Super User

Super User

ابوالحسن اشعری نے چوتھی ہجری کے شروع میں مذہب معتزلہ کے خلاف قیام کیا اور اپنے کلامی نظریات کو منتشر کرنا شروع کیا.

انہوں نے اپنی عمر کے آخری حصہ میں مشاہدہ کیا کہ ان کے بہت سے شاگر ان کے گرد جمع ہوگئے ہیں اور وہ ان کے نظریات کو اہل حدیث کی ظاہرگرائی اور معتزلہ کی عقل گرائی کے مقابلہ میں پناہ گاہ کے عنوان سے تعریف کرتے ہیں ۔

ابوالحسن اشعری نے چوتھی ہجری کے شروع میں مذہب معتزلہ کے خلاف قیام کیا اور اپنے کلامی نظریات کو منتشر کرنا شروع کیا ،انہوں نے اپنی عمر کے آخری حصہ میں مشاہدہ کیا کہ ان کے بہت سے شاگر ان کے گرد جمع ہوگئے ہیں اور وہ ان کے نظریات کو اہل حدیث کی ظاہرگرائی اور معتزلہ کی عقل گرائی کے مقابلہ میں پناہ گاہ کے عنوان سے تعریف کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے کہا جاسکتا ہے : مکتب اشعری خود اس کے موسس کے سامنے تاسیس ہوگیا اور اسی روز سے اس مذہب کی مخالفتیں بھی شروع ہوگئیں ۔

دوسروں سے پہلے معتزلیوں نے ان کی مخالفت شروع کی کیونکہ یہ اپنے مذہب کے دیرینہ شاگرد سے ناراض تھے ۔ ان کے علاوہ اہل حدیث اور حنبلیوں نے بھی ان کی مخالفت کی اور کہا : یہ نیا آدمی کون ہے جو معتزلہ سے دوری اختیار کرتے ہوئے بھی اس بات کی جرائت نہیں کرتا کہ کم یا زیادہ دینی نصوص و ظواہر سے استناد کرے؟

دوسری طرف جب اشعری بصرہ اور بغداد میں دینی عقاید کی اصلاح کررہے تھے ، اسی وقت سمرقند (اسلامی سرزمین کے مشرق میں واقع ہے)میں ابومنصور ماتریدی (متوفی ۳۳۳) نے اشعری سے مشابہ نظریات کے ساتھ ظہور کیا، اور اس کے نزدیکی شاگردوں نے مذہب اشعری کو ایک ناقص اورناموفق اصلاح کے عنوان سے شمار کیا اور ان کے مذہب کو محافظ اور ابن الوقت سے متہم کیا اوروہ عقاید ماتریدی سے دفاع کرتے تھے کیونکہ ماتریدی کو اہل تسنن کا احیاء کرنے والا سمجھتے تھے ۔

۲۔ سیاسی تبدیلیاں اور مذہب اشعری کا سرکاری ہونا

سیاسی نقطہ نظر سے سلجوقیوں(تقریبا پانچویں صدی کے نصف میں) کو حکومت ملنے تک مکتب اشعری کی اچھی حالت نہیں تھی کیونکہ ان سے پہلے ایک صدی سے زیادہ (۳۲۱ ۔ ۴۴۷) آل بویہ نے حکومت کی ، آل بویہ کی حکومت کے دوران معتزلہ اچھی حالت میں تھے اور اشاعرہ کی حالت بہت زیادہ خراب تھی ، کیونکہ آل بویہ ایک طرف تو مذہب شیعہ کی پیروی کرتے تھے اور معتزلہ سے دفاع کرتے تھے اور دوسری طرف ان میں سے بعض اہل علم و فضل و ادب ، آزاد اندیشی سے دفاع کرتے تھے ۔ اس وجہ سے دربار آل بویہ میں مکتب شیعہ اور مکتب معتزلہ نے زیادہ رونق پائی ۔ ابن العمید اور اسی طرح صاحب بن عباد، آل بویہ کے دانشمند وزیر اشعریوں کے مخالف تھے ۔

سلجوقیوں کو حکومت ملنے کے بعد اشعریوں کی حالت بھی بدل گئی اور مذہب اشعری کو اہل سنت کے درمیان ایک ممتاز مقام مل گیا کیونکہ سلجوقی وزیر نظام الملک(متوفی ۴۸۵) نے حکم دیا کہ بغداد اور نیشاپور کے دونوں مدرسوں میں مذہب اشعری کے مطابق تعلیم دی جائے ۔اس کے بعد سے اشعری مذہب ، اہل سنت کا قانونی مذہب شمار ہونے لگا ، اشاعرہ نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مخالف کلامی فرقوں سے جنگ کرنا شروع کریا ۔

ان کی مخالفت کی وجہ کلامی نظریات کے علاوہ سیاسی علت بھی تھی کیونکہ بعض جگہوں پر جہاں ان کے مخالف بعض حکومتوں کی حمایت کررہے تھے وہیں وہ ان کی مدافع حکومتوں سے جنگ بھی کررہے تھے ۔

ہانری کورین فرانسوی نے غزالی کی مخالفت کے سلسلہ میں باطنیان اور فلاسفہ سے کہا ہے :

غزالی کی باطنیان اور فلاسفہ سے دشمنی اصل میں حکومت فاطمی قاہرہ سے دشمنی کرنا تھا کیونکہ وہ فلاسفہ کی حکومت کی حفاظت کررہے تھے اور باطنی کے اصول وعقاید سے اپنے فائدہ اٹھا رہے تھے ۔

” تاریخ فلسفہ در جہان اسلامی“ کے مولفین نے بھی غزالی کی باطنیہ سے مخالفت کے متعلق کہا ہے : اسلام کو زنادقہ اور مجوس کے مقابلہ میں باطنیہ سے زیادہ خطرہ نہیں تھا بلکہ اگر خطرہ تھا تو وہ اسلام سے زیادہ خلافت کو خطرہ تھا ۔ غزالی نے باطنیہ کے مقابلہ میں جو جنگ شروع کی تھی اس میں دین سے زیادہ سیاسی پہلو پایا جاتا تھا ۔ یہ بات ان کی کتاب ” المستظھریہ“ یا فضائح الباطنیہ و فضائل المستظھریہ“ سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے ۔

۳۔ اشاعرہ کی عقل محوری

اگر چہ ظاہر پر عمل کرنے والوں (اہل حدیث) کی معتزلہ پر کامیابی کے بعد عقل پر عمل کرنے والوں کا ستارہ غروب ہوگیا لیکن کامل طور سے ختم نہیں ہوا اور یہی نہیں بلکہ صدیوں بعد تک معتزلہ کے ماننے والے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مذہب کا دفاع کرتے رہے بلکہ اشاعرہ کے متکلمین کے درمیان کچھ برجستہ چہرے ایسے تھے جو تفکر عقلائی کے قائل تھے اور بعض جگہوں پر اشاعرہ کے عقاید کی مخالفت کرتے یا اس کی اصلاح کرنا چاہتے تھے ۔

الف : خیالی اور عبدالحکیم

”تاریخ فلسفہ در جہان اسلامی“ کے مولفین نے اس متعلق کہا ہے: اشاعرہ کے آسانی سے حاصل شدہ عقاید بہت جلد تبدیل ہوگئے ، یعنی اشاعرہ نے عقل کی طرف رجحان کرلیا ، یہاں تک کہ وہ اس کو نص پر ترجیح دینے لگے، اور جیسا کہ خیالی اور عبدالحکیم نے اپنی کتاب ”عقاید نسفی“ کے حواشی پر کہا ہے: جن جگہوں پر نص ایسی چیز کی حکایت کرتی ہو جس کو عقل منع کرتی ہو تو اس نص کی تاویل کرنا چاہئے کیونکہ عقل ، نقل پر مقدم ہے ، عقل اصل ہے اور نقل فرع ہے کیونکہ نقل ، اثبات صانع ،اثبات عالمیت اور قدرت پر متوقف ہے ۔ لہذا نقل کے ذریعہ عقل کو باطل کرنا ایسا ہے جیسے اصل کو فرع کے ذریعہ باطل کردیا ہو اور یہ عقل و نقل دونوں کو باطل کرنا ہے ۔

ب : شیخ محمد عبدہ

متاخرین اشاعرہ میں عقل پر عمل کرنے والے بہت زیادہ ظاہر ہوئے منجملہ شیخ محمد عبدہ (متوفی۱۳۲۳) بھی ہیں وہ اشاعرہ مذہب کی پیروی کرتے تھے لیکن اشاعرہ اور معتزلہ کے درمیان اختلافی مسائل میں وہ ایسے نظریات کو بیان کرتے تھے جن میں اشاعرہ کی مخالفت عیاں ہوتی تھی۔

بہتر ہے یہاںپر ان کے نظریہ حسن و قبح عقلی (اشاعرہ اور معتزلہ کے درمیان سب سے ہم مسئلہ) کو بیان کیا جائے :

انہوں نے اس آیت ” یامرھم بالمعروف و ینھاھم عن المنکر“ کے تفسیر میں کہا ہے : مشہور یہ ہے کہ عقل سالم اس کو صحیح سمجھتی ہیں اور پاک و پاکیزہ دل ،فطرت و مصلحت سے ہماہنگ ہونے کی وجہ سے اس کوپسند کرتے ہیں اور اس بات کے منکر ہیں کہ عقل سالم اس کا انکار کرتی ہے اور پاک و پاکیزہ دل اس سے متنفر ہیں لیکن ”معروف “ کی تفسیر جس کا شریعت نے حکم دیا ہے اور ”منکر“ کی تعریف جس سے شریعت نے منع کیا ہے اس کی تفسیر واضح ہے ۔اور ہماری اس بات کے معنی حسن و قبلح عقلی کے سلسلہ میں معتزلہ کی طرفداری اور اشاعرہ کی مخالفت نہیں ہے ، ہم ان دونوں نظریوں میں سے ایک حصہ کے موافق اور ایک کے مخالف ہیں ،اس بنیاد پر عقل کی قدرت کو حسن افعال کو درک کرنے میں کلی طور پر انکار نہیں کرتے (جس طرح اشاعرہ منکر ہیں)لیکن کسی چیز کو خداوند عالم کے اوپر واجب بھی نہیں جانتے (جیسا کہ معتزلہ کا عقیدہ ہے) ۔

ج : شیخ شلتوت

اہل سنت کے متاخرین میں عقل پر عمل کرنے والوں میں شیخ شلتوت بھی ہیں، آپ مسئلہ جبر واختیار میں اشاعرہ کے مسئلہ کسب کو جبر کی مشکل حل کرنے کے لئے کافی نہیں سمجھتے تھے اور کہتے تھے :تفسیر کسب یہ ہے کہ فعل کے محقق ہونے میں اس کی قدرت کے موثر ہوئے بغیر، فعل اور قدرت انسان کے درمیان تقارن پایا جائے ، اس کے علاوہ اس کی لغوی اصطلاح اور قرآنی اصطلاح میں ہماہنگی نہ ہو یہ مسئلہ تکلیف کی تصحیح و توجیہ ، اصل عدل(الہی) اور (انسان کی)مسئولیت کی ذمہ دارنہیں ہے کیونکہ مذکورہ مقارنت خداوندعالم کے ذریعہ قدرت انسان کے ظرف میں ایجاد شدہ فعل کے نتیجہ میں واقع ہوئی ہے ،انسان کی مخلوق اور قدرت کے تحت نہیں، تاکہ مصحح انسان کے فعل کی بانسبت ہو اور فعل جس طرح انسان کی قدرت کے ساتھ مقارن ہے اسی طرح سمع و بصر اور علم انسان سے بھی مقارن ہے ۔

اس صورت میں قدرت کوکونسا امتیاز پیایا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ فعل کی مقارنت انسان کی اپنے فعل کی طرف نسبت دینا کا سبب ہو ؟

انہوں نے اس متعلق اپنے نظریہ کو ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے:

میرا نظریہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے قدرت اور ارادہ کو عبث و بیہودہ انسان میں خلق نہیں کیا ہے بلکہ یہ دونوں تکلیف و جزائاور انسان کے افعال سے منسوب ہونے کے ملاک پر منحصرہے جب بھی انسان خیر یا شر کے راستہ کوانتخاب کرلے تو خداوند عالم اس کو قہری طور پر اس راستہ پر چلنے سے منع نہیں کرتا ، اگر چہ انسان اور اس کی قدرت و اختیار،خدا کی قدرت اور مشیت کے تحت ہیں ۔ وہ اگر چاہے تو کامل طور سے خیر کے جذبہ کو اس سے لے سکتا ہے تاکہ شر اس کی پوری ذات کو گھیر لے ، نیز اگر چاہے تو اس سے شر کے جاذبہ کو سلب کرسکتا ہے تاکہ خوبی اس کی ذات کا احاطہ کرلے ، لیکن مسئلہ تکلیف میں حکمت الہی اور آزمائش اسی چیز کا اقتضاء کرتی ہے جو انسان کے اندر سموئی گئی ہے ۔

اشعری نے ایک نیا طریقہ پیش کیا تاکہ اس کے ذریعہ عقل پر عمل کرنے والوں(معتزلہ) اور ظاہر پر عمل کرنےوالوں( اہل حدیث ) کے درمیان سے تضاد کو برطرف کرے ، اس وجہ سے وہ دونوں گروہوں کےموافق بھی تھے اور مخالف بھی۔ عقل پر عمل کرنے والوں سے اس لئے موفق تھے کہ دینی عقاید کو ثابت کرنے میں عقلی استدلال بدعت اور حرام نہیں ہے بلکہ بہتر اور پسندید ہ ہے اور اس کے متعلق انہوں نے ”استحسان الخوض فی علم الکلام“ جیسی کتاب لکھی ہے جب کہ اہل حدیث علم کلام اور عقلی استدلال کو بدعت اور حرام جانتے تھے ۔

دوسری طرف عقل اور ظواہر دینی کے درمیان تعارض کے وقت ظواہر کو مقدم کرتے تھے جس کے نتیجہ میں انہوں نے صفات ذات اور صفات خبریہ کی بحث میں معتزلہ کے عقاید کی مخالفت کی ، جس طرح سے اصل حسن وقبح عقلی اوراس کی فروعات کو مردود تسلیم کیااور کسی بھی واجب عقلی کو قبول نہیں کیا اور اس متعلق اہل حدیث کے ہمفکر تھے اورچونکہ ظواہر کو محفوظ کرنے میں تاویل کو صحیح نہ سمجھتے ہوئے بعض موارد میں اصل تنزیہ اور صفات جمال جلال سے منافات پائی جاتی تھی لہذا عقلی استدلال سے استفادہ کرتے ہوئے جدید کلامی فرضیات اختراع کئے ، یا اگر یہ فرضیات پہلے سے بیان شدہ تھے تو ان کو تسلیم کرنے کاحکم دیا یہ فرضیات، علم کلام میں مخصوص عقاید و نظریات کو تشکیل دیتے ہیں ۔

ابوالحسن اشعری کی نئی تخلیقات

الف : خداوند عالم کے ازلی صفات

خداوند عالم علم، قدرت،حیات ، ارادہ وغیرہ جیسے صفات سے متصف ہے ،متکلمین میں سے کسی کو بھی اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ مذکورہ صفات ، صفات کمال ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں بھی ذکر ہوئے ہیں لیکن اصل بحث خدا وند عالم کے لئے ان صفات کے محقق ہونے کی کیفیت میں ہے کہ کیا ان کی واقعیت عین ذات الہی ہے یا اس کی ذات پر زاید ہیں؟

اکثر معتزلہ ،خداوند عالم کے ازلی صفات کو اس کی عین ذات سمجھتے ہیں اور بعض اہل حدیث (مشبہ) ان صفات کو اس کی ذات سے زائد اور مغایر سمجھتے ہیں اور شیخ اشعری نے بھی نظریہ زائد بر ذات کو انتخاب کیا لیکن اس میں ایک تبصرہ کا اضافہ کیا ، وہ تبصرہ یہ ہے : یہ ازلی صفات نہ عین ذات ہیں اور نہ غیر ذات، اگر چہ اپنی حقیقت میں قائم بالذات ہیں، جیسا کہ شہرستانی نے کہا ہے:

قال ابوالحسن : الباری تعالی عالم بعلم، قادر بقدرة، حی بحیاة، مرید بارادة، ․․․ قال : و ھذہ الصفات ازلیة قائمة بذاتہ تعالی ، لایقال : ھی ہو، ولا ھی غیرہ، لا ھو، ولا ، لاغیرہ۔

ابوالحسن اشعری نے کہا ہے: خداوند عالم علم زائد کے ذریعہ عالم، قدرت کے ذریعہ قادر، حیات کے ذریعہ حی اور ارادہ کے ذریعہ مرید ہے ،خداوند عالم کے یہ ازلی اور قائم بالذات صفات نہیں کہے جاتے جو عین ذات ہیں اور نہ غیر ذات ہیں ۔

مذکورہ تبصرہ کے متعلق دو نکتوں کو بیان کرتے ہیں:

۱۔ یہ مطلب شیخ اشعری کی فکر کی ایجاد نہیں ہے کیونکہ ان سے پہلے عبداللہ بن کلاب(متوفی ۲۴۰) نے بیان کیا ہے ۔ اشعری نے ”مقالات الاسلامین“ میں ان کے نظریہ کو اس طرح بیان کیا ہے : ” خداوند عالم کے نام اور صفات اس کی ذات میں موجود ہیں، نہ وہ خود ہیں اور نہ ان کے علاوہ کچھ اورہے ، یہ ذات حق کے ساتھ ثابت ہیں، لیکن صفتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ثابت ہونا جائزنہیں ہے ، اشعری کے نقل کے مطابق سلیمان بن جریر زیدی نے بھی خداوند عالم کے صفات کے متعلق یہ بات کہی ہے ۔

۲۔ اشعری کا اس بات سے ہدف یہ ہے کہ لزوم تعدد قدماکے مشہور اعتراض کے ذریعہ ان لوگوں کا جواب دیں جو صفات کے زائد ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں، کیونکہ مذکورہ اعتراض اس بات پر مبتنی ہے کہ ذات ، صفات سے جدا ہے جیسا کہ ابن خلدون نے معتزلہ کی طرف سے ذات پر صفات کے زاید ہونے کے نظریہ کو تعدد قدما کے اعتراض کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کہا ہے :

” وھو مردود بان الصفات لیست عین الذات و لا غیرھا“ مذکورہ اعتراض وارد نہیں ہے کیونکہ صفات نہ عین ذات ہیں اور نہ غیر ذات ۔

اسی لئے اشعری نے صفات کے منکرین و قائلین کے درمیان درمیانی راستہ کا انتخاب کیا ، تاکہ تعدد قدما کا اعتراض واردنہ ہوسکے ۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بات مذکورہ اعتراض کیلئے صحیح جواب نہیں ہے ، کیونکہ اگر صفات ازلی کی کوئی حقیقت ہو اور وہ حقیقت ذات کی عین حقیقت نہ ہو تو یہ سوال پیش کیا جاتا ہے کہ کیا وہ اپنے وجود میں ذات سے بے نیاز ہیں یا اس کے محتا ج ہیں؟ پہلی صورت میں تعدد قدما لازم آتے ہیں، اور دوسری صورت میں کس طرح ممکن ہے کہ جس ذات میں صفات نہ ہوں وہ ان کو ایجاد کرے؟

ذات نا یافتہ از ہستی ، بخش

کی تواند کہ شود ہستی بخش؟

ب : صفات خبری

قرآن کریم میں خداوندعالم کیلئے ید، وجہ، استواء برعرش وغیرہ جیسے صفات ذکر ہوئے ہیں ان صفات کو صفات خبریہ کہتے ہیں، اور ان سے مربوط آیات کو آیات متشابہ کہتے ہیں ۔ معتزلہ نے ان آیات کی تفسیر میں تاویل کا سہارا لیا ہے اور اہل حدیث میں سے مجسمہ اور مشبھہ نے ان کے ظواہر سے استفادہ کیا ہے ۔ اشعری نے جس طریقہ کو انتخاب کیا وہ ان دونوں کے درمیان کاطریقہ ہے کیونکہ انہوں نے معتزلہ کی تاویل کو قبول نہیں کیا اور کہا ہے : خداوند عالم میں یقینا مذکورہ صفات پائے جاتے ہیں لیکن ان کی کیفیت کے متعلق بحث کرنا جائز نہیں ہے ۔ پس اس کی کیفیت میں اظہار نظر کئے بغیر اس کے ہاتھ اور چہرہ موجود ہے ۔ اس نظریہ کو خداوند عالم کے صفات میں اشعری کی مشہور اصل کے عنوان سے یاد کی جاتاہے ۔یعنی اس کی کیفیت کے متعلق سوائے کئے بغیر ایمان رکھنا ۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ اشعری نے اس معروف اصل کو ایجاد نہیں کیا ہے ، اہل حدیث اور حنابلہ بھی اس روش سے استفادہ کرتے تھے ۔ شہرستانی نے قرآن کریم کی متشابہ آیات کی تفسیر سے متعلق لکھا ہے :

احمد بن حنبل ، داوٴود بن علی اصفہانی اور سلف کے راہنماؤں نے متقدمین اہل حدیث جیسے مالک ابن انس اور مقاتل بن سلیمان کی روش کو انتخاب کیا ہے اور کہا ہے : جو کچھ قرآن اور سنت میں بیان ہوا ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی تاویل سے پرہیز کرتے ہیں، اور یقینی طور پر یہ بھی جانتے ہیں کہ خداوند عالم اپنی کسی بھی مخلوق سے مشابہ نہیں ہے ۔

ابن خلدون نے بھی قرآن کریم کی متشابہ آیات کی تفسیر اور صفات خبریہ میں معتزلہ اور مشبھہ کے طریقہ کے خلاف اشعری کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے :

” فتوسط بین الطرق و نفی التشبیہ و اثبت الصفات المعنویة و قصرالتنزیہ علی ما قصرہ علیہ السلف “

اشعری نے درمیانی راستہ کو ثابت کیا ہے اور تنزیہ کے سلسلہ میں اسی چیز پر اکتفاء کیا جس پر متقدمین نے اکتفاء کیا تھا ۔

اس طریقہ کو طریقہ تفویض (تاویل کے مقابلہ میں) سے بھی یاد کیا جاتا ہے ، جیسا کہ شیخ محمد عبدہ نے متقدمین اور متاخرین کے طریقہ کو بیان کیا ہے جس میں کتاب و سنت کی وہ نصوص جو اصل تنزیہ سے منافات رکھتی ہیں، بیان کرتے ہوئے کہا ہے:

سلف ، اصل تنزیہ سے تفویض کی بنیاد پر دفاع کرتے تھے اور خلف اصل تنزیہ کو تاویل کی بنیاد پر محفوظ کرتے تھے ۔

ج : حدوث و قدم کلام الہی

اہل حدیث اور حنابلہ ، کلام الہی (قرآن کریم) کے قدیم ہونے پر اصرار کرتے ہیں اور اس کے حادیث ہونے کے اعتقاد کو کفر کا باعث سمجھتے ہیں جیسا کہ احمد بن حنبل نے کہا ہے:

قرآن کریم کلام الہی ہے اور مخلوق نہیں ہے جو بھی قرآن کریم کے مخلوق ہونے کا معتقد ہو وہ کافر ہے اور جو اس مسئلہ میں توقف کرے اور قرآن کو نہ حادث مانے اور نہ قدیم، اس کی فکر حادث ہونے کے قائلین سے بھی زیادہ خراب ہے ۔

ان کے مقابلہ میں معتزلہ قرآن کریم کے حادث ہونے پر اصرار کرتے ہیں اور ان کے اس شدید اصرار سے بہت تلخ حوادث رونما ہوئے جو ”محنہ“ کے دور سے مشہور ہے ۔

ابوالحسن اشعری نے اس کلامی اختلاف میں اہل حدیث کے عقیدہ کا دفاع کیا ہے لیکن کلام الہی کے لئے دو چیزوں کے قائل ہوگئے : ایک کلام نفسی اور دوسرے کلام لفظی، اور کہا کہ جو کچھ قدیم ہے وہ کلام نفسی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ وہ ابراز و اظہار کا وسیلہ ہے ۔

شہرستانی نے اشعری کے نظریہ کو کلام الہی کے سلسلہ میں اس طرح بیان کیا ہے:

انبیاء کے اوپر فرشتوں کے ذریعہ سے جو الفاظ اور عبارتیں وحی ہوتی ہیں وہ کلام کے ازلی ہونے پر دلیلیں اور نشانیاں ہیں اور دلیل و نشانی ، مخلوق اور حادث ہے ، لیکن مدلول ، قدیم اور ازلی ہے، قرائت اور مقروء ، تلاوت اور متلو کے درمیان فرق ذکر اور مذکور کی طرح ہے کہ ذکر حادث لیکن مذکور قدیم ہے ۔ اشعری نے اپنی اس دقت و نظر کو اعمال کرکے حشویہ کی مخالفت کی ہے کیونکہ وہ حروف اور کلمات کو قدیم جانتے ہیں ،لیکن کلام کی حقیقت اشعری کی نظر میں قائم بالنفس کے معنی میں ہے ۔ جو کہ عبارت اور الفاظ کے علاوہ کچھ اور ہے اور عبارت و لفظ اس پر دلیل ہیں، اس بناء پر اشعری کی نظر میں متکلم وہ ہے جس میں صفت کلام، اس کی ذات سے قائم ہو اورمعتزلہ کی نظر میں متکلم وہ ہے جو کلام کو ایجاد کرے ۔

د : خلق افعال و کسب

معتزلہ اور اہل حدیث کے درمیان اختلافات میں سے ایک اختلاف مسئلہ ”قدر“ یا ”خلق اعمال“ ہے معتزلہ نے خداوند عالم کی حکمت و عدل سے دفاع کرنے کی غرض سے مسئلہ قدر کا انتخاب کیا اور انسان کے اختیاری افعال کو خداوندعالم کے ارادہ اور قدر الہی سے باہر سمجھا ہے اس کو اپنے افعال کا خالق تصور کرتے تھے ۔ ان کے مقابلہ میں اہل حدیث نے خداوند عالم کے عام ارادہ اور قدری الہی نیز خالقیت میں اصل توحید کو بچانے کے لئے انسان سے ہر طرح کی خالقیت کی نفی کی ہے اورانسان کے تمام اعمال و افعال کو خدا کی مخلوق سمجھتے ہیں اس عقیدہ کو ”خلق اعمال“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

شیخ اشعری نے مذہب معتزلہ سے دوری کااعلان کرنے کے بعد ”خلق اعمال“ کے عقیدہ کی حمایت ظاہر کی اور جس رسالہ میں اپنے عقاید کو اہل سنت کے نمایندہ کے طور پر لکھا ہے اس میں اس عقیدہ کی تصریح کرتے ہوئے کہا : ” ان اعمال العباد مخلوقہ للہ مقدورة“۔

بندوں کے افعال ، خداوند عالم کی مخلوق اور مقدور ہیں ۔

لیکن اصل اختیار کی توجیہ اور نظریہ جبرکے برے نتائج سے رہائی حاصل کرنے کیلئے نظریہ ”کسب“ کا انتخاب کیا یہ نظریہ ان سے پہلے حسین نجار اور ضرار بن عمرو کے ذریعہ بیان ہوچکا تھا ۔

حقیقت کسب کی تفسیر میں اشعری متکلمین اور اساتید نے مختلف نظریات بیان کئے ہیں لیکن ان میں سے سب سے زیادہ مشہور نظریہ یہ ہے کہ کسب یعنی انسان کے فعل کا اس کی قدرت اور ارادہ کے ساتھ مقارن ہونا ہے اس بات کی طرف توجہ کئے بغیر کہ اس کی قدرت اور اس کے ارادہ کا اس کو محقق کرنے میں کوئی اثر نہیں ہے ،جیسا کہ قوشجی نے کہا ہے:

” والمراد بکسبہ ایاہ مقارنتہ لقدرتہ و ارادتہ من غیر ان یکون ھنالک منہ تاثیر او مدخل فی وجودہ سوی کونہ محلا لہ “

کسب سے مراد انسان کے فعل اور اس کی قدرت و ارادہ میں مقارنت کا پایاجانا ہے ، اس چیز کی طرف توجہ کئے بغیر کہ انسان فعل کی پیدائش میں اس کا ظرف اور پیدائش کے علاوہ کوئی اور اثر رکھتا ہو ۔

نظریہ ”کسب“ پر صرف اشاعرہ نے ہی تنقید نہیں کی ہے کہ بلکہ معتزلہ کے بعض محققین نے بھی اس کو غلط بیان کیا ہے اور مبہم و معمہ جیسے نظریات میں ابوہاشم اور طفرہ ونظام کو بھی شمار کیا ہے ۔

احمد امین مصری نے اس کو نظریہ جبر میں ایک نئی تعبیر کے عنوان سے جانتے ہوئے کہا ہے: ” وھو ۔ کما تری۔ لایقدم فی الموضوع و لا یوخر، فھو شکل جدید فی التعبیر عن الجبر“ ۔ اس نظریہ نے (جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں) جبر کے موضوع میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے بلکہ اس کی نئی تعبیر ہے ۔

مآخذ :

کتاب فرق و مذاہب کلامی، ص ۱۸۷و ۱۹۵۔

Monday, 03 December 2012 08:48

اسماعیلیوں کے فرقے

مستعلی کے ماننے والے فاطمی تھےان کی امامت مصر کے فاطمین خلفاء میں باقی رہی اس کے کچھ عرصہ کے بعد ہندوستان میں اسی فرقہ نے”بُہرہ“کے عنوان سے ظہور کیا اور ابھی تک باقی ہے

عبیداللہ مہدی نے ۲۹۶ ہجری میں افریقہ میں ظہور کیا اور اسماعیلیوں کو اپنی امامت کی دعوت دی ، فاطمی حکومت کی تاسیس کی ، اس کے بعد اس کی نسل نے مصر کو دارالخلافہ قرار دیا اور سات پشت تک انہوں نے اسماعیلیہ کی سلطنت اور امارت کو قائم رکھا ، ساتویں خلیفہ مستنصر باللہ جو کہ سعد بن علی تھا اس کے دو بیٹوں نزار اور مستعلی میں خلافت اور امامت پر جھگڑا ہوا اور بہت ہی زیادہ کشمکش اور جنگ و جدال کے بعد مستعلی غالب آگیا اور اپنے بھائی نزار کو گرفتار کرکے زندن میں ڈال دیا اور قید خانہ ہی میں اس کا انتقال ہوا ، اس کشمکش کی وجہ سے فاطمین کے چاہنے والے دو گروہوں میں تقسیم ہوکئے : نزاریہ ، مستعلیہ ۔

الف : نزاریہ : حسن صباح کے ماننے والوں کو نزاریہ کہتے ہیں، یہ مستنصر کے نزدیکی افراد تھے ، مستنصر کے بعد نزار کی حمایت کرنے کی وجہ سے مستعلی نے ان کو مصر سے نکلنے کا حکم دیا ، یہ لوگ ایران آگئے اور قزوین کے اطراف میں قلعہ الموت میں داخل ہوئے ، قلعہ الموت اور اطراف کے دوسروں قلعوں پر قبضہ کرکے حکومت کرنے لگے ، شروع میں انہوں نے نزارکی طرف دعوت دی اور (۵۱۸ ہجری) میں حسن ”رودباری کی بڑی امید“ کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے ”کیا محمد“ کی بیعت کی اور اس طرح حسن صباح کے قوانین اور طریقہ پر حکومت کرتے رہے ،اس کے بعد اس کا بیٹا ”حسن علی ذکرہ الاسلام“ چوتھا بادشاہ ہوا ۔

یہاں تک کہ ہلاکوخان مغل نے ایران پر حملہ کیا ،اس نے اسماعیلیوں کے قلعہ کو فتح کرکے تمام اسماعیلیوں کو قتل کردیا ، قلعہ کو مسمار کرکے زمین کے برابر کردیا ۔ اس کے بعد ۱۲۵۵ ہجری میں آقا خان محلاتی جو کہ نزاری تھا اس نے ایران کے بادشاہ محمد شاہ قاجار کے خلاف شورش کی اورکرمان کے نزدیک جنگ میں شکست کھاکر بمبئی کی طرف فرار کرگیا اور باطنی نزاری کی دعوت کو اپنی امامت میں منتشر کیا اور اس کی دعوت اب تک باقی ہے اوراس وقت فرقہ ”نزاریہ“ کو ”آقاخانیہ“ کہاجاتا ہے ۔

ب : مستعلیہ : مستعلی کے ماننے والے فاطمی تھے ،ان کی امامت مصر کے فاطمین خلفاء میں باقی رہی اور ۵۵۷ ہجری قمری میں یہ فرقہ ختم ہوگیا اس کے کچھ عرصہ کے بعد ہندوستان میں اسی فرقہ نے ”بُہرہ“ کے عنوان سے ظہور کیا اور ابھی تک باقی ہے ۔

ج : دروزیہ : گروہ دروزیہ ، شامات کے پہاڑوں میں مقیم ہیں ، اوائل میں یہ لوگ ، فاطمین مصر کی پیروی کرتے تھے لیکن فاطمیوں کے چھٹے خلیفہ کے دور میں ”نشتگین دروزی“ کی دعوت کے بعد باطنیہ سے ملحق ہوگئے ۔ دروزیةکی امامت متوقف ہوئی اور وہ غیبت کرکے آسمان پر منتقل ہوگیا اور دوبارہ لوگوں کے درمیان واپس آئے گا ، اگر چہ بعض لوگوں کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ قتل ہوگیا تھا!

د : مقنعہ : یہ لوگ شروع میں ”عطاء مروی“ معروف بہ ”مقنعہ کی پیروی کرتے تھے جو کہ مورخین کے بقول ابومسلم خراسانی کے پیروکار تھے اور ابومسلم کے بعد اس نے ادعا کیا کہ ابومسلم کی روح اس کے اندر حلول کرگئی ہے ،اس نے ایک عرصہ کے بعد نبوت کا دعوی کیا اور پھر اس کے بعد خدائی کا دعوی کیا ! آخر کار ۱۶۲ ہجری میں جب قلعہ کیش کا محاصرہ کرلیا گیا اور اس کو اپنے قتل ہونے کا یقین ہوگیا تو اس نے آگ جلائی اور اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ اس آگ میں جل کر مرگیا ۔ ”عطاء مقنع“ کے پیروکاروں نے ایک مدت کے بعد اسماعیلیہ مذہب کو اختیار کرکے فرقہ باطنیہ سے ملحق ہوگئے(۱) ۔

 

۱۔ شیعہ در اسلام، ص ۷۱۔

اسلامي جمہوريہ ايران نے فلسطيني عوام پر صيہوني حکومت کي جارحيت کو بند اورغزہ کا محاصرہ ختم کئے جانے کا مطالبہ کيا ہے -

اقوام متحدہ ميں ايران کے مستقل مندوب محمد خزاعي نے جنرل اسمبلي ميں فلسطين کو مبصر ملک کا درجہ دئےجانے کے تعلق سے قرارداد کا جائزہ لئے جانے والے اجلاس ميں کہا کہ يہ دن فلسطيني عوام سے اظہار يکجہتي کا بھي دن ہے اور جنرل اسملبي ميں فلسطين کي حيثيت کا جائزہ بھي ليا جارہا ہے اس لئے ان دونوں مناسبتوں کي وجہ سے اس دن کي خاص اہميت ہوگئي ہے-

انہوں نے کہا کہ يہ دونوں ہي مناسبتيں صرف فلسطيني عوام کےلئے ہي اہم نہيں ہيں بلکہ ان ملکوں کے لئے بھي اہميت رکھتي ہيں جو فلسطيني عوام کے حقوق کي بازيابي اور سرزمين فلسطين کي غاصبوں کے چنگل سے رہائي کے خواہاں ہيں –

اقوام متحدہ ميں اسلامي جمہوريہ ايران کے مندوب نے کہا کہ ناوابستہ تحريک نے صيہوني حکومت کے غيرقانوني اور وحشيانہ اقدامات کي وجہ سے فلسطين ميں جو افسوس ناک صورتحال ہے اس پر اپني تشويش کا اعلان کيا ہے - ايراني مندوب نے کہا کہ ناوابستہ تحريک کا مطالبہ ہے کہ غزہ کا محاصرہ غير مشروط طور پر ختم کيا جائے اور بين الاقوامي قوانين و اصول کے مطابق غزہ کا رابطہ دنيا کے ديگر ملکوں سے بحال کيا جائے –

اقوام متحدہ ميں ايران کے نمائندے نے فلسطين کو مبصر ملک کا درجہ ملنے کے موضوع کا ذکر کرتے ہوئے اس اميد کا اظہار کيا کہ فلسطين کے بارے ميں اقوام متحدہ کي جتني بھي قرار داديں ہيں ان سب پر عمل ہوگا -

مسجد جینے ( انگریزی Great Mosque of Djenné ) کچی اینٹوں سے تعمیر کردہ دنیا کی سب سے بڑی عمارت ہے اور سوڈانی-ساحلی طرزِ تعمیر کا سب سے بڑا شاہکار سمجھی جاتی ہے۔

یہ مسجد مالی کے شہر جینے میں قائم ہے۔ اس مقام پر پہلی مسجد 13 ویں صدی میں قائم کی گئی تھی۔ جبکہ موجودہ تعمیر 1907ء سے موجود ہے۔

اسے افریقہ کے مشہور ترین مقامات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

1988ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے مسجد اور شہر کے قدیم حصے کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔

View of the Great Mosque from the northeast as it looked in 1910. From Félix Dubois' Notre beau Niger

پرانا تصوير - 1910

Sunday, 02 December 2012 07:16

اسماعیلیہ فرقه

اسماعیلیوں کا عقیدہ ہے کہ زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی اور خدا کی حجت دو طرح کی ہوتی ہے : ناطق اور صامت۔ ناطق، ”پیغمبر خدا“ اور صامت ” ولی و امام“ ہوتا ہے

شیعوں کے چھٹے امام حضرت جعفر صادق (علیہ السلام) کے سب سے بڑے بیٹے کا نام اسماعیل تھا ، ان کا اپنے والد کی حیات میں انتقال ہوگیا تھا ، آپ نے اپنے بیٹے کی موت کو سب کے سامنے بیان کیا ، یہاں تک کہ مدینہ کے حاکم کو بھی گواہ بنایا ، بعض لوگوں کا اعتقاد ہے کہ اسماعیل مرے نہیں بلکہ انہوں نے غیبت اختیار کی ہے ،وہ دوبارہ ظہور کریں گے اور وہی مہدی موعود ہیں، اور چھٹے امام نے ان کے مرنے پر جو گواہ بنائے ہیں وہ منصور عباسی کے ڈر کی وجہ سے عمدا یہ کام کیا ہے ۔ بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ امامت ، اسماعیل کا حق تھا جو ان کے مرنے کے بعد ان کے بیٹے محمد کی طرف منتقل ہوگیا ، اسماعیل اگرچہ اپنے والد کی حیات میں انتقال فرماگئے لیکن وہ امام ہیں، اور ان کے بعد امامت ان کے بیٹے محمد بن اسماعیل اور ان کی نسل میں منتقل ہوگئی ہے ، مذکورہ دو فرقے ایک مدت کے بعد ختم ہوگئے لیکن تیسرا فرقہ ابھی باقی ہے اور اس کی کچھ شاخیں بھی ہوگئی ہیں، اسماعیلیوں کا ایک فلسفہ ہے جو ستارہ پرستوں کے فلسفہ سے مشابہ ہے اور عرفانی ہندی اس میں ملا ہوا ہے ، یہ لوگ معارف و احکام اسلامی میں ہر ظاہرو باطن اور ہر تنزیل کے لئے تاویل کے قائل ہیں ۔

اسماعیلیوں کا عقیدہ

اسماعیلیوں کا عقیدہ ہے کہ زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی اور خدا کی حجت دو طرح کی ہوتی ہے : ناطق اور صامت۔ ناطق، ”پیغمبر خدا“ اور صامت ” ولی و امام“ ہوتا ہے جو کہ پیغمبر کا وصی ہوتا ہے ، بہر حال حجت ، ربوبیت کی مظہر ہے ۔

حجت کی بنیاد ہمیشہ سات عدد کے ارد گرد گھومتی ہے ، اس طرح سے کہ ایک بنی مبعوث ہوتا ہے جو نبوت (شریعت) اور ولایت رکھتا ہے ، اس کے بعد اس کے سات وصی ہوتے ہیں اور سب کا مقام ایک ہوتا ہے صرف ساتویں وصی کے پاس مقام نبوت ہوتا ہے اور دوسرے تین مقام ہوتے ہیں: نبوت، وصایت (وصی ہونا) اور ولایت، پھر اس کے بعد سات وصی ہوتے ہیں ، ان میں سے ساتویںکے پاس پھر وہی تین مقام ہوتے ہیں، اسی ترتیب سے ان کی یہ نبوت اور ولایت چلتی رہتی ہے ۔

وہ لوگ کہتے ہیں : حضرت آدم (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تو وہ نبی بھی تھے اور ولی بھی، ان کے بعد سات وصی ہوئے اور ساتویں وصی حضرت نوح (علیہ السلام) تھے جن کے پاس نبوت، وصایت اور ولایت کا عہدہ تھا ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت نوح کے ساتویں وصی تھے، حضرت موسی (علیہ السلام) ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتویں وصی تھے ۔ حضرت عیسی (علیہ السلام)، حضرت موسی (علیہ السلام) کے ساتویں وصی تھے، حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)، حضرت عیسی (علیہ السلام) کے ساتویں وصی تھے اور محمد بن اسماعیل، حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتویں وصی تھے ۔ لہذا اس بناء پرحضرت علی (علیہ السلام)، حسین، علی بن الحسین (امام سجاد)امام محمد باقر، امام جعفر صادق ، اسماعیل ، اور محمد بن اسماعیل سات وصی ہیں، (یہ لوگ امام حسن (علیہ السلام) کو امام نہیں مانتے) ۔ محمد بن اسماعیل کے بعد محمدبن اسماعیل کی نسل سے سات افراد وصی ہوئے جن کے نام پوشیدہ ہیں، اور ان سات افراد کے بعد مصر کے فاطمین ہیں، جن میں سے اول ”عبیداللہ مہدی“ ہیں جنہوں نے مصر کے فاطمین کی حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔

اسماعیلیوں کا عقیدہ ہے کہ زمین پر حجت خدا کے علاوہ ان کے بارہ خاص حواریین ہوتے ہیں، لیکن باطنیہ (دروزیہ) کا ایک گروہ نقباء میں سے چھے افراد کو امام سمجھتے ہیں، (۱) ۔

۱۔ شیعہ در اسلام ، ص ۶۸۔

اسماعیلیوں کی کارکردگی

۲۷۸ ہجری میں (افریقہ میں عبیداللہ مہدی کے ظہور سے چند سال قبل ) خوزستان کا رہنے والا ایک شخص جس نے کبھی بھی اپنا نام و نشان ظاہر نہیں کیا ، کوفہ کے اطراف میں ظاہر ہوا ، یہ شخص دن میں روزہ اور رات میں عبادت کرتا تھا ،اور لوگوں کو اسماعیلی مذہب کی دعوت دیتے تھے ، اس طرح اس نے بہت سے لوگوں کو اپنے اطراف میں جمع کرلیا اور اپنے چاہنے والوں میں سے بارہ افراد کو نقباء کے عنوان سے انتخاب کیا اور خود شام کی طرف روانہ ہوگیا ،اس کے بعد اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملی ، اس نامعلوم شخص کے بعد ”احمد“ معروف بہ ”قرمط“ عراق میں اس کی جگہ پر بیٹھا ، اس نے باطنیہ کی تعلیمات کو منتشر کیا اور جیسا کہ مورخین کہتے ہیں: اس نے نماز پنجگانہ کی جگہ پر ایک نئی نماز اسلام میں قائم کی ، غسل جنابت کو لغو کیا، شراب کو مباح کیا،اسی دوران باطنیہ کے ایک گروہ نے قیام کیا اور لوگوں کو اپنے اردگرد جمع ہونے کی دعوت دی۔

جو لوگ ان سے دور رہتے تھے ان کی جان و مال کا کوئی احترام نہیں کرتے تھے ، اسی وجہ سے عراق ، بحرین، یمن اورشامات کے شہروں میں انہوں نے قیام کیا اور لوگوں کا خون بہایا ، اور ان کے مال کو غارت کرلیا، کئی بار حج پر جانے والے قافلوں کو لوٹا اور ہزاروں حاجیوں کو قتل کیا ۔

”ابوطاہر قرمطی“ کاشمار باطنیہ کے بزرگوں میں ہوتا ہے ،اس نے ۳۱۱ ہجری میں بصرہ پر قبضہ کیا، اور لوگوں کو قتل کرنے اور ان کے مال و دولت کو لوٹنے میں کوئی کمی نہیں رکھی ، ۳۱۷ ہجری میں باطنیہ کے ایک گروہ کے ساتھ موسم حج میں مکہ کی طرف روانہ ہوا اور حکومت کی فوج سے مختصر سی جنگ کرنے کے بعد مکہ میں داخل ہوگیا ، اہل مکہ اور جدید حاجیوں کو قتل کیا ، یہاں تک کہ مسجد الحرام اور کعبہ میں خون جاری ہوگیا ، غلاف کعبہ کو اپنے دوستوں کے درمیان تقسیم کیا ،کعبہ کے دروازہ اور حجر اسود کو اس کی جگہ سے نکال کر یمن لے آیا جو کہ ۲۲ سال تک قرامطہ کے پاس رہا ۔

ان کے برے اعمال کی وجہ سے تمام مسلمانوں نے قرامطہ سے برائت اختیار کرلی اور ان کو مسلمان ہونے سے خارج کردیا ، یہاں تک کہ ”عبداللہ مہدی“ فاطمیوں کا بادشاہ جس نے اس زمانہ میں افریقہ میں ظہور کیا تھا اور اپنے آپ کو مہدی موعود اور اسماعیلیوں کا امام کہتا تھا اس نے بھی قرامطہ سے بیزاری اختیار کرلی۔

مورخین کے بقول مذہب باطنیہ کی شناخت یہ ہے کہ وہ اسلام کے ظاہری احکام و قوانین کو عرفان باطنی سے تاویل کرتے ہیں اور شریعت کے ظواہر کو ان لوگوں سے مخصوص کرتے ہیں جو کم عقل اور معنوی کمال سے بہت دور ہیں، ان تمام صفات کے باوجود کبھی بعض قوانین ان کے امام سے صادر ہوتے ہیں (۱) ۔

۱۔ شیعہ در اسلام، ص ۶۹۔

ايران کي ايٹمي سرگرميوں کے پر امن ہونے پر زورآئي اے اي اے ميں ايران کے مستقل مندوب نے ايک بار پھر ايران کي تمام ايٹمي سرگرميوں کے ممکل طور پر پر امن ہونے پر زور ديا ہے -

علي اصغر سلطانيہ نے جمعے کي شام ويانا ميں آئي اے اي اے کے بورڈ آف گورنرس کے اجلاس ميں کہا کہ ايجنسي کے تفتيش کاروں نے مستقل طور پر ايران کي ايٹمي تنصيبات کا معائنہ کيا ہے اور اب تک اس ميں انحراف کي کوئي علامت بھي انہيں نظر نہيں آئي ہے -

آئي اے اي اے ميں ايران کے نمائندے نے کہا کہ ايران کے خلاف پابندياں غير قانوني ہيں اور وہ ايران کي ايٹمي سرگرميوں کو متاثر نہيں کرسکتيں - انہوں نے کہا کہ پابنديوں ، ايران کي ايٹمي تنصيبات پر حملے کي دھمکيوں اور ايران کے ايٹمي سائنسدانوں کے قتل کے واقعات نے اپني ايٹمي سرگرمياں اور يورينيئم کي افزودگي جاري رکھنے کے لئے ملت ايران کو مصمم تر کيا ہے -

علي اصغر سلطانيہ نے کہا کہ قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي کے فتوے کي اساس پر اور جيسا کہ آپ نے تيس اگست سن دو ہزار بارہ کو نيم سربراہمي اجلاس سے خطاب ميں تاکيد فرمائي ہے ، ايران ايٹمي اسلحے بنانے کي فکر ميں ہرگز نہيں ہے -

آئي اے اي اے ميں ايران کے نمائندے نے کہا کہ اسلامي جمہوريہ ايران پر امن ايٹمي توانائي کے ملت ايران کے حق سے ہرگز دستبردار نہيں ہوگا اور ايٹمي توانائي سب کے لئے اور ايٹمي ہتھيار کسي کے لئے بھي نہيں اس کا مستقل سلوگن ہے -

علي اصغر سلطانيہ نےاسي کے ساتھ خبردار کيا ہے کہ اگر ايران کي ايٹمي تنصيبات پر حملہ ہوا تو تہران اين پي ٹي سے نکل جائے گا -

انہوں نے بورڈ آف گورنرس کے اجلاس سے خطاب ميں کہا کہ ايران کي ايٹمي تنصيبات پر حملے کي صورت ميں ايران کي پارليمنٹ مجلس شورائے اسلامي، حکومت کو آئي اے اي اے کے انسپکشن کو روک دينے اور اين پي ٹي سے نکل جانے پر مجبور کرسکتي ہے - انہوں نے کہا کہ ايران يورينيئم کي افزودگي بند نہيں کرے گا البتہ حملے کي صورت ميں تہران يورينيئم کي افزودگي کے مراکز کوزيادہ محفوظ مقامات پر منتقل کرنے پر مجبور ہوجائے گا -

آئي اے اي اے ميں ايران کے نمائندے نے کہا کہ اسلامي جمہوريہ ايران بغير کسي شرط کے مذاکرات کے ذريعے ايٹمي معاملے کو حل کرنے اور ان تمام باتوں کا جواب دينے کے لئے تيار ہے جن کا مغرب دعوي کرتا ہے - انہوں نے کہا کہ اسلامي جمہوريہ ايران نے آئي اے اي اے کے ساتھ تعاون کيا ہے اور آئندہ بھي تعاون کے لئے تيار ہے - علي اصغر سلطانيہ نے کہا کہ ايران نے گروپ پانچ جمع ايک کے ساتھ مذاکرات ميں بھي اپني نيک نيتي ثابت کردي ہے ليکن گروپ پانچ جمع ايک ايران کے ساتھ تعاون کے لئے شرطيں معين کرتا ہے -

اسلامي جمہوريہ ايران نے اين پي ٹي کي اساس پر آئي اے اي اے کے ساتھ تعاون اور مغرب کي غلط فہمياں دور کرنے کے لئے ہميشہ اپني آمادگي کا اعلان کيا ہے ليکن ايٹمي توانائي سے پر امن استفادے کے اپنے مسلمہ حق سے ہرگز دستبردار نہيں ہوگا –

حکومت پاکستان نے اسلامي جمہوريہ ايران کے ساتھ سيکورٹي تعاون کے سمجھوتے کي منظوري دے دي ہے -

پاکستان کے وزير اطلاعات و نشريات قمرزمان کائرہ نے ايران کے ساتھ پاکستان کے سيکورٹي تعاون کے سمجھوتے کي تفصيلات کا ذکر کئے بغير کہا ہے کہ وزير اعظم راجہ پرويز اشرف کي صدارت ميں کابينہ کے ہونےوالے اجلاس ميں ايران کے ساتھ سيکورٹي تعاون کے سمجھوتے کي منظوري دے دي گئي ہے -

اس سے پہلے ايران کے وزير داخلہ مصطفي محمد نجار نے اپنے دورہ اسلام آباد ميں پاکستان کے وفاقي وزير داخلہ رحمن ملک سے ملاقات ميں دونوں ملکوں کے درميان سيکورٹي تعاون کے سمجھوتے کو حتمي شکل دي تھي -

پاکستان کے وفاقي وزير اطلاعات و نشريات نے کہا ہے کہ حکومت نے دہشت گردي کا مقابلہ کرنےکے لئے نئي حکمت عملي کے لئے ايک بل کے مسودے کو بھي منظوري دے دي تھي - انہوں نے کہا کہ محکمہ انسداد دہشت گردي وزارت داخلہ کا ہي ايک ادارہ ہے اور يہ ادارہ ملک ميں امن و استحکام قائم رکھنے کے لئے سبھي وفاقي اور صوبائي اداروں کے ساتھ تعاون کررہا ہے-

امام ابو حنیفہ، اس عنوان سے کہ آپ نے اھل سنت کے مذاھب میں سے پہلے مسلک کی بنیاد رکھی ہے، مذاھب اسلامی کی تاریخ میں ایک اہم شخصیت اور مقام کے حامل ہیں لہذا ان کے نسب، نشو و نما و پرورش، سماجی حیثیت، اساتذہ، اجتہاد کی روش، فقہ کی تدریس کی روش، شاگردوں کی تربیت وغیرہ کی شناخت و معرفت ہمیں حنفی مذہب اور اس کی خصوصیات و امتیازات کو سمجھنے میں مددگار و معین ثابت اور اس سے نزدیک کر سکتی ہے۔

امام ابو حنیفہ اور ان کا سماجی طبقہ

اکثر و بیشتر منابع ان کا اور کے اجداد کا ذکر اس طرح کرتے ہیں: نعمان بن ثابت بن زوطی (۱)، یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام منابع ان کے نام کے بارے میں اتفاق نظر رکھتے ہیں، سوائے خطیب بغیدادی (۲) کے، جبکہ ان کے جد کے سلسلے میں تمام منابع ان کا ذکر زوطی کے نام سے کرتے ہیں، الجواہر المضیئہ کے مصنف (۴) امام آپ کے سلسلہ نسب کا ذکر اس طرح کرتے ہیں: نعمان بن ثابت بن کاوس بن ھرمز بن مرزبان بن ہھرام بن کہرکز بن ماحین۔ (۵)

بعض منابع نے آپ کے جد کا زوطی کی بجای ماہ (۶) تحریر کیا ہے۔ (۷) اکثر مصادر اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ ابو حنیفہ کا تعلق بابل سے تھا، مسلمانوں کے ذریعہ کابل کی فتح احتمالا ان کے جد کے زمانے میں ہوئی ہے، جس کے نتیجہ میں وہ اسیر ہو کر بنی تیم اللہ بن ثعلبہ کی ملکیت میں چلے جاتے ہیں اور پھر آزاد ہو کر ان کے غلاموں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ (۸) البتہ بعض منابع نے آپ کو اصالتا نساء، ترمذ اور انبار کا بھی لکھا ہے۔ (۹)

روایات کے یہ اختلافات سبب بنے کہ سراج ھندی (۱۰) درج ذیل روش سے ان میں مناسبت و ھماھنگی پیدا کریں وہ لکھتے ہیں: امام ابو حنیفہ کے جد کا تعلق کابل سے تھا اور پھر انہوں نے وہاں سے نساء اور ترمذ کی طرف نقل مکانی کیا اور ترمذ میں ثابت کی پیدائش اور نشو و نما ہوئی۔ (۱۱) جبکہ امام ابو حفیفہ کے پوتے اسماعیل بن حماد آپ کی اسارت کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے اجداد سے ساتھ ہرگز بھی ایسا کچھ پیش نہیں آیا ہے۔(۱۲) روایت میں آیا ہے کہ ثابت کے باپ کسی تہوار اور جشن کے موقع پر امام علی علیہ السلام کی خدمت میں پہچے اور آپ کو تحفے کے طور پر فالودہ پیش کیا تو امام امیر المومنین علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ ہمارے لیے ہر روز تہوار اور جشن کا روز ہے۔ (۱۳) اور یہ بھی نقل کیا جاتا ہے کہ امام علی علیہ السلام نے ان کے اور ان کے بیٹوں کے حق میں دعا کی تھی، جس کے اثرات و برکات ابو حنیفہ میں ظاہر ہوئے۔ (۱۴)

بہر حال ابو حنیفہ ایک جہت سے ایرانی النسل ہیں اور آپ کے اجداد اس ملک کے مشرقی علاقہ میں ساکن تھے، منابع میں آپ کے صرف ایک بیٹے کا ذکر ملتا ہے جس کا نام حماد ہے اور آپ کی کنیت ابو حنیفہ کی طرف بھی کوئی اشارہ ذکر نہیں ہوا ہے۔ اکثر مصادر کا اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ آپ ۸۰ سن ھجری قمری میں (۱۵) کوفہ میں پیدا ہوئے۔ (۱۶) اور سن ۱۵۰ ھجری قمری میں بغداد میں وفات پائی۔ (۱۷) مطابق ۷۰۰ سے ۷۶۷ سن عیسوی۔

امام ابو حنیفہ کے مالی حالات اچھے تھے، ان کے پیشے اور کام جانوروں کی کھال کی تجارت سے ان کی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے جس میں تاریخی و رجالی حوالے سے انہیں صاحب مقام و صاحب ثروت و سخاوت کہا گیا ہے اور ان کے اجداد کے بارے میں جیسا کہ امام علی علیہ السلام (۱۹) کو تحفہ دینے والی روایت سے پتہ چلتا ہے، اس سے استنباط کیا جا سکتا ہے کہ وہ بھی مالی لحاظ سے معاشرہ کے مرفہ اور خوشحال لوگوں میں شامل تھے۔

 

امام ابو حنیفہ کی تعلیم اور اساتذہ

اس بات کے پیش نظر کہ ان کے والد (۲۰) کے گھرانے کے مالی حالات مضبوط تھے، طبیعی ہے کہ ان کے والد کی خواہش اور آرزو ہوگی کہ وہ اعلی تعلیم حاصل کریں حالانکہ ان کے گھرانے میں حصول علم کا کوئی رواج نہیں تھا لہذا اس امر کے حصول کے اسباب کا فراہم ہونا لازمی و ضروری تھا۔ ابتداء میں تو آپ مسجدوں میں کبھی کبھی تشکیل پانے والے دروس اور جلسات میں شرکت کیا کرتے تھے اور انہیں جلسات میں انہیں اپنی استعداد کا علم ہوا اور علماء بھی ان کی ذکاوت کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں حصول علم و دانش کی طرف رغبت دلائی۔ در حقیقت ان کا شوق شعبی (۲۱) جیسے دانشمند کی تشویق کی وجہ سے اس طرف مائل ہو گیا اور آپ ہمہ تن اس کے حصول میں لگ گئے۔

اس دور میں علمی و تعلیمی حلقے تین شعبوں میں نمایاں تھے:

۱۔ اصول عقائد کی بحث میں، معاشرہ کے مختلف فرق و مذاہب کے اعتقادات پر بحث و گفتگو کی جاتی تھی۔

۲۔ علماء حدیث کے حلقے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث کو ان کی فقہی جہات پر توجہ دئیے بغیر نقل اور بیان کرتے تھے اور احتمالا اس طرح کے حلقے کوفے میں زیادہ نہیں تھے۔

۳۔ کتاب و سنت سے فقہی مسائل کے استنباط کے حلقے۔ (۲۲)

ابو حنیفہ نے شروع میں ایک مدت تک اصول عقاید کے دروس و حلقات میں شرکت کی۔ اس زمانہ کی بین النہرین کی سیاسی فضا اور فرقہ گرایی نے علم کلام کو ایک کشش عطا کر دی تھی، لیکن مختلف اسباب (۲۳) کی بناء پر انہوں نے علم کلام کو ترک کر دیا اور فقہ کی طرف زمینہ فراہم ہونے کی وجہ سے اس طرف مائل ہو گئے۔ خطیب بغدادی اس تبدیلی کی دلیل پیش کرتے ہوئے اس کا ذکر اس طرح سے کرتے ہیں:

پھر میں نے علم کلام میں مہارت حاصل کی اور علم کے معروف افراد میں میرا شمار ہونے لگا، میرا حلقہ درس حماد بن حسن بن ابی سلیمان (۲۴) کے حلقہ درس سے نزدیک تھا، ایک دن ایک عورت میرے پاس آئی اور اس نے مجھ سے طلاق کے بارے میں سے ایک فقہی سوال کیا، جس کا میں جواب نہیں دے سکا اور اسے معلوم کرنے کے لیے حماد کے پاس بھیجنا پڑا اور میں نے اس سے کہا کہ جواب ملنے کے بعد وہ مجھے ضرور بتائے کہ کیا اسے کیا جواب ملا ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا لیکن میں نے اس کے بعد سے یہ فیصلہ کیا کہ میرے لیے علم کلام بہت ہو گیا اور حماد کی شاگردی اختیار کر لی اور کچھ عرصہ کے بعد میں اس کے بہترین شاگردوں میں شامل ہو گیا، اس لیے کہ میں درس میں محنت کرتا، اس کا مباحثہ کرتا، یہاں تک کہ میں نے مسلسل دس سال ان کے درس میں گزارا۔ (۲۵)

المنتظم فی التواریخ الملوک و الامم کے مصنف (۲۶) نے آپ کے درس قفہ میں شرکت کی ایک اور وجہ بیان کی ہے، جس میں ان کے فقہ کی طرف متوجہ ہونے کا سبب معاشرہ میں فقہ کی اہمیت اور فقہاء کے جوانی و پیری میں احترام و اکرام کو قرار دیا ہے۔ (۲۷) منابع تاریخی ابو حنیفہ کو تابعین مین شمار کرتے ہیں، تابعی وہ ہے جس نے صحابہ کو دیکھا ہو، جبکہ اس بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے، قاضی ابو یوسف (۲۸) سے نقل ہوا ہے کہ میں نے امام ابو حنیفہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: میں سن اسی ھجری قمری میں پیدا ہوا اور سن ۹۶ ھجری قمری میں اپنے والد کے ہمراہ حج کا سفر کیا اور جب ہم مسجد حرام میں داخل ہوئے تو میں ایک وہاں ایک بڑا حلقہ درس دیکھا، میں نے اپنے والد سے پوچھا یہ حلقہ درس کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: عند اللہ بن جزء زبیدی، صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں، میں آگے بڑھا اور میں نے انہیں رسول خدا (ص) سے یہ حدیث نقل کرتے ہوئے سنا: من تفقہ فی دین اللہ کفاہ اللہ ھمہ و رزقہ من حیث لا یحتسب۔ (۲۹)

اگر چہ حماد بن ابی سلیمان کا شمار ابو حنیفہ کے مہم ترین استادوں میں ہوتا ہے، لیکن انہوں نے دوسرے اساتذہ سے کسب علم و دانش کیا ہے۔ جمال الدین یوسف مزی (۳۰) صاحب تہذیب الکمال فی اسماء الرجال نے ابو حنیفہ کے اساتذہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے جس میں بہت سے مشہور افراد جیسے طاووس بن کیسان (۳۱)، عاصم بن النجود (۳۲)، عکرمہ مولی ابن عباس (۳۳)، محمد بن مسلم شہاب زھری (۳۴) اور اسی طرح سے شیعہ اماموں میں سے ابی جعفر محمد بن علی بن حسین (۳۵) اور زید بن علی بن حسین (۳۶) کا ذکر کیا گیا ہے۔ (۳۷)

خلیفہ عباسی ابو جعفر منصور نے امام ابو حنیفہ سے پوچھا کہ آپ نے علم کس سے حاصل کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا: حماد بن ابی سلیمان اور عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، عبد اللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس کے شاگردوں سے۔ (۳۸) اور جیسا کہ اس سے پہلے بھی ذکر کیا گیا کہ ابو حنیفہ کے مہم ترین اور مشہور ترین استاد اور شیخ حماد بن ابی سلیمان تھے اور انہوں نے فقہ و دانش کو ابراہیم نخعی (۳۹) سے حاصل کیا۔ ابراہیم کا شمار اپنے زمانہ کے سب سے دانا اصحاب رای میں ہوتا ہے ان کا انتقال سن ۱۲۰ ھجری قمری مطابق ۷۳۸ عیسوی میں ہوا۔ اسی طرح سے ابو حنیفہ نے فقہ میں شعبی کے محضر سے استفادہ کیا، جبکہ ابراہیم اور شعبی نے شریح (۴۰)، علقمہ بن قیس (۴۱) اور سروق بن اجدع (۴۲) سے استفادہ کیا اور اور یہ سب عبد اللہ بن مسعود (۴۳) اور علی بن ابی طالب علیہ السلام کے شاگرد تھے۔ اور ان دونوں صحابیوں نے کوفے میں سکونت کے عرصہ میں فقہ کے مضبوط ستون کی بنیاد ڈالی۔ (۴۴) البتہ عبد اللہ بن مسعود کی طولانی اقامت کا اس میں زیادہ اہم اور موثر کردار رہا ہے۔ (۴۵)

مجموعی طور پر یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ کوفہ کا فقہی مبناء، جس نے بعد میں نام پیدا کیا، عبد اللہ بن مسعود کے ذریعہ وجود میں آیا، جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ ابو حنیفہ کے جملہ اساتذہ میں سے ایک زید بن علی زین العابدین تھے، جو اثنا عشری شیعوں کے چوتھے امام علی بن حیسن علیہ السلام کے فرزند ہیں۔ زید جو زیدیہ مسلک کے رئیس شمار ہوتے ہیں، بہت سے علوم میں صاحب کمال تھے، وہ علم قراءات قرآن،فقہ و عقائد میں اپنے زمانہ کے مہم اور برجستہ عالم تھے اور معتزلہ ان کا شمار اپنے شیوخ میں سے کرتے ہیں۔ (۴۶) اور معتزلی نے جس کے افکار و آرا سے اثر قبول کیا ہے، اس علمی اتصال کے نتیجہ میں شاید فقہ حنفی اور معتزلہ کے افکار عقلائی کے درمیان ریشہ و رابطہ تلاش کیا جا سکتا ہے۔ روایت میں ملتا ہے کہ ابو حنیفہ نے دو سال تک زید بن علی علیہ السلام کی شاگردی اختیار کی ہے اور اسی طرح سے ابو حنیفہ شیعہ اثنا عشری کے چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے سے علمی رابطہ رکھتے تھے۔ (۴۷) اور ابو حنیفہ کے کوفہ سے مکہ، ابن ھبیرہ (۴۸) اور بنی امیہ سلاطین کی سختی کے سبب ھجرت، انہیں مکہ میں ابن عباس سے فقہ میں استفادہ کا موقع میسر آیا، اس لیے کہ ابن عباس کے شاگرد مکہ میں صاحبان درس تھے۔ (۴۹) نقل کیا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ اپنی علمی زندگی میں تقریبا ساٹھ ہزار مسئلے اور بعض روایات کے مطابق تین لاکھ فقہی مسئلے پیش کرنے میں کامیاب ہوئے۔ (۵۰) امام ابو حنیفہ نے اپنی زندگی میں مشہور شاگردوں کی تربیت اور فقہ کو مدون و مرتب کیا جس کا اکثر نمونہ ان کے شاگرد محمد بن حسن شیبانی کی کتاب میں ظاہر ہوا ہے، (۵۱) اور اس کے علاوہ بہت سی کتابیں بھی تالیف کی ہیں، یا ان کی طرف ان کتابوں کی نسبت دی گئی ہے، جیسے کتاب الصلاۃ جسے کتاب العروس بھی کہا جاتا ہے، کتاب المناسک، کتاب الرھن، کتاب الشروط، ظاہرا یہ کتابیں اپنے موضوع کے حوالہ سے نظیر نہیں رکھتیں۔ کتاب الفرائض، الرد علی القدریۃ، رسالۃ الی البستی، کتاب العالم و المتعلم و کتاب فقہ الاکبر، آخری دو کتابیں عقائد اور علم کلام کے بارے میں ہیں۔ (۵۲)

 

امام ابو حنیفہ کے فقہی مبانی کو متاثر کرنے والے اسباب

مہم ترین اسباب جنہوں نے امام ابو حنیفہ کے فقہی مبانی پر اثر ڈالا درج ذیل ہیں:

الف: ابو حنیفہ جس معاشرہ میں رہتے تھے انہوں نے اس سے اثر قبول کیا، فقہ اور فتوی میں فضا، ماحول، زمان اور مکان کا بڑا دخل ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ابن قیم جوزی (۵۳) نے اپنی کتاب اعلام الموقعین میں، جس کا موضوع اصول فقہ اور اجتہاد ہے، اس کی تیسری جلد کی پہلی فصل کو ان مباحث سے مخصوص کی ہے: فتوی میں تغییر و تفاوت کا زمان و مکان و حالات و نیات و نتائج کے سبب پیش آنا۔ (۵۴) اس جہت سے بین النہرین کے معاشرہ، فضا اور ماحول کے مد نظر، خاص طور پر کوفہ میں اہل رای کے فقہی رشد و شکوفائی ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ (۵۵) اس لیے کہ ماحول اور فضا کا اثر صرف سیاسی، فلسفی و ادبی افکار تک محدود نہیں ہوتا بلکہ فقیہ کی زندگی میں بھی ایک مثبت کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے کا اس کا رابطہ اس فضا اور ماحول سے قریبی ہوتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ تبیین احکام کے ذریعہ سے ان کی مشکلات کے لیے راہ حل پیش کرے، وسیع اسلامی سر زمین جو مخلتف ممالک، ثقافت، نسل، آداب اور عادات کا مجموعہ تھی، یہ تمام باتیں بین النہرین کے درمیان اقوام میں با ہمی ارتباط اور قدیم نسل ہونے کی وجہ سے ان کا اثر ابو حنیفہ کی زندگی پر ہونا نا گزیر امر تھا، جس نے ان کے فقہی افکار و نظریات پر اثر ڈالا۔

ب: امام ابو حنیفہ کی زندگی میں اس ایک خاص دور کا بیحد اثر رہا ہے، جس میں وہ مشہور علماء کلام کے حلقہ درس میں شرکت کرتے تھے، ان درسی حلقوں میں قضا و قدر، ایمان، صحابہ کی روش جسے موضوعات پر بحث ہوتی تھی، علم کلام میں عقل اور عقلی مباحث ایک خاص حیثیت کے حامل تھے۔

علم کلام سے مربوط مناظروں کے نتیجہ سے معتزلہ کا ظہور میں آنا بے دلیل نہیں تھا اور اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر چہ ابو حنیفہ کا عقیدہ معتزلہ کے مخالف تھا، لیکن عقل محور افکار کا اثر، قرآن پر زیادہ توجہ دینا اور حدیث پر زیادہ توجہ نہ دینا، کہا جا سکتا ہے کہ علم کلام کے حلقہ درس کے زیر اثر تھا جیسا کہ بعد میں چوتھی صدی ھجری قمری میں اشاعرہ و معتزلہ کے درمیان نہایت اساسی و بنیادی اختلاف نظر کے با وجود ہم یہ دیکھتے ہیں کہ معتزلہ کے افکار کے مطالب کا اثر اھل سنت کے درمیان نطر آتا ہے اور خود اھل سنت میں نظریات کی نرمی و اعتدال کا مشاہدہ ہوتا ہے اور یہ تاثیر ان روشوں سے استفادہ کی وجہ سے تھی جو معتزلہ نے علم کلام میں وارد کر دی تھیں۔ (۵۶)

ج: ایک روایت کے مطابق ابو حنیفہ نے مکتب کوفہ میں اپنے استاد حماد بن ابی سلیمان کی صحبت میں اٹھارہ سال گزارے اور ان سے فقہ کا علم حاصل کیا، اس مکتب کا اپنا ایک خاص رنگ تھا، جس کی ابتدا میں عبد اللہ بن مسعود جیسے صحابی وہاں موجود تھے، وہ عراق کے پہلے استاد تھے جن کے پاس خلیفہ دوم جیسا علم، روشن فکری اور خاص دقت نظر موجود تھی، ان کے بعد بھی ابو حنیفہ کے زمانہ تک تمام اساتذہ و تلامذہ نے اس مکتب کی تقویت و ترقی کے لیے محنت کی، ہر فرد نے اپنی بضاعت بھر کوشش کی، تا کہ حدیث اور رای سے اس مکتب کو تقویت دے، یہاں تک کہ اھل رای کے حقیقی وارث حماد بن ابی سلیمان نے اس کے تمام افکار و نظریات جا احاطہ کیا اور اسے ابو حنیفہ کے سپرد کیا اور ابو حنیفہ نے اسے مذھب کی شکل دی اور ایک مستقل پہچان اور ممتاز حیثیت کے ساتھ جہان اسلام کے سامنے پیش کیا۔ (۵۷)

بعض لوگوں نے اس بات کا ذکر اس طرح سے کیا ہے: فقہ کی بنیاد عبد اللہ بن مسعود نے رکھی، علقمہ بن قیس نخعی نے اس درخت کی آبیاری کی، ابراہیم نخعی نے اسے ثمر تک پہچایا، حماد بن ابی سلیمان نے اس سے کاٹا اور ابو حنیفہ نے اس سے پکایا، یعنی اس کے اصول و فروع کو ابو حنیفہ نے وسعت عطا کی اور اس تک پہچنے کے راستے کو بتایا اور اس کے ابواب و فصول کو مدون و مرتب کیا اور تمام لوگوں نے اس سے استفادہ کیا۔ (۵۸)

د: ابو حنیفہ کی بازار سے نزدیکی شناخت اور رابطے نے ان کے فقہی نظریات پر سیدھا اثر ڈالا اور فقہ معاملات میں ان کے فتاوی و نظریات کافی حد تک واقعیت پر مبنی ہوتے تھے۔ (۵۹) یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی یہ بصیرت معاملات کے وقت مشاہدے سے پروان چڑھی نہ کہ فقط درسی حلقے میں علمی بحث و گفتگو سے، اور اس بات کے مد نظر کہ بین النہرین کے جنوبی و مرکزی شہر ساسانیان کے زمانہ سے ہی تجارت کے گرم اور پر رونق بازار رہے ہیں اور مسلمانوں کے اس سر زمین پر وارد ہونے اور سیاسی سرحدوں کے ختم اور ایرانیوں کے اپنے ایک شہر سے دوسرے شہر جیسے اصفہان و خراسان، جو جادہ ابریشم سے نزدیک تھے اور اسی طرح سے بڑی تعداد میں عرب مسلمانوں کی مہاجرت، جو تجارت میں کافی تجربہ رکھتے تھے، اس خطے میں تجارت کے فروغ کا سبب بنی۔ اور اس رونق نے مسلمان فقہاء کو نئے سوالات اور مسائل سے رو برو کیا جو اس سے پہلے وجود نہیں رکھتے تھے۔ اور یہاں پر یہ بات نکتہ بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ابو حنیفہ نے مکمل طور پر درس و تدریس میں مشغول ہونے کے بعد بھی بازار سے اپنے رابطے کو منقطع نہیں کیا اور شراکت میں تجارت بھی جاری رکھی۔ (۶۰)

 

فقہ حنفی یا فقہ اھل رای کی روش و خصوصیت

جیسا کہ اس سے پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ امام ابو حنیفہ اپنے فقہی نظریات میں اس مکتب و مدرسہ کے پیروکار تھے جس کی بنیاد عبداللہ بن مسعود نے کوفہ میں رکھی تھی اور ان کے شاگردوں نے اسے پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا، عبداللہ بن مسعود کے شاگرد بھی ان کی طرح سے جہاں پر بھی قرآن مجید سے حدیث پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نص نہیں پاتے تھے، وہاں اپنی رای اور نظر سے اجتہاد کرتے تھے اور اس روش کا سلسلہ آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں نے اس روش کے قاعدوں کو منظم و منضبط کیا، امام ابو حنیفہ اس بارے میں اس طرح سے بیان کرتے ہیں:

میں اللہ کی کتاب پر عمل کرتا ہوں اور اگر کسی امر کو اس میں نہیں پاتا ہوں تو سنت رسول خدا (ص) کی طرف رجوع کرتا ہوں اور اگر سنت میں بھی اس کا ذکر نہیں ملتا ہے تو سخن صحابہ کی طرف رجوع کرتا ہوں اور ان میں سے جس پر چاہتا ہوں عمل کر لیتا ہوں اور دوسرے کے کلاموں اور باتوں کو ان کی باتوں پر ترجیح نہیں دیتا ہوں، لیکن اگر بات ابراہیم، شعبی، ابن سیرین، (۶۱)، حسن بصری (۶۲)، عطاء بن ابی ریاح (۶۳) اور سعید بن مسیب (۶۴) تک پہچ جاتی ہے، تو یہ لوگ وہ ہیں جنہوں نے اجتہاد کیا ہے تو میں بھی ان کی طرح سے اجتہاد کرتا ہوں۔ (۶۵)

کوفہ کے فقہی مدرسہ کی شہرت اھل رای کے مکتب کے نام سے ہے، مگر سوال یہ ہے کہ روی کے معنا کیا ہیں؟ جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

منابع و مآخذ:

Zota .۱

۲۔ خطیب بغدادی، احمد بن علی بن ثابت بغدادی (۳۹۲۔ ۴۶۳) مطابق (۱۰۰۲۔۱۰۷۲) پانچویں صدی کے مورخ نے حدیثیں جمع کرنے کے لیے مخلتف شہروں کا سفر کیا۔

۳۔ خطیب بغدادی، ابی بکر احمد بن علی، کتاب تاریخ بغداد و مدینہ السلام۔ جلد ۱۳ صفحہ ۶ حدیث ۳۲۵۔

۴۔ عبد القادر بن ابی الوفاء قریشی متوفی ۷۷۵ ھ مطابق ۱۳۷۵ عیسوی۔

۵۔ عبدالقادر بن ابی الوفاء، کتاب الجواہر المضیئۃ، جلد ۱ صفحہ ۸۵۔

Mah.۶

۷۔ ابن خلکان، ابی العباس شمس الدین احمد بن محمد، کتاب وفیات الاعیان و انباء ابناء الزمان، جلد ۵ صفحہ ۴۰۵۔

۸۔ بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، کتاب فتوح البلدان جلد ۲ صفحہ ۴۸۹۔

۹۔ ابن خلکان، وفیات الاعیان، ترجمہ احمد بن محمد سنجری، جلد ۳ صفحہ ۳۵۹۔

۱۰۔ عمر بن اسحاق بن احمد بن غزنوی، سراج الدین ابو حفص ھندی ان کے بعد فقیہ حنفی مصری (۷۰۴۔ ۷۷۳) ھجری مطابق (۱۳۰۵۔۱۳۷۲) عیسوی، کتاب تفسیر القرآن، مجموعہ فتاوی و شرح ھدایۃ فی الفقہ، مرغینانی و ۔ ۔ ۔ ۔

۱۱۔ تقی الدین تمیمی، کتاب الطبقات السنیۃ فی تراجم الحنفیۃ جلد ۱ صفحہ ۸۶۔

۱۲۔ ابن خلکان، وفیات الاعیان، جلد ۵ صفحہ ۴۹۵۔

۱۳۔ ابن خلکان، وفیات الاعیان، جلد ۵ صفحہ ۴۹۵۔

۱۴۔ خطین بغدادی، کتاب تاریخ بغداد، جلد ۱۳ صفحہ ۳۲۶۔

۱۵۔ محمد ابو زھرہ، کتاب ابو حنیفہ حیاتہ و عصرہ، آرائہ و فقھہ صفحہ ۱۲۔

۱۶۔ اسماعیل پاشا بغدادی، کتاب ھدیۃ العارفین، اسماء المولفین و آثار المصنفین، جلد ۲ صفحہ ۴۹۵۔

۱۷۔ محمد بن اسحاق الندیم معروف نہ ابی یعقوب براق، کتاب الفہرست، تحقیق، رضا تجدد، صفحہ ۲۵۵۔

۱۸۔ خطین بغدادی، کتاب تاریخ بغداد، جلد ۱۳ صفحہ ۳۲۵۔

۱۹۔ ابن خلکان، وفیات الاعیان، جلد ۵ صفحہ ۴۹۵۔

۲۰۔ منابع میں امام ابو حنیفہ کے مادری خاندان، ان کے مالی حالات اور سماجی طبقہ کے بارے کوئی اشارہ نہیں ملتا۔

۲۱۔ عامر بن الشراجیل الشعبی (۱۹۔ ۱۰۳) ھجری قمری مطابق (۶۴۰۔ ۷۲۱) عیسوی، راویان حدیث اور تابعین میں سے ہیں، ضرب المثل کے حفظ میں شہرت رکھتے ہیں، کوفہ میں پیدا ہوئے اور وہی انتقال کیا، خلیفہ اموی عبد الملک بن مروان سے مراسم پیدا ہونے کے بعد اس کے دوست و مصاحب ہوئے، اس کے بعد عمر بن عبد العزیز کے زمانہ میں قاضی مقرر ہوئے، فقیہ و محدث و شاعر بھی تھے۔

۲۲۔ محمد ابو زھرہ، کتاب ابو حنیفہ حیاتہ و عصرہ، آرائہ و فقھہ صفحہ ۱۸۔

۲۳۔ شاید اس دور کے دوسرے علوم کے ماہر علماء کی علم کلام اور اس کی خاص خصوصیات کی بناء پر، جس میں معنویت کم اور جدال کا شائبہ زیادہ پایا جاتا ہے، اور یہ کہ اس کی ضرورت سماج کے ایک خاص طبقہ کو ہوتی ہے فقط، اس سے مخالفت کے اسباب میں سے شمار کئے جا سکتے ہیں۔

۲۴۔ حماد بن ابی سلیمان، علامہ، فقیہ اور عراق کے امام ہیں، ابراہیم نخعی کے شاگرد ہیں، (۱۲۰ ھجری قمری مطابق ۷۳۸ عیسوی) میں انتقال ہوا، صاحب مال و تجمل تھے۔ (سیر اعلام البنلاء جلد ۵ صفحہ ۲۳۱)

۲۵۔ خطیب بغدادی، کتاب تاریخ بغداد، جلد ۳ صفحہ ۳۳۳۔

۲۶۔ ابن جوزی، عبد الرحمان بن علی، (۵۰۸۔ ۵۹۷) ھجری قمری مطابق (۱۱۱۴۔۱۲۰۱) عیسوی کثیر التالیفات ہیں۔

۲۷۔ ابن جوزی، ابو الفرج، عبد الرحمان بن علی کتاب المنتظم فی التواریخ الملوک والامم ص ۲۲۹۳۔

۲۸۔ یعقوب بن ابراہیم، ابو یوسف (۱۱۳۔۱۸۲) ھجری قمری مطابق (۷۳۱۔۷۹۸) عیسوی، ھارون رشید کی طرف سے قاضی القضاۃ تھے اور امام ابو حنیفہ کے سے معروف شاگرد ہیں۔

۲۹۔ ترجمہ، جو بھی اللہ کے دین کے بارے میں علم حاصل کرتا ہے، اللہ اس کے لیے کافی ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق فراہم کرتا ہے کہ اس کے گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ ابن دبیثی، تاریخ بغداد کے ذیل میں، جلد ۱ ص ۴۹۔

۳۰۔ جمال الدین یوسف مزی، (۶۵۴۔۷۴۲) ھجری قمری مطابق (۱۲۵۶۔۱۳۴۱) عیسوی، محدثین میں سے ہیں، حلب میں پیدا ہوئے اور کسب علم کے لیے کثرت سے سفر کیا اور آخر میں دمشق میں مستقر ہوئے اور ۵۰ سال تک حدیث کا درس کہتے رہے۔

۳۱۔ طاوس بن کیسان، (۳۳۔۱۰۶) ھ ق مطابق (۶۵۳۔۷۲۴) ع، بزرگان تابعین میں سے ہیں، فقہ و حدیث میں نہایت پر جرات، فارس کے رہنے والے تھے جبکہ پرورش یمن میں ہوئی۔

۳۲۔ عاصم بن ابی النجود، مشہور سات قاریوں میں سے ایک ہیں، متوفی (۱۲۸ ھ مطابق ۷۴۵ ع) تابعین میں سے ہیں، قراءات اور حدیث میں قابل اعتماد تھے۔

۳۳۔ عکرمہ ابن عباس کے غلام ہیں، بربر قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں، متوفی (۱۰۷ ھ ق مطابق ۷۲۶ ع) تابعین میں سے ہیں اور تفسیر میں قابل اعتماد ہیں۔

۳۴۔ محمد بن مسلم بن عبد اللہ بن شہاب زھری (۵۸۔۱۲۴) ھ ق مطابق (۶۷۸۔ ۷۲۴۲) ع، حدیث کو مدون اور مرتب کرنے والے پہلے محدث ہیں، بزرگان فقہ و حدیث اور مدینہ کے تابعین میں سے ہیں، شام میں مستقر تھے اور عمر بن عبد العزیز، خلیفہ اموی کے مورد توجہ تھے۔

۳۵۔ محمد بن علی ملقب بہ باقر، شیعوں کے پانچویں امام معصوم ہیں، (۵۷۔۱۱۴ ھ ق) مطابق (۵۷۳۔۶۷۷)ع۔

۳۶۔ زید بن علی (۸۰۔ ۱۲۰ ھ ق) مطابق (۶۹۹۔۷۳۸ ع) زیدیہ مذہب کے رئیس و پیسوا اور اپنے زمانہ کے مشہور علماء میں سے ہیں۔

۳۷۔ مزی۔ کتاب تھذیب الکمال فی اسماء الرجال، جلد ۲۹ ص ۴۱۸، ۴۱۹۔

۳۸۔ خطیب بغدادی، کتاب تاریخ بغداد، جلد ۱۳ ص ۳۳۰۔

۳۹۔ ابراھیم بن زید نخعی (۴۶۔۹۶ ھ ق) مطابق (۶۶۶۔۷۱۵ ع) بزرگ تابعین میں سے ہیں اور اپنے زمانہ میں فقیہ عراق تھے۔

۴۰۔ شریح بن حارث کندی، متوفی (۷۸ ھ ق مطابق ۶۹۷ ع) صدر اسلام کے مشہور ترین قضاۃ میں سے ہیں۔

۴۱۔ علقمہ بن قیس نخعی ھمدانی متوفی (۶۲ ھ ق مطابق ۶۸۱ ع) فقیہ عراق اور ابن مسعود کے شاگرد تھے۔

۴۲۔ مسروق بن اجدع ھمدانی وادعی ثقہ تابعین میں سے ہیں، یمن کے رہنے والے ہیں اور کوفہ میں مستقر تھے، امام علی علیہ السلام کے ساتھ جنگوں میں شریک تھے۔

۴۳۔ عبد اللہ بن مسعود متوفی ( ۳۲ ھ ق مطابق ۶۵۳ ع) فضل و عقل اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قربت کے سبب بزرگ صحابہ میں سے ہیں، اھل مکہ ،سابق الاسلام اور صاحب سر رسول (ص) ہیں۔

۴۴۔ محمد ابو زھرہ، کتاب ابو حنیفہ حیاتہ و عصرہ، آرائہ و فقھہ صفحہ ۶۶

۴۵۔ ذھبی، شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان، کتاب سیر اعلام النبلاء جلد ۱ ص ۴۵۱۔

۴۶۔ حسین صابری، کتاب تاریخ فرق اسلامی، جلد ۲ ص ۶۵۔

۴۷۔ محمد ابو زھرہ، کتاب ابو حنیفہ حیاتہ و عصرہ، آرائہ و فقھہ صفحہ ۶۸۔

۴۸۔ یزید بن عمر بن ھبیرہ (۸۷۔ ۱۳۲ ھ ق مطابق ۷۰۶۔۷۵۰ ع) بین النہرین میں اموی حکومت کے عمال و کارگزار۔

۴۹۔ یزید بن عمر بن ھبیرہ (۸۷۔ ۱۳۲ ھ ق مطابق ۷۰۶۔۷۵۰ ع) بین النہرین میں اموی حکومت کے عمال و کارگزار۔

۵۰۔ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد ابی بکر دمسقی، (۶۹۱۔ ۷۵۱ ھ ق مطابق ۱۲۹۲۔۱۳۵۰ ع) فقیہ حنبلی معروف بہ ابن قیم جوزی، مفسر و محدث، حافظ، نحوی، اصولی، متکلم و ۔ ۔ ۔ ۔

۵۱۔ محمد بن حسن بن فرقد شیبانی (۱۳۱۔ ۱۸۹ ھ ق مطابق ۷۴۸۔۸۰۴ ع) امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے خاص شاگردوں میں سے اور کثیر التصانیف ہیں۔

۵۲۔ کتاب ھدیۃ العارفین اسماء المولفین و آثار المصنفین، اسماعیل پاشا بغدادی جلد ۲ ص ۴۹۵۔

۵۳۔ کتاب اعلام الموقعین، ابن قیم جوزی۔

۵۴۔ شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن ابو بکر معروف بہ ابن قیم جوزی، کتاب اعلام الموقعین عن رب العالمین جلد ۳ ص ۳۔

۵۵۔ اھل رای، ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو حدیث کو قبول کرنے میں سخت گیری سے کام لیتے ہیں اور قیاس و استحسان سے زیادہ استفادہ کرتے ہیں۔

۵۶۔ حسین صابری، کتاب تاریخ فرق اسلامی، جلد ۱ ص ۱۴۶۔

۵۷۔ مصطفی ابراھیم الزلمی، فقہ مذاھب میں اختلاف کی بنیادیں، ترجمہ حسین صابری صفحہ ۴۶۔

۵۸۔ المعلم پطرس بستانی، کتاب بستانی عربی انسائکلوپیڈیا جلد ۲ ص ۴۵۶۔

۵۹۔ برٹولڈ اشیولر، تاریخ ایران اوائل اسلام میں، ترجمہ مریم میر احمدی جلد ۲ ص ۲۲۰۔

۶۰۔ خطیب بغدادی، کتاب تاریخ بغداد، جلد ۱۳ ص ۶ حدیث ۳۲۵۔ و ابن حجر عسقلانی، کتاب تھذیب التھذیب جلد ۱۰ ص ۴۰۱۔

۶۱۔ محمد بن سیرین بصری (۳۳۔۱۱۰ ھ ق مطابق ۶۵۳۔ ۷۲۹ ع) فقیہ و محدث، ابتداء میں بزاز تھے مگر بعد میں تقوی و تعبیر خواب میں شہرت حاصل کی۔

۶۲۔ حسن بن یسار بصری (۳۳۔۱۱۰ ھ ق مطابق ۶۴۲۔ ۷۲۸ ع) تابیعین میں سے ییں، اھل بصرہ کے امام اور فقیہ، محدث، اھل عبادت و شجاع تھے، بصرہ میں انتقال ہوا۔

۶۳۔ عطاء بن اسلم بن اسلم بن صفوان (۲۷۔ ۱۱۴ ھ ق مطابق ۶۴۷۔ ۷۳۲ ع) مکہ کے محدث، مفسر اور فقیہ تھے۔

۶۴۔ سعید بن مسیب بن حزن ۱۳۔۹۴ ھ ق مطابق ۶۳۴۔ ۷۱۳ ع) تابعین کے سید و سردار اور مدینہ کے سات فقہاء میں سے ہیں، محدث و فقیہ و صاحب تقوی و ورع تھے۔

۶۵۔ مزی، کتاب تھذیب الکمال، جلد ۲۹ ص ۴۴۳

مسجد الحسین – قاهره ؛ مصر

مسجد الحسین – قاهره ؛ مصر

مسجد الحسین (دیگر نام: مسجد سیدنا الحسین، مسجد حسین،مسجد راس الحسین) قاہرہ، مصر کی ایک قدیم مسجد ہے جو 549ھ (1154ء) میں تعمیر ہوئی۔ تحقیق کے مطابق یہ مسجد فاطمی خلفاء کے ایک قبرستان کی زمین پر تعمیر کی گئی۔ یہ مسجد کا تبرکات بهت مشہور ہے - اس کے علاوہ یہ مشہور ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک جو اولاً دمشق، شام میں دفنایا گیا تھا، یہاں لا کر دفنایا گیا مگر زیادہ روایات یہ ہیں کہ یہ سرِ اقدس واپس کربلا ، عراق لے جا کر دفنایا گیا تھا۔

مسجد الحسین – قاهره ؛ مصر

تاریخ :

مسجد الحسین 549ھ (1154ء) میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے امام حسین علیہ السلام کے نام پر تعمیر ہوئی۔

مسجد الحسین – قاهره ؛ مصر

بعد میں مسجد میں وہ جگہ شامل کردی گئی جہاں مشہور روایات کے مطابق امام حسين علیہ السلام کا سر مبارک دفن تھا۔

مسجد الحسین – قاهره ؛ مصر

مسجد پر موجود کھدی ہوئی تحریروں کے مطابق 634ھ (1237ء) میں ایک مینار تعمیر کیا گیا اور مسجد میں ستونوں کا اضافہ کیا گیا۔

مسجد الحسین – قاهره ؛ مصر

1175ھ (1761-62ء) میں امیر عبدالرحمٰن کتخدا نے مینار کے اوپر والے حصے اور گنبد کی تعمیر کی۔ 1279ھ (1863ء) میں خدیو اسماعیل نے مسجد کو وسیع کیا۔ کام 1290ھ (1873ء) تک جاری رہا۔

مسجد الحسین – قاهره ؛ مصر

ایک نئے مینار کی تعمیر 9579ھ (1878ء) تک جاری رہی۔

مسجد الحسین – قاهره ؛ مصر

مسجد میں پنتالیس ستون ہیں جو سنگِ مرمر سے بنے ہیں اور چھت کے اندرونی حصہ پر مہنگی لکڑی کا کام ہے۔ محراب کی تعمیر و تزئین 1303ھ (1886ء) میں کی گئی۔

مسجد الحسین – قاهره ؛ مصر

مسجد میں زبردست خطاطی اور نقاشی دیکھی جا سکتی ہے جس میں سے کچھ کافی قدیم ہے۔

مسجد الحسین – قاهره ؛ مصر

مسجد کے تبرکات

مسجد الحسین – قاهره ؛ مصر

مسجد میں کئی تبرکات ہیں جن کو کثیر تعداد میں لوگ دیکھنے آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

1-مسجد میں قرآن کا ایک 1400سال کے قریب پرانا نسخہ موجود ہے جو مکمل ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہ نسخہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور سے تعلق رکھتا ہے اور وہ نسخہ ہے جو ان کے دور میں یکجا کر کے مختلف علاقوں میں بھیجنے کے ساتھ مصر میں بھی بھیجا گیا تھا۔ روایات کے مطابق یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ یہ نسخہ مختلف حکمرانوں کے پاس رہا۔ جدید دور میں چمڑے پر لکھے ہوئے اس نسخہ کو محفوظ کیا گیا ہے۔ یہ نسخہ ایسے خط میں ہے جو مدینہ میں چودہ سو سال پہلے قرآن کی کتابت کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ یہ دنیا میں قرآن کا ایسا قدیم ترین نسخہ ہے جو مکمل قرآن پر مشتمل ہے۔

مسجد الحسین – قاهره ؛ مصر

2. حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی داڑھی کے کچھ بال

 

3.حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب ایک سرمہ دانی

مسجد الحسین – قاهره ؛ مصر

4. روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک یہاں لا کر دفن کیا گیا تھا مگر اس کا کوئی واضح ثبوت نہیں اور اکثر روایات کے مطابق سر مبارک پہلے دمشق میں دفنایا گیا اور بعد میں جسم کے ساتھ کربلا میں دفنا دیا گیا

مسجد الحسین – قاهره ؛ مصر

مسجد کے باهر

مسجد کے باهر رات میں ايك خوبصورت منظر

اسلام،خواتين کيلئے ايک عظيم و بلند مقام و مرتبے کا قائل ہے اور انہيں مشخص شدہ حقوق اور عملي زندگي خصوصاً خاندان کے قيام ودوام ميں بنيادي کردار عطا کرتا ہے اور اِسي طرح اُن کے اور مردوں کے درميان فطري اورمنطقي حدود کو معين کرتاہے ۔

 

خواتين کيلئے اسلام کي سب سے بڑي خدمت، معاشرے کے اِس اہم طبقے اور اُن کے حقوق کي نسبت عمومي نظر وزاويے کي اصلاح اور خواتين کو ايک جامع خانداني نظام اورمعاشرتي زندگي ميں ايک اہم کردار دلانا ہے ۔ اس سلسلے ميں خانداني نظام زندگي ميں اُن کے حقوق اور مقام و مرتبے کو استحکام بخشنا، فضول خرچي، شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، تجمّل پرستي، زينت و آرائش کو ظاہر نہ کرنا اور جنسي و مادي امور ميں سرگرمي کو ممنوع قرار دينا اور خواتين کے رُشد و معنوي ترقي اوربلند وبالا انساني مقامات تک رسائي کے امکانات فراہم کرنا، اسلام کي ہدايت اور منصوبہ بندي ميں شامل ہيں ۔

 

عورت، عالم ہستي کا اہم ترين عنصر

 

عورت ، عالمِ خلقت کے اہم ترين امور کي ذمہ دار

ميري بہنو! خواتين کا موضوع اورمعاشرے کا اُس سے برتاو اور رويہ ايسا مسئلہ ہے جو ہميشہ سے مختلف معاشروں اورمختلف تہذيب وتمدن ميں زير گفتگو رہا ہے ۔ اس دنيا کي نصف آبادي ہميشہ خواتين پر مشتمل رہي ہے ۔ دنيا ميں زندگي کا قيام جس تناسب سے مردوں سے وابستہ ہے،اُسي طرح خواتين سے بھي مربوط ہے ۔خواتين نے عالم خلقت کے بڑے بڑے کاموں کو فطري طور پر اپنے ذمے ليا ہوا ہے اور تخليق کے بنيادي کام مثلاًبچے کي پيدائش اورتربيت اولاد ، خواتين کے ہاتھوں ميں ہيں ۔ پس خواتين کا مسئلہ بہت اہم مسئلہ ہے اور مختلف معاشروں ميں مختلف مفکرين اورمختلف اقوام وملل کے اخلاق وعادات ميں ہميشہ سے موضوع بحث رہا ہے ۔ اسلام نے اِن اہم موضوعات ميں سے ايک اہم موضوع کو منتخب کرکے اُسے افراط و تفريط سے بچاتے ہوئے دنيا کے تمام لوگوں کو خبردارکيا ہے ۔

 

خواتين مرد کے شانہ بشانہ بلکہ اُن سے بھي آگے؟!

 

اسلام نے اُن مردوں کو جو اپنے قدرت مند جسم يا مالي توانائي کي وجہ سے مردوں اور خواتين کو اپنا نوکر بناتے ، اُن سے خدمت ليتے اور خواتين کو اذيت وآزار اور کبھي کبھي تحقير کا نشانہ بناتے تھے، مکمل طور پر خاموش کرديا ہے اور خواتين کو اُن کے حقيقي اور مناسب مقام تک پہنچايا ہے بلکہ خواتين کو بعض جہات سے مردوں کے شانہ بشانہ لاکھڑا کيا ہے ۔ ’’اِنَّ المُومِنِينَ وَالمُومِنَاتِ وَالمُسلِمِينَ والمُسلِماتِ?‘‘ (قرآن بيان کررہا ہے کہ ) مسلمان مرد اورمسلمان عورت، عابد مرد اور عابدعورت اور نماز شب پڑنے والا مرد اور نماز شب ادا کرنے والي عورت ۔

 

س اسلام نے انساني درجات اور روحاني مقامات کو مرد وعورت کے دميان برابر برابر تقسيم کيا ہے ۔ (يعني ان مقامات تک رسائي ان دونوں ميں سے کسي ايک سے مخصوص نہيں ہے بلکہ دونوں ميں سے کوئي بھي يہ مقام حاصل کرسکتا ہے)۔ اس زاويے سے مرد وعورت ايک دوسرے کے مساوي اور برابر ہيں ۔ جو بھي خدا کيلئے نيک عمل انجام دے گا ’’مِن ذَکَرٍ اَو اُنثيٰ‘‘، خواہ مرد ہو يا عورت، ’’فَلَنُحيِيَنَّہُ حَيَاۃً طَيِّبَۃً‘‘ ١ ، ہم اُسے حيات طيبہ عطا کريں گے ۔

 

اسلام نے کچھ مقامات پر عورت کو مرد پر ترجيح دي ہے ۔ مثلاً جہاں مرد و عورت ،ماں وباپ کي صورت ميں صاحب اولاد ہيں ۔ اُن کي يہ اولاد اگرچہ کہ دونوں کي مشترکہ اولاد ہے ليکن اولاد کي اپني ماں کيلئے خدمت و ذمے داري باپ کي بہ نسبت زيادہ اور لازمي ہے ۔ اولاد پر ماں کا حق باپ کي بہ نسبت زيادہ ہے اورماں کي نسبت اولاد کا وظيفہ بھي سنگين ہے ۔

 

خاندان ميں عورت کا حق!

 

اس سلسلے ميں بہت زيادہ روايات نقل کي گئي ہيں ۔پيغمبر اکرم۰ سے کسي نے سوال کيا: ’’من عبر؟‘‘ (ميں کس سے نيکي کروں)۔ آپ۰ نے جواب ميں فرمايا ’’اُمَّکَ‘‘۔ يعني اپني ماں سے ۔ آپ۰ نے اس کے دوسرے سوال کے جواب ميں بھي يہ فرمايا اوراس کے تيسرے سوال کا يہي جواب ديا ليکن چوتھي مرتبہ جواب ميں فرمايا ’’اَبَاکَ‘‘ (اپنے باپ سے نيکي کرو)۔ پس خاندان کي چار ديواري ميں عورت کا اولاد پر حق بہت سنگين ہے ۔ البتہ اِس وجہ سے نہيں ہے کہ خداوند عالم يہ چاہتا ہے کہ ايک طبقے کو اکثريت پر ترجيح دے بلکہ يہ اِس جہت سے ہے کہ خواتين زيادہ زحمتيں برداشت کرتي ہيں ۔

 

يہ بھي عدل الٰہي ہے کہ خواتين کي زحمتيں زيادہ ہيں تو اُن کا حق بھي زيادہ ہے اور خواتين زيادہ مشکلات کا سامنا کرتي ہيں لہٰذا اُن کي قدر و قيمت بھي زيادہ ہے ۔ يہ سب عدالتِ الٰہي کي وجہ سے ہے ۔ مالي مسائل ميںمثلاً خاندان اور اُس کي سرپرستي کا حق اوراُس کے مقابل خاندان کو چلانے کي ذمہ داري ميں اسلامي روش ايک متوازن متعادل روش ہے ۔ اسلامي قانون نے اِس بارے ميں اتني سي بھي اجازت نہيں دي ہے کہ مرد يا عورت پر

 

-------------

 

١ سورئہ نحل / ٩٧

 

ذرہ برابر ظلم ہو۔ اسلام نے مرد وعورت دونوں کا حق الگ الگ بيان کياہے اور اُس نے مرد کے پلڑے ميں ايک وزن اور عورت کے پلڑے ميں دوسرا وزن رکھا ہے ۔ اگر اِن موارد ميں اہل فکر توجہ کريں تو وہ ان چيزوں کو ملاحظہ کريں گے ۔ يہ وہ چيزيں ہيں کہ جنہيں کتابوں ميں بھي لکھا گيا ہے ۔ آج ہماري فاضل اور مفکر خواتين الحمدللہ ان تمام مسائل کو دوسروں اور مردوں سے بہتر طور پر جانتي ہيں اوران کي تبليغ بھي کرتي ہيں ۔يہ تھا مرد و عورت کے حقوق کا بيان۔

 

اسلام اورحجاب

 

مرد اور عورت کي درمياني ’’حد‘‘ پر اسلام کي تاکيد

 

يہاں ايک بنيادي نکتہ ہے کہ جس پر اسلام نے بہت زيادہ تاکيد کي ہے اور وہ يہ ہے کہ تاريخ ميں مردوں کے مزاج ،عورتوں کي بہ نسبت سخت اور اِن کے ارادے مشکلات کا مقابلہ کرنے کي وجہ سے قوي اور جسم مضبوط رہے ہيں ۔ اِسي وجہ سے انہوں نے اہم ترين کاموں اور مختلف قسم کي ذمہ داريوں کو اپنے عہدے ليے ہوا تھا اور يہي وہ چيز ہے کہ جس نے مردوں کيلئے اپني جنس مخالف سے اپنے فائدے کيلئے سوئ استفادہ کرنے کے امکانات فراہم کيے ہيں ۔ آپ ديکھئے کہ بادشاہوں، ثروت مند، صاحب مقام و صاحب قدرت افراد ميں سے کون نہيں ہے کہ جس نے اپنے اپنے درباروں اور اپنے اپنے دارئرہ کار ميں اپنے مال و دولت اور مقام قدرت وغيرہ کے بل بوتے صنف نازک سے سوئ استفادہ ،دست درازي اور بے آبروئي کيلئے اقدامات نہ کيے ہوں؟!

 

يہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسلام اپني پوري قوت و قدرت کے ساتھ احکامات جاري کرتا ہے اور معاشرے ميں مرد وعورت کے درميان حد اور فاصلے کو قرار ديتا ہے اور ان کے درميان تعلقات ميں سختي و پابندي کرتا ہے ۔ اسلام کي رو سے کسي کو بھي يہ حق حاصل نہيں ہے کہ وہ اِس حد کو پائمال کرے اور اس قانون کي بے احترامي کر ے ، کيونکہ اسلام نے خاندان اور گھرانے کو بہت زيادہ اہميت دي ہے ۔ گھر کے گلشن ميں مرد و عورت کا باہمي رابطہ کسي اور قسم کا ہے اور معاشرے ميں کسي اور قانون کے تابع۔ اگر معاشرے ميں مردو عورت کے درميان حائل فاصلوں کے قانون کا خيال نہ رکھا جائے تو نتيجے ميں خاندان اور گھرانہ خراب ہوجائے گا۔ گھرانے ميں عورت پر اکثر اوقات اورمرد پر کبھي کبھار ممکن ہے ظلم ہو۔ اسلامي ثقافت ، مرد وعورت کے درميان عدم اختلاط کي ثقافت ہے ۔ ايسي زندگي، خوشبختي سے آگے بڑھ سکتي ہے اورعقلي معيار وميزان کي رعايت کرتے ہوئے صحيح طريقے سے حرکت کرسکتي ہے ۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسلام نے سختي کي ہے ۔

 

اسلام کي رو سے اگر معاشرے ميں (نامحرم) مرد اور عورت کے درميان فاصلے اور حد کو عبور کيا جائے،خواہ يہ خلاف ورزي مرد کي طرف سے ہو يا عورت کي طرف سے تو اسلام نے اِس معاملے ميں سخت گيري سے کام ليا ہے ۔ اسي نکتے کے بالکل مقابل وہ چيز ہے کہ جسے ہميشہ دنيا کے شہوت پرستوں نے چاہا اور اس پر عمل کرتے رہے ہيں ۔ صاحبان زر وزمين اور قدرت وطاقت رکھنے والے مرد،خواتين ، اُن کے ماتحت افراد اور اُن افراد نے کہ جنہوں نے اِن افراد کے ساتھ اور اِن کيلئے زندگي بسر کي، يہي چاہا ہے کہ مردو عورت کادرمياني فاصلہ اور حجاب ختم ہوجائے ۔ البتہ خود يہ امر معاشرتي زندگي اورمعاشرتي اخلاق کيلئے بہت برا اور مُضّر ہے ۔ يہ فکر و خيال اورعمل معاشرتي حيا و عفت کيلئے باعث زياں اور گھر و گھرانے کيلئے بہت نقصان دہ اور برا ہے اور يہ وہ چيز ہے کہ جو خاندان اورگھرانے کي بنيادوں کو متزلزل کرتي ہے ۔

 

حجاب و پردے ميں اسلام کي سنجيدگي

 

اسلام، خاندان اورگھرانے کيلئے بہت زيادہ اہميت کا قائل ہے ۔ مسلمانوں سے مغرب کي تمام پروپيگنڈا مشينريوں کا اختلاف اورجرح و بحث اِسي مسئلے پر ہے ۔ آپ ديکھئے کہ اہل مغرب حجاب و پردے کے مسئلے پرکتني حسّاسيت ظاہر کرتے ہيں! اگر يہ حجاب ، اسلامي جمہوريہ ميں ہو اُسے برا شمار کرتے ہيں، اگرعرب ممالک کي يونيورسٹيز و جامعات ميں ہو کہ جہاں جوان لڑکياں اپني معرفت، آگاہي اور اپنے تمام ميل و اختيار سے حجاب کا انتخاب کرتي ہيں ،تو اپني حساسيت ظاہر کرتے ہيں اور اگر سياسي پارٹيوں اور جماعتوں ميں حجاب ہو تو بھي ان کي بھنويں چڑھ جاتي ہيں ۔حتي اگرخود اُن کے اسکولوں ميں لڑکياں باحجاب ہوں تو باوجود يہ کہ يہ لڑکياں اُن کے ملک کي باشندہ ہيں ليکن پھر بھي يہ لوگ حجاب کي نسبت حسا س ہوجاتے ہيں ۔ پس اختلاف کي جڑ يہيں ہے ۔ البتہ خود يہ لوگ اپني پروپيگنڈا مشينري کے ذريعے ہر وقت فرياد بلند کرتے رہتے ہيں کہ اسلام ميں يا اسلامي جمہوريہ ميں خواتين کے حقوق کو پائمال کيا جارہا ہے ۔ حقيقت تو يہ ہے کہ خود اُن کو اس مسئلے کا يقين نہيں ہے اور وہ جانتے ہيں کہ اسلامي جمہوريہ ايران ميں خواتين کے حقوق کمزور اور پائمال ہونے کے بجائے اُن کا بہت زيادہ خيال رکھا جاتا ہے ۔

 

اسلامي انقلاب اورحقوق نسواں!

 

آپ توجہ کيجئے کہ آج ايران کے اعليٰ تعليمي اداروں اور جامعات ميں خواتين طالب علموں اور تحصيل علم ميں مصروف لڑکيوں کي تعداد زيادہ ہے يا زمانہ طاغوت ميں؟ توآپ ديکھيں گے کہ تعداد آج زيادہ ہے ۔ حصول تعليم کے ميدان ميں اچھي پوزيشن اور اچھے نمبر (درجات) لانے والي لڑکيوں کي تعداد آج زيادہ ہے يا شاہي حکومت کے زمانے ميں تھي ۔ وہ خواتين جو ہسپتالوں ، صحت کے مراکز اورمختلف علمي اداروں ميں کام اور تحقيق ميں مصروف عمل ہيں آج اُن کي تعداد زيادہ ہے يا گزشتہ زمانے ميںزيادہ تھي؟ وہ خواتين جو ملکي سياست اور بين الاقوامي اداروں ميں اپني شجاعت و دليري کے ذريعے اپنے ملک و قوم کے حقوق اور موقف کا دفاع کرتي ہيں، اُن کي تعداد آج زيادہ ہے يا انقلاب سے قبل اُن کي تعداد زيادہ تھي؟ آپ ديکھيں گے کہ ان کي تعداد آج پہلے کي نسبت زيادہ ہے ۔شاہي حکومت کے زمانے ميں خواتين مختلف گروپوں کي شکل ميں سياحت اور سفر کيلئے جاتي تھيں اور يہ سفر بہت اعليٰ پيمانے پر ہوتے تھے ليکن ہوس راني، شہوت پرستي اور اپني وضع قطع اورزينت و آرائش کو دوسروں کو دکھانے کيلئے ۔ ليکن آج کي مسلمان عورت بين الاقوامي اداروں ، بين الاقوامي کانفرنسوں، علمي مراکز اور جامعات ميں علمي ،سياسي اور ديگر قسم کي فعاليت انجام دے رہي ہے اور انہي چيزوں کي قدرو قيمت ہے ۔

 

مغربي اور مغرب زدہ معاشرے ميں خواتين کي صورتحال

 

طاغوتي ايام ميں ہماري لڑکيوں کو ’’آئيڈيل لڑکي‘‘اور ’’بہترين مثال‘‘ کے نام سے خاندان اور گھرانوں کے پاکيزہ اور پيار ومحبت سے لبريز ماحول سے باہر کھينچ کر برائيوں کي کيچڑ ميں ڈال ديتے تھے ليکن آج ايسي کوئي بات نہيں ۔ حقوق نسواں کہاں ضايع ہوتے ہيں؟ جہاں خواتين سے تحصيل علم، مناسب ملازمت ، اُن کي فعاليت اور خواتين کي خدمت کرنے جيسے اہم امور کے دروازے خواتين پر بند کرديے جاتے ہيں اور جہاں اُنہيں تحقير و تذليل کا نشانہ بنايا جاتا ہے ۔ جائيے اور امريکي معاشرے کو ديکھئے! آپ مشاہدہ کريں گے کہ اُس معاشرے ميں عورت کي کتني تحقير کي جاتي ہے! گھر کي عورت ، شوہر کي طرف سے اہانت کا نشانہ بنتي ہے اورماں اپنے بچوں کي طرف سے تحقير کا۔ ماں کے حقوق کہ جس طرح اسلامي مراکز اور معاشروں ميںموجود ہيں، اُس معاشرے ميں اُن کا تصور بھي ممکن نہيں ۔

 

خواتين، معاشرہ اور حجاب!

 

ميں نے ايک بين الاقوامي فورم ميں بہت ہي اہم اور معروف تقرير ميں خاندان اور گھرانے سے متعلق گفتگوکي ۔ بعد ميں جو رپورٹ ہميںملي وہ اِس بات کي عکاسي کررہي تھي کہ اُس ملک کے باشندوں نے ميري تقرير کے اُسي حصے کو بہت توجہ سے سنا اور بہت زيادہ پسنديدگي کا اظہار کيا ۔ وجہ يہ ہے کہ اُن ممالک ميں خاندان اور گھرانوں کي صورتحال بہت خراب ہوچکي ہے اور وہاں کے معاشرتي نظام ميں خواتين مختلف قسم کي ظلم کي چکي ميں پِس رہي ہے ۔ ليکن ہمارے يہاں مرد و عورت کے درميان ايک حد اورفاصلہ موجود ہے ۔ اِس حد اورفاصلے کا مطلب يہ نہيں ہے کہ مرد وعورت ايک جگہ علم حاصل نہيں کريں،ايک جگہ عبادت انجام نہ ديں اور ايک جگہ کاروبار اورتجارت نہ کريں، اس کي مثاليں ہمارے يہاں زيادہ موجود ہيں ، بلکہ اس کا معني يہ ہے کہ وہ اپني معاشرتي زندگي ميں اپنے اخلاق و کردار کيلئے اپنے درميان حد اور فاصلے کو قرار ديں اوريہ بہت اچھي چيز ہے ۔ ہمارے معاشرے ميں خواتين (مردوں کے ساتھ معاشرتي تعلقات کے باوجود) اپنے حجاب کي حفاظت کرتي ہيں ۔ ہماري عوام نے حجاب کيلئے چادر کو منتخب کيا ہے ۔ البتہ ہم نے کبھي يہ نہيں کہا کہ ’’حجاب و پردے کيلئے صرف چادرکو ہي ہونا چاہيے اورچادر کے علاوہ کوئي اور چيز قابل قبول نہيں ہے‘‘، ہاں ہم نے يہ کہا ہے کہ ’’چادر دوسري چيزوں سے زيادہ حجاب کيلئے موزوں اور بہترين ہے‘‘۔ ہماري خواتين اِس بات کي خواہاں ہيں کہ وہ اپنے پردے کي حفاظت کريں لہٰذا وہ چادر کو پسند کرتي ہيں ۔ چادر ہماري خواتين کا قومي لبا س ہے ۔ چادر قبل اس کے کہ اسلامي حجاب ہو، ايک ايراني حجاب ہے ۔ چادر ہماري عوام کا منتخب کيا ہوا حجاب اور خواتين کا قومي لباس ہے ۔

 

اسلامي جمہوريہ ايران ميں خواتين کي ترقي

 

ہمارے معاشرے ميں تعليم يافتہ،مسلمان اورباايمان خواتين کي تعدادبہت زيادہ ہے جو يا تحصيل علم ميں مصروف ہيں يا ملکي جامعات ميں اعليٰ درجے کے علوم و فنون کو بڑے پيمانے پر تدريس کررہي ہيں اوريہ بات ہمارے اسلامي نظام کيلئے باعث افتخار ہے ۔الحمد للہ ہمارے يہاں ايسي خواتين کي تعدادبہت زيادہ ہے کہ جو طب اور ديگر علوم ميں ماہرانہ اورپيشہ وارانہ صلاحيتوں کي مالک ہيں بلکہ ايسي بھي خواتين ہيں کہ جنہوں نے ديني علوم ميں بہت ترقي کي ہے اور بہت بلند مراتب ودرجات عاليہ تک پہنچي ہيں ۔ اصفہان ميں ايک بہت ہي عظيم القدرخاتون گزري ہيں ’’اصفہاني بانو‘‘ کے نام کي کہ جو مجتہدہ ، عارف و فقيہ تھيں ۔ اُس زمانے ميں صرف وہ تنِ تنہا تھيں ليکن آج بہت سي ايسي جوان لڑکياں ہيں جو مستقبل قريب ميں علمي، فلسفي اور فقہي اعليٰ مقامات تک رسائي حاصل کرنے والي ہيں اور ايسي خواتين کي تعداد بہت زيادہ ہے ۔ يہ خواتين ہمارے اسلامي نظام کيلئے باعث افتخار ہيں ۔ اِسے کہتے ہيں پيشرفت زن اور خواتين کي ترقي ۔١

 

 

 

خواتين کے بارے ميں اسلام کي نظر

 

خواتين کے بارے ميں تين قسم کي گفتگو اوراُن کے اثرات

 

الف: خواتين کي تعريف و ستائش کي گفتگو

 

پہلي قسم کي گفتگو انقلاب ميں خواتين کے فعال کردار کي تمجيد و ستائش کے بارے ميں ہے ۔ اسي طرح انقلاب کے بعد اور اسلامي تحريک کوپروان چڑھانے ميں خواتين کے موثر کردار کے بارے ميں بھي ہے کہ اگر انقلاب سے قبل اور انقلاب کے زمانے ميں خواتين اِس مبارزے اور تحريک ميں شرکت نہيں کرتيں تو يہ تحريک کبھي کامياب نہيں ہوتي ۔ يا موجودہ زمانے ميں خواتين کے کردار کو بيان کرنا ہو تو ہم ديکھتے ہيں جيسا کہ ذمے دار افراد ہميں رپورٹ ديتے ہيںکہ جامعات ميں خواتين کي تعداد زيادہ ہوگئي ہے ،خواتين بڑي بڑي ذمے داريوں کوقبول کررہي ہيں يا وہ عوامي ااجتماعات ميں اس طرح شرکت کرتي ہيں ۔ يہ گفتگو کا ايک ايسا سلسلہ ہے کہ جس پر بحث ہوني چاہيے اورہو بھي رہي ہے اور يہ بہتر بھي ہے ۔ يہ بحث و گفتگو نہ صرف يہ کہ ترغيب دينے والي بھي ہے بلکہ حقائق کو روشن بھي کرتي ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ يہ گفتگو اِس ميدان ميں اسلامي جمہوريہ کے موقف کو سامنے لاتي ہے ليکن خواتين کے مسائل کے مستقبل کيلئے بہت سودمند اور تاثير گزار نہيں ہے ۔

 

--------------

 

١ اکتوبر ١٩٩٤ ميں نرسوں کے ايک وفد سے خطاب

 

ب: خواتين کے بارے ميں اسلام کي نظر کي وضاحت دوسري قسم کي بحث و گفتگو ، خواتين کے بارے ميں اسلام کي نظر کو بيان کرنے کے بارے ميں ہے ۔ ايک جگہ ميں نے خواتين سے متعلق گفتگو کي، ميري بحث کا خلاصہ يہ تھا کہ اسلام بنيادي طور پر خواتين کوکس نگاہ و زاويے سے ديکھتا ہے ۔ ميں نے کہا تھا کہ عورت تين مقامات پراپنے وجود کو ثابت کرسکتي ہے ۔ اُن ميں سے ايک انساني کمال کا ميدان ہے ۔ اس بارے ميں اسلام کي نظر يہ ہے کہ ’’اِنّ المُسلمِينَ والمُسلماتِ والمومِنينَ و المُومنِاتِ والقَانِتِينَ وَالقاَنِتاتِ والصَّادِقِينَ والصَّادِقاتِ وَ الصَّابِرينَ والصَّابِراتِ والخَاشِعِينَ والخَاشَعَاتِ وَالمتَصَدِّقِينَ و المُتصَدِّقاتِ والصَّآئِمِينَ والصَّآئِمَاتِ وَالحَافِظِينَ فُرُوجَہُم وَالحَافِظَاتِ وَالذَّاکرِينَ اللّٰہَ کَثِيراً والذَّاکِراتِ‘‘ (مسلمان، مومن، صادق ، صابر ، خاشع، صدقہ دينے والے ، روزہ دار، شرمگاہوں کي حفاظت کرنے والے اور خدا کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد اورعورتيں)۔يہاں خداوند عالم نے مرد اورعورت کي دس بنيادي صفات کو کسي فرق و تميز کے بغير دونوں کيلئے بيان کيا ہے ۔ اس کے بعد خداوند عالم ارشادفرماتا ہے کہ ’’اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُم مَغفِرَۃً وَّ اَجراً عَظِيماً‘‘ ١ (اللہ نے ايسے مردوں اورخواتين کيلئے مغفرت اور اجر عظيم مہيا کيا ہے)۔ لہٰذا اِس ميدان ميں اسلام کي نظر کو معلوم کرنا اور اُسے بيان کرنا چاہيے ۔

 

دوسرا ميدان کہ جس ميں عورت اپنے وجود کو ثابت کرسکتي ہے، وہ اجتماعي فعاليت کا ميدان ہے، خواہ وہ سياسي فعاليت ہو، اقتصادي ہو يا اجتماعي يا کوئي اور غرضيکہ عورت، معاشرے ميں وجود رکھتي ہو۔ لہٰذا اِس ميدان ميں بھي اسلام کي نظر کي وضاحت کرني چاہيے ۔ خواتين کي فعاليت کاتيسرا ميدان؛ عائلي اور خانداني نظام زندگي ميں عورت کے ميدان سے عبارت ہے لہٰذا اس ميں بھي اسلام کي نظر کو واضح کرنے ضرورت ہے ۔

 

---------

 

١ سورئہ احزاب / ٣٥

 

ہمارے محققين و مقريرين ان تمام جہات ميں اسلام کي نظر بيان کررہے ہيں ۔ ہم نے بھي کچھ مطالب کو ذکر کيا ہے اور دوسرے افراد بھي گفتگو کررہے ہيں اور يہ بہت اچھي بات ہے ۔ ہماري نظرميں يہ بحث وگفتگو ، بہت مفيد اور اچھي ہے ۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسلامي نظريات اورمغربي دعووں کے درميان موازنہ ہونا چاہيے کہ يہ ديکھيں کہ اسلام اِن تين ميدانوں ميں خواتين کے کردار وفعاليت کو کس طرح بيان کرتا ہے اور اہل مغرب اِس بارے ميں کيا کہتے ہيں؟اور حق بھي يہي ہے اور عدل و انصاف بھي اِسي بات کي تائيد کرتا ہے کہ ان تينوں ميدانوں ميں عورت اورمعاشرے کيلئے اسلام کي نظر، دنيا ميں رائج تمام نظريات وگفتگو سے کئي مراتب بہتر، مفيد اور مضبوط ومستحکم ہے ۔

 

پس آپ توجہ کيجئے کہ دوسري قسم کي گفتگو اُن مطالب سے عبارت ہے کہ جہاں مختلف شعبوں ميں اسلام کي نظر بيان کي جاتي ہے اور يہ اچھي بات ہے ۔ اِن تمام کاموں کو بھي انجام پانا چاہيے اور يہ بالکل بجا ہيں ۔ ممکن ہے اس جگہ مختلف ابہامات اورغير واضح امور موجودہوں ۔چنانچہ ضروري ہے کہ افراد بيٹھيں، بحث کريں اور اپنے نظريے کو بيان کريں تو اُس وقت اُس گفتگو کو باآساني اور بہترين طريقے سے زير بحث لايا جاسکتا ہے جو گزشتہ کچھ عرصے سے فقہي حوالے سے ہمارے کانوں ميں پہنچ رہي ہے اور وہ يہ ہے کہ کيا خواتين قاضي بن سکتي ہيں اور کيا خواتين اجتماعي ، معاشرتي اور سياسي منصب کي حامل ہوسکتي ہيں؟

 

ج: معاشرتي اورگھريلو زندگي ميں خواتين کي مشکلات

 

تيسري قسم کي بحث وگفتگو ’’خواتين کي مشکلات‘‘ کے بارے ميں ہے کہ اِس بندئہ حقير کي نظر ميں اس مسئلے پر ہميں اپني فکر کو متمرکز کرنا چاہيے ۔ چنانچہ اگر ہم نے اس مسئلے کا صحيح حل نہيں نکالا توگزشتہ دوونوں قسم کي گفتگو اوربحث ، خواتين کے مسائل کے حل کے سلسلے ميں کسي کام نہيں آسکيں گي ۔ ديکھنا چاہيے کہ عورت کو معاشرے ميں کن مشکلات کا سامنا ہے؟اور اس سے بھي اہم بات يہ کہ عورت اپني عائلي اورگھريلو زندگي ميں کن مشکلوں سے دوچار ہے؟

 

کون سي گفتگو اہم ہے؟

 

آپ خواتين کو جو ’’حقوق نسواں اور اُن کے مسائل‘‘ کے ميدان ميں سرگرم عمل ہيں، اِس بات پر ہرگز قانع نہيں ہونا چاہيے کہ کوئي اِس سلسلے ميں يا ايک عورت کے فلاں عہدے کو لینے يا نہ لينے يا ديگر مسائل ميں اسلام کي نظر کو بيان کرنے کيلئے کتاب لکھے ۔ لہٰذا اِن چيزوں پر قانع ہوکر اپني فعاليت کو متوقف نہيں کرنا چاہيے بلکہ براہ راست خواتين کي مشکلات کے حل کيلئے اقدامات کرنے چاہئيں ۔

 

خواتين سے متعلق صحيح اورغلط نظريات

 

جہالت ، خواتين پر ظلم کا اصل سبب

اس بندئہ حقير کا بيان ہے کہ پوري تاريخ ميں اور مختلف معاشروں ميں عورت ظلم وستم کانشانہ بني ہے ۔ ايک جگہ ميں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اِس ظلم و ستم کي وجہ کيا ہے ۔يہ تمام ظلم و ستم ، انسان کي جہالت کي وجہ سے سامنے آتے ہیں ۔ اِس جاہل انسان کي طبيعت و مزاج يہ ہے کہ جہاں بھي اُس کے سر پرکوئي زورزبردستي کرنے والا نہ ہو، يا خود اُس کے اندر سے يعني واضح اور مضبوط ايمان (کہ اِس کي مثال بہت کم ہے) يا اُس کے باہر سے کسي قانون کا دباو نہ ہو يا اس کے سر پر کوئي تلوار يا قانون کا ڈنڈا نہ ہو تو معمولاً ايسا ہوتا ہے کہ طاقت ور موجود، کمزور پر ظلم کرتا ہے ۔

 

گھر کي حقيقي سربراہ، عورت ہے اور مرد ظاہري حاکم

 

البتہ عورت عقلي اعتبار سے مرد سے ضعيف وکمزور نہيں ہے بلکہ بعض اوقات اُس سے زيادہ قوي ہے ۔ اگرچہ کہ عورت کا انداز فکر، مرد کے اندازفکر سے مختلف ہے اور دونوں کے احساسات وجذبات ميں فرق ہے کيونکہ دونوں کے احساسات وجذبات ايک خاص کام کيلئے خلق کيے گئے ہيں اور انساني وجود ميں اُنہيں وديعت کيا گيا ہے ۔ بعض مقامات پر مثلاً ايک علمي مسئلے کے بارے ميں زنانہ اور مردانہ انداز فکر ميں کسي قسم کا فرق نہيں ہوتاہے ليکن زندگي کو چلانے ميں دونوں کے انداز فکر مختلف ہوتے ہيں ۔ عاقل اورپختہ عمر کي خواتين ميں يہ بات رائج ہے ، ميں نے بارہا اپني بزرگ اور بڑي خواتين سے سنا ہے اور صحيح سنا ہے کہ وہ کہتي ہے کہ ’’مرد ايک بچے کي مانند ہے‘‘ ، اور بالکل ٹھيک کہتي ہيں اورحقيقت بھي يہي ہے ۔ ايک عالم ،فاضل اور باشعور مرد بغير کسي ذہني بيماري و خلل کے اپنے گھر ميں اپني بيوي کے مد مقابل اور اُس کے ساتھ زندگي گزارنے ميں ايک بچے کي مانند ہے اور بيوي اُس بچے کي ماں کي طرح! جس طرح اگر ايک بچے کي غذا ميں تھوڑي تاخير ہوجائے تو وہ رونے چلانے لگتا ہے ۔ لہٰذا اُسے کسي بھي صورت ميں قانع کرنا اور چپ کرانا چاہيے ورنہ وہ ضد کرنے لگتا ہے ۔چنانچہ اگرايک عورت اپني مہارت سے ان کاموں کو انجام دے سکے تو ايک مرد اُس کے ہاتھوں رام ہوجاتا ہے ۔

 

آپ توجہ فرمائيے کہ ميں ان باتوں کو کيوں نقل کررہا ہوں ؟ميں نہيں چاہتا کہ مرد کے ايک بچہ ہونے پر دستخط کروں، البتہ يہ اور بات ہے کہ يہ ايک حقيقت ہے، ليکن اس بات کو بيان کرنے ميں ميري مراد يہ نہيں ہے بلکہ ميرے پيش نظر يہ نکتہ ہے کہ مرد اور عورت کي ذہنيت ايک دوسرے سے مختلف ہے ۔ عورت کي پختگي و مہارت اُس کے اپنے دائرہ فعاليت ميں اُس کے کام آتي ہے ۔ يعني ايک عورت گھر کي چار ديواري ميں يہ سمجھتي ہے کہ مرد ايک بچے کي مانند ہے، لہٰذا اُس کا کھانا وقت پر تيار کرنا چاہيے تاکہ وہ بھوکا نہ رہے ورنہ وہ بداخلاق ہوجائے گا۔ لہٰذا بہانے کا کوئي بھي موقع ہاتھ سے دنيا نہيں چاہيے ۔ يافرض کيجئے کہ مرد اعتراض کرتا ہے تو اُسے کسي بھي طريقے سے قانع کرنا چاہيے ۔اِس نکتے کي طرف بھرپور توجہ کيجئے! عاقل اور پختہ خواتين پوري مہارت سے يہ کام انجام ديتي ہيں اور مرد کي حرکات وسکنات ،رفتار وعمل اور ذہنيت کو پوري طرح کنٹرول ميں رکھتي ہيں ۔ بنابرايں، گھر ميں حقيقي سربراہ عورت ہے جبکہ علي الظاہر ،مرد ظاہري سربراہ ہے، اس ليے کہ وہ بھاري آواز ، مضبوط جسامت اور لمبے قد کاٹھ کا مالک ہوتاہے ۔

 

پس مطلب کو اس طرح بيان کرتے ہيں کہ بعض خواتين کي ذہنيت و عقل مردوں سے زيادہ مستحکم ہے يا وہ تفکر، علم اور احساسات وغيرہ ميں مرد جيسي ہيں ليکن عورت کاجسم بطور متوسط مرد سے کمزور ہوتا ہے ۔ توجہ کيجئے! بنيادي نکتہ يہي ہے ۔ ايک مثال فرض کيجئے کہ جہاں ايک عقل مند انسان ايک جاہل اور بدمعاش انسان کے ساتھ ہو اور ان ميں سے کسي ايک کو پاني پينا ہو (اور پاني کا ايک ہي گلاس موجود ہو)۔ قاعدۃً جس کي طاقت زيادہ ہوگي وہ پاني پي جائے گا مگر يہ کہ کسي طرح اُسے دھوکہ ديا جائے اورپاني کا گلاس اُس سے چھين ليا جائے ۔ تاريخ ميں ہميشہ سے يہي ہوتا رہا ہے ۔ مرد حضرات اپنے لمبي قدوقامت ،بھاري آواز اورمضبوط جسامت اور پٹھووں کي وجہ سے خواتين پر ان کے نازک اندام ہونے، نرم لب ولہجے، نسبتاً چھوٹے قد اور کمزور جسموں کي بنائ پر اُن پر ظلم کرتے رہے ہيں! يہ ايک حقيقت ہے، ميري اپني نظر ميں اگر آپ اِس ماجرا کي تہہ تک پہنچيں اور تحقيق کريں تو آپ اِس مقام پر پہنچيں گي کہ تمام ظلم و ستم کي وجہ يہي ہے ۔

 

خواتين سے متعلق روايات ميں ظالمانہ فکر و عمل سے مقابلہ

 

ہاں البتہ اگر کوئي قانون يا بہت شديد قسم کي محبت يا مستحکم ايمان جيسا معنوي عامل موجود ہو تو وہ ان تمام ظلم و ستم کا سدّباب کرسکتا ہے ۔البتہ ايمان کو مضبوط و مستحکم ہونا چاہيے ورنہ بہت سے علمائ ہيں کہ جن کا ايمان تو بہت اچھاہے ليکن اُسي کے ساتھ ساتھ اُن کا اپني زوجات سے برتاو اور سلوک اچھا نہيں ہے لہٰذا ايسے لوگ ہماري مجموعي بحث کے زمرے ميں آتے ہيں ۔ ہميں صرف اِس بات کي وجہ معلوم کرني چاہيے کہ تاريخ ميںخواتين ہميشہ ظلم و ستم کا نشانہ کيوں بني ہيں؟ پيغمبر اکرم۰ کے زمانے ميں بھي يہ ظلم وستم ہوا ہے اور آنحضرت۰ نے اِس ظلم سے مقابلہ کيا ہے ۔ يہ جو پيغمبر اکرم۰ نے خواتين کے بارے ميں اتني باتيں ارشاد فرمائي ہيں، صرف اِسي ظلم وستم سے مقابلے کيلئے ہيں ۔ اگر وہ صرف مقامِ زن کو بيان کرنا چاہتے تو اِس قسم کے پُرجوش و پُراحساس بيانات کي ضرورت نہيں تھي ۔ خواتين کے بارے ميں حضرت ختمي مرتبت۰ کے احساسات واظہارات اِس چيز کي عکاسي کرتے ہيں کہ آپ ايک چيز سے مقابلہ کرنا چاہتے ہيں اور وہ خواتين پر ہونے والا ظلم ہے اورپيغمبر اکرم ۰ اِس ظلم کے مقابل کھڑے ہيں ۔

 

معاشرتي اورگھريلو زندگي ميں خواتين کے ساتھ زندگي گزارنے کے بارے ميں حضرت ختمي مرتبت۰ اور آئمہ اہل بيت عليہم السلام سے جو روايات ١ نقل کي گئي ہيں وہ اِسي ظالمانہ فکر اورستمگرانہ رويے اور عمل سے مقابلے کي خاطرہے ۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ يہ ظلم و ستم ہمارے زمانے ميں بھي جاري ہے البتہ صرف ہمارے معاشرے سے مخصوص نہيں ہے ۔ليکن اس بات کي طرف ہم سب کي توجہ ہوني چاہيے کہ پوري دنيا ميں يہ ظلم موجود ہے اور مغرب ميں بہت ہي بدترين شکل ميں موجود ہے ۔

 

١ وسائل الشيعہ، جلد ٢٠، صفحہ ٣٢٤۔ ٣٥٤

 

اہل مغرب کي ايک ظاہري خوبصورتي مگر درحقيقت ؟!

 

اہل مغرب صرف ايک خصوصيت کے حامل ہيں کہ اگر خود اُس کے مقام پر اُس کے بارے ميں قدرے تآمل اورغوروفکر کيا جائے تومعلوم ہوگا کہ اُن کي يہ خصوصيت مثبت نہيں ہے ۔ ليکن مغربي معاشرے ميں کئي مقامات پر اس خصوصيت وعادت کو بہت زوروشور سے بيان کيا جاتا ہے کہ گويا وہاں ظلم کا سرے سے وجود ہي نہيں ہے ۔ وہ عادت و خصوصيت يہ ہے کہ اہل مغرب مرد و عورت کے آپس ميں رويے ، سلوک اوربرتاو کو عورت سے عورت يا مرد سے مرد کے برتاو کے مثل قرار ديتے ہيں يعني وہ ان دو جنس (مرد وعورت) ميں کسي بھي فرق کے قائل نہيں ہيں ۔ کوچہ و بازار ہو يا گھر کي چار ديواري ،وہ دوستي ورفاقت اور معاشرت ميں اسي رفتار کے حامل ہيں ۔ ظاہر ميں يہ عادت وسلوک بہت دلچسپ اورجالب نظرآتا ہے ليکن جب آپ اس کي حقيقت تک پہنچتے ہيں تو معلوم ہوتا ہے کہ يہ امر غلط اور منفي ہے اوراسلام اس کي ہرگز تاکيد نہيں کرتا ہے ۔ اسلام نے مرد وعورت کے درميان ايک حجاب اور فاصلہ رکھا ہے کہ يہ دونوں اپني معاشرتي زندگي ميں اس حجاب اور حدود کي رعايت کريں ۔

 

بنابرايں ہم جس ظلم وستم کي بات کررہے ہيں وہ صرف ايراني معاشرے يا گزشتہ دور سے ہي مخصوص نہيں ہے بلکہ تاريخ کے مختلف زمانوں سے ليکر آج تک ايران سميت دنيا کے مختلف ممالک ميں اس کا وجود رہا ہے ۔ آج بھي يہ ظلم پوري دنيا ميں موجود ہے، اسي طرح مغربي ممالک خصوصاً امريکہ اور بعض يورپي ممالک ميں خواتين کو اذيت و آزارپہنچانے کے واقعات، اُن سے ظالمانہ سلوک و طرز عمل ، شکنجے اورمصيبتيں دوسري ممالک کي نسبت بہت زيادہ ہيں ۔ اس کے اعداد وشمار بہت زيادہ ہيں، البتہ ميں نے خود ان اعداد وشمار کو مغربي اور امريکي مطبوعات ميں ديکھا ہے نہ يہ کہ ہم اِس کو کسي کي زباني نقل کررہے ہيں ۔ يہ تو وہ چيز ہے کہ جسے انہوں نے خوداپني زبان سے بيان کيا ہے ۔ لہٰذا اس ظلم و ظالمانہ رويے اور عمل سے مقابلے کي ضرورت ہے ۔