Super User

Super User

Saturday, 01 December 2012 10:08

حضرت مریم علیها السلام

ماں نے نذر مانی خیال تھا بیٹا ہوگا مگر حضرت مریم کی ولادت ہوئی۔ اللہ نے بیٹی کو بھی خدمت بیت المقدس کے لئے قبول کر لیا۔ وَإِنِّیْ سَمَّیْتُہَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیذُہَا بِکَ ۔ "میں نے اس لڑکی کا نام مریم رکھا۔ میں اسے شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ (آل عمران:۳۶) پھر بڑی ہوگئیں۔ خدا کی طرف سے میوے آتے ۔ ذکریا پوچھتے۔ بتاتیں۔ من عنداللہ ۔ اللہ کی طرف سے ہیں ۔حتیٰ کہ جوان ہو گئیں۔ ارشاد رب العزت ہے:

وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذَ انْتَبَذَتْ مِنْ أَہْلِہَا مَکَانًا شَرْقِیًّا فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِہِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَیْہَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا قَالَتْ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِالرَّحْمَانِ مِنْکَ إِنْ کُنْتَ تَقِیًّا قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأَہَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّا قَالَتْ أَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَرٌ وَّلَمْ اَ کُ بَغِیًّا قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ وَلِنَجْعَلَہ آیَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَکَانَ أَمْرًا مَقْضِیًّا فَحَمَلَتْہُ فَانتَبَذَتْ بِہ مَکَانًا قَصِیًّا فَأَجَائَہَا الْمَخَاضُ إِلٰی جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ یَالَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ہَذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا فَنَادَاہَا مِنْ تَحْتِہَا أَلاَّ تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا وَہُزِّیْ إِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّی عَیْنًا فَإِمَّا تَرَیِنَ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُوْلِی إِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمَانِ صَوْمًا فَلَنْ أُکَلِّمَ الْیَوْمَ إِنْسِیًّا فَأَتَتْ بِہ قَوْمَہَا تَحْمِلُہ قَالُوْا یَامَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا یَاأُخْتَ ہَارُوْنَ مَا کَانَ أَبُوْکِ امْرَأَ سَوْءٍ وَّمَا کَانَتْ أُمُّکِ بَغِیًّا فَأَشَارَتْ إِلَیْہِ قَالُوْا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَہْدِ صَبِیًّا قَالَ إِنِّیْ عَبْدُ اللہ آتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا وَّجَعَلَنِیْ مُبَارَکًا أَیْنَ مَا کُنْتُ وَأَوْصَانِیْ بِالصَّلَاةِ وَالزَّکَاةِ مَا دُمْتُ حَیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا وَالسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُ وَیَوْمَ أَمُوتُ وَیَوْمَ أُبْعَثُ حَیًّا .

"اس کتاب میں مریم کا ذکر کیجئے۔ جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر مشرق کی جانب گئی تھیں۔ یوں انہوں نے ان سے پردہ اختیار کیا تھا۔ تب ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا۔ پس وہ ان کے سامنے مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا۔ مریم نے کہا۔ اگر تو پرہیز گار ہے تو میں تجھ سے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں۔ اس نے کہا میں تو بس آپ کے پروردگار کا پیغام رساں ہوں۔ تاکہ آپ کو پاکیزہ بیٹا دوں۔ مریم نے کہا۔ میرے ہاں بیٹا کیسے ہوگا۔ مجھے تو کسی بشر نے چھوا تک نہیں۔ اور میں کوئی بدکردار بھی نہیں ہوں۔ فرشتے نے کہا۔ اسی طرح ہوگا ۔ آپ کے پروردگار نے فرمایاہے کہ یہ تو میرے لئے آسان ہے اور یہ اس لئے ہے کہ ہم اس لڑکے کو لوگوں کے لئے نشانی قرار دیں۔ اور وہ ہماری طرف سے رحمت ثابت ہو اور یہ کام طے شدہ تھا اور مریم اس بچہ سے حاملہ ہو گئیں اور وہ اسے لیکر دور چلی گئیں۔ پھر زچگی کا درد انہیں کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں۔ اے کاش میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور صفحہ فراموشی میں کھو چکی ہوتی۔ فرشتے نے مریم کے پیروں کے نیچے سے آواز دی غم نہ کیجئے آپ کے پروردگار نے آپ کے قدموں میں ایک چشمہ جاری کیا ہے اور کھجور کے تنے کو ہلائیں تو آپ پر تازہ کھجوریں گریں گی۔ پس آپ کھائیں پئیں اور آنکھیں ٹھنڈی کریں اور اگر کوئی آدمی نظر آئے تو کہہ دیں۔ میں نے رحمان کی نذر مانی ہے۔ اس لئے آج میں کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔ پھر وہ اس بچے کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے آئیں۔ لوگوں نے کہا اے مریم۔ تو نے غضب کی حرکت کی۔ اے ہارون کی بہن۔ نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکردار تھی۔ "پس مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا۔ لوگ کہنے لگے ہم ا س کیسے بات کریں۔ جو بچہ ابھی گہوارہ میں ہے۔ بچے نے کہا میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی ہے۔ اور مجھے نبی بنایا ہے اور میں جہاں بھی ہوں مجھے بابرکت بنایا ہے۔۔ اور زندگی بھر نماز اور زکوة کی پابندی کا حکم دیا ہے اور اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا ہے اور اس نے مجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا۔ اور سلام ہو مجھ پر جس روز میں پیدا ہوا جس روز میں وفات پاؤں گا اور جس روز دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔" (مریم:۱۶تا۳۳)

حضرت مریم خدا کی خاص کنیز ۔بیت المقدس میں ہر وقت رہائش ۔ اللہ کی طرف سے جنت کے کھانے و میوے۔ برگزیدہ مخلوق۔ بہت بڑے امتحان میں کامیاب ہوئی۔ ۳ گھنٹہ یا ۳ دن کے بچے نے اپنی نبوت اپنی کتاب اور اپنے بابرکت ہونے کی خبر دے کر کے اپنی والدہ ماجدہ کی عصمت کی گواہی دی اوربتایا مجھے والدہ ماجدہ سے بہترین سلوک کا حکم ملا ہے۔ پھر مریم کے پاؤں کے نیچے چشمہ جاری ہوا۔ خشک درخت سے تر و تازہ کھجوریں۔یہ اللہ کی طرف سے اظہارہے کہ جو میرا بن جائے خواہ عورت ہو یا مرد۔ میں اس کا بن جاتا ہوں ، عزت کی محافظت میرا کام، اشکالات کے جوابات میری طرف سے اوروہ سب کو ایسے برگزیدہ لوگوں (مرد ہو یا عورت)کے سامنے جھکا دیتا ہے ۔تومیرے سامنے جھک جا۔دنیا تیرے سامنے سرنگوں ہو گی۔ حضرت مریم کی تعریف و ثناء ارشاد رب العزت ہے: وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَةُ یَامَرْیَمُ إِنَّ اللہ اصْطَفَاکِ وَطَہَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلٰی نِسَاءِ الْعَالَمِیْنَ یَامَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ "اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا اے مریم۔ اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا ہے اور تمہیں پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں دنیا کی تمام عورتوں سے برگزیدہ کیا ہے اے مریم اپنے رب کی اطاعت کرو اور سجدہ کرتی رہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔" (آل عمران :۴۲۔۴۳)

إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَةُ یَامَرْیَمُ إِنَّ اللہ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْہًا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَہْدِ وَکَہْلًا وَّمِنَ الصَّالِحِیْنَ قَالَتْ رَبِّ أَنّٰیْ یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ قَالَ کَذٰلِکِ اللہ یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ إِذَا قَضٰی أَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ وَیُعَلِّمُہُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیْلَ۔

" جب فرشتوں نے کہا اے مریم۔ اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہو گا وہ دنیا و آخرت میں آبرو مند ہوگا اور مقرب لوگوں میں سے ہوگا اور وہ لوگوں سے گہوارہ میں گفتگو کرے گا اور صالحین میں سے ہوگا۔ مریم نے کہا۔ پروردگار! میرے ہاں لڑکا کس طرح ہو گا مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ فرمایا ایسا ہی ہوگا۔ اللہ جو چاہتا ہے خلق فرماتا ہے۔ جب وہ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے ۔ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔ اور (اللہ) اسے کتاب و حکمت اور توریت و انجیل کی تعلیم دے گا۔" (آل عمران :۴۵۔۴۸) اللہ حضرت مریم کو طاہرہ، منتخب ہو اور پاکیزہ ہونے کی سند کے ساتھ عالمین کی عورتوں کی سردار قرار دے رہا ہے۔ کلمة اللہ ۔ روح اللہ کی ماں اعجاز خدا کا مرکز ۔ طہارة و پاکیزگی کا مرقع ایسے ان لوگوں کی اللہ تعریف کرتا ہے مرد ہو یا عورت۔ "عورت بھی خداکی معزز مخلوق ہے۔"

گیارہ ہجری میں ایک بوسیدہ مکان سے پیوند لگی چادر زیب تن کئے ایک خاتون در بار خلافت کی طرف گامزن تھی وہ خاتون جس کی چادر کے پیوندوں کی ضوفشانی ماہ و انجم کی چمک دمک اور نورانیت کو شرمندہ کئے دے رہی تھی وہ خاتون کی جو سراپا نور تھی جس کی صداقت کا یہ عالم یہ تھا کہ اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے خالق کائنات نے خلعت جنت اس کے بچوں کے زیب تن کرنے کے لئے رضوان جنت کو خیاط بن جانے کا حکم دیا، جس کی محبت اور جانشانی کا یہ عالم تھا کہ رحمتہ للعالمین نے اسے امّ ابیہا کے لقب سے نوازا جس ک زہد و عبادت کا یہ عالم تھا کہ اسے زینت محراب، فخرالساجدین علی ابن ابی طالب علیہما السلام نے عبادت میں اپنا بہترین شریک قرار دیا وہ بزرگ خاتون احقاق حق اور چہرئہ باطل سے پردہ ہٹانے کے لئے دربار کا رخ کرتی ہیں اور اس بی بی نے دربار خلافت میں ایسا خطبہ پڑھا کہ چشم کائنات متحیر ہو گئی ۔ عرب کے فصیح و بلیغ افراد اپنے کو گونگا محسوس کرنے لگے اور علماء کے لئے یہ معلوم کر پانا مشکل ہو گیا کہ اس خطبہ میں کہاں خدا کا کلام ہے اور کہاں بنت پیامبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا!

اس بی بی نے بھرے دربار میں ظالموں کو شرمسار کردیا اور باطل کے چہرے سے اس طریقے سے نقاب ہٹائی کہ قیام قیامت تک کے لئے ہر حق جو کیلئے حق و باطل کے درمیان امتیاز کر پانا آسان ہو گیا اور اس خاتون نے یہ بتایادیا کہ دیکھو جب باطل زیادہ سر اٹھانے کی کوشش کریگا ، تو ہم میں سے کوئی آگے آئے گا اور باطل کو اس کی سرپچیوں کا مزہ ضرور چکھائے گا اور اگر ضرورت پڑی تو اس امر کو انجام دینے کے لئے خاندان بنی ہاشم کی عورتیں بھی قدم آگے بڑھا سکتی ہیں۔

وہ عظیم کارنامہ جو شہزادی اسلام نے 11ھ میں انجام دیاتھا 61 ھ میں آپ کی بیٹی عقیلہ بنی ہاشم، ثانی زہرا جناب زینب کبریٰ سلام اللہ علیہ نے دہرایا 61ھ میں جب ظلم و استبدا د اپنی انتہائی منازل تک پہنچ رہا تھا، باطل کو سر پیچیاں حد سے گذر رہی تھیں جب درندگی کے چنگل میں انسانیت دم توڑتی نظر آ رہی تھی ، شرافت و صداقت کو جب ظلم و بربریت نے اپنے سیاہ بادلوں کے گھیرے میں لے لیا تھا اس دیانت کو لباس الحاد پہنانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ دین اسلام ویران گلیوں اور سنسان بیابانوں میں ناصر و مددگار کی تلاش میں سر گرداں تھا، خلافت کے نام پر اسلام کا مذاق اڑا یا جاا رہا تھا ، در بار خلافت مداریوں اور طوائفوں کا اڈا بن گیا تھا، پھر ایسے ماحول میں کچھ دینداروں کی نگاہیں جناب زہرا سلام اللہ علیہا کوتلاش کر رہی تھیں، اس وقت جناب زہرا سلام اللہ علیہا تو نہ تھیںلیکن ثانی زہرا سلام اللہ علیہانے یہ آوا ز دی کہ اگر زہرا نہیں تو ثانی زہرا موجود ہے ، اور اس باعظمت خاتون نے دربار شام میں وہ شجاعانہ خطبہ دیا کہ زبانیں یہ کہنے پر مجبور ہو گئیں کہ :

دلیر باپ کی بیٹی کا نام ہے زینب

اس خطبے سے سوتے ہوئے ذہن جاگنے لگے چہرہ باطل سے پردہ اٹھ گیا ، وہ ایسا خطبہ تھا کہ جسے سن کر لوگ دنگ رہ گئے ، جناب زینت سلام اللہ علیہ کی تقریر سننے کے بعد لوگوں کے لئے یہ سمجھ پانا مشکل ہو گیا کہ کوئی خاتون دربار خلافت میں تقریر کر رہی ہیں یا، علی مرتضیٰ مسجد کوفہ میں خطبہ دے رہے ہیں ، وہ خطبہ اس قد حکمت آمیز تھا کہ صاحبان عقل و خرآج بھی یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں

دیار شام میں خطبہ حکیمانہ تھا زینت کا

کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد مقصد حسینی کو دنیا تک پہونچانے والاکوئی نہ تھا اگر زینب سلام اللہ علیہا نے سید سجاد علیہ السلام کے ساتھ اس کام کو انجام نہ دیا ہوگا، اس وقت کہ جب درباری مؤرخین سید الشہداء علیہ السلام کو ایک خارجی سے تعبیر کر رہے تھے، جب ضمیر فروش مقررین منبر رسول کے خلاف تبلیغات سوء کر رہے تھے تو وہ زینب سلام اللہ علیہا ہی تھیں کہ جنہوں نے آراستہ دربار میں سیکڑوں کے مجمع میں اثبات حق کے لئے اپنے لبوں کو جنبش دی اور خواب غفلت میں پڑے ذہنوں کو جھنجھوڑا، ہفتوں کی پیاس کے باوجود ایسی تقریر فرمائی کہ دربار خلافت میں ایک تلاطم مچ گیا ، یزیدیت دم توڑنے لگی، اور اس طریقہ سے زینت نے بھرے دربار میں فتح حسینی کا اعلان کر دیا ثانی زہرا سلام اللہ علیہا اثبات حق کے لئے اور چہرئہ باطل سے نقاب ہٹانے کے لئے زہرا ہی کی طرح آیات قرآنی کا سہارا لیا اور فرمایا کہ شکر ہے عالمین کے رب کا، درود و سلام و آل رسول پر، خدائے پاک نے صحیح فرمایا ہے کہ ﴿عم کان عاقبۃ الذین اباؤ االسوء ان کنبو ابأیات اللہ و کانو ایہا یستہزنون﴾ برے کام کرنے والوں کا انجام برا ہے کہ ان لوگوں نے آیات خدا کی تکذیب کی اور اس کا مذاق اڑایا اے یزید کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ تو نے ہمارے لئے زمین و آسمان کے دروازوں کو بند کردیا ہے اور ہم کو غلاموں کی طرح پھرایا ہے ، تو ہم خدا کے نزدیک ذلیل ہو گئے اور تو ذی وقار ؟ اور اس طرح سے ہم پر تیرا غلبہ ہو گیا، لہٰذا خدا کے نزدیک تیری عزّت اور سر بلندی کے مترادف ہے ؟ پس تو نے تکبّر کیا اور یہ سمجھ بیٹھا کہ فاتح عالم ہے تھوڑا قدم بڑھا، کیا قول خدا کو بھلا بیٹھا ہے ﴿ولا یحسبنّ الذین کفر واانّما نملی لہم لیزدادواانسمأ و لہم عذاب الیہم﴾

کافروں کو یہ گمان نہیں کرنا چاہئے کہ ہم نے انہیں مہلت دی اس لئے کہ ہم ان کا بھلا چاہتے ہیں ، نہ ! ایسا نہیں ہے، بلکہ ہم نے انہیں مہلت دی تاکہ وہ گناہ زیادہ کریں اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے آپ یزید کو مخاطب کر کے آگے ارشاد فرماتی ہیں کہ:

﴿ أمن العدل با بن الطلقاء تضبرک ہرابرک و امائک و بو فک بنات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بایاافد ھتلت بنور ہن و ابدلت وجو ہنّا﴾

...... ا ے میرے جد کے آزاد کردہ غلام کے بیٹے کیا یہی انصاف ہے کہ تو اپنی عورتوں اور کنیزوں کو تو پس پردہ رکھے اور رسول زادیوں کو اسیر کر کے کشاں کشاں پھرائے؟ بے پردہ شہر بہ شہر لے جایا جائے ؟ اور نامحرموں کی نگاہیں ان کے چہروں پر ہوں تو نے ذریت پیغمبر کا خون بہایا کہ جو آل عبدالمطلب میں روئے زمین پر ستاروں کے مانند تھے تو نے جو یہ کہا کہ :

لیث اتبا فی ببدر نہروا جزع الخزرج من وقع الال

لعبث ہما ئم با لملک فدا ضبر جاء ولا وہی نزل

تو جس طریقہ سے تو نے آج اپنے بزرگوں کو یاد کیا اور اپنے اسلاف کو آواز دی، پریشان نہ ہو کہ عنقریب تو ان سے ملے گا اور یہ آرزو کر ے گا کہ اے کاش تیرے ہاتھ شل ہو گئے ہوتے اور تیری زبان گنگ ہو گئی ہو تی اور تو وہ باتیں نہ کہتا جو کہیں وہ کام نہ کر تا جو کیا !

بہ خدا قسم تو نے خود اپنی کھال کھینچی، اپنے گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کیا، تو رسول کے پاس حاضر ہوگا اس حال میں کہ تیرے دوش پر خون آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کا بار ہوگا،

﴿ولا تحسبنّ الذین قتلو افی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربہم یرزقو ن ﴾

و کفیٰ با للہ ہما کمأو بحمدخصمأ و بجبرئیل ظہیرأ (رفع المسجوع ض۔۵۱)

جناب زینب سلام اللہ علیہا کا خطبہ الفاظ کا وہ بحر ذخار ہے کہ جس کی و شجاعت صبر و استقامت علم و حلم کے موتی کسب کئے جا سکتے ہیں خلاصئہ کلام یہ کہ جناب زینب سلام اللہ علیہا کا ایک خطبہ اس قدر مؤثر تھا کہ جس نے اسلام کی جاتی ہوئی آبرو کو بچا لیا مقصد حسینی کو پائمال ہونے سے محفوظ کر لیا کلمہ توحید کو صبح قیامت تک کے لئے جلا بخش دی انسانیت کو حیات جاوید عطا کی اور یہ بتادیا کہ کل ہماری ماں نے چہرئہ باطل سے نقاب ہٹائی تھی اور آج ہم اس کارنامہ کو اس طرح دوہرارہے ہیں کہ تا قیامت اس کی یاد باقی رہے گی۔

عصمت و عظمت و توقیر مجسم زینب گلشن حیدر کرار کی شبنم زینب

کار شبیر کی حامی معظم زینب راہ اسلام میں قربانی پیہم زینب

حق عطا قطرے کو کر سکتا ہے دریا ہونا

ورنہ آسان نہیں ثانی زہرا ہونا

شہنشاہ کربلا کے عالم انسانیت پر بالعموم اور دنیائےاسلام پر بالخصوص مخفی و آشکار احسانات کا کاملًا احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے- احسانات ایسے جو کثیرالجہت اور عالم گیر ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اولاد آدم میں سے ایک بڑی جمعیت اپنے اس محسن کے اسم مبارک سے بھی ناآشنا ہے اور بہت سے انسان احسان فراموشی کا اس حوالے سے دیدہ و دانستہ مرتکب ہو رہے ہیں ... حد تو یہ ہے کہ اپنے آپ کو مبلغِ اسلام گرداننے والے بعض افراد موجودہ دور میں بھی"رضی اللہ" کی چادر سے قا تلِ حسین کی"عریاں تصویر" کو ڈھانکنا چاہتے ہیں۔ خیر کوئی معترف ہو یا نہ ہو امام عالی مقام نے پیغمبر اسلام کے مشن کو بچانے کیلئے عظیم قربانی پیش کرکے ثابت کر دیا کہ آپ علیہ السلام محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی وارث ہیں ـ اس طور انسانیت کی گردن امام حسین علیہ السلام کے احسانات سے تا قیام قیامت زیر بار رہے گی ـ بہر کیف جوں جوں انسان احسان مندی کی بو خو سے مانوس ہو تاجائے گا وہ خونِ حسین کی ہر بوند کا قدرشناس ہوتا جائے گا۔ شرط یہ ہے کہ فی الواقع کربلا کی نمائندگی کے دعوے دارا پنی اس سہ گونہ مسئولیت کی حساسیت و اہمیت کو جان لیں ـ اور اس کو پورا کرنے کی سعی کریں ـ ذیل میں اس کے مبادیات سے بحث ہوگی:

۱۔ پیغام کربلا کی تفہیم

۲- پیغام کربلا کی ابلاغ و ترسیل

۳- پیغام کربلا کی عصری حالات پر تطبیق

یہاں تک اول الذکر مسئولیت کا تعلق ہے۔ تحریک کربلا کے اصل مدعا و مقصد کو سمجھنے کیلئے لازمی ہے کہ کربلا کا مطالعہ اس کے صاف و شفاف منابع سے ہی کیا جائے۔ اس حوالے سےکربلا میں امام علیہ السلام اور یاوران امام پر جو مظالم ڈھا ئے گئے۔ ان کا اختتام کربلا ہی میں نہ ہوا بلکہ ان کی نوعیت وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی گئی اور آگے جاکر ایک نئی صورت میں وقوع پزیر ہوئے۔ یعنی کربلا کے جانبازوں کی اہمیت کو کم کرنے کیلئے بہت سی بےسر و پا روایات کا ڈھیر لگا دیا گیا۔ تاکہ پیغام کربلا اور حسینی مشن کا مقصد اسی ڈھیر کے نیچے دب کر رہ جائے۔ ایک ایسی حقیقت جس کو انسانی تاریخ نے عالم شباب میں اپنی پر بصارت آنکھوں سے دیکھا تھا اس حقیقت کو خرافات کی نذر کرنے کیلئے کئی بار منظم سازشیں کی گئیں۔ ان سازشوں میں ایک سازش یہ بھی تھی کہ اس حقیقت ِ کربلا کو افسانوی رنگ میں رنگ دیا جائے۔ بہت سی افسانوی داستانیں کربلا کے ساتھ منسوب ہوئیں۔ ان داستانوں کی کھوج بین اسلامی تاریخ میں کیجئے۔تو کھوج بین کرتے کرتے آپ تھک جائیں گے لیکن کہیں پر ان کا سراغ نہیں مل پائے گا۔ ان افسانوں، داستانوں اور غیر مستند روایات کا پول سیرت امام حسین اور ان کے اعوان و انصار کے کردار سے بھی کھل جاتا ہے۔ بعض دفعہ چند ایسی روایات اور واقعات سے بھی سابقہ پڑتا ہے۔ جو قطعی طور سیرت سید الشہداء ، کردارِ اصحاب ِامام حسین اور شعارِ اہلبیت سے ہرگز میل نہیں کھاتے۔ مثال کے طور پر کیا یہ بات تضاد بیانی پر محمول نہیں ہوگی کہ ایک طرف ہم صبر حسین کے مدح سراء بھی ہوں اور دوسری جانب ایسی روایتوں پر سینہ کوبی کریں جس میں امام یا ان کے اولاد و اعوان یہاں تک محذرات کے تئیں بے صبری کی منظر کشی کی گئی ہو۔ عمومی لحاظ سے بھی کسی تاریخی واقعے کے متعلق حتماً یہ دعویٰ کرنامبادی العلموم ِتاریخ سے ناواقفیت کی علامت ہے کہ فلاںواقع بدطینت افراد کی دست برد سے کلیتاً محفوظ رہا ہے۔ علی الخصوص جب کوئی واقعہ اغیار کی آنکھ کا کانٹا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنوں کے حقیر مفادات کی حصول یابی کا ذریعہ بن جائے۔ اس لحاظ سے تفہیم ِکربلا ہر کس و ناکس کا کام نہیں بلکہ یہ کام اسلامی تاریخ اور سیرت ِائمہ سے کماحقہ آشنائی کا طالب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پر خلوص اور بابصیرت علماء کرام نے وقتاً فوقتاًواقعہ کربلاکی[ بعض گوشوں کے حوالےسے] تحریف کا انکشاف کیا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ ادوار میں چند ایک قابل قدر علماء و مجتہدین نے اپنی تحقیقی بصیرت سے بہت سے واقعات و روایات کو نشان زد کیا ہے۔ دورِ حاضر کے بہت سے دانشمند اور محقیقین نے بھی کتابِ کربلا سے تحریف کی دھول جھاڑے کی بساط بھر کوشش کی ہے۔ ان علماء کرام، دانشمند حضرات اور مجتہدینِ عظام میں سے شہید مرتضیٰ مطہری کو امتیازی حیثیت کے حاصل ہیں۔ جس زاویۂ نظر سے انہوں نے کربلا کو دیکھا اور اس کے دقیق پہلؤوں کو مورِ بحث ٹھہرایا ہے۔ اسکی نظیر خال خال ہی نظرآتی ہے۔ علی الخصوص تحریف کربلا کے حوالے سے ان کے آثار میں بہت سے جدید انکشافات نظر سے گزرتے ہیں۔ انہوں نے جس دلیری سے اپنے زبان و قلم کے ذریعے اس مسئلے کو اجاگر کیا۔ اُس سے کربلا پر نظر دوڑانے والوں کو ایک نیا کینواس ملا، ایک نیا زاویہ نگاہ اور نئی فکری افق فراہم ہوئی ہے۔ شہید موصوف نے اپنی نوکِ قلم سے بہت سے غیر حقیقی داستانوں کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا ہے۔ جس سے تفہیم کربلا کا حقیقی رخ اور زیادہ نمایاں ہوگیا ہے۔ پیغام کربلا کی تفہیم کیلئے کافی اہم ہے کہ شہید موصوف کے زاویۂ نگاہ سے استفادہ کیا جائے۔ کسی نابغۂ روزگار شخصیت کے افکار و آثار سے استفادہ کئے بغیر کربلا شناسی میں خطا سے دوچار ہونا یقینی ہے۔ کیونکہ زاویۂ نگاہ فراہم کرنا اعلیٰ پایہ دیدہ وروں کا کام ہے اور اس قماش کے دیدہ ور پیدا کرناہر دور کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ بلاشبہ ان کو جدید استعاراتی تناظر میں"فکری سیٹالائٹ" کہا جاسکتا ہے۔ چنانچہ فکری لحاظ سے کافی بلندی پر جاکر حیات وکائنات کی مختلف جہات کا مشاہدہ و مطالعہ کرنا ایک منفرد وظیفہ ہے یہ وظیفہ علامہ مرتضیٰ مطہری جیسے دیدہ ور اور مفکر سے ہی تکمیل پاتا ہے۔ جس طرح سیٹالائٹ (Satellite) عام سطح سےکافی اونچائی پر جاکر ہماری زمین کے گوشہ و کنار کے متعلق ہمیں مختلف جدید آلات کے ذریعے اطلاعات فراہم کرتا ہے۔ بعینہِ ایک قومی مفکر عامیانہ فکری سطح سے اوپر اٹھ کر حیات و کائنات کے مختلف گوشوں کو دیکھتاہے اور تفکر کے نشیب میں بیٹھی انسانی جمعیت کونادر اور نامعلوم افکار سے روشناس کراتا ہے۔ شہید مطہری نے اسی فکری بلندی سےاپنی بلند نگاہی کربلا پر مرکوز(Focus) کی۔ اور بہت سے پوشیدہ گوشے منکشف کردیئے۔المختصر واقعات کربلا کا مطالعہ کرنا ایک اہم وظیفہ ہے مگر اسے بھی اہم وظیفہ یہ ہے کہ کربلا کی تفہیم سے قبل ایک بے لاگ فکری رہنما کا تعین کیا جائے ...تاکہ تذکرہ کربلا کے حقیقی رجحان کو فروغ ملے اور خرافات سے یہ بیش بہا اثاثہ پاک ہو-

۲-پیغام کربلا کی تشہیر وترسیل:-

تفہیم اور ترسیل کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہےجو بات ،خیال ،فکر ،ادراک ،اور معلومات انسانی ذہن میں درجہ اجابت اور تقدیس کے مقام تک پہنچ جائیں ان کی حتی الوسع تشہیر و ترسیل انسان کی فطری ضرورت بن جاتی ہے-بر وقت اور شایان شان وسیلہ اظہار مل جائے تو ایک ذہنی آسودگی اور روحانی کیف سے انسان لطف اندوز ہوتا ہےبصورت دیگر یہی فکری و ذہنی اثاثہ اسکے باطنی دنیا میں ہیجا ن انگیزی کی فضا قائم کر دیتا ہے جو بعض دفعہ عجیب و غریب حرکات و سکنات کی صورت میں اظہار پاتی ہے-کتاب کربلا مفاہیم اور جذبات کا ایک بیش بہا خزینہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ... مفاہیم اور جذ بات کے اس بحر پر ذخار[کربلا] میں غطہ زن ہونے والے"غواصِ مودت"کو"درد آگہی" اور"کرب مصائب"جیسے دو گراں بہا موتی ہاتھ آ جاتے ہیں ۔جن کی نمائش کے لئے عجب نہیں ہےکہ وہ دیار بہ دیاراور کوچہ و بازار آہ و فغاں کر تا پھرے ۔سوز و گداز اور علم و آگہی میں بے چینی قدر مشترک ہے-کربلا اس قدر مشترک یعنی دوگانہ بےچینی کے عروج کا نام ہے-پس یہ امر انسانی فطرت سے کوسوں بعید ہے کہ کربلا کے درد و کرب اور عرفان و آگہی سے کسی حدتک آشنا فرد پر زبان بندی کی تعزیرِ بےجا لگائی جائے-بے جا نکتہ چینوں کے لئے یہ ضرب المثل کافی ہے"ملکی کیا جانے پرائے دل کی"البتہ تشہیر ِ کربلاایک ایسا عمل ہے ۔ جس سے عہدہ بر آہونا اصل میں علماءِ دین کا ہی وظیفہ ہے۔ لیکن تبلیغ و تشہیر کے وسیع تر مفہوم کے پیش نطر ہر وہ شخص اپنی بساط کے مطابق اس کام میں مصروف ہے۔ جو کربلا کی یاد حتی الوسع زندہ رکھنے میں کوشاں رہے۔ یہ عمل تفہیمی مرحلے کا ہی اگلا قدم کہلائے جائے گا۔ کیونکہ جو چیز انسان کے ذہن نشین ہو فطری طور وہ اسے دوسرے انسانوں تک منتقل کرنے کی ٹوہ میں لگارہتا ہے۔ جو لوگ فکر عاشورا سے آشنا ہوئے۔ وہ ہر صورت اس کی ترسیل و ترویج کیلئے بھی کوشاں ہوں گے۔ البتہ تبلیغی اور ترسیلی کاوشیں حساس نوعیت کی حامل ہوتی ہے۔ ذکر ِ حسین شہادت گہ ِالفت میں قدم رکھنے کے مترادف ہےخدانخواستہ اگر یہ تبلیغی کاوشیں مبنی پر اغلاط ہوں تو انفرادی معاملہ اجتماعی سرحدوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ ذاتی غلط فہمی اور فکری کج روی کے معاشرتی اور سماجی بلکہ ملی سطح پرمنفی نتائج مراتب ہوسکتے ہیں۔ اس لحاظ سے مبلغین واعظین اور ذاکرین کی معمولی سی معمولی غلط بیانی کا خمیازہ بڑے پیمانے پر قومی تہذیب و ثقافت اور ملت کے فکری نظام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ روحِ حسینیت سے واقف کوئی بھی شخص اس حقیقت کا منکر نہیں ہوسکتا ہے کہ تحریک کربلا ذوق ِعمل کوجلا بخشنے کا بے بدل وسیلہ ہے۔ کربلا سوئے ہووں کو جگانے اور جاگے ہووں کو میدانِ عمل میں کودنے پر آمادہ کرتی ہے۔ اس کی تاثیر سے زنگ آلود اذہان میں بھی فکر نو کی شمعیں روشن ہوگئیں۔ اور خوف و دہشت کر مارے قلوب شجاعت کی چاشنی سے آشنا ہوئے۔ مگر کم سواد ذاکرین و واعظین کی کرشمہ سازی دیکھئے انہوں نے کربلا اور امام عالی مقام کی قربانی کو منفی انداز میں پیش کیا۔ نتیجتاً امام حسین علیہ السلام سے عقیدت رکھنے والے بعض افراد کے عقیدے میں یہ باطل خیال رچ بس گیا ہے کہ معاذاللہ خونِ حسین علیہ سلام اصل میں ہمارے گناہوں کا کفارہ ہے۔آپ علیہ سلام نے جو اتنی بڑی قربانی سے ہماری نجات کا پروانہ ہمارے ہاتھ میں تھما دیا تو پھر ہاتھ پیر مانے کی کیا ضرورت ہے۔

یقیناً امام حسین علیہ سلام بمطابِقِ حدیث پیغمبر سفینہ النجاۃ [نجات کی کشتی] ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں۔ کہ محض نام حسین علیہ السلام کو ورد زباں رکھنے والے خواہ اس نجات کی کشتی کے مخالف سمت ہی محو سفر کیوں نہ ہوں ہر حال میں منزلِ نجات پر لنگرانداز ہوں گے! بے ریب و شک امام عالی مقام علیہ السلام پوری امتِ مسلمہ بلکہ اقوام کیلئے باعثِ نجات ہیں جیسا کہ علامہ اقبال بھی اس حقیقت کے معترف ہیں۔

نقش اِلا اللہ برصحرا نوشت

سطرِ عنوانِ نجات مانوشت

مگراس سلسلے میں کچھ شرائط کا پاس ولحاظ رکھنا لابدی ہے۔اس صورتِ حال کو ایک مثال کے ذریعے شاید بہتر انداز میں سمجھایا جاسکتا ہے کہ جان بلب بیمار کے حق میں طبیب نے شفایابی کا ایک بہترین نسخہ تجویز کیا۔ مگر تیمار دار نے مریض کو اس نسخے میں درج تجاویز پر عمل کرنے کے بجائے اس بات پر اترانے کی ترغیب دلائی کہ وہ ایک حاذقِ بے مثل سے منسوب ایک بیمار ہے وہ پرہیز کرے یا نہ کرے بہر صورت شفایابی اس کی تقدیر میں رقم ہوچکی ہے۔بیمار اترانے تک ہی محدود رہا یہاں تک موت کی آغوش میں چلا گیا۔ امام حسین علیہ سلام جیسے طبیب ِخون دہندہ نے اپنے مقدس خون ِ جگر سے جاں بلب انسانیت کیلئے نسخۂ سرخ لکھ دیا مگر افسوس خونِ حسین کے تاجروں نے اس کی قسمت بھی وصولی اور عملی مظاہرے کی راہ میں سنگِ راہ بھی ثابت ہوئے۔ وہی کربلا جو ذوقِ عمل کو جلا بخشنے کا محرک تھی،روحِ حسینیت سے ناآشنا واعظ و ذاکر حضرات نے حرکت و عمل کی روح کو جسد قومی سے کو یوں نکال دیا جیسے عطر ساز نے گلاب کے پھول سے عرقِ گلاب کشید کیا ہو۔ کیا یہ امر غور طلب نہیں ہے کہ مجلس حسینی میں جو ولولہ، جوش ،تحریک، دلسوزی، تجسس، کشمکش، حرارت، یکسوئی، طلاطم، تڑپ اور درد دیکھنے کو ملتا ہے۔ اُس کا ادنیٰ سا عملی مظاہرہ بھی ان مجالس کو برپا کرنے والے معاشروںمیں دیکھنے کو کیوں نہیں ملتا؟ وجہ صاف ہے۔ اپنے آپ کوپیغام ِحسینی کے پیغام رساں گردانے والے بیشتر افراد یا مقصدحسینی اور تقاضائے کربلائی سے ناآشنا ہے یا اپنے حقیر مفادات کی خاطر اس کی صحیح تشہیر و ترسیل میں روڑا اٹکاتے ہیں۔کسی پس و پیش کے بغیر کہا جاسکتا ہے کہ اگر پیغام حسینی کے مقصد کو صحیح انداز و عنوان میں پیش کیا جاتا تو حسینی مشن سے وابسطگی کے دعوے دار معاشروں میں فعالیت کا فقدان نہیں ہوتا۔ کربلا کو اگر روحانی بجلی گھر [spiritual power station]سے تشبیہہ دی جائے۔ اگر اسے نوروحرار ت کا ایک بڑا منبہ تصور کیا جائے تو یاد کربلا کو تازہ کرنےوالے ذاکر و واعظ کو ترسیلی لائن کہنا بجا ہے جو بظاہر اس روحانی بجلی گھر سے متوصل ہے۔ لیکن ہدایت و حرات کی حامل موجۂ برق (Current) کی غیر موجودگی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ترسیلی لائن کہیں نہ کہیں نقص زدہ ہے کیونکہ کربلا جیسے حرارت و نور کے ماخذ میں خرابی یا فیض رسانی میں کمی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔

جس طرح پاور سٹیشن سے ہمیں حرارت و روشنی ملتی ہے اسی طرح کربلا کے روحانی بجلی گھر Power Station سے انسانیت کو نورہدایت اور جذبۂ حرکت فراہم ہونا لابدی ہے بشرطیکہ ترسیلی لائن کے نقائص دور ہوں۔

پیغام رسانی پر مامور حضرات کے طرزِ فکر، انداز تخاطب اور طریقہ کار سے یہ بات مترشح ہے کہ انہوں نے واقعات وروایات کی ہی روشنی میں امام اور یاورانِ امام کے سیرت و کردار کو پیش کرنے کی سعی ہے جبکہ اس امر کا متوازن اور احسن طریقہ یہ ہے کہ امام عالی مقام کے سیرت و کردار اور واقعاتِ کربلا کے تقابلی مطالعے سے ان واقعات کی اعتباریت کا پہلےتعین کیا جائے۔ رسالت و امامت کے وسیع و عظیم پس منظر سے بے نیاز ہوکر کربلاکی تفہیم و تشہیر ایسا ہی ہے جیسا کسی متن کو اس کے سیاق و سباق کے بغیر ہی سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ واقعۂ کربلا کے تشہیری عمل سے وابسطہ غالب اکثریت کے تحت الشعور میں یہ خیال رچ بس گیا ہے کہ ذکر ِحسین اور تذکرۂ شہداء نفسیاتی تسکین کا وسیلہ ہے۔ یہ نفسیاتی تسکین حاصل ہوجائے تو ذکر کربلا کا مدعا پورا ہوگیا۔ بالفاظِ دیگر اشک ریزی ، نالہ و شیون ،نوحہ و ماتم کو ہی ذکرِ کربلا کا مقصد عینی سمجھا گیا۔ ماتم و مراسم ِعزا ،ذکرِ کربلا اور احوالِ امام حسین کا فطری نتیجہ ہے نہ کہ مقصد ِقیامِ حسین ! ذکرِ کربلا کا اصل ہدف پیغام کربلا کی حتی الوسع ابلاغ و ترسیل ہے۔ یعنی انسانیت کا فرد فرد اس عظیم درس سے مانوس ہو جو ریگزارِ کربلا میں شہداءِکربلا کے لہو سے رقم ہوا ہے۔ اس بات سے انکار کی جرأت کسی بھی حقیقت بین فرد ملت کو نہیں ہوسکتی ہے۔ کہ مجالسِ حسینی میں شرکت کرنے والوں کی اکثریت ان افراد پر مشتمل ہوتی ہے جو آنسو بہاکر نفسیاتی آسودگی حاصل کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے ان مجالس سے گوہر مراد حاصل کرلیا۔ نشرو اشاعت اور تبلیغ و وعظ کامحور و مرکز سید الشہداء کے قیام کی غرض و غایت ہونا چاہیئے۔ بین و ماتم ایک ثانوی درجہ رکھتا ہے۔ کربلاکو اس کی غرض و غایت کے ساتھ بڑے ہی خلوص کے ساتھ پیش کیا جائے تو ضرور بہ ضرور ہر قلب سلیم غم زدہ ہوجائے گا اور ہر چشم بصیر تر ہوجائے گی۔ لیکن جب نتیجہ ہی مقصد بن جائے تو کسی بھی عمل کا مقصد فوت ہونا طے ہے۔ مثال کے طور پر عرفاء اور صوفیوں کے یہاں یکسوئی کے ساتھ ذکر اللہ کی کثرت کا ایک طریقہ رائج تھا۔ یعنی جب عارف وصوفی تمام ترذ ہی، قلبی، نفسیاتی یکسوئی کے ساتھ ذکر اللہ میں مشغول ہوا کرتے تھے تو ان پر ایک قسم کی مدہوشی کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ وہ اپنے آپ سے پاس پڑوس سے بے خبر ہوجاتے تھے۔ نتیجتاً وہ ایک قسم کی روحانی لذت سےمحظوظ ہوتے تھے۔آہستہ آہستہ ذکر اللہ کے نتیجے میں طاری ہونے والی غنودگی کی کیفیت ہی ہدف بن گئی یعنی پھر اکثر و بیشتر صوفی حضرات اسی لذت سے لطف اندوز ہونے کیلئے ہی کثرت ِ ذکر میں محو ہونے لگے۔ وہ عمل جس کا مقصد اللہ کی معرفت اور قرب خداوندی تھا لذت کوشی کا ذریعہ بن گیا۔ پھر کسی عامل سے پوچھا جاتا کہ یہ عمل کیوں کرتے ہو؟ تووہ جواباً کہتا کہ اس سے روحانی لذت سے نفسیاتی کام و دہن آشنا ہوتا ہے۔

عصر حاضر میں ترسیل و ابلاغ کے جدید ذرائع سے پیغام رسانی کا دائرہ کافی وسیع ہوتا جارہا ہے۔ مبادلۂ افکار و آئیڈیلوجی[ exchange of thought and ideology] کی رزمگاہ میں فکری للکار و پکار کی گونج دنیا کے ہر کونے میں سنی جاسکتی ہے۔ کوئی بھی چھوٹے پیمانے کا عملی یا فکری مظاہرہ ان جدید ذرائع کے حوالے ہوجائے تو آن واحد میں عالمی منظر نامے کی زینت بن جاتا ہے۔ پیامبران ِکربلا کو اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیئے کہ ان کی نظر میں سامعین و قارئین کے علاوہ بھی ایک بڑی انسانی جمعیت گوش بر آواز اور نظر بر تحریر ہے۔ جن محافل و مجالس اور تحاریر و تقاریر کو صرف اور صرف اہل عزاء کیلئے پیش کیا جاتا تھا۔ انکو دیکھنے اور سننے والے دیگر اقوام سے وابسطہ افراد بھی ہیں۔لہذا رسوم عزاء میں جس قدر پیچیدگی (Complication) اور الجھاؤ پایا جاتا ہے۔ اس کو دور کرنے کی ضرورت ہے ہے ہمارا عقیدہ اگریہ ہے کہ امام حسین کی شخصیت تمام انسانیت کیلئے مشعل راہ ہے۔ اور ان کے لاثانی کارناموں کا تذکرہ کرنے والے اس حکم پیغمبر پر عمل پیرا ہے جس میں انہوں نے اصحابِ کبار سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا"ھٰذا حسین فاعرفو" [یہ حسین ہے اس کو پہچانو]۔ مقامِ تفکر یہ ہے کہ کہیں یہ تذکرہ کرنے والے ہی حسین اور عالم انسانیت کے درمیان حائل تو نہیں ہے۔ کیا ہماری فرسودہ حرکات و سکنات سے تحریک کربلا دیگر اقوام عالم بلکہ اسلامی مسالک کے لئے چیستان تو نہیں بنی ہے؟ انسانی نفسیات سے کماحقہ شناسا افراد کو شاید ہی یہ بات قبول کرنے میں پس و پیش ہوکر اگر واقعۂ کربلا کو بغیر کسی اشکال و الجھاؤ کے جدید ذرائع کے حوالے کیا جائے تو یہ ضرور انسانی اذہان میں ہی نہیں بلکہ انسانی قلوب میں بھی اپنی جگہ یا لے گا۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ اس اثر انگیز واقع سے عالمِ انسانیت مجموعی لحاظ سے غیر واقف کیوں ہے؟ کیونکہ ہم نے بقول علامہ اقبال"غریب و سادہ، رنگین داستانِ حرم" کو مرصع، مسجع، غیر واضع اور پیچ در پیچ مراسم کے ذریعہ بیان کرنےپر اپنی پوری توانائی صرف کردی ہے۔ ان مراسم کے ذریعے جو پیغام دنیا تک پہنچانا مقصود تھا وہ پیغام سیدھے سادھے پیرا یہ میں بیان ہوتا تو صورتِ حال دیگر ہوتی۔ شاید اس مثال کے ذریعے بات واضع ہوکر کسی ایک شخص نے کسی دوسرے شخص کو تحفتاً ایک قیمتی شئے ارسال کی لیکن ارسال کردہ شئے کو کچھ اس انداز سے Pack کیا کہ اس شئے کو لینے والا شخص پیچ در پیچ Package کو کھولتے وقت الجھ کے رہ گیا وہ ایک عقدہ وا کرتا تو دوسرا عقدہ اسے پریشان کردیتا۔ باالآخر اس نے کھول کر اس شئے کو دیکھنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کی۔ اور اس Pack کو قیمتی شئے سمیت طاق نسیاں کے حوالے کردیا۔

۳---پیغامِ کربلا کی عصری حالات پر تطبیق:-

ذمہ داری کا آخرا لذکر پہلو انتہائی حساس اور اہم ہے۔تطبیق یعنی کسی ایک شئے کوکسی دوسری شئے ، کسی ایک واقع کو کسی دوسرے واقعے کے ساتھ، کسی ایک دور کے حالات کو کسی دوسرے دور کے حالات کے روبرو کرنا۔ مثال کے طور پر کسی مومن پر اگر کبھی کسی ظالم حکمران یا نظام کی جانب دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اس کے مظالم میں شرکت کے عوض انعام و اکرام اور دنیاوی عیش و عشرت سے ہمکنار ہو۔ لیکن وہ امام عالی مقام کی انکارِ بیعت اور اس کے نتیجے میں کربلا کے مصائب کو زیر نظر لاکر اس دباؤ کو خاطر میں نہ لائے نیز تمام ممکنہ مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہوجائے۔ تو کہا جائے گا اُس نے واقعہ کربلا کو اپنی زندگی کے ساتھ کا منطبق ومنسلک کیا۔ عصری حالات و واقعات پر کسی تاریخی واقعہ کی مطابقت کیلئے شرط اول یہ ہے کہ تاریخی واقعہ زائد المیعاد (Expire) اور دور از کار (Non Function) اور غیر موثر (Ineffective) نہ ہوا ہو۔ان بنیادی شرائط کے بشمول واقعہ کربلا میں یہ تمام لازمی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ دراصل کربلا محض ایک ٹریجڈی کا نام نہیں [سطحی اور عوامی رائے کے مطابق] بلکہ یہ ایک منظم تحریک ہے۔ اس تحریک کا اہم اور حیات بخش پہلو اس کا حر کی پہلو (Dynamic Aspect) ہے۔ یہی اس کی پائندگی کا راز ہے۔ اسی سے یہ زمانی و مکانی حدبندیوں سے ماوریٰ ہے کربلائی تحریک ایک مسلسل عمل ہے۔ اگر زمان و مکان کا عمومی رویہّ تحریک کربلا پر بھی لاگو ہوتا تو گردشِ ایام نے اس کی اہمیت، نوعیت اور حساسیت کو کب کا نابود نہ سہی معدوم ضرور کیا ہوتا۔ تحریک کربلا پورے آب و تاب کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اس کے بطن سے بے شمار چھوٹی بڑی تحریکوں نے جنم لیا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ بہت سے تحریکی رہنماؤں کیلئے بھی تحریک inspiration کا باعث بنی۔ اس لحاظ سے تحریکِ کربلا کو بجا طور پر ام التحاریک کے عنوان سے بھی یاد کیا جاسکتا ہے۔ گویا کربلائی حرکت ، جمود زدگی سے معاشرہ کو نجاد دلاکر اس میں تحرک کے عناصر انڈیل دیتی ہے۔ لہٰذا اس تحریک سے وابستہ افراد [خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں] کیلئے شرط اول یہ ے کہ وہ ہر طرح کی فرسودگی اور جمودزدگی سے مبرہ ہوں جب ہی وہ اس تحریک کی نمائندگی کا کسی حد تک ادا کرسکتے ہیں۔عصری شعور سے نا بلد ذاکر و واعظ کی مثال خوابیدہ شخص کی سی ہے جو عا لم ِ خواب میں دیگر سوئے پڑے افراد کو جگانے کی اس زعم کے تحت سعی کر رہا ہو کہ خود وہ بیدار ہے- اس قسم کی بیداری کو غالب نے جامع انداز میں بیا ن فرمایا ہے:

ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں

تہی دست ہے وہ قوم جسکا دامنِ تاریخ سبق آموز اور عبرت انگیز واقعات سے خالی ہوا اور اس بڑھ کر وہ قوم بدقسمت ہے جس کا ماضی اس طرح کے واقعات سے مالا مال ہو اور وہ ان سے استفادہ کرنے سے قاصر ہو۔ ایک جانب ماضی میں واقعہ کربلا کی موجودگی اور دوسری جانب واقعہ کربلا کا تذکرہ کرنے والی قوم کی موجودہ بدحالی دیکھ کر یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اس قوم نے کربلا جیسے واقعے کو ذکر تک ہی محدود رکھا ہے۔ اور ہنوز عملی تطبیق کے مرحلے سے کافی دور ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ افراد ملت میں وہ متوازن بصیرت مفقود ہے جو تاریخ کے مطالے اور عصری حالات کے مشاہدے سے تشکیل یزید ہوتی ہے۔ نتیجتاً یہ لوگ کربلا کے عصری تقاضوں سے بھی نابلد ہیں۔ اس متوازن بصیرت کےفقدان کے سبب ہی ناقابلِ تصور مشاہدات سے آئے دن ہمارا واسطہ پڑتا ہے۔ چنانچہ یزید صفت انسان اس دور میں حسینی مشن کے علمبرداری کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور سادہ لوح عزاداروں کی ایک بڑی جمعیت ان کے دام فریب میں بآسانی آجاتی ہے۔ بالفرض خود یزید بھی امام عالی مقام کے نام پر آکر ان کے سامنے دست دراز ہوجائے تو اس کی بھی دل کھول کر معاونت سے دریغ نہیں کریں گے۔اس امر کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہو گا کہ کہیں کوئی عصری یزید مجلس ِ حسینی کے نام پر امام کے نام لیواوں کا استحصال تو نہیں کر رہا ہےکیونکہ:

خدا آن ملتی را سروری داد

که تقدیرش بدست خویش بنوشت

به آن ملت سروکاری ندارد

که دهقانش برای دیگران کشت

عصری آگہی کو جو یادِ کربلا سے الگ کیا جائے تو محض ایک رسمِ خانقاہی رہ جاتی ہے۔ جو لوگ اس رسمِ خانقاہی میں مست و مگن ہوئے وہ عصری یزیدیت کی شناخت سے تو رہ گئے۔ لہٰذاان کے لئے عصری یزیدیت کے خلاف مورچہ بند ہونا ممکن ہے نہ وہ عصری کربلا سے واقف ہوسکتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی زبانوں پر نام حسین ورد ہوتا ہے لیکن ان کے ہاتھ غیرشعور ی طورحسینی مشن کی بیخ کنی میں مصروف ہوتے ہیں۔تذکرۂ کربلا اپنی جگہ ایک ایسا عمل ہے جس کی سعادتوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مگر یاد کربلا کے عصری تقاضوں سے بے اعتنائی ان سعادتوں پر بھی پانی پھیر دیتا ہے۔ کربلا کے عصری تقاضے کیا ہیں؟ اور" صدائے ینصرنا"پر آج کے دور میں کیوں کر لبیک کہا جاسکتا؟"کل ارض کربلا کل یوم عاشورا"کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟ ان چند سوالوں پر بہت زیادہ غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ سادہ طبعیت لوگ اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ کب زمانہ الٹی سمت میں گردش کرنے لگے۔ تاکہ وہی ۶۱ہجری کا زمانہ ہو۔ وہی یزید اور وہی امام ہو، وہی کربلا اور وہی نصرت کی صدا۔ اور وہ اُسی ریگزارِ کربلا میں نصرت ِامام کیلئے حاضر ہو جائیں گے۔ لیکن روح ِ حسینیت پوری آب و تاب کے ساتھ گردش زمانہ کے رواں دواں ہےظاہری ہیت کے اعتبار سے تغیر پزیر ضرور ہے لیکن اسکی حقیقی روح میں تغیر و تبدل کا شائبہ تک نہیں ہو سکتا ہے بقول ِاقبال امام عالی مقام کی شخصیت اور تحریک ابدی حقیقت ہے اسی حقیقت کی روشنی میں معا صر حالات پرکھنے کی ضرورت ہے ...آج بھی جگہ جگہ کربلا برپا ہے بس کربلا کی اصل نوعیت اور عصری بصیرت درکار ہے۔زمانے کی راہ وروش کے عین مطابق پھر سے کربلا کے درس ہائے رنگا رنگ انسانیت کے گوش گزار کرنے ہوں گے-ان دروس کو پیش کرنے سے قبل ہمیں اپنے روایتی طور طریقوں پر بھی طائرانہ نطر دوڑانا ہو گی ۔فرسودگی سے مبرہ ایک تازہ دم نظام عزا کو تشکیل دینا ہو گا۔ جس کے لئے مجتہدانہ نظر کی ضرورت ہے:

پرانے ساغرو مینا اگر نہ بدلو گے

کوئی نہ لے گا جو آبِ حیات بھی دو گے

ذرائع اور مقاصد میں فرق ہوتا ہے

یہ نکتہ کب اے فقیہانِ شہر سمجھو گے

 

تحرير: فدا حسین

آج امام موسی صدر نہ تو شہید ہیں کہ آپ کے لئے فاتحہ پڑھی جاسکے اور نہ ہی قید میں ہیں کہ آپ سے ملاقات کی جاسکے آنکھیں دیکھنے کو ترس رہی ہیں مگر سید کہاں ہیں؟

یہ25 اگست 1978 کا دن تھا. ایک ہوائی جہاز لیبیا کی طرابلس کے ہوائی اڈے پر اترا. امام موسی صدر اسی جہاز کے مسافر تھے. آپ کے ساتھی «شیخ محمد یعقوب» اور مشہور روزنامہ نویس «عباس بدرالدین» بھی آپ کے ہمراہ تھے. امام موسی صدر لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی کی سرکاری دعوت پر لیبیا کے دورے پر آئے ہوئےتھے.

اس زمانے سے اب تک 27 سال کا عرصہ بیت چکا ہے مگر درج ذیل سوالات کا کوئی بھی اطمینان بخش جواب میسر نہیں ہے:

1. قذافی نے موسی صدر کے ساتھ کیا کیا؟

2. کیا امام موسی صدر ابھی تک جیل میں ہیں یا شہید کئے جاچکے ہیں؟

3. اگر شہید ہوئے ہیں تو آپ کا مدفن کہاں ہے اور اگر قیدی ہیں تو کس جیل میں ہیں؟

4. کیا آپ لیبیا کے شہر «تبرک» میں ہیں؟

5. کیا آپ لیبیا کے کسی صحرا میں قید ہیں؟

یہ سب ایک ایرانی نژاد لبنانی فیلسوف اور مشہور و معروف عالم دین امام موسی صدر کی زندگی اور آپ کے غائب ہوجانے کے بعد کے واقعات و حوادث پر مبنی ولایہ نیٹ ورک کی ایک ڈاکومینٹری کا موضوع ہیں جو بہت جلد آنے والی ہے.

امام موسی صدر نے انتھک محنت کرکے لبنان کی شیعہ آبادی کا احیاء کیا اور انہیں عزت و عظمت دی اور ان کو آواز عطا کی؛ وہ آواز جس کو سننے کے لئے آج دوست تو دوست، دشمن بھی بے چین رہتے ہیں. آپ نے لبنان کے شیعیان اہل بیت (ع) کو اندرونی اختلافات، خانہ جنگیوں اور دیگر سماجی مسائل سے نجات دلائی.

امام موسی صدر اور آپ کے دو ساتھی 1978 میں قذافی حکومت کے اہلکاروں سے ملنے لیبیا چلے گئے اور وہیں سے غائب ہوئے. اسی زمانے سے امام موسی صدر کی مقدر کا علم کسی کو نہیں ہوسکا ہے کہ کیا وہ زندہ ہیں یا شہید ہوچکے ہیں؟

آج امام موسی صدر نہ تو شہید ہیں کہ آپ کے لئے فاتحہ پڑھی جاسکے اور نہ ہی قید میں ہیں کہ آپ سے ملاقات کی جاسکے بلکہ ایک کمانڈر ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں اور ہماری آنکھیں آپ کے دیدار کے لئے ترس رہی ہیں مگر اتنے برس گذرنے کے باوجود آج بھی کوئی اٹھنے والے ہزاروں میں سے ایک سوال کا بھی اطمینان بخش جواب نہیں ہوسکا ہے اور اب تو ان کی شہادت کی خبریں بھی گشت کرنے لگی ہیں۔

ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ،ام البشر جناب حوا ، آدم علیہ السلام کی (تخلیق سے) بچی ہوئی مٹی سے پیدا ہوئیں۔ جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے: وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجُھَا ۔ "اوراس کا جوڑا اسی کی جنس سے پیدا کیا۔" (نساء:۱) وَمِنْ آیَاتِہ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْکُنُوْا إِلَیْہَا ۔ "اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تمہیں سے پیدا کیا تا کہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو۔" (روم:۲۱)

وَاللہ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا۔ "اللہ نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں۔" (نحل:۷۲) تمہاری ہی مٹی سے پیدا ہونے والی عورت تمہاری طرح کی انسان ہے، جب ماں باپ ایک ہیں تو پھر خیالی اور وہمی امتیاز و افتخار کیوں ؟ اکثر آیات میں آدم اور حوا اکٹھے مذکور ہوئے ہیں ، پریشانی کے اسباب کے تذکرہ میں بھی دونوں کا ذکر باہم ہوا ہے۔ دو آیات میں صرف آدم کا ذکر کر کے واضح کیا گیا ہے کہ اے انسان کسی معاملہ میں حوا کو مورد الزام نہ ٹھہرانا ، وہ تو شریک سفر اور شریک زوج تھی۔ وَلَقَدْ عَہِدْنَا إِلٰی آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہ عَزْمًا ۔ "اور ہم نے پہلے ہی آدم سے عہد لے لیا تھا لیکن وہ اس میں پر عزم نہ رہے۔" (طہ:۱۱۵) قَالَ یَاآدَمُ ہَلْ أَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلٰی ۔ "ابلیس نے کہا اے آدم! کیا میں تمہیں اس ہمیشگی کے درخت اور لازوال سلطنت کے بارے میں نہ بتاؤں۔ (طہٰ:۱۲۵)

آپ لوگوں نے ملاحظہ کیا کہ ان آیات میں حضرت حوا شریک نہیں ہیں اور تمام امور کی نسبت حضرت آدم ہی کی طرف ہے۔ (۲) زوجہ حضرت نوح علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام پہلے نبی ہیں جو شریعت لے کر آئے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے: شَرَعَ لَکُمْ مِّنْ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہ نُوْحًا وَّالَّذِیْ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ۔ "اللہ نے تمہارے دین کا دستور معین کیا جس کا نوح کو حکم دیا گیا اور جس کی آپ کی طرف وحی کی ۔"(شوریٰ :۱۳) حضرت نوح علیہ السلام نے ۹۵۰ سال تبلیغ کی ۔ارشاد رب العزت ہے: وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوْحًا إِلٰی قَوْمِہ فَلَبِثَ فِیْہِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلاَّ خَمْسِیْنَ عَامًا " بتحقیق ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وہ ان کے درمیان ۵۰ سال کم ایک ہزار سال رہے۔" (عنکبوت:۱۴) حضرت نوح کو کشتی بنانے کا حکم ہوا ۔ وَاصْنَع الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا ۔ " اور ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم سے کشتی بنائیں اور حکم ہوا کہ اللہ کے حکم سے کشتی کو بناؤ۔"(ہود:۳۷)

وَقَالَ ارْکَبُوْا فِیْہَا بِاِسْمِ اللہ مَجْرَاًہَا وَمُرْسَاہَاط إِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَحِیْمٌ وَہِیَ تَجْرِیْ بِہِمْ فِیْ مَوْجٍ کَالْجِبَالِ ۔ "اور نوح نے کہا کہ کشتی میں سوار ہو جاوٴ اللہ کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے بتحقیق میرا رب بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے اور کشتی انہیں لے کر پہاڑ جیسی موجوں میں چلنے لگی ۔ (ہود:۴۲۔۴۱) حضرت نوح نے اپنے بیٹے سے کشتی میں سوار ہونے کیلئے کہا اس نے (اور زوجہ نوح نے ) انکار کیا اور کہا میں پہاڑ پر چڑھ جاوٴں گا اور محفوظ رہوں گا۔جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے: یَابُنَیَّ ارْکَبْ مَّعَنَا وَلاَتَکُنْ مَّعَ الْکَافِرِیْنَ قَالَ سَآوِیْ إِلٰی جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَاءِ ط قَالَ لَاعَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللہ إِلاَّ مَنْ رَّحِمَ وَحَالَ بَیْنَہُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ۔ "نوح نے اپنے بیٹے سے کہا ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ رہو اس نے کہا میں پہاڑ کی پناہ لوں گا وہ مجھے پانی سے بچالے گا ۔ نوح ۔ نے کہا آج اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں مگر جس پر اللہ رحم کرے پھر دونوں کے درمیان موج حائل ہو گئی اور وہ ڈوبنے والوں میں سے ہو گیا ۔ (ہود:۴۳۔۴۲) اور کشتی کوہ جودی پر پہنچ کر ٹہر گئی ۔جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے: وَقِیْلَ یَاأَرْضُ ابْلَعِیْ مَائَکِ وَیَاسَمَاءُ أَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَاءُ وَقُضِیَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ ۔ "اور کہا گیا اے زمین اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا ۔ اور پانی خشک کر ہو گیا اور کام تمام ہوگیا اور کشتی کوہ جودی پر ٹھہر گئی اور ظالموں پر نفرین ہو گئی ۔ (ہود :۴۴)

کشتی ہی بچاؤ کا واحد کا ذریعہ تھی۔ قرآن مجید نے حضرت نوح ۔کی زوجہ کو خیانت کار قرا دیا ہے نبی کی بیوی ہونے کے با وجود جہنم کی مستحق بن گئی ۔ ارشاد رب العزت ہے : ضَرَبَ اللہ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَأَةَ نُوْحٍ وَّامْرَأَةَ لُوْطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللہ شَیْئًا وَّقِیْلَ ادْخُلاَالنَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ "خدا نے کفر اختیا رکرنے والوں کیلئے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال دی ہے یہ دونوں ہمارے نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں لیکن ان سے خیانت کی تو اس زوجیت نے خدا کی بارگاہ ان کو میں کوئی فائدہ نہ پہنچایا اور ان کیلئے کہہ دیا گیا کہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی داخل ہو جاؤ۔(تحریم :۱۰) اپنا عمل ہی کامیابی کا ضامن ہے رشتہ داری حتی نبی کا بیٹا ہونا کچھ بھی فائدہ نہیں دے گا ۔ (۳) زوجہ حضرت لوط حضرت لوط ،حضرت ابراہیم کے بھتیجے تھے ان کی قوم سب کے سامنے کھلم کھلا برائی میں مشغول رہتی ۔ لواطت ان کا محبوب مشغلہ تھا ۔ پتھروں کی بارش سے انہیں تباہ کر دیا گیا ۔حضرت لوط۔کی زوجہ بھی تباہ ہونے والوں میں سے تھی جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے : وَلُوْطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِہ أَتَأْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ أَئِنَّکُمْ لَتَأْ تُوْنَ الرِّجَالَ شَہْوَةً مِّنْ دُونِ النِّسَاءِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْہَلُوْنَ فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہ إِلاَّ أَنْ قَالُوْا أَخْرِجُوْا آلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْیَتِکُمْ إِنَّہُمْ أُنَاسٌ یَّتَطَہَّرُوْنَ فَأَنْجَیْنَاہُ وَأَہْلَہ إِلاَّ امْرَأَتَہ قَدَّرْنَاہَا مِنَ الْغَابِرِیْنَ وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ مَّطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ

اور لوط کو یاد کرو جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تم آنکھیں رکھتے ہوئے بدکاری کا ارتکاب کر رہے ہو کیا تم لوگ شہوت کی وجہ سے مردوں سے تعلق پیدا کر رہے ہو اور عورتوں کو چھوڑے جا رہے ہو در حقیقت تم بالکل جاہل لوگ ہو ۔ تو ان کی قوم کا کوئی جواب نہ تھا سوائے اس کے کہ لوط کے خاندان کو اپنی بستی سے باہر نکال دو کہ یہ لوگ بہت پاک باز بن رہے ہیں تو لوط اور ان کے خاندان والوں کو بھی (زوجہ کے علاوہ) نجات دے دی اس (زوجہ) کو ہم نے پیچھے رہ جانے والوں میں قرار دیا تھا اور ہم نے ان پر عجیب قسم کی بارش کر دی کہ جس سے ان لوگوں کو ڈرایا گیاتھا ان پر(پتھروں) کی بارش بہت بری طرح برسی ۔ " (نمل، ۵۴ تا ۵۵)

حضرت لوط کی زوجہ خیانت کار نکلی اور عذاب میں مبتلا ہوئی جیسا کہ حضرت نوح ۔کی زوجہ کا حا ل ہوا جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے ۔ ضَرَبَ اللہ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَأَةَ نُوْحٍ وَّاِمْرَأَةَ لُوْطٍ "خدا نے کفر اختیا رکرنے والوں کیلئے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال دی ہے۔" (تحریم :۱۰) زوجہ نوح کی طرح زوجہ لوط بھی ہلاک ہو گئی ۔ (۴) زوجہ حضرت ابراہیم - حضرت ابراہیم خلیل اللہ عظیم شخصیت کے مالک ہیں انہیں جد ّالانبیاء سے تعبیر کیا گیا ہے اورتمام ادیان ان کی عظمت پر متفق ہیں۔ حضرت ابراہیم کی قوم بت پرست تھی دلائل و براہین کے ساتھ انہیں سمجھایا پھر ان کے بتوں کو توڑا توبت شکن کہلائے ۔ ان کو آگ میں ڈالا گیا تو وہ گلزار بن گئی۔ خواب کی بنا پربیٹے کو ذبح کرنا چاہا تو اس کا فدیہ ذبح عظیم فدیہ کہلایا ۔ ابراہیم خانہ کعبہ کی تعمیرکی اور مکہ کی سر زمین کو آباد کیا ۔ ہمارا دین ،دین ابراہیم سے موسوم ہوا ۔ ان کی بت شکنی کے متعلق ارشاد رب العزت ہو رہا ہے : وَتَاللہ لَأَکِیْدَنَّ أَصْنَامَکُمْ بَعْدَ أَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِینَ فَجَعَلَہُمْ جُذَاذًا إِلاَّ کَبِیْرًا لَّہُمْ لَعَلَّہُمْ إِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ قَالُوْا أَنْتَ فَعَلْتَ ہَذَا بِآلِہَتِنَا یَاإِبْرَاہِیْمُ قَالَ بَلْ فَعَلَہ کَبِیْرُہُمْ ہَذَا فَاسْأَلُوْہُمْ إِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ ۔ فَرَجَعُوْا إِلٰی أَنْفُسِہِمْ فَقَالُوْا إِنَّکُمْ أَنْتُمُ الظَّالِمُوُنَ ثُمَّ نُکِسُوْا عَلٰی رُئُوْسِہِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا ہٰؤُلَاءِ یَنْطِقُوْنَ۔ "

اور اللہ کی قسم جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے ان بتوں کی خبر لینے کی ضرور تدبیرسوچوں گا چنانچہ حضرت ابراہیم نے ان بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا سوائے ان کے بڑے (بت ) کے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں ۔ (انبیاء ۵۷ں۵۸) کہا اے ابراہیم !کیاہمارے ان بتوں کا یہ حال تم نے کیا ہے؟ ابراہیم نے کہا بلکہ ان کے اس بڑے (بت) نے ایسا کیا ہے تم ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں ( یہ سن کر) وہ ضمیر کی طرف پلٹے او ر دل ہی دل میں کہنے لگے حقیقتاً تم خود ہی ظالم ہو پھر انہوں نے اپنے سروں کو جھکا دیا اور (ابراہیم سے) کہا تم جانتے ہو کہ یہ نہیں بولتے ۔ (انبیاء۔۶۲تا۶۵) نمردو کے حکم سے اتنیآگ روشن کی گئی کہ اس کے اوپر سے پرندہ نہیں گزر سکتا تھا۔پھر ابراہیم کو گوپھن میں رکھ کرآگ میں ڈال دیاگیا۔ مزید ارشاد فرمایا: قَالُوْا حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْا آلِہَتَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ فَاعِلِیْنَ قُلْنَا یَانَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ ۔ "وہ کہنے لگے اگر تم کو کچھ کر نا ہے تو اسے جلا دو اور اپنے خداوٴں کی نصرت کرو ۔ہم نے کہا اے آگ تو ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کیلئے سلامتی بن جا ۔" (انبیاء :68-69)

ابراہیم و نمرود کا مباحثہ أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْ حَاجَّ إِبْرَاہِیْمَ فِیْ رَبِّہ أَنْ آتَاہُ اللہ الْمُلْکَ إِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ رَبِّی الَّذِیْ یُحْیِی وَیُمِیْتُ قَالَ أَنَا أُحْیی وَأُمِیْتُ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ فَإِنَّ اللہ یَأْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیْ کَفَرَ وَاللہ لَایَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ۔ "کیا تم نے اس شخص کا حال نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے ان کے رب کے بارے میں اس بناء پر جھگڑا کیا کہ اللہ نے اسے اقتدار دے رکھا تھا جب ابراہیم نے کہا میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے تو اس نے کہا زندگی او رموت دینا میرے اختیار میں بھی ہے ابراہیم نے کہا اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کے دکھا! یہ سن کر وہ کافر مبہوت ہوکر رہ گیا اور اللہ ظالموں کی راہنمائی نہیں کرتا۔" (بقرہ:۲۵۸) حضرت ابراہیم اسماعیل اور ہاجرہ کو مکہ چھوڑ آئے تو ارشاد فرمایا : رَبَّنَا إِنِّی أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ۔ "اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے نزدیک ایک بنجر وادی میں بسایاہے۔" (ابراہیم:۳۷)

خواب کی وجہ سے اسماعیل کا ذبح ارشاد رب العزت ہے: قَالَ یَابُنَیَّ إِنِّیْ أَرٰی فِی الْمَنَامِ أَنِّیْ أَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَاأَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاءَ اللہ مِنَ الصَّابِرِیْنَ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہ لِلْجَبِیْنِ وَنَادَیْنَاہُ أَنْ یَّاإِبْرَاہِیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْبَلاَءُ الْمُبِیْنُ وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ۔ " ابراہیم نے کہااے بیٹا !میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں پس دیکھ لو تمہاری کیا رائے ہے اسماعیل نے کہا اے ابا جان ! آپ کو جو حکم ملا ہے اسے انجام دیں اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبرکرنے والوں میں پائیں گے۔پس جب دونوں نے حکم خدا کو تسلیم کیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا تو ہم نے ندا دی اے ابراہیم ! تو نے خواب کو سچ کر دکھایاہے۔ بیشک ہم نیکوکاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں ۔یقینا یہ بڑا سخت امتحان تھا۔ہم نے ایک عظیم قربانی سے اس کا فدیہ دیا۔

Saturday, 01 December 2012 10:03

حقوق نسواں

عورت

عورت (عربی سے ماخوذ. انگریزی: Woman) یا زن (فارسی سے زنانہ) مادہ یا مؤنث انسان کو کہاجاتا ہے.

 

عورت یا زنانہ بالغ انسانی مادہ کو کہاجاتا ہے جبکہ لفظ لڑکی انسانی بیٹی یا بچّی کیلیے مستعمل ہے. تاہم، بعض اوقات، عورت کی اِصطلاح تمام انسانی مادہ نوع کی نمائندگی کرتی ہے.

 

عورت تاریخ کے ہر دور میں مرد کےتابع رہی ہے۔ موجودہ زمانہ میں ترقی یافتہ ملکوں میں عورت اور مرد کومساوی بنانے کی کوشش کی گئی ۔مگر عملا یہ فرق ختم نہ ہوسکا۔ عورت کو مغربی سماج میں آج بھی وہی دوسرا درجہ حاصل ہے جو قدیم زمانہ میں اس کو حاصل تھا۔ جدید تحقیقات نے بتایا کہ دونوں صنفوں کے درمیان اس فرق کا سبب حیاتیات میں ہے۔یعنی دونوں کی حیاتی بناوٹ میں فرق ہے۔ اس لیے معاشرہ کے اندر بھی دونوں کے درجہ میں فرق ہوجاتاہے۔اب مساوات مرد وزن کے حامی ڈارونزم کے تحت اس کی توجیہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عورت ارتقائی عمل میں زیادہ ابتدائی درجہ میں رہ گئی۔جب کہ ڈارون نے خود کہاہے کہ : مرد با لآخر عورت کے مقابلہ میں برتر ہوگیا،

 

Women remained at a more primitive stage of evolution.As Darwin himself put it, Man has ultimately become superior to women." [1]

 

عورت اور اسلام

اسلام انسانیت کے لیے تکریم، وقار اور حقوق کے تحفظ کا پیغام لے کر آیا۔ اسلام سے قبل معاشرے کا ہر کمزور طبقہ طاقت ور کے زیرنگیں تھا۔ تاہم معاشرے میں خواتین کی حالت سب سے زیادہ ناگفتہ بہ تھی۔ تاریخِ انسانی میں عورت اور تکریم دو مختلف حقیقتیں رہی ہیں۔ قدیم یونانی فکر سے حالیہ مغربی فکر تک یہ تسلسل قائم نظر آتا ہے۔ یونانی روایات کے مطابق پینڈورا (Pandora) ایک عورت تھی جس نے ممنوعہ صندوق کو کھول کر انسانیت کو طاعون اور غم کا شکار کر دیا۔ ابتدائی رومی قانون میں بھی عورت کر مرد سے کمتر قرار دیا گیا تھا۔ ابتدائی عیسائی روایت بھی اسی طرح کے افکار کی حامل تھی۔ سینٹ جیروم نے کہا: (St. Jerome)

"Woman is the gate of the devil, the path of wickedness, the sting of the serpent, in a word a perilous object."

 

مغرب میں عورت کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایک طویل اور جاں گسل جدوجہد سے گزرنا پڑا۔ نوعی امتیاز کے خلاف عورت کے احتجاج کا اندازہ حقوق نسواں کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین کی طرف سے عورت کے لیے womyn کی اصطلاح کے استعمال سے ہوتا ہے جو انہوں نے نوعی امتیاز (Gender Discrimination) سے عورت کو آزاد کرنے کے لیے کیا۔ مختلف اَدوار میں حقوق نسواں کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین میں (1820-1906) ۔Susan B. Anthony کا نام نمایاں ہے جس نے National Woman's Suffrage Association قائم کی۔ اور اسے 1872ء میں صرف اس جرم کی پاداش میں کہ اس نے صدارتی انتخاب میں ووٹ کا حق استعمال کرنے کی کوشش کی، جیل جانا پڑا۔ صدیوں کی جدوجہد کے بعد 1961ء میں صدر John Kennedy نے خواتین کے حقوق کے لیے کمیشن قائم کیا جس کی سفارشات پر پہلی مرتبہ خواتین کے لیے fair hiring paid maternity leave practices اور affordable child care کی منظوری دی گئی۔ سیاسی میدان میں بھی خواتین کی کامیابی طویل جدوجہد کے بعد ممکن ہوئی۔ Jeanette Rankin of Montana پہلی مرتبہ 1917ء میں امریکی ایوان نمائندگان کی رکن منتخب ہو سکی۔

 

جب کہ اسلام کی حقوق نسواں کی تاریخ درخشاں روایات کی امین ہے۔ روزِ اول سے اسلام نے عورت کے مذہبی، سماجی، معاشرتی، قانونی، آئینی، سیاسی اور انتظامی کرادر کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس کے جملہ حقوق کی ضمانت بھی فراہم کی۔ تاہم یہ ایک المیہ ہے کہ آج مغربی اہل علم جب بھی عورت کے حقوق کی تاریخ مرتب کرتے ہیں تو اس باب میں اسلام کی تاریخی خدمات اور بے مثال کردار سے یکسر صرف نظر کرتے ہوئے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔ اسلام نے مرد کی طرح عورت کوبھی عزت، تکریم، وقار اور بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہوئے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھی جہاں ہر فرد معاشرے کا ایک فعال حصہ ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں خواتین اسلام کے عطا کردہ حقوق کی برکات کے سبب سماجی، معاشرتی، سیاسی اور انتظامی میدانوں میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کو اِرتقاء کی اَعلیٰ منازل کی طرف گامزن کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی زندگی میں خواتین کے کردار کا مندرجہ بالا تذکرہ اس کی عملی نظیر پیش کرتا ہے۔

جامع القیروان الاکبر - تیونس کی قدیم اور اہم مساجد میں سے ایک ہے۔ اسے جامع عقبہ بن نافع بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ اسے عقبہ بن نافع نے 670ء (50ھ) بنایا تھا جب قیروان شہر کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ قیروان اب تیونس کا ایک مشہور شہر ہے۔

جنوبی صحن

اس مسجد کا رقبہ 9000 مربع میٹر ہے اور اس کا طرزِ تعمیر بعد میں المغرب (تیونس، مراکش وغیرہ) اور ہسپانیہ میں مزید مساجد (مثلاً جامعہ قرویین اور مسجد قرطبہ) میں استعمال کیا گیا۔

ایک زمانے میں اس مسجد کو ایک جامعہ (یونیورسٹی) کا درجہ حاصل تھا کیونکہ یہاں دینی اور دنیاوی تعلیم دی جاتی تھی اور اس مسجد میں مذہبی اور دیگر دانشور اکٹھا ہوتے تھے مگر بعد میں دانشوران اس کی جگہ جامعہ زیتونیہ (زیتونیہ یونیورسٹی) چلے گئے جو 737ء میں قائم ہوئی تھی اور آج بھی قائم ہے۔

نماز کی جگہ اور منبر (پرانا تصویر 1930 میں )

اس کی بنیاد عقبہ بن نافع نے 670ء (50ھ) میں رکھی۔ اس تعمیر کو بربروں نے تباہ کر دیا۔ 80ھ میں حسان بن نعمان الازدی الغسانی (افریقہ کی کچھ فتوحات کے قائد) نے پھر تعمیر کیا اور محراب کا اضافہ بھی کیا مگر زیادہ تعمیر اور موجودہ ڈھانچہ غلبی خاندان کا کارنامہ ہے۔ زیادۃ اللہ بن اغلب نے 221ھ میں مسجد کی توسیع کی اور ستون بنوائے۔ احمد بن محمد الاغلبی نے 248ھ میں منبر و محراب کی تزئین و آرائش کی۔ 261ھ میں بڑے صحن کا اضافہ ہوا۔ المعز بن بادیس نے 441ھ میں مسجد میں کچھ ترمیم کی۔

مشرقی طرف سے بیرونی دیوار

اس کی تعمیرات اب تک موجود ہیں۔ مگر بنیادی ڈھانچہ وہی ہے جو اغلبیوں نے تعمیر کروایا تھا۔ مسجد کا زیادہ تر حصہ نویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس وجہ سے یہ قدیم ترین مساجد میں شمار ہوتا ہے۔ زیادہ ڈھانچہ ابراہیم بن احمد الاغلبی کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔

یہ مسجد قلعہ نما ہے۔ اس کی دیواریں 1.9 میٹر موٹے پتھروں سے بنی ہیں جو اس زمانے کے حساب سے بھی زیادہ ہے۔ داخلی دیوار 138 میٹر لمبی ہے جبکہ اس کے بالمقابل دوسری دیوار 128 میٹر لمبی ہے۔

مسجد کا مینار

مینار کے ساتھ والی دیوار 71 میٹر لمبی جبکہ اس کے بالمقابل دیوار 77 میٹر لمبی ہے۔ داخلی دروازے سے صحن تک آپ ایک لمبے راہداری کی مدد سے جا سکتے ہیں۔

نماز کی جگہ کے قریب کچھ ستون

مگر اس کے علاوہ پانچ مزید دروازے ہیں۔ صحن کے درمیان ایک تالاب ہے جس میں بارش کا پانی نتھر (فلٹر) کر ایک زیرِ زمین پانی کے ذخیرے میں چلا جاتا تھا۔ یہ اب بھی ہوتا ہے مگر اب وضو کے لیے پانی کا وافر بندوبست ہے اور بارش کے پانی کی ضرورت نہیں پڑتی۔

نماز کے ہال میں 14 مختلف دروازے کھلتے ہیں اور اس میں 400 سے زیادہ ستون ہیں۔ مشہور ہے کہ اس مسجد کے ستونوں کو آپ اندھا ہوئے بغیر گن نہیں سکتے۔

نماز کی جگہ

مسجد کا منبر اسلامی دنیا کا قدیم ترین منبر ہے کیونکہ یہ اسی حالت میں نویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ایک مضبوط لکڑی (ٹیک کی لکڑی) کا بنا ہوا منبر ہے۔

نماز کی جگہ اور منبر

مسجد کا مینار دنیا کا چوتھا قدیم ترین مینار ہے۔ یہ گیارہ سو سال سے اسی طرح کھڑا ہے۔ اگرچہ اس کی نچلی منزلیں اس سے بھی پرانی ہیں (تقریباً تیرہ سو سال پرانی) اور آخری منزل گیارہ سو سال پہلے تعمیر کی گئی تھی۔ اس کی لمبائی 31.5 میٹر ہے اور اس کی تین منزلیں ہیں۔ پہلی منزل 10.5 میٹر اونچی ہے۔

رات کو مینار کا ایک خوبصورت منظر

ابوحنیفہ کی ولادت ۸۰ ہجری میں عبدالملک بن مروان کے عہد میں کوفہ میں ہوئی ۔ ان کا خاندان تاجر پیشہ اور مالدار خاندان تھا ، یہ خود بھی تاجر تھے اور ریشمی کپڑے کی تجارت کرتے تھے ، ان کے ماتحت بہت سے لوگ کام کرتے تھے ۔

اسلامی مذاہب کی پیروی کرنے والوں کی شناخت اور ائمہ مذاہب کے مشترک روابط کی طرف توجہ کرنا جو کہ سب کے سب ہم عصر تھے یا ایک دوسرے کے زمانہ سے نزدیک تھے، مختلف مذاہب کی پیروی کرنے والوں کے دل سے کدورت اور حسادت دور کرنا کا بہترین ذریعہ ہے اور ان کے درمیان صلح و سلامتی اور اتحاد ایجاد کرنے کیلئے بہترین راستہ ہے کیونکہ تمام مذاہب کا تعلق ایک دین سے ہے اور یہ سب امت اسلام سے وابستہ ہیں ۔

اس سلسلہ میں فقہ، حدیث اور کلام میں اسلامی مذاہب کے مشترک مآخذ اور منابع کا مطالعہ، ان مذاہب کے راہنماؤں کے اسایتد، مشایخ اور شاگردوں کی سوانح حیات سے ایک بنیادی سبق ملتا ہے ۔

اس مقالہ میں امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کی شخصیت اور افکار کا تعارف اور اہل بیت پیغمبر اکرم کے مذہب کے راہنماؤں کے ساتھ ان کے برتاؤ کے متعلق بحث کریں گے اور بتائیں گے کہ یہ بزرگ شخصیت جو کہ خود مسلمانوں کے ایک گروہ کے راہنما تھے اور ہیں ، انسانی رفتار و کردار اور بہترین درس و تحقیق سے برخوردار تھے ، ان کا شمار اہل بیت کے دوستوں میں ہوتا تھا اوریہ ائمہ (علیہم السلام) سے بہت زیادہ قریب تھے ۔

امام ابوحنیفہ کی فردی خصوصیات

ابوحنیفہ نعمان بن ثابت بن نعمان (زوطی) بن مرزبان (ماہ)، مذہب حنفی کے امام تھے ، ان کے مذہب کے ماننے والے آج پوری دنیا میں سب سے بڑے اسلامی فرقہ کے عنوان سے یاد کئے جاتے ہیں اسی وجہ سے ان کو امام اعظم کا لقب دیا گیا ہے ۔

ان کے داد ”زوطی“ بن مرزبان (ماہ) ایرانی تھے ، مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں اسیر ہو کر عراق چلے گئے تھے ۔

ان کے دادا ”زوطی“ کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے امام علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے زمانہ میں عید نوروز کی مناسبت سے آپ کو ہدیہ کے طور پر فالودہ دیا تھا ، آپ نے فرمایا : ”نوروز لنا کل یوم“ ۔ اور ان کے لئے دعاء کی کہ خدایا ان کو اور ان کے خاندان کو برکت عطاء فرما(مدبک ، ج ۱۱، ص ۱۰) ۔

ابوحنیفہ کی ولادت ۸۰ ہجری میں عبدالملک بن مروان کے عہد میں کوفہ میں ہوئی ۔ ان کا خاندان تاجر پیشہ اور مالدار خاندان تھا ، یہ خود بھی تاجر تھے اور ریشمی کپڑے کی تجارت کرتے تھے ، ان کے ماتحت بہت سے لوگ کام کرتے تھے ۔

آپ بہت ہی خوش لباس ، باوقار، ثروت مند اور سخی انسان تھے اور آپ فقراء کی مدد کرنے کے علاوہ فقہاء، شیوخ اور محدثین کی مدد بھی کرتے تھے ۔

ابوحنیفہ بہت زیادہ سفر کرتے تھے ، کئی مرتبہ حج کرنے کیلئے بیت اللہ الحرام گئے اور ۱۳۰ ہجری کے بعد ایک مدت تک حرمین شریفین کے مجاور رہے ۔

ابوحنیفہ کی فکری شخصیت

ابوحنیفہ نے اس دوران زندگی بسر کی جس وقت اسلامی فتوحات کے ذریعہ بہت سے ممالک پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوتی جارہی تھی اور مختلف قومیں اور ملتیں، مختلف تہذیب و ثقافت کے ساتھ ان کی سیاسی، فکری اوراجتماعی زندگی میں داخل ہو رہے تھے ۔ عربی ،ایرانی، عیسائی ، رومی اور یونانی تہذیب و ثقافت کا مرکز شہر کوفہ تھا ، فارسی او رایرانی قوم کی حالت (کہ ابوحنیفہ کاتعلق بھی انہی سے تھا) اسلام کی دنیا میں ایسی تھی کہ عرب ان کو اپنے دوسرے درجہ کے شہری کا رتبہ دیتے تھے اور حکومت کے اہم کاموں میں ان کو دخل اندازی کرنے کا کوئی حق نہیں تھا ،حکومت اور جنگ کے کاموں کو خود انجام دیتے تھے اور پست و خستہ کردینے والے کام دوسرے درجہ کے لوگوں سے انجام دلاتے تھے ،اس کی وجہ سے ان کو اس بات کا موقع مل گیا تھا کہ وہ اپنے با استعداد اور مستعد افراد کو علم و دانش حاصل کرنے میں مشغول کرسکیں، ان میں سے کچھ افراد علم کلام، فقہ اور دوسرے اسلامی علوم میں بہت ہی برجستہ اور بہترین عالم بن گئے ۔

ابوحنیفہ بھی انہیں افرادمیں سے ایک تھے ،انہوں نے اپنی زندگی کے آغاز میں قرآن کریم حفظ کیا اور شعبی کی نصیحت کی وجہ سے تجاری کاموں کو کم کرکے علم و دانش حاصل کرنے میں مشغول ہو گئے ۔

ابوحنیفہ اور علم کلام

امام ابوحنیفہ نے مدرسہ میں داخل ہونے کے بعد پہلے لکھنا پڑھنا سیکھا اس کے بعد ادبیات اور علم کلام وغیرہ حاصل کیا اور اس علم میں ان کو پورے شہر میں شہرت حاصل ہوگئی ۔ انہوں نے شہر کوفہ میں اس علم کو حاصل کیا جو اس وقت مختلف کلامی افکار و نظریات اور مختلف تہذیب و ثقافت جیسے ایرانی، عربی، رومی، عیسائی، اسلامی اور زردستی تہذیب کا مرکز تھا ۔ اور مختلف نظریات کے علماء سے مناظرہ اور گفتگو کی ۔ انہوں نے اس کام کے لئے متعدد بار بصرہ کا سفر کیا اور خوارج، معتزلہ، اور دوسرے فرقوں سے بحث و مناظرہ کیا اوراسی زمانہ میں انہوں نے صرف و نحو ، شعر اور حدیث سے آشنائی حاصل کی ۔

علم فقہ حاصل کرنا

ابھی ابوحنیفہ کی عمر بیس یا بائیس سال کی تھی جب آپ نے علم فقہ کرنا شروع کیا اور اس زمانہ میں انہوں نے مشہور اور نامدار فقہاء سے علم فقہ حاصل کیا اس کے علاوہ علم فقہ حاصل کرنے کیلئے متعدد سفر کئے جس سے ان کو بہت سے تجربے حاصل ہوئے ۔

ان کے فقہ کے اصلی استاد حماد بن ابی سلیمان ہیں جن سے ابوحنیفہ بہت زیادہ متاثرہیں ۔

ابوحنیفہ نے اٹھارہ سال یعنی ۱۰۲ ہجری سے ۱۲۰ ہجری تک حماد سے علم حاصل کیا اور ان کے علم فقہ سے بہت زیادہ استفادہ کیا ۔

جس وقت ۱۲۰ ہجری میں حماد کا انتقال ہوا تو ابوحنیفہ ان کی جگہ پر بیٹھ گئے اور اپنے شاگردوں کی تربیت کرنے لگے ۔

ابوحنیفہ کی فقہ کی خصوصیت رائے و گمان ، قیاس اور استحسان پر عمل کرنا ہے ، اس لحاظ سے وہ اہل حدیث کے مد مقابل تھے ۔ ابوحنیفہ کی رائے ، قیاس اور استحسان کی طرف مائل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ کوفہ پر علوم عقلی حاکم تھے اور کوفہ کے بہت کم لوگوں کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی احادیث پر دسترسی حاصل تھی۔

ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی

امام ابوحنیفہ نے اموی حکومت میں ۵۲ سال اور عباسی حکومت میں ۱۸ سال زندگی بسر کی ، اگر چہ انہوں نے حکومت کے خلاف کسی بھی قیام میں شرکت نہیں کی لیکن قلبی اعتبار سے علویوں کی طرفداری کرتے تھے اور مختلف طرح سے ان کا ساتھ دیتے تھے ۔خاندان پیغمبر اکرم سے ان کو اس قدر محبت تھی کہ بعض لوگ ان کو زیدی شیعہ سمجھتے تھے ، وہ جنگ جمل میں علی (علیہ السلام) کو حق پر سمجھتے تھے ،طلحہ اور زبیر کو خطاء و غلطی کرنے والوں میں شمار کرتے تھے ۔ ان سے نقل ہوا ہے : ” ما قاتل احد علیا الا و علی اولی بالحق منہ“ ۔ کسی نے بھی علی سے جنگ نہیں کی مگر یہ کہ علی ان میں سب سے زیادہ حقدار اور سزاور تھے ۔

الازہر یونیورسٹی کے بزرگ شیخ اور فقہ مقارن کے استاد محمد ابو زہرہ نے اسلامی مذاہب کے راہنماؤں کے متعلق ایک کتاب لکھی ہے ،اس کتاب میں ان کے متعلق لکھا ہے :

”ان ابا حنیفہ شیعی فی میولہ و آرائہ فی حکام عصرہ، ای انہ یری الخلافة فی اولاد علی من فاطمة، و ان الخلفاء الذین عاصروہ قد اغتصبوا الامر منھم و کانوا لھم ظالمین“ ۔ ابوحنیفہ اپنے زمانہ کے حکام کے برخلاف شیعہ افکار ونظریات کی طرف مائل تھے ، وہ خلافت کو علی بن ابی طالب اور حضرت زہرا (علیہما السلام) کی اولاد کا حق سمجھتے تھے اور اپنے زمانہ کے خلفاء کو علی اور فاطمہ (علیہما السلام) کی اولاد کا حق غاصب کرنے والے اور ان پر ظلم کرنے والے شمار کرتے تھے (الامام ابوحنیفہ ، حیاتہ و عصرہ، آراؤہ و فقھہ، ص ۱۴۷) ۔

بنی امیہ کے ساتھ جنگ میں علویوں کی حمایت

ابوحنیفہ ، اولاد علی کے طرفدار تھے اور ان سے محبت کرتے تھے ۔ اسی وجہ سے وہ بنی امیہ سے حسد کرتے تھے کیونکہ بنی امیہ نے علویوں پر بہت زیادہ ظلم کیا تھا ۔ وہ حکومت میں بنی امیہ کے کسی حق کے قائل نہیں تھے اور ان کے کسی منصب کو انہوں نے قبول نہیں کیا ۔

موفق مکی خوارزمی نے ابوحنیفہ کے فضائل و مناقب میں کہا ہے : اموی حکومت کے عہد میں کوفہ کا والی ،یزید بن عمر بن ہبیرہ تھا،اس کے زمانہ میں عراق میں ایک فتنہ برپا ہوا تو اس نے تمام فقہاء کو جمع کیا ان میں ابن ابی لیلی ، ابن شبرمہ اور داؤد بن ہند بھی تھے ،ان میں سے ہر ایک کو منصب و عہدہ سے نوازا، اس کے بعد ابوحنیفہ کو بلوایا اور اس کا ارادہ تھا کہ حکومت کی مہر ان کے ہاتھ میں دیدے تاکہ جو بھی وہ ارادہ کرے اور جو بھی خط لکھے اس پر ابوحنیفہ مہر لگائے ۔

ابوحنیفہ نے قبول نہیں کیا ۔ ابن ہبیرہ نے قسم کھائی کہ اگرانہوں نے قبول نہیں کیا تو میں ان کو ماردوں گا ۔ مجلس میں موجود فقہاء نے بھی ان کو نصیحت کی اورقسم دی کہ اس کو قبول کرلو ۔ ابوحنیفہ نے کہا میں کس طرح قبول کروں کیا میں بے گناہوں کے قتل پر دستخط کروں؟

 

ابن ہبیرہ نے ان کو قید خانہ میں ڈال دیا اور قید خانہ کا سردار روزانہ ان کے کوڑے لگاتا تھا ، بہر حال کسی نہ کسی طرح ابوحنیفہ قیدخانہ سے باہر نکلے اور مکہ کی طرف بھاگ گے اور امویوں کے آخری زمانہ تک مکہ میں زندگی بسر کرتے رہے (مکی، ص ۲۳ و۲۴) ۔

آل علی کے جو انقلابی ، بنی امیہ سے جنگ کرتے تھے ابوحنیفہ ان کی مدد کرتے تھے ۔

ابن البزازی نے ابوحنیفہ کے فضائل و مناقب میں کہا ہے :

جس وقت زید بن علی نے ہشام بن حکم پر خروج کیا توابوحنیفہ نے کہا : ” ضاھی خروجہ خروج رسول اللہ یوم بدر“ ۔ ان کا قیام ،جنگ بدر میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے قیام سے مشابہ ہے ۔ ان سے کہاگیاتو آپ نے ان کے قیام کی مدد کیوں نہیں کی؟ انہوں نے کہا : لوگوں کی امانتیں میرے پاس تھیںمیں نے ابن ابی لیلی کو سونپنا چاہی تو انہوں نے قبول نہیں کی۔ میں ڈر گیا کہ اگر اس واقعہ میں قتل ہوگیاتو لوگوں کی امانتیں مجہول رہ جائیں گی ۔ نیز کہا : اگر مجھے معلوم ہوتا کہ لوگ ان کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے جس طرح ان کے والد کو اکیلاچھوڑ دیا تھا تو ان کے ساتھ جہاد میں شرکت کرتا ، کیونکہ وہ امام برحق ہیں ۔ لیکن میں ان کی مالی مدد کرتا ہوں ۔ ابوحنیفہ نے دس ہزار درہم (اور ایک قول کے مطابق تین ہزار درہم) زید کے لئے بھیجے اور اپنے سفیر سے کہا کہ میری طرف سے ان سے معذرت کرنا (ابن بزازی ، ج ۱، ص ۵۵) ۔

بنی عباس کے زمانہ میں علویوں کی حمایت

بنی عباس کی حکومت سے ابوحنیفہ خوشحال تھے اور ان کی حمایت بھی کی کیونکہ وہ ان کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے خاندان اور بنی علی کے خونخواہ سمجھتے تھے ۔ انہوں نے علویوں کی مظلومیت کودیکھی تھی اور عباسی حکومت کو شیعہ حکومت سمجھتے تھے جو ہاشمی خاندان سے کھڑے ہوئے تھے اور اپنے چچازاد بھائیوں سے محبت کرتے تھے ۔ ابوحنیفہ کو امید تھی کہ بنی عباس ، علویوں کے ساتھ انصاف سے پیش آئیں گے اور ان پر ظلم کرنے والوں سے انتقام لیںگے ۔ اس وجہ سے فطری سی بات تھی کہ بنی عباس کے حکومت میں آنے سے وہ مطمئن ہوگئے اور ان کی بیعت کرلی ۔ مناقب مکی میں بیان ہوا ہے :

جس وقت ابوالعباس سفاح کوفہ آیا تو ابوحنیفہ بھی کوفہ میں تھے،اس نے علماء کو اکھٹا کیا اور ان سے بیعت لی۔ تمام فقہاء ،ابوحنیفہ کی طرف دیکھنے لگے ۔ ابوحنیفہ نے اپنی اورتمام علماء کی طرف سے کہا : الحمدللہ الذی بلغ الحق من قرابة نبیہ و امات عنا جور الظلمة و بسط الستنا بالحق قد بایعناک علی امر اللہ والوفاء لک بعھدک الی قیام الساعة فلا اخلی اللہ ھذا الامر من قرابة نبیہ ․․․۔میںخدا کا شکر ادا کرتا ہوں کے انہوں نے حق کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے رشتہ داروں میں پہنچایا اور ہمارے ظالموں کوقتل کیا اور حق بیان کرنے کیلئے ہماری زبان کوکھولا ، ہم نے خدا کے حکم سے تمہاری بیعت کی ہے اور قیامت تک ہم اس عہد پر باقی رہیں گے ،خداوند عالم اس امر کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے خاندان سے دور نہ کرے (مکی ، ج ۲،ص ۱۵۱ ۔ ابن بزازی ، ج ۲، ص ۲۰۰) ۔

ابوحنیفہ ، عباسی حکومت کے ساتھ رہے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ وہ اولاد علی پر ظلم کررہے ہیں اور ان کے درمیان دشمنی ہوگئی ہے ، خاص طور سے اس وقت جب محمد بن عبداللہ بن حسن معروف بہ نفس زکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم نے منصور کے خلاف قیام کیا ۔ یہ دونوں ابوحنیفہ کے شاگرد تھے اور ابوحنیفہ ان سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اوران کے مقابلہ میں تمام علویوں سے تعصب کرتے تھے ۔ ابوحنیفہ نے ان دونوںبھائیوں کی حمایت کی اور لوگوں کوبھی ان کی حمایت کرنے کی تشویق و ترغیب کی اور جس کا بھائی ، ابراہیم کے ساتھ شہید ہوا تھا ، اس سے کہا :

”قتل اخیک حیث قتل یعدل قتلہ لو قتل یوم بدر و شہادتہ خیر لہ من الحیاة“ ۔ جہاں پر تمہارے بھائی شہید ہوئے ہیں ان کا درجہ بدر کے شہداء کے برابر ہے اور ان کی یہ شہادت ان کی زندگی سے بہتر ہے ۔

بہرحال جب منصور نے محمد نفس زکیہ اور ان کے بھائی کو قتل کردیا تو ابوحنیفہ نے عباسیوں کی طرف سے منہ موڑ لیا اور ان کی مخالفت کرنے لگے ،اور یہ نہیں بلکہ وہ اپنی مخالفت کو منبر اور درس کے درمیان سب کے سامنے ظاہر کرتے تھے ۔ ابوحنیفہ کو محمد بن عبداللہ معروف بہ ” نفس زکیہ“سے اس قدر محبت تھی کہ جب بھی ان کا نام آتا تھا ، ان کی آنکھوں سے آنسون جاری ہوجاتے تھے ۔

خاندان پیغمبر سے محبت کرنے کی دلیل

خاندان پیغمبر سے محبت اور دوستی کرنے کے بہت سے اسباب ہیں جن میں سے کچھ اسباب کو ہم مندرجہ ذیل بیان کریںگے :

الف : ابوحنیفہ نے امام علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے علم اور فقہ سے بہت زیادہ علم حاصل کیا ۔ابوحنیفہ کی ولادت ، نشو ونما اور تعلیم و تربیت کوفہ میں ہوئی ، کوفہ امام علی بن ابی طالب کی حکومت اور شیعوں کا مرکز تھا ،وہاں پر فقہ علی(علیه السلام) رائج تھی، ابوحنیفہ بھی اس فقہ سے آشنا او متاثر تھے ۔

تاریخ بغداد میں ذکر ہوا ہے کہ ایک روز ابوحنیفہ ، منصور کے پاس گئے ،اس وقت منصور کے پاس عیسی بن موسی بھی موجود تھے ۔ منصور نے ابوحنیفہ سے کہا : اے نعمان ! تم نے اپناعلم کہاں سے حاصل کیا ، ابوحنیفہ نے کہا : میں نے اپناعلم ،عمرسے ان کے اصحاب کے ذریعہ، علی سے ان کے اصحاب کے ذریعہ او رعبداللہ بن مسعود سے ان کے اصحاب کے ذریعہ حاصل کیا ہے (ابوزہرہ ، ص ۵۹) ۔

ابوحنیفہ نے مکہ میں امام علی (علیہ السلام) کے بہترین شاگرد عبداللہ بن عباس کے تفسیری مکتب سے بھی بہت زیادہ استفادہ کیا ہے (گذشتہ حوالہ، ص ۶۱) ۔

ائمہ اہل بیت (علیہم السلام) سے ابوحنیفہ کاعلم حاصل کرنا

اگر چہ اس کے اصلی استاد حماد بن ابی لیلی سلیمان تھے لیکن انہوں نے دوسرے افراد خصوصا اہل بیت (علیہم السلام )، سے بھی علم حاصل کیا ہے اوران کے نام ابوحنیفہ کے مشایخ میں ذکر ہوئے ہیں ، ان استاتید کے نام مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔ امام زید بن علی بن الحسین (رضی اللہ عنہ) ، متوفی ۱۲۲۔ مذہب زیدی کے راہنماجو کہ علم قرائت ، تفسیر اور دوسرے تمام اسلامی علوم میں بہت بڑے عالم تھے ۔ نقل ہوا ہے کہ ابوحنیفہ نے دو سال ان کے پاس علم حاصل کیا اوران کے متعلق کہا ہے : ”زید بن علی اور ان کے اصحاب کو دیکھا ہے ان کے زمانہ میں کوئی بھی ان سے زیادہ فقیہ، عالم، سریع الجواب اور خوش گفتار میں نے نہیں دیکھا وہ بے نظیر تھے ۔ (گذشتہ حوالہ ، ص ۶۴) ۔

۲۔ امام محمد بن علی الباقر (علیہ السلام) (متوفی ۱۱۴) ۔ ائمہ اہل بیت کے پانچویںامام۔ ابوحنیفہ کے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے علمی روابط تھے (گذشتہ حوالہ ، ص ۶۵) ۔

۳۔ امام جعفر بن محمد الصادق (علیہ السلام) (متوفی ۱۴۸) ، ائمہ اہل بیت کے چھٹے امام۔ آپ ابوحنیفہ کے استاد تھے او رمشہور ہے کہ ابوحنیفه نے دو سال آپ کے پاس تعلیم حاصل کی اور ابوحنیفہ نے کہا ہے : لولاالسنتان لھلک النعمان۔ اگر یہ دو سال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا ۔ وہ امام صادق (علیہ السلام) کو بہت ہی احترام کے ساتھ پکارتے تھے اورکہتے تھے : ”جعلت فداک یابن رسول اللہ “ ۔ جن احادیث کو ابوحنیفہ نے امام صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے وہ ان کے شاگردوں کی کتابوں میں ثبت ہوئی ہیں ۔

مناقب مکی میں بیان ہوا ہے : ابوجعفر منصور دوانیقی نے ابوحنیفہ سے کہا : اے ابوحنیفہ ! لوگ جعفر بن محمد کے متعلق فتنہ میں مبتلا ہوگئے ہیں ،تم مشکل مسائل تیار کرو تاکہ ان کے ساتھ مناظرہ کرسکو ۔ ابوحنیفہ کہتے ہیں میں نے چالیس مشکل سوال تیار کئے اورجس وقت وہاں پہنچا تو جعفر بن محمد صادق کو ابوجعفر کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا ، میرے دل میں ان کی ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ کبھی منصور سے بھی نہیں ہوئی تھی ، میں نے سلام کیا اور بیٹھ گیا ۔

منصور نے کہا : اے ابوعبداللہ ! یہ ابوحنیفہ ہیں، جعفر بن محمد نے کہا : جی ہاں ۔ پھرمیری طرف رخ کیا اور کہا : اے ابوحنیفہ ! اپنے سوالوں کو ابوعبداللہ سے معلوم کرو۔ میں سوال کرتا تھا اور وہ جواب دیتے تھے ،اس مسئلہ میں تم یہ کہتے ہو ، اہل مدینہ یہ کہتے ہیں اور ہمارا نظریہ یہ ہے ۔ کبھی ان کی رائے ہمارے موافق ہوتی ، کبھی اہل مدینہ کے موافق ہوتی اور کبھی دونوں کے مخالف ہوتی ۔ میں نے تمام مسائل کے جواب معلوم کئے اورانہوں نے اسی طرح جواب دئیے ،اس کے بعد ابوحنیفہ کہتے ہیں : ” ما رایت افقہ من جعفر بن محمد“ ۔ میں نے جعفر بن محمد سے زیادہ فقیہ اور عالم نہیں دیکھا اور کہتے ہیں : ” ان اعلم الناس اعلمھم باختلاف الناس“ ۔ سب سے زیادہ عالم وہ شخص ہے جو لوگوں کے تمام اختلافات کا علم رکھتا ہو۔

۴۔ ابومحمد عبداللہ بن الحسن بن الحسن بن علی بن ابی طالب (متوفی ۱۴۵) ۔

ابن بزازی اور موفق مکی خوارزمی نے مناقب ابوحنیفہ میں کہا ہے : ابوحنیفہ نے ان کی شاگردی اختیار کی ، عبداللہ بن حسن بہت بڑے عابد،عالم اور خاندان اہل بیت کے جلیل القدر شخص تھے ، علماء ان کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے ، وہ ابوحنیفہ سے دس سال بڑے تھے،ابوحنیفہ بھی ان کا بہت احترام کرتے تھے ان کا ۱۴۵ ہجری میں ۷۵ سال کی عمر میں منصور کے قیدخانہ میں انتقال ہوا ۔

۵۔ ابوحنیفہ نے ائمہ اہل بیت (علیہم السلام) کے ان کے شاگردوں جیسے جابر بن یزید جعفی سے بھی علمی استفادہ کیا ہے ،اگر چہ ابوحنیفہ کا عقیدہ جابر کے عقیدہ سے الگ تھا ۔

ابوجعفر منصور نے جب یہ دیکھا کہ ابوحنیفہ ان کی خلافت کے مخالف ہیں تو ان کو قتل کرنے کے بہانہ تلاش کرنے لگا ۔ اسی وجہ سے اس نے ابوحنیفہ کو بغداد کے منصب قضاوت کی پیشکش کی لیکن ابوحنیفہ نے قبول نہیں کیا ،ان کو پیشنہاد دی کہ ملک کے قاضیوں کو وہ معین کریں ، انہوں نے پھر بھی قبول نہیں کیا ، پھر حکم دیا کہ تمام قاضی اپنی مشکلات میں تمہاری طرف مراجعہ کریں اور آپ اپنے فتووں سے ان کی راہنمائی کریں، انہوں نے پھر بھی قبول نہیں کیا ، ان کے لئے تحفہ و تحائف بھیجے لیکن انہوں نے ان سب کو قبول کرنے سے منع کردیا ۔ پھر منصور کے حکم سے ان کو قیدخانہ میں ڈالدیا گیا اور ایک سو دس کوڑے لگائے ۔ قیدخانہ سے رہا ہونے کے بعد ابوحنیفہ میںدرس کہنے کی ہمت و طاقت نہیں تھی اور انہی پریشانیوں اور اذیتوں کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا ۔ بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ان زندان میں منصور نے زہر دلوایا اور قتل ہوگئے ۔

ج : مسلمانوں کے نزدیک خاندان پیغمبر کی محبوبیت اور مظلومیت

بنی امیہ کی حکومت قائم ہونے اور اسلامی حکومت کا موروثی اور سلطنتی حکومت میں تبدیل ہونے کی وجہ سے خاندان پیغمبر پر بہت ظلم و ستم ہوا ان کو جلاوطن اور اسیر ہونا پڑا ، خصوصا واقعہ کربلا اور امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد ان کی مظلومیت اور محبوبیت لوگوں کے درمیان بہت زیادہ ہوگئی ، خداوند عالم نے قرآن مجید میں اور پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے بھی امت کو ان سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے ۔ لوگ ان کو امت میں سب سے بہتر سمجھتے تھے اور حکومت کو انہی کا حق سمجھتے تھے ، اسی وجہ سے شروع میں عباسیوں نے بھی اپنی حکومت کا ہدف ”الرضا من آل محمد“ اعلان کیا تھا یعنی پیغمبر کرم کے خاندان سے ایسے شخص کی حکومت جس سے سب لوگ راضی ہوں ۔ لیکن جب بنی عباس کی حکومت مضبوط ہوگئی تو وہ اس نعرہ کو بھول گئے اور بنی امیہ سے زیادہ انہوں نے ان پر ظلم کیا ۔

ابوحنیفہ کی زندگی سے سبق حاصل کرنا

ہمیں ابوحنیفہ کی علمی اور سیاسی زندگی کاسے سبق حاصل کرنا چاہئے ،ہمارے زمانہ کے لوگ بھی ان کے اصلی نظریات میں غور و فکر اور ان کی سیاسی زندگی کے فراز و نشیب کا مطالعہ کرکے اپنے لئے نمونہ عمل بنا سکتے ہیں ۔

مولف کی نظر میں ابوحنیفہ کی زندگی کے بنیادی سبق مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ تنوع استاد : ابوحنیفہ نے اپنی علمی اور طالب علمی کی زندگی میں ہر صاحب فکر و نظر سے استفادہ کیا ہے اور استاد کے انتخاب میں کبھی بھی تعصب سے کام نہیں لیا ہے ۔

انہوں نے اپنے زمانہ کے بہت سے دانشوروں سے علم حاصل کیا ہے چاهے وہ ان کے ہم عقیدہ رہے ہوں اور چاہے ان کے عقیدہ کے مخالف ہوں ۔ بعض علماء نے ان کے اساتید کی تعداد چار ہزار بیان کی ہے ، اگر چہ اس عدد میں مبالغہ سے کام لیا گیا ہے لیکن اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مختلف اساتید اور شخصیات سے درس حاصل کیا ہے ،ان میں سے بعض اساتید اہل حدیث ہیں ، بعض اہل رائے اوربعض صاحب نظریات و فکر ۔ لیکن ابوحنیفہ نے شاگردی کے مقام میں ان سب کے سامنے زانوئے علم و ادب تہہ کئے ہیں اور ان سے مختلف علوم سیکھے ہیں ۔

۲۔ انصاف علم : ابوحنیفہ علم و دانش حاصل کرتے وقت اپنے اساتید کا احترام کرتے تھے، جب بھی آپ نے کسی متفکر اور عالم سے مناظرہ کیا ہے تو علمی فیصلوں میں کبھی بھی انصاف سے دور نہیں ہوئے ، اگر وہ علم میں ان سے افضل و برترتھا تو اس کو تعصب کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے، جیسا کہ امام صادق (علیہ السلام) سے مناظرہ و گفتگو کے بعد انہوں نے انصاف کے ساتھ اعلان کیا : ” ما رایت افقہ من جعفر بن محمد “ ۔ میں نے جعفر بن محمد سے زیادہ عالم اور فقیہ نہیں دیکھا ۔ یہ اقرار اور اعتراف اس وقت ہے جب کہ امام صادق (علیہ السلام) ان کے ہم عمر ہیں ۔

۳۔ گفتگو اور مباحثہ کا طور طریقہ : اپنے علم کو بڑھانے میں ابوحنیفہ کا ایک امتیاز یہ تھا کہ وہ گفتگو اور مباحثہ میںمناظرہ کرتے تھے ،ابوحنیفہ نے بہت سے شہروں میں سفر کئے ،انہی میں سے ایک شہر بصرہ ہے آپ نے بصرہ میں بہت سے مکاتب فکر کے لوگوں سے گفتگو کی اوراس طرح سے مختلف نظریات کو حاصل کیا اور اپنے علم کو محکم کیا ۔

۴۔ اجتہاد جمعی یاشوری کی روش : ابوحنیفہ کے درس کہنے کا طریقہ دوسرے اساتید کے برخلاف تھا جس میں صرف استاد بیان کرتا تھا اور شاگرد سنتے تھے، وہ اپنے درس میںپہلے ایک موضوع پیش کرتے تھے ، پھر اپنے شاگردوں سے کہتے تھے کہ اس موضوع کے متعلق تمہارے نظریات کیاہیں ، ابوحنیفہ درس کے آخر میں تمام نظریات سے نتیجہ اخذ کرتے تھے اور اس موضوع کا صحیح جواب، ان تمام نظریات کے درمیان سے استنتاج کرتے تھے ۔

درس میں بیان شدہ موضوعات کا صحیح جواب حاصل کرنے کیلئے کبھی ایک ہفتہ لگ جاتا تھا اورکبھی اس سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا تھا ،اسی وجہ سے مکتب ابوحنیفہ ، انہی کے نظریات کا ایک شخصی مکتب نہیں ہے بلکہ ایسا مکتب ہے جس میں خود ان کے نظریات اور ان کے شاگرد جیسے ابویوسف القاضی ، محمد بن حسن شیبانی ، ہذیل اور دوسرے شاگر د وں کے نظریات پائے جاتے ہیں ۔

۴۔ عقل و فکر کا استعمال اور تقلید سے دوری : ابوحنیفہ نے اپنے فقہی مکتب کو قائم کرنے میں سب سے زیادہ اپنی اور اپنے شاگردوں کی عقل و فکر سے کام لیا ہے اور اپنے مکتب کے علمی قوانین کو انہی کے ذریعہ استنتاج کرتے تھے ، اپنے اساتید کی تقلید ا ور متقدمین کی آنکھیں بند کرکے پیروی نہیں کرتے تھے ،اسی وجہ سے ان کو رائے وقیاس کے مکتب کا موسس کہا جاتا ہے ۔

ابوحنیفہ کی سیاسی اور عملی زندگی کی کچھ خصوصیتیں تھیں جن کی ہر شخص پیروی کرسکتا ہے :

۵۔ اپنے زمانہ کے ناگوار حادثات میں مسئولیت اورذمہ داری کا احساس : ابوحنیفہ نے اپنی زندگی کے دوران یعنی بنی امیہ اور بنی عباس کے عہد میں کبھی بھی گوشہ عافیت میں نہیں بیٹھے، اور لوگوں پر حکام کے ظلم کے سامنے کبھی بھی اپنی آنکھوں کو بند نہیں کیا ، بلکہ ذمہ داری کے ساتھ تمام حوادث کا معائنہ کرتے تھے اور حکام کے غلط کاموں کے سامنے اٹھ کھڑے ہوتے تھے ۔

مآخذ

۱۔ ابوحنیفہ، امام محمد ابوزہرا، دارالفکر العربی، قاہرہ، ۱۹۹۱۔

۲۔ مناقب ابی حنیفہ، موفق مکی۔

۳۔ المناقب لابن البزازی۔

Saturday, 01 December 2012 09:54

مزاحمت جاري رکھنے پر زور

حماس کے سينيئر رہنما ڈاکٹر خالد مشعل نے صيہوني حکومت کے خلاف تحريک مزاحمت جاري رکھے جانے کي ضرورت پر زور ديا ہے-

سي اين اين ٹي وي کو انٹرويو ديتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائيل کے خلاف تحريک مزاحمت جاري رہے گي- حماس کے پوليٹکيل بيورو کے سربراہ نے بے دخل کئے جانے والے فلسطينيوں کي انکے آبائي علاقوں کو واپسي کے حق پر زور ديتے ہوئے کہا کہ غزہ پر حاليہ حملے کي تمام تر ذمہ داري اسرائيل پر عائد ہوتي ہے-

خالد مشعل نے واضح کيا کہ اسرائيل نے حماس کے کمانڈر احمد الجعبري کو قتل کرکے جنگ کا آغاز کيا تھا- انہوں نے عام شہريوں پر حملے کے الزامات کو سختي کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تحريک مزاحمت کبھي بھي عام لوگوں کو نشانہ نہيں بناتي- انہوں نے کہا کہ دير ياسين، صبرا اور شتيلا کے کيمپوں ميں فلسطينيوں کا قتل عام اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائيل نے عام شہريوں کے خلاف لاتعداد جرائم کا ارتکاب کيا ہے-

خالد مشعل نے مزيد کہا کہ اسرائيل نے فلسطينيوں کي سرزمين پر قبضہ کيا، انہيں انکے گھروں سے بے دخل کيا ہے - انہوں نے کہا کہ عالمي قوانين کے تحت اپني سرزمين کا دفاع کرنا ہر قوم کا حق ہے -

Saturday, 01 December 2012 09:52

صيہوني حکومت کو انتباہ

حزب اللہ کے سربراہ نے صيہوني حکومت کو خبردار کيا ہے کہ لبنان پر حملے کي غلطي کي تو تل ابيب پر ہزاروں ميزائل برسيں گے -

سيد حسن نصراللہ نے جنوبي بيروت ميں عاشور کي مناسبت سے عزاداروں کے ايک اجتماع سے خطاب ميں کہا کہ فجر پانچ نامي چند ميزائلوں کے گرنے سے صيہوني حکومت پر لرزہ طاري ہوگيا -

انہوں نے کہا کہ صيہوني حکام کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر لبنان پر حملہ کيا تو تل ابيب اور ديگر مقبوضہ علاقوں پر ہزاروں ميزائل برسيں گے ، اس وقت کيا کرے گي –

انہوں نے کہا کہ آئندہ جنگ ہوئي تو مقبوضہ فلسطين کا کوئي بھي علاقہ محفوظ نہيں رہے گا-

حزب اللہ کے سربراہ نے صيہوني حکومت کو اسلامي دنيا کا سب سے بڑا دشمن قرار ديا اور کہا کہ جو بھي اسرائيل کو دوست سمجھتا ہے وہ در اصل اس حکومت کا خدمتگار ہے -

انہوں نے صيہوني حکومت اور امريکا کو ظلم کا مظہر قرار ديا اور کہا کہ پيروان حسين، ظالم سامراجي طاقتوں کو اس بات کي اجازت نہيں ديں گے کہ ان کي تحقير کي جائے -