Super User

Super User

قائد انقلاب اسلامی نے گیارہ صفر چودہ سو بتیس ہجری قمری کو فقہ کے اجتہادی و استنباطی درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک قول مع تشریح بیان کیا۔ اس روایت میں شیطان کے غلبے سے بچنے کا طریقہ بتایا گيا ہے۔ یہ قول زریں، اس کا ترجمہ اور شرح پیش خدمت ہے؛

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ دشمن (يہاں مراد شيطان ہے) كے مقابلے ميں انسان كو استقامت اور تقويت عطا كرنے والي اور اسے دشمن كے تسلط ميں جانے اور اس سے مغلوب ہونے سے بچانے والي سب سے پہلي چيز ہے؛ "واعظ من قلبه" انسان كا ناصح قلب۔ دل اگر بيدار و متنبہ ہو تو انسان كو نصيحت كرتا رہتا ہے۔

 

كتاب الفقيہ ميں منقول ہے؛ "قَالَ الصَّادِقُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ع مَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَاعِظٌ مِنْ قَلْبِهِ وَ زَاجِرٌ مِنْ نَفْسِهِ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ قَرِينٌ مُرْشِدٌ اسْتَمْكَنَ عَدُوَّهُ مِنْ عُنُقِه"

شافي، صفحه ي 652

 

ترجمہ و تشريح: حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ دشمن (يہاں مراد شيطان ہے) كے مقابلے ميں انسان كو استقامت اور تقويت عطا كرنے والي اور اسے دشمن كے تسلط ميں جانے اور اس سے مغلوب ہونے سے بچانے والي سب سے پہلي چيز ہے؛ "واعظ من قلبه" انسان كا ناصح قلب۔ دل اگر بيدار و متنبہ ہو تو انسان كو نصيحت كرتا رہتا ہے۔ انسان كے دل كو اپني نصيحت پر آمادہ كرنے اور اپني ذات كے لئے واعظ بنانے ميں صحيفہ سجاديہ اور ديگر كتب ميں منقول دعاؤں اور اسي طرح صبح كي بيداري كا بہت اہم كردار ہے۔ يہ چيزيں انسان كے دل كو اس كے لئے ناصح اور واعظ بنا ديتي ہيں۔ تو پہلي چيز ہے ناصح قلب۔ دوسري چيز ہے؛ "زاجر من نفسہ" يعني انسان كے اندر كوئي روكنے والا، منع كرنے والا اور خبردار كرنے والا ہو۔ اگر يہ دونوں چيزيں نہ ہوں اور " ولم يكن لہ قرين مرشد" رہنمائي كرنے والا كوئي ساتهي بهي نہ ہو جو اس كي رہنمائي اور مدد كر سكے، كہ جو شيطان كے غلبے سے بچانے والي تيسري چيز ہے، (تو عين ممكن ہے كہ اس پر شيطان غالب آ جائے)۔ اگر انسان كے اندر كوئي طاقت ايسي نہيں ہے جو اس كي ہدايت كرے، اس كے نفس كو قابو ميں ركهے تو اسے كسي دوست اور ہمنوا كي شديد ضرورت ہے۔ ايسا ہمنوا جس كے بارے ميں ارشاد ہوا ہے كہ " من يذكركم اللہ رويته" جس كا ديدار تمہيں اللہ كي ياد دلائے۔ اگر وہ شخص ايسے دوست سے بهي محروم ہے تو "استمكن عدوہ من عنقه" اس نے خود كو اپنے دشمن كا مطيع بنا ليا ہے، اپنے اوپر دشمن كو مسلط كر ليا ہے۔ دشمن سے مراد شيطان ہے۔ تو يہ چيزيں ضروري ہيں۔ انسان كا ضمير اسے نصيحت ديتا ہے۔ كسي بهي انسان كے لئے بہترين ناصح خود اس كا ضمير ہے كيونكہ انسان كبهي اپنے ضمير كي بات كا برا نہيں مانتا۔ اگر كسي اور نے نصيحت كي اور لہجہ ذرا سا سخت اور تند ہوا تو انسان برا مان جاتا ہے ليكن جب انسان كا ضمير نصيحت كرتا ہے، ملامت كرتا ہے، خود كو ناسزا كہتا ہے، سرزنش كرتا ہے تو يہ چيز بہت موثر واقع ہوتي ہے۔ يہ نصيحت اور موعظہ بہت ضروري ہے۔ اس كے ساته ساته ہي يا اس خصوصيت كے فقدان كي صورت ميں ايسے دوست اور ہمدرد كا ہونا ضروري ہے جو انسان كي مدد كرے۔

حضرت امام خمینی کی الھی شخصیت کے بارے میں مسلمان اور غیر مسلم دانشوروں کے خیالات

امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی نورانی شخصیت اور افکار اور بیسوں صدی کے مھم ترین انقلاب کے قائد کی زندگي کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالنا بہت سخت کام ہے۔ اس بارے میں اب تک بہت سی کتابیں اور مقالے لکھے جانے کے باوجود اس مرد خدا کی شخصیت کا بیان ممکن نہيں ہوسکا ہے بلکہ اس عظیم شخصیت کی کامل پہچان کے لئے ابھی ہمارے سامنے بہت لمبی راہ ہے۔ عظیم فقیہ، حکیم، دور اندیش سیاسی رھبر اور عارف الھی کے عنوان سے حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ اپنی روزانہ کی دعاوں، توکل، معرفت اور اخلاص کے سایہ میں الھی نورانیت کے عظیم سرچشمے اور معنویت و عرفان کے بے کراں سمندر سے متصل ہونے میں کامیاب ہوئے۔ اسی لئے اس عظیم شخصیت کے بلند افکار تک پہچنا اگر علماء کے لئے غیر ممکن نہیں ہے تو آسان بھی نہیں ہے۔ اس مضمون میں ہم امام خمینی کی شخصیت کے بارے میں دنیا کے عظیم مفکروں اور دانشمندوں کے نظریات بیان کریں گے۔

 

مسلمان امریکی دانشور اور امریکا کی ٹیمبل یونیورسٹی میں دینیات کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر مصطفی ایوب کہتے ہیں کہ میرا ماننا ہے کہ تاریخ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو بیسویں صدی کی سب سے عظیم شخصیت کی حیثیت سے یاد کرے گی۔ کیونکہ وہ ایسی شخصیت کے حامل تھے جس میں سیاسی اور دینی سوجھ بوجھ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یہ بات صحیح ہے کہ غیبت صغری سے ایک شیعی اسلامی مفہوم کے عنوان سے ولایت فقیہ ہمیشہ سے موضوع بحث رہا ہے لیکن امام خمینی نے اس موضوع کی الگ ہی تفسیر کی کہ امام معصوم فقیہ علماء کے ذریعہ حکومت میں کردار ادا کرتا ہے اور وہ علماء امام علیہ السلام کے نائب ہوتے ہیں، چنانچہ اگر کی شخص میں وہ خصوصیات جسے امام علیہ السلام نے بیان کی ہیں پائی جاتی ہوں تو وہ فقیہ ہوگا۔ میرا یہ ماننا ہے کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے انقلاب کے اھم ترین اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نے ایک اہم اسلامی ملک میں بے دین حکومت کو اسلامی حکومت میں تبدیل کردیا اور اس طرح سے اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کے اسلامی تحریکوں کے آیڈیل میں تبدیل ہو گئي۔ میرا یہ ماننا ہے کہ فکری قدرت کے لحاظ سے امام خمینی صرف اور صرف ایک فرد یا غیر معمولی شخصیت نہیں تھے بلکہ تاریخ کا دھارا موڑنےوالی شخصیت تھے۔

 

الاھرام اخبار، المجلہ اور الشرق الاوسط اخبار کے مضمون نگار صحافی فھمی ھویدی کا کہنا ہے کہ جرات کے ساتھ یہک کہا جاسکتا ہےکہ مکمل طور پر امام خمینی کی کامیابیوں اور کامرانیوں کو بیان کرنے سے انسانی ذھن قاصر ہے لیکن انھیں مندرجہ ذیل جملوں میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے۔

1 -ملت ایران کو دوبارہ خود اعتمادی عطا کرنا اوراسکے مذہبی اور دینی تشخص کے خلاف دشمنیوں اور برحرمتیوں کا خاتمہ کرنا جسکی اہمیت گذشتہ حکومت گھٹانے کے درپئے تھی۔

2 -انھوں نے اس جیسی بہت سی باتوں پرخط بطلان کھینچ دیا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ دین قوموں کا افیم اور سستی وکاہلی کا عنصر ہے اور ثابت کیا ہے کہ اگر دین سے صحیح استفادہ کیا جائے یہ قوموں کو بیدار کرنے کا بہت ہی مؤثر اور فعال ذریعہ ہے۔

3 -امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے معاصر دنیا میں کمزورں اور مستضعفین کی کامیابی اور اسلام کے اہم مواقف کو آگے بڑھانے کی زمیں ہموار کی ہے۔

4 -امام خمینی دنیا کی استکباری طاقتوں کے مقابلے میں پوری طاقت سے ڈٹ گئے اور ان کے مقابلے میں کبھی خاموش نہیں رہے۔

5 -مذھبی افکار کے تناظر میں انھوں نے عظیم کامیابی حاصل کی اور وہ برسوں کے انتظار کے بعد اسلامی حکومت کی تشکیل تھی اور یہ کامیابی خاص اہمیت کی حامل ہے۔

مراکش کے معروف مصنف اور علماء کونسل کے رکن ڈاکٹر ادریس کتانی کا کہنا ہے کہ میرا ماننا ہے کہ امام خمینی رح کا سب سے اہم کارنامہ انقلاب کی کامیابی کے بعد اسکے اسلامی ہونے کی حفاظت کرنا تھا۔ اپنی اس بات کی وضاحت کے لئے میں تاریخ معاصر کے کچھ حصے جسکا میں نے خود مشاھدہ کیا ہے آپ سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ میں الجزائر کے انقلاب میں خود شریک تھا۔ اس انقلاب میں سبھی مسلمان تھے اور نہتے لوگوں نے فرانس کے 130 برسوں سے قابض استعمار کو دھول چٹا دی تھی اور اس کا قبضہ ختم کردیا تھا لیکن انقلاب کی کامیابی کے فورا بعد سوشلسٹ لوگوں نے مسلمانوں کو کنارے لگا کر اپنی حکومت عوام پر تھوپ دی کیونکہ الجزائر کا انقلاب اسلامی رھبری سے محروم تھا۔ انہی دنوں، انقلاب کی کامیابی کے ٹھیک کچھ ہی دنوں بعد، ٹیٹو، ناصر اور نہرو الجزائر آئے تا کہ لوگوں کی انقلابی تحریک کو باضابطہ طور پر سوشلسٹ رنگ دے سکیں، لیکن ایران کے اسلامی انقلاب میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ امام خمینی حکومت کے اسلامی ہونے پرمصر رہے۔ امام خمینی کی بھی کامیابی اسی میں تھی کہ انہوں نے مسلمان عوام پر بھروسہ کرتے ہوئے انقلابی گروہ تشکیل دیے اور انکی انقلابی طاقت سے مدد لی اواس بات کا موقع نہیں دیا کہ سیاسی اور فوجی طاقتیں حکومت اپنے ہاتھوں میں لےسکیں ۔ عوامی کی سپاہ کی تشکیل، انقلاب کا بھرپوردفاع، میدان میں مسلمان عوام کی موجودگي کا تحفظ ، ہر سطح پراسلامی و انقلابی عھدیداروں سے کام لینا اور اسلام کی اساس پر انقلاب کو جاری رکھنے پرامام خمینی کی استقامت سے مغربی ممالک اپنے اندازوں میں شکست کھاگئے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران جاکر نزدیک سے انقلاب کا جائزہ لینے والا مراکش کی عدالت کا ایک وکیل اور سوشلسٹ پارٹی کا سیکریٹری جنرل تھا جس نے واپسی کے بعد لکھا کہ انقلاب اور امام خمینی کی رھبری ایسی ہے کہ جس کے بارے میں مغرب کبھی صحیح تھیوری نہیں پیش کر سکتا۔ میں موقع کو غنیمت جانتے ہوئے یہ اعلان کرنا جاہتا ہوں کہ میں نے بہت سے علماء اسلام کی جانب سے امام خمینی کی مخالفت دیکھی ہے خود ایران میں بھی اور ایران کے باہر بھی لیکن میں ایک عالم دین ہونے کی حثیثت سے یہ یقین کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ یہ سب باتیں یا تو فکری جمود کی نشانی ہیں یا سیاسی مسائل سے لا علمی کی علامت ہیں۔ بھر حال مخالفین نے معتبر نظریات پیش نہیں کئے، اللہ امام خمینی پر رحمتوں کی بارش کرے۔

 

سویٹزرلینڈ کے مسلمان مفکر احمد ھوبر کا کہنا ہے کہ جب 1978-79 میں نےامام خمینی کے بارے میں خاص طور سے ایرانی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا تو مجھے بہت تعجب ہوا کیوں کہ امام خمینی ہماری صدی کے پہلے مذھبی رھبر ہیں کہ جو ایسا انقلاب لائے ہیں جس میں مذھبی، سیاسی اور ثقافتی تینوں پہلو شامل تھے۔ ہماری صدی کے سارے انقلابی سیاسی اور اجتماعی انقلاب تھے اسی لئےان کے انقلاب مذھبی رنگ و بو سے دور تھے اور آج ان کا طریقہ کار پرانا ہو گیا ہے اور انکے حامی ختم ہو رہے ہیں لیکن امام خمینی رحمت اللہ علیہ پہلے مذھبی رھبر تھے جنھوں نے دین، سیاست اور ثقافت کو ایک جگہ جمع کر دیا اور اسی لئےیہ انقلااب جاری و ساری رہے گا۔

 

امام خمینی کے حیرت انگيز کاموں میں سے ایک جوان نسل سے گہرا رابطہ ہے۔ اس کے باوجود کہ انکی زندگی کا ایک بڑا حصہ گذر چکا تھا لیکن وہ جوان نسل کو میدان میں لائے۔ عام طور پر جوان نسل کی عمر کا یہ تقاضہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی عمر کے لوگوں کی باتوں کا اثر لیتے ہیں لیکن ایران کے جوانوں نے انقلاب کے دوران اپنی عمر سے پانچ گنا بڑے آدمی کی بات سنی جبکہ دنیا کے تمام انقلاب کے رھبر انقلاب کے دوران یا تو جوان ہوتے تھے یا ادھیڑ عمرکے۔ اس عظیم کامیابی کا راز میں امام خمینی کی شخصیت میں دیکھتا ہوں۔ وہ نہ صرف انسانی اور اخلاقی اقدار کےحامل تھے بلکہ ان کا ایمان بھی نہایت ہی پختہ اور گہرا تھا بلکہ نہایت بزرگ عالم اور زمانے کے حالات سے آگاہ فقیہ تھے۔

 

وہ سیاست، سماجیات اور اقتصادیات کی وسیع معلومات رکھتے تھے کیونکہ ان علوم کے بغیر ایک مذہبی عالم اس طرح عظیم انقلاب نہیں لاسکتا اور نہ امریکہ اور دیگر طاقتوں کی پٹھو حکومت کو اکھاڑ پیھینک سکتا ہے جو ایران میں برسر اقتدار تھی۔

 

دوسرا اھم نکتہ یہ ہے کہ میں نے امام خمینی کے انقلاب میں اس بات کا احساس کیا ہے کہ اسلامی انقلاب بھرپور طرح سے ایک عوامی انقلاب تھا نہ کہ فرانس کے انقلاب کی طرح جو جان جیک روسو ،ولٹر اور ڈیڈرو جیسے روشنفکر لوگوں کی دین ہے۔ حقیقت میں ایران کے اسلامی انقلاب کو عوامی انقلاب کا نام دینا چاہئے۔

آذربائجان کے ڈیفینس کالج کے ہیڈ اسماعیل ولی اف کہتے ہیں کہ یہ حقیقت ایک اٹل سچائی ہے کہ امام خمینی اس قدر عظمت و شکوہ کے باجود نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے، میں نے خود انکا گھر دیکھا اور اس کمرے کو بھی نزدیک سے دیکھا جس میں وہ رہتے تھے۔ میں وہاں جانے سے پہلے سوچ رہا تھا کہ بڑے سے علاقے میں جاؤں گا جس کے آگے نئے ماڈل کی گاڑی پارک ہو گی۔ میں نے سوچا کہ امام خمینی عالی شان گھر میں رہتے ہوں گے کیونکہ اسلامی انقلاب کے دشمنوں کے پروپیگینڈوں کے زیر اثر میں یہی خیالات لئےہوئے تھے لیکن جیسے ہی میں وہاں داخل ہوا تو میرے تمام تصورات غلط ثابت ہوگئے کیونکہ اس عظیم شخصیت کی زندگی ایک عام ایرانی کی طرز زندگی کی طرح تھی بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ انھوں نے اپنی زندگی امت اسلامی اور مذھب کو بلندی پر پہنچانے کے لئے وقف کر دی تھی ۔ امام خمینی کی زندگی مجھ سے بھی کہ میں ایک ٹیچر ہوں سادہ ہے۔ وہ ہمیشہ زندہ ہیں ،انکے سایہ میں ایران آنے والا میں، جب میں انکے کمرے سے نکلا تو میں نے کھڑکی کے پیچھے سے انکی تصویر کو چوما اور اپنے دل میں کہا کہ اے میرے امام آپ کی یاد کبھی بھی انسانوں کے دلوں سے محو نہیں ہوسکتی ۔ آپ ہمیشہ زندہ ہیں۔

 

برطانیہ کی مسلمان کونسل کے رکن اور دانشور ڈاکٹر غیاث الدین صدیقی کا کہنا ہے کہ امام خمینی نے نئ دنیا خاص طور پر امت اسلامی پر بہت گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ بھت عرصہ سے ہمارا کوئی ایسا رھبر نہیں تھا جسکی باتوں کا اثر ہو۔ میرا ماننا ہے کہ یہ امام خمینی کی سب سے اہم خصوصیت تھی، لوگ یہ احساس کرتے تھے کہ امام خمینی نے جو کچھ بھی کیا اس میں اسلام اور مسلمانوں کی عزت وسربلندی کے علاوہ کوئی اور ھدف نہیں تھا۔ یہ امام خمینی کی سب سے بڑی کامیابی اور انکی شخصیت کی خصوصیت تھی۔ اسلامی معاشرے میں یہ ایک معمول بن گیا ہے کہ جب کبھی حالات معمول سے ہٹ جاتے ہیں تو لوگ کہنے لگتے ہیں کہ ہمیں ایک خمینی کی ضرورت ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہےکہ امام خمینی کی ذات اعلی اخلاق اور رہبری کا معیار ہے اور ا گر کسی کو کچھ بننا ہے تو اسے امام خمینی کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔

 

اھل سنت والجماعت کے عالم دین مولوی نواب نقشبندی کا کہنا ہے کہ امام خمینی نے مغرب کی فاسد ثقافت میں ڈوبے ایرانی سماج کو مکمل طرح سے اسلامی سماج میں تبدیل کر دیا۔ تاریخ بشریت کی اس عظیم شخصیت نے مسلمانوں کی بے حرمتی پر سلمان رشدی کے مقابلے میں عالم اسلام کے طولانی سکوت کے بعد ایسا فتوی جاری کیا جس سے تمام بڑی طاقتوں اور اسلام مخالف حکومتوں کی چولیں ہل گئیں۔

 

مولوی کوثر نیازی کا بھی کہنا ہے کہ امام خمینی نے یہ ثابت کر دیا کہ اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے ضروری نہیں ہے کہ تمام اسباب و وسائل مھیا ہوں۔ جو چیز اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے ضروری ہے وہ ایک ذمہ دار اور پابند دین مجتھد کا ہونا ہےجو منافقین اور دنیائے کفر کے مقابلے میں مسلمانوں کے لئے بااثر قیادت کا حامل ہو۔ امام خمینی کی ذات سیاست اور شخصیت کے لحاظ سے اسلامی رھبری کی ایک مثالی بن چکی ہے، نہ ثروت اور نہ ہی مقام و منزلت کوئی بھی انھیں فریب نہ دے سکی۔ انکی روش زندگی صدر اسلام کے قائدین سے موازنہ کرنے کے قابل ہے۔ امام خمینی مربی اور معلم نیز رہبر کی حیثیت سے آج کے اور مستقبل کے مسلمانوں کے رہبرکے عنوان سے ظاہر ہوئے ہیں ۔ بنا کسی مبالغے کے کہا جا سکتا ہے کہ امام خمینی کا وجود مسلمانوں کے لئے برکت، اور انکی رفتار و گفتار مسلمانوں کے لئے وحی کے ابدی سرچشمے کی طرح ہے۔

 

امریکا میں کیلیفورنیا یونیوسٹی کے اسلامی شعبے کے پروفیسر حامد الگار کا کہنا ہے کہ ایک مسلمان جتنا چاہے ایک عظیم معنوی شخصیت کی تعریف و تمجید کرے اس لئے کہ عظمت صرف اور صرف اللہ کے لئے ہے اور اللہ کے علاوہ کسی اور کو ان صفات سے موصوف نہیں کیا جا سکتا، بھتر ہے کہ اس طرح کے لفظوں کے استعمال کے بجائے کہا جائے کہ خدا وند متعال کی عظمت و بزرگی بہت ہی نادر طور پر اس شخص میں جلوہ گر ہوئی ہے اور اس نے اسکو اللہ کی نشانیوں میں ایک بنا دیا۔ امام خمینی اسی طرح کی نشانی تھے۔ جس کو بھی ان کے ساتھ رہنے کی سعادت ملی اور ان سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا وہ بخوبی جانتا ہےکہ گرچہ انہوں نے ملاقات میں ایک لفظ بھی نہ کہا ہو ان کی شخصت کا ملاقات کرنے والے پر گہرا اثر پڑتا تھا۔

 

اس امریکی مسلمان پروفیسر کا ماننا ہے کہ امام خمینی کی دیگر خصوصیات میں وہ سکون تھا جو ان کے وجود میں پایا جاتا تھا۔ وہ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام خمینی کے وجود میں جو سکون پایا جاتا تھا، وہ اس فرد سے متعلق تھا جس نے اپنے زاھدانہ طرز عمل سے خود کو عبادت الھی میں غرق کر دیا تھا، لیکن اسی کے ساتھ اس نے سیاست کے ایسے اھم اقدامات انجام دئے جو وسعت اور تاثیر کے لحاظ سے کسی بھی انقلاب میں موجود نہیں تھے اور انکی اسی خصوصیت کی وجہ سے انکی شخصیت میں ایک طرح کا کمال اور ہمہ گيریت پیدا ہوگئي تھی اس طرح سے کہ عابد سے لیکر عام انسان تک، عارف سے لیکر قاضی تک سبھی ان سے متاثر تھے۔ ان کی زندگی عمل صالح اور ایثار کی جلوہ گاہ تھی اور اس دنیا میں اس طرح رہے کہ گویا ہمیشہ عز قدس الھی میں مجذوب ہوں اور اسی لئے دنیا کے مختلف ممالک کے لاکھوں کروڑوں مسلمان ان سے عشق کرتے ہیں اور انکے راستے پر ایمان رکھتے ہیں۔

 

غیرمسلم دانشوروں کی نظر میں امام خمینی

یونان کے آرتھوڈوکس عیسائي مفکراور عالمی تعلقات کی تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر دیمتری کیت سیکس کا کہنا ہے کہ ہم ارتھڈوکس عیسائيوں کے لئے جو مغرب کی شیطانی اقدار کےتسلط کی نفی کرتےہیں امام خمینی مادی اقدار کے بجاے حق کو قائم کرنے کی سمت ایک نمونہ تھے۔ اگر چہ مغرب کی عالمی پروپگينڈا مہم نے ان کو ایک انتھا پسند ظاہر کرنے کی کوشش کی لیکن ہم جانتے ہیں کہ ان کا وجود تمام قوموں کے لئے مھر و محبت سے بھرا ہوا تھا، جو زمین پر خدا وند متعال کے راستہ پر بڑھ رہی ہیں اور مادیت کی اقدار کو مسترد کرتی ہیں۔

امریکا کے عیسائی محقق رابین ووڈز ورتھ کا کہنا ہے کہ ایران کے رھبر آیت اللہ خمینی کے بارے میں محبت اور بغض سے بھری بہت زیادہ باتیں کی گئي ہیں ۔ ان سے ہونے والی ایک ملاقات کے موقع پر میں نے سوچا کہ اس اھم موقع سے فائدہ اٹھاؤں گا اور جو بھی نتیجہ ہوگا اسے قبول کروں گا۔ مغربی دنیا کا ماننا ہے کہ امام خمینی سختی،غرور اور کٹرشخصیت یےمالک تھے حتی مغرب کے وہ لوگ جن سے میں نے ملاقات کی تھی اور انھوں نے بھی اس سے پہلے امام خمینی کو دیکھا تھا انھوں نے انکی رھبری میں پائی جانے والی جذابیت کو قبول کرنے کے ساتھ یہ کہا کہ انکی شخصیت مسکراہٹ اور گرجوشی سے عاری ہے ۔ اب مجھے خود فیصلہ کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ اس عظیم ہستی کی شخصیت کو دیکھنے کا موقع ملا جو ایران میں چھایا ہوا ہے وہ جس کی سیاست کی وجہ سے ایران میں عظیم تبدیلی رونما ہوئی اور جس نے مغرب کے غصہ کو بڑھا دیا تھا۔ میں جماران حسینہ میں تھا، حسینہ کی بالکنی پر امام خمینی کے نمودار ہوتے ہی تمام حاضرین ایک ساتھ اٹھ کھڑےہوئے اور نعرہ لگا رہے تھے خمینی، خمینی، خمینی۔ میں نے پہلی بار ایک انسان کے لئے اتنا احترام، اتنا جوش و ولولہ دیکھا تھا۔ جب دروازہ کھلا اور وہ اندر داخل ہوئے، انرجی کا ایک طوفان امڈ پڑا، انکی کتھی عباء، کالے عمامہ اور سفید داڑھی سے پوری عمارت لرزنے لگی۔ انکی شخصیت اتنی جذاب تھی کی ان کے علاوہ کچھ دکھ ہی نہیں رہا تھا۔ خمینی نور کے ایک ھالے کی طرح حسینہ جماران میں موجود سبھی لوگوں کے وجدان و آگاھی میں سرایت کر گئے تھے انھوں نے ان تمام تصورات کو منھدم کر دیا جو ان سے ملاقات کے پہلے لوگوں کے ذھن میں بنے تھے۔ میں نے پہلے سوچا تھا کہ انکے چہرے کی حرکات و سکنات پر تحقیق کر‎‎ؤں گا لیکن امام خمینی کی توفیقات،انکی پروقار شخصیت اور احاطہ نفسانی نے میرے ذھنی سانچے کو توڑ کر رکھ دیا اور میں خود کو اپنے جذبات کے محاصرے میں گرفتار اور اپنی ذات کو اپنے تجربوں اور ذاتی نظریات سے بہت دور پارہا تھا۔ خمینی ایک طوفان تھے لیکن اس طوفان میں ایک مطلق سکون و آرام پايا جاتا تھا۔ وہ بھت سخت تھے لیکن اسی کے ساتھ پر سکون تھے۔ وہ لوگوں کا جواب دینے والے اور پر تاثیر تھے۔ انکے وجود میں ایک ساکن حقیقت پائی جاتی تھی لیکن اسی ساکن حرکت کی وجہ سے پورا ایک ملک حرکت میں آ گيا۔ وہ عام آدمی نہیں تھے۔ حقیقت میں ان تمام لوگوں سے جن سے میں نے پہلے ملاقات کی تھی،عارفوں،زاھدوں سے لیکر بدھیسٹ راھبوں اور ھندی حکیموں تک کسی کا بھی وجود اتنا بھرپور اور پروقار نہیں تھا۔

 

نئی دھلی کی جواھر لعل نھرو یونیورسٹی کے سربراہ اور ایرانی امور کے ماہر پروفیسر اگوانی کا کہنا ہے کہ آیت اللہ خمینی ہی صرف وہ شخص تھے جنھوں نے 1963 سے اپنی رحلت تک کوئی سازش نہیں کی۔ کوئی بھی شخص جاری صدی میں ایرانی معاشرے میں ایسی بنیادی تبدیلی لانے کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔ انھوں نے شاہ کے زمانے سے انقلاب کے دوران کا موازںہ کرتے ہوئے کہا کہ شاہ کی حکومت عوام اور انکی حمایت سے دور تھی۔ امام خمینی عوام کی حمایت حاصل کرکے کامیاب ہوئے اور سالوں بعد اسلامی تعلیمات کو عملی طور پر لوگوں کی زندگی میں داخل کیا۔ انکی اھم کامیابیوں میں سے ایک لوگوں میں اعتماد نفس اور احترام کا احیاء تھا۔ وہ اکیلے رھبر تھے جو مذھب اور آیڈیالوجی کی بنیاد پرانقلاب لانے میں کامیاب رھے اور دنیا کا کوئي بھی رہنما اس طرح کی کامیابی حاصل نہیں کرسکا ہے۔

 

یونان کے عیسائي مبلغ ڈاکٹر جارج موستاکیس کا کہنا ہے کہ میں ایک مسیحی ہوں لیکن مجھے آیت اللہ خمینی سے بہت لگاو ہے وہ امت اسلامی کے عظیم مصلح تھے۔ میں اور سارے آزاد ضمیر عیسائي یہ اپنا فریضہ سمجھتے ہیں کہ انکی پیروی کریں۔ آیت اللہ خمینی کی سیاسی اور مذھبی زندگی اور استعمار کے خلاف انکی جدوجہد تاریخ میں جلی حرفوں میں ثبت رہے گي ۔

 

یونان کے اس پادری نے امام خمینی کے وصیت نامہ کا یونانی زبان میں ترجمہ کیا ہے اور اس کے بعد حسینہ جماران سے متعلق اپنے احساسات کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

یہاں پر ایک خوبصورت ترین مسجد ہے جو میں نے اپنی زندگي میں دیھکی ہے۔ اسکی زیبائی اور تقدس مادیات کی وجہ سے نہیں ہے اور اس وجہ سے نہیں ہے کہ سونے چاندی یا شیشوں سے اسے بنایا گیا ہے بلکہ امام خمینی کی عظیم روح کی وجہ سے ہے۔ وہ اپنی بات کو اس دعا پر ختم کرتے ہیں کہ اے قادر مطلق خمینی عظیم کی روح محبوب کو اپنا ابدی سکون عطاکر اور انکو ابراھیم، اسحاق، یعقوب اور تمام انبیاء کرام کے جوار میں جگہ دے۔

قوام متحدہ کے سيکريٹري جنرل بان کي مون نے کہا ہے کہ اسرائيل فلسطيني بچوں کو گرفتار اور انکے خلاف ايذا رساني کا مرتکب ہو رہا ہے-

يہ پہلي بار ہے جب اقوام متحدہ کے سيکريٹري جنرل نے اسرائيل کے خلاف اس طرح کا الزام لگا يا ہے-

بان کي مون نے اسرائيلي جيلوں ميں بند فلسطيني بچوں کے ساتھ غير انساني سلوک اور ايذا رساني کسي طور بھي قابل قبول نہيں ہے-

بان کي مون نے اسرائيل حکام پر فلسطينيوں کے ساتھ امتيازي سلوک برتنے کا بھي الزام لگا يا ہے-

انہوں نے کہا ہے کہ اسرائيل نے انيس سو سڑسٹھ سے دوہزار گيارہ کے عرصے ميں فلسطينيوں کے ساڑھے پچيس ہزار سے زيادہ گھر تباہ کئے ہيں اورمشرقي بيت المقدس کے چودہ ہزار سے زيادہ فلسطينيوں کا ريزيڈينشل پرمٹ کينسل کرديا ہے-

واضح رہے کہ اس وقت پانچ ہزار سے زيادہ فلسطيني اسرائيلی جيلوں ميں بند ہيں اور انہيں بنيادي سہولتيں بھي ميسر نہيں ہيں-

مغربي ملکوں اور خطے کي بعض عرب حکومتوں کے حمايت يافتہ مسلح دہشت گردوں کے ساتھ شامي فوج کي جھڑپوں ميں شدت آنے کے بعد اقوام متحدہ کے سيکريٹري جنرل بان کي مون نے يہ بات زور ديکر کہي ہے کہ اقتدار کي جنگ ميں شام کے عوام کے مستقبل کو اوليت دي جانا چاہيے-

نيويارک ٹائمز کے مطابق اقوام متحدہ کے سيکريٹري جنرل نے شام کے بارے ميں جنرل اسمبلي کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے يہ بات زور ديکر کہي کہ شامي باغيوں کو اسلحہ کي فراہمي نے صورتحال کو انتہائي ناگوار بناديا ہے، انہوں نے کہا کہ علاقائي اور عالمي طاقتوں کي کشمکش ميں شامي عوام کے مستقبل کو ترجيح حاصل ہونا چاہيے اور يہ بات ہر چيز سے اہم اور بالاتر ہے- اقوام متحدہ کے سيکريٹري جنرل نے کہا کہ شام کے بحران کا جاري رہنا خطے اور دنيا کے استحکام کے لئے خطرناک ہے اور ہميں بات چيت اور متحارب فريقوں کے درميان آشتي پيدا کرکے شام کے عوام کو بحران سے نکالنے کي کوشش کرنا چاہيے-

اقوام متحدہ ميں جنوبي افريقہ کے نمائندے نے بھي اس نشست سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کيا کہ شام کے بارے ميں اقوام متحدہ اور عرب ليگ کے نمائندے کوفي عنان نے اپنے عہدے سے استعفي دےديا ہے-

جنوبي افريقہ کے نمائندے نے کہا کہ شام کے بحران کو فوجي طريقے سے حل نہيں کيا جاسکتا اور نہ ہي اس طرح سے تشدد کا خاتمہ ممکن ہے- انہوں نے کہا کہ شام ميں تشدد اور بدامني کا جاري رہنا نہ صرف اس خطے کے لئے بلکہ پوري دنيا کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگا-

دوسري جانب شام کي سرکاري خبر رساں ايجنسي سانا نے ملک کے مختلف علاقوں کي صورتحال کے بارے ميں ايک جامع رپورٹ جاري کي ہے جس ميں کہا گيا ہے کہ ترکي کے سرحد کے قريب واقع حلب شہر کے ريڈيو اسٹيشن پر ہونے والے حملے کے دوران درجنوں دہشتگردوں کو ہلاک کرديا گيا ہے-

ادھر دمشق ميں ايراني سفارت خانے کے قريبي ذرائع نے بتايا ہے کہ اغوا ہونے والے اڑتاليس ايراني زائرين کے خفيہ مقام کا پتہ لگاليا گيا ہے-

مذکورہ ذريعے نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کي شرط پر بتايا ہے کہ اغوا کئے گئے ايراني زائرين کي رہائي کے لئے متعلقہ چينلوں کے ذريعے کوشش کي جارہي ہے-

قبل ازيں بتيس ايرانيوں کو جن ميں سات انجينيئر اور بائيس زائرين اور تين ٹرک ڈرائيور تھے، شمالي اور مرکزي شام کے علاقوں سے اغوا کرليا گيا تھا جن ميں سے اب تک ستائيس افراد کو مختلف مراحل ميں آزاد کرايا جا چکا ہے - دو ايراني انجينيئر اور تين ٹرک ڈرائيور اب بھي مسلح افراد کے قبضے ميں ہيں-

اس درميان شام کے الاخباريہ ٹي وي چينل نے خبردي ہے کہ مرکزي شام کے شہر حمص کے شہريوں کے ايک گروپ نے شہر کے مرکزي علاقے ميں مظاہرے کئے ہيں اور دہشتگردوں کے خلاف شامي فوج کے آپريشن کي حمايت کا اعلان کيا ہے- مظاہرين نے ملک ميں امن کي بحالي کے حوالے سے شامي فوج کے کردار کو بھي سراہا اور دہشتگردوں کے خلاف فيصلہ کن کاروائي کا مطالبہ کيا-

لبنان کے المنار ٹي وي نے بھي اپني ايک رپورٹ ميں بتايا ہے کہ مسلح دہشتگردوں کے ہاتھوں عام شہريوں کے قتل عام کے اقعات ميں اضافے کے بعد حلب شہر کے قبائيلي رہنماوں نے اپنے ہنگامي اجلاس ميں دہشتگردوں کے خلاف جنگ ميں شامي فوج کا ساتھ دينے کا اعلان کرديا ہے- کہا جارہا ہے کہ قبائيلي رہنماؤں نے اپنے ايک ہزار جنگجووں کو فوج کي کمان ميں دے ديا ہے-

دوسري جانب اقوام متحدہ ميں شام کے مستقل نمائندے بشار جعفري نے ايک بار پھر يہ بات زور ديکر کہي ہے کہ مغربي ممالک، سعودي عرب، قطر اور ترکي صرف اور صرف اسرائيلي مفادات کا تحفظ کر رہے ہيں- انہوں نے کہا کہ شام ميں فوجي مداخلت کے بارے ميں مغربي ملکوں ، سعودي عرب ، قطر اور ترکي کا منصوبہ صرف اور صرف اسرائيل کے حق ميں ہے-

ہندوستان کی مسلم تنظیموں نے میانمار کی فوجی سربراہ کے دورہ ہندوستان کےخلاف شدید احتجاج کیا ہے –

ہندوستانی ذرائع کے مطابق میانمار کے آرمي چيف جنرل "آنگ ہينگ" کي کل دہلي آمد کے موقع پر ہندوستان کي مسلم تنظيموں نے زبردست احتجاج کيا -

رپورٹ کے مطابق ہفتہ کو ہندوستان کے وزيراعظم منموہن سنگھ سے ملنے کے لئے میانمار کے آرمي چيف جب ساؤتھ بلاک پہنچے تو انڈيا گيٹ اور جنترمنتر پر مسلم تنظيموں نے ان کے خلاف احتجاج کيا- شدید احتجاج کے سبب میانمار کے آرمي چيف سيکورٹي فورسز کي حفاظت ميں بمشکل اپنے ہوٹل پہنچ سکے- ذرائع کے مطابق احتجاج سات گھنٹے جاري رہا-

اس موقع پرمسلم مجلس مشاورت کے اعلي عہديداروں نے ممتاز مسلم رہنما رفيق عالم قاسمي کي قيادت ميں ہندوستان کے وزيراعظم سے ملاقات کرکے میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف ہندوستانی مسلمانوں کے احساسات سے انہیں آگاہ کیا –

واضح رہے کہ ہندوستان نے میانمار کے فوجیوں کو ٹریننگ دینے پر اپنی آمادگی کا اظہار کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ سامراجی طاقتیں شرپسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سارے سیاسی اور تشہیراتی ذرائع کو ایرانی قوم کے خلاف استعمال کررہی ہیں –

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسن (ع ) کی ولادت باسعادت کے مبارک موقع پر فارسی زبان وادب کے اساتذہ اور جوان شعراء کی ملاقات میں خطاب کرتے ہوئے ایٹمی مسئلے کے حوالے سے ایران پر ظلم اور ایٹمی سائنسدانوں کی شہادت کو ملک کے موجودہ مسائل اور حقائق کا واضح نمونہ قرار دیتے ہوئے فرمایا :سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں ایرانی قوم کی مزاحمت ذمہ دار شاعر کی نگاہ سے دور نہیں رہنی چاہیئں کیونکہ حق اور باطل کے مقابلے میں خاموش نہیں بیٹھنا چاہیئے –

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مقدس دفاع اور دشمن کی جارحیت پر بعض نام نہاد قوم پرستوں کی خاموشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے ہی افراد ہیں جو بیہودگی ، سستی اور مذہب واخلاق اورملک وانقلاب کے بنیادی مسائل میں غیرذمہ داری کو فروغ دینے کے در پے ہیں حالانکہ وہ اغیاراور دشمنوں سے دوستی اور تعلق پر خاموش ہیں –

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مشورہ دیا کہ وہ لوگ جو حق اور معنویت کے محاذ میں ہنر کو اپنے اسلحہ کے طور پر استعمال کررہے ہیں ہمیشہ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے حق کے راستے میں استقامت اور پائیداری کا مظاہرہ کریں –

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ آج ایران کی شاعری پوری دقت اور تیزی سے صحیح سمت کی طرف رواں دواں ہے مزید فرمایا کہ اس رویے کو جاری رکھنے کی صورت میں ایران ایک بار پھر عالمی اور بالخصوص علاقائی تہذیب وثقافت کو بیش بہا تحفہ دے گا -

آيت اللہ جنتی نے نماز جمعہ كےدوسرے خطبے میں دشمن كی جانب سے اسلامی جمہوریہ ايران كے خلاف اقتصادی جنگ كے آغازكی جانب اشارہ كرتے ہوئے كہا : امريكہ اقتصادی ميدان میں ہمیں شكست دے كر ايران پر دوربارہ غلبہ حاصل كرنا چاہتا ہے ۔

رپورٹ كے مطابق ، ۳ اگست كو اسلامی جمہوریہ ايران كی گارڈين كونسل كے صدر آيت اللہ احمد جنتی نے نماز جمعہ كے دوسرے خطبے میں اقتصادی بحران اور مہنگائی كی جانب اشارہ كرتے ہوئے خيال ظاہر كيا ہے كہ اقتصادی بحران نے پوری دنيا كو اپنی لپیٹ میں لے ركھا ہے اور ہم بھی اس مشکل كا شكار ہیں ليكن یہ ایک سنگين اور خصوصی مسئلہ ہے جس كا سنجيدگی سے راحل تلاش كرنے كی ضرورت ہے ۔

انہوں نے مزيد كہا : اسلامی نظام كے دشمنوں كو ديگر جنگوں میں شكست كا سامنا كرنا پڑا ہے اور اب اس جنگ میں وہ لوگ كاميابی كا انتظار كر رہے ہیں لہذا یہ مسئلہ عام نوعيت كا نہیں ہے اور اس كے فوری حل كے لیے عوام اور حکمرانوں کو مل كر كوشش كرنی چاہيئے ۔

 

 

 

حضرت آيت الله العظمي خامنه اي نے بیس محرم الحرام سنہ چودہ سو بتیس ہجری قمری کو فقہ کے اجتہادی و استنباطی درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک قول مع تشریح بیان کیا۔ اس روایت میں مومنین کے حقوق کے پاس و لحاظ پر تاکید کی گئی ہے۔ یہ قول زریں، اس کا ترجمہ اور شرح پیش خدمت ہے؛

"عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ قَالَ كُنْتُ أَطُوفُ مَعَ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع فَعَرَضَ لِی رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِنَا كَانَ سَأَلَنِی الذَّهَابَ مَعَهُ فِی حَاجَةٍ فَأَشَارَ إِلَيَّ فَكَرِهْتُ أَنْ أَدَعَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع وَ أَذْهَبَ إِلَيْهِ فَبَيْنَا أَنَا أَطُوفُ إِذْ أَشَارَ إِلَيَّ أَيْضاً فَرَآهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع فَقَالَ يَا أَبَانُ إِيَّاكَ يُرِيدُ هَذَا قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَمَنْ هُوَ قُلْتُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِنَا قَالَ هُوَ عَلَى مِثْلِ مَا أَنْتَ عَلَيْهِ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَاذْهَبْ إِلَيْهِ قُلْتُ فَأَقْطَعُ الطَّوَافَ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ وَ إِنْ كَانَ طَوَافَ الْفَرِيضَةِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَذَهَبْتُ مَعَهُ ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَيْهِ بَعْدُ فَسَأَلْتُهُ فَقُلْتُ أَخْبِرْنِی عَنْ حَقِّ الْمُؤْمِنِ عَلَى الْمُؤْمِنِ فَقَالَ يَا أَبَانُ دَعْهُ لَا تَرِدْهُ قُلْتُ بَلَى جُعِلْتُ فِدَاكَ"

شافی، جلد 1، حدیث 1506

ترجمہ و تشریح:

کتاب الکافی میں ابان ابن تغلب کے توسط سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک روایت نقل کی گئی ہے۔ اس میں ابان ابن تغلب کہتے ہیں کہ «كنت اطوف مع ابی‌عبدالله علیه السلام فعرض لی رجل من اصحابنا كان سئلنی الذهاب معه فی حاجۃ» ایک برادر دینی نے مجھ سے گذارش کی تھی کہ ایک کام کے لئے اس کے ساتھ جاؤں۔ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی معیت میں خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا کہ اسی برادر دینی نے اثنائے طواف میں مجھے اشارے سے بلایا۔ "فكرهت ان ادع اباعبدالله (علیه السلام) و اذهب الیه" مجھے گراں گزر رہا تھا کہ امام کو چھوڑ کر اس کے ساتھ جاؤں۔ یہ صحیح بات بھی ہے کیونکہ امام معصوم کی معیت میں خانہ کعبہ کے طواف کا موقع بڑے نصیب کی بات ہے۔

"فبینما انا اطوف اذ اشار الیّ ایضا" میرا طواف جاری رہا اور جب دوبارہ اس کا سامنا ہوا تو اس نے پھر مجھے اشارہ کیا۔ اس دفعہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی نگاہ بھی اس پر پڑ گئی۔ "فقال یا ابان ایاك یرید هذا؟" آپ نے پوچھا کہ کیا اس کو تم سے کام ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ہاں۔ آپ نے پھر پوچھا کہ وہ کون ہے؟ میں نے جواب دیا کہ «فقلت رجل من اصحابنا» برادر دینی ہے۔ ہمارا شیعہ بھائی ہے۔ آپ نے پھر سوال کیا کہ «قال هو علی مثل ما انت علیه؟» امامت کے سلسلے میں جو عقیدہ تم رکھتے ہو وہ بھی اسی عقیدے کا مالک ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ہاں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ تو جاؤ دیکھو کیا کہہ رہا ہے۔ «قلت فاقطع الطواف؟» میں نے عرض کیا کہ طواف کو قطع کر دوں؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ اب آپ یہاں توجہ دیجئے! ابان جلیل القدر عالم دین تھے۔ انہوں نے موقعہ غنیمت جان کر ایک نیا شرعی مسئلہ معلوم کر لیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر یہ واجب طواف ہو تب بھی بیچ میں قطع کرکے چلا جاؤں؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں، واجب طواف کے دوران بھی اگر تمہارے برادر دینی کو تم سے کام پڑ جائے، وہ تم سے کوئی درخواست کر دے تو اپنا طواف روک دو اور اس کے ساتھ جاؤ۔ ابان ابن تغلب کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں امام کے پاس سے اس کی طرف چلا گیا۔

کام انجام دینے کے بعد حضرت کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا «فسألته فقلت اخبرنی عن حقّ المؤمن علی المؤمن» میں نے پوچھا کہ یہ کون سا حق اور فریضہ ہے جس کی وجہ سے واجب طواف کو بھی بیچ میں ہی قطع کیا جا سکتا ہے؟ حضرت نے جواب دیا کہ اے ابان! چھوڑو، کیوں بار بار پوچھ رہے ہو۔ میں نے اصرار کیا تو حضرت نے برادر مومن کے حقوق گنوانا شروع کر دئے۔ حضرت نے جو سوال کرنے سے منع فرمایا اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر تمام حقوق سے واقف ہو گئے تو ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب جاؤگے کیونکہ ان فرائض پر عمل کرنا ہوگا۔ اس کے بعد روایت کے اس حصے میں بڑا مفصل بیان موجود ہے۔ معلی ابن خنیس سے بھی ایسی ہی ایک روایت ہے جنہوں نے حضرت سے مومن بھائی کے حقوق کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ روایت کا یہ ٹکڑا جو پیش کیا گیا ہمارے لئے اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں مومنین کے حقوق پر توجہ دینے کی تاکید کی گئی ہے۔

 

 

شب قدر توبہ واستغفار کي شب ہے ۔

شب قدرکي نہايت قدر کيجئے ۔

شب قدر وہ شب ہے جب فرشتے زميں کو آسمان سے متصل، دلوں پرنور کي بارش اور زندگي کو فضل ولطف الھي سے منور کرديتے ہيں ۔

شب قدر روحاني سلامتي کي شب ہےدلوں اور جانوں کي سلامتي کي شب ہے ۔

شب قدر درحقيقت شب امام زمانہ اور شب ولايت ہے حضرت ولي عصر اوراحنا لہ الفداء کي طرف متوجہ ہونے کي شب ہے کيونکہ سارا عالم وجود امام زمانہ کے محور کے گرد حرکت کرتا ہے .

اس دن اسلامي جمہوريہ ايران تباہي کي طرف گامزن ہوجاۓ گا جب وہ بھول جاۓ کہ اس کا نمونہ عمل حضرت علي ابن ابي طالب عليہ السلام جيسي بزرگ شخصيت ہے ۔

ہماري قوم علوي قوم اور حضرت اميرالمومنين عليہ الصلاۃ والسلام کي عاشق و مريد ہے ۔

اسلامي انقلاب حضرت اميرالمومنين کي تعليمات کا نمونہ ہے اور اسي پر ايران کا اسلامي نظام قائم ہے ۔

حضرت اميرالمومنين علي عليہ السلام کي حکومت قيام عدل و انصاف ،مظلوم کي حمايت ،ظالم کے مقابلے اور ہرحال ميں حق کي حمايت کے سلسلے ميں ايسي مثالي حکومت ہے جس پر ضرورعمل ہونا چاہيئے ۔

تاريخ بشر ميں نظم و ضبط کے پابند انسان روحاني کمالات کي اعلي منزلوں پربھي فائز ہوتے ہي ان ميں ايک حضرت اميرالمومنين علي عليہ السلام بھي ہيں ۔

حضرت امير المومنين سب کے لئے مکمل نمونہ عمل ہيں ۔

ہم اميرالمومنين حضرت علي عليہ السلام کي تعليمات پر عمل کرکے اپنے ملک و قوم کي عظيم آرزو يعني سماجي انصاف تک پہنچ سکتے ہيں ۔

عدل و انصاف حقيقي معني ميں اميرالمومنين حضرت اميرالمومنين کے وجود مقدس ان کي رفتا وگفتار اور ان کے تقوے اور ان کي توجہ ميں موجود ہے ۔

فردي لحاظ سے اميرالمومنين حضرت علي عليہ السلام تقوي کا واضح نمونہ اور حکومت وسياست و خلافت کے ميدانوں ميں آپ کي کارکردگي کي اساس عدل وانصاف ہے۔

حضرت اميرالمومنين کي حکومت کا امتياز عدل وانصاف ہے يعني عدالت مطلق يعني آپ اپني کسي ذاتي مصلحت کو عدل وانصاف پر مقدم نہيں کرتے ہيں ۔

برسوں سے کوشش کي جا رہي ہے کہ قدس فراموش ہوجاۓ ليکن عالمي يوم القدس نے اس سازش کو ناکام بنا ديا ہے۔

يوم قدس ايران سے مخصوص نہيں ہے بلکہ عالم اسلام سے متعلق ہے ۔

يوم قدس حضرت امام خميني کي کبھي نہ فراموش ہونے والي يادگار ہے۔

يوم قدس مسلمانوں کے اہم ترين اھداف ومقاصد پرتاکيد کرنے کا دن ہے ۔

يوم قدس عالم اسلام کے اھم ترين مسئلے پر تاکيد کرنےکا دن ہے ۔

يوم قدس مسلمان قوموں کي آزمائيش کا دن ہے۔

يوم قدس ايسي عظيم تحريک ہے جس نے يقينا سامراج سے مقابلے ميں گہرے اثرات چھوڑے ہيں اور چھوڑتي رہے گي .

يوم قدس صيہوني حکومت کے نحس چہرے پر زناٹے دار طمانچہ ہے۔

عيد فطر کا دن عبادت و مغفرت کا دن ہے ۔

عيد فطر کا دن اتحاد برادري اور اجتماع کا دن ہے ۔

عيد سعيدفطر مسلمانوں کي عيد اسلام و پيغمبر اسلام کي سربلندي کا سبب اور اسلام ميں کبھي نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے ۔

عيد سعيد فطر کے موقع پر عالم اسلام کو اس مبارک دن سے عبرت حاصل کرنے اور خدا کي طرف لوٹ کرجانے کےلۓ استفادہ کرنا چاہيے ۔

دين الھي کا نفاذ سب سے اہم صفت اور تمام صفتوں کي بنيادہے اور يہي صفت اميرالمومنين عليہ السلام کي زندگي اور آپ کي حکومت کا خاصہ تھي۔

حضرت اميرالمومنين عليہ السلام ولايت اسلام کے مظہرکامل اور ولي خدا تھے ۔

حضرت اميرالمومنين علي عليہ السلام قوت و اقتدار رکھنے کے باوجود سب سے زيادہ مظلوم تھے۔

حضرت علي عليہ السلام ان نادر شخصيتوں ميں سےہيں جو ماضي اور في زمانہ نہ صرف شيعوں کے درميان بلکہ تمام مسلمانوں کے درميان بلکہ تمام آزاد ضمير انسانوں کے درميان مقبول ہيں۔

حضرت اميرالمومنين علي عليہ السلام تاريخ کي مظلوم ترين شخصيتوں ميں ہيں ،آپ کي زندگي کے ہرہر قدم پر مظلوميت دکھائي ديتي ہے آپ کي شہادت بھي مظلومانہ تھي ۔

حضرت اميرالمومين علي عليہ السلام تاريخ کي نہايت پرکشش شخصيت ہيں ۔

حضرت امير المومنين علي عليہ السلام کا حکمت آميز کلام عالموں دانشوروں اور مفکرين کےلۓ مشعل راہ ہے ۔

حضرت علي عليہ السلام کوپہچان لينا کافي نہيں بلکہ آپ کي شناخت آپ سے تقرب کا ذريعہ بنے۔

حقيقي معني ميں حضرت علي عليہ السلام فضيلتوں اور کمالات کا مکمل نمونہ ہيں ،حقيقي معني ميں حضرت علي عليہ السلام ہي انسانوں کے سب سے عظيم رھنما ہيں ۔

اس مدرسہ کے مؤسس قاچار دور کے معروف سیاستداں میرزا حسین خان سپہ سالار ہیں میرزا حسین خان سپہ سالار1241 ھ ق میں قزوین میں پیدا ہوئے ان کے والد نبی خان امیر دیوان قزوینی تھےمیرزا نبی خان اور میرزا تقی خان امیر کبیر آپس میں بہت قریبی دوست تھے اسی وجہ سے امیر کبیر نے نبی خان کے دو بیٹوں کو تہران میں بلا کر ان کی تعلیم اور تربیت میں بہت جد و جہد اور کوشش کی

میرزا حسین خان سپہ سالار بڑے اہم اور یادگار امور کو انجام دینے میں دلچسپی رکھتے تھے جو کام وہ یادگار کے طور پر باقی چھوڑنا چاہتے تھے ان میں محصلین کے لئے مدرسہ اور مسجد کی تعمیربھی شامل تھی

سنہ 1296 میں اس مجموعہ کی تعمیر کا کام شروع ہوا اس عمارت اور مجلس شورای ملی اور بہارستان کی عمارت کا نقشہ انجینئرمیرزا مہدی شقاقی نے تیار کیا

سپہ سالار جو 1297 تک تہران میں رہے خود اس کام پر نگرانی کرتے رہے لیکن جس وقت وہ معزول ہوگئےتو یہ کام ان کی نگرانی سے براہ راست نکل گیا البتہ کام جاری رہا

سپہ سالار نے اپنے تعمیراتی مجموعہ کے لئے ایک تفصیلی وقف نامہ تحریر کیا اس نے مسجد کی تعمیر اور مرمت کے لئے بہت سے اوقاف چھوڑے یہ کام اپنی عظمت کے پیش نظر کئی سال تک جاری رہا

اس خوبصورت عمارت کی عظمت کے لئے بس یہی کافی ہے کہ 123 سال گزرنے کے بعد بھی تہران کی خوبصورت عمارتوں میں شامل ہے

انقلاب اسلامي ايران کے بعد ان كا نام بدل ہوا اور ابهي ان كا نام مسجد اور مدرسه عالي شهيد مطهري ہے