Super User

Super User

ماسِ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں (بقره 185)

بعثت کے دسويں سال ماہ رمضان ميں حضرت خديجہ س کي وفات ہوئي - اس وقت ان کي عمر 65 سال تھي - نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ان کے جسد خاکي کو اپنے ہاتھوں سے مکہ کے ابوطالب نامي قبرستان ميں سپرد خاک کيا - حضرت خديجہ کي وفات نے نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو بےحد غمزدہ کيا اور اس سال کو نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے " عام الحزن " يعني غم کا سال نام ديا - حضرت خديجہ سے نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو بےحد زيادہ محبت تھي - ان کي دولت نے اسلام کو مالي لحاظ سے قوت بخشي اور انہوں نے ہر غم اور تکليف ميں نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کا ساتھ ديا - اس سال کو عام الحزن کا نام اسي ليے ديا گيا کيونکہ اس سال نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اپني پياري بيٹي سے محبت کرنے والي اس کي ماں اور اپني محبوب بيوي کو کھو ديا اور اس جيون ساتھي کو کھو ديا جس کے ساتھ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم بےحد زيادہ محبت کرتے تھے -

خدا کي قسم ! خدا نے خديجہ سے بہتر مجھے کوئي چيز عطا نہيں کي ہے (1)

جناب عائشہ نے کہا کہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم گھر سے باہر نہيں جاتے تھے مگر جب حضرت خديجہ کي ياد آتي تب جاتے تھے اور انہيں اچھے الفاظ ميں ياد کرکے ان کي ثنا اور مدح کرتے - ايک دن ميں نے نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے کہا کہ وہ بوڑھي عورت اچھي نہيں تھي اور خدا نے اس سے بہتر آپ کو عطا کي ہے - يہ سن کر نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اس قدر غصے ميں آ گۓ کہ ان کے سر کے سامنے والے بال ہلنے لگے اور پھر فرمايا : نہيں ، خدا کي قسم اس سے بہتر خدا نے مجھے بدل نہيں ديا ہے - وہ مجھ پر ايسے وقت ميں ايمان لائي جب لوگ کافر تھے - اس نے ميري اس وقت تصديق کي جب لوگ تکذيب کرتے تھے اور اپنے مال سے ميري مدد کي - جب لوگوں نے مجھے محروم کيا تو خدا نے اس سے مجھے وہ اولاد عطا کي کہ جس سے دوسري عورتيں محروم يعني خدا نے فاطمہ س کو اس سے مجھے عطا کيا - (2)

جي ہاں ! نبي اکرم ، اس کي وفات کے سالوں بعد بھي اس وفادار ساتھي کو ياد کيا کرتے تھے - بارہا حضرت خديجہ کي ياد ميں نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم رويا کرتے تھے –

جناب عائشہ سے نقل کيا گيا ہے کہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم جب بھي کوئي بکرا ذبح کيا کرتے تھے تو فرمايا کرتے کہ اس کے گوشت کو خديجہ کے دوستوں کو بھي بھيج دو اور اس پر عائشہ کو رشک آتا اور کہتيں کہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم خديجہ کو مجھ سے زيادہ ياد کيا کرتے - ايک دوسري روايت ميں آيا ہے کہ بعض اوقات جب نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے ليۓ کوئي تحفہ آتا تو فرماتے کہ اسے فلاں بانو کے ليۓ بھيج دو کہ وہ خديجہ کے دوستوں ميں سے تھيں -

رسول خدا حضرت خديجہ کے بارے ميں فرماتے ہيں : خدا نے اس سے بہتر مجھے نہيں ديا ہے - وہ اس وقت مجھ پر ايمان لائي جب لوگ کافر تھے ، ميري نبوت کي تصديق کي جب دوسروں نے مجھے جھوٹا کہا اور اپنے مال کو اس وقت ميرے اختيار ميں ديا جب دوسروں نے محروم کيا اور خدا نے اس سے مجھے اولاد عطا کي اور فتح مکہ کے دن نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے گزرنے کے ليۓ وہ راستہ اختيار کيا جو حضرت خديجہ کے مزار کے نزديک سے گزرتا تھا-

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے علم و سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ سے منسلک ماہرین ، محققین ، سائنسدانوں اور علمی بنیاد پر قائم کمپنیوں اور سائنس و ٹیکنالوجی پارک کےحکام سے ملاقات میں علم کو ملک کے لئے ابلتا ہوا دائمی چشمہ قراردیا اور قومی تشخص کے ارتقاء میں علم و دانش کی بنیاد پر استوار معیشت و اقتصاد، اور ملک کے سیاسی اقتدار اور استقلال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایران ، آج ایک یادگار تاریخی اور احساس مرحلے پر پہنچ گیا ہے لہذا ذمہ داریوں کی صحیح شناخت اور ان پر عمل کے ذریعہ ایرانی قوم یقینی طور پر اپنے درخشاں اور نوید بخش اہداف تک پہنچ جائےگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ملک پیشرفت و ترقی کی جانب گامزن ہے اور ایرانی قوم کی پیشرفت و ترقی میں کوئي مشکل اور رکاوٹ موجود نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اعلی و درخشاں اہداف کی جانب ملک کی پیشرفت میں بعض سیاسی، اقتصادی اور تبلیغاتی دباؤ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم پختہ عزم و ارادے اور ہمت کے ساتھ اپنے مورد نظر اہداف تک پہنچنے کے لئے مصمم ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایرانی قوم میدان کی وسط میں ہے اور ایرانی قوم کے ارادوں اور توانائیوں کے مقابلے میں دباؤ اور مشکلات ناچیز ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے موجودہ مرحلے کو زحمت اور محنت کے ہمراہ ایک بانشاط اور شوق آفرین مرحلہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے موجودہ مرحلہ کھیل کےمقابلوں کے میدان کی طرح ہے جو محنت، تھکاوٹ اور خدشات کے باوجود کھلاڑیوں کے لئے شوق و نشاط کا باعث ہے اور کھلاڑی اس میں شوق و نشاط اور بھر پور عزم کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےمزاحمتی معیشت و اقتصاد پر سنجیدگی سے عمل کو موجودہ فیصلہ کن اور احساس مرحلے سے عبور کرنے کی ایک راہ قراردیتے ہوئے فرمایا: مزاحمتی اقتصاد کوئی نعرہ نہیں ہے بلکہ ایک واقعیت اور حقیقت ہےجسے محقق ہونا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: علم و دانش کی بنیاد پر استوار کمپنیاں مزاحمتی اقتصاد کے بہترین اور مؤثر ترین عناصر میں شامل ہیں جو مزاحمتی معیشت و اقتصاد کومزید پائداربنا سکتی ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علم و دانش کی بنیاد پر ثروت کی پیداوار کو اقتصادی اور معیشتی رشد کا حقیقی ضامن قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر علم و دانش کی بنیاد پر قائم کپمپنیوں کو سنجیدگی سے لیا جائے اور ان کی کمی اور کیفی لحاظ سے حمایت کی جائے، تو علم کے ذریعہ ثروت کی پیداوار سے ملک کی معیشت و اقتصاد میں حقیقی رونق پیدا ہوجائےگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تیل جیسے ختم ہونے والے وسائل کی بنیاد پر معیشت کے استوار ہونے کو خود فریبی اور دھوکہ دہی قراردیتے ہوئے فرمایا: خام مواد کی فروخت در حقیقت ایک جال ہے جو انقلاب سے پہلے کے برسوں سے میراث میں ملا ہے افسوس کہ ملک اس میں گرفتار ہوکر رہ گیا ہے۔ اور اس فریب سے نجات حاصل کرنے کے لئے تلاش و کوشش کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تیل کے کنوؤں کو اختیار کے ساتھ بند کرنے اور معدنی و خام مواد کی فروخت پر پابندی عائد کرنے کو بہت ہی اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: علم و دانش کی بنیاد پر استوار کمپنیوں کے ذریعہ اس مرحلے تک پہنچنا ممکن ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ سے متعلق صدارتی ادارے میں انجام پانے والے اقدامات کو بہت ہی مؤثر اور امید افزاقراردیتے ہوئے فرمایا: بعض مشکلات اور خامیاں بھی موجود ہیں جنھیں فوری طور پر پہچان کر برطرف کرنا بہت ضروری ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے محققین اور سائنسدانوں کی جانب سے پیش کئے گئے موضوعات، مالی اداروں اور بینکوں کی جانب سے قدیمی اور سنتی توثیقی سسٹم اور علم کی بنیاد پر قائم کمپنیوں کی حمایت کے لئے بیمہ کے فقدان کو منجملہ خامیاں اور کمزوریاں قراردیتے ہوئے فرمایا: حکومتی اداروں کو چاہیے کہ وہ اختراعات پر نظارت اور ممتاز و خلاق ماہرین کی شناخت کے ساتھ ان کی حمایت کریں اور نئی علمی کمپنیوں کو تاسیس کرنےکی راہ ہموار کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ماہر افراد کی شناخت اور انھیں جذب کرنے کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاری کی طرف اشارہ کیا اور اس عمل کو منطقی طریقے ، تشویق اور ضروری حمایتوں کے ذریعہ روکنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: علمی بنیاد پر قائم کمپنیوں کو ایک مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ان کمپنیوں کی حمایت کے بارے میں قانون نافذ اور اجراء نہیں ہوا ہے اور ا نکے آئین نامہ کو جلد از جلد ابلاغ کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی علمی توانائیوں کی پہچان کے لئے معلوماتی بینک کی تشکیل، خامیوں کی شناخت و پہچان، علم و دانش کی بنیاد پر قائم کمپنیوں کے فروغ ، علم و دانش کی بنیاد پر قائم کمپنیوں کے خصوصی اور نجی سیکٹر کی تقویت کے موضوعات پر بھی تاکید کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے علم و دانش کی بنیاد پر کمپنیوں کے ذریعہ ملک کے اقتصاد کی پیداوار کو حقیقی اقتصاد تک پہنچنے کا راستہ اور اسی طرح خود اعتمادی کے جذبے کی تقویت، قومی تشخص اور سرانجام سیاسی طاقت و قدرت کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: اس سلسلے میں ضروری راہیں ہموار کرنے کے ذریعہ ممتاز اور ماہر علمی شخصیات اور سائنسدانوں کو علم و دانش کی بنیاد پر کمپنیاں تشکیل دینے کے لئے تشویق کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: پانچویں منصوبہ کے پیش نظر،علم و دانش کی بنیاد پر 20 ہزار کمپنیوں کی تشکیل سے بالا تر افق کو مد نظر رکھنا چاہیے۔

اس ملاقات کے آغاز میں سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے سے متعلق 10 ممتاز ماہرین و محققین اور سائنسدانوں اور علم و دانش کی بنیاد پر قائم کمپنیوں کے حکام نے اپنے خیالات اور نظریات پیش کئے۔

1: ڈاکٹر قہار، ہمانند ساز بافت کیش کمپنی کے ڈائریکٹر

٭ ملک کی اندرونی سطح پر بیو ایمپلنٹس کی پیداوار، اس دانش کا امریکی کمپنیوں کے انحصار سےاخراج، بیماریوں پر اس جدید علم و دانش کے اہم اثرات اور ہزاروں افراد کے اعضاء کے کٹنے کے خطرے سے بچاؤ۔

٭ اس علم و ٹیکنالوجی کو منتقل کرنے کے لئے دس ممالک کی طرف سے درخواست۔

٭ وزارت صحت و وزارت رفاہ و تعاون کی جانب سے علم و دانش پر مبنی کمپنیوں کی حمایت پر تاکید۔

2: انجینئر قرحی ، خلائی توسیع ادارے کے سربراہ

٭ ہم آہنگی پیدا کرنا، ملکی و غیر ملکی تعاون کے نمونہ کا استقرار،تجارت کے لئے مناسب راہ ہموار کرنا، خلائی شعبہ میں توسیع اور اس کی مقامی سطح پر پیداوار، خلائی شعبہ کے چار اہم اقدامات ہیں،

٭ خلائی شعبہ میں 200 نجی کمپنیوں کی فعالیت۔

٭ خلائی شعبہ میں جامع منصوبہ کی منظوری میں سرعت اور مختلف شعبوں کے درمیان ہم آہنگی۔

3: انجینئر محمد رضا محمد، طبی وسائل برآمد کرنے کی یونین کے سکیرٹری

٭ مقامی سطح پر پیشرفتہ طبی وسائل کی پیداوار،علاقائی اور بعض یورپی ممالک میں ان کی برآمدات۔

٭ بیوروکریسی کو برطرف کرنے اور نجی سیکٹر کی سنجیدہ حمایت پرتاکید۔

٭ ایسے وسائل کی درآمد کے لئےغیر ملکی کرنسی مخصوص کرنے پر پابندی جوملک میں موجود ہیں۔

4: ڈاکٹر رضائی زادہ، سیمرغ حکمت ایرانیان کمپنی کے ڈائریکٹر، سنتی طب کے متخصص۔

٭ سنتی طب کے متعلق 130 تحقیقاتی اور مطالعاتی منصوبوں پر یونیورسٹیوں کے تعاون سے کام۔

٭ کینسراورایم ایس کے علاج کے لئے ایرانی دوا کی پیداوار۔

٭ تجارتی استفادہ کے لئے سنتی طب کو تجربی طب میں تبدیل کرنے کی اہمیت پر تاکید، اور اس سلسلے میں ماہر افراد کے تجربات سے استفادہ۔

5: محترمہ انجینئر علوی، فرادشت کروج کمپنی کی ڈائریکٹر

٭ زرعتی محصولات پر خصوصی توجہ پر تاکید۔

6: ڈاکٹر چنگینی، اوقیانوس ادارے کی سربراہ۔

٭ دریائی شعبہ میں مطالعہ اور سرمایہ کاری کے بارے میں اطلاع رسانی۔

٭ علم و دانش کی بنیاد پر قائم کمپنیوں کی درجہ بندی پر تاکید۔

7: انجینئر ذکائی، پارس پلیمر شریف دانش بنیان کمپنی کے ڈائریکٹر۔

٭ دانش بنیان کمپنیوں کے قانون کے اجراء پر تاکید۔

8: ڈاکٹر شکریہ، کمپوزیٹس ایسوسی ایشن کے سکریٹری

٭ کمپوزیٹ ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے قومی ریسرچ ادارے کی تاسیس پر تاکید

9: انجینئر صابری، پردیس ٹیکنالوجی پارک۔

٭ ملک کی 30 علمی و ٹیکنالوجی پارکوں کا تجارتی اور علمی لحاظ سے خصوصی نقش۔

10 : ڈاکٹر شفیعی ، بیرونی دواؤں کی پیدوار کے منصوبے کے مجری۔

٭ کینسر اور بعض دیگر بیماریوں کے علاج کے لئے دواؤں کی پیدوار۔

اس ملاقات میں سائنس و ٹیکنالوجیکے شعبہ کی نائب صدر محترمہ ڈاکٹر سلطانخواہ نے علم و دانش کی بنیاد پر قائم ہونے والی کمپنیوں اور ان کی پیشرفت اور پیدوار کے سلسلے میں جامع رپورٹ پیش کی۔

سلطان احمد مسجد المعروف نیلی مسجد (ترک: سلطان احمد جامع) ترکی کے سب سے بڑے شہر اور عثمانی سلطنت کے دارالحکومت (1453ء تا 1923ء) استنبول میں واقع ایک مسجد ہے۔ اسے بیرونی دیواروں کے نیلے رنگ کے باعث نیلی مسجد کے طور پر جانا جاتا ہے۔

 

یہ ترکی کی واحد مسجد ہے جس کے چھ مینار ہیں۔ جب تعمیر مکمل ہونے پر سلطان کو اس کا علم ہوا تو اس نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا کیونکہ اُس وقت صرف مسجد حرام کے میناروں کی تعداد چھ تھی لیکن اب چونکہ مسجد تعمیر ہو چکی تھی اس لیے اس نے مسئلے کا حل یہ نکالا کہ مسجد حرام میں ایک مینار کا اضافہ کرکے اُس کے میناروں کی تعداد سات کر دی۔

مسجد کے مرکزی کمرے پر کئی گنبد ہیں جن کے درمیان میں مرکزی گنبد واقع ہے جس کا قطر 33 میٹر اور بلندی 43 میٹر ہے۔

مسجد کے اندرونی حصے میں زیریں دیواروں کو 20 ہزار ہاتھوں سے تیار کردہ ٹائلوں سے مزین کیا گیا ہے جو ازنک (قدیم نیسیا) میں تیار کی گئیں۔

دیوار کے بالائی حصوں پر رنگ کیا گیا ہے۔ مسجد میں شیشے کی 200 سے زائد کھڑکیاں موجود ہیں تاکہ قدرتی روشنی اور ہوا کا گذر رہے۔ اس مسجد کے اندر قرآن مجید کی آیات اپنے وقت کے عظیم ترین خطاط سید قاسم غباری نے کی۔ مسجد کے طرز تعمیر کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ نماز جمعہ کے موقع پر جب امام خطبہ دینے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو مسجد کے ہر کونے اور ہر جگہ سے امام کو با آسانی دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔

مسجد کے ہر مینار پر تین چھجے ہیں اور کچھ عرصہ قبل تک مؤذن اس مینار پر چڑھ کر پانچوں وقت نماز کے لیے اہل ایمان کو پکارتے تھے۔ آج کل اس کی جگہ صوتی نظام استعمال کیا جاتا ہے جس کی آوازیں قدیم شہر کے ہر گلی کوچے میں سنی جاتی ہے۔ نماز مغرب پر یہاں مقامی باشندوں اور سیاحوں کی بڑی تعداد بارگاہ الٰہی میں سربسجود دیکھی جا سکتی ہے۔ رات کے وقت رنگین برقی قمقمے اس عظیم مسجد کے جاہ و جلال میں اضافہ کرتے ہیں۔

امریکہ میں صدارتی انتخابات کے دو امیدوار زیادہ سے زیادہ صیہونی حکومت کی خشنودی حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

امریکہ کی سیاسی تجزیہ کار گلوریا بورجر نے سی این این چینل سے گفتگو میں کہا کہ میت رامنی کا برطانیہ کا دورہ اولمپیک کھیلوں کے حوالے سے برطانیہ پر تنقید کی وجہ سے بے رنگ رہا لیکن جب بھی امریکی امیدوار خارجہ پالیسی میں اپنا سکہ چلانا چاہتے ہیں اسرائیل کا دورہ کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں تمام صدارتی امیدوار اسی نہج پر کام کرتے ہیں اور چار برس قبل جب اوباما صدارتی امیدوار تھے توانہوں نے بھی اسرائيل کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تجریاتی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہےکہ میت رامنی خارجہ پالیسی میں اوباما سے پیچھے ہیں ۔ گلوریا بورجر نے کہا کہ چونکہ اوباما صدر بننے کےبعد سے اسرائیل نہیں گئے تھے لھذا میت رامنی کا دورہ اسرائيل اس لحاظ سے اہمیت رکھتا ہےکہ وہ خود کو اسرائیل کا بڑا حامی ظاہرکرنا چاہتے ہیں اور اسرائیل کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ایران اور شام کےتعلق سے ان کے موا‍‌قف اوباما کی نسبت شدید ہیں۔

 

 

امریکہ کے ایک مورخ وبسٹر گریفین تارپلی نے شام میں جاری بدامنی کے بارے میں کہا ہےکہ امریکہ شام میں سرگرم عمل دہشتگردوں کی حمایت کررہا ہے۔

پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق وبسٹر تارپلی نے کہا ہےکہ شام میں بدامنی بدستور جاری ہے تاہم اس سلسلے میں بیرونی طاقتوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

تارپلی نے کہا کہ سعودی عرب اور قطر کی مالی حمایت سے ترکی میں شام میں سرگرم دہشتگردوں کے کیمپ قائم کئے گئے ہیں اور آدانا کیمپ بھی ان ہی میں شامل ہے۔ گریفین تارپلی نے شام کے بارے میں روس کے مواقف پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ روسی وزیر خارجہ سرگئي لاوروف نے کچھ دنوں قبل اعلان کیا تھا کہ امریکہ شام میں اپنی پھیلائي ہوئي دہشتگردي کا جواز پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ انہوں نے امریکہ کے اس موقف کی شدید الفاظ میں مذمت کرتےہوئے کہا کہ سلامتی کونسل میں ایک قرارداد منظور کی جانی چاہیے جس میں امریکہ کی جانب سے القاعدہ کی حمایت کی مذمت کی جانی چاہیے۔ اس امریکی تجزیہ نگار نے شام کے تعلق سے ترکی کے موقف کی بھی مذمت کرتےہوئے کہا کہ ترکی نے شام کے بارے میں نہایت غیر ذمہ دارانہ موقف اپنایا ہے۔

 

 

شیخ لطف اللہ مسجد ایران کے صفوی دور کی عظیم تعمیرات میں سے ایک ہے جو اصفہان کے معروف میدان نقش جہاں کے مشرقی جانب واقع ہے۔

مسجد کا بیرونی منظر

 

یہ مسجد 1615ء میں صفوی خاندان کے شاہ عباس اول کے حکم پر تعمیر کی گئی۔

اس مسجد کے معمار محمد رضا ابن استاد حسین بنا اصفہانی تھے۔

مسجد کی تعمیر کا کام 1618ء میں مکمل ہوا۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ولد سید امیر حسین نقوی کے خاندان کا سلسلہ امام حضرت علی نقی سے ملتا ہے۔ یہ خاندان سادات تبلیغ پیغام کربلا میں مصروف رہا اور تقریباً تقریباً آج سے ڈیڑھ سو سال قبل شہید ڈاکٹر کے پردادا مدد علی شاہ شرقپور سے وطنہ آکر آباد ہوئے۔ یہ خاندان اپنے تقوٰی اور کردار کی بناء پر عوام الناس میں مقبول ہوا ور پھر ڈاکٹر صاحب کے دادا نے اپنی زندگی کا آغاز علاقہ نواب صاحب میں جہاں آپ کی قبر ہے۔ جبکہ آپ کے والد بزرگوار نے علاقہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور علم دین کے حصول کے لیے نجف کا رخ کیا۔ مختصر یہ کہ سید امیر حسین نقوی نے اپنی زندگی کے آٹھ سال نجف میں حصول علم کے لیے وقف کیے اور باقی زندگی فروغ تعلیمات محمد و آل محمد میں صرَف کئے اور تقریباً پوری زندگی افریقہ، کینیڈا اور کینیا وغیرہ میں گذاری جبکہ خداوند کریم نے آپ کو دو فرزند اور چھ صاحب زادیاں عطا کیں جو تمام کے تمام اپنی مثال آپ ہیں اور ڈاکٹر محمد علی نقوی نے تو کمال ہی کیا خاندان تو خاندان، قوم کی لاج بھی رکھ لی۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی پیدائش: شہی28دستمبر 1952ء کو لاہور کے علاقہ علی رضا آباد میں ایک ایسے فرزند زہرہ نے آنکھ کھولی جو بعد میں بانی بن کر سامنے آیا۔ اس فرزند زہرہ کا نام ملت جعفریہ کے مسیحا علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم نے محمد علی تجویز کیا اور فخریہ انداز میں فرمایاکہمیری زندگی میں اس نام کے ہر شخص نے ستاروں پہ کمند ڈالے ہیں۔ جب آپ کی پیدائش ہوئی تو آپ کے والد نجف اشرف میں مقیم تھے۔ اسی سال واپس آئے اور واپسی پر اہل خانہ کو بھی ساتھ لے گئے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی خوش قسمتی تھی کہ عالم زادہ ہونے کے ساتھ ساتھ نجف و کربلا کی فضائیں جذب کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے چلنا نجف میں سیکھا تو بولنا کربلا میں شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے زندگی بھر اسی فقرے کو لائحہ عمل بنایا۔ جینا علی کی صورت مرنا حسین بن کر تقریباً چھ سال تک نجف و کربلا کی فضاﺅں میں پروان چڑھے یوں خوب کربلا والوں کی محبت خون میں رچ بس گئی۔

شہید کی تعلیمی سرگرمیاں: اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہوئے ابتدائی تعلیم کینیا کے دارالخلافہ نیروبی میں حاصل کی بعد ازاں والدین کے ہمراہ تنزانیہ اور یوگنڈا کے دارالخلافہ کمپالہ آنا پڑا اور اپنے سینیئر کیمبرج کا امتحان اچھے نمبروں سے کمپالہ میں پاس کیا ۔ بعد از انٹر پری میڈیکل گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا جو کہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے بعد پاکستان کے قدیمی اور معروف کالج سے کیا اور بعد میں بھی کیا۔

اسی دوران اپنی تنظیمی زندگی کا باقاعدہ آغاز کیا۔ جبکہ اپنی ابتدائی سرکاری سوس ہسپتال میں کی۔ جبکہ میں بھی کی اور دوران ملازمت علامہ اقبال میڈیکل کالج میں استاد کے فرائض بھی سر انجام دیے۔

تحصیلِ علم کے دوران چند سرگرمیاں: سینیئر کیمبرج کے زمانہ طالب علمی میں اپنے اسکاﺅٹ کی تعلیم حاصل کی اور اس دوران میں اپنے آپ کو بہترین اسکاﺅٹ ثابت کیا۔ دوران تعلیم سینیئر کیمبرج میں آپ ایک اچھے طالب علم تھے اور نوبت یہاں تک آئی کہ آپ کو کا جنرل سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ آ پ نے ایک کی حیثیت سے کمپالہ میں ملکی سطح پر شہرت پائی۔

شہید اور کھیل: آپ زمانہ طالب علمی میں جوڈو کراٹے سے بھی واقف تھے اور آپ نے بچپن میں مولا علی کے قول پر عمل بھی کیا۔ تیراکی بھی سیکھی اور کا اعزاز حاصل کیا اور گھڑسواری اور نشانہ بازی بھی سیکھی۔ آپ کو بچپن ہی سے کا شوق تھا۔ جو آپ نے جمع کیے وہ آج تک محفوظ ہیں۔ جبکہ کتاب پڑھنا بھی آپ کا بہترین مشغلہ تھا۔ جس کا اندازہ اس لائبریری سے لگایا جا سکتا ہے جو آپ کے گھر پر قائم ہے۔ جہاں ہزارہا کتابیں انگلش، اردو، فارسی اور عربی میں موجود ہیں۔ ہم اس بات کو بڑے کامل یقین سے تحریر کر رہے ہیں کہ ان تمام کتابوں کو ڈاکٹر صاحب نے بغور مطالعہ کیا ہوا تھا۔ اس سے اندازا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر شھید کو کس قدر لائبریریز میں دلچسپی تھی اوریہ انہیں بزرگان کی کوششوں کاثمر ہے جو آج امامیہ لائبریریز کانیٹ ورک نظر آتا ہے۔

شھید اور تنظیم : ڈاکٹر صاحب نے گورنمنٹ کالج لاہور میں دوران تعلیم اپنے دوستوں کے شعور انسانی کو بیدار کرنے کے لیے ینگ شیعہ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن قائم کی اور اس کے روح رواں بھی بن گئے۔ اسی دوران آپ کی پڑھائی بھی نظر انداز ہوئی اور نوبت یہاں آن پہنچی کہ والد صاحب نے میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کی صورت میں منہ مانگے انعام کی پیشکش بھی کی۔ شہید کی محنت اور انعام : پس اس فرزند نے والد کی اطاعت کی خوب محنت کے ساتھ امتحان کی تیاری کی۔ جن واقعات کو آپ کے چچا زاد بھائی یوں نقل کرتے ہیں کہ ہم نے ڈاکٹر کو 18 گھنٹے بھی پڑھتے دیکھا اور حد یہاں تک کہ رات کو پڑھتے وقت پانی پاس رکھتے اگر نیند غالب آنے لگتی تو پانی سے اپنے آپ کو بیدار کرتے۔ آخر کار محنت رنگ لائی اور اپنے 70% نمبروں سے امتحان پاس کیا اور میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ پس ڈاکٹر نے نوجوانی کے عالم میں اپنے سچے جذبہ عشق اہل بیت کی بنا پر والد صاحب سے زیارت چہاردہ معصومین اور عمرہ کا ٹکٹ بطور انعام حاصل کیا۔ بانی ہونے کا انداز: تنظیمی دور میں فعالیت، میڈیکل کی پڑھائی کے دوران آئی ایس او تنظیم کا باقاعدہ پہلا اجلاس ڈاکٹر ماجد نوروز عابدی کی رہائش گاہ پر ہوا۔ اسی دوران تنظیم کا نام آغا علی موسوی کے دست شفقت سے تجویز پایا۔ جبکہ ڈاکٹر صاحب اکثر اوقات دوستوں کو کا مفہوم یوں بیان کرتے علم کیمیاءمیں آئی ایس او پاکستان کا مطلب ایک جیسا ہونا ہے اور شھید کے کزن انکا ایک جملہ یوں نقل کرتے ہیں کہ وہ اکژ کو یوں بیان فرمایا کرتے تھے کہ آئی سو"یعنی مجھے دیکھو ،میرا کردار ، میرے افکار اور میرا اخلاق اہلیبیت کے ماننے والو جیسا ہونا چاہیے اسی دوران کی پہلی کابینہ کا اعلان ہوا تو ڈاکٹر صاحب کو آفس سیکریٹری منتخب کیا گیا جو کہ آپ کی پسندیدہ شعبہ تھا اور ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ تنظیم کا مرکزی آفس جس قدر مستحکم اوریونٹس سے مربوط ہوگا وہ تنظیم اسی قدر ترقی کرے گی۔ کا کامنظر عام پر آنا کاکا تعارف یونیورسٹی میں یوم حسین کے پروگرام سے ہوا۔ جس کا انعقاد پہلی بار پنجاب یونیورسٹی کے سیمینار ہال میں ہوا۔ جس میں تاریخی خطاب جناب مفتی جعفر حسین نے کیا اورجو پروگرام یومِ حسین آج بھی پاکستان کے تمام کالجز اور یونیورسٹیز میں جاری وساری ہیں آج یہ پروگرامات کی پہچان بن گئے ہیں ۔ وہ پہلا تنظیمی پروگرام تھا جس کی بناءپر پہلی بار کو عوامی سطح پر بھر پور کامیابی ملی۔ یوں ملک کے بڑے تعلیمی اداروں میں متعارف ہوئی۔ ک کی نشرواشاعت اور ڈاکٹر صاحب اسی دوران ڈاکٹر صاحب کی سوچ کی بناءپر اور پختہ جذبہ کی بدولت ایک کیلنڈر کی اشاعت ممکن ہوئی۔ جس پر امام حسین کے روضہ کی تصویر تھی اور اس تنظیم کے نصب العین اور مقاصد لوگوں پر واضح کیے گئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے جذبات صرف اشاعت کی حد تک محدود نہیں رہے تھے بلکہ آپ نے اس کی مارکیٹنگ اور فروخت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جس کو چشم دید گواہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب اپنے کالج کے سائیکل اسٹینڈ پر کھڑے ہو کر کیلنڈر فروخت کرتے تھے۔ اس کیلنڈر کی بناءپر کی خوشبو ملک کی فضاﺅں میں پھیل گئی۔ کا یک ملک گیر تنظیم 1975ءسے 1976 ءمیں ملک بھر میں پھیلی اور اس کا چوتھا سالانہ کنونشن دفتر سے نکل کر پنڈال کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ کا پہلا کنونشن تھا جو جامعة المنتظر لاہور میں منعقد ہوا۔ جس میں ڈاکٹر صاحب نے کنونشن کے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دیے اور تمام آنے والے برادران کا والہانہ استقبال کیا اور ان کے سینوں کو کے بیجز سے منور کرتے۔ یہاں تک کہ اس دوران مٰں مختلف برادران سے ملتے اوردوران پروگرام دشواریوں کے بارے میں دریافت کرتے اور ان کے تاثرات کو تحریر کرتے اور مشکلات پر ان سے معذرت چاہتے۔ دن بھر اگر تنظیمی امور میں مصروف رہتے تو رات بھر برادران کے ساتھ خوردونوش کے انتظامات میں مصروف رہتے۔ یہاں تک کہ اگر موقع ملتا تو برتن صاف کرنے میں بھی برادران کا ساتھ دیتے۔ جس کو شھید ڈاکٹر محمدعلی سے منصوب کیا گیا۔ اور نام سفیر انقلاب تجویز پایا۔

شہید کے بطور مر کز ی صدر: یہ تنظیمی سفر مختلف نشیب و فراز سے گزرتا رہا اور آخر حالات و واقعات اور تنظیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 1976 ءسے 1977 ءمیں ڈاکٹر صاحب کو کا مرکزی صدر منتخب کر لیا گیا۔ جب آپ کو بطور مرکزی صدر اسٹیج پر لایا گیا تو آپ اشکبار تھے۔ جس کی وجہ آپ کے اس قول سے واضح ہوتی ہے کہ ” دوستو حلف صرف ایک سال کے لیے نہیں بلکہ حلف کا تعلق پوری زندگی سے ہوتا ہے “ آپ حقیقتاً ان افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے حلف کو صرف صدارتی مدت کے لیے نہیں بلکہ تمام عمر حلف پر قائم رہے۔ ( میں خدا و رسول اور امام زمانہ۴ کے روبرو اقرار کرتا ہوں ....) اس دوران خاص طور پر اپنے دوستوں کی توجہ خود سازی کی طرف دلائی۔ شہید اپنی موٹر سائیکل پر علماءکرام کو لے کر شہر کے کونے کونے میں درس کے پروگرام میں لے جاتے اور خود بھی بغور درس سنتے اور اھم نکات کو نوٹ کرتے۔ نوجوانوں میں اسلامی فکر پیدا کرتے۔ اپنی صدارت کے دوران اپنے ” امامیہ نیوز بلٹن “ شائع کرنے کی بھی کوشش کی۔

شادی اور تنظیم: مارچ 1971 ئمیں آپ کا نکاح آپ کے تایا سید شبیر حسین نقوی کی صاحبزادی سیدہ کنیز بتول نقوی سے ہوا۔ جو اس دور کے مانے ہوئے باعمل روحانی شخصیت تھے۔ یہ خوش قسمتی تھی کہ ان کی زوجہ نیک اخترکی اور ان کی پرورش میں ان کی پھوپھی کا بڑا کردار تھا اور آپ کا نام بھی انہوں نے تجویز کیا جن کی قبر مبارک وادی السلام نجف میں ہے۔ نکاح سے ایک روز قبل آپ کو تاکید کی گئی کہ آپ پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں مقیم رہیں ورنہ وقت نکاح انہیں لاہور شہر میں ڈھونڈنامشکل ھو جائے گا۔ شہید کے تنظیمی کاموں میں ڈوبے ہونے کا یہ عالم تھا کہ بارات کی روانگی سے تھوڑی دیر پہلے آپ کو پریس سے لایا گیا۔ جہاں آپ تنظیمی پوسٹر چھپوانے میں مصروف تھے۔ تنظیم سے مخلص ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ نے اپنی زوجہ سے پہلی ملاقات کی تو یہ بات واضح کردی کہ ” یہ میری دوسری شادی ہے “ جب زوجہ کافی پریشان ہوئیں تو آپ نے کہا کہ میں پہلی شادی تنظیم سے کر چکا ہوں لہٰذا گھر کوزیادہ وقت نہ دینے کا شکوہ مت کرنا۔ اپنی دونوں شادیوں کو انہوں نے خوب احسن طریقے سے نبھایا۔ فکری ہم آہنگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب بانی ہیں تو زوجہ بانی شعبہ طالبات ہیں۔ اسی بناءپر طالبات کا پہلا مرکزی دفتر ڈاکٹر صاحب کا گھر منتخب ہوا۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ آپ کی زوجہ نے یوں سوچا ہوگا! ” اگر آپ سفیر کربلا ہیں تو میں سفیر شام ہوں، آپ حسین کی صدا پر لبیک کہیں اور ورد بنائیں تو میں زینب کی صدا پر لبیک کہتی ہوں اور زینبی خطیبوں کو ورد بناتی ہوں “ یہ کہنا ہر گز بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان طلباءو طالبات آپ کے گھر میں پروان چڑھے اور آپ ان کے روحانی والدین ہیں۔ یہیں پر انکی تربیت ہوئی اور یہیں پر منزل کا تعین اور یقینِ محکم ملا اور یہیں سے سفر کا آغازھوا۔

انقلاب ایران اور شہید: سرزمین ایران پر اسلامی انقلاب کا سورج طلوع ہو چکا تھا جبکہ آپ کی ذات انقلابی سرگرمیوں کا محور تھی درحقیقت انقلاب ایران ولایت فقیہ اور خط امام رح کو پا کستان میں متعارف کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور ملک کے کونے کونے میں میں جا کر اسلامی لو گوں کو انقلاب کا پیغام پہنچایا پاکستان کو ولایت فقیہ سے منسلک کیا یوں پاکستان میں شھید کے اقدامات کی بدولت انقلاب کی پاسبان بنی یہ ایک بہت بڑا شرف تھا جو اس عظیم شھید کو حاصل ہوا اس ہی وجہ سے انکا نام سفیر انقلاب پڑا ۔ اس لیے آپ تمام حساس اداروں کی نظر میں کھٹکتے تھے۔ انہی وجوہات کی بناءپر آپ کے پے در پے تبادلے ہوئے۔ آخر کار لاہور کے سرکاری ہسپتال کی ملازمت چھوڑنا پڑی۔اسی دوران پاکستان میں پہلا یوم مردہ باد امریکہ 16 مئی کو شہید عارف الحسینی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے منایا گیا۔ یہ جلوس شہید عارف الحسینی کی قیادت میں برآمد ہوا اور ڈاکٹر صاحب آپ کے دست راست ٹھہرے۔ اس جلوس کے دوران شہید نے اپنے دوستوں کی مدد سے ایک طویل بینر جس پر لکھا گیا تھا لاہور کے معروف کاروباری مرکز الفلاح بلڈنگ کے اوپر لگایا۔ یہی وہ واقعہ تھا کہ جس

کی بناءپر بعد از شہادت نعرہ لگا کہ ” ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے امریکہ مردہ باد ہے “ اسی دوران قائد انقلاب اسلامی امام خمینی بت شکن نے صدائے" ھل من ناصر ینصرنا بلند کی ک " جو شخص جنگ کی طاقت رکھتا ہو وہ محاذ پر جائے“۔ پس اس فرزند زہرا نے آخری امام کے حقیقی نائب کی صدا پر پاکستان سے لبیک یا امام کا نعرہ بلند کیا ور محاذ جنگ میں ڈاکٹری کے فرائض انجام دینے کے لیے روانہ ہوگئے۔ آپ دوران محاذ غازیان ایران کی تیمارداری کے فرائض انجام دیتے رہے۔ آپ نے دوران جنگ ایران کے شہر شلمچے اور اھواز میں طبی خدمات سرانجام دیں۔ اس دوران میں کچھ احباب جب آپ کو آرام کو کہتے تو آپ جواباً کہتے کہ: ” دوستو میں یہاں آرام کرنے نہیں بلکہ فرزندان اسلام کی خدمت کے لیے آیا ہوں “۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے دوستوں نے آپ کو ڈاکٹر پریشان کا لقب دیا اور بعد میں ایک برادر نے ڈاکٹر صاحب کو ایک کارڈ اسرسال کیا جس پر ڈاکٹر شہید مصطفیٰ چمران کی تصویر بنی ہوئی تھی اور لکھا تھا ” چمران ثانی کے لیے“۔ جب برادران برسی ِ امام خمینی کے موقع پر ایران گئے اور شھید مصطفی چمران کی مقتل گاہ پر حاضری دی تو ایک بسیجی نے چمران ثانی کے بارے میں یوں کہا جو کہ امام خمینی کا قول ہے” جیو چمران کی طرح اور مروچمران کی طرح“۔

ڈاکٹر صاحب اور اصول پسندی: ڈاکٹر صاحب کے اصول پسند ہونے اور عاشق انقلاب ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دوران جنگ ڈاکٹر صاحب کی کوششوں سے ادویات کے ٹرک بھی ایران روانہ کیے گئے جن کے ساتھ خود ڈاکٹر صاحب ایران گئے۔ اس دوران جب باڈر پر پہنچے تو عملے نے بتایا کہ آپکے پاسپورٹ پر ایک مہر نہیں لگی ہوئی ہے تو آپ اسی پاﺅں واپس کوئٹہ لوٹے اور اس غلطی کو درست کروایا۔ جب آپ لگاتار سفر کے بعد بارڈر پر پہنچے تو اس افسر نے سوالیہ انداز میں آپ سے کہا: ” ہو کس فولاد کے بنے ہوئے “

شھادت کی خواہش: جب ڈاکٹر صاحب محاذ جنگ سے ایک غازی کی حیثیت سے وطن واپس لوٹ رہے تھے

تو آخری الوداع قبرستان شھداء( بہشت زہرا ) کو کیا۔ آپ فرماتے تھے کہ یہ اتنا خوبصورت ہے کہ دل چاہتا ہے زندہ قبر میں لیٹ جاﺅں۔ یہاں پر شہید ڈاکٹر مصطفیٰ چمران کی تربت بھی ہے۔ جہاں ڈاکٹر صاحب نے خوب گریہ کیا اور شہادت کی دعائیں مانگیں۔ ایک ساتھی اس واقعہ کو یاد کر کے آج بھی کہتے ہیں کہ ہم جیسوں نے کہا ڈاکٹر صاحب ہمارے بچے اور خاندان والے پیچھے وطن میں انتظار کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب آیت اللہ طاہری کے درس میں باقاعدگی سے شرکت کرتے اور برادران کو آگاہ کرتے: ” نمائندہ امام خمینی کے دروس انقلاب پرور ہیں بلکہ مجھے تو ان سے امام خمینی رح کی خوشبو آتی ہے “ شہید کا انقلاب ایران سے لگاﺅ تین بنیادوں پر تھا جس کا اظہار انہوں نے 11 فروری 1990 ءمیں روزنامہ جنگ لاہور کے خصوصی ایڈیشن برائے انقلاب اسلامی ایران میں یوں فرمایا کہ ( انقلاب اسلامی ایران ) قیادت، نظریہ اور قربانیوں کا ثمر ہے۔ جب تک وہاں کے عوام ان بنیادی اصولوں پر قائم ہیں ہم اس وقت تک ان کا ساتھ دیتے رہیں گے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ انقلاب کی بقاءان اصولوں میں مضمر ہے۔

شہید عارف حسینی سے ڈاکٹر شہید کا عشق اور لگا و : اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب شہید قائد نے ” قرآن و سنت کانفرنس “ مینار پاکستان پر منعقد کرنے کو کہا۔ جبکہ ڈاکٹر صاحب حالات کے پیش نظر اس تجویز کے مخالف تھے مگر پھر بھی اپنے محبوب قائد کی آواز پر لبیک کہا اور اپنے قریبی دوستوں سے کہا: اس شخص کی بات ہم پر تین طرح سے حجت ہے: ۱۔ اول عارف حسینی ہمارے قائد ہیں۔ ۲۔ دوم یہ کہ ہمیشہ ان کی ہر بات کے پیچھے کوئی طاقت گویا ہوتی ہے۔ ۳۔ سوم یہ کہ یہ امام خمینی کے نمائندہ ہیں۔ لہٰذا ان کی کسی بات کے آگے چوں چراں گناہ کرنے کے مترادف ہے۔

شھید اور استقبال رھبرمعظم : یہ آپ کی امام خمینی رح سے محبت کا نتیجہ تھا کہ دنیا بھر میں امام کے نمائندگان سے آپ کے روابط تھے اور آپ ان کے ہر امر کی تعمیل بھی لازم سمجھتے تھے۔ 1986 ءمیں جب امام سید علی خامنہ ای صدر اسلامی جمہویہ ایران کی حیثیت سے پہلی بار سرکاری دورے پر پاکستان تشریف لائے تو لاہور میں استقبال کے تمام انتظامی امور آپ کے ہاتھ میں تھے۔ جب تمام تر تیاری کے باوجود صدر اسلامی جمہوریہ ایران ایک دن تاخیر سے آئے تو ڈاکٹر شہید نے استقبالی ہجوم کو فرمایا! ” ہمارے معزز مہمان کل تشریف لائیں گے۔ لہٰذا دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں کو گھروں کو واپس نہیں لوٹنا چاھئے۔ یہ صدر ایران کا استقبال نہیں ہے بلکہ امام خمینی رح کے نمائندہ کا استقبال ہے۔ لاہور والے افراد کو چاہیے کہ باہر سے آئے ہوئے برادران کو اپنے گھروں میں لے جائیں اور ان کی مہمان نوازی کریں۔ دوسرے روز جونہی نمائندہ امام خمینی رح لاہور ایئرپورٹ پر آئے تو ڈاکٹر صاحب اور آپ کے احباب نے پاکستان کی تاریخ کا مثالی استقبال کیا۔ آسمان اس موقع پر مرگ بر امریکہ اور یار امام خوش آمد سے گونج اٹھا۔ ڈاکٹر صاحب فرمایا کرتے تھے کہ یقیناً امام خمینی رح خوش ہوں گے کہ اسلامیان پاکستان نے ان کے نمائندہ کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہا ہے۔

ڈاکٹر شہید کی ذات کا امام خمینی رح سے عشق: آپ امام کے سچے اور حقیقی عاشق تھے جس کا ثبوت یہ تھا کہ آپ نے پہلی بار پاکستان میں امریکہ مردہ باد کا نعرہ لگایا اور ایوانوں میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کو للکارا۔ جب دوران حج ایرانی باشندوں کو شہید کیا گیا تو اگلے سال ایران سے کوئی حاجی حج بیت اللہ کو نہیں گیا۔ اسی سال ڈاکٹر صاحب نے کچھ دوستوں کے ساتھ ایک ٹیم تیار کی جو دنیا کے مختلف کونوں سے حج کے دوران جمع ہوئے تھے جس کا بڑا مقصد تھا کہ حجاج کرام کو شیطان دوراں سے واقف کرانا تھا۔ چنانچہ آپ لوگوں نے حجاج پر واضح کیا: ” اے مسلمانوں تم جس شیطان سے نفرت کا اظہار کر رہے ہو آج وہ امریکہ کی شکل میں موجود ہے لہٰذا آج کے شیطان بزرگ سے برآت کا اعلان کرو، قرآن مجید کے حکم کی تعمیل کرو۔ اس موقع پر ان افراد نے اپنے احرام جن پر مرگ بر امریکہ لکھا ہوا تھا ہوا میں لہرائے اور صدائے احتجاج بلند کی

خدا گواہ رہنا کہ ہم نے تیرے دین رسول اور کتاب اور ان کے پیروکاروں کے دشمنوں کے خلاف اپنی استطاعت کے مطابق اعلان نفرت کردیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ۰۱ ذی الحجہ کی شام ایرانی نشریات سے یہ خبر نشر کر دی گئی کہ آج سعودی عرب میں عالمی سامراج امریکہ کے خلاف مظاہرہ ہوا۔ بعد ازں آپ کو آپ کے دوستوں کو سعودی جیل کی سختیاں برداشت کرنی پڑیں۔ جب کسی دوست نے آپ سے دوران جیل سزاﺅں کی تکلیف کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے جواب دیا: ” اگر ہماری اس کوشش سے امام خمینی رح کو چند سانس بھی سکون کے میسر آجائیں تو یہ اذیتیں کوئی معنے نہیں رکھتیں “ شاید یہی وجہ تھی کہ آپ برادران کے ایک سوال کا جواب یوں دیتے ہیں کہ : دوستو جو کام ذات کے لیے ہوتے ہیں وہ تھکا دیتے ہیں اور جو کام خدا کے لیے قوم کے لیے اور قربت الہیٰ کے لیے ہوتے ہیں وہ انسان کو خستہ نہیں ہونے دیتے۔

ڈاکٹر شہید نقوی کو امام خمینی رح سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ جس کو خود شہید یوں بیان فرماتے ہیں کہ: ” مجھے امام کی دست بوسی کی لذت کا سرور تا زیست نہیں بھولے گا۔ جب بھی تصور میں وہ لمحات آتے ہیں لذت حاصل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ہر وہ محفل جس میں امام خمینی (رح) کا ذکر ہوتا آپ کی پسندیدہ محفل ہوتی تھی اور وہ افراد جو امام اور ان کی فکر کا تذکرہ کرتے تھے آپ کو محبوب لگتے تھے۔ جوں ہی ڈاکٹر صاحب کو امام کی رحلت کی خبر ملی تو آپ دھاڑیں مار کر رونے لگے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ لوگوں نے آپ کو اتنا غمگین دیکھا۔ جبکہ اپنے والدین کی وفات پر صرف اشکبار ہوئے۔ یہ نہیں کہ انہیں اپنے والدین کی فرقت کا غم نہیں تھا بلکہ وہ خود کہا کرتے تھے کہ

میرے والدین کی رحلت نے مجھے یتیم کیا تھا جبکہ امام خمینی رح کی رحلت نے مسلمانان عالم کو یتیم کر دیا ہے۔ اس لیے یہ صدمہ ذاتی صدمات سے بڑھ کر ہے“۔

ڈاکٹر صاحب کی شہادت :

آپ کو اپنی موت کا یقین تھا ور آخر ایام میں دوستوں کو کہتے تھے کہ ” میں نہیں چاہتا کہ ضعیفی میں کھانس کھانس کر مروں، خدا میری زندگی کو میری متحرک زندگی سے متصل کر دے “ برس بیت گئے اور ابھی تک شہادت نصیب نہیں ہوئی لگتا ہے کہ میرا کوئی عمل خدا کو پسند نہیں آیا“۔ اس طرح یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ آپ کو یقین تھا کہ آپ کو شہید کیا جائے گا ۔جس کا اندازا اس فقرے سے لگایا جاسکتا ہے جو اپنے وصیت نامہ میں تحریر کیا " میری لاش کا پوسٹ ماٹم نہ کیا جائے اور نہ ہی میرے جنازے پر تنظیمی اجتماع و احتجاج کیا جاے۔ آخر یہ عبد خدا جس کا متمنی تھا۔ اس ہدف تک پہنچ گیا اور طاغوتی طاقتوں اور شیطان بزرگ امریکہ کے حامی اور ایجنٹ جب آپ کی فکر کا مقابلہ نہ کر سکے تو 7 مارچ 1995 ءکو آپ کے ایک رفیق باوفا تقی حیدر کے ہمراہ صبح ساڑھے سات بجے کے قریب آپ کے گھر کے نزدیک یتیم خانہ چوک پہ کلاشنکوف کی گولیوں کا نشانہ بنایا اور آپ شہید ہوئے اور ایک ایسی سرخ موت سے ہمکنار ہوئے جسکی تمنا ہمیشہ کرتے رہے اور اپنے مولا امام علی علیہ اسلام کی طرح اسکی تلاش میں رہے اور بلآخر اسے پالیا۔

خبروں کے مطابق متاثرہ علاقوں سےمسلسل لاشيں برآمد ہونے سے ، ہلاکتوں کي تعداد چواليس سے زائد ہوگئي ہے جبکہ فوج اور نيم فوجي دستوں نے ديہي علاقوں تک پہنچ کر تلاشي مہم شروع کر دي ہے۔

پناہ گزينوں کے کميپ کا دورہ کرنے والے ايک جج پر نامعلوم افراد نے حملہ کرديا جس ميں وہ زخمي ہوگئے۔ فسادات سے سب سے زيادہ متاثرہ کھوکھراجھار ضلع ميں کرفيو نافذ ہے اور وزير اعلي ترون گگوئي نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کيا ہے جبکہ ہندوستان کے وزير اعلي منموہن سنگھ کل سنيچر کو آسام کا دورہ کريں گے۔ وزير اعظم منموہن سنگھ نے فسادات پر قابو پانے کے سخت احکامات صادر کئے ہيں۔

کہا جارہا ہےکہ فساد زدہ علاقوں میں صورتحال دن بہ دن بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے اور انسانی المیہ رونما ہونے کا خدشتہ پیدا ہوگیا۔

سات دنوں سے جاري تشدد ميں دو لاکھ لوگ بے گھر ہوگئے علاقے ميں فوج مسلسل فليگ مارچ کررہي ہے علاقے کے باشندوں نے رياستي حکومت پر الزام لگايا ہے کہ وہ فسادات کو قابو کرنے ناکام رہي ہے ۔مقامي باشندوں کا کہنا ہےکہ اگر رياستي حکومت سنجيدگي سے حالات کو قابو کرنے کي کوشش ہوتي تو صورتحال اتني زيادہ خراب نہ ہوتي۔حزب اختلاف کي جماعت بھارتيہ جنتا پارٹي نے مرکزي حکومت پر بھي اسي طرح کا الزام لگايا ہے۔

حکومت پاکستان نے برطانوي اخبار دي سن کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا فيصلہ کيا ہے۔

پاکستان کے وزريراعظم کي صدرات ميں ہونے والے کابينہ کے اجلاس ميں جعلي پاسپورٹ اسکينڈل کے حوالے سے شائع ہونے والي رپورٹ کا جائزہ لياگيا اور فيصلہ کيا گيا ہے کہ اخبار کے خلاف مقدمہ دائر کيا جائے۔

پاکستان کي کابينہ نے جعلي پاسپورٹ کے ذريعےاولمپيک وليج کا سفر کرنے کے بارے ميں دي سن کي رپورٹ کو بے بنياد قرار ديا ہے- ذرائع کا کہنا ہے حکومت پاکستان برطانوي عدالت ميں دي سن کے خلاف غلط بياني کا مقدمہ دائر کرے گي۔

اخبار نے دعوي کيا تھا کہ پاکستان ميں دس لاکھ روپے رشوت ليکر جعلي پاسپورٹ، سفري دستاويزات، دو مہينے کا برطانيہ کا ويزا اور پاکستاني اولمپيک اسپورٹ اسٹاف ثابت کرنے کے لئے پاکستان کے اسپورٹ بورڈ کا ايک خط فراہم کيا جا رہا ہے۔

اخبار نے يہ بھي دعوي کيا تھا کہ برطانوي اخبار نے دعوي کيا ہے کہ دہشتگرد پاکستاني اولمپيک ٹيم کے ساتھ برطانيہ ميں داخل ہوسکتے ہيں۔

رپورٹ ميں کہا گيا تھا کہ اس کارو بار ميں بعض پاکستاني سياستداں اور ٹريول اينجنٹ ملوث ہيں۔