
Super User
ناوابستہ تحریک کے سولہویں سربراہی اجلاس سے رہبر معظم انقلاب کا خطاب
رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی موجودگی میں ناوابستہ تحریک کے سربراہی اجلاس کا تہران میں آغاز ہوگیاہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پانچ براعظموں کے 120 ممالک کے سربراہان اور اعلی حکام کے ساتھ خطاب میں دنیا کے موجودہ حساس شرائط ، دنیا کا ایک بہت ہی اہم تاریخی مرحلے سے عبور، تسلط پسند یک طرفہ نظام کے مقابلے میں کئی نظاموں کے ظہور کی علامتیں ، مستقل ممالک کے پاس نوید بخش مواقع کی تشریح، ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک کے بنیادی اصول اور اسی طرح عالمی نظام کے غیر جمہوری طرز عمل ،غلط محاسبہ، غیر منصفانہ و منسوخ اور معیوب روش سے عالمی سطح پر عوام بالخصوص عرب قوموں کا پیمانہ صبر لبریز ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ناوابستہ تحریک کو نئے عالمی نظام کی تشکیل میں اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہیے اور تحریک کے رکن ممالک اپنے وسیع وسائل اور ظرفیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے دنیاکو تسلط پسندی ، جنگ اور بحران سے نجات دلانے کے لئے تاریخی اور یادگار نقش ایفا کرسکتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ناوابستہ تحریک کی تشکیل اور اسکےبانیوں میں سے ایک کے بیان ، جس میں ناوابستہ تحریک کی تشکیل کوجغرافیائی، نسلی اور مذہبی بنیادوں قرار نہ دینے بلکہ اس کی تشکیل کواتحاد اور نیاز پر قراردیتے ہوئے فرمایا: آج بھی تسلط پسند وسائل کی پیشرفت اور فروغ کے باوجود یہ نیاز اور ضرورت اپنی جگہ پر اسی طرح باقی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی تعلیمات کا انسانوں کی فطرت کو نسلی اور زبانی ناہمواری کےباوجود یکساں قراردینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس تابناک حقیقت میں اتنی ظرفیت موجودہے جو ایسے آزاد، سرافراز اور مستقل نظام کو تشکیل دے سکتا ہے جو پیشرفت اور انصاف پر استوار ہو اوریہ ادارہ مختلف قوموں کے درمیان برادرانہ تعاون کا شاندار ادارہ ہے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے ایسے ادارے کی بنیاد پر حکومتوں کے درمیان مشترکہ ، سالم اور انسانی مفادات کو فروغ دینےپر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: یہ اصولی ادارہ، تسلط پسند نظام کے مد مقابل ہے جو حالیہ صدیوں میں مغربی تسلط پسند طاقتوں اور آج امریکہ کی تسلط پسند اور منہ زور طاقت تسلط پسند نظام کی مبلغ اور مروج اور اس کے ہر اول دستے میں شامل ہے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے چھ دہائیاں گزرنے کے بعد ناوابستہ تحریک کے مقاصد زندہ اورقائم رہنے و ان مقاصد تک پہنچنے کو امید افزا اور مسرت بخش قراردیتے ہوئے فرمایا: دنیا آج سرد جنگ کی پالیسیوں کی شکست کے تاریخی تجربہ سے عبرت حاصل کرنے اور اس کے بعد یکجانبہ رجحان کی پالیسی سے عبور کرنے کے ساتھ قوموں کے مساوی حقوق اورہمہ گیر شراکت کی بنیاد پر نئے بین الاقوامی نظام کی تشکیل کی جانب بڑھ رہی ہے اورایسے شرائط میں ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک کے درمیان باہمی تعاون اور یکجہتی بہت ہی لازمی اور ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےمشترکہ مقاصد کے دائرے میں ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک کےدرمیان باہمی یکجہتی کو بہت بڑی کامیابی قراردیتے ہوئے فرمایا: اس بات پر بہت خوشی ہے کہ عالمی سطح پر مشترکہ نظام نوید بخش اور حوصلہ افزا ہے۔
رہبرمعظم سے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کی ملاقات
رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج بروز بدھ سہ پہر کواقوام کے سکریٹری جنرل بان کی مون اور اس کے ہمراہ وفد سے ملاقات میں ماضی میں ایرانی ثقافت و تمدن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ثقافتی و تمدنی مسائل میں ایرانی قوم کے برتر اور اہم مقام کے پیش نظر، اسلام پر مبنی انسانی تمدن و ثقافت کے فروغ کے لئےاسلامی جمہوریہ ایران میں اچھی راہ ہموار ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کے معاملے کو عالم بشریت کا مشترکہ مسئلہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی ہتھیاروں سے پاک مشرق وسطی کے مؤقف پر قائم ہےاوراقوام متحدہ کو ایٹمی ہتھیاروں کےخاتمہ کےسلسلے میں اپنا فعال اور سنجیدہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ اور بعض دیگر طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کو ایٹمی ہتھیار فراہم کرنے کی طرف اشارہ کرتےہوئے فرمایا: یہ مسئلہ علاقہ کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے اور اقوام متحدہ سے توقع ہے کہ وہ اس سلسلے میں مناسب اقدام انجام دے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اقوام متحدہ کی معیوب ترکیب پر سخت افسوس ہے اورایٹمی ہتھیار رکھنے اور ایٹمی ہتھیاروں سے استفادہ کرنے والی منہ زور طاقتیں اس وقت سکیورٹی کونسل پر مسلط ہوگئی ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شام کے معاملے کو حل کرنےکےسلسلے میں ایران کے تعاون کے بارے میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی گفتگو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: شام کا مسئلہ بہت تلخ مسئلہ ہے اورشام کے بےگناہ عوام کوقربان کیا جارہا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران، اسلامی اور دینی تعلیمات کی بنیاد پر شام کے بحران کو حل کرنے کے لئے ہر قسم کا تعاون فراہم کرنے کے لئے آمادہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: شام کے بحران کو حل کرنے کے لئے ایک طبیعی اور قدرتی شرط یہ ہے کہ شام کے اندرغیر ذمہ دار گروہوں کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کردی جائے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شامی حکومت کے مخالف گروہوں کے لئے ہتھیاروں کی بیشمار ترسیل کو شام کےبحران کی اصلی وجہ قراردیتے ہوئے فرمایا: شامی حکومت کے پاس ہتھیاروں کی موجودگی قدرتی امر ہے کیونکہ دوسری حکومتوں کی طرح شامی حکومت کےپاس بھی فوج ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: شام کے بارےمیں تلخ حقیقت یہ ہے کہ بعض حکومتوں نے شام میں مسلح گروہوں کو اپنی نیابت میں شامی حکومت کے خلاف جنگ میں دھکیل دیا ہے اور یہ نیابتی جنگ شام کے بحران کی آج ایک حقیقت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہی حکومتیں جنھوں نے شام میں نیابتی جنگ چھیڑ رکھی ہے وہی کوفی عنان کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانےمیں رکاوٹ بنیں جس کیوجہ سے کوفی عنان کا منصوبہ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جب تک شام میں بعض حکومتوں کی طرف سے یہ خطرناک منصوبہ جاری رہےگا تب تک شام کی صورتحال میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران کےایٹمی معاملے کے بارےمیں اقوام متحدہ کےسکریٹری جنرل کی گفتگو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکیوں کو مکمل اطلاع ہے کہ ایران، ایٹمی ہتھیاروں کی تلاش میں نہیں ہے وہ صرف بہانے کی تلاش میں ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے ساتھ ایران کےوسیع تعاون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی اپنے قوانین کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کو علمی اور فنی تعاون فراہم کرنے کی پابند ہے لیکن بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی نے نہ صرف تعاون فراہم نہیں کیا بلکہ کام میں مسلسل خلل بھی پیدا کررہی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مغربی ممالک کی جانب سے انٹرنیٹی اور فنی تخریب کاریوں منجملہ اسٹاکس نیٹ حملہ کے اعتراف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی نے اس سلسلے میں کیوں ٹھوس مؤقف اختیارنہیں کیا؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نےامریکہ کے اعلی حکام کی جانب سے ایران کو ایٹمی دھمکیاں دینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: توقع یہ تھی کہ اقوام متحدہ ان دھمکیوں کا واضح جواب دیتی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایٹمی ہتھیاروں کی ساخت اور ان کے استعمال کی ممنوعیت کے بارےمیں ایک بارپھرایران کے مؤقف کو واضح کرتےہوئے فرمایا: یہ مؤقف دینی اعتقادات پر مبنی ہے امریکہ اور مغربی ممالک کی خوشآمد کےلئے نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو نیک نیتی پر مبنی نصیحت کرتےہوئے فرمایا: دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کے سلسلے میں کسی بھی طاقت کا لحاظ نہ رکھیں اور آپ کو اس وقت جو موقع ملا ہے اس سے صحیح اور درست استفادہ کریں۔
اس ملاقات میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے ناوابستہ ممالک پر ایران کی صدارت کے سلسلے میں مبارک باد پیش کی اور علاقہ میں ایران کے اہم اور مؤثر کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے عنوان سے میں شام کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کو استعمال کرکے شام کے بحران کو حل کرنے کی راہ ہموار کرے۔
بان کی مون نے کہا : ہمارا اس بات پر اعتقاد ہے کہ شامی حکومت اور اس کے مخالف گروہ کو ہتھیاروں کی ترسیل بندکی جائے۔
اقوام متحدہ کےسکریٹری جنرل نے ایران کے ایٹمی معاملے کے سلسلے میں بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی اور گروپ 1+5 کے ساتھ تعاون پر زوردیا۔
رہبرمعظم سے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کی ملاقات
رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج بروز بدھ سہ پہر کواقوام کے سکریٹری جنرل بان کی مون اور اس کے ہمراہ وفد سے ملاقات میں ماضی میں ایرانی ثقافت و تمدن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ثقافتی و تمدنی مسائل میں ایرانی قوم کے برتر اور اہم مقام کے پیش نظر، اسلام پر مبنی انسانی تمدن و ثقافت کے فروغ کے لئےاسلامی جمہوریہ ایران میں اچھی راہ ہموار ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کے معاملے کو عالم بشریت کا مشترکہ مسئلہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی ہتھیاروں سے پاک مشرق وسطی کے مؤقف پر قائم ہےاوراقوام متحدہ کو ایٹمی ہتھیاروں کےخاتمہ کےسلسلے میں اپنا فعال اور سنجیدہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ اور بعض دیگر طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کو ایٹمی ہتھیار فراہم کرنے کی طرف اشارہ کرتےہوئے فرمایا: یہ مسئلہ علاقہ کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے اور اقوام متحدہ سے توقع ہے کہ وہ اس سلسلے میں مناسب اقدام انجام دے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اقوام متحدہ کی معیوب ترکیب پر سخت افسوس ہے اورایٹمی ہتھیار رکھنے اور ایٹمی ہتھیاروں سے استفادہ کرنے والی منہ زور طاقتیں اس وقت سکیورٹی کونسل پر مسلط ہوگئی ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شام کے معاملے کو حل کرنےکےسلسلے میں ایران کے تعاون کے بارے میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی گفتگو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: شام کا مسئلہ بہت تلخ مسئلہ ہے اورشام کے بےگناہ عوام کوقربان کیا جارہا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران، اسلامی اور دینی تعلیمات کی بنیاد پر شام کے بحران کو حل کرنے کے لئے ہر قسم کا تعاون فراہم کرنے کے لئے آمادہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: شام کے بحران کو حل کرنے کے لئے ایک طبیعی اور قدرتی شرط یہ ہے کہ شام کے اندرغیر ذمہ دار گروہوں کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کردی جائے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شامی حکومت کے مخالف گروہوں کے لئے ہتھیاروں کی بیشمار ترسیل کو شام کےبحران کی اصلی وجہ قراردیتے ہوئے فرمایا: شامی حکومت کے پاس ہتھیاروں کی موجودگی قدرتی امر ہے کیونکہ دوسری حکومتوں کی طرح شامی حکومت کےپاس بھی فوج ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: شام کے بارےمیں تلخ حقیقت یہ ہے کہ بعض حکومتوں نے شام میں مسلح گروہوں کو اپنی نیابت میں شامی حکومت کے خلاف جنگ میں دھکیل دیا ہے اور یہ نیابتی جنگ شام کے بحران کی آج ایک حقیقت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہی حکومتیں جنھوں نے شام میں نیابتی جنگ چھیڑ رکھی ہے وہی کوفی عنان کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانےمیں رکاوٹ بنیں جس کیوجہ سے کوفی عنان کا منصوبہ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جب تک شام میں بعض حکومتوں کی طرف سے یہ خطرناک منصوبہ جاری رہےگا تب تک شام کی صورتحال میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران کےایٹمی معاملے کے بارےمیں اقوام متحدہ کےسکریٹری جنرل کی گفتگو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکیوں کو مکمل اطلاع ہے کہ ایران، ایٹمی ہتھیاروں کی تلاش میں نہیں ہے وہ صرف بہانے کی تلاش میں ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے ساتھ ایران کےوسیع تعاون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی اپنے قوانین کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کو علمی اور فنی تعاون فراہم کرنے کی پابند ہے لیکن بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی نے نہ صرف تعاون فراہم نہیں کیا بلکہ کام میں مسلسل خلل بھی پیدا کررہی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مغربی ممالک کی جانب سے انٹرنیٹی اور فنی تخریب کاریوں منجملہ اسٹاکس نیٹ حملہ کے اعتراف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی نے اس سلسلے میں کیوں ٹھوس مؤقف اختیارنہیں کیا؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نےامریکہ کے اعلی حکام کی جانب سے ایران کو ایٹمی دھمکیاں دینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: توقع یہ تھی کہ اقوام متحدہ ان دھمکیوں کا واضح جواب دیتی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایٹمی ہتھیاروں کی ساخت اور ان کے استعمال کی ممنوعیت کے بارےمیں ایک بارپھرایران کے مؤقف کو واضح کرتےہوئے فرمایا: یہ مؤقف دینی اعتقادات پر مبنی ہے امریکہ اور مغربی ممالک کی خوشآمد کےلئے نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو نیک نیتی پر مبنی نصیحت کرتےہوئے فرمایا: دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کے سلسلے میں کسی بھی طاقت کا لحاظ نہ رکھیں اور آپ کو اس وقت جو موقع ملا ہے اس سے صحیح اور درست استفادہ کریں۔
اس ملاقات میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے ناوابستہ ممالک پر ایران کی صدارت کے سلسلے میں مبارک باد پیش کی اور علاقہ میں ایران کے اہم اور مؤثر کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے عنوان سے میں شام کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کو استعمال کرکے شام کے بحران کو حل کرنے کی راہ ہموار کرے۔
بان کی مون نے کہا : ہمارا اس بات پر اعتقاد ہے کہ شامی حکومت اور اس کے مخالف گروہ کو ہتھیاروں کی ترسیل بندکی جائے۔
اقوام متحدہ کےسکریٹری جنرل نے ایران کے ایٹمی معاملے کے سلسلے میں بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی اور گروپ 1+5 کے ساتھ تعاون پر زوردیا۔
رہبر معظم کی پاکستان کے آصف زرداری سے ملاقات
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات میں دہشت گردی کو علاقائی قوموں پر مسلط کردہ مغربی ممالک کی گہری سازش قراردیتے ہوئے فرمایا: امریکہ اور مغربی ممالک جہاں پاؤں رکھتے ہیں وہاں وہ بحران، بدامنی ،شر اور فساد لیکرجاتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دہشت کا مقابلہ کرنےکے لئے ناوابستہ تحریک کی ظرفیت سے استفادہ کو ضروری قرار دیتے ہوئے فرمایا: ہمیں تسلط پسند طاقتوں کی منہ زوری کا مقابلہ کرنے کے لئے ذمہ داری کا احساس اور ان کے خلاف قیام کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پاکستان کی مؤمن ، مسلمان اور باثقافت قوم کے بارے میں ایرانی قوم کی مثبت نگاہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میں اللہ تعالی کی مدد سے پاکستان پر مسلط کردہ مشکلات کے خاتمہ کا امیدوار ہوں۔
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے بھی دونوں قوموں کے باہمی روابط کو عمیق اور برادرانہ قرار دیا اور باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے اسلام آباد کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اتحاد و یکجہتی اور استقامت کے بارے میں آپ کے حکیمانہ خیالات اور نظریات کی ہم مکمل حمایت کرتے ہیں۔
پاکستان کے صدر نے ناوابستہ تحریک کے اجلاس کو کامیاب اور مؤفق منعقدکرنے پر ایران کی تعریف کرتے ہوئے کہا: اس اجلاس نے دنیا پر واضح کردیا ہے کہ اپنی مشکلات کو کس طرح حل کرنا چاہیے۔
رہبر معظم سے ہندوستانی وزیر اعظم منموہن سنگھ کی ملاقات
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج بروز بدھ ہندوستانی وزیر اعظم منموہن سنگھ اور اس کے ہمراہ وفد سے ملاقات میں ماضی میں ایران اور ہندوستان کی دو قوموں کے درمیان تاریخی ،ثقافتی،تمدنی عاطفی ارتباطات کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: ایرانی قوم نے ہندوستان کو ہمیشہ مثبت نگاہ سے دیکھا ہےاور یہ تمام موارد باہمی روابط کو فروغ دینے کےلئے بہت ہی مناسب ہیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علمی اور اقتصادی سطح پر ہندوستان کی ترقی و پیشرفت کو بہت ہی خوب اوراہم قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم نے انقلاب اسلامی کی کامیابی بالخصوص حالیہ برسوں میں علمی، اقتصادی اور اجتماعی شعبوں میں نمایاں کام انجام دیئے ہیں جن کی گذشتہ کئی صدیوں میں کوئی مثال موجود نہیں ہے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے ہندوستان اور ایران کے درمیان باہمی روابط کو فروغ دینے کے سلسلے میں تمام راہوں کو ہموار قراردیتے ہوئے فرمایا: دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون بالخصوص تجارتی اور بنیادی شعبوں میں تعاون اطمینان بخش ثابت ہوسکتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بین الاقوامی شرکاء کو ناقابل اعتماد قراردیتے ہوئے فرمایا: امریکہ ایک ناقابل اعتماد شریک ہے جو صرف اسرائیل کی غاصب صہیونی حکومت کے لئے قابل اطمینان شریک ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علاقائی مسائل بالخصوص شام اور افغانستان کے مسئلہ میں ایران اور ہندوستان کو ہم خیال قراردیتےہوئے فرمایا: دونوں ممالک علاقائی مسائل میں باہمی تعاون کوفروغ دے سکتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ہندوستان کے استقلال، ثبات اور اقتدار کو ایران کے لئے اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: ناوابستہ تحریک پر اپنی تین سالہ صدارتی مدت میں ایران ،ہندوستان کے تعاون سے علاقائی اوربین الاقوامی مسائل میں اس تحریک کے نقش کو فعال اور مؤثر بناسکتے ہیں۔
اس ملاقات میں صدر احمدی نژاد بھی موجود تھے ہندوستان کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کے ساتھ ملاقات پر بہت ہی خوشی و مسرت کا اظہار کیا اور ہندوستان و ایران کی دو قوموں کے تاریخی ثقافتی اور تمدنی روابط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہندوستان ، اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تمام شعبوں بالخصوص انرجی اور بنیادی شعبوں میں باہمی روابط کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔
ہندوستانی وزیر اعظم نے ایرانی صدر کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کو بہت ہی مثبت قراردیتے ہوئے کہا: ان مذاکرات میں اہم امور پر اتفاق ہوا ہے جن سے دونوں ممالک کے باہمی روابط کو زیادہ سے زیادہ فروغ ملےگا۔
ہندوستانی وزیر اعظم نے علاقائی مسائل بالخصوص شام اور افغانستان کے مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہندوستان ، شام میں ہر قسم کی بیرونی مداخلت کے خلاف ہے اور شام کے بحران کا حل صرف شامی عوام کی نظر کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔
ہندوستانی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا: ناوابستہ تنظیم پر ایرانی صدارت کی تین سالہ مدت میں ہندوستان اس تنظیم کے نقش کوعلاقائی اور بین الاقوامی مسائل میں فعال اور مؤثر بنانے کے لئے ایران کا بھر پور تعاون کرےگا۔
بی بی خانم مسجد – سمرقند ازبكستان
بی بی خانم مسجد کا بیرونی منظر
بی بی خانم مسجد ازبکستان کی مشہور تاریخی مسجد ہے جو 14 ویں صدی کے عظیم فاتح امیر تیمور نے اپنی اہلیہ سے موسوم کی تھی۔
تیمور نے 1399ء میں ہندوستان کی فتح کے بعد اپنے نئے دارالحکومت سمرقند میں ایک عظیم مسجد کی تعمیر کا منصوبہ بنایا۔ اس مسجد کا گنبد 40 میٹر اور داخلی راستہ 35 میٹر بلند ہے۔
اس مسجد کی تعمیر 1399ء میں شروع اور 1404ء میں مکمل ہوئی۔ لیکن بہت کم عرصے میں تعمیر کے باعث اس کی تعمیر میں کئی تکنیکی خامیاں تھیں جس کی وجہ سے یہ زیادہ عرصے قائم نہ رہ سکی اور بالآخر 1897ء کے زلزلے میں زمین بوس ہو گئی۔
1974ء میں حکومت ازبکستان نے اس کی تعمیر نو کا آغاز کیا اور موجودہ عمارت مکمل طور پر نئی ہے جس میں قدیم تعمیر کا کوئی حصہ شامل نہیں۔
صہیونی حکومت کی سازشوں کے بارے میں مسجد الاقصی کے خطیب کاانتباہ
مسجد الاقصی کے خطیب نے اس مقدس جگہ کے بارے میں غاصب صہیونی حکومت کی سازشوں پر انتباہ دیا ہے فلسطین کی اعلی اسلامی کمیٹی کے سربراہ اورمسجد اقصی کے خطیب شیخ عکرمہ صبری نے آج اپنے ایک بیان میں مقبوضہ بیت المقدس اورمسجد الاقصی سمیت دیگر اسلامی مقدّسات کے خلاف صہیونی حکومت کی سازشوں کی مذمت کرتے ہوۓ کہاکہ یہ غاصب حکومت، اس مقدس مکان کو منہدم کرناچاہتی ہے مسجد الاقصی کے خطیب نے ساری دنیا کے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ غاصب صہیونی حکومت کی سازشوں کے مقابلے کے لۓ اٹھہ کھڑے ہوں -
فقہ حنبلی اور امام احمد حنبل
سوانح عمری :
عبداللہ بن محمد بن حنبل بن ہلال شیبانی مروزی کا تعلق عربی خاندان شیبان بن ذھل یا بنی ذھل بن شیبان سے تھا آپ حنبلیوں کے راہنما اور اہل سنت والجماعت کے چوتھے امام ہیں۔ آپ کی ولادت۱۶۴ ہجری مطابق ۷۸۰ عیسوی میں ہوئی ، امام احمد حنبل نے فقر وفاقہ کی زندگی بسر کی اورآپ کسب معاش کے لئے کپڑے بننے کا کام کیاکرتے تھے۔
آپ نے قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد علم فقہ حاصل کیا اور اس کے بعد کتابت کا فن حاصل کرنے میں مشغول ہوگئے ۔ آپ نے ایک مدت تک اہل رای کی کتابوں کا مطالعہ کیا، امام احمد حنبل حدیث کو ثابت کرنے کے لئے مختلف طریقوں سے استفادہ کرتے تھے کیونکہ آپ حدیث کو دین کی اساس سمجھتے تھے ۔ آپ نے علم حدیث کی تلاش میں ۱۸۶ ہجری مطابق ۸۰۲ عیسوی سے بصر ہ، کوفہ، حجاز، یمن اور شام کے سفر کئے۔
اساتید :
امام احمد حنبل نے وکیع، یحیی بن آدم، یحیی بن سعید قحطان اور یحیی بن معین جیسے اساتید سے بہت زیادہ حدیثیں حاصل کیں، ان کے علاوہ میثم اور ابویوسف کے شاگر د سے جو خود ابوحنیفہ کے شاگرد تھے علم حاصل کیا ، شافعی بھی آپ کے استاد تھے۔
شاگرد :
امام احمد بن حنبل کے وہ شاگرد جنہوں نے حدیثیں نقل کرنے میں آپ کی مدد فرمائی ہے ان کے نام درج ذیل ہیں: ابوالعباس اصطخری، احمد بن ابی خیثمہ، ابو یعلی موصلی،ابوبکر اثرم، ابوالعباس ثعلب، ابوداؤد سجستانی وغیرہ۔
آپ کاانتقال ۲۴۱ ہجری مطابق ۸۵۵ عیسویں کو شہر بغداد میں ہوا ۔
فقہ حنبلی کی خصوصیت :
اس مذہب کے موسس حدیثیں جمع کرنے او ر اقوال کی تحقیق میں اس قدر مشغول ہوگئے تھے کہ بعض علماء کے بقول جیسے طبری نے کہا ہے کہ ان کی کوئی الگ فقہ نہیں ہے۔ لیکن اس بات کا ادعا کیا جاسکتا ہے کہ دوسرے تمام مذاہب سے جدا حنبلی نام کی ایک فقہ موجود ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حدیثوں کی طرف زیادہ توجہ دی ہے۔
فقہ حنبلی کے مآخذ :
اس مذہب نے اپنی فقہ کا اصلی مآخذ قرآن و سنت کو قرار دیا ہے ، اس فرقہ کے بزرگ حضرات قرآن اور سنت کے درمیان فرق کے قائل نہیں ہیں، اور جو لوگ ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا سمجھتے ہیں یا ایک کو دوسرے پر قربان کردیتے ہیں یہ ان کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں ، اس فقہی مکتب کی عام خصوصیت یہ ہے کہ ہر طرح کے اجتہاد و رائے کی مخالفت کرتے ہیں، اور صرف احادیث سے استناد کرتے ہیں۔ حنبلیوں کے نزدیک صحابہ اور فقہاء کے اقوال بھی حجت ہیں، قرآن و حدیث ، قول صحابہ اور فقہاء کے علاوہ کچھ اور موارد بھی ہیں جن کی اہمیت ان کے نزدیک بہت کم ہے لیکن کلی طور پر ان سے استناد کیاجاسکتا ہے اور یہ موارد درج ذیل ہیں :
قیاس، اجماع، مصالح مرسلہ اور سد الذرائع۔
حنبلی، ضعیف حدیث سے اس جگہ پر استفادہ کرتے ہیں جب وہ قرآن و سنت سے تعارض نہ کرے، ان کی فقہ کی ایک خصوصیت جو مشہور بھی ہوگئی ہے وہ عبادات، معاملات اور طہارت میں سختی کرنا ہے ،ان سختیوں کا ایک نمونہ وضو میں کلی(مضمضہ)اور ناک میں پانی ڈالنا واجب سمجھتے ہیں۔
مفتی کے لوازم و شرائط :
ان کے ممیزات میں سے ایک چیز جو پسندید ہ بھی ہے وہ مفتی کے حدود و شرائط کو معین کرنا ہے، اس خصوصیت کے چند نمونہ یہ ہیں:
۱۔ مفتی کو عالم اور صابر ہونا چاہئے۔
۲۔ مفتی کی نیت خالص ہونا چاہئے۔
۳۔ مفتی کو زمانہ اور لوگوں کے حالات سے آگاہ ہونا چاہئے۔
۴۔ مفتی کو قرآن و سنت اور احادیث کی سند سے عالم ہونا چاہئے۔
۵۔ ایک حد تک فتوی دینے کی لیاقت اور صلاحیت ہونا چاہئے تاکہ لوگ اس سے دشمنی نہ کریں۔
فقہ حنبلی نے معاشرہ کے مسائل کی طرف بھی خاص توجہ دی ہے اور اس کی مناسبت سے فقہی احکام صادر کئے ہیں، اس کے چند نمونہ درج ذیل ہیں:
اگر کوئی شخص کسی زمین کو فقراء اور ضعیف لوگوں کے لئے وقف کرے تو اس میں سے جو چیز نکلے اس پر زکات نہیں ہے۔
وہ رشتہ دار جس کا نفقہ انسان پر واجب ہے و ہ لوگ ہیں، جو خوداپنے اخراجات کی ذمہ داری ادا نہیں کرپاتے۔
دعوے کو دلیلوں سے ثابت کرنے کے سلسلہ میں فقہ حنبلی کا نظریہ :
۱۔ اقرار: حنبلیوں کا نظریہ ہے کہ اقرار،لفظ ، کتابت کے ذریعہ اور گونگے افراد کے اشارہ کرنے سے واقع ہوجاتا ہے۔
۲۔ قسم : اگر میں کسی پر کسی چیزکا ادعا کروں اور اس کو ثابت کرنے کیلئے میرے پاس کوئی دلیل نہ ہوتو قاضی طرف مقابل کو قسم کھانے پر مجبور کرے گا کہ اس کی بات جھوٹی ہے۔
۳۔ شہادت : حنبلیوں کا عقیدہ ہے کہ جن چیزوں میں شہادت دی جاسکتی ہے وہ سات ہیں:
الف و ب۔ زنا اور لواط کی شہادت چار مردوں کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔
ج۔ فقیری کا ادعا کرنا اور یہ ادعا تین مردوں کی شہادت سے قابل قبول ہے۔
د۔ حدود جیسے قذف، شراب پینا، اور راہزنی جو دو مردوں کی شہادت سے ثابت ہوتی ہے۔
ھ۔ نکاح اور طلاق جو دو مردوں کی شہادت سے ثابت ہوتی ہے۔
و۔ وہ زخم جو انسان یا حیوان پر وارد ہوتے ہیں،ان کو جانوروں کے ڈاکٹر کی رپورٹ کے بعد دو مرد یا ایک مرد اور ایک عورت کی شہادت سے قبول کیا جاسکتا ہے۔
ز۔ عورتوں کے وہ عیوب جو مردوں سے چھپے ہوئے ہیں یہ عیوب ایک عورت کی شہادت سے ثابت ہوتے ہیں۔
۴۔ قرعہ : اس مذہب کے نزدیک قرعہ ، حکم کرنے کے برابر ہے، طلاق، نکاح، غلام آزاد کرنے، مال اور بیویوں کے ساتھ سونے کو تقسیم کرنے اسی طرح بیویوں میں سے کسی بیوی کو اپنے ساتھ سفر میں لے جانے کو قرعہ کے ذریعہ حکم کرتے ہیں ۔ احمد حنبل نے اسحاق بن ابراہیم اور جعفر بن محمد کی روایت میں کہا ہے کہ قرعہ جائز ہے۔
دینی اور کلامی عقاید :
امام احمد حنبل اور ان کے چاہنے والے حدیثی مسلک کے طرفدار ہیں اس وجہ سے ان کو کلام کا موسس نہیں کہا جاسکتا ، لہذا عقاید میں جو بھی عقیدہ ان کی طرف منسوب ہے وہ سب کتاب و سنت سے حاصل کیا گیا ہے۔
عام طور سے حنبلی مسلک ارجا ء کے معتقد ہیں ، مثلا مسئلہ تکفیر میں ان کا نظریہ وہی مرجئہ کا نظریہ ہے۔ خدا شناسی کے مباحث میں صفاتیہ میں ان کا شمار ہوتا ہے اور اس متعلق جھمیہ، قدریہ، معتزلہ اور ان کے ماننے والوں کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ لوگ خدا کے کلام یعنی قرآن کو مخلوق نہیں سمجھتے۔
ایمان کے باب میں قول اور عمل کو شرط جانتے ہیں۔ مسئلہ رویت، ان کے لئے حق اور صحیح ہے کیونکہ صحیح حدیث میں انہوں نے خداوند عالم کی رویت کے متعلق بیان کیا ہے۔
مذاہب اربعہ میں سب سے کم تعداد حنبلی مذہب کو ماننے والوں کی ہے۔
مآخذ
۱۔ فقہ تطبیقی سعید منصوری (آرانی)۔
۲۔ اہل سنت و الجماعت کے امام محمد رؤف توکلی۔
۳۔ الائمة الاربعہ ڈاکٹر احمد اشرباصی۔
۴۔ تحقیق در تاریخ و فلسفہ مذاہب اہل سنت یوسف فضائی۔
فيس بك نے سياسی دباؤ كی وجہ سے حزب اللہ كا ہوم پيج حذف كرديا
ايران كی قرآنی خبر رساں ايجنسی (ايكنا) نے «Press TV» كے حوالے سے نقل كرتے ہوئے كہا ہے كہ اس ويب سائیٹ كے ايك ترجمان نے لبنان سے نكلنے والے اخبار ، روزنامہ"ڈيلی سٹار" كے ساتھ گفتگو كے دوران كہا : اس كمپنی نے اپنی ويب سائیٹ سے حزب اللہ كے ٹی وی چينل "المنار" كے ہوم پيج كو "اشتعال انگيزی" كے الزامات كی وجہ سے حذف كر ديا ہے ۔
فرڈريك وولنس نے كہا : ہم اپنے قوانين اور ذمہ داريوں كی بنياد پر ايسے موضوعات كی اجازت نہیں دے سكتے جو انتہا پسندی كو رواج دیتے ہوں ۔
وولن نے اس بات كا بھی دعوا كيا ہے كہ وزارت خارجہ كی جانب سے حزب اللہ كو ممكنہ طور پر بليك لسٹ میں شامل كيا جا سكتا ہے لہذا المنار كے ہوم پيج كو اس سائیٹ سے حذف كرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔
فلسطین ؛ مسجد میں شراب میلے کا انعقاد، ترکی کی جانب سے شدید مذمت
ترکی کی حکومت اور مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے مقبوضہ فلسطین کے شہر بئر سبع میں اسرائیلی حکومت کی سرپرستی میں ایک قدیم جامع مسجد کے باہر شراب میلے کے انعقاد کی شدید مذمت کی ہے۔ ترک تنظیموں نے مسجد کے باہر شراب میلے جیسے شرمناک اقدام کو شعائر اسلام کی توہین اور آسمانی مذاہب کی تعلیمات کی خلاف ورزی قرار دیا۔
ذرائع کے مطابق ترک محکمہ اوقاف و مذہبی امور کے چیئرمین نوری اونال نے اپنے ایک پریس بیان میں فلسطینی شہر بئر سبع کی قدیم جامع مسجد کے صحن میں شراب اور الکحل فروخت کرنے والے والی کمپنیوں کی مصنوعات کی نمائش اور شراب میلے کے انعقاد کی شدید مذمت کی۔ بیان میں کہا گیا کہ مسجد جیسے مقدس مقام کو شراب جیسی مکروہ اشیاء سے آلودہ کرنے سے صہیونیوں کی اسلام دشمنی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ یہ اقدام واضح کرتا ہے کہ یہودیوں کو فلسطینیوں سے پرخاش نہیں بلکہ اس کی دشمنی کا محور اور مرکز شعائر اسلام ہیں۔ مسجد کے باہر شراب میلے کا انعقاد اپنی نوعیت کا شرمناک اور قابل مذمت اقدام ہی نہیں بلکہ آسمانی مذاہب کی تعلیمات کی بھی کھلی توہین ہے۔
بیان میں ترک عہدیدار کا کہنا ہے کہ مسلمان دنیا بھر میں یہودیوں کے کنیسوں(معابد) اور عیسائیوں کے چرچوں سمیت دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کی اسی طرح حفاظت کرتے ہیں جس طرح وہ مساجد کی حفاظت کرتے ہیں لیکن ہمیں نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فلسطین میں یہودی غنڈہ گردوں کے ہاتھوں نہ مسلمان محفوظ ہیں اور نہ ہی ان کی عبادت گاہیں اور مساجد محفوظ ہیں۔
نوری اونال نے صہیونی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسجد بئر سبع میں شراب خانہ قائم کرنے اور شراب میلے کے انعقاد کا فیصلہ واپس لے اور مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کی سازشوں سے باز آئے۔
اطلاعات کے مطابق 5، 6 ستمبر کو بئر السبع میں منعقد ہونے والے چھٹے سالانہ شراب میلے میں اسرائیل اور بیرون ملک سے 30 شراب بنانے والی کمپنیاں شرکت کریں گی۔ اسرائیل میں عرب اقلیتوں کے سینٹر "العدالہ" کے مطابق میلے میں محفل موسیقی کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔
"العدالہ" نے سن 2002ء میں ایک پٹیشن دائر کی تھی جس میں مسجد کو نماز کے لئے دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ مسجد سنہ 1948ء تک نماز کے لئے کھلی رہی، اس کے بعد اسے جیل اور بعد ازاں 1952ء تک عدالت بنا دیا گیا۔ یہ مسجد 1953 سے 1991ء تک "نقب میوزیم" کے طور استعمال ہوتی رہی۔ اس کے بعد سے مسجد خالی چلی آ رہی ہے۔ اس مسجد کو 1906ء میں عثمانیہ دور میں تعمیر کیا گیا۔