Super User
صدر زرداری نے کوئٹہ سانحے پر اہم اجلاس طلب کرلیا
پاکستان کے صدر آصف علي زرداري نے کوئٹہ سانحے کے تعلق سے گورنر بلوچستان کو طلب کرليا ہے -
پاکستان کے صدر نے کوئٹہ اور مجموعي طور پر بلوچستان ميں فوري قيام کے امن کے لئے گورنر بلوچستان ذوالفقار مگسي اور وزير اعلي سميت تمام صوبائي وزراء ، ممبران اسمبلي اور سينٹروں کو طلب کرليا ہے اور پير کو اس سلسلے ميں بلاول ہاؤس ميں ايک اہم اجلاس ہوگا - پاکستاني ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اجلاس ميں اہم فيصلوں کي توقع کي جارہي ہے -
دوسري طرف صدر آصف زرداري نے بلوچستان کي سبھي مذہبي اور بلوچ قيادت سے فوري مذاکرات کے لئے وزير اعظم راجا پرويز اشرف کي سربراہي ميں ايک کميٹي تشکيل دے دي ہے -
صدر پاکستان نے وفاقي حکومت کو ہدايت دي ہے کہ کوئٹہ دھماکوں ميں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقين کو فوري طور پر معاوضہ ديا جائے -
اطلاعات ہيں کہ زخميوں کو کوئٹہ سے کراچي منتقل کرنے کے لئے ايک طيارہ روانہ کيا جارہا ہے-
جناب سودہ کی سیرت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جناب سودہ، اہل مکہ اور قبیلہ قریش کے زمعہ بن قیس کی بیٹی تھیں- ان کا شجرہ نسب پیغمبر اسلام {ص} کے جد امجد تک پہنچتا ہے- جناب سودہ کے والد ان افراد میں سے تھے، جنھوں نے ابتداء میں پیغمبر اسلام {ص} کی دعوت کو قبول کرکے اسلام لایا تھا-
جناب سودہ نے پہلے اپنے چچیرے بھائی، سکران بن عمرو بن عبدالشمس سے ازدواج کی اور اس سے ان کے ہاں عبدالرحمن نامی ایک بیٹا پیدا ھوا تھا-
ظہور اسلام اور رسول خدا{ص} کی دعوت کے بعد پہلے خود سودہ مسلمان ھوئیں اور اس کے بعد ان کا شوہر بھی مسلمان ھوا اور کفار مکہ کی طرف سے مسلمانوں کو اذیت و آزار کا سلسلہ شروع ھونے کے بعد اس میاں بیوی نے بھی دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ حبشہ ھجرت کی-
مکہ میں مسلمانوں کی فتحیابی اور مکہ کے باشندوں کےاسلام قبول کرنے کی خبر سننے کے بعد مسلمان حبشہ سے مکہ کی طرف واپس لوٹے- اس سفر میں جناب سودہ کے شوہر وفات پا گئے- لیکن جناب سودہ کو معلوم ھوا کہ مکہ میں مسلمانوں کی فتحیابی کی خبر صحیح نہیں تھی بلکہ مکہ کے کفار نے مسلمانوں کو اذیت و آزار پہچانے میں شدت اختیار کی ہے، تو انھیں شوہر کی رحلت کی مصیبت کے علاوہ اپنے کافر خاندان کے برتاو کےبارے میں سخت پریشانی ھوئی-
اس زمانہ میں کسی عورت کا تنہا اور بے سرپرست ھونا بھی نا پسند اور خطرناک سمجھا جاتا تھا، اس لئے ایسے تنہا افراد مجبور تھے کہ اپنے آپ کو اپنے قبیلہ یا قبیلہ کے سردار کی پناہ میں قرار دیں تاکہ دوسروں کے خطرے سے محفوظ حالت میں زندگی گزار سکیں-
پیغمبر اسلام {ص} سے ازدواج کرنے کی تجویز:
مذکورہ حوادث اور ان نا گفتہ بہ حالات اور غم و اندوہ والے ایام میں پیغمبر اسلام {ص} کے چچا ابو طالب رحلت کرگئے اور تھوڑی مدت کے بعد حضرت خدیجہ کبری{س} بھی اس دارفانی کو وداع کرگئیں اور پیغمبر اسلام {ص} اپنے چچا اور شریک حیات، حضرت خدیجہ کے فقدان کی وجہ سے انتہائی غمگین ھوئے-
پیغمبر اسلام {ص} نے حضرت خدیجہ{س} کی وفات کے بعد ایک سال تک اپنے لئے کسی شریک حیات کا انتخاب نہیں کیا- رسول خدا {ص} کے صحابی فکر مند تھے اور رسول خدا {ص} کے ہاں حضرت خدیجہ {س} کے مقام و منزلت سے آگاہ ھونے کے پیش نظر اس کوشش میں تھے کہ آنحضرت {ص} کے لئے حضرت خدیجہ {س} کی جدائی کے غم کو ہلکا کردیں، اس سلسلہ میں جناب عثمان بن مظعون کی بیوی خولہ بنت حکیم کو پیغمبر اکرم {ص} کی خدمت میں بھیجا، یہ ایک با ایمان اور ہمدرد خاتون تھیں-
خولہ بنت حکیم نے رسول اللہ {ص} سے ملاقات کے دوران آنحضرت {ص} سے کہا: " اے رسول خدا {ص} ہم دیکھ رہے ہیں، خدیجہ کے فراق نے آپ {ص} کو محزون و غمگین بنایا ہے- رسول خدا {ص} نے جواب میں فرمایا کہ :" جی ہاں، وہ میری اولاد اور خاندان کی ماں تھیں"
خولہ نے کہا: اے رسول خدا {ص} آپ {ص} کیوں ازدواج نہیں کرتے ہیں؟
پیغمبر خدا {ص} نےکچھ دیر تک خاموشی اختیار کی، آپ {ص} کی آنکھیں پر نم ھو گئیں، اس کے بعد فرمایا: کیا خدیجہ کے بعد بھی کوئی ہے؟
خولہ نے فرصت کو غنیمت سمجھ کر کہا: کیا میں آپ {ص} کے لئے خواستگاری کرسکتی ھوں؟
سر انجام رسول خدا{ص} نے اپنے لئے خواستگاری کے لئے خولہ بنت زمعہ کی تجویز سے موافقت کی- خولہ ایک مسن خاتون تھیں-
اس کے بعد خولہ بنت زمعہ، جناب سودہ کے پاس گئیں اور ان سے کہا کہ: آپ کے لئے خوشخبری لائی ھوں کہ آج کا دن اپنی ماں سے متولد ھونے کے بعد آپ کی زندگی کا بہترین دن ہے- جناب سودہ نے کہا : کیوں؟
خولہ نے جواب میں کہا: رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بھیجا ہے تاکہ آپ سے خواستگاری کروں-
سودہ نے کہا: کیا رسول خدا{ص} میرے ساتھ ازدواج کریں گے؟ خولہ نے کیا: جی ہاں، انھوں نے آپ کا نام لیا اور مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے-
سودہ نے مسن ھونے اور بیوہ ھونے کے باوجود اپنے باپ کے احترام میں کہا کہ: پس میں اپنے باپ سے اجازت حاصل کرتی ھوں-
خولہ کہتی ہیں کہ: میں سودہ کی خواستگاری کے لئے ان کے والد کے پاس گئیں اور کہا: محمد بن عبداللہ {ص} آپ کی بیٹی سودہ کے بارے میں خواستگاری کرنا چاہتے ہیں-
سودہ کے باپ نے کہا: محمد {ص} ایک کریم و عظیم شخصیت ہیں، لیکن ذرا دیکھو کہ سودہ کیا کہتی ہے-
جب سودہ نے اپنی مکمل رضامندی کا اظہار کیا تو ان کے باپ نے کہا: محمد {ص} سے کہنا کہ خواستگاری کے لئے تشریف لائیں- یہ مبارک رشتہ بعثت کے بعد دسویں سال کے رمضان المبارک میں منعقد ھوا اور اس کے بعد تقریبا تین سال تک آنحضرت {ص} نے کوئی دوسری شادی نہیں کی-
اس مسن خاتون سے پیغمبر اسلام {ص} کی شادی اہل مکہ کے لئے حیرت و تعجب کا باعث بنی اوراس کے ضمن میں آنحضرت {ص} کو اذیت و آزار نہ پہنچانے کا سبب بھی بنی-
سودہ کا بھائی عبد بن زمعہ، مسلمان ھونے کے بعد اظہار افسوس کرتا تھا کہ جب اس کی بہن سودہ کی پیغمبر {ص} سے شادی ھوئی تو وہ دیوانہ ھوکر اسے ایک بڑی مصیبت سجھتا تھا-
اس ازدواج کے بعد، سودہ بنت زمعہ کے قبیلہ کے افراد نے ، رسول خدا {ص} کے درمیان محبت و الفت ایجاد ھونے اور آنحضرت {ص} کے حسن اخلاق کے دلدادہ ھونے کی وجہ سے جوق در جوق اسلام قبول کیا-
یہ ازدواج ھجرت سے ایک سال پہلے واقع ھوئی- سودہ، فاطمہ زہراء {س} اور ام کلثوم کی پرورش کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتی تھیں-
کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام {ص} نے مکہ میں تین خواتین سے ازدواج کی ہے ، جناب خدیجہ، جناب سودہ، اور جناب عائشہ- اس کے بعد باقی ازدواج مدینہ منورہ میں کی ہیں-
رسول خدا {ص} کو خوشحال رکھنے کے لئے جناب سودہ کی کوششیں:
سیرت کی بعض کتابوں کے مطابق، جناب سودہ، آنحضرت {ص} سے عمر میں کافی تفاوت رکھتی تھیں، لیکن ایک مومنہ اور با وقار خاتون تھیں اور آنحضرت {ص} کے ساتھ کافی مہربانی سے پیش آتی تھیں-
ام المومنین جناب سودہ ہمیشہ کوشش کرتی تھیں کہ اپنے کردار و رفتار سے آنحضرت {ص} کو خوشحال رکھیں، مسن ھونے کے باوجود آنحضرت {ص} کی خدمت میں شوخ مزاج تھیں-
جناب سودہ کا پیغمبر اسلام {ص} کی خدمت میں خوش آیند مسائل کو خندہ پیشانی کے ساتھ پیش کرنا مختلف صورتوں میں بیان کیا گیا ہے اور یہ سب، پیغمبر اسلام {ص} کو خوشحال کرنے کے لئے ان کی کوششوں کی دلیل ہے-
رسول خدا {ص} نے مکہ سے مدینہ ھجرت کرنے اور مدینہ میں قیام کرنے کے بعد زید بن حارثہ کو ان کے غلام ابا رافع کے ساتھ دو اونٹ اور پانچ سو درہم دے کر مکہ بھیجا تاکہ فاطمہ زہراء {س} جناب ام کلثوم، جناب سودہ ، جناب ام ایمن حبشیہ { زید بن حارثہ کی بیوی} اور اسامہ بن زید کو مدینہ لائیں-
زید بن حارثہ نے اپنی ماموریت انجام دی اور انھیں حارثہ بن نعمان کے گھر میں رکھا-
ذہبی کہتے ہیں: " پیغمبر اسلام {ص} نے مدینہ میں پہلا گھر سودہ کے لئے تعمیر کیا اورآنحضرت نے تین سال تک کسی دوسری عورت سے شادی نہیں کی-"
بعض روایات کے مطابق ، حضرت خدیجہ {س} کے بعد پیغمبر {ص} کی بیویوں میں سخاوت مند ترین بیوی جناب سودہ تھیں- ابن سعد نے محمد بن سیرین سے نقل کیا ہے کہ: عمر نے درہموں سے بھرے ایک برتن کو جناب سودہ کی خدمت میں بھیجا- جناب سودہ نے کہا: یہ کیا ہے؟ کہاگیا کہ: یہ درہم ہیں- پس انھوں نے انھیں محتاجوں میں تقسیم کیا-
جناب سودہ کا بعض جنگوں میں پیغمبر اکرم {ص} کے ساتھ حضور:
بعض روایتوں سے معلوم ھوتا ہے کہ جناب سودہ، جنگ خیبر جیسی بعض جنگوں میں پیغمبر اسلام {ص} کے ہمراہ تھیں-
ابن سعد اپنی کتاب " طبقات" میں کہتے ہیں:" پیغمبر اسلام {ص} نے جنگ خیبر میں جناب سودہ کو ستر"وسق" خرما اور بیس"وسق" جو دئے{وسق یعنی ایک اونٹ بار}- اس سے معلوم ھوتا ہے کہ جناب سودہ جنگ خیبر میں پیغمبر اکرم {ص} کے ہمراہ تھیں-
اختلاف کا پیدا ھونا:
جب پیغمبر اسلام {ص} کی بیویاں، پیغمبر اکرم {ص} کے نفقہ ادا کرنے کے طریقہ کار سے ناراض ھو گئیں اور زیادہ نفقہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا تو رسول خدا {ص} نے انھیں آپ {ص} کے ساتھ رہنے یا طلاق حاصل کرنے میں اختیار دیا تو خداوند متعال کی طرف سے یہ آیتیں نازل ھوئیں: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا. وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآَخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا»(احزاب/28ـ29{ پیغمبر آپ اپنے بیویوں سے کہہ دیجئے اگر تم لوگ زندگانی دنیا اور اس کی زینت کی طلبگار ھوتو آو میں تمھیں متاع دنیا دے کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں اور اگر اللہ اور رسول اور آخرت کی طلبگار ھو تو خدا نے تم میں سے نیک کردار عورتوں کے لئے بہت بڑا اجر فراہم کر رکھا ہے}
جناب سودہ، ان آیات کو سننے کے فورا بعد رسول خدا{ص} کی خدمت میں حاضر ھوئیں اور کہا: میں کچھ نہیں چاہتی ھوں-
جناب عائشہ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ: " سودہ کو یہ ڈر تھا کہ کہیں پیغمبر اکرم {ص} انھیں مسن ھونے کی وجہ سے طلاق نہ دیں-"
جناب سودہ، جناب عائشہ کے مقا بلے میں ان کی نانی کے مانند تھیں اور انھوں نے بارہا یہ آرزو کی تھی کہ خداوند متعال مجھے قیامت کے دن پیغمبر اسلام {ص} کی شریک حیات کے عنوان سے محشور کرے-
بعض مورخین نے لکھا ہے کہ جناب سودہ اور پیغمبر اکرم {ص} کے درمیان کچھ مسائل پیدا ھوئے تھے اور پیغمبر اکرم {ص} انھیں طلاق دینا چاہتے تھے – جناب سودہ نے پیغمبر اکرم {ص} سے کہا: اے رسول خدا {ص} مجھے طلاق نہ دینا ، تاکہ قیامت کے دن آپ کی بیویوں میں شمار ھو جاوں اور پیغمبر اسلام {ص} نے انھیں طلاق نہیں دیا-
حجتہ الوداع میں جناب سودہ کا اقدام:
حجتہ الوداع میں جناب سودہ بھی پیغمبر اسلام {ص} کی دوسری بیویوں کے ہمراہ بیت الحرام کی زیارت کے لئے مشرف ھوئی تھیں اور پیغمبر اسلام {ص} کی رحلت کے بعد، چونکہ قرآن مجید میں خداوند متعال نے حکم دیا تھا کہ اپنے گھروں میں بیٹھیں، اس لئے وہ اس کے بعد مکہ نہیں گئیں- حاجی کےلئے واجب ہے کہ حالت احرام میں جب عرفات سے فارغ ھو جائے، تو مزدلفہ جاکر نماز صبح تک وہاں پر وقوف کرے اور اس کے بعد آگے بڑھے- حجتہ الوداع میں جب جناب سودہ، پیغمبر اسلام{ص} کے ہمراہ حج کا فریضہ انجام دے رہی تھیں، وہ چل نہیں سکتی تھیں، کیونکہ جناب سودہ ایک عمر رسیدہ خاتون تھیں اور بڑی مشکل سے چل سکتی تھیں- انھوں نے رسول خدا {ص} کی خدمت عرض کی: اے رسول خدا{ص} میں یہاں پر { مزدلفہ میں} صبح تک نہیں رہ سکتی ھوں- رسول خدا {ص} نے انھیں آگے بڑھنے کی رخصت دیدی تاکہ صبح اور ازدحام ھونے سے پہلے رمی جمرات بجا لاکر واجب طواف بجا لائے- اور جناب سودہ کا یہ عمل معذور افراد کے لئے اس کام کے جواز کا سبب بنا-
دوسرے خلیفہ جناب عمر بن خطاب نے اپنی خلافت کے دوران ایک بار پیغمبر اکرم {ص} کی بیویوں کوخانہ خدا کی زیارت کرنے کی اجازت دیدی اور جناب سودہ اور زینب بنت جحش کے علاوہ پیغمبر اسلام {ص} کی سب بیویاں خانہ خدا کی زیارت کے لئے گئیں، لیکن آنحضرت {ص} کی ان دو بیویوں نے کہا کہ، ہم رسول خدا {ص}کے بعد کسی مرکب پر سوار نہیں ھوں گیں- جناب سودہ نے کہا کہ میں گھر میں رہنا چاہتی ھوں ، کیونکہ خداوند متعال نے مجھے اس کا حکم دیا ہے-
جناب سودہ کی خدا اور اس کے پیغمبر{ص} کی اطاعت:
سیوطی لکھتے ہیں:" وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّة الأولى"والی آیت کے نازل ھونے کے بعد جب جناب سودہ سے کہا گیا کہ آپ کیوں حج بجا لانے کے لئے نہیں جاتی ہیں؟ تو انھوں نے جواب میں کہا: میں نے حج اور عمرہ بجا لایا ہے اور خداوند متعال نے مجھے حکم دیا ہے کہ اپنے گھر سے باہر نہ نکلوں اور گھر میں ہی رھوں-
لکھا گیا ہے کہ جناب سودہ گھر سے باہر نہ نکلیں یہاں تک کہ ان کا جنازہ ان کے گھر سے باہر لایا گیا-
جناب سودہ کی وفات:
جناب سودہ نے خلیفہ دوم جناب عمر بن خطاب کی خلافت کے زمانہ میں وفات پائی اور انھیں قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گیا-
جناب زینب بنت جحش کی سیرت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جناب زینب بنت جحش، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک شریک حیات تھیں- ان کے والد جحش بن رئاب تھے اور ان کی والدہ امیمہ بنت عبدالمطلب، یعنی رسول خدا{ص} کی پھپھی تھیں- ھجرت کے پانچویں سال رونما ھونے والے اہم واقعات میں سے ایک واقعہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جناب زینب بنت جحش سے ازدواج کرنا تھا-
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ام المومنین جناب زینب بنت جحش سے ازدواج کرنے کے بارے میں تفصیلات بیان کرنے سے قبل ضروری ہے کہ ان کے پہلے شوہر، زید بن حارثہ سے ان کی ازدواج کی داستان بیان کی جائے-
کہا جاتا ہے کہ جس دوسرے مرد نے رسول خدا {ص} پر ایمان لایا، وہ زید بن حارثہ تھا- زید بن حارثہ بعثت سے کئی سال قبل ام المومنین حضرت خدیجہ{س} کے گھر میں ایک غلام کی حیثیت سے آگیا تھا اور رسول خدا {ص} نے انھیں حضرت خدیجہ سے لے کر آزاد کیا اور اس کے بعد اسے اپنا بیٹا کہا اور مکہ کے لوگ بھی، اس کے بعد اسے زید بن محمد {ص} کہتے تھے-
زید کی اسیری اور غلامی کی داستان:
زید، قبیلہ کلب کا ایک جوان تھا- ان کے قبیلہ اورایک دوسرے عرب قبیلہ کے درمیان لڑائی کے نتیجہ میں زید کو اسیر کیا گیا اور اسے عکاظ کے بازار میں فروخت کرنے کے لئے رکھا گیا اور حضرت خدیجہ {س} کے بھتیجے، حکیم بن حزام نے، حضرت خدیجہ {س} کی طرف سے ایک غلام خرید نے کی سفارش پر، زید بن حارثہ کو خریدا اور حضرت خدیجہ {س} کے لئے اسے مکہ لے آیا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب حضرت خدیجہ {س} کو اپنی شریک حیات قرار دیا، آنحضرت{ص} زید سے پیار و محبت کرنے لگے یہاں تک کہ اسے " زید الحب" کہنے لگے- حضرت خدیجہ {س}نے جب اس قسم کی محبت کا مشاہدہ کیا، تو زید کو آنحضرت {ص} کی خدمت میں بخش دیا-
ایک زمانہ گزرنے کے بعد قبیلہ بنی کلب کے کچھ افراد حج انجام دینے کے لئے مکہ آگئے، اور انھوں نے وہاں پر زید کو دیکھا اور اسے پہچان لیا اور زید نے بھی انھیں پہچان لیا اور کہا کہ: میں بخوبی جانتا ھوں کہ میرے ماں باپ نے میرے فقدان کی وجہ سے جزع و فزع کیا ہے اور اس کے ضمن میں اپنی صحت و سلامتی اور خوشحال ھونے کے بارے میں چند اشعار کہے اور خداوند متعال کا شکر بجا لایا کہ اسے پیغمبر اکرم {ص} کے گھر میں قرار دیا ہے:
"فانّی بحمد اللّه ِ فی خیرٍ اُسْرَةٍ کرامٍ مَعَدٍّ کابرا بعد کابر."
بنی کلب کے افراد نے زید کے زندہ ھونے اور اس کی حالت کی خبر، اس کے والدین کو پہنچا دی- زید کے والد اور چچا فدیہ دے کر زید کو آزاد کرانے کے لئے پیغمبر اسلام {ص} کی خدمت میں حاضر ھوئے اور کہا: اے فرزند عبدالمطلب؛ اے فرزند ہاشم؛ اے اپنی قوم کے سرادر کے فرزند؛ ہم اپنے بیٹے کے بارے میں آپ سے گفتگو کرنے کے لئے آئے ہیں،جو آپ کے پاس ہے- ہم پر مہربانی اور احسان کرنا اور فدیہ حاصل کرکے اسے آزاد کرنا- پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسے آزاد کروں؟ انھوں نے کیا: زید بن حارثہ کو- پیغمبر اسلام {ص} نے فرمایا: آپ لوگ کیوں کوئی دوسری تجویز پیش نہیں کرتے ہیں؟ انھوں نے کہا: کونسی تجویز؟ آنحضرت {ص} نے فرمایا: اسے بلا ئیے اور اسے اپنا فیصلہ خود کرنے کا اختیار دیجئے- اگر اس نے آپ لوگوں کو اختیار کیا، تو وہ آپ کا ہے اور اگر مجھے اختیار کیا، تو خدا کی قسم جو مجھے ترجیح دیدے، میں اس کے بارے میں کسی صورت میں اور کسی قیمت پر معاملہ نہیں کروں گا- انھوں نے کہا: آپ {ص} نے ہمارے ساتھ عدل و انصاف پر مبنی بات کی ہے اور ہم پر احسان کیا ہے-
پیغمبر اسلام {ص} نے زید کو بلایا اور فرمایا: کیا ان کو جانتے ھو؟ اس نے جواب میں کہا: جی ہاں، یہ میرے والد اور وہ میرے چچا ہیں- پیغمبر اکرم {ص} نے فرمایا: میں وہی ھوں جسے تم نے پہچانا اور جس کے ساتھ تم نے ہم نشینی کی ہے- مجھے اور ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا- زید نے کہا: میں ان کو نہیں چاہتا ھوں – میں کسی کو بھی آپ {ص} پر ترجیح دینا نہیں چاہتا ھوں- آپ {ص} میرے لئے میرے باپ اور چچا ہیں- زید کے والد اور چچا نے کہا: اے زید؛ تم پر افسوس ھو؛ کیا تم غلامی کو آزاد ھونے اور اپنے باپ اور چچا پر ترجیح دیتے ھو؟ زید نے جواب میں کہا: جی ہاں، یہ شخص ایسی خصوصیات کے مالک ہیں کہ میں کسی کو ان پر ترجیح نہیں دیتا ھوں- جب رسول خدا {ص} نے اس کا مشاہدہ کیا، اسے حجر اسماعیل میں لے جاکر اعلان کیا: اے حضار؛ گواہ رہنا کہ زید میرا بیٹا ہے، اسے مجھ سے وراثت ملے گی اور مجھے اس سے وراثت ملے گی- جب زید کے باپ اور چچا نے اس امر کا مشاہدہ کیا، تو وہ خوشحال ھوکر اپنے وطن کی طرف لوٹے-
حضرت محمد مصطفے {ص} کے رسالت پر مبعوث ھونے اور اس واقعہ کو چند سال گزرنے کے بعد، سورہ احزاب کی آیت نمبر ۵ اور ۶ " اُدعوُهم لِآبائِهِم هُوَ اَقسَطُ عِندَاللَهِ فَاِن لَم تَعلَموُا اَبآئَهُم فَاِخوانُکُم فی الدین وَ مَوالیکُم وَ لَیسَ عَلَیکُم جُناح فیما اَخطاتُم بِهِ وَ لَکِن ما تَعَمَدَت قُلوبُکُم وَکان اللهُ غَفورا رَحیما " و " اَلنَبی اَولی بِالمومِمنین مِن اَنفُسِهِم وَ اَزواجُهُ اُمَهَتُهُم وَ اوُلوا الاَرحامِ بَعضُهُم اَولی بِبَعض فی کِتَب الله مِنَ المُومنین وَ المُهَجِرین الا اَن تَفعَلوا اِلی اَولیائِکُم مَعروفا کان ذَلِکَ فی الکِتَبِ مَسطُورا"{ ان بچوں کو ان کے باپ کے نام سے پکارو کہ یہی خدا کی نظر میں انصاف سے قریب تر ہے اور اگر ان کے باپ کو نہیں جانتے ھو تو یہ دین میں تمھارے بھائی اور دوست ہیں اور تمھارے لئے اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے جو تم سے غلطی ھوگئی ہے البتہ تم اس بات کے ضرور ذمہ دار ھو جو تمھارے دلوں نے قصدا انجام دی ہے اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے- بیشک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کی بہ نسبت زیادہ اولی ہے اور ان کی بیویاں ان سب کی مائیں ہیں اور مومنین و مہاجرین میں سے قرابتدار ایک دوسرے سے زیادہ اولویت اور قربت رکھتے ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ نیک برتاو کرنا چاھوتو کوئی بات نہیں ہے یہ بات کتاب خدا میں لکھی ھوئی موجود ہے} کے مطابق یہ حکم منسوخ ھوا اور قرار پایا منہ بولے بیٹوں کو اپنے اصلی باپ کے نام سے پکارا جائ اور اس کے بعد زید کو زید بن حارثہ کے نام سے پکارا گیا-
زینب بنت جحش سے زید بن حارثہ کی ازدواج:
رسول خدا{ص} نے زید سے محبت کی بناپر فیصلہ کیا کہ زید کے لئے ایک شریک حیات کا انتخاب کریں اور اسی وجہ سے کسی کو زینب بنت جحش کے پاس خواستگاری کے لئے بھیجا- زینب اور ان کے رشتہ داروں نے پہلے خیال کیا کہ شاید پیغمبر {ص} نے اپنے لئے خواستگاری کی ہے اور خوشحال ھوکر مثبت جواب دیا – لیکن جب انھیں معلوم ھوا کہ یہ خواستگاری زید بن حارثہ کے لئے ہے، تو پشیمان ھوکر آنحضرت {ص} کو پیغام بھیجا کہ یہ ازدواج ہمارے خاندان کی شان و حیثیت کے خلاف ہے اور اس طرح اس رشتہ کے لئے آمادہ نہیں ھوئی اور جب سورہ احزاب کی ۳۶ ویں آیت":وَ ما کان لِمومِن وَ لا مومِنَه اِذا قَضَی اللهُ وَ رَسوُلُهُ اَمرا اَن یَکُونَ لَهُمُ الخِیَرَهُ مِنَ اَمرِهِم وَ مَن یَعصِ اللهَ وَ رَسُولَهُ فَقَد ضَلَ ضَلَلا مُبینا"{ اور کسی مومن مرد یا عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول کسی امر کے بارے میں فیصلہ کردیں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحب اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی کرے گا وہ بڑی کھلی ھوئی گمراہی میں مبتلا ھوگا} نازل ھوئ، تو زینب بنت جحش نے اس ازدواج کے لئے اپنی رضامندی کا اعلان کیا اور اس طرح زید کی شریک حیات بنیں-
ایک مدت کے بعد ان دو کے درمیان کچھ مشکلات پیدا ھوئے- زید نے پیغمبر اکرم {ص} کی خدمت میں شکایت کی اور زینب بنت جحش کو طلاق دینا چاہا- لیکن پیغمبر اسلام {ص} نے اسے صبر و تحمل کرنے کی نصیحت کی اور فرمایا: " اپنی شریک حیات کو نہ چھوڑنا :" اَن زیدا جاء یشکوا زوجتُهُ فَجَعَلَ النَبی یقُولُ: اِتَقِ الله وَ اَمسِک عَلیک زوجک" ایک مدت کے بعد زید پھر سے پیغمبر اکرم {ص} کی خدمت میں آگیے اور خبر دیدی کہ ان کے اور زینب کے درمیان روابط انتہائی حد تک خراب ھوئے ہیں اور دونوں طلاق کے نتیجہ پر پہنچے ہیں- اس وقت پیغمبر اسلام {ص} پر وحی نازل ھوئی اور خداوند متعال نے یوں ارشاد فرمایا: وَ اِذ تَقول لِلَذی اَنعَمَ اللهُ عَلَیهِ وَ اَنعَمت عَلَیهِ اَمسِک عَلَیکَ زَوجَکَ وَ اتَقِ اللهَ وَ تُخفی فی نَفسِکَ ما اللهُ مُبدیهِ وَ تَخشَی النَاسَ وَ اللهُ اَحَقُ اَن تَخشَهُ فَلَمَا قَضَی زَید مِنهَا وَطَرا زَوَجنَکَهَا لِکَی لایَکونَ عَلَی المومنینَ حَرَج فی اَزوَاجِ اَدعِیائِهِم اِذا قَضَوا مِنهُنَ وَطَرا وَکان اَمرُ اللهِ مَفعُولا}( احزاب،۳۷ }اور اس وقت کو یاد کرو جب تم اس شخص سے جس پر خدا نے بھی نعمت نازل کی اور تم نے بھی احسان کیا یہ کہہ رہے تھے کہ اپنی زوجہ کو روک کر رکھو اور اللہ سے ڈرو اور تم اپنے دل میں اس بات کو چھپائے ھوئے تھے جسے خدا ظاہر کرنے والا تھا اور تمھیں لوگوں کے طعنوں کا خوف تھا حالانکہ خدا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے اس کے بعد جب زید نے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے اس عورت کا عقد تم سے کردیا تاکہ مومنین کے لئے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے عقد کرنے میں کوئی حرج نہ رہے جب وہ لوگ اپنی ضرورت پوری کرچکیں اور اللہ کا حکم بہرحال نافذ ھوکر رہتا ہے}
جس چیز کو پیغمبر اسلام {ص} لوگوں کے خوف سے چھپاتے تھے، وہ کیا تھی؟ خداوند متعال ایک حکم کو ثابت کرنا چاہتا تھا اور لوگوں کو ایک دوسرا طریقہ کار سکھانا چاہتا تھا، جو ایام جہالت کے احکام و آداب کے خلاف تھا- اگر عرب کسی کو منہ بولا بیٹا بناتے تھے، اسے اپنی نسبت دیتے تھے اور اس کو اس کے اصلی باپ سے منسوب نہیں کرتے تھے- اس امر کا سورہ احزاب کی آیت نمبر ۴۰ میں ذکر کیا گیا ہے:" ما کان مُحَمَد اَبا اَحَد مِن رِجَالِکُم وَلَکِن رَسُولَ اللهِ وَ خَاتَمَ النَبیینَ وَ کانَ اللهُ بِکُلِ شَی ء عَلیمَا" {محمد تمھارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں اور اللہ ہر شے کا خوب جاننے والا ہے} خداوند متعال اس رسم و رواج کو خاتمہ بخش کر اسلام میں نئے معارف کی بنیاد ڈالنا چاہتا تھا- بہر حال زینب بنت جحش زید بن حارثہ سے جدا ھوئیں-
زینب بنت جحش سے رسول خدا {ص} کی ازدواج:
خداوند متعال نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو وحی فرمایا کہ چونکہ زینب نے خدا کی رضامندی کے لئے عربوں کے رسوم اور اپنی مرضی کے خلاف ایک ایسے شخص سے ازدواج کی تھی جو اس کے مقام و منزلت سے پست تر تھا، اس لئے خدا وند متعال نے اسے اکرام بخشا ہے اور وہ آپ {ص} کی بیوی بن جائے گی-
جناب زینب بنت جحش مہاجر خاتون تھیں اور ان کا تعلق مکہ کے شریف خاندان سے تھا- انھوں نے ھجرت کےتیسرے یا پانچویں سال میں، وحی الہی کے مطابق ۳۵ سال کی عمر میں رسول خدا {ص} سے ازدواج کی- زینب بنت جحش نے اس نعمت کے شکرانہ کے طور پر دو مہینے تک روزے رکھے-
جناب زینب بنت جحش، پیغمب اسلام {ص} کے ساتھ ازدواج کرنے کے بعد فخر و مباہات کا اظہار کرتی تھیں اور پیغمبر اکرم {ص} کی دوسری بیویوں سےبار ہا خطاب کرکے فرماتی تھیں:" میں آپ خواتین سے فرق رکھتی ھوں، کیونکہ آپ کو آپ کےخاندان والوں نے پیغمبر اکرم {ص} کے عقد میں قرار دیا ہے، لیکن مجھے خداوند متعال نے سات آسمانوں سے پیغمبر اسلام {ص} کے عقد میں قرار دیا ہے-" فکانت تفخر علی ازواج النبی "ص" و تقول: زوجکن اهالیکن و زوجنی الله من فوق السموات"
جناب عائشہ کہتی ہیں:" پیغمبر اکرم {ص} کی بیویوں میں سے زینب کے علاوہ کوئی میرا مقابلہ نہیں کرسکتی تھیں-"
رسول خدا {ص} اپنی اس بیوی کو " آواہ" کہتے تھے، یعنی متواضع اور متفرح – جناب عائشہ، ان کے بارے میں یوں کہتی ہیں:" :" ما رایتُ امراه قط خیرا فی الدین من زینب ، و اتقی لله، و اصدق حدیثا، و اوصَلُ للرحم، و اعظم امانه و صدقه " " میں زینب سے دیندار تر، باتقوی تر، صادق تر، ارحام دوست تر، امین تر اور زیادہ صدقہ دینی والی کسی عورت کو نہیں جانتی ھوں-"
جناب زینب صالح اور پرہیزگار ھونے کے ضمن میں ایک محنت کش اور فعال خاتون تھیں- وہ چمڑے کی رنگسازی کرنے اور سلائی میں مہارت رکھتی تھیں اور وہ روزہ داری اور شب بیداری میں مشہور تھیں-
دستکاری کی ماہر تھیں اور اس سے حاصل کی گئی کمائی کو فقراء اور محتاجوں میں صدقہ کے طور پر تقسیم کرتی تھیں، ان سب سے بالا تر یہ کہ وہ احادیث کی راوی تھیں اور انھوں نے پیغمبر اسلام {ص} سے گیارہ ہزار احادیث نقل کی ہیں-
پیغمبر اکرم {ص} کی رحلت کے بعد جناب زینب کی زندگی:
پیغمبر اکرم {ص} کی دوسری بیویوں کی بہ نسبت جناب زینب کے زیادہ خصوصیات کی مالک ھونے کی دلیل یہ تھی وہ حضرت خدیجہ {س} کے بعد دولتمند ترین خاتون تھیں اور فقیروں اور حاجتمندوں کی کافی مدد کرتی تھیں-
خداوند متعال نے جناب زینب بنت جحش کے خاندان کو دولت عطا کرکے، جناب زینب کی حالت بہتر بنائی تھی اور خدا کی یہ عنایت اس کے لئے مسلسل جاری تھی- جناب زینب چمڑے کے کام اور چٹائی بننے میں ماہر تھیں اور اس سے حاصل کی گئی کمائی کو فقیروں اور محتاجوں میں صدقہ کے طور پر تقسیم کرتی تھیں اور اس کے علاوہ پیغمبر اسلام {ص} کی دوسری بیویوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتی تھیں-
ایک دن پیغمبر اسلام {ص} اپنی بیویوں کے ساتھ تشریف فرماتھے، کہ فرمایا: " آپ میں سےجس کا ہاتھ دراز تر ہے وہ سب سے پہلے بہشت میں مجھ سے ملحق ھوگی-"
پہلے مرحلہ میں، پیغمبر اسلام {ص} کی اس فرمائش سے سبوں نے اس کے ظاہری معنی لئے اور اپنے ہاتھ باہر نکال کر دیکھنے لگیں کہ کس کا ہاتھ دراز تر ہے، لیکن بعد میں معلوم ھوا کہ پیغمبر اکرم {ص} کا مراد وہ ہے کہ جو ان میں سے زیادہ تر راہ خدا میں انفاق کرتی ہے- جناب زینب بنت جحش، پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد برابر با تقوی تھیں اور فقراء اور محتاجوں کی مدد کرتی تھیں- جناب زینب کی سخاوت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے دوسرے خلیفہ، جناب عمر بن خطاب کے زمانہ میں پیغمبر اکرم {ص} کی بیویوں کو ملنے والے وظیفہ سے استفادہ نہیں کیا ہے- لیکن ایک سال ان سے بارہ ہزار درہم وصول کرکے یتیموں میں تقسیم کیے اور دعا کی:" خداوندا؛ اس کے بعد مجھے عمر کے وظیفہ کا محتاج نہ بنانا، کیونکہ مال فتنہ ہے-"
پیغمبر اسلام {ص} کی بیویوں کو، جناب زینب بنت جحش کے سنہ ۲۰ ھجری میں ۵۲ سال کی عمر میں اس دنیا سے رحلت کرنے کے بعد معلوم ھوا کہ وہ سب سے سخاوتمند تر تھیں، کیونکہ رحلت کے بعد انھوں نے کوئی درہم و دینار اپنے پیچھے نہیں چھوڑا تھا اور اپنی پوری دولت راہ خدا میں صرف کی تھی-
ام المومنین جناب زینب بنت جحش کو قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گیا ہے-
ترتیب و پیشکش: شہیدہ بزرگی
سات سو روہنگيا مسلمان بے دخل
حکومت تھائي لينڈ نے پناہ کي تلاش ميں سمندري راستے سے آنے والے سات سو روہنگيا مسلمانوں کو بے دخل کرنے کا اعلان کرديا ہے-
جرمن نيوز ايجنسي کے مطابق تھائي پوليس کے سربراہ نے بتايا ہے کہ ميانمار کے روہنگيا مسلمانوں کي يہ تعداد غير قانوني طور پر ملک ميں داخل ہوئي ہے اور ہم انہيں بے دخل کرنے کا ارادہ رکھتے ہيں-
تھائي لينڈ کي پوليس نے جمعرات کے روز تين سو ستانوے روہنگيا مسلمانوں کو جنوبي تھائي لينڈ ميں انساني اسمگلروں کے قبضے سے رہا کرايا تھا جبکہ اس علاقے کي ايک مسجد ميں پناہ ليئے ہوئے تين سو سات ديگر روہنگيا مسلمانوں کو گرفتار کرليا تھا- انساني حقوق کي عالمي تنظيموں نے حکومت تھائي لينڈ کے اس فيصلے پر کڑي نکتہ چيني کي ہے-
واضح رہے کہ ميانمار کے روہگيا کہلائے جانے والے مسلمانوں کو مقامي آبادي اور حکومت کي جانب سے تشدد اور امتيازي سلوک کا سامنا ہے جس کے تنيجے ميں ان کي بہت بڑي تعداد ملک سے فرار ہوکر ديگر ملکوں ميں پناہ لينے پر مجبور ہيں-
ترکی میں امریکی فوجیوں کی قران سوزی کی مذمت
ترکي کي انجر ليک فوجي چھاوني ميں امريکي فوجيوں کے ہاتھوں قرآن سوزي اور ايک مسجد کے منبر کو جلائے جانے کے بعد ترک عوام ميں غم و غصہ پايا جارہا ہے۔
ترکي ميں ايک مقامي مذہبي ميگزين کي جانب سے اس انکشاف کے بعد ، ترکي کے مذہبي اور قوم پرست حلقوں نے امريکي فوجيوں کے اس گستاخانہ اقدام پر حکومت اور فوج کے ذمہ داروں سے وضاحت پيش کرنے کا مطالبہ کيا ہے ۔
ترکي کے ايک مقامي رسالے چوکوراوا نے اپنے تازہ شمارے ميں لکھا کہ امريکي فوجيوں نے نئے عيسوي سال کے موقع پر ترکي کي انجرليک فوجي چھاوني ميں قرآن مجيد اور مسجد کے منبر کو جلا ديا جس کے بعد ترکي ميں ، شہري تنظيموں اور اسلامي حلقوں نے انقرہ حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے اس گستاخي پر فوج کي خاموشي کي سخت مذمت کي ہے ۔
ترکي کي مختلف سياسي جماعتوں اور ديني تنظيموں نے بيان جاري کرکے امريکي فوجيوں کي شرمناک کارروائي کي سخت الفاظ ميں مذمت کي ہے۔
پاکستان ميں دہشتگردي کي مذمت
اقوام متحدہ کے سکريٹري جنرل بان کي مون نے پاکستان ميں شيعہ زائرين کي بس پر دہشت گردانہ حملے اور طالبان کے ہاتھوں اغوا کئے جانے کے بعد پاکستاني فوجيوں کے قتل کے واقعات کي مذمت کي ہے -
بان کي مون نے اسي طرح پاکستان ميں دہشت گردانہ واقعات ميں اضافے پر اپني گہري تشويش کا اظہار کيا-
اقوام متحدہ کے سکريٹري جنرل کے ترجمان مارٹين نسير کي نے ايک بيان ميں کہا کہ بان کي مون نے خاص طور پر مذہبي اقليتوں کے خلاف دہشت گردانہ اقدامات کي مذمت کي ہے -
بان کي مون نے ساتھ ہي طالبان کے ہاتھوں پاکستاني فوجيوں کے اغوا اور پھر انہيں قتل کرديئے جانے کےواقعے کي بھي مذمت کي - انہوں نے کہا کہ کوئي بھي دليل يا مطالبہ اس طرح کے دہشت گردانہ اقدامات کا جواز نہيں بن سکتا-
اقوام متحدہ نے حکومت پاکستان سے اپني يکجہتي کا اظہار کرتے ہوئے دہشتگردي کے خلاف جنگ ميں پاکستان کے اقدامات کي حمايت کا اعلان کيا
رہبر معظم کا 19 دی کی مناسبت سے قم کے عوام کے اجتماع سے خطاب
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح (بروز منگل) قم کے ہزاروں انقلابی اور دیندار افراد کے
اجتماع سے خطاب میں 19 دی ماہ میں قم کے عوام کے قیام کو مبارک ، فیصلہ کن اور اللہ تعالی کے سچے وعدوں کے پورا ہونے کا مظہر قراردیا اور دشمنوں کی حرکات و سکنات ، منصوبوں بالخصوص آئندہ خرداد ماہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے سلسلے میں دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں پائداری، ہوشیاری اور بیداری پر تاکید کرتے ہوئے انتخابات کے بارے میں حکام ، خواص ، عوام ، ذرائع ابلاغ اور انتخابات میں نامزد ہونے والے افراد کی ذمہ داریوں کے بارے میں اہم نکات بیان کئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب کے دوران اور حالیہ تین عشروں میں رونما ہونے والے واقعات اور 19 دی کے قیام جیسے یادگار واقعات کو سبق آموز قراردینے ہوئے فرمایا: بعض لوگ شاہ کی مغرور اور متکبر حکومت پر کامیابی اور امریکہ کی تسلط پسند اور ظالم حکومت کے ذلت آمیز چنگل سے رہائی کو مشکل اور محال تصور کرتے تھے ، لیکن اللہ تعالی کی مدد و نصرت سے شاہ کی طاغوتی حکومت تاریخ کے کوڑے داں میں پھینک دی گئی اور اسلامی جمہوریہ ایران اور ایرانی قوم نے امریکہ کے مد مقابل مکمل استقلال حاصل کرلیا اورآج دیگر قوموں کی آنکھوں میں ایرانی قوم کا نام اور اسلامی نظام قابل فخر اور مایہ ناز بن گیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حالیہ تین عشروں میں کامیابیوں کو اللہ تعالی کے وعدوں کے محقق ہونے کا مظہر اور قرآن مجید کی متعدد آیات کا حوالہ دیتے ہوئےفرمایا: یقینی اور قطعی طور پر اللہ تعالی کی مدد و نصرت مناسب وقت میں مؤمن، پائدار، ہوشیار اور آگاہ قوموں کو حاصل ہوجاتی ہے اور یہ اللہ تعالی کی اٹل اور ناقابل تغییر سنت ہے اور اللہ تعالی کی اسی سنت کی بنیاد پر ایرانی قوم اس مرحلے میں اور دیگر مراحل میں اپنے دشمنوں پر کامیاب ہوجائےگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دنیا میں ایرانی قوم کےصحیح اہداف ، صاف و شفاف گفتگو اور ان اہداف کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں تدبیر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر ایران کی عزیز قوم، اورحوصلہ مند و توانا جوان، استقامت اور پائداری کے ساتھ اپنی راہ پر گامزن رہیں گے تو بیشک اللہ تعالی کی سچی سنت کی بنیاد پر اور مناسب وقت میں ان کے تمام قومی ، مذہبی اور عالمی نعرے محقق ہوجائیں گے اور تاریخ کی راہ بدل جائے گی اور حضرت ولی عصر (عج) کے ظہور کی راہیں ہموار ہوجائیں گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے اورایرانی عوام کو تنگ کرنے کے سلسلے میں سامراجی حکومتوں کے باہمی اتحاد و تعاون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: سامراجی طاقتیں ماضی کی نسبت آج کھل کر اس بات کا اعتراف کررہی ہیں کہ اقتصادی پابندیوں کا مقصد ایرانی قوم کو تنگ اور پریشان کرنا ہے تاکہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے مد مقابل کھڑے ہوجائيں اور ایرانی حکام کو اپنے محاسبات میں تبدیلی لانےپر مجبور کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: لیکن اس سرزمین کے لوگوں کے رجحانات میں اسلام کے اصولوں ،انقلاب اور ایرانیوں کی قومی عزت کے سلسلے میں روز بروز اضافہ ہورہاہے اور یہ کام دشمن کی مرضی کے بالکل خلاف ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کے ساتھ سامراجی طاقتوں کےمقابلے میں مؤثر عوامل کےتجزيہ و تحلیل میں قوم کی ہوشیاری اور بیداری کو بہت ہی ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: ہمیں اجتماعی تقوی اور ہمہ جہت بیداری اور ہوشیاری کے ساتھ دشمن کے منصوبوں پر کڑی نظر رکھنی چاہیےاور کسی ایسے مسئلہ کو وجود میں نہ لائیں جو ہمیں دشمن سے غافل بنادے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکام، مطبوعات اور انٹرنیٹی سائٹوں کے ذمہ دار افراد کو اپنی مکرر تاکیدات اور سفارشات کی طرف توجہ دلائی اور انھیں غلط اور جزئی مسائل بیان کرنے سے دور رہنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ان تمام سفارشوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم سب کی توجہ دشمن کی طرف مبذول ہونی چاہیے تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے کہ دشمن کس ہدف اور مقصد کےپیچھے ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمن کے منصوبوں اور اہداف کو درک کرنے کے لئے پیش کردہ منطقی دائرہ کار یعنی قومی ہوشیاری پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: دشمن کی رفتار و گفتار سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے اپنی توجہ پانچ ماہ بعد خرداد ماہ 1392 میں ایران میں ہونے والے انتخابات پر مرکوز کررکھی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےصدارتی انتخابات کے گیارہویں مرحلے کے بارے میں دشمنوں اور اغیار کی روشوں اور تکنیک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دشمن سب سے پہلے انتحابات منعقد نہ ہونے کے سلسلے میں کوشش کرےگا لیکن انھیں معلوم ہےکہ ایسا ہونے والا نہیں ہے لہذا انھیں اس مسئلہ میں بالکل مایوسی کا سامنا ہے۔
رہبر معظم انقلاب نے اسی سلسلے میں مزید فرمایا: ایک مرتبہ کچھ افراد نے کوشش کی تاکہ انتخابات کو اگر ہوسکے تو دو ہفتوں کے لئے مؤخر کردیا جائے لیکن ہم نے تاکید کی کہ انتخابات کو ایک دن بھی مؤخر نہیں ہونا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ انتخابات بالکل اپنے وقت پر ہوں گے اور دشمن کے لئے یہ راستہ بالکل مسدود اور بند ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمن کی طرف سے عوام کو انتخابات میں شرکت سے روکنے و مایوس کرنے کے سلسلے میں دشمن کے واضح ہدف اور رکاوٹ ڈالنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ممکن ہے بعض لوگ ہمدردی اور دلسوزی کے ساتھ انتخابات کے بارے میں اظہار خیال کریں لیکن سب کو اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ کہیں ان کے کسی اقدام سے دشمن کے منصوبے کو مدد نہ ملے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آزاد انتخابات کی بار بار رٹ لگانے والے افراد پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا: یہ واضح ہے کہ انتخابات آزاد منعقد ہونے چاہییں کیا گذشتہ تین عشروں میں ہونے والے انتخابات آزاد منعقد نہیں ہوئے ہیں؟ کون سے ملک میں ایران سے زیادہ آزاد انتخابات منعقد ہوتے ہیں؟ آپ ہوشیاررہیں ، کہیں آپ کی یہ باتیں انتخابات میں عوام میں مایوسی پیدا ہونےکا سبب نہ بن جائیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں انتخابات میں دشمن کے منصوبوں کو مدد پہنچانے والے طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کون سے ملک میں امیدواروں کی صلاحیتوں کے بارے میں جانچ پڑتال نہیں ہوتی؟ آپ کیوں اس مسئلہ پر اتنا زور دے رہے ہیں اس لئے تاکہ عوام کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ انتخابات میں شرکت کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس دائرے میں عمدی یا غیر عمدی طورپر حرکت کرنے والے افراد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: غفلت کا ہر گز شکار نہیں ہونا چاہیےاور دشمن کےمد نظر جدول کو بھرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات کی سلامت کے بارے میں شکوک وشبہات ڈالنے والے افراد پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان کے اس اقدام کو ایسی دیگر روشوں میں شمار کیا جو دشمن کے منصوبوں کو مدد پہنچاتی ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: میں بھی اسی بات پر تاکید اور اصرار کرتا ہوں کہ انۃحابات کو مکمل طور پر صحیح و سالم اور امانتداری کے ساتھ منعقد ہونا چاہیے اور حکومتی اورغیر حکومتی اہلکاروں کو قوانین کے مطابق اور تقوی اور پرہیزگاری کے ساتھ سالم انتخابات منعقد کرانے چاہییں اوریقینی طور پر ایسا ہی ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سالم انتخابات منعقد کرانے کے سلسلے میں بنیادی آئين میں موجود بہترین روشوں اور طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بنیادی آئين وقوانین کے طریقوں پر پابندی در حقیقت سالم انتخابات منعقد کرانےکی اصلی ضمانت ہے مگر یہ کہ بعض لوگ غیر قانونی طریقوں کا سہارا لیں جیسا کہ بعض افراد نے سن 1388 ہجری شمسی کے انتخابات میں غیر قانونی طریقوں پر عمل کیااورملک و قوم کے لئے مشکلات اور مسائل پیدا کئے اوراپنے لئے بھی دنیا اور ملاء اعلی میں شرمندگی اور بدبختی کے اسباب فراہم کئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےانتخابات میں دشمن کے اصلی ہدف میں ممد و معاون روشوں کی تشریح میں عوام کی انتخابات میں کمرنگ شرکت کو قراردیتے ہوئے فرمایا: ممکن ہے بعض لوگ انتخابات میں کوئی حادثہ یاکوئی اقتصادی ، سیاسی یا سکیورٹی سے متعلق واقعہ رونما کرکے توجہ کو دوسری طرف مبذول کردیں کیونکہ یہ بھی دشمن کے منصوبوں میں شامل ہے۔ لیکن میں مطمئن ہوں کہ ایرانی قوم بہت ہی ہوشیار اور بابصیرت قوم ہے اور وہ دشمنوں کے مکر و فریب کو ناکام بنادےگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آئندہ صدارتی انتخابات کے امیدواروں کے بارے میں بھی بیان کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات میں شرکت کو عوام کا حق و وظیفہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوری نظام اور اسلامی قوانین پر یقین رکھنے والا ہر فرد انتخابات میں اپنے اس حق کا استعمال کرےگااوراپنے وظيفہ پر عمل کرے گا اور بعض لوگ انتخابات میں اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لیں گے اور اپنی توانائیوں کو عوام کے سامنےآزمائیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےملک کے انتظامی امور کے چلانے کو سنگین اور مشکل کام قراردیتے ہوئے فرمایا: اجرائی اور انتظامی کام کوئی معمولی اور آسان کام نہیں ہےبلکہ یہ کام بہت ہی مشکل کام ہے جو اعلی سطح کی انتظامیہ کے دوش پر ڈالا جاتا ہےلہذا ایسے لوگ صدارتی امیدوار بنیں جو اپنے اندر ایسی توانائی محسوس کریں اور انتظامی کام جانتے ہوں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں مزید فرمایا: ممکن ہے بعض افراد دوسری جگہوں پر کام میں مشغول ہوں اور تشخیص نہ دے سکیں کہ انتظامی اور اجرائی کام کتنا مشکل ہے لہذا ایسے افراد صدارتی انتخابات میں نامزد ہوں جو اجرائی اور انتظامی صلاحیتیں رکھتےہوں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےفرمایا: ایسے افراد صدارتی امیداوار بنیں جو اس سنگين کام کو انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور بنیادی آئین میں جو صلاحیتیں شرط ہیں ان پر بھی پورے اترتے ہوں جن کا گارڈین کونسل جائزہ لےگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: صدارتی امیدواروں کو حقیقی طورپر اسلامی نظام اور بنیادی قوانین سے لگاؤ رکھنا چاہیے اور ان میں بنیادی آئین کو نافذ کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے کیونکہ صدر اس سلسلے میں قسم کھاتا اور حلف اٹھاتا ہے اور قدرتی طور پر جھوٹی قسم نہیں کھانی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے اختتام پر آئندہ انتخابات کے بارے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: انشاء اللہ اور اللہ تعالی کےفضل و کرم سے آئندہ سال خرداد ماہ میں شاندار اورولولہ انگیز صدارتی انتخابات منعقد ہوں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قم کے عوام کے شاندار اور ولولہ انگیز اجتماع میں انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد قم کے عوام کے فیصلہ کن اور مؤثر اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انیس دی کے واقعہ کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس قسم کے واقعات سےنئی نسل اپنے ماضی کی تاریخ سے واقف وآشناہوتی ہے جبکہ قوم کی قابل فخر مجاہدت کی بھی قدردانی ہوتی ہے اوراس عمل سے ہر دور کے جوانوں کو یہ سبق ملےگا کہ طاقتور طاقتوں اوردشمنوں کے مقابلے میں استقامت و پائداری سےحتمی کامیابی حاصل ہو جائےگی۔
رہبر معظم سے مجمع خیرین سلامت کے اراکین کی ملاقات
![]()

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک میں خیرین سلامت کونسل کے اراکین کے ساتھ ملاقات میں " حفظان صحت و سلامت اور علاج " کے امور کو ملک کے اصلی اور بنیادی مسائل میں قراردیا اور اس سلسلے میں ابتدائی طور پر عوام کی طرف کی جانے والی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جب بھی عوامی جذبہ و ایمان اور توانائی میدان عمل میں واردہوتی ہے تو کاموں میں دگنی برکت پیدا ہوجاتی ہے اور مشکلات حل ہوجاتی ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سیاست، اقتصاد، صحت و سلامت، ثقافت اور تعلیم کے شعبوں میں عوام کی موجودگی کو فیصلہ کن قراردیتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کی اصل بھی عوام کےاسی حضور اور موجودگی سے منسلک رہی ہے اور اگر عوام میدان میں موجود رہ کر اپنانقش ایفا نہ کرتے تو سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کے بس میں کچھ بھی نہیں تھا۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے حفظان صحت و سلامت اور علاج کےامور کو ملک کےبنیادی اورترجیحی مسائل قراردینے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: صحت و سلامتی سے متعلق حکام کو چاہیےکہ وہ اجرائی میدان میں پروگرام اسطرح مرتب کریں تاکہ عوام کو علاج ودرمان کے شعبے میں مشکلات کا سامنانہ کرنا پڑے اورلوگ اس سلسلے میں آسودہ خاطر رہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے خیّرین جیسے عوامی ڈھانچوں کی حفاظت کواہم اور ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: بند اور محدود اداری تشکیلات کے ذریعہ عوامی اداروں کے شوق و نشاط اور فروغ کو سلب نہیں کرنا چاہیے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے اختتام پر نیک کاموں کے آثاراور نتائج کوخیرین کے لئے سب سے بڑی تشویق قراردیتے ہوئے فرمایا: ان نیک اور خالص کاموں میں اللہ تعالی کی مرضی اور خوشنودی بھی شامل ہوتی ہے اور اللہ تعالی کےنزدیک ہر نیک عمل محفوظ اور نظر سے پنہاں نہیں رہےگا۔
اس ملاقات کے آغاز میں مجمع خیرین سلامت کے جنرل سکریٹری جناب سید رضا نیری نے اس کونسل کی سرگرمیوں ، خدمات اور مختلف ضرورتوں کے بارے میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا: مجمع خیرین نے گذشتہ تین برسوں میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کی فرمائشات کے مطابق سلامت کے شعبے میں عوامی ظرفیتوں سے بھر پور استفادہ کیا ہے۔
ملکی امکانات و وسائل کی شناخت اورعوامی امداد نیز انھیں پروگرام کے مطابق قومی صحت و سلامت کے ترجیحی اور بنیادی امور میں صرف کرنے کے سلسلے میں ہدایت و رہنمائی کےلئے ملک میں مجمع خیرین سلامت کی تشکیل عمل میں آئی ہے۔
جناب میمونہ کی سیرت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جناب میمونہ حارث بن حزن کی بیٹی تھیں- وہ جناب عباس بن عبدالمطلب کی شریک حیات، جناب ام فضل کی بہن تھیں- جناب میمونہ کی والدہ خولہ {ھند} بنت عوف تھیں جو ایک مشہور خاندان سے تعلق رکھتی تھیں- خولہ مکہ کی بہترین عمر رسیدہ خاتون مانی جاتی تھیں، کیونکہ اس کے داماد بہترین افراد تھے، جن میں عباس بن عبدالمطلب ، جعفر بن ابیطالب، حمزہ بن عبدالمصلب اور سر انجام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قابل ذکر ہیں-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا، عباس بن عبدالمطلب کی بیوی لبابہ ام فضل، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حمزہ سید الشہداء کی بیوی، سلمی، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچیرے بھائی جعفر بن ابیطالب کی بیوی، اسماء اور ام المومنین میمونہ وہ چار عورتیں ہیں، جنھیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار با ایمان خواتین کے طور پر معرفی کیا ہے- سلمی نے بھی اپنے شوہر حمزہ کے ساتھ اسلام قبول کیا-
جناب میمونہ نے ایام جاہلیت میں اپنے شوہر مسعود بن عمرو ثقفی سے جدائی اختیار کرکے ابورہم بن عبدالعزی سے ازدواج کی اور ابو رہم کی وفات تک اس کے عقد میں تھیں-
صلح حدیبیہ کے ایک سال بعد، سنہ ۷ھجری کے ماہ ذیقعدہ میں، مشرکین کے ساتھ قرار داد کے مطابق پیغمبر اسلام{ص} نے دوہزار مسلمانوں کے ہمراہ عمرہ بجا لانے کے لئے مکہ مکرمہ کا تین روزہ سفر کیا- اس سفر کے دوران مسلمانوں کے قابل رشک جلال و عظمت نے مکہ کے باشندوں پر عجیب اثر ڈالا-
پیغمبر اسلام {ص} کی تشریف آوری کے بارے میں جناب میمونہ باخبر ھوئیں- وہ چاہتی تھیں کہ پیغمبر اسلام {ص} کے ساتھ ازدواج کریں، اس لئے اس مطلب کو اپنی ہمراز بہن، ام فضل کے پاس اظہار کیا، جو جناب عباس بن عبدالمطلب کی بیوی تھیں- ام فضل نے یہ مطلب اپنے شوہر کے پاس بیان کیا-
جناب عباس پیغمبر اسلام {ص} کی خدمت میں حاضر ھوئے اور برہ {میمونہ} کے بارے میں بات کی، جو اک مسلمان اور مومنہ خاتون تھیں اور یہ بھی بتایا کہ برہ{ میمونہ} کے شوہر ابر رہم وفات پا چکے ہیں- اس کے بعد آنحضرت {ص} سے سوال کیا کہ: آپ {ص} میمونہ سے ازدواج کرنا چاہتے ہیں؟ رسول خدا{ص} نے اس تجویز ک موافقت فرمائی اور اپنے چچیرے بھائی جناب جعفر بن ابیطالب کو خواستگاری کے لئے جناب میمونہ کے پاس بھیجا، جب جعفر ان کے پاس پہنچے اس وقت جناب میمونہ اونٹ پر سوار تھیں، اور جعفر نے رسول خدا {ص} کے لئے خواستگاری کی- میمونہ نے جواب میں کہا کہ: اونٹ اور جو کچھ اونٹ پر ہے وہ خدا اور اس کے رسول {ص} کے لئے ہے-
مکہ کے لوگوں نے سرگوشیاں کیں کہ میمونہ انتظار نہ کرسکیں اس لئے انھوں نے اپنے آپ کو خدا اور پیغمبر خدا {ص} کے لئے ھبہ کیا- خداوند متعال نے لوگوں کی ان سرگوشیوں کے جواب میں مندرجہ ذیل آیت نازل فرمائی: " یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِی آتَیْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَکَتْ یَمِینُکَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَیْکَ وَبَنَاتِ عَمِّکَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِکَ وَبَنَاتِ خَالِکَ وَبَنَاتِ خَالاتِکَ اللَّاتِی هَاجَرْنَ مَعَکَ و َامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِیِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِیُّ أَنْ یَسْتَنْکِحَهَا خَالِصَةً لَکَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْهِمْ فِی أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُهُمْ لِکَیْلا یَکُونَ عَلَیْکَ حَرَجٌ وَکَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِیماً" }الأحزاب: ۵۰.}
"اے پیغمبر، ہم نے آپ کے لئے آپ کی بیویوں کو جن کا مہر دےدیا ہے اور کنیزوں کو جنھیں خدا نے جنگ کے بغیر عطا کردیا ہے اور آپ کے چچا کی بیٹیوں کو اور آپ کے ماموں کی بیٹیوں کو اور آپ کی خالہ کی بیٹیوں کو جنھوں نے آپ کے ساتھ ھجرت کی ہے اور اس مومنہ عورت کو جو اپنا نفس نبی کو بخش دے اگر نبی اس سے نکاح کرنا چاہے تو حلال کردیا ہے لیکن یہ صرف آپ کے لئے ہے باقی مومنین کے لئے نہیں ہے- ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے ان لوگوں پر ان کی بیویوں اور کنیزوں کے بارے میں کیا فریضہ قرار دیا ہے تاکہ آپ کے لئے کوئی زحمت اور مشقت نہ ھو اور اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے-
پیغمبر اسلام {ص} کے چچا، عباس بن عبدالمطلب کی تجویز پر مکہ اور مدینہ کے درمیان " سرف" کے مقام پر جناب عباس بن عبدالمطلب کے توسط سے پیغمبر اسلام اور جناب میمونہ کے درمیان عقد کے مراسم انجام پائے اور جناب میمونہ پیغمبر اسلام {ص} کے عقد میں قرار پائیں-
بہت سے مفسرین کے بیان کے مطابق جناب میمونہ وہ خاتون ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو پیغمبر اسلام {ص} کی خدمت میں پیش کیا ہے- چونکہ جناب میمونہ ایک با ایمان خاتون تھیں اور پیغمبر اکرم{ص} کے ساتھ ان کی یہ محبت ایمان پر مبنی تھی، اس لئے پیغمبر اسلام {ص} نے ان کے ساتھ ازدواج کی- قابل بیان ہے کہ جناب میمونہ، خاندان کے لحاظ سے ایک خاص حیثیت رکھتی تھیں اور یہ ازدواج پیغمبر اکرم {ص} اور مکہ اور قریش کے بڑے قبائل کے درمیان مستحکم پیوند کا سبب بن سکتی تھی-
صلح حدیبیہ کے معاہدے کے مطابق پیغمبر اسلام {ص} تین دن سے زیادہ مدت تک مکہ میں نہیں ٹھہر سکتے تھے، تیسرا دن گزرنے کے بعد مکہ والوں نے آپ {ص} سے کہا کہ آپ {ص} اب مکہ میں نہیں ٹھہرسکتے ہیں-
حضرت محمد مصطفے {ص} چاہتے تھے کہ اس با فضیلت خاتون کے ساتھ ازدواج کے سلسلہ میں ایک ولیمہ کا اہتمام کرکے قریش کے بزرگوں اور جناب میمونہ کے رشتہ داروں کو دعوت دیں اور ان کے ساتھ روبرو بیٹھ کر گفتگو کرکے اختلافات کو دور کریں، لیکن قریش والوں نے یہ بات نہیں مانا –
چوتھے دن کی صبح کو حویطب بن عبدالعزی، جو بعد میں مسلمان ہدا، مشرکین کے کئی افراد کے ہمراہ پیغمبر اکرم {ص} کے پاس آگیا اور کہا: " مقررہ مدت ختم ھوچکی ہے، یہاں سے چلے جاو- سہیل بن عمرو بھی قریش کے چند افراد کے ہمراہ پیغمبر اکرم {ص} کے پاس آگیا اور کہا: آپ کی مہلت ختم ھوئی ہے، اس سے زیادہ مکہ میں نہ رہنا-
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:" اس میں کیا حرج ہے کہ میں آپ کے شہر میں شادی کی تقریب منعقد کروں اور آپ لوگوں کو ولیمہ کے طور پر کھانا کھلاوں ؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ: " لاحاجہ لنا فی طعامک فاخرج عنا" " ہمیں آپ کی مہمانی اور کھانے کا احتیاج نہیں ہے اور ہمارے شہر سے فورا چلے جاو"-
رسول اللہ {ص} نے جب یہ حالت دیکھی تو آپ {ص} اپنے ساتھیوں کے ساتھ مکہ سے چلے گئے اور اپنے غلام ابو رافع کو مکہ میں رکھا تاکہ وہ جناب میمونہ کو اپنے ساتھ مدینہ لے آئے- پیغمبر اسلام {ص} کا جناب میمونہ سے ازدواج کرنا، قبیلہ ھلالی سے غیر معمولی نزدیکی کا سبب بنا- اور اس کے بعد قبیلہ ھلالی کے افراد نے گروہ گروہ صورت میں اسلام قبول کیا- اور رسول خدا {ص} کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ھوئے، اور جہاں بھی رسول خدا {ص} چلے جاتے تھے، وہ بھی آپ {ص} کے رکاب میں آگے بڑھتے تھے-
شادی کی ابتداء میں جناب میمونہ کا نام " برہ" تھا، لیکن شادی کے بعد پیغمبر اسلام {ص} نے ان کا نام میمونہ رکھا، جس کے معنی مبارک و برکت ہے-
پیغمبر اسلام {ص} کی سیرت یہ تھی کہ جن مواقع پر کسی کے نام کو تبدیل فرماتے تھے، تو اچھا اور نیک نام کا انتخاب فرماتے تھے-
جناب میمونہ ایک سچی اور با ایمان خاتون تھیں اور مسجد النبی میں کافی نمازیں پڑھتی تھیں- ایک دن جناب میمونہ کا ایک رشتہ دار ان کے پاس آگیا، اور اس کے منہ سے شراب کی بدجرآتما تھی، جناب میمونہ نے غضبناک ھوکر کہا: خدا کی قسم اگر فورا دور نہ ھو جاو گے تو تم پر حد جاری کی جائے گی اور تمھیں دوبارہ میرے پاس آنے کا حق نہیں ہے، اور وہ شخص بھاگ گیا-
پیغمبر اسلام {ص} نے جناب میمونہ کے بارے میں فرمایاہے:" خداوند متعال نے تیرے دل کوبا ایمان بتایا ہے اور تیرا امتحان کیا ہے-" میمونہ کے بارے میں پیغمبر اسلام {ص} کا یہ کلام ان پر آپ {ص} کے اعتماد کی دلیل ہے-
پیغمبر اسلام {ص} نے میمونہ اور ان کی بہنوں کے مقام و منزلت اور اعتقادی و معنوی حیثیت کے بارے میں فرمایا ہے:" مومنین بہنیں"
مومن بہنوں سے مراد، پیغمبر خدا {ص} کی بیوی ام المومنین میمونہ، ان کی بہن ام فضل بنت حارث یا ان کی بہن سلمی بنت حارث { جناب حمزہ کی شریک حیات} اور ان کی سوتیلی بہن اسما بنت عمیس ہے – جناب میمونہ، جنگ تبوک میں مجاہدین کے صفوں میں سرگرم عمل تھیں اور زخمیوں اور بیماروں کی نرسنگ اور دلجوئی کرتی تھیں اور راہ خدا میں کافی خدمات انجام دے رہی تھیں- نقل کیا گیا ہے کہ جناب میمونہ نے زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے کے لئے خواتین نرسوں کی ایک ٹیم تشکیل دی تھی اور زخمیوں کی مرہم پٹی اور مجاہدین کی مدد کے لئے میدان کارزار میں سرگرمی کے ساتھ حاضر ھوتی تھیں، حتی ایک بار میدان جنگ میں زخمیوں کے لئے پانی لاتے ھوئے دشمنوں کے تیر کا نشانہ بنیں اور زمین پر گرگئیں-
جس وقت پیغمبر اسلام {ص} شدید بیمار ھوئے، آپ {ص} جناب میمونہ کے گھر پر تشریف فرماتے تھے اور وہاں سے آپ {ص} کو جناب عائشہ کے گھر میں منتقل کیا گیا- جناب عائشہ اس سلسلہ میں کہتی ہیں: پیغمبر اکرم {ص} کی بیماری میمونہ کے گھر میں شروع ھوئی اور آپ {ص} نے اپنی بیویوں سے اجازت حاصل کی تاکہ میرے گھر میں آپ {ص} کی تیماری داری کی جائے، آپ {ص} کی بیویوں نے بھی اس کی موافقت کی-
میمونہ ایک پاک دامن خاتون تھیں، علمائے رجال انھیں علم حدیث میں قابل اعتماد راوی جانتے ہیں اور انھیں پیغمبر اکرم {ص} کے صحابیوں میں شمار کرتے ہیں- جناب میمونہ نے رسول خدا {ص} اور اپنے بھانجے، ابن عباس" وغیرہ سے روایتیں نقل کی ہیں- جناب میمونہ کے مقام و منزلت کو امام جعفر صادق علیہ السلام کے اس کلام سے پہچانا جاسکتا ہے، کہ آپ{ع} نے اپنے والد امام باقر علیہ السلام سے نقل کرکے فرمایا ہے کہ عورتوں کے احکام کو جناب میمونہ کی زبان سے نقل کیا گیا ہ اور اس طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کو جناب میمونی کی زبان سے نقل کرتے ہیں-{ من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۱ ص، ۵۴}
جناب عائشہ سے مندرجہ ذیل روایت نقل کی گئی ہے: " اما انھا من اتقانا للہ و او صلنا للرحیم" وہ {میمونہ} ہم سب سے پرہیزگارتر اور صلہ رحم اور اپنے خویش و اقارب کا حق ادا کرنے میں سب سے پیش قدم تھیں-
ام المومنین جناب میمونہ خاندان زہراء {س} کے محبین میں سے تھیں اور حضرت علی علیہ السلام کے فضائل میں بھی کچھ احادیث ان سے نقل کی گئی ہے-
جناب میمونہ نے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے دوران آپ {ع} کی فضیلت کے بارے میں فرمایا ہے: خدا کی قسم وہ ہر گز گمراہ نہیں ھوئے تھے اور کوئی ان کے ذریعہ گمراہ نہیں ھوا ہے- جناب میمونہ نے اس کلام کو تین بار دہرایا-
جناب میمونہ کی ازدواج اور وفات کی جگہ:
جناب میمونہ تقریبا تین سال حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زندگی کی- کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام {ص} کی وفات کے بعد جناب میمونہ چالیس سال تک زندہ تھیں-
جناب میمونہ ساتوین ھجری، ماہ ذیقعدہ میں مکہ مکرمہ سے پانچ کلو میٹر دور " سرف" کے مقام پر پیغمبر اکرم {ص} کے عقد میں قرار پائیں- بعد میں اس جگہ پر ایک کمرہ اور بقعہ تعمیر کیا گیا- سنہ ۶۱ھجری میں یزید بن معاویہ کی خلافت کے زمانے میں جناب میمونہ جب مکہ سے واپس آرہی تھیں، اتفاق سے اسی جگہ، جہاں پر پیغمبر اسلام {ص} سے شادی کی تھی، ۸۱ سال کی عمر میں دار فانی کو وداع کیا- ان کے بھانجے بن عباس نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور اسی بقعہ میں انھیں سپرد خاک کیا گیا-
جناب ام سلمہ کی سیرت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان کا اصلی نام ھند تھا اور وہ امیہ بن مغیرہ بن مخزوم کی بیٹی تھیں- عمر رضا نے اپنی گراں قیمت کتاب " اعلام النساء" میں اس محترمہ خاتون کی سوانح حیات بیان کی ہے اور کہتے ہیں کہ ان کے باپ کے نام کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ھند، سہل بن مغیرہ بن عبدا اللہ بن مخزوم یا عبدا للہ بن حذیفہ کی بیٹی تھیں- ابن سعد کہتے ہیں کہ ان کے باپ کا نام سہیل زاد الرکب بن مغیرہ تھا اور اسی لئے ان کا لقب" زاد الرکب" تھا- ان کے والد ایک فیاض شخص تھے اور جب سفر پر جاتے تھے، اگر ان کا ہم سفر محتاج ھوتا تو وہ اس کا زاد راہ برداشت کرتے تھے-
جناب ام سلمہ کے نام کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے- ان کا نام " رملہ" بھی کہا گیا ہے- ابن عبدالبر کے مطابق ان کا نام ھند ہے اور وہ کہتے ہیں کہ کئی علماء اسی نام کی تائید کرتے ہیں- {اعلام النساء، ج ۵، ص، ۲۲۱و ۲۲۲}
جناب ام سلمہ کی والدہ عاتکہ بنت عامر بن مالک تھیں- بعضوں نے عاتکہ کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھپھی بتایا ہے-{ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ ج ۱، ص ۵۹۴- طبع بیروت، ۱۴۰۷ھ}
" جناب ام سلمہ" کی والدہ ایک جلیل القدر، دانشور، شریف خاندان میں پلی ھوئی اور صاحب عقل و کمال خاتون تھیں- چونکہ اس خاتون نے سنہ ۶۳ھجری میں ۷۴ سال کی عمر میں وفات پائی ہے { بعض مورخین نے کہا ہے کہ انھوں نے ۹۰ سال کی عمر میں سنہ ۶۰ ھجری میں وفات پائی ہے }اس لئے وہ ھجرت کے نزدیک پیدا ھوئی ہیں- انھوں نے نوجوانی میں ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد سے ازدواج کی تھی- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اسلام کی دعوت کا اعلان ھونے کے بعد جناب ام سلمہ نے اپنے شوہر کے ساتھ اسلام قبول کیا اور دونوں میاں بیوی مسلمان ھوئے-
ان کا ایک جانی دشمن، ان کا بھائی عبداللہ بن ابی امیہ تھا، جو جنگ احد میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ھوا- چونکہ ام سلمہ اور ان کے شوہر ابو سلمہ کو مشرکین اور ان کے رشتہ داروں کی طرف سے ناقابل برداشت اذیتیں پہنچائی جاتی تھیں، اس لئے انھوں نے سنہ ۵ھجری میں کچھ دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ حبشہ ھجرت کی- ایک مدت کے بعد جب یہ خبر ملی کہ مشرکین مکہ کی طرف سے اذیت و آزار میں کمی واقع ھوئی ہے اور بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے، تو ابو سلمہ اپنی بیوی کے ہمراہ مکہ لوٹے- حبشہ میں سلمہ نامی ان کا پہلا بیٹا پیدا ھوا-
مکہ پہنچنے کے بعد انھیں معلوم ھوا کہ یہ خبر جھوٹ تھی، اس لئے انھوں نے پھر سے حبشہ کی طرف ھجرت کی- حبشہ میں ایک مدت تک رہنے کے بعد پھر سے مکہ آگئے اور سنہ ۱۳ ھجری میں مدینہ {یثرب} کی طرف ھجرت کرنے کا فیصلہ کیا- لیکن بنی مخزوم " جناب ام سلمہ" اور ان کے بیٹے کی ھجرت کرنے میں رکاوٹ بنے، اس لئے، اس بار ابو سلمہ اکیلے ہی سفر پر نکلے- ایک مدت کے بعد قبیلہ بنی مخزوم نے کہا کہ " ام سلمہ" ھجرت کرسکتی ہیں، لیکن ان کا بیٹا ، چونکہ بنی مخزون قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے، اس لئے اسے جانے کی اجازت نہیں ہے- لیکن خاندان کے بعض افراد کی ثالثی اور سفارش کی بناپر ان کے فرزند کو بھی اجازت ملی اورجناب ام سلمہ اپنے بیٹے کے ھمراہ مدینہ {یثرب} کی طرف روانہ ھوئیں- جب جناب ام سلمہ مکہ سے باہر آگئیں تو، عثمان بن طلحہ عبدالدار سے ان کی ملاقات ھوئی، اور وہ بھی یثرب{ مدینہ} کی طرف جارہے تھے- ام سلمہ نے اپنے اونٹ کی لگام کو عثمان کے ہاتھ میں دے کر ان کے ہمراہ سفر کرنا قبول کیا- ام سلمہ کہتی ہیں کہ اس سفر میں ہم جس پڑاو پر پہنچتے تھے، تو عثمان میرے اونٹ کو بٹھا کر خود دور چلے جاتے تھے تاکہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ اونٹ سے نیچے اتر جاتی، اس کے بعد اونٹ کو باندھنے کے لئے پھر سے قریب آتے تھے- اور پھرسے سوار ھوتے وقت بھی ایساہی کرتے تھے- کہا جاتا ہے کہ وہ پہلی کجا وہ نشین مہاجر خاتون تھیں جو مدینہ میں داخل ھوئیں-
ابو سلمہ، عزوہ احد میں زخمی ھوئے اور ان ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ھوئے جمادی الثانی سنہ ۴ھجری کو درجہ شہادت پر فائز ھوئے- اگر چہ ابوسلمہ کی شہادت کا سنہ ۲ ھجری میں، جنگ بدر میں زخمی ھونے کے بعد بھی ذکر کیا گیا ہے، لیکن جس روایت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جناب ام سلمہ مدینہ میں داخل ھوتے وقت اپنے اکلوتے بیٹے سلمہ کے ہمراہ تھیں اور اس کے بعد ان کے ہاں ابو سلمہ سے عمر{ عمرو} ،زینب اور ذرہ نامی تین فرزند پیدا ھوئے، اور اگر یہ روایت صحیح ھوتو، ہمیں اس سلسلہ میں ابو سلمہ کی شہادت کے بارے میں پہلا قول قبول کرنا چاہئے-
تاریخ کی مختلف کتابوں میں آیا ہے کہ جناب ام سلمہ نے ابو سلمہ سے کہا کہ ہم دونوں میں سے جو بھی پہلے وفات پائے وہ دوسری شادی نہ کرے تاکہ بہشت میں بھی ہم ایک ساتھ ھوں، تو ابو سلمہ نے یہ دعا کی کہ میری وفات کے بعد" ام سلمہ" ایک ایسے شخص سے شادی کرے جو ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آئے اور ان کے ساتھ عدل و انصاف پر مبنی برتاو کرے- ابو سلمہ کی شہادت کے بعد پہلے، خلیفہ اول جناب ابو بکر نے پھر خلیفہ دوم جناب عمر بن خطاب نے ان سے ازدواج کرنے کی درخواست کی، لیکن ام سلمہ نے ان کی درخواست قبول نہیں کی- ان کےبعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی خواستگاری فرمائی کہ پہلے جناب ام سلمہ نے اس خواستگاری کو بھی قبول نہیں کیا- پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب دوسری بار خواستگاری کے لئے کسی کو بھیجا تو جناب ام سلمہ نے یہ خواستگاری قبول کی اور اسی سال { اول یا دوم ھجری} کے ماہ شوال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد میں قرار پائیں- کہا جاتا ہے کہ جناب ام سلمہ نے اپنے بیٹے عمر سے کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ان کا عقد پڑھیں، لیکن عمر کے کافی کم سن ھونے کی وجہ سے شاید یہ خبر صحیح نہ ھو یاکسی دوسرے عمر، من جملہ عمر بن خطاب نے خطبہ عقد پڑھا ھو- یایہ کہ جناب ام سلمہ کا بیٹا عمر مکہ یا حبشہ میں پیدا ھوا ھو اور اس طرح جس قول میں یہ کہا گیا ہے کہ جناب ام سلمہ اپنے اکلوتے بیٹے کے ہمراہ مدینہ میں داخل ھوئی ہیں، صحیح نہیں ہے-
جیسا کہ اس سے پہلے بیان کیا گیا کہ جناب ام سلمہ ایک صاحب کمال اور دانشور خاتون تھیں اور اسی وجہ سے بعض اوقات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری بیویوں کی جانب سے مورد تجسس قرار پاتی تھیں-
ایک روایت میں آیا ہے کہ جناب فاطمہ خزاعیہ نے کہا ہے کہ:" ایک دن میں نے "عائشہ" سے سنا کہ انھوں نے کہا: ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے- میں نے پوچھا: اب تک کہاں تھے؟ آپ {ص} نے فرمایا: " اے حمیرا" میں ام سلمہ کے پاس تھا- میں نے کہا کہ: کیا ام سلمہ سے سیر نہیں ھوتے ھو؟{ زہری، الطبقات الکبری، ج ۸، ص ۹۴}
کہاگیا ہے کہ سورہ حجرات کی آیت نمبر ۱۱ اس لئے نازل ھوئی ہے کہ " جناب حفصہ" اور " جناب عائشہ" ، جناب ام سلمہ کے پست قد اور لباس کی وجہ سے ان کا مذاق اڑاتی تھیں-
جناب ام سلمہ چند دوسری آیات کے نازل ھونے کا بھی محور تھیں - من جملہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۹۵ ہے کہ اس آیت کی شان نزول میں آیا ہے کہ ایک دن جناب ام سلمہ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا: اے پیغمبر خدا؛ ہجرت کے سلسلہ میں کیوں مردوں کا نام لیا گیا ہے لیکن عورتوں کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیاگیا ہے؟ تو خداوند متعال نے اس کے جواب میں اپنے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مذکورہ آیت نازل فرمائی-
جناب ام سلمہ فتح خیبر کے دن حاضر تھیں اور انھوں نے بعض خواتین سے مخاطب ھوکر کہا: کاش: خداوند متعال نے مردوں کے مانند ہم عورتوں پر بھی جہاد واجب قرار دیا ھوتا اور یہی اجر ہمیں بھی ملتا: تو سورہ نساء کی ۲۲ویں آیت نازل ھوئی-
آیہ تطہیر: "انما یریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا"، جناب ام سلمہ کے ہی گھر میں نازل ھوئی ہے-
دوسرے قابل بیان نکات میں سے یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز عصر کے بعد اپنی بیویوں میں سے ہر ایک کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور جناب ام سلمہ سے شروع کرتے تھے کیونکہ وہ سب سے بڑی تھیں اور جناب عائشہ پر اختتام فرماتے تھے، کیونکہ وہ سب سے چھوٹی تھیں-
جناب ام سلمہ، احادیث کی راویوں میں سے ہیں اور انھوں نے پیغمبر اسلام[ص]، حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام اور ابی سلمہ سے روایتیں نقل کی ہیں- صحابیوں اور تابعین کی ایک بڑی تعداد نے ان سے کئی احادیث نقل کی ہیں- ان کی نقل کی گئ احادیث کی تعداد ۳۷۸ ہے- صحیحین میں ان سے صرف ۲۹ حدیثیں نقل کی گئی ہیں اور طبرانی نے مختلف راویوں سے ۵۱۸ حدیثیں نقل کی ہیں، جنھیں ان راویوں نے جناب ام سلمہ سے نقل کیا ہے- جناب ام سلمہ کے بلند مقام و منزلت اور طولانی عمر کے پیش نظر، ان سے زیادہ احادیث نقل ھونی چاہئے تھیں ، لیکن ان کی حق گوئی، معاویہ سے مخالفت اور علی علیہ السلام اور اہل بیت [ع]کی طرفداری اور غدیر کی بیعت کی یاد دہانی کرانے کی وجہ سے بعد میں ان سے احادیث نقل کرنے میں بائیکاٹ کیا گیا ہے-
جناب ام سلمہ بہت سے عزوات میں من جملہ حدیبیہ، خیبر، فتح مکہ، ھوازن، ثقیف، طائف، اور حجتہ الوداع میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھیں- صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاکید کے باوجود قربانی اور حلق کرنے سے اجتناب کرتے تھے- جب اس سلسلہ میں جناب ام سلمہ کی رائے معلوم کی گئی تو انھوں نے تجویز پیش کی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ تاکید کئے بغیر خود قربانی اور حلق انجام دیں- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس رائے کو پسند فرمایا اور اس پر عمل کیا اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے بھی قربانی اور حلق کیا-
ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ جناب ام سلمہ صاحب رائے، مفکر اور حق گو تھیں- خلفائے ثلاثہ کے ۲۵ سالہ دور کے زمانے میں اگر جناب ام سلمہ کبھی مصلحت سمجھتیں تو خلفاء کی نصیحت کرتی تھیں- انھوں نے { جناب عمار کے خلیفہ سوم کو اپنا نظریہ پیش کرنے کے سلسلہ میں} خلیفہ سوم کو کچھ تذکرات کا اعلان کیا ہے- { اعلام النساء، ج ۵،ص ۲۲۴}
جناب ام سلمہ نے جناب عائشہ کے نام ایک خط لکھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث کی یاد دہانی کرکے، انھیں بصرہ کی طرف روانہ ھونے سے رو کرنے کی کوشش کی ہے-
ام المومنین جناب ام سلمہ نے معاویہ کے زمانے میں بھی حضرت علی علیہ السلام کی حمایت کی اور ایک خط میں معاویہ کو لکھا کہ خدا اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی علیہ السلام کے دوست ہیں- جان لو کہ علی علیہ السلام پر لعنت بھیجنا، رسول اللہ پر لعنت بھیجنا ہے اور علی علیہ السلام کو اذیت و آزار پہنچنا رسول اللہ کو اذیت و آزار پہنچنا ہے-{ اعلام النساء، ج ۵، ص ۲۲۵}
جناب ام سلمہ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ: میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ {ص} نے فر مایا: "جو علی کو دوست رکھے اس نے مجھے دوست رکھا ہے اور جو مجھے دوست رکھے اس نے خدا کو دوست رکھا ہے اور جو علی کے بارے میں کینہ رکھے اس نے میرے بارے میں کینہ رکھا ہے اور میرے بارے میں کینہ رکھنا خدا سے کینہ رکھںا ہے"{ مجمع الزوائد، ج ۹، ص ۱۳۲۰} اس کے علاوہ اس خاتون سے روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: "جو علی کو دشنام دے، اس نے مجھے دشنام دیا ہے- "جناب ام سلمہ نے معاویہ کے نام اپنے خط میں اسی حدیث سے استناد کرکے اشارہ کیا تھا-
جناب ام سلمہ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک پیشنگوئی نقل کی گئ ہے، ذیل میں ہم اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں: انھوں نے روایت نقل کی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:" جبرئیل امین نے مجھے خبردی ہےکہ میرے نواسے حسین علیہ السلام سر زمین عراق میں قتل کئے جائیں گے- میں نے جبرئیل سے کہا: اس سر زمین کی مٹی مجھے دکھانا جس پر میرے حسین علیہ السلام قتل کئے جائیں گے- جبرئیل گئے اور ایک مٹی لے آئے اور کہا کہ یہ مقتل کی مٹی ہے-"{ البدایہ و النہایہ، ج ۸، ص ۱۹۶ تا ۲۰۰، کنزالعمال، ج ۱۲، ص ۱۲۶، ح ۳۴۳۱۳}
ایک اور روایت میں جناب ام سلمہ سے نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے انسوجاری تھے ، میں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم؛ آج کیا ھوا ہے کہ آپ {ص} کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں؟ آپ {ص} نے فرمایا کہ ابھی ابھی جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ آپ {ص}کی امت آپ کے فرزند حسین علیہ السلام کو کربلا نامی ایک سر زمین پر قتل کرے گی"{ المعجم الکبیر، ج ۳، ص ۱۰۹، ح ۲۸۱۹}
حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں بھی ایک روایت نقل کی گئی ہے: " جناب ام سلمہ سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فر مایا:" حسین بن علی سنہ ۶۰ ہجری کے اواخر میں شہید کئےجائیں گے-"{ مجمع الزوائد ، ج ۹، ص ۱۹۰،بقول طبرانی دارلاوسط}
حسین بن علی علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں بیان کی گئی پہلی روایت کو جاری رکھتے ھوئے جناب ام سلمہ نے کہا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: " اے ام سلمہ؛ جب یہ مٹی خون میں تبدیل ھو جائے اس وقت جاننا کہ میرا نواسا قتل کیا گیا ہے"- جناب ام سلمہ نے اس مٹی کو ایک بوتل میں رکھا اور ہر دن اسے دیکھ کر فرماتی تھیں:" اے مٹی؛ جس دن تم خون میں تبدیل ھو جاوگی وہ ایک عظیم دن ھوگا-"{ خصائص الکبری، ج ۲، ص ۱۲۵- المعجم الکبیر طبرانی، ج۳،ص ۱۰۸}
سنن ترمذی کے " ابواب مناقب" میں آیا ہےکہ جناب ام سلمہ{س} نے سنہ ۶۱ ہجری کے عاشورا کے دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور اس سلسلہ میں فرماتی ہیں: " ظہر کے بعد کا وقت تھا، میں سوئی ھوئی تھی، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے- آپ {ص} رو رہے تھے اور آپ {ص} کی چشمان مبارک سے آنسو جاری تھے اور آپ{ص} کا سر مبارک اور ریش مبارک خاک آلود تھے- میں نے پوچھا: یا رسول اللہ؛ آپ {ص} کیوں اس حالت میں ہیں؟ میرے مولا نے روتے ھوئے فر مایا: ام سلمہ؛ میں اس وقت حسین علیہ السلام کی قتل گاہ { کربلا} سے آرہاھوں اور حسین علیہ السلام کی شہادت کا منظر دیکھ کر آرہا ھوں-"
اس روایت کو جاری رکھتے ھوئے ترمذی نے بیان کیا ہے کہ: اس کے بعد جناب ام سلمہ اس بوتل کو دیکھنے کے لئے گئیں جس میں خاک کربلا تھی اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے امانت کے طور پر دیا تھا- اور انھوں نے مشاہدہ کیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرمائش کے مطابق یہ مٹی خون میں تبدیل ھوچکی تھی" { کتاب ذبح عظیم ص ۱۰۵ و ۱۰۶ سے اقتباس}
ام المومنین جناب ام سلمہ ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ بیوی تھیں جنھوں نےسب سے آخر پر وفات پائی ہے- ان کی وفات کا سال اختلاف کے ساتھ سنہ ۵۹ سے ۶۳ ھجری تک بتایا گیا ہے- لیکن جو کچھ سنی اورشیعہ روایتوں میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ جناب ام سلمہ سنہ ۶۱ ھجری کے واقعہ کربلا کے وقت زندہ تھیں اور حضرت ابا عبداللہ الحسین کے لئَے عزاداری کی ہے- اس محترمہ خاتون کو قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گیا ہے-
تدوین: سید عبدالحسین رئس السادات




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
