Super User
نئی نسل کو ایران سائنسی ترقی کے دور سے روشناس کرایا جائے، قائد انقلاب اسلامی
![]()
قائدانقلاب اسلامی فرمایا ہے کہ نئی نسل کو ملک کی سائنسی ترقی کے دور اور ایرانی سائنسدانوں کی خدمات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
علامہ قطب الدین شیرازی کے بارے میں بین الاقوامی کانفرنس کے نام اپنے پیغام میں آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ نوجوان نسل ایران کی سائنسی ترقی کے دور نمایاں شخصیات کےبارے میں بتانے کی ضرورت ہے کہ پر تا کہ انہیں قرون وسطی کے تاریک دور کے لوگوں کو اپنے لئے نمونہ عمل بنانے کی ضرورت باقی نہیں رہے ۔آپ نے اپنے پیغام میں فرمایا ہے کہ علامہ قطب الدین شیرازی جیسی عظیم ہستیوں کی یاد منانا ایک اچھا کام ہے اور یہ کہ عظیم ہستیوں کو آج کے نوجوانوں سامنے پیش کیا جائے اور انہیں پتہ چلے کہ وہ قطب الدین شیرازی جیسی شخصیات کو اپنا نمونۂ عمل بنا سکتے ہیں۔قائد انقلاب اسلامی کے پیغام میں تاکید کی گئي ہے کہ جس وقت مغرب اور یورپ میں سائنسی سرگرمیوں کی کوئي علامت نہیں تھی اس وقت بھی ایران میں سائنسی ترقی ہورہی تھی۔
قطب الدین شیرازی بین الاقوامی کانفرنس میں قائد انقلاب اسلامی کا پیغام صوبۂ فارس میں قائد انقلاب اسلامی کے نمائندے اور شیراز کے امام جمعہ آیت اللہ ایمانی نے پڑھ کر سنایا۔
آیت اللہ نائينی قدس سرہ
آیۃ اللہ میرزا نائینی کا نام محمد حسین ہے آپ کے والد شیخ الاسلام میرزا عبدالرحیم نائینی تھے آپ نے 1861 میں نائين شہر میں عالم و فاضل گھرانے میں آنکھ کھولی ۔
آیۃ اللہ نائينی نے اپنے وطن میں ہی ابتدائي تعلیم حاصل کی اس کے بعد سترہ سال کی عمر میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لۓ اصفھان چلے گۓ آپ نے سات سال تک اصفھان میں تعلیم حاصل کی ،اصفھان کے بعد نجف اشرف کا رخ کیا اور نجف میں مختصر قیام کے بعد سامرا چلے گۓ اس زمانے میں سامرا میں آیۃ اللہ سید محمد حسن شیرازی صاحب فتوی تحریم تنباکو ،آیۃ اللہ سید اسماعیل صدر اور آیۃ اللہ سید محمد طباطبائی فشارکی اصفھانی مقیم تھے ۔
آیۃ اللہ نائينی نے ابتدا میں آيۃاللہ فشارکی اور آیۃاللہ صدر کے دروس میں شرکت کرنا شروع کیا اور کچہ مدت بعد ان دروس کے علاوہ آیۃ اللہ شیرازی کے درس میں بھی جانے لگے اور نو سال تک ان کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا کچھ ہی عرصہ میں آپ آيۃ اللہ شیرازی کے اھم شاگردوں اور مشیروں میں شامل ہوگۓ اور ان کے خصوصی درس میں بھی شرکت کرنے لگے ،آيۃ اللہ شیرازی کی وفات کے بعد آپ سید اسماعیل صدر کے درس میں شرکت کرنے لگے اور دو سال بعد اپنے استاد کے ساتھ ہجرت کر کے کربلا آگۓ اور آخر کار تیرہ سو سولہ ہجری قمری میں نجف اشرف آگۓ اور یہیں سکونت اختیار کی ۔
آیۃ اللہ نائینی نے نجف میں مدرسہ بکتاشیھا سے تدریس کا آغاز کیا آپ کے درس میں سیکڑوں کی تعداد میں علما و فضلا شرکت کیا کرتے تھے آخوند خراسانی (صاحب کفایہ ) کے درس کے بعد آپ کا درس سب سے بہتر مانا جاتا تھا۔
تنبیہ الامۃ
آيۃ اللہ نائينی کی یہ تصنیف وہ مشہور کتاب ہے جس میں آئينی حکومت کے نظام اور فکری پہلووں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے یہ کتاب 1327 ھ ق میں بغداد میں اور ایک سال بعد تہران میں شایع ہوئی ۔
اس کتاب کو پڑھے لکھے طبقے خاص کر علماء کے درمیان خاصی مقبولیت حاصل ہوئی بلکہ برسوں بعد بھی علما کی توجہ کا مرکز بنی رہی 1954میں مرحوم آیۃ اللہ طالقانی نے اس پر مقدمہ لکھ کر اور مفید حاشیہ لگا کر تیسری مرتبہ چھپوایا۔
اس کتاب کی ابتدا میں نجف کے دو بزرگ مراجع آیۃ اللہ العظمی محمد آخوند خراسانی اور عبد اللہ مازندرانی کے تقریظ ہیں۔
مرحوم آیۃ اللہ سید محمود طالقانی اس کتاب پر مقدمے میں لکھتے ہیں کہ یہ کتاب ہر ایک کے لۓ مفید ہے وہ لوگ جو حکومت کے بارے میں اسلام اور اھل تشیع کے نظریات جاننا چاھتے ہیں انہیں اس کتاب میں اسلام اور بالخصوص اھل تشیع کے تفصیلی نظریات مل جائیں گے آیۃ اللہ نائینی نے اپنی اس کتاب میں آئینی حکومت اس کے اصول اور مخالفین کو ان کے اعتراضات کا مکمل جواب دیا ہے ۔
یہ کتاب علما و مجتھدین کے لۓایک استدلالی اور اجتھادی کتاب ہے اور اجتماعی مسائل کے سلسلے میں عوام کے لۓ رسالہ عملیہ کا حکم رکھتی ہے ۔
معاصر مفکر شھید مطہری لکھتے ہیں کہ انصاف یہ ہے کہ کسی نے بھی علامہ نائینی کی طرح توحید عملی، اجتماعی اور سیاسی کو قرآن و نھج البلاغہ سے ماخوذ محکم دلیلوں سے بیان نہیں کیا ہے ۔
ایران میں انقلاب مشروطہ (آئينی انقلاب ) کے بعد افراتفری کے عالم اور بعض حادثات سے تنگ آکر نیز حکمران طبقے کی من مانیوں کو دیکھتے ہوۓ آیۃ اللہ نائينی نے اپنی کتاب بازار سے اٹھوالی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ انہوں نے اپنے نظریات پر بھی نظر ثانی کی ہو بلکہ انہوں نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ موقع پرست عناصر اس بے مثال کتاب سے غلط فائدہ نہ اٹھانے پائيں ۔
ڈاکٹر سید محمد ثقفی علامہ نائینی اور تحریک مشرطیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "آیۃ اللہ نائینی ان اھم شخصیتوں میں سے ہیں جنھوں نے آئینی حکومت کی واضح تصویر پیش کی ہے انہوں نے کتاب تنبیہ الامۃ و تنزیہ الملۃ لکھ کر اسلامی مشروطہ حکومت کے اصول عالمانہ طریقہ سے بیان کۓ ہیں اور اصول سیاست اسلامی نیز آئين تدبیر حکومت کو واضح کیا ہے ۔
علامہ نائينی کی اس کتاب کو اسلامی حکومت کے بارے میں مجتھد و فقیہ کی لکھی ہوئی پہلی علمی کتاب کہا جاسکتا ہے آيۃ اللہ نائينی نے اس کتاب کو مشروطہ حکومت کے حامیوں اور اس حکومت پر اعتراض کرنے والوں کے جواب میں لکھا ہے انہوں تحریک مشروطہ اور تاریخ اسلام میں ظلم و استبداد کے خلاف جدوجھد کے بارے میں کافی تفصیل سے لکھا ہے ۔
وہ لکھتے ہیں علامہ نائینی اپنے زمانے کی سیاست سے پوری طرح آگاہ تھے اور وہ بڑی طاقتوں کے خطروں اور ان کے مد نظر مفادات سے بخوبی واقف تھے ،اسلام اور علما اسلام کے بارے میں فریدون آدمیت کی تنگ نظری اور کینہ پروری سے سب آگاہ ہیں تاہم انہوں نے آیۃ اللہ نائینی کے بارے میں مثبت خیالات کا اظہار کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ نائینی حوزوی علوم میں مھارت رکھنے کے علاوہ حکمت عملی پر بھی عبور رکھتے ہیں اپنے زمانے کے سیاسی حالات سے بخوبی واقف ہیں اور مشروطہ حکومت کے دور اول کے مسائل سے اچھی طرح آگاہ ہیں اسلامی ملکوں پر مغرب کی یلغار کا انہیں شدت سے احساس ہے اور ان کے قومی جذبات حیرت انگیز ہیں سیاسی امور پر ان کی تنقیدیں مستحکم اور مدلل ہوتی ہیں خلاصہ یہ کہ وہ پرھیزکار اور بزرگوار تھے۔
علامہ نائینی کی علمی شخصیت کے بارے میں موافق اور مخالف متفق نظر آتے ہیں سب کا کہنا ہے کہ وہ اصول و فقہ کے علاوہ فلسفہ و سماجیات و حکمت عملی پر عبور رکھتے تھے اور اس زمانے میں شایع ہونے والے جرائد پر نظر رکھتے تھے اسی تبحر علمی کی بنا پر انہوں نے نۓ میدانوں میں قدم رکھا اور مشروطہ حکومت اور استبدادی نظام کی وضاحت کی ۔
آیۃ اللہ طالقانی کے مطابق مرحوم نائینی کی کتاب تنبیہ الامۃ گرچہ مشروطہ حکومت کے جواز میں لکھی گئی ہے لیکن اس میں اسلام کے سیاسی احکام اور اسلامی حکومت کے کلی اھداف بیان کۓ گۓ ہیں ،انہوں نے اپنی اس کتاب میں آئينی تحریک کی ابتدا میں علماء اسلام کے مد نظر اس اسلامی حکومت کے خدوخال واضح کۓ ہیں جس کے ذریعے وہ ظلم و استبداد کا خاتمہ کرکے عدل وانصاف اور اسلامی قوانین کو نافذ کرنا چاھتے تھے۔
آیۃ اللہ نائينی کی نظر میں اھل مغرب اور مغرب پرست افراد کے برخلاف اسلامی حکومت تھی انہوں نے گرچہ اپنے زمانے کی رائج سیاسی اصطلاحات استعمال کی ہوں لیکن ان ہی الفاظ کے سہارے انہوں نے صدر اسلام سے ظلم ستم اسکی ابتدا اس کے پرپگینڈوں کے منفی اثرات اور بنی امیہ کے ہاتھوں خلافت کے ملوکیت میں تبدیل ہونے اور بنی امیہ کی حکومت کے سراسر ظلم و ستم پر استوار ہونے پر واضح دلیلیں دی ہیں اور جس مشروطہ حکومت کی تصویر پیش کی ہے وہ پوری طرح سے اسلامی قوانین پر مبنی ہے ، مرحوم نائینی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ "عادل و منصف اور قوم کے مفادات کا تحفظ کرنے والی حکومت قائم کرنے کی بہترین راہ یہ ہے کہ ایک ایسا شخص حکومت کا سربراہ ہو جو عصمت نفسانی کا مالک ہو تاکہ احکام خداوندی اور شریعت اسلامی سے ذرہ برابر انحراف نہ کرسکے ۔
اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ جب تک ایسی حکومت تشکیل نہ پاجاۓ مندرجہ ذیل امور پر توجہ کرنی چاہیے
الف قانون سازی
ب عقلاء کی نگرانی
آیۃ اللہ نائينی نے حکومت کی دو قسمیں بیان کی ہیں
الف :استبدادی حکومت :انہوں نے جھل و نادانی اور ملت و حکومت کے حقوق سے عدم واقفیت کو ظلم و استبداد کا سرچشمہ قرار دیا ہے،وہ لکھتے ہیں اس شجرہ خبیثہ (ظلم واستبداد ) کا سرچشمہ حکومت و قوم کے حقوق کے بارے میں قوم کی جہالت ہے اور اسی بناپر حکومتی اداروں میں عوام کے خلاف ظلم بڑھتا جاتا ہے ۔
ب: حکومت قانون :اس حکومت کے لۓ آیۃ اللہ نائينی کی نظر میں آیئن کی ضرورت ہے جس میں عوام کی فلاح و بہبود اور بادشاہ کے اختیارات محدود کرنے کے لۓ قوانین وضع کۓ گۓ ہوں اور جس کے تحت قوم کی علمی اور خیرخواہ شخصیتیں مل بیٹھ کر ملک کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں یعنی قومی پارلمنٹ وجود میں آۓ ۔
آیۃاللہ نائينی کی نظر میں مساوات
آيۃ اللہ نائينی پرآئینی حکومت کے حامی مسلمان و کافر کو مساوی قرار دینے کا الزام لگاتے ہیں اس مغالطے کا جواب وہ اس طرح دیتے ہیں کہ قانون مساوات اسلامی سیاست سے ماخوذ وہ مبارک قانون ہے جو عدل وانصاف کی اساس اور تمام قوانین کی روح ہے شارع مقدس نے اس قانون پر اس لۓ تاکید کی ہے کہ ہر حکم ہر موضوع و عنوان پر بطور قانون اور بطور کلی مرتب ہو،اور عمل درآمد کے موقع پر تمام مصادیق و افراد پر مساوی طریقے سے لاگو ہو شارع نے اس قانون کے تحت ذاتی امور کو قطعا ملحوظ نظر نہیں رکھا ہے اور نہ کسی کو کسی کا حق سلب کرنے، کسی کے جرم سے چشم پوشی کرنے اور نہ رشوت ستانی اورنہ من مانی کی گنجائش رکھی ہے ۔
اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کے تمام افراد خواہ حکمران طبقہ ہو یا عوام ہوں وہ سب قانون کے سامنے برابراور مساوی ہیں ۔
آیۃ اللہ نائينی نے ان لوگوں کو بھی مستحکم جواب دیا ہے جو مادر پدر آزادی اور لاقانونیت کو مساوی سمجھتے تھے آیۃ اللہ نائینی کہتے ہیں کہ آزادی تمام قوموں کا مشترکہ ھدف ہے خواہ وہ دین دار ہوں یا بے دین ۔
آیۃ اللہ نائینی کی نظر میں آزادی دین داری کے منافی نہیں ہے اور وہ مذھبی اقلیتوں کو جیسے یہودیوں اور عیسائیوں کو ملک کی ترقی وپیشرفت نیز ٹیکس کی ادائيگی میں شریک کرنے اور حکام سے باز پرس کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے بلکہ اسے صحیح اور منطقی تصور کرتے ہیں ۔
تفکیک قوا
آیۃ اللہ نائينی کا نظریہ ہے کہ ملک کے انتظامی اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں الگ الگ رہنا چاہیے اور قانون کے مطابق اپنے فرائض بخوبی انجام دینے چاہیں ، وہ لکھتے ہیں کہ مورخین کے مطابق یہ کام ایرانی بادشاہ جمشید نے کیا تھا اور امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے بھی ملک اشتر کو مصر کا گورنر مقرر کرتے وقت اس امر کی تاکید فرمائی تھی ،کتاب کے آخر میں آیۃ اللہ نائينی نے ان لوگوں کا جواب دیا ہے جو آئين کی تدوین کو بدعت سمجھتے ہیں ۔
عالم اسلام کی یہ عظیم شخصیت کئی دھائيوں تک اسلام و مسلمین کی خدمت کرنے کے بعد بروز ھفتہ چھبیس جمادی الاول تیرہ سو پچپن ھ ق مطابق انیس سو چھبیس عیسوی کو نداے حق کو لبیک کہتے ہوے اپنے معبود حقیقی سے جاملی اور اسے جوار رحمت حق میں ابدی سکون مل گیا ، آیۃ اللہ نائينی نجف اشرف میں مولاے کائنات کے حرم مقدس کے صحن مبارک میں سپرد خاک کیا گیا ۔
قوت اسلام مسجد ہندوستان کے دارالحکومت دہلی
قوت اسلام مسجد اور قطب مینار
قوت اسلام مسجد ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں عہد خاندان غلاماں کی ایک عظیم یادگار جس کا "قطب مینار" عالمی شہرت کا حامل ہے۔ یہ قطب الدین ایبک کے دور کی تعمیرات میں سب سے اعلٰی مقام رکھتی ہے۔ یہ ہندوستان کی فتح کے بعد دہلی میں تعمیر کی جانے والی پہلی مسجد تھی۔ اس کی تعمیر کا آغاز 1190ء کی دہائی میں ہوا۔
13 ویں صدی میں التمش کے دور حکومت میں اس میں توسیع کر کے حجم میں تین گنا اضافہ کیا گیا۔ بعد ازاں اس میں مزید تین گنا اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اور عظیم مینار تعمیر کیا گیا۔
اس کے مشہور قطب مینار کی تعمیر کا آغاز 1199ء میں ہوا تھا۔ اور بعد ازاں آنے والے حکمران اس میں مزید منزلوں کا اضافہ کرتے گئے اور بالآخر 1368ء میں یہ مینار 72 اعشاریہ 5 میٹر (238 فٹ) تک بلند ہوگیا۔ اس طرح یہ مینار آج بھی اینٹوں کی مدد سے تعمیر کردہ دنیا کا سب سے بلند مینار ہے اور ہندی-اسلامی طرز تعمیر کا شاندار نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ بنیاد پر اس کا قطر 14 اعشاریہ 3 جبکہ بلند ترین منزل پر 2 اعشاریہ 7 میٹر ہے۔ یہ مینار اور اس سے ملحقہ عمارات اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہیں۔
مسجد میں خط کوفی میں خطاطی کے بہترین نمونے موجود ہیں۔ مسجد کے مغرب میں التمش کا مزار ہے جو 1235ء میں تعمیر کیا گیا۔ مسجد کی موجودہ صورتحال کھنڈرات جیسی ہی ہے۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے اپنے مجموعۂ کلام "ضرب کلیم" میں ایک نظم "قوت اسلام مسجد" کے عنوان سے لکھی ہے:
” ہے مرے سینۂ بے نور میں اب کیا باقی
'لا الہ' مردہ و افسردہ و بے ذوقِ نمود
چشمِ فطرت بھی نہ پہچان سکے گی مجھ کو
کہ ایازی سے دگرگوں ہے مقامِ محمود
کیوں مسلماں نہ خجل ہو تری سنگینی سے
کہ غلامی سے ہوا مثلِ زُجاج اس کا وجود
ہے تری شان کے شایاں اسی مومن کی نماز
جس کی تکبیر میں ہر معرکۂ بود و نبود
اب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت، وہ گداز
بے تب و تابِ دروں میری صلوٰۃ و درود
ہے مری بانگِ اذاں میں نہ بلندی، نہ شکوہ
کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا سجود؟ “
گیس منصوبے میں حائل رکاوٹوں کو دور کررہے ہیں
پاکستان کے صدرآصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ایران – پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے میں حائل رکاوٹوں کو دورکررہے ہیں ۔
کراچی سے موصولہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے کل کراچی میں 36 ویں ایکسپورٹ ایوارڈ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے میں رکاوٹیں حائل ہیں جن کو دور کرنے کی کوششں کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس منصوبے کو بہت بڑا منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں منظر عام پر آیا تھا جس کی تکمیل کےلئے کوشش جاری رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض ممالک کو پاکستان، ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے پر تحفظات ہیں اور عالمی ادارے قرض دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس تناظر میں گیس پائپ لائن کے منصوبے کیلئے متبادل طریقہ کار پر غور کر رہے ہیں۔
بحران شام کے حل کے لئے ایران کا چھے نکاتی فارمولا
اسلامي جمہوريہ ايران نے شام کو بحران سے نکالنے کے لئے چھے نکاتي تجويز کي تفصيلات جاري کردي ہيں۔
اسلامي جمہوريہ ايران کي وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ شام کے بحران کو حل کرنے کے لئے کوششوں کے نئے دور کا آغاز ہوگيا ہے۔ ان کوششوں کا ماحصل ايران کي طرف سے شام کے بحران کو حل کرنے کے لئے پيش کئے گئے چھ نکاتي فارمولے ميں بيان کيا گيا ہے جس کو ايران کي وزارت خارجہ نے جاري کيا ہے اور جس کا مقصد شام کو موجودہ بحران سے باہر نکالنا ہے۔
جو چھے نکاتي فارمولا ايران کي طرف سے پيش کيا گيا ہے اس ميں سب سے پہلے لڑائيوں کو بند کئے جانے کي بات کي گئي ہے۔ اس کے بعد کہا گيا ہے کہ شام کے مختلف گروہوں قبائل اور طبقوں کے نمائندوں اور حکومت کے درميان قومي مذاکرات شروع ہوں جس کے نتيجے ميں ايک قومي آشتي کي کميٹي تشکيل پائے۔ اس فارمولے ميں شام کے عوام کو انسان دوستانہ امداد ديئے جانے کي بھي بات کي گئي ہے-
شام کے خلاف عائد پابنديوں کو اٹھا ليا جانا بھي ايران کے فارمولے ميں شامل ہے جبکہ يہ بھي کہا گيا ہے کہ شام کے پناہ گزينوں کي وطن واپسي کو يقيني بنايا جائے۔
ايران کي طرف سے پيش کئے گئے حل ميں يہ بھي کہا گيا ہے کہ شام ميں ايک عبوري حکومت کي تشکيل کے لئے زمين ہموار کرنے کے لئے بات چيت کا عمل شروع ہونا چاہئے۔
ايران کي وزارت خارجہ کے بيان ميں کہا گيا ہے کہ ان سبھي افراد کو فوري طور پر رہا کيا جانا چاہئے جن کو محض سياسي سرگرميوں ميں حصہ لينے کي وجہ سے گرفتار کيا گيا ہے۔ ايران نے اس بات پر بھي زور ديا ہے کہ شام کے واقعات کے بارے ميں غلط اور جھوٹي خبروں کونشر کرنے کا سلسلہ بھي بند کيا جائے۔ايران نے شام ميں آزادانہ انتخابات کي ضرورت پر بھي زور ديا ہے اور وقت پر صدارتي انتخابات کا انعقاد بھي حکومت کي ذمہ داريوں ميں شامل ہے اس بات پر بھي ايران نے تاکيد کي ہے ۔
اس ميں شک نہيں کہ ايران کي طرف سے شام کے بحران کو حل کرنے کے تعلق سے پيش کي گئي تجاويز کا اصل مقصد پہلے مرحلے ميں شام ميں امن و امان کو بحال کرنا اور اس ملک کےعوام کي مشکلات کو ختم کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہي ايران کي وزارت خارجہ اس بات سے بھي واقف ہے کہ اس کا يہ فارمولا اسي وقت نافذ ہوسکتا ہے جب شام کے سبھي گروہوں کے درميان تعاون کا جذبہ پيدا ہوگا اور ساتھ ہي علاقائي اور عالمي طاقتيں بھي اس سلسلے ميں مثبت سوچ کا اظہار کريں گي۔
ايران کا کہنا ہے کہ ترکي ميں نيٹو کي طرف سے پٹرياٹ ميزائل نصب کئے جانے کا منصوبہ دفاعي نوعيت سے زيادہ جارحانہ نوعيت کا ہے اور اس سے علاقے ميں امن و امان برقرار کرنے ميں کوئي بھي مدد نہيں ملے گي۔
اس ميں بھي شک نہيں کہ شام کے بحران کے اصل ذمہ دار شام کے باہر کے عناصر اور ممالک ہيں - پچھلے دنوں دوحہ ميں شام کے مخالف گروہوں کو شامي عوام کا نمائندہ تسليم کرلئے جانے کے بعد شام ميں دہشت گردانہ کاروائيوں ميں اضافہ اسي حقيقت کي تائيد کرتا ہے۔
کچھ عرصے قبل تک شام ميں سرگرم دہشت گردوں کے پاس ہلکے ہي ہتھيار تھے ليکن اب ان کے پاس بھاري ہتھيار بھيہي نہيں بلکہ زمين سے ہوا ميں مارکرنےوالے ميزائيل بھي آگئے ہیں۔
شام کے بحران ميں يہ پيچيدگي اس بات کي علامت ہے مغربي ممالک شام کے بحران کو حل کرنے ميں مدد دينے کے بجائے شام کے صدر بشار اسد کي حکومت کو گرانے کے نئے نئے منصوبوں پر کام کررہے ہيں اور ان کي کوشش ہے کہ شام کا بحران فوجي مداخلت کے ذريعے ختم کيا جائے۔
ان تمام باتوں کے پيش نظر ايران نے قيام امن کے لئے جو تجاويز يا فارمولا پيش کيا ہے اس ميں صاف ظاہر ہے کہ ايران نے شام کے عوام کے مفادات کو سب سے اوپر رکھا ہے اور اس کو کچھ اس طرح سے تيار کيا گيا ہے کہ شام کے حالات کے بارے ميں کوئي بھي فيصلہ اس ملک کے عوام پر ہي چھوڑ ديا جائے۔
مذاکرات فریقین کے لۓ اطمینان بخش
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ علی اکبر صالحی نے تہران میں اسلامی جمہوریہ ایران اور ایٹمی توانائي کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کے نمائندوں کے حالیہ مذاکرات کو فریقین کے لۓ تسلی بخش قرار دیا ہے۔
ارنا کی رپورٹ کے مطابق علی اکبر صالحی نے گزشتہ شب تہران میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے تیرہ دسمبر کو تہران میں اسلامی جمہوریہ ایران اور ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی آئي اے ای اے کے نمائندوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بارے میں کہا کہ ان مذاکرات کے دوران گفتگو کے نئے دائرہ کار کی تدوین کا جائزہ لیا گيا اور فریقین کا اس سلسلہ میں متعدد امور پر اتفاق طے پا گیا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ گزشتہ جمعرات کے دن ایران اور ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے نمائندوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں دو امور پر بحث ابھی باقی ہے اور ان امور پر جنوری سنہ دو ہزار تیرہ کو ہونے والے مذاکرات کے دوران بحث کی جائے گی۔
شہید آیت اللہ سید محمد باقرالصدر رحمۃ اللہ علیہ
شہید آیت اللہ محمد باقرالصدر پانچ ذی القعدہ تیرہ سو انسٹھ ہجری قمری میں عراق کے شہر کاظمین میں پیدا ہوۓ
انہوں نے کاظمین میں منتدی النشر نامی اسکول میں پرائمری کی تعلیم حاصل کی اس اسکول کے معلمین ہمیشہ انہیں بہترین اور محنتی و مودب طالب علم کے طور پر دوسروں سے متعارف کرایا کرتے تھے ۔
شہید صدر بچپن میں ہی کاظمین کے صحن میں رکھے ہوے منبر پر جاکر تقریریں کیا کرتے تھے ۔
حوزہ علمیہ نجف اشرف میں شہید صدر کی تعلیم شہید صدر نے پرائمری کی تعلیم مکمل کرکے اپنی والدہ کی فرمائش پر نجف اشرف کے عظیم حوزہ علمیہ میں تعلیم حاصل کرنا شروع کی ،سن تیرہ سو پینسٹھ ہجری قمری میں مرحوم شیخ محمد آل رضا آل یاسین اور مرحوم آيت اللہ خوئي کے سامنے زانوے ادب تہ کیا انہوں نے اصول کی تعلیم تیرہ سو اٹہتر اور فقہ کی تعلیم تیرہ سو اناسی میں مکمل کی اور تیرہ سو اٹہترہجری قمری میں خارج اصول کا درس دینا شروع کیا آپ کا یہ حلقہ درس تیرہ سو اکیانوے تک برقراررہا ،شہید صدر نے تیرہ سو اکیاسی میں خارج فقہ کی تدریس شروع کی آپ عروۃ الوثقی کی روش پر خارج فقہ کادرس دیاکرتے تھے یہ درس بھی مدتوں جاری رہا۔
شہید صدر کے شاگرد
شہید صدر نے اپنی بابرکت علمی حیات کے دوران عظیم شاگردوں کی تربیت کی ہے ،آپ کے شاگردوں میں شہید محمد باقرالحکیم ،سید نورالدین اشکوری ،سید محمود ھاشمی،شیخ محمد رضا نعمانی ،سید کاظم حسینی حائری ،سید عبدالغنی اردبیلی،سید عبدالعزیزحکیم ،شہید سید عزالدین قبانچی،سید حسین صدر ،سید محمد صدر ،سید صدرالدین قبانچی،محمد علی تسخیری ،شیخ غلام رضا عرفانیان شیخ محمد باقرایروانی اوربہت سی دیگر معروف علمی شخصیتوں کے نام لۓ جاسکتے ہیں ۔
شہید صدر کی تالیفات وتصنیفات
شہید آیت اللہ صدر نے گرانقدر کتابیں چھوڑی ہیں بعض کتابوں میں آپنے اسلامی معاشرے کی بنیادی ضرورتوں کا جواب دینے کی کوشش کی ہے یہ کتابیں حسب ذیل ہیں ۔
1 اقتصادنا
2 الاسس المنطقیہ للاستقراء
3 الاسلام یقودالحیاۃ
4 البنک اللا ربوی فی الاسلام
5 بحوث فی شرح العروۃ الوثقی
6 بحوث حول المھدی علیہ السلام
7 بحوث حول الولایۃ
8 فلسفتنا
9 المعالم الجدیدہ
علمی امتیازات
منطق، فلسفہ، اقتصاد، اخلاق، تفسیر و تاریخ میں شہید صدر کے نظریات قابل توجہ ہیں،علم اصول میں انہوں نے باب سیرہ عقلانیہ و سیرہ متشرعہ "میں اور اس کے کشف کی راہوں اور اس کے قواعد کے سلسلے میں نۓ نظریات پیش کۓ ہیں فقہ میں ان کے نۓ نظریات علم اصول سے کم نہیں ہیں ان کی فقہی بحوث کا ایک مجموعہ "بحوث فی العروۃ الوثقی"کے نام سے معروف ہے جوچار جلدوں پر مشتمل ہے ۔
شہید صدرنے فلسفتنا اور اقتصادنا لکھ کرفلسفی مادی و اقتصادی مکاتب فکر جیسے مارکسیزم و کیپیٹالیزم کا تنقیدی جائزہ لیا ہے اور اس کام کو نئي روش اور متقن دلائل سے انجام دیا ہے ۔
جماعت العلماء کی تاسیس اور شہید صدر کا کردار
نجف اشرف کے بعض علماء نے عبدالکریم قاسم کے زمانے میں اس جماعت کے تحت تحریک شروع کی تھی گرچہ شہید صدر کم سنی کی بناپر اس جماعت کے باضابطہ رکن نہیں تھے لیکن اس جماعت کی تاسیس اور اسےفعال بنانے نیز اس کی ھدایت کرنے میں آپ کے کردارکو ہرگزنظر اندازنہیں کیا جاسکتا ۔
علماء کی اس عظیم تحریک کے سبب علماءنجف اشرف صحیح اسلامی پروگرام پیش کرنے میں کامیاب ہوسکے تھے اور ایک طاقتوراور خود مختار سیاسی تحریک چلانے میں انہیں کامیابی ملی تھی ۔
حزب الدعوۃ الاسلامیۃ کی تاسیس
شہید صدر نے جوانی کے ایام میں حزب الدعوۃ کی بنیاد رکھی یہ تیرہ سو ستہتر ق کی بات ہے حزب الدعوۃ چار مرحلوں پر مشتمل ہے
الف :حزب الدعوۃ کی تاسیس اور امت میں فکری تبدیلیوں کا مرحلہ
ب:سیاسی اقدامات کا مرحلہ
ج:حصول اقتدارکا مرحلہ
د:امت اسلامی کے مسائل کا جائزہ لینے کا مرحلہ
شہید صدر نے کچھ مدت بعد حزب الدعوۃ سے کنارہ کشی اختیار کرلی آپکا نظریہ تھاکہ مرجع تقلید کو صحیح طرح سے امت اسلامی کی رہبری کرنا چاہیے اور اس کو سیاسی پارٹی کی قیادت زیبانہیں دیتی ۔
منظم اور محترم مرجعیت
شہید صدر نے اپنی عمر کے آخری دس بابرکت برسوں میں اپنے گھر میں ہفتہ وار اجلاس کا اہتمام کیاتھا ان جلسوں میں آپ نے امام خمینی اور انقلاب اسلامی سے متاثرہوکر منظم اور محترم مرجعیت کا نظریہ پیش کیا ان کا کہنا تھاکہ مرجع کومنظم طرح سے اپنے اھداف و مقا صد پیش کرنے چاہیں اور ان اھداف کومنظم منصوبہ بندی نیزحکمت عملی کے تحت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
شہید صدر کی اس تحریک کے بنیادی اصول اس طرح ہیں ۔
مسلمانوں کو وسیع سطح پر دینی تعلیمات سے آگاہ کرنا
اسلامی تعلیمات کے حوالے سے فکری تحریک شروع کرنا ۔
اسلامی اور سیاسی تحریکوں پر نگرانی کرنا ۔
ساری دنیا میں اپنے مراکزقائم کرنا ۔
گرفتاری اور شہادت
صدامی کافر بعثی حکومت نے آپ کو چار مرتبہ گرفتارکیاتھاپہلی مرتبہ تیرہ سوبیانوے ہجری قمری میں آپکو بعثی درندوں نے اس وقت گرفتار کیا جب آپ نجف اشرف کے اسپتال میں زیرعلاج تھے ،دوسری مرتبہ آپکو تیرہ سو ستانوے ہجری قمری میں اربعین سیدالشہداء علیہ السلام کے بعد جوکہ کسی قیام سے کم نہیں تھی گرفتارکیا گيا ،تیسری مرتبہ تیرہ سوننانوے ہجری قمری میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد بعثی کافر حکومت نے آپ کو گرفتار کرلیا کیونکہ وہ آپ کی شخصیت اور سرگرمیوں سے بری طرح گھبراگئي تھی ،چوتھی اور آخری مرتبہ آپکو چودہ سو ہجری قمری میں گرفتارکیا گیا اسی دوران بعثی درندوں نے آپ کو آپکی ہمشیرہ کے ہمراہ شہید کردیا بعثی درندوں نے آپکی لاش واپس نہیں کی بلکہ مزید بہمیت کا ثبوت پیش کرتے ہوۓ آپ کوسپرد خاک کردیا ۔
آيت اللہ سید محمد باقرالصدر کی شہادت کے بعد پوراعالم اسلام رنج و غم میں ڈوب گیا اور اسلامی ملکوں میں احتجاجی مظاہرے ہونے لگے امام خمینی اورديگر مراجع کرام و علماعظام نے تعزیت کے پیغامات جاری کۓ اور مجالس ترحیم کرائيں یہی نہیں آپ کی شان میں شعراء نے قصیدے اور مرثیے بھی کہے ۔
تقریب کے علمبردار شهید برهان الدین ربانی کا زندگینامہ
شھید برھان الدین ربانی افغانستان کی متعہدترین اور متخصص ترین شخصیتوں میں تھے جنکا اسلامی جمہوری ایران کے ساتھ دیرینہ دوستانہ روابط تھے جسکا اندازہ شھادت سے دو دن پہلے تہران میں منعقدہ بین الاقوامی اسلامی بیداری کانفرنس میں ولی امر مسلمین حضرت امام خامنہ ای کے ساتھ ملاقات سے بھی آشکار تھا ۔
شھید برھان الدین ربانی ۱۹۴۰ میں مرکز ولایت بدخشان افغانستان کے فیض آباد نامی شھر میں پیدا ہوئے ۔ وہ افغانستان میں استاد ربانی اور پروفسر ربانی کے نام سے مشھور تھے ۔
وہ ۱۹۶۳ میں دانشکدہ شرعیات (الھیات کالج) فارغ ہوئے اور ۱۹۶۸ کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلئے مصر چلئے گئے اور وہاں الازھر یونیورسٹی میں داخلہ لیا ۔ وہ مصر میں اخوان المسلمین کے افکار سے متاثر ہوئے ۔
۱۹۵۷ میں دانشگاہ شرعیات کابل میں دوسرے اساتذہ جیسے غلام محمد نیازی، سید محمد موسی توانا، وفی اللہ سمیعی(ظاہر شاہ حکومت کا آخری عدلیہ وزیر)،استاد محمد فاضل، عبدالعزیز فروغ، سید احمد ترجمان کے ہمراہ ھدایت نہضت جوانان مسلمان کو قائم کیا اور ۱۹۷۲ میں غلام محمد نیازی کے استعفی دینے پر اس تحریک کی قیادت کو شھید ربانی نے جمعیت اسلامی افغانستان کے نام سے سنبھالی ۔
محمد داوود خان کی۱۹۷۳ میں بغاوت کے ساتھ تحریک اسلامی افغانستان کے اعضاء کہ جنہیں اخوانی کہا جاتا تھا حکومت وقت جو کہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان سایہ تلے چل رہے تھے کے دباو میں آگئے ۔ جن فوجی افسروں نے محمد داوود خان کو بغاوت میں مدد کی تھی وہ کمیونسٹ پارٹی افغانستان سے تعلق رکھتے تھے جو کہ اس زمانے میں اور ڈیموکریسی کی دہائی کے مخالف گنے جاتے تھے کہ جنکا مدارس ، یونیورسٹیوں اور علمی مراکز اور حکومتی اداروں میں آپسی اختلاف رہتا تھا ۔ حکومت ان کے ہاتھ آنے سے ، خاص کر وزارت داخلہ جو کہ پیپلز پارٹی کا ممبر تھا،نے اسلامی افکار رکھنے والے جماعتوں کے خلاف وسیع پیمانے پر گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔
۱۹۷۴ میں شھید ربانی اور دیگر اسلامگرا کارکنان کہ جنکے پیچھے داوود خان کی حکومت لگی ہوئی تھی افغانستان سے نکل کر پاکستان چلے گئے جہاں ذولفقار علی بھٹو کی حکومت تھی اور پشتونستان مسئلے کو لے کر پاکستان کے روابط افغانستان کے ساتھ ٹھنڈے تھے اسلئے پاکستان میں انکی خوب آو بھگت ہوئی اور انہوں نے اسلامی تحریک کے مہاجروں کے مسلح کرنا شروع کیا تاکہ داوود خان کی حکومت کا تختہ پلٹ سکیں لیکن اسلامی تحریک کے بعض قائدین از جملہ شھید ربانی داوود خان کے خلاف عسکری تحریک چلانے کے مخالف تھے اور حکومت پاکستان کے ساتھ بعض اسلامی جماعت کے نزدیک روابط ہونے کی وجہ سے مہاجرین پر دباو بڑھایا گیا اور شھید ربانی پاکستان سے سعودی عرب چلے گئے ۔
انکی جماعت حکومت مخالف مضبوط ترین سیاسی جماعت تھی ۔ یہ جماعت معتدل تھی اور قائم ہونے سے لیکر ہی مصر کی اخوان المسلمین سے متاثر تھی ۔
شھید ربانی روسی حامی حکومت کے خاتمہ تک حکومت مخالف تھے اور روسی فوج کا افغانستان سے انخلا اور حکومت افغان مجاھدین کے سپرد کرنے کے حامی تھے ۔
مجاھدین کی کامیابی اور ۲۸ جون۱۹۹۲ میں نجیب اللہ احمدزی کی حکومت کا خاتمے پر افغانستان کے موقت صدر جمہور منتخب ہوئے اور صدر جمہور کو انتخاب کرنے کا اختیار شورای اھل حل و عقد جو کہ بعد میں لویی جرگہ سے جانا جانے لگا اسے شھید ربانی نے قائم کیا تھا جس میں زیادہ تر جمعیتی تھے ۔
شورای حل و عقد نے ۳۰ دسمبر۱۹۹۲ کو شھید برھان الدین ربانی کو افغانستان کے مجاھدین حکومت کا صدر جمہور منتخب کیا ۔
مجاھدین حکومت پر ۲۶ستمبر ۱۹۹۶ کو شدید حملات ہوئے اور حکومت طالبان کو منتقل کی گئی لیکن شھید ربانی جس نے مرکزی حکومت کو مزار شریف منتقل کیا ہے ابھی افغانستان کا باقاعدہ صدر جمہور تسلیم کیا جاتا تھا اور آہستہ آہستہ ملک پر انکی کمانڈ ڈھیلی پڑ گئی اور ملک کے صرف ۱۰ فیصد پر حکومت فرما رہے ۔
افغانستان پر امریکی حملے اور طالبان کی شکست کے ساتھ بن کانفرنس میں احمد کرزائی کو موقت صدر جمہور منتخب کیا گیا اور شھید برھان الدین ربانی نے ۲۲ دسمبر۲۰۰۱ کو باقاعدہ اجلاس میں حکومت کو افغانستان کے موقت ادارے کو سونپ دیا ۔
صدر جمہور کے لئے منعقدہ الیکشن میں شھید ربانی نے حامد کرزائی کی حمایت کی جوکہ منتخب ہوکر کامیاب ہوگئے ۔
انہوں نے پارلمنٹ الیکشن میں ولایت بدخشان سے پہلے نمایندے کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا اور بھاری آراء کے ساتھ پارلمنٹ سیٹ جیت لی ۔
شھید ربانی نے ۲۰۰۷ میں جہادی اور کمیونسٹ جماعتوں کے سربراہوں پر مشتمل ایک فرنٹ قائم کیا جس کے بارے میں سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فرنٹ افغانستان کے سب سے بڑا اور مہم فرنٹ ہے ۔
شھید ربانی شھادت کے وقت افغانستان پارلمنٹ ممبر اور افغانستان امن کونسل کے سربراہ تھے ۔
احمد ضیاء مسعود نایب صدر جمہور افغانستان اور افغانستان کے نامور کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے شھید برھان الدین ربانی کی شریک حیات کے بھائی ہیں ۔
بین الاقوامی سٹیج پر انکی آخری حاضری تہران میں منعقدہ بین الاقوامی اسلامی بیداری کانفرنس تھی جس میں ولی امر مسلمین حضرت امام خامنہ ای اور عالم اسلام کے دیگر سیاسی اور مذھبی قائدین کے ساتھ انکی تصویریں ذرائع ابلاغ کے توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی ۔
وہ عالمی مجلس برای تقریب مذاھب اسلامی کے عمومی اجلاس کے ایکزیکٹیو ممبر تھے اور مجلس تقریب کی طرف سے ایران اور ایران سے باہر منعقدہ متعدد کانفرنسوں میں شرکت کرتے تھے ۔
اھل سنت کی نظر میں امام جعفر صادق علیہ السلام
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام شیعہ مسلمانوں کے چھٹے امام ہیں۔ شیعہ حضرات تو اپنے امام کا لوہا مانتےہی ہیں لیکن دیگر مذاہب نے بھی آپ کی عظمت علمی، فضائل اخلاقی اور بے نظیر کمالات کا اعتراف کیا ہے۔ کچھ لوگوں کے اعترفات پیش خدمت ہیں۔
ابو حنیفہ :
ابو حنیفہ نعمان بن ثابت بن زوطی جو فرقہ حنفی کے پیشوا سمجھے جاتے ہیں وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانےمیں تھے انہوں نے حضرت امام جعفر صادق کی عظمت کا اعتراف اس طرح کیا ہےکہ ما رایت افقہ من جعفر ابن محمد و انہ اعلم الامۃ ۔ میں نے جعفر ابن محمد سے زیادہ علم فقہ میں کسی کو ماہر نہيں پایا اور وہ اس امت کے سب سے بڑے عالم ہیں۔
عباسی حکمران جنہیں خلیفہ رسول ہونے کا گمان تھا انہوں نے آل رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسم )سے دشمنی کی بناپر آل رسول کو نیچا دکھانے کی کوشش کی تھی ۔ ایک مرتبہ منصور دوانیقی نے جسے ہمیشہ آل رسول بعنی بنی علی اور بنی فاطمہ بالخصوص امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی برتری اور مجد وشکوہ دیکھ کر قلق ہوتا تھا وہ اس قلق سے خود کو نجات دینے کے لئے ابو حنیفہ کو اکسایا کرتا تھا کہ وہ امام جعفر صادق کے مقابلے پر اتر آے تاکہ اس طرح امام جعفر صادق علیہ السلام کو علمی لحاظ سے شکست دی جاسکے۔ منصور دوانیقی ابو حنیفہ کا بڑا احترام کیا کرتا تھا اور انہیں اپنے دور کا سب سے بڑا عالم قراردیتا تھا اس کی وجہ بھی ابو حنیفہ سے محبت نہيں بلکہ اھل بیت رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی دشمنی تھی۔
اس واقعے کے راوی خود ابو حنیفہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن منصور دوانیقی نے مجھے کہلا بھیجا کہ اے ابوحنیفہ لوگ جعفر ابن محمد کے شیدا ہوچکے ہیں انہیں عوام کے درمیاں بڑی مقبولیت حاصل ہوچکی ہے اور تم سماج میں جعفر ابن محمد کی بے عزتی کرنے اور سماج میں ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کےلئے کچھ پیچیدہ مسائل کے سوالات تیار کرو اور مناسب وقت میں آن سے ان سوالات کے جواب دریافت کرو اس طرح جعفر ابن محمد تمہارے سوالوں کا جواب نہیں دے پائيں گےاور ان کی تحقیر ہوجائے گي جس کو دیکھ کر عوام کے دلوں میں ان کی عزت کم ہوجائے گي اور ان سے دور ہوتے جائيں گے۔ ابو حنیفہ کہتےہیں کہ میں نے منصور دوانیقی کے کہنے پر چالیس مشکل ترین سوالات تیار کئے۔ ایک دن جب منصور حیرہ میں تھا اس نے مجھے اپنے پاس بلوایا میں اس کے پاس پہنچا تو حیرت سے مبہوت رہ گیا، دیکھتا ہوں کہ جعفر ابن محمد، منصور کے دائيں طرف تشریف فرما ہیں، جب میری نگاہ جعفر ابن محمد پر پڑی تو مجھ پر ان کی عظمت، بزرگواری اور ابہت کا اتنا اثر پڑا کہ میں بیان کرنے سے عاجز ہوں۔ میں نے سلام کیا اور ان کے پاس بیٹھنے کی اجازت طلب کی بادشاہ نے اس کے کنارے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں جب بیٹھ گيا تو منصور نے جعفر ابن محمد کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ ابو حنیفہ ہیں ، انہوں نے جواب دیا جی ہاں میں انہيں پہچانتا ہوں۔ اس کے بعد منصور نے مجھ سے کہا کہ ابو حنیفہ اگر کوئي سوال ہوتو ابو عبداللہ جعفرابن محمد سے پوچھ لو۔ میں نے موقع غنیمت جان کر اپنے سوالات جعفر ابن محمد کے سامنے رکھے، یہ چالیس سوالات تھےجو میں نے پہلے سے آمادہ کررکھے تھے۔ میں ان سے ایک کے بعد دوسرا سوال پوچھتا رہا اور جعفر ابن محمد ان کا شافی جواب دیتے رہے ، ہرمسئلہ بیان کرنے کےبعد آپ فرماتے تھے کہ اس مسئلے کے بارے میں تمہارا قول یہ ہے تمہاری رائے اور نظر یہ ہے، علماء مدینہ کی نظر اس طرح ہے اور ہماری نظر اس طرح ہے۔ بعض مسائل میں آپ ہماری نظر سے موافق تھے اور بعض میں آپ علمائے مدینہ کی نظر سے متفق ہوتے تھے تو بعض مسائل میں دونوں کی مخالفت کرتے تھے اور اس سلسلےمیں اپنے نظرئے کو بیان فرماتے تھے۔ ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ میں نے تمام چالیس سوالات کرڈالے اور جعفر ابن محمد نے نہایت متانت اور بے نظیر علمی تسلط کے ساتھ ان کے جوابات دئے۔ اس کے بعد ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ ان اعلم الناس اعلمھم باختلاف الناس ۔ سب سے زیادہ عالم وہ شخص ہے جو لوگوں کے اختلافی نظریات سے آگاہ ہو۔ ابوحنیفہ کا یہ جملہ تاریخ میں جلی حروف سے لکھا ملے گا کہ لولا جعفر ابن محمد ما علم الناس مناسک حجھم۔ اگر جعفرابن محمد نہ ہوتے تو لوگوں کو مناسک حج سے واقفیت نہ ہوتی۔
مالک بن انس :
مالک بن انس اھل سنت کے چار مسلکوں میں سے مالکی مسلک کے بانی ہیں انہیں اھل سنت ائمہ اربعہ میں شمار کرتے ہیں۔ وہ ستانوے ہجری میں پیدا ہوے اور ایک سو اناسی ہجری میں وفات پائي۔ مالک بن انس کو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ مالک بن انس حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی اور اخلاقی عظمت کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں ایک مدت تک جعفر ابن محمد کی خدمت میں زانوےادب تہ کیا کرتا تھا آپ مزاح بھی فرمایا کرتے تھے ہمیشہ آپ کے لبوں پر تبسم رہتا تھا۔ جب آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام مبارک لیاجاتا تو آپ کے چہرے کا رنگ سبز اور زرد ہوجاتا تھا۔ میں نے نہیں دیکھا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث بیان کی ہو اور وضو سے نہ ہوں۔ میں جب تک ان کے پاس آیا جایا کرتا تھا میں نے نہیں دیکھا کہ وہ ان تین حالتوں سے خارج ہوں یا وہ نماز پڑھتے رہتے تھے ، یا قرآن کی تلاوت کررہے ہوتے تھے یا پھر روزہ سے ہوتے تھے۔ میں نے نہيں دیکھا کہ آپ نے کوئي بے فائدہ اور عبث بات کی ہو ۔ وہ علماء زھاد میں سے تھے کہ جن کے دل میں خوف خدا گھر کرگیا تھا۔ ان کے پورے وجود سے خوف خدا عیاں رہتا تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں ان کی خدمت میں پہنچا ہوں اور آپ نے جس دری پرآپ بیٹھے رہتے تھے اسے میرے لئے نہ بچھا یا ہو۔
مالک بن انس امام جعفر صادق علیہ السلام کے زھد و عبادت و معرفت کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایک برس ہم امام صادق علیہ السلام کے ساتھ حج کرنے مدینے سے نکلے، مسجد شجرہ پہنچے جو اھل مدینہ کی میقات ہے۔ ہم نے احرام باندھا اور سب جانتےہیں کہ احرام باندھتے وقت تلبیہ کہنا یعنی لبیک اللھم لبیک کہنا واجب ہے۔ سب لوگ تلبیہ کھ رہے تھے۔ مالک کہتےہیں کہ میں نے دیکھا کہ امام صادق علیہ السلام تلبیہ کہنا چاہتے ہیں لیکن ان کا رنگ متغیر ہورہا ہے آپ کی آواز حلق میں پھنس رہی ہے آپ مرکب سے زمیں پر گرنا ہی چاہتےتھے ، میں آگے آیا اور کہاکہ کے فرزند رسول خدا یہ ذکر تو آپ کو کہنا ہی ہوگا جیسے بھی ہو اس ذکر کو زبان پرجاری فرمائيں ، آپ نے فرمایا یابن ابی عامر کیف اجسر ان اقول لبیک اللھم لبیک و اخشی ان یقول عزو جل لا لبیک و لاسعدیک
اے پسر ابی عامر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں جسارت کروں اور اس بات کی جرات کروں اور زبان پر لبیک کے الفاظ جاری کروں ، لبیک کہنے کے یہ معنی ہیں کہ خداوندا تو نے مجھے جو کچھ حکم دیا ہے میں تیری اطاعت کرتاہوں اور اس کی انجام دہی پر تیار رہتاہوں۔ میں بھلا کس طرح سے خدا کے حضور ایسی گستاخی کرسکتاہوں اور خود کو اطاعت خداوندی کے لئے پیش کرسکتا ہوں؟ اگر میرے جواب میں کھ دیا جاے کہ لا لبیک ولاسعدیک تو میں کیا کروں گا؟
مالک بن انس حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی فضیلت و عظمت کےبارے میں کہتے ہیں کہ ما رات عین ولا سمعت اذن ولا خطر علی قلب بشر افضل میں جعفرابن محمد۔
کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں خیال آیا کہ کوئي جعفر ابن محمد سے بھی افضل ہوسکتا ہے۔
مالک بن انس کے بارے میں ملتا ہےکہ وہ جعفر ابن محمد سے حدیث سن کر بیان کرتے تھے اور بعض اوقات یہ کہتے تھے کہ میں نے یہ حدیث مرد ثقہ سے سنی ہے اور اس سے ان کی مراد جعفر ابن محمد ہوتے تھے۔
حسین بن یزید نوفلی کہتےہیں کہ سمعت مالک بن انس الفقیہ یقول واللہ مارات عینی افضل من جعفر ابن محمد زھدا و عبادۃ و ورعا و کنت اقصدہ فیکرمنی و یقبل علی فقلت لہ یوما یابن رسول اللہ ما ثواب من صام یوما من رجب ایمانا و احتسابا فقال وکان واللہ اذا قال صدق حدثنی ابیہ عن جدہ قال، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من صام یوما من رجب ایمانا و احتسابا غفرلہ فقلت لہ یا ابن رسول اللہ فی ثواب یوما من شعبان فقال حدثنی ابی عن ابیہ عن جدہ قال، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من صام یوما من شعبان ایمانا و احتسابا غفر لہ ۔
حسین بن یزید نوفلی نے مالک بن انس فقیہ سے نقل کیا ہےکہ وہ کہتےہیں کہ خدا کی قسم ہماری آنکھوں نے نہیں دیکھا کہ کوئي زھد و علم و فضیلت اور ورع میں جعفرابن محمد سے برتر ہو، میں ان کے پاس جاتا تھا وہ خندہ پیشانی سے میرا استقبال کرتے تھے اورمیری عزت کرتے تھے۔ میں نے ایک دن ان سے پوچھا کہ فرزند رسول خدا ماہ رجب میں روزہ رکھنے کا کیا ثواب ہے؟ انہوں نے میرے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک روایت نقل کی اور جب بھی وہ کچھ کہتے تھے سچ کہتےتھے۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد نے اپنےوالد سے اور انہوں نے ان کے جد سے نقل کیا ہےکہ ماہ رجب کے روزہ کا ثواب یہ ہے کہ روزہ رکھنے والے کے گناہ بخش دئے جائيں گے۔ اس کےبعد میں نے ماہ شعبان کے روزے کے بارے میں پوچھا آپ نے اس بار بھی وہی جواب مرحمت فرمایا۔
ابن شبرمہ اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
ابن شبرمہ کوفے کے نامدار قاضی تھے وہ بہتر ہجری میں پیدا ہوے اور ایک سو چوالیس ہجری میں وفات پائي۔ابن شبرمہ کہتے ہیں کہ ما ذکرت حدیثا سمعتہ من جعفر ابن محمد الا کاد ان یتصرع لہ قلبی سمعتہ یقول حدثنی ابی عن جدی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
وہ کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نےجعفر ابن محمد سے حدیث سنی ہومگر یہ کہ وہ میرے دل میں اترجاتی تھی ، اور وہ اس طرح حدیث بیان کرتے تھے کہ میں نے اپنے والد سے اور انہوں نے میرے جد سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے، اور خدا کی قسم جعفر ابن محمد نے کبھی بھی اپنے والد پر جھوٹ نہیں باندھا اور نہ ان کے والد نے اپنے والد پر جھوٹ باندھا اور نہ اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ باندھا۔ یعنی جعفر ابن محمد جو بھی حدیثیں اور روایات بیان کرتے تھے وہ سب صحیح اور سچي ہوتی تھیں۔
ابن ابی لیلی اور حضرت امام صادق علیہ السلام
شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ ایک روایت نقل کرتےہیں کہ محمد بن عبدالرحمان معروف بہ ابن ابی لیلی ( 74۔148 ھ ق) جو کوفے کے مشہور فقیہ، محدث ، مفتی اور قاضی تھے وہ ایک دن امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس گئے اور ان سے متعدد سوالوں کے جواب چاہے جو امام جعفر صادق علیہ السلام نے انہيں مرحمت فرمادے۔ اس کےبعد ابن ابی لیلی امام جعفر صادق علیہ السلام سے خطاب کرکے کہتے ہیں کہ اشھد انکم حجج اللہ علی خلقہ ۔ میں شہادت دیتاہوں کہ آپ خدا کے بندوں پرخدا کی طرف سے حجت ہیں۔
ایک مرتبہ عمروبن عبید معتزلی امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس آيا اور اس آیت کی تلاوت کرنے لگا الذین یجتنبون کبار الاثم و الفواحش اس کے بعد خاموش ہوگيا، امام نے پوچھا کیوں رک گئے تو اس نے کہا میں چاہتا ہوں کہ آپ قرآن سے مجھے گناہان کبیرہ کے بارے میں آگاہ فرمائيں، امام نے گناہان کبیرہ کو بیان کرنا شروع کیا، امام علیہ السلام کا بیان اس قدر واضح شافی اور قابل فہم اور جامع تھا کہ عمرو بن عبید نے بے اختیار اونچی آواز میں کہا ھلک من قال برايہ و نازعکم فی الفضل و العلوم ۔ ہلاک ہوگيا وہ جس نے اپنی رائے کو مقدم رکھا اور آپ سے علم و فضل میں نزاع کیا۔
ابو بحر جاحظ بصری جو تیسری صدی ہجری کے معروف ترین دانشوروں میں سے تھے کہتے ہیں کہ جعفر ابن محمد وہ ہیں جن کے علم وفقہ کا ڈنکا ساری دنیا میں بجتا ہے اور کہا جاتا ہےکہ ابو حنیفہ اور سفیان ثوری نے آپ کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا ہے۔ آپ کی علمی عظمت کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے۔
عمروابن مقداد جو امام جعفر صادق علیہ السلام کے معاصر علما میں سے تھے کہتے ہیں : کنت اذا نظرت الی جعفر ابن محمد علمت انہ میں سلالۃ النبیین وقد رایتہ واقفا عندالجمرۃ یقول سلونی سلونی۔
وہ کہتے ہیں کہ میں جب بھی جعفر ابن محمد پر نظر ڈالتاہوں تو سمجھ جاتاہوں کہ وہ پیغمبروں کی نسل سے ہیں ، میں نےخود دیکھا ہے کہ وہ منی کے ایک جمرے پر کھڑے ہوکر لوگوں سے فرماتے تھے کہ ان سے پوچھ لیں سوال کرلیں اور ان کے بے کراں علم سے فائدہ اٹھائيں۔
ابو الفتح محمد بن ابی القاسم اشعری معروف بہ شہرستانی نے اپنی کتاب الملل و النحل میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی عظمت کے بارےمیں لکھا ہے کہ و ھو ذو علم عزیز فی الدین و ادب کامل فی الحکمۃ و زھر بالغ فی الدنیا و ورع تام عن الشہوات۔ وہ کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام دین میں علم بے کراں، حکمت میں ادب کامل اور دنیا اور اس کے زرق وبرق کے تعلق سے مکمل زھد کے حامل اور شہوات سے مبری تھے۔
ابن خلکان امام جعفر صادق علیہ السلام کےبارےمیں لکھتے ہیں کہ احد الائمہ الاثنی عشر علی مذھب الامامیہ و کان میں سادات اھل البیت و لقب بالصادق لصدق مقالتہ و فضلہ اشہر من ان یذکر۔ وہ لکھتےہیں کہ مذھب امامیہ کے ایک امام تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اھل بیت کے بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں انہيں سچائي کی بناپر صادق کا لقب دیا گيا اور ان کی فضلیت اتنی عیاں ہے کہ اس کےبیان کی ضرورت نہیں۔ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام کیمیا میں ید طولی رکھتے تھے، ابوموسی جابر بن حیان طرطوسی ان کے شاگردوں میں سے ہیں۔ جابر نے ایک ہزار ورق پرمشتمل ایک کتاب لکھی ہے جس میں جعفر ابن محمد کی تعلیمات تھیں۔
ابن حجر عسقلانی جن کا نام شہاب الدین ابوالفضل احمد بن علی مصری شافعی ہے اور جو ابن حجر کی کنیت سے معروف ہیں امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جعفر ابن محمد بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب ایسے فقیہ ہیں جو نہایت راست گو ہیں۔
ابن حجر کتاب تہذیب التہذیب میں ابی حاتم اور وہ اپنے والد سےکہ نقل کیا ہے کہ لایسال عن مثلہ ، ان جیسے کے بارے میں سوال نہیں کیا جاتا ( یہ بات سب کو روز روشن کی طرح معلوم ہے کہ وہ منبع علم اور سرچشمہ ھدایت ہیں) وہ مزید لکھتے ہيں کہ ابن عدی نے کہا ہےکہ لجعفر احادیث و نسخ و ھو من ثقات الناس، و ذکرہ ابن حبان فی الثقات وقال کان من سادات اھل البیت فقہا و علما و فضلا، وقال النسائي فی الجرح والتعدیل ثقہ۔
صاحب سیر النبلاء حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہيں کہ جعفر ابن محمد بن علی ابن الحسین ریحانہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ ان کے سامنے بہت سے لوگوں نے زانوے ادب تہ کیا ہے اور ان سے علمی فیض حاصل کیا ہے۔ ان میں ان کے بیٹے موسی کاظم علیہ السلام، یحی بن سعید انصاری، یزید بن عبداللہ، ابو حنیفہ، ابان بن تغلب،، ابن جریح ، معاویہ بن عمار، ابن اسحاق، سفیان، شبعہ ، مالک، اسماعیل بن جعفر، وھب بن خالد، حاتم بن اسماعیل، سلیمان بن بلال، سفیان بن عینیہ، حسن بن صالح، حسن بن عیاش، زھیر بن محمد، حفص بن غیاث، زید بن حسن، انماطی، سعید بن سفیان اسلمی ، عبدالہ بن میمون، عبدالعزیز بن عمران زھری، عبدالعزیز درآوری ، عبدالوہاب ثقفی ، عثمان بن فرقد، محمد بن ثابت بنانی، محمد بن میمون زعفرانی، مسلم زنجی، یحی قطان، ابو عاصم نبیل و۔۔۔۔۔
وہ اپنی کتاب میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں کہ جعفر ابن محمد امام بزرگ ہیں جن کا مقام نہایت اعلی ہے وہ نیک اور صادق ہیں۔
شہاب الدین ابوالعباس احمد بن بدرالدین شافعی معروف بہ ابن حجر ہیتمی امام صادق علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ لوگوں نے آپ سے بہت سے علوم سیکھے ہیں اس یہ علوم مسافروں کے ذریعے ساری دنیا میں پھیل گئے اور ساری دنیا میں جعفر ابن محمد کے علم کا ڈنکا بجنے لگا۔ وہ کہتےہیں کہ بزرگ علماء جیسے یحی بن سعید ، ابن جریح مالک ، سفیان ثوری اور سفیان بن عینیہ ابو حنیفہ، اور شعبہ نیز ایوب سجستانی نے ان سے حدیث نقل کی ہے۔
میر علی ہندی جو کہ اھل سنت کے بزرگ علماء میں شمار ہوتےہیں اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی اور اخلاقی عظمت کے بارے میں کہتے ہیں صرف فاطمی سادات کے نزدیک آرا و فتاوی نے فلسفی رنگ حاصل کیا ہے ، اس زمانے میں علم کی ترقی نے سب کو کشتہ بحث و جستجو بنادیا تھا اور فلسفیانہ گفتگو ہرجگہ رائج ہوچکی تھی ۔ قابل ذکر ہےکہ اس فکری تحریک کی رہبری اس مرکز علمی کے ہاتھ میں تھی جو مدینہ میں پھل پھول رہا تھا اور اس مرکز کا سربراہ علی ابن ابی طالب کا پوتا تھا جس کا نام جعفر صادق تھا۔ وہ ایک بڑے مفکر اور سرگرم محقق تھےاور اس زمانے کے علوم پر عبور رکھتے تھے وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اسلام میں فلسفے کے مدارس قائم کئے۔ ان کے درس میں صرف وہ لوگ شرکت نہیں کرتے تھے جو بعد میں فقہی مکاتب کے امام کہلائے بلکہ فلاسفہ، فلسفہ کے طلبہ بھی دور دراز سے آکر ان کے درس میں شرکت کرتے تھے۔ حسن بصری جو مکتب فلسفہ بصرہ کے بانی ہیں، واصل بن عطاء جو معتزلہ مسلک کے بانی ہیں یہ لوگ ان کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے ان کے چشمہ علم سے فیض حاصل کیا ہے اور اسی سے سیراب ہوئے ہیں۔
فاتح مسجد - ترکی کے شہر استنبول
فاتح مسجد (ترک: Fatih Camii یعنی فاتح جامع) ترکی کے شہر استنبول کی ایک جامع مسجد ہے جو عثمانی عہد میں قائم کی گئی۔
یہ استنبول میں ترک اسلامی طرز تعمیر کا ایک اہم نمونہ ہے اور ترک طرز تعمیر کے ایک اہم مرحلے کی نمائندگی کرتی ہے۔
فاتح مسجد فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد ثانی المعروف محمد فاتح کے حکم پر تیار کی گئی۔ یہ فتح قسطنطنیہ کے بعد تعمیر کی جانے والی پہلی مسجد تھی۔ ماہر تعمیرات عتیق سنان تھے جنہوں نے 1463ء سے 1470ء کے عرصے میں اس مسجد کو تعمیر کیا۔
مسجد کی اصلی عمارت مسجد کے گرد انتہائی منصوبہ بندی سے تیار کی گئی عمارات کا مجموعہ تھی۔ ان میں آٹھ مدارس، کتب خانہ، شفا خانہ، مسافر خانہ، کاروان سرائے، بازار، حمام، ابتدائی مدرسہ اور لنگر خانہ موجود تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہاں چند قبریں بھی تعمیر کی گئیں۔ حقیقی عمارت تقریباً مربع شکل میں 325 میٹر پر محیط تھی جو جادۂ فوزی پاشا پر شاخ زریں کے کنارے واقع تھی۔
سلطان محمد فاتح کی تعمیر کردہ اصلی مسجد 1509ء کے زلزلے میں بری طرح متاثر ہوئی جس کے بعد اسے مرمت کے مراحل سے گزارا گیا۔ 1557ء اور 1754ء زلزلوں میں ایک مرتبہ پھر مسجد کو متاثر کیا اور دوبارہ اس کی مرمت کی گئی۔ لیکن 22 مئی1766ء کو آنے والے زلزلے میں یہ مسجد مکمل طور پر تباہ ہو گئی، اس کا مرکزی گنبد گر گیا اور دیواروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
موجودہ مسجد سلطان مصطفیٰ ثالث کے حکم پر معمار محمد طاہر نے 1771ء میں تعمیر کی جو قدیم مسجد سے بالکل مختلف انداز میں تعمیر کی گئی۔
مسجد کا صحن، مرکزی داخلی دروازہ اور میناروں کے نچلے حصے ہی اولین تعمیرات کا حصہ ہیں جن پر 1771ء میں دوبارہ مسجد تعمیر کی گئی۔
مسجد کے باغ میں سلطان محمد فاتح اور ان کی اہلیہ گل بہار خاتون کی قبریں ہیں۔ ان دونوں کی تربت کو بھی زلزلے کے بعد دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ ان دونوں کے علاوہ مسجد کے احاطے میں سلطان محمد فاتح کی والدہ نقشِ دل سلطانہ کی قبر بھی موجود ہے جبکہ کئی سرکاری عہدیداروں کی قبریں بھی یہیں ہیں۔
ایوب انصاری مسجد کی طرح فاتح مسجد بھی فن تعمیر کے لحاظ سے اتنی اہمیت کی حامل نہیں بلکہ یہ دونوں مساجد تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔
فاتح مسجد - زلزله سے پهلے - 1559




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
