Super User

Super User

فلسطين کي مزاحمتي تحريک حماس نے غزہ پر حملوں کے تعلق سے عرب ملکوں کے کمزور موقف پر سخت تنقيد کي ہے -

فلسطين کے انفارميشن سينٹر کي رپورٹ کے مطابق حماس کے ترجمان سامي ابوزہري نے اتوار کي رات ايک گفتگو ميں کہا ہے کہ غزہ پر صيہوني حکومت کے حملوں پر عرب سربراہوں کي معني خيز خاموشي حملوں ميں شدت کا سبب بني ہے -

انہوں نے کہا کہ تعجب ہے کہ عرب سربراہ اس بارے ميں کوئي موقف اختيار نہيں کررہے ہيں- انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہيں کہ غاصب صيہونيوں کے بے شرمانہ جرائم کے باوجود عرب سربراہوں نے مناسب موقف اختيار نہيں کيا ہے -

حماس کے ترجمان نے کہا کہ عرب ملکوں کا موقف بدلنا چاہئے تاکہ ہم صيہونيوں کے حملوں پر اپنا بہتر طور پر دفاع کرسکيں - انہوں نے جنگ بندي کے لئے صيہوني حکومت کي تجويز کے بارے ميں کہا کہ غاصب صيہونيوں کے نيرنگ کي کوئي انتہا نہيں ہے، آج انہوں نے ايک رہائشي مکان پر بمباري کرکے چھے بچوں سميت ايک ہي گھر کے گيارہ بے گناہ شہريوں کو شہيد کرديا - انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود صيہوني حکومت فلسطيني قوم کے ارادوں کو متزلزل نہيں کرسکتي -

حماس نے اسي کے ساتھ غاصب صيہوني حکومت کے زميني حملوں کے مقابلے کے لئے تحريک مزاحمت کے سپاہيوں کي مکمل آمادگي کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ پر صيہوني حکومت کے زميني حملے شروع ہوئے تو اس علاقے کو صيہوني فوجيوں کے قبرستان ميں تبديل کرديا جائے گا- حماس نے کہا ہے کہ زميني حملے شروع ہونے کي صورت ميں ہماري جوابي کاروائي صيہوني حکومت کے لئے ہمارے ميزائلي حملوں سے زيادہ وحشتناک ہوگي-

حماس نے اسي طرح اعلان کيا ہے کہ اس وقت پچاس لاکھ اسرائيلي ان کے نشانے پر ہيں -

صحن کا ایک وسیع منظر

سلطانی مسجدایران کے صوبہ لورستان کے شہر بروجرد کی ایک عظیم مسجد ہے۔ یہ عظیم الشان مسجد قاجار دور حکومت میں ایک قدیم مسجد کے کھنڈرات کی جگہ تعمیر کی گئی۔

قدیم مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 10 ویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوئی۔

اس مسجد کی تعمیر کا حکم قاجار حکمران فتح علی شاہ قاجار نے دیا تھا اور ان کی نسبت سے اسے سلطانی مسجد کہا جاتا ہے۔

مسجد کے مغربی داخلی دروازے پر ایک پتھر پر 1248ھ (1832ء) سن درج ہے جبکہ خیابان جعفری کی جانب کھلنے والے لکڑی کے دروازے پر 1291ھ (1874ء) کندہ ہے۔ یہ لکڑی کا دروازہ کاریگری کی اعلٰی مثال ہے۔

مسجد کا صحن 61 ضرب 47 میٹر کا ہے جنوبی ایوان کی محراب کی بلندی تقریباً 17 میٹر ہے۔

پہلوی دور میں سلطانی مسجد "مسجد شاہ" کے نام سے جانی جاتی تھی اور آج اسے مسجد امام خمینی کہا جاتا ہے۔

مارچ 2006ء میں آنے والے زلزلے سے مسجد کو شدید نقصان پہنچا۔

اور خبردار راسِ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں [3:169]

Sunday, 18 November 2012 09:21

الحاکم مسجد – قاهره مصر

الحاکم مسجد مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں واقع ایک مسجد ہے جو فاطمی دور حکومت کی سب سے بڑی مسجد ہے۔

اس مسجد کی تعمیر کا آغاز 990ء میں فاطمی خلیفہ ابو منصور نظار العزیز کے دور حکومت میں شروع ہوا اور ان کے بیٹے خلیفہ الحاکم بامر اللہ کے دور حکومت میں 1013ء میں اس کا کام تکمیل کو پہنچا۔

مسجد كا گيٹ

یہ مسجد قاہرہ میں آنے والے ایک زلزلے سے شدید متاثر ہوئی تھی اور 1989ء میں سيدنا محمد برہان الدین اور ان کے پیروکاروں نے اس کی تعمیر نو کی اور مصر کے اُس وقت کے صدر انور السادات نے اس کا افتتاح کیا۔

مسجد كي محراب

هنگامه مغرب میں ايك خوبصورت منظر

مسجد كے باهر

ہندوستان کی ریاست بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے اپنے دورۂ پاکستان کو کامیاب قراردیا ہے۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق ہندوستان کی مشرقی ریاست بہار کے وزیراعلی نتیش کمار نے پاکستان کے ایک ہفتے کے خیرسگالی دورے کے بعد ہفتے کے روز پٹنہ واپس پہنچنے پر نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران اپنے اس دورے کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں لوگوں کے دلوں میں ہندوستان کے بارے میں خوشگوار احساسات ہیں اور وہ ہندوستان کے ساتھ امن ، سکون اور بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کا دورۂ پاکستان ایک دوسرے کے تجربات سے سبق حاصل کرنے اور شراکت کے لئے تھا اور یہ کہ ارکان پارلیمنٹ ، ثقافتی اور صحافیوں کے وفود کا ایک دوسرے کے یہاں آنے جانے کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔نتیش کمار نے کہا کہ دورۂ پاکستان کے دوران میں نے مختلف پاکستانی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کی، سب کے دل میں ایک ہی بات ہے کہ امن کا ماحول بنا رہے۔پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کی طرف سے ہندوستان کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو دورۂ پاکستان کی دعوت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں نتیش کمار نے کہا کہ یہ میرے دائرۂ اختیار کا موضوع نہیں ہے۔

افغان حکام نے اعلان کیا ہے کہ حکومت پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لئے طالبان کے آٹھ رہنماؤں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیاہے ۔ رہا ہونے والوں میں طالبان حکومت کے وزیر قانون بھی شامل ہیں پاکستان نے طالبان کے ان افراد کو رہا کرنے کا فیصلہ افغانستان کی مرکزی امن کونسل کے دورہ پاکستان کے بعد کیا ہے ۔ افغانستان کی امن کونسل کے دورہ پاکستان میں کونسل کے اراکین نےصدر پاکستان سمیت اہم حکومتی اور مذہبی شخصیات سے ملاقات کی ہے جسکے بعد حکومت پاکستان نے طالبان کے پندرہ سے بتیس رہنماؤں کو رہا کرنے پر آمادگي کا اظہار کیا ہے ۔ پاکستان نے طالبان کے اہم رہنما ملا برادر کی رہائی کے بارے میں بھی عندیہ دیا ہے ۔

طالبان کے وزیر قانون جن کو پاکستان نے رہا کرنے کا اعلان کیا ہے وہی شخصیت ہیں جنہوں نے گوتم بدھ کے سینکڑوں مجسموں کو تباہ کرنے میں طالبان شدت پسندوں کی مکمل پشتپناہی کی تھی۔

رہا ہونے افراد میں ملاعمرکے نائب جہانگیروال، بغلان صوبے کے کمانڈر عبدالسلام، قندوز صوبے کے امیر محمد اور طالبان حکومت کے اہم رہنما شامل ہیں ۔افغانستان نے چالیس افراد کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا جن میں آٹھ افراد کو پاکستان نے آزار کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔کہا یہ جارہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے ان افراد کو رہا کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان پاکستان حکومت کے اس اقدام پر کیا ردعمل دکھاتے ہیں ۔

افغان حکومت کا یہ کہنا ہے کہ طالبان کیطرف سے امن عمل میں شرکت سے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا میں مدد ملے گی اور یوں تمام سیاسی ، قومی اور مذہبی گروہ مل کر افغانستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں گے ۔

دوسری طرف طالبان نے امریکہ کے ساتھ اپنے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے لیکن قطر میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر نے ابھی تک افغانستان میں جاری امن پراسس میں شرکت کرنے پر زیادہ دلچسپی کااظہار نہیں کیا ہے طالبان اور امریکہ کے درمیان جو مذاکرات ہورہے ہیں ان میں پاکستان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے اس بات کا امکان کم ہے کہ وہ نتیجہ خیز ہوں ۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی طرف سے افغانستان میں قیام امن عمل میں تعاون سے اس کی کامیابی کے امکانات بڑھ گئے ہیں البتہ حکومت افغانستان نے ابھی تک یہ نہیں بتایا ہے کہ پاکستان اس اقدامات کے جواب میں افغانستان سے کیا چاہتا ہے جسے افغان حکومت نے قبول کرلیا ہے ۔

ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنا ، افغانستان کے امور میں طالبان کا حصّہ اور افغان ہند روابط وہ بنیادی مسائل ہیں جس کے بارے میں پاکستان کو افغانستان حکومت سے کچھ تحفظات ہیں اور پاکستان قیام امن عمل میں شریک ہوکر ان تحفظات کو ختم کرنا چاہتا ہے ۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان کی ا علی امن کونسل کے دورہ پاکستان کے دوران یہ موضوعات ضرور زير بحث آئے ہونگے اوراس بات کا امکان ہے کہ ان مسائل پر دونوں ملکوں کے درمیان اتفاق بھی ہوگیا ہو ۔

بي بي دوعالم فاطمہ زہرا سلام اللہ كے حكمت آموز اور دلنشين كلام سے چند حديثيں قارئين محترم كي خدمت ميں پيش كي جارہي ہيں۔

 

اہل بيت عليہم السلام كي خصوصيت

نَحْنُ وَسيلَتُهُ في خَلْقِهِ، وَ نَحْنُ خاصَّتُهُ وَ مَحَلُّ قُدْسِهِ، وَ نَحْنُ حُجَّتُهُ في غَيْبِهِ، وَ نَحْنُ وَرَثَةُ اءنْبيائِهِ. [1[

ہم اہلبيت پيغمبر خدا اور مخلوقات كے درميان تعلق اور رابطہ كا ذريعہ ہيں۔ہم پروردگار كي جانب سے منتخب اور مقدس ہيں۔ہم ان كي حجت اور پيغمبران الٰہي كے وارث ہيں۔

 

امام علي عليہ السلام بي بي كي نگاہ ميں

قالَتْ عليها السلام: وَهُوَ الا مامُ الرَبّاني، وَالْهَيْكَلُ النُّوراني، قُطْبُ الا قْطابِ، وَسُلالَةُ الاْ طْيابِ، النّاطِقُ بِالصَّوابِ، نُقْطَةُ دائِرَةِ الا مامَةِ. [2[

وہ الٰہي اور رباني پيشوا و امام ہيں۔وہ نور روشني كي مجسم شكل ہيں۔وہ تمام موجودات اور عارفان حق كي توجہ كا مركز ہيں۔پاك افراد كي نسل سے ايك پاك انسان ہيں،حق گو اور ہادي ہيں اور امامت و رہبري كا مركز ہيں۔

 

امت كے باپ

قالَتْ عليها السلام: اءبَوا هِذِهِ الاْ مَّةِ مُحَمَّدٌ وَ عَليُّ، يُقْيمانِ اءَودَّهُمْ، وَ يُنْقِذانِ مِنَ الْعَذابِ الدّائِمِ إ نْ اءطاعُوهُما، وَ يُبيحانِهِمُ النَّعيمَ الدّائم إ نْ واقَفُوهُما. [3[

محمد ۖ اور علي اس امت كے باپ ہيں۔اگر ان كي پيروي كي جائے تو وہ نيا كے انحرافات اور آخرت كے دائمي عذاب سے نجات ديں گے اور جنت كي مختلف اور بيشمار نعمتوں سے بہرہ مند كريں گے۔

 

علي كي محبت سعادت كا سبب

قالَتْ عليها السلام: إ نَّ السَّعيدَ كُلَّ السَّعيدِ، حَقَّ السَّعيدِ مَنْ اءحَبَّ عَليّا في حَياتِهِ وَ بَعْدَ مَوْتِهِ. [4[

حقيقي سعادت مند اور مكمل سعادتمند وہي ہے جو علي سے محبت كرے يہ دنيا ميں بهي سعادتمند ہے اور آخرت ميں بهي سعادتمند ہے۔

 

پيغمبر اور بي بي فاطمہ پر صلوات و سلام كا اجر

قالَتْ عليها السلام: مَنْ سَلَّمَ عَلَيْهِ اَوْ عَلَيَّ ثَلاثَةَ اءيّامٍ اءوْجَبَ اللّهُ لَهُ الجَنَّةَ، قُلْتُ لَها: في حَياتِهِ وَ حَياتِكِ؟

قالَتْ: نعَمْ وَ بَعْدَ مَوْتِنا. [5[

جو بهي ميرے بابا رسول خدا اور مجه پر تين دن تك سلام بهيجے گا خداوند متعال جنت كو اس پر واجب كردے گا۔چاہے ہماري زندگي ميں ہميں سلام كرے يا ہماري موت كے بعد ہم پر سلام بهيجے۔

 

بہترين خواتين

قالَتْ عليه السلام: خَيْرٌ لِلِنّساءِ اءنْ لايَرَيْنَ الرِّجالَ وَلايَراهُنَّ الرِّجالُ. [6[

عورت كے لئے سب سے بہترين چيز يہ ہے كہ نہ وہ مردوں كو ديكهيں اور نہ مرد انہيں ديكهيں۔

 

فاطمي غيرت

قالَتْ عليها السلام: إ نّي قَدِاسْتَقْبَحْتُ ما يُصْنَعُ بِالنِّساءِ، إ نّهُ يُطْرَحُ عَليَ الْمَرْئَةِ الثَّوبَ فَيَصِفُها لِمَنْ رَاءي، فَلا تَحْمِليني عَلي سَريرٍ ظاهِرٍ، اُسْتُريني، سَتَرَكِ اللّهُ مِنَ النّارِ. [7[

جناب اسماء سے فرمايا: ميري نظر ميں يہ ايك بري رواج ہے كہ كسي عورت كے مرنے كے بعد اس كے جسم پر ايك كپڑا ڈال كر اس كي تشييع كي جائے۔ مجهے كسي ايسے تخت وغيرہ پر نہ لے جايا جائے جو ميرے جنازے كو چهپانے والا نہ ہو بلكہ ميري تشييع جنازہ مكمل پردے كے ساته ہوني چاہيے۔خدا وند عالم آپ كو جہنم كي آگ سے محفوظ ركهے۔

 

پردہ

قالَتْ عليها السلام:.... إ نْ لَمْ يَكُنْ يَراني فَإ نّي اءراهُ، وَ هُوَ يَشُمُّ الريح [8[

پيغمبر اكرمۖ ايك دن ايك نابينا شخص كے ساته جناب زہرا سلام اللہ كے گهر تشريف لائے تو آپ نے خود كو اس شخص سے پردے ميں ركها۔رسول اللہ نے فرمايا :بيٹي ي تو نابينا ہے۔

آپ نے جواباً عرض كيا:وہ نابينا ہے مجهے نہيں ديكه سكتا ليكن ميں تو اسے ديكه سكتي ہوں نيز وہ ميري بو سونگه سكتا ہے۔

 

دنيا كي تين اہم چيزيں

قالَتْ عليها السلام: حُبِّبَ إ لَيَّ مِنْ دُنْياكُمْ ثَلاثٌ: تِلاوَةُ كِتابِ اللّهِ، وَالنَّظَرُ في وَجْهِ رَسُولِ اللّهِ، وَالاْ نْفاقُ في سَبيلِ اللّهِ.[9[

مجهے تمہاري دنيا كي تين چيزوں سے كافي رغبت ہے: تلاوت قرآن،رسول خدا كے چہرے كي طرف ديكهنا،اور اللہ كي راہ ميں انفاق كرنا۔

 

ماں

قالَتْ عليها السلام: الْزَمْ رِجْلَها، فَإ نَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ اءقْدامِها، و الْزَمْ رِجْلَها فَثَمَّ الْجَنَّةَ. [10[

ہميشہ ماں كي خدمت كرو چونكہ جنت اس كے قدموں تلے ہے اور اس خدمت كا اجر جنت كي نعمتيں ہيں۔

 

جمعہ كے دن وقت غروب دعا

قالَتْ عليها السلام: اصْعَدْ عَلَي السَّطْحِ، فَإ نْ رَأ يْتَ نِصْفَ عَيْنِ الشَّمْسِ قَدْ تَدَلّي لِلْغُرُوبِ فَأ عْلِمْني حَتّي أ دْعُو. [11[

جمعہ كے دن وقت غروب اپنے غلام سے فرماتيں:چهت پر جاو جب نصف سورج ڈوب جائے تو مجهے باخبر كرو تا كہ دعا كروں۔

 

پہلے پڑوسي

قالَتْ عليها السلام: الْجارُ ثُمَّ الدّارُ [12[

امام حسن عليہ السلام نے جب ماں كو دوسروں كے لئے دعا كرتے سنا تو پوچها آپ ايسا كيوں كرتي ہيں؟ آپ نے فرمايا: پہلے پڑوسي پهر گهر۔!

 

ميرے لئے قرآن پڑهيں

قالَتْ عليها السلام: فَاءكْثِرْ مِنْ تِلاوَةِ الْقُرآنِ، وَالدُّعاءِ، فَإ نَّها ساعَةٌ يَحْتاجُ الْمَيِّتُ فيها إ لي اءُنْسِ الاْ حْياءِ[13[

امام علي عليہ السلام سے وصيت كرتے ہوئے فرمايا:جب مجهے دفن كرليں تو ميرے لئے قرآن كي زيادہ سے زيادہ تلاوت كيجيے گا۔اور ميرے لئے دعا كيجيے گا كيونكہ اس وقت مرنے والے كو زندوں كي زيادہ ضرورت ہوتي ہے۔

 

شوہر كا احترام

قالَتْ عليها السلام: يا اءبَا الحَسَن، إ نّي لا سْتَحي مِنْ إ لهي اءنْ اءكَلِّفَ نَفْسَكَ مالاتَقْدِرُ عَلَيْهِ. [14[

اپنے شوہر نامدار امام علي عليہ السلام سے مخاطب ہو كر فرمايا: اے ابوالحسن! مجهے اپنے سے شرم محسوس ہوتي ہے كہ آپ سے كسي ايسي چيز كا مطالبہ كروں جس مہيا كرنے پر آپ قادر نہ ہوں۔

 

[1] - شرح نهج البلاغه ابن ابي الحديد: ج 16، ص 211.

[2] - رياحين الشّريعة: ج 1، ص 93.

[3] - تفسير الامام العسكري عليه السلام: ص 330، ح 191، بحارالا نوار: ج 23، ص 259، ح 8.

[4] - شرح نهج البلاغه ابن ابي الحديد: ج 2، ص 449 مجمع الزّوائد: ج 9، ص 132.

[5] - بحارالا نوار: ج 43، ص 185، ح 17.

[6] - بحارالا نوار: ج 43، ص 54، ح 48.

[7] - تهذيب الا حكام: ج 1، ص 429، كشف الغمّه: ج 2، ص 67، بحار:ج 43، ص 189، ح 19.

[8] - بحارالا نوار: ج 43، ص 91، ح 16، إ حقاق الحقّ: ج 10، ص 258.

[9] - بحارالا نوار: ج 43، ص 192، ح 20، اءعيان الشّيعة: ج 1، ص 321.

[10] - مستدرك الوسائل: ج 7، ص 336، ح 2، بحارالا نوار: ج 93، ص 294، ح 25.

[11] - تفسير التّبيان: ج 9، ص 37، س 16.

[12] - مجمع الزّوائد: ج 8، ص 108، مسند فاطمه: ص 33 و 52.

[13] - اءمالي شيخ طوسي: ج 2، ص 228.

[14] - مدينة المعاجز: ج 3، ص 430.

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور میرے والد کی حدیث میرے دادا کی حدیث ہے اور میرے دادا کی حدیث امام حسین علیہ السلام کی حدیث ہے اور امام حسین علیہ السلام کی حدیث امام حسن علیہ السلام کی حدیث ہے اور امام حسن علیہ السلام کی حدیث امیرالمؤمنین علیہ السلام کی حدیث ہے اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث قول اللہ عز و جلّ ہے۔

[جامع الاحاديث الشيعه : ج 1 ص 127 ح 102، بحارالا نوار: ج 2، ص 178، ح 28]۔

 

 

 

 

1۔ سب سے بڑا فریضہ

قال الامام علي عليه السّلام: برّ الوالدين أكبَرُ فريضةٍ.

تصنیف غرر الحكم، ص 407، ح 9339۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی طرف سے سب سے بڑا فریضہ والدین کے ساتھ نیکی کرنا ہے۔

2۔ محبت سے دیکھا کرو

قال رسول الله صلّي الله عليه و آله: نَظَرَ الوَلَد الي والدَيهِ حُبّاً لهُما عبادَة.

بحار الانوار، ج 74، ص 80۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: والدین کی طرف محبت کے ساتھ دیکھنا عبادت ہے۔

3۔ غضب آلود نگاہ سے پرہیز کرو

قال الامام الصادق عليه السّلام: مَنْ نَظَر الي أبَويه نَظَرَ ماقتٍ و هُما ظالمانِ لَهُ، لم يقبَلِ اللهُ لَهُ صلاةً.

اصول كافی، ج 4، ص 50۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو بھی اپنے ماں باپ کو غضب آلود نگاہ سے دیکھے گا خداوند اس کی کوئی نماز بھی قبول نہیں فرمائے گا خواہ والدین نے اس کے ساتھ ظلم ہی کیوں نہ کیا ہو۔

4۔ اچھا سلوک بہترین اعمال میں سے ہے

سئل عن الامام الصّادق عليه السّلام أي الاعمال أفضَلُ؟ قال: الصّلاةُ لِوَقتِها و برّ الوالدين و الجِهادُ في سبيل اللهِ.

بحار الانوار، ج 74، ص 85۔

امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا: بہترین اعمال کون سے ہیں؟ فرمایا: وقت پر نماز ادا کرنا، والدین کے ساتھ نیکی کرنا اور خدا کی راہ میں جہاد کرنا، بہترین اعمال ہیں۔

5۔ ایک محبت آمیز نگاہ ایک حج مقبول

قال رسول الله صلّي الله عليه و آله: ما ولد بار نظر إلى أبويه برحمة إلا كان له بكل نظرة حجة مبرورة، فقالوا: يا رسول الله وإن نظر في كل يوم مائة نظرة ؟ قال: نعم، الله أكبر وأطيب

بحارالانوار، ج 74، ص 73۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جو فرزند مہربانی کے ساتھ اپنے والد اور والدہ کی طرف دیکھے گا ہر نگاہ کے بدلے اس کو ایک حج مقبول کا ثواب عطا کیا جائے گا۔ پوچھا گیا: اے رسول خدا (ص)! اگر انسان ہر روز سو مرتبہ اپنے والدین کی طرف محبت کے ساتھ دیکھں تو بھی کیا اس کو ہر نگاہ کے بدلے ایک حج مقبول کا ثواب ملے گا؟] رسول خدا (ص) نے فرمایا: ہاں؛ اللہ سب سے بڑا اور سے زیادہ پاک ہے۔

6۔ والدین کا شکر کرو ورنہ...

قال الامام الرضا عليه السّلام: انَّ اللهَ عزّوجلّ ... أمر بالشّكر لهُ و بالوالدين فمن لم يشكر والديه لم يشكرُ الله.

بحارالانوار، ج 71 ص 77۔

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: بے شک خداوند متعال نے والدین کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور جس نے اپنے والدین کا شکر ادا نہیں کیا اس نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا ہے۔

7۔ ان سے نیکی کرو خواہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں

قال الامام الرضا عليه السّلام: . وبر الوالدين واجب وإن كانا مشركين، ولاطاعة لهما في معصية الخالق ولا لغيرهما، فإنه لاطاعة لمخلوق في معصية الخالق.

تفسیر صافی، ج 2، ص 37 ـ بحارالانوار جلد 10 صفحه 356۔

ترجمہ: امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: ماں باپ سے نیکی کرنا واجب ہے خواہ وہ دونوں مشرک ہی کیوں نہ ہوں تا ہم خالق کی نافرمانی میں ان کی اطاعت نہيں ہونی چاہئے کیونکہ خدا کی نافرمانی میں بندوں کی فرمانبرداری نہيں کی جاسکتی۔

8۔ اطاعت کرو مگر اللہ کی نافرمانی میں نہیں

قال الامام علي عليه السّلام: ... حقّ الوالِدِ أن يطيعَهُ في كلّ شئٍ الاّ في معصيةِ اللهِ سبحانَهُ.

نهج البلاغه، حکمت 339۔

ترجمہ: امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: والد کا حق یہ ہے کہ فرزند ہر چیز میں اس کی اطاعت کرے سوائے اللہ سبحانہ کی نافرمانی کے۔

9۔ والدین سے نیک سلوک والا عرش اللہ کے سائے میں

قال الامام الصّادق عليه السّلام: قال بينا موسى بن عمران يناجي ربه عزوجل إذ رأى رجلا تحت ظل عرش الله عزوجل فقال: يا رب من هذا الذي قد أظله عرشك ؟ فقال: هذا كان بارا بوالديه، ولم يمش بالنميمة.

بحارالانوار، ج 74، ص 65۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: حضرت موسی بن عمران (علی نبينا و آله و عليه السلام) اپنے پروردگار کی بارگاہ میں مناجات اور راز و نیاز کررہے تھے کہ انھوں نے ایک مرد کو دیکھا جو عرش الہی کے سائے میں ناز و نعمت سے بہرہ مند تھا۔

موسی (ع) نے عرض کیا: اے میرے پروردگار! یہ کون ہے؟

خداوند متعال نے ارشاد فرمایا: وہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرتا رہا تھا اور کبھی بھی سخن چینی اور چغل خوری نہیں کرتا تھا۔

10۔ جو کروگے وہی بھروگے

قال الامام علي عليه السّلام: مَنْ بَرَّ والديهِ بَرَّهُ ولدُهُ.

تصنیف غرر الحكم، ص 407، ح 9341۔

ترجمہ: علی علیہ السلام نے فرمایا: جس نے اپنے والدین کے ساتھ نیکی کی اس کے فرزند اس کے ساتھ نیکی کریں گے۔

11۔ ماں مقدم ہے

قال الامام الصّادق عليه السّلام: عن أبي عبد الله عليه السلام قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وآله فقال: يا رسول الله من أبر ؟ قال: امك، قال: ثم من ؟ قال: امك، قال: ثم من ؟ قال: [امك، قال: ثم من ؟ قال: ] أباك.

بحارالانوار، ج 71 ص 83۔

ترجمہ: امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ایک شخص رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میں کس کے ساتھ نیکی کروں؟

رسول خدا (ص): اپنی والدہ کے ساتھ۔

عرض کیا: پھر کس کے ساتھ؟

فرمایا: والدہ کے ساتھ۔

عرض کیا: پھر کس کے ساتھ؟

فرمایا: والدہ کے ساتھ۔

عرض کیا: پھر کس کے ساتھ؟

فرمایا: اپنے والد کے ساتھ۔

12۔ باپ سے سبقت لینا ممنوع

قال الامام الرّضا عليه السّلام: سألَ رجلٌ رسولَ اللهِ صلّي الله عليه و آله: ما حقُّ الوالِدِ علي ولدهِ؟ قال: لا يسميهِ باسْمِهِ، و لا يمشي بين يديهِ و لا يجلسُ قبلَهُ و لا يستَسِبُّ له.

بحارالانوار، ج 74، ص 45۔

ترجمہ: امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: ایک شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا: والد کا حق فرزند پر کیا ہے؟

رسول خدا صلی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: والد کو نام لے کر نہ پکارے، راہ چلتے وقت والد سے آگے نہ چلے، والد سے پہلے نہ بیٹھے اور ایسا کوئی کام نہ کرے کہ لوگ اس کے والد پر لعنت بھیجیں اور اس کو گالی دیں۔

13۔ والدین پر احسان لیکن کیونکر؟

عن أبي ولاد الحناط قال: سألت أبا عبد الله عليه السلام عن قول الله عزوجل " وبالوالدين إحسانا " ما هذا الاحسان ؟ فقال: الاحسان أن تحسن صحبتهما، و أن لا تكلفهما أن يسألاك شيئا مما يحتاجان إليه وإن كانا مستغنيين، أليس يقول الله عزوجل " لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون.

بحارالانوار، ج 71، ص 39۔

ابو ولاد الحناط سے کہتے ہیں: میں امام صادق علیہ السلام سے خداوند متعال کے ارشاد "و با لوالدين احساناً" (والدین پر احسان کرو) کے معنی کے بارے میں سوال کیا تو امام (ع) نے فرمایا: والدین پر احسان یہ ہے کہ ان کے ساتھ اپنا رویہ اور طرز سلوک نیک بنا دو اور انہیں مجبور نہ کرو کہ تم سے مانگیں وہ چیز جس کی انہيں ضرورت ہے [یعنی ان کی ضروریات ان کے کہنے سے پہلے ہی پوری کرو اور ان کی مدد کرو) خواہ وہ بے نیاز اور مستغنی اور خودکفیل ہی کیون نہ ہوں۔ کیا اللہ تعالی نے نہیں فرمایا ہے ہرگز تم بھلائی کا درجہ حاصل نہیں کرو گے جب تک خیرات نہ کرو اس میں سے جن سے تم محبت کرتے ہو۔

14۔ والدین سے اف تک نہ کہو (تفسیر آیت)

قال الامام الصّادق عليه السّلام: وأما قول الله عزوجل " إما يبلغن عندك الكبر أحدهما أو كلاهما فلا تقل لهما اف ولا تنهرهما " قال: إن أضجراك فلا تقل لهما اف ولا تنهرهما إن ضرباك قال " وقل لهما قولا كريما (اسراء: 23) قال: إن ضرباك فقل لهما: غفر الله لكما فذلك منك قول كريم، قال: "واخفض لهما جناح الذل من الرحمة" (بني اسرائيل آيت 24) قال لا تمل عينيك من النظر إليهما إلا برحمة ورقة، ولا ترفع صوتك فوق أصواتهما، ولا يدك فوق أيديهما ولا تقدم قدامهما.

بحارالانوار، ج 71، ص 40۔

ترجمہ: امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اور اللہ تعالی کا یہ قول شریف کہ "اگر تمہارے پاس کبر سنی کی منزل تک پہنچ گیا ان میں سے ایک یا وہ دونوں تو ان سے اف بھی نہ کرو اور نہ ان کو جھڑکی دو" کا مطلب ہے کہ اگر والدین تمہیں اذیت دیں تو تم ان کو "اف" تک نہ کہو اور ان کو جھڑکی مت دو۔ اور ان سے اعزاز کے انداز میں بات کرو۔ امام صادق علیہ السلام نے مزید فرمایا: (خداوند متعال کے اس قول: ) " اور ان دونوں کے لیے تذلیل کے ساتھ اپنے بازو کو جھکائے رکھو مہربانی سے اور کہو کہ پروردگار! اپنی رحمت ان دونوں کے شامل حال فرما" سے مراد یہ ہے کہ اپنی ان کو گور گور کر نہ دیکھو مگر محبت اور نرمی کے ساتھ، اور اپنی آواز ان کی آواز پر بلند نہ کرو اور اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر مت لے جاؤ اور ان سے سبق نہ لو۔

15۔ تین چیزیں ترک کرنے کی اجازت نہیں

قال الامام الباقر عليه السّلام: ثلاث لم يجعل الله لاحد فيهن رخصة: أداء الامانة إلى البر والفاجر، والوفاء بالعهد للبر والفاجر، و بر الوالدين برين كانا أو فاجرين..

وسائل الشیعه، ج 21، ص 491۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: خداوند سبحان نے کسی کو بھی تین چیزیں ترک کرنے کی اجازت نہيں دی ہے:

1۔ امانت کو صاحب امانت کو لوٹانا خواہ صاحب امانت نیک انسان ہو خواہ فاجر اور گنہکار۔

2۔ عہد پورا کرنا چاہے تم نے عہد نیک انسان سے کیا ہو چاہے برے انسان سے۔

3۔ والدین کے ساتھ نیکی کرنا چاہے وہ اچھے اور نیک ہوں چاہے گنہگار اور فاجر ہوں۔

16۔ والدین پر احسان کرو چاہے زندہ ہوں چاہے ...

قال الامام الصّادق عليه السّلام: ما يمنع الرجل منكم أن يبر والديه حيين أو ميتين: يصلي عنهما، ويتصدق عنهما، ويحج عنهما، ويصوم عنهما، فيكون الذي صنع لهما، وله مثل ذلك ; فيزيده الله عزوجل ببره وصلاته (او صلته) خيرا كثيرا.

الكافي ج 2: 159۔ بحارالانوار، ج 71، ص 46۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: کونسی چیز رکاوٹ بنتی ہے کہ انسان کا باپ یا اس کی ماں زندہ ہوں یا مردہ ہوں تو وہ ان کے ساتھ نیکی کرے اور خود اس کو بھی اتنا ہی ثواب ملتا ہے، علاوہ ازیں خداوند متعال اس کے ان نیک اعمال اور نماز (یا صلہ رحمی) کے واسطے سے اس کو خیر کثیر عطا فرماتا ہے۔

17۔ اگر "اُف" سے کم کوئی لفظ ہوتا ...

قال الامام الصّادق عليه السّلام: لَو عَلِمَ اللهُ شيئاً أدني من اُفٍّ لنهي عنهُ و هُوَ من أدني العقوق.

اصول كافی، ج 4، ص 50۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اگر "اُف" سے بھی کم درجے موجود ہوتا تو اللہ تعالی والدین کو وہی لفظ بھی کہنے سے منع فرماتا۔ اور اف کہنا عاق ہونے (اور والدین کی نافرمانی) کا کمترین درجہ ہے۔

18۔ تیز و تند نگاہ بھی نافرمانی ہے!

قال الامام الصّادق عليه السّلام: و منَ العُقوقِ أن ينظُرَ الرّجِلُ الي والديه فَيحدَّ النَّظر اليهما.

اصول كافی، ج 4، ص 50۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو چیزیں عاق ہوجانے کا سبب بنتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے والدین کو تند و تیز نگاہ سے دیکھے (اور غصے یا نفرت سے انہیں گھور کر دیکھے)۔

19۔ عاق والدین پر جنت کی خوشبو حرام

قال رسول الله صلّي الله عليه و آله: اِياكم وَ عُقوقُ الوالدينِ، فانَّ ريح الجنَّةِ تُوجَدُ مِنْ مسيرَة ألف عامٍ و لا يجدُها عاقٌ و لا قاطعُ رحمٍ.

بحارالانوار، ج 71، ص 62۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: خبردار رہو کہ کہیں عاق والدین کے زمرے میں نہ آؤ پس بے شک جنت کی خوشبو ایک ہزار سال کے فاصلے سے آتی ہے لیکن جو شخص عاق والدین ٹہرے یا اپنوں سے تعلق منقطع کرے وہ اس خوشبو کو محسوس نہيں کرسکے گا۔

20۔ خدا عاق والدین کی طرف دیکھنا پسند نہیں فرماتا

قال رسول الله صلّي الله عليه و آله: أربعةٌ لا ينظُرُ اللهُ اليهم يومَ القيامةِ، عاقٌ و منّانٌ و مكذِّبٌ بالقدر و مُدمِنُ خَمرٍ.

بحارالانوار، ج 71، ص 71۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: چار لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالی نگاہ نہ ڈالے گا:

٭٭ جو والدین کے نافرمان ہوں اور عاق والدین ٹہریں

٭٭ جو اگر کوئی کار خیر کرے تو اس کے بابت لوگوں پر احسان جتائے

٭٭ جو قضاء و قدر کو جھٹلائے

٭٭ جو شراب نوشی کا رسیا ہو۔

21۔ والدین کی نافرمانی عذاب میں تعجیل کا موجب

قال رسول الله صلّي الله عليه و آله: ثلاثةٌ من الذّنوبِ تُعجّلُ عُقُوبَتها و لا تُؤَخَّرُ الي الآخرةِ: عقوق الوالدينِ، و البَغي علي النّاسِ و كفرُ الاحسان.

بحارالانوار، ج 71، ص 74۔

رسول خدا - صلّی الله علیه و آله – نے فرمایا: تین گناہ ایسے ہیں جن کی سزا انسان کو بہت جلد ملتی ہے اور قیامت تک مؤخر نہيں ہوتی:

٭٭ عقوق والدین اور ماں باپ کی نافرمانی

٭٭ لوگوں پر ظلم و ستم

٭٭ اور کسی کے احسان اور نیکی کی ناسپاسی۔

22۔ نافرمانی کبائر، شقاوت اور معصیت

قال الامام الصّادق عليه السّلام: "عقُوقُ الوالدين مِن الكبائر لأنّ الله عزّوجلّ، جَعَل العاقَّ عَصياً شقياً.

بحارالانوار، ج 71، ص 74۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: والدین کی نافرمانی گناہان کبیرہ میں سے ہے کیونکہ خداوند متعال نے والدین کے نافرمان شخص کو گنہگار اور شقی و بدبخت گردانا ہے۔

23۔ تجھے بخشوں گا نہیں

قال رسول الله صلّي الله عليه و آله: يقالُ للعاقِّ: إعمل ما شئت فانّي لا أغفِرُ لكَ.

بحارالانوار، ج 71، ص 80۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جو شخص والدین کا نافرمان ہوا ہے اور عاق والدین ٹہرا ہے اس سے کہا جائے گا: جو چاہو کرو کہ میں مزید تمہيں بخشوں گا نہيں۔

24۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک گناہوں کا کفارہ

قال الامام علي بن الحسين عليه السّلام: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وآله فقال: يا رسول الله ما من عمل قبيح إلا قد عملته فهل لي من توبة ؟ فقال له رسول الله صلى الله عليه وآله: فهل من والديك أحد حي ؟ قال: أبي، قال: فاذهب فبره، قال: فلما ولي قال رسول الله صلى الله عليه وآله: لو كانت امه.

بحار الانوار، ج 71، ص 82۔

امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: ایک شخص رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: کوئی بھی ایسی بھونڈا فعل نہیں ہے جو میں نے انجام نہ دیا ہو؛ کیا میرے لئے توبہ کا کوئی راستہ ہے؟

فرمایا: کیا تمہارا والد یا والدہ بقید حیات ہے؟

عرض کیا: ہاں! میرے والد زندہ ہیں۔

فرمایا: جاؤ اپنے والد کے ساتھ نیکی کرو۔

امام سجاد علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ جب وہ شخص مسجد سے نکل کر چلا گیا تو رسول خدا (ص) نے فرمایا: کاش اس کی ماں زندہ ہوتی [کیونکہ ماں کی خدمت سے توبہ جلدی قبول ہوتی ہے]۔

25۔ تہماری جڑیں باپ سے ہیں

قال الامام علي بن الحسين عليه السّلام: وأما حق أبيك فأن تعلم أنه أصلك، وأنه لولاه لم تكن فمهما رأيت في نفسك مما يعجبك فاعلم أن أباك أصل النعمة عليك فيه فاحمد الله واشكره على قدر ذلك.

بحار الانوار، ج 71 ص 6۔

امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: اور تم پر تمہارے باپ کا حق یہ ہے کہ جان لو کہ باپ تمہاری جڑ اور بنیاد ہے کیونکہ اگر وہ نہ ہوتا تو تم بھی نہ ہوتے پس تمہاری ذات اور تمہارے وجود میں جو کچھ بھی تمہاری خوشنودی اور حیرت انگیزی کا سبب بن رہا ہے جان لو کہ اس نعمت کا منشأ اور سرچشمہ اور اس کی اساس تمہار باپ ہے؛ پس خداوند متعال کی حمد و ثناء کرو اور اس کی قدر و منزلت کے شکرگزار رہو۔

26۔ ماں نے تم پر اپنا وجود نچھاور کیا

قال الامام علي بن الحسين عليه السّلام: ... فَحَقُّ امك أن تعلم أنها حملتك حيث لا يحمل أحد أحدا وأطعمتك من ثمرة قلبها ما لا يطعم أحد أحدا، وأنها وقتك بسمعها وبصرها ويدها ورجلها وشعرها وبشرها وجميع جوارحها مستبشرة بذلك فرحة موبلة محتملة لما فيه مكروهها وألمه وثقله وغمه، حتى دفعتها عنك يد القدرة وأخرجتك إلى الارض فرضيت أن تشبع وتجوع هي وتكسوك وتعرى، وترويك وتظمأ، وتظلك وتضحى وتنعمك ببؤسها وتلذذك بالنوم بأرقها وكان بطنها لك وعاء، وحجرها لك حواء وثديها لك سقاء، ونفسها لك وقاء، تباشر حر الدنيا وبردها لك ودونك، فتشكرها على قدر ذلك ولا تقدر عليه إلا بعون الله وتوفيقه. وأما حق أبيك فتعلم أنه أصلك وأنك فرعه وأنك لولاه لم تكن فمهما رأيت في نفسك مما يعجبك فاعلم أن أباك أصل النعمة عليك فيه واحمد الله واشكره على قدر ذلك [ولا قوة إلا بالله].

بحار الانوار، ج 71، ص 15۔

امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا اور تم پر تمہاری ماں کا حق یہ ہے کہ جان لو کہ اس نے تجھے حمل کیا جبکہ اس حال میں کوئی کسی کو حمل کرنے اور اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا اور اس نے تمہيں اپنی جان و دل کا پھل کھلایا ایسے حال میں کہ کوئی بھی اس طرح کا احسان کسی پر نہیں کرتا۔ اس نے اپنی سماعتوں، آنکھوں، ہاتھوں، پیروں، بالوں اور چہرے اور تمام اعضاء و جوارح سے تمہاری دیکھ بھال کی اور اور اپنی بھوک اور افلاس کو اہمیت دیئے بغیر تمہارا پیٹ بھردیا اور تمہیں پانی پلایا؛ خود کم از کم لباس پہنا اور تم کو اچھا اور مکمل لباس پہنایا؛ تیز دھوپ میں بیٹھی اور تم کو سایہ فراہم کیا، تمہاری خاطر میٹھی نیند سے چشم پوشی کی اور تمہیں گرمی اور سردی سے محفوظ رکھا "تا کہ تم اپنی ماں کی خاطر زندہ رہو" پس بے شک تم اپنی ماں کی قدردانی اور شکر و سپاس کا حق ادا کرنے سے عاجز ہو سوائے اس کے کہ خداوند سبحان تمہاری مدد فرمائے۔

27۔ فرمانبرداری بھی اور خیرخواہی بھی

قال الامام الصّادق عليه السّلام: يجبُ للوالدَين علی الوَلَدِ ثلاثةُ أشياءَ: شكرهما علي كلّ حالٍ، و طاعتهما فيما يأمرانه و ينهيانه عنه في غير معصية اللهِ و نصيحتهما في السّر و العلانية.

تحف العقول، ص 322۔

امام صادق عليہ السلام نے فرمایا: اولاد پر والدین کے تین حقوق ہیں:

٭٭ اولاد ہر حال اور ہر صورت میں والدین کا شکرگزار اور سپاس گزار ہو۔

٭٭ جن چیزوں کا وہ حکم دیتے ہیں اور جن چیزوں سے وہ منع کرتے ہیں ان میں ان کا اطاعت گزار ہو۔

٭٭ خفیہ اور اعلانیہ طور پر اپنے والدین کا خیرخواہ و ہمدرد ہو۔

28۔ ماں باپ کے ساتھ نیکی اور صلہ رحمی اجل کو مؤخر کرتی ہے

قال ابو عبد الله عليه السّلام: يا ميسر قد حضر اجلك غير مرة و لا مرتين، كل ذلك يؤخر الله اجلك، لصلتك قرابتك، و ان كنت تريد ان يزاد في عمرك فبر شيخيك يعني ابويك.

بحار الانوار، ج 71، ص 84۔

امام صادق علیہ السلام اپنے ایک صحابی سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: اے میسر! کئی بار اجل تم تک آپہنچا ہے اور ہر دفعہ خداوند متعال نے اقرباء سے صلہ رحمی کی برکت سے تمہارا اجل مؤخر کردیا ہے اور اگر چاہتے ہو کہ خداوند متعال تمہاری عمر طویل فرمائے تو اپنے دو بڑوں یعنی والدین کے سے نیکی کرو۔

29۔ ان کی خوشنودی اور ناراضگی خدا کی خوشنوی اور ناراضگی

قال رسول الله صلّي الله عليه وآله: مَن أرضی والدَيهِ فَقد أرَضَی الله و مَن أسخَطَ والِدَيهِ فقَد أسخط الله.

كنزالعمال، ج 16، ص 470۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جو اپنے والدین کو خوشنود کرے اس نے حقیقتاً خدا کو خوشنود کیا ہے اور جو والدین کو غضبناک کرے اس نے خدا کو غضبناک کیا ہے۔

30۔ مطیع اعلی ترین درجات میں

قال رسول الله صلّي الله عليه و آله: العبدُ المطيعُ لوالديهِ و لرّبه في أعلي علّيين.

كنز العمّال، ج 16، ص 467۔

رسول خدا صلی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جو بندہ اپنے ماں باپ اور اپنے پروردگار کا مطیع و فرمانبردار ہو روز قیامت بلند افراد کے بلند ترین مقام پر ہونگے۔

31۔ دونوں کے ساتھ نیکی جنت کے دو دروازے

قال رسول الله صلّي الله عليه و آله: مَنْ أصبَحَ مُطيعاً للهِ في الوالدين أصبح لَهُ بابانِ مفتوحان في الجنّةِ و ان كان واحداً فواحداً.

كنزالعمال، ج 16، ص 467۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جو شخص والدین کے سلسلے میں خدا کے احکام کی اطاعت کرے جنت کے دو دروازے اس کے لئے کھل جاتے ہیں اور اگر اس نے والدین میں سے ایک کے بارے میں خدار کے احکام کی پیروی کی تو جنت کا ایک دروازہ اس کے لئے کھل جائے گا۔

32۔ عمر اور رزق میں برکت

قال رسول الله صلّي الله عليه و آله: من أحبَّ أن يمدَّ لَهُ في عمرهِ و أن يزاد في رزقِهِ فليبُرَّ والديهِ و ليصِل رحمهُ.

كنزل العمال، ج 16، ص 475۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جو اپنے لئے طول عمر اور اپنے رزق میں اضافے کی خواہش رکھتا ہے پس اس کو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنی چاہئے اور اپنے اقرباء کے ساتھ تعلق جوڑے رکھنا چاہئے (صلہ رحمی کو ملحوظ رکھنا چاہئے)۔

33۔ ماں کے پاؤں پکڑے رہو

قالت فاطمة الزهراء سلام الله عليها: الزِم رجلها فانّ الجَنَّةَ تحتَ اُقدامها.

كنزالعمّال، ج 16، ص 426۔

سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا: ہمیشہ اپنی والدہ کے پاؤں پکڑے رہو (اور اس کا اکرام و احترام کرتے رہو) کیونکہ جنت ماں کے پاؤں تلے ہے۔

34۔ جو کرو گے وہی بھرو گے

عن رسول الله صلي الله عليه و آله قال: بروا اباءكم يبركم ابناءكم، عفوا عن نساء الناس تعف نسائكم.

كنز العمال، ج 16، ص 466۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اپنے باپوں کے ساتھ نیک سلوک روا رکھو تا کہ تمہارے فرزند تمہارے ساتھ نیکی کریں۔ لوگوں کی عورتوں سے چشم پوشی کرو تا کہ دوسرے تمہاری عورتوں سے چشم پوشی کریں۔

35۔ جب باپ غصے میں ہو تو تم...

قال رسول الله صلّي الله عليه و آله: مِن حقّ الوالِدِ أن يخشَعَ لَهُ عند الغَضَب.

كنزالعمال، ح 45512۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اولاد پر باپ کا حق یہ ہے کہ جب باپ غصے اور غضب کی حالت میں تو وہ اس کے سامنے خاشع اور منکسر ہوکر سرتسلیم خم کرے۔

36۔ بہترین اعمال میں ایک والدین کی اطاعت

قال أميرالمؤمنين عليه السلام: انّ افضل الخير صدقة السّرّ و برّ الوالدين و صلة الرّحم.

غرر الحکم ج 1 ص 643۔

امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: بتحقیق بہترین اعمال تین ہیں:

٭٭ چھپکے سے صدقہ دینا۔

٭٭ والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔

٭٭ صلہ رحمی اور اقربا کے ساتھ متصل رہنا اور تعلق جوڑے رکھنا اور ضرورت کے وقت مدد کرنا۔

37۔ چاہے وہ زندہ ہوں چاہے مردہ، خبردار

قال الامام الباقر عليه السلام: إِنَ‏ الْعَبْدَ لَيَكُونُ‏ بَارّاً بِوَالِدَيْهِ فِي حَيَاتِهِمَا- ثُمَّ يَمُوتَانِ فَلَا يَقْضِي عَنْهُمَا دَيْنَهُمَا وَ لَا يَسْتَغْفِرُ لَهُمَا- فَيَكْتُبُهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَاقّاً- وَ إِنَّهُ لَيَكُونُ عَاقّاً لَهُمَا فِي حَيَاتِهِمَا غَيْرَ بَارٍّ بِهِمَا- فَإِذَا مَاتَا قَضَى دَيْنَهُمَا وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمَا- فَيَكْتُبُهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ بَارّاً.

بحارالانوار ج 71 ص 59۔

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: بے شک وہ انسان جو والدین کی زندگی میں ان کے ساتھ نیکی کرتا اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ روا رکھتا ہے لیکن جب وہ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کا قرض ادا نہیں کرتا اور ان کے لئے اللہ سے طلب مغفرت نہیں کرتا تو خداوند متعال اس کا نام عاق والدین کے عنوان سے لکھے گا اور وہ فرزند جو زندگی میں والدین کا نافرمان ہو لیکن ان کے مرنے کے بعد ان کا قرض ادا کرے اور ان کے لئے استغفار کرے تو خداوند متعال اس پر احسان فرمائے گا اور اس کو والدین کے ساتھ نیکی کرنے والوں میں درج کرے گا۔

38۔ نافرمانی ناداری اور ذلت

قال الامام الهادي عليه السلام: اَلعُقُوقُ يعَقِّبُ القِلَّةَ، وَ يؤَدِّي إِلي الذِّلَّةِ.

بحار الأنوار، ج 74، ص 84۔

امام علی النقی الہادی علیہ السلام نے فرمایا: والدین کی نافرمانی تنگدستی کا سبب بنتی ہے اور انسان کو ذلیل کردیتی ہے۔

39۔ بچوں کو بھی روک لو گستاخی سے ورنہ ...

قال الامام العسكري عليه السلام: جُرأَةُ الوَلَدِ عَلَي وَالِدِهِ في صِغَرِهِ تَدعُو إِلي العُقُوقِ في كبَرِهِ.

تحف العقول، ص 489۔

امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: بچہ اگر بچپن میں باپ کی گستاخی کرے تو یہ گستاخی بڑی عمر میں بھی والد کے حق میں اس کی گستاخی کا موجب بنتی ہے۔

40۔ بچوں کو بددعا مت دو ورنہ...

قال الامام الصادق عليه السلام: أَيمَا رَجُل دَعَا عَلَي وَلَدِهِ أَورَثَهُ الفَقرَ.

بحار الأنوار، ج 104، ص 99۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اپنی اولاد پر نفرین کرنے والا اور بد دعا دینے والا غربت تنگدستی کا شکار ہوجاتا ہے۔

آج میں ایسے دو موضوعات کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں جن پر میں مسلمان ہونے کے لمحے سے یقین کامل اور ایمان راسخ رکھتی تھی اور آج بھی ان پر اتنا ہی یقین کامل اور ایمان راسخ رکھتی ہوں:

1۔ اسلام اور دین میں سادگی

2۔ اسلام اور انسان کا قلب و روح

ابتداء میں اختصار کے ساتھ اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتانا چاہوں گی۔

میں 16 سال کی عمر میں مسلمان ہوئی۔ بچپن میں بھی میں تقریبا مذہبی انسان تھی۔ میرے والد عیسائی تھے تا ہم وہ مذہبی فرائض پر عمل نہیں کیا کرتے تھے۔ ان کے برعکس میری والدہ اور نانی بہت ہی مذہبی خواتین تھیں۔ وہ دونوں دیندار کیتھولک تھیں۔ میں کیتھولک اسکول گئی؛ جہاں ہم ہر سبق شروع ہونے سے قبل مناجات کیا کرتے تھے۔ میں ایک نوجوان (18 سال سے کم بچی) کے عنوان سے مختلف مذہبی موضوعات میں تحقیق و مطالعہ کرنے لگی؛ میں نے دنیا کے مختلف ادیان و مذاہب کا مطالعہ کیا اور میں نے کوشش کی کہ اس چیز کو ڈھونڈ نکالوں جو میری نظر میں درست تھی؛ جس کے ذریعے میں سکون کا احساس کرسکوں۔ لیکن کتابوں میں صرف نظریات Theories تھیں۔ ابھی میں سولہ سال کی تھی کہ اسکول سے کالج چلی گئی اور وہاں مجھے متعدد مسلمان دوستوں سے ملنے کا موقع ملا جن کی اکثریت ایشیائی معاشروں سے تعلق رکھتی تھی۔ ایک روز دن کے کھانے کے وقت ان کے پاس چلی گئی لیکن میں نے دیکھا کہ ان سب نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ میں بہت حیرت زدہ ہوئی اور ان سے روزے کے بارے میں سوالات پوچھے۔ ان سے میں نے ان کے عقائد کے بارے میں بھی متعدد سوالات پوچھے۔

کیتھولک عیسائی بھی اپنے دین میں ایک قسم کے روزے کا تصور رکھتے ہیں جس کو lent کہا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کا روزہ زیادہ سنجیدہ ہے جو مسلمانوں کے ایثار، فداکاری اور زیادہ صبر و تحمل کی علامت ہے۔

میرے دوستوں نے قرآن کا انگریزی ترجمہ میرے حوالے کیا۔ جب میں نے قرآن کی تلاوت شروع کی تو میرے قلب اور قرآن کے درمیان ایک رشتہ قائم ہوا۔ مجھے محسوس ہوا کہ "اپنے گھر آپہنچی ہوں اور یہی میرا دین ہے"۔ میں نے اپنا دین پالیا تھا۔ اس وقت کے جذبات بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ کوئی بھی پیچیدہ مطالعہ اور کوئی بھی طویل مباحثہ نہیں ہوا؛ صرف ایک فوری رشتہ اور تعلق قرآن اور میرے قلب کے درمیان قائم ہوا۔ اس کے چند ہی روز بعد اپنے بہن بھائیوں میں سے ایک کے گھر میں میں نے شہادتین جاری کئے۔ ایک عالم دین نے ایک متن عربی زبان میں پڑھ لیا اور میں نے وہی عبارت دہرائی اور ایک شخص نے اس عبارت کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر سنایا۔ انھوں نے کہا: "مبارک ہو"، "دین اسلام میں خوش آمدید"، "اب آپ مسلمان ہیں"۔

میں نے دل ہی دل میں کہا: کتنا آسان اور کتنا سادہ! اسلام میرے لئے دین کامل، دین خالص اور دین پاک ہے جس میں نسلی امتیاز وجود نہیں رکھتا؛ اس میں عورت اور مرد برابر ہیں؛ اس میں عدل و انصاف کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور اس میں معاشروں کے لئے ایسے قوانین وضع کئے گئے ہیں جو بہت ہی سادہ اور بہت ہی کامل ہیں۔

جارج برنارڈ شا (George Bernard Shaw) سے ایک جملہ نقل ہوا ہے جس کا مضمون یہ ہے: "اسلام بہترین دین ہے لیکن مسلمان ایک دین کے بہترین پیروکار نہیں ہیں"۔ (1)

بعد میں میں نے اس موضوع کے بارے میں سوچا کہ مسلمان اور دین اسلام کے پیروکار دین اسلام کے برعکس غیر کامل (ناقص) اور غیر سادہ (دنیا کی چمک دمک میں ڈوبے اور پیچیدہ) ہوسکتے ہے۔ جب میں نے دیگر نومسلموں سے بات چیت کی تو ان کا بھی یہی خیال تھا۔

ابتداء میں جب آپ اسلام کے ساتھ روشناس ہوتے ہیں گویا ایک طاقتور معنوی و روحانی رابطہ و تعلق قائم ہوجاتا ہے جو آپ کو خدا اور دین اسلام تک پہنچا دیتا ہے۔ مجھے ایک نومسلم فرد کی حیثیت سے بعض قوانین کا پاس رکھنا پڑ رہا تھا؛ لباس کی کیفیت و نوعیت، بعض خاص قسم کی غذائیں کھانا اور بعض غذاؤں سے پرہیز کرنا، وہ اعمال جو انجام دینا ضروری ہیں اور وہ امور جن سے اجتناب کرنا چاہئے ۔۔۔

کئی سال کا عرصہ گذرا اور میں نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا کہ "آپ ہر زمانے میں تمام مسلمانوں کو قائل نہیں کرسکتے چنانچہ آپ کو زندگی کے لئے ایک راہنما کی ضرورت ہے تا کہ ایک صحیح سمت میں عبادات بجا لاسکیں۔ چنانچہ میں نے مطالعہ و تحقیق کے بعد مذہب شیعہ کا انتخاب کیا اور یہ اپنی جگہ ایک دوسری داستان ہے۔

اب اسلام میں سادگی کے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ ہمارا دین (اسلام) صلح و آشتی، عدل و انصاف اور مہربانی و انسانیت کی حمایت کرتا ہے۔ "یو این ڈی پی" (United Nation's Development Program) نے عرب ملکوں کی ترقیاتی امور کے بارے میں اپنی رپورٹ 2002 میں مطلوبہ حکمرانی کے سلسلے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے چھ اقوال ذکر کئے ہیں؛ میں یہاں ان چھ اقوال میں سے دو اقوال نقل کرنا چاہوں گی جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام عدل و انصاف کے قیام کے بارے میں کس قسم کے پروگرام رکھتا ہے:

1۔ "لوگ دو حالوں سے خارج نہیں ہیں، یا تو وہ تمہاری دینی برادران ہیں یا پھر انسان ہیں بالکل تمہاری مانند"۔ (2)

2۔ پرہیزگار انسان دنیا میں برتر فضیلتوں کی مالک ہیں، ان کی باتیں سچی، ان کا لباس میانہ روی اور ان کی چال تواضع اور فروتنی پر مبنی ہے؛ اپنی آنکھیں بند کرتے ہیں ان چیزوں پر جو اللہ نے حرام کردی ہیں اور اپنے کانوں کو مفید علوم کے لئے وقف کرچکے ہیں۔ تنگدستی اور فراخی میں ان کا حال یکسان ہے۔ (3)

یہ ان مکمل اور سادہ تعلیمات میں سے ہیں جنہوں نے مجھے اسلام کی طرف جذب کیا۔ اسلام میں اتنی عظیم اور پرشکوہ مثالوں کے برعکس آپ اسکاٹ لینڈ، برطانیہ اور یورپ کی سڑکوں پر میں کسی غیر مسلم سے پوچھیں کہ چند الفاظ میں اسلام کا خلاصہ بیان کرے تو مجھے یقین ہے کہ وہ ان چند الفاظ میں اسلام کا خلاصہ بیان کریں گے: "متشدد، سختگیر و بے لچک، تشدد، عورتوں کے ساتھ بدسلوکی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی، یہ لوگ ہمارے دین کے بارے میں اس طرح کیوں سوچیں؟

اسلام قبول کرنے والے دیگر افراد بھی اپنے لئے مذہب کا انتخاب کرلیتے ہیں، باعث افسوس ہے کہ بعض لوگ سلفیت کے کنویں میں گرجاتے ہیں، مجھے کہنا چاہئے کہ اگر وہ (نومسلم) خوش نصیب ہوں تو سنی بن جاتے ہیں اور اگر اس سے زیادہ خوش قسمت ہوں تو ان صوفیوں کی صف میں جاکھڑے ہوتے ہیں جو اہل بیت علیہم السلام سے عقیدت رکھتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ بہت تھوڑے ـ مگر نہایت خوش قسمت ـ لوگ اسلام میں تشیع کی حقیقت سے آگہی حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ موضوع اپنی جگہ قابل بحث ہے۔

جو لوگ مسلمان ہوگئے ہیں قوانین اور احکام کے ایک مجموعے کا سامنا کرتے ہیں۔ حرام و حلال۔ انہیں بعض عربی اصطلاحات سکھائی جاتی ہیں جیسے حرام، کفر، مکر اور شرک۔ افسوس کی بات ہے کہ انہیں اجازت نہیں دی جاتی کہ اسلام کی سادہ شکل اپنی زندگی میں نافذ کریں۔ مسلمانوں سے مسلسل یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ "کیا وہ سنی ہیں یا شیعہ ہیں؟" "کس مذہب کے پیروکار ہیں؟"، "اگر شیعہ ہیں تو کس مرجع کی تقلید کرتے ہیں"۔

نو مسلم افراد کا ایمان کمزور ہوتا ہے اور اس سلسلے میں ان کی کوئی رائے نہیں ہوتی۔ وہ صرف "مسلمانی" کا نام لے کر پھرتے ہیں۔ وہ لوگ بھی جو مسلمان پیدا ہوئے ہیں ان کی بھی اس سلسلے میں کوئی رائے نہیں ہوتی کہ انہیں کیوں سنی یا شیعہ ہونا چاہئے۔ ان کی اس بارے میں کوئی رائے نہیں ہوتی کہ انہیں کیوں حنفی یا شافعی یا مالکی یا جعفری ہونا چاہئے؟۔ وہ عام طور پر ایک خاص مذہب کی پیروی کرتے ہیں کیونکہ ان کے خاندان اور معاشرے کے مسلمانوں کی اکثریت اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایسا ہی عمل کرتی ہے۔

ایک نومسلم کس طرح حیرت اور سرگردانی کا شکار ہوجاتا ہے، اس سلسلے میں ایک مثال پیش کرنا چاہوں گی۔ میں نے ایک سنی بہن سے وضو کا طریقہ سیکھا۔ مجھے البتہ یاد نہیں ہے کہ وہ کس مذہب کی پیروکار تھیں۔ عرصہ بعد جب میں شیعہ ہوگئی اور ایران گئی تھی۔ وہاں میں وضو کررہی تھی تو میری ایک مذہبی بہن نے مجھے بتایا کہ میرا وضو درست نہیں ہے اور اس نے مجھے صحیح وضو کا طریقہ سکھایا۔ میں کئی برسوں تک اسی روش سے وضو کرتی تھی اور کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا کیونکہ جب میں اس شیعہ بہن سے ملی تو اس نے مجھ صحیح وضو کا طریقہ سکھایا تھا۔ عرصہ بعد حنفی سنیوں کے درمیان حاضر تھی اور وضو کررہی تھی تو حنفی خواتین حیران ہوئیں اور انھوں نے مجھے اپنے وضو کا طریقہ سکھانا شروع کیا اور یہ بات میرے لئے بہت ہے اذیت ناک تھی۔

اسلام میں وضو کا طریقہ ان موضوعات میں سے ہے جس کی روش کے صحیح یا غلط ہونے کے سلسلے میں نو مسلم افراد حیرت و سرگردانی سے دوچار ہو جاتے ہیں۔

مسلمانوں کے درمیان وضو کی روش کے حوالے سے بہت سے اختلافات ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان دیگر موضوعات جیسے: حجاب، روزہ کے قوانین اور مسافر کی نماز کے سلسلے میں بھی اختلافات بہت ہیں۔

نومسلم افراد کی ایک بہت بڑی مشکل یہ ہے کہ انہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ دین اسلام کے قوانین و احکام پر عمل کرنے کے لئے کئی راستے اور کئی روشیں اور کئے مکاتب ہیں۔ انہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ اسلام میں کئی مذاہب ہیں بلکہ انہیں صرف یہی کہا جاتا ہے کہ "یہ کام درست ہے اور یہ کام غلط"۔ ایک مسلمان کہیں سے آتا ہے اور نومسلم فرد کو بعض قوانین و احکام کی یادآوری کراتا ہے دوسرا مسلمان آتا ہے اور وہ ایسے قوانین اور احکام سناتا ہے جو پہلے مسلمان کے سنائے ہوئے احکام و قوانین کے بالکل برعکس ہیں۔ چنانچہ اس طرح سے نومسلم فرد احکام دین پر عمل کرنے کے سلسلے میں سرگردانی اور حیرت کا شکار ہوجوتا ہے۔

لہذا میں نے پانچوں اسلامی مذاہب کا گہرا مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ یہ فیصلہ کرسکوں کہ کونسا مذہب زیادہ سے زیادہ منطقی اور معقول ہے۔ البتہ جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ انسان صحیح راستے اور صحت سمت پر گامزن ہوجائے اور میری اللہ سے التجا یہی تھی کہ مجھے صحیح راستے پر ہدایت عطا فرمائے۔

میں نے جعفری مذہب میں اپنی موجودگی کے دلائل قبول کرلئے ہیں اور ذاتی طور پر اس موضوع پر دوسروں کے ساتھ بحث کرسکتی ہوں کہ میں مذہب جعفری سے کیوں وابستہ ہوں اور کیوں شیعیان اہل بیت (ع) کے درمیان ہوں۔ مگر کیا دوسرے بھی ایسا کرسکتے ہیں؟ وہ لوگ کیا کریں جو مطالعہ و تحقیق کے لئے زیادہ فرصت نہیں پاتے؟ بعض مسلمان حتی دیگر اسلامی مذاہب سے بالکل بے اطلاع ہیں۔ ان کے پاس خاص قسم کی معلومات ہیں جو دوسرے مسلمانوں کے بالکل برعکس ہیں۔

ایک ایسے وقت جبکہ ہمارے مسلمانوں نے اپنے قوانین کے تحت اسلام کی سادگی کو پیچیدگی میں تبدیل کردیا ہے، نتیجہ یہی ہوگا کہ اسلام کا سادہ اور آسان اور مکمل دین دنیا والوں کے سامنے ایک پیچیدہ اور نہایت سخت دین کی صورت میں جلوہ گر ہوگا۔ ہم سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حدیث شریف مد نظر رکھ لینی چاہئے کہ "لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دو جبکہ انہیں خوشنود کررہے ہو اس طرح سے نہیں کہ انہیں بیزار اور بے رغبت کردو اور کوشش کرو کہ اسلام کے احکام انہیں آسان اور سادہ نظر آئیں نہ یہ کہ یہ احکام انہیں سخت اور متشددانہ شکل میں ظاہر ہوں"۔ (4)

اب دوسرے موضوع پر بات کرتی ہوں اور دوسرا موضوع "اسلام اور قلب و روح انسان"؛ کہا جاتا ہے کہ ہر انسان دو قلبوں اور دو روحوں کا مالک ہے۔ ایک قلب وہ ہے جو انسان کی سینی میں تڑپتا ہے اور ایک دل معنوی اور روحانی دل ہے جس کا کوئی اندازہ اور کوئی حد نہیں ہے اور حتی بعض لوگ تو اس قلب کو پورے عالم وجود سے بڑا سمجھتے ہیں؛ چونکہ انسان کے قلب و روح میں نیکی اور بدی دونوں کی گنجائش ہے لہذا قلب و روح کی حفاظت بہت ضروری ہے۔

قلب و روح کی حفاظت ذکر اور یاد خدا کے ذریعے ممکن ہے۔ دینی مبلغین کا کہنا ہے کہ جو شخص اللہ کو یاد کرے اللہ کا نور اس کے قلب پر وارد ہوجاتا ہے جو اس روح اور اس قلب میں شیطان کے داخلے کو ناممکن بنادیتا ہے۔

پس اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ جتنا اللہ کو زیادہ یاد کروگے اتنا ہی تم نے اپنے قلب و روح کی حفاظت کی ہے۔ میں نے اس موضوع کی طرف اشارہ اس لئے کیا کہ یہ امور ـ یعنی عبادت، ذکر اور صلوات و درود ـ صرف اسلام کے لئے مختص نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کے ساتھ ربط و تعلق کے قیام اور انسانوں کے قلب و روح کی حفاظت کی بیش بہاء روشیں ہیں۔

میں ان اعمال میں نماز کا اضافہ کرنا چاہوں گی کیونکہ اگرچہ نماز کے لئے قوانین ہیں مثلاً نماز کی رکعتوں کی تعداد معین ہے لیکن نماز خدا کے ساتھ تعلق جوڑنے کے لئے ایک خصوصی راستہ ہے اور اس تعلق اور اس رشتے کی قدر و منزلت چند رکعت نماز پڑھنے سے کہیں زیادہ ہے۔ امام خمینی رحمۃاللہ علیہ "آداب نماز" میں فرماتے ہیں: شرع مبین میں نماز کے لئے بعض ظاہری اشیاء معین ہیں جن پر عمل کرنا لازمی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نماز کی ایک گہرائی ہے اور اس کی ایک روح ہے؛ اس کی طرف بھی توجہ دینا ضروری ہے۔

اب ہمارے معاشرے اور ہمارے دین میں ایسے قوانین کی ضرورت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ اسلام اپنے اندر آداب و رسوم کے لئے قوانین کا حامل ہے۔ یہ قوانین احکام و آداب کو پیچیدہ بنانے کے لئے وضع نہیں ہوئے ہیں بلکہ اس لئے وضع کئے گئے ہیں کہ لوگ ان پر عمل کریں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کی توجہ ان قوانین کی روح اور ان کے عمق و حقیقت سے قطع نظر ان کی شکل اور ظاہری مفاہیم پر مرکوز ہے؛ البتہ محض معنوی قلب پر مرکوز ہونا اور ان قوانین سے بے اعتنائی برتنا بھی غلط ہے؛ لیکن جب ان قوانین کے ظواہر پر توجہ افراط و زیادہ روی اور انتہاپسندی کی حد تک پہنچتی ہے اور مسلمانوں کی توجہ صرف قوانین و ضوابط پر مرکوز ہوتی ہے تو ہمیں دہشت گردی اور تشدد کی مختلف شکلیں نظر آنے لگتی ہیں۔

جو لوگ انتہاپسندانہ اقدامات بجالاتے ہیں ایک معنوی قلب کے ذریعے اللہ کے ساتھ رشتہ جوڑنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔

دین، اور بالخصوص دین اسلام ـ جس کے دائرے میں ہم ہیں ـ محض ایک خارجی اور ظاہری ڈھانچہ نہیں ہے بلکہ اس کی داخلی اور باطنی حقیقت بھی ہے۔

نظر تو یوں آرہا ہے کہ آج کے اس زمانے میں اکثر مبلغین ـ خاص طور پر وہ مبلغین جو اہل سنت اور سلفی بھائیوں اور بہنوں کی نمائندگی کرتے ہیں ـ اسلام کی ایک خارجی اور بیرونی شکل بنائے ہوئے ہیں اور وہ دین خدا کی اندرونی روح اور خالص حقیقت کا تعارف نہیں کراتے۔

مثال کے طور پر دعا اور ذکر و مناجات درحقیقت خدا کے ساتھ تعلق اور اللہ کے حضور مشرف ہونے کے وسائل ہیں اور اس صورت میں انسان کو مطیع و فرمانبردار مرید بننا پڑتا ہے۔ قرآن مقدس میں ایسی کثیر آیتیں ہیں جن کا تعلق انسان کے قلب و روح سے ہے۔ اگر خدا ارادہ کرے تو بعض لوگوں کے دلوں پر تالے ڈال دیتا ہے اور اگر ارادہ کرے تو کئی دیگر انسانوں کے قلب و روح سے تالے کھول دیتا ہے؛ ارشاد ہوتا ہے: «وجعلنا علی قلوبهم اکنة ان يفقهوه وفي آذانهم وقرا»، (اے میرے حبیبب) ہم نے ان کے قلبوں پر پردے ڈال دیئے تا کہ وہ آپ کا کلام نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں بھاری پن قرار دیا۔ (5)

پس یہ اللہ کی لطف و رحمت کی علامت ہے۔ ہماری روح اور ہمارے دل کا تالا اللہ کی رحمت سے اٹھالیا گیا ہے۔

میں نے اس بات پر بہت غور کیا ہے کہ ہمارے مسلم بہن بھائی بڑی آسانی سے غیرمسلموں پر تنقید کرتے ہیں اور انہیں بڑی آسانی سے کافر کہہ کر پکارتے ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ کو کہیں اتفاق سے کسی ایسے شخص سے آمنا سامنا ہو جو گناہوں میں ڈوبا ہوا ہے اور اس کی زندگی بہت بری ہے لیکن ذات خدا ایسی ذات ہے کہ اگر وہ ارادہ فرمائے تو چند ہی ثانیوں میں کسی کے قلب سے اندھیرے برطرف کردیتا ہے اور اس کی روح و قلب سے پردے اٹھا دیتا ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ فرد خدا پر ایمان لے آئے اور شہادتین زبان پر جاری کرے۔ ہم کون ہیں جو اللہ کے عزم و ارادے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں یا فیصلہ کریں۔

اگر ہم حق گو ہوں اور صراحت سے بات کرنا چاہیں تو کہتے ہیں کہ ہمارے قلبوں کے اندر خدا کے ساتھ ربط و تعلق اہم ترین چیز ہے جو ہمارے اسلامی مذاہب میں مشترک ہے۔ ہم سب اپنے قلب و روح کے ذریعے خدا کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ بعض اوقات مسلمان اسلام کے قوانین کے سلسلے میں اندھے پن کا شکار ہیں اور اپنے قلب و روح کے خلاف عمل کرتے ہیں۔ یہ کیسی بات ہے کہ "ایک مسلمان جب اپنے قلب و روح کی صدا سن رہا ہے وہ اسی وقت کسی مقام پر بم بھی رکھ رہا ہو تا کہ عورتوں اور بچوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردے؟"

یہ انتہاپسند اور مفرط افراد اپنے آپ کو قائل کرلیتے ہیں کہ "جن لوگوں کو اس نے قتل کردیا ہے انھوں نے اللہ تعالی کی ذات کی بجائے سیاسی اہداف و مقاصد کو اپنی زندگی کا مطمع نظر قرار دیا تھا چنانچہ انہیں جینے کا ہرگز حق نہیں ہے۔ (6)

میں اپنی باتیں اس آیت الہی پر ختم کردیتی ہوں جس میں اللہ تعالی نے ان تمام چیزوں کو سمیٹا ہوا ہے جو میں یہاں کہنا چاہتی تھی: کہ اللہ تعالی نے یہ احکام تمہارے سکون و آسودگی کی خاطر وضع کئے ہیں تمہیں سختی میں ڈالنے کے لئے نہیں۔

«يريدالله بکم اليسر ولايريد بکم العسر»، (7)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مآخذ:

1۔ '' Islam is the best religion and Muslims are the worst followers."

2۔ نہج‌البلاغہ، صبحی صالح، خط نمبر 53، ص 427.

3۔ خطبہ ہمّام یا خطبۃالمتقین (خطبہ نمبر 185) نہج البلاغہ-

4۔ (صحيح مسلم ، 3، ص 1587 ؛ نيز کنزالمعال ص 29)

5۔ وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا وَإِن يَرَوْاْ كُلَّ آيَةٍ لاَّ يُؤْمِنُواْ بِهَا حَتَّى إِذَا جَآؤُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِنْ هَذَآ إِلاَّ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ ـ ـ (سورہ انعام آیت 25)

ان میں سے بعض آپ کی باتیں سنتے ہیں لیکن ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں تا کہ وہ آپ کی باتیں نہ سمجھ سکیں اور ان کے کانوں میں ہم نے بھاری پن قرار دیا؛ اور (وہ اتنی ہٹ دھرم ہیں کہ وہ) اگر حق کی تمام نشانیوں کا مشاہدہ بھی کریں پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے؛ یہاں تک کہ جب وہ جدال و تکرار کرنے کے لئے آپ کے پاس آتے ہیں کافرین کہتے ہیں: "یہ محض گذرے ہوئے لوگوں کے افسانے ہیں"۔

6۔ برطانیہ میں بیٹھے کسی مسلمان کو بہتر اندازہ ہوسکتا ہے کہ عالمی اسلام میں ہمارے اعمال حتی ہمارے عقائد کی صدائے بازگشت کی صورت کیا ہے؟؛ اس میں شک نہیں ہے لیکن انہوں نے ہمارے دہشت گردوں کے بارے میں جو نظریہ قائم کیا ہے وہ ان کے نفس کی سلامتی کا نتیجہ ہے ورنہ یہ دہشت گرد کسی چیز کے بھی قائل نہیں ہیں۔ ان کے پاس روح و قلب کا کیا تصور ہوسکتا ہے جو اپنے ہی بھائیوں کو جاسوسی کے الزام میں بھیڑ بکریوں کی مانند ذبح کرتے ہیں اور سوات میں اپنے ہی اٹھارہ زخمی ساتھیوں کو اس لئے ذبح کرتے ہیں کہ کہیں وہ افواج کے ہاتھوں اسیر نہ ہوجائیں؛ وہ ان کو گولی مار کر قتل نہیں کرتے بلکہ انہیں ذبح کرتے ہیں تا کہ ان کی خونخوار فطرت کو سکون حاصل ہو خون کسی کا بھی ہو۔ انہیں معلوم نہیں کس نے قائل کرلیا ہے کہ جن لوگوں کو وہ قتل کرتے ہیں وہ در حقیقت کفار کے حامی ہیں یا کافر ہیں۔ البتہ ان کا دین اسلام سے الگ ہے کیونکہ اسلام میں عیسائی اور یہودی اور دیگر ادیان کے لوگوں تک کو بھی مکمل آزادی حاصل ہے اور مدینہ میں رسول اللہ کے زمانے میں یہ لوگ رہتے تھے اور رسول اللہ نے کسی کو بھی ان کے دین کی وجہ سے نہیں للکارا۔ دہشت گردوں کا خدا اور ان کا پیغمبر یقیناً مسلمانوں کے خدا اور پیغمبر سے الگ ہیں اور وہ کفار کے دشمن نہیں ہیں بلکہ اسلام کے دشمن ہیں اور کفر و شرک و استکبار ان ہی کے سہاری علاقے پر اپنی گرفت مضبوط کررہے ہیں۔ آج تک ان کا ایک حملہ بھی کسی دشمن اسلام کے خلاف نہیں ہوا اگر کوئی ایسا حملہ ہوتا بھی ہے تو وہ دشمنوں کے ساتھ ہماہنگ ہوکر ہوتا ہے اور اس میں بھی دشمنوں کے اہداف و مقاصد ہوتے ہیں۔

7۔ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (بقره ـ 185)

(روزہ، چند گنے ہوئے ایام میں) ماہ مبارک رمضان ہے وہ مہینہ جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور ہدایت اور حق و باطل کے درمیان تمییز کی نشانیوں پر مشتمل ہے۔ پس جو شخص تم میں سے ماہ مبارک کے دوران حَضَر (اپنے وطن) میں ہو وہ روزہ رکھے؛ اور جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو، ان ایام کی بجائے دیگر ایام میں روزہ رکھے۔ خداوند متعال تمہارے لئے آرام و آسائش چاہتا ہے تمہارے لئے زحمت نہیں چاہتا۔ مقصد یہ ہے کہ ان ایام (کے روزوں) کو مکمل کرو اور اللہ تعالی کو برزگ و برتر سمجھو اس لئے کہ اس نے تمہیں ہدایت سے نوازا ہے؛ شاید تم شکرگزاری کرو۔

تاریخی اور کلامی لحاظ سے رسول اللہ ۖ کی بعثت ،نبوت کی اہم ترین بحث ہے ۔تاریخ انسانیت کایہ عظیم واقعہ دنیا میں ایک بڑے انقلاب کاباعث بناہے اور اس نے پوری تاریخ انسانیت پر اثرات چھوڑے ہیں اور یہ واقعہ نہ فقط اپنے زمانے کے لحاظ سے اہم تھا بلکہ آئندہ زمانے کے لئے بھی اس کی اہمیت اپنے زمانے سے زیادہ اہم ہے ۔ چونکہ رسول اللہ ۖ کی بعثت ایک نبی خاتم ۖ کی بعثت تھی نہ ایک محدود زمانے اور محدودپیغام کے حامل نبی کی بعثت تھی ۔بعثت پیغمبر ۖ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس کو جہاں تاریخی حیثیت سے دیکھا گیا ہے وہاں کلامی اور عرفانی نقطئہ نظر سے بھی اس پر بحث کی گئی ہے ۔

چونکہ امام خمینی ایک فقیہ ،فیلسوف ،عارف ہونے کے لحاظ سے ایک ایسے صاحب نظر عالم دین ہیں کہ جنہوں نے رسول اللہ ۖ کی شریعت کو طریقت اور عملیت کے میدان میں پیش کیا ہے اور رسول اللہ ۖ کے پیغام کا عملی تجربہ کیا ہے اور اسے جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے پیش کرنے کی جرائت کی ہے اور یہ رسول اللہ ۖ کی بعثت اور لائی ہوئی شریعت پر امام خمینی کے محکم ایمان اور یقین کی دلیل ہے ۔

امام خمینی رسول اللہ ۖکی بعثت کے پیغام یعنی؛ شریعت محمدیہ ۖ کو نہ فقط اعتقادی نظر سے دیکھتے تھے بلکہ اس کو عملی میدان میں پیش کرنے اور اس کو دنیا کے تمام نظام ہائے زندگی سے برتر سمجھتے تھے ،اور اسی یقین کامل کے ساتھ اُنہوں نے بعثت رسول ۖکے نتیجے میں قائم ہو نے والی اسلامی حکومت کے احیاء کی کوشش کی اور اسے اپنے یقین محکم کے ساتھ عصر حاضر کے پیچیدہ ترین نظام ہائے زندگی کے مقابلے میں لاکھڑا کیا اور پوری دنیا پر بعثت پیغمبر ۖ کی حقانیت ثابت کر دی ۔اس لحاظ سے بعثت اور فلسفہ بعثت کے بارے میں امام خمینی کے افکار وبیانات اور نظریات خاصی اہمیت رکھتے ہیں ۔چونکہ یہ ایک ایسے عالم دین کے افکار ہیں جو فقط بعثت رسول ۖ پر علمی ونظریاتی بحث نہیں کرتا بلکہ اسے انسانی معاشرے میں عملی شکل میں پیش کرتا ہے ۔

یہ فقط امام خمینی کا امتیاز ہے کہ جنہوں نے پیغام رسالت اور فلسفہ بعثت کو عمل کے میدان میں پیش کیا ہے ۔لہٰذا بعثت رسول اللہ ۖکے بارے میں امام خمینی کے افکار فقط ایک عالم دین اور فقیہ کے افکار نہیں بلکہ ایک عارف کامل ، ایک فیلسوف اور ایک ماہر سیاستدان اور ایک طاقتوراسلامی حکمران کے افکار ہیں جس نے سیاست رسول ۖ اور پیغام بعثت کاتجربہ عملی طو ر پر کیا ہے ۔اسی خصوصیت کے ساتھ ہم سیرت رسول اللہ ۖ کے ایک اہم عنوان یعنی؛ ''بعثت رسول اللہ ۖ'' کے بارے میں امام خمینی کے افکار پیش کرتے ہیں ۔

تاریخ کاعظیم واقعہ

رسول اکرم ۖ کی بعثت کا دن پورے زمانے ''مِن َ الازَل اِلی الابد''باشرف ترین دن ہے۔چونکہ اس سے بڑا اور کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ہے ۔دنیا میں بہت سے عظیم واقعات رونما ہوئے ہیں ،عظیم انبیاء مبعوث ہوئے ہیں، انبیائے اولوالعزم مبعوث ہوئے ہیں اور بہت سے بڑے بڑے واقعات ہو گذرے ہیں لیکن رسول اکرم ۖ کی بعثت سے بڑا کوئی واقعہ نہیں ہے اور اس سے بڑے واقعہ کے رونما ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔کیونکہ اس عالم میںسوائے خداوند متعال کی ذات مقدس کے، رسول اکرم ۖ سے عظیم تر ہستی کوئی بھی نہیں ہے اورآپۖ کی بعثت سے بڑا واقعہ بھی کوئی نہیں ہے۔ایک ایسی بعثت کہ جو رسول خاتم ۖ کی بعثت ہے اور عالم امکان کی عظیم ترین شخصیت اور عظیم ترین الہٰی قوانین کی بعثت ہے ۔اور یہ واقعہ اس دن رونما ہوا ہے اسی نے اس دن کو عظمت اور شرافت عطا کی ہے ۔ اس طرح کا دن ہمارے پاس ازل وابد میں نہیں آیا اور نہ آئے گا۔لہذامیں اس دن کے موقعہ پر تمام مسلمانوں اور دنیا بھر کے مستضعف لوگوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ ١

عالم بشریت کا وحی کے فواہد اور تعلیمات سے بہرہ مند ہونا

بعثت کا ایک محرک یہ ہے کہ یہ قرآن کہ جو غیب میں تھا ،غیبی صورت میں تھا ،(فقط) علم خدا میںتھا اور غیب الغیوب میں تھا ،اس عظیم ہستی ۖ کے ذریعے ،وہ ہستی ۖ کہ جس نے بہت زیادہ مجاہدت و ریاضت کرنے اور حقیقی فطرت اور توحیدی فطرت پر ہونے کی وجہ سے اور غیب کے ساتھ رابطہ رکھنے کی وجہ سے اس مقدس کتاب کو مرتبہ غیب سے متنزل کیا ہے بلکہ (یہ مقدس کتاب ) مرحلہ بہ مرحلہ نازل ہوئی ہے اور آخر درجہ شہادت (ظاہر)پر پہنچ کر الفاظ کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔اور اب ان الفاظ کو ہم اور آپ سب سمجھ سکتے ہیں اور اس کے معانی سے اپنی توان اور (استعداد ) کے مطابق فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔بعثت کا مقصد اس دسترخوان نعمت کو لوگوں کے درمیان نزول کے زمانے سے لے کر قیامت تک بچھانا ہے اور یہی بات کتاب خدا کے نزول کے اسباب میں سے ایک سبب اور رسول اکرم ۖ کی بعثت کی اصل وجہ ہے (بَعَثَہُ اِلَیْکُم) ( اس رسول ۖ کو تمہاری طرف بھیجا)، وہ رسولۖ تمہارے لیے قرآن اور ان آیات:

''وَیُزَکِّیہِم وَیُعَلِّمُہُمُ الکِتابَ وَالْحِکْمَة'' (سورہ جمعہ ،آیت ٢)

'' (وہ رسولۖ) ان کا تزکیہ کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے''

کی تلاوت کرتا ہے۔شاید ان آیات کی مقصودیا ہدف یہی ہوکہ رسول اکرم ۖتزکیہ اور تمام افراد کی تعلیم وتربیت اور اسی کتاب وحکمت کی تعلیم کیلئے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ پس بعثت رسول اکرم ۖ کی وجہ وحی اور قرآن کا نزول ہے اور انسانوں کیلئے تلاوت قرآن کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنا تزکیہ کریں اور ان کے نفوس گناہ کی اس ظلمت وتاریکی سے پاک ہوں جو ان کے اپنے اندر موجود ہے اور اس پاکیزگی اور تزکیہ کے بعد ان کی روحیں اور اذہان اس قابل ہوں کہ کتاب وحکمت کوسمجھ کرسکیں۔٢

نور ہدایت کے حصول کے لئے نفوس کا تزکیہ

جو لوگ بعثت کو ایک الہٰی بعثت سمجھتے ہیںاور بعثت کا محرک تمام مخلوق کی ہدایت جانتے ہیں؛اُنہیں بعثت کی غرض و غایت کی طرف متوجہ رہنا چاہیے ۔اور بعثت کے اس محرک کی طرف توجہ کرنی چاہیے ۔چونکہ خود خداوند متعال نے بعثت کا محرک بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :

''یَتلوا عَلَیھم آیاتِہِ وَیُزَکِّیہِم وَیُعَلِّمُہُمُ الکِتابَ وَالْحِکْمَة''

''تاکہ وہ (رسولۖ) ان پر آیات کی تلاوت کرے اور ان کا تزکیہ کرے اور انہیں کتاب

و حکمت کی تعلیم دے'' (سورہ جمعہ ،آیت ٢)

انسان میں ہدایت کی روشنی تزکیہ نفس سے پیدا ہوتی ہے ۔٣

عظیم ترین علمی و عرفانی انقلاب

بعثت کا مسئلہ اور اسکی ماہیت و برکات کوئی ایسی چیز نہیں کہ جسے ہماری لکنت زدہ زبانوں سے بیان کیا جاسکے ۔اس کے پہلو اس قدر وسیع ہیں اور اسکی معنوی اور مادی جہات اس قدر زیادہ ہیں کہ جن کے بارے میں گفتگو کرنے کا میں گمان بھی نہیں کر سکتا ۔

رسول اکرم ۖ کی بعثت نے تمام عالم میں ایک علمی وعرفانی انقلاب برپا کیا ہے کہ جس نے یونانیوں کے خشک اور قدر وقیمت کے حامل فلسفے کو اہل شہود ومعرفت کیلئے ایک عرفان حقیقی اور شہود واقعی میں تبدیل کردیاہے۔کسی کے لئے بھی قرآن کے اس پہلو کا انکشاف نہیں ہوا سوائے اُن لوگوں کے لئے جو اسکے حقیقی مخاطب ہیں ۔حتیٰ بعض پہلو تو ''مَن خوطِبَ بِہ '' کے لئے بھی واضح نہیں ہوئے ہیں ۔جن سے فقط ذات ذی الجلال جل جالہ کے اور کوئی بھی آگا ہ نہیں ہے۔اگر کوئی قبل از اسلام کے فلسفے اور بعد از اسلام کے فلسفے کا مطالعہ کرے اور ہندوستان وغیرہ میں اس قسم کے مسائل سے سروکار رکھنے والوں کا بعداز اسلام کے عرفا سے (موازنہ کرے) کہ جو اسلامی تعلیمات کے ساتھ ان مسائل میں داخل ہوئے ہیں تو وہ جان لے گاکہ اس حوالے سے کتنا عظیم انقلاب آیا ہے۔حالانکہ اسلام کے عظیم عرفا بھی قرآنی حقائق کو کشف کرنے میں عاجز ہیں ۔ قرآن کی زبان کہ جو بعثت کی برکت اور رسول خدا ۖ کی بعثت کی عظیم برکات میں سے ہے۔٤

عظیم ترین علمی و عرفانی انقلاب

رسول اکرم ۖکی اس ولادت باسعادت کے مختلف پہلو آج تک کسی انسان کو معلوم نہیں ہوسکے۔ اس ولادت کی برکت سے فیوض وبرکات کے جاری ہونے والے چشمے رسول اکرم ۖ کے قلب مبارک پر وحی کے نزول کی صورت میں اپنے کمال کو پہنچے۔ قرآن مجید کا نزول بھی انہی سرچشموں میں سے ایک ہے کہ جس کا کامل فہم کسی ایک کیلئے یہاں تک کہ آخری زمانے کے عقلمند اور غور وخوص کرنے والے افراد کیلئے بھی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زبان عصمت سے قرآن کی بیان شدہ حقیقت سے زیادہ آج تک کسی نے قرآنی حقائق سے پردہ نہیں اٹھایا ہے۔ جب آپ اسلام سے قبل معرفت وعلوم کی گہرائی، فلسفے اور اجتماعی عدل وانصاف کا مشاہدہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ قرآن کے انہی معلوم شدہ حقائق نے دنیا میںایک عظیم انقلاب برپاکیا ہے کہ جس کی نہ ماضی میں مثال ملتی ہے اور نہ ہی مستقبل میں امید کی جاسکتی ہے۔

تاریخ عرفان میں آپ دیکھیں کہ اسلام سے پہلے کیا تھا اور اسلام کے بعد اسلام ِمقدس اور قرآن کریم کی تعلیمات کے ذریعے کیا کچھ ہو گیا ہے ۔اسلام سے پہلے کی شخصیات کو دیکھیں مثلاً ارسطو وغیرہ کو دیکھیں ؛وہ عظیم شخصیات تھیں لیکن اس کے باوجود اُن کی کتابوں میں وہ چیز نہیں ملتی جو قرآن کریم میں ملتی ہے ۔

ہماری روایات میں یہ جوبعض آیات(کے بارے میں) نقل ہواہے کہ مثلاً سورہ توحید اور سورہ حدید کی آخری چھ آیات آخری زمانے کے گہرا سوچ وبچار رکھنے والے دور اندیش لوگوں کے لیے نازل ہوئی ہیں ؛میر ے خیال میں اس کی واقعیت اس وقت تک یا اس کے بعد انسان کے لئے جس طرح ہونا چاہیے منکشف نہیں ہو سکے گی۔البتہ اس بارے میںبہت کچھ کہا جا چکا ہے اور اس سلسلے میں بہت ہی گرانقدر تحقیقات انجام پاچکی ہیں لیکن اُفق قرآن اس سے کہیں زیادہ بلند ہے ۔٥

انسان کے ادراک سے بالا معجزہ

بعثت کا واقعہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کے بارے میں ہم کوئی بات کر سکیں ہم فقط اسی قدر جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ۖ کی بعثت کے ساتھ ایک انقلاب برپا ہو ا ہے اور اس دنیا میںتدریجاً ایسی چیزیں رونما ہوئی ہیں کہ جو پہلے نہیں تھیں ۔ وہ تمام معارف وعلوم جو رسول اکرم ۖ کی بعثت کی برکت سے پوری دنیا میں پھیلے، ان کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ بشریت ان کے لانے سے عاجز ہے اور جو لوگ صاحب علم ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ معارف کیا ہیں اور ہم کس حد تک ان کا ادراک کرسکتے ہیں؟ تمام انسانوں کا ان معارف وعلوم کے لانے میں عاجز ہونا اور بشریت کے فہم وادراک سے اس کا ما فوق ہونا ایک ایسے انسان کیلئے بہت بڑا معجزہ ہے کہ جس نے زمانۂ جاہلیت میںپرورش پائی اور ایک ایسے ماحول میں تربیت حاصل کی کہ جس میں ان باتوں کا دور دور تک نام ونشان موجود نہیں تھا۔ اس زمانے کے لوگ دنیا کے مسائل، عرفانی حقائق، فلسفی نکات اور دیگر مسائل سے قطعی طورپر آشنا نہیں تھے۔ آنحضرت ۖ نے پوری زندگی اسی خطے میں گزاری صرف ایک مختصر مدت کیلئے آپ سفر پر تشریف لے گئے اور لوٹ آئے۔ جب ایک انسان اس وقت کو دیکھتا ہے کہ جب آپۖ رسالت پر مبعوث ہوئے تو آپ نے ایسے مطالب پیش کیے کہ جن کا پیش کرنا اور ان کا فہم وادراک بشریت کی طاقت سے باہر ہے۔ یہ وہ معجزہ ہے کہ جو اہل نظر افراد کیلئے پیغمبر ۖ کی نبوت پر دلیل ہے حالانکہ رسول اکرم ۖ بذات خود ان مطالب کو بیان نہیں کرسکتے تھے، نہ آپ ۖنے تحصیل علم کیا اور نہ ہی آپۖ لکھنا جانتے تھے۔ یہ ایک ایسی عظیم حقیقت ہے جس کے بارے میں بات نہیں کرسکتے اور نہ ہی یہ حقیقت کسی کیلئے کشف ہوئی ہے سوائے خود رسول اکرم ۖ کیلئے اور ان خاص الخاص افراد کیلئے جو آپ ۖسے مربوط ہیں۔

واقعہ بعثت کی عظمت پر پیغمبر ۖ کے اُمی ہونے کی دلالت

اسلام کے مختلف قسم کے عمیق اور گہرے اجتماعی مسائل ایسے شخص کے اپنے نہیں ہوسکتے جس نے تاریک اور علم سے بے بہرہ ماحول میں زندگی بسر کی ہو یا ہر ماحول ومعاشرے میںپرورش پانے والا انسان کیا اس طرح دنیا میں تمام چیزوں کے علم کو پاسکتا ہے جو موجودہ اور آئندہ زمانے کے عقلی تقاضوں اور معیارات پر پورا اترے یہ صرف ایک معجزہ ہے اور معجزے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا۔٦

شریعت اسلام کی جامعیت کااسلام کے وحیانی ہونے پردلالت کرنا

خاتم المرسلین ۖ کی نبوت کے اثبات کیلئے ہمارے دلائل کا نچوڑ یہ ہے کہ جس طرح تخلیق کائنات کی مضبوطی اور اس کی حسن ترتیب وبہترین نظم ہم کو یہ بتاتا ہے کہ ایک ایسا موجود ہے جو اس کی تنظیم کرتا ہے، جس کا علم تمام باریکیوں، خوبیوں اور کمالات پر محیط ہے۔ اسی طرح ایک شریعت کے احکام کا اتقان، حسن نظام، ترتیب کامل، تمام مادی ومعنوی، دنیوی واخروی، اجتماعی وفردی ضروریات کی مکمّل طورسے پر ذمہ داری قبول کرنا بھی ہم کو یہ بتاتا ہے کہ اس کے منتظم اور چلانے والے کا علم بھی لامحدود ہوگا اور وہ افراد بشر کی ضرورتوں سے واقف ہوگا اور چونکہ یہ بات بدیہی ہے کہ یہ سارا کام ایک ایسے انسان کے عقلی قوتوں کا ہرگز مرہون نہیں ہوسکتا، جس نے کسی کے سامنے زانوئے ادب تہہ نہ کیا ہو، جس کی تاریخ حیات ہر قوم وملت کے مورخین نے لکھی ہو، جس نے ایک ایسے ماحول میں تربیت پائی ہو جو کمالات وتعلیمات سے عاری ہو، ایسا شخص اتنا کامل نظام نہیں بنا سکتا۔ اس لئے یقینا غیب اور ماوراء الطبیعہ سے اس شریعت کی تشریح ہوئی ہے اور وحی والہام کے ذریعے آنحضرتۖ تک پہنچائی گئی ہے:

''وَالحَمْدُلِلّٰہِ عَلیٰ وُضُوحِ الحُجَّة''۔ ٧

....................................

حوالہ جات

١۔ صحیفہ نور ،ج ١٢ ،ص١٦٨

٢۔ صحیفہ نور ،ج ١٤، ص٢٥٢

٣۔ صحیفہ نور ،ج ١٤ ،ص٢٥٥

٤۔ صحیفہ نور ،ج ١٧ ،ص٢٥٠

٥۔ صحیفہ نور ،ج١٨ ،ص١٩٠

٦۔ صحیفہ نور ،ج ٢٠ ،ص٧٨

٧۔ چہل حدیث ،ص ٢٠١،٢٠٢

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منابع

١۔ چہل حدیث ؛امام خمینی ؛مئوسسہ تنظیم ونشر آثار امام خمینی ،طبع اول ١٣٧١ شمسی

٢۔ صحیفہ نور ؛امام خمینی ؛(٢٢جلد )وزارت فرہنگ وارشاد اسلامی طبع اول

 

 

موسوی

مجلہ سہ ماہی نور معرفت