Super User

Super User

فلپائن ميں 12 دنوں سے جاري شديد بارشوں نے سيلاب کي شکل اختيار کر لي جس کے باعث 51 افراد ہلاک جبکہ 538,000 افراد بے گھر ہوگئے.

فرانسیسی خبررساں ایجنسی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ فلپائن ميں 12 دنوں سے جاري شديد بارشوں نے سيلاب کي شکل اختيار کر لي جس کے باعث 51 افراد ہلاک جبکہ 538,000افراد بے گھر ہوگئے. فلپائن کے دارالحکومت منيلا سميت کئي صوبوں ميں 12 دنوں سے جاري مون سون بارشوں اور سيلاب نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر ديا ،درياوں ميں پاني کي سطح 18فٹ سے بھي تجاوز کر گئي.حکومت نے خراب صورتحال پر قابوپانے کے ليے امدادي کام شروع کر دئيے ہيں۔ محکمہ موسميات کے مطابق بارشوں کے مسلسل جاري رہنے کا امکان ہے۔

پاکستان کے وزير خارجہ حنا رباني کھر نے کہا ہے کہ شام ميں بيروني مداخلت پہلے سے خراب صورت حال کو مزيد پيچيدہ کردے گي۔

رپورٹ کے مطابق انہوں نے تہران ميں 10(اگست 2012ء ) شام کے موضوع پر مشاورتي وزارتي اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شام کے بارے ميں اقوام متحدہ کے خصوصي نمائندے کوفي عنان کے استعفے سے پاکستان کو شديد مايوسي ہوئي ہے. کوفي عنان کے چھ نکاتي منصوبے سے شام ميں امن کي اميد پيدا ہوگئي تھي. انہوں نے شامي حکومت اور اپوزيشن گروپوں پر زور ديا کہ وہ عوام کي سلامتي کے لئے تحمل سے کام ليں. ان کا کہنا تھا کہ شام ميں عدم استحکام سے پورے خطے ، مسلم امہ اور دنيا کے لئے سنگين نتائج برامد ہوں گے. يہي وقت ہے کہ شام ميں خوں ريزي روکنے کے لئے مسئلے کا سب کے لئے قابل قبول حل تلاش کيا جائے.

Saturday, 11 August 2012 05:54

مسجد الاقصي

مسجد الاقصي

مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول اور خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔

مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصیٰ یا الحرم القدسی الشریف کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ 2000ء میں الاقصیٰ انتفاضہ کے آغاز کے بعد سے یہاں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔

 

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔

قرآن مجید کی سورہ الاسراء میں اللہ تعالی نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:

 

" سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آَيَاتِنَا إِنَّه هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ"

 

قرأن كريم، سورة الإسراء أيه 1)

 

" پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقینا اللہ تعالی ہی خوب سننے والا اوردیکھنے والا ہے (سورہ الاسراء آیت نمبر 1( "

احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میں مسجد حرام،مسجد نبوی اور مسجد اقصٰی شامل ہیں۔

مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور معراج میں نماز کی فرضیت 16 سے 17 ماہ تک مسلمان مسجد اقصٰی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔

مسلم تعمیرات

جب جناب عمر کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو آپ نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔

یہی مسجد بعد میں مسجد اقصٰی کہلائی کیونکہ قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصٰی کہا گیا ہے۔

اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔

عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔

عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔

پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا۔

صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔

سانحہ بیت المقدس

21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگادی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہوگیا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔

یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گراکر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا۔

حرم قدسی کے جنوبی حصے میں واقع مسجد اقصیٰ

 

مسجد اقصیٰ و قبۃ الصخرۃ

مسجد اقصی کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبۃ الصخرۃ ہے جو اسلامی طرز تعمیر کے شاندار نمونوں میں شامل ہے ۔ تاہم آجکل یہ نام حرم کے جنوبی جانب والی بڑی مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے ۔

وہ مسجد جو کہ نماز کی جگہ ہے وہ قبۃ الصخرۃ نہیں، لیکن آج کل قبہ کی تصاویر پھیلنے کی بنا پر اکثر مسلمان اسے ہی مسجد اقصیٰ خیال کرتے ہيں حالانکہ فی الواقع ایسی کوئی بات نہیں مسجد تو بڑے صحن کے جنوبی حصہ میں اور قبہ صحن کے وسط میں ایک اونچی جگہ پر واقع ہے۔

19 ماہ رمضان المبارک کو نماز فجر میں سجدہ معبود میں امیرالمومنین حضرت علی (ع) کی پیشانی جس وقت خون میں غلطاں ہوئی اور پیغمبر اسلام (ص)کے وصی ، یتیموں اور بےکسوں کے حامی کا سر مبارک شمشیر ظلم سےشگافتہ ہوا تو مشکلکشا ، شیر خدا ، شاہ لافتی کے شاگرد جبرائیل امین نے تڑپ کر آواز دی " ان تَہَدّمَت و اَللہ اَرکان الہُدیٰ" خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہوگئے،

سن40 ھ ق حضرت علی علیہ السلام مسجد کوفہ میں عبد االرحمن بن ملجم کےقاتلانہ حملہ سے شدید زخمی ہوۓ ۔

حضرت علی علیہ السلام انیسویں رمضان کے شب اپنی بیٹی ام کلثوم کے ہاں مہمان تھے .

روایت میں آیا ہے کہ آپ اس رات بیدار تھے اور کئی بار کمرے سے باہر آ کر آسمان کی طرف دیکھ کر فرماتے تھے :خدا کی قسم ، میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ ہی مجھے جھوٹ کہا گيا ہے ۔ یہی وہ رات ہے جس میں مجھے شھادت کا وعدہ دیا گيا ہے ۔ حضرت علی (ع) نماز صبح کیلۓ مسجد کوفہ کی طرف روانہ ہوئے مسجد میں داخل ہوئے اور سوۓ ہوے افراد کو نماز کیلۓ بیدار کیا، عبد الرحمن بن ملجم مرادی کوبھی بیدار کیا جو پیٹ کے بل سویا ہوا تھا اور اسے نماز پڑھنے کوکہا ۔

جب حضرت محراب میں پہنچے اور نماز فجر کا آغاز کیا تو پہلے سجدے سے ابھی سر اٹھا ہی رہے تھے کہ عبد الرحمن بن ملجم مرادی نے زہر آلودہ تلوار سے آپ کے سر پر وار کیا اور آنحضرت کا سر زخمی ہوگیا .

حضرت علی علیہ السلام محراب میں گر پڑے اسی حالت میں فرمایا : بسم اللہ و بااللہ و علی ملّۃ رسول اللہ ، فزت و ربّ الکعبہ ؛ خدای کعبہ کی قسم ، میں کامیاب ہو گيا ۔

بعض نمازگذار ابن ملجم کو پکڑنے کیلئےباہر کی طرف دوڑ پڑے اور بعض حضرت علی (ع) کی طرف بڑھے اور کچھ سر و صورت پیٹنے اور ماتم کرنے لگے ۔

حضرت علی (ع) کے سر مبارک سے خون جاری تھا آپ نے فرمایا: ھذا وعدنا اللہ و رسولہ ؛یہ وہی وعدہ ہے جو خدا اور اسکے رسول (ص)نے میرے ساتھ کیا تھا ۔

حضرت علی (ع) نے اپنےفرزند امام حسن مجتبی (ع) سے نماز جماعت کو جاری رکھنے کو کہا اور خود بیٹھ کر نماز ادا کی ۔اس کے بعد حضرت کو مسجد سے گھر لایا گیا اصحاب آپ کے ہمراہ تھے آپ نے گھر پہنچنے کے بعد امام حسن مجتبی سے فرمایا: اصحاب سے کہہ دیجئے چلے جائيں کیوں کہ مجھ سے زینب و ام کلثوم ملنے کے لئے آرہی ہیں۔ 20 رمضان کو حضرت علی(ع) نے بڑے درد و غم میں بسر کیا طبیب نے کہا زہر کا اثر پورے بدن میں پہنچ گیا ہے اب علاج ممکن نہیں ہے اور امت مسلمه کے امیر21 رمضان کواپنے معبود حقیقی سے جا ملے ۔

به مسجد 184 سال پهلي بنا ہوا ہے - مسجد شاہ یا مسجد سلطانی ( في الحال امام خميني مسجد ) کا تہران کی معروف اور بڑی مسجدوں میں شمار ہوتا ہے –

یہ مسجد فتحعلی شاہ قاچار ( 1212 _ 1250 ه.ق ) کے دور کی تاریخی عمارتوں میں شامل ہے –

یہ مسجد ناصر خسرو سڑک کے آخر میں اور تہران کے پرانا بازار کی حدود میں واقع ہے

فرانس کے مسلمانوں نے ملک ميں اسلامو فوبيا پھيلائے جانے کے خلاف مظاہرے کئے ہيں-

پريس ٹي وي کے مطابق جيويلي شہر ميں ہونے والے مظاہرے ميں شريک لوگ اسلامو فوبيا کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے- يہ مظاہرے بلديہ کے چار ملازمين کو روزہ رکھنے کے جرم ميں کام سے برخاست کئے جانے کے بعد ہوئے ہيں-

بلديہ کے عہديداروں کا دعوي ہے کہ يہ ملازمين روزہ رکھنے کي وجہ سے سمر کيمپ ميں شريک بچوں کي ديکھ بھال کرنے کے قابل نہيں ہيں-

بلديہ کے حکام تاحال اس بارے ميں مقامي ذرائع ابلاغ کے سوالوں کا بھي کوئي جواب نہيں دے سکے- بلديہ کے اس فيصلے پر مقامي انجمنوں اور حزب اختلاف کے رہنماؤں نے شديد اعتراض کيا ہے- فرانس کي عوامي تحريک کے سربراہ جان فرانسو کوپے نے جينويلي کي بلديہ کے اس فيصلے پر کڑي نکتہ چيني کي ہے-

سماجي اور سياسي کارکنوں کا کہنا ہے کہ مسلمان ملازمين کو سياسي بنيادوں پر کام سے برخاست کيا گيا ہے-

يہ پہلي بار نہيں ہے جب فرانس ميں مسلمانوں کو اسلامو فوبيا کے سياسي نظريات پر قربان کيا گيا ہو- حکومت فرانس نے اس سے قبل اسلام بيزاري کي پاليسي کے تحت پبلک مقامات پر نماز کي ادائيگي اور مسلم خواتين کے نقاب اوڑھنے پر پابندي عائد کردي تھي

قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ نے معيشت کو منصفانہ اور عادلانہ نظريات کے مطابق ڈھالے جانے کي ضرورت پر زور ديا ہے-

پير کي شام ملک کے ايک ہزار کے قريب ذہين طلبہ و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ ايران کے معاشي پاليسيوں کو عادلانہ بنيادوں پر استوار ہونا چاہيے-

آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے سرمايہ داري کے بارے ميں اسلامي تعليمات کي جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمايا کہ اگر آئين کي دفعہ چواليس پر اسکي روح کے ساتھ عمل کيا جائے تو ملک ميں مذموم سرمايہ داري کا خاتمہ ہوگا اور بڑے فيصلوں ميں سرماداري کو محور بنائے جانے کي روک تھام ہوسکے گي- قائد انقلاب اسلامي نے اس بات پر تاکيد فرمائي کہ اس بات کا پورا دھيان رکھنے کي ضرورت ہے کہ معاشي پاليسوں پر سوشلسٹ نظريات غالب نہ آنے پائيں- آپ نے فرمايا کہ آئين کي دفعہ چواليس پر اسکي روح کے مطابق عمل کيا جائے تو عادلانہ معيشت کي تکميل کو يقيني بنايا جاسکتا ہے-

قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ مغرب اور پورپي ملکوں پر بڑھتے ہوئے اقتصادي دباؤ کي اصل وجہ سرمايہ دارانہ نظام کي اصليت يعني سرمايہ کي بالادستي ہے- آپ نے مزاحتمي معيشت کو جارحانہ معيشت سے بالکل مختلف قرار ديا اور يہ اس بات پر تاکيد فرمائي کہ مزاحمتي معيشت سے مراد دفاعي اقدامات اور اپنے گرد دائرے کھينچنا نہيں ہے بلکہ يہ ايسي معيشت ہے جو کسي بھي قوم کے لئے دباؤ اور پابنديوں کے دوران بھي ترقي اور پيشرفت کا راستہ ہموار کرتي ہے- آپ نے نوجوانوں کو سافٹ وار کے جنرل قرار ديتے ہوئے فرمايا کہ دشمن کے مقاصد کا باريک بيني سے جائزہ ليجيے کيونکہ دشمن ملت ايران اور ايراني حکام کے اندازوں اور ضابطوں کو تبديل کرنا چاہتا ہے- آپ نے فرمايا کہ دشمن عوام کے دل ، ذہن ، نظريات اور ارادے دشمن کے نرم حملوں کا نشانہ ہيں اور دشمن کھل کر کہہ رہا کہ ہم ايرانيوں کے اصول اور ضابطوں کو تبديل کرنے کي کوشش کر رہے ہيں-

قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ دشمن چاہتا ہے کہ ايراني قوم اس نتيجے پر پہنچے کہ عالمي سامراج کے خلاف جنگ اسکے مفاد ميں نہيں ہے لہذا نرم جنگ کے کمانڈروں( طلبہ) کو دشمن کے مقاصد کو سمجھتے ہوئے اسکا ٹھيک ٹھاک مقابلہ کرنا چاہيے-

امريکہ ميں ايک مہينے سے بھي کم کے عرصے ميں دوسري مسجد کو نذرآتش کرديا گيا ہے-

رپورٹوں ميں کہا گيا ہے کہ امريکہ کي رياست ميسوري کے شہر جوپلن ميں واقع اسلامي سينٹر کي مسجد پير کے روز آگ کي لپيٹ ميں آنے کے بعد مکمل طور پر شہيد ہوگئي ہے-

امريکہ ميں ايک ماہ سے کم کے عرصے ميں نذر آتش ہونے والي يہ دوسري مسجد ہے- مسجد کے پيش امام نے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کيا ہے کہ يہ سانحہ انتہائي افسوسناک اور حيران کن ہے- ارنا کے مطابق اس مسجد کے صرف ستون باقي رہ گئے ہيں- تاحال آتشزدگي کي وجوہات سامنے نہيں آسکي ہيں تاہم رمضان کے مہينے ميں امريکہ کے دو اسلامي مراکز ميں آتشزدگي کے واقعات نے کئي طرح کے سوالات اٹھا ديئے ہيں- اس رپورٹ کے مطابق امريکي تحقيقات ادارہ ايف بي آئي اس واقعے کي تحقيقات کر رہا ہے-

Tuesday, 07 August 2012 04:49

بنیا باشی مسجد – صوفيه

بنیا باشی مسجد (بلغاروی: Баня баши джамия یعنی بنیا باشی جامعہ، ترکی: Banya Başı Camii) بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں واقع ایک مسجد ہے۔

یہ یورپ کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے جو 1576ء میں اس وقت تعمیر کی گئی جب صوفیہ عثمانی سلطنت کے زیر نگیں تھا۔

یہ مسجد عثمانی دور کے معروف معمار سنان پاشا نے تعمیر کی۔

اس مسجد کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ قدرتی گرم چشموں کے اوپر تعمیر کی گئی ہے۔

یہ مسجد اپنے وسیع گنبد اور بلند میناروں کے باعث بھی مشہور ہے۔

بنیا باشی صوفیہ کی واحد مسلم عبادت گاہ ہے جس کی مسجد کی حیثیت ابھی تک قائم ہے۔

یہ بلغاریہ پر 5 صدیوں تک جاری رہنے والے عثمانی دور کی ایک عظیم یادگار ہے۔ یہ شہر میں مقیم ہزاروں مسلم باشندوں کے زیر استعمال ہے۔

Tuesday, 07 August 2012 04:10

غصہ كو مہار كريں

يعني غيض و غضب كا راستہ اختيار نہ كرو،غصہ كي لگام كو ڈهيلا نہ چهوڑ دو پہلوان وہ نہيں جو كشتي لڑتے ہوئے اپنے حريف كو زير كر دے بلكہ وہ شخص پہلوان ہے جو اپنے غصہ پر قابو ركهے۔

 

من مواعظ النبي(ص)

و قال رجل اوصني فقال(ص): لا تغضب ثم اعاد عليہ فقال:لا تغضب ثم قال: ليس الشديد بالصرعۃ انّما الشديد الذي يملك نفسہ عندالغضب۔

ايك شخص نے آپ سے درخواست كي كہ مجهے كچه نصيحت كيجئے۔

آپ(ص) نے فرمايا: غصہ نہ كيا كرو۔ اس نے دوبارہ درخواست كي آپ نے پهر يہي بات كہي كہ غصہ نہ كيا كرو۔ اور پهر فرمايا: بہادر اور پہلوان وہ نہيں ہے جو اپنے مدمقابل كو چت كر دے بلكہ بہادر وہ ہے جو غصہ كے وقت اپنے اعصاب كو قابو ميں ركهے۔

يہاں ’’لا تغضب‘‘ سے مراد غير اختياري غصہ نہيں ہے بلكہ وہ غصہ مراد ہے جو ارادہ و اختيار كےساته انسان ظاہر كرتا ہے۔

يعني غيض و غضب كا راستہ اختيار نہ كرو،غصہ كي لگام كو ڈهيلا نہ چهوڑ دو پہلوان وہ نہيں جو كشتي لڑتے ہوئے اپنے حريف كو زير كر دے بلكہ وہ شخص پہلوان ہے جو اپنے غصہ پر قابو ركهے۔

اور يہاں غصہ سے مراد صرف وہ غصہ نہيں ہے جو زورگذر ہو بلكہ كسي شخص سے ناراضگي اور رقابت بهي ہے كہ جسكي وجہ سے انسان اپنے رقيب كو زندگي كے مختلف ميدانوں ميں پچهاڑنے كي كوشش ميں لگا رہتا ہے اور مناسب موقع ملتے ہي انتقام لينا چاہتا ہے۔

غيض و غضب كي لگام تهامے رہنا اور اسے مہار كرنا پوري زندگي پر اثرانداز ہوتا ہے۔

صرعہ: يعني كشتي لڑتے وقت مدمقابل كو چت كرنا