
Super User
تقوی انسان کو بے دینی کے کھنڈر میں گرنے سے محفوظ رکھتا ہے
آیت الله مکارم شیرازی نے حرم حضرت معصومہ قم کے زائرین کے مجمع میں اھل سیاست اورمیڈیا کو تقوی الھی کی نصیحتیں کی اور کہا : تقوی انسان کو بے دینی کے کھنڈر میں گرنے سے محفوظ رکھتا ہے ۔
حضرت آیت الله مکارم شیرازی نے اپنے سلسلہ وار تفسیر قران کریم کی نشست میں جو شبستان امام خمینی (رہ) ، حرم حضرت معصومہ قم میں زائرین ومجاورین کے شرکت میں منعقد ہوئی، اھل سیاست اورمیڈیا کو تقوی الھی کی نصیحتیں اور سیاست و میڈیا میں سلائق کو استفادہ نہ کرنے کی تاکید کی۔ انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ تقوی الھی کے بہت سارے معیارات ہیں کہا : اس کا ایک میعار اخلاقیات ہیں، تقوی کی ایک قسم، سیاسی تقوی ہے، کہ جب انسان سیاسی مقام تک پہونچ جائے تو جھوٹ نہ بولے، ووٹ لینے کے لئے غیر قانونی کام نہ کرے، ووٹ لینے کے لئے پیسہ خرچ نہ کرے اور لوگوں کو جھوٹے وعدے نہ دے بلکہ صحیح راستہ پر گامزن ہو ۔
حضرت آیت الله مکارم شیرازی نے تقوی میڈیا کو تقوی کے ایک دوسرے مصادیق میں بیان کرتے ہوئے اخباروں اور سماجی میڈیا کو تقوی الھی کی نصیحتیں کی اور کہا : چھوٹی سے چھوٹی خبر اگر ان کے فائدہ کی ہو تو اس بڑی اوراگر ان کے نقصان میں ہو تو کاٹ کر چھوٹی پیش کرتے ہیں، جو کچھ بھی ان کی سیاسی پارٹی کے حق میں فائدہ مند ہو اسے بڑا اور جو کچھ بھی پارٹیوں کے نقصان میں اسے چھوٹا بناکر پیش کرتے ہیں، بے گناہ یا جرم ثابت نشدہ افراد کے اسامی منتشر کرنا تقوی الھی کے مطابق نہیں ہے ۔ اس مرجع تقلید نے ابتداء سوره احزاب کی آیات کے شان نزول کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا : جنگ احد کے بعد مشرکین مکہ کے نے احساس کیا کہ کامیاب ہوگئے ہیں اور انہوں نے سوچا کہ شاید اس طرح پیغمبر(ص) کو اپنی ھمراہی پر مجبور کرسکتے ہیں، مشرکین مکہ کے کمانڈر ابوسفیان نے مدینہ کے قریب اکر پیغمبر(ص) سے امان کی درخواست کی تو حضرت نے انہیں امان دے دیا، جب وہ مدینہ پہونچے تو کچھ لوگ ان کےساتھ تھے ، وہ پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں پہونچے اورعرض کیا کہ اپ کو اپنے خدا کے بارے جو کچھ بھی کہنا ہے کہیں ، مگرھمارے خداوں (بتوں ) کو برا نہ کہیں ۔
آپ نے مزید کہا : مشرکین مکہ کا تصور تھا وہ طاقت کے بل بوتہ پر گفتگو کررہے ہیں لھذا مرسل اعظم(ص) ان کی باتیں مان لیں گے، مگر ایت نازل ہوئی اورخدا نے پیغمبر(ص) کو چار باتوں کا حکم دیا کہ تقوی اختیار کریں، کفار کی تجویزنہ مانیں، منافقین کی اطاعت نہ کریں اوراگاہ رہیں کہ خداوند متعال ان کی سازشوں سے بخوبی واقف ہے، نیز حکم ہوا کہ ھماری وحی کے تابعداررہئے اور بتوں کے سلسلے میں جو کچھ بھی بتایا ہے وہی کہیں، خدا بہتر جانتا ہیں کہ اپ کے خلاف کس قسم کا اقدام کریں گے، اپ خدا پر بھروسہ کریں اور جان لیں کہ خدا اپ کا حامی ومددگار ہے ۔ حضرت آیتالله مکارم شیرازی نے یہ کہتے ہوئے کہ اگر تقوی نہ ہو تو انسان منحرف اور گمراہ ہوجائے گا یاد دہانی کی : تقوی نفسانی خواہشات کی ڈگراور شیطانی وسوسوں سے نجات کا راستہ ہے، نفسانی خواہشات اور شیطانی وسوسے انسان کو گمراہیوں کی جانب لے جاتے ہیں کہ اگر تقوی نہ ہو تو انسان بہک جائے ۔
انہوں نے تقوی کے مراتب کی جانب اشارہ کیا اور کہا : تقوی کی ایک قسم، مولائے متقیان حضرت امام علی(ع) کے مانند تقوی ہے کہ اگر پوری دنیا بھی ان کے قدموں میں ڈال دی جائے اور اس کے عوض چنیوٹی کے منھ سے ایک دانہ بھی چھیننے کو کہا جائے تو نہیں چھینیں گے، متقی اپنے تقوی کے ھمراہ ھرگز تنہائی کا احساس نہیں کرتا اگر چہ تنہا ہی کیوں نہ ہو ۔ اس مرجع تقلید نے تقوا کو اثار روزہ میں سے شمار کرتے ہوئے کہا : کوشش کریں کہ روز بروز ھمارے اندر ان جزبات کو استحکام حاصل ہو اور منحرف کرنے والے مسائل ھمیں منحرف نہ کرسکیں۔
دین کے حدود میں رہ کر خواتین کمالات کے آسمان چھو سکتی ہیں
ہندوستان زیر انتظام کشمیر کی معروف شخصیت اور دوردرشن سرینگر کی سابقہ ڈائریکٹر محترمہ شہزادی سائمن نے تعلیم نسواں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلام واحد ایسا مذہب ہے کہ جس نے خواتین کو بہت اہم اور عظیم رتبہ بخشا ہے۔
- کشمیری دارالحکومت سرینگر میں ڈیموکریٹک پارٹی نیشنلسٹ کی ترجمان اعلیٰ اور جموں و کشمیر پیس فاؤنڈیشن کے خواتین ونگ کی سربراہ محترمہ شہزادی سائمن نے کہا : اسلام نے عورت کو بہت اونچا اور پروقار مقام دیا ہے۔ اسلام کا سب سے پہلا قانون لڑکیوں کو زندہ دفنائے جانے کے خلاف تھا۔ اسلام نے باقاعدہ اس جاہلانہ اور وحشتناک عمل کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ آج کے زمانہ میں آپ دیکھئے کس طرح لڑکیوں کو ماں کے پیٹ میں ہی ختم کیا جاتا ہے۔ اسلام اس چیز کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اس وبا کو روکنے کے لئے ڈاکٹر اور سرکار سے زیادہ عورتوں کو خود آگے آنا ہوگا۔ کیونکہ صرف عورتیں ہی اس وبا کو پوری طرح سے ختم کرسکتی ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گی تو ایک زمانہ ایسا آئے گا جب خدانخواستہ عورت ہی نہیں ملے گی۔ گھر میں بیٹی ، بہن ، ماں کا نام نہیں ہوگا۔ کہنے سے مراد یہ ہے کہ کیا عورت کے بغیر دنیا ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی شروعات مرد اور عورت سے کی ہے۔ لڑکیوں کو ماں کے پیٹ میں ہی مار کر ہم قدرت کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہیں۔
دوردرشن سرینر کی سابقہ ڈائریکٹر نے کہا کہ ان کی نظر میں عورت کی حقیقی آزادی اس کی روح اور ذہن کی آزادی میں ہے۔
انہوں نے کہا: اگر عورت تعلیم کے زیور سے آراستہ ہے اور اقتصادی طور پر آزاد ہے تو وہ کسی بھی ظلم کے خلاف لڑ سکتی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ عورت کے خلاف جو مظالم ہوہرے ہیں ان کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کو تعلیم سے دور رکھا گیا ہے خاص کر عالم اسلام کی عورتوں کو۔ میری نظر میں ایک عورت کے لئے تعلیم حاصل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ایک تعلیم یافتہ اور باشعور عورت صرف اپنے حقوق کے لئے ہی نہیں بلکہ دوسری عورتوں کے حقوق کے لئے بھی لڑ سکتی ہے۔
اسلام میں عورت کا رتبہ اتنا اہم اور اتنا عظیم ہے کہ مسلمان عورت ہرگز مظلوم نہیں ہوسکتی۔ یہ اسلام کو بدنام کرنے کے لئے اسلام دشمن عناصر کی سازشیں ہیں۔ آپ دیکھئے پیغمبر اکرم (ص) نے عورت کو کیا درجہ دیا ہے۔ اسی طرح مولائے کائنات حضرت علی مرتضیٰ (ع) جو پیکر شجاعت تھے انہوں نے عورت کو کیا رتبہ دیا۔ کس طرح وہ ایک عورت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ عورت اگر دین کے حدود میں رہے تو وہ بہت کچھ کر سکتی ہے۔
شہزادی سائمن نے مزید کہا: دشواریاں باہری اور بناوٹی ہوتی ہیں۔ اگر عورت ارادہ کرے کہ مجھے ان حدود کے اندر رہکر یہاں تک پہنچنا ہے تو میں نہیں سمجھتی کہ اس کو زیادہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک مسلمان عورت حیا کے دائرے میں رہ کر کامیاب ہوسکتی ہے اور اپنا لوہا بھی منوا سکتی ہے۔ وہ دنیا کو دکھا سکتی ہے کہ وہ ذہنی طور پر ایک مرد سے کم نہیں۔ ہان وہ جسمانی طور کمزور ضرور ہوسکتی ہے مگر اپنے دائرے میں رہ کر عورت کیا کچھ نہیں کرسکتی۔
انہوں نے عالم اسلام کی خواتین کو اپنے پیغام میں کہا کہ دین کے دائرہ کے اندر رہکر اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں۔
سلطان عمر علی سیف الدین مسجد – برونائی
سلطان عمر علی سیف الدین مسجد سلطنت برونائی کے دارالحکومت بندری سری بیگوان میں واقع شاہی مسجد ہے۔ یہ خطۂ ایشیا بحر الکاہل کی خوبصورت ترین مساجد اور ملک کے معروف سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ مسجد برونائی کی پہچان سمجھی جاتی ہے۔
یہ مسجد برونائی کے 28 ویں سلطان سے موسوم ہے۔ اس کی تعمیر 1958ء میں 5،000،000$ کی لاگت سے تیار کی گئی تھی اور یہ جدید اسلامی طرز تعمیر کا شاندار نمونہ سمجھی جاتی ہے جس پر اسلامی اور اطالوی طرز تعمیر کی گہری چھاپ ہے۔
یہ مسجد دریائے برونائی کے کناروں پر واقع ایک مصنوعی تالاب پر تعمیر کی گئی۔ مسجد سنگ مرمر کے میناروں، سنہرے گنبدوں، صحنوں اور سر سبز باغات پر مشتمل ہے۔
مسجد کا مرکزی گنبد پر خالص سونے سے کام کیا گیا ہے۔ مسجد 52 میٹر بلندی پر واقع ہے اور بندر سری بیگوان شہر کے کسی بھی حصے سے با آسانی دیکھی جا سکتی ہے۔
میناروں میں جدید برقی سیڑھیاں نصب ہیں جو اوپر جانے کے کام آتی ہیں۔ مسجد کے میناروں سے شہر کا طائرانہ منظر قابل دید ہے۔
رات کے وقت ایک خوبصورت منظر
قومی پلیٹ فارم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جائے اور یہ تمام مومنین کا فریضہ ہے۔ علامہ سید ساجد علی نقوی
شہید ڈاکٹر حیدر کی برسی کی مناسبت سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ نے کہا کہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی پلیٹ فارم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جائے اور یہ تمام مومنین کا فریضہ ہے۔ ملک کے ہر گوشہ میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ جاری ہے، باعزت قوم کو شہادتیں بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں۔
سید ساجد علی نقوی نے شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کے زمانے میں موجود مشکلات اور دشواریوں کا تذکرہ کیا اور ان مشکلات کا سامنا کرنے کیلئے کئے گئے اقدامات کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی ہم اسی قومی پلیٹ فارم کا حصہ اور تسلسل ہیں اور اسی اعلٰی مقاصد کیلئے گامزن ہیں۔
علامہ ساجد نقوی نے ملک میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج ملک کے ہر گوشہ میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ جاری ہے۔ کراچی، کوئٹہ، پاراچنار، ہنگو، گلگت بلتستان اور پنجاب کی سرزمین ہمارے لئے کربلا بنی ہوئی ہے۔ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ نے کہا کہ ہم نے تمام مشکلات کا سامنا کیا ہے اور ان تمام سانحات اور واقعات کے خلاف بھرپور طریقے سے قدم اٹھایا ہے، لیکن ملک کی صورتحال ہی بگڑی ہوئی ہے، یہاں کسی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک باوقار اور باعزت قوم کے سفر کے سامنے مشکلات بھی آتی ہیں اور انہیں شہادتیں بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں ۔ انہوں نے اس جانب اشارہ فرماتے ہوئے قوم کو متوجہ کیا کہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی پلیٹ فارم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جائے اور یہ تمام مومنین کا فریضہ ہے۔
اے ارض بلتستان تیرا خمینی چلا گیا
احادیث مبارکہ میں ارشاد ہوا ہے کہ ’’روئے زمین پر علماء آسمان میں ستاروں کی مانند ہیں جن سے خشکی اور دریا کی تاریکیوں میں ہدایت حاصل کی جاتی ہے۔‘‘ ان ہی چمکتے علماء میں سے ایک عالم باعمل، مجاہد، مبارز، بے نظیر سخن ور اور داعی اتحاد بین المسلمین حضرت علامہ سید علی الموسوی تھے۔ حجۃ الاسلام و المسلمین آغا سید علی الموسوی اپنی تمام عمر اسلام کی خدمت، ارض پاکستان میں افکار خمینی (رہ) کے پرچار میں گزار کر اپنے عقیدت مندوں کو دس رمضان المبارک کی صبح داغ مفارقت دے گئے۔ ان کی رحلت سے مکتب آل محمد (ع) بالخصوص ملت بلتستان ایک مایہ ناز اور قابل فخر عالم دین سے محروم ہوگئی۔ ان کی ناقابل تردید خدمات رہتی دنیا تک قائم و دائم رہیں گی۔ آپ نے اپنی تمام آسائش و الائش کو قربان کرکے اسلام کی تبلیغ اور ترویج کو ترجیح دی، بلکہ یوں کہا جائے تو مناسب ہے کہ آپ زمان و مکان کے تمام قیود سے بالاتر ہو کر دین مبین اسلام کی خدمت کرتے رہے۔
آپ کے والد محترم بھی اپنے دور کے انتہائی بزرگ اور قابل احترام باعمل عالم دین تھے۔ آپ کم عمری میں ہی اپنے والد محترم حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسن الموسوی کے ساتھ علوم آل محمد (ع) کے حصول کی خاطر حوزہ علمیہ نجف اشرف چلے گئے، جہاں آپ نے اس دور کے بزرگ مجتہدین آیت اللہ ابولحسن اصفہانی، آیت اللہ سید حسین بروجردی، آیت اللہ محسن الحکیم اور دیگر اساتید سے کسب فیض کیا۔ حسین آباد کے کچھ بزرگوں کے اصرار پر تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے والد محترم کے ساتھ پاکستان چلے آئے، دوران سفر جب آپ لاہور پہنچے تو آپ دونوں (سید حسن موسوی اور سید علی موسوی) کے علم و عمل اور زہد و تقوی سے متاثر ہو کر لاہور کے مومنین نے لاہور میں ہی دینی خدمات انجام دینے پر زور دیا۔ آپ انہیں مایوس نہیں کرسکتے تھے، اس لئے مشقتوں کو تحمل کرکے لاہور اور حسین آباد دونوں جگہوں پر تبلیغی خدمات انجام دینے پر کمربستہ ہوگئے۔ اگرچہ ان دونوں جگہوں پر تبلیغ کرنا مسافت کی دوری اور ان دنوں کی مخصوص سفری مشکلات کے پیش نظر آسان نہ تھا، لیکن دین کی خاطر آپ نے تمام سختیوں کو برداشت کیا۔
شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کے شانہ بشانہ مسلمانوں کی ترقی کے لئے سرگرم رہے۔ مختلف فلاحی ادارے بھی آپ کی زیر سرپرستی چل رہے ہیں، جن میں آل عمران لاہور نمایاں ہیں۔
جامع مسجد قرطبہ - اسپين
اندلس (Spain) میں مسلمانوں کے فن تعمیر کا عرصہ تقریباً سات سو برس پر محیط ہے ۔ جو آٹھویں صدی عیسوی میں جامع قرطبہ (ہسپانوی: Mezquita) کی تعمیر شروع کئے جانے سے لے کر پندرھویں صدی عیسوی میں غرناطہ کے قصر الحمراء کے مکمل ہونے کے زمانہ پر پھیلا ہوا ہے ۔ اس دوران سینکڑوں عمارات مثلاً حمام ، محلات ، مساجد، مقابر ، درس گاہیں اور پل وغیرہ تعمیر ہوئے جن کی اگر تفصیل لکھی جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے ۔
اندلس میں مسلمانوں کے فن تعمیر کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہاں کے مسلمان حکمران اور عوام کی اکثریت پرانی ثقافت کی کورانہ تقلید کے قائل نہیں تھے ۔ بلکہ یہاں ایک نئی تہذیب نے جنم لیا تھا اور اس کے نتیجہ میں ایک نیا معاشرہ وجود میں آیا تھا۔ اس نئی تہذیب کے آثار ان کی تعمیر ات کے ہر انداز سے جھلکتے نظر آتے ہیں ۔
عرب فاتحین کا یہ قائدہ رہا تھا کہ وہ جہاں کہیں فاتح بن کر جاتے وہاں کی علاقائی تہذیب و ثقافت کو اپنا لیتے اور اپنی تعمیرات میں اس علاقہ کی طرز تعمیر کے خدو خال کو شامل کر لیتے ۔ چنانچہ سندھ سے لے کر مراکش تک کی تعمیرات میں عربوں کی یہ خصوصیت واضح طور پر جلوہ گر نظر آتی ہے۔ لیکن اندلس میں انہوں نے یکسر ایک نیا رویہ اپنایا اور ایک ایسی نئی طرز تعمیر کے موجد بنے جس میں عرب، ہسپانوی (Visigothic)، صیہونی، اور اندلس کی دیگر اقوام کی خصوصیات یکجا نظر آتی ہیں۔ ہم یہاں پر اسی طرز تعمیر کی زندہ مثال جامع مسجد قرطبہ کا ذکر کرنے جا رہے ہیں۔ اس مسجد کی طرز تعمیر میں قدیم اسلامی طرز تعمیر صیہونی اور عیسائی طرز تعمیر کے پہلو بہ پہلو ایک نئے امتزاج کے ساتھ ملتا ہے۔
اے حرم قرطبہ ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل ، تو بھی جلیل و جمیل
اقبال کی شہرہ آفاق نظم مسجد قرطبہ میں انہوں نے اس مسجد کی جو تصویر کھینچی ہے وہ دل کو چھو لینے والی اور ساتھ ہی دل کو چیر دینے والی ہے ۔ اقبال وہ پہلا شحض ہیں جنہوں نے کئی صدیوں بعد 1931ء میں اس مسجد میں اذان دینے اور نماز ادا کرنے کا شرف حاصل کیا۔
مسجد کے صحن کا منظر
یوں تو سر زمین اندلس پر مسلمانوں کے عہد زریں میں بہت سی دلکش و دلفریب عمارات تعمیر ہوئیں لیکن جو نفاست اور پاکیزگی جامع مسجد قرطبہ کے حصہ میں آئی وہ نہ تو الفاظ میں بیان کی جا سکتی ہے اور نہ ہی کسی اور ذریعہ اظہار سے اس کے حسن و جمال ، تزئین و آرائش ، نسخی گل کاریوں اور پچی کاریوں کی تفصیل پیش کی جا سکتی ہے ۔ وہ ایسی چیز تھی جودیکھنے کی چیز تھی اور بار بار دیکھنے کی چیز تھی۔ اگرچہ گردش ایام کے تھپیڑوں نے اسے آج کچھ کا کچھ بنا دیا ہے لیکن پھر بھی اس کے حسن و خوبی اور جدت تعمیر و ندرت آرائش کے جو آثار زمانہ کی دستبرد سے بچ سکے ہیں اب بھی اپنے شاندار ماضی کی داستان زبان حال سے سناتے نظر آتے ہیں۔
اس مسجد کی تعمیر کا خیال امیر عبدالرحمن اول المعروف الداخل (756-788) کو سب سے پہلے اس وقت دامن گیر ہوا جب اس نے ایک طرف اندرونی شورشوں پر قابو پا لیا اور دوسری طرف بیرونی خطرات کے سد باب کا بھی مناسب بندوبست کر دیا۔ اس نے اپنی وفات سے صرف دو سال پہلے یہ کام شروع کرایا۔ امیر چاہتا تھا کہ مسجد کو اموی جامع مسجد دمشق کا ہم پلہ بنا کر اہل اندلس و مغرب کو ایک نیا مرکز عطا کرے ۔ یہی وجہ تھی کی اس کی تعمیر کی نگرانی اس نے خود
کی۔
یہ عظیم مسجد وادی الکبیر (ہسپانوی: Guadalquivir)میں دریا پر بنائے گئے قدیم ترین پل(اس پل کو رومی Claudius Marcellus نے تعمیر کروایا تھا) کے قریب اس جگہ واقع ہے جہاں پہلے سینٹ ونسنٹ (St. Vincent of Saragossa) کی یاد میں تعمیر کردہ ایک گرجا قائم تھا اور جس کا ایک حصہ پہلے ہی سے بطور مسجد مسلمانوں کے زیر تصرف تھا (الرازی)۔
السمح بن مالک الخولانی کے عہد میں جب قرطبہ دارالسلطنت بنا تو مسلمانوں نے مسجد کی توسیع کے لئے عیسائیوں سے باقی ماندہ حصہ خریدنے کی خواہش ظاہر کی مگر وہ مسلمانوں کی تمام تر رواداری کے باوجود اسے فروخت کرنے پر تیار نہ ہوئے ۔ لیکن جب عبدالرحمن الداخل کا زمانہ آیا تو اس نے بہت بھاری قیمت ادا کرکے پورا گرجا خریدلیا۔ قبضہ حاصل کرلینے کے بعد 786ء میں امیر نے اسے گرا کر اس کی جگہ ایک دیدہ زیب مسجد کی دیواریں کھڑی کر دیں۔ تعمیر کا کام جس ذوق و شوق سے شروع ہوا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امیر نے دو سال کی قلیل مدت میں اس مسجد کی تعمیر پر 80ہزار دینار خرچ کر دئے ۔
مسجد کی بیرونی چار دیواری اتنی بلند و بالا اور مضبوط تھی کہ وہ شہر کی فصیل نظر آتی تھی ۔ اس فصیل نما چاردیواری کو مزید مضبوط کرنے کے لئے اس کے باہر کی جانب تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر پہل پشتیبان (Buttressess) بنائے گئے تھے جن پرکنگرے بنے ہوئے تھے۔
مسجد کی چھت بے شمار ستونوں پر قائم ہے جن کی ترتیب کچھ اس وضع پر ہے کہ ان کے تقاطع سے دونوں طرف کثرت سے متوازی راستے بن گئے ہیں ۔ ان ستونوں پر نہایت ہی پر تکلف نعلی محرابیں (Horseshoe Arches) قائم ہیں۔ یہ نعلی محرابیں نہ صرف اس عظیم مسجد کا وجہ امتیاز ہیں بلکہ ہسپانوی طرز تعمیر کی پہچان بن چکی ہیں ۔ جامع قرطبہ کے ان ستونوں پر دوہری محرابیں بنی ہوئی ہیں ۔ یعنی ایک محراب پر دوسری قائم کر کے انہیں چھت سے ملا دیا گیا ہے ۔ ان محرابوں پر کہیں کہیں قبےّ بنائے گئے تھے جن میں سے چند ایک ابھی تک باقی ہیں ۔ چھت زمین سے تیس فٹ کے قریب بلند تھی ۔ جس کی وجہ سے مسجد میں ہوا اور روشنی کا حصول آسان ہو گیا تھا۔ چھت پر دو سو اسی جگمگاتے ستارے بنائے گئے تھے ۔ جن میں سے اندرونی دالان کے ستارے خالص چاندی کے تھے ۔ اس کے علاوہ چھت مختلف چوبی پٹیوں (Panells) سے آراستہ تھی۔ ہر پٹی پر نقش ونگار کا انداز محتلف تھا ۔ مسجد کے وسط میں تانبے کا ایک بہت بڑا جھاڑ معلق تھا جس میں بیک وقت ہزار چراغ جلتے تھے۔ خاص دالان کے دروازہ پر سونے کا کام کیا گیا تھا۔ جبکہ محراب اور اس سے متصل دیوار سونے کی تھی ۔ سنگ مر مر کے ستونوں پر سونے کے کام سے ان کی تزئین و آرائش کا کام نہایت نفاست سے کیا گیا تھا۔
عبد الرحمن الداخل کے بعد امیر ہشام اول (788-796)مسند امارت پر متمکن ہوا ۔ اس نے بھی اس مسجد کی تعمیر و توسیع کا کام جاری رکھا ۔ اس نے تو اپنے دور حکومت کے سات سالوں میں تمام مال غنیمت کا پانچواں حصہ مسجد کی تعمیر پر خرچ کیا۔ اس عظیم الشان مسجد کا وہ عظیم مینار جو چہار پہلو تھا اسی کے زمانے میں تعمیر ہوا۔ اس مینار کا شمار عجائبات عالم میں ہوتا تھا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس یکتائے زمانہ مسجد کی تکمیل پر ماہ و سال نہیں صدیاں خرچ ہوئیں ۔ ہر امیر نے اپنی بساط اور ذوق کے مطابق اس پر بے دریغ خرچ کیا۔ ہزاروں مزدوروں نے سینکڑوں معماروں کی معیت میں اس مسجد کی تعمیر و آرائش پر اپنا خون پسینہ ایک کیا تب جا کر اسے وہ مقام حاصل ہوا جو بہت کم عمارتوں کو حاصل ہے ۔
ذیل میں اس مسجد کے بعض اہم حصوں پر الگ الگ روشنی ڈالی گئی ہے ۔
محراب و منبر
مسجد میں محراب و منبر کو ایک ممتاز مقام حاصل ہوتا ہے ۔ کیونکہ جہاں باہر سے دیکھنے والوں کے لئے مسجد کا مینار اور گنبد مرکز نگاہ بن جاتے ہیں وہاں مسجد کے اندر محراب و منبر ہی وہ دو مقام ہیں جو ہر ایک کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ مسجد قرطبہ کی محراب (Niche) جس سنگ مر مر سے تیار کی گئی تھی وہ دودھ سے زیادہ اجلا اور برف سے زیادہ چمکیلا تھا ۔ صناعوں نے اسے ہفت پہلو کمرہ بنا دیا تھا جس کے اندر کی جانب سنگ تراشی کے ذریعے خوبصورت گل کاری کا کام کیا گیا تھا۔
اس کے سامنے کی طرف قوس کی شکل کی جو محراب (Arch) بنائی گئی ہے اسے دونوں طرف سے دو ستونوں نے سہارا دے رکھا ہے ۔ ہر جانب ایک ستون نیلگوں اور ایک سرخ ہے ۔ اس محراب پر قوس ہی کی شکل میں پچی کاری (Inlay work)کے ذریعے خوبصورت رنگین نقش ونگار(Arabsque) بنائے گئے ہیں جس کے گرداگرد کوفی رسم الخط میں قرآنی آیات لکھی گئی ہیں۔ محراب کی چھت ایک بہت بڑے صدف سے آراستہ ہے ۔ قبلہ کی دیوار کے ساتھ ساتھ پچی کاری سے مزین تین بڑے بڑے دروازے ہیں جن میں سے درمیانی دروازے میں مسجد کی محراب واقع ہے ۔ محراب کے قریب قبلہ کی دیوار نے تین عظیم قبوں (Vaults or Cupolas) کو تھام رکھا ہے ۔ جن میں سے درمیانی قبے کے اندر پچی کاری کا خوبصورت کام کیا گیا ہے ۔ قبلہ کی دیوار کے ساتھ جو دروازہ ”ساباط“پر بنایا گیا ہے اس کی ایک جانب وہ منبر تھا جو خوشبو دار اور قیمتی لکڑی کے 36ہزار ٹکڑوں سے بنایا گیا تھا۔ ٹکڑوں کو جوڑنے کے لئے سونے اور چاندی کے کیل لگائے گئے تھے ۔ لکڑی کے ہر ٹکڑے پر سات درہم نقرئی خرچ آئے تھے (ابن بشکوال : نفخ الطیب) ۔ جو لکڑی استعمال کی گئی تھی اس میں صندل ، بقم ، حدنگ، آبنوس، اور شوحط شامل ہیں ۔ یہ منبر آٹھ فنکاروں نے سات برس کی طویل مدت میں مکمل کیا تھا ۔ منبر میں زیادہ آب و تاب پیدا کرنے کے لئے اسے جواہرات سے مرصع کیا گیاتھا۔ انقلابات زمانہ کی دستبرد سے اگر مسجد کا کوئی حصہ صحیح حالت میں بچ سکا ہے تو وہ یہی محراب ہے جس کی چمک اور تابانی آج بھی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے ۔
ستون
امیر عبد الرحمن الداخل اور امیر ہشام اول کے عہد میں جو ستون مسجد قرطبہ میں استعمال کئے گئے وہ یا تو قرطاجنہ(Cartagena) سے لائے گئے تھے یا اربونہ(Arbonne) اور اشبیلیہ (Seville)سے ۔
لیکن یہ ستون تعداد میں اس قدر زیادہ نہ تھے کہ آئندہ کی تمام ضروریات کو پورا کر سکتے ۔ لہذا عبدالرحمن الناصر (912-961)نے اندلسی سنگ مرمر سے مختلف رنگوں کے ستون ترشوائے ۔ سنگ مر مر کے یہ ستون سفید ، نیلگوں، سرخ، سیاہ، سبز، گلابی اور رنگ برنگ کی چتیوں والے تھے۔ سنگ سماق، سنگ رخام ، اور زبر جد سے بنائے گئے ان ستونوں پر سونے کی مینا کاری اور جواہرات کی پچی کاری کی گئی تھی ۔ مجموعی طور پر ان ستونوں کی تعداد 1400سے زائد تھی۔ ان ستونوں پر نعلی محرابیں اس طرح سے بنائی گئی ہیں کہ یہ ستون کھجور کے تنے اور ان پر بنے چھوٹے بڑے محاریب کھجور کی شاخیں معلوم ہوتی ہیں۔ جس ترتیب اور وضع سے انہیں نسب کیا گیا تھا اس کی بناءپر کسی بھی زاویہ سے انہیں دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انسان کسی دل فریب نخلستان میں کھڑا ہے اور اس کے سامنے ہزار ہا کھجور کے درخت صف بستہ کھڑے ہیں ۔ چھت کو سہارا دینے والے ستونوں پر قائم محرابوں کے علاوہ بہت سی چھوٹی بڑی آرائشی محرابیں بھی بنائی گئی تھیں جو ایک دوسرے کو قطع کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ زیادہ تر بند محرابیں (Blind Arches) ہیں جن کے درمیانی حصوں کو گچ کاری (Stucco work)، پچی کاری (Inlay work)اور ٹائلوں کے کام سے آراستہ کیا گیا ہے۔
دروازے
مسجد میں توسیع کے نتیجہ میں اس کے دروازوں کی تعداد نو سے بڑھ کر اکیس تک پہنچ گئی تھی ۔ نو دروازے مشرق کی جانب اور نو مغرب کی جانب تھے۔ ان میں ہر طرف کے آٹھ دروازے مردوں کے لئے اور ایک ایک دروازہ عورتوں کے لئے مخصوص تھا۔ شمال کی جانب تین دروازے تھے ان تمام دروازوں کے کواڑوں پر صیقل شدہ پیتل کی پتریاں چڑھائی گئی تھیں جو سورج کی روشنی میں خوب چمکتی تھیں۔ اس کے علاوہ جنوب کی طرف سونے کے کواڑوں والا ایک بڑا دروازہ بھی تھا جو قصر خلافت سے ملانے والی ”ساباط“ نامی مسقف گزرگاہ پر بنا ہوا تھا۔ اسی راستے سے گزر کر امراءاندلس مقصورہ میں داخل ہوتے تھے ۔ ساباط کے دروازے کی محراب پر گنجان پچی کاری کا کام کیا گیا ہے حتی کہ کوفی رسم الخط میں تحریر عبارتیں تک پچی کاری سے لکھی گئی ہیں۔
پانی اور روشنی کا انتظام
مسجد میں فانوسوں اور موم بتیوں کی روشنی کے سبب رات کو بھی دن کا گمان گزرتا تھا ۔ اگرچہ اس میں جلنے والے چراغوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں مگر پھر بھی وہ ساڑھے سات ہزار سے کسی طرح کم نہ تھے ۔ سال بھر میں ساڑھے تین من موم کے علاوہ تین سو من تیل جلایا جاتا تھا۔
شروع میں وضو کرنے کے لئے پانی مسجد کے باہر کے ایک کنویں سے میضاة (وضو خانہ) میں پکھالوں کے ذریعہ لا کر بھرا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں الحکم نے چار میضاة بنوائے جن میں سے دو بڑے اور دو چھوٹے تھے ۔ ان میں پانی بھرنے کے لئے ایک پختہ نہر جبل قرطبہ کو کاٹ کر مسجد تک لائی گئی تھی ۔ اس کا پانی نہایت عمدہ اور شیریں تھااور ہر وقت رواں رہتا تھا ۔ مسجد کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد یہ پانی تین زمین دوز نالیوں کے ذریعہ مسجد سے باہر نکل جاتا تھا۔
مینار
مسجد قرطبہ میں مینار کا اضافہ سب سے پہلے ہشام اول نے کیا تھا ۔ یہ مینار چہار پہلو تھا اور اس کے اوپر جانے کے لئے صرف ایک زینہ تھا۔ اس کی بلندی بھی عمارت کی مناسبت سے رکھی گئی تھی۔
888ءمیں ایک زلزلہ سے اس عمارت کو شدید نقصان پہنچا تھا ۔ لہذا عبدالرحمن الناصر جب سریر آرائے خلافت ہوا تو اس نے پرانے مینار کی جگہ دوسرا مینار بنوایا جو پہلے مینار کی بہ نسبت کہیں زیادہ رفیع الشان تھا ۔ اس مینار کے بارے میں نفخ الطیب میں ابن بشکوال کی جو عبارت نقل ہوئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کی بلندی بہتر ہاتھ تھی ۔ زمین سے چون ہاتھ کی بلندی پر ایک چھجہ تھا ۔ جس پر ستون قائم کرکے ان پر ایک برج بنا دیا گیا تھا جہاں مؤذن اذان دیتا تھا ۔ پہلے مینار کے برعکس اس میں اوپر جانے کے لئے دو زینے بنا دئے گئے تھے ۔ برج کے اوپر کلس تھا جو سیب کی شکل کے تین گولوں پر مشتمل تھا جو ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہوئے تھے۔ ان میں سے بیچ کا گولہ چاندی کا اور دوسرے دونوں سونے کے تھے ۔ ان سیبوں کے اوپر چھ پنکھڑیوں والا سوسن کا پھول تھا جس پر نہایت خوبصورت سونے کا انار بنا دیا گیاتھا۔
مقصورہ
الحکم نے جو مقصورہ تیار کرایا تھا اس کے بارے میں نفخ الطیب میں ابن بشکوال کا قول ابن سعید کے حوالے سے اس طرح نقل ہوا ہے کہ دیوار قبلہ سے متصل دالان کے گیارہ دروں میں سے بیچ کے پانچ دروں کو گھیر کر یہ مقصورہ بنایا گیا تھا۔
مقصورہ سے کچھ دور لکڑی کی دیوار بنا دی گئی تھی جس پر نہایت ہی عمدہ کام کیا گیا تھا۔ اس مقصورہ کا فرش مسجد کے باقی فرش سے کسی قدر اونچا رکھا گیا تھا۔ اس میں داخل ہونے کے لئے تین دروازے تھے۔ ایک دروازہ قبلہ کی دیوار میں جبکہ ایک مشرق و مغرب کے سمت میں تھا۔ مقصورہ کا فرش چاندی کا اور تمام دیواروں پر جڑاؤ کا کام بلّور کے ٹکڑوں اور قیمتی رنگین نگینوں سے کیا گیا تھا۔ ان بلّور کے ٹکڑوں اور نگینوں پر بھی سونے کی مینا کاری تھی۔ مقصورہ میں ایک ستون کی جگہ چار ستون کھڑے کر کے ان پر متعدد الجہت محاریب (Polygon Arches) والے تاج قائم کئے گئے تھے۔ ان ستونوں پر اوپر سے نیچے تک فیروزے جڑ کر کے سونے کے پھول بوٹے بنائے گئے تھے۔hfkjfchj ;
یہ مستطیل مسجد لمبائی میں 180میٹر اور چوڑائی میں 135میٹر ہے ۔ اس رقبہ میں مسجد کا قبلہ کی سمت دالانوں والا حصہ ، صحن مسجد اور تین طرف کے دالانوں کے علاوہ اس مینار کو بھی شامل کیا گیا ہے جو مسجد کے مینار کی جگہ بنایا گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ :
"رنگ ہو یا خشت وسنگ ، چنگ ہو یا حرف وصوت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود!"
مسلمانوں کا مطالبہ
دسمبر 2006ء میں اسپین کے مسلمانوں نے پوپ بینیڈکٹ سے اپیل کی کہ انہیں مسجد قرطبہ میں عبادت کی اجازت دی جائے۔ اسپین کے اسلامک بورڈ نے پوپ کے نام خط میں لکھا ہے کہ سپین کے کلیسا نے ان کی درخواست مستردکردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقدس جگہ کی حوالگی کی درخواست نہیں بلکہ وہ تمام مذاہب کے ساتھ مل کر عبادت کر کے عیسائی دنیا میں ایک اچھوتی مثال قائم کرنا چاہتے ہیں۔ دسمبر 2006ء کے اوائل میں ہسپانوی کیتھولک چرچ نے مسلمانوں کو جامع قرطبہ میں نماز کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس عبادت گاہ میں مشترکہ عبادت کیلئے دیگر مذاہب سے بات چیت کیلئے تیار نہیں۔ مسلم بورڈ کے جنرل سیکرٹری منصور ایکسڈیرو کے مطابق قبل ازیں سیکورٹی گارڈز نے اندرونی حصے میں پرانی مسجد میں مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی سے روک دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ رومن کیتھولک چرچ کے بعض عناصر اسپین میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ گرجا جو دنیا بھر میں مسجد کے طور پر جانا جاتا ہے اور اسے دیکھنے کیلئے دنیا بھر کے مسلمان یہاں آتے ہیں۔
مختصر سيره سبط اكبر امام حسن مجتبي عليہ السلام
سرکار دو عالم (ص) :
من أحب الحسن والحسين عليهما السلام فقد أحبني
(جس نے حسنین علیہما السلام سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی)
آپ کی ولادت
آپ ۱۵/ رمضان ۳ ہجری کی شب کو مدینہ منورہ میں پیداہوئے ۔ ولادت سے قبل ام الفضل نے خواب میں دیکھا کہ رسول اکرم(ص) کے جسم مبارک کا ایک ٹکڑا میرے گھر میں آ پہنچا ہے ۔ خواب رسول کریم سے بیان کیا آپ نے فرمایا اس کی تعبیر یہ ہے کہ میری لخت جگر فاطمہ کے بطن سے عنقریب ایک بچہ پیداہوگا جس کی پرورش تم کرو گی۔ مورخین کا کہنا ہے کہ رسول کے گھر میں آپ کی پیدائش اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی۔ آپ کی ولادت نے رسول کے دامن سے مقطوع النسل ہونے کا دھبہ صاف کردیا اور دنیا کے سامنے سورئہ کوثرکی ایک عملی اور بنیادی تفسیر پیش کردی۔
آپ کانام نامی
ولادت کے بعداسم گرامی حمزہ تجویز ہو رہاتھا لیکن سرورکائنات نے بحکم خدا، موسی کے وزیرہارون کے فرزندوں کے شبر و شبیر نام پرآپ کانام حسن اور بعد میں آپ کے بھائی کانام حسین رکھا-
آپ کا عقیقہ
آپ کی ولادت کے ساتویں دن سرکارکائنات نے خود اپنے دست مبارک سے عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی تصدق کی ( اسدالغابة جلد ۳ ص ۱۳) ۔
علامہ کمال الدین کابیان ہے کہ عقیقہ کے سلسلے میں دنبہ ذبح کیا گیاتھا (مطالب السؤل ص ۲۲۰) کافی کلینی میں ہے کہ سرورکائنات نے عقیقہ کے وقت جو دعا پڑھی تھی اس میں یہ عبارت بھی تھی ” اللہم عظمہا بعظمہ، لحمہا بلحمہ دمہابدمہ وشعرہابشعرہ اللہم اجعلہا وقاء لمحمد والہ“ خدایا اس کی ہڈی مولود کی ہڈی کے عوض، اس کا گوشت اس کے گوشت کے عوض، اس کاخون اس کے خون کے عوض، اس کابال اس کے بال کے عوض قرار دے اور اسے محمد و آل محمد کے لیے ہر بلا سے نجات کا ذریعہ بنا دے ۔
امام شافعی کا کہنا ہے کہ آنحضرت نے امام حسن کاعقیقہ کرکے اس کے سنت ہونے کی دائمی بنیاد ڈل دی (مطالب السؤل ص ۲۲۰) ۔
کنیت و القاب
آپ کی کنیت صرف ابو محمد تھی اور آپ کے القاب بہت کثیر ہیں : جن میں طیب ،تقی ، سبط اور سید زیادہ مشہور ہیں-
امام حسن پیغمبر اسلام کی نظر میں
سرورکائنات نے بے شمار احادیث آپ کے متعلق ارشادفرمائی ہیں:
ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ میں حسنین کو دوست رکھتا ہوں اور جو انہیں دوست رکھے اسے بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔
ایک صحابی کابیان ہے کہ میں نے رسول کریم کو اس حال میں دیکھاہے کہ وہ ایک کندھے پرامام حسن کو اور ایک کندھے پر امام حسین کو بٹھائے ہوئے لیے جارہے ہیں اور باری باری دونوں کا منہ چومتے جاتے ہیں ایک صحابی کابیان ہے کہ ایک دن آنحضرت نماز پڑھ رہے تھے اور حسنین آپ کی پشت پرسوار ہو گئے کسی نے روکناچاہا تو حضرت نے اشارہ سے منع کردیا(اصابہ جلد ۲ ص ۱۲) ۔
ایک صحابی کابیان ہے کہ میں اس دن سے امام حسن کو بہت زیادہ دوست رکھنے لگا ہوں جس دن میں نے رسول کی آغوش میں بیٹھ کر انہیں داڈھی سے کھیلتے دیکھا (نورالابصارص ۱۱۹) ۔
امام نسائی عبداللہ ابن شداد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن نمازعشاء پڑھانے کے لیے آنحضرت تشریف لائے آپ کی آغوش میں امام حسن تھے آنحضرت نماز میں مشغول ہوگئے ، جب سجدہ میں گئے تو اتنا طول دیا کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ شاید آپ پر وحی نازل ہونے لگی ہے اختتام نماز پر آپ سے اس کا ذکر کیا گیا تو فرمایا کہ میرا فرزند میری پشت پر آ گیا تھا میں نے یہ نہ چاہا کہ اسے اس وقت تک پشت سے اتاروں ،جب تک کہ وہ خود نہ اترجائے ، اس لیے سجدہ کو طول دیناپڑا ۔
امام حسن کی سرداری جنت
آل محمدکی سرداری مسلمات سے ہے علماء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ سرورکائنات نے ارشاد فرمایا ہے ”الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة و ابوہما خیر منہما“ حسن اورحسین جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کے والد ان دونوں سے بہترہیں۔
جناب حذیفہ یمانی کابیان ہے کہ میں نے آنحضرت کو ایک دن بہت زیادہ مسرور پاکرعرض کی مولا آج افراط شادمانی کی کیا وجہ ہے ارشادفرمایا کہ مجھے آج جبرئیل نے یہ بشارت دی ہے کہ میرے دونوں فرزندحسن و حسین جوانان بہشت کے سردارہیں اور ان کے والد علی ابن ابی طالب ان سے بھی بہتر ہیں (کنزالعمال ج ۷ ص ۱۰۷ ،صواعق محرقہ ص ۱۱۷)
امام حسن کابچپن اور مسائل علمیہ
1 ۔ ایک روز امیرالمومنین مقام رحبہ میں تشریف فرماتے تھے اور حسنین بھی وہاں موجود تھے ناگاہ ایک شخص آ کر کہنے لگا کہ میں آپ کی رعایا اور اہل بلد(شہری) ہوں حضرت نے فرمایا کہ تو جھوٹ کہتا ہے تونہ میری رعایا میں سے ہے اورنہ میرے شہرکاشہری ہے بلکہ تو بادشاہ روم کافرستادہ ہے تجھے اس نے معاویہ کے پاس چند مسائل دریافت کرنے کے لیے بھیجاتھا اوراس نے میرے پاس بھیج دیاہے اس نے کہایا حضرت آپ کاارشاد بالکل درست ہے مجھے معاویہ نے پوشیدہ طورپرآپ کے پاس بھیجاہے اوراس کاحال خداوند عالم کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہے مگرآپ بہ علم امامت سمجھ گئے، آپ نے فرمایاکہ اچھا اب ان مسائل کے جوابات ان دوبچوں میں سے کسی ایک سے پوچھ لے وہ امام حسن کی طرف متوجہ ہواچاہتاتھا کہ سوال کرے امام حسن نے فرمایا:
یے شخص تویہ دریافت کرنے آیاہے کہ ۱ ۔ حق و باطل کتنا فاصلہ ہے ۲ ۔ زمین و آسمان تک کتنی مسافت ہے
۳ ۔ مشرق و مغرب میں کتنی دوری ہے ۔ ۴ ۔ قوس قزح کیاچزہے ۵ ۔ مخنث کسے کہتے ہیں ۶ ۔ وہ دس چیزیں کیاہیں جن میں سے ہرایک کوخداوندعالم نے دوسرے سے سخت اورفائق پیدا کیاہے۔
سن، حق و باطل میں چار انگشت کا فرق و فاصلہ ہے اکثر و بیشتر جوکچھ آنکھ سے دیکھاحق ہے اورجوکان سے سنا باطل ہے(آنکھ سے دیکھاہوایقینی ۔ کان سے سناہوامحتاج تحقیق )۔
زمین اور آسمان کے درمیان اتنی مسافت ہے کہ مظلوم کی آہ اورآنکھ کی روشنی پہنچ جاتی ہے ۔
مشرق و مغرب میں اتنافاصلہ ہے کہ سورج ایک دن میں طے کرلیتاہے ۔
اور قوس و قزح اصل میں قوس خداہے اس لئے کہ قزح شیطان کانام ہے ۔ یہ فراوانی رزق اوراہل زمین کے لیے غرق سے امان کی علامت ہے اس لئے اگریہ خشکی میں نمودارہوتی ہے توبارش کے حالات میں سے سمجھی جاتی ہے اوربارش میں نکلتی ہے تو ختم باران کی علامت میں سے شمارکی جاتی ہے ۔
مخنث وہ ہے جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہوکہ مردہے یا عورت اور اس کے جسم میں دونوں کے اعضاء ہوں اس کا حکم یہ ہے کہ تا حد بلوغ انتظارکریں اگرمحتلم ہو تو مرد اورحائض ہو اور پستان ابھرائیں تو عورت ۔
اگراس سے مسئلہ حل نہ ہوتو دیکھناچاہئے کہ اس کے پیشاب کی دھاریں سیدھی جاتی ہیں یا نہیں اگرسیدھی جاتی ہیں تو مرد، ورنہ عورت ۔
اوروہ دس چیزیں جن میں سے ایک دوسرے پرغالب و قوی ہے وہ یہ ہیں کہ خدانے سب سے زائدسخت قوی پتھرکوپیداکیاہے مگراس سے زیادہ سخت لوہا ہے جوپتھرکوبھی کاٹ دیتاہے اوراس سے زائدسخت قوی آگ ہے جولوہے کوپگھلادیتی ہے اورآگ سے زیادہ سخت قوی پانی ہے جوآگ کوبجھادیتاہے اوراس سے زائد سخت وقوی ابرہے جوپانی کواپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتاہے اوراس سے زائد وقوی ہواہے جوابرکواڑائے پھرتی ہے اورہواسے زائد سخت وقوی فرشتہ ہے جس کی ہوامحکوم ہے اوراس سے زائدسخت وقوی ملک الموت ہے جوفرشتہ بادکی بھی روح قبض کرلیں گے اورموت سے زائد سخت وقوی حکم خداہے جوموت کوبھی ٹال دیتاہے۔یہ جوابات سن کرسائل پھڑک اٹھا۔
2۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے دیکھاکہ ایک شخص کے ہاتھ میں خون آلودچھری ہے اوراسی جگہ ایک شخص ذبح کیاہوا پڑاہے جب اس سے پوچھاگیاکہ تونے اسے قتل کیاہے،تواس نے کہا ہاں ،لوگ اسے جسدمقتول سمیت جناب امیرالمومنین کی خدمت میں لے چلے اتنے میں ایک اور شخص دوڑتاہواآیا،اورکہنے لگا کہ اسے چھوڑدو اس مقتول کاقاتل میں ہوں ۔ ان لوگوں نے اسے بھی ساتھ لے لیااورحضرت کے پاس لے گئے ساراقصہ بیان کیا آپ نے پہلے شخص سے پوچھاکہ جب تواس کاقاتل نہیں تھاتوکیاوجہ ہے کہ اپنے کواس کاقاتل بیان کیا،اس نے کہایامولا میں قصاب ہوں گوسفندذبح کررہاتھا کہ مجھے پیشاب کی حاجت ہوئی ،اس طرح خون آلود چھری میں لیے ہوئے اس خرابہ میں چلاگیا وہاں دیکھاکہ یہ مقتول تازہ ذبح کیاہواپڑاہے اتنے میں لوگ آگئے اورمجھے پکڑلیا میں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ اس وقت جبکہ قتل کے سارے قرائن موجودہیں میرے انکارکوکون باور کرے گا میں نے اقرارکرلیا ۔
پھرآپ نے دوسرے سے پوچھاکہ تواس کاقاتل ہے اس نے کہا جی ہاں، میں ہی اسے قتل کرکے چلاگیاتھا جب دیکھاکہ ایک قصاب کی ناحق جان چلی جائے گی توحاضرہوگیا آپ نے فرمایامیرے فرزندحسن کوبلاؤ وہی اس مقدمہ کافیصلہ سنائیں گے امام حسن آئے اور سارا قصہ سنا، فرمایا دونوں کوچھوڑدو یہ قصاب بے قصورہے اور یہ شخص اگرچہ قاتل ہے مگراس نے ایک نفس کو قتل کیاتودوسرے نفس (قصاب) کو بچاکر اسے حیات دی اور اسکی جان بچالی اور حکم قرآن ہے کہ ”من احیاہافکانما احیاالناس جمیعا“ یعنی جس نے ایک نفس کی جان بچائی اس نے گویا تمام لوگوں کی جان بچائی لہذا اس مقتول کاخون بہا بیت المال سے دیاجائے۔
امام حسن اور تفسیر قرآن
علامہ ابن طلحہ شافعی بحوالہ تفیر و سیط واحدی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن عباس اور ابن عمرسے ایک آیت سے متعلق ”شاہد و مشہود“ کے معنی دریافت کئے ابن عباس نے شاہد سے یوم جمعہ اور مشہود سے یوم عرفہ بتایا اور ابن عمرنے یوم جمعہ اور یوم النحر کہا اس کے بعدوہ شخص امام حسن کے پاس پہنچا، آپ نے شاہدسے رسول خدا اور مشہود سے یوم قیامت فرمایا اور دلیل میں آیت پڑھی :
۱ ۔ یاایہاالنبی اناارسلناک شاہدا ومبشرا ونذیرا ۔ائے نبی ہم نے تم کو شاہد و مبشر اور نذیر بناکر بھیجاہے ۔
۲ ۔ ذالک یوم مجموع لہ الناس وذالک یوم مشہود۔ قیامت کا وہ دن ہوگا جس میں تمام لوگ ایک مقام پرجمع ہوں کردیے جائیں کے، اور یہی یوم مشہود ہے ۔ سائل نے سب کاجواب سننے کے بعد کہا ”فکان قول الحسن احسن“ امام حسن کا جواب دونوں سے کہیں بہترہے (مطالب السؤل ص ۲۲۵) ۔
امام حسن کی عبادت
امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام زبردست عابد، بے مثل زاہد، افضل ترین عالم تھے آپ نے جب بھی حج فرمایا پیدل فرمایا، کبھی کبھی پابرہنہ حج کے لیے جاتے تھے آپ اکثرموت، عذاب، قبر، صراط اور بعثت و نشور کو یاد کرکے رویاکرتے تھے جب آپ وضو کرتے تھے تو آپ کے چہرہ کا رنگ زرد ہوجا یاکرتاتھا اورجب نمازکے لیے کھڑ ے ہوتے تھے توبیدکی مثل کانپنے لگتے تھے آپ کامعمول تھاکہ جب دروازہ مسجد پر پہنچتے تو خدا کو مخاطب کرکے کہتے میرے پالنے والے تیراگنہگاربندہ تیری بارگاہ میں آیاہے اسے رحمن و رحیم اپنے اچھائیوں کے صدقہ میں مجھ جیسے برائی کرنے والے بندہ کومعاف کردے آپ جب نماز صبح سے فارغ ہوتے تھے تواس وقت تک خاموش بیٹھے رہتے تھے جب تک سورج طالع نہ ہوجائے (روضة الواعظین بحارالانوار)۔
آپ کا زہد
امام شافعی لکھتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے اکثر اپنا سارا مال راہ خدا میں تقسیم کردیاہے اور بعض مرتبہ نصف مال تقسیم فرمایاہے وہ عظیم و پرہیزگارتھے۔
آپ کی سخاوت
مورخین لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت امام حسن علیہ السلام سے کچھ مانگا دست سوال دراز ہوناتھا کہ آپ نے پچاس ہزار درہم اور پانچ سو اشرفیاں دے دیں اور فرمایا کہ مزدور لاکر اسے اٹھوالے جا اس کے بعد آپ نے مزدور کی مزدوری میں اپنا چغابخش دیا (مراة الجنان ص ۱۲۳) ۔
ایک مرتبہ آپ نے ایک سائل کو خدا سے دعا کرتے دیکھا خدایا مجھ دس ہزار درہم عطا فرما آپ نے گھرپہنچ کر مطلوبہ رقم بھجوادی (نورالابصار ص ۱۲۲) ۔
آپ سے کسی نے پوچھاکہ آپ توفاقہ کرتے ہیں لیکن سائل کو محروم واپس نہیں فرماتے ارشاد فرمایاکہ میں خدا سے مانگنے والاہوں اس نے مجھے دینے کی عادت ڈال رکھی ہے اور میں نے لوگوں کو دینے کی عادت ڈالی رکھی ہے میں ڈرتاہوں کہ اگر اپنی عادت بدل دوں ، تو کہیں خدا بھی نہ اپنی عادت بدل دے اور مجھے بھی محروم کردے (ص ۱۲۳) ۔
توکل کے متعلق آپ کا ارشاد
امام شافعی کا بیان ہے کہ کسی نے امام حسن سے عرض کی کہ ابوذرغفاری فرمایاکرتے تھے کہ مجھے توانگری سے زیادہ ناداری اورصحت سے زیادہ بیماری پسندہے آپ نے فرمایا کہ خدا ابوذر پر رحم کرے ان کا کہنا درست ہے لیکن میں تو یہ کہتاہوں کہ جو شخص خدا کے قضا و قدر پر توکل کرے وہ ہمیشہ اسی چیزکوپسند کرے گا جسے خدا اس کے لیے پسندکرے (مراة الجنان جلد ۱ ص ۱۲۵) ۔
امام حسن حلم اور اخلاق کے میدان میں
علامہ ابن شہرآشوب تحریرفرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت امام حسن علیہ السلام گھوڑے پرسوارکہیں تشریف لیے جارہے تھے راستہ میں معاویہ کے طرف داروں کاایک شامی سامنے آپڑا اس نے حضرت کو گالیاں دینی شروع کردیں آپ نے اس کا مطلقا کوئی جواب نہ دیا جب وہ اپنی جیسی کرچکا توآپ اس کے قریب گئے اوراس کو سلام کرکے فرمایا کہ بھائی شاید تو مسافر ہے، سن اگرتجھے سواری کی ضرورت ہو تو میں تجھے سواری دیدوں، اگرتو بھوکاہے توکھاناکھلادوں، اگرتجھے کپڑے درکارہوں تو کپڑے دیدوں، اگرتجھے رہنے کو جگہ چاہئے تو مکان کاانتظام کردوں، اگر دولت کی ضرورت ہے تو تجھے اتنا دیدوں کہ تو خوش حال ہوجائے یہ سن کرشامی بے انتہا شرمندہ ہوا اور کہنے لگا کہ میں گواہی دیتاہوں کہ آپ زمین خدا پر اس کے خلیفہ ہیں مولا میں تو آپ کو اور آپ کے باپ دادا کو سخت نفرت اور حقارت کی نظرسے دیکھتاتھا لیکن آج آپ کے اخلاق نے مجھے آپ کاگردیدہ بنادیا اب میں آپ کے قدموں سے دور نہ جاؤں گا اورتا حیات آپ کی خدمت میں رہوں گا (مناقب جلد ۴ ص ۵۳ ،وکامل مبروج جلد ۲ ص ۸۶) ۔
بعض اقوال حضرت امام حسن علیہ السلام
حدیث-۱
قال الامام الحسن علیہ السلام:” عجبت لمن یتفکر فی ماکولہ کیف لا یتفکر فی معقولہ فیجنب بطنہ ، ما یوء ذیہ و یودع صدرہ ما یردیہ“
ترجمہ:
حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے ھیں :” مجھے تعجب ھے اس شخص پر کہ جو جسمانی غذا کے متعلق توغور و فکر کرتا ھے لیکن روحانی غذا کے لئے نھیں ۔ نقصان دہ غذاؤں کو اپنے شکم سے دور رکھتا ھے لیکن ھلاک کرنے والے مطالب کو اپنے قلب میں جگہ دیتا ھے “۔
حدیث -۲
قال الامام الحسن علیہ السلام :”القریب من قربتہ المودة و ان بعد نسبہ و البعید من باعدتہ المودة و ان قرب نسبہ “
ترجمہ:
حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے ھیں :” رشتہ داروں میں قریب ترین افراد وہ ھیں جن کے اندر محبت زیادہ ھے اگر چہ نسب کے لحاظ سے دور ھوں ۔ اور رشتہ داروں میں دورترین افراد وہ ھیں جن کے اندر محبت کم ھے اگر چہ وہ نسب کے لحاظ سے قریب ھوں “۔
حدیث -۳
قال الامام الحسن علیہ السلام” ما تشاور قوم الا ھدوا الی رشدھم “
ترجمہ:
حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے ھیں : ” کوئی بھی گروہ اپنے امور میں ایک دوسرے سے مشورہ نھیں کرتا مگر یہ کہ اس میں انکے لئے خیر و صلاح ھو “۔
حدیث -4
قال الامام الحسن علیہ السلام:” اللوٴم ان لا تشکر النعمة “
ترجمہ ۔
حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے ھیں : ” انسان کی پستی و ذلت یہ ھے کہ نعمت کا شکر ادا نہ کرے “ ۔
حدیث -5
قال الامام الحسن علیہ السلام:” العار اھون من النار “
ترجمہ:
حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے ھیں :” ذلت دوزخ کی آگ سے بھتر ھے “۔
حدیث -۶
قال الامام الحسن علیہ السلام:” الخیر الذی لا شر فیہ : الشکر مع النعمة و الصبر علی النازلة “
ترجمہ:
حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے ھیں : ” ایک خیر ایسا ھے جس میں کسی طرح کا کوئی شر نھیں ھے : وہ یہ ھے کہ نعمت ملنے پر شکر ،اور مصیبت کے وقت صبر کیا جائے“۔
حدیث -۷
قال الامام الحسن علیہ السلام:”اذا لقی احدکم اخاہ فلیقبل موضع النور من جبھتہ “
ترجمہ:
حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے ھیں :” جب تم میں سے کوئی اپنے دینی بھائی سے ملاقات کرے تو اسکی نورانی پیشانی کا بوسہ لے
صحیفہ امام حسن علیہ السلام میں آنحضرت کی دعائیں
1۔ آنحضرت کی دعا خدا کی تسبیح اور پاکیزگی کے متعلق
پاک و پاکیزہ ہے وہ جس نے اپنی مخلوقات کو اپنی قدرت کے ذریعے پیدا کیا اور اُن کو اپنی حکمت کے تحت محکم اور مضبوط خلق فرمایا۔ اپنے علم کی بنیاد پر ہرچیز کو اپنے مقام پر قرار دیا۔ پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جو آنکھوں کی خیانت اور جو کچھ دلوں میں ہے، جانتا ہے۔ اُس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
2۔ مہینے کی دس اور گیارہ تاریخ کو خدا کی تسبیح اور تقدیس میں آنحضرت کی دعا
پاک و پاکیزہ ہے نورکو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے تاریکی کو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے پانیوں کو خلق کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے آسمانوں کو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے زمینوں کو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے ہواؤں کو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے سبزے کو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے زندگی اور موت کو پید اکرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے مٹی اور بیابانوں کو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے خدا اور تعریف و ثناء اُسی کیلئے ہے۔
3۔ آنحضرت کی دعا خدا کے ساتھ مناجات کرنے کے متعلق
اے اللہ! تیری بارگاہ میں کھڑا ہوں اور اپنے ہاتھ تیری طرف بلند کئے ہیں، باوجود اس کے کہ میں جانتا ہوں کہ میں نے تیری عبادت میں سستی کی ہے اورتیری اطاعت میں کوتاہی کی ہے۔ اگر میں حیاء کے راستے پر چلا ہوتا تو طلب کرنے اور دعا کرنے سے ڈرتا۔
لیکن اے پروردگار! جب سے میں نے سنا ہے کہ تو نے گناہگاروں کو اپنے دربار میں بلایا ہے اور اُن کو اچھی طرح بخشنے اور ثواب کا وعدہ دیا ہے، تیری ندا پر لبیک کہنے کیلئے آیا ہوں اور مہربانی کرنے والوں کے مہربان کی محبت کی طرف پناہ لئے ہوئے ہوں۔
اور تیری رسول کے وسیلہ سے جس کو تو نے اہلِ اطاعت پر فضیلت عطا کی ہے، اپنی طرف سے قبولیت اور شفاعت اُس کو عطا کی ہے، اس کے چنے ہوئے وصی کے وسیلہ سے کہ جو تیرے نزدیک جنت اور جہنم کے تقسیم کرنے والامشہور ہے، عورتوں کی سردار فاطمہ کے صدقہ کے ساتھ اور ان کی اولاد جو رہنما اور اُن کے جانشین ہیں، کے وسیلہ سے، اُن تمام فرشتوں کے وسیلہ سے کہ جن کے وسیلہ سے تیری طرف جب متوجہ ہوتے ہیں اور تیرے نزدیک شفاعت کیلئے وسیلہ قرار دیتے ہیں، وہ تیرے دربار کے خاص الخاص ہیں، میں تیری طرف متوجہ ہوا ہوں۔
پس ان پر درود بھیج اور مجھے اپنی ملاقات کے خطرات سے محفوظ فرما۔ مجھے اپنے خاص اور دوست بندوں میں سے قرار دے۔ اپنے سوال اور گفتگو میں سے میں نے اُس کو مقدم کیا ہے۔
جو تیری ملاقات اور دیدار کا سبب بنے اور اگر ان تمام چیزوں کے باوجود میری دعاؤں کو رد کردے گا تو میری اُمیدیں نااُمیدی میں تبدیل ہوجائیں گی۔ اس طرح جیسے ایک مالک اپنے نوکر کے گناہوں کو دیکھے اور اُسے اپنے دربار سے دور کردے۔ ایک مولا اپنے غلام کے عیوب کا ملاحظہ کرے اور اُس کے جواب سے اپنے آپ کو روک لے۔افسوس ہے مجھ پر۔
ایاصوفیہ مسجد - استانبول
ایاصوفیہ (Church of Holy Wisdom یا موجودہ ایاصوفیہ عجائب گھر) ایک سابق مشرقی آرتھوڈوکس گرجا ہے جسے 1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے بعد عثمانی ترکوں نے مسجد میں تبدیل کردیا۔ 1935ء میں اتاترک نے اس کی گرجے و مسجد کی حیثیت ختم کرکے اسے عجائب گھر بنادیا۔ایاصوفیہ ترکی کے شہر استنبول میں واقع ہے اور بلاشک و شبہ دنیا کی تاریخ کی عظیم ترین عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
لاطینی زبان میں اسے Sancta Sophia اور ترک زبان میں Ayasofya کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں کبھی کبھار اسے سینٹ صوفیہ بھی کہا جاتا ہے۔
تاریخ :
ایاصوفیہ کا ایک اندرونی منظر4 صدی عیسوی کے دوران یہاں تعمیر ہونے والے گرجے کے کوئی آثار اب موجود نہیں۔ پہلے گرجے کی تباہی کے بعد قسطنطین اول کے بیٹے قسطنطیس ثانی نے اسے تعمیر کیا تاہم 532ء میں یہ گرجا بھی فسادات و ہنگاموں کی نذر ہوگیا۔ اسے جسٹینین اول نے دوبارہ تعمیر کرایا اور 27 دسمبر 537ء کو یہ مکمل ہوا۔
ایاصوفیہ متعدد بار زلزلوں کا شکار رہا جس میں 558ء میں اس کا گنبد گرگیا اور 563ء میں اس کی جگہ دوبارہ لگایا جانے والا گنبد بھی تباہ ہوگیا۔ 989ء کے زلزلے میں بھی اسے نقصان پہنچا۔
1453ء میں قسطنطنیہ کی عثمانی سلطنت میں شمولیت کے بعد ایاصوفیہ کو ایک مسجد بنادیا گیا اور اس کی یہ حیثیت 1935ء تک برقرار رہی جب کمال اتاترک نے اسے عجائب گھر میں تبدیل کردیا۔
ایاصوفیہ کا ایک وضوخانہ جو عثمانی دور میں تعمیر کیا گیا
گنبد کی تزئین و آرائش ایاصوفیہ بلاشبہ بازنطینی طرز تعمیر کا ایک شاہکار تھا جس سے عثمانی طرز تعمیر نے جنم لیا۔ عثمانیوں کی قائم کردہ دیگر مساجد شہزادہ مسجد، سلیمان مسجد اور رستم پاشا مسجد ایاصوفیہ کے طرز تعمیر سے متاثر ہیں۔
عثمانی دور میں مسجد میں کئی تعمیراتی کام کئے گئے جن میں سب سے معروف 16 ویں صدی کے مشہور ماہر تعمیرات معمار سنان پاشا کی تعمیر ہے جس میں نئے میناروں کی تنصیب بھی شامل تھے جو آج تک قائم ہیں۔
ایاصوفیہ کی ایک محراب
19 ویں صدی میں مسجد میں منبر تعمیر اور وسط میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور چاروں خلفائے راشدین کے ناموں کی تختیاں نصب کی گئیں۔
اس کے خوبصورت گنبد کا قطر 31 میٹر (102 فٹ) ہے اور یہ 56 میٹر بلند ہے۔
رات کے وقت ایک خوبصورت منظر
مسجد گوہر شاد – مشهد
گوہر شاد مسجد کا اندرونی حصہ ایرانی کاریگروں کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہے
گوہر شاد مسجد ایران کے صوبہ خراسان کے شہر مشہد کی ایک معروف مسلم عبادت گاہ ہے۔ " مسجد گوہر شاد" روضہ امام رضا (ع) كے جنوب ميں واقع ہے-
یہ مسجد تیموری سلطنت کے دوسرے فرمانروا شاہ رخ تیموری کی اہلیہ گوہر شاد کے حکم پر 1418ء میں تعمیر کی گئی اور اسے اس وقت کے معروف ماہر تعمیر غوام الدین شیرازی نے تعمیر کیا جو تیموری عہد کی کئی عظیم الشان تعمیرات کے معمار بھی ہیں۔ صفوی اور قاچار دور میں اس مسجد میں تزئین و آرائش کا کام بھی کیا گیا۔
مسجد كا وسيع صحن ہے – مسجد كے گنبد پر كاشي كاري ہوئي ہے - مسجد میں 4 ایوان اور 50 ضرب 55 میٹر کا ایک وسیع صحن اور متعدد شبستان بھی ہیں۔ مسجد کا گنبد 1911ء میں روسی افواج کی گولہ باری سے شدید متاثر ہوا۔ یہ مسجد 15 ویں صدی کی ایرانی تعمیرات کا اولین اور اب تک محفوظ شاہکار ہے۔ اس کے داخلی راستے میں سمرقندی انداز کی محراب در محراب ہیں جبکہ بلند مینار بھی اس کی شان و شوکت کو مزید بڑھاتے ہیں۔
اس مسجد كے بہت سے اوقاف ہيں جن كي ديكه بال آستانہ قدس رضوي كا متولي كرتا ہے-
گوہر شاد نے مذكوره مسجد كے علاوه حرم امام رضا (ع) اور اي كے اطراف ميں ديگر عمارتيں بهي بنوائي تهيں جو كہ دارالسياده، دارالتوحيد اور دارالضيافہ سے عبارت ہيں-
گوہر شاد كو سلطان ابوسعيد محمد بن مير انشاه بن تيمور لنگ كے حكم سے هرات ميں قتل كيا گيا-
"نماز" کانفرنس کے شرکاء سے قائد انقلاب اسلامی کا ایک اہم خطاب
قائد انقلاب اسلامی نے بدھ انیس نومبر سن دو ہزار آٹھ کو تہران میں "نماز" کانفرنس کے شرکاء سے ملاقات میں نماز کی اہمیت پر تاکید فرمائی آپ نے نماز کو صحیح طور پر ادا کرنے اور اس کے قالب و روح پر توجہ دینے کی ہدایت کی اور معاشرے میں نماز جیسی دینی علامتوں کے نمایاں رہنے کو ضرور قرار دیا۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
بسم اللَّه الرّحمن الرّحيم
سب سے پہلے تو میں ان بھائی بہنوں کا تہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو نماز کی تبلیغ اور ترویج میں مصروف ہیں۔ اس کی ہر جگہ خاص طور پر یونیورسٹیوں میں خاص ضرورت اور اہمیت ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں میری دعا ہے کہ آپ تمام حضرات بالخصوص جناب قرائتی صاحب (ایران کے معروف معلم قرآن و مبلغ) اور دوسرے ان تمام افراد کو جو اس عظیم فریضے کی ادائیگی میں مصروف ہیں اور جنہوں نے یہ شجرہ طیبہ لگایا جس سے آج بحمد اللہ ثمرات بھی مل رہے ہیں، مزید کارہائے نمایاں کرنے کی توفیق عطا کرے۔
نماز کی تبلیغ اور ترویج کی اہمیت کا سرچشمہ خود نماز کی اہمیت ہے۔ ہم اسلامی شریعت میں دیکھتے ہیں کہ قرآنی آیات ہوں، احادیث پیغمبر یا اقوال معصومین سب میں نماز کی ترغیب بالکل نمایاں ہے اور نماز کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انسان کی جسمانی، روحانی، انفرادی اور سماجی بیماریوں کے لئے رکھے گئے علاجوں میں نماز بہت بنیادی مقام کی حامل ہے۔ تمام شرعی واجبات اور وہ محرمات جن سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے در حقیقت انسان کی دنیا و آخرت کے امور کی تقویت کے لئے پروردگار عالم کی تجویز کردہ دواؤں کا مجموعہ ہے لیکن اس مجموعے میں بعض دواؤں کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اور ان میں بھی نماز کلیدی ترین ہے۔ " الّذين ان مكّنّاهم فى الارض اقاموا الصّلوة" اللہ کے مومن بندے، راہ خدا کے مجاہد اور الہی تعلیمات کو عام کرنے کی راہ میں جاں نثاری کرنے والے افراد ایسے ہوتے ہیں کہ جب "ان مکناھم فی الارض" ہم نے زمین میں ان کو مضبوط مقام عطا کر دیا اور انہیں طاقت بخش دی تواگرچہ انہیں بہت سے کام انجام دینا ہوتے ہیں جیسے مساوات قائم کرنا وغیرہ وغیرہ لیکن ان کی اولیں ترجیح نماز کا قیام ہوتا ہے۔ اس نماز میں کیا راز پنہاں ہے کہ اسے قائم کرنا اتنا اہم ہے؟
نماز کے بارے میں بے انتہا گفتگو ہو چکی ہے۔ ہر انسان کے اندر ایک سرکش نفس موجود ہے۔ وہ بد مست ہاتھی کہ اگر اس کی جانب سے ہوشیار رہے، ڈنڈا لیکر اس کے سر پر سوار رہے اور بار بار اس کی تادیب کرتے رہے تب تو وہ آپ کو ہلاک نہیں کر پائے گا اور قابو میں رہے گا اور یہی نفس انسان کی پیشرفت کا باعث بن جائے گا۔ نفس انسانی خواہشات کا مجموعہ ہے۔ اگر ان خواہشات کو قابو میں رکھا گيا اور انہیں صحیح سمت میں موڑ دیا گیا تو وہ انسان کو ثریا پر پہنچا دیں گی۔ ان کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ یہ انسان کو بہکا دیتی ہیں۔ کوئی انہیں قابو میں رکھنے والا ہونا چاہئے۔ اگر آج دنیا میں ظلم و جور ہے تو وہ ایک یا چند افراد یا کسی ایک گروہ کی نفسانی خواہشات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بد مستی کی دین ہے۔ اگر دنیا میں فحاشی ہے، اگر انسانوں کی توہین کی جا رہی ہے، انسانی وقار کو پامال کیا جا رہا ہے، اگر دنیا میں غربت کا عفریت موجود ہے، انسانی معاشرے کا بہت بڑی حصہ الہی نعمتوں سے محروم ہے تو اس کی وجہ یہی ہے۔ ستمگر افراد کے مجموعے کی نفسانی خواہشات کے نتیجے میں ظلم و جور پیدا ہوتا ہے۔ تسلط پسند افراد کا مجموعہ دوسرے افراد کو مستضعف بنا دیتا ہے۔ تسلط پسند، خود غرض اور بے رحم مجموعہ فقیر پیدا کرتا ہے، بھکمری پھیلاتا ہے۔ تاریخ میں ابتدا سے اب تک یہ جو فتنہ و فساد نظر آتا ہے نفسانی خواہشات کی ہی دین ہے اور انسان اللہ تعالی کی جانب سے ودیعت کردہ توانائیوں کو جیسے جیسے زیادہ استعمال کر رہا ہے، اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کمی نہیں آ رہی ہے۔ "چو دزدی با چراغ آید گزیدہ تر برد کالا" (اگر چور چراغ کے ساتھ گھر میں داخل ہوتا ہے تو چیزیں چن کر چراتا ہے) تو جس ظالم کے پاس ایٹم بم موجود ہے اس کا قصہ شمشیر بکف ظالم سے الگ ہے۔ یہ نفسانی خواہشات انسانوں کے لئے اب زیادہ خطرناک بن چکی ہیں۔
تو انسانوں کے اندر ایک ایسی چیز موجود ہے۔ تمام انسان اپنے وجود میں پنہاں اس بد مست ہاتھی(ستم) سے دوچار ہیں۔ ان پر اسے مہار کرنے کی ذمہ داری ہے۔ اسے مہار کیا جا سکتا ہے ذکر الہی سے، تذکرہ پروردگار کے ذریعے، اللہ تعالی کی بارگاہ میں پناہ لیکر، اللہ تعالی کی بارگاہ میں اظہار نیاز کرکے اور عظمت الہی کے سامنے اپنی حقارت کا احساس کرکے، ذات اقدس وحدہ لا شریک کے جمال مطلق کے سامنے اپنے بھدے پن کا احساس کرکے۔ یہ سب ذکر الہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔ جس انسان میں تقوی ہو اور جو محتاط اور ہوشیار ہو وہ کبھی بھی ظلم و جور، فتنہ و فساد اور طغیان و سرکشی میں مبتلا نہیں ہوگا۔ کیونکہ ذکر پروردگار اسے باربار روکتا رہے گا۔ "الصلاۃ تنھی" تنھی کے معنی ہیں منع کرنے کے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ نماز انسان کے ہاتھ پیر باندھ دیتی ہے، اس کی خواہشات کو بے اثر بنا دیتی ہے۔ بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ "الصلاۃ تنھی عن الفحشاء و المنکر" کے معنی یہ ہیں کہ اگر آپ نے نماز پڑھ لی تو فحاشی و برائی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ جی نہیں، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب آپ نے نماز پڑھی تو نماز سے آپ کے اندرونی واعظ کی تقویت ہوگی اور وہ آپ کو بار بار برائیوں سے روکے گا۔ ظاہر ہے کہ جب وہ بار بار روکے گا اور منع کرے گا تو دل پر اس کا اثر بھی ہوگا اور دل خضوع و خشوع کی جانب مائل ہوگا۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ نماز کئی دفعہ ادا کی جاتی ہے۔ روزہ سال میں ایک بار، حج عمر میں ایک بار لیکن نماز روزانہ کئی بار! یہیں سے نماز کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
اگر نماز ادا کی جائے تو انسان کے اندر ہی نہیں پورے معاشرے کی سطح پربلکہ معاشرے کے حکمراں طبقے کی سطح تک نماز کی برکت سے امن و امان اور احساس تحفظ پیدا ہوگا۔ انسان کے قلب کو طمانیت حاصل ہوگی، انسان کے جسم کو تحفظ ملے گا، پورا معاشرہ امن و استحکام گہوارہ بن جائے گا۔ نماز کی خاصیت یہ ہے۔ معاشرے میں نماز قائم کرنے کا مطلب یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے اس کام پر بار بار خصوصی تاکید کی گئی ہے۔ آپ پورے ملک، ہر شعبہ زندگی، ہر طبقے بالخصوص نوجوانوں کے درمیان نماز کی تبلیغ و ترویج پر مامور ہیں۔ اس کا ہدف پورے معاشرے میں ذکر الہی کی ہمہ گیر فضا قائم کرنا ہے۔ ہر چھوٹا بڑا، ہر مرد و عورت، ہر سرکاری و غیر سرکاری عہدہ دار، اپنے ذاتی کام انجام دینے والا شخص اور پوری جماعت کے لئے مصروف کار انسان، جب سب ذکر الہی میں مصروف ہوں گے تو سب کچھ بنحو احسن انجام پائے گا۔ اکثر و بیشتر ہم اپنی غفلت کے نتیجے میں گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔
نماز بار بار پڑھی جاتی ہے، اس نماز کے بارے میں بہت سی باتیں بیان کی جا چکی ہیں۔ میں نے بھی بارہا عرض کیا ہے کہ نماز جسم و روح پر مشتمل ہے۔ اس نکتے پر خاص توجہ ہونی چاہئے۔ یعنی ایک ایک فرد اس نکتے پر توجہ دے۔ نماز کا ایک جسم و پیرایا ہے اور ایک اس کی روح ہے۔ ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ نماز کا جسم اور پیرایا روح سے خالی نہ رہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ بے روح نماز کی کوئی تاثیر نہیں ہے۔ اس نماز میں بھی تاثیر ہوتی ہے لیکن جس نماز پر قرآن مجید، پیغمبر اسلام اور ائمہ اطہار علیھم السلام نے بے پناہ تاکید فرمائی ہے، وہ نماز ہے جس کا جسم اور جس کی روح دونوں کامل و مکمل ہوں۔ اس کا جسم اس کی روح کیمناسبت سے وضع کیا گیا ہے۔ اس میں قرائت ہے، رکوع ہے، سجدے ہیں، خاک پر بیٹھ جانا ہے، دست نیاز دراز کرنا ہے، بلند آواز میں ذکر کرنا ہے اور کبھی آہستہ بولنا ہے۔ اعمال کے اس مجموعے کا یہ تنوع انسان کی ان تمام ضرورتوں اور حاجتوں کا احاطہ کرنے کے لئے ہے جو نماز کے وسیلے سے پوری ہو سکتی ہیں۔ ان میں سے ہر عمل حامل اسرار ہے اور ان اعمال کا مجموعہ نماز کی شکل، قالب اور پیرایا ہے۔ یہ پیرایا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن اس نماز کی روح قلبی توجہ ہے، اس بات کی توجہ ہے کہ ہم کر کیا رہے ہیں۔ جس نماز میں قلبی توجہ نہ ہو وہ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کم اثر ہوتی ہے۔
آپ ایک اصلی ہیرے کو دو طرح استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ اسے ایک قیمتی نگینے کے طور پر استعمال کیجئے۔ دوسرے یہ کہ اسے آپ ترازو کے پتھر کے طور پر استعمال کریں۔ یعنی تزارے کے ایک پلڑے میں یہ پتھر رکھئے اور اس سے مرچ یا ہلدی تولئے۔ یہ بھی ہیرے کا ایک استعمال ہے۔ لیکن یہ کیسا استعمال ہے؟ یہ تو ہیرے کو ضائع کر دینے کے مترادف ہے۔ لیکن یہ استعمال بھی ہیرے کو توڑ دینے سے بہتر ہے، اسے توڑ کر پھینک دینے سے بہتر ہے لیکن پھر بھی یہ تو ٹھیک نہیں ہے کہ انسان ہیرے سے ترازو کے پتھر کا کام لے اور اس سے مرچ اور ہلدی تولے۔ تو نماز کے ساتھ ہیرے کو ترازو کا پتھر بنانے جیسا برتاؤ نہیں کرنا چاہئے۔ نماز کی قدر و منزلت کچھ اور ہی ہے۔
کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ انسان عادتا نماز پڑھتا ہے۔ مثال کے طور پر جس طرح وہ روزانہ مسواک کرتا ہے، ورزش کرتا ہے اسی طرح وقت پر نماز بھی پڑھ لیتا ہے، لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان نماز اس احساس کے ساتھ ادا کرتا ہے کہ وہ بارگاہ پروردگار میں حاضر ہو رہا ہے۔ یہ الگ انداز کی نماز ہے۔ یوں تو ہم ہر لمحہ پروردگار عالم کی برگاہ میں ہیں۔ سو رہے ہوں، جاگ رہے ہوں، ذکر میں مصروف ہوں یا غفلت کا شکار ہوں (ہر آن پروردگار کی بارگاہ میں ہیں)۔ لیکن ایک صورت یہ ہے کہ ہم وضو کرکے، طہارت کے ساتھ تیار ہوں اور پاک و طاہر جسم، پاکیزہ لباس، اور وضو و غسل سے پیدا ہونے والی روحانی طہارت کے ساتھ بارگاہ پروردگار میں حاضر ہوں۔ نماز میں ہمارے اندر یہی احساس پیدا ہونا چاہئے۔ اس انداز سے خدا کے حضور میں جانا چاہئے۔ یہ احساس رہنا چاہئے کہ کس کی بارگاہ میں کھڑے ہیں۔ نماز میں ہمارا مخاطب(اللہ تعالی) ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ بعض کلمات اور حروف پر استوار چند صوتی لہریں فضا میں آزاد کر کے بیٹھ جائیں۔ ہم سے جس چیز کا مطالبہ کیا گيا ہے وہ یہ نہیں ہے۔ اسی "الحمد للہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔" کوانسان (یونہی بے خیالی کے عالم میں) اپنی زبان پر جاری کر سکتا اور انہی کلمات کو اچھی قرائت لیکن بے توجہی کے ساتھ بھی ادا کر سکتا ہے یہ بھی فضا میں صوتی لہریں چھوڑنے سے مختلف نہیں ہے۔ جس چیز کا ہم سے مطالبہ کیا گيا ہے وہ یہ نہیں ہے۔ ہمیں حکم ہے کہ نماز میں ہمارا دل بارگاہ پروردگار میں سجدہ ریز ہو، ہمارے دل سے آواز نکلے، اسی کی قدر و قیمت ہے۔ نماز کی تبلیغ و ترویج میں اس نماز میں جو ہم خود پڑھتے ہیں اور اس نماز میں جو ہم دوسروں کو سکھاتے ہیں، روح نماز پر ضرور توجہ دیں۔ ہاں یہ روح، جسم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ بیٹھ کر سو دفعہ "سبحان اللہ" کی تسبیح پڑھ لی تو نماز کی ضرورت ختم ہو گئی۔ اس کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ جیسا کہ میں نے عرض کیا نماز کی صورت اور اس کا پیرایا، روح نماز کے ذریعے پوری ہونے والی متعدد انسانی ضرورتوں کے مطابق وضع کیا گیا ہے۔ چنانچہ روایات میں نماز کی ہر حالت اور عمل کے لئے کچھ خصوصیات بیان کی گئی ہیں جو واجب نہیں بلکہ مستحب ہیں جیسے کہ آنکھیں بند رکھنا یا بعض روایات کے مطابق سجدہ گاہ کو دیکھنا۔ یہ آداب انسان کی مدد کرتے ہیں کہ وہ اپنے اندر قلبی توجہ پیدا کر سکے۔
نماز کی اہمیت اتنی ہے کہ اسے بیان کر پانا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام زندگی کے آخری لمحات میں اپنے وصی سے فرماتے ہیں کہ "لیس منی من استخف الصلاۃ" جو نماز کو غیر اہم قرار دے اس کا ہم سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ استخفاف کا مطلب ہے کم اہمیت سمجھنا، ہلکا تصور کرنا۔ اتنی خصوصیات اور اثرات والی نماز میں انسان کا کتنا وقت صرف ہوتا ہے؟ واجب نمازیں، یہ سترہ رکعتیں اگر انسان پوری توجہ اورغور و فکر کے ساتھ پڑھے تو زیادہ سے زیادہ چونتیس منٹ درکار ہوں گے اور ممکن ہے کہ اس سے کم ہی وقت صرف ہو۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم ٹیلی ویزن دیکھنے بیٹھے ہوئے ہیں، کوئی دلچسپ پروگرام آنے والا ہے لیکن اس سے پہلے ایڈ اور اشتہارات آتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کی بعد تیسرا، پندرہ بیس منٹ تک، اور یہ پورے کے پورے بے فائدہ نظر آتے ہے لیکن ہم بیس منٹ صرف کر دیتے ہیں اپنے اس پسندیدہ پروگرام کو دیکھنے کے لئے۔ تو ہماری زندگی میں بیس منٹ کی وقعت یہ ہے۔ ٹیکسی کا انتظار کر رہے ہیں، بس کے انتظار میں کھڑے ہیں، کہیں جانا ہے اور کسی دوست کا انتظار کر رہے ہیں، کبھی کلاس میں استاد کے انتظار میں بیٹھے ہیں، کبھی خطیب تاخیر کر دیتا ہے اور ہم مجلس میں اس کا انتظار کرتے ہیں، اس انتظار میں دس، پندرہ، بیس منٹ گزر جاتے ہیں۔ تو پھر نماز جیسے عظیم عمل کے لئے اگر ہم بیس، پچیس یا تیس منٹ صرف کریں تو کون سا ضیاع وقت ہے۔
ملک کی نوجوان نسل میں نماز کی اہمیت دوسروں سے زیادہ ہونی چاہئے۔ نوجوان کا دل نماز سے منور ہو جاتا ہے، اس میں امید کی کرنیں پیدا ہو جاتی ہیں، اس کی روح و جان میں شادابی آتی ہے، سرور آتا ہے۔ یہ کیفیات نوجوانوں کے لئے ہیں، نوجوانی کے ایام سے مربوط ہیں اور نوجوان اس سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم آپ کو اللہ تعالی کی توفیق نصیب ہو اور ہم قلبی توجہ کے ساتھ نماز ادا کریں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ نماز سے دل ہی نہیں بھرتا۔ اگر انسان نماز میں قلبی توجہ پیدا کر لے تو وہ اس طرح سے محظوظ ہوگا کہ وہ لذت اسے کسی بھی مادی چیز میں نہیں محسوس ہوگی۔ یہ قلبی توجہ کا ثمرہ ہے۔ نماز کے سلسلے میں بے توجہی، اکتاہٹ کے ساتھ نماز کی ادائیگی منافقین کی خصوصیات ہیں۔ البتہ ایسا نہیں ہے کہ جو شخص بھی عدم دلچسپی کے عالم میں نماز پڑھ رہا ہے منافق ہے، نہیں ایسا نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں منافقین کی علامتیں بیان کی ہیں اور فرمایا ہے کہ منافقین کو ان علامتوں سے پہچانو۔ پیغمبر اسلام کے زمانے میں کچھ منافق تھے جو خاص اہداف کے لئے نماز پڑھتے تھے جبکہ ان کے دل میں نماز سے کوئی دلچسپی اور اس پر کوئی عقیدہ نہیں تھا۔ (ان کے سلسلے میں ارشاد رب العزت ہے) " واذا قاموا الی الصلاۃ قاموا کسالی یرائون الناس" جی ہاں ایسا ہی ہے اگر (نماز میں مصروف) انسان کا کوئی مخاطب نہیں ہے، اگر وہ اللہ تعالی سے ہمکلام نہیں ہے تو ظاہر ہے وہ تھک جائے گا اور اسے نماز بہت بھاری پڑے گی۔ چار یا پانچ منٹ میں ادا کی جانے والی چار رکعت نماز اسے بہت طویل محسوس ہوگی۔ حالانکہ اگر دیکھیں تو چار منٹ کچھ بھی نہیں ہے۔ انسان اگر اللہ تعالی سے ہمکلام ہو تواسے محسوس ہوگا کہ یہ وقت چشم زدن میں گزر گیا، اسے افسوس ہوگا، اس کا دل چاہے گا کہ یہ سلسلہ ابھی اور جاری رہے۔
نوجوان نسل میں اس حقیقت کی ترویج کرنا چاہئے۔ ہمارے نوجوان اگر ابھی سے صحیح نماز کے عادی ہو گئے تو ہمارے سن میں پہنچ جانے کے بعد ان کے لئے صحیح نماز ادا کرنا مشکل کام نہیں ہوگا۔ اگر کسی کی صحیح نماز ادا کرنے کی عادت نہیں ہے تو ہم لوگوں کے سن میں پہنچ جانے کے بعد صحیح نماز پڑھنا اس کے لئے ممکن تو ہے لیکن بہت مشکل ہے۔ جو شخص نوجوانی سے ہی اچھی نماز ا دا کر رہا ہے، یعنی قلبی توجہ کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے، ظاہر ہے اچھی نماز سے مراد اچھی قرائت اور اچھی آواز میں سوروں کی تلاوت نہیں بلکہ حضور قلب اور قلبی توجہ کے ساتھ نماز کی ادائیگی ہے، اگر نوجوان میں یہ عادت پڑھ گئی تو یہ چیز اس کی فطرت ثانیہ بن جائے گی اور پھر اس کے لئے اس میں کوئی مشکل نہیں رہ جائے گی اور وہ تا حیات اسی انداز سے نماز ادا کرتا رہے گا۔
جناب قرئتی صاحب ( ایران کے معروف معلم قرآن اور مبلغ) نے ابھی ایک نکتے کی جانب اشارہ کیا اور وہ اس سے قبل بھی کئی بار یہ نکتہ بیان کر چکے ہیں اور میں نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے کہ ازدہام والے مراکز میں مساجد اور نماز خانوں کی کمی ہے، یہاں انتظامیہ سے وابستہ جو افراد موجود ہیں، جو وزرا تشریف فرما ہیں انہیں چاہئے کہ انتظامیہ کی سطح پر اس موضوع کو سنجیدگی کے ساتھ اٹھائیں۔ تعمیرات سے متعلق ہر پروجیکٹ میں مسجد اور نماز خانے کا اہتمام کیا جانا چاہئے۔ اگر میٹرو کا کوئی پروجیکٹ ہے تو میٹرو اسٹیشنوں کی تعمیر میں مسجد کا خیال بھی رکھا جائے۔ میٹرو اسٹیشن تعمیر کیا جا رہا ہے، ایئرپورٹ کی ڈیزائننگ ہو رہی ہے تو اس مسجد کے لئے بھی جگہ ضرور نکالی جائے۔ بالفرض کوئی کامپلیکس تعمیر کیا جا رہا ہے، کالونی بنائی جا رہی ہے اور ہم سڑک کی جگہ رکھنا بھول جائیں تو کیا ممکن ہے کہ بغیر سڑک کے ہی کالونی بن جائے؟مسجد کو بھی اس نقطہ نظر سے دیکھنا چاہئے۔ بغیر مسجد کی کالونی کا تصور بے معنی ہے۔ کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر کرنے والے بلڈر جب بلڈنگ کے لئے پرمٹ حاصل کرنا چاہیں اور بلڈنگ کا نقشہ اور دیزائن منظور کروانے کے لئے پیش کریں تو اس نقشے میں مسجد یا نماز خانے کی جگہ ضرور رکھی جائے۔ نماز خانے کے سلسلے میں یہ روش لازمی ہے۔
ہوائی جہاز کا ذکر کیا گیا۔ صرف حج کی پروازوں میں نہیں بلکہ اندرون ملک ، بیرون ملک اور دور دراز کی پروازوں میں جن کا وقت نماز کے وقت سے متصل ہے نماز کا اہتمام ضروری ہے۔ اگر ممکن ہے تو پرواز اس طرح انجام پائے کہ اس سے قبل یا بعد میں نماز کا وقت رہے، ایسا نہ ہو کہ مثال کے طور پر نماز صبح کی اذان سے قبل طیارہ پرواز کرے اور طلوع آفتاب کے بعد اپنی منزل پر پہنچے۔ ٹائم ٹیبل ایسا ہو کہ لوگ طیارے کے پرواز کرنے سے قبل یا منزل پر پہنچ جانے کے بعد نماز ادا کر سکیں۔ اگر ایئرلائنوں کے کچھ مسائل ہیں اندرون ملک یا بیرون ملک جانے والی پروازوں کے کچھ ممکنہ مسائل کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو تو ہوائی جہاز کےاندر ہی نماز ادا کرنے کی سہولت رکھی جائے۔ قبلے کی سمت کا تعین بھی آسان ہے۔ پائلٹ بخوبی اس کی سمت کا تعین کر سکتے ہیں وہ اس کام میں ماہر ہوتے ہیں، تو یہ کیا جائے تاکہ جو افراد ہوائی جہاز کے اندر نماز ادا کرنا چاہتے ہیں ادا کر لیں۔ ٹرینوں کے سلسلے میں بھی بدرجہ اولی اس کا خیال رکھنا چاہئے۔
ان امورکے سلسلے میں ہمارے ملک میں آج جو صورت حال ہے، انقلاب سے قبل کے دور سے اس کا کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔ آپ میں سے اکثر کو انقلاب سے قبل کا زمانہ یاد نہ ہوگا۔ بڑا عجیب ماحول تھا، یہاں بھی اوردوسری جگہوں پر بھی۔ زیارت کے لئے ہمارا عراق جانا ہوا۔ ہم نے لاکھ کوشش کی لیکن نماز صبح کے لئے (ٹرین) رکی ہی نہیں۔ وقت ہی ایسا رکھا تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ میں مجبورا ٹرین کے پیچھے جاکر ٹرین سے باہر کودا تاکہ نماز ادا کر سکوں کیونکہ ٹرین کے اندر گندگی بہت زیادہ تھی اور وہاں نماز پڑھنا ممکن نہیں تھا۔ ان باتوں کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی جاتی تھی۔ آج حالات بہت بدل چکے ہیں تاہم اب بھی ہماری کچھ اور توقعات ہیں۔ نماز کی اہمیت نمایاں رہنی چاہئے۔
ہم نے ائمہ جمعہ، ائمہ نماز جماعت اور علمائے کرام سے بارہا کہا ہے، تہران میں اور دیگر اضلاع کے سلسلے میں سفارش کی ہے کہ مساجد کو آباد و با رونق بنایا جائے۔ مساجد سے اذان کی آوازیں بلند ہونی چاہئے۔ اسلامی شہروں بالخصوص تہران اور دیگر بڑے شہروں میں نماز اور نماز کی ادائیگی پر خصوصی توجہ کی علامتیں واضح اور عیاں ہوں۔ اسی طرح ہمارے تعمیراتی پروجیکٹوں میں بھی اسلامی علامتیں نمایاں رہنی چاہئے۔ صیہونی دنیا کے کسی بھی علاقے میں اگر کوئی عمارت تعمیر کرتے ہیں، ان کوشش ہوتی ہے کہ اس پر ستارہ داؤد کی وہ منحوس علامت ضرور بنائیں۔ ان کے سیاسی کام اس انداز سے انجام پاتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کو بھی چاہئے کہاپنے تمام تعمیراتی کاموں اور جملہ منصوبوں میں اسلامی علامتوں کو ملحوظ رکھیں۔
اللہ تعالی سے توفیقات کی التجا کرتا ہوں۔ نماز(کی تبلیغ) کا کام معمولی نہیں ہے۔ یہ عظیم کام ہے۔ اللہ تعالی کے لطف و کرم سے اس عظیم کام میں مصروف تمام افراد "المقیمین الصلاۃ" کے زمرے میں قرار پائیں، قرآن نے جس میں پاک و پاکیزہ اور با اخلاص مومنین قرار دیا ہے۔ انشاء اللہ تعالی آپ سب کا شمار مقیمین الصلاۃ میں کیا جائے اور اللہ تعالی ہمیں توفیقات سے نوازے اور نماز کی برکتیں ہمارے شامل حال کر دے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ