Super User

Super User

رمضان المبارک کے آخري جمعہ یعنی جمعۃ الوداع کو ايران اور دنيا بھر کے مسلمان روزہ دار ايک بار پھر ساٹھ سال سے زيادہ عرصے سے جاري اسرائيلي کے مجرمانہ اقدامات کي مذمت اور فلسطين کے مظلوم عوام کي حمايت ميں اپني آواز بلند کریں گے- عالمي يوم القدس ايران اور دنيا بھر ايسے وقت ميں منايا جائے گا کہ جب امام خميني کي تحريک اور ايران کے اسلامي انقلاب سے پيدا ہونے والي اسلامي بيداري کي موجیں پورے عالم اسلام میں پھیل چکی ہں اور حريت پسندي اور فلسطين کے مظلوں لوگوں کي حمايت مسلمانوں کي تحريکوں کا مرکزي عنوان بن گيا ہے۔ اسرائيل مردہ بادہ کے نعرے آج ايسے وقت ميں پوري دنيا کے حريت پسندوں کے زبان پر گونج رہے ہيں کہ جب امام خميني (رح) کے جانشين آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے ايران کے بيدار اور غیور عوام کي بابصريت رہنمائي کے ذريعے، بيت المقدس کي رہائي اور اسرائيل کي نابودي کو بہت حدتک قريب کر ديا ہے- يہي وجہ ہے کہ یوم القدس کے مظاہروں ميں دنيا بھر کے حريت و آزادي کے متوالوں کي بھرپور شرکت جہاں امام خميني کي آواز پر ليبيک کہنا ہے وہيں آيت اللہ العظمي خامنہ اي کي دعوت پر بھي لبيک کہنا ہے جو شروع ہي سے مسئلہ فلسطين کو عالم اسلام کا اولين مسلہ قرار ديتے چلے آئے ہيں۔

آج فلسطین کی غیور ملت نے مزاحمت اور جہاد و شہادت کے جوہر عظیم کی شناخت کرکے عزت و سعادت کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ ارض فلسطین کی آزادی کیلئے ہزاروں قیمتی لوگ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں، ان میں عام لوگ بھی ہیں اور تحریک آزادی کے قائدین اور مجاہدین بھی۔ گذشتہ برسوں میں ڈکٹر فتحی شقاقی، شیخ احمد یٰسین، ڈاکٹر رنتیسی اور حماس و جہاد اسلامی کے قائدین کی عظیم قربانیوں نے شجاعت کی جو داستانیں رقم کی ہیں وہ مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں اپنے مقصد کے حصول کیلئے قربانیاں پیش کرنے اور جانوں پر کھیلنا سیکھ جاتی ہیں، انہیں زیادہ دیر تک غلام اور زیر نگیں نہیں رکھا جاسکتا۔ ویسے بھی ظلم و طاقت کے زور پر کب تک یہ تاریکی چھائی رہے گی۔ جوان اپنی جوانیاں لٹا کر اور مائیں اپنے بچوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اس تاریکی کو صبح نو میں تبدیل کر کے چھوڑیں گی۔

ظلم کی یہ سیاہ رات جسے اسرائیل کی صورت میں برطانیہ و امریکہ نے دنیا پر مسلط کیا، ایک دن ختم ہو کر رہے گی۔ آج نہیں تو کل دنیا اس ناجائز صیہونی ریاست کے وجود سے پاک ہوگی اور وہ دن کتنا خوبصورت اور خوشگوار ہوگا جب دنیا کے نقشہ سے اسرائیل کا وجود مٹ جائے گا اور ہم سب مل کر ارض مقدس میں قبلہء اول کے اندر نماز ادا کریں گے اور دنیا میں امن و سلامتی کا راج ہوگا اور عالمی یوم القدس بھی قدس میں ہوگا جہاں شہیدوں کو یاد کرکے آزادی کے نغمے گنگنائے جائیں گے۔

ميانمار کے صوبے راخين کے روہنگيا مسلمانوں کے پناہگزين کيمپ ميں انساني الميہ رونما ہونے کا خدشہ پيدا ہوگيا ہے-

موصولہ خبروں کے مطابق اگرچہ ميانمار کي حکومت نے او آئي سي کو روہنگيا مسلمانوں کو انساني امداد پہنچانے کي اجازت دے دي ہے تاہم راخين کے مسلم پناہ گزين کيمپ ميں انساني الميہ کا خدشہ پيدا ہوگيا ہے-

پريس ٹي وي کے نمائندے کے مطابق پناہ گزين کيمپ ميں غذائي اشياء اور دواؤں کی شديد قلت ہے اور پچھلے چاليس روز کے دوران اٹھارہ افراد جانبحق ہوگئے جن ميں متعدد کمسن عمر بچے بھي شامل ہيں-

اس رپورٹ کے مطابق شمال مغربي ميانمار کے مسلم آبادي والے علاقوں ميں متعدد گاؤں جل کر خاکستر ہوچکے ہيں اور ان ميں رہنے والے ہزاروں لوگ کھلے آسمان تلے زندگي گزارنے پر مجبور ہيں-

مقامي لوگوں کا کہنا ہے کہ انتہا پسند بودھسٹوں کے حملے ميں مقامي سيکورٹي اہلکار برابر کے شريک تھے اور انہوں نے بودھسٹوں کو لوٹ مار اور آگ لگانے کي کھلي چھٹي دے رکھي تھي-

علاقے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ حکومت کے حمايت يافتہ بودھسٹ حملہ آوروں نے علاقے کی مسجد کو بھي نذر آتش کرديا ہے-

يہ ايسي حالت ميں ہے کہ راخين کا پناہگزين کيمپ سب سے اچھا تصور کيا جاتا ہے اور اسي ميانمار کي حکومت نے اس کے دورے کي اجازت بھي دے دي تھي-

دوسري جانب حکومت ميانمار نے اسلامي تعاون تنظيم اور ديگر امدادي اداروں کو مغربي علاقوں کے مسلمانوں کو امداد پہنچانے کي بھي اجازت دے دي ہے-

اسلامي تعاون تنظيم او آئي سي نے حکومت ميانمار سے اپيل کي تھي کہ وہ اسلامي ملکوں اور ديگر امدادي اداروں کو راخين صوبے کے بے گھر ہونے والے مسلمانوں کو امداد پہنچانے کي اجازت دے-

اسلامي تعاون تنظيم کے وفد نے ميانمار کے صدر سے بھي ملاقات کي ہے جس ميں روہنگيا مسلمانوں کو امداد پہنچانے کے طريقہ کار پر تبادلہ خيال کيا گيا-

ميانمار ميں ہونے والے مسلم کش فسادات ميں دوہزار سے زيادہ مسلمان جانبحق ہوئے تھے-

حکومت ميانمار کے حمايت يافتہ انتہا پسند بودھسٹوں نے مسلم آبادي والے علاقوں کو لوٹ مار کرنے کے بعد آگ لگادي تھي-

کہا جارہا ہے کہ مسلم کش فسادات کے دوران پانچ ہزار سے زيادہ گھروں کو نذر آتش کيا گيا ہے-

جسکے نتيجے ميں ہزاروں کي تعداد ميں مسلمان بے گھر ہوئے ہيں-

روہنگيا کہلائے جانے والے مسلمانوں کي تعداد آٹھ لاکھ کے قريب بتائي جاتي ہے اور انہيں ميانمار ميں سرکاري سطح پر سماجي اور معاشي ظلم و ستم کا سامنا ہے-

حکومت ميانمار روہگيا مسلمانوں کو اپنے ملک کا شہري تسليم نہيں کرتي حالانکہ اس ملک ميں مسلمان اس وقت سے آباد ہيں جب ميانمار ايک آزاد ملک بھي نہيں تھا-

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے دنیا کے نئے نظام میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پوزیشن کو مزید بہتر بنانے میں ایرانی یونیورسٹیوں کے طلباء اور معاشرے کے ذہین افراد کے کردار کو اہم اور مؤثر قرار دیا –

رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمي سید علی خامنہ ای نے یونیورسٹیوں کے سینکڑوں اساتذہ اور محققین کی ملاقات میں دنیا کونئے سیاسی ، اقتصادی اور اجتماعی نظام کی طرف گامزن بتاکر اس سلسلے میں ایرانی قوم کی عظیم تاریخی پوزیشن پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا :ایران کے ذہین افراد بالخصوص طلباء اس نازک اور حساس تاریخی مرحلے میں اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے دنیا کے نئے نظام میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پوزیشن کو مزید بہتر بنانے میں کردار ادا کریں –

حضرت آيت اللہ العظمي سید علی خامنہ ای نے اسلامی بیداری کو دنیا میں رونما ہونیوالی گہری تبدیلیوں کی ایک علامت قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا :مختلف اسلامی اقوام میں اسلام پر مبنی بیداری اور تشخص ، دنیا کے آئندہ نظام میں بڑی تبدیلی اور نیا نظام قائم ہونے کی نشاندہی کررہی ہے –

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے مغربی ایشیاء پر قبضہ جمانے میں امریکہ کی ناکامی کو دنیا کےموجودہ نظام میں تبدیلی کی ایک اور نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ دنیا کے اس حساس اور بڑی اہمیت کے حامل خطے پر تسلط قائم کرنے کےسلسلے میں افغانستان اور عراق پر قبضہ جمانے کےلئے امریکی کوشش کی ناکامی، اس بات کی ایک اور واضح علامت ہے کہ دنیا کے موجودہ نظام میں گہری تبدیلی آنیوالی ہے –

حضرت آيت اللہ العظمي سید علی خامنہ ای نے یورپ میں موجودہ بحران اور بڑی طاقتوں کے مبہم مستقبل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ اس خطے کی مشکلات اسٹرٹیجیک غلطیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اصل وجہ انکی آئیڈیالوجی میں بنیادی غلطی ہے –

آپ نے دنیا میں امریکہ کی بگڑتی ہوئی شبیہہ اور اسکے خلاف نفرتوں میں اضافے کو اس بات کی ایک اور نشانی قرار دی کہ جس سے موجودہ نظام کے ایک نئے نظام کی طرف گامزن ہونے کا پتہ لگایا جا سکتا ہے –

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے وضاحت کی کہ ثروت ،سائنس، سول اور فوجی ٹکنالوجی میں سپر طاقت ہونے کی وجہ سے امریکہ کی شبیہہ کو کئی دہائیوں تک اقوام عالم میں اچھی حیثیت حاصل تھی لیکن آج کل نہ صرف اس ملک کی شبیہہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ اقوام عالم اسے ایک منہ زور ، ظالم ،دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں دخیل اور آتش جنگ برپا کرنیوالی طاقت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں -

حضرت آيت اللہ العظمي سید علی خامنہ ای نے ان تبدیلیوں میں طلباء کے اہم کردار پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ حق کے محاذ کےلئے کوشش اور جد وجہد کا فروغ ، در اصل سافٹ جنگ کی قیادت ہے جسکی ذمہ داری یونیورسٹیوں کے اساتذہ پر عائد ہے –

آپ نے مذہب پر مبنی جمہوریت ،معنویت پر مبنی تہذیب اور سیاسی و اقتصادی اور اجتماعی شعبوں میں زندگی اور مذہب کی ملاوٹ کو اقوام عالم کےلئے ایرانی قوم اور اسلامی نظام کی نئی بات قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایرانی عوام ، حکام اور ذہین افراد ،دشمن کی دھمکیوں ،دہشتگردی ،قتل عام اور تفرقہ ڈالنے کی سازشوں کا مقابلہ کررہے ہیں اور اس حقیقت نے اس عظیم ملک کو خاص حیثیت بخشی ہے -

افغانستان كے صوبہ بلخ ميں شعبہ اطلاعات و ثقافتي امور كے سربراہ نے بتايا كہ اسلامي جمہوريہ ايران كے سفارتي افراد اور نامہ نگاروں كي شہادت كي سالانہ ياد كے موقع پر "خيابان ابو مسلم خراساني" كا صنام بدل كر "خيابان شہدائے سفارتي ايران"كے نام پر ركها جائے گا۔

جمہوريہ افغانستان كي مركزي خبررساں ايجنسي كے مطابق،صالح محمد خليق نے مزيد كہا:"خيابان ابو مسلم خراساني"كو بلخ كے مئير كے مشورے سے "شہدائے سفارتي ايران"كے نام سے تبديل كيا جائے گا۔

انہوں نے كہا:چونكہ ان شہدا كي شہادت كے وقت ايراني قونصل خانہ اسي جگہ پر واقع تها اور لوگوں كے درميان بهي يہ سڑك ايراني قونصل خانہ كے نام سے معروف ہے لہٰذا ان شہدا كي تكريم كے لئے يہ فيصلہ ليا گيا ہے۔

خليق نے مزيد وضاحت كرتے ہوئے كہا: ايران و افغانستان كے درميان پائے جانے والے مضبوط تعلقات كي بنا پر ايران كے دارلحكومت تہران ميں بهي ايك سڑك افغانستان كے ايك مرد مجاہد اور قومي ہيرو"احمد شاہ مسعود"كے نام سے موسوم ہے۔

Sunday, 12 August 2012 07:02

نیوجی مسجد – بيجنگ

نیوجی مسجد چین کے دارالحکومت بیجنگ کی سب سے قدیم مسجد ہے جو 996ء میں تعمیر ہوئی۔

یہ بیجنگ کے مسلم آبادی کے علاقے ژوان وو ضلع میں واقع ہے جہاں تقریباً دس ہزار مسلمان رہتے ہیں۔ یہ مسجد 6 ہزار مربع میٹرز پر پھیلی ہوئی ہے۔

مسجد میں اسلامی اور چینی ثقافتوں کا ملاپ نظر آتا ہے۔ باہر سے یہ روایتی چینی طرز تعمیر سے متاثر نظر آتی ہے اور اندر اسلامی انداز جھلکتا ہے۔

996ء میں تعمیر کے بعد 1442ء میں منگ خاندان کی حکومت کے دوران اس مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا گیا اور چنگ خاندان کی حکومت میں 1696ء میں اس میں توسیع کی گئی۔

1949ء میں عوامی جمہوریۂ چین کے قیام کے بعد مسجد تین مرتبہ 1955ء، 1979ء اور 1999ء میں تزئین و آرائش کے مراحل سے گذری۔

بیجنگ کی بلدیاتی حکومت اس علاقے میں ایک رہائشی منصوبے کی تعمیر شروع کر چکی ہے۔ نیوجی کے گرد 35.9 ہیکٹر پر پھیلے اس علاقے میں 7 ہزار 500 خاندان منتقل ہوں گے جن میں سے 58 فیصد مسلمان ہوں گے۔ اس منصوبے کے نتیجے میں نیوجی کا علاقہ مسلم انداز کے تجارتی علاقے میں تبدیل ہو جائے گا جس کا مرکز یقینی طور پر نیوجی مسجد ہوگی۔

ميانمار ميں مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند بودھسٹوں کے مظالم بدستور جاري ہيں اور انہوں نےمسلمانوں کي ايک مسجد کو آگ لگادي ہے

پريس ٹي وي کے مطابق ميانمارکے انتہا پسند بودھسٹوں نے مغربي صوبے راخين ميں ايک مسجد کو آگ لگادي خبروں ميں بتايا جارہا ہے کہ اس وقت راخين ميں حالات انتہائي کشيدہ ہيں پچھلے دنوں اس صوبے ميں انتہا پسند بودھسٹوں کے ہاتھوں دوہزار کے قريب مسلمانوں کا بے دردي کے ساتھ قتل عام کيا گيا ہے ميانمار ميں مسلمانوں کے حاليہ قتل عام کے واقعات کے بعد ہزاروں کي تعداد ميں روہنگيا مسلمان بے گھر ہوگئے ہيں

ميانمار کے مسلمانوں پر ظلم کے يہ پہاڑ ايک ايسے وقت توڑے جارہے ہيں جب عالمي برادري اور خاص طور پر امريکا و مغربي ممالک خاموش تماشائي بنے ہوئے ہيں ان کے ساتھ ساتھ سعودي عرب اور قطر جيسے ملکوں کي طرف سے بھي اس واقعے پر کوئي بيان سامنے نہيں آيا ہے

ہندوستان کے اہم شہر ممبئی میں سینکڑوں مسلمانوں نے میانمار اور آسام میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور انہیں غیر ملکی قرار دینے کی سازشوں کے خلاف زبردست احتجاج کیا-

ہندوستانی ذرائع کے مطابق آج سینکڑوں مسلمانوں نے رضا اکیڈمی کی کال پر ممبئی کے آزاد میدان میں اجتماع کیا – اس موقع پر مظاہرین نے میانمار اور آسام میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور انہیں غیر ملکی قراردے کر شہری حقوق سے محروم کرنے کےلئے بعض فرقہ پرست جماعتوں کی سازشوں کی شدید مذمت کی –

اس احتجاج کے دوران بعض مشتعل افراد کی جانب سے سنگباری کے نتیجے میں کئی گاڑیوں اور بسوں کو نقصان پہنچا–

پولیس نے اس موقع پر مظاہرین کو منتشر کرنے کےلئے ہوائی فائرنگ کی اور مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا -

ہندوستان سے موصولہ تازہ اطلاع کے مطابق اس مظاہرے کے دوران دو افراد ہلاک اور چالیس دیگر زخمی ہوگئے -

ایران کےشمال مغربی صوبہ "مشرقی آذربائیجان" کے شھر اھر، ورزقان اور ھریس میں رونما ہونیوالے دو شدید زلزلوں میں جان بحق ہونیوالوں کی تعداد بڑھ کر250 ہوگئی جبکہ اس سانحے میں کم از کم دو ہزار افراد زخمی ہیں –

جيولوجيکل سروے کے مطابق پہلے زلزلے کي شدت 6.4 اور اس کے گيارہ منٹ بعد آنے والے زلزلے کي شدت6.3 ريکارڈ کي گئي.

ہونیوالے زلزلوں میں 60 کے قریب دیہاتوں کو شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ چار گاؤں مکمل طور پر ویران ہوگئے ہیں -

صوبہ مشرقی آذربائیجان کے کرائسز منیجمینٹ کے سربراہ خلیل ساعی کے مطابق زلزلوں سے متاثرہ مقامات پر امدادی کارروائیاں جاری ہیں اور زخمیوں کو طبی امداد کے لئے ہسپتال منتقل کیا جارہا ہے- ملبے ميں پھنسے لوگوں کو نکالنے اور زخميوں کو اسپتال منتقل کرنے کا کام رات ميں بھي جاري رہی تاہم بجلي اور مواصلاتي نظام متاثر ہونے کي وجہ سے امدادي کارروائيوں ميں مشکلات کا سامنا ہے-

حکام کے مطابق زلزلے سے شہري علاقوں ميں نقصان نہيں ہوا اورتمام اموات ديہي علاقوں ميں ہوئي ہيں-

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے زلزلے سے جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقين سے تعزيت اور ہمدردي کا اظہار کرتے ہوئے مقامي حکام کو ہدايت کي کہ متاثرہ علاقوں ميں امدادي کارروائياں تيز کي جائيں-

ايران ميں زلزلوں سے تباہي اور اموات پر پاکستان کے صدر آصف علي زرداري اور وزير اعظم راجہ پرويز اشرف سميت دنيا بھر کے حکمرانوں نے دکھ اور افسوس کا اظہارکيا ہے.پاکستاني حکومت نے ايران کو مدد کي پيشکش بھي کي ہے.

صحيفہ سجاديہ سے بہتر آشنائي

خدا كي طرف توجہ اور اس كي ذات پر بهروسہ، معنويت اور قرآن اور دعاؤں من جملہ صحيفۂ سجاديہ سے انسيت، يونيورسٹي كے طلباءاوراساتيذ كي كوششوں ميں بركت عطا كرتي ہے اور ان لوگوں كي سازش كو ختم كرنے كا سبب بنتي ہے جن كا هدف ان كے ديني، انقلابي اور سماجي جذبہ كو ختم كرنا ہے۔(اسلامي انقلاب كے قائد كا شيراز يونيورسٹي كے طلباء سے خطاب)

 

دعا اسلامي تعليمات كا سرچشمہ

صحيفۂ سجاديہ سے آشنائي كو معارف اسلامي سے آشنائي كا مقدمہ قرار ديا جاسكتا ہے انسان "عقائد" "اخلاق" اور "ديني معلومات" كے لئے صحيفۂ سجاديہ كي طرف رجوع كرسكتا ہے۔دين سے آشنائي كے لئے ايسے منابع پاۓ جاتے ہيں جو اطمينان و يقين اور صحت سے بہرہ مند ہيں اور جن كا ريشہ كلام خدا اور علم لدني سے ملتا ہے۔ ان ميں سے بعض منابع يہ ہيں:

۱۔ قرآن كريم

۲۔ پيغمبر (ص) اور ائمۂ معصومين عليهم السلام كي احاديث

۳۔ معصومين عليهم السلام كي دعائيں

۴۔ ماثورہ زيارات

 

ہماري بحث كا محور ان منابع ميں سے ايك كے بارے ميں ہے يعني وہ دعائيں جو امام سجاد (ع) كي زبان سے بيان ہوئي ہيں اور ہم تك پہونچي ہيں اور جو بہت ہي اعلي اور ظريف معارف كي حامل ہيں۔ ہميں دعاؤں كے اس مجموعہ كي قدر كرني چاہيئے اور اس سے مانوس ہونا چاہيئے اور اپنے شب و روز كو ان دعاؤں كے ذريعہ معنوي بنانا چاہيئے۔ اہل بيت عليهم السلام اہلدعا اور ذكر تهے اور قرآن بهي دعا كي تاكيد كرتے ہوۓ فرمارہا ہے "ادعوني استجب لكم" لهذا پيروان اہل بيت كو بهي اہل دعا اور تضرع ہونا چاہيئے۔

 

شايد ہماري فكر و فہم اس بات سے قاصر ہو كہ ہميں خدا سے كيا مانگنا چاہيئے ور اس كي بارگاہ ميں ہميں كيا دعا كرنا چاہيئےليكن اس ميدان ميں بهي اولياء الہي ہمارے قائد ہيں جو اعلي اور ظريف دعاؤں كو مطرح كركے، جو ہماري دنياوي اور اخروي سعادت سے مربوط ہيں ہمارے فہم كي سطح اور دعا كرنے كے طريقہ كو حد درجہ بالا لے جاتے ہيں اور ہم ان دعاؤں كے پڑهنے كے ذريعہ سے معصومين عليهم السلام اور اس كے پاك اور مقرب بندوں كے ہم نوا ہوجاتے ہيں اور خدا كو اس كي حجت كي زبان سے آواز ديتے ہيں اور دعا كے ميدان ميں بهي اہل بيت عليہم السلام كے مكتب كے شاگرد ہوجاتے ہيں۔

 

دعاؤں كي بحث ميں بہت سي سرخياں پائي جاتي ہيں جن كي طرف توجہ كرنا ضروري ہے:

دعا كے معنا اور اس كي اہميت، دعا اور اس كي ضرورت، دعا كے روحي، فردي، اور سماجي آثار، دعا كے آداب، دعا كرنے كا صحيح طريقہ، دعا كے قبول ہونے كے شرائط، دعا كے قبول ہونے ميں پيش آنے والے موانع، دعا اور اس كے قبول ہونے كے بارے ميں بحث، بعض دعاؤں كے قبول نہ ہونے كي وجہ، ائمہ عليهم السلام اور اولياء الہي كي دعائيں،(ماثورہ دعائيں)دعا كے بارے ميں علماء و عرفاء كے حالات اور ائمہ كي سيرت، دعا اور عمل (دعا كے ساته عمل) دعا اور سرنوشت و مقدرات، دعا كا فايدہ، وہ لوگ جن كي دعائيں قبول نہيں ہوتي، مستجاب الدعوۃ(وہ لوگ جن كي دعائيں قبول ہوتي ہيں) دعا اور بد دعا، (كسي كے فايدہ كے لئے يا نقصان كے لئے دعا كرنا) اپنے اور دوسروں كے كے لئے دعائيں كرنا، قرآني دعائيں۔

 

امام سجاد عليہ السلام اور دعا

واقعہ كربلا كے بعد امام سجاد عليہ السلام نا مساعد حالات ميں اموي حاكموں كي طرف سے پے در پے زير نظر تهے اور امام كي رفت آمد ان كے زير نظر تهي اس طرح سے كہ امامؑ كو گهر ميں نظر بند كرديا تها اور آپ كے گهر ميں آپ كے چاہنے والوں كو جانے كي اجازت نہيں تهي تاكہ لوگ امامؑ كے ذريعہ معارف الہي سے استفادہ نہ كرسكيں۔

امام سجاد عليہ السلام نے ان درد ناك حالات ميں ظلم و جارحيت كے هجوم ميں تنها موثر اسلحہ دعا اور مناجات كو قرار ديا اور الہي اور نوراني رسالت كو دعا كي شكل ميں لوگوں كے سامنے پيش كيا حقيقت ميں دعا كي تاثير ان درد ناك شرائط ميں جنگ سے زيادہ موثر تهي يہاں تك كہ امام خمينيؒ اپنے سياسي اور الہي وصيت نامہ ميں اس كو قرآن صاعد كے نام سے ياد كرتے ہيں اور اس كو زبور آل محمد كا نام ديتے ہيں امام فرماتے ہيں: ہم اس بات پر افتخار كرتے ہيں كہ حيات بخش دعائيں جن كو قرآن صاعد كہا جاتا ہے وہ ہمارے ائمہ سے وارد ہوئي ہيں ۔ وصيت نامہ امام خميني ص ۳

يہ دعائيں اور مناجات صحيفۂ سجاديہ كے نام سے مشہور ہيں اور قرآن و نہج البلاغہ كے بعد معارف الہي اور حقايق كا غني ترين خزانہ ہےاس طرح سے كے اسے بزرگ شيعہ علماء نے اخت القرآن، انجيل اہل بيتؑ اور زبور آل محمد عليهم السلام كا نام ديا ہے _معالم العلماء ص ۱۳۵_

 

صحيفہ سجاديہ

صحيفہ سجاديہ كاملہ ۷۵ دعاؤں پر مشتمل ہے جس كو امام سجادعليہ السلام نے املأ كيا ہے اور امام باقر عليہ السلام اور انكے بهائي جناب زيد بن علي نے اس كو دو نسخوں ميں لكها ہے۔

متوكل بن هارون موجودہ صحيفہ سجاديہ كا پہلا راوي كہتا ہے: سفر حج كے بعد ميں نے يحيي بن زيد بن علي (ع) سے ملاقات كي اور ان كو جناب زيد كي شہادت كے بارے ميں امام صادق كے حزن و غم سے آگاہ كيا اور ان سے كہا كے امام صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ يحيي بهي اپنے والد زيد كي طرح شہيد كردئے جائيں گے اس گفتگو كے بعد (جو صحيفہ سجاديہ كے مقدمہ ميں آئي ہے ) يحيي نے امام سجاد عليہ السلام كي دعاؤں كا ايك نفيس مجموعہ كہ جو جناب زيدكے ذريعہ لكها گيا تها متوكل كے حوالہ كيا تاكہ ان كي شہادت كے بعد بني اميہ كے ہاته نہ لگ جاۓ۔

متوكل اس نسخہ كو امام صادق عليہ السلام كے سامنے پيش كرتے ہيں اور جب اس كو امام باقر عليہ السلام كے ذريعہ تحرير شدہ نسخہ سے ملاتے ہيں تو دونوں ميں كوئي فرق نہيں پاتے ہيں۔ وہ ۷۵ دعاؤں ميں سے ۶۴ دعائيں لكهتے ہيں ليكن موجودہ نسخہ ميں ۵۴ دعائيں ہيں۔

دور حاضر ميں ہم شيعوں كے پاس جو نسخہ ہے وہ صحيفہ سجاديہ كاملہ ہے جو ۵۴ دعاؤ پر مشتمل ہے۔ اس كتاب كو صحيفہ كاملہ اس لئے كہتے ہيں كيوں كہ اس كتاب كے دونسخے تهے ايك چهوٹا جو زيديہ كے پاس تها جو اس كتاب كا آدها تها اور ايك بزرگ كے جو صحيفہ كاملہ ہے۔يہ نسخہ سن ۵۱۶ قمري ميں امام علي عليہ السلام كے حرم كے خازن ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن شهريار نے اسے ابومنصور محمد عكبوي سے سنا اور اس نے اسے شيباني سے دريافت كيا جہاں تك شيباني ثقہ نہيں ہے وہيں اصلي راوي متوكل بن هارون كي وضعيت بهي مشخص نہيں ہے اور اس كي شخصيت بهي مجهول ہے۔ شيعہ متقدمين كے درميان صحيفہ سجاديہ كي طرف زيادہ توجہ نہيں كي جاتي تهي يہاں تك كے محمد تقي مجلسيؒ نے خواب ميں ديكهنے كے بعد اس دعا كو لوگوں كے درميان رائج كيا۔ البتہ دوسرے مولف كي نقل كے مطابق نجم الدين بها الشرف ابو الحسن علويم قرن ۶ قمري (۳۸۔ ۹۸ هق) كي كتاب امام علي بن حسين عليہ السلام سے روايت ہوئي ہے اور اس كا وقف كرنے والا عندليب ہے۔

امام عليہ السلام نے بہت سے اسلامي معارف كو صحيفہ سجاديہ كي دعاؤں كي شكل ميں بيان كيا ہے۔ اس طرح سے ہم ديكهتے ہيں كہ اس كتاب كي دعاؤں ميںخدا شناسي، دنيا شناسي، علم غيب اور فرشتہ، انبياء كي رسالت، پيغمبر (ص) اور اہلبيت عليهمالسلام كا مقام ، فضائل اور رزائل اخلاقي، انسان كےخاص حالات، شيطان كے انسان كو گمراہ كرنےكےمختلف طريقہ، قدرت خدا، خدا كي مختلف نعمتوں كي ياد آوري اور اس كے مقابلہ ميں انسان كا شكريہ كرنے كا وظيفہ، پروردگار كي آفاقي اور انفسي نشانياں، دعا كرنے كے آداب اور اس كا طريقہ، تلاوت، ذكر، عبادت و و و۔۔ اور دوسرے دسيوں موضوع كے بارے ميں ظريف ترين مطالب مطرح كئے گئے ہيں۔جس كا انداز دعا اور عبادتہے ليكن مضمون دين اور اخلاقي خصوصيات، معارف قرآني،وظايف عبادي اور آداب بندگي كو بيان كرنا ہے۔ (جواد محدثي ، صحيفہ سجاديہ، زبور آل محمد "ص" )

مقالہ نگار: علم الهدي

Saturday, 11 August 2012 06:03

شب قدر کے حقيقي معني

لغت ميں ''قدر'' کے معني مقدار اور اندازہ کرنے کے ہيں(1) - ''تقدير'' بھي اندازہ کرنے اور معين کرنے کو کہتے ہيں (2) ليکن ''قدر'' کے اصطلاحي معني کسي چيز کے وجود کي خصوصيت اور اس کي پيدائش کي کيفيت کے ہيں (3) دوسرے لفظوں ميں يہ کہا جائے کہ ہر چيز کے وجود کي محدوديت اور اندازے کو ''قدر'' کہتے ہيں(4) -

حکمت الہي کے نظريہ کے مطابق خلقت کے نظام ميں ہر چيز کا ايک خاص اندازہ ہے اور کسي بھي چيز کو بغير حساب و کتاب کے خلق نہيں کيا گيا ہے - اس دنيا کا بھي حساب و کتاب ہے اور يہ رياضي کے حساب کي بنياد پر تنظيم ہوئي ہے ، اس کا ماضي، حال اور آئندہ ايک دوسرے سے مرتبط ہے - استاد مطہري نے قدر کي تعريف ميں فرمايا: '' ... قدر کے معني اندازہ اور معين کرنے کے ہيں... حوادث جہاني ... چونکہ اس کي حديں، مقدار اور زماني و مکاني موقعيت معين کي گئي ہيں ، لہذا يہ تقدير الہي کے اندازے کے مطابق ہے(5) - پس خلاصہ يہ کہ ''قدر'' کے معني کسي چيز کي جسماني اور فطري خصوصيات کے ہيں جس ميں شکل، طول، عرض اور زماني و مکاني موقعيت شامل ہے اور يہ تمام مادي اور فطري موجودات کو اپنے دائرہ ميں لئے ہوئے ہے -

يہي معني روايات سے بھي استفادہ ہوتے ہيں ، جيسا کہ ايک روايت ميں امام رضا(عليہ السلام) سے سوال کيا گيا: قدر کے کيا معني ہيں؟: امام (عليہ السلام) نے فرمايا: ''تقدير الشئي ، طولہ و عرضہ''- ہرچيز کا اندازہ جو طول و عرض کے اعتبار سے وسيع تر ہو (6) ،ايک دوسري روايت ميں امام رضا (عليہ السلام) نے قدر کے معني بيان کرتے ہوئے فرمايا: ہرچيزکا اندازہ جو طول و عرض اور باقي رہنے کے اعتبار سے وسيع تر ہو(7) -

اس بناء پر تقدير الہي کے معني يہ ہيں کہ مادي دنيا ميں مخلوقات اپنے وجود ، آثاراور خصوصيات کے اعتبار سے محدود ہيں اور يہ محدوديت ،خاص امور سے مرتبط ہے ايسے امور جو اس کي علت اور شرايط ہيں، اور علل و شرايط اور وجود کے مختلف ہونے کي وجہ سے موجودات کے آثار اور خصوصيتيں بھي مختلف ہيں، ہر مادي موجود کو مخصوص پيمانے کے ذريعہ اندر اور باہر سے اندازہ کيا جاتا ہے - يہ قالب ، حدوديعني طول ، عرض، شکل،رنگ ، مکان اور زمان کي کيفيت اور تمام عوارض، مادي خصوصيات شمار کي جاتي ہيں ، لہذا مادي موجودات ميں تقدير الہي کا مطلب يہ ہے کہ موجودات کو ان کے شايان شان وجود کي طرف ہدايت کرنا جو ان کے لئے مقدور ہوا ہے (8) -

ليکن قدر کي فلسفي تعبيرکے اعتبار سے اصل عليت ہے '' اصل عليت يعني حوادث کا ايک دوسرے کے ساتھ ضروري اور قطعي ارتباط - اور دوسرے يہ کہ ہر حادثہ کا ضروري اور يقيني ہونا نيز اپنے وجود کي خصوصيات اور تقدير کو ايک امر يا امور سے مقدم سمجھنا (9) -

پوري دنيا اور تمام حوادثات کے اوپر اصل عليت اور نظام اسباب و مسببات حاکم ہے اور ہر حادثہ اپنے وجود کي ضرورت نيز زماني اور مکاني خصوصيت ، شکل و صورت اوراپني دوسري تمام خصوصيات کو اپني علتوں کے مقدمہ سے کسب کرتا ہے ، ہر وجود کے ماضي، حال اور استقبال اوراس کے متقدمہ علتوں کے درميان جدا نہ ہونے والا رابطہ پايا جاتا ہے (1ظ ) -

مادي موجودات کي علتيں فاعل، مادہ ، شرايط اور عدم مانع ہے اور ان ميں سے ہر ايک کا خاص اثر ہے اوريہ تمام تاثيرات ايک خاص وجود کے قالب کو تشکيل ديتے ہيں - اگر يہ تمام عليتں، شرايط اور عدم مانع ايک جگہ جمع ہوجائيں توعلت تامہ بن جائے گي اور اپنے معلول کو ضرورت اور وجود عطا کرتي ہے جس کو ديني متون ميں ''قضائے الہي'' سے تعبير کرتے ہيں ليکن ہر موجودکا اس کے علل و شرايط کو مدنظر رکھتے ہوئے ايک خاص قالب ہوتا ہے جو اپنے وجود کي خصوصيت اور عوارض کو تشکيل ديتا ہے اور ديني متون ميں اس کو ''قدر الہي '' سے تعبير کرتے ہيں -

قدر کے معني واضح ہونے سے شب قدر کي حقيقت کو سمجھنا ممکن ہوجاتا ہے - شب قدر وہ رات ہے جس ميں تمام مقدرات لکھے جاتے ہيں، اور ہر چيز کا معين قالب اور اندازہ تيار کيا جاتا ہے -

بہ عبارت ديگر ، شب قدر ، ماہ رمضان کي آخري دس راتوں ميں سے ايک ہے - ہماري روايات کے مطابق انيسويں يا اکيسويں يا تيسويں راتوں ميں کوئي ايک رات ، شب قدر ہے -(11) اس رات ميں (جس ميں قرآن کريم بھي نازل ہوا ہے)لوگوں کے تمام اچھے اور برے امور ، ولادت، موت، روزي، حج، طاعت، گناہ ، خلاصہ يہ کہ پورے سال ميں جو بھي حادثہ رونما ہونے والا ہے وہ سب امورمعين ہوتے ہيں(12) - شب قدر ہميشہ اور ہر سال آتي ہے ،اس رات ميں عبادت کرنے کا بے حد ثواب ہے اور ايک سال کي زندگي پر بہت زيادہ موثر ہے(913- اس رات ميں آنے والے سال کے تمام حوادث کو امام زمانہ کي خدمت ميں پيش کيا جاتا ہے اور آپ اپنے اور دوسروںکے حالات سے باخبر ہوجاتے ہيں - امام باقر(عليہ السلام) فرماتے ہيں : '' انہ ينزل في ليلة القدر الي ولي الامر تفسير الامور سنة سنہ، يومر في امر نفسہ بکذا و کذا و في امر الناس بکذا و کذا '' - شب قدر ميں ولي امر (ہر زمانہ کے امام) کو کاموں کي تفسير اور حوادث کي خبر دي جاتي ہے اور وہ اپنے اور دوسرے لوگوں کے کاموں کي طرف مامور ہوتے ہيں(14)

پس شب قدر وہ رات ہے :

1- جس ميں قرآن کريم نازل ہوا -

2- آئندہ سال کے حوادث اس رات ميں مقدر ہوتے ہيں -

3- يہ حوادث امام زمانہ (روحي و جسمي فداہ)کو پيش کئے جاتے ہيں، اورآپ کچھ کاموں پر مامور ہوتے ہيں -

اس بناء پر يہ کہا جاسکتا ہے کہ شب قدر ، تقدير، اندازہ گيري اور دنيا کے حوادث کو معين کرنے کي رات ہے -

يہ بات قرآن کريم کي آيات سے بھي ثابت ہے کيونکہ سورہ بقرہ کي 185 ويں آيت ميں فرمايا ہے : '' شھر رمضان الذي انزل فيہ القرآن'' ماہ رمضان ميں قرآن کريم نازل ہوا ہے - اس آيت کے مطابق قرآن کريم (نزول دفعي) ماہ رمضان ميں ہوا ہے - سورہ دخان کي تيسري آيت سے پانچويں آيت تک بيان ہوا ہے : '' انا انزلناہ في ليلة مبارکة انا کنا منذرين فيھا يفرق کل امر حکيم امرا من عندنا انا کنا مرسلين'' -

ترجمہ

اسي طرح سورہ قدر ميں تصريح ہوئي ہے کہ قرآن کريم شب قدر ميں نازل ہوا ہے -

مذکورہ تينوں آيتوں سے واضح ہوتا ہے :

1- قرآن کريم ماہ رمضان ميں نازل ہوا ہے -

2- قرآن کريم ماہ مبارک رمضان کي راتوں ميں سے مبارک رات ميں نازل ہوا ہے -

3- قرآن کريم ميں اس رات کا نام شب قدر ہے -

4- سورہ دخان کي آيات کے مطابق اس رات کي دو خصوصيتيں ہيں:

الف : قرآن کا نازل ہونا -

ب : اس رات ميں امرحکيمي جدا ہوتے ہيں -

ليکن سورہ قدر ميںجو کہ بمنزلہ سورہ دخان کي تفسير اور شرح کے ہے ، شب قدر کي چھ خصوصيات بيان ہوئي ہيں:

الف : شب قدر ، قرآن کريم کے نازل ہونے کي رات ہے (انا انزلناہ في ليلة القدر) -

ب : شب قدر کي عظمت و اہميت کسي کے اوپر روشن نہيں ہے (وما ادراک ما ليلة القدر) -

ج : شب قدر ہزار راتوں سے بہتر ہے - ''ليلة القدر خير من الف شھر''-

د : اس رات ميں ملائکہ اور روح رب العالمين کي اجات سے نازل ہوتے ہيں (تنزل الملائکة و الروح فيھا باذن ربھم) اور روايات ميں تصريح ہوئي ہے کہ يہ سب امام زمانہ کے قلب پر نازل ہوتے ہيں -

ھ : ان کا نازل ہونا ہر کام کے محقق ہونے کے لئے ہے جيسا کہ سورہ دخان ميں اس کي طرف اشارہ ہوا ہے (من کل امر) اور يہ نزول (جو کہ شب بيداري کرنے والے مومنين پر خدا کي خاص رحمت کے برابر ہے) طلوع فجر تک جاري رہتا ہے (سلام ھي حتي مطلع الفجر) -

و : شب قدر ميں تقدير ا ور اندازہ گيري ہوتي ہے کيونکہ اس سورہ ميں (جس ميں صرف پانچ آيتيں ہيں) تين بار ''ليلة القدر '' کي تکرار ہوئي ہے اور قرآن کريم کا يہ خاص اہتمام اس رات ميں اندازہ گيري اور تقدير کي وجہ سے ہے -

مرحوم کليني نے اپني کتاب کافي ميں امام صادق (عليہ السلام) سے نقل کيا ہے کہ آپ نے اس آيت ''انا انزلناہ في ليلة مبارکة'' کي تفسير کے جواب ميں فرمايا: جي ہاں شب قدر ايسي شب ہے جو ہر سال ماہ رمضان کي آخري دس راتوں ميں آتي ہے - اسي رات ميں قرآن کريم نازل ہوا ہے اور يہ ايسي رات ہے جس کے متعلق خداوند عالم نے فرمايا : ''فيھا يفرق کل امر حکيم'' اس رات ميں حکمت آميز امور معين اور جدا ہوتے ہيں، اس کے بعد فرمايا: '' پورے سال ميں جو بھي پيش آنے والا ہے وہ شب قدر ميں معين ہوتا ہے - خير و شر، طاعت و معصيت اسي طرح اگر کوئي بچہ پيدا ہونے والا ہے يا کسي کو موت آنے والي ہے يا کسي کو رزق ملنے والا ہے وہ سب اسي رات ميں معين ہوتے ہيں (15) -

حوالہ جات:

1- قاموس قرآن، سيد علي اکبر قرشي، ج5، ص 246 و 247-

2- گذشتہ حوالہ، ص 248-

3- الميزان ، سيد محمد حسين طباطبائي ،ج 12، ص 15ظ و 151-

4- گذشتہ حوالہ، ج 19، ص 1ظ 1-

5- انسان و سرنوشت ، شہيد مطہري ، ص 52-

6- المحاسن البرقي، ج 1، ص 244-

7- بحار الانوار، ج 5، ص 122-

8- الميزان، ج19، ص 1ظ 1- 1ظ 3-

9- انسان و سرنوشت ، شہيد مطہري ، ص53-