Super User

Super User

بیت المکرم بنگلہ دیش کی قومی مسجد جو دارالحکومت ڈھاکہ کے قلب میں واقع ہے۔

یہ مسجد 1960ء کی دہائی میں تعمیر ہوئی۔

مسجد کے ماہر تعمیرات ٹی عبد الحسین تھاریانی تھے۔

بنگلہ دیش کی اس قومی مسجد کی تعمیر میں جدید تعمیراتی خصوصیات کے ساتھ ساتھ مسجد کے طرز تعمیر کی حسین خوبیاں بھی شامل کی گئیں ہیں۔

یہ مسجد خانہ کعبہ سے ملتی جلتی ہے اس لیے اسے دنیا بھر میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔

مصر کے صدر محمد مرسی نے علاقائی مسائل کے حل کےلئے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعاون پر آمادگی کا اظہار کیا –

قاہرہ سے موصولہ رپورٹ کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ علی اکبر صالحی کی آجکی ملاقات میں مصر کے صدر محمد مرسی نے کہا کہ ان کا ملک اسلامی جمہوریہ ایران سمیت تمام اسلامی ممالک کے ساتھ علاقائی مسائل کے حل کےلئے تعاون پر آمادہ ہے –

محمد مرسی نے خطے کے مسائل کے حل میں ایران کے مؤثر کردار پر تاکید کرتے ہوئے مزید کہا کہ اپنے حقوق اور مشترکہ اہداف کے حصول کےلئے اسلامی ممالک کے مابین اتحاد کی ضرورت ہے –

اس ملاقات میں ایران کے وزیر خارجہ جناب علی اکبر صالحی نے بھی مصر میں عوامی انقلاب کی کامیابی پر مصر کے عوام اور منتخب صدر کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی سرنوشت کے تعیّن کےلئے مصری عوام کے حق کی حمایت کرتا ہے –

صالحی نے شام کے معاملے پر چاررکنی کمیٹی کی تشکیل کےلئے محمد مرسی کی تجویز کی ایک بار پھر حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا اسلامی جمہوریہ ایران مصر کے ساتھ تمام شعبوں میں تعلقات کی بحالی اور توسیع پر آمادہ ہے -

۲۰۱۲/۰۹/۱۸- رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کے شمال میں مسلح افواج کے ہزاروں افراد اور ان کے اہلخانہ سے ملاقات میں اسلامی نظام کے روز افزوں فروغ، اسلامی نظام کے شجرہ طیبہ کی جڑوں کے استحکام اوراس کی مختلف شاخوں میں ہونے والی واضح ، سرسبز و شاداب ترقیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس بانشاط و پر طراوت حرکت کو جاری رکھنے اور مستقبل کے روشن و تابناک افق تک پہنچنے کے لئے سب کی تلاش و کوشش ، پختہ عزم اور ہمت کی ضرورت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف مراحل میں ایرانی قوم کے قیام و جد وجہد اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایران اور ایران کی عظیم قوم اسلامی بیداری کی برکت سے گذشتہ 33 برسوں سے قابل فخر راہ اور اچھے انجام کے راستے پر گامزن ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حالیہ تین دہائیوں کو پرتحرک، بانشاط اور نشیب و فراز سے مملو قراردیا اور انھیں قرآنی آیات کی روشنی میں سختی و دشواری کے ہمراہ آسانی اور گشائش کا ترجمان قراردیتے ہوئے فرمایا: بعض علاقائی ممالک میں اسلامی بیداری بہت ہی مبارک حادثہ ہے لیکن ایرانی عوام کا اسلامی انقلاب بہت ہی وسیع ، عمیق، اصولوں پر مبنی اور خاص خصوصیات کا حامل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب کے اصولوں اور نعروں کے سلسلے میں عوام کے اندر اتحاد، ملک بھر میں انقلابی جوش و خروش کے وسیع ہونے اور جد و جہد کےمیدان میں ایران کی مؤمن عوام کے مختلف طبقات کا جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں حاضرہونے کو منجملہ خصوصیات میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: جہاں کہیں بھی قومیں ایمان، عزت اور فداکاری کے ساتھ میدان میں حاضر ہوں تو دنیا کی کسی طاقت میں ان کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہوگی کیونکہ سنت الہی کے مطابق شمشیر پر خون کی فتح و کامیابی یقینی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف میدانوں میں عوام کی ہمہ گیر موجودگی کو دشمنوں کے ناجائزمطالبات کے مقابلے میں اسلامی نظام کے حکام کی مضبوط و مستحکم پشتپناہ قراردیتے ہوئے فرمایا: آج بعض انقلاب کرنے والے ممالک کے حکام امریکہ کے دباؤ کے سامنے اپنا اصول و مؤقف بدلنے پر مجبور ہیں جبکہ اسلامی جمہوریہ کے حکام حالیہ 33 برسوں میں دشمنوں کے دباؤ کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتےہوئے فرمایا: آج بھی اسلامی جمہوریہ ایران ، عوام کی برکت اور ان کی میدان میں موجودگی کی بدولت کسی بھی بڑی طاقت کی بات نہیں سنتی اور نہ ہی ان کے دباؤ کو قبول کرتی ہے بلکہ صرف اپنے ملک اور قوم کی مصلحت اور مفاد کےپیش نظر فیصلہ کرتی ہے اگر چہ اس فیصلے سےدنیا کی تمام طاقتیں ناراض ہی کیوں نہ ہوں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب کے اصولوں کے مختلف پہلوؤں کے روشن ہونے کو بہت ہی اساسی و بنیادی پیشرفت قراردیتے ہوئے فرمایا: وقت کے گذرنے کے ساتھ " اسلامی جمہوریہ، عوامی اسلامی حکومت، استقلال اور آزادی " جیسے مفہوم عوام ، ممتازشخصیات اور سیاستدانوں کے لئے مزید روشن ہوگئے ہیں اور ان اہداف کے تحقق کے لئےکیاکرنا اور کیا نہیں کرنا چاہیےیہ بھی سب پر عیاں ہوگیا ہےجبکہ حالیہ برسوں میں بھی انہی اہداف پر حرکت جاری رہی ہے اور یہ مسئلہ بہت ہی عظیم پیشرفت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے مضبوط و مستحکم ڈھانچے اور گہری و عمیق جڑوں کو اسلامی نظام کی پیشرفت و ترقی کا دوسرا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: انقلاب کے پہلے برسوں کے مقابلے میں ایرانی قوم کے منتخب نظام کو سرنگوں کرنے کے لئے دشمن ناامید ہوگئے ہیں اوربہت سے موارد میں یہ حقیقت مایوسی اور ناامیدی میں تبدیل ہوگئی ہےجو اسلامی نظام کے استحکام کا مظہر ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علم وسائنس کے مختلف شعبوں میں حیرت انگیزپیشرفت کو اسلامی نظام کے سرسبز و شاداب برگ قراردیتے ہوئے فرمایا: ایٹمی ٹیکنالوجی اورسیلز کےمتعلق اتنی حیرت انگیز پیشرفت حاصل ہوئی ہے جو ملک کے بعض خدوم سائنسدانوں کے لئے ناقابل یقین ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: آج بھی ایرانی سائنسداں مختلف میدانوں میں اپنی تحقیق اور ریسرچ کا کام جاری رکھےہوئے ہیں اور ان کے بعض اکتشافات ناقابل یقین ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی بنیادی ترقیات کی تشریح کےبعد تاکید کرتےہوئے فرمایا: ملک کی پیشرفت و ترقی کے سلسلے میں پرنشاط اور ہمہ گير حرکت جاری رہنی چاہیے اور اس حقیقت پر سب کو یقین ہوجانا چاہیے کہ کام و تلاش ، پیشرفت اور جد و جہد کا سلسلہ ختم ہونے والا نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی پیشرفت کو روکنے کے لئے ملک کے حالات کو تاریک اور سیاہ بنا کر پیش کرنے کو سامراجی ، صہیونی اور مغربی میڈيا کی سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم دشمن کے ان پروپیگنڈوں سے آگاہ اور واقف ہے اور ملک کے تابناک مستقبل تک پہنچنے کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی غفلت اور سستی سے پرہیز کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں مسلح افواج کے اہلخانہ کو مسلح افواج کے قابل فخر کارناموں میں شریک قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام کی عظیم عمارت کی تعمیر و ترقی میں مسلح افواج کا اہم اور حساس کردار ہے اور ان کا یہ اہم و حساس کردار ان کے اہلخانہ کی ہمراہی اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نئے اسلامی نظام کو اسلامی ثقافت و تمدن کی راہ ہموار کرنے کا باعث قراردیا اور شہداء کےاہلخانہ کے صبر و استقامت کی تعریف و تجلیل کرتے ہوئے فرمایا: اگر شہداء کے اہخانہ کا قابل تعریف صبر نہ ہوتا تو ملک میں شہادت کا شاداب سلسلہ جاری نہ رہ سکتا۔ اور ایرانی قوم پر شہداء کے اہخانہ کا یہ بہت بڑا احسان ہے۔

اس ملاقات سے قبل بحریہ کے سربراہ ایڈمیرل سیاری نے رہبر معظم کی موجودگی میں مسلح افواج کے اہلخانہ کے اجتماع کو اتحاد و ہمدلی کا مظہر قراردیتے ہوئے کہا: دفاع مقدس سے لیکر اب تک مسلح افواج کے اہم کارناموں میں ان کے اہلخانہ کی فداکاری اور تعاون شامل ہے۔

مسجد وزیر خان شہرلاہور میں دہلی دروازہ، چوک رنگ محل اور موچی دروازہ سے تقریباً ایک فرلانگ کی دوری پر واقع ہے۔

مسجد کی بیرونی جانب ایک وسیع سرائے ہے جسے چوک وزیر خان کہا جاتا ہے۔

یہ وسیع العریض مسجد وزیر خان کے نام سے موسوم ہونے کی وجہ سے مسجد وزیر خان کہلاتی ہے۔

بلند و بالا دیواریں اور شاندار گنبد ماہرین فن تعمیر کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

زمانہ کی ستم گریوں کے باوجود یہ عمارت آج بھی اسی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

چوک کے تین محرابی دروازے ہیں۔ اول مشرقی جانب چٹا دروازہ، دوم شمالی جانب راجہ دینا ناتھ کی حویلی سے منسلک دروازہ، سوم شمالی زینے کا نزدیکی دروازہ –

مينار كي بلندي 100 فٹ ہے

یہ عظیم الشان مسجد كي معماري هندي ، مغلي اور اسلامي ہے اور 1634 عیسوی میں مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دورحکومت میں لاہور کے گورنر علم الدین انصاری جو کہ نواب وزیر خان کے نام سے جانے جاتے تھے انہوں نے تعمیر کرائی

اس مسجد کی تعمیرمکمل ہونے میں تقریباً سات سال کا عرصہ لگا۔

کچھ عرصہ پہلے غیر ملکی امداد سے اس مسجد کے دروازے پر خوانچہ فروشوں اور بھکاریوں نے جو ڈیرے ڈال رکھے تھے انہیں ہٹا کر وہاں ثقافتی ورثوں کے تحفظ کے لئے ایک ایسا کرافٹ بازار بنا یا گیا جس کا فن تعمیر، مسجد وزیر خان کے فن تعمیر سے مماثلت رکھتا ہے۔

۲۰۱۲/۰۹/۱۷ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران کی فوجی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل اور تبریت یافتہ جوانوں کی تقریب سے خطاب میں پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نورانی چہرے کی توہین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امت مسلمہ نے صہیونیوں اور سامراجی طاقتوں کی اسلام دشمن پالیسیوں کی شناخت کے پیش نظر امریکہ اور بعض یورپی ممالک کی طرف الزام کی انگلی اٹھائی ہے اور ان ممالک کے حکام کو چاہیے کہ وہ اس قسم کے جنون آمیز اقدامات کی روک تھام کرکے ثابت کریں کہ وہ اس عظیم جرم میں شریک نہیں ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی بیداری کی لہر اور ایران کی عظیم قوم کا مقابلہ کرنے میں دشمنان اسلام کی ناتوانی اور درماندگی کے احساس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ مسئلہ اس بات کا موجب بن گيا کہ دشمنان اسلام حالیہ حادثے جیسے ہولناک جرائم کا دیوانہ وار ارتکاب کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس واقعہ و حادثہ کو تاریخ کی یادگار عبرتوں میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: سامراجی نظاموں کے سربراہان اس ہولناک واقعہ کی مذمت کرنے سے گری‍ز اور اجتناب کرتے ہوئے اس عظيم جرم کے مقابلے میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کررہے ہیں بلکہ اس واقعہ میں ملوث نہ ہونے کا دعوی کررہے ہیں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ ہمارا اس بات پر کوئی اصرار نہیں ہے کہ ہم اس جرم میں ان کے ملوث ہونے کوثابت کریں۔لیکن عالمی رائے عامہ اور اقوام عالم امریکی سیاستدانوں اور بعض یورپی ممالک کی پالیسیوں کی وجہ سے انھیں مجرم اور مقصر سمجھتی ہیں اور انھیں زبانی طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر اپنے آپ کو اس سنگین اور عظیم جرم سے بری الذمہ کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سامراجی اداروں میں اسلام کے خلاف احساسات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انہیں احساسات کی وجہ سے سامراجی طاقتوں نے اسلام اور مقدسات اسلام کی روک تھام نہیں کی اور نہ ہی کریں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے " اسلام کی توہین اور آزادی بیان کے تعارض " کے سلسلے میں امریکی اور مغربی ممالک کے حکام کی گفتگو کو جھوٹ پر مبنی حقائق قراردیتے ہوئے کئی دلائل پیش کئے ۔

مغربی ممالک میں سامراجی حکومتوں کے اصولوں کے خلاف آواز بلند کرناان کی ریڈ لائنزمیں شامل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سوال کیا کہ وہ ممالک جہاں پوری شدت اور طاقت کے ساتھ سامراجی اصولوں کے خلاف بات کرنے سے روکا اور منع کیا جاتا ہو کیا کوئی یقین کرےگا کہ وہاں اسلام اور مقدسات اسلام کی توہین آزادی بیان کے خلاف ہو؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: بہت سے مغربی ممالک میں کسی میں ہمت نہیں کہ وہ ہولوکاسٹ کے مجہول واقعہ کے متعلق بات کرسکے یا غیر اخلاقی پالیسیوں منجملہ ہمجنس بازی کے بارے میں کوئی بیان نشر کرسکے۔مغربی ممالک میں کیوں ایسے مواقع پر آزادی بیان کا کوئی وجود باقی نہیں رہتا، لیکن اسلام اور مقدسات اسلام کی توہین، آزادی کے جھوٹے عنوان کے تحت آزاد ہے؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکیوں کو ڈکٹیٹر پرور قراردیا اور امریکہ کی طرف سے مصر کے ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی دسیوں برس کی حمایت ، ایران کے ڈکٹیٹر محمد رضا پہلوی اور علاقہ کے موجودہ ڈکٹیٹروں کی حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ ڈکٹیٹروں کی حمایت کے اپنے سیاہ کارنامہ کی وجہ سے جمہوریت اور آزادی کا دعوی کیسے کرسکتا ہے؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف ممالک میں امریکہ کے سیاسی اورثقافتی مراکزکی طرف عوام کے احتجاجی مظاہروں کوعالمی اقوام کی امریکہ و صہیونیوں اور ان کی پالیسیوں سے نفرت اور بیزاری کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: قوموں کے دل امریکہ سے بھرے ہوئے ہیں اوراسی وجہ سے جب انھیں موقع ملتا ہے تو وہ حالیہ واقعہ کی مانند اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتی ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: بیشک سامراجی طاقتوں کے ساتھ مقابلہ میں خورشید اسلام ، دین الہی کےہمراہ ہمیشہ کی نسبت مزید درخشاں و تابناک رہےگا اور کامیابی امت مسلمہ کوہی نصیب ہوگی۔

مسلح افواج کے کمانڈر انچیف نے فوجی یونیورسٹیوں کے تربیت یافتہ جوانوں کی حلف برداری اور نشان عطا کرنےکی تقریب سے خطاب میں فوج کےاہم نقش اور نورانی راستے کی طرف اشارہ کرتےہوئے فرمایا: وہ عزیز جوان جو جذبے، عشق اوربصیرت کے ساتھ اس میدان میں وارد ہوتے ہیں انھیں قوم کی شاباش، دنیاوی عزت و سربلندی اور اخروی اجر و ثواب نصیب ہوتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے موجودہ ایران کوپیشرفت ، ترقی، خلاقیت اور نوآوری کا بحر بیکراں قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کی تعمیر وترقی اور اس کو مضبوط بنانے کی بہت بڑی اہمیت ہے اور مسلح افواج کے دوش پر اس سلسلے میں بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

اس تقریب میں جب رہبر معظم انقلاب اسلامی پہنچے تو اس وقت قومی ترانہ پیش کیا گیا،

رہبر معظم انقلاب اسلامی اس کے بعد شہداء کی یادگار پر حاضر ہوئے اورشہداء کو خراج تحسین پیش کیا ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کو اس کے بعد گراؤنڈ میں موجود دستوں نے سلامی پیش کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے غدیر نامی کشتی کے ماڈل اور نمونہ کابھی قریب سے مشاہدہ کیا جسے مقامی سطح پر تیار کیا جارہا ہے۔

موجودہ دور جدید میں امت مسلمہ کو بے شمار چیلنجز در پیش نظر آتے ہیں اور میری نظر میں ان تمام خطرات اور کفار کی ریشہ دوانیوں کی ذمہ دار کافی حدتک خود مسلمان برادری ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ صدیوں سے جب اسلام پھیلا تو لوگوں نے اختلافات کو مزید بڑھا کر آپس میں ہی بڑی جنگیں لڑیں اور سارا نقصان اپنے ہی لوگوں کی وجہ سے امت مسلمہ کو اٹھانا پڑا، کفار کی سازشوں کی بدولت نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اسلامی ممالک نے آپس ہی میں جنگیں لڑیں اور بے شمار مالی وجانی نقصان اٹھایا۔ ان میں عراق کی کویت پر جارحیت اور افغانستان اور پاکستان کی تعلقات میں سرد مہری کا کافی عرصہ سے موجود ہونا اور اس کے علاوہ بھی بے شمار اسلامی ریاستوں کے اختلافات اور جنگ و جدل کی مثالیں موجود ہیں ، اب وقت آن پہنچا ہے کہ ان مذموم کوششوں اور کفار کے ہتھکنڈوں کا منہ توڑ جواب دیا اور وقت کا تقاضا یہی ہے کہ تمام مسلمان ممالک کو خواہ کسی ذات ، رنگ و نسل ، لسانی و طبقاتی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں وہ ان اختلافات سے بالاتر ہوکر انکو سری سے ختم کرکے آپس میں مکمل طور پر یکجہتی و تعاون کا لازوال آغاز کریں اور زندگی کے تمام شعبوں جن میں صحت ، تعلیم، معیشت ، کرنسی، جدید سائنس و ٹیکنالوجی سمیت ہر سطح پر مکمل طور پر آپس میں مدد و معاون کو یقینی بنائیں، بلکہ میری نظر میں مسلم امّہ کو بین الاقوامی آمد و رفت اور ویزہ کی پابندیوں سے آزاد ہوکر صرف ایک عام ٹکٹ جاری کرنا چاہئے تاکہ ہر مسلمان ملک کا معزز شہری ویزہ کے بغیر صرف ایک ٹکٹ خرید کربا آسانی دنیا کے ہر اسلامی ملک میں بلا روک ٹوک جا سکے اور اپنی ذمہ داریاں فروغ اسلام کے لئے سرانجام دے سکیں اور اسکے بعد دوسرا کام یہ امت مسلمہ کو سرانجام دینا چاہئے کہ تمام اسلامی ممالک اپنی کرنسی ایک کردیں اور اسے " اسلامی کرنسی" یا کوئی اور نام دیں اس کی واضح مثال یورپ " یورو" کرنسی کو یورپ میں چلاتا ہے جو کہ ان کے ٹھوس اتحاد و تعاون کا ضامن ہے اس کے بعد جو اہم اور بڑا کام جو اتحاد مسلم ممالک اور تمام دنیائے عالم کے مسلمانوں کو کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ اپنی ایک الگ مضبوط اور موثر یا متحرک بین الاقوامی تنظیم قائم کریں، جو ان تمام اسلامی ممالک کا آپس میں اتحاد و تعاون اور یکجہتی کو یقینی بنانے کا ذریعہ ہے ، اب اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی اور اسلامی ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس جو پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک میں منعقد ہوچکی ہے، ان کی کارکردگی کو بھی بہتر سے بہتر بناکر فیصلہ کن بنانے کی اشد ضرورت ہے ، اسلامی ممالک کو کرنسی ، وسائل ، دولت ، معدنیات ، خوراک ، توانائی و ذرائع مرسل و وسائل اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی اور اسلحہ کی تیاری اور ایٹمی ٹیکنالوجی میں مکمل طور پر خودکفیل ہونا چاہئے اور زندگي میں کسی بھی مسئلہ کو سلجھانے اور آپس میں امداد و تعاون اور یکجہتی اور اسلام کے فروغ کے لئے تمام " اسلامی ممالک" کو اتحاد کرنا چاہئے ۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

نیل کے ساحل سے لے کر تاب خاک کا شغر

اگر ان تمام اقدامات پر امت مسلمہ جو ایک ارب سے زائد ہے، سچّے دل سے عمل کرے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کی رحمت سے مسلمان آنے والے وقت میں صف اوّل کی سب سے بڑی سپرپاور ثابت ہونگے اور تمام دنیا میں دین اسلام کا مکمل غلبہ ہوگا اور باطل نیست و نابود ہوجائے گا جبکہ دین اسلام ایک مضبوط قوت بن کر ابھرے گا ، انشاء اللہ

تحریر: اکرم سیال

ننکانہ صاحب پاکستان

امریکہ میں بننے والی اسلام مخالف فلم پر اسلامی ممالک میں احتجاج میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ اب تک ہونے والے احتجاج میں ایک درجن کے قریب افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔گذشتہ روز لاہور میں آئی ایس او کے نوجوانوں نے امریکی سنٹر پر دھاوا بول کر امریکی پرچم اتار کر اپنا پرچم نصب کردیا ہے اسی طرح لبنان میں ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا جس میں حزب اللہ کے رہنماسید حسن نصراللہ نے شرکت کی اوراحتجاج کو جاری رکھنے کی اپیل کی ۔ حزب اللہ کے رہنماسید حسن نصراللہ کافی عرصے بعد منظر عام پر آئے ہیں جس سے ان مظاہروں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے

جہاں پاکستان میں ہونے والے احتجاج میں ایک شخص جاں بحق ہو گیا وہیں فلپائن کے شہر مراوی میں ہزاروں افراد نے ایک مشتعل جلوس میں شرکت کی۔

پیر کے روز افغانستان کے دارالحکومت میں بھی مشتعل مظاہرین نے پولیس کی گاڑیاں نذر آتش کر دیں اور گولیاں بھی چلائیں۔

ہندوستان کے بعد اب پاکستان میں بھی اس فلم کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس پر پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو انٹرنیٹ پر یہ فلم بند کرنے کا حکم دیا ہے۔

تکیہ ہالہ سلطان (Hala Sultan Tekke) لارناکا کے مغرب میں تقریبا 5 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک بہت ہی ممتاز مسلم مزار ہے-

ام حرم (ترکی: ہالہ سلطان) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دودھ پلائی دایہ اور عبيدة بن الصامت کی بیوی تھیں-

تکیہ ہالہ سلطان ایک مسجد، مزار، مینار، قبرستان، اور مردوں اور عورتوں کے رہنے کے لیے کمروں پر مشتمل ہے-

خیال کیا جاتا ہے کہ ام حرم اپنے شوہر عبيدة بن الصامت کے ہمراہ قبرص پر اس وقت آئیں جب سب سے پہلے عربوں نے معاویہ کے دور میں قبرص پر حملہ کیا-

خلافت عثمانیہ کے دور میں یہاں ایک مسجد اور قبر کے ارد گرد مزار بنایا گیا- مسجد پر متعدد بار حملے ہو چکے ہیں-

24 جولائی 2010 کو اس پر پیٹرول بموں سے حملہ کیا گیا جس سے عمارت کو جزوی نقصان پہنچا-

پاسداران انقلاب کے کمانڈر انچيف نے کہا ہے کہ صيہوني حکومت تباہي کے دہانے پر پہنچ چکي ہے۔

جنرل محمد علي جعفري نے ايک پريس کانفرنس ميں کہا کہ ايران کے خلاف فوجي حملہ ، نہ صرف يہ کہ دشمنوں کے لئے کسي طرح کي کاميابي کا ضامن نہيں ہوگا بلکہ ان کے لئے ايسا کوئي بھي حملہ ، انتہائي نقصان دہ اور تباہ کن ہوگا۔

ايران کي پاسداران انقلاب فورس کے سربراہ نے کہا کہ امريکہ اور اسرائيل ميں ايران کے خلاف مہم جوئي کي طاقت نہيں ہے کيونکہ مقبوضہ فلسطين کے تمام علاقوں کے علاوہ ، علاقے ميں امريکہ کے فوجي اڈے اور چھاؤنياں بھي ، ايراني ميزائيلوں کي رينج ميں ہيں۔ انہوں نے کہا کہ جوابي کارروائي کے لئے ايران کي مسلح افواج کي تياري اس طرح ہے کہ دشمنوں کو بھي اس کي خبر ہے۔

جنرل جعفري نے اسي طرح ميزائل اور جديد فوجي ‎سازو سامان کے نقطہ نگاہ سے ايران کي توانائيوں اور تياري کي جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ايران کي مسلح افواج ، مختلف رينج والے ميزائلوں اور بغير پائلٹ کے طياروں کي وجہ سے يہ طاقت رکھتي ہے کہ ہر قسم کے حملے کا منہ توڑ جواب دے اور دشمنوں کو ان کي حماقت پر پچھتانے پر مجبور کر دے۔

حزب اللہ لبنان کے سيکريٹري جنرل نے ، اقوام متحدہ ميں اديان الہي کي حمايت ميں ايک لازم الاجراء قرارداد منظور کئے جانے کا مطالبہ کيا ہے۔

المنار ٹي وي چينل کے مطابق ، حزب اللہ لبنان کے سيکريٹري جنرل سيد حسن نصر اللہ نے اپني ايک تقرير ميں ، اسلامي مقدسات کي ہتک حرمت کرنے والي فلم کي تياري اورنمائش کي امريکي و صيہوني سازش کي مذمت کرتے ہوئے زور ديا ہے کہ ان حالات ميں ، اسلامي مقدسات کے تحفظ کے لئے اقوام متحدہ ميں ايک لازم الاجراء قرار داد کي منظوري کے لئے اسلامي ممالک کي جانب سے کوشش ايک ضرورت ہے۔

انہوں نے زور ديا ہے کہ آج پيغمبر اعظم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے احترام کا تحفظ ، تمام مقدسات اور اديان اور پيغمبروں کا تحفظ ہے۔

سيد حسن نصر اللہ نے کہا کہ اس فلم کا ايک مقصد ، مسلمانوں اور عيسائيوں کے درميان فتنہ انگيزي اور تصادم ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالم اسلام کو ، امريکہ سے يہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ ، تقريبا ڈيڑھ ارب مسلمانوں کي توہين کرنے والي اس فلم کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ چلائے۔

انہوں نے کہا کہ امريکہ نے آزادي اظہار خيال کے بہانے اس فلم کا جواز پيش کيا ہے ليکن يہ جواز بھي امريکي حکومت کے دوہرے معيار کا ايک اور ثبوت ہے کيونکہ اس حکومت نے واشنگٹن کے خلاف اظہار رائے اور ہولوکاسٹ کي مخالفت کي وجہ سے بہت سے سياسي کارکنوں اور ذرائع ابلاغ کے خلاف مقدمہ چلايا اور انہيں جيل ميں ڈالا ہے۔