Super User

Super User

Wednesday, 22 August 2012 04:48

مسجد کوک گمبز - ازبكستان

مسجد کوک گمبز، شہرِ سبز، ازبکستان کی ایک مسجد ہے جو امیر تیمور کے پوتے الغ بیگ نے 1435ء یا 1437ء میں اپنے والد شاہ رخ کے نام پر (ممکنہ طور پر ایصالِ ثواب کے لیے) تعمیر کروائی تھی۔ کوک گمبز کا لفظی مطلب 'نیلا گنبد' کے ہیں جو اس مسجد کی پہچان ہے۔

سابقہ سوویت یونین کی دیگر مساجد کی طرح یہ بھی ستر سال سے زیادہ بند رہی اور اس کا کافی حصہ تباہ ہو گیا۔

یونیسکو نے اس مسجد اور شہرِ سبز کی دیگر کئی یادگاروں کو عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ دیا ہے۔ یہ مسجد 'گبمزِ سیدون' (یا گنبدِ سیداں، جو کچھ عمارتیں ہیں جن میں مسجد کے علاوہ کچھ اور عمارات بھی شامل ہیں) کا ایک حصہ ہے۔ یہاں ایک مدرسہ بھی تھا جس کا نام مدرسہ درود و صلوۃ تھا۔

 

ن . اسماعيل

مقدمہ

''و اعتصموا بحبل اللہ جمیعاً و لا تفرقوا'' خداوند سورۂ آل عمران میں ارشاد فرما رہا ہے کہ ''خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو'' اس مقالہ میں اتحاد مسلمین کو امام خمینی کی نظر سے بیان کررہی ہوں۔ جس طرح حیات و بقا ایک جامعہ و معاشرہ میں ضروری ہے اسی طرح اتحاد اس کے اعضا وہ جامعہ کہلاتا ہے۔ اگر اتحاد ان کے درمیان نہ ہو تو وہ جامعہ زوال پذیر ہوجاتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں جو بزرگان عوام کو وحدت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اس مقالہ میں امام خمینی کی نظر سے اتحاد کو بیان کیا ہے.

جامعہ میں وحدت

امت مسلمہ کی یکسوئی اور مسلمان فرقوں کا اتحاد با بصیرت علمائے اسلام کی دیرینہ آرزو رہی ہے، اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں کہ اس میں یکجہتی کی ایک وجہ استعماری قوتوں کی عسکری، اقتصادی اور سیاسی یلغار کے سامنے متحدہ اسلامی محاذ کا قیام ہے، اسی لئے گزشتہ ایک دو صدیوں کے دوران دشمن کا ہجوم جتنا وسیع تھا اتنا ہی وحدت و یکجہتی کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے اور وحدت کے داعیوں کے فریادیں زیادہ بلند ہوئی ہیں۔ آج جبکہ مغرت کی سپر طاقتوں اور دوسری استعماری طاقتوں کے براہ راست مغربی حملے ختم ہوگئے ہیں، پیچیدہ اور نت نئے طریقوں سے سیاسی و معاشرتی اور ثقافتی غلبے کا وقت آپہنچا ہے اور اسلامی ممالک پہلے سے زیادہ استعماری طاقتوں کی وسیع ثقافتی اور اقتصادی یلغار کی پالیسی کی زد میں ہیں۔

گزشتہ چند عشروں کے دوران اٹھنے والی وحدت و یکجہتی کی آوازیں ہر زمانے سے بلند ترین لیکن وحدت کے مختلف تصورات اور دنیا میں ابھرنے والے اس دینی سیاسی مفہوم کے مختلف نمونوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی اتحاد کے نظریئے کے سامنے ابھرنے والے بنیادی سوال یہ ہے کہ مسلمان مفکرین کے گفتار و کردار میں وحدت کا کوشا تصور تھا؟

اور کیا ان سب کا وحدت کے بارے میں نظریہ یکسان تھا یا ان کی فکر و عمال میں اس دینی سیاسی مفہوم کی مختلف اقسام پائی جاتی تھیں؟ اس صورت میں کونسے نظریئے کو پسندیدہ اور حقیقت پسندانہ قرار دے سکتے ہیں اور کوشانظریہ افراط و تفریط اور ناپسندیدہ نظر آتا ہے، اس سلسلے میں تحقیقی حلقوں کا ایک لازمی اور اولین قدم اسی قسم کی تحقیقات اور ابحاث میں کہ جو وحدت کے اس پہلو کو اجاگر کرتی ہیں۔ اس لئے کہ وحدت کے بعض نظریات کا خطرہ جو آہستہ آہستہ مذہب کے زوال کا سبب بنتے یہں جدائی اور تفرقہ و انتشار سے کم نہیں ہے جس نے برسوں تک امت مسلمہ کو اپنے شعلوں کی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

میدان وحدت میں بانی اسلامی جمہوریہ ایران حضرت امام خمینی کا نظریہ افراط و تفریط سے دور ہے اور امام کے دیگر نظریات کے طرح یہ بھی منزل کے متلاشیوں کے لئے چراغ راہ ثابت ہوسکتا ہے لہٰذا وحدت کے بارے میں امام خمینی کے عملی پہلوئوں سے اس مقالے کا ماحصل قرار دیں گے۔

قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:''و من یعتصم باللہ فقد ھدی الی صراط مستقیم۔'' ((سورۂ آل عمران، آیت١٠١))

اور جو شخص خدا سے وابستہ ہو وہ ضرور سیدھی راہ پر لگا دیا گیا ہے۔

اس آیت میں ''اللہ'' کے محور پر اتحاد کی حقانیت پر زور دیا گیا ہے۔

تضادات کے درمیان سے نظریہ وحدت سے مراد یہ ہے کہ مختلف موضوعات میں یکطرفہ، ایک پہلو والا اور افراط یا تفریط پر مبنی رجحان ہوسکتا ہے۔ حضرت امام خمینی کے نظریات و افکار کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے متضاد اور معارض موقف یکجا کئے ہیں اور حضرت امام خمینی کے طرز فکر میں ان تضادات کے درمیان وحدت پیدا ہوگئی ہے۔

امام خمینی کی سیرت و کردار اور ان کا پسندیدہ تصور اتحاد

حضرت امام خمینی ان چند مفکرین میں سے ہیں جو اپنی فکری زندگی کی ابتداء سے انتہا تک اتحاد و یکجہتی پر زور دیتے رہے۔ انہوں نے عملی زندگی میں بھی وحدت کے حصول کی راہیں ہموار کیں اور اس سلسلے میں موثر قدم اٹھائے۔ امام خمینی کی دعوت اتحاد صرف مسلمان اقوام کے اتحاد تک محدود نہیں تھیں بلکہ ملک کے اندر اور باہر مختلف میدانوں میں اسے کامیابی کی کلید سمجھتے تھے، ان مواقع پر وحدت کا تصور بھی یکساں نہیں تھا ان میں فرق بھی پائے جاتے تھے۔

قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہورہا ہے:''و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا'' ((آل عمران١٠٣))

اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ پیدا نہ کرو۔

رسولخدا ۖ نیز اہمتی وحدت کے مقابل میں جاہل ہونے کے (یعنی تفرقہ) کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:''من فارق الجماعة مات میتة جاہلیة۔'' ((مرتضیٰ فرید تنکابنی، رہنمای انسانیت، ص١٧٤))

اگر امام خمینی کے فرمودات، سیاسی اور اجتماعی رفتار پر دقت کریں تو ان کی باتوں سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ ان کی نظر سے وحدت صرف ایک توصیۂ اخلاقی، ایک ثقافتی و اجتماعی اہمیت کی حامل نہیں بلکہ بہت بڑے اور بہترین روش سیاسی جوامع اسلامی کی قدرت و طاقت کے لئے دشمن سے مقابلہ کے لئے یہی دلیل ہے کہ دشمنان جہان اسلام بھی سالوں سے ہے کہ جوامع اسلامی کے درمیان تفرقہ ایجاد کریں۔ دشمن اپنے اہداف پر کافی حد تک مسلط ہوچکا ہے۔ امام خمینی کے تصور وحدت پر نظر ڈالتے سے غالباً اسٹرٹیجک حکمت عملی کے تحت کیا جانے والا اتحاد کی تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جن میدانوں میں امام خمینی اتحاد و یکجہتی کے خواہاں نظر آتے ہیں ان میں بعض اس طرح ہیں:

١۔ معاشرتی طبقات میں اتحاد: یعنی علمائے کرام، سیاسی، اجتماعی اور مذہبی جماعتوں، دانشوروں، تاجروں، مزدوروں اور عوام و حکومت وغیرہ کے طبقات کے درمیان اتحاد۔ امام خمینی نے فرمایا: آپ کو معلوم ہے جس بات نے اس تحریک کو کامیاب بنا دیا وہ ایمان تھا اور مومنین آپس میں جس طرح قرآن مجید نے فرمایا مومن ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے (انما المومنون اخوہ) ((سورۂ حجرات، آیہ١٠)) حضرت امام خمینی آسمانی عہد و پیمان کی بنیاد پر اخوت اور بھائی چارے کی تاکید کرتے ہوئے اتحاد کی دعوت دیتے ہیں ان میدانوں میں حضرت امام خمینی سب سے بڑھ کر اخوت کے معنوں میں اسٹرٹیجک اتحاد چاہتے تھے اور اتحاد قائم کرنے کے لئے تزکیہ نفس کی تلقین فرماتے اور ملکی امن و سلامتی اور اسلامی نظام کی ترقی اور پیشرفت کے لئے اس قسم کے اتحاد کے قیام کو ضروری سمجھتے تھے اور وہ زیادہ تر شیطانی وسوسوں اور ذاتی اغراض و مقاصد کو ان اختلافات کا سرچشمہ سمجھتے تھے اور وحدت و یکجہتی کے حصول کے لئے تزکیہ نفس کی تلقین فرماتے تھے۔

امام خمینی اپنے دورِ ذمہ داری میں اس طرح کی وحدت کی تلقین فرماتے رہے اس سلسلے میں وہ معاشرتی طبقات اور سیاسی حکام کو متنبہ کرتے رہتے اور بعض مراحل پر ان کی سرزنش کرتے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں ایک مقام پر گورنروں سے مخاطب ہوکر امام نے فرمایا:''گورنر صاحبان کو آپس میں متحد ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کے ساتھ بھی انہیں یک دل ہونا چاہئے اس لئے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ خداوند عالم کے فضل و کرم اور اس قوم کی وجہ سے ہے۔آپ کو متحد ہونا چاہئے تاکہ آپ محفوظ رہیں۔ آپ کے درمیان تفرقہ و اختلاف پیدا کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں اور اس بات کا دھیان رہے کہ تفرقہ انگیز باتیں کرنا گناہ کبیرہ ہے اور مشکل ہے کہ خدا اسے بخشے چاہے ہمارے دشمن اس طرح کی باتیں کریں یا ہمارے دوست اور چاہے ایسی بانی تقدس اور شرافت کے دعویداروں کے منہ سے نکلیں یا ان لوگوں کے جو اس قسم کے دعوے نہیں کرتے۔''

جب امام خمینی کے دفتر کے ایک رکن نے معاشرے میں ابھرنے والے دو قسم کے فکری سیاسی گروہ کے نظریات کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے دونوں گروہ کی سرگرمیوں کو نہ صرف نادرست اور غیر نقصاندہ قرار دیا بلکہ علمائے سلف کی سیرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:''اسلام کے عظیم فقہاء کی کتابیں، مختلف عسکری، ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور عبادی موضوعات پر اختلاف آراء و روش اور مفاہیم میں اختلاف سے پُر ہیں۔ اسلامی حکومت میں ہمیشہ اجتہاد کا دروازہ کھلا رہنا چاہئے اور حکومت اور انقلاب بھی یہی ہے کہ مختلف شعبوں میں فقہی اجتہادی آراء چاہے ایک دوسرے کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں آزادانہ طور پر پیش کی جائیں اور کسی کو اس سلسلہ کو روکنے کا حق نہیں پہنچتا ہے۔'' ((صحیفۂ نور، ج٢١، ٤٦، ٢٧)) مختصراً کہہ سکتے ہیں کہ امام خمینی کی نظرمیں پسندیدہ وحدت مکمل عملی اتحاد اور تمام سرکاری اداروں اور عہدیداروں کے فعل و عمل میں ہم آہنگی اور اسلام و انقلاب کے بنیادی اصول میں فکری یکسوئی ہے۔

٢۔ مخالفین کو امت مسلمہ کے ساتھ اتحاد کی دعوت: ملحد و منافق عناصر اور اسلامی حکومت کے مخالفین بھی امام خمینی کی پند و نصیحت سے بے بہرہ نہیں تھے۔ اگرچہ عام طور پر ان کے کانوں پر مہر لگی ہوئی تھی اور انہیں اس پند و نصیحت کو قبول کرنے کی توفیق حاصل نہیں تھی۔ ان گروہوں کو کی جانے والی امام خمینی کی تلقینوں میں امت مسلمہ کے ساتھ اتحاد اور عوام کی صفوں میں شامل ہونا تھا جس نے امام خمینی کے نظریات کو قبول کرلیا تھا۔ یہ دعوت نظریاتی اتحاد ہے اسٹرٹیجک اتحاد نہیں ہے اور مصلحت اسی میں تھی کہ ان عناصر کو غلط راستوں پر بھٹکنے سے روکا ہے۔

امام خمینی کی اصلاحات

امام خمینی کی اصلاحات کے مصادیق یعنی شیعہ سنی اتحاد کے حوالہ سے وحدت کے نظریئے فرض اور نتیجے کی اصالت کے حوالے سے وحدت کے نظریئے اور ولایت مطلقہ اور ملت کے حقوق کے حوالہ سے وحدت کے نظریئے کا جائزہ لیں گے۔

١۔ شیعہ سنی تضاد کے حوالہ سے وحدت کا نظریہ: شیعہ سنی کے درمیان گہرا اختلاف پایا جاتا ہے جوکہ نظریاتی بھی ہے۔ یہ اختلاف خواص اور علماء کے درمیان ہے اور عملی طور پر بھی یہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ امت اسلامیہ کی بہت ساری صلاحیتیں اسی اختلاف پر صرف ہوچکی ہیں۔ البتہ اس سلسلہ میں غیروں کا کردار بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

شیعہ سنی مسئلہ کے بارے میں حضرت امام خمینی کا موقف کیا تھا؟ اس مسئلہ کی وضاحت کے لئے امام خمینی کے سیاسی وصیت نامہ کی طرف رجوع کررہے ہیں کیونکہ آپ کا وصیت نامہ اس کی وضاحت کا بہترین ذریعہ ہے۔ آپ نے اپنے وصیت نامہ میں تمام دنیائے اسلام کو مخاطب فرمایا ہے۔ وصیت نامہ میں آپ کا خطاب کسی خاص اسلامی فرقے سے نہیں ہے بلکہ تمام فرقوں سے ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ اتحاد بین المسلمین کے قائل تھے۔

امام خمینی کے وصیت نامہ میں غور طلب بات یہ ہے کہ آپ نے اس کا آغاز حدیث ثقلین (انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی) سے کیا ہے۔ عموماً جو لوگ اہل سنت کو مغلوب کرنا اور ان کے خلفاء کو نااہل ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ اس حدیث سے تمسک کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسولۖ کے غسل کا پانی خشک نہیں ہوپایا تھا کہ انہوں نے عترت کے ساتھ یہ سلوک کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ امام خمینی ایک طرف اتحاد بین المسلمین کے قائل ہیں اور دوسری طرف اس حدیث سے اپنے وصیت نامہ کا آغاز کیا جبکہ حدیث ثقلین کی تاکید قرآن اور عترت کے بارے میں ہے کہ شیعہ اس سے اہل سنت پر غلبہ حاصل کرے۔

امام خمینی کا وصیت نامہ احیا کا سرچشمہ ہے کہ اس کے شروع میں حدیث ثقلین بیان کرنے سے امام خمینی کا مقصد مکمل اسلام کی تاکید اور اسلام کے ابتدائی اندرونی مأخذ کے بارے میں تاکید، سنت نبویۖ کے احیائ، قرآن و عترت کی کم پرسی کے تذکرہ ان عظیم ماخذوں سے استفادہ نہ کرنے کی صورت میں پہنچنے والے نقصان کے بیان اور اس خوش خبری سے عبارت ہے کہ انقلاب اس لئے برپا کیا ہے کہ دین کے احیا کے ساتھ قرآن و عترت کو کسمپرسی کی حالت سے باہر نکالے۔

اسلامی حکومتوں کے بارے میں امام خمینی کا فرمان

اسلامی حکومتوں کو ایک ہی حکومت کی طرح ہونا چاہئے ایسا ہونا چاہئے کہ جیسا ان کا معاشرہ ایک ہے اس لئے کہ ان کا پرچم ان کی کتاب ایک ہے اور ان کا پیغمبر ایک ہے۔ ان کو ہمیشہ متحد رہنا چاہئے، ایک دوسرے کے ساتھ ہمہ گیر مفادات رکھنے چاہئیں اور اگر یہ مقاصد حاصل ہوجائیں اور ہر لحاظ سے اسلامی حکومتوں کے درمیان اتحاد وجود میں آئے تو وہ اپنے مسائل پر قابو پاسکتی ہیں۔ ((صحیفۂ نور، ج٤، ص٣٧))

حضرت امام خمینی نے اپنے حقیقت پسندانہ مقاصد کو اپنے سیاسی الٰہی وصیت نامہ میں ایک اسلامی حکومت کی تشکیل کی صورت میں پیش کیا ہے جس میں آزاد اور خود مختار جمہوریں ہوں۔ ((در جستجوی راہ امام از کلام امام، ص٦٦٥))

ایک اور مقام پر امام خمینی نے فرمایا:''سرحدیں ضرور جدا ہوں لیکن دلوں کو ایک ہونا چاہئے اگر مسلمان اپنی سرحدوں کو قائم رکھتے ہوئے متحد ہوجائیں اور ان کے دلوں ایک ہوں تو ان کی بہت بڑی آبادی بن جائے گی۔''

امام خمینی نے امت مسلمہ کے مختلف طبقات اور اسلامی مفکرین کو مسلمانوں کی عظمت رفتہ لوٹانے کے لئے اپنے فرمان میں فرمایا کہ ہم کہتے ہیں کہ آپ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں، تمام مسلمان آپس میں متحد ہوجائیں، ہمارے نہ کسی اور کے ساتھ خصوصی روابط ہیں اور نہ ہی آپ کے ساتھ، بلکہ ہمارا سب کے ساتھ رابطہ ہے۔ ہم آپ سب کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں اور اگر اسلامی احکام پر عمل پیرا ہوں تو ہمارے نزدیک تمام مسلمان عزیز ہیں، ہم امت مسلمہ کے افراد کو محترم سمجھتے ہیں چاہے وہ ترکی ہوں یا عربی ہوں اور عجمی، چاہے ان کا تعلق امریکہ سے ہو یا کسی اور جگہ سے۔

امام خمینی کے گفتار و کردار میں پایا جانے والا ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے کہیں بھی دینی اصولوں سے دستبردار ہونے کا ذکر نہیں کیا ہے اور عملی میدان میں فیصلہ اور حکمت عملی وضع کرنے اور اسی طرح کے دیگر مراحل میں وحدت کی دعوت دیتے تھے، اس کے برعکس ضروری مواقع پر وہ اپنے دس سالہ دور ولایت و حکومت میں مذہبی اصول کا تذکرہ کرتے اور ان کو دل کی گہرائیوں سے حفاظت پر زور دیتے رہتے تھے۔

تاہم امام ان باتوں سے ناراض ہوتے تھے جو دوسرے مسلمان فرقوں کی دل آزاری کا باعث بنتی تھیں اسی بناپر وہ متعصف افراد کے بعض آداب و رسوم کو پسند نہیں کرتے تھے۔ غرض یہ کہ امام خمینی کے نظریہ اتحاد میں اصولوں سے انحراف نہیں پایا جاتا تھا۔

امام خمینی کے ان فرمودات و آیات قرآنی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر سب مسلمان متحد ہوجائیں تو دشمن کبھی ان مسلمانوں کو ضرر نہیں پہنچائے گا اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر ایک فرد تنہا ہو تو دشمن اس کو بآسانی نقصان پہنچا سکتا ہے مگر یہ فرد ملت کی صورت اختیار کرلے تو کبھی بھی دشمن نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے اور یہ سبب بن جاتا ہے کہ اگر بین المسلمین اتحاد قائم ہوجائے تو دشمن کو بآسانی شکست دے سکتے ہیں اس بارے میں علامہ اقبال کا شعر لکھتی چلوں

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا اور بیرون دریا کچھ نہیں

کیونکہ مختلف فرقوں کے درمیان اس طرح کی وحدت و یکجہتی نہ عملی ہوسکتی ہے اور نہ ہی پسندیدہ وسیع پیمانے پر نظریاتی اتحاد کے حصول کے لئے کم از کم دو قسم کے شرائط کا خیال رکھیں؛ سیرت معصومین سنت نبویۖ اور بیان وحی الٰہی کی روشنی میں بعض محدود مراحل کو چھوڑ کر عام حالات میں کفار کے مقابلے میں اہل کتاب کے ساتھ نظریاتی وحدت کی اپیل کی گئی ہے جسے (وحدت نبویۖ) کا نام دے سکتے ہیں۔

امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں کہ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مجھ سے زیادہ کوئی شخص بھی امت محمدۖ کی جماعت بندی اور اتحاد باہمی کا خواہش مند نہیں ہے جس سے میری غرض صرف حسن ثواب اور آخرت کی سرفرازی ہے۔ میں نے جو عہد کیا ہے اسے پورا کرکے رہوں گا اگرچہ تم اس نیک خیال سے کہ مجھ سے آخری ملاقات تک تمہارا تھا اب پلٹ جائو۔ ((نہج البلاغہ، صبحی صالح، نامہ ٧٨))

اتحاد؛ پیروزی و کامیابی

اتحاد اگر ہو تو یہ ان لکڑیوں کی مانند ہیں کہ اگر ان لکڑیوں کو جمع کیا جائے تو کوئی بھی ان کو جدا نہیں کرسکتا۔ اگر فقط ایک لکڑی ہو تو بآسانی اس کو توڑ سکتے ہیں۔ میں اس میں اس قصہ کو بیان کرتی چلوں یہ قصہ بہ ظاہر عام اور نامفہوم سا لگتا ہے مگر اس کی گہرائی میں جائیں تو واقعاً ہمارے لئے ایک بہترین سبق موجود ہے۔ ایک بوڑھا آدمی آدمی جس کے پانچ بیٹے تھے ہمیشہ ان کے درمیان اختلاف پیدا ہوجاتا تھا ۔ ایک دن ان کے والد نے ان سے کہا اور ان کے ہاتھوں میں ایک ایک لکڑی دی اور کہا کہ اس کو توڑو۔ انہوں نے بآسانی اس کو توڑ دیا مگر لکڑیوں کو جمع کرکے کہا کہ ان لکڑیوں کو توڑو تو کوئی بھی ان لکڑیوں کو نہیں توڑ سکا۔ بعد میں ان کے والد نے ان سے کہا کہ اگر تم لوگ متحد رہوگے تو ان لکڑیوں کے جمع کی مانند بن جائوگے اور کوئی تمہیں شکست نہیں دے سکتا اگر تمہارے درمیان اختلاف ہو تو کوئی بھی تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہے اور اگر ہم اپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں تو کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اتحاد کے بارے میں علامہ اقبال کا ایک بہت خوبصورت شعر بیان کرتی چلوں :

ایک ہو مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر

وحدت رحمت و تاثیر کی منزلت میں

امام خمینی معتقد تھے کہ اتحاد و وحدت؛ تائید رحمن و الٰہی ہے اور جب متحد ہوجائیں۔ خدائے تبارک و تعالیٰ کی حمایت اور خداوند تعالیٰ کا ساتھ تمہارے ساتھ ہوگا۔ ((صحیفۂ امام، ج٧، ص١٠٧)) اور آخر میں اپنے مقالہ کا اختتام امام علی علیہ السلام کے اس فرمان سے کرتی ہوں:''اختلاف بنیاد فکر صحیح کو درہم کردیتی ہے۔'' ((نہج البلاغہ، حکمت٢١٥)) خداوند ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں تاکہ کامیابی ہمارا مقدر بن جائے۔

نتیجہ :

پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا:''جماعت اور وحدت سبب رحمت الٰہی اور تفرقہ سبب عذاب الٰہی ہے۔''

اس مقالہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جماعت اور وحدت خداوند کی رحمت کا سبب بنتا ہے اور اگر لوگ گروہ گروہ یا تفرقہ میں پڑ جائیں تو خدا کے عذاب کا سبب بن جاتا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں مقصد بزرگ و شرائع عظام کی توحید کلمہ و توحید عقیدہ جانتے تھے یہ کس چیز پر متحد ہے وحدت و اتحاد پر اور وحدت ہی ہے کہ کلمہ توحید بن سکتے ہیں۔

اس مقالہ میں نظرات امام خمینی کو بیان کای ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اسلام اس لئے آیا ہے کہ تمام ملت دنیا کسی کو کسی پر برتری حاصل نہیں ہے سب اگر متحد ہوجائیں تو امت بزرگ بنام امت اسلام قرار پائے اور اگر ہم اپنی صفوں میں اتحاد و انسجام کو برقرار رکھیں تاکہ دشمن کی ناپاک سازشیں جو ہم مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنا چاہتی ہیں اس کو ہم سب متحد ہوکر ناکام بنائیں کیونکہ ہمارا خدا ایک ہے ہمارا قبلہ ایک ہے، پیغمبر ایک ہے اگر آج ہم متحد ہوجائیں تو دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو شکست دے سکتے ہیں اور اسی وجہ سے مقام معظم رہبی نے ١٣٨٦ھ ش کو سال اتحاد اور انسجام اسلامی کا نام دیا تھا۔ ہم اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے اپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں اور جو ذلت و خواری گزشتہ سالوںمیں پائی اس کا جبران فقط اور فقط وحدت و اتحاد بین المسلمین ہے۔

 

توضیحات :

١۔ آل عمران، آیت١٠١

٢۔ آل عمران، آیت١٠٣

٣۔ مرتضی فریدی تنکابنی، رہنمای

٤۔ حجرات، آیت١٠

٥۔ صحیفۂ نور، جلد٢، ٤٦،٤٧

٦۔ صحیفۂ نور، ج ١٥، ص٢٢٣

٧۔ صحیفۂ نور، ج ، ص٢٧

٨۔ در جستجوی راہ امام از کلام امام، ص٦٦٥

٩۔ نہج البلاغہ، صبحی صالح، نامہ٧٨

١٠۔ صحیفۂ امام، ج٧، ص١٠٧

١١۔ نہج البلاغہ، حکمت٢١٥

رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے قدس شریف اور مظلوم فلسطین کے مسئلے کو عالم اسلام کا بنیادی مسئلہ قراردیا ہے۔ رہبرانقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ ای نے عید سعید فطر کے موقع پر اسلامی حکومت کے حکام ،عوام اور اسلامی ملکوں کے سفیروں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کا بنیادی مسئلہ قدس شریف اور مظلوم فلسطین کا مسئلہ ہے جو اسلامی بیداری کی برکت سے کھل کر سامنے آگیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تمام اسلامی حکومتوں اور قوموں نیز سیاسی اور ثقافتی شخصیتوں کو مسلمانوں کے اس بنیادی مسئلے کو چھپانے کی خطرناک سازش اور امت اسلامی میں اختلافات پھیلاکر جھوٹی باتوں کو حقیقت کا روپ دینے کی سازشوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ رہبرانقلاب اسلامی نے اسلامی حکومتوں اور قوموں کی ماضی کی طویل غفلتوں اور ان پر سامراجی حکومتون کے تسلط اور عالم اسلام کے مرکز میں صیہونی حکومت کے سرطانی پھوڑے کے وجود میں لائے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج اسلامی بیداری اور علاقے کے اہم واقعات کی برکت سے غلفت کا یہ پردہ چاک ہورہا ہے اور اس مسئلے کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔ ولی امرمسلمین عالم نے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین اور قدس علاقے کے مسائل میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے اور اس بنیادی مسئلے کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی نظر انداز کرنا چاہیے کیونکہ عالم اسلام کی بہت سی مشکلات غیر قانونی صیہونی حکومت کی وجہ سے ہیں۔ آپ نے مسلمانوں کے اس بنیادی مسئلے کو پس پشت ڈالنے کی دشمنوں کی پیچیدہ سازشوں کی طرف اشارہ کرتےہوئے فرمایا کہ آج ایک بار پھر سامراجی طاقتیں پھوٹ ڈالو حکومت کرو کے پرانے حربے کو استعمال کررہی ہیں بنابریں اسلامی حکومتوں اور قوموں بالخصوص سیاسی اور ثقافتی شخصیتوں ، روشنفکروں اور علماء دین کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو حقیقت و واقعیت سے آگاہ کریں۔ رہبرانقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے صیہونیت کو ساری انسانیت کے لئے خطرہ قراردیا اور فرمایا کہ دشمن قوم و نسل و مذہب کے فطری اختلافات کو بڑھا چڑھا کر مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنا چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی امۃ کو اسلام پر عمل کرنے اور اتحاد کی برقراری اور اسکو استحکام پہنچا کر برادری قائم کرتے ہوئے امریکہ کی سربراہی میں بڑی طاقتوں کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے۔رہبرانقلاب اسلامی نے مسلمان قوموں کے درمیان اختلاف کو زہر قاتل قراردیا اور فرمایا کہ مسلمانوں کی نگاہ میں دشمن کی یہ پوزیشن واضح رہنی چاہیے کہ دشمن یقینا باطل ہے اور اس کے مد مقابل حق ہے۔

پاکستان کےصدر آصف علي زرداري اور وزيراعظم راجہ پرويز اشرف نے قوم کو عيد الفطر کي مبارکباد ديتے ہوئے کہا ہے کہ خوشي کے اس موقع پر ہميں اخوّت ومحبت، برداشت، صبروتحمل و رواداري کو فروغ ديتے ہوئے عيد الطفر کي خوشيوں ميں اپنے غريب عزيز و اقارب، پڑوسيوں، ضرورت مند اور نادار مسلمان بہن بھائيوں کو شامل کرنا چاہئے، فرقہ واريت اور تشدد اسلامي تعليمات کے منافي ہے، نفرت جيسے رجحانات پر قابو پائيں، ہميں يہ بھي ياد رکھنا چاہيے کہ فرقہ پرستي، تعصب پرستي اور دہشتگردي اسلامي تعليمات کے منافي ہيں صدر آصف علي زرداري نے اپنے مبارکبادي پيغام ميں کہاکہ کامرہ پر دہشت گرد حملہ صريحاً گمراہي اور اسلام کي روح کے منافي ہے، ہميں منفي سوچ کي حامل قوتوں کے پروپيگنڈے کا انسداد کرنا ہوگا وزيراعظم راجہ پرويز اشرف نے اپنے مبارکبادي پيغام ميں کہاکہ عيدالفطر ہميں بھائي چارے، ايثار اور صبروتحمل کا درس ديتي ہے اس موقع پر ہميں اتحاد، يکجہتي اور وطن عزيز کي سلامتي کا عہد کرناچاہيے

Tuesday, 21 August 2012 07:26

عید فطر کی نماز

رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران سمیت دیگر اسلامی ملکوں میں عالمی یوم قدس کے عظیم مظاہرے فلسطین کی حمایت میں ایک نمایاں اور درخشان اقدام ہے ۔ حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے تہران میں عید فطر کی نماز کے خطبوں میں فرمایا کہ حضرت امام خمینی قدس سرہ نے ملت مظلوم فلسطین اور قدس شریف کی حمایت کے لئے یوم قدس معین فرمایا ہے اور ہرسال ایران اور دیگر اسلامی ملکوں میں ان مظاہروں کی شان وشوکت بڑھتی ہی جارہی ہے۔ رہبرانقلاب اسلامی نے عالمی یوم قدس کے مظاہروں کو نہایت اہم قراردیا اور فرمایا کہ دشمن چاہتا ہےکہ عالمی یوم قدس فراموش کردیا جائے لیکن وہ ہرگز کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ امت مسلمہ ہرسال گذشتہ برس کی نسبت مزید شان و شوکت سے ان مظاہروں میں شرکت کرتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ قوموں نے یوم قدس کے موقع پر ملت مظلوم فلسطین اور مسئلہ فلسطین کی جو کہ عالم اسلام کا بنیادی مسئلہ ہے حمایت کی ہے اور یہ صحیح و بروقت اقدام بے شک نہایت وسیع پیمانے پر اثر انداز ہوگا اور عالم اسلام میں اس کے اہم اثرات دیکھے جائيں گے۔ رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ دیگر قوموں نے بھی گذشتہ برسوں کی نسبت اس سال یوم قدس کے موقع پر ملت ایران کی ہمراہی کی ہے لیکن بعض ملکوں میں سرنگوں شدہ حکومتوں کے باقی ماندہ عناصر اس بات کی کوشش کررہے تھے کہ عوام فلسطین کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار نہ کرپائيں لیکن قومیں میدان میں آگئيں اور یہ تحریک جاری رہے گي۔ ولی امر مسلمین نے فرمایا کہ عالم اسلام میں جو واقعات پیش آرہے ہیں وہ قوموں کی امنگوں کے مطابق ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ علاقائي قوموں نے کارہائے نمایان انجام دئے ہیں اور ان کی تحریکیں جاری رہنی چاہیں ۔ رہبرانقلاب اسلامی نے ملت اسلام کے دشمنوں کی سازشوں کی طرف اشارہ کرتےہوئے فرمایا کہ ان سازشوں کو نا کام بنانے کے لئے اسلامی حکومتوں اور قوموں پر سنگين ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکہ صیہونی حکومت اور ان کے اتحادی اسلامی ا مۃ کے بنیادی دشمن ہیں۔ آپ نے تاکید فرمائي دشمن کو مسلمان قوموں کے ساتھ ہرگز ہمدردی نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ علاقے کو تباہ کرکے اپے اھداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ آپ نے شمال مغربی صوبے مشرقی آذربائجان کے زلزلہ زدہ عوام سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اس زلزلہ زدہ علاقے میں اب تک بہت سے مفید کام انجام دئے گئےہیں اور حکام کو زلزلے کے اثرات مٹانے کے لئے سنجیدگي سے کوششیں جاری رکھنی ہونگي ۔

دينداري كا دعويٰ كرنے والے بہت زيادہ ہيں ليكن وہ لوگ غير شرعي امور كي انجام دہي اور لوگوں كے حقوق پر زيادتي كركے اپنے اهداف تك پہونچنے ميں نہيں ہچكچاتے۔ چنانچہ ايسے ہي بعض افراد امام (ع) كو مشورہ ديتے تهے كہ اب تو اسلامي حكومت آپ كے ہاته ميں ہے لهذا اپنے مقاصد تك پہونچنے كے لئے كسي بهي راستہ كا انتخاب كرنے ميں كيا عيب ہے؟

 

دوسروں كے حقوق كو ادا كرنے كي ايك خاص اہميت ہے۔ اور مسلمانوں كي سماجي زندگي كے تمام حالات ميں اس كا ايك خاص مقام ہے۔حضرت علي عليہ السلام ان شخصيات ميں سے ہيں جنهوں نے اس مسئلہ كو خاص اہميت دي ہے اور مختلف حقوق كے سلسلہ ميں آپ كا خاص نظريہ ہے۔

علماء اسلام معتقد ہيں كہ اسلام ميں توحيد كے بعد حق و انصاف كے برابر كسي بهي مسئلہ كو اهميت نہيں دي گئي ہے۔ ويسے ہي جيسے مسئلہ توحيد مسلمانوں كے تمام ديني اور اخلاقي اعتقادات ميں بنيادي حيثيت ركهتا ہے۔ اس سلسلہ ميں حضرت علي عليہ السلام كے نظريات كا مرور ايك خاص اہميت ركهتا ہے۔

 

حق الناس

حضرت علي عليہ السلام لوگوں كے حقوق كي اہميت كے بارے ميں فرماتے ہيں: خدا گواہ ہے كہ ميرے لئے سعدان كي خاردار جهاڑي پر جاگ كر رات گذار لينا يا زنجيروں ميں قيد ہوكر كهينچا جانا اس امر سے زيادہ عزيز ہے كہ ميں روز قيامت پروردگار سے اس عالم ميں ملاقات كروں كہ كسي بندہ پر ظلم كرچكا ہوں، يا دنيا كے كسي معمولي مال كو غصب كيا ہو۔

دينداري كا دعويٰ كرنے والے بہت زيادہ ہيں ليكن وہ لوگ غير شرعي امور كي انجام دہي اور لوگوں كے حقوق پر زيادتي كركے اپنے اهداف تك پہونچنے ميں نہيں ہچكچاتے۔ چنانچہ ايسے ہي بعض افراد امام (ع) كو مشورہ ديتے تهے كہ اب تو اسلامي حكومت آپ كے ہاته ميں ہے لهذا اپنے مقاصد تك پہونچنے كے لئے كسي بهي راستہ كا انتخاب كرنے ميں كيا عيب ہے؟ ليكن امام (ع) ان كے جواب ميں فرماتے ہيں: خدا كي قسم جب تك ميري زندگي ہے اور شب و روز آرہے ہيں ستارے ايك بعد دوسرے طلوع و غروب كررہے ہيں۔ ميں ہرگز كوئي اس طرح كا كام انجام نہيں دوں گا۔

 

لوگوں كے حقوق كا احترام

حضرت علي عليہ السلام نے سن ۳۶ ه ميں اسلامي حكومت كي باگ ڈور اپنے ہاتهوں ميں سنبهالي۔ نہج البلاغہ ميں آيا ہے كہ آپ نے وجوہات شرعيہ كو جمع كرنے والے شخص سے لوگوں كے حقوق كا احترام كرنے كے سلسلہ ميں اس طرح سے فرمايا: اور خبردار نہ كسي مسلمان كو خوف زدہ كرنا اور نہ كسي كي زمين پر جبرا اپنا گذر كرنا۔ مال ميں سے حق خدا سے ذرہ برابر زيادہ مت لينا اور جب كسي قبيلہ پر وارد ہونا تو ان كے گهروں ميں گهسنے كے بجاۓ چشمہ اور كنويں پر وارد ہونا۔ اس كے بعد سكون و وقار كے ساته ان كي طرف جانا اور ان كے درميان كهڑے ہوكر سلام كرنا اور سلام كرنے ميں بخل سے كام نہ لينا۔ اور اس كے بعد ان سے كہنا بندگان خدا مجهے تمهاري طرف خدا كے ولي اور جانشين نے بهيجا ہے تاكہ ميں تمهارے اموال ميں سے خدا كا حق لے لوں تو كيا تمهارے اموال ميں كوئي حق اللہ ہے جسے ميرے حوالہ كرسكو؟ اگر كوئي شخص انكار كردے تو اس سے دوبارہ تكرار نہ كرنا اور اگر كوئي شخص اقرار كرے تو اس كے ساته اس انداز سے جانا كہ نہ كسي كو خوف زدہ كرنا، نہ دهمكي دينا۔ نہ سختي كا برتاؤ كرنا نہ بيجا دباؤ ڈالنا۔

 

دوستوں كے حقوق

بعض اوقات ايسا ہوتا ہے كہ دو دوست برسوں تك ايك ساته مهرباني اور صميميت كے ساته زندگي گذارتے ہيں اور مشكلات ميں ايك دوسرے كا ساته ديتے ہيں ليكن بعد ميں بعض چهوٹي باتوں كي وجہ سے ايك دوسرے سے ناراض ہوكر الگ ہوجاتے ہيں۔

اميرالمومنين عليہ السلام دو دوست كے درميان رابطہ برقرار كرنے كے سلسلہ ميں اپنے نوراني بيان ميں اپنے بيٹے امام حسن عليہ السلام سے فرماتے ہيں: اپنے نفس كو اپنے بهائي كے بارے ميں قطع تعلق كے مقابلہ ميں تعلقات، اعراض كے مقابلہ ميں مهرباني۔ بخل كے مقابلہ ميں عطا، دوري كے مقابلہ ميں قربت، شدت كے مقابلہ ميں نرمي اور جرم كے موقع پر معذرت كے لئے آمادہ كرو گويا كہ تم اس كے بندے ہو اور اس نے تم پر كوئي احسان كيا ہے۔

 

دوستي كےحدود اور حقوق كي رعايت

اميرالمومنين عليہ السلام نہج البلاغہ ميں فرماتے ہيں: خداوند متعال نے بندوں كے حقوق كو اپنے حقوق پر مقدم ركها ہے۔ لهذا اگر كوئي شخص بندگان خدا كے حقوق كو ادا كرنے كے لئے قيام كرے در واقع اس نے خدا كے حقوق كو ادا كيا ہے۔

اسي وجہ سے اميرالمومنين عليہ السلام نےدوستوں كے حقوق كي رعايت كرنے كے سلسلہ ميں امام حسن عليہ السلام كو سفارش كرنے كے بعد برادران ديني اور دوستوں كے درميان محبت كے حدود كو معين كرنے كے لئے بلا فاصلہ فرمايا ہے: كہيں ايسا نہ ہو كہ تم ان فرامين كي رعايت ايسے افراد كے ساته كرو جو ان كے مستحق نہيں ہيں اور دوستي اور عفو گذشت كو بے محل استعمال كرو۔

 

دوستي كے حقوق

اميرالمومنين عليہ السلام دوستي كے حقوق كے بارے ميں فرماتے ہيں:

دوست اس وقت تك دوست نہيں ہوسكتا ہے جب تك اپنے دوست كےتين مواقع پر كامنہ آۓ ۔

مصيبت كے موقع پر۔ اس كي غيبت ميں۔ اس كے مرنے كے بعد۔

 

ماں باپ كے حقوق

اميرالمومنين عليہ السلام نہج البلاغہ ميں فرماتے ہيں: فرزند كا باپ پر ايك حق ہوتا ہے اور باپ كا فرزند پر ايك حق ہوتا ہے۔ باپ كا حق يہ ہے كہ بيٹا ہر مسئلہ ميں اس كي اطاعت كرے معصيت پروردگار كے علاوہ۔ اور فرزند كا حق باپ پر يہ ہے كہ اس كا اچها نام تجويز كرے اور اسے بهترين ادب سكهاۓ۔اور قرآن مجيد كي تعليم دے۔

 

امام اور امت كے متقابل حقوق

اميرالمومنين عليہ السلام امام اور امت كے متقابل حقوق كے بارے ميں خطاب كرتے ہوۓ فرماتے ہيں: اے لوگوں' يقينا ايك حق ميرا تمهارے ذمہ ہے اور ايك حق تمهارا ميرے ذمہ ہے تمهارا حق ميرے ذمہ يہ ہے كہ ميں تمہيں نصيحت كروں اور بيت المال كا مال تمهارے حوالہ كردوں اور تمہيں تعليم دوں تاكہ جاہل نہ رہ جاؤاور ادب سكهاؤں تاكہ باعمل ہوجاؤ۔ اور ميرا حق تمهارے اوپر يہ ہے كہ بيعت كا حق ادا كرو اور حاضر و غائب ہر حال ميں خير خواہ رہو۔ جب پكاروں تو لبيك كہو اور جب حكم دوں تو اطاعت كرو۔

 

حق الناس كي عظمت

حق الناس كي اہميت و بزرگي كے لئے يہي كافي ہے كہ خداوندمتعال نے لوگوں كے حقوق كو اپنے حقوق پر مقدم ركها ہے جيسا كہ اميرالمومنين عليہ السلام نہه البلاغہ ميں فرماتے ہيں: خداوند متعال نے بندوں كے حقوق كو اپنے حقوق پر مقدم ركها ہے۔ لهذا اگر كوئي شخص بندگان خدا كے حقوق كو ادا كرنے كے لئے قيام كرے در واقع اس نے خدا كے حقوق كو ادا كيا ہے۔

 

پيغمبر ﷺكي نگاہ ميں حق اللہ كي عظمت

خداوندمتعال كا حق بندوں پر اس سے بڑه كر ہے كہ ادا كيا جاۓ۔ جيسا كہ پيغمبر اكرم (ص)نے فرمايا: خدا كا اس كے بندوں پر حق اس سے بڑه كر ہے كہ وہ اسے ادا كريں اور اس كي نعميتيں اس سے زيادہ ہيں كہ اس كے بندے انهيں شمار كرسكيں ليكن بندوں كو چاہيئے كہ صبح شام توبہ كريں اور اپنے پروردگار كي بارگاہ ميں رجوع كريں۔

 

قائد اور رعايا كے متقابل حقوق

حضرت اميرالمومنين عليہ قائد اور رعايا كے متقابل حقوق كے بارے ميں اس طرح فرماتے ہيں : ياد ركهو مجهپر تمهارا ايك حق يہ بهي ہے كہ جنگ كے علاوہ كسي موقع پر كسي راز كو چهپا كر نہ ركهوں اور حكم شريعت كے علاوہ كسي مسئلہ ميں تم سے مشورہ كرنے سے پہلو تہي نہ كروں۔ نہ تمهارے حق كو اس كي جگہ سے پيچهے ہٹاؤں اور نہ كسي معاملہ كو آخري حد تك پہونچاۓ بغير دم لوں اور تم سب ميرے نزديك حق كے معاملہ ميں برابر رہو۔ اس كے بعد جب ميں ان حقوق كو ادا كردوں گا تو تم پر اللہ كے لئے شكر اور ميري اطاعت واجب ہوجاۓ گي اور يہ لازم ہوگا كہ ميري دعوت سے پيچهے نہ ہٹو اور كسي اصلاح ميں كوتاہي نہ كرو حق تك پہونچنے كے لئے سختيوں ميں كود پڑوكہ تم ان معاملات ميں سيدهے نہ رہے تو ميري نظر ميں تم ميں سے ٹيڑهے ہوجانے والے سے زيادہ كوئي حقير ذليل نہ ہوگا اس كے بعد ميں اسے سخت سزا دوں گا اور ميرے پاس كوئي رعايت نہ پاۓ گا۔

 

لوگوں كے حقوق كي رعايت كے سلسلہ ميں امام علي عليہ السلام كي مالك اشتر كو نصيحت

مالك اشترامام علي عليہ السلام كے وفادار ساتهيوں ميں سے تهے آپ شجاع، مومن اور متقي انسان تهے امام علي عليہ السلام نے سن ۳۸ ه ميں جب مالك كو مصر كا حاكم بنا كر بهيجا تو آپ كو ايك نوشتہ لكه كر ديا جو نهج البلاغہ كے بہترين خطوط ميں سے ايك ہے اور "فرمان مالك" كے نام سے مشهور ہے۔ امام نے اس نامہ ميں وہ تمام باتيں تحرير كي ہيں جنهيں ايك اسلامي ملك كے حاكم كو جاننا چاہيے اور ملك كے كاموں كو اجرا كرنے ميں جن كي رعايت كرني چاہيئے۔ امام عليہ السلام فرماتے ہيں: تمهارے لئے پسنديدہ كام وہ ہونا چاہيئے جو حق كے اعتبار سے بهترين،انصاف كے اعتبار سے سب كو شامل اور رعايا كي مرضي سے سب اكثريت كے لئے پسنديدہ ہو كہ عام افراد كي ناراضگي خواص كي رضا مندي كو بهي بے اثر بنا ديتي ہےاور خاص لوگوں كي ناراضگي عام افراد كي رضا مندي كے ساته قابل معافي ہوجاتي ہے۔ رعايا ميں خواص سے زيادہ والي پر خوش حالي ميں بوجه بننے والا اور بلاؤں ميں كم سے كم مدد كرنے والا۔ انصاف كو ناپسند كرنے والا اور اصرار كے ساته مطالبہ كرنے والا، عطا كے موقع پر كم سے كم شكريہ ادا كرنے والا اور نہ دينے كے موقع پر بمشكل عذر قبول كرنے والا۔ زمانہ كے مصائب ميں كم سے كم صبر كرنے والا۔ كوئي نہيں ہے۔ دين كا ستون۔ مسلمانوں كي اجتماعي طاقت، دشمنوں كے مقابلہ ميں سامان دفاع عوام الناس ہي ہوتے ہيں لهذا تمهارا جهكاؤ انهيں كي طرف ہونا چاہيئے۔

 

قصاص ميں حق اور عدل كي رعايت كے بارے ميں امام (ع) كي وصيت

نہج البلاغہ ميں پڑهتے ہيں كہ امام علي عليہ السلام نے سن ۴۰ ه ميں ابن ملجم كي ضربت سے زخمي ہونے كے بعد امام حسن عليہ السلام اور امام حسين عليہ السلام بہت سي وصيتيں كي ہيں انهيں وصيتوں كے آخر ميں امام (ع) نے قصاص كے سلسلہ ميں امام حسن (ع) كو تاكيد كي ہے جو ياد گار كے طور پر آج بهي باقي ہے۔ اے اولاد عبدالمطلب خبردار ميں يہ نہ ديكهوں كہ تم مسلمانوں كا خون بہانہ شروع كردو صرف اس نعرہ پر كہ " اميرالمومنين مارے گئے ہيں"ميرے بدلہ ميں ميرے قاتل كے علاوہ كسي كو قتل نہيں كيا جاسكتا ہے۔

ديكهو اگر ميں اس ضربت سے جانبر نہ ہوسكا تو ايك ضربت كا جواب ايك ہي ضربت ہے اور ديكهو ميرے قاتل كے جسم كے ٹكڑے نہ كرنا كہ ميں نے خودسركار دوعالم سے سنا ہے كہ خبردار كاٹنے والے كتے كے بهي ہاتهپير نہ كاٹنا

 

حيوانات كے حقوق كي رعايت

حضرت علي عليہ السلام نے نہج البلاغہ كے ۲۵ مكتوب ميں حيوانات كے حقوق كي حمايت كرتے ہوۓ فرماتے ہيں: خبردار كسي جانور كو ڈرانا نہيں اور اسے آزار و اذيت نہ پہونچانا۔

استقلال مسجد انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں واقع ایک مسجد ہے۔

جسے جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

یہ مسجد 1975ء میں حکومت انڈونیشیا نے تعمیر کرائی تھی۔

اس مسجد میں بیک وقت 120،000 نمازی عبادت کر سکتے ہیں۔ مسجد کے مرکزی گنبد کا قطر 45 میٹر قطر ہے۔

نماز و عبادت کے علاوہ مسجد مختلف سماجی و ثقافتی سرگرمیوں کا بھی مرکز ہے جس میں دروس، نمائشیں، مذاکرے، مباحثے اور عورتوں، نوجوانوں اور بچوں کے لیے مختلف نوعیت کے تقریبات شامل ہیں ۔

شوال کا پہلا دن عید سعید فطر ہے اور یہ دن عالم اسلام کی مشترک عید ہے ۔ مؤمنین رمضان مبارک کے گزرجانے اور اس مہینے میں عبادت وتقوی پرہیز گاری و تہذیب نفس کے ساتھ گزارنے پر خوشی اور اللہ سے ان نعمات کا شکریہ کرنے کیلۓ ایک دوسرے کے ساتھ اچھے روابط قائم کرتے ہوۓ عید کی نماز پڑھتے ہیں-

 

حضور پاك حضرت محمد مصطفي صلي الله عليه و آله و سلم نے اس دن کی فضیلت کے بارے میں فرمایا: اذا کان اول یوم من شوال نادی مناد : ایھا المؤمنون اغدو الی جوائزکم، ثم قال : یا جابر ! جوائز اللہ لیست کجوائز ھؤلاء الملوک ، ثم قال ھو یوم الجوائز ۔

یعنی جب شوال کا پہلا دن ہوتا ہے ، آسمانی منادی نداء دیتا ہے : اے مؤمنو! اپنے تحفوں کی طرف دوڑ پڑو ، اس کے بعد فرمایا: اے جابر ! خدا کا تحفہ بادشاھوں اور حاکموں کے تحفہ کے مانند نہیں ہے ۔ اس کے بعد فرمايا" شوال کا پہلا دن الھی تحفوں کا دن ہے ۔

 

اميرالمومنين امام علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے عید فطر کے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا:

اے لوگو ! یہ دن وہ ہے جس میں نیک لوگ اپنا انعام حاصل کرتے ہیں اور برے لوگ ناامید اور مایوس ہوتے ہیں اور اس دن کی قیامت کے دن کے ساتھ کافی شباھت ہے اس لۓ گھر سے نکلتے وقت اس دن کو یاد جس دن قبروں سے نکال کرخدا کی کی بارگاہ میں حاضر کۓ جاؤ، نماز میں کھڑے ہونے کے وقت خدا کے سامنے کھڑے ہونے کو یاد کرو اور اپنے گھروں میں واپس آنے میں اس وقت کو یاد کرو جس وقت بہشت میں اپنی منزلوں کی طرف لوٹو گے۔ اے خدا کے بندو ! سب سے کم چیز جو روزہ دار مردوں اور خواتین کو رمضان المبارک کےآخری دن عطا کی جاتی ہے وہ یہ فرشتے کی بشارت ہے جو صدا دیتا ہے :

اے بندہ خدا مبارک ہو ! جان لے تمہارے پچھلے سارے گناہ معاف ہو گۓ ہیں اب اگلے دن کے بارے میں ہوشیار رہنا کہ کیسے گذارو گے ۔

 

امام انس بن مالک نے مومن کي عيد کو بہت خوبصورت پيرائے ميں بيان فرمايا ہے. فرماتے ہيں کہ “مومن کي پانچ عيديں ہيں”

(1) جس دن گناہ سے محفوظ رہے (2) جس دن دنيا سے اپنا ايمان سلامت لے جائے. (3) پل صراط سے سلامتي کے ساتھ گزر جائے- (4) دوزخ سے بچ کر جنت داخلہ مل جائے- (5) اپنے رب کي رضا کو پالے اور اسکے ديدار سے آنکھيں ٹھنڈي ہو جائيں وہ عيد کا دن ہے-

 

عيد الفطر رب کا شکر ادا کرنے کا دن ہے. اس سے رمضان کي مشقتوں کي قبوليت کي التجا کا دن ہے. کيا شان ہے اسلامي تہواروں کي. حقيقت تو يہ ہے کہ ميں اپنے تہواروں سے ہي پہچاني جاتي ہوں کوئي لہو لعب نہيں، کہيں حيا سوز نظارے نہيں، کہيں مخلوط مجالس اور رقص و سرور نہيں بلکہ خوشي کے اظہار کے لئيے ذکر ہے، تسبيح ہے اور تحليل ہے جو اسکي فکر کي بلند پروازي کا غماز ہے. يہ دنيا اسکا گھر نہيں اسلئے اسکو يہاں کے لہولعب سے بھي کوئي سروکار نہيں اور دنياپرستوں کي مصنوعي لذتوں ميں بندہ مومن کے لئے کوئي حقيقي لذت نہيں.

حقيقت يہي ہے کہ عيد کي خوشيوں ميں اس بد نصيب کا کيا حصہ جس پر رحمتوں کے ڈول کے ڈول انڈيلے جاتے رہے، مغفرت کے لئے پکارا جاتا رہا، ليکن اس نے توجہ ہي نہ کي، دنيا اور اسکي فکروں ميں ہي دل اسکا منہمک رہا- توبہ استغفار اور تراويح کي توفيق ہي نہ مل سکي کہ کاروبار دنيا اتنا پھيل چکا ہے. رمضان جيسا مہمان جو اپنے دامن ميں خزانے بھر کر لايا تھا پکارتا رہا خزانے لٹاتا رہا ليکن کتنے غافل ان خزانوں سے بھي حصہ نہ پا سکے!!! يقيناً عيد انکے لئے و عيد کا دن ہے اور وہ “مبارکباد ”‌ کے نہيں “تعزيت”‌ کے مستحق ہيں کيونکہ اس شخص کي ہلاکت اور محرومي ميں بھلا کسے شک ہو سکتا ہے جسکي ہلاکت کي دعا جبريل امين کريں اور رحمت العالمين اس بد دعا پر آميں کہيں. آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ”‌ جب ميں منبر پر خطبہ دينے چڑھنے لگا اور منبر کے پہلے زينے پر قدم رکھا تو جبريل امين نمودار ہوئے اور انھوں نے کہا “خدا اس شخص کو ہلاک کر ےد ے جس نے رمضان کا مہينہ پايا اور اپني بخشش نہ اور مغفرت کا سامان نہ کيا ”‌ اس پر ميں نے کہا ”‌ آمين.

Saturday, 18 August 2012 05:27

کوبے مسجد جاپان

کوبے مسجد (جاپانی: 神戸モスク ) جاپان کے شہر کوبے میں واقع ایک مسجد ہے جو اکتوبر 1935ء میں تعمیر کی گئی۔ اسے جاپان کی پہلی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ کوبے مسلم مسجد کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ اس کی تعمیر اسلامی مجلس کوبے کی جانب سے 1928ء سے 1935ء میں اس کی تکمیل تک ہونے والے مالی تعاون اور جمع کردہ عطیات کے باعث ممکن ہو سکی۔

1943ء میں جاپانی شاہی بحریہ نے اس مسجد پر قبضہ کر لیا تھا۔ تاہم اب اس کی مسجد کی حیثیت بحال ہے اور یہ شہر کے مسلمانوں کا مرکز ہے۔ اپنے مضبوط ڈھانچے اور بنیاد کے باعث ہانشن کے عظیم زلزلے میں بھی یہ مسجد محفوظ رہی۔ یہ مسجد روایتی ترکی انداز میں تعمیر کی گئی اور اسے چیک ماہر تعمیرات جان جوزف سواگر (1885ء تا 1969ء) نے تعمیر کیا جو جاپان میں متعدد مغربی مذہبی عمارات کے ماہر تعمیرات ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: جیسا کہ ایک بار انقلاب اسلامی کی کامیابی میں امید کا ستارہ چمکا، ایک بار دفاع مقدس میں ، ایک بار جنگی قیدیوں کی آزادی و وطن واپسی کے وقت امیدکا ستارہ روشن ہوا، اللہ تعالی کی مدد سے اسی طرح مسئلہ فلسطین کےافق پر بھی امید کا ستارہ روشن ہوگا، مقبوضہ فلسطینیسرزمین یقینی طور پر فلسطینیوں کو واپس مل جائے گي اور اسرائیل کی غاصب و صہیونی حکومت صفحہ روزگار سے محو ہوجائےگي۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے (۲۰۱۲/۰۸/۱۵) سیکڑوں آزادگان سے ملاقات میں مشرقی آذربائیجان کے بعض علاقوں میں آنے والے حالیہ زلزلے سے متاثرہ افراد سے ہمدردی کا اظہارکیا اور مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا بنیادی مسئلہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اس سال بھی ایرانی قوم یوم قدس کے موقع اسلام اور فلسطین کے دشمنوں کے منہ پر زوردارطمانچہ رسید کرےگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسطینی سرزمین پر صہیونیوں کے غاصبانہ قبضہ و تسلط کو مشرق وسطی کا سب سے اہم مسئلہ اور اس علاقہ کی اقوام کی حالیہ برسوں کی مشکلات کی اصلی وجہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر علاقہ میں یہ سازش وجود میں نہ آتی تو علاقہ میں منہ زوراور سامراجی طاقتوں کی طرف سے مسلط کردہ جنگیں اور اختلافات بھی وجود میں نہ آتے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: صہیونی اورانکےحامی اقوام عالم کے نزدیک مسئلہ فلسطین کو فراموش کرانے کے سلسلے میں سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں لیکن عالم اسلام کو ان کی اس سازش اور فریب کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران میں اسلامی تحریک کےآغاز سے ہی مسئلہ فلسطین پر امام خمینی (رہ) کی خصوصی توجہ اورتاکید کی طرف اشارہ کرتےہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کی کامیابی نے مسئلہ فلسطین کوفراموش کرنےکےسلسلے میں سامراجی طاقتوں کی کوششوں کو ایک تاریخی رکاوٹ سے دوچارکردیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےمسئلہ فلسطین کو فراموش کرنے کےسلسلے میں بعض کوششوں کیطرف اشارہ کرتےہوئے فرمایا: شیعہ وسنی اورہلال شیعی بحث کو اسی دائرےمیں پیش کیا جاتا ہےجبکہ 60 سال سے فلسطینی قوم شدید مشکلات اور دباؤ کا شکارہے اور فلسطینیوں کے بارےمیں انکی کوئی آوازبلند نہیں ہوتی۔

رہبر معظم نے سوال کیا: اسلامی جمہوریہ ایران جس نے مسئلہ فلسطین کو دوبارہ زندہ کیا ، کیا اسے عالم اسلام کے لئے خطرہ بنا کرپیش کرنا اور صہیونیوں کے سنگین جرائم کے مقابلے میں سکوت اور خاموشی خیانت نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کوفراموش کرنے کی سازش کے خلاف ایرانی عوام کی استقامت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: مسئلہ فلسطین ہمارےلئے کوئی ٹیکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ اس کی جڑیں ہمارے اعتقادات سے وابستہ ہیں اور ہم اس اسلامی ملک کی غاصب صہیونیوں اور ان کے حامیوں سے آزادی کو اپنا مذہبی اور دینی فریضہ سمجھتے ہیں، اور دوسری مسلم اقوام اور اسلامی حکومتوں کو بھی مسئلہ فلسطین پر اسی زاویہ سے دیکھنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جیسا کہ امید کاستارہ ایک بارانقلاب اسلامی کی کامیابی میں چمکا، ایک بار دفاع مقدس میں روشن ہوا اورایک بار آزادگان کی رہائی اور وطن واپسی کے وقت درخشاں ہوا اللہ تعالی کےفضل و کرم سے اسی طرح امید کا ستارہ ایک بار مسئلہ فلسطین کےافق پربھی روشن ہوگا، اوریہ اسلامی سرزمین یقینی طورپرایکبارپھر فلسطینیوں کی آغوش میں واپس آجائے گي اوراسرائیل کی جعلی اورغاصب حکومت صفحہ روزگار سے محوہوجائےگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوسرےحصہ میں مشرقی آذربائیجان میں آنےوالے زلزلہ سے متاثرہ افراد کےساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کیا اور اسے پوری ایرانی قوم کےلئے درد وغم کاباعث قراردیا اورحکام پر زوردیا کہ وہ زلزلہ سے متاثرہ افراد کی مشکلات کوکم کرنے کے سلسلے میں تلاش وکوشش کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے زلزلہ سے متاثرہ افراد کے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ سےصبر تحمل اور ان کےدلوں کو آرام و سکون پہنچانےکی دعا کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سرافراز آزادگان کو ایمان کا ذخیرہ اور باز یافتہ گوہر قراردیتےہوئے فرمایا: قیداوراسارت کے مشکل دور نےہمارےآزادگان کو درخشاں جواہرات اورچمکتےہوئے موتیوں میں تبدیل کردیاہے۔