئے چلے جائيں کیوں کہ مجھ سے زینب و ام کلثوم ملنے کے لئے آرہی ہیں۔ 20 رمضان کو حضرت علی(ع) نے بڑے درد و غم میں بسر کیا طبیب نے کہا زہر کا اثر پورے بدن میں پہنچ گیا ہے اب علاج ممکن نہیں ہے اور امت مسلمه کے امیر21 رمضان کواپنے معبود حقیقی سے جا ملے ۔