
Super User
قرآن مجید میں بعض عورتوں کا تذکرہ
ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ،ام البشر جناب حوا ، آدم علیہ السلام کی (تخلیق سے) بچی ہوئی مٹی سے پیدا ہوئیں۔ جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے: وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجُھَا ۔ "اوراس کا جوڑا اسی کی جنس سے پیدا کیا۔" (نساء:۱) وَمِنْ آیَاتِہ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْکُنُوْا إِلَیْہَا ۔ "اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تمہیں سے پیدا کیا تا کہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو۔" (روم:۲۱)
وَاللہ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا۔ "اللہ نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں۔" (نحل:۷۲) تمہاری ہی مٹی سے پیدا ہونے والی عورت تمہاری طرح کی انسان ہے، جب ماں باپ ایک ہیں تو پھر خیالی اور وہمی امتیاز و افتخار کیوں ؟ اکثر آیات میں آدم اور حوا اکٹھے مذکور ہوئے ہیں ، پریشانی کے اسباب کے تذکرہ میں بھی دونوں کا ذکر باہم ہوا ہے۔ دو آیات میں صرف آدم کا ذکر کر کے واضح کیا گیا ہے کہ اے انسان کسی معاملہ میں حوا کو مورد الزام نہ ٹھہرانا ، وہ تو شریک سفر اور شریک زوج تھی۔ وَلَقَدْ عَہِدْنَا إِلٰی آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہ عَزْمًا ۔ "اور ہم نے پہلے ہی آدم سے عہد لے لیا تھا لیکن وہ اس میں پر عزم نہ رہے۔" (طہ:۱۱۵) قَالَ یَاآدَمُ ہَلْ أَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلٰی ۔ "ابلیس نے کہا اے آدم! کیا میں تمہیں اس ہمیشگی کے درخت اور لازوال سلطنت کے بارے میں نہ بتاؤں۔ (طہٰ:۱۲۵)
آپ لوگوں نے ملاحظہ کیا کہ ان آیات میں حضرت حوا شریک نہیں ہیں اور تمام امور کی نسبت حضرت آدم ہی کی طرف ہے۔ (۲) زوجہ حضرت نوح علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام پہلے نبی ہیں جو شریعت لے کر آئے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے: شَرَعَ لَکُمْ مِّنْ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہ نُوْحًا وَّالَّذِیْ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ۔ "اللہ نے تمہارے دین کا دستور معین کیا جس کا نوح کو حکم دیا گیا اور جس کی آپ کی طرف وحی کی ۔"(شوریٰ :۱۳) حضرت نوح علیہ السلام نے ۹۵۰ سال تبلیغ کی ۔ارشاد رب العزت ہے: وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوْحًا إِلٰی قَوْمِہ فَلَبِثَ فِیْہِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلاَّ خَمْسِیْنَ عَامًا " بتحقیق ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وہ ان کے درمیان ۵۰ سال کم ایک ہزار سال رہے۔" (عنکبوت:۱۴) حضرت نوح کو کشتی بنانے کا حکم ہوا ۔ وَاصْنَع الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا ۔ " اور ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم سے کشتی بنائیں اور حکم ہوا کہ اللہ کے حکم سے کشتی کو بناؤ۔"(ہود:۳۷)
وَقَالَ ارْکَبُوْا فِیْہَا بِاِسْمِ اللہ مَجْرَاًہَا وَمُرْسَاہَاط إِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَحِیْمٌ وَہِیَ تَجْرِیْ بِہِمْ فِیْ مَوْجٍ کَالْجِبَالِ ۔ "اور نوح نے کہا کہ کشتی میں سوار ہو جاوٴ اللہ کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے بتحقیق میرا رب بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے اور کشتی انہیں لے کر پہاڑ جیسی موجوں میں چلنے لگی ۔ (ہود:۴۲۔۴۱) حضرت نوح نے اپنے بیٹے سے کشتی میں سوار ہونے کیلئے کہا اس نے (اور زوجہ نوح نے ) انکار کیا اور کہا میں پہاڑ پر چڑھ جاوٴں گا اور محفوظ رہوں گا۔جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے: یَابُنَیَّ ارْکَبْ مَّعَنَا وَلاَتَکُنْ مَّعَ الْکَافِرِیْنَ قَالَ سَآوِیْ إِلٰی جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَاءِ ط قَالَ لَاعَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللہ إِلاَّ مَنْ رَّحِمَ وَحَالَ بَیْنَہُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ۔ "نوح نے اپنے بیٹے سے کہا ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ رہو اس نے کہا میں پہاڑ کی پناہ لوں گا وہ مجھے پانی سے بچالے گا ۔ نوح ۔ نے کہا آج اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں مگر جس پر اللہ رحم کرے پھر دونوں کے درمیان موج حائل ہو گئی اور وہ ڈوبنے والوں میں سے ہو گیا ۔ (ہود:۴۳۔۴۲) اور کشتی کوہ جودی پر پہنچ کر ٹہر گئی ۔جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے: وَقِیْلَ یَاأَرْضُ ابْلَعِیْ مَائَکِ وَیَاسَمَاءُ أَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَاءُ وَقُضِیَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ ۔ "اور کہا گیا اے زمین اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا ۔ اور پانی خشک کر ہو گیا اور کام تمام ہوگیا اور کشتی کوہ جودی پر ٹھہر گئی اور ظالموں پر نفرین ہو گئی ۔ (ہود :۴۴)
کشتی ہی بچاؤ کا واحد کا ذریعہ تھی۔ قرآن مجید نے حضرت نوح ۔کی زوجہ کو خیانت کار قرا دیا ہے نبی کی بیوی ہونے کے با وجود جہنم کی مستحق بن گئی ۔ ارشاد رب العزت ہے : ضَرَبَ اللہ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَأَةَ نُوْحٍ وَّامْرَأَةَ لُوْطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللہ شَیْئًا وَّقِیْلَ ادْخُلاَالنَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ "خدا نے کفر اختیا رکرنے والوں کیلئے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال دی ہے یہ دونوں ہمارے نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں لیکن ان سے خیانت کی تو اس زوجیت نے خدا کی بارگاہ ان کو میں کوئی فائدہ نہ پہنچایا اور ان کیلئے کہہ دیا گیا کہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی داخل ہو جاؤ۔(تحریم :۱۰) اپنا عمل ہی کامیابی کا ضامن ہے رشتہ داری حتی نبی کا بیٹا ہونا کچھ بھی فائدہ نہیں دے گا ۔ (۳) زوجہ حضرت لوط حضرت لوط ،حضرت ابراہیم کے بھتیجے تھے ان کی قوم سب کے سامنے کھلم کھلا برائی میں مشغول رہتی ۔ لواطت ان کا محبوب مشغلہ تھا ۔ پتھروں کی بارش سے انہیں تباہ کر دیا گیا ۔حضرت لوط۔کی زوجہ بھی تباہ ہونے والوں میں سے تھی جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے : وَلُوْطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِہ أَتَأْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ أَئِنَّکُمْ لَتَأْ تُوْنَ الرِّجَالَ شَہْوَةً مِّنْ دُونِ النِّسَاءِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْہَلُوْنَ فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہ إِلاَّ أَنْ قَالُوْا أَخْرِجُوْا آلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْیَتِکُمْ إِنَّہُمْ أُنَاسٌ یَّتَطَہَّرُوْنَ فَأَنْجَیْنَاہُ وَأَہْلَہ إِلاَّ امْرَأَتَہ قَدَّرْنَاہَا مِنَ الْغَابِرِیْنَ وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ مَّطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ
اور لوط کو یاد کرو جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تم آنکھیں رکھتے ہوئے بدکاری کا ارتکاب کر رہے ہو کیا تم لوگ شہوت کی وجہ سے مردوں سے تعلق پیدا کر رہے ہو اور عورتوں کو چھوڑے جا رہے ہو در حقیقت تم بالکل جاہل لوگ ہو ۔ تو ان کی قوم کا کوئی جواب نہ تھا سوائے اس کے کہ لوط کے خاندان کو اپنی بستی سے باہر نکال دو کہ یہ لوگ بہت پاک باز بن رہے ہیں تو لوط اور ان کے خاندان والوں کو بھی (زوجہ کے علاوہ) نجات دے دی اس (زوجہ) کو ہم نے پیچھے رہ جانے والوں میں قرار دیا تھا اور ہم نے ان پر عجیب قسم کی بارش کر دی کہ جس سے ان لوگوں کو ڈرایا گیاتھا ان پر(پتھروں) کی بارش بہت بری طرح برسی ۔ " (نمل، ۵۴ تا ۵۵)
حضرت لوط کی زوجہ خیانت کار نکلی اور عذاب میں مبتلا ہوئی جیسا کہ حضرت نوح ۔کی زوجہ کا حا ل ہوا جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے ۔ ضَرَبَ اللہ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَأَةَ نُوْحٍ وَّاِمْرَأَةَ لُوْطٍ "خدا نے کفر اختیا رکرنے والوں کیلئے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال دی ہے۔" (تحریم :۱۰) زوجہ نوح کی طرح زوجہ لوط بھی ہلاک ہو گئی ۔ (۴) زوجہ حضرت ابراہیم - حضرت ابراہیم خلیل اللہ عظیم شخصیت کے مالک ہیں انہیں جد ّالانبیاء سے تعبیر کیا گیا ہے اورتمام ادیان ان کی عظمت پر متفق ہیں۔ حضرت ابراہیم کی قوم بت پرست تھی دلائل و براہین کے ساتھ انہیں سمجھایا پھر ان کے بتوں کو توڑا توبت شکن کہلائے ۔ ان کو آگ میں ڈالا گیا تو وہ گلزار بن گئی۔ خواب کی بنا پربیٹے کو ذبح کرنا چاہا تو اس کا فدیہ ذبح عظیم فدیہ کہلایا ۔ ابراہیم خانہ کعبہ کی تعمیرکی اور مکہ کی سر زمین کو آباد کیا ۔ ہمارا دین ،دین ابراہیم سے موسوم ہوا ۔ ان کی بت شکنی کے متعلق ارشاد رب العزت ہو رہا ہے : وَتَاللہ لَأَکِیْدَنَّ أَصْنَامَکُمْ بَعْدَ أَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِینَ فَجَعَلَہُمْ جُذَاذًا إِلاَّ کَبِیْرًا لَّہُمْ لَعَلَّہُمْ إِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ قَالُوْا أَنْتَ فَعَلْتَ ہَذَا بِآلِہَتِنَا یَاإِبْرَاہِیْمُ قَالَ بَلْ فَعَلَہ کَبِیْرُہُمْ ہَذَا فَاسْأَلُوْہُمْ إِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ ۔ فَرَجَعُوْا إِلٰی أَنْفُسِہِمْ فَقَالُوْا إِنَّکُمْ أَنْتُمُ الظَّالِمُوُنَ ثُمَّ نُکِسُوْا عَلٰی رُئُوْسِہِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا ہٰؤُلَاءِ یَنْطِقُوْنَ۔ "
اور اللہ کی قسم جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے ان بتوں کی خبر لینے کی ضرور تدبیرسوچوں گا چنانچہ حضرت ابراہیم نے ان بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا سوائے ان کے بڑے (بت ) کے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں ۔ (انبیاء ۵۷ں۵۸) کہا اے ابراہیم !کیاہمارے ان بتوں کا یہ حال تم نے کیا ہے؟ ابراہیم نے کہا بلکہ ان کے اس بڑے (بت) نے ایسا کیا ہے تم ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں ( یہ سن کر) وہ ضمیر کی طرف پلٹے او ر دل ہی دل میں کہنے لگے حقیقتاً تم خود ہی ظالم ہو پھر انہوں نے اپنے سروں کو جھکا دیا اور (ابراہیم سے) کہا تم جانتے ہو کہ یہ نہیں بولتے ۔ (انبیاء۔۶۲تا۶۵) نمردو کے حکم سے اتنیآگ روشن کی گئی کہ اس کے اوپر سے پرندہ نہیں گزر سکتا تھا۔پھر ابراہیم کو گوپھن میں رکھ کرآگ میں ڈال دیاگیا۔ مزید ارشاد فرمایا: قَالُوْا حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْا آلِہَتَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ فَاعِلِیْنَ قُلْنَا یَانَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ ۔ "وہ کہنے لگے اگر تم کو کچھ کر نا ہے تو اسے جلا دو اور اپنے خداوٴں کی نصرت کرو ۔ہم نے کہا اے آگ تو ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کیلئے سلامتی بن جا ۔" (انبیاء :68-69)
ابراہیم و نمرود کا مباحثہ أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْ حَاجَّ إِبْرَاہِیْمَ فِیْ رَبِّہ أَنْ آتَاہُ اللہ الْمُلْکَ إِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ رَبِّی الَّذِیْ یُحْیِی وَیُمِیْتُ قَالَ أَنَا أُحْیی وَأُمِیْتُ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ فَإِنَّ اللہ یَأْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیْ کَفَرَ وَاللہ لَایَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ۔ "کیا تم نے اس شخص کا حال نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے ان کے رب کے بارے میں اس بناء پر جھگڑا کیا کہ اللہ نے اسے اقتدار دے رکھا تھا جب ابراہیم نے کہا میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے تو اس نے کہا زندگی او رموت دینا میرے اختیار میں بھی ہے ابراہیم نے کہا اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کے دکھا! یہ سن کر وہ کافر مبہوت ہوکر رہ گیا اور اللہ ظالموں کی راہنمائی نہیں کرتا۔" (بقرہ:۲۵۸) حضرت ابراہیم اسماعیل اور ہاجرہ کو مکہ چھوڑ آئے تو ارشاد فرمایا : رَبَّنَا إِنِّی أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ۔ "اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے نزدیک ایک بنجر وادی میں بسایاہے۔" (ابراہیم:۳۷)
خواب کی وجہ سے اسماعیل کا ذبح ارشاد رب العزت ہے: قَالَ یَابُنَیَّ إِنِّیْ أَرٰی فِی الْمَنَامِ أَنِّیْ أَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَاأَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاءَ اللہ مِنَ الصَّابِرِیْنَ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہ لِلْجَبِیْنِ وَنَادَیْنَاہُ أَنْ یَّاإِبْرَاہِیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْبَلاَءُ الْمُبِیْنُ وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ۔ " ابراہیم نے کہااے بیٹا !میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں پس دیکھ لو تمہاری کیا رائے ہے اسماعیل نے کہا اے ابا جان ! آپ کو جو حکم ملا ہے اسے انجام دیں اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبرکرنے والوں میں پائیں گے۔پس جب دونوں نے حکم خدا کو تسلیم کیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا تو ہم نے ندا دی اے ابراہیم ! تو نے خواب کو سچ کر دکھایاہے۔ بیشک ہم نیکوکاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں ۔یقینا یہ بڑا سخت امتحان تھا۔ہم نے ایک عظیم قربانی سے اس کا فدیہ دیا۔
حقوق نسواں
عورت
عورت (عربی سے ماخوذ. انگریزی: Woman) یا زن (فارسی سے زنانہ) مادہ یا مؤنث انسان کو کہاجاتا ہے.
عورت یا زنانہ بالغ انسانی مادہ کو کہاجاتا ہے جبکہ لفظ لڑکی انسانی بیٹی یا بچّی کیلیے مستعمل ہے. تاہم، بعض اوقات، عورت کی اِصطلاح تمام انسانی مادہ نوع کی نمائندگی کرتی ہے.
عورت تاریخ کے ہر دور میں مرد کےتابع رہی ہے۔ موجودہ زمانہ میں ترقی یافتہ ملکوں میں عورت اور مرد کومساوی بنانے کی کوشش کی گئی ۔مگر عملا یہ فرق ختم نہ ہوسکا۔ عورت کو مغربی سماج میں آج بھی وہی دوسرا درجہ حاصل ہے جو قدیم زمانہ میں اس کو حاصل تھا۔ جدید تحقیقات نے بتایا کہ دونوں صنفوں کے درمیان اس فرق کا سبب حیاتیات میں ہے۔یعنی دونوں کی حیاتی بناوٹ میں فرق ہے۔ اس لیے معاشرہ کے اندر بھی دونوں کے درجہ میں فرق ہوجاتاہے۔اب مساوات مرد وزن کے حامی ڈارونزم کے تحت اس کی توجیہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عورت ارتقائی عمل میں زیادہ ابتدائی درجہ میں رہ گئی۔جب کہ ڈارون نے خود کہاہے کہ : مرد با لآخر عورت کے مقابلہ میں برتر ہوگیا،
Women remained at a more primitive stage of evolution.As Darwin himself put it, Man has ultimately become superior to women." [1]
عورت اور اسلام
اسلام انسانیت کے لیے تکریم، وقار اور حقوق کے تحفظ کا پیغام لے کر آیا۔ اسلام سے قبل معاشرے کا ہر کمزور طبقہ طاقت ور کے زیرنگیں تھا۔ تاہم معاشرے میں خواتین کی حالت سب سے زیادہ ناگفتہ بہ تھی۔ تاریخِ انسانی میں عورت اور تکریم دو مختلف حقیقتیں رہی ہیں۔ قدیم یونانی فکر سے حالیہ مغربی فکر تک یہ تسلسل قائم نظر آتا ہے۔ یونانی روایات کے مطابق پینڈورا (Pandora) ایک عورت تھی جس نے ممنوعہ صندوق کو کھول کر انسانیت کو طاعون اور غم کا شکار کر دیا۔ ابتدائی رومی قانون میں بھی عورت کر مرد سے کمتر قرار دیا گیا تھا۔ ابتدائی عیسائی روایت بھی اسی طرح کے افکار کی حامل تھی۔ سینٹ جیروم نے کہا: (St. Jerome)
"Woman is the gate of the devil, the path of wickedness, the sting of the serpent, in a word a perilous object."
مغرب میں عورت کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایک طویل اور جاں گسل جدوجہد سے گزرنا پڑا۔ نوعی امتیاز کے خلاف عورت کے احتجاج کا اندازہ حقوق نسواں کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین کی طرف سے عورت کے لیے womyn کی اصطلاح کے استعمال سے ہوتا ہے جو انہوں نے نوعی امتیاز (Gender Discrimination) سے عورت کو آزاد کرنے کے لیے کیا۔ مختلف اَدوار میں حقوق نسواں کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین میں (1820-1906) ۔Susan B. Anthony کا نام نمایاں ہے جس نے National Woman's Suffrage Association قائم کی۔ اور اسے 1872ء میں صرف اس جرم کی پاداش میں کہ اس نے صدارتی انتخاب میں ووٹ کا حق استعمال کرنے کی کوشش کی، جیل جانا پڑا۔ صدیوں کی جدوجہد کے بعد 1961ء میں صدر John Kennedy نے خواتین کے حقوق کے لیے کمیشن قائم کیا جس کی سفارشات پر پہلی مرتبہ خواتین کے لیے fair hiring paid maternity leave practices اور affordable child care کی منظوری دی گئی۔ سیاسی میدان میں بھی خواتین کی کامیابی طویل جدوجہد کے بعد ممکن ہوئی۔ Jeanette Rankin of Montana پہلی مرتبہ 1917ء میں امریکی ایوان نمائندگان کی رکن منتخب ہو سکی۔
جب کہ اسلام کی حقوق نسواں کی تاریخ درخشاں روایات کی امین ہے۔ روزِ اول سے اسلام نے عورت کے مذہبی، سماجی، معاشرتی، قانونی، آئینی، سیاسی اور انتظامی کرادر کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس کے جملہ حقوق کی ضمانت بھی فراہم کی۔ تاہم یہ ایک المیہ ہے کہ آج مغربی اہل علم جب بھی عورت کے حقوق کی تاریخ مرتب کرتے ہیں تو اس باب میں اسلام کی تاریخی خدمات اور بے مثال کردار سے یکسر صرف نظر کرتے ہوئے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔ اسلام نے مرد کی طرح عورت کوبھی عزت، تکریم، وقار اور بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہوئے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھی جہاں ہر فرد معاشرے کا ایک فعال حصہ ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں خواتین اسلام کے عطا کردہ حقوق کی برکات کے سبب سماجی، معاشرتی، سیاسی اور انتظامی میدانوں میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کو اِرتقاء کی اَعلیٰ منازل کی طرف گامزن کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی زندگی میں خواتین کے کردار کا مندرجہ بالا تذکرہ اس کی عملی نظیر پیش کرتا ہے۔
جامع القیروان الاکبر – قیروان شهر ؛ تیونس
جامع القیروان الاکبر - تیونس کی قدیم اور اہم مساجد میں سے ایک ہے۔ اسے جامع عقبہ بن نافع بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ اسے عقبہ بن نافع نے 670ء (50ھ) بنایا تھا جب قیروان شہر کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ قیروان اب تیونس کا ایک مشہور شہر ہے۔
جنوبی صحن
اس مسجد کا رقبہ 9000 مربع میٹر ہے اور اس کا طرزِ تعمیر بعد میں المغرب (تیونس، مراکش وغیرہ) اور ہسپانیہ میں مزید مساجد (مثلاً جامعہ قرویین اور مسجد قرطبہ) میں استعمال کیا گیا۔
ایک زمانے میں اس مسجد کو ایک جامعہ (یونیورسٹی) کا درجہ حاصل تھا کیونکہ یہاں دینی اور دنیاوی تعلیم دی جاتی تھی اور اس مسجد میں مذہبی اور دیگر دانشور اکٹھا ہوتے تھے مگر بعد میں دانشوران اس کی جگہ جامعہ زیتونیہ (زیتونیہ یونیورسٹی) چلے گئے جو 737ء میں قائم ہوئی تھی اور آج بھی قائم ہے۔
نماز کی جگہ اور منبر (پرانا تصویر 1930 میں )
اس کی بنیاد عقبہ بن نافع نے 670ء (50ھ) میں رکھی۔ اس تعمیر کو بربروں نے تباہ کر دیا۔ 80ھ میں حسان بن نعمان الازدی الغسانی (افریقہ کی کچھ فتوحات کے قائد) نے پھر تعمیر کیا اور محراب کا اضافہ بھی کیا مگر زیادہ تعمیر اور موجودہ ڈھانچہ غلبی خاندان کا کارنامہ ہے۔ زیادۃ اللہ بن اغلب نے 221ھ میں مسجد کی توسیع کی اور ستون بنوائے۔ احمد بن محمد الاغلبی نے 248ھ میں منبر و محراب کی تزئین و آرائش کی۔ 261ھ میں بڑے صحن کا اضافہ ہوا۔ المعز بن بادیس نے 441ھ میں مسجد میں کچھ ترمیم کی۔
مشرقی طرف سے بیرونی دیوار
اس کی تعمیرات اب تک موجود ہیں۔ مگر بنیادی ڈھانچہ وہی ہے جو اغلبیوں نے تعمیر کروایا تھا۔ مسجد کا زیادہ تر حصہ نویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس وجہ سے یہ قدیم ترین مساجد میں شمار ہوتا ہے۔ زیادہ ڈھانچہ ابراہیم بن احمد الاغلبی کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔
یہ مسجد قلعہ نما ہے۔ اس کی دیواریں 1.9 میٹر موٹے پتھروں سے بنی ہیں جو اس زمانے کے حساب سے بھی زیادہ ہے۔ داخلی دیوار 138 میٹر لمبی ہے جبکہ اس کے بالمقابل دوسری دیوار 128 میٹر لمبی ہے۔
مسجد کا مینار
مینار کے ساتھ والی دیوار 71 میٹر لمبی جبکہ اس کے بالمقابل دیوار 77 میٹر لمبی ہے۔ داخلی دروازے سے صحن تک آپ ایک لمبے راہداری کی مدد سے جا سکتے ہیں۔
نماز کی جگہ کے قریب کچھ ستون
مگر اس کے علاوہ پانچ مزید دروازے ہیں۔ صحن کے درمیان ایک تالاب ہے جس میں بارش کا پانی نتھر (فلٹر) کر ایک زیرِ زمین پانی کے ذخیرے میں چلا جاتا تھا۔ یہ اب بھی ہوتا ہے مگر اب وضو کے لیے پانی کا وافر بندوبست ہے اور بارش کے پانی کی ضرورت نہیں پڑتی۔
نماز کے ہال میں 14 مختلف دروازے کھلتے ہیں اور اس میں 400 سے زیادہ ستون ہیں۔ مشہور ہے کہ اس مسجد کے ستونوں کو آپ اندھا ہوئے بغیر گن نہیں سکتے۔
نماز کی جگہ
مسجد کا منبر اسلامی دنیا کا قدیم ترین منبر ہے کیونکہ یہ اسی حالت میں نویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ایک مضبوط لکڑی (ٹیک کی لکڑی) کا بنا ہوا منبر ہے۔
نماز کی جگہ اور منبر
مسجد کا مینار دنیا کا چوتھا قدیم ترین مینار ہے۔ یہ گیارہ سو سال سے اسی طرح کھڑا ہے۔ اگرچہ اس کی نچلی منزلیں اس سے بھی پرانی ہیں (تقریباً تیرہ سو سال پرانی) اور آخری منزل گیارہ سو سال پہلے تعمیر کی گئی تھی۔ اس کی لمبائی 31.5 میٹر ہے اور اس کی تین منزلیں ہیں۔ پہلی منزل 10.5 میٹر اونچی ہے۔
رات کو مینار کا ایک خوبصورت منظر
امام ابوحنیفہ فکر و عمل کی روشنی میں
ابوحنیفہ کی ولادت ۸۰ ہجری میں عبدالملک بن مروان کے عہد میں کوفہ میں ہوئی ۔ ان کا خاندان تاجر پیشہ اور مالدار خاندان تھا ، یہ خود بھی تاجر تھے اور ریشمی کپڑے کی تجارت کرتے تھے ، ان کے ماتحت بہت سے لوگ کام کرتے تھے ۔
اسلامی مذاہب کی پیروی کرنے والوں کی شناخت اور ائمہ مذاہب کے مشترک روابط کی طرف توجہ کرنا جو کہ سب کے سب ہم عصر تھے یا ایک دوسرے کے زمانہ سے نزدیک تھے، مختلف مذاہب کی پیروی کرنے والوں کے دل سے کدورت اور حسادت دور کرنا کا بہترین ذریعہ ہے اور ان کے درمیان صلح و سلامتی اور اتحاد ایجاد کرنے کیلئے بہترین راستہ ہے کیونکہ تمام مذاہب کا تعلق ایک دین سے ہے اور یہ سب امت اسلام سے وابستہ ہیں ۔
اس سلسلہ میں فقہ، حدیث اور کلام میں اسلامی مذاہب کے مشترک مآخذ اور منابع کا مطالعہ، ان مذاہب کے راہنماؤں کے اسایتد، مشایخ اور شاگردوں کی سوانح حیات سے ایک بنیادی سبق ملتا ہے ۔
اس مقالہ میں امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کی شخصیت اور افکار کا تعارف اور اہل بیت پیغمبر اکرم کے مذہب کے راہنماؤں کے ساتھ ان کے برتاؤ کے متعلق بحث کریں گے اور بتائیں گے کہ یہ بزرگ شخصیت جو کہ خود مسلمانوں کے ایک گروہ کے راہنما تھے اور ہیں ، انسانی رفتار و کردار اور بہترین درس و تحقیق سے برخوردار تھے ، ان کا شمار اہل بیت کے دوستوں میں ہوتا تھا اوریہ ائمہ (علیہم السلام) سے بہت زیادہ قریب تھے ۔
امام ابوحنیفہ کی فردی خصوصیات
ابوحنیفہ نعمان بن ثابت بن نعمان (زوطی) بن مرزبان (ماہ)، مذہب حنفی کے امام تھے ، ان کے مذہب کے ماننے والے آج پوری دنیا میں سب سے بڑے اسلامی فرقہ کے عنوان سے یاد کئے جاتے ہیں اسی وجہ سے ان کو امام اعظم کا لقب دیا گیا ہے ۔
ان کے داد ”زوطی“ بن مرزبان (ماہ) ایرانی تھے ، مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں اسیر ہو کر عراق چلے گئے تھے ۔
ان کے دادا ”زوطی“ کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے امام علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے زمانہ میں عید نوروز کی مناسبت سے آپ کو ہدیہ کے طور پر فالودہ دیا تھا ، آپ نے فرمایا : ”نوروز لنا کل یوم“ ۔ اور ان کے لئے دعاء کی کہ خدایا ان کو اور ان کے خاندان کو برکت عطاء فرما(مدبک ، ج ۱۱، ص ۱۰) ۔
ابوحنیفہ کی ولادت ۸۰ ہجری میں عبدالملک بن مروان کے عہد میں کوفہ میں ہوئی ۔ ان کا خاندان تاجر پیشہ اور مالدار خاندان تھا ، یہ خود بھی تاجر تھے اور ریشمی کپڑے کی تجارت کرتے تھے ، ان کے ماتحت بہت سے لوگ کام کرتے تھے ۔
آپ بہت ہی خوش لباس ، باوقار، ثروت مند اور سخی انسان تھے اور آپ فقراء کی مدد کرنے کے علاوہ فقہاء، شیوخ اور محدثین کی مدد بھی کرتے تھے ۔
ابوحنیفہ بہت زیادہ سفر کرتے تھے ، کئی مرتبہ حج کرنے کیلئے بیت اللہ الحرام گئے اور ۱۳۰ ہجری کے بعد ایک مدت تک حرمین شریفین کے مجاور رہے ۔
ابوحنیفہ کی فکری شخصیت
ابوحنیفہ نے اس دوران زندگی بسر کی جس وقت اسلامی فتوحات کے ذریعہ بہت سے ممالک پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوتی جارہی تھی اور مختلف قومیں اور ملتیں، مختلف تہذیب و ثقافت کے ساتھ ان کی سیاسی، فکری اوراجتماعی زندگی میں داخل ہو رہے تھے ۔ عربی ،ایرانی، عیسائی ، رومی اور یونانی تہذیب و ثقافت کا مرکز شہر کوفہ تھا ، فارسی او رایرانی قوم کی حالت (کہ ابوحنیفہ کاتعلق بھی انہی سے تھا) اسلام کی دنیا میں ایسی تھی کہ عرب ان کو اپنے دوسرے درجہ کے شہری کا رتبہ دیتے تھے اور حکومت کے اہم کاموں میں ان کو دخل اندازی کرنے کا کوئی حق نہیں تھا ،حکومت اور جنگ کے کاموں کو خود انجام دیتے تھے اور پست و خستہ کردینے والے کام دوسرے درجہ کے لوگوں سے انجام دلاتے تھے ،اس کی وجہ سے ان کو اس بات کا موقع مل گیا تھا کہ وہ اپنے با استعداد اور مستعد افراد کو علم و دانش حاصل کرنے میں مشغول کرسکیں، ان میں سے کچھ افراد علم کلام، فقہ اور دوسرے اسلامی علوم میں بہت ہی برجستہ اور بہترین عالم بن گئے ۔
ابوحنیفہ بھی انہیں افرادمیں سے ایک تھے ،انہوں نے اپنی زندگی کے آغاز میں قرآن کریم حفظ کیا اور شعبی کی نصیحت کی وجہ سے تجاری کاموں کو کم کرکے علم و دانش حاصل کرنے میں مشغول ہو گئے ۔
ابوحنیفہ اور علم کلام
امام ابوحنیفہ نے مدرسہ میں داخل ہونے کے بعد پہلے لکھنا پڑھنا سیکھا اس کے بعد ادبیات اور علم کلام وغیرہ حاصل کیا اور اس علم میں ان کو پورے شہر میں شہرت حاصل ہوگئی ۔ انہوں نے شہر کوفہ میں اس علم کو حاصل کیا جو اس وقت مختلف کلامی افکار و نظریات اور مختلف تہذیب و ثقافت جیسے ایرانی، عربی، رومی، عیسائی، اسلامی اور زردستی تہذیب کا مرکز تھا ۔ اور مختلف نظریات کے علماء سے مناظرہ اور گفتگو کی ۔ انہوں نے اس کام کے لئے متعدد بار بصرہ کا سفر کیا اور خوارج، معتزلہ، اور دوسرے فرقوں سے بحث و مناظرہ کیا اوراسی زمانہ میں انہوں نے صرف و نحو ، شعر اور حدیث سے آشنائی حاصل کی ۔
علم فقہ حاصل کرنا
ابھی ابوحنیفہ کی عمر بیس یا بائیس سال کی تھی جب آپ نے علم فقہ کرنا شروع کیا اور اس زمانہ میں انہوں نے مشہور اور نامدار فقہاء سے علم فقہ حاصل کیا اس کے علاوہ علم فقہ حاصل کرنے کیلئے متعدد سفر کئے جس سے ان کو بہت سے تجربے حاصل ہوئے ۔
ان کے فقہ کے اصلی استاد حماد بن ابی سلیمان ہیں جن سے ابوحنیفہ بہت زیادہ متاثرہیں ۔
ابوحنیفہ نے اٹھارہ سال یعنی ۱۰۲ ہجری سے ۱۲۰ ہجری تک حماد سے علم حاصل کیا اور ان کے علم فقہ سے بہت زیادہ استفادہ کیا ۔
جس وقت ۱۲۰ ہجری میں حماد کا انتقال ہوا تو ابوحنیفہ ان کی جگہ پر بیٹھ گئے اور اپنے شاگردوں کی تربیت کرنے لگے ۔
ابوحنیفہ کی فقہ کی خصوصیت رائے و گمان ، قیاس اور استحسان پر عمل کرنا ہے ، اس لحاظ سے وہ اہل حدیث کے مد مقابل تھے ۔ ابوحنیفہ کی رائے ، قیاس اور استحسان کی طرف مائل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ کوفہ پر علوم عقلی حاکم تھے اور کوفہ کے بہت کم لوگوں کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی احادیث پر دسترسی حاصل تھی۔
ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی
امام ابوحنیفہ نے اموی حکومت میں ۵۲ سال اور عباسی حکومت میں ۱۸ سال زندگی بسر کی ، اگر چہ انہوں نے حکومت کے خلاف کسی بھی قیام میں شرکت نہیں کی لیکن قلبی اعتبار سے علویوں کی طرفداری کرتے تھے اور مختلف طرح سے ان کا ساتھ دیتے تھے ۔خاندان پیغمبر اکرم سے ان کو اس قدر محبت تھی کہ بعض لوگ ان کو زیدی شیعہ سمجھتے تھے ، وہ جنگ جمل میں علی (علیہ السلام) کو حق پر سمجھتے تھے ،طلحہ اور زبیر کو خطاء و غلطی کرنے والوں میں شمار کرتے تھے ۔ ان سے نقل ہوا ہے : ” ما قاتل احد علیا الا و علی اولی بالحق منہ“ ۔ کسی نے بھی علی سے جنگ نہیں کی مگر یہ کہ علی ان میں سب سے زیادہ حقدار اور سزاور تھے ۔
الازہر یونیورسٹی کے بزرگ شیخ اور فقہ مقارن کے استاد محمد ابو زہرہ نے اسلامی مذاہب کے راہنماؤں کے متعلق ایک کتاب لکھی ہے ،اس کتاب میں ان کے متعلق لکھا ہے :
”ان ابا حنیفہ شیعی فی میولہ و آرائہ فی حکام عصرہ، ای انہ یری الخلافة فی اولاد علی من فاطمة، و ان الخلفاء الذین عاصروہ قد اغتصبوا الامر منھم و کانوا لھم ظالمین“ ۔ ابوحنیفہ اپنے زمانہ کے حکام کے برخلاف شیعہ افکار ونظریات کی طرف مائل تھے ، وہ خلافت کو علی بن ابی طالب اور حضرت زہرا (علیہما السلام) کی اولاد کا حق سمجھتے تھے اور اپنے زمانہ کے خلفاء کو علی اور فاطمہ (علیہما السلام) کی اولاد کا حق غاصب کرنے والے اور ان پر ظلم کرنے والے شمار کرتے تھے (الامام ابوحنیفہ ، حیاتہ و عصرہ، آراؤہ و فقھہ، ص ۱۴۷) ۔
بنی امیہ کے ساتھ جنگ میں علویوں کی حمایت
ابوحنیفہ ، اولاد علی کے طرفدار تھے اور ان سے محبت کرتے تھے ۔ اسی وجہ سے وہ بنی امیہ سے حسد کرتے تھے کیونکہ بنی امیہ نے علویوں پر بہت زیادہ ظلم کیا تھا ۔ وہ حکومت میں بنی امیہ کے کسی حق کے قائل نہیں تھے اور ان کے کسی منصب کو انہوں نے قبول نہیں کیا ۔
موفق مکی خوارزمی نے ابوحنیفہ کے فضائل و مناقب میں کہا ہے : اموی حکومت کے عہد میں کوفہ کا والی ،یزید بن عمر بن ہبیرہ تھا،اس کے زمانہ میں عراق میں ایک فتنہ برپا ہوا تو اس نے تمام فقہاء کو جمع کیا ان میں ابن ابی لیلی ، ابن شبرمہ اور داؤد بن ہند بھی تھے ،ان میں سے ہر ایک کو منصب و عہدہ سے نوازا، اس کے بعد ابوحنیفہ کو بلوایا اور اس کا ارادہ تھا کہ حکومت کی مہر ان کے ہاتھ میں دیدے تاکہ جو بھی وہ ارادہ کرے اور جو بھی خط لکھے اس پر ابوحنیفہ مہر لگائے ۔
ابوحنیفہ نے قبول نہیں کیا ۔ ابن ہبیرہ نے قسم کھائی کہ اگرانہوں نے قبول نہیں کیا تو میں ان کو ماردوں گا ۔ مجلس میں موجود فقہاء نے بھی ان کو نصیحت کی اورقسم دی کہ اس کو قبول کرلو ۔ ابوحنیفہ نے کہا میں کس طرح قبول کروں کیا میں بے گناہوں کے قتل پر دستخط کروں؟
ابن ہبیرہ نے ان کو قید خانہ میں ڈال دیا اور قید خانہ کا سردار روزانہ ان کے کوڑے لگاتا تھا ، بہر حال کسی نہ کسی طرح ابوحنیفہ قیدخانہ سے باہر نکلے اور مکہ کی طرف بھاگ گے اور امویوں کے آخری زمانہ تک مکہ میں زندگی بسر کرتے رہے (مکی، ص ۲۳ و۲۴) ۔
آل علی کے جو انقلابی ، بنی امیہ سے جنگ کرتے تھے ابوحنیفہ ان کی مدد کرتے تھے ۔
ابن البزازی نے ابوحنیفہ کے فضائل و مناقب میں کہا ہے :
جس وقت زید بن علی نے ہشام بن حکم پر خروج کیا توابوحنیفہ نے کہا : ” ضاھی خروجہ خروج رسول اللہ یوم بدر“ ۔ ان کا قیام ،جنگ بدر میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے قیام سے مشابہ ہے ۔ ان سے کہاگیاتو آپ نے ان کے قیام کی مدد کیوں نہیں کی؟ انہوں نے کہا : لوگوں کی امانتیں میرے پاس تھیںمیں نے ابن ابی لیلی کو سونپنا چاہی تو انہوں نے قبول نہیں کی۔ میں ڈر گیا کہ اگر اس واقعہ میں قتل ہوگیاتو لوگوں کی امانتیں مجہول رہ جائیں گی ۔ نیز کہا : اگر مجھے معلوم ہوتا کہ لوگ ان کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے جس طرح ان کے والد کو اکیلاچھوڑ دیا تھا تو ان کے ساتھ جہاد میں شرکت کرتا ، کیونکہ وہ امام برحق ہیں ۔ لیکن میں ان کی مالی مدد کرتا ہوں ۔ ابوحنیفہ نے دس ہزار درہم (اور ایک قول کے مطابق تین ہزار درہم) زید کے لئے بھیجے اور اپنے سفیر سے کہا کہ میری طرف سے ان سے معذرت کرنا (ابن بزازی ، ج ۱، ص ۵۵) ۔
بنی عباس کے زمانہ میں علویوں کی حمایت
بنی عباس کی حکومت سے ابوحنیفہ خوشحال تھے اور ان کی حمایت بھی کی کیونکہ وہ ان کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے خاندان اور بنی علی کے خونخواہ سمجھتے تھے ۔ انہوں نے علویوں کی مظلومیت کودیکھی تھی اور عباسی حکومت کو شیعہ حکومت سمجھتے تھے جو ہاشمی خاندان سے کھڑے ہوئے تھے اور اپنے چچازاد بھائیوں سے محبت کرتے تھے ۔ ابوحنیفہ کو امید تھی کہ بنی عباس ، علویوں کے ساتھ انصاف سے پیش آئیں گے اور ان پر ظلم کرنے والوں سے انتقام لیںگے ۔ اس وجہ سے فطری سی بات تھی کہ بنی عباس کے حکومت میں آنے سے وہ مطمئن ہوگئے اور ان کی بیعت کرلی ۔ مناقب مکی میں بیان ہوا ہے :
جس وقت ابوالعباس سفاح کوفہ آیا تو ابوحنیفہ بھی کوفہ میں تھے،اس نے علماء کو اکھٹا کیا اور ان سے بیعت لی۔ تمام فقہاء ،ابوحنیفہ کی طرف دیکھنے لگے ۔ ابوحنیفہ نے اپنی اورتمام علماء کی طرف سے کہا : الحمدللہ الذی بلغ الحق من قرابة نبیہ و امات عنا جور الظلمة و بسط الستنا بالحق قد بایعناک علی امر اللہ والوفاء لک بعھدک الی قیام الساعة فلا اخلی اللہ ھذا الامر من قرابة نبیہ ․․․۔میںخدا کا شکر ادا کرتا ہوں کے انہوں نے حق کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے رشتہ داروں میں پہنچایا اور ہمارے ظالموں کوقتل کیا اور حق بیان کرنے کیلئے ہماری زبان کوکھولا ، ہم نے خدا کے حکم سے تمہاری بیعت کی ہے اور قیامت تک ہم اس عہد پر باقی رہیں گے ،خداوند عالم اس امر کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے خاندان سے دور نہ کرے (مکی ، ج ۲،ص ۱۵۱ ۔ ابن بزازی ، ج ۲، ص ۲۰۰) ۔
ابوحنیفہ ، عباسی حکومت کے ساتھ رہے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ وہ اولاد علی پر ظلم کررہے ہیں اور ان کے درمیان دشمنی ہوگئی ہے ، خاص طور سے اس وقت جب محمد بن عبداللہ بن حسن معروف بہ نفس زکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم نے منصور کے خلاف قیام کیا ۔ یہ دونوں ابوحنیفہ کے شاگرد تھے اور ابوحنیفہ ان سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اوران کے مقابلہ میں تمام علویوں سے تعصب کرتے تھے ۔ ابوحنیفہ نے ان دونوںبھائیوں کی حمایت کی اور لوگوں کوبھی ان کی حمایت کرنے کی تشویق و ترغیب کی اور جس کا بھائی ، ابراہیم کے ساتھ شہید ہوا تھا ، اس سے کہا :
”قتل اخیک حیث قتل یعدل قتلہ لو قتل یوم بدر و شہادتہ خیر لہ من الحیاة“ ۔ جہاں پر تمہارے بھائی شہید ہوئے ہیں ان کا درجہ بدر کے شہداء کے برابر ہے اور ان کی یہ شہادت ان کی زندگی سے بہتر ہے ۔
بہرحال جب منصور نے محمد نفس زکیہ اور ان کے بھائی کو قتل کردیا تو ابوحنیفہ نے عباسیوں کی طرف سے منہ موڑ لیا اور ان کی مخالفت کرنے لگے ،اور یہ نہیں بلکہ وہ اپنی مخالفت کو منبر اور درس کے درمیان سب کے سامنے ظاہر کرتے تھے ۔ ابوحنیفہ کو محمد بن عبداللہ معروف بہ ” نفس زکیہ“سے اس قدر محبت تھی کہ جب بھی ان کا نام آتا تھا ، ان کی آنکھوں سے آنسون جاری ہوجاتے تھے ۔
خاندان پیغمبر سے محبت کرنے کی دلیل
خاندان پیغمبر سے محبت اور دوستی کرنے کے بہت سے اسباب ہیں جن میں سے کچھ اسباب کو ہم مندرجہ ذیل بیان کریںگے :
الف : ابوحنیفہ نے امام علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے علم اور فقہ سے بہت زیادہ علم حاصل کیا ۔ابوحنیفہ کی ولادت ، نشو ونما اور تعلیم و تربیت کوفہ میں ہوئی ، کوفہ امام علی بن ابی طالب کی حکومت اور شیعوں کا مرکز تھا ،وہاں پر فقہ علی(علیه السلام) رائج تھی، ابوحنیفہ بھی اس فقہ سے آشنا او متاثر تھے ۔
تاریخ بغداد میں ذکر ہوا ہے کہ ایک روز ابوحنیفہ ، منصور کے پاس گئے ،اس وقت منصور کے پاس عیسی بن موسی بھی موجود تھے ۔ منصور نے ابوحنیفہ سے کہا : اے نعمان ! تم نے اپناعلم کہاں سے حاصل کیا ، ابوحنیفہ نے کہا : میں نے اپناعلم ،عمرسے ان کے اصحاب کے ذریعہ، علی سے ان کے اصحاب کے ذریعہ او رعبداللہ بن مسعود سے ان کے اصحاب کے ذریعہ حاصل کیا ہے (ابوزہرہ ، ص ۵۹) ۔
ابوحنیفہ نے مکہ میں امام علی (علیہ السلام) کے بہترین شاگرد عبداللہ بن عباس کے تفسیری مکتب سے بھی بہت زیادہ استفادہ کیا ہے (گذشتہ حوالہ، ص ۶۱) ۔
ائمہ اہل بیت (علیہم السلام) سے ابوحنیفہ کاعلم حاصل کرنا
اگر چہ اس کے اصلی استاد حماد بن ابی لیلی سلیمان تھے لیکن انہوں نے دوسرے افراد خصوصا اہل بیت (علیہم السلام )، سے بھی علم حاصل کیا ہے اوران کے نام ابوحنیفہ کے مشایخ میں ذکر ہوئے ہیں ، ان استاتید کے نام مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ امام زید بن علی بن الحسین (رضی اللہ عنہ) ، متوفی ۱۲۲۔ مذہب زیدی کے راہنماجو کہ علم قرائت ، تفسیر اور دوسرے تمام اسلامی علوم میں بہت بڑے عالم تھے ۔ نقل ہوا ہے کہ ابوحنیفہ نے دو سال ان کے پاس علم حاصل کیا اوران کے متعلق کہا ہے : ”زید بن علی اور ان کے اصحاب کو دیکھا ہے ان کے زمانہ میں کوئی بھی ان سے زیادہ فقیہ، عالم، سریع الجواب اور خوش گفتار میں نے نہیں دیکھا وہ بے نظیر تھے ۔ (گذشتہ حوالہ ، ص ۶۴) ۔
۲۔ امام محمد بن علی الباقر (علیہ السلام) (متوفی ۱۱۴) ۔ ائمہ اہل بیت کے پانچویںامام۔ ابوحنیفہ کے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے علمی روابط تھے (گذشتہ حوالہ ، ص ۶۵) ۔
۳۔ امام جعفر بن محمد الصادق (علیہ السلام) (متوفی ۱۴۸) ، ائمہ اہل بیت کے چھٹے امام۔ آپ ابوحنیفہ کے استاد تھے او رمشہور ہے کہ ابوحنیفه نے دو سال آپ کے پاس تعلیم حاصل کی اور ابوحنیفہ نے کہا ہے : لولاالسنتان لھلک النعمان۔ اگر یہ دو سال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا ۔ وہ امام صادق (علیہ السلام) کو بہت ہی احترام کے ساتھ پکارتے تھے اورکہتے تھے : ”جعلت فداک یابن رسول اللہ “ ۔ جن احادیث کو ابوحنیفہ نے امام صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے وہ ان کے شاگردوں کی کتابوں میں ثبت ہوئی ہیں ۔
مناقب مکی میں بیان ہوا ہے : ابوجعفر منصور دوانیقی نے ابوحنیفہ سے کہا : اے ابوحنیفہ ! لوگ جعفر بن محمد کے متعلق فتنہ میں مبتلا ہوگئے ہیں ،تم مشکل مسائل تیار کرو تاکہ ان کے ساتھ مناظرہ کرسکو ۔ ابوحنیفہ کہتے ہیں میں نے چالیس مشکل سوال تیار کئے اورجس وقت وہاں پہنچا تو جعفر بن محمد صادق کو ابوجعفر کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا ، میرے دل میں ان کی ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ کبھی منصور سے بھی نہیں ہوئی تھی ، میں نے سلام کیا اور بیٹھ گیا ۔
منصور نے کہا : اے ابوعبداللہ ! یہ ابوحنیفہ ہیں، جعفر بن محمد نے کہا : جی ہاں ۔ پھرمیری طرف رخ کیا اور کہا : اے ابوحنیفہ ! اپنے سوالوں کو ابوعبداللہ سے معلوم کرو۔ میں سوال کرتا تھا اور وہ جواب دیتے تھے ،اس مسئلہ میں تم یہ کہتے ہو ، اہل مدینہ یہ کہتے ہیں اور ہمارا نظریہ یہ ہے ۔ کبھی ان کی رائے ہمارے موافق ہوتی ، کبھی اہل مدینہ کے موافق ہوتی اور کبھی دونوں کے مخالف ہوتی ۔ میں نے تمام مسائل کے جواب معلوم کئے اورانہوں نے اسی طرح جواب دئیے ،اس کے بعد ابوحنیفہ کہتے ہیں : ” ما رایت افقہ من جعفر بن محمد“ ۔ میں نے جعفر بن محمد سے زیادہ فقیہ اور عالم نہیں دیکھا اور کہتے ہیں : ” ان اعلم الناس اعلمھم باختلاف الناس“ ۔ سب سے زیادہ عالم وہ شخص ہے جو لوگوں کے تمام اختلافات کا علم رکھتا ہو۔
۴۔ ابومحمد عبداللہ بن الحسن بن الحسن بن علی بن ابی طالب (متوفی ۱۴۵) ۔
ابن بزازی اور موفق مکی خوارزمی نے مناقب ابوحنیفہ میں کہا ہے : ابوحنیفہ نے ان کی شاگردی اختیار کی ، عبداللہ بن حسن بہت بڑے عابد،عالم اور خاندان اہل بیت کے جلیل القدر شخص تھے ، علماء ان کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے ، وہ ابوحنیفہ سے دس سال بڑے تھے،ابوحنیفہ بھی ان کا بہت احترام کرتے تھے ان کا ۱۴۵ ہجری میں ۷۵ سال کی عمر میں منصور کے قیدخانہ میں انتقال ہوا ۔
۵۔ ابوحنیفہ نے ائمہ اہل بیت (علیہم السلام) کے ان کے شاگردوں جیسے جابر بن یزید جعفی سے بھی علمی استفادہ کیا ہے ،اگر چہ ابوحنیفہ کا عقیدہ جابر کے عقیدہ سے الگ تھا ۔
ابوجعفر منصور نے جب یہ دیکھا کہ ابوحنیفہ ان کی خلافت کے مخالف ہیں تو ان کو قتل کرنے کے بہانہ تلاش کرنے لگا ۔ اسی وجہ سے اس نے ابوحنیفہ کو بغداد کے منصب قضاوت کی پیشکش کی لیکن ابوحنیفہ نے قبول نہیں کیا ،ان کو پیشنہاد دی کہ ملک کے قاضیوں کو وہ معین کریں ، انہوں نے پھر بھی قبول نہیں کیا ، پھر حکم دیا کہ تمام قاضی اپنی مشکلات میں تمہاری طرف مراجعہ کریں اور آپ اپنے فتووں سے ان کی راہنمائی کریں، انہوں نے پھر بھی قبول نہیں کیا ، ان کے لئے تحفہ و تحائف بھیجے لیکن انہوں نے ان سب کو قبول کرنے سے منع کردیا ۔ پھر منصور کے حکم سے ان کو قیدخانہ میں ڈالدیا گیا اور ایک سو دس کوڑے لگائے ۔ قیدخانہ سے رہا ہونے کے بعد ابوحنیفہ میںدرس کہنے کی ہمت و طاقت نہیں تھی اور انہی پریشانیوں اور اذیتوں کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا ۔ بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ان زندان میں منصور نے زہر دلوایا اور قتل ہوگئے ۔
ج : مسلمانوں کے نزدیک خاندان پیغمبر کی محبوبیت اور مظلومیت
بنی امیہ کی حکومت قائم ہونے اور اسلامی حکومت کا موروثی اور سلطنتی حکومت میں تبدیل ہونے کی وجہ سے خاندان پیغمبر پر بہت ظلم و ستم ہوا ان کو جلاوطن اور اسیر ہونا پڑا ، خصوصا واقعہ کربلا اور امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد ان کی مظلومیت اور محبوبیت لوگوں کے درمیان بہت زیادہ ہوگئی ، خداوند عالم نے قرآن مجید میں اور پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے بھی امت کو ان سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے ۔ لوگ ان کو امت میں سب سے بہتر سمجھتے تھے اور حکومت کو انہی کا حق سمجھتے تھے ، اسی وجہ سے شروع میں عباسیوں نے بھی اپنی حکومت کا ہدف ”الرضا من آل محمد“ اعلان کیا تھا یعنی پیغمبر کرم کے خاندان سے ایسے شخص کی حکومت جس سے سب لوگ راضی ہوں ۔ لیکن جب بنی عباس کی حکومت مضبوط ہوگئی تو وہ اس نعرہ کو بھول گئے اور بنی امیہ سے زیادہ انہوں نے ان پر ظلم کیا ۔
ابوحنیفہ کی زندگی سے سبق حاصل کرنا
ہمیں ابوحنیفہ کی علمی اور سیاسی زندگی کاسے سبق حاصل کرنا چاہئے ،ہمارے زمانہ کے لوگ بھی ان کے اصلی نظریات میں غور و فکر اور ان کی سیاسی زندگی کے فراز و نشیب کا مطالعہ کرکے اپنے لئے نمونہ عمل بنا سکتے ہیں ۔
مولف کی نظر میں ابوحنیفہ کی زندگی کے بنیادی سبق مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ تنوع استاد : ابوحنیفہ نے اپنی علمی اور طالب علمی کی زندگی میں ہر صاحب فکر و نظر سے استفادہ کیا ہے اور استاد کے انتخاب میں کبھی بھی تعصب سے کام نہیں لیا ہے ۔
انہوں نے اپنے زمانہ کے بہت سے دانشوروں سے علم حاصل کیا ہے چاهے وہ ان کے ہم عقیدہ رہے ہوں اور چاہے ان کے عقیدہ کے مخالف ہوں ۔ بعض علماء نے ان کے اساتید کی تعداد چار ہزار بیان کی ہے ، اگر چہ اس عدد میں مبالغہ سے کام لیا گیا ہے لیکن اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مختلف اساتید اور شخصیات سے درس حاصل کیا ہے ،ان میں سے بعض اساتید اہل حدیث ہیں ، بعض اہل رائے اوربعض صاحب نظریات و فکر ۔ لیکن ابوحنیفہ نے شاگردی کے مقام میں ان سب کے سامنے زانوئے علم و ادب تہہ کئے ہیں اور ان سے مختلف علوم سیکھے ہیں ۔
۲۔ انصاف علم : ابوحنیفہ علم و دانش حاصل کرتے وقت اپنے اساتید کا احترام کرتے تھے، جب بھی آپ نے کسی متفکر اور عالم سے مناظرہ کیا ہے تو علمی فیصلوں میں کبھی بھی انصاف سے دور نہیں ہوئے ، اگر وہ علم میں ان سے افضل و برترتھا تو اس کو تعصب کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے، جیسا کہ امام صادق (علیہ السلام) سے مناظرہ و گفتگو کے بعد انہوں نے انصاف کے ساتھ اعلان کیا : ” ما رایت افقہ من جعفر بن محمد “ ۔ میں نے جعفر بن محمد سے زیادہ عالم اور فقیہ نہیں دیکھا ۔ یہ اقرار اور اعتراف اس وقت ہے جب کہ امام صادق (علیہ السلام) ان کے ہم عمر ہیں ۔
۳۔ گفتگو اور مباحثہ کا طور طریقہ : اپنے علم کو بڑھانے میں ابوحنیفہ کا ایک امتیاز یہ تھا کہ وہ گفتگو اور مباحثہ میںمناظرہ کرتے تھے ،ابوحنیفہ نے بہت سے شہروں میں سفر کئے ،انہی میں سے ایک شہر بصرہ ہے آپ نے بصرہ میں بہت سے مکاتب فکر کے لوگوں سے گفتگو کی اوراس طرح سے مختلف نظریات کو حاصل کیا اور اپنے علم کو محکم کیا ۔
۴۔ اجتہاد جمعی یاشوری کی روش : ابوحنیفہ کے درس کہنے کا طریقہ دوسرے اساتید کے برخلاف تھا جس میں صرف استاد بیان کرتا تھا اور شاگرد سنتے تھے، وہ اپنے درس میںپہلے ایک موضوع پیش کرتے تھے ، پھر اپنے شاگردوں سے کہتے تھے کہ اس موضوع کے متعلق تمہارے نظریات کیاہیں ، ابوحنیفہ درس کے آخر میں تمام نظریات سے نتیجہ اخذ کرتے تھے اور اس موضوع کا صحیح جواب، ان تمام نظریات کے درمیان سے استنتاج کرتے تھے ۔
درس میں بیان شدہ موضوعات کا صحیح جواب حاصل کرنے کیلئے کبھی ایک ہفتہ لگ جاتا تھا اورکبھی اس سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا تھا ،اسی وجہ سے مکتب ابوحنیفہ ، انہی کے نظریات کا ایک شخصی مکتب نہیں ہے بلکہ ایسا مکتب ہے جس میں خود ان کے نظریات اور ان کے شاگرد جیسے ابویوسف القاضی ، محمد بن حسن شیبانی ، ہذیل اور دوسرے شاگر د وں کے نظریات پائے جاتے ہیں ۔
۴۔ عقل و فکر کا استعمال اور تقلید سے دوری : ابوحنیفہ نے اپنے فقہی مکتب کو قائم کرنے میں سب سے زیادہ اپنی اور اپنے شاگردوں کی عقل و فکر سے کام لیا ہے اور اپنے مکتب کے علمی قوانین کو انہی کے ذریعہ استنتاج کرتے تھے ، اپنے اساتید کی تقلید ا ور متقدمین کی آنکھیں بند کرکے پیروی نہیں کرتے تھے ،اسی وجہ سے ان کو رائے وقیاس کے مکتب کا موسس کہا جاتا ہے ۔
ابوحنیفہ کی سیاسی اور عملی زندگی کی کچھ خصوصیتیں تھیں جن کی ہر شخص پیروی کرسکتا ہے :
۵۔ اپنے زمانہ کے ناگوار حادثات میں مسئولیت اورذمہ داری کا احساس : ابوحنیفہ نے اپنی زندگی کے دوران یعنی بنی امیہ اور بنی عباس کے عہد میں کبھی بھی گوشہ عافیت میں نہیں بیٹھے، اور لوگوں پر حکام کے ظلم کے سامنے کبھی بھی اپنی آنکھوں کو بند نہیں کیا ، بلکہ ذمہ داری کے ساتھ تمام حوادث کا معائنہ کرتے تھے اور حکام کے غلط کاموں کے سامنے اٹھ کھڑے ہوتے تھے ۔
مآخذ
۱۔ ابوحنیفہ، امام محمد ابوزہرا، دارالفکر العربی، قاہرہ، ۱۹۹۱۔
۲۔ مناقب ابی حنیفہ، موفق مکی۔
۳۔ المناقب لابن البزازی۔
مزاحمت جاري رکھنے پر زور
حماس کے سينيئر رہنما ڈاکٹر خالد مشعل نے صيہوني حکومت کے خلاف تحريک مزاحمت جاري رکھے جانے کي ضرورت پر زور ديا ہے-
سي اين اين ٹي وي کو انٹرويو ديتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائيل کے خلاف تحريک مزاحمت جاري رہے گي- حماس کے پوليٹکيل بيورو کے سربراہ نے بے دخل کئے جانے والے فلسطينيوں کي انکے آبائي علاقوں کو واپسي کے حق پر زور ديتے ہوئے کہا کہ غزہ پر حاليہ حملے کي تمام تر ذمہ داري اسرائيل پر عائد ہوتي ہے-
خالد مشعل نے واضح کيا کہ اسرائيل نے حماس کے کمانڈر احمد الجعبري کو قتل کرکے جنگ کا آغاز کيا تھا- انہوں نے عام شہريوں پر حملے کے الزامات کو سختي کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تحريک مزاحمت کبھي بھي عام لوگوں کو نشانہ نہيں بناتي- انہوں نے کہا کہ دير ياسين، صبرا اور شتيلا کے کيمپوں ميں فلسطينيوں کا قتل عام اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائيل نے عام شہريوں کے خلاف لاتعداد جرائم کا ارتکاب کيا ہے-
خالد مشعل نے مزيد کہا کہ اسرائيل نے فلسطينيوں کي سرزمين پر قبضہ کيا، انہيں انکے گھروں سے بے دخل کيا ہے - انہوں نے کہا کہ عالمي قوانين کے تحت اپني سرزمين کا دفاع کرنا ہر قوم کا حق ہے -
صيہوني حکومت کو انتباہ
حزب اللہ کے سربراہ نے صيہوني حکومت کو خبردار کيا ہے کہ لبنان پر حملے کي غلطي کي تو تل ابيب پر ہزاروں ميزائل برسيں گے -
سيد حسن نصراللہ نے جنوبي بيروت ميں عاشور کي مناسبت سے عزاداروں کے ايک اجتماع سے خطاب ميں کہا کہ فجر پانچ نامي چند ميزائلوں کے گرنے سے صيہوني حکومت پر لرزہ طاري ہوگيا -
انہوں نے کہا کہ صيہوني حکام کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر لبنان پر حملہ کيا تو تل ابيب اور ديگر مقبوضہ علاقوں پر ہزاروں ميزائل برسيں گے ، اس وقت کيا کرے گي –
انہوں نے کہا کہ آئندہ جنگ ہوئي تو مقبوضہ فلسطين کا کوئي بھي علاقہ محفوظ نہيں رہے گا-
حزب اللہ کے سربراہ نے صيہوني حکومت کو اسلامي دنيا کا سب سے بڑا دشمن قرار ديا اور کہا کہ جو بھي اسرائيل کو دوست سمجھتا ہے وہ در اصل اس حکومت کا خدمتگار ہے -
انہوں نے صيہوني حکومت اور امريکا کو ظلم کا مظہر قرار ديا اور کہا کہ پيروان حسين، ظالم سامراجي طاقتوں کو اس بات کي اجازت نہيں ديں گے کہ ان کي تحقير کي جائے -
جارحين اور تسلط پسندوں کے مقابلے ميں مزاحمت پر زور
تہران کي مرکزي نماز جمعہ کے خطيب نے کہا ہے کہ جارحين اور تسلط پسندوں کے مقابلے ميں پوري قوت سے دفاع اور مزاحمت کے علاوہ اور کوئي چارہ نہيں ہے -
2012/11/29) ) - تهران کي مرکزي نماز جمعہ کے خطيب حجت الاسلام کاظم صديقي نے غزہ کي آٹھ روزہ جنگ ميں تحريک مزاحمت کي کاميابي کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس جنگ ميں فلسطيني قوم کي کاميابي نے ثابت کرديا کہ غاصب صيہوني حکومت ، طاقتور ہونے کے دعووں کے برخلاف کتني کمزور ہے -
انہوں نے تحريک مزاحمت کے ميزائلوں کے مقابلے ميں صيہوني حکومت کے آہني گنبد نامي اينٹي ميزائل سسٹم کي ناتواني کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطين کي تحريک مزاحمت کے ميزائلي حملوں نے ثابت کرديا کہ صيہوني حکومت کا اينٹي ميزائل سسٹم صيہونيوں کي حفاظت نہيں کرسکتا-
حجت الاسلام صديقي نے نے غزہ پٹي ميں صيہوني حکومت کے مقابلے ميں تحريک مزاحمت کي کاميابي کو فلسطيني قوم کي دليري و شجاعت اور توانائي کا مظہر نيز صيہوني حکومت کے لئے عبرتناک سبق قرار ديا اور کہا کہ يہ کاميابي صيہوني حکومت کے مقابلے ميں تمام مسلمانوں کي کاميابي ہے -
انہوں نے آٹھ روزہ جنگ کے دوران غزہ ميں بے گناہ فلسطينيوں کے قتل عام کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس قتل عام نے ثابت کرديا کہ انساني حقوق کے دفاع کے دعويدار بين الاقوامي ادارے اپني ذمہ داريوں اور فرائض کي انجام دہي کے تعلق سے کتنے جھوٹے ہيں -
تہران کے خطيب جمعہ نے آٹھ روزہ جنگ ميں اسلامي جمہوريہ ايران کي جانب سے فلسطيني قوم کي بھر پور حمايت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلامي جمہوريہ ايران علاقے ميں جارحين کے مقابلے ميں مزاحمت کا مرکز ہے -
انہوں نے اسي طرح شام کي قوم کے خلاف دشمنوں کي سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صيہوني حکومت کے مقابلے ميں تحريک مزاحمت کے مخالفين شام ميں سرگرم دہشتگردوں کے لئے اسلحے کي سپلائي اور ہر قسم کي مدد کرکے درحقيقت علاقے ميں تحريک مزاحمت کي حمايت کے ايک مرکز کو ختم کرنا چاہتے ہيں
امام حسين (ع) كى سوانح عمري
اسلام كے تيسرے رہبر كى اور ان كى اولاد و اصحاب كى دشت كربلا ميں جاں بازي، فداكارى اور شہادت آپ كى زندگى كا اہم ترين واقعہ ہے_ جس نے عقل و خرد كو جھنجوڑ كر ركھ ديا، تمام واقعات كے اوپر چھاگيا_ اور ہميشہ كے لئے تاريخ كے صفحات پر زندہ جاويد و پائيدار بن گيا_ دنياميں پيش آنے والا ہر واقعہ_ چا ہے وہ كتنا ہى بڑا اور عظيم كيوں نہ ہو _ اس كو تھوڑے ہى دن گذرنے كے بعد زندگى كا مدّ و جزر فراموشى كے سپرد كرديتا ہے اور مرور زمانہ اس كے فروغ ميں كمى كرديتاہے اور اوراق تاريخ پر سوائے اس كے نام كے كچھ باقى نہيں بچتا_
ليكن بہت سے واقعات ايسے ہيں كہ زمانہ گذرجانے كے بعد بھى ان كى عظمت گھٹتى نہيں اللہ والوں كى تاريخ اور وہ انقلابات جو آسمانى پيغمبروں اور الہى عظيم رہبروں كے ذريعہ آئے ہيں، يہ تمام كے تمام واقعات چونكہ خدا سے متعلق و مربو ط ہيں اس لئے ہرگز بھلائے نہيں جاسكيں گے اور مرور زمانہ كا كوئي اثر قبول نہيں كريں گے_
حضرت حسين (ع) بن على (ع) كى تحريك اور كربلا كا خونين حادثہ و انقلاب ،انسانى معاشرہ كى ايك اہم ترين سرگذشت ہے، اس حقيقت پر تاريخ و تجربہ روشن گواہ ہيں_
عاشور كى خون آلود تاريخ كے تجزيہ ميں دوسرے مطالب سے پہلے چند مطالب توجہ كے قابل اور تاريخى لحاظ سے زبردست تحقيق كے محتاج ہيں جنہيں اختصار سے بيان كيا جارہا ہے:
1) امام حسين (ع) كے قيام كے اسباب
2) امام حسين (ع) كى تحريك و انقلاب كى ماہيت
3) امام حسين (ع) كے انقلاب كے اثرات و نتائج
انقلاب حسين (ع) ابن على (ع) كا اہم اور واضح سبب ايك انحرافى سلسلہ تھا جو اس وقت اسلامى حكومت كى مشينرى ميں رونما ہوچكا تھا _ اور لوگوں ميں اموى گروہ كے تسلط كى بنا پر دين سے انحراف اور اجتماعى ظلم و ستم مكمل طور پر نماياں تھا_ يزيد كے خلاف امام حسين (ع)كا قيام اس بناپر تھا كہ وہ اموى حكومت كا مظہر تھا، وہ حكومت جو ملت كے عمومى اموال كى عياشي، رشوت خورى ، با اثرا فراد كے قلوب كو اپنى طرف كھينچنے اور آزادى دلانے والى تحريكوں كو ختم كرنے ميں خرچ كرتى تھي، وہ حكومت جس نے غير عرب مسلمانوں كا جينا دشوار كر كے ان كو ختم كردينے كى ٹھان لى تھى اور جس نے عرب مسلمانوں كے شيرازہ اتفاق كو بكھير كر ان كے درميان نفاق اور كينہ كا بيج بوديا تھا _
وہ حكومت جس نے اموى خاندان كے مخالفين كو جہاں پايا وہيں قتل كرديا_ ان كے مال كو لوٹ ليا، وہ حكومت جس نے قبائلى عصبيت كى فكر كو برانگيختہ كرديا مسلمانوں كے اجتماعى وجود كيلئے خطرہ بن گئي تھى _
وہ حكومت جو كہ اسلام كے پيغام كے تحقق، قوانين و حدود اور اجتماعى عدالت كے اجراء كى بجائے ايك ايسے پليد شخص كے ہاتھ كا كھلونہ تھى جو كہ محمد(ص) كى رسالت اور ان پر وحى كے نزول كا انكار كر رہا تھا_ يزيد اپنے دادا ابوسفيان كى طرح تھا ، جس كا كہنا تھا '' اب حكومت بنى اميہ كے قبضہ ميں آگئي ہے خلافت كو گيند كى طرح گھماتے رہو اور ايك دوسرے كى طرف منتقل كرتے رہو ... ميں قسم كھا كر كہتا ہوں كہ نہ كوئي جنّت ہے نہ جہنّم'' (1) يزيد بھى ان تمام باتوں كو ايك خيال سے زيادہ نہيں سمجھتا تھا_ (2)
امام حسين (ع) نے ايسے حالات ميں انقلاب كے لئے ماحول كو سازگار پايا آپ(ع) نے خود اس وصيت ميں جو اپنے بھائي محمد حنفيہ كو كى تھي، اپنے قيام كے بارے ميں لكھا كہ '' ميرے قيام كى وجہ ہوا و ہوس اور بشرى ميلانات نہيں ہيں ، ميرا مقصد ستمگرى اور فتنہ و فساد پھيلانا نہيں ہے _ بلكہ ميرا مقصد تو اپنے جد رسول (ص) خدا كى امت كى خراب حالت كى اصلاح كرنا ہے_ ميرا مقصد امر بالمعروف اور نہى عن المنكر ہے ميں چاہتا ہوں كہ اپنے جد رسول خدا كى سيرت اور اپنے باپ(ع) على كے راستہ پرچلوں ...'' (3)
اسى طرح حر بن يزيد رياحى سے ملاقات كے بعد اپنى ايك تقرير ميں آپ(ع) نے اپنے قيام كى تصريح كى اور فرمايا : '' اے لوگو پيغمبر خدا (ص) نے فرمايا ہے كہ جو كسى ايسے ظالم فرمان روا كو ديكھے جو حرام الہى كو حلال شمار كرتا ہوخدا سے كيے گئے عہد و پيمان كو توڑتا ہو اس كے پيغمبر كى سنت كى مخالفت كرتاہو، خدا كے بندوں پرظلم و ستم كرتا ہو ا ور ان تمام باتوں كے باوجود زبان و عمل سے اپنى مخالفت كا اظہار نہ كرے تو خدا اس كو اسى ظالم فرمان روا كے ساتھ ايك ہى جگہ جہنّم ميں ركھے گا_
اے لوگو انہوں نے ( يزيد اور اس كے ہمنواؤں نے) شيطان كى اطاعت كا طوق اپنى گردن ميں ڈال ليا ہے اور خدائے رحمن كى پيروى ترك كردى ہے فساد پھيلاركھا ہے اور قوانين الہى كو معطل كرركھا ہے، بيت المال كو انہوں نے اپنے لئے مخصوص كرليا_ حلال خدا كو حرام اور حرام الہى كو حلال سمجھ ليا ہے_ ميں اسلامى معاشرہ كى قيادت كے لئے تمام لوگوں سے زيادہ حق دار ہوں اور ان مفاسد سے جنگ اور ان خرابيوں كى اصلاح كے لئے سب سے پيش پيش ہوں ...'' (4)
امام حسين (ع) نے معاويہ كے زمانہ ميں قيام كيوں نہيں كيا؟
ممكن ہے كہ يہاں يہ سوال پيش آئے كہ معاويہ كے زمانہ ميں متعدد عوامل ايسے پيدا ہوگئے تھے جو قيام و انقلاب كا تقاضا كرتے تھے اور حسين(ع) ابن على (ع) ان تمام عوامل سے آگاہ تھے اور آپ نے ان خطوط ميں جو معاويہ كے جواب ميں لكھے تھے ان اسباب كو بيان بھى كيا ہے_ (5) پھر آپ (ع) نے معاويہ كے زمانہ ميں قيام كرنے سے كيوں گريز كيا؟
جواب: تمام وہ عوامل و مسائل جنہوں نے امام حسن (ع) كو معاويہ سے صلح كرنے كے لئے مجبور كيا وہى عوامل امام حسين (ع) كے لئے بھى قيام سے باز رہنے كا سبب بنے_ (6) عراقى معاشرہ پر مسلط حاكم كى حقيقت كو پہچاننے ميں امام حسين (ع) اپنے بھائي حسن (ع) سے كم نہ تھے_ وہ بھى اپنے بھائي كى طرح لوگوں كى كاہلى اور اسلامى معاشرہ كى افسوسناك صورت حال ديكھ رہے تھے كو اس وقت آپ نے عراق كے لوگوںقيام كرنے كى ترغيب دلانے كے بجائے عظيم مقصد كے لئے آمادہ اور مستعد كرنے كو ترجيح دي_
عراق كے شيعوں نے ايك خط ميں امام حسين (ع)سے درخواست كى كہ وہ معاويہ كے خلاف قيام كرنے كے سلسلہ ميں ان كى قيادت كريں_ حسين ابن على (ع) نے موافقت نہيں كى اور جواب ميں لكھا:
'' ... ليكن ميرى رائے يہ ہے كہ انقلاب كا وقت نہيں ہے جب تك معاويہ زندہ ہے، اپنى جگہ بيٹھے رہو_ اپنے گھر كے دروازوں كو اپنے لئے بندركھو اور اتہام كى جگہ سے دور رہو _'' (7)
معاويہ اور يزيد كى سياست ميں فرق
معاويہ كے زمانہ ميں امام حسين (ع) كا انقلاب برپا كرنے كے لئے نہ اٹھنے اور يزيد كے زمانہ ميں اٹھ كھڑے ہونے كا اصلى سبب ان دونوں كى سياسى روش كے اختلاف ميں ڈھونڈھنا چاہيے_
دين و پيغمبر (ص) كے تضاد ميں معاويہ كى منافقانہ روش بہت واضح اور اعلانيہ تھي_ وہ اپنے كوصحابى اور كاتب وحى كہتا تھا اور خليفہ دوم كى ان پر بے پناہ توجہ اور عنايت تھي، اس كے علاوہ ان اصحاب پيغمبر(ص) كى اكثريت كو جن كى لوگ تعظيم و احترام كرتے تھے ( جيسے ابوہريرہ، عمرعاص، سمرة، مغيرہ بن شعبہ و غيرہ ...) كو حكومت و ولايت او رملك كے تمام حساس كاموں كى انجام دہى كے لئے مقرر
كيا تا كہ لوگوں كے حسن ظن كا رخ اپنى طرف موڑليں ، لوگوں كے درميان صحابہ كے فضائل اور ان كے دين كے محفوظ رہنے كى بہت سى روايتيں اور ايسى روايتيں_ كہ وہ جو بھى كريں معذور ہيں _ گھڑ لى گئيں ، نتيجہ ميں معاويہ جو كام بھى كرتا تھا اگر وہ تصحيح او ر توجيہ كے قابل ہوتا تھا تو كيا كہنا ورنہ بہت زيادہ بخششوں اور عنايتوں كے ذريعہ معترض كے منہ كو بند كرديا جاتا تھا اور جہاں يہ وسائل موثر نہيں ہوتے تھے انہيں خواہش كے پرستاروں كے ذريعہ ان كو ختم كرديا جاتا تھا_ جيسا كہ دسيوں ہزار حضرت على (ع) كے بے گناہ چاہنے والوں كے ساتھ يہى رويہ اختيار كيا گيا:
معاويہ تمام كاموں ميں حق كا رخ اپنى طرف موڑ لينا چاہتا تھا اور امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) كا ظاہرى احترام كرتا تھا وہ بہت زيرك اور دور انديش تھا اسے يہ معلوم تھا كہ حسين ابن على (ع) كا انقلاب اور ان كا لوگوں كو قيام كے لئے دعوت دينا ميرى پورى حكومت اور اقتدار كے لئے خطرہ بن سكتا ہے_ اس لئے كہ اسلامى معاشرہ ميں حسين (ع) كى عظمت او ران كے مرتبہ سے معاويہ بخوبى واقف تھا_
اگر حسين (ع) ابن على (ع) معاويہ كے زمانہ ميں قيام كرتے تو اس بات كا قوى امكان تھا كہ معاويہ آپ (ع) كے انقلاب كو ناكام كرنے كے لئے ايسى روش اختيار كرتا كہ جو اسى جگہ كامياب ہوجاتى اور امام (ع) كے انقلاب كو عملى شكل دينے سے پہلے ہى زہر كے ذريعہ شہيد كرديا جاتا اور اس طرح معاويہ اپنے كو خطرہ سے بچاليتا جيسا كہ حسن (ع) ابن على (ع) ، سعد ابن وقاص اور مالك اشتر كو قتل كرنے ميں اس نے يہى رويہ اختيار كيا تھا_
ليكن يزيد كى سياسى روش اس كے باپ كى سياسى روش سے كسى طرح بھى مشابہ نہ تھى وہ ايك خود فريب اور بے پروا نوجوان تھا اس كے پاس زور زبردستى كے علاوہ كوئي منطق نہ تھى وہ عمومى افكار كو ذرہ برابر بھى اہميت نہيں ديتا تھا_
وہ اعلانيہ طور پر اسلام كى مقدس باتوں كو اپنے پيروں كے نيچے روند تا تھا اور اپنى خواہشات پورى كرنے كے لئے كسى چيز سے باز نہيں رہتا تھا، يزيد كھلے عام شراب پيتا، راتوں كو نشست اور بزم ميں بادہ خوارى ميں مشغول رہتا اور گستاخى سے كہتا تھا:
'' اگر دين احمد ميں شراب حرام ہے تو اس كو دين مسيح بن مريم ميں پيو'' (8)
يزيد مسيحيت كى تعليمات كى اساس پر پلا تھا اور وہ دل سے اس كى طرف مائل تھا_ (9)
اور دين اسلام سے اس كا كوئي ربط نہيں تھا جبكہ اسلام كى بنياد پروہ لوگوں پر حكومت كرناچاہتا تھا_ اس طرح سے جو نقصانات اسلام كو معاويہ كے زمانہ ميں پس پردہ پہنچ رہے تھے اب وہ يزيد كے ہاتھوں آشكار طور پرپہنچ رہے تھے_
اپنى حكومت كے پہلے سال اس نے حسين ابن على (ع) اور ان كے اصحاب كو شہيد كيا ان كے اہل بيت كو اسير كيا_
حكومت كے دوسرے سال اس نے پيغمبر(ص) كے شہر _مدينہ_ كے لوگوں كے مال اور ناموس كو اپنے لشكر والوں پر مباح كرديا اور اس واقعہ ميں چارہزار آدميوں كو اس نے قتل كيا_
تيسرے سال خانہ كعبہ _ مسلمانوں كے قبلہ_ پر اس نے منجنيق سے سنگ بارى كى _
ايسے سياسى اور اجتماعى حالات ميں حسين (ع) ابن على (ع) نے انقلاب كے لئے حالات كو مكمّل آمادہ پايا_ اب بنى اميہ كے مزدور، عمومى افكار كو قيام حسين(ع) ابن علي(ع) كے مقاصد كے بارے ميں بدل كر اس كو '' قدرت و تسلط كے خلاف كشمكش'' كے عنوان سے نہيں پيش كرسكتے تھے اس لئے كہ بہت سے لوگ يہ ديكھ رہے تھے كہ حكومت كى رفتار دينى ميزان اور الہى تعليمات كے خلاف ہے_
اور يہ بات خود مجوّز تھى كہ حسين (ع) ابن على (ع) اپنے سچے اصحاب كو جمع كريں اور حكومت كے خلاف قيام كريں ايسا قيام جس كا مقصد اسلام اور سيرت پيغمبر(ص) كو زندہ كرنا تھا نہ كہ خلافت اور قدرت حاصل كرنا_
انقلاب كى ماہيت
امام حسين (ع) كى تحريك ميں ايك اہم مسئلہ اس كى كيفيت و ماہيت كا تجزيہ ہے_ آيا امام حسين (ع) كا اقدام ايك انقلاب تھا يا ايك اتفاقى دھماكہ تھا؟ كچھ لوگ جو انسانى مقدس واقعات كو ہميشہ محدود اور مادى ترازو پر تولتے ہيں وہ قيام كربلا كى تفسير و تعبير اپنى نادانى اور جہالت كى بناء پر ايك حادثاتى دھماكے سے كرتے ہيں_(10) اس سلسلہ ميں كہتے ہيں كہ كبھى مادى واقعا ت ميں تدريجى تغيرات اس حد تك پہنچ جاتے ہيں كہ وہ واقعہ ديگر تغيرات كو قبول نہيںكرسكتا، انجام كار جزئي تغيرات ايك نئي چيز كو وجود ميں لاتے ہيں يہ قانون، معاشرہ اور تاريخ ميں حاكم ہے_ معاشرہ ايك حدتك ظالموں كے ظلم كو قبول كرتا ہے جب وہ اس مرحلہ ميں پہنچ جاتا ہے كہ اب اس سے قبوليت كى توانائي ختم ہوجاتى ہے تو نتيجہ ميں حكومت كرنے والے نظام كے خلاف ايك دھماكہ كى شكل ميں انقلاب آجاتا ہے _
اس بنياد پر لوگ كہتے ہيں كہ : '' اميرالمؤمنين(ع) كى شہادت كے بعد اموى مشينرى كا مسلمان ملت پر دباؤ بڑھ گيا تھا اور معاويہ كے مرنے كے بعد اس كے بيٹے يزيد نے اس دباؤ كو دوگنا كرديا تھا اس فشار كى بناپر حسين (ع) كے صبر كا پيمانہ لبريز ہوگيا اور ان كا قيام اسى دھماكہ كا پيش خيمہ تھا_
امام حسين (ع) كى تحريك كے بارے ميں ايسے فيصلے كا سوتا مادى تجزيہ كرنے والوں كے عقيدہ سے پھوٹتا ہے اور اگر وہ قيام امام حسين (ع) كى تاريخ كے متن كو ملاحظہ كرتے اور حقيقت بين اورحق كے شيدائي ہوتے تو ايسا فيصلہ نہ كرتے_
امام حسن (ع) كى شہادت كے بعد سے معاويہ كى موت تك كے امام حسين (ع) كے اقوال اوروہ خط و كتابت جو ان كے اور معاويہ كے درميان ہوئي ہے، جس ميں امام (ع) كا موقف واضح طور پر معاويہ كے خلاف تھا اور آپ معاويہ كو مورد سوال قرار ديتے اور اس كے خلاف قيام كى دھمكى ديتے تھے_
اسى طرح وہ تقريريں جو مختلف موقعوں پر امام حسين (ع) نے كى ہيں اگر ان سب كو ديكھا جائے تو يہ سارى چيزيں ہم كو اس بات كا پتہ ديتى ہيں كہ ابوعبداللہ الحسين (ع)كى وہ تحريك بہت منظم تھى جس كا نقشہ آزاد منش افراد كے سردار كھينچ رہے تھے اور امت كو اس راستہ پر اس نقشہ كے مطابق عمل كرنے كى دعوت دے رہے تھے اس كے بعد اب قيام سيد الشہداء _كو ايك ناگہانى حادثہ يا دھماكہ كيسے كہا جاسكتا ہے ... اگر يہ انقلاب ايك انجانا دھماكہ ہوتا تو اسے بہتر آدميوں ميں منحصر نہيں رہنا چاہئے تھا_ بلكہ اس كو معاشرہ كے تمام افراد كو گھير لينا چاہيے تھا امام حسين (ع) كے آگاہانہ انقلاب كو بتانے والے تاريخى قرائن كا ايك سلسلہ اب پيش كيا جارہا ہے _
يزيد كيلئے بيعت ليتے وقت امام(ع) كى تقرير
لالچ اور دھمكى كے ذريعہ معاويہ نے يزيد كى ولى عہدى كے لئے اہم شخصيتوں كے ايك گروہ كى موافقت حاصل كرلى تھى جب حسين ابن على (ع) كے سامنے بات ركھى گئي تو آپ نے اپنى ايك تقرير ميں فرمايا:
'' تم نے اپنے بيٹے كے كمال اور تجربہ كارى كے سلسلہ ميں جو تعريف كى وہ ہم نے سُني، گويا تم ايسے آدمى كے بارے ميں بات كررہے ہو جس كو ياتو تم نہيں پہچانتے ہو يا اس سلسلہ ميں فقط تم كو علم ہے_جيسا چاہيے تھا يزيد نے ويسا ہى اپنے كو پيش كيا اور اس نے اپنے باطن كو آشكار كرديا_ وہ كتوں سے كھيلنے والا كبوتر باز اور ہوس پرست شخص ہے جس نے اپنى عمر ساز و آواز اور عيش و عشرت ميں گذارى ہے_ كياہى اچھا ہوتا كہ تم اس كام سے صرف نظر كرتے اور اپنے گناہ كے بوجھ كو اور گراں بار نہ بناتے (11) ''
معاويہ كے نام امام حسين (ع) كا خط
امام حسين (ع)نے ايك مفصل خط معاويہ كو لكھا اور اس كے بڑے بڑے جرائم كويا دلايا ، جن ميں سر فہرست پرہيزگار، بزرگ اور صالح اصحاب اور شيعيان على _كا قتل تھا، فرمايا:
'' اے معاويہ تمہارا كہنا ہے كہ ميں اپنى رفتار و دين اور امت محمد(ص) كا خيال ركھوں اور اس امت ميں اختلاف و فتنہ پيدا نہ كروں_ ميں نہيں سمجھتا كہ امت كے لئے تمہارى حكومت سے بڑا كوئي اور فتنہ ہوگا_ جب ميںاپنے فريضہ كے بارے ميں سوچتا ہوں اور اپنے دين اور امت محمد(ص) پر نظر ڈالتاہوں تو اس وقت اپنا عظيم فريضہ يہ سمجھتا ہوں كہ تم سے جنگ كروں ...''
پھر آخر ميں فرمايا:
'' تمہارے جرائم ميں غير قابل معافى ايك جرم يہ ہے كہ تم نے اپنے شراب خوار اور كتوں سے كھيلنے والے بيٹے كے لئے لوگوں سے بيعت لى ہے(12) _''
منى ميں امام حسين (ع) كى تقرير
معاويہ كى حكومت كے آخرى زمانہ ميں سرزمين منى پر نو سوسے زيادہ افراد كے مجمع ميں، جس ميں ، بنى ہاشم اور اصحاب رسول (ص) ميں سے بزرگ شخصيتيں شامل تھيں_ امام حسين(ع) نے
ملك پر حكومت كرنے والے نظام كے بارے ميں استدلالى بيان كے ذريعہ بحث كى اور ان سے يہ خواہش كى كہ ان كى باتوں كو دوسروں تك پہنچائيں اور اپنے شہروں ميں واپس پہنچ جانے كے بعد اپنے نظريہ سے امام(ع) كو مطلع كريں_ امام حسين (ع)نے معاويہ كو اپنى تنقيد كا نشانہ بناتے ہوئے اپنى تقرير كا آغاز كيا اور ملت اسلاميہ خصوصاً پيروان على (ع) كے بارے ميں معاويہ جن جرائم كا مرتكب ہوا تھا كو ياد دلايا 13_
عراق كى طرف روانگى سے پہلے امام حسين(ع) كى تقرير
آٹھ ذى الحجہ كو عراق روانگى سے پہلے امام حسين (ع)نے لوگوں كے ايك مجمع ميں حج نہ كرنے اور عراق كى طرف جانے كى وضاحت كى اور فرمايا:
'' ايك دلہن كے گلے كے ہار كى طرح موت انسان كى گردن سے بندھى ہوئي ہے ميں اپنے بزرگوں كا اس طرح مشتاق ہوں جس طرح حضرت يعقوب (ع) حضرت يوسف كے مشتاق تھے_ ميں يہيں سے اس جگہ كا مشاہدہ كر رہا ہوں جہاں ميں شہادت پاؤں گا اور بيابانى بھيڑيے ميرے بدن كے ٹكڑے ٹكڑے كرديں گے'' پھر فرمايا:'' جو لوگ اس راستہ ميں خون دينے اور خدا سے ملاقات كرنے كے لئے آمادہ ہيں وہ ميرے ساتھ آئيں ميں انشاء اللہ صبح سويرے روانہ ہو جاؤں گا 14_
كيا ان تمام تقريروں، كربلا ميں شب عاشور اپنے اصحاب كو رخصت كر دينے اور بيعت سے چشم پوشى كرنے كے باوجود يہ كہنا روا ہے كہ امام (ع) كے قيام كو ايك ناگہانى دھما كہ سمجھ ليا جائے؟ وہ ليڈر جو لوگوں كے غم و غصّہ اور ناراضگى سے فائدہ حاصل كرنا چاہتا ہو كيا وہ ايسى باتيں زبان پر لاسكتا ہے_
انقلاب كے اثرات و نتائج
دوسرا اہم مسئلہ يہ ہے كہ كيا حسينى (ع) انقلاب اس وقت كے معاشرہ كو كوئي فائدہ پہنچا كر ضرورى كاميابى حاصل كر سكا يا دنيا كے بہت سے شكست خوردہ انقلابات كى طرح ناگہانى طور پر شعلہ ور ہوا اور پھر بجھ كر رہ گيا؟
عاشور كے انقلاب كے اثراب كو سمجھنے كے لئے ہم فورى يقينى كاميابى يا حكومت پر قبضہ اور قدرت حاصل كر لينے كى ( منطق) سے ماوراء ہو كر ديكھيں، اس لئے كہ وہ دلائل موجود ہيں جو اس بات كا پتہ ديتے ہيں كہ ابو عبداللہ الحسين(ع) اس سرنوشت سے آگاہ تھے جس كا وہ انتظار كر رہے تھے_ اس بنا پر فورى كاميابى قيام حسينى (ع) كا مقصد نہيں تھي_ آپ جانتے تھے كہ ان حالات ميں فورى طور جنگى كاميابى ممكن نہيں ہے_
ان مطالب كے مجموعہ سے يہ پتہ چلتا ہے كہ ہم كو انقلاب حسينى (ع) سے ايسے نتائج كى توقع نہيں كرنى چاہيے جو عام طور پر سارے انقلابات سے حاصل ہوتے ہيں بلكہ ہم كو آپ كے انقلاب كے اثرات و نتائج كو مندرجہ ذيل باتوں ميں ڈھونڈنا چاہئے:
1_ امويوں كے جھوٹے دينى نفوذ كو ختم كرنا اور زمانہ جاہليت كى بے دينى و الحاد كى اس روح كو واضح كرنا جو حكومت اموى كے، مخالف اسلام اعمال كى توجيہ كرتى تھي_
2_ ہر ايك مسلمان كے ضمير ميں گناہ كے احساس كو عام كرنا اور اس كو اپنے اوپر تنقيد كرنے كى حالت ميں تبديل كر دينا تا كہ اس كى روشنى ميں معاشرہ اور زندگى ميں ہر آدمى اپنى حيثيت كو معين كرے_
3_ اسلامى معاشرہ ميں پھيلنے والى برى باتوں كے خلاف مبارزہ اور جنگ كى روح كو اس غرض سے برانگيختہ كرنا كہ اسلامى قدروں كااعادہ اور اس كا استحكام ہوجائے_
الف _ امويوں كے جھوٹے دينى نفوذ كو ختم كرنا
اموى يہ دكھا نے كے لئے كہ وہ پيغمبر (ص) كے جانشين ہيں اور انكى حكومت، خدا كے تعيين كردہ احكام كے مطابق ہے، لوگوں كے دينى عقائد سے فائدہ حاصل كر رہے تھے اور ان كا مقصد تھا كہ ہر طرح كى ممكنہ تحريك كى پہلے ہى سے مذمت كى جائے اور دين كے نام پر اپنے لئے اس حق كے قائل ہوجائيں اور ہر طرح كے تمّرد كو چاہے وہ اپنى سمجھ سے كتنے ہى حقدار كيوں نہ ہوں، ختم كرديا جائے_
اس غرض سے وہ زبان پيغمبر (ص) سے منسوب جھوٹى حديثوں كے ذريعہ لوگوں كو دھوكہ ديتے _ اس طرح _ لوگوں كا حكومت اموى پر ايسا ايمان ہوگيا تھا كہ وہ اموى حكومت حدود دين سے چاہے جتنى بھى خارج كيوں نہ ہوجائے، لوگ پھر بھى اموى حكومت كے خلاف قيام كو حرام سمجھتے تھے_
امويوں نے اپنے كثيف اعمال پر كس حد تك دين كا پردہ ڈال ركھا تھا اس كو واضح كرنے كے لئے ہم يہاں انقلاب حسيني(ع) سے دو تاريخى نمونے نقل كر رہے ہيں:
1_ ابن زياد نے لوگوں كو مسلم كى مدد سے روكنے كے لئے جو خطبہ ديا اس ميں اس نے كہا:
'' واعتصموا بطاعة اللہ وطاعة ائمتكم '' 15
خدا اور اپنے پيشوا ( ائمہ) كى اطاعت كرو_
2_ عَمر وبن حجّاج زُبيدى _ كربلا ميں اموى سپاہ كے كمانڈروں ميں ايك كمانڈر نے جب ديكھا كہ بعض سپاہى حسين (ع) سے مل كر ان كى ركاب ميں جنگ كر رہے ہيں تو اس نے چلاكر كہا '' اے اہل كوفہ اپنے امير كى اطاعت كرو اور جماعت كے ساتھ رہو اور اس كو قتل كرنے كے سلسلہ ميں اپنے دل ميں كوئي شك نہ آنے دو جو دين سے خارج ہوگيا اور جس نے امام كى مخالفت كي16
ايسے ماحول ميں نقلى دينى نفوذ كو ختم كرنے كے لئے سب سے زيادہ اطمينان بخش راستہ يہ تھا كہ كوئي ايسا شخص اس كے خلاف قيام كرے جو تمام افراد ملت كى نظر ميں مسلّم دينى امتيازات كا حامل ہو تا كہ حكومت اموى كے كريہہ چہرہ سے دينى نقاب اتار كر پھينك دے اور اس كى گندى ماہيت كو آشكار كردے_
ايسا مجاہد فى سبيل اللہ سوائے حسين (ع) بن علي(ع) كے اور كوئي دوسرانہ تھا اس لئے كہ آپ كا دوسروں كے دلوں ميں نفوذ و محبوبيت اور خاص احترام تھا_ انقلاب حسين (ع) كے بالمقابل يزيد كے رد عمل نے اسلام اور اموى حكومت كے درميان حد فاصل كھينچ دى اور اموى حكومت كى حق كے خلاف ماہيت كو روشن كرديا_ جو مظالم بنى اميہ نے حسين (ع) ،ان كے اصحاب اور اہل بيت (ع) پرڈھا ئے تھے اس كى وجہ سے ان كے وہ سارے دينى اور مذہبى رنگ مكمل طور پر اڑگئے جو انہوں نے اپنے اوپر چڑھا ركھے تھے اور اس كام نے ان كى مخالف دين ماہيت كو آشكار كرديا_
حسين ابن على (ع) نے اپنى مخصوص روش سے امويوں كى دينى پايسى كو خطرہ ميں ڈال ديا انہوں نے جنگ شروع كرنے كے لئے اصرار نہيں كيا اور امويوں كو اس بات كى فرصت دى كہ وہ ان كو اور ان كے اصحاب كو قتل كرنے سے گريز كريں ليكن ان لوگوں كو حسين (ع) اور ان كے اصحاب كا خون بہانے كے علاوہ اور كچھ منظور نہيں تھا_ اور يہى بات امويوں كى زيادہ سے زيادہ رسوائي كا باعث بني_
انہوں نے حسين(ع) كے ساتھ سختى سے كام لے كر در حقيقت اسلام سے جنگ كى اور حسين (ع) ابن على (ع) نے بھى اس بات سے مناسب فائدہ اٹھايا اور ہر مناسب موقع پر اس نكتہ پر تكيہ كيا اور اپنے درخشاں موقف كو مسلمانوں كے سامنے پيش كيا_
ب _ احساس گناہ
انقلاب حسين (ع) كا دوسرا اثر خصوصاً اس كا اختتامى نقطہ تمام افراد ميں احساس گناہ كا پيدا كرنا اور ضمير كى بيدارى تھى جس كے بعد وہ آپ كى مدد كے لئے دوڑ پڑے، ليكن نہيں آئے، گنہگار ہونے كا احساس اور وجدان و عقل كى توبيخ و سرزنش، ان لوگوں كے دلوں ميں جنہوں نے مد د كا وعدہ كر كے مددنہيں كي، اسى كربلا كے عصر عاشور سے ابن زياد كے لشكر كے درميان عامل قوى تھا _ اس احساس گناہ كے دو پہلو ہيں، ايك طرف يہ احساس، گنہگار كو اپنے جرم و گناہ كے جبران پر ابھارتا ہے اور دوسرى طرف ايسے گناہ كے ارتكاب كا سبب بننے والوں كے لئے لوگوں كے دلوں ميں كينہ اور عداوت پيدا كرتا ہے_
ضمير كى بيدارى اورگناہ كا احساس ہى تھا جس نے انقلاب كے بعد بہت سى اسلامى جمعيتوں كو اپنے گناہ كا جبران كرنے كى غرض سے كوششيں كرنے پر ابھارا اور امويوں كے بارے ميں لوگوں كے دلوں ميں زيادہ سے زيادہ كينہ اور عداوت پيدا كيا_
اس وجہ سے واقعہ كربلا كے بعد امويوں كو متعدد انقلابات سے روبرو ہونا پڑ ا ان سب كا سرچشمہ ان كا اصلى سبب انقلاب حسين(ع) ، انقلابى افراد كا امويوں كى مدد سے انكار اور ان سے انتقام لينے كا جذبہ تھا_
امام حسين(ع) كے پس ماندگان كى اسيرى كے زمانہ كى تقريريں بھى اس سلسلہ ميں بہت موثر ثابت ہوئيں_
ج _ روح جہاد كى بيداري
حسين (ع) ابن على (ع) كى شہادت كے بعد جنگ و جہاد كى روح امت اسلامى ميں جاگ اٹھي_ انقلاب سے پہلے انفرادى اور اجتماعى بيماريوں كا ايك سلسلہ، اسلام كے تحفظ كى راہ ميں مسلمانوں كے انقلاب لانے سے مانع تھا_ ليكن امام حسين (ع) كے انقلاب نے، انقلاب كى تمام انفرادى و اجتماعى ركاوٹوں كو توڑ ديا اور اسلام كے پيكر ميں ايك نئي روح پھونك دي_
حسين(ع) بن على (ع) كے انقلاب كے بعد بہت سى ايسى تحريكيں معرض وجود ميں آئيں جن كو اسلامى معاشرہ كے افراد كى پشت پناہى اور حمايت حاصل تھي_ ذيل ميں ہم ان تحريكوں ميں سے چند كا ذكر كريں گے_
1_ شہادت حسينى (ع) كا پہلا براہ راست ردّ عمل پيغمبراكرم (ع) كے ايك صحابى سليمان بن صرد كى قيادت ميں انقلاب، توّابين كے نام سے شہر كوفہ ميں ظاہر ہوا_ اس تحريك ميں بزرگ شيعوں اور اميرالمؤمنين (ع) كے اصحاب ميں سے ايك گروہ نے شركت كي_
توّابين كى تحريك 61 ھ سے شروع ہوئي اور يزيد كى زندگى تك پوشيدہ طور پر لوگوں كو خون حسين (ع) كا بدلہ لينے كے لئے دعوت ديتى رہي_ ان لوگون نے يزيد كے مرنے كے بعد احتى اط اور رازدارى كو ختم كرديا اور اعلانيہ طور پر اسلحہ اور لشكر جمع كركے آمادہ كارزار ہوگئے_ انكا نعرہ '' يالثارات الحسين (ع) '' تھا ان كے قيام كا جو شيوہ تھا اس سے ان كى پاك بازى اور اخلاص كا پتہ چلتا تھا_ 17''
2_ انقلاب توابين كے بعد انقلاب مدينہ شروع ہوا_ حضرت زينب كبرى سلام اللہ عليہا مدينہ واپسى كے بعد انقلاب كى كوشش كرتى رہيں اس طرح كہ مدينہ ميں يزيد كا مقرر كردہ حاكم، مدينہ كے حالات كے خراب ہونے سے خوف زدہ ہوگيا اور جناب زينب (ع) كى كاركردگى كى رپورٹ اس نے يزيد كو بھيجي، يزيد نے جواب ميں لكھا كہ '' لوگوں كے ساتھ زينب (ع) جو رابطہ قائم كر رہى ہيں اس كو منقطع كردو 18''
اسى زمانہ ميں اہل مدينہ كى نمائندگى كرتے ہوئے ايك وفد شام پہنچا اور واپس آنے كے بعد اس نے اہل مدينہ كے مجمع ميں تقرير كى اور يزيد پر ان لوگوں نے تنقيد كى ، ان كى حقائق پر مبنى تقريروں كے بعد اہل مدينہ نے قيام كيا، يزيد كے گور نر كوان لوگوں نے مدينہ سے نكال ديا پھر يزيد كے حكم سے شام كى خون كى پياسى فوج نے شہر مدينہ پر حملہ كرديا اور نہايت سختى اور خباثت كے ساتھ اس نے قيام مدينہ كو كچل ڈالا_ اور لشكر كے سپہ سالار نے تين دن تك مدينہ كے مسلمانوں كى جان، مال اور عزت و آبرو كو اپنے سپاہيوں كے لئے مباح قرار ديا_ 19
اس كے بعد 67 ھ ميں ''مختار ابن ابى عبيدہ ثقفى نے عراق ميں انقلاب برپا كيا اور خون حسين (ع) كا انتقام ليا_
اس طرح مختلف تحريكيں اور انقلابات ايك دوسرے كے بعد رونما ہوتے رہے يہاں تك كہ بنى اميہ كے خاتمہ پر يہ سلسلہ ختم ہوا_
حوالہ جات
1 الاغاتى جلد 6/ 356_
2 مقاتل الطالبين / 120 ،البدايہ والنہايہ / 197_
3 '' ... انى لم اخرج اشراً و لا بطراً و لا مفسداً و لا ظالماً و انما خرجت لطلب الاصلاح فى امة جدى صلى اللہ عليہ و آلہ و اريد ان آمر بالمعروف و انھى عن المنكر و اسير بسيرة جدى و ابى على بن ابى طالب ...''(بحار ج 44 / 329 مناقب جلد 4/ 89_
4 ''ان رسول اللہ قال من را ى سلطاناً جائراً مستحلاً لحرم اللہ ناكثاً لعھد اللہ مخالفاً لسنة رسول اللہ يعمل فى عباداللہ بالاثم و العدوان فلم يغير ما عليہ بفعل و لا قول _ كان حقاً على اللہ ان يدخلہ مدخلہ، اَلا وان ھؤلاء قد لزموا طاعة الشيطان و تركو طاعة الرحمن و اظہر الفساد و عطلوا الحدود و استاثروا بالفى و احلوا حرام اللہ و حرموا حلالہ، و انا ا حق من غير ...'' تاريخ طبرى ج / 403 ، كامل ابن اثير ج 4 / 48 مقتل مقوم 218 مقتل ابى مخنف_
5 امام حسين (ع) نے جو خط معاويہ كو لكھا تھا اس كے متن سے آگاہى كے لئے كتاب الامامہ و السياسة ج 1ص155 ص 157 ص 160 ملاحظہ فرمائيں_
6 امام حسن كى زندگى كى تاريخ كى تحقيق ميں ہم ان اسباب كى طرف اشارہ كرچكے ہيں_
7 اخبار الطوال / 221 ، ثورة الحسين / 161 ، انساب الاشراف بلاذرى ج 3/17 ، 152_
8 فان حرمت يوماً على دينفخذھا على دين المسيح بن مريم(تتمہ المنتہى / 43)
9 سمو المعنى عبداللہ علائي / 59_
10 اس تفسير كى بنياد، ديالكتيك (جدليات) كے اصول چہارگانہ پر استوار ہے جو كميت كو اصل نام كے ساتھ كيفيت ميں تبديل كرتاہے_
11 الامامہ و السياسہ ج1 / 160، 161_
12 الامامہ والسياسہ ج 1 ص 156، انساب الاشراف ج 2 ترجمہ معاويہ ابن ابى سفيان ،بحار الانوارجلد 44/212_122
13 اصل سليم بن قيس /183_186 مطبوعہ نجف_
14 لہوف/41، بحار جلد 44/366_367، مناقب 4/29'' خطّ الموت على ولد آدم َفخَظَّ القلادة على جيد الفتاة وَ ما ا ولہَنى الى اَسلافى اشتى اقَ يَعقُوبَ الى يُوسُف، وَ خُيّرَ ليّ مصرع: اَنَا لا قيہ، كانّى باَوصالى يَتَقَطَّعُہا عَسَلانُ الفَلَوات بَينَ النَّواويس و كَربَلا من كان فينا باذلاً مہجتہ موصّلناً عَلى لقاء اللہ نفسہ فليرحَل معنا فانّى راحل مصبحاً انشاء اللہ _
15 تاريخ طبرى ج 5/368 ، بحار ج 44/348_
16 تاريخ طبرى ج 5/435، كامل ابن اثير ج 4/67_
7 1 انقلاب توابين كے واقعہ كى تفصيل طبرى نے اپنى تاريخ كى جلد 5/ 551 _ 568 پر لكھا ہے_
18 زينب كبرى تاليف جعفر النقدي/ 120، ثورة الحسين تاليف محمد مہدى شمس الدين_
19 طبرى ج 5/482_ كامل ابن اثير ج 4/111_ 113 اور يہ واقعہ تاريخ ميں واقعہ حرّہ كے نام سے مشہور ہے_
مسجد کبود - ایران کے شہر تبریز میں
مسجد جہانشاہ ( ترکی آذربایجانی: Göy Məscid - گوی مچید)، یا مسجد کبود ( گوی مسجد ) ابو مظفر جہانشاہ بن قرایوسف کے آثار میں سے ہے جس کا تعلق قراقویونلو کے ترکمانوں سے ہے اس کی تعمیرکا سلسلہ جہان شاہ بن قرا یوسف قراقویونلو کی بیوی جان بیگم خاتون کی کوشش اور نگرانی میں پایہ تکمیل تک پہنچا ہے۔
تاریخی کتب میں اس عمارت کو ( مظفریہ عمارت ) کے نام سے یاد کیا گیا ہے جو ابوالمظفر یعقوب بہادر خان کی خاص توجہ کا مرکز قرارپائی۔
اس دور میں تبریز میں ترقی کی کافی چہل پہل او رونق تھی۔
گیارہویں صدی ہجری کے اوائل میں ترک عثمانی سیاحوں کاتب چلبی اور اولیا چلبی اور اسی صدی کے اواخر میں فرانسیسی سیاحوں تارونیہ اور شاردن نے اس مسجد کا قریب سے مشاہدہ کیا تھا۔
کاتب چلبی جہان نما تاریخ میں تحریر کرتے ہیں کہ مسجد جہانشاہ کی درگاہ طاق کسری سے بہت بلند وبالا ہے یہ عمارت بڑی عالیشان ہے جس کو خوبصورت انداز میں تعمیر کیا گیا ہے اور اس کے گنبد بہت اونچے ہیں۔
یہ ایک پرکشش مسجد ہےجو اس کے اندر داخل ہوگیا پھراس کا دل اس سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دیتا ہے
فرانسیسی سیاح میڈم ڈیولافوا لکھتی ہیں:
تبریز میں زیادہ قدیم عمارتیں نہیں ہیں لیکن جو کچھ باقی بچا ہے وہ قابل توجہ ہے اور مسجد کبود اس کا بہترین نمونہ ہے جس کو جہانشاہ قراقویونلو نے پندرہویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ زلزلے کی وجہ سے اس کا شاندار گنبد خراب ہوگیا ہے اور دیواروں کا بعض حصہ بھی گر گیا ہے۔
صحن کے دروازے اور مسجد کبود سے ملحقہ عمارات، دبستان جہانشاہ اور آذربائیجان میوزیم کی تعمیر 1337 میں ہوئی اور اس وقت یہ تبریز کے تاریخی اور ثقافتی مراکز میں شامل ہیں جو دیکھنے کے لائق ہیں آذربائجان کے میوزیم کا سب سے اہم حصہ مشروطیت میوزیم کا حصہ ہے۔
قدس کی آزادی کا واحد ذریعہ امام حسین(ع) کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا ہے
عراق کی اعلی مجلس اسلامی کے سربراہ سید عمّار حکیم نے کہا ہے کہ دشمنوں کے چنگل سے بیت المقدس کو آزاد کرانے کا واحد راستہ، فرزند رسولۖ حضرت امام حسین(ع) کی بتائی ہوئی راہ و روش پر عمل کرنا ہے۔
انھوں نے تاسوعائے حسینی کے موقع پر دارالحکومت بغداد میں کہا کہ غزہ کی دوسری جنگ میں غاصب صہیورنی ریاست کے مقابلے میں مظلوم فلسطینیوں کی کامیابی نے اس بات کو ثابت کردیا کہ غیور عوام، ظلم و ستم کے مقابلے میں کبھی خاموش نہیں رہتے اور جارح طاقتیں، اپنے مقاصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتیں۔
عراق کی اعلی مجلس اسلامی کے سربراہ عمّار حکیم نے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر غاصب صہیورنی ریاست کے وحشیانہ حملوں کے مقابلے میں عالمی برادری اور خاص طور سے عربوں کی خاموشی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ۔ انھوں نے اسی طرح شام کے مختلف گروہوں سے اپیل کی کہ وہ اغیار کی مداخلت سے دوری اختیار کرتے ہوئے اپنے مسائل مذاکرات کے ذریعہ خود حل کرنے کی کوشش کریں ۔