Super User
ملکہء سبا
ملکہء سبا حضرت سلیمان کی حکومت عظیم تھی چرند پرند حیوانات جن وغیرہ انکے تابع ، جب سفر کر تے ہوا کے دوش پر سوار سائیباں کے طور پر پرندے بالا سر ہوتے تاکہ دھوپ سے بچ جائیں ،جگہ خالی دیکھی معلوم ہوا کہ ہد ہد نہیں ہے ۔ ناراضگی کا اظہار کیا ہد ہد نے حاضری کے بعد ملکہ سبا کی حکومت کا تذکرہ کیا۔ ارشاد رب العزت ۔
إِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَأَةً تَمْلِکُہُمْ وَأُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ وَّلَہَا عَرْشٌ عَظِیمٌ وَجَدْتُّہَا وَقَوْمَہَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللہ ۔
" میں نے ایک عورت دیکھی جو ان پر حکمران ہے اسکے پاس ہر قسم کی نعمت موجود ہے اور اسکا ایک عظیم الشان تخت ہے میں نے دیکھا کہ وہ اور اسکی قوم اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں ۔ " (نمل: ۲۲تا۲۳)
حضرت سلیمان نے خط دیا کہ وہاں ڈال آئے ۔ خط کا مضمو ن إِنَّہ مِنْ سُلَیْمَانَ وَإِنَّہ بِاِسْمِ اللہ الرَّحْمَانِ الرَّحِیْمِ أَلاَّ تَعْلُوْا عَلَیَّ وَأْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ۔ (ملکہ نے کہا دربار لگاؤ میری طرف ایک محترم خط آیا ہے یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور وہ یہ ہے) خدا کے رحمان و رحیم کے نام سے شروع ۔ تم میرے مقابلہ میں بڑائی مت کرو اور فرماں بردار ہو کر میرے پاس چلے آؤ۔ (نمل: ۳۰تا۳۱)
امراء و وزراء سے مشورہ کیا۔ عام طور پر بادشاہ جب کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو معزز لوگ بھی ذلیل ہو جاتے ہیں ۔ طے ہوا کہ ہدیہ بھیج کر دیکھا جائے کہ کیا صورت حال ہے۔
حضرت سلیمان نے ہدیہ قبول نہیں کیا۔ فرمایا کون ہے ۔ جوتخت بلقیس کو لائے۔ عفریت (جو جن تھا)
کہنے لگا میں حاضر۔ لیکن ایک وزیر آصف بن برخیا تھا عرض کرنے لگا۔ پلک جھپکنے میں پیش کر سکتا ہوں پھر دیکھا کہ تخت سامنے موجود ہے۔ جب ملکہ بھی آگئی ۔ تو اسے محل کی طرف بلایا گیا۔
ارشاد رب العزت قِیْلَ لَہَا ادْخُلِی الصَّرْحَ فَلَمَّا رَأَتْہُ حَسِبَتْہُ لُجَّةً وَّکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْہَا قَالَ إِنَّہ صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِیْرَ قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
. "ملکہ سے کہا گیا محل میں داخل ہو جائیے ۔ جب سامنے محل کو دیکھا تو خیال کیا کہ وہاں گہرا پانی ہے اور اس نے اپنی پنڈلیاں کھول دیں۔ سلیمان نے کہا یہ شیشہ سے مرصع محل ہے۔ ملکہ نے کہا۔ پروردگار میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اب میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین پر ایمان لاتی ہوں۔" (نمل:۴۴) جب تک یہ عورت سورج پرست تھی ۔ کافرہ مشرکہ سزا کی مستوجب جب ایمان لائی۔ صالح عمل بجا لائی تو بارگاہ رب العزت میں معزز و مکرم ٹھہری۔ اصل مسئلہ ارتباط بہ خدا ہے اور یہاں مرد و عورت میں مسابقت ہے پس جو بازی لے جائے۔
معاشرے میں عورت کا کردار اور حقوق

انسانی معاشرے میں عورت کا کردار
عورت اور معاشرے میں اس کے ساتھ ہونے والے برتاؤ کا موضوع قدیم ایام سے ہی مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں زیر بحث رہا ہے۔ دنیا کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے۔ دنیا میں انسانی زندگی کا دار و مدار جتنا مردوں پر ہے اتنا ہے عورتوں پر بھی ہے جبکہ فطری طور پر عورتیں خلقت کے انتہائی اہم امور سنبھال رہی ہیں۔ خلقت کے بنیادی امور جیسے عمل پیدائش اور تربیت اولاد عورتوں کے ہاتھ میں ہے۔ معلوم ہوا کھ عورتوں کا مسئلہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اور قدیم زمانے سے ہی معاشروں میں مفکرین کی سطح پر اسی طرح مخلتف قوموں کی رسوم و روایات اور عادات و اطوار میں اس پر توجہ دی جاتی رہی ہے۔
عورت کے سلسلے میں منطقی نقطہ نظر
عورت کو ایک بلند مرتبہ انسان کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے تاکہ معلوم ہو کھ اس کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیا ہے؟ عورت کو ایسی مخلوق کے طور پر دیکھا جانا چاہئے جو بلند انسانوں کی پرورش کرکے معاشرے کی فلاح و بہبود اور سعادت و کامرانی کی راہ ہموار کر سکتی ہے، تب اندازہ ہوگا کہ عورت کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیسی ہونا چاہئے۔ عورت کو خاندان اور کنبے کے بنیادی عنصر وجودی کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے، ویسے کنبہ تو مرد اور عورت دونوں سے مل کے تشکیل پاتا ہے اور دونوں ہی اس کے معرض وجود میں آنے اور بقاء میں بنیادی کردار کے حامل ہیں لیکن گھر کی فضا کی طمانیت اور آشیانے کا چین و سکون عورت اور اس کے زنانہ مزاج پر موقوف ہے۔ عورت کو اس نگاہ سے دیکھا جائے تب معلوم ہوگا کہ وہ کس طرح کمال کی منزلیں طے کرتی ہے اور اس کے حقوق کیا ہیں؟
صنف نسواں پر تاریخی ظلم
پوری تاریخ میں مختلف معاشروں میں عورتوں کے طبقے پر ظلم ہوا ہے۔ یہ انسان کی جہالت کا نتیجہ ہے۔ جاہل انسان کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ اگر اس کے سر پر کوئی سوار نہیں ہے اور کوئی طاقت اس کی نگرانی نہیں کر رہی ہے، خواہ یہ نظارت انسان کے اندر سے ہو جس کا اتفاق بہت کم ہی ہوتا ہے یعنی قوی جذبہ ایمانی، اور خواہ باہر سے ہو یعنی قانون، اگر قانون کی تلوار سر پر لٹکتی نہ رہے تو اکثر و بیشتر یہ ہوتا ہے کہ طاقتور، کمزور کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتا ہے۔
حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ پوری تاریخ میں ہمیشہ عورت ظلم کی چکی میں پسی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ عورت کی قدر و منزلت اور مقام و اہمیت کو نہیں سمجھا گیا۔ عورت کو اس کی شان و شوکت حاصل ہونا چاہئے، عورت ہونے کی وجہ سے اس پر کوئی زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ بہت ہی بری چیز ہے۔ خواہ وہ زیادتی ہو جو عورت پر کی جاتی ہے اور اسے زیادتی کہا بھی جاتا ہے اور خواہ وہ زیادتی ہو کھ جسے سرے سے زیادتی سمجھا ہی نہیں جاتا جبکہ فی الواقع وہ ظلم ہے، زیادتی ہے۔ مثلا یہی بننا سنورنا، واہیات میک اپ اور اسے استعمال کی چیز بنا دینا۔ یہ عورت پر بہت بڑا ظلم اور سراسر زیادتی ہے۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ عورت کے حق میں سب سے بڑی نا انصافی ہے کیونکہ یہ چیز اسے ارتقاء اور کمال کے تمام اہداف اور امنگوں سے غافل اور منحرف کرکے انتہائی بے وقعت اور گھٹیا چیزوں میں مشغول کر دیتی ہے۔
دنیا میں عورت کا مسئلہ
انسان نے اپنے تمام تر دعوؤں کے باجود، اپنی تمام تر پر خلوص اور ہمدردانہ مساعی کے باوجود، عورت کے سلسلے میں انجام دئے جانے والے علمی و ثقافتی کاموں کے باوجود ہنوز دونوں صنفوں بالخصوص صنف نازک کے بارے میں کوئی صحیح راستہ منتخب اور طے کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔
دوسرے لفظوں میں، زیادہ روی، کجروی اور غلط نتائج نکالنے اور پھر اسی بنا پر زیادتی، نا انصافی، ذہنی امراض، خاندان سے متعلق مسائل، دونوں صنفوں کے روابط اور میل ملاپ سے متعلق مشکلات آج بھی انسانی معاشرے میں لا ینحل باقی ہیں۔ یعنی جس انسان نے مادی شعبوں میں، فلکیات کے میدان میں، سمندروں کی گہرائیوں میں اتر کر بے شمار دریافتیں کیں اور جو نفسیات کی مو شگافی اور سماجی و معاشی امور میں باریک بینی کا دم بھرتا ہے، اور حقیقت میں بھی بہت سے میدانوں میں اس نے ترقی کی ہے، اس (عورت کے) مسئلے میں ناکام رہا ہے۔
عورت کے سماجی وقار میں حجاب کا کردار
مکتب اسلام میں مرد اور عورت کے درمیان ایک حجاب اور حد بندی قائم کی گئی ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ عورتوں کی دنیا مردوں کی دنیا سے بالکل جدا اور مختلف ہے۔ نہیں عورتیں اور مرد معاشرے میں اور کام کی جگہوں پر ایک ساتھ ہوتے ہیں ہر جگہ ان کو ایک دوسرے سے کام پڑتے ہیں۔ سماجی مسائل کو مل جل کر حل کرتے ہیں، جنگ جیسے مسئلے کو بھی باہمی تعاون و شراکت کے ساتھ کنٹرول کرتے ہیں اور ایسا انہوں نے کیا بھی ہے، کنبے کو مل جل کر چلاتے ہیں اور بچوں کی پرورش کرتے ہیں لیکن گھر اور خاندان کے باہر اس حد بندی اور حجاب کو ہر حال میں ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ یہ اسلامی طرز زندگی کا بنیادی نکتہ ہے۔ اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو وہی فحاشی پھیلے گی جس میں آج مغرب مبتلا ہے۔ اگر اس نکتے کا خیال نہ رکھا جائے تو عورت اقدار کی سمت اپنی پیش قدمی کو جو آج ایران میں نظر آ رہی ہے، جاری نہیں رکھ سکے گی۔
حجاب کا مطلب عورت کو سب سے الگ تھلگ کر دینا نہیں ہے۔ اگر حجاب کے سلسلے میں کسی کا یہ نظریہ اور تصور ہے تو یہ سراسر غلط نظریہ ہے۔ حجاب تو در حقیقت معاشرے میں مرد اور عورت کو ضرورت سے زیادہ اختلاط سے روکنا ہے۔ ضرورت سے زیادہ قربت معاشرے، مرد اور عورت دونوں بالخصوص عورت کے لئے تباہ کن نتائج کی حامل ہوتی ہے۔ حجاب کو ملحوظ رکھنے سے عورت کو اپنے اعلی روحانی مقام پر پہنچنے میں مدد ملتی ہے اور وہ سر راہ موجود نازک موڑ پر لغزش سے محفوظ رہتی ہے۔
عورتوں کے دفاع کے سلسلے میں کیا جانے والا ہر اقدام بنیادی طور پر عورت کی عفت و پاکیزگی کی حفاظت پر مرکوز ہونا چاہئے۔ عورت کی عفت و پاکیزگی فی الواقع دوسروں کی نظر میں حتی خود شہوانی خواہشات میں غرق انسانوں کی نظر میں عورت کا احترام اور وقار قائم کرتی ہے۔ اسلام عورت کی عفت و پاکدامنی پر خاص تاکید کرتا ہے۔ البتہ مردوں کی پاکدامنی بھی ضروری چیز ہے۔ عفت صرف عورتوں سے مخصوص نہیں ہے، مردوں میں بھی پاکدامنی ہونی چاہئے۔
جہاں عورتوں کو حجاب سے محروم کر دیا جاتا ہے، جہاں عورت کو عریانیت اور برہنگی میں مبتلا کر دیا جاتا ہے وہاں سب سے پہلے تو خود عورت کی سلامتی اور اس کا تحفظ اور دوسرے مرحلے میں مردوں اور نوجوانوں کی سلامتی خطرات کی زد پر آ جاتی ہے۔ معاشرے اور ماحول کو محفوظ اور صحتمند رکھنے کے لئے اور ایسی فضا قائم کرنے کے لئے اسلام نے حجاب کا اہتمام کیا ہے جس میں عورت بھی معاشرے میں اپنی سرگرمیاں انجام دے سکے اور مرد بھی اپنے فرائض سے عہدہ بر آ ہو سکے۔
عورتوں کی ذمہ داریاں اور کردار
اسلامی معاشرے میں مرد و زن کے لئے میدان کھلا ہوا ہے۔ اس کا ثبوت اور دلیل وہ اسلامی تعلیمات ہیں جو اس سلسلے میں موجود ہیں اور وہ اسلامی احکامات ہیں جو مرد اور عورت دونوں کے لئے یکساں طور پر سماجی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہیں۔ یہ تو پیغمبر اسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ " من اصبح و لا یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم" ( جو شخص شب و روز گزارے اور مسلمانوں کے امور کی فکر میں نہ رہے وہ مسلمان نہیں ہے) یہ صرف مردوں سے مخصوص نہیں ہے، عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے امور، اسلامی معاشرے کے مسائل اور عالم اسلامی کے معاملات بلکہ پوری دنیا میں پیش آنے والی مشکلات کے سلسلے میں اپنے فریضے کا احساس کریں اور اس کے لئے اقدام کریں، کیونکہ یہ اسلامی فریضہ ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات گرامی، جو بچپن میں اور مدینہ منورہ کی جانب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت کے بعد مدینے میں اپنے والد کو پیش آنے والے تمام معاملات میں، اپنا کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے، ایک نمونہ ہے جو اسلامی نظام میں عورت کے کردار اور فرائض کو ظاہر کرتا ہے۔ سورہ احزاب کی ایک آيت کہتی ہے کہ اسلام ہو، ایمان ہو، قنوت ہو، خشوع و خضوع ہو، صدقہ دینا ہو، روزہ رکھنا ہو، صبر و استقامت ہو، عزت و ناموس کی حفاظت ہو یا ذکر خدا ہو، ان چیزوں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ معاشرے میں عورتوں کی وہ سرگرمیاں بالکل جائز، پسندیدہ اور مباح و بلا اشکال ہیں جو اسلامی حدود کی پابندی کرتے ہوئے انجام دی جائيں۔ جب معاشرے میں مرد اور عورتیں دونوں ہی تعلیم حاصل کریں گے تو تعلیم یافتہ افراد کی تعداد اس دور کے مقابلے میں دگنی ہوگی جس میں تعلیمی سرگرمیاں صرف مردوں سے مخصوص ہوکر رہ جائیں۔ اگر معاشرے میں عورتیں تدریس کے شعبے میں سرگرم عمل ہوں گی تو معاشرے میں اساتذہ کی تعداد اس دور کی بنسبت دگنی ہوگی جس میں یہ فریضہ صرف مردوں تک محدود ہو۔ تعمیراتی سرگرمیوں، اقتصادی سرگرمیوں، منصوبہ بندی، فکری عمل، ملکی امور، شہر، گاؤں، گروہی امور اور ذاتی مسائل اور خاندانی معاملات میں عورت و مرد کے مابین کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کے فرائض ہیں جن سے ہر ایک کو عہدہ بر آ ہونا چاہئے۔
عورتوں کی سماجی سرگرمیوں کی بنیاد
کوئی بھی سماجی کام اسی وقت صحیح سمت میں آگے بڑھ سکتا اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے، جب غور و فکر، عقل و خرد، تشخیص و توجہ، مصلحت اندیشی و بار آوری اور صحیح و منطقی بنیادوں پر استوار ہو۔ عورتوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے انجام دئے جانے والے ہر عمل میں اس چیز کو ملحوظ رکھنا چاہئے یعنی ہر حرکت دانشمندانہ سوچ پر مبنی ہو اور حقائق، عورت کے مزاج و فطرت سے آشنائی، مرد کے رجحان و رغبت سے آگاہی، عورتوں کے مخصوص فرائض اور مشاغل سے واقفیت، مردوں کے مخصوص فرائض اور مشاغل سے روشناسی اور دونوں کی مشترکہ باتوں اور خصوصیات کی معلومات کے ساتھ انجام دی جائے، غیروں سے مرعوب ہوکر اور اندھی تقلید کی بنیاد پر انجام نہیں دی جانی چاہئے۔ اگر یہ حرکت غیروں سے مرعوب ہوکر، اندھے فیصلے اور اندھی تقلید کی بنیاد پر آنکھیں بند کرکے انجام دی گئی تو یقینا ضرررساں ثابت ہوگی۔
قومی ترقی میں عورتوں کا کردار
اگر کوئی ملک حقیقی معنی میں تعمیر نو کا خواہاں ہے تو اس کی سب سے زیادہ توجہ اور اس کا بھروسہ افرادی قوت پر ہونا چاہئے۔ جب افرادی قوت کی بات ہوتی ہے تو اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ ملک کی آدھی آبادی اور نصف افرادی قوت عورتوں پر مشتمل ہے۔ اگر عورتوں کے سلسلے میں غلط طرز فکر جڑ پکڑ لے تو حقیقی اور ہمہ جہتی تعمیر و ترقی ممکن ہی نہیں ہے۔ خود عورتوں کو بھی چاہئے کہ اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورت کے مرتبہ و مقام سے واقفیت حاصل کریں تاکہ دین مقدس اسلام کی اعلی تعلیمات پر اتکاء کرتے ہوئے اپنے حقوق کا بخوبی دفاع کر سکیں، اسی طرح معاشرے کے تمام افراد اور مردوں کو بھی اس سے واقفیت ہونا چاہئے کہ عورت کے تعلق سے، زندگی کے مختلف شعبوں میں عورتوں کی شراکت کے تعلق سے، عورتوں کی سرگرمیوں، ان کی تعلیم، ان کے پیشے، ان کی سماجی، سیاسی، اقتصادی اور علمی فعالیتوں کے تعلق سے اسی طرح خاندان کے اندر عورت کے کردار اور معاشرے کی سطح پر اس کے رول کے تعلق سے اسلام کا نقطہ نگاہ کیا ہے۔
حصول علم لازمی اور واجب
عورتیں اعلی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ لڑکیوں کو پڑھنا لکھنا نہیں چاہئے۔ یہ بالکل غلط سوچ ہے۔ لڑکیوں کو چاہئے کہ اپنے لئے مفید ثابت ہونے والے موضوعات میں جن سے انہیں دلچسپی اور لگاؤ ہے تعلیمی سرگرمیاں انجام دیں۔ معاشرے کو لڑکیوں کی تعلیمی قابلیت کی ضرورت ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے تعلیم یافتہ لڑکوں کی ضرورت ہے۔ البتہ تعلیمی ماحول صحتمند ہونا چاہئے۔ تعلیم کے لئے مرد اور عورت کی معاشرت سے متعلق اخلاقی اقدار سے دوری ضروری نہیں ہے بلکہ ان اقدار کی مکمل پابندی کے ساتھ تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے اور خود کو بلند مقامات پر پہنچایا جا سکتا ہے۔
انتہائی اہم اور بنیانی کاموں میں ایک، عورتوں کو کتابوں کے مطالعے کا عادی بنانا ہے۔ ایک ایسی جدت عمل کی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر عورتیں گھروں کے اندر کتابوں کے مطالعے کی عادی ہو جائیں۔ انسانی معرفتوں کی کتابیں ذہنوں کو بہتر ادراک، بہتر فکر، بہتر جدت عمل کے لئے اور زیادہ بہتر پوزیشن میں خود کو پہنچانے کے لئے آمادہ اور تیار کرتی ہیں۔
علم و دانش تو بے حد عزیز چیز ہے اور میں تو اس کا قائل ہوں کہ اسلامی معاشرے میں عورتیں تمام موضوعات پر عبور حاصل کریں۔ بعض خواتین خیال کرتی ہیں کہ اگر کوئی خاتون، عورتوں سے متعلق موضوع کا علم حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے عورتوں کی خاص بیماریوں کا علم حاصل کرنا چاہئے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ عورتوں کی ذمہ داری ہے کہ طب کے مختلف شعبوں جیسے نیورولوجی اور کارڈیولوجی وغیرہ کے سلسلے میں کام کریں۔ یہ شرعی اور سماجی فریضہ ہے۔
عورتیں گھر سے باہر کام کر سکتی ہیں
اسلام عورت کو کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ صرف اجازت ہی نہیں دیتا بلکہ اگر گھر کے باہر کام عورت کے بنیادی فریضے یعنی بچوں کی تربیت اور کنبے کی نگہداشت سے متصادم نہیں ہو رہا ہے تو شائد یہ ضروری بھی ہو۔ کوئی بھی ملک گوناگوں شعبوں میں عورتوں کی افرادی طاقت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
بعض لوگ انتہا پسندی سے کام لیتے ہیں۔ بعض کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے گھر، شوہر اور بچوں کا خیال رکھ پانا مشکل ہو جاتا ہے لہذا سماجی سرگرمیوں سے کنارہ کشی کر لینی چاہئے جبکہ بعض کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ گھر، شوہر اور بچوں کی وجہ سے سماجی سرگرمیوں کا موقع نہیں مل پاتا لہذا شوہر اور بچوں سے ناتہ توڑ لینا چاہئے۔ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔ کسی ایک کو بھی دوسرے کی وجہ سے ترک نہیں کرنا چاہئے۔
البتہ گھر سے باہر کام، عورتوں کا اولیں اور بنیادی مسئلہ نہیں ہے۔ اسلام عورتوں کے کام کرنے اور فرائض کی انجام دہی کا مخالف نہیں ہے، سوائے کچھ کاموں کے کہ جن میں سے کچھ کے بارے میں علمائے کرام کے درمیان اتفاق رائے ہے اور کچھ کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم عورت کا بنیادی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس کے پاس روزگار ہے یا نہیں۔ عورت کا بنیادی ترین مسئلہ اور فریضہ وہ ہے جسے آج بد قسمتی سے مغرب میں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ وہ ہے تحفظ کا احساس، سلامتی کا احساس اور صلاحیتوں کے نشو نما پانے کے امکانات کی فراہمی کا احساس اور معاشرے میں، خاندان میں، شوہر کے گھر میں یا والدین کے گھر میں اس کا ظلم و زیادتی سے محفوظ رہنا۔ جو لوگ عورتوں کے سلسلے میں کام کر رہے ہیں انہیں ان پہلوؤں پر کام کرنا چاہئے۔
دوسرا باب: خاندان میں عورت کا کردار
عورتوں کی اسلامی تربیت
اگر اسلامی معاشرہ عورتوں کو اسلامی تربیت کے نمونوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عورت اپنے شایان شان مقام و منزل پر پہنچ گئی ہے۔ اگر معاشرے میں عورت علم و معرفت اور روحانی و اخلاقی کمالات پرفائز ہو جائے جو اللہ تعالی اور ادیان الہی نے تمام انسانوں، بشمول مرد و زن، کے لئے یکساں طور پر معین کئے ہیں تو بچوں کی بہتر تربیت ممکن ہو سکے گی، گھر کی فضا زیادہ پاکیزہ اور محبت آمیز ہو جائے گی، معاشرہ زیادہ ترقی کر سکے گا، زندگی کی مشکلات زیادہ آسانی سے برطرف ہوں گي۔ یعنی مرد اور عورت دونوں خوشبخت ہو جائیں گے۔ مقصد عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں صف آرا کرنا نہیں ہے، مقصد عورتوں اور مردوں کی معاندانہ رقابت نہیں ہے۔ ہدف یہ ہے کہ عورتیں اور لڑکیاں اسی عمل کو دہرا سکیں جس کو انجام دے کر مرد ایک عظیم انسان میں تبدیل ہو جاتے ہیں، یہ ممکن بھی ہے اور اسلام میں اس کا عملی تجربہ بھی کیا جا چکا ہے۔
انتہائی اہم چیزوں میں ایک، گھر کے اندر کے فرائض یعنی شوہر اور بچوں سے برتاؤ کی نوعیت کے تعلق سے عورتوں کو صحیح طریقوں سے آگاہ کرنا ہے۔ ایسی عورتیں بھی ہیں جو بہت اچھی ہیں، ان میں صبر و تحمل، حلم و بردباری، درگزر اور رواداری کا جذبہ اور اچھا اخلاق پایا جاتا ہے لیکن وہ بچوں اور شوہر کے سلسلے میں اپنا رویہ درست نہیں کرتیں۔ یہ رویہ اور روش با قاعدہ ایک علم ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو انسانی تجربات کے ساتھ روز بروز بہتر ہوئی ہیں اور آج اچھی صورت حال میں موجود ہیں۔ بعض لوگ ہیں جن کے پاس بڑے گرانقدر تجربات ہیں۔ کوئی ایسا راستہ اختیار کیا جانا چاہئے جس سے یہ عورتیں گھر کے اندر رہتے ہوئے ان روشوں اور طریقوں سے آگاہ ہو سکیں اور رہنمائی حاصل کر سکیں۔
خاوند کے انتخاب کا حق
عورت ایک بیوی اور شریکہ حیات کی حیثیت سے مختلف مراحل پر اسلام کی خاص توجہ کا مرکز بنی نظر آتی ہے۔ سب سے پہلا مرحلہ شریک حیات کے انتخاب کا ہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے عورت اپنے شوہر کے انتخاب میں آزاد ہے اور کوئی بھی شخص شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں عورت پر کوئی بات جبرا مسلط نہیں کر سکتا۔ یعنی حتی عورت کے بھائی اور والد بھی، دور کے رشتہ داروں کی تو بات ہی الگ ہے، اگر اسے مجبور کرنا چاہیں کہ تمہیں لا محالہ فلاں شخص سے ہی شادی کرنی ہے تو انہیں اس کا حق نہیں ہے اور وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ البتہ ماضی میں اسلامی معاشرے میں بھی کچھ غلط اور جاہلانہ رواج تھا۔ تاہم جاہل مسلمان جو کچھ کرتے ہیں اسے اسلام سے نہیں جوڑنا چاہئے۔ یہ تو جاہلانہ عادات و اطوار ہیں۔ جاہل مسلمان جاہلانہ عادات و اطوار کی بنیاد پر کچھ کام ایسے کر جاتے ہیں جن کا اسلام اور اس کے نورانی احکامات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
شادی سے متعلق دو جاہلانہ رسمیں
اگر کوئی شخص کسی لڑکی کو مجبور کرتا ہے کہ تمہیں اپنے چچازاد بھائی سے شادی کرنی ہے تو اس نے غلط کام کیا ہے۔ اگر کوئی چچازاد بھائی اپنی چچازاد بہن کے سلسلے میں اپنے لئے یہ اختیار اور حق محفوظ سمجھتا ہے کہ اسے کسی اور سے شادی کرنے سے روک دے اور یہ کہے کہ چونکہ تم نے مجھ سے شادی نہیں کی لہذا میں تمہیں شادی کی اجازت نہیں دوں گا، تو اس لڑکے اور اس کی مدد کرنے والے ہر شخص سے فعل حرام سرزد ہوا ہے۔ یہ شریعت کی کھلی مخالفت ہے اور فقہائے اسلام کے درمیان اس سلسلے میں مکمل اتفاق رائے ہے۔
اگر کسی قبیلے سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص، کسی دوسرے قبیلے سے اپنے اختلافات کو دور کرنے کے لئے، فرض کیجئے کہ دونوں کے درمیان تنازعہ اور جنگ و خونریزی کا سلسلہ چل رہا ہے، اس اختلاف کو حل کرنے اور تنازعے کو ختم کرنے کی غرض سے ایک قبیلے کی لڑکی کی شادی دوسرے قبیلے میں کر دے اور اس لڑکی سے اس کی رضامندی حاصل کرنے کی زحمت گوارا نہ کرے تو اس نے شریعت کے خلاف عمل کیا ہے۔ ہاں اگر لڑکی سے رضامندی حاصل کر لی گئی ہے تو پھر کوئی اشکال نہیں ہے۔ کوئی لڑکی ہے جو خود بھی مائل ہے اور اس کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ اس کی شادی دوسرے قبیلے کے کسی لڑکے سے کر دی جائے اور اس شادی کے نتیجے میں اختلاف اور تنازعہ بھی ختم ہو جائے تو اس میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی لڑکی کو اس کے لئے مجبور کیا جائے تو یہ عمل خلاف شریعت اور اسلامی احکام کی خلاف ورزی ہے۔
آشیانے کا چین و سکون
انسان کو جن چیزوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے ان میں ایک سکون و چین ہے۔ انسان کی خوشبختی اس میں مضمر ہے کہ ذہنی تلاطم اور اضطراب سے محفوظ و مطمئن رہے۔ انسان کو یہ نعمت کنبے اور خاندان سے ملتی ہے، عورت کو بھی اور مرد کو بھی۔
یہ آیہ کریمہ مرد و زن کے سلسلے میں بنیادی طور پر خاندان کے تناظر میں کہتی ہے کہ " و من آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا" یعنی قدرت خدا کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تم انسانوں کے لئے، خود تمہاری جنس سے، تمہارا جوڑا پیدا کیا ہے۔ تم مردوں کے لئے عورتوں کو اور تم عورتوں کے لئے مردوں کو۔ تم خود "من انفسکم" ایک دوسرے سے ہو، الگ الگ جنس سے نہیں ہو۔ الگ الگ درجے کے نہیں ہو۔ سب کی حقیقت و ماہیت ایک ہے۔ سب ایک ہی حقیقت سے تعلق رکھتے ہیں۔ سب کا جوہر اور سب کی حقیقت ایک ہے۔ البتہ بعض خصوصیات کے لحاظ سے کچھ فرق ضرور ہے چنانچہ ان کے فرائض بھی الگ الگ ہیں۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ " لتسکنوا الیھا" یعنی انسانوں میں دو صنفیں ایک عظیم ہدف کے لئے قرار دی گئی ہیں۔ وہ ہدف ہے سکون و طمانیت۔ عورتیں (اور مرد) گھر کے اندر اپنی اپنی مخالف صنف کے ساتھ، مرد عورت کے ساتھ اور عورت مرد کی معیت میں طمانیت حاصل کرے۔ گھر میں داخل ہونے پر داخلی فضا پر محیط سکون و چین، مہربان، محبتی اور امانتدار عورت پر نظر پڑنا مرد کے لئے باعث سکون و طمانیت ہوتا ہے۔ عورت کے لئے بھی ایسے مرد اور ایسے سہارے کا وجود، جو اس سے محبت کرے اور اس کے لئے کسی مستحکم قلعے کی مانند ہو، خوشبختی کی علامت اور اس کے لئے باعث سکون و اطمینان اور موجب خوشـبختی و سعادت ہے۔ خاندان دونوں کو یہ نعمت عطا کرتا ہے۔ مرد کو قلبی سکون کے لئے گھر کی فضا میں بیوی کی ضرورت ہوتی ہے اور عورت کو سکون و چین کے لئے گھر میں مرد کی احتیاج ہوتی ہے۔ "لتسکنوا الیھا" دونوں کو سکون و چین کے لئے ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔
خاندان میں عورت کی اہمیت
خاندان کی تشکیل تو در حقیقت عورت ہی کرتی اور وہی اسے چلاتی ہے۔ کنبے کی تشکیل کا بنیادی عنصر عورت ہے، مرد نہیں۔ مرد کے بغیر ممکن ہے کہ کوئی کنبہ موجود ہو۔ کوئی خاندان ایسا ہے جس میں مرد موجود نہیں ہے، دنیا سے رخصت ہو چکا ہے تو گھر کی عورت اگر سمجھدار اور سلیقے مند ہے تو خاندان کو (بکھرنے سے) بچائے رکھے گی لیکن اگر خاندان میں عورت نہ ہو تو مرد خاندان کو محفوظ نہیں رکھ سکتا، معلوم ہوا کنبے اور خاندان کی حفاظت عورت کرتی ہے۔
یہ جو اسلام خاندان کے اندر عورت کے کردار کو اتنی زیادہ اہمیت دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عورت نے خاندان کے فریضے کو سنبھال لیا اور اس میں دلچسپی دکھائی، بچوں کی تربیت و پرورش کو اہمیت دی، اپنے بچوں کا خیال رکھا، انہیں دودھ پلایا، انہیں اپنی آغوش میں پالا، ان کے لئے ثقافتی آذوقہ فراہم کیا یعنی قرآنی حکایتیں، قصے، احکام اور رہنما واقعات سنائے اور فرصت کے وقت میں جسمانی ضرورت کی غذا کی مانند ان چیزوں کا ذائقہ بھی چکھایا تو اس معاشرے کی انسانی نسلیں با شعور اور قابل افتخار ہوں گی۔ یہ عورت کا فن ہے اور یہ تعلیم حاصل کرنے، تعلیم دینے، گھر سے باہر کام کرنے اور سیاست کے میدان میں سرگرم عمل ہونے اور ایسے دیگر امور کی راہ میں حائل بھی نہیں ہے۔
تمام سماجی منصوبوں اور پروگراموں میں خاندان اور کنبے کو معیار اور اساس بنانا چاہئے۔ ماں کا مسئلہ، بیوی کا مسئلہ، گھر اور خاندان کا مسئلہ بہت ہی اہم اور حیاتی نوعیت کا ہے۔ یعنی اگر کوئی عورت بہت بڑی ماہر ڈاکٹر بن جائے یا کسی اور شعبے میں مہارت حاصل کر لے لیکن گھر کے فرائض سے عہدہ برآ نہ ہو سکے تو یہ اس کے لئے ایک نقص اور کمی ہے۔ گھر کی مالکہ کا وجود ضروری ہے، بلکہ محور یہی ہے۔ بلا تشبیہ عورت شہد کی رانی مکھی کا درجہ رکھتی ہے۔
عورتوں کا فطری اثر و نفوذ
کچھ استثنائات سے قطع نظر عموما شوہروں پر بیویوں کا خاص اثر و نفوذ ہوتا ہے۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی عورت اپنے شوہر پر حاوی ہے تب کہا جائے کہ اسے بڑا اثر و نفوذ حاصل ہے، نہیں۔ بات خداداد فطری اثر و نفوذ کی ہو رہی ہے۔ میں اپنے اندازے کے مطابق عورت کو مرد سے زیادہ مضبوط اور قوی سمجھتا ہوں، یہ میرا یقین ہے۔ ایک طویل مقابلے میں، اگر مقابلہ لمبا کھنچے، سرانجام فتح عورت کی ہوگی۔ یعنی عورت آخرکار ان روشوں اور خصائص کے ذریعے جو اللہ تعالی نے اس کے مزاج اور اس کی فطرت میں ودیعت کر دئے ہیں، مرد پر غلبہ حاصل کر لے گی۔ یہ قدرت کی ایک پر کشش حقیقت اور خلقت کا ایک حسین راز ہے۔ میدان عمل میں موجودگی کے سلسلے میں اپنی پچاس فیصدی کی شراکت کے علاوہ عورتیں دوسرے پچاس فیصدی میں بھی جو مردوں سے متعلق ہے موثر ثابت ہوتی ہیں (یعنی اپنے ساتھ مردوں کو بھی میدان عمل میں لانے میں موثر کردار ادا کرتی ہیں)۔
مرد اس بات کو ترجیح دیتا ہے کہ اس کے بیوی بچے گھر میں رہیں اور وہ خود باہر کی ذمہ داری سنبھالے۔ مثلا ہم لوگ جو ایک زمانے میں دفاعی جنگ لڑ رہے تھے، یہ گوارا نہیں کرتے تھے کہ اپنی عورتوں کو میدان جنگ میں لے جائیں۔ ہم یہی کہتے تھے کہ" آپ لوگ یہیں رہیں، ہم خود جاکر یہ محاذ سنبھالیں گے" لیکن جب عورت میدان جنگ میں جاتی ہے تو وہ اپنے شوہر کو بھی ساتھ لے جاتی ہے اور اسے آگے بھیجتی ہے۔ ایک ایسی ہستی کا نام ہے عورت۔ یہ شخصیت، یہ ذاتی اثر و نفوذ، میدان جنگ میں یہ درخشاں کارکردگی، ماضی و حال اور مستقبل میں جد و جہد کے لئے ہمیشہ قائم و دائم رہنا چاہئے۔
مہر و محبت کا گہوارا
خاندان کے تناظر میں مرد اور عورت کی پاکیزہ فطرت ایسی ہے جو دونوں کے درمیان ایک خاص وابستگی اور لگاؤ پیدا کر دیتی ہے، عشق و الفت کا رابطہ برقرار کر دیتی ہے "مودۃ و رحمۃ"۔
مرد اور عورت کا صحیح اور منطقی رابطہ عشق و الفت کا رابطہ ہے، دوستی و محبت کا رابطہ ہے، مہربانی اور ہمدردی کا رابطہ ہے، وہ ایک دوسرے سے محبت کریں، ایک دوسرے کے گرویدہ رہیں اور آپس میں ایک دوسرے پر نثار ہوں۔
خاندان تو وہ مرکز ہے جہاں الفتوں اور جذبات کو پروان چڑھنا چاہئے، بچوں کو مامتا اور شفقت ملنی چاہئے۔ خاص مردانہ مزاج کے باعث زوجہ کے سلسلے میں مرد کی فطرت ایسی ہوتی ہے کہ بعض چیزوں کے سلسلے میں اس کا دل بہت جلدی ٹوٹ جاتا ہے اور ایسے موقع پر اس کے زخموں کا مرہم صرف اور صرف زوجہ کی نوازش اور محبت ہوتی ہے، ایسے میں ماں کی شفقت بھی کافی نہیں ہوتی۔ ایک جوان مرد کے لئے زوجہ وہ کام کرتی ہے جو ماں ایک چھوٹے بچے کے لئے انجام دیتی ہے۔ ظریف اور لطیف مزاج رکھنے والی خواتین اس حقیقت سے آگاہ بھی ہیں۔ اگر گھر میں اس مرکزی نقطے یعنی گھر کی مالکہ کے تعلق سے یہ جذبات و احساسات نہ ہوں تو اس کنبے کا کچھ مفہوم نہ ہوگا وہ روح سے خالی جسم کی مانند ہوگا۔
فرائض کی تقسیم
مرد اور عورت دونوں کے مزاج کی کچھ الگ الگ خصوصیات ہیں۔ گھر کے اندر عورت سے یہ توقع نہیں رکھنا چاہئے کہ وہ مردوں کے انداز میں کام کرے، اسی طرح کوئی مرد سے عورتوں کے برتاؤ اور اسلوب کی توقع نہ رکھے۔ دونوں کے مزاج اور فطرت کے الگ الگ تقاضے ہیں اور انسان، معاشرے، مرد اور عورت کے سماجی نظام کی مصلحت اسی میں ہے کہ گھروں کے اندر مرد اور عورت کے مزاج اور ان کے فطری تقاضوں کا مکمل طور پر لحاظ کیا جائے۔ اگر اس کا خیال رکھا گيا تو دونوں کی خوشبختی و کامیابی کی راہ ہموار ہوگی۔ کسی کو بھی دوسرے کے ساتھ زیادتی اور نا انصافی کرنے کا حق نہیں ہے۔ بعض مردوں کی سوچ یہ ہے کہ عورت کو ان کے سارے کام انجام دینے ہیں۔ ویسے گھر کے اندر جہاں میاں بیوی کے درمیان گہرا محبت و الفت کا رشتہ ہے، دونوں ایک دوسرے کے کام بڑے شوق اور رغبت سے انجام دیتے ہیں۔ لیکن رغبت اور دلچسپی سے کوئی کام انجام دینا اور بات ہے اور اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے یا اپنے انداز سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ عورت ایک خادمہ کی طرح مرد کی خدمت کرے اور اسے اپنا فرض سمجھے تو یہ ایک الگ بات ہے۔ اسلام میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔
گھر کا فریضہ اولیں ترجیح
بعض عورتیں بڑی مصروف ہیں، گھر کے باہر رہتی ہیں، آپریشن کرتی ہیں، اپنے مریضوں کو بھی دیکھتی ہیں، کسی علمی تحقیق میں بھی مصروف ہیں، کوئی پروجیکٹ تیار کر رہی ہیں، کسی یونیورسٹی میں لیکچر بھی دے رہی ہیں، یہ ساری سرگرمیاں اپنی جگہ بالکل درست ہیں لیکن گھر کے فرائض بھی نظر انداز نہیں کئے جانے چاہئے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ گھر کے کاموں کی کیفیت کو مقدار پر ترجیح دی جائے، یعنی اس کی مقدار کو کچھ کم کر دیا جائے۔ عورت کی چوبیس گھنٹہ گھر میں موجودگی کی بات الگ ہے۔ اگر ان چوبیس گھنٹوں میں سے کـچھ گھنٹے کم ہو گئے ہیں لیکن (گھر کے اندر فرائض کی انجام دہی کی ) کیفیت اعلی درجے کی ہے تو یہ ایک الگ صورت حال ہوگی۔ اگر آپ نے دیکھا کہ آپ کے اس (باہر کے) کام سے اس مسئلے ( یعنی گھر کے فرائض) پر منفی اثر پڑ رہا ہے تو آپ کو اس کا کوئی نہ کوئی حل نکالنا ہوگا۔ یہ بہت اہم اور بنیادی چیز ہے، سوائے کچھ ہنگامی صورتوں کے۔ تمام کاموں میں کچھ ایسی ہنگامی صورتیں ہوتی ہیں جو قاعدے اور ضابطے سے مستثنی رکھی جاتی ہیں۔ عورتوں کا سب سے بڑا کام بچوں کی تربیت اور اہم میدانوں میں اترنے اور اعلی مدارج پر فائز ہونے کے لئے شوہروں کی ہمت بندھانا اور حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
بچوں کی تربیت، ایک اہم فریضہ
گھر اور کنبے کے اندر عورتوں کی ایک بڑی ذمہ داری بچوں کی تربیت کرنا ہے۔ جو عورتیں گھر کے باہر کی اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے ماں بننے سے گریز کرتی ہیں وہ در حقیقت انسانی فطرت اور اپنے نسوانی مزاج کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ اللہ اسے پسند نہیں کرتا۔ جو خواتین اپنے بچوں، ان کی تربیت، انہیں دودھ پلانے اور انہیں اپنی مہر آگیں آغوش میں لینے اور پرورش کرکے انہیں پروان چڑھانے جیسے کاموں کو بعض ایسے امور کی وجہ سے ترک کر دیتی ہیں جن کی انجام دہی کا انحصار ان کی ذات پر نہیں ہے، وہ بہت بڑی غلطی کر رہی ہیں۔ بچوں کی پرورش کی بہترین روش یہ ہے کہ ان کی پرورش ماں کی آغوش میں اس کی مہر و الفت اور مامتا کی چھاؤں میں ہو۔ جو خواتین اپنے بچوں کو اس خداداد نعمت سے محروم کر دیتی ہیں، ان سے بہت بڑی غلطی سرزد ہو رہی ہے۔ ان کا یہ عمل ان کے بچوں کے لئے بھی نقصان دہ ہے، خود ان کے اپنے لئے بھی ضرر رساں ہے اور معاشرے کے لئے زیاں بار ثابت ہوتا ہے۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ عورت کا ایک اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ بچوں کو اپنے جذبات کی گرمی سے، اپنی صحیح تربیت سے اور اپنی پوری توجہ اور دلجمعی کے ذریعے ایسا بنائيں کہ یہ بچہ جب بڑا ہو تو ذہنی اور نفسیاتی لحاظ سے ایک صحتمند انسان ہو، احساس کمتری سے دوچار نہ ہو، نفسیاتی پیچیدگیوں میں گرفتار نہ ہو، اس ذلت و بد بختی اور بے شمار مصیبتوں سے محفوظ رہے جن سے مغرب میں یورپ اور امریکا کی نوجوان نسلیں دوچار ہیں۔
مغربی ممالک میں خواتین چونکہ گھر اور پچوں کی تربیت پر توجہ نہیں دیتیں اس لئے ان مغربی معاشروں کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ یورپی اور امریکی ممالک میں دسیوں لاکھ بد عنوان اور گمراہ نوخیز لڑکیاں اور لڑکے، اس مادہ پرست ثقافت، ان فلک بوس محلوں، ان ایٹمی چھاونیوں، سو منزلہ سے بھی زیادہ اونچی، آسمانوں سے سرگوشیاں کرتی عمارتوں میں دس سال بارہ سال کے سن سے بد عنوانیوں میں مبتلا ہو چکے ہوتے ہیں، چور بن چکے ہوتے ہیں، قاتل بن چکے ہوتے ہیں، اسمگلر بن چکے ہیں، نشہ کی لت میں پڑے ہوئے ہیں، سگریٹ پیتے ہیں، حشیش استعمال کرتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ مغربی عورت نے خاندان اور کنبے کی اہمیت و ارزش کو نہیں پہچانا، اس کی قدر نہیں کی۔
گل اور باغباں کی داستان
اسلام کے نقطہ نگاہ سے مرد کا فریضہ ہے کہ گھر میں عورت کا خیال بالکل ایسے رکھے جیسے نازک پھول کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ " المرآۃ ریحانۃ" عورت ایک پھول ہے۔ اس (ہدایت) کا تعلق سیاسی، سماجی، تعلیمی اور دیگر میدانوں سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق گھر کے اندر کے ماحول سے ہے۔ " المرآۃ ریحانۃ و لیست بقھرمانۃ" پیغمبر اکرم نے اپنے اس خطاب سے اس غلط نظرئے اور نا درست طرز فکر پر خط بطلان کھینچ دیا جس کے مطابق عورت کو گھر کے اندر تمام کاموں کی انجام دہی کا پابند تصور کیا جاتا تھا۔ عورت پھول ہے جس کا بہت خیال رکھا جانا چاہئے۔ پھول کے ساتھ زور زبردستی کیجئے تو وہ ایک لحظے میں بکھر کر رہ جاتا ہے۔ لیکن اگر آپ نے پھول کی نزاکت کو سمجھا اور اس کے ساتھ نزاکت آمیز سلوک کیا تو وہ باعث زینت ہوگا، اپنا اثر دکھائے گا، اپنے محاسن ظاہر اور نمایاں کرے گا۔ جسمانی اور جذباتی نزاکتوں والی اس مخلوق کو اس نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عورت میں اس زنانہ نزاکت کو محفوظ رکھا گیا ہے جس کے زیر اثر اس کے تمام جذبات، خصوصیات اور خواہشات ہوتی ہیں۔ اس سے یہ نہیں کہا گيا ہے کہ وہ عورت ہوتے ہوئے بھی مردوں کے انداز میں سوچے، مردوں کی مانند کام کرے، اپنی خواہشات مردوں کے مطابق بنائے۔ یعنی عورت کے نسوانی انداز کو، جو اس کی ایک فطری اور قدرتی چیز ہے اور جو اس کے تمام جذبات اور سرگرمیوں کا محور بھی ہے، اسلامی طرز فکر میں ملحوظ رکھا گیا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی ساتھ علم کا میدان، روحانیت و معنویت کا میدان، تقوا و پرہیزگاری کا میدان اور سیاسی سرگرمیوں کا میدان اس کے لئے کھلا رکھا گیا ہے۔ یہی نہیں اسے ترغیب دلائی گئی ہے حصول علم کی ، اسی طرح گوناگوں سیاسی و سماجی میدانوں میں اترنے کی۔
گھر کے اندر مرد کو بھی یہ ہدایت کی گئی ہے کہ اسے جاہلانہ انداز میں اپنی طاقت کے استعمال، زیادہ روی، تحکمانہ روئے اور جبر و اکراہ کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ ہے اسلامی نقطہ نگاہ۔ " و لیست بقھرمانۃ" یہاں فارسی والا قہرمان( چیمپین) مراد نہیں ہے، یہ عربی اصطلاح ہے جو در حقیقت فارسی سے لی گئی ہے۔ عربی میں قہرمان کے معنی ہیں کاموں کی انجام دہی پر مامور سینئر نوکر۔ یعنی مرد گھر میں عورت کو کاموں کی انجام دہی پر مامور نہ سمجھے۔ یہ خیال نہ کیا جائے کہ مرد مالک ہے اور گھر کے کام، بچوں کی نگہداشت وغیرہ کو اس نے ایک سینئر نوکر کے سپرد کر دیا ہے اور وہ سینئر نوکر اس کی بیوی ہے لہذا وہ اس کے ساتھ تحکمانہ برتاؤ کر سکتا ہے۔
گھروں میں عورتوں پر مظالم
اس وقت عالمی سطح پر عورتیں لا متناہی اور لا ینحل مسائل سے دوچار ہیں۔ اس وقت دنیا میں عورتیں دو میدانوں میں شدید رنج و الم برداشت کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک ہے خاندان اور دوسرا میدان ہے سماج اور معاشرہ۔ یہ چیز یورپ اور امریکا میں اسی طرح ان ممالک میں ہے جنہوں نے انہیں اپنا آئیڈیل قرار دیا ہے۔ کہیں بہت زیادہ شدت نظر آتی ہے تو کہیں یہ شدت کچھ کم ہے۔ گھر کے اندر عورت مظلوم ہے۔ یعنی شوہر گھر کے اندر واقعا بیویوں پر ظلم کرتے ہیں۔ اس ماحول میں گھر کے اندر عورتوں پر مردوں کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ مرد، عورت کو اپنی شریکہ حیات نہیں سمجھتا۔ اپنے تمام جذبات و احساسات کو عورت پر نثار نہیں کرتا۔ یہ مرد گھر کے باہر غیر اخلاقی حرکتوں، عیاشیوں اور شہوانی مشغلوں میں مصروف ہیں جبکہ گھر کے اندر ایک سرد مہری اور بے رخی کا انداز ہے جو کبھی کبھی بد اخلاقی اور زور زبردستی کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ سب سے اہم بات مرد اور عورت کا باہمی تعاون اور تال میل ہوتا ہے۔ انسان اپنی بیٹی کو معلوم نہیں کیسی کیسی زحمتیں گوارا کرکے پیار محبت سے بڑا کرتا ہے۔ وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی جو ماں باپ کے گھر میں ہنوز بچی ہی شمار کی جاتی ہے، اس کے بعد شوہر کے گھر جاتی ہے جہاں اس سے یکبارگی یہ توقع ہو جاتی ہے کہ ہر بات سمجھے، ہر کام انجام دے اور ہر ہنر سے واقف ہو۔ اس سے ذرا سی غلطی ہوئی نہیں کہ چڑھائی کر دی جاتی ہے! یہ نہیں ہونا چاہئے۔
مرد نے اگر گھر میں مالکانہ اور تحکمانہ رویہ اپنایا، عورت کو خادمہ کی حیثیت سے دیکھا تو یہ اس کے ساتھ زیادتی اور نا انصافی ہے، جو بد قسمتی سے بہت سے مردوں کے ہاں پائی جاتی ہے۔ گھر کے باہر بھی یہی صورت حال ہے۔ اگر عورت کو تعلیم حاصل کرنے، کوئی کام انجام دینے اور بعض مواقع پر پیسے کمانے کے لئے محفوظ ماحول میسر نہ ہو تو یہ ظلم ہے، نا انصافی ہے۔ عورت کو اگر علم و معرفت حاصل کرنے کا موقع نہ دیا جائے تو اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ اگر حالات ایسے ہوں کہ عورت مختلف کاموں اور گوناگوں ذمہ داریوں کے باعث تہذیب اخلاق، اپنے دین اور اپنے علم و معرفت کی جانب توجہ نہ دے سکے تو یہ اس کے ساتھ ظلم ہے۔ اگر عورت کو اس کی ذاتی اور نجی ملکیت اور اثاثے کے آزادانہ اور حسب منشاء استعمال کا موقع نہ دیا جائے تو یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ اگر شادی کے وقت عورت کے سر کسی مرد کو مڑھ دیا جائے یعنی خاوند کے انتخاب میں خود اس کا اپنا کوئی کردار نہ ہو اور اس کی خواہش اور مرضی کا خیال نہ رکھا گيا ہو تو یہ سراسر ظلم اور نا انصافی ہے۔ عورت جب (شوہر کے) گھر میں زندگی بسر کر رہی ہے اس وقت اسی طرح شوہر سے جدا ہو جانے کی صورت میں اگر بچوں کو پیار کرنے اور مامتا کے جذبے کی تسکین کا موقع نہ پائے تو یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ اگر عورت میں استعداد اور صلاحیت ہے مثلا علمی صلاحیت سے مالامال ہے، ایجادات اور نئی دریافتوں کی صلاحیت رکھتی ہے، سیاسی شعور رکھتی ہے، سماجی کاموں کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اسے اس کی استعداد کو استعمال کرنے اور اس پر نکھار لانے کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے تو یہ اس کے ساتھ ظلم ہے۔
تحرير : مسز رضوی کلکته
دختر جناب شعیب عليه السلام
حضرت شعیب کی خدمت میں موسیٰ کی آمد ۔ شعیب کی طرف سے شادی کی پیش کش ۔حق مہر کا تعین ۔کئی سال کاکام ۔پھر واپس روانگی۔ راستہ میں بچے کی ولادت اور نبوت کا ملنا ان واقعات میں موسیٰ کی ماں کا مامتا پر ضبط، خواہر موسی کی جفا کشی اور خبرداری پھر زوجہ ٴ فرعون کا ہر مرحلہ میں حضرت موسیٰ کا تحفظ ۔ان مراحل میں عورت کی عظمت، عورت کی محبت و ایثار اور نبی کی جان کے تحفظ ۔ایسے واقعات ہیں جن سے عورت کی عظمت واضح و آشکار ہوتی ہے ۔
تزویج حضرت موسیٰ ع
قَالَتْ إِحْدَاہُمَا یَاأَبَتِ اسْتَأْجِرْہُ إِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْأَمِیْنُ قَالَ إِنِّی أُرِیْدُ أَنْ أُنْکِحَکَ إِحْدَی ابْنَتَیَّ ہَاتَیْنِ عَلٰی أَنْ تَأْجُرَنِی ثکَلنِیَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِکَ وَمَا أُرِیْدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَیْکَ سَتَجِدُنِیْ إِنْ شَاءَ اللہ مِنَ الصَّالِحِیْنَ قَالَ ذٰلِکَ بَیْنِیْ وَبَیْنَکَ أَیَّمَا الْأَجَلَیْنِ قَضَیْتُ فَلاَعُدْوَانَ عَلَیَّ وَاللہ عَلٰی مَا نَقُوْلُ وَکِیْلٌ
.
"ان دونوں میں سے ایک لڑکی نے کہا اے ابا اسے نوکر رکھ لیں کیونکہ جیسے آپ نوکر رکھنا ہو تو ان سب سے بہتر وہ ہے جو طاقتور ، امانت دار ہو شعیب نے کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں ایک کا نکا ح اس شرط پر تمہارے ساتھ کروں کہ تم آٹھ سال میری نوکری کرو اور اگر تم دس سال پورے کرو تو یہ تمہاری مرضی ہے اور میں تمہیں تکلیف نہ دوں گا انشا ء اللہ تم مجھے صالحین میں سے پاوٴگے ۔موسیٰ نے کہا یہ میرے اور آپ کے درمیان وعدہ ہے میں ان دونوں میں سے جو بھی مدت پوری کروں مجھ سے کوئی زیادتی نہ ہو اور یہ جو کچھ ہم یہ کہہ رہے ہیں ا س پر اللہ ضامن ہے ۔" (قصص:۲۶تا۲۸)
فَلَمَّا قَضٰی مُوْسَی الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَہْلِہ آنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا قَالَ لِأَہْلِہ امْکُثُوْا إِنِّیْ آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْ آتِیْکُمْ مِّنْہَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِنَ النَّارِ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُونَ فَلَمَّا أَتَاہَا نُودِی مِنْ شَاطِئِی الْوَادِ الْأَیْمَنِ فِی الْبُقْعَةِ الْمُبَارَکَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَنْ یَّامُوسٰی إِنِّیْ أَنَا اللہ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ وَأَنْ أَلْقِ عَصَاکَ فَلَمَّا رَآہَا تَہْتَزُّ کَأَنَّہَا جَانٌّ وَّلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ یَامُوْسٰی أَقْبِلْ وَلَاتَخَفْ إِنَّکَ مِنَ الْآمِنِیْنَ اُسْلُکْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَاءَ مِنْ غَیْرِ سُوْءٍ ۔
"پھر جب موسیٰ نے مدت پوری کی اور وہ اپنے اہل کو لیکر چل دیے تو کوہ طور کی طرف سے ایک آگ دکھائی دی وہ اپنے اہل سے کہنے لگے ٹھہرو میں نے ایک آگ دیکھی ہے شائد وہاں سے کوئی خبر لاوٴں یا آگ کا انگارہ لے کر آوٴں تا کہ تم تاپ سکو جب موسیٰ وہاں پہنچے تو وادی کے دائیں کنارے ایک مبارک مقام میں درخت سے ندا آئی اے موسیٰ میں ہی عالمین کا پروردگار اللہ ہوں ۔ اور اپنا عصا پھینک دیجیے پھر جب موسیٰ نے عصا کو سانپ کی طرح حرکت کرتے دیکھا تو پیٹھ پھیر کر پلٹے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا ہم نے کہا اے موسیٰ آگے آیئے اور خوف نہ کیجیے یقینا آپ محفوظ ہیں اے موسیٰ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈل دیجیے وہ بغیر کسی عیب کے چمکدار ہو کر نکلے گا ۔" (قصص:۲۹تا۳۲)
حضرت موسیٰ کے واقعہ کا عجیب منظر ہے ۔ایک طرف ماں کی مامتا پھر بہن کی جفا کشی اور بھائی کے صندوق کے ساتھ چل کر اپنی محبت کا ثبوت ۔ آسیہ کا اخلاص اور نور کی چمک سے اس کے دل کی روشنی پھر مصیبت میں مبتلا حضرت موسیٰ کو ان کی نیکی ۔ بےچاروں کی مدد سے اب شفیق و مہرباں بزرگ سے ملاقات ۔ جس نے ان کے کام سے خوش ہوکر داماد بنا لیا ۔ جہاں حضرت موسیٰ جیسے بیٹے اور داماد کی طرح آٹھ دس سال سکون سے رہے۔ قدم قدم عورت وسیلہ سکون و راحت حضرت موسیٰ بن رہی ہے۔ کیا کہنا عظمتِ عورت کا ۔
خاتون قرآن کی روشنی میں
حضرت انسان میں سلسلہ تفاضل، ابتداء خلقت انسان سے موجود ہے۔سب سے پہلے تفاضل یعنی ایک دوسرے پہ فضیلت کا دعویٰ حضرت آدم - اور ملائکہ کے درمیان ہوا۔جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔
وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَۃِ إِنِیّ جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُوْا أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاءَ ج وَنَحْنُ نُسِبِّحُ بِحَمْدِکَ ونُقَدِّسُ لَکَ "اور تیرے رب نے جب فرشتوں سے کہا:
میں اس زمین میں ایک خلیفہ ( نائب ، نمائندہ ) بنانے والا ہوں تو فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں اس کو خلیفہ بنائے گا جو وہاں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا جب کہ ہم تیری حمد و ثناء کی تسبیح اور پاکیزگی کا ورد کرتے رہتے ہیں۔" (بقرہ ۳۰) پھر یہ سلسلہ تفاضل و تفاخر قابیل و ہابیل میں ہوا جب خدا وند قدوس نے ایک کی قربانی قبول فرمائی اور دوسرے کی رد کر دی۔
وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَأَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ م إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّکَ قَالَ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللہُ مِنَ الْمُتَّقِینَ۔
"اور آپ انہیں آدم کے بیٹوں کا حقیقی قصہ سنائیں۔ جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی تو اس نے کہامیں ضرور تجھے قتل کر دوں گا (پہلے نے کہا ) اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے ۔" (مائدہ :27)
یہ سلسلہ تفاضل و تفاخر یعنی ایک دوسرے پر فوقیت کا دعویٰ آج بھی موجود ہے ہر جگہ رائج ہے حالانکہ مرد اور عورت دونوں انسان ہیں، دونوں کی خلقت مٹی سے ہوئی ہے جیسا کہ ارشاد ہوا ۔ ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ "وہی تو ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ۔" (موٴمن :67) وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِیْنٍ ج ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَة ً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ۔ "ضاور بتحقیق ہم نے انسان کو مٹی سے بنایا پھر ہم نے اسے محفوظ جگہ میں نطفہ بنا دیا۔" ( الموٴمنون :12.13)
مرداور عورت خلقت کے لحاظ سے مساوی اور برابر ہیں، دونوں کی خلقت مٹی سے ہوئی، نطفہ سے پیدائش کے بعد تمام مراحل میں ایک جیسے ہیں پھر ذکر و انثیٰ یعنی مرد اور عورت کی پیدائش کے حوالے سے ارشاد رب العزت ہو رہا ہے : یَاأَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّأُنثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۔
"اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ،پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔"(حجرات: 13) ہاں تو خلقت ایک جیسی، محل خلقت ایک جیسا ، اساس خلقت ایک ، اس کے باوجود تفاضل و تفاخر کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ آخر کیوں ؟ اسلام نے خواہ مرد سے مرد کا مقابلہ ہو یا عورت کا عورت سے تقابل ہو، یا مردا ور عورت کا آپس میں تفاخر ہو، ان سب میں برتری کا معیار صرف تقویٰ، خوف خدا اور عظمت ِرب کے احساس کو قرار دیا ہے ارشاد ہو رہا ہے: إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہ أَتْقَاکُمْ۔ "اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز و مکرم وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے " (حجرات :13)
مرد اور عورت کے باہمی فخر و مباہات کا سلسلہ ایسا چلا کہ عورت کو بے چارا بنا دیا گیا۔ قبل از اسلام تو انسانیت کے دائرہ سے بھی خارج قرار دیا گیاتھا، یونانیوں میں عورت کا وجود ناپاک اور شیطانی تصور کیا جاتا تھا۔ عورت فقط خدمت اورنفسانی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ تھی۔ رومی لوگ عورت کو روح انسانی سے خالی جانتے تھے وہ اسے قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔ساسانی بادشاہوں کے زمانے میں عورت کا شمار اشیاء خرید و فروخت میں ہوتا تھا، یہودیوں میں عورت کی گواہی نا قابل قبول تھی۔ زمانہ جاہلیت کے عرب تو بیٹی کی پیدائش کو اپنے لئے موجب ننگ و عار جانتے تھے۔ہندو اور پارسی ،عورت کو ہر خرابی کی جڑ ، فتنہ کی بنیاد اور حقیر ترین چیز شمار کرتے تھے۔ چین کے فلسفی (کونفوشیوس) کا قول ہے عورت حکم و احکام دینے کے قابل نہیں ہے ،
عورت کو گھر میں بند رہنا چاہئے تاکہ لوگ اس کے شر سے محفوظ رہیں۔قبل از اسلام جزیرہ نما عرب میں عورت زندہ رہنے کے قابل نہیں سمجھی جاتی تھی۔ بیٹی کی پیدائش ننگ و عار اور فضیحت و شرمساری کا موجب تھی ۔ اسلام نے عورت کو وہ مقام دیا اور ایسی عظمت دی جس کا تصور کسی غیر مسلم معاشرے میں ممکن نہیں ہے ۔ اسلام میں عورت کی عظمت کا کیا کہنا کہ جب بیٹی ملنے آتی تو علت غائی ممکنات ، انبیاء کے سرداربنفس نفیس تعظیم کیلئے کھڑے ہو جاتے اور اپنی مسند پر بٹھاتے عظمت عورت کا ذریعہ جناب فاطمہ ہیں ۔ قبل از اسلام اہل عرب بیٹی کو زندہ در گور کر دیا کرتے تھے ۔جیساکہ قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے۔
وَاِذَا الْمَوْء دَةُ سُئِلَتْ بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ۔ "اور جب زندہ در گور لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ میں ماری گئی ۔" (تکویر :9-8) یہ قبیح رسم اس قدر عام تھی کہ جب عورت کے وضع حمل کا وقت قریب آتا تو زمین میں گڑھا کھودکر اسے وہاں بیٹھا دیا جاتا پھراگر نوزائیدہ لڑکی ہوتی تو اسے اس گڑھے میں پھینک دیا جاتا اور اگر لڑکا ہوتا تو اسے زندہ چھوڑ دیا جاتا ،اسی لئے اس دور کے شعراء میں ایک شاعر بڑے فخریہ انداز میں کہتا ہوا نظر آتا ہے: سمیتھا اذا ولدت تموت والقبر صہرضامن زمیت (مجمع البیان ج 10ص444)
"میں نے اس نوزائدہ لڑکی کا نام اس کی پیدائش کے وقت تموت (مر جائے گی) رکھا اور قبر میرا داماد ہے، جس نے اسے اپنی بغل میں لے لیا اور اسے خاموش کر دیا۔" بیٹیوں کو زندہ در گور کرنے کی رسم بڑی دردناک ہے۔ ان واقعات کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا، اس نے (متأثر ہونے کے بعد سچا اسلام قبول کیا ) ایک آپ کی خدمت میں آ کر عرض کرنے لگا یا۔ رسول اللہ اگر میں نے کوئی بہت بڑا گناہ کیا ہو تو کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا:
"خد ا رحم الراحمین ہے ۔" اس نے عرض کیا یا رسول اللہ !میرا گناہ بہت بڑا ہے۔ فرمایا! وائے ہو تجھ پر تیرا گناہ کتنا ہی بڑا ہی کیوں نہ ہو خدا کی بخشش سے تو بڑا نہیں ؟۔ اس نے کہا !اگر یہ بات ہے تو میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں زمانہ جاہلیت میں ،میں دور دراز سفر پر گیا ہوا تھا، ان دنوں میری بیوی حاملہ تھی چار سال بعد گھر لوٹاتو میری بیوی نے میرا ستقبال کیا ،گھر میں ایک بچی پر نظر پڑی، میں نے پوچھا یہ کس کی بیٹی ہے ؟
بیوی نے کہا !ایک ہمسائے کی بیٹی ہے۔ میں نے سوچا یہ ابھی اپنے گھر چلی جائے گی، لیکن مجھے اس وقت بہت تعجب ہوا جب وہ نہ گئی ،آخر کار مجھے پوچھنا ہی پڑا ،میں نے بیوی سے پوچھا ۔سچ بتایہ کس کی بیٹی ہے ؟ بیوی نے جواب دیا۔ آپ سفر پر تھے، یہ پیدا ہوئی، یہ تمہاری ہی بیٹی ہے۔ وہ شخص کہتا ہے۔ میں نے ساری رات پریشانی میں گزاری ،کبھی آنکھ لگتی اور کبھی بیدار ہو جاتا، صبح قریب تھی میں بستر سے اٹھا میں نے بچی کو ماں کے ساتھ سویا ہوا دیکھا ، بڑی خوبصورت لگ رہی تھی اسے جگایا اور کہا۔ میرے ساتھ چلو ہم نخلستان کی طرف چلے وہ میرے پیچھے پیچھے چل رہی تھی، جب ہم نخلستان میں پہنچے میں نے گڑھا کھودنا شروع کیا، وہ میری مدد کرتی رہی ،مٹی باہر پھینکتی رہی، میں نے اسے بغل کے نیچے سے ہاتھ رکھ کر اٹھایا اور اسے گڑھے میں پھینک دیا۔ یہ سننا تھا رسول اعظم کی آنکھیں بھر آئیں ۔
اس نے بات کو آگے بڑھایا، میں نے اپنا بایاں ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا تاکہ وہ باہر نہ نکل سکے اور دائیں ہاتھ سے مٹی ڈالنے لگا اس نے بہت کوشش کی اور بڑی مظلومانہ انداز میں فریاد کرتی تھی اور بار بار کہتی تھی بابا جان! کچھ مٹی آپ کی داڑھی اور کپڑوں میں پڑ گئی ہے، وہ ہاتھ بڑھا کر اس مٹی کو صاف کرنے لگی ،لیکن میں پوری قساوت اور سنگدلی سے اس پر مٹی ڈالتا رہا، یہاں تک اس کے نالہ و فریاد کی آخری آواز آئی اور وہ خاک میں دم توڑ گئی۔ حضرت رسول اعظم نے دکھی حالت میں یہ داستان سنی، پریشانی ظاہر تھی۔اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے فرمایا: اگر رحمت خدا کو اس کے غضب پر سبقت نہ ہوتی تو حتمًاجتنا جلدی ہوتا خدا اس سے انتقام لیتا۔ (القرآن ،یواکب الدہر،ج 2ص 214)
جزیرہ عرب کے کفار توہین کے انداز میں ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے اور فرشتوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ بیٹی کی پیدائش پر ان کا چہرہ مارے غصہ کے سیاہ ہو جاتاہے جیسا کہ ارشاد خدا ندی ہے:
أَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنَاتٍ وَّأَصْفَاکُمْ بِالْبَنِیَنَ وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَانِ مَثَلاً ظَلَّ وَجْہُہ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٌ أَوَمَنْ یُنَشَّأُ فِی الْحِلْیَةِ وَہُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ وَجَعَلُوا الْمَلاَئِکَةَ الَّذِینَ ہُمْ عِبَادُ الرَّحْمَانِ إِنَاثًا أَشَہِدُوْا خَلْقَہُمْ ۔
"کیا اللہ نے اپنی مخلوق میں سے (اپنے لیے)بیٹیاں بنا لیں ہیں اور تمہیں بیٹے چن کردیئے حالانکہ ان میں سے جب کسی ایک کوبھی بیٹی کامثردہ سنایا جاتا ہے جو اس نے خدا ئے رحمان کی طرف منسوب کی تھی تواندر اندر غصے سے پیچ و تاب کھا کر اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے۔ کیا وہ جو ناز و نعم کے زیورمیں پلی ہے اور جھگڑے کے وقت (اپنا) مدعا بھی واضح نہیں کرسکتی۔ (اللہ کے حصہ میں آتی ہے؟) اورا ن لوگوں نے فرشتوں کو جو خدا کے بندے ہیں (خدا کی)بیٹیاں بنا ڈالا ۔ کیا وہ فرشتوں کی پیدائش کو کھڑے دیکھ رہے تھے؟ (زخرف،16تا19)
ہو سکتاہے کہ یہ خیال زمانہ جاہلیت کی خرافات سے عربوں تک پہنچا ہو لیکن عرب ظلم و جور میں بہت آگے بڑھ گئے وہ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے ۔ (زخرف،16تا19) ارشاد خدا وندی ہے:
وَیَجْعَلُونَ لِلَّہِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَہ وَلَہُمْ مَّا یَشْتَہُوْنَ وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بِالْأُنْثَی ظَلَّ وَجْہُہ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٌ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْءِ مَّا بُشِّرَ بِہ أَیُمْسِکُہ عَلٰی ہُوْنٍ أَمْ یَدُسُّہ فِی التُّرَابِ أَلاَسَاءَ مَا یَحْکُمُوْنَ
"اور انہوں نے اللہ کے لیے بیٹاں قرار دے رکھی ہیں جس سے وہ پاک و منزہ ہے اور یہ لوگ اپنے لیے وہ اختیار کرتے ہیں جو یہ پسند کریں یعنی لڑکے اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو غصے کی وجہ سے ان کا منہ سیاہ ہوجاتاہے اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپتے رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کیا انہیں اس ذلت کے ساتھ زندہ رہنے دیا جائے یا انہیں زیر خاک دفن کردیا جائے۔دیکھو کتنا برا فیصلہ ہے جو یہ کر رہے ہیں۔ " ( سورہ نحل آیت 57-58-59 ) بہر حال اسلام سے قبل بیٹی( لڑکی) انسان ہی نہیں سمجھی جاتی تھی اور آج بھی بیٹے کی پیدائش پر خوشیوں کے شادیانے بجتے ہیں ، مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں ،ہدیہ تبریک پیش کیا جاتاہے ۔
اوربیٹی کی پیدائش پر بس سردمہری ، سکوت اور خاموشی کا مظاہرہ ہوتا ہے آخر ایسا کیوں ہے؟
حقوق نسواں کے بارے ميں استکبار کي غلطي
جاہليت سے مالا مال عالمي استکبار بہت بڑي غلطي ميں ہے کہ جو يہ خيال کرتا ہے کہ ايک عورت کي قدرو قيمت اور بلند مقام اِس ميں ہے کہ وہ خود کو مردوں کيلئے زينت و آرائش کرے تاکہ آوارہ لوگ اسے ديکھيں، اُس سے ہر قسم کي لذت حاصل کريں اور اُس کي تعريف کريں۔ مغرب کي انحطاط شدہ اورمنحرف ثقافت کي جانب سے ’’آزادي نِسواں‘‘ کے عنوان سے جو چيز سامنے آئي ہے اُس کي بنياد اِس چيز پر قائم ہے کہ عورت کو مردوں کي (حيواني اور شہوتي) نگاہوں کا مرکز بنائيں تاکہ وہ اُس سے جنسي لذت حاصل کرسکيں اور عورت ، مردوں کي جنسي خواہشات کي تکميل کيلئے ايک آلہ و وسيلہ بن جائے، کيا اِسي کو ’’آزادي نسواں‘‘ کہا جاتا ہے؟
جو لوگ حقيقت سے جاہل اور غافل مغربي معاشرے اور گمراہ تہذيب و تمدن ميں اس بات کا دعويٰ کرتے ہيں کہ وہ انساني حقوق کے طرفدار ہيں تو درحقيقت يہ لوگ عورت پر ظلم کرنے والوں کے زمرے ميں شمار ہوتے ہيں ۔
آپ عورت کو ايک بلند مرتبہ و مقام کے حامل انسان کي حيثيت سے ديکھئے تاکہ معلوم ہو کہ اُس کا کمال ، حق اور اس کي آزادي کيا ہے؟آپ عورت کوعظيم انسانوں کے سائے ميں پرورش پانے والے اور اصلاح معاشرہ کيلئے ايک مفيد عنصر کي حيثيت سے ديکھے تاکہ يہ معلوم ہو کہ اُس کا حق کيا ہے اور وہ کس قسم کي آزادي کي خواہاں ہے ( اور کون سي آزادي اُس کے انساني مقام ومنصب سے ميل کھاتي ہے)۔
آپ عورت کو ايک گھرانے اور خاندان کي تشکيل دينے والے بنيادي عنصر کي حيثيت سے اپني توجہ کا مرکز قرار ديں۔ درست ہے کہ ايک مکمل گھرانہ مرد اور عورت دونوں سے تشکيل پاتا ہے اور يہ دونوں موجود خاندان کي بنياديں رکھنے اور اُس کي بقا ميں موثر ہيں، ليکن ايک گھرانے کي آسائش اور آرام و سکون عورت کي برکت اور صنفِ نازک کے نرم و لطيف مزاج کي وجہ ہي سے قائم رہتا ہے-
اس زاويے سے عورت کو ديکھئے تاکہ يہ مشخص ہو کہ وہ کس طرح کمال حاصل کرسکتي ہے اور اُس کے حقوق کن امور سے وابستہ ہيں۔
اہل يورپ نے جديد ٹيکنالوجي کو حاصل کرنا شروع کيا اور انيسويں صدي کے اوائل ميں مغربي سرمايہ داروں نے جب بڑے بڑے کارخانے لگائے اور جب اُنہيں کم تنخواہ والے سستے مزدوروں کي ضرورت ہوئي تو انہوں نے ’’آزادي نسواں‘‘ کا راگ الاپنا شروع کرديا تاکہ اِس طرح خواتين کو گھروں سے نکال کر کارخانوں کي طرف کھينچ کر لے جائيں، ايک سستے مزدور کي حيثيت سے اُس کي طاقت سے فائدہ اٹھائيں، اپني جيبوں کو پُرکريں اور عورت کو اُس کے بلند مقام و مرتبے سے تنزُّل ديں۔ مغرب ميں آج جو کچھ ’’آزادي نسواں‘‘ کے نام پر بيان کيا جارہا ہے ، اُس کے پيچھے يہي داستان کار فرماہے ،يہي وجہ ہے کہ مغربي ثقافت ميں عورت پر جو ظلم و ستم ہوا ہے اور مغربي تمدن و ادب ميں عورت کے متعلق جو غلط افکار و نظريات رائج ہيں اُن کي تاريخ ميں مثال نہيں ملتي۔
تربیت فرزندان
خلاصہ :
تربیت کسی فرد، معاشرہ یا گروہ کی ایسی نشوونما کانام ہے جو اسے بلند انسانی مرتبوں تک پہنچاسکے بہرحال تربیت کا عنوان اور موضوع انسان ہے کہ عام انسانوں کو کیا کرنا چاہے؟ہر انسان کو دوسرے انسان یا اگر اس میں لیاقت اور استعداد ہو تو اپنی اور دوسری قوموں اور گروہوں کی تربیت کرنا چائیے جیسے خدا تعالی کا حکم ہے:( یا ایہا الذین امنوا قوا انفسکم واہلیکم ناراً )
متن:
تربیت اور تربیت کا مفہوم
تربیت اور اس سے ملتے جلتے الفاظ ایسے کلمات میںسے ہیں جنہیں ہر ایک اپنی روز مرہ کی زندگی میں استعمال کرتاہے جیسے تربیت یافتہ، با ادب، مؤدب ۔
لغت۔اہل لغات نے تربیت کے معنی پالنا ،تربیت کرنا اور کسی کو تدریجاً نشو ونما دے کرکے حد ِکمال تک پہنچانا ہے اور تربیت مادہ ربّ سے نکلاہے اہل لغات نے بہت سے معانی ذکر کیئے ہیں ان میں سے بعض جیسے برتری ،سردار ،مالک،سیاستدان، اصلاح کرنے والا اور تربیت کرنے والا۔
اصطلاح ۔اہل عرف وعقلاء کی اصطلاح میں تربیت کا مفہوم کچھ اس طرح ہے ۔
تربیت۔١ ،یعنی انسان کی پوشیدہ اور چھپی ہوئی صلاحیتوں کی تربیت کرنا ،
تربیت۔٢ :انسان کو پستی سے نکال کر بلندی اور تکامل کی راہ پر گامزن کرنے اور اسے آگے بڑھانا،میں جن صفات کی ضرورت ہو ان کی دیکھ بھال کرکے صحیح پروان چڑھانے کا نام تربیت ہے ۔
تربیت٣۔ یعنی کسی کے اندر مناسب رفتار پیدا کرنے اور اس کو اچھے ہدف تک پہنچانے اور اس کی استعداد کو اجاگر کرنے کیلے کمالات کی طرف حرکت دینے کا نام تربیت ہے
تربیت٤۔تربیت میں کسی چیز کو وجود میں نہیں لایا جاتا بلکہ تربیت میں ان موجود صفات کی پرورش کی جاتی ہے جیسے مالی اور باغبان اپنے باغ میں پودوں اور پھولوں کی اچھی طریقے سے دیکھ بھال کرتاہے اور باغ کے ہر ایک پھول ور پودے کی پرورش کرتاہے اور انہیں مختلف موذی امراض سے بچانے کی کوشش کرتارہتاہے تاکہ اس سے اپنا مطلوبہ مقصد حاصل کرے ۔
تربیت ٥۔ ہمارے استاد معظم قبلہ سید حسین مرتضی نقوی صاحب حفظہ اللہ کے الفاظ میں تربیت کسی فرد، معاشرہ یا گروہ کی ایسی نشوونما کانام ہے جو اسے بلند انسانی مرتبوں تک پہنچاسکے بہرحال تربیت کا عنوان اور موضوع انسان ہے کہ عام انسانوں کو کیا کرنا چاہے؟ہر انسان کو دوسرے انسان یا اگر اس میں لیاقت اور استعداد ہو تو اپنی اور دوسری قوموں اور گروہوں کی تربیت کرنا چائیے جیسے خدا تعالی کا حکم ہے:( یا ایہا الذین امنوا قوا انفسکم واہلیکم ناراً )(١) تم اپنی بھی تربیت کرو تاکہ ذلت وپستی اور جہنم میںجانے کی بجائے انسان بلند مرتبوں تک پہنچو اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کی بھی تربیت کرو اور ان کو بھی پستی ،ذلت اور جہنم کی آ گ سے بچائو گویا اس آیت کا لہجہ یہ بتلارہاہے کہ تربیت ایک امر واجب اور ضروری ہے کیونکہ ذلت ،پستی اور جہنم سے بچنے اور کمالات کی طرف بڑھنے کیلے تربیت ضروری ہے اور اس آیت سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ تربیت کا مقصد یہ ہے کہ ہر انسان اپنی فردی اور اجتماعی ذمہ داری کو انجام دے اور دوسروں کے حقوق کو پائمال نہ کرے اور نہ ہی تجاوز کرے۔
حضرت امام جعفر صادق سے ابو بصیر نے اس آیت مذکورہ کے ضمن میں عرض کیا ،میں ان کو (اہل وعیال اوردوسرے لوگوں کو ) کیسے بچائوں ؟ امام نے فرمایا امر خدا کا حکم دو اور نہی خدا سے روکو اگر تمہاری اطاعت کی تو تم انہیں جہنم سے بچالیا ہے اور اگر نافرمانی کی تو تم نے اپنا فریضہ ادا کیا امام کے اس فرمان سے معلوم ہوتاہے کہ تربیت فرائض میں سے ایک فرض اور واجب ہے اوراسی طرح ایک آیہ مجیدہ کی تفسیر میں تربیت کے مفہوم کو امام مزید واضح
فرماتے ہیں (ومن احیا ھا فکانما احیا الناس ).(٢) جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا انسانوں کو زندہ کیا امام جعفر صادق اس آیہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: کہ زندہ کرنے سے مراد ظاہری حیات وزندگی نہیں ہے بلکہ یہاں زندہ کرنے سے مراد تربیت ِانسان ہے ایک مردہ انسان کو زندہ کرنے کا مقصد اسے گمراہی سے ہدایت کی طرف لے آنا اور اس کی تربیت کرنا، اسی وجہ سے اللہ تعالی نے انبیائ کی بعثت کا مقصد انسانوں کی تربیت اور ھدایت قرار دیا ہے، (کما ارسلنا فیکم رسولاً منکم یتلواعلیکم آیاتنا ویزکیکم ویعلمکم ا لکتاب والحکمة ویعلمکم مالم تکونوا تعلمون).(٣) ہم نے تمہارے درمیان تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں ہماری آیات سناتاہے اور تمہیں پاکیزہ کرتاہے اور تمہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتاہے اور تمہیں ان چیزوں کی تعلیم دیتاہے جو تم نہیں جانتے ایک اور جگہ انبیاء علیہم السلام کی خدمات کو اللہ تعالی نے تربیت کے نام پر یاد فرمایا:
(ربنا وابعث فیھم رسولاً منھم یتلوا علیھم ایاتک ویعلمھم الکتاب والحکمة ویزکیہم انک انت العزیز الحکیم).( ٤)
اے ہمارے رب !ان میں ایک رسول بھیج جو انہیں آیات سنائے اور کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور انہیں ہر قسم کی پستی اور ذلت سے نکال کر پاک کرے اور بیشک تو تو غالب و صاحب حکمت ہے اس لئیے اللہ تعالی نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور ١٤ چہاردہ معصوم ہستیوں کو انسان کی تربیت کیلے بھیجا تاکہ انسان کو اس تربیت کے ذریعہ پستی سے نکال کر کمال تک پہنچائے اسی وجہ سے اللہ تعالی نے سورہ مائدہ کی آیت ٣٢ میں ایک انسان کی تربیت اور ہدایت کو تمام انسانوں کی تربیت وہدایت سے تعبیر فرمایا:
( من احیاھا فکا نما احیا الناس جمیعاً).
شاید یہی وجہ تھی کہ انبیاء اور اولیاء الھی کی سب سے بڑی ذمہ داری تعلیم وتربیت تھی ۔
اور اللہ کا مومنین پر احسان ہے کہ ان کی تعلیم وتربیت کیلے ان کی طرف رسول بھیجے جیسے اس آیت میں ارشاد رب العزت ہے :
(لقد من اللہ علی المومنین اذبعث فیھم رسولاً من انفسھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم ،لکتاب والحکمة وان کانو ا من قبل لفی ضلال مبین ).(5)
ایمان والوں پر اللہ نے احسان کیا کہ ان کے پاس ایک رسول بھیجا جو انہی میں سے ہے جو انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتاہے اور ان کا تزکیہ نفس کرتاہے اگرچہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی اور پستی میں تھے ایک اور آیت میں تعلیم وتربیت کو انسانوں کیلے مایہ حیات قرار دیا ہے :اور وہ لوگ جنہیں انبیا ء الہی کی تعلیم وتربیت حاصل نہیں ہوئی انہیں مردہ قرار دیاہے:
( یا ایہا الذین امنوا استجیبوا للہ ولرسولہ اذا دعاکم لما یحییکم )
اے ایمان والو !اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات افرینش باتوں کی طرف دعوت دیں ان مزکورہ بالا آیات کی روشنی میں یہ بات واضح اور روشن ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کی تربیت کیلے کتنا بڑا انتظام کیا کہ رسول بھیجے امام بھیجے یہاں تک کہ انسان کو عقل جیسی نعمت سے نوازا ایک انسان کی تربیت کیلے خدا نے کتنا بڑا انتظام کیا کہ اپنی طرف سے انسانی زندگی کے مختلف مراحل میں مختلف افراد کو اس ذمہ داری کو ادا کرنے کیلئے کبھی رسول ِظاہری اور کبھی رسول ِ باطنی جیسی نعمت دے کر تربیت فرمائی اور کبھی والدین کو تربیت کیلے مسئو لیت دے دی۔
کہ ایک حد تک والدین تربیت کریں اور اللہ تعالی نے اپنے رسول وامام کے ذریعہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچایا کہ تم اپنی تربیت کرو اور لوگوں کی بھی تربیت کرو اور ان کو ذلت وپستی اور جہنم کی آگ سے بچائو ۔سورہ تحریم آیت ٦ میں سختی سے تربیت کی طرف متوجہ کیا اور پھر پورے معاشرے کی یہ ذمہ داری قرار دی کہ تربیت میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں ایک دوسرے کا ساتھ دیں اگر رشتہ دار ہیں تو بھی اس تربیت میں اپنا مثبت کردار ادا کریں اگر علماء اور دانشمند ہیں تو وہ بھی معاشرے کے تمام انداز کی تربیت کریں اور لوگوں کو انحراف اور ذلت وپستی سے نکالیں اور معاشرے کی مشکلات کو حل کریں اور اگر اساتید ہیں تو بھی فقط ایک کورس اور کتابوں کے نصاب کی حد تک محدود نہ رہیں بلکہ وہ بھی اس تربیت ِانسانی میں مسئول ہیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی کریں اور اگر حکومت اسلامی ہو تو اس کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے میں ایسے امور اور قوانین لاگو کرے کہ جس کے ذریعہ معاشرے کے تمام آفراد تربیت یافتہ اور مہذب بن سکیں اور خود معاشرے کے ہر فرد کی بھی یہی ذمہ داری ہے۔
کہ تربیت کے اصول وضوابط کی پابندی کریں تاکہ تربیت کے امور کو دوسرے لوگ اپنے لیے ایک نمونہ اور الگو سمجھیں اور اسی طرح جب ہر فرد اپنے عہدے کو پابندی سے پورا کرے گا تو اس سے کئی معاشرے اور ملک تربیت کی شاہراہ پر چل پڑیں گے اور اس اہم تربیت سے سب لوگ استفادہ کریں گے اور اس عظیم فریضے کو پورا کرسکیں گے کیونکہ ایک اچھے معاشرے کی کامیابی اور اس کی ترقی کا راز اچھی تربیت اور پرورش میں پوشیدہ ہے پیغمبر اسلام ۖ جنہوں نے اپنی مبارک زندگی کو انسان سازی اور گمراہ انسانو ںکی ہدایت اور تربیت میں گزاری اور اپنی بعثت کے فلسفے اور ہدف کو یوں بیان فرمایا:( انما بعثت لا تمم مکارم الاخلاق) .(6 )
اسلام کی ترقی میں رسول اکرم ۖ کے حسن ِاخلاق کو زیادہ دخل ہے کیونکہ خدا وند عالم اسلام کی وسعت وبلندی کی نسبت اخلاق ِپیغمبر ۖکی طرف دیتاہے :
(ولو کنت فظاً غلیظ القلب لا نفظوا من حولک) (7 )
اے پیغمبر ۖاگر تم بد مزاج وسخت دل ہوتے تو لوگ تم سے دور ہوجاتے اور منتشر ہوجاتے پیغمبر اسلام انسان کی تربیت کے پہلے معلم تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی انسان کی تربیت میں گزاری ۔
ایک مرتبہ رسولۖ اسلام اپنے اصحاب کے ساتھ ایک گلی سے گزر رہے تھے اس گلی میں چھوٹے چھوٹے بچے کھیل رہے تھے آپ نے بچوں کو دیکھا اور ٹھنڈی سانس بھر کر کہا اللہ اکبر ،اصحاب نے جب رسول خدا کے چہرے پر غم کے اثرات دیکھے تو آپ سے عرض کی یا رسول اللہ کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا کہ ہائے آخری زمانے کے بچے کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ اپنی اولاد کے کھانے پینے رہنے سہنے کی فکر کی حد تک زیادہ توجہ کریںگے لیکن آخرت کے بارے بالکل بے فکر ہوں گے یہ ہماری تربیت اور اولاد کی تربیت انہیں یاد آرہی تھی اور ان کے غم کا باعث بن رہی تھی یا خود امام حسین سے پوچھا گیا کہ آپ کربلا میں کیوں جارہے ہیںامام حسین نے جواب دیا کہ:
(بل خرجت لاصلاح امت جدی ) .(8 )
میں اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لئے مدینے سے کربلا جارہا ہوں :(ارید ان امر بالمعروف والنھی عن المنکر)
امام نے فرمایا کہ میں چاہتاہوں کہ لو گوں کو اچھے امور کی تربیت کروں اور برے کاموں سے روکوں تربیت ِانسانی میں پیغمبر اسلام اور ان کی آل ِاطہار کو کتنا فکر دامن گیر تھی اللہ نے پیغمبر اسلام کو انسان کی تربیت کیلے اسوہ حسنہ کا پیکر بنا کر مبعوث فرمایا:
( لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة)(9) در حقیقت تم لوگوں کیلے اللہ نے رسول کو بہترین نمونہ بنایا تھا ۔
حضرت نبی اکرم ۖ اس دنیا میں لوگوں کیلئے ایک مثالی نمونہ بن کر تشریف لائے تھے اور آنحضرت ۖ اپنے عمل سے انسانوں کی ہدایت وتربیت فرمائی اور آپ کی تربیت سے دنیا میں ایک مثالی امت برپا ہوئی جس کے بارے میں خدا فرماتاہے :
(کنتم خیر امت اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتومنون باللہ ) (10)
اسلام کی نظر میں نمونہ عمل تربیت کا بہترین ذریعہ ہے اور اسلام نے اس اصول کو کہ تربیت دے کر جس قسم کے افراد تیار کرنے ہیں ان کے سامنے اس کو مثالی نمونہ وعملی پیکر بن کر رہیں جس طرح امام جعفر صادق فرماتے ہیں :
(کونوا دعاة الناس بغیر الالسنتکم ) (11)کہ لوگوں کو اپنے عمل کے ذریعہ دعوت دو۔
تربیت کی اقسام
(١) فلسفہ تربیت (٢) فردی تربیت (٣) اجتماعی تربیت (٤) جسمانی تربیت (٥)روحانی تربیت
(٦) معاشرتی تربیت (٧) جغرافیائی تربیت (٨) تربیت اور حقوق (٩) سیاست اور تربیت
مذکورہ بالااقسامِ تربیت کے علاوہ اور بھی اقسا م ہیں لیکن مشہور ومعروف اقسام ِتربیت یہی ہیں اوران میں سے ہرایک کی مختصر تشریح کرتے ہیں۔
١۔ فلسفہ تربیت
فلسفہ تربیت میں اصل موضوع انسان کی ذات ہے کہ آیا انسان کی تربیت کا کوئی مقصد ہے یا نہیں پھر انسان اورمربی کے درمیان کو نسا رابطہ ہے؟ مربی کی تربیت میں کونسی باتیںاصول ِتربیت کے عنوان سے مد نظر ہیں ؟پھر انسان کی تربیت سے پہلے خود انسان کیا ہے اور کیسے دنیا میں آیا ہے اور کس طرح انسان کی تربیت کریں؟
٢۔ فردی تربیت
ایک فرد کی تربیت معاشرے کی تربیت کا سبب بنتی ہے۔ اگر ہر فرد تربیت یافتہ ہوگا تو اس سے ایک معاشرہ تشکیل پائے گا۔ اگر فردی تربیت نہ ہوگی تو معاشرے کا فرد قرار نہیں پائے گا اور پھر فردی تربیت میںماں باپ کی طرز فکر کو دیکھا جاتاہے کہ جس طرح کے وہ لوگ عقائد رکھتے ہونگے اسی طرح اس کی تربیت کریںگے۔
٣۔ اجتماعی تربیت
اجتماعی تربیت جیسے استاد وشاگرداور مدرسہ واسکول کی تربیت کہ کس طرح کامعلم ہو تو تربیت پانے والے افرادکو کیاکرنا چاہیے،اسکول کا اثر تربیت اجتماعی طور پرکیا ہوتاہے اور اجتماعی تربیت میں کونسی چیزوں کی رعایت کرنی چاہیے اور اجتماعی تربیت کی کیا قدروقیمت ہے؟ ۔بہر حال اور بہت سے امور میں بحث ہوگی کہ اجتماعی تربیت مختلف افراد اور مختلف قومیںاور استعداد وغیرہ، مورد بحث ہیں۔
٤۔جسمانی تربیت
کہ ورزش کے لیے مثلاًاعضاء صحیح وسالم ہونے چاہیں یا اعضائے جسمانی اور اعصاب اور گوشت و پوست وغیرہ کی کیسے تربیت کی جائے ؟۔ انھیں کیسا رکھا جائے ؟،غذا کونسی ہونی چائیے؟ عقل و ہوش کیساہو؟ حواس ظاہری خمسہ کی تربیت اورحافظہ و شعور کی تربیت، پھر جسمانی تربیت میں طاقت وکمزوری وغیرہ سے بحث ہوگی اور مختلف حالات سے بحث مثلاًجسم کے لیے کونسی چیز یںمضر ہیں اورکونسی چیزیں مفید ہیں۔
٥۔روحانی تربیت
روحانی تربیت کے متعلق پہلے کافی گفتگو ہو چکی ہے کہ جس طرح جسم کے لیے غذا و لباس کی ضروت ہے ۔اسی طرح روح کی ضرورت کوبھی مدنظر رکھ کر اسے اس کی ضروریات فراہم کی جائیں۔
٦۔معاشرتی تربیت
کہ ایک انسان معاشرے میں کس طرح زندگی گزارے اور کس طرح معاشرے کی ذمہ داری کو نبھاے ۔
٧ ۔ جغرافیائی تربیت
جغرافیائی تربیت میںمختلف جہت سے گفتگو ہوگی کہ ہر ملک وشہر کی آب وہوا کیسی ہے ؟۔اور تربیت پر اسکے کیا اثرات مر تب ہوتے ہیں ؟ ہر ملک وشہر کا جغرافیہ مختلف ہے ۔پہلے اس کے بارے میںجاننا ضروری ہے ۔پھر تربیت کو اس کی جغرافیائی انداز سے پیش کیا جاسکتاہے۔
٨۔تربیت اور حقوق
تربیت اور حقوق کے لحاظ سے کافی مفصل بحث ہے کہ والدین کے حقوق کیا ہیں، اولاد کے حقوق اور پھر ایک مربی کے حقوق اور اساتذہ کے حقوق، شاگردوں کے حقوق پھر ایک علاقے کے دوسرے علاقے پر حقوق اور پھر ایک شہر کے دوسرے شہر وں پر حقوق اور ایک ملک کے دوسرے ممالک پر کون سے حقوق ہیں ۔ اس تربیت میں اگر ان حقوق کو بیان کیا جائے تو ایک علیحدہ کی کتاب ضرورت ہے۔
کیونکہ اگر مختلف حقوق اور تربیت میں فقط والدین اور اولاد کے حقوق پر اجمالاًبحث کی جائے اور وہ بھی احادیث کی رو سے ورنہ آیات اور احادیث کو ہی اگر جمع کریں تو پھر ایک مفصل کتاب کی شکل میں ہو سکتاہے کہ بیان کیاجائے۔
٩۔سیاست اور تربیت
اس موضوع میں بھی کافی بحث ہے کہ سیاسی لوگوں نے تربیت پر کتنی توجہ کی بادشاہوں نے رعایہ کی تربیت پر کیسے خرچ کیایاکررہے ہیں یا ان کے کچھ اور مقاصدہیں اور پھر ہر زمانے میں ہر ملک اور اس کے سیاسی افراد نے تربیت پر کتنا زور دیا اور دیتے رہے ہیں یا آج کل ہر ملک اور اس کے سیاسی افراد تربیت پر توجہ دے رہے ہیں ۔اور ان لوگوں پر تربیت کے لحاظ سے کتنا حق ہے اور تربیت میں وہ مخصوص کردار کے حامل ہیں اور انھیں اس تربیت پر کیا کرنا چاہیے۔
مثلاًہر ملک وشہر میں اسکول و کالج ہیں ، مساجد و مدارس ہیں آیا ان مدار س وکالجوں کے ذریعہ تربیت کا حق ادا ہو رہاہے ، یا فقط ان میں سیاسی اہداف کو پورا کیا جارہاہے ۔ بہر حال کافی طولانی موضوع ہے ۔اس پر ہرملک وملت کے احوال سے واقف ہو کرکچھ کہا جاسکتاہے اور پھر وقت بھی ہو کہ جس میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی جائے۔
استعدادِ تربیت
١۔ غرائض۔٢ فطرت۔ ٣ استعدادِ اندرونی۔ ٤ الہام۔ ٥۔علم وآگاہی ۔٦۔ سعادت طلبی ۔٧ ۔ قدرت وتوانائی۔٨ ۔عقل ۔مذکورہ بالا امور تربیت کے وہ عوامل ہیں جو ہر انسان میں پائے جاتے ہیں اور ہر انسان میں یہ استعدادہے کہ وہ مذکورہ عوامل کو پالے اور تربیت سے بہرہ مند ہو بر حال ان عوامل کی مختصر وضاحت کرتے ہیں تاکہ تربیت کے موضوع کو کسی حد تک واضح کرسکیں انسان اور حیوان میں تربیت کے لحاظ سے کافی فرق ہے اگرچہ کچھ جانوروں کی تربیت کی جاتی ہے اور ان پر بھی تربیت کا نام صادق آتاہے لیکن تربیت کی استداد انسان میں زیادہ ہے۔
١۔ غرائض
غرائض سے مراد انسان کی جسمانی خواہشات اور آرزوئیں ہیں کہ جو ہر انسان میں پائی جاتی ہیں کسی میں زیادہ کسی میں کم بہرحال خواہش ِنفس کا تو کوئی انکارنہیںکرسکتالیکن خواہشات کو اپنانے اور اپنی مرضی سے حیوان کی طرح بعض امور کو انجام دینا وغیرہ میں اختلافِ نظر ہے باوجود اس خواہش اندرونی کے انسان میں صلاحیت وقدرت ہے کہ وہ منشائے الٰہی کے تحت تربیت پائے اوریہ استعداد وقدرت انسان کی ذاتی خواہش کی حد تک تربیت میں معاون بھی بنتی ہیں مثلاً کھانا پیناوغیرہ اور محبت ونفرت دشمنی ودوستی جیسے امور کو انسان کی ذاتی غرض کہا جاتاہے ۔
٢۔ فطرت
انسان میں ایک فطرت ہے اس سے مراد اس کی طبعی تخلیق مراد ہے کہ وہ طبعاً فطرتِ انسانی پر پیدا ہواہے اور اس میں تربیتِ استعداد فطری امر ہے کیونکہ استعداد ایک فطری امر ہے اور اس کے بارے میں پہلے چند آیات زکر کی ہیں ،کتاب کے حجم کو دیکھتے ہوئے فقط اشارہ کرنا کافی ہے مثلاً انسان فطرتاً سچائی کو دوست رکھتاہے جھوٹ سے فطرتاً پرہیز کرتاہے امانت کی حفاظت کرتاہے اور دوسرے فطری امور وغیرہ ۔
٣۔صلاحیت اندرونی
انسان کے اندر بہت سی چھپی ہوئی صلاحیتیں ،موجود ہیں جو نشو ونما اور عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوتی ہیں اور بعض کو خود ظاہر کرنا پڑتاہے مثلاً انسان میں گفتگو کرنے کی استعداد ہے لیکن اس کیلئے گفتگو کے طریقے مثلاً کہ بڑوں کے سامنے کیسے گفتگو کی جائے اور استاد کے سامنے کیسے بات کی جائے وغیرہ جیسی ضروریات کو تربیت کے ذریعہ ہی انجام دیا جاسکتاہے ورنہ بولنا ،رونا ،ہنسنا وغیرہ یہ ایسے اندرونی استعدادی امور ہیں کہ جن کو وہ روزمرہ کی زندگی میں انجام دیا جاتاہے لیکن تربیت استعدادی امور کو ان کے محل وموقع کی مناسبت سے ہی استعمال کرنا سکھاتی ہے اور تربیت کرنے کیلے اس کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو ظاہر کرنا اور استعمال میں لانے کیلئے ایک منجھے ہوئے مربی کی ضرورت ہے تاکہ وہ تربیت پانے والے افراد کی چھپی ہوئی صلاحیتوں میں دخل اندازی کرے اور ان کی اس استعدادی قوت کو استعمال میں لائے۔
٤۔ الہام
انسان میں بعض ایسی چیزیں وقوع پذیر ہوتی ہیں کہ جن کا پہلے سے علم نہیں ہوتا لیکن انسان ان سے اچانک آگاہی حاصل کرتاہے قرآن مجید میں اس کی طرف اشارہ ہواہے۔
( ونفس وما سوھا فا لھمھا فجورھا وتقوھا )(12)
سورہ شمس کہ اس میں الہام نیکی اور برائی کی صلاحیت ہے لہٰذا تربیت میں یہ بھی عوامل پایا جاتاہے کہ بعض انسانوں کو تربیتی امور میں نیکیوں کا الہام ہوتاہے اور بعض کو برائی کی طرف البتہ نیکیوں کا الہام خدا کی طرف سے اور برائیوں کا الہام شیطانی وسوسوں سے ہوتاہے ۔
٥۔ علم وآگاہی
انسان میں علم حاصل کرنے کی استعداد موجود ہے اور انسان کسی چیز کو اگر سونگھ لے تو اس سے اس کے علم میں اضافہ ہوگا کہ یہ خوش بودار چیز ہے یا بد بودار چیز یا یہ کون سے پھول کی خوش بو ہے اسی طرح اگر کسی چیز کو چھو لے اگر اس سے سردی وگرمی کا احساس ہو تو اس کے علم میں اضافے کا سبب بنے گی اسی طرح کسی چیز سے جاہل ہو تو تو اس سے علم حاصل کرنے کی استعداد وقوت ہر انسان میں ہے برحال خلاصہ یہ ہے کہ تربیت کیلے علم جیسی استعداد انسان میں موجود ہے ۔
٦۔سعادت طلبی
انسان فطرتاً سعادت کا خواہاں ہے اور اس میں سعادت طلب کرنے کی استعداد موجود ہے لہذا تربیت سے بہرہ مند ہوسکتا ہے اور اپنے آپ کو اس دنیا میں سعید وخوش بخت بناسکتا ہے اور سعادت یا دنیا کی ہو گی یا آخرت کی یا اپنی ذات کی سعادت کو طلب کرنا چاہتا ہے یا دوسروں کی سعادت کی فکر کرتاہے کہ جس طرح انبیاء کرام ومعصومین نے سب کی سعادت کو مد نظر رکھ کر زحمتیں اٹھائیں۔
٧۔ قدرت وتوانائی
تربیت کو اگے بڑھانے کیلے جس کی تربیت کی جارہی ہے اس میں قدرت وتوانائی ہونی چاہئیے کہ اور یہ فطری بات ہے کہ خدا نے انسان کو عقل جیسی نعمت سے نوازا ہے اور اس میں یہ قدرت ہے کہ وہ تربیت کے زرین اصولوں پر عمل کرکے اپنی استعداد بڑھا سکتا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ خدا کی ساری مخلوق میں قدرت وتوانائی اس کی اپنی حیثیت کے مطابق پائی جاتی ہے مثلاً جمادات میں دیکھیں نمو پایاجاتاہے نباتات میں بھی ہے حیوانات میں بھی ہے اور انسان میں بدرجہ اتم (پورے طورپر) موجود ہے
٨۔عقل وفکر
عقل وفکر بھی استعداد تربیت کے عوامل میں سے ایک ہے اور حیوان وانسان کے درمیان بڑا فرق عقل کی وجہ سے ہے کہ انسان مکلف ہے تو عقل کی وجہ پھر اگر عقل نہ ہوگی تو تربیت کیسے ہوسکے گی اسلام کے سب احکام پر عمل کرنا عقل کی وجہ سے ہے جو عقل نہیں رکھتا اس پر کوئی تکلیف نہیں لہذا عقل تربیت کی استعداد بڑھانے میں سے ایک عامل ہے اس کے علاوہ دوسرے عوامل مثلاً اختیار وتقلید ،تجربہ ،حافظہ وآزادی احساس ووعظ ونصیحت کہ جن کی وضاحت پہلے ہوچکی ہے یہ سب تربیت کے عوامل میں سے ہیں خدا ہمیں یہ قوت وطاقت دے کہ ہم اپنی اور اپنی اولاد و معاشرے کی تربیت کرسکیں آمین ۔
تربیت کے اصول
١،محبت٢،اعتدال٣،تشویق٤،ماحول،٥آزادی٦،مشاہدات٧،تفکر٨،نصیحت٩،نمونہ١٠،قصے وغیرہ ١١،عا د ت ١٢، سزا
١۔محبت
انسانی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی ذات سے اور اپنے نفس سے محبت کرتاہے اور وہ چاہتا ہے کہ دنیا کی ہر لذت سے بہرہ مند ور ہو اور بہت سی آسائش اور نعمتوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے کا خواہشمند ہے مثلاً چاہتاہے کہ اس کی عمرطویل ہو اور اسے ہر آدمی چاہے اور محبت کرے بلکہ وہ تمام کائنات کا محور ومرکز بن جائے ،وانہ لحب الخیر لشدید سورہ عادیات آیت٨ وہ مال ودولت وخیر میں زیادہ مبتلاہے ان خواہشوں وتمنائوں کے حصول میں حائل ہونے والی ہر مادی ومعنوی رکاوٹ کو انسان ناپسند کرتاہے اور ان لوگوں سے نفرت کرتاہے جو اس کے درپے آزار ہوں بہرحال محبت ونفرت کے جذبات انسان کے نفس کی گہرائیوں میں موجود ہیں ۔اسلام فطرت کے ان میلانات سے برسر پیکار ہونے کی بجائے ان کو مہذب اور شائستہ بناتاہے اسی لیے اسلام نے محبت ونفرت کے جذبات پر روح اور عقل کے ضوابط قائم کیے ہیں۔
کہ ان ضوابط کو خدا کی ذات سے مربوط وپیوست کردے اسلام انسان کو اس بات سے نہیں روکتا کہ وہ اپنی ذات سے محبت نہ کرے کیونکہ یہ ایک فطری جذبہ ہے جو انسان کو عمل کرنے پر ابھارتاہے مگر اسلام کی نظر میں حب ِنفس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ انسان لذتوں کے حصول کے پیچھے دوڑتارہے بلکہ اسلام کی نظر میں حب ِنفس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو نصیحت کرتارہے اور اسے صحیح سمت کی طرف راہنمائی اور تربیت کرے تاکہ تربیت ا وراہنمائی جو اسے دنیا اور آخرت کی فلاح وکامیابی کی جانب لے جائے اور اسلام انسان کو حد ِاعتدال کی تعلیم وتربیت کرتاہے کہ حبِ نفس میں انسان حد ِ اعتدال سے کام لے اور اسلام نے ہر وقت لذتوں اور حبِ نفس کے تعاقب میں رہنے کو ظلم سے تعبیر فرمایا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہر لحظہ نفس کو وسوسو ںاور خواہشوں میں ڈالنا نفس کو ہلاک کرنے کے مترادف ہے ۔
٢۔اعتدال
انسان تربیت کرنے کیلئے اعتدال سے کام لے چاہے وہ اپنی تربیت کررہاہو یا دوسروں کی تربیت میں مصروف ہو انسان کو ہر چیز میں عدل وانصاف سے کام لینا چاہیے اور کسی کام میں حد سے زیادہ بڑھنا اور تجاوز کرنا درست نہیں ہے اسلام ہمیشہ انسان کو حد اعتدال کا درس دیتاہے چاہے وہ مربی ہوتو اسے چاہئے کہ جو تربیت کے دوران اعتدال اور میانہ روی کو محفوظ رکھے اورچاہے وہ اپنی تربیت کررہاہو تب بھی اسے چاہئے کہ اسلام کے قوانین کی رعایت کرے کیونکہ اعتدال اور عدالت ایک ایسا فطری قانون ہے خدا جسے پوری کائنات میں مشاہدہ کیاجاسکتاہے خداجسے پوری کائنات نے خط ِ سیر ِ جہان کو عدالت کی بنیاد پر قائم کیاہے جس سے تخلف نا ممکن ہے خود انسان اپنے بدن کے اندر کے اعضاء کے درمیان اسرار آمیز ہم آہنگی وہمکاری کا مطالعہ کرسکتاہے جو عالم ِتخلیق کی عظیم دستگاہ کا حیرت انگیز مبنی بر تعادل ِ دقیق کا درخشاں ترین نمونہ ہے اور میانہ روی ایک ایسی حالت ہے جو انسان کو شائستہ وپسندیدہ اعمال کے بجالانے پر آمادہ کرتی ہے ۔میانہ روی اور عدالت ایک ایسی چیز ہے جو انسانی معاشرے کو ایک دوسرے سے مرتبط کرتی ہے اور معاشرے کے ہر انسان کے درمیان محبت والفت پیدا کرتی ہے بلکہ انسان کو خیر وصلاح کے راستے پر چلانے کا سبب ہوتی ہے۔
٣۔تشویق ورغبت
انسان کے عدم ِپابندی کے میلان کو اسلام اس طرح بروئے کار لاتاہے کہ نفس ِانسانی میں پہلے سے یہ جذبہ ِشوق پیدا کرتاہے کہ انسان جو کہ کچھ بھی تربیت کے فرائض انجام دے رہاہے اور جو ذمہ داریاں پوری کررہاہے وہ کسی ذاتی غرض کی تکمیل کیلے نہیں کررہا ہے بلکہ خالصتاً خدا کیلے کررہاہے جو ایمان کا ایک حقیقی ثمرہ ہے اور خدا وند عالم بھی انسان کے اچھے افعال وکردار کے عوض بہشت کی خوش خبری دیتاہے اور انسان اسی طرح رغبت وشوق سے مزید اپنے افعال وکردار کو سدھاتارہے اور تربیت اگر مربی ہے تو بچوں کو مزید اچھے کاموں پر شوق دلائے اور اچھے امور کو انجام دینے پر ان بچوں کی تعریف کرے تاکہ تربیت میں وہ آگے بڑھ سکیں۔
٤۔ماحول
انسان کی تربیت میں ماحول زیادہ مؤثر ہے ،ماحول ایک دفعہ گھریلوہے تو گھر میں ایسا ماحول بنائیں جو اسلام کی نظر میں مفید ہے ایک دفعہ گھر سے باہر کا ماحول ہے ،اگر گھر کا ماحول تو اچھا ہے لیکن باہر کا ماحول اچھا نہیں تب بھی تربیت پر برا اثر پڑے گا لہذا گھریلوں ماحول کے ساتھ ساتھ باہر کا ماحول بھی اسلامی ماحول ہو تو تب تربیت کا اثر ہوتاہے اس لیے تربیت کے دوران ایسا ماحول فراہم کیا جائے جو تربیت میں مثبت اثرات رکھتاہو کیونکہ اسلام کے دستورات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ایسے ماحول سے دور رکھے جس میں مذہبی واسلامی رسومات آزادی کے ساتھ انجام نہ پاسکے کیونکہ اسلام نے ماحول کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور تاکید کی ہے کہ اگر کسی نئے ماحول میں جانا چاہتے ہو تو وہاں کے ماحول کی تحقیق کرو اور جس ماحول میں زندگی گزارہاہے اگر وہ صحیح نہیں تو اسے چاہیے کہ اس ماحول ومعاشرے سے ہجرت کرے البتہ ماحول کے بنانے یا بگاڑنے میں آفراد کا کس قدر کردار ہے؟ یہ بحث معاشرے شناس افراد کا کام ہے لیکن یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ ماحول کا کردار ِانسانی تربیت میں بہت زیادہ مؤثر ہے کیانکہ انسان کے افعال اس کی فکر کا نتیجہ ہیں اور انسان اسی ماحول کی طرز فکر کو اختیار کرتاہے جہاں وہ زندگی بسر کرررہاہے ۔
٥۔ آزادی
اسلام نے انسان کیلئے حدود معین کی ہیں جو فرائض اس کے ذمہ لگائے ہیں ان پر چل کر تربیت کے ہدف کو پورا کیا جاسکتاہے ۔انسان ایک حد تک آزاد ہے لیکن یہ آزادی حد ِاعتدال سے نہ بڑھے یعنی اسلام کے دستورات پر عمل کرے اور جن چیزوں سے اسلام نے اسلام روکے ان سے رکے اور جن چیزوں کی اجازت دے انہیں انجام دے اسلام نہ بالکل آزادی ِمطلق کا قائل ہے اور نہ بالکل انسان کو قید وبند کی صعوبتوں میں رکھنے کا قائل ہے بلکہ آزادی میں انسان میانہ روی اختیار کرے تو تربیت جیسے فرض کو پورا کیاجاسکتاہے چاہے وہ انسان اپنی تربیت کررہاہو جو یا بچوں کی یا ایک معاشرے کی ۔
٦۔مشاہدات وحادثات
انسانی زندگی حادثات ومشاہدات سے لبریز ہے اور یہ حادثات ومشاہدات ایسے اسباب کے تحت وجود میں آتے ہیں جو انسانی ارادے سے ماوراء ہوتے ہیں اور ایک ماہر تربیت کرنے والا ان مشاہدات وحادثات وواقعات کو نفس ِانسانی کی تربیت کرنے اور صلاحیتوں کو صیقل کرنے میں لگاتاہے ۔تربیت کے ذرائع میں حادثات ومشاہدات ایک ذریعہ تربیت کے طور پر زیادہ مؤثر کردار ادا کرتے ہیں اس لیے کہ حادثات سے انسان کی طبعیت میںنرمی پیدا ہوتی ہے اور انسان مکمل طور پر تربیت کیلئے آمادہ ہوجاتاہے اور اس حالت میں انسان تربیت کی شاہراہ پر گامزن کیا جاسکتاہے اور تربیت وہدایت کے گہرے اور دیر پااثرات مترتب ہوسکتے ہیں ۔
٧۔تفکر وعقل
انسان اپنی فکر کی اسی طرح تربیت کرے جس طرح اسلام نے تعلیم دی ہے اسلام نے تفکر وعقل کی تربیت اور جسم کی تربیت دونوں کو اس کی روح کے ساتھ پیوست کرکے ایک تربیت شدہ انسان تعبیر فرمایا یعنی اگر انسان اپنی فکر کی تربیت نہ کرے فقط جسم کو رشد وکمال کی حد تک پہنچادے تو اس کوصرف تربیت ِ جسمی تو کہا جائے گا لیکن انسان مرکب ہے جسم وروح سے اس لیے تربیت ِانسانی کا نام اس پر صادق نہ آئے گا کیونکہ عقل وفکر جسم ِانسانی کا ایک حصہ ہیں جب تک انسان اپنے سارے اعضاء وجوارح کی تربیت نہیں کرے گا اس وقت تک اسے تربیت شدہ انسان نہیں کہا جائے گا اسلام چونکہ دین ِفطرت ہے اس لیے وہ خدا کی عطا کردہ تمام انسانی قوتوں اور صلاحیتوں کا احترام کرتاہے اور ان صلاحیتوں کی صحیح قدرت عطا کرتاہے اور ان کو انسانیت کے مفاد میں بروئے کار لاتاہے لہذا اپنی تربیت اور بچوں کی تربیت میں عقل وفکر کوصحیح طریقے سے استعمال کرے۔
٨۔نصیحت
تربیت کے اصولوں میں سے ایک اصول نصیحت کرنا ہے چاہے خود اپنے آپ کو نصیحت کرے یا دوسروں کو انسانی نفس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ کلام ونصیحت کا اثر قبول کرتا اور تأثیر نصیحت وجدان کے ذریعہ نفس ِانسانی پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے بہرحال تربیت کیلے نصیحت ایک لازمی اور ضروی عمل ہے اس لیے کہ انسان میں ایسے فطری رجحانات موجود ہوتے ہیں جن کو مسلسل تہذیب اور راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے لہذایہی وجہ تھی انبیاء کرام اپنی امتوں کو تربیت کرتے وقت مسلسل نصیحت کا عمل انجام دیتے تھے نصیحت کے بارے میں مفصل آحادیث وراویات کو آگے چل کر بیان کریںگے کہ تربیت میں نصیحت کو کتنا دخل ہے۔
٩۔مثالی نمونہ
اسلام نے انسانی تربیت میں بہت سے نمونے پیش کیے ہیں تاکہ انسان ان نمونوں کو سے تربیت سیکھ اور سجھ کر اپنی اور اپنے ارگرد کے لوگوں کی تربیت میں حیران وپریشان نہ رہے لیکن نمونہ کو دیکھ کر جب تک عملی اقدام نہ کریگا اس وقت تک نمونہ سے کوئی فائدہ نہ ہوگا اسلام نے رسول ِاسلام اور آئمہ معصومین کو لوگوں کیلے نمونہ بناکر بھیجا تاکہ ان ہستیوں کو اپنے لیے نمونہ اور الگو بناکر اپنی اور اپنے ارگرد کے آفراد کی تربیت کریں جیسے خدا فرماتاہے :( لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة )(13) در حقیقت رسول اللہ تمہارے لیے ایک بہترین نمونہ ہیں ۔
١٠۔قصص وکہانیاں
قصوں اور کہانیوں میں ایک پر اثر ہوتاہے جو انسانی تربیت پر اثر انداز ہیں اللہ تعالی نے انسان کی اس
فطرت کو جانتے ہوئے کہ وہ طبعاً قصوں اور کہانیوں کی طرف مائل ہوتاہے اور ان سے متاثر ہوتاہے قرآم مجید میں قصوّںکو بطور ذریعہ تربیت ذکر فرمایا تاکہ انسان اپنے نفس کی تربیت میں گذشتہ واقعات وتجربات سے سبق آموز درس حاصل کرے اور بچوں کیلے بھی بہت مفید ہیں ۔
١١۔عادت
انسان کی تربیت میں عادت کا بڑا اہم کردار ہے اس کی وجہ سے انسان کے بہت سے مشکل امور آسان ہوتے ہیں جیسے انسانی فطرت میں ہے چلنا،بولنا وغیرہ لیکن عادت کا اس قدر عظیم فائدہ ہے وہاں یہ عادت بسا اوقات ایک راکاوٹ بھی بن جاتی ہے جب انسان اپنے شعور وعقل کو کھو بیٹھے اور بری عادات میں پھنس جائے ۔اسلام عادت کو تربیت کیلے ایک ذریعہ کے طور پر کام میں لاتاہے اور خیر واچھائی کے امور کو انسان کی عادت بنادیتاہے تاکہ اس کی انجام دہی میں انسان کیلے مشقت وتکلیف نہ ہو زمانہ جاہلیت ِعرب میں۔
جب اسلام طلوع ہوا تو اسلام نے عرب کے معاشرے میں پھیلی ہوئی بری عادات کے تدارک کیلئے دو طریقے اختیار کیے ایک تو یہ کہ بعض بری عادات کو فوراً ختم کرنے کی کوشش جیسے شرک وبت پرستی اور بعض عادات کو تدریجاً ختم کیا جیسے شراب پینا ،چوری کرنا وغیرہ اور اسلام نے یہ درس دیا ہے کہ اگر تم آس پاس کے ماحول کی تربیت کرنا چاہتے ہو اور یا اس کے ماحول سے ختم کرنا چاہئے جو متعارف کرائے کہ تو اسلام کے اس آئین کو اپنے لیے اپنانے کی کوشش کرو تاکہ تربیت میں آسانی ہو ۔
١٢۔سزا
اسلام نے تربیت میں بہت سے ذرائع تعلیم دیے تاکی انسان تربیت میں حیران وپریشان وسرگردان نہ رہے ۔اگر معاشرے کے بعض آفراد پر نہ تو نصیحت اثر کرے ، نہیں شوق ورغبت اور نہ ہی مثالی نمونہ اثر انداز ہو تو پھر اس انسان کیلئے سزا بطور تربیت ضروری ہے تاکہ اس کی اصلاح ہوسکے اوراس کا معاشرے کے کار آمد افراد میں شمار ہو سزا وغیرہ ہر انسان کیلئے ضروری نہیں ہے کیونکہ بہت سے لوگ نے مثالی نمونے اور عملی سیرت کی پیروری کرکے اور وعظ ونصیحت پر عمل پیراہوکر اپنے آپ کو تربیت کے تقاضوں کے مطابق ڈھال لیتے ہیں اور انہیں زندگی میں سزا کی ضرورت نہیں پڑتی اور یہ بھی ضروری نہیں کہ تربیت کرنے والا سزا سے تربیت کا آغاز کرے بلکہ تربیت کے تمام اصول وذرائع کے استعمال کرنے کے بعد اگر دیکھیں کہ کوئی ذریعہ تربیت کارگر نہیں تو اسوقت سزا کے چند مراحل میں سے پہلے مرحلہ کو شروع کریں اگر اس میں یہی پہلا مرحلہ مفید ہو تو دوسرے مراحل سے صرف نظر کی جائے سزا کے آغاز سے پہلے اساتذہ اور مربیان تربیت سے ضرورمشورہ کیا جائے کیونکہ ہوسکتا ہے تربیت کیلئے کوئی مفید راہ حل نکل آئے ۔
تربیت کرنے والے کی چند شرائط
تربیت انسانی کا اصلی مربی تو خدا وند عالم کی ذات ہے کہ جس ہستی نے انسان کی تربیت کا بندوبست وسامان انسان کی تخلیق سے پہلے فراہم کیا اور خود انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا اور اس کے اندر ایسی صلاحیت ودیعت کی کہ جس کے ذریعہ انسان اگر اپنے وجدان کی طرف توجہ کرے تو اس کا وجدان اسے راہنمائی کرے لیکن خدا وند متعال نے اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ انسان کی ظاہری تربیت کا سامان بھی فراہم کیا کہ ایک لاکھ چوبیس ہزرا انبیاء کرام بھیجے تاکہ وہ انسان کو اس کی فطرت پر رکھ کر اسے تربیت کرییں لہذا اتنے بڑے انتظامات سے اندازہ ہوتاہے کہ تربیت ایک اہم ترین اور سخت ذمہ داری ہے اس لیے تربیت کرنے والا تربیت کے اصول کی رعایے کرے کہ جن کو ذکر کیاگیاہے اور ان اصولوں کی رعایت کرنے سے مربی تربیت جیسے امور کو اچھے طریقے سے انجام دے سکتاہے ۔مربی کو چائیے کہ چاہے اس کے ماں باپ ہوں یا اسکول کے اساتذہ یا دیگران افراد جو مربی ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ درج ِذیل اصول کی رعایت کریں۔
مربی کے چند اصول ِتربیت یا شرائط
١،حسن ِنیت٢،اخلاص٣،صبرواستقامت٤،اصولِ تربیت سے آشنائی ٥، تشویق٦، ارادہ جدیت٧، نمونہ ،ان میں سے ہر ایک اصل کی مختصر وضاحت ۔
١۔حسن ِنیت
تربیت کرنے والے پر ضروری ہے کہ تربیت میں حسن ِنیت کو خاطر میں رکھے اور حدیث میں ہے کہ :(انمالاعمال باالنیات) .(14 )کہ عمل کا دار ومدار نیت پر ہے اگر اصلاح وتربیت کی تو اب سے اسے چاہئیے کہ دوسری اصل کو اپنانے کی کوشش کرے اور وہ ہے اخلاص ِعمل۔
٢۔اخلاصِ عمل
اسلامی تربیت میں عمل ِصالح کو اصلیت حاصل ہے جتنا اخلاص ہوگا اتنی ہی عمل میںمباشیرر ہوگی قرآن میں ہے : (من عمل صالحاً وھو مومن فلیحیینہ حیوة طیبة وننجینھم اجرھم باحسن ماکانوا یعملون). خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ جوبھی عمل صالح انجام دے چاہے وہ مرد ہو یا عورت اور خدا پر اسے یقین وایمان ہو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور اسے اس عمل کی جزا اس سے بھی زیادہ عطا کریں گے جو اس نے عمل انجام دیاہے لہٰذا تربیت میں اخلاص شرط ہے گذشتہ انبیا کو دیکھئے کہ ان کے اعمال وکردار میں کتنا اخلاص تھا لہذا تربیت میں خلوص وتقوی وعمل ِصالح ضروری ہے ۔
٣۔صبر واستقامت
تیسری شرط تربیت ِانسانی میں یہ ہے کہ وہ صبر وحوصلے سے کام لے اپنے فریضے میں تنگ دلی کا مظاہرہ نہ کرے بلکہ انبیا کرام اور ائمہ معصومیں کی سیرت پر چل کر تربیت جیسے اہم فریضے کو آگر بڑھائے آپ دیکھیں کہ حضرت نوح نے کتنا عرصہ تربیت کی حتی کہ نوح ان کا لقب بن گیا اصل نام تاریخ کی روسے عبد الغفار تھا بہرحال تربیت میں اپنا فریضہ انجام دیتارہے اورانجام ونتیجہ کا منتظر نہ رہے ۔
٤۔ اصول ِتربیت سے آشنائی
مربی کو چائیے کہ اصول وقواعد سے آشنا ہو تاکہ عملی زندگی میں سے خودتربیت کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا ب نہ کرنا پڑے اس علمی دورمیں تو تربیت کے اصول سے آشنائی حاصل کرنا کوئی مشکل نہیں لیکن اصول ِتربیت سے فقط آشنا ہونا کافی نہیں بلکہ ان اصول کو عملی جامہ پہنانا اور معاشرے میں اسلامی اصول کو نافذ کرنا مشکل ہے اس کیلئے مربی کو بہت ہمت وحوصلے اور استقامت کی ضرورت ہے بہرحال اصول ِتربیت سے اشنائی حاصل کرنا ضروری ہے جب تک ان سے آشنا وواقف نہیں ہونگے اس وقت تک تربیت کے امور کو آگے نہیں بڑھا سکیں گی ۔
٥۔اصول ِ تربیت پر عمل
اصول تربیت سے آشنائی کے بعد اسے عملی جامہ پہنانا ضروری ہے جب تک اصول ِتربیت کو عملی جامہ نہیںپہنایا جائے اس وقت تک مربی مربی نہیں بن سکتا آپ رسول ِاسلام کی کا مطالعہ کریں کہ کس طرح رسول ِاسلام مربی ہونے کی حیثیت سے عملاً اصول ِتربیت کو نافذ وجاری کیا لیکن اس میں شرط یہی ہے کہ تربیت خود اپنے نفس سے شروع کریں دیکھیں رسول ِاسلام انسان ِکامل اور مربی کامل تھے جب ہی تو خدا نے مربی کامل ہونے کی سند عطا فرمائی: (لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة ).(15) بہرحال مربی کو چائیے کہ اصول ِتربیت کو عملا! انجام دئنے میں شوق ورغبت ہو جب تک شوق ورغبت نہیں ہے یہ اصول انجام نہیں دیے جا سکتے.
٦۔تشویق
مربی کو چائیے کہ خود تربیت کے امور میں شوق وجذبہ رکھتاہو اور تربیت کرنے والے افراد کو بھی شوق دلائے تاکہ اصول ِتربیت خشک وسخت محسوس نہ ہوں نہ اپنے لیئے اور نہ ہی دوسروں کیلئے بلکہ اصول ِتربیت کو شیریں بیان کے ساتھ لوگوں کو بتائے خوش اخلاق وخندہ روئی سے اصول ِتربیت پیش کرے اور پیغمبر ِاسلام کی سیرت کو اپنے لیئے اس میں نمونہ سمجھے کہ جن کے متعلق خدا یہ فرماتاہے :(انک لعلی خلق عظیم ).(16)کہ اے پیغمبر آپ خلقِ عظیم کے مالک ہیں ،یا خود آنحضرت ۖ اپنے بارے میں فرما تے ہیں: (بعثت لاتمم مکارم الاخلاق) (17)
مجھے صفات اخلاق کو منزل تکمیل تک پہنچانے کیلئے بھیجا گیالہذا اصولِ تربیت کو اپنانے کیلے شوق ورغبت کے ساتھ کوئی نمونہ بھی ہوناچائیے تاکہ مربی کیلے تربیت کے امور انجام دینا آسان ہوں اور تربیت کے اصول اپنانے کیلے بھی یہ شرط ہے کہ مبضبوط ارادے سے کام لے مربی کو چست ہونا چائیے اور سستی و احساس کمتری کا مظاہرہ نہیں کرنا چائیے۔
٧۔ ارادہ میں استحکام
اصولِ تربیت میں کمزور ارادہ یا سست ارادہ مربی کیلئے ضرر رساں ہے بلکہ مربی اپنی نظر وفکر کو بلند رکھے اور تربیت کرنے والوں کو اپنے اٹل ارادے سے ہی آگے بڑھا یا جاسکتاہے تربیت کے اصول میں ہمیشہ وہ افراد کامیاب ہوتے ہیں جو ارادہ وجدیت سے کام لیتے ہیں اور ہر آئے دن اپنے ارادے کو نہیں بدلتے اور مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور کبھی نہیں گھبراتے بلکہ مربی میں اس قدر تجربہ وسابقہ ہو کہ ہر آنے والے مسائل ومشکلات کو اچھے طریقے سے حل کرنے کی استعداد وقوت اس میں موجود ہو اس کے ساتھ ساتھ مربی کو چاہیے کہ تربیت میں اپنے لیے کوئی نمونۂ عمل انتخاب کرے تاکہ تربیت کے امور کو خوش اسلوبی سے انجام دے سکے ۔
٨۔نمونۂ عمل
مربی کیلئے تربیت کے امور کو انجام دینا اس وقت آسان ہوتاہے کہ جب اس کے لیے کوئی نمونۂ عمل موجود ہو ۔تاریخ میں ایسے کئی مثالی نمونے مل سکتے ہیں جن میں سے کسی ایک کو نمونہ بناکر مربی اپنے امورِ تربیت کو آسان بناسکتاہے قرآن مجید میں کئی بار اللہ تعالی نے تربیت یافتہ مربیوں کا تذکرہ فرمایا ہے اوراس طرح انسان کی تربیت کا سامان فراہم کیاہے خود سورہ حشر کی آیت ٧ میں ہے:(ومااتاکم الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتھوا)(18) پیغمبر اسلام جس چیز کا حکم دیں اس کو انجام دو اور جن امور سے تمہیں روکیں رک جائو یا جو تمہیں دیں لے لو اورجس سے منع کریں اس سے رک جائو بہرحال پیغمبر اسلام مربی کامل تھے اور اپنے مربی کامل ہونے کی سند اللہ تعالی سے لی بلکہ لوگوں نے کہا کہ تم صادق وامین ہو اس کے علاوہ مربی کیلے اور بھی مراحل ہیں کہ جو تربیت میں بیان کیے جاسکتے ہیں مثلاً مربی تربیت دینے والوںکو دینی معارف سے اشنا کرائے اور تربیت کرنے والوں کو خدا پرستی کی دعوت دے وغیرہ۔
تربیت کے ذرائع
تربیت کے ذرائع اور مقاصد ہر زمانے اور ہر قوم کے اعتبار سے ،مختلف ہواکرتے ہیں اور ہر ذریعہ کسی نہ کسی مقصد کے حصول کیلے ہواکرتاہے مثلاًجسمانی ورزش بھی ایک تربیت کا رذریعہ ہے یا نصیحت ،کہانیاں اور قصوں کی مدد سے بھی تربیت کے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں اور اس قسم کے متعدد ذرائع موجود ہیں کہ جن کے ذریعہ تربیت کی جاسکتی ہے لیکن ان ذرائع کو مکمل تربیت کا نام نہیں دیا جا سکتا بلکہ اسلام کے ذرائع سے ہی تربیت کے ہدف کو پورا کیا جاسکتاہے کیونکہ اسلام ایک دین فطرت ہے دراصل اسلام کا نقطہ نظر فطرت ِانسانی کے مطابق اور طبیعت کائنات کے مطابق ہے اس طرح سے تربیت کی جائے کہ انسان ایک معزز اور قابل اطمینان فرد کی حیثیت سے زندگی گزار سکے اور خدا کی تمام نعمتوں سے بہرہ مند ہو دوسرے الفاظ میں اسلامی تربیت انسان کو تکامل کے اعلی مراتب سے ہمکنار اور اعلی درجات کی طرف لے جاتی ہے۔
اسلام کے نظام ِتربیت کا مقصد اچھا انسان تیار کرناہے وہ انسان جو مکمل انسان ہو اور اسلامی تربیت کی بنیادیں ایمان، اخلاق ،علم وعمل پر استوار ہوں ۔ظاہر ہے کہ اسلام تربیت کے مقصد میں ہر ذریعہ کو قبول نہیں کرتا بلکہ مناسب وسائل وذرائع سے استفادہ کرنے کی اجازت دیتاہے غرض تربیت اگرچہ متعدد ذرائع سے حاصل ہوتی ہے اگر متعدد ذرائع وبامقاصد نہ ہوں تو محض وسائل وذرائع کی کوئی قدر وقیمت نہیں ۔اسلام کا نظام ِتربیت اس اعتبار سے کہ بالکل منفرد ہے کہ اس کے جملہ ذرائع اور تمام مقاصد ایک فکر اور ایک نظریہ سے پوری طرح مربوط اور پیوست ہیں اور یہ تربیت کا نظام اس قدر جامع ہے کہ انسانی زندگی کا کوئی پہلو اور کوئی گوشہ اس کی راہنمائی اور ہدایت سے خارج نہیں ہے کہ جن کے ذریعہ انسان ایک ایسے متفرق اور مختلف ذرائع کا مجموعہ نہیں ہے کہ جن کے ذریعہ انسان ایک نئی سمت کی طرف حرکت کرے بلکہ اسلام کا تربیتی نظام انسان کے سامنے ایک صاف ،اورسیدھی شاہراہ متعین کرتاہے تاکہ انسان اپنی تمام فطری صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر سلامتی کے ساتھ اس مستقیم شاہراہ پر گامزن ہوسکے جو اسلام نے اسے راہنمائی کے طور پر تربیت کی ہے اسلام کے اس تربیتی نظام کی یہ خصوصیت ہے کہ انسان کو میدان ِزندگی میں حیران وپریشان نہیں چھوڑتا بلکہ اس کے سامنے زندگی کے تمام پہلوئوں کو اجاگر کرتاہے تاکہ تربیت پاکر اسلام کیلئے بلندی کا باعث بنے ۔
تربیت کے بارے میں مختلف نظریات
یوں تو تربیت کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں ۔لیکن ان میں اہم نظریات کو بیان کرتے ہیں۔
(١) یہ نظریہ قدیم دور جاہلیت کا طریقہ ِفکر ہے کہ زمانہ جاہلیت میں تربیت کامفہوم اور مقصدصرف شجاعت تھا۔یعنی ایک ایسا آدمی جوشجاع اور بہادر ہو اور جس میں زیادہ سے زیادہ ظلم کرنے کی قوت ہو اور جنگ کے موقعہ پر اس کا قبیلہ آگے رہے۔
٭یہ نظریہ صحیح نہیں ہے کیونکہ شجاعت اور بزدلی طبعی ہوتی ہے ۔اور پھر اسلام کی نظرمیں یہ نظریہ مورد قبول نہیںہے۔
(٢) یہ نظریہ دنیاکے سیاست دان افراد کاہے کہ جن کی غرض افرادکی تربیت سے صرف یہ تھی کہ انسان میں جذبہ وطن پرستی پیداہواس لیے وہ لوگوں کو ہمیشہ وطن پرستی کا شوق دلایاکرتے تھے۔
٭ یہ نظریہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ جذبہ وطن پرستی سے تعصب کی بو آتی ہے اور رسول اکرم ۖ فرماتے ہیں (لاعصبیة فی الاسلام) کہ تعصب سے دشمنی و عناد وجود میںآتاہے۔
(٣) والدین عموماً بچوں کی تربیت فقط اس بنا پر کرتے ہیں کہ وہ ان کی ضعیفی کا سہارا بنیں۔
٭ اور یہ نظریہ یہاں تک جزئی طور پر صحیح ہے کیو نکہ اسلام میں اولاد کے لیے حکم ہے کہ والدین کا احترام کریں اوران کی ضعیفی کا سہارا بنیں اور حتی کہ والدین کو اف تک نہ کہیں اور قرآن میں جہاں خدا کی عبادت ووحدانیت کا حکم آیاہے وہاں والدین کے ساتھ احسان کرنے اور اچھا سلوک رکھنے کا بھی حکم آیاہے۔
اسلام میں تربیت کی خصوصیت
بچے کیلئے والدین کا کردار زیادہ اہمیت رکھتا ہے بچے عموماً معاشرے میں والدین کے اخلاق و کردار کی پیروی کرتے ہیں اور کون اس بات سے آگاہ نہیں کہ صحیح اجتماعی زندگی کی بنیاد اچھے اخلاق پر ہے ۔ اجتماعی امن وامان اور والدین کے اخلاق حسنہ پر باہمی روابط ہی کے سایہ میں میسر ہو سکتے ہیں اور قرآن میں اخلاق پر بہت سی آیات ہیں جن میں اخلاق کی تکید کی گئی ہے۔
١۔ (قولوا للناس حسنا)(19) لوگوں سے ہمیشہ اچھے طریقے سے ہم کلام ہوا کرو۔
٢۔ پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا:(ان صاحب الخلق الحسن لہ مثل اجر الصائم القائم)(20)
خوش اخلاق کا اجر و ثواب اس شخص کے ثواب کے برابر ہے جورات کو نماز پڑھتا ہے اور دن کو روزے رکھتا ہے۔٣۔ قرآن :(لو کنت فظا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک)(21)
حضرت نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب ہے کہ اگر آپ سخت مزاج اور سنگ دل ہوں گے تو لوگ آپ کو چھوڑ کر منتشر ہو جائیں گے۔معاشرے میں والدین کے اخلاق کو دیکھ کر بچے اسی طرح کا اخلاق اپناتے ہیں اگر والدین معاشرے میں بد اخلاق ہوں گے تو اس کا اثر اولاد پر ہی ہوگا کیونکہ حضرت امام جعفر صاد ق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بد اخلاقی عمل کو اس طرح باطل کر دیتی ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (22 )
فرزند اور باپ کا کردار
بچے کی تربیت میں جس طرح ماں کا کردارمؤثر ہے اسی طرح باپ کا کردار اور اس کی شخصیت بھی بچے کی تربیت میں موثر ہے باپ، بچے کی جزباتی اور ذہنی نشو نما کیلے وہ اتنا ہی ذمہ دار ہے جتنی ماں .دوران حمل اور بچے کی زندگی کے پہلے سال میں ذمہ دار ہے باپ کی ہمدردی اور محبت بچے کی ماں کو جذباتی طور پر مدد دیتی ہے اور بچے کی شخصیت کو صحیح طریقے سے پروان چڑھانے کیلے ضروری ہے کہ والدین ذہنی اور جذباتی لحاظ سے تندرست ہوں .اگر ماں باپ ذہنی کشمکش اور مشکلات میں الجھے رہیں گے اور جذباتی لحاظ سے ان کی زندگی خوشگوار نہ ہوگی تو یہ چیز بچے کی ذات پر بھی اثر اندر ہو گی ۔
اولاد کے حق میں سب سے بڑا اور اہم فریضہ صحیح تربیت ہے اولاد کا والدین پر حق ہے کہ وہ انہیں اسلام، دینداری اور اچھے اخلاق کی تربیت دیں۔(قوا انفسکم و اھلیکم نارا)(23)اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن پتھر اور انسان ہیں۔اولاد کا نفقہ ماں باپ پر واجب ہے جس کی تفصیل فقہی احکام میں
ملاحظہ فرمائیں والدین کو چاہئے کہ اپنی اولادکے ساتھ مہربانی اور شفقت سے پیش آئیں اور بعض بچوں کو بعض پر ایسی ترجیح نہ دیں کہ جس سے جھگڑے کاخوف ہو ماں باپ ،بیٹے اور بیٹی کا امتیاز قائم کرکے ان کی شخصیت کو حقیر نہ بنائیں انہیں نفسیاتی الجھن میں مبتلا نہ کریں۔کیونکہ ایسا رویہ ان پر ظلم ہے بلکہ معاشرے کے ساتھ خیانت ہے اولاد کی صحت میں افراط و تفریط سے اجتناب کریں کیونکہ بچوں پر اس کے برے آثار مرّتب ہوتے ہیں ۔اولاد کیلئے والدین کی بہترین خدمت دینداری کے بعد علم و کمال کے حصول کی ترغیب و تشویق ہے۔حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں:
(وتجب للولد علی الوالد ثلاث خصال اختیارہ لوالدیہ لتحسین اسمہ والمبالغة فی تادیبہ)(24) باپ پر واجب ہے کہ وہ بیٹے کے لیے اچھا نام اختیارکرے اور باادب بنائے اور یہاں پر ہمارے چوتھے امام حضرت زین العابدین اپنی دعا میںایک پیارا جملہ ارشاد فرماتے ہیں : (الھم اعنی علی تربیتھم وتادیبھم وبرھم) (25) خدایا اپنی اولاد کی تربیت، ادب اور نیکی کرنے میں میری مدد فرما اور اسی طرح بچے کی تربیت کے بارے ایک اور فرمان ان امام کا منقول ہے ۔(وحق ولدک فان تعلم انہ منک ومضاف الیہ فی عاجل الدنیابخیرہ وشرہ وانک مسئول عما ولیتہ بہ من حسن الادب ،والد لالة علی ربہ والمعونة لہ علی طاعتہ)(26) اپنے فرزند کاتم پر ایک حق یہ ہے کہ تم اسے اپنا سمجھو اور یہ بھی جان لو کہ اس دنیا میں اسکی ہر اچھائی وبرائی اور ہر نیکی وبدی کا تعلق تم سے ہے اور تمہیں یہ جاننا چاہئے کہ سرپرست ہونے کی وجہ سے اپنے فرزند میں حسن ادب ،پیوست کرنے کی ذمہ داری تم پر ضرور ی ہے اور اسے خدا کی طرف متوجہ کرنے کا فرض بھی تمہارے سر پر ہے اس کے علاوہ خدا کی عبادت واطاعت میں بچے کی مدد کرنا تمہارا کام ہے صرف یہی نہیں بلکہ اس یقین کے ساتھ اچھی تربیت کرو کہ اگر عہد ہ بر آہوگئے توتم نے گویاحق ادا کردیا اورخدا کی بار گاہ سے تمہیں اچھا اجر ملے گا اور اگر کوتاہی کی تواس کی سزا بھی تمھیں ملے گی۔
(١)سورہ تحریم آیت ٦.
(٢)سورہ مائدہ آیت ٣٢.
(٣)سورۂ بقرہ آیت ١٥١.
(٤)سورہ بقرہ آیت ١٢٩.
(5) سورہ آل عمران آیت ١٦٤ .
(6)کتاب بحارالانوار ج١٦،ص ٣١٠ .
(7)سورہ آل عمران آیت ١٥٩.
(8)مقتل خوارزمی ص٧٦.
(9)سورۂ احزاب آیت ٢١.
(10)مقتل خوارزمی ص٧٦.
(11)گفتار دلنشیں قول امام جعفر صادق .
(12)سورۂ شمس آیت ٧۔٨.
(13)سورہ احزاب آیت ٢١.
(14)منیة المرید،ص٤٤.
(15)سورۂ احزاب آیت ٢١.
(16)سو رۂ نورآیت ٣ .
(17)کتاب مکارم الاخلا ق ص ١٧٢.
(18)سورۂ حشر آیت٧.
(19)سورۂ بقرہ آیت٨٣.
(20)اصول کافی ج١،ص١٥٧.
(21)سورۂ آل عمران آیت١٥٩.
(22)اصول کافی ج٣،ص١٥.
(23)سورۂ تحریم آیت ٦ .
(24)تحف العقول ٣٣٢.
(25)صحیفہ سجادیہ دعا ٢٥ ص ١٧٠.
(26)تحف العقول ٢٨٩.
تحرير : جعفری
بزم خواتین
حجاب کس حد تک کرنے کے لئے واجب ہے؟
تعلقات کی پردہ اور آزادی
جو ان کی زندگی میں ان کے اصلی مطابقت پردہ اور قسم اور زاویہ نظر نہیں زندگی زندگی کے اپنے تصور کو حاصل کرنے کے لئے کوششوں کو پورا کرنے کے لئے مسٹر اور thralldom تنوع کے زندگی میں اور معاشرے میں کردار ادا کرنے کے لئے نہیں ہے آج اور کل اور ستر سال کی زندگی میں، اور اس دنیا میں بار بار اور ان کے کام کو دیکھ کر کھڑے اور بیٹھ کے لئے ہے.
حجاب ان لوگوں کو جو دوسروں کی موت کا جینا اور مرنا کے لئے، کہ اخلاقی کردار ان کے لئے اہم نہیں ہے اور دوسروں کی نہیں لگتا ہے کہ خدا بھی نہیں لگتا ہے کہ غیر خود جس میں ایک بھاری پردہ کے مقابلے میں بھاری ہے کرتے ہو، ان کے اور کچھ نہیں کرنے کے لئے کوئی مطلب نہیں ہے سیاہ کے ساتھ دفن کیا گیا اور موت ان کے لئے کوئی خوشی لایا. بیری اس دہنا کا وقت نہیں ہے دہنا ہے.
تا زمانی که برداشت ما که تلقی ما از خود و از نقش خود در جامعه عوض نشود تا معنای حقیقی آن را درک نکنیم، حجاب برایمان بند است، مهار است عامل نگهدارنده است که جلوی حرکتمان را می گیرد اینجاست که هزار عذر و بهانه می آوریم :
خواتین کے لباس میں صاف ستھرا، گندا خیمے اور مٹی کی تعداد ہے ...
کیا میں مٹی Pakm Mntm ...
یہ ایک عظیم عورت ہے اور ایک آدمی کی آنکھوں کی منظوری دے دی ہے.
میں اپنے راستے جاؤ، اندھے ان کی آنکھوں پر نظر نہیں ...
یہ واضح ہے کہ مجھے ایسا کرنا چاہیے ...
خیمہ، آپ کو اچھا، سب سے زیادہ شوقین اور موہت مردوں کو ملتا ہے اور اتیجیت کرتا ہے ...
کہ ایک ترقی یافتہ ملک میں ان مسائل کو حل کر رہے ہیں اور اب کوئی ایک مسئلہ ہے ...
مفت تعلقات، یہ قدرتی بات ہے ...
پابندیوں، اور اخراج پیچیدہ ہیں، دج زاید ہیں ...
اور دوسرے جواز اور بہانے ہزاروں کی تعداد میں مل نہیں بلکہ اس کے اصل معنی پر پردہ.
اگر آپ بیزگنیت یا خوف یا محبت یا حوصلہ افزائی یا دھمکیوں یا کسی دوسرے پردہ کرنے پر مجبور factor're کرنے کے لئے نئے ہیں. پردہ خود ہمارے ہاتھوں کا کھلونا بن جاتا ہے، ہم طویل عرصے سے پیارا کے ساتھ پینٹ کیا ہے اور ہم اس کی ادائیگی کریں گے. ہمارے خیمے ایک چمکیلی رنگ کی تبدیلی، جس سے اس کی شکل، جس بلایا Mantoux خیمہ بھی ہے سخت اور زیادہ پر کشش ہے بدل جائے گی ہے. تمبو خیمے سے خیمہ بھی برا ہے کہ ہم پتھر، ہم پردے میں عذر ہونے کی وجہ سے جڑتا اور خوف سے بچنے کے لئے کے بہانے ہے. یہ پردہ کرنے کے لئے پردہ ہے کہ پردہ اور حجاب کا پردہ ہے کہ میں سمجھ نہیں ہے اور حجاب کے ساتھ اپنے تعلقات کبھی نہیں سچ کے تصور underpin ہے.
یہ زاویہ کی طرح دیکھا اور ایک عورت ہے جو آج اور کل رہتا ہے سے ملنے، اور کیوں ایک ہی رنگ ہے، بہت خوبصورت اور اچھا لباس، دیکھو اور اپیل، اور سوائے camouflage میں اور وہاں بیٹھ کر اور کچھ دل کو تباہ نہیں کرے گا، تم اپنے آپ کو ایک سوٹ میں پھنس سکتا ہے؟ ان کی موت کی کوریج کے لئے، جو تعطل گا. وہ آج اتنے قریب اور اپنے بائيں Dyrvzsh میں تو اس کے دل پر منحصر ہے اور ان کے بائیں پر نظر ہے، اور گیری بڑے اور اعلی ختم ہو چکی ہے بڑھ نہیں ہے.
بہت سی خواتین ہیں جنہوں نے ان عورتوں کو پسند نہیں کرتے، پردہ ان سے متعلقہ ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا ان کے لیے پردہ برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے. میں خدا بننا چاہتا ہوں. یعنی جامعه و رشد و سقوط افراد برایشان اهمیت دارد ولی نسبت به آن کاهلی می کنند که یا اطلاعات لازم را ندارند که نمی دانند حفظ حجاب برایشان واجب است و حد و اندازه ی حجاب را نمی دانند و نمی دانند وجوب چادر را و یا در انجام اس کی لاپرواہی کی. جس کو میں نے تم سے کہا تھا کی ایک اعلی ڈگری حاصل کی ہے، لیکن وہ اسی طرح ہیں. لیکن کمیونٹی Narahtnd رویہ، اعمال، اعمال، اور اس زوال کو پورا کرنے کے لئے کی مدد سے بات کے دل میں.
وہ معاشرے میں ان کے کردار کی سمجھ نہیں ہے. جب خزاں وہ دکھی اور اداس ہیں، لیکن یہ مت دیکھو اس موسم خزاں میں کیا گیا ہے کام.
هم این دسته و هم دسته ی اول باید نوع نگرش خود به جامعه و نقش خود را تغییر بدهند ، که اولی تغییر بنیادین لازم دارد و دومی اطلاعات و آگاهی از وضع جامعه تا به گونه ای دیگر به خود و نقش خود و جامعه نگاه کنند.
Underpinning حجاب
رویہ اور خیال میں اس تبدیلی کی بنیادی نقاب تبدیل کر رہا ہے. ہم صرف اور دیکھیں کہ کیا ہماری حقیقی اقدار نظر آتے ہیں؟ کہ ہم اس کی قیمت اور ان کی پرتیبھا کی قیمت سمجھ سکتا ہوں، جو ہم نے پیدا کی ہے اس کے لئے اس کو دیکھنے کے لئے، یہ دیکھا جا سکتا ہے، میں اس کی اصلی قیمت معلوم، میں سمجھ سکتا ہوں کہ ان کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ پیدا کی طرف سے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دوسرے لوگوں کی آنکھوں ہیں اور دوسروں کے نقطہ نظر کے مطابق ہیں میں دوسروں کی طرف دیکھو میرے لئے ہے بیٹھ. تم میں سے وہ لوگ جو مجھے Dlrbaym چہرہ اور ایک خوبصورت چہرہ دیکھا ہے اور میرے جسم کو ان کے متعلقہ، چھوٹے تھا. گیری بھی ہے میرے دیگر اثرات کے مقابلے میں کم ہے. تمام آنکھوں بڑا دیکھو اور میں Bynatry سے دعا گو ہیں. اب سب سے زیادہ مجھے احساس ہے کہ میں خدا کی آنکھ Nzarah Bynatr میری سب سے بہترین نظر کر رہا ہوں اور یہ دیکھ بیٹھ بیٹھ کر.
اور وہ معیار دیکھنے کے لئے ہے. معیار خود کا اظہار کیا کہ وہ خریدتا ہے اور مومنوں کو اٹھاتا ہے.
اب دیگر خواتین کی خاطر، سیاہ فام اور نہ قبرستان میں دفن ہے. میں نے رضامندی کہ میرا پریمی کو توجہ Mshvqm حاصل کرنے کے لئے. میں نے اسے اپنے تمام Rzaytsh سٹ کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں. یہاں سے پردہ سے باہر کم از کم جب تک ہم دھول دیکھ کی طرف سے جانا ہے،. می بینم روح مریض جامعه را که با کفش های من که با راه رفتن من که با حرف زدن من که با لباس رنگی و چادر براق من تحریک می شود به سقوط می رود. دوسروں میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے خدا میرا پسندیدہ ہے، لوگوں کی کمی گر یہ دیکھنے کے لئے کہ خدا نے مجھے کسی کو قتل کرنے کے بگاڑ اور تباہی کی کسی کو ہونے کی توقع نہیں ہے پریشان کر رہے ہیں.
اور گھونگھٹ سے باہر اس دھول پر پردہ ہے کہ آپ کسی تم Chadrt اور Hjabt نہیں کر اپنی طرف متوجہ پیچھے نہیں سامنا ہے،. تم ایک نظریاتی اور دل کامپ حاصل نہیں ہے. Zrvrtsh اس وقت ہوتی ہے جب آپ کے چہرے کی وقت اور Jzbt کے میں Jlbt ہے کہ نہیں جانتے. یہ دھول کا پردہ ہے کہ میں نے اسے ایک سے پرے پر حکم دیا کے Brnyavrdn ہے. یہ نہ صرف عورتوں میں جو دونوں بہنوں سے متعلق ہیں.
یہاں، وژن کی اس قسم کی بھی مزید ضروریات پر رویہ کے ساتھ اس زاویہ،، کا مطالبہ ہے کہ وہ ہو کے ساتھ مطلوبہ امکان ان کے قریب بنانے خدا اور معاشرے میں اپنا کردار معاشرے Bshvy پر غور مطالعہ. یہ حقیقت ہے کہ ان کی خود کی قدر اور کس طرح پتہ ہے.
یہ بصیرت ہے، اور قول اور رویہ اس قسم کے زاویہ کے ساتھ، دوسروں کو کوئی نہیں Zrha آپ نے اپنی بصیرت کے لئے کپڑے پسند نہیں کرتے ہیں، دیکھو مگر میری نظر، آپ کو آپ کے دل پر مجبور اور کرتے Nlrzany مہاسرا نہیں کر سکتے ہیں گے. یہاں تک کہ اگر آپ زیادہ خوبصورت اور زیادہ لگ رہے ہو میرے دل میں ہے کہ شاید تم اپنے چمکدار خیمہ کے ساتھ آپ کے کپڑوں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں quaked، ڈر لگ رہا ہے. کون پتھر جو Bshvy ترقی کے ایک دل کو لینے کے لئے خوف زدہ نہیں ہیں.
میرا مسئلہ یہ ہے نہیں کہ میرے مسئلہ کا پردہ یا اس سے بھی برادری میں خوبصورت اثرات یہ ہے کہ ایک ہی دھول کا ایک ہی پردہ پر اثر میں ہے کہ میں خدا کے دل کو ہو اور ہلا سکتے ہیں مجھے لے لو. خدا بہت اہم ہے کہ موقع ہے، کہ ایک طرف، شاید تم ان کے لئے پس منظر فراہم نہیں کر سکتے ہیں لے.
انہوں نے ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ Pakm میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی نے مجھے Gndyd، کام کرتا ہے اور مجھے دوش دیتے ہیں اس fester، میں اس زوال کو دوش دیتے ہیں، eruption ہے کہ مجھے اس جھنجھٹ میں مجبور کر دیا کہ میں پھیل واپس میرے میں ایک ہی کمیونٹی میں رہتے ہیں. مسئلہ یہ ہے کہ ہر فرد اور کمیونٹی کی زندگی میرے لئے بہت اہم ہے. کیونکہ خدا اس سے محبت کرتا ہے، کیونکہ خدا نے کمیونٹی کی ترقی اور عوام سے محبت کرتی ہے، کیونکہ خدا میرے ارد گرد کے لوگوں سے محبت کرتا ہے، کیونکہ میں اپنی ناک سے باہر ہوں، اور تمام مخلوق ہے کہ میں نے ظاہر کیا ہے میں آپ کی باڑ سے محبت کرتا ہوں تمام دنیا میں سے محبت اس کے کائنات کے سب.
کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ ہم ایک ڈریس کوڈ ہے، اگر ہمارے خیمے کشش تھا. حجاب اور تمبو میں بھی جذب کرنے کے لئے کیا جائے کم پردہ. ہم نے خیمے اور اس طرح میں جانا پسند کرتا ہوں. لیکن جیسا کہ میں نے یہ خواتین، بہنوں کو دیکھتے ہیں، میں اور passers خوبصورتی کی طرف دیکھا جائے، دیکھ کر گر ہونے کا امکان ہے.
اگر آپ خواتین کو بھرتی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، دوسرے طریقوں اچھی بات ہے کہ نہیں ہیں، وہاں ایک اچھا لفظ ہے، یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور خواتین مذاکرات. دیکھتے ہیں اور دیکھ نہیں ہے کہ یہ ہمارے خدا تک پہنچنے کرنے کا ارادہ ہے، لیکن ٹیڑھی جانے کے لئے راستہ ہے. اور دھول سڑک لے جانے کے لئے برا راستہ ہے.
وہ مائیں جنہوں نے شوقین بچوں کی پہنچ سے کوئی بات نہیں ہے جہاں وہ چھپا بچے زیادہ چڑچڑا ہو جاتے ہیں کی منشیات باہر منعقد کیا ہے، زیادہ شوقین ہو. دیکھو کہ یہ منشیات کے بچوں کو دستیاب ہونا چاہئے.
لیکن ان دونوں کو جاننا اور جشتھاس ہیں. کبھی کبھی وہ لوگ جو اپنے تبتوشن کی تلاش کر رہے ہیں کی تجسس. وقار اور شرم و حياء پردہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ، آپ کو آپ کے لئے ایک پردہ ہے کہ آپ کو حوصلہ افزائی نہیں کرتے ہیں کے ساتھ اپنی طرف متوجہ نہیں کر رہے ہیں،. یہ قیادت اور پرتیبھا کے انتظام کے لیے تلاش کرنا چاہئے اور تم پر دھول کے ساتھ Hjabt Nyavrdnt غلط کو حل کرنے میں مدد ملے گی.
لیکن کبھی کبھی تجسس کی بیماری. تو جو شخص ان carnal تجسس Hvahay اخلاقی مریض سے اس کی بیماری سے چھٹکارا Rzayl اور بیماری میں ڈوب کر آپ کے سامنے میں پردہ سے باہر ہے. اگر تم نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ چوٹ لگی ہے، کیونکہ یہ میرا مکمل پردہ ہے کہ اب بھی نامکمل Hjabt جس طرح سے تم اتنے بیمار دیکھا ہے.
دو مجھے اس Hjabm کے نامکمل کہنا یا کم از کم منظوری دے اور دھول بنا، آپ کو پہلے گروپ، cortical بھوری رنگ اور گروپ II اور گروپ II کے زیادہ سے زیادہ تعداد میں تباہی فائدہ کے لئے قیادت کریں گے ساتھ لے نہیں کرے گا.
لیکن کہنا ہے کہ دیگر ممالک اس مسئلہ ہے، جس میں اس کی جامع اور شبہ کیا جانا چاہئے ایک معقول تشریح ہے، حل کیا ہے. لیکن تباہ کر اسے حل کرنے کے لئے موضوع لانے کے ساتھ مسئلہ ہے. اگر دیگر کمیونٹیز میں انسانی پرتیبھا کی فضلہ کو اور تباہ کیا جائے گا اور انسان کی حقیقی عظمت کے واسطہ سے خاندان تباہ کر رہا ہے. اس مسئلہ کا صحیح طریقہ نہیں ہے. وہ لوگ جو اس طرح کے مسئلے کو حل کرنے کی خواہش لگتا ہے کہ لوگوں کو مخالف جنس دیکھا ہے، اس کے انتظام اور قیادت کے ساتھ بات چیت کرنے کی خواہش کیا گیا ہے انسانی ترقی کے لئے صلاحیت کی مخالفت کرنے کے لئے بنایا لاپرواہ ہیں. یہ ہے اس کی صلاحیت کو کس طرح انسانی ترقی کے لئے استعمال کیا جا سکتا. وہاں ایک جاننے کی ضرورت ہے، اس طرح تمہیں پتہ ہے کہ آدمی کے لئے ہے اور اس دنیا میں کیا کیا اور کیا ہے اس مقصد کو تشکیل دے دیا گیا تھا؟
یہ پرتیبھا لیتا ہے اسے اس طرح کرنے کے لئے اور ترقی کی راہ میں رکھا. یہ اس صورت میں ضائع نہیں اپنی خدا داد صلاحیت کے کھلا اور تباہ کرنا چاہئے. فضلہ اور تباہی اس پرتیبھا کی طرف سے کیا کس طرح زیادہ سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے، انسانی مدد کی تباہی کے طور پر قیاس آرائی ہے.
خود اپنی انسانی فضلہ اور انسانی قیاس آرائی، جو پرتیبھا ہے کون ہے، اصل میں، سب ایک شرابی آدمی جو اس کی شراب کا لطف لیا اور جب تم سب نشے میں جانتا ہے جیسے یہ ان کی سرمایہ اور پیسے دیا ہے. یہ ایک امیر حاصل ہے اور کرتا نہیں جانتے کہ وہ کیا کھو گیا ہے، کو اس کی کمائی صرف نشے میں اور خوشی سے بھرا ہوا عارضی ہے. گاهی ما از حجم استعدادها و از عظمت خویش غافلیم و خود را و ارزش درونی خود را جزء دارایی ها حساب نمی کنیم و به همین دلیل با لذتی که در عوض از دست دادن خود و عمر خود و ارزش ها و استعدادهای خود به دست می آوریم اور Srshad Srkhvyshm اور نشہ ہوگيا.
حجاب کی حد
اچھا تمہیں پتہ ہے کہ میں نے جو کہا صرف دیویوں اور سججنوں، دھول ہے کہ میں اتنا کام نہیں ہے کہ دوسروں کو ان کے دلوں دینا چاہیے کے لئے نہیں ہے. دل کو ہلاتا ہے جس طرح سب نے بیٹھ کر اپنے دل کو ہلا کر رکھ دیا تھا انہیں لے، اور idolatrous ڈاکو دنڈ. یہ واقعی بہت مشکل ہے سمجھتا ہوں لیکن آپ کو چھیڑنے جس میں ان کی حکومت پر بھی ایک شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے سے محبت نہیں کرنی چاہئے. (یہ قاعدہ محبت سے باہر ہے، اور سے محبت کرتا ہوں) شوہر اور بیوی دونوں یوجک میں راہ کے حق اور دوسرے سے ایک ہے جس پر تمام میرے دل کا راستہ ترک کر دیں اور دوسرے کو پکڑ ضروری ہے روکا. جس طرح خدا تک پہنچنے اور جس نے ہولڈ پار کرنے کے لئے، اور ان کے بہت بڑا ہنر کے ساتھ، وہ idolatrous ہو گا.
پردہ اور
خواتین کے veiling کی قدر صرف اس وژن کی accompaniment کرنے کے لئے نہیں ہے محدود اور وژن کی اس نقطہ نظر کی وضاحت کر رہا ہے اور ہمیشہ ایک شکل اور ایک قیمت ہے.
تم نے دیکھا ہے کہ وجہ سے مرض زیادہ امکان ہے کہ اپنی کمیونٹی کے ارکان، آپ کے معمولی اقدام کے ساتھ اپنی کمیونٹی، آپ کے جوتے ہے کہ آپ اس قسم کی باتیں تمہیں پیدا کیا جائے گا نظر آتے پہننا. تم رہو، جس سے مزید دور ہو ایسا نہ ہو کہ آپ کہ آپ کی کمیونٹی Bkshany تباہی کے کچھ کرو.
کہ کمیونٹی کے دل میں نہیں ہے اور کونے میں پناہ لے اس بیمار معاشرے کے ساتھ معاہدے کی صحیح قسم کی دھول اس پر جمع کرنے کے لئے علاج سے اجتناب حاصل ہے. یہ غلط ہے کہ جنسی کے بغیر جب میں اپنے Blrzanm کو درست اسے رہا ہوں محبت کرتا ہوں، جب لوگ بیمار ہوتے ہیں وہ خواتین کو مردوں اور عورتوں کے علاج کر سکتے ہیں. غلط جانے کا راستہ اور علاقوں میں ایک ساتھ ملا رہے ہیں.
جب عورتوں میں سے اچھے اور خوبصورت عورتوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے اور ان کے بڑھنے کے لباس پر اجتماعات کے ساتھ عورتوں ہو سکتا ہے، ضروری ہے کہ مردوں کی آمد کے ساتھ اور ان اجلاسوں میں بہنوں کے لئے موقع کے لئے لانا ہے.
یہاں، اس بصیرت کے ساتھ، کمیونٹی کے رویوں اور اقدار کی قسم پردہ کے ساتھ منسلک ہے. آپ ہمیشہ Hjabt اسلامی پردہ ہو، لیکن بعض اوقات ہم اس کے آگے مہاسرا نہیں کرنا چاہئے. اور اپنے فرض کی ضروریات علاقوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت (SA) فاطمہ خطبہ، جہاں حضرت (SA) Zeinab خطبہ کی رقم کی وضاحت کی اس بصیرت کے ساتھ کیا جائے گا ہے پڑھا میں اداکاری کے لئے.
اس وقت تک تو موجودہ کے لئے ضروری نہیں تھا، اور وہاں ایک خطبہ ہے کہ میدان کو روشن اور شو کے کپٹی طریقوں کا خطبہ پڑھنے کے لئے آ جانا چاہیے تھا نہیں تھا. پردہ کی مقدار اور قسم اور اکھاڑے میں قدم ہمیشہ فرض کی ایک شکل ہے اور اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے. معیار میں اس طرح کے اختلافات کو تم یہ سمجھتے ہو کہ کس طرح مختلف شعبوں میں داخل کروں گا، کہ اسلام نہ صرف کارروائی کی ایک وجہ ہے اور ترغیبات اور معیار اور معیار، منصوبہ بندی دینے کے لئے غور کر رہی ہے.
اسلامی اور مغربی ثقافتوں میں عورت کا مقام
پہلا باب: اسلامی ثقافت میں عورت کی منزلت
اسلامی نقطہ نگاہ پر توجہ دینے کی ضرورت:
جب دنیا کے فکری میدان پر نظر دوڑائی جاتی ہے اور پھر اسلامی نقطہ نگاہ کا جائزہ لیا جاتا ہے تو صاف صاف یہ محسوس ہوتا ہے کہ انسانی معاشرہ اسی وقت مرد و زن کے رابطے کے سلسلے میں مطلوبہ منزل اور نہج پر پہنچ سکتا ہے جب اسلامی نظریات کو بغیر کسی کمی و بیشی کے اور بغیر کسی افراط و تفریط کے سمجھا اور درک کیا جائے اور انہیں پیش کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس وقت مادہ پرست تہذیبوں میں عورت کے سلسلے میں جو طرز عمل اختیار کیا گيا ہے اور جو سلسلہ چل رہا ہے وہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے اور وہ عورت کے مفاد اور حق میں ہے نہ معاشرے کے فائدے میں۔
اسلام کی خواہش ہے کہ عورتوں کا فکری، علمی، سیاسی، سماجی اور سب سے بڑھ کر روحانی و معنوی نشو نما اپنی منزل کمال پر پہنچ جائے اور ان کا وجود انسانی معاشرے اور کنبے کے لئے، ایک اہم رکن کی حیثیت سے، آخری حد تک ثمر بخش اور مفید ثابت ہو۔ تمام اسلامی تعلیمات منجملہ مسئلہ حجاب کی بنیاد یہی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی جب اچھے اور برے انسانوں کی مثال دینا چاہتا ہے تو دونوں کے سلسلے میں عورت کا انتخاب کرتا ہے۔ ایک مثال زوجہ فرعون کی ہے اور دوسری مثال حضرت نوح و حضرت لوط علیھم السلام کی بیویوں کی ہے۔ " و ضرب اللہ مثلا للذین آمنوا امرئۃ فرعون" اس کے مقابلے میں برے، نگوں بخت، منحرف اور غلط سمت میں بڑھنے والے انسان کی مثال کے طور پر حضرت نوح اور حضرت لوط کی ازواج کو پیش کرتا ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ مرد بھی موجود تھے، ایک مثال مرد کی دے دی ہوتی اور ایک مثال عورت کی دی ہوتی۔ لیکن نہیں، پورے قرآن میں جب بھی ارشاد ہوتا ہے کہ " ضرب اللہ للذین آمنوا" یا " ضرب اللہ للذین کفروا" تو دونوں کی مثال عورتوں کے ذریعے پیش کی جاتی ہے۔
عورت کے سلسلے میں اسلام کا طرز سلوک:
عورت کے ساتھ اسلام اور اسلامی جمہوری نظام کا سلوک مودبانہ اور محترمانہ ہے، خیر اندیشانہ، دانشمندانہ اور توقیر آمیز ہے۔ یہ مرد و زن دونوں کے حق میں ہے۔ اسلام مرد و زن دونوں کے سلسلے میں اسی طرح تمام مخلوقات کے تعلق سے حقیقت پسندانہ اور حقیقی و بنیادی ضرورتوں اور مزاج و فطرت سے ہم آہنگ انداز اختیار کرتا ہے۔ یعنی کسی سے بھی قوت و توانائی سے زیادہ اور اس کو عطا کردہ وسائل سے بڑھ کر کوئی توقع نہیں رکھتا۔ عورت کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نگاہ کو سمجھنے کے لئے اس کا تین زاویوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
اول: ایک انسان ہونے کی حیثیت سے روحانی و معنوی کمالات کی راہ میں اس کا کردار؛ اس زاویے سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تاریخ میں جس طرح بہت سے با عظمت مرد گزرے ہیں، بہت سی عظیم اور نمایاں کردار کی حامل خواتین بھی گزری ہیں۔
دوم: سماجی، سیاسی، علمی اور معاشی سرگرمیاں؛ اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورتوں کے لئے علمی، اقتصادی اور سیاسی فعالیت اور سرگرمیوں کا دروازہ پوری طرح کھلا ہوا ہے۔ اگر کوئی اسلامی نقطہ نگاہ کا حوالہ دے کر عورت کو علمی سرگرمیوں سے محروم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اقتصادی فعالیت سے دور رکھنے کے در پے ہے یا سیاسی و سماجی امور سے لا تعلق رکھنے پر مصر ہے تو وہ در حقیقت حکم خدا کے خلاف عمل کر رہا ہے۔ عورتیں، جہاں تک ان کی ضروریات و احتیاج کا تقاضا ہو اور جسمانی توانائی جس حد تک اجازت دے، سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔ جتنا ممکن ہو وہ سیاسی و معاشی و سماجی امور انجام دیں، شریعت اسلامی میں اس کی ہرگز مناہی نہیں ہے۔ البتہ چونکہ جسمانی ساخت کے لحاظ سے عورت مرد سے نازک ہوتی ہے لہذا اس کے اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ عورت پر طاقت فرسا کام مسلط کر دینا اس کے ساتھ زیادتی ہے، اسلام اس کا مشورہ ہرگز نہیں دیتا۔ البتہ اس نے (عورت کو ) روکا بھی نہیں ہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام سے منقول ہے کہ آپ فرماتے ہیں: " المرآۃ ریحانۃ و لیست بقھرمانۃ" یعنی عورت پھول کی مانند ہے "قہرمان" نہیں۔
"قہرمان" یعنی با عزت پیش کار اور خدمت گار۔ آپ مردوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: عورتیں تمہارے گھروں میں گل لطیف کی مانند ہیں ان کے ساتھ بڑی ظرافت اور توجہ سے پیش آؤ۔ عورت آپ کی خادمہ اور پیش کار نہیں ہے کہ آپ سخت اور طاقت فرسا کام اس کے سر مڑھ دیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔
یہ جو بعض افراد شادی سے پہلے شرط رکھ دیتے ہیں کہ عورت ملازمت پیشہ ہو، اس کی اپنی آمدنی اور کمائی ہو، بالکل غلط ہے۔ البتہ خلاف شریعت تو نہیں ہے لیکن اسلام اس چیز کا مشورہ ہرگز نہیں دیتا۔ اسلام نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے جس کو اساس بناکر ہم عورت کو معاشی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روک دیں لیکن دوسری طرف اسلام نے یہ بھی نہیں کہا ہے کہ عورت کو محنت شاقہ اور طاقت فرسائی کی متقاضی سیاسی و سماجی و معاشی سرگرمیوں میں لگا دیا جائے۔ اسلام کا نظریہ اعتدال پسندانہ ہے۔ یعنی عورت کے پاس اگر فرصت ہے، بچوں کی پرورش اس کی راہ میں حائل نہیں ہو رہی ہے، اس میں شوق و دلچسپی اور جسمانی طاقت و توانائی بھی ہے اور وہ سماجی، سیاسی اور معاشی امور میں حصہ لینا چاہتی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن یہ کہ اسے مجبور کر دیا جائے اور اسے حکم دیا جائے کہ جاؤ جیسے بھی ممکن ہو روزگار تلاش کرو اور یومیہ اتنا کام کرو تاکہ اس آمدنی سے گھر کے خرچ کا کچھ بوجھ تم اٹھاؤ، تو یہ مناسب نہیں ہے۔ اسلام نے عورت کو ہرگز اس کا حکم نہیں دیا ہے۔ اسے عورت کے ساتھ ایک طرح کی زیادتی قرار دیتا ہے۔
میں خاندانوں سے یہ سفارش کروں گا کہ وہ اپنی لڑکیوں کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیں۔ یہ نہ ہو کہ کوئی ماں باپ دینداری کے جذبے کے نام پر اپنی لڑکی کو اعلی تعلیم حاصل کرنے سے روک دیں! نہیں، دین نے ہرگز یہ بات نہیں کہی ہے۔ دین کی نظر میں تعلیم کے لحاظ سے لڑکے اور لڑکی میں کوئي فرق ہی نہیں ہے۔ اگر لڑکا اعلی تعلیم حاصل کرتا ہے تو لڑکی بھی اعلی تعلیم حاصل کر سکتی ہے۔ نوجوان لڑکیوں کو چاہئے کہ تعلیم حاصل کریں، علم کی منزلیں طے کریں، معلومات میں اضافہ کریں۔ اپنی اہمیت اور مقام و منزلت سے آگاہ ہوں اور اپنی قدر و قیمت کو سمجھیں، تاکہ انہیں یہ پتہ چلے کہ عورت کے سلسلے میں عالمی استکبار کے پروپیگنڈے کتنے کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں۔ تعلیم کے ذریعے ان چیزوں کو سمجھا جا سکتا ہے۔
سوم: عورت کو خاندان اور کنبے کی ایک رکن کی حیثیت سے دیکھنا۔ یہ سب سے اہم اور با ارزش ہے۔ اسلام میں مرد کویہ اجازت نہیں ہے کہ عورت سے جبر و اکراہ کا برتاؤ کرے اور اس پر کوئي چیز مسلط کر دے۔ خاندان کے اندر مرد کے لئے محدود حقوق رکھے گئے ہیں جو در حقیقت بڑی حمکت آمیز بات ہے۔ یہ حقوق جس کے سامنے بھی رکھے اور بیان کئے جائیں، وہ اس کی حمایت او تائید کرے گا۔ اسی طرح عورت کے لئے بھی خاندان کے اندر کچھ حقوق رکھے گئے ہیں اور ان میں بھی بڑی مصلحت اندیشی پوشیدہ ہے۔ مرد و زن دونوں کے اپنے مخصوص جذبات، مزاج، اخلاق اور خواہشات ہیں۔ وہ دونوں اگر اپنے اپنے جذبات اور خواہشات کے مطابق صحیح طور پر عمل کریں تو گھر میں بڑا اچھا ہم آہنگ اور ایک دوسرے کے لئے سازگار جوڑا وجود میں آ جائے گا۔ اگر مرد زیادتی کرتا ہے تو توازن بگڑ جاتا ہے، اسی طرح عورت کوئی زیادتی کرے تو اس سے بھی توازن ختم ہو جاتا ہے۔ اسلام گھر کے اندر مرد اور عورت کو دروازے کے دو پلوں، چہرے کی دو آنکھوں، محاذ زندگی کے دو مجاہدوں اور ایک دوکان میں کام کرنے والے دو رفقائے کار کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ ان میں ہر ایک کا اپنا مزاج، اپنی خصوصیات، اپنی خصلتیں ہیں۔ جسمانی لحاظ سے بھی، روحانی لحاظ سے بھی، فکری لحاظ سے بھی او جذبات و خواہشات کے اعتبار سے بھی۔ یہ دونوں صنفیں اگر ان حدود اور معیاروں کی پابندی کرتے ہوئے جس کا تعین اسلام نے کیا ہے ایک ساتھ زندگی بسر کریں تو ایک مضبوط، مہربان، با برکت اور انتہائی کارآمد کنبہ معرض وجود میں آئے گا۔
اسلام ان مردوں کو جو اپنی جسمانی یا مالیاتی قوت کے بلبوتے پر عورتوں سے اپنی خدمت لیا کرتے تھے، عورتوں کو بسا اوقات اہانت اور تحقیر کا نشانہ بناتے تھے، ان کی حدود دکھائیں اور عورت کو اس کی حقیقی منزلت پر پہنچایا اور بعض چیزوں کے لحاظ سے اسے مرد کے برابر قرار دیا۔ "ان المسلمین و المسلمات و المؤمنین و المؤمنات" مسلمان مرد، مسلمان عورت، عبادت گزار مرد، عبادت گزار عورت، شبوں میں عبادت کرنے والے مرد اور راتوں کو جاگ کر عبادتیں کرنے والی عورتیں۔ معلوم ہوا کہ اسلام میں یہ تمام معنوی و روحانی مقامات اور اعلی انسانی درجات مرد اور عورت کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کئے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے عورتیں بھی مردوں کے برابر ہیں۔ جو بھی اللہ کے لئے کام کرے گا "من ذکر او انثی" خواہ وہ مرد ہو کہ عورت " فلنحیینھ حیاتا طیبۃ" (ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے)
اسلام نے بعض مقامات پر عورتوں کو مردوں پر ترجیح تک دی ہے۔ مثال کے طور پر ایک مرد اور ایک عورت کسی بچے کے ماں باپ ہیں اور یہ بچہ دونوں کا ہے لیکن اولاد کے لئے ماں کی خدمت کرنا زیادہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اولاد کی گردن پر ماں کا حق زیادہ ہے اور ماں کے تعلق سے اولاد کے فرائض زیادہ سنگین ہیں۔ پیغمبر اسلام نے اس سوال کے جواب میں کہ " من ابر" میں کس کے ساتھ بھلائی اور نیکی کروں؟ فرمایا ہے کہ "امک" یعنی اپنی ماں کے ساتھ۔ آپ نے دوبارہ اس کی تکرار کی اور تیسری بار بھی یہی جملہ دہرایا۔ جب پوچھنے والے نے چوتھی دفعہ یہی سوال کیا تب آپ نے فرمایا کہ " اباک" یعنی اپنے باپ کے ساتھ۔ بنابریں خاندان میں بچوں پر ماں کا حق زیادہ ہے اور ماں کے تعلق سے بچوں کے فرائض بھی زیادہ ہیں۔ البتہ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے کچھ لوگوں کو بعض دیگر افراد پر (بے سبب) ترحیج دے دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں بہت زیادہ محنت و مشقت کرتی ہیں۔ یہ عدل الہی کا تقاضا ہے۔ جس کی زحمتیں زیادہ ہیں اس کا حق بھی زیادہ ہے۔ چونکہ (ماں) زیادہ مشقتیں برداشت کرتی ہے اس لئے اس کی قدر و منزلت بھی بالاتر ہے۔
یہ سب عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ مالیاتی امور میں، کنبے کے حق کے سلسلے میں، خاندان کی سرپرستی کے سلسلے میں اور گھر کے امور کو چلانے کے تعلق سے اسلام کی روش بڑی متوازن روش ہے۔ ان امور میں بھی اسلامی قانون نے ایسا بندو بست کیا ہے کہ مرد یا عورت کسی پر بھی ذرہ برابر ظلم و زیادتی نہ ہو۔ اس نے مردوں کے حقوق بھی معین کر دئے ہیں اور عورتوں کے حقوق کی بھی نشاندہی کر دی ہے۔ ایک چیز مرد کے پلڑے میں ڈالی ہے تو دوسری چیز عورت کے پلڑے میں رکھی ہے۔ جو لوگ صاحب نظر ہیں اگر وہ غور کرتے ہیں تو ان حقائق کو باقاعدہ محسوس بھی کرتے ہیں اور انہوں نے کتابوں میں یہ چیزیں لکھی بھی ہیں۔
اسلام کی نظر میں جنس یعنی مرد یا عورت ہونا موضوع بحث نہیں بلکہ ارتقاء انسانی پر گفتگو کی گئی ہے، اخلاق انسانی کو موضوع گفتگو بنایا گيا ہے، صلاحیتوں کو نکھارنے کی بات کی گئی ہے، ان فرائض کی بات کی گئی ہے جن کا تعلق کسی بھی جنس سے ہو سکتا ہے۔ البتہ اس کے لئے مزاج سے آشنائی ضروری ہے۔ اسلام مرد اور عورت دونوں کے مزاج کو بخوبی پہچانتا ہے۔ اسلام کی نظر میں سب سے اہم ہے توازن کا برقرار رہنا، یعنی انسانوں بشمول مرد و زن، کے درمیان عدل و انصاف کی مکمل پابندی۔ حقوق کی برابری موضوع گفتگو ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ بعض مقامات پر عورتوں اور مردوں کے سلسلے میں احکام مختلف ہوں۔ بالکل اسی طرح، جس طرح عورت اور مرد کے مزاج بعض خصوصیات کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں مرد اور عورت سے متعلق زیادہ سے زیادہ حقائق فطری خصائل اور طینت اور نفسیات کو دیکھا جا سکتا ہے۔
اسلامی معاشرہ اور عورت
اسلامی جمہوریہ ایران میں عورت سے توقع یہ ہوتی ہے کہ وہ عالمہ ہو، سیاسی شعور رکھتی ہو، سماجی سرگرمیاں انجام دے، تمام شعبوں میں سرگرم عمل ہو۔ گھر میں مالکہ کا رول ادا کرے، شوہر اور بچوں کی نگہداشت اور اولاد کی تربیت کا ذمہ سنبھالے۔ گھر کے باہر عفت و طہارت و پاکدامنی کا مظہر ہو۔ ایران کے معاشرے میں اسلامی نظام ایسی عورتوں کو دیکھنا چاہتا ہے۔ یعنی عورت گھر کے اندر بچوں کی پرورش کرنے والی اور شوہر کے لئے سکون و چین کا سامان فراہم کرنے والی اور شوہر کے وجود سے سکون حاصل کرنے والی ہو، گھر کے باہر کی فضا میں اپنی پاکدامنی و عفت کی حفاظت کرتے ہوئے تمام سیاسی، علمی، سماجی اور دیگر شعبوں میں موجود رہے۔ اگر یہ ہدف پورا کرنا ہے تو اس کی اولیں شرط حجاب ہے۔ حجاب کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ حجاب کے بغیر عورت وہ بے فکری اور اطمینان خاطر حاصل نہیں کر سکتی جس کے ذریعے وہ ان منزلوں کو طے کر سکے۔
اسلامی معاشرے میں اور مسلمانوں کی زندگی کے اصلی بہاؤ میں مسلمان عورت کی خاص حرمت و وقار ہے اور اس کا مظہر حجاب ہے۔ جو (خاتون) حجاب میں ملبوس رہتی ہے، اس کا احترام کیا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں بھی وہ عورتیں زیادہ معزز اور قابل احترام ہوتی تھیں جو با حجاب رہتی تھیں۔ حجاب وقار کی علامت ہے۔ حجاب پہننے والی خواتین کا خاص احترام کیا جاتا ہے۔ اسلام تمام عورتوں کے لئے اسی حرمت و عزت کا خواہاں ہے۔
اسلامی حدود
سماجی سرگرمیوں کے سلسلے میں اسلام نے کچھ حدود معین کی ہیں جن کا تعلق عورت یا اس کی سرگرمیوں کی اجازت سے نہیں ہے بلکہ یہ مرد اور عورت کے اختلاط سے سے مربوط ہیں۔ اسلام اس سلسلے میں بہت محتاط ہے۔ اسلام کا کہنا ہے کہ ہر جگہ اور ہر مقام پر، سڑک پر، ادارے کے اندر، دوکان کے اندر مرد اور عورت کے ما بین ایک حد بندی ہونی چاہئے۔ مسلمان مرد و عورت کے بیچ حجاب اور ایک معینہ حدبندی رکھی گئی ہے۔ عورت اور مرد کا ملنا جلنا، مردوں کے آپسی اختلاط اور عورتوں کے باہمی اختلاط کی مانند نہیں ہے۔ اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ مرد بھی اس کا لحاظ کریں اور عورتیں بھی اس کی پابند رہیں۔ مرد اور عورت کے روابط اور ملنے جلنے کے سلسلے میں اگر اس احتیاط کو ملحوظ رکھا جائے تو سماجی میدان میں جو کام اور جو امور مرد انجام دیتے ہیں عورتیں بھی، اگر ان کے پاس جسمانی توانائی دلچسپی اور فرصت ہے، انجام دے سکتی ہیں۔
کامل نمونہ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا چھے سات سال کی تھیں کہ شعب ابو طالب کا مرحلہ در پیش ہوا۔ صدر اسلام کی تاریخ میں شعب ابو طالب بے حد سخت اور دشوار دور تھا۔ یعنی پیغمبر اسلام کی تبلیغ دین شروع ہو چکی تھی، آپ نے اپنی نبوت کا اعلان کر دیا تھا۔ رفتہ رفتہ اہل مکہ بالخصوص نوجوان اور غلام، حضرت کے گرویدہ ہوتے جا رہے تھے اور اکابرین طاغوت کو محسوس ہونے لگا تھا کہ ان کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ پیغمبر اور ان کے ارد گرد جمع افراد کو مکے سے باہر نکال دیا جائے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا بھی۔ ان میں سے بہتوں کو جن میں درجنوں خاندان شامل تھے خود پیغمبر اسلام اور آپ کے قریبی رشتہ دار، خود حضرت ابو طالب جبکہ حضرت ابو طالب کا شمار بزرگوں میں کیا جاتا تھا، بچے اور بوڑھے شامل تھے۔ سب کو مکے سے باہر نکال دیا۔ حضرت ابو طالب کے پاس ایک چھوٹا پہاڑی درہ تھا۔ کہہ دیا گيا کہ آپ لوگ وہیں چلے جائیں۔ مکہ میں دن میں تو دھوپ کی شکل میں آگ برستی تھی لیکن رات کو کڑاکے کی سردی پڑتی تھی۔ یعنی موسم ناقابل برداشت تھا۔ ان لوگوں نے اس بیابان میں تین سال کاٹ دئے۔ کتنی سختیاں برداشت کیں اور بھوک کی شدت جھیلی! پیغمبر اسلام کی زندگی کا ایک انتہائی سخت دور یہی تھا۔ اس عرصے میں پیغمبر اسلام کی ذمہ داری صرف لوگوں کی ہدایت و رہنمائی نہیں تھی بلکہ انہیں سختیاں جھیلنے والے ان افراد کے سامنے بھی اپنے مشن کا دفاع کرنا تھا(کہ اس کے لئے اتنی سختیاں برداشت کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے)۔ ان دنوں جب پیغمبر اسلام انتہائی سخت حالات سے دوچار تھے حضرت ابو طالب، جو پیغمبر کے مددگار تھے اور ان سے پیغمبر اسلام کی امیدیں وابستہ تھیں، اسی طرح حضرت خدیجہ کبرا جو پیغمبر اسلام کی ایک اور بہت بڑی یاور و مددگار تھیں ایک ہفتے کے اندر دونوں دنیا سے رخصت ہو گئے۔! یہ بڑا عجیب سانحہ ہے، پیغمبر بالکل بے سہارا اور تنہا ہو گئے۔
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے ایک مشیر اور ایک ماں کا کردار ادا کیا پیغمبر اسلام کے لئے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے سلسلے کہا گیا کہ آپ تو "ام ابیھا" یعنی اپنے والد کی ماں ہیں۔ یہ اسی وقت کی بات ہے۔ یعنی ایک چھے سات سال کی بچی کا یہ کردار تھا۔ البتہ یہ بھی ہے کہ عرب ماحول میں اور گرم علاقوں میں لڑکیوں کا جسمانی اور ذہنی نشونما تیزی سے ہوتا ہے اس لحاظ سے آج کی دس بارہ سالہ لڑکی کے برابر رہی ہوں گی۔ تو یہ احساس ذمہ داری اور فرض شناسی ہے۔ کیا ایک نوجوان لڑکی کے لئے یہ چیز نمونہ عمل اور درس نہیں ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے مسائل کے تعلق سے جلد ہی اپنی ذمہ داری کا احساس کرے، اپنے وجود میں پنہاں جوش و نشاط کے اس خزانے کو بروئے کار لاتے ہوئے باپ کے چہرے سے جو اس وقت غالبا پچاس سال کا ہو چکا ہے اور بڑھاپے کی سمت گامزن ہے غم و غصے کے غبار کو جھاڑے، یہ ایک نوجوان لڑکی کے لئے کیا بہترین نمونہ نہیں ہے؟
دوسرا نمونہ ہے شوہر کے تعلق سے اپنے فرائض کی ادائیگی کا ہے۔ بعض اوقات لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ شوہر کے حقوق ادا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عورت باورچی خانہ سنبھالے، کھانا پکائے، کمرے کی صفائی ستھرائی کرے، بستر بچھائے اور گاؤ تکیہ لگائے کہ شوہر نامدار دفتر یا دکان سے آ رہے ہوں گے! اسی کو شوہر کے حقوق کی ادائیگی نہیں کہتے۔ آپ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کو دیکھئے کہ کس انداز سے شوہر کے تعلق سے اپنے فرائض ادا کر رہی ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ میں دس برس گزارے ان میں نو برس وہ تھے جن میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا اور امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے شوہر اور زوجہ کی حیثیت سے ایک ساتھ زندگی گزاری۔ ان نو برسوں میں جن چھوٹی بڑی جنگوں کا ذکر کیا گيا ہے وہ تقریبا ساٹھ جنگیں ہیں۔ ان میں اکثر و بیشتر جنگوں میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے شرکت کی۔ اب آپ غور کیجئے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا گھر میں موجود ہیں اور آپ کے شوہر مسلسل محاذ جنگ سنبھالے ہوئے ہیں۔ کیونکہ آپ کے وجود پر محاذ جنگ کی مضبوطی کا دار و مدار تھا، آپ نہ ہوتے تو محاذ کمزور پڑ جاتا۔ گھر کی مالی حالت بھی اچھی نہیں ہے، بلکہ حقیقت میں آپ کی زندگی غربت و عسرت و تنگدستی میں گزر رہی تھی۔ جبکہ آپ قائد ملت کی دختر گرامی ہیں، پیغمبر کی لخت جگر ہیں اور آپ کے اندر ایک احساس ذمہ داری اور فرض شناسی بھی موجود ہے۔ بے حد مضبوط اعصاب اور قوی جذبات کی ضرورت ہے کہ انسان اپنے شوہر کو آمادہ کرے، اس کے ذہن و دل کو گھر کے مسائل و مشکلات اور بال بچوں کی فکر سے آزاد اور مطمئن رکھے، اس کی حوصلہ افزائی کرے اور بچوں کی ایسی مثالی تربیت کرے جیسی صدیقہ طاہرہ نے کی۔ آپ خود کہئے! حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام تو امام تھے اور سرشت و طینت امام رکھتے تھے لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا تو امام نہیں تھیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا نے انہی نو برسوں میں آپ کی تربیت کی تھی۔ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد تو آپ زیادہ دن زندہ بھی نہیں رہیں۔
اس انداز سے گھر چلایا، اس انداز سے شوہر کے تئیں اپنے فرائض ادا کئے اور اس انداز سے گھر کی مالکہ کا کردار ادا کیا کہ تاریخ میں پائيدار خاندانی زندگی کا محور قرار پائیں۔ کیا یہ نوجوان لڑکی، گھریلو عورت یا گھریلو زندگی شروع کرنے جا رہی خاتون کے لئے آپ اسوہ حسنہ نہیں ہیں؟ یہ بڑی اہم باتیں ہیں۔
عورت کا ملکوتی مرتبہ
چودہ سو سال سے بھی پہلے پیغمبر اسلام نے ایک ایسی بیٹی کی تربیت کی کہ یہ دختر نیک اختر لیاقت و شائستگی کی اس منزل پر پہنچ گئی کہ خدا کا رسول اس کے ہاتھوں کے بوسے لیتا ہے! حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ہاتھوں پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بوسے کو جذباتی مسئلے پر ہرگز محمول نہ کیجئے۔ یہ سوچنا کہ چونہ وہ آپ کی بیٹی تھیں اور آپ کو ان سے بڑی محبت و انسیت تھی لہذا آپ ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے تھے، بالکل غلط اور سطحی فکر ہے۔
اس بے مثال اور گراں قدر شخصیت کا مالک اور زیور عدل و حکمت سے آراستہ پیغمبر کہ جس کے افعال و اقوال کا دار و مدار وحی و الہام پر ہے، بھلا کیسے ممکن ہے کہ جھکے اور اپنی بیٹی کے ہاتھ چومے؟ یہ نہیں ہو سکتا، یہاں مسئلہ کچھ اور ہے، یہ ماجرا ہی کچھ اور ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ دختر نیک اختر یہ خاتون جس کی دنیا سے رخصت کے وقت عمر اٹھارہ سے پچیس سال کے درمیان تھی، در حقیقت انسان کی ملکوتی بلندیوں پر فائز تھی اور ایک غیر معمولی ہستی کی مالک تھی۔ یہ ہے عورت کے سلسلے میں اسلام کا نقطہ نگاہ۔
اسلامی قوانین میں عورت کی حمایت
خاندان کے سلسلے میں اسلام کے احکامات اتنے درخشاں اور قابل فخر ہیں کہ انسان ان اسلامی احکام کا مشاہدہ کرکے عزت و وقار کا احساس کرتا ہے۔ خاندان اور کنبے کی تشکیل کے بالکل ابتدائی مرحلے میں شریک زندگی کے انتخاب کے سلسلے میں اسلام کے جو قوانین اور احکامات ہیں وہ عورت کے لئے مددگار ہیں۔ چونکہ بعض مرد، عورتوں کے ساتھ ظلم و جارحیت و زیادتی کرتے تھے اور سختی سے پیش آتے تھے اس لئے اسلام نے اس ظلم اور اس زیادتی پر روک لگائی۔ جب ایک کنبہ تشکیل پاتا ہے تو اسلام کا کہنا یہ ہے کہ کنبے کے اندر شوہر او زوجہ ایک دوسرے کے شریک زندگی ہیں، انہیں ایک دوسرے سے محبت آمیز برتاؤ کرنا چاہئے۔ مرد کو کوئی حق نہیں کہ وہ بیوی کے ساتھ زیادتی کرے اور اس پر جبر کرے، اسی طرح عورت کو بھی حق نہیں ہے کہ مرد کے ساتھ زیادتی کرے۔ کنبے اور خاندان کے اندر مرد اور عورت کے تعلقات اور روابط کے سلسلے میں اسلامی احکامات اور ضوابط بڑی ظرافت اور باریک بینی کے ساتھ معین کئے گئے ہیں۔ اللہ تعالی نے عورت اور مرد کے مزاج کو بنیاد بنا کر، اسلامی معاشرے کے مفادات کی مناسبت سے اور مرد اور عورت کی بھلائی اور اچھائی کے مطابق ان اصولوں، ضوابط اور احکامات کا تعین فرمایا ہے۔ مرد کو صرف چند امور میں یہ حق ہے کہ عورت کو حکم دے اور عورت پر لازم ہے کہ اس حکم کی تعمیل کرے۔ مرد کو یہ حق ہے کہ عورت کو بغیر اجازت گھر سے باہر جانے سے روک دے، البتہ اس کے لئے ضروری ہے کہ عقد کے موقع پر اس سلسلے میں کوئی شرط نہ رکھ دی گئی ہو۔ اگر کوئي شرط نہیں رکھی گئی ہے تو مرد کو یہ حق ہے کہ روک دے۔ یہ در حقیقت احکام الہی کے بے حد ظریف اسرار میں سے ایک ہے۔ یہ حق صرف شوہر کو دیا گيا ہے، حتی باپ کو بھی یہ حق نہیں دیا گيا ہے۔ باپ اپنی بیٹی کو اس کا پابند نہیں کر سکتا کہ جب بھی وہ باہر جانا چاہے تو پہلے اس سے اجازت حاصل کرے۔ والد کو یہ حق نہیں دیا گيا ہے۔ اسی طرح بھائی کو بھی اپنی بہن کے سلسلے میں یہ حق حاصل نہیں ہے۔ لیکن شوہر کو زوجہ کے سلسلے میں یہ حق حاصل ہے۔ البتہ عورتوں کو یہ حق ہے کہ وہ نکاح کے وقت شرط عقد کے طور پر کچھ شرطیں رکھوا لیں۔
دو ثقافتوں کا ٹکراؤ
یہ اسلامی ثقافت نہیں ہے جسے اپنے موقف کا دفاع کرنا ہے، دفاع تو مغرب کی انحطاط پذیر ثقافت کو کرنا چاہئے۔ عورتوں کے سامنے جو بات ہم پیش کرتے ہیں اس کا کوئي بھی با شعور اور منصف مزاج انسان منکر نہیں ہو سکتا۔ ہم عورت کو عفت، عصمت، حجاب، مرد و زن کی حد سے زیادہ آمیزش سے اجتناب، انسانی وقار کی حفاظت، غیر مردوں کے سامنے سجنے سنورنے سے گریز کی دعوت دیتے ہیں۔ کیا یہ بری چیزیں ہیں؟ یہ تو مسلمان عورت کے وقار کی ضمانت ہے، یہ عورت کے عز و شرف کی بات ہے۔ جو لوگ عورت کو اس انداز کے میک اپ کی ترغیب دلاتے ہیں کہ گلی کوچے کے لوگ اسے ہوسناک نظروں سے دیکھیں، انہیں اپنے اس نظرئے کا دفاع کرنا چاہئے کہ انہوں نے عورت کو اتنا کیوں گرا دیا ہے اور اس کی اس انداز سے تذلیل کیوں کر رہے ہیں؟! ان کو اس کا جواب دینا چاہئے۔ ہماری ثقافت تو ایسی ثقافت ہے جسے مغرب کے بھی با شعور افراد اور اچھے انسان پسند کرتے ہیں اور اسی انداز سے زندگی گزارتے ہیں۔ وہاں بھی باعفت و پاکیزہ صفت خواتین اور وہ عورتیں جو اپنی شخصیت کو اہمیت دیتی ہیں کبھی بھی غیروں کی ہوسناک نگاہوں کی تسکین کا ذریعہ بننا پسند نہیں کرتیں۔
مغربی ثقافت کٹہرے میں
عورت کے مسئلے میں مغربی ثقافت کا سختی سے مقابلہ کرنا چاہئے۔ یہ ایک واجب عمل کا درجہ رکھتا ہے۔ مغرب عورتوں کی توہین و تذلیل کر رہا ہے۔ عورت کو اس کے مقام و مرتبے سے نیچے گرا رہا ہے۔ ان کی یہ بات سراسر جھوٹ ہے کہ " ہم تو دونوں صنفوں کو مساوی اور برابر سمجھتے ہیں" ہرگز ایسا نہیں ہے۔ یہ ایک طرح کا فریب اور سیاسی و ثقافتی حربہ ہے۔ اس طرز عمل کے ذریعے عورت کے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا ہے، خیانت کی جا رہی ہے۔ اسلام کا کہنا ہے کہ عورت مناسب لباس اور حجاب کے ذریعے اپنے وقار اور اپنے عز و شرف کی حفاظت کرتی ہے، خود کو اس (گھٹیہ اور پست) منزل سے بلند تر کرتی ہے جہاں دنیا کے بے راہرو مرد اسے پہنچانا چاہتے ہیں، یہ بے راہرو مرد ہر زمانے اور ہر علاقے میں پائے جاتے رہے ہیں۔ قرآن میں عورتوں سے کہا گيا ہے کہ " فلا تخضعن بالقول" خضوع نہ کرو۔ خضوع کرنے کا مسئلہ ہے۔ مرد کے سلسلے میں عورت کا انداز خاضعانہ اور خاکسارانہ نہیں ہونا چاہئے۔ مرد اور عورت کے اندر فطری اور قدرتی امور جو ہیں وہ اپنی جگہ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مرد کے مقابلے میں عورت کی خاکساری اور حقارت آج مغرب میں باقاعدہ دیکھی جا سکتی ہے۔ عورت کو پست اور حقیر بنانا دینا چاہتے ہیں۔ ویسے وہ یہ کام کر چکے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ اب اسے حقارت میں مبتلا کرنے جا رہے ہیں۔ اس خاص روش کے تحت آمد و رفت میں عورت کو مرد کے آگے کر دیا جاتا ہے اور یہ اصرار ہوتا ہے کہ خاتون، مرد سے آگے چلے لیکن یہ تو ظاہری صورت ہے، حقیقت اور باطن اس کے بالکل بر عکس ہے۔ بڑی حیرت ناک بات ہے کہ عورتوں کے سلسلے میں اپنے ان بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود ان تمام ریاکارانہ اور جھوٹے تکلفات کے باوجود، جو عزت افزائی اور توقیر کے نام پر انجام پاتے ہیں جو در حقیقت توہین آمیز حرکتیں ہوتی ہیں، گھروں کے اندر شوہر اور بیوی کے تعلقات اور روابط کا وہ عالم ہے کہ خدا کی پناہ! یہ باتیں سن کر اور اس حقیقت سے آگاہ ہوکر انسان ایران کے قدیم رجعت پسند خاندانوں کے زن و شوہر کے روابط کو یاد کرنے لگتا ہے۔ عورت کی پٹائی، مار مار کر اس کے جسم کو سیاہ کر دینا، کسی معمولی سی بات پر عورت کو قتل کر ڈالنا، یہ سب مغرب میں معمول کی باتیں بن چکی ہیں۔
دوسرا باب: مغربی ثقافت میں عورت کا مقام
عورت اور مغربی فن و ادب:
عورت کے مزاج سے آشنائی اور اس صنف نازک سے برتاؤ کی نوعیت کے سلسلے میں مغرب والے ہمیشہ افراط و تفریط سے کام لیتے آئے ہیں۔ بنیادی طور پر عورت کے سلسلے میں مغرب کا نقطہ نگاہ عدم مساوات اور عدم توازن پر مبنی نقطہ نگاہ ہے۔ مغرب والے جو نعرے بازی کرتے ہیں اور جو بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں وہ کھوکھلے ہیں، حقیقت کے عکاس نہیں ہیں۔ مغرب کی سرزمین پر عورت کے سلسلے میں وہ نظریہ اور ایسی فکر پائی جاتی ہے کہ جس کا سرچشمہ اور جس کی جائے پیدائش وہی یورپ ہے۔ اگر کہیں اور یہ فکر پہنچی ہے تو یورپ ہی سے پہنچی ہے۔ ان نعروں کے آئينے میں تو مغربی ثقافت کا ادراک نہیں کیا جا سکتا۔ مغربی ثقافت سے آشنائی اور واقفیت چاہئے تو مغربی ادب میں اسے تلاش کیجئے۔ جو لوگ یورپی ادب، یورپی اشعار، یورپی ناولوں، افسانوں اور ڈراموں سے واقف اور آگاہ ہیں، وہ بخوبی جانتے اور محسوس کرتے ہیں کہ مغربی ثقافت میں قرون وسطی سے لے کر بعد کے ادوار تک اور حتی بیسویں صدی کے وسط تک عورت دوسرے درجے کی مخلوق سمجھی جاتی رہی ہے۔ اس کے بر خلاف وہ جو بھی دعوے کرتے ہیں سراسر جھوٹ ہے۔ شیکسپیئر کے معروف انگریزی ڈراموں میں اور دیگر مغربی ادبی تخلیقات میں عورت کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اس کے لئے کس زبان کا استعمال کیا جاتا ہے؟! مغربی ادب میں مرد، عورت کا مالک، آقا اور حاکم ہے۔ اس ثقافت اور اس فکر کے کچھ اثرات آج بھی باقی ہیں۔ اہل یورپ نے عورت پر معاشی امور، صنعتی سرگرمیوں اور اس جیسے دیگر شعبوں میں ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا ہی، ادب میں بھی انہوں نے عورت پر ظلم کیا ہے۔ ناولوں میں، افسانوں اور داستانوں میں، مصوری کے نمونوں میں اور دیگر فنکارانہ تخلیقات میں دیکھنا چاہئے کہ عورت کو کس نظر سے پیش کیا گیا ہے؟ کیا عورت سے متعلق اعلی اقدار اور مثبت و تعمیری پہلوؤں کو قابل اعتناء سمجھا گیا ہے؟ کیا وہ لطیف جذبات اور وہ مہر و الفت سے معمور مزاج جو اللہ تعالی نے عورت کو ودیعت کیا ہے، وہ مامتا، وہ بچوں کی تربیت ، پرورش اور نگہداشت کا جذبہ، توجہ کا مرکز بنا ہے یا شہوانی پہلو جسے وہ عشق کا نام دیتے ہیں؟ در حقیقت یہ لفظ کا غلط استعمال ہے، یہ عشق نہیں شہوت پرستی ہے۔ عورت کو یہ ترغیب دینے اور ان عادتوں میں مبتلا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک صارف مخلوق بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ دست و دل باز صارف اور سستی اور کم اجرت پر دستیاب مزدور۔ مغربی داستانوں اور یورپی اشعار میں آپ کو بہت ملے گا کہ شوہر مزاج اور عادت کے اختلاف کی بنیاد پر اپنی بیوی کو قتل کر دیتا ہے اور کوئی اسے روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے! بیٹی کو اپنے باپ کے گھر میں کسی بھی انتخاب کا حق نہیں دیا گيا ہے۔ ان کے ڈراموں میں جو چیز نظر آتی ہے وہ یہی ہے۔ کوئی لڑکی ہے جس کی جبرا شادی کروائی جا رہی ہے۔ کوئی عورت ہے جسے اس کے شوہر نے قتل کر دیا ہے۔ کوئی خاندان ہے جس میں عورت پر شدید مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ جو چیزیں نظر آتی ہیں وہ اسی طرح کی اور اسی انداز کی ہیں۔ یہ مغربی ادب ہے۔ بیسویں صدی کے وسط تک یہی ماحول تھا، اگرچہ انیسویں صدی کے اواخر سے عورتوں کی آزادی کے نام سے کچھ تحریکیں بھی شروع ہو چکی تھیں۔
تہذیب سے پرے
رومی ثقافت میں اور چیزوں کے سلسلے میں نرمی برتی جاتی ہے لیکن دو تین چیزوں میں کوئی نرمی نہیں ہے۔ ان میں سے ایک جو شاید سب سے اہم بھی ہے، مرد اور عورت کے بیچ معینہ حد بندی کا ہونا ہے(اس کی ان کے ہاں ہرگز اجازت نہیں ہے)۔ یعنی نام نہاد جنسی آزادی کے مقابلے میں ضبط نفس (انہیں ناپسند ہے)۔ اس مسئلے میں یہ ثقافت بہت سخت گیر واقع ہے۔ دوسری باتوں پر وہ اتنے حساس نہیں ہیں۔ ان لوگوں کے خیال میں رجعت پسند وہ ہے جو اسی ( حد بندی یا حجاب) کو بنیاد بنا لے۔ اگر کسی ملک میں عورتیں خاص حدود کی پابندی کرتے ہوئے مردوں سے ایک دوری بنائے رہتی ہیں تو اسے خلاف تہذیب کہا جاتا ہے! ان کی بات بھی صحیح ہے کیونکہ ان کی تہذیب کا ڈھانچہ اسی رومی تہذیب کے ویرانے پر کھڑا کیا گيا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ لیکن اقدار کی رو سے دیکھا جائے تو یہ غلط ہے۔ اس کا بر عکس رخ درست ہے۔
مغربی معاشروں میں عورت کی مظلومی:
مغرب کے (نام نہاد) مہذب معاشرے میں عورت، مردوں کی تسکین ہوس کا سامان ہے، ایک آزاد شخصیت کی مالک نہیں جو دوسروں کی منشاء کی پابند رہے بغیر اپنی مرضی کے مطابق اپنا کام کر سکے۔ ایک ایسی مخلوق ہے جسے اپنا رہن سہن ایسا رکھنا ہے کہ گلی کوچے کے مردوں کے من کو بھائے انہیں دیدہ زیب لگے، وہ اپنی رفتار و گفتار اور عادات و اطوار میں غیر اور اجنبی مردوں کی پست حرکتوں کو تحمل کرے۔ سماجی حلقوں میں عورت کی حالت یہ ہے۔ البتہ کچھ استثنائات بھی ہیں لیکن مجموعی طور پر حالات یہی ہیں۔ عورت کو کسی قسم کی عزت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ جہاں کسی مزدور سے کام لینے کا معاملہ آتا ہے ان کی نظر میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں رہ جاتا، مالک کے مفاد کے مطابق عورت سے جم کر محنت کروائی جاتی ہے۔ یعنی روزمرہ کے سخت کوشی کے کاموں میں صنف نازک سے تعلق رکھنے کے باعث عورت کا جو لحاظ کیا جانا چاہئے وہ ہرگز نہیں کیا جاتا، لیکن جب مرد، عورت کو اپنی ہوس کی تسکین کے سامان کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے مرد کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، اس کے پاس وسائل ہیں اور عورت کے پاس اپنے دفاع کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
فیشن، انحراف اور لغزش کی تمہید:
میرے خیال میں فیشن، مردوں کے سامنے حد سے زیادہ سجنا سنورنا اور نئے نئے روپ میں آنے کی خواہش معاشرے کے بہکنے اور عورت کے بھٹکنے کی ایک بہت بڑی وجہ اور سبب ہے۔ مغرب والے عورت کو ایک ایسی مخلوق میں تبدیل کر دینے کے لئے جو ان کی مرضی اور خواہش کے مطابق ہو، تواتر کے ساتھ نئے نئے فیشن ایجاد کرنے پر مجبور ہیں تاکہ ان (عورتوں) کے دلوں، ذہنوں اور آنکھوں کو انہی ظاہری اور سطحی چیزوں میں مصروف رکھیں۔ جو کوئی بھی ان چیزوں میں کھو گیا وہ کہاں اور کب اعلی اور حقیقی اقدار کو سمجھ سکتا ہے؟ اسے ان (اقدار) تک رسائی کی فرصت ہی نہیں ملے گی۔ جس عورت کا سارا ہم و غم اور فکر یہی ہے کہ جیسے بھی ہو خود کو مردوں کے لئے پر کشش بنائے، اسے کب اس کا موقع مل سکتا ہے کہ اخلاقی پاکیزگی کے بارے میں سوچے اور غور کرے؟ یورپی سامراجیوں کو ہرگز گوارا نہیں ہے کہ تیسری دنیا کے سماجوں میں عورتیں روشن خیال اور بلند اہداف والی ہوں، جو خود تو بلند اہداف کی سمت گامزن ہوں ہی، اپنے شوہر اور بچوں کو بھی اپنے ساتھ آگے بڑھائیں۔ اسلامی معاشرے کی نوجوان لڑکیاں بہت ہوشیار اور محتاط رہیں تاکہ مغربی فکر اور مغربی ثقافت کے اس بے حد خطرناک اور غیر مرئی جال کو دیکھ لیں، پہچان لیں، اس سے خود کو محفوظ رکھیں اور عورتوں کو اس سے دور رکھیں۔
مغربی ثقافت میں عورتوں کی آزادی کی حقیقت
مغرب میں جو سب سے بڑے دعوے ہیں ان میں سب سے پہلے نمبر پر عورتوں کی آزادی کا نعرہ ہے۔ لفظ آزادی کے معنی بہت وسیع ہیں۔ اس کا اطلاق قید سے رہائی پر بھی ہوتا ہے اور اخلاقیات سے خود کو الگ کر لینے پر بھی ہوتا ہے، کیونکہ اخلاقیات بھی ایک طرح کی حدبندی اور پابندی ہے، اس کا اطلاق اس دباؤ سے چھٹکارے پر بھی ہوتا ہے جو سرمایہ دار کی طرف سے استحصال سے عبارت ہوتا ہے اور وہ کم اجرت پر عورت سے کام لیتا ہے، اس کا اطلاق ان قوانین اور ضوابط سے آزادی پر بھی ہوتا ہے جو شوہر کے تعلق سے بیوی پر کچھ فرائض اور ذمہ داریاں عائد کر دیتے ہیں۔ آزادی کی یہ تمام قسمیں تصور کی جا سکتی ہیں۔ عورت کے سلسلے میں جو یہ نعرے ہیں ان میں بہت سے مطالبات ایسے ہیں جو ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ اس آزادی کا کیا مطلب ہوا؟
بد قسمتی سے مغربی دنیا میں آزادی سے جس چیز کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے وہ آزادی کا وہی غلط اور ضرر رساں مفہوم ہے۔ یعنی خاندانی حدود و قیود سے آزادی، مرد کے ہر طرح کے اختیار سے مکمل آزادی، حتی شادی، خاندان کی تشکیل اور بچوں کی پرورش کی ذمہ داری سے بھی آزادی، ان جگہوں پر جہاں عارضی شہوانی ہدف ان چيزوں سے ٹکرانے لگے۔ مغرب میں جو مسئلہ بڑے شد و مد سے اٹھایا جاتا ہے اس میں حمل ساقط کرنے کی آزادی کا مسئلہ بھی شامل ہے، یہ بڑا ہی سنگین مسئلہ ہے۔ یہ بظاہر تو معمولی اور چھوٹی بات ہے لیکن فی الواقع یہ بے حد خطرناک اور ہولناک مضمرات والی بات ہے۔ یہ وہ نعرہ اور مطالبہ ہے کہ مغرب میں جو بہت عام ہے، چنانچہ اسے عورتوں کی آزادی کی تحریک کا نام دیا جاتا ہے۔ سراپا جہالت سامراجی و استکباری نظام کی یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ وہ اس خام خیالی میں ہے کہ عورت کی قدر و قیمت کا دار و مدار مردوں کے لئے سجنے سنورنے اور پر کشش لگنے میں ہے کہ گندی نگاہیں اسے دیکھیں، محظوظ ہوں اور اس کی تعریف کریں۔ دنیا میں مغرب کی جانب سے عورت کی آزادی کی جو بساط بچھائی گئی ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ عورت کو مردوں کی نطروں کے سامنے لایا جائے تاکہ ان کی ہوس اور شہوت پرستی کے جذبے کو تسکین ملے۔ مرد ان سے لذت حاصل کریں اور عورتیں مردوں کی لذت کا سامان فراہم کریں۔ یہ عورت کی آزادی ہے؟ مغرب کی جاہل و غافل و گمراہ ثقافت میں جو لوگ انسانی حقوق کے دفاع کے دعوے کرتے ہیں وہ در حقیقت عورت کے حق میں سب سے بڑے ظالم ہیں۔
مغرب میں عورت کے حقوق کے دفاع کی تحریک:
عورت کے حق میں ظلم و جور اور ستم و زیادتی کے اس ماحول میں جب عورتوں کے دفاع کے لئے کوئی تحریک معرض وجود میں آئے گی تو فطری طور پر وہ افراط و تفریط کا شکار ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کئی عشروں کے دوران عورتوں کی آزادی کے نام پر وہ فحاشی اور بے راہروی پھیلی ہے کہ خود مغربی مفکرین وحشت زدہ ہو گئے ہیں! آج مغربی ممالک میں ہمدرد، خردمند، مصلح اور با ضمیر افراد موجودہ صورت حال پر فکرمند اور تشویش میں مبتلا ہیں لیکن وہ اس پر قابو بھی نہیں پا سکتے۔ چلے تھے عورت کی خدمت اور مدد کرنے لیکن اس کی زندگی پر بہت بڑی ضرب لگا بیٹھے ہیں۔ بے راہروی، فحاشی و جنسی آزادی اور بغیر شادی بیاہ کئے مرد اور عورت کی ایک ساتھ وقت گزاری سے خاندانوں اور کنبوں کی بنیادیں تباہ ہو گئیں۔ جو مرد معاشرے میں آزادانہ اپنی ہوس کی بھوک مٹا سکتا ہے اور جو عورت معاشرے میں بغیر کسی روک ٹوک کے متعدد مردوں سے جسمانی تعلقات قائم کر سکتی ہے وہ گھر میں کبھی بھی اچھا شوہر یا اچھی بیوی نہیں بن سکتے۔ اس طرح خاندان اور کنبے کا ڈھانچہ تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔
در حقیقت مغرب میں عورتوں کے حقوق کے دفاع کی تحریک، ایک طرح کی سراسیمگی اور نامعقولیت سے دوچار تحریک، جہالت پر مبنی تحریک، الہی روایات سے خالی تحریک اور مرد اور عورت کے مزاج اور فطرت سے غیر ہم آہنگ تحریک بن گئی تھی جس نے ہر کسی کو شدید نقصان پہنچایا۔ عورتوں کے لئے زیاں بار ثابت ہوئی اور مردوں کے لئے ضرر رساں بنی، زیادہ نقصان عورتوں کو پہنچا۔ اس کی تقلید اور پیروی ہرگز نہیں کی جا سکتی۔ یہ کوئی ایسی تحریک نہیں جسے کسی اسلامی ملک میں زیر غور لایا جائے اور اس سے کچھ سیکھنے اور حاصل کرنے کی کوشش کی جائے، اسے پوری طرح مسترد کر دینے کی ضرورت ہے۔
عورتوں پر گھروں کے اندر مظالم
آج بھی جب کوئی عورت کسی مرد سے شادی کرکے دلہن کے طور پر شوہر کے گھر جاتی ہے تو اس کا فیملی نیم تک تبدیل ہو جاتا ہے اور شوہر کا فیملی نیم اسے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ عورت کا فیملی نیم اسی وقت تک محفوظ رہتا ہے جب تک اس نے شادی نہیں کی ہے، ادھر اس نے شادی کی اور ادھر اس کا اپنا فیملی نیم اس سے رخصت ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ شوہر کا فیملی نیم لے لیتا ہے۔ یہ مغربی طریقہ ہے۔ ایران میں ایسا کبھی نہیں تھا، آج بھی نہیں ہے۔ یورپی سماج میں جب عورت شادی کرکے اپنے تمام سرمائے اور اثاثے کے ساتھ شوہر کے گھر جاتی تھی اس کا جسم ہی شوہر کے اختیار میں نہیں جاتا تھا بلکہ اس کی تمام دولت اور اس کا سارا اثاثہ جو اسے اس کے والد اور گھر والوں سے ملا تھا شوہر کی ملکیت میں چلا جاتا تھا! یہ ایسی اٹل حقیقت ہے جس کا مغرب والے انکار نہیں کر سکتے۔ یہ چیز مغربی تہذیت میں تھی۔ مغربی تہذیب میں جب کوئی عورت شوہر کے گھر رخصت ہوکر جاتی تھی تو شوہر اس کی زندگی کا مالک ہو جاتا تھا! یہی وجہ ہے کہ مغربی اشعار اور افسانوں میں یہ چیز آپ کو جگہ جگہ نظر آئے گی کہ شوہر عادت اور مزاج کے معمولی سے اختلاف کی بنا پر بیوی کو قتل کر دیتا ہے اور کوئی اسے ملامت تک نہیں کرتا! لڑکی کو باپ کے گھر میں کسی طرح کا حق انتخاب اور اختیار نہیں تھا۔ اس زمانے میں بھی مغرب والوں کے درمیان عورت اور مرد کے تعلقات کے لئے کسی حد تک آزادی تھی لیکن شادی کا اختیار اور شوہر کے انتخاب کا حق پوری طرح باپ کو حاصل تھا۔
مغربی خاندانوں میں حتی اس عورت پر بھی، جو شوہر کی طرح ملازمت پیشہ ہے اور دونوں ہی ایک محدود اور معینہ وقت ہی گھر میں گزارتے ہیں، ظلم ہوتا ہے! کیونکر ظلم کیا جاتا ہے؟ صرف اس لئے کہ ان دونوں میں ایک مرد ہے اور دوسری عورت ہے۔ دو افراد ہیں، ملازمت کرتے ہیں، رات کو گھر آتے ہیں اور سو جاتے ہیں، صبح اٹھتے ہیں اور روانہ ہو جاتے ہیں۔ دونوں مرد نہیں ہیں، ایک مرد ہے اور دوسری عورت ہے۔ مرد اور عورت دونوں کو کچھ چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مرد کے ساتھ بھی زیادتی ہوتی ہے لیکن جو ظلم کا یقینی طور پر نشانہ بنتی ہے وہ عورت ہے۔ کیونکہ اس عورت کا جو شوہر ہے اس کے دوسری کئی عورتوں سے جذباتی اور جنسی تعلقات ہیں۔ بڑے گہرے، دوستانہ اور بے تکلفانہ تعلقات ہیں، اتنے ہی گہرے تعلقات جتنے اپنے کنبے کے افراد سے ہیں۔ عورت کے لئے یہ کسی گہرے زخم کی مانند ہے۔ عورت چاہتی ہے کہ اپنے شوہر کے ساتھ گہرے جذباتی تعلقات اور روابط رکھے اور دونوں پوری دنیا میں ایک دوسرے کے لئے سب سے زیادہ قریبی اور نزدیک ہوں۔ گھر میں عورت سے سب سے پہلے جو چیز لے لی جاتی ہے وہ یہی حق ہے۔
عزت افزائی یا توہین
کبھی کبھی دیکھنے میں آتا ہے کہ مغربی سماجوں میں کسی مخصوص انداز سے عورت کا احترام کیا جا رہا ہے۔ جیسے فلمی ستاروں، اداکاروں، مقابلہ حسن میں شریک پرکشش عورتوں کا احترام کیا جاتا ہے، یہ احترام بھی ویسا ہی ہوتا ہے۔ یعنی احترام کی جگہ توہین، یعنی احترام کے روپ میں تذلیل۔ انسان کی نجی اور شخصی زندگی میں اس کی بہت مثالیں ملتی ہیں اور ہر کوئی اسے دیکھ اور سمجھ سکتا ہے کہ احترام کی شکل میں توہین اور توہین کی شکل میں احترام کسے کہتے ہیں؟ احترام کے نام پر توہین، بڑی تشویشناک بات ہے۔ مرد اور عورت کے آزادانہ تعلقات کی لپیٹ میں اگر عورت آ گئی تو وہی حالت ہو جائے گی جو استبدادی شاہی دور میں تھی۔ یعنی پھر اس کے قدم عریانیت کی جانب، فیشن کے جنون کی جانب، گوناگوں انداز سے جسم کی نمائش کی جانب بڑھیں گے۔ ایک مناسب حد تک میک اپ اور فیشن کی بات تو سمجھ میں آتی ہے اور اسلام نے بھی اس کی مناہی نہیں کی ہے لیکن جب یہ سلسلہ معمول کی حدود سے تجاوز کر جائے، مقابلہ آرائی شروع ہو جائے، ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ دینے کی دوڑ شروع ہو جائے اور عورت کی شخصیت کا دار و مدار یہی بناؤ سنگار ہی ہو جائے تو یہ غلط بات اور انحرافی بات ہوگی۔ یہ عورتوں کے سلسلے میں اسلامی انقلاب کے معینہ ہدف اور سمت کے بالکل برخلاف ہے۔
مسلمان عورت کے طور طریقے کی مخالفت
ان (مغرب والوں) کو مسلمان عورتوں کی کس چیز پر سب سے زیادہ اعتراض ہے؟ اس کے حجاب پر۔ وہ مسلمان عورت کے صحیح اور مناسب حجاب کے سب سے بڑے دشمن ہیں، کیوں؟ کیونکہ ان کی ثقافت میں اس کی گنجائش نہیں اور ان کا رہن سہن کا طریقہ اسے قبول نہیں کرتا۔ یورپیوں کی فطرت ایسی ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ جو بات ہمیں مناسب لگتی ہے پوری دنیا کو چاہئے اس کی تقلید کرے اور اس پر عمل پیرا رہے۔ ان کو اس میں بھی کوئی تامل نہیں ہوگا کہ اپنی جہالت کو دنیا کے علم و معرفت پر مسلط کر دیں۔ ان کی کوشش ہے کہ معاشرے میں یورپی وضع قطع کی ہی عورت نظر آئے۔ یعنی فیشن کی دلدادہ ہو، پوری طرح صارف ہو، تمام مردوں کی آنکھوں کو پر کشش لگے اور دونوں صنفوں کے درمیان جنسی مسائل بالکل معمول کی چیز بن جائیں اور اس کے لئے عورتوں کو استعمال کیا جائے۔ مغرب والوں کی اس پالیسی اور حکمت عملی کی جہاں بھی مخالفت ہوتی ہے مغرب والے چراغ پا ہو جاتے ہیں۔ ان میں صبر و تحمل بھی نہیں ہے۔ مغرب کے یہ بڑے بڑے دعوے دار اپنے مسلمہ اصولوں کی ذرہ برابر بھی مخالفت برداشت نہیں کر پاتے۔
وہ دنیا کے تمام علاقوں کو متاثر کرنے میں کامیاب رہے ہیں سوائے حقیقی اسلامی معاشروں کے۔ افریقا کے غربت سے دوچار علاقوں میں، لاطینی امریکا اور مشرقی ایشیا میں جہاں جہاں بھی قومیں آباد ہیں، وہ اپنے نقطہ نگاہ اور اپنی پسند کو یعنی وہی میک اپ، وہی صارف کلچر، وہی عورت کا کھلونا بن جانا، ان چیزوں کو وہ رائج کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کا تیر صرف وہاں خطا گیا ہے جہاں اسلامی ماحول ہے۔ اس کی ایک مثال اسلامی جمہوریہ ایران کا عظیم معاشرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی زبردست مخالفت کی جا رہی ہے۔
اسلامی اور یورپی ثقافتوں میں عورتوں کے مالکانہ حقوق
ساٹھ ستر سال قبل تک پورے یورپ میں اور مغربی ممالک میں عورت کا وجود کسی مرد کے زیر تسلط ہی ممکن تھا۔ یا اپنے شوہر کے زیر تسلط یا کارخانے اور کھیت کے مالک کے زیر تسلط ۔ عورت کو ایسا کوئی حق حاصل نہیں تھا جو ایک مہذب معاشرے میں عورتوں کو حاصل ہوتا ہے۔ اسے حق انتخاب، مالکانہ حقوق اور داد و ستد کا اختیار نہیں تھا۔ بعد میں عورت کو تجارتی میدان اور سماجی امور میں شامل کیا گیا۔ یورپ میں جو عورت کو مالکانہ حقوق دینے کا فیصلہ کیا گيا، خود یورپی ماہرین عمرانیات کی باریک بینی پر مبنی تجزیوں کے مطابق، اس کی وجہ یہ تھی کہ کارخانوں نے نئی نئی صنعت اور ٹکنالوجی کی بساط بچھائی تھی اور ان کو محنت کش مزدوروں اور کام کرنے والوں کی ضرورت تھی لیکن مزدوروں کی قلت تھی۔ مزدوروں کی قلت سے انہیں بڑی تکلیف ہو رہی تھی۔ انہوں نے عورتوں کو کارخانوں میں لانے اور اس افرادی قوت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا، ویسے عورتوں کو مزدوری بھی کم ہی دی جاتی تھی، ان لوگوں نے اعلان کیا کہ عورت کو بھی مالکانہ حقوق حاصل ہیں۔ بیسویں صدی کے اوائل میں یورپ والوں نے عورت کو مالکانہ حقوق دئے لیکن ساتھ ہی انہوں نے عورت کی لغزش کا سارا سامان بھی فراہم کر دیا۔ انہوں نے عورت کو معاشرتی بہاؤ میں لاکر بے سہارا چھوڑ دیا۔ یہ عورت کے سلسلے میں مغرب اور یورپ میں پایا جانے والا ظالمانہ اور غلط طرز فکر اور طرز عمل ہے۔
اسلام میں ایسا نہیں ہے۔ اسلام میں عورت اپنی ثروت اور اثاثے کی خود مالک ہے۔ خواہ شوہر کو یہ بات پسند آئے یا نہ آئے، باپ کو یہ چیز اچھی لگے یا اچھی نہ لگے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ اپنا سرمایہ، اپنا سامان اور اپنی وہ دولت جو اس نے جمع کی ہے، آزادانہ خرچ کر سکتی ہے، اس سے کسی کو بازپرس کا حق نہیں ہے۔ عورتوں کے معاشی حقوق کی حمایت کے لحاظ سے دنیا، اسلام سے تیرہ سو سال پیچھے ہے۔ اسلام نے یہ کام تیرہ سو سال قبل ہی کر دیا۔
تیسرا باب: اسلامی جمہوریہ ایران میں عورت کا کردار
ایران کی عصری تاریخ میں عورتوں کا کردار
ایران میں موجودہ دور میں اور بہت سے انتہائی اہم واقعات میں عورتوں کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔ اگر گزشتہ ڈیڑھ سو سال کی تاریخ پر جو بڑی سبق آموز ہے، نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ کئی شعبوں اور میدانوں میں عورتوں کی شراکت اور ان کا کردار بہت اہم، نمایاں، موثر اور فیصلہ کن ثابت ہوا ہے۔ منجملہ خواتین کا وہ کردار ہے جو انہوں نے مرزا شیرازی مرحوم کی قیادت میں سامراج مخالف تحریک میں ادا کیا۔ اسی شہر تہران میں عورتوں کے مظاہرے حکمراں نظام کو لرزہ بر اندام کر دینے والے مظاہرے تھے۔ معلوم ہوا کہ اسلامی انقلاب سے قبل بھی اسلامی جذبے کے ساتھ مسلمان خواتین کی نمایاں کارکردگی کی ایک تاریخ موجود ہے۔
پہلوی سلطنت میں خواتین کی صورت حال
قابل مذمت بے ضمیر شہنشاہی نظام والے معاشرے میں عورت ہر لحاظ سے واقعی بے حد مظلوم واقع ہوئی تھی۔ اگر عورت علمی میدان میں قدم رکھنا چاہتی تو اسے تقوا و دینداری اور عفت و پرہیزگاری سے خود کو الگ کر لینا پڑتا تھا۔ یونیورسٹیوں میں، تعلیمی اداروں اور علمی و ثقافتی مراکز میں ایک مسلمان عورت کے لئے ممکن نہیں تھا کہ اپنے حجاب، اپنے وقار اور اپنی متانت کو باقی رکھ سکے۔ یہ کہاں ممکن تھا کہ مسلمان خاتون تہران اور بعض دیگر شہروں کی سڑکوں پر مسلمان خاتون اسلامی متانت و وقار کے ساتھ یا حتی آدھے ادھورے حجاب کے ساتھ آسانی سے گزر جائے اور وہ مغربی فحاشی و فساد کے دلدادہ افراد کے رکیک جملوں سے محفوظ رہے؟ نوبت یہ آ گئی تھی کہ اس ملک میں عورتوں کے لئے حصول علم تقریبا نا ممکن ہو گیا تھا۔ البتہ اس میں کچھ استثنا بھی ہے لیکن اکثر و بیشتر عورتوں کے لئے علمی میدان میں وارد ہونا ممکن نہیں ہو پاتا تھا۔ اس کا ایک ہی راستہ تھا کہ وہ حجاب ترک کر دیں اور تقوی و اسلامی وقار سے خود کو الگ کر لیں۔ سیاسی میدان اور سماجی سرگرمیوں کے سلسلے میں بھی یہی صورت حال تھی۔ اگر کوئی عورت ایران میں شاہی حکومت کے دور میں کوئی سیاسی یا سماجی عہدہ حاصل کرنا چاہتی تھی تو اسے حجاب، اسلامی وقار اور عفت و پاکدامنی کو فراموش کر دینا ہوتا تھا۔ البتہ اس کا اس پر بھی انحصار تھا کہ اس عورت کی صلاحیت اور اس کی اپنی حقیقت کیا ہے۔ اگر اس میں مضبوطی اور استحکام نہیں ہے تو وہ پوری طرح گہرائیوں میں گرتی چلی جاتی تھی لیکن اگر اس میں استحکام ہوتا تو خود کی کسی حد تک محفوظ رکھتی تھی لیکن سماجی ماحول کا اس پر ہمیشہ دباؤ رہتا تھا۔
سابقہ شاہی دور حکومت میں عورتوں کی بڑی تعداد ناخواندہ تھی اور انہیں سماجی مسائل کی کوئی شد بد نہ تھی یعنی انہیں کسی چیز کے ادراک کا موقع ہی نہیں دیا جاتا تھا، وہ ملک کے مستقبل اور تقدیر سے لا تعلق تھیں انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ عورتیں ملک کی تقدیر کے فیصلے میں شراکت کا حق رکھتی ہیں۔ یہ حالت تھی لیکن ظاہری روپ کے لحاظ سے وہ یورپی عورتوں کے جیسی تھیں بلکہ شائد مغربی اور یورپی عورتوں سے بھی دو ہاتھ آگے تھیں۔ انہیں دیکھنے والا یہی سمجھتا کہ یہ عورت کسی یورپی ملک سے اور مغربی ماحول سے نکل کر ایران آئی ہے لیکن اگر اس سے دو جملے گفتگو کرتا تو معلوم ہوتا کہ یہ تو بالکل کورہ کاغذ یا انتہائی سطحی معلومات والی عورت ہے! عورت کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ جسم کی نمائش کرے اور دوسروں کی نگاہوں کا مرکز بنے اور اسی کو اپنی شخصیت کا معیار سمجھے۔ جبکہ یہ تو عورت کے لئے انحطاط کا عمل تھا پیشرفت کا عمل نہیں۔ کیا عورت کے ساتھ اس سے بڑی بھی کوئی زیادتی ہو سکتی ہے کہ فیشن، میک اپ، جسم کی نمائش، لباس، سونے چاندی اور گہنوں کا اس پر ملمع چڑھا دیں اور پھر اسے گوناگوں مقاصد کی تکمیل کے سامان اور حربے کے طور پر استعمال کریں۔ اسے سیاست، اخلاقیات اور تربیت کے میدان میں قدم رکھنے کا موقع نہ دیں؟ پہلوی سلطنتی دور میں یہ کام پوری منصوبہ بندی کے تحت کیا گيا۔
ایران کے اسلامی انقلاب میں خواتین کا کردار
ایران کے اسلامی انقلاب نے عورتوں کے سلسلے میں تمام غلط نظریات اور طرز فکر پر خط بطلان کھینچ دیا اور عورتوں نے اسلامی انقلاب کے ہراول دستے کی سپاہیوں کا رول ادا کیا۔ اگر عورتوں نے انقلاب سے تعاون نہ کیا ہوتا، اس انقلاب کو قبول نہ کیا ہوتا اور اس پر ان کا یقین نہ ہوتا تو یہ طے ہے کہ انقلاب کبھی کامیاب نہ ہو پاتا۔ اگر وہ نہ ہوتیں تو انقلابیوں کی آدھی تعداد تو براہ راست میدان سے یونہی مفقود ہو جاتی اور اس کے علاوہ (ان عورتوں کی میدان میں عدم موجودگی کا اثر یہ بھی ہوتا کہ) چونکہ خاتون گھر کے اندر کے ماحول پر گہرا اثر رکھتی ہے اس لئے بچے، شوہر اور بھائی پر بھی اس کا اثر پڑتا۔ تو یہ ان کا تعاون اور ان کی شراکت ہی تھی جس نے دشمن کی بنیادیں ہلا دیں اور تحریک کو حقیقی معنی میں آگے بڑھایا۔ مرد خواہ وہ شوہر ہو یا بیٹے عورتوں بشمول ماؤں اور ازواج کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ یہ ایک فطری بات ہے۔ ایک غیر تعلیم یافتہ ماں کا جس کے پاس کوئی معلومات اور کوئی تجربہ بھی نہیں ہے ایسا اثر اور نفوذ ہوتا ہے جو شاگرد پر استاد اور ماتحتوں پر افسر کے اثر سے الگ ہوتا ہے۔ بچوں پر ماں کا بالکل منفرد اثر ہوتا ہے جو ماں کے بڑھاپے تک اسی طرح برقرار رہتا ہے۔ یعنی ماں جب اپنے مخصوص اثر و نفوذ کو استعمال کرنے کا ارادہ کرتی ہے تو وہ اس میں کامیاب رہتی ہے۔ البتہ شائد کچھ مائیں ایسی بھی نکل آئیں جن میں جوش و ولولہ کی کمی اور استحکام کا فقدان ہو اور وہ اپنے اس اثر و نفوذ کو استعمال ہی نہ کریں۔ عموما یہی ہوتا ہے کہ بچوں پر ماؤں کا خاص اثر ہوتا ہے۔ ان کی باتیں، ان کا محبت آمیز انداز اور اسی مادرانہ شفقت کے ساتھ جو باتیں وہ کہتی ہیں وہ مخاطب فرد کے ذہن و دل میں اترتی چلی جاتی ہیں۔ جب ایران کی اسلامی تحریک، اسلامی انقلاب کے مرحلے پر پہنچ گئی اور عورتیں اسلام کے سلسلے میں اسی نظرئے کے ساتھ جو عورتوں کے درمیان رائج تھا آگے بڑھیں تو امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر اس تحریک کو عورتوں کا تعاون نہ ملا ہوتا تو انقلاب کبھی بھی کامیابی سے ہمکنار نہ پاتا۔
اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے عمل میں اور آج تک رونما ہونے والے واقعات کے سلسلے میں ایرانی خواتین نے بعض مواقع پر مردوں کے مثل اور بعض مواقع پر مردوں سے کچھ کمتر اور بعض مواقع پر تو مردوں سے بھی بڑھ کر تعاون کیا اور اپنے اثر دکھایا۔ جنگ میں بھی اور مختلف سیاسی واقعات میں ملک کے دینی اور سیاسی مظاہروں میں بھی یہی صورت حال نظر آتی ہے۔ علم و دانش کے شعبے میں، تعمیر و ترقی کے عمل میں اور سماجی مسائل کے سلسلے میں ایرانی خواتین کا دائمی اور مربوط تعاون اور شراکت نظروں کے سامنے ہے۔ معاشرے کے ایک رکن کی حیثیت سے عورت کا سماجی کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ماضی میں عورتیں اس پہلو کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں اور اس کی جانب ان کی توجہ نہیں تھی۔
معاشرے میں جو سماجی سطح پر عمومی امور ہوتے ہیں عورتوں کا ان میں کوئی کردار نہیں ہوتا تھا، وہ اس تعلق سے اپنا کوئی کردار اور اپنی کوئی ذمہ داری محسوس ہی نہیں کرتی تھیں۔ دور افتادہ قریوں اور شہروں کی تمام خواتین اس انقلاب کی پاسبانی کرنے والے انسانی مجموعے میں شامل افراد کی حیثیت سے اور اس انقلاب کی ذمہ دار کی حیثت سے اپنے لئے ایک شان و منزلت کی قائل ہیں۔ اس زاوئے سے مرد اور عورت میں کوئی تفریق نہیں ہے، بلکہ بسا اوقات عورتوں میں سماجی مسائل اور امور کے تعلق سے زیادہ جوش و جذبہ اور وسیع النظری دیکھنے میں آتی ہے اور وہ اس ملک اور اس کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھتی ہیں۔
اسلامی انقلاب اور عورتوں کا سماجی مقام و مرتبہ
اسلام، انقلاب اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اس ملک میں آن کر عورت کو سیاسی سرگرمیوں کے مرکز میں لا کھڑا کیا اور انقلاب کا پرچم عورتوں کے ہاتھوں میں دیا۔ اس سب کے ساتھ ہی ساتھ عورتوں نے اپنے حجاب، اپنے وقار، اپنی اسلامی متانت، اپنی عفت و پاکدامنی اور دین و تقوے کی بھی حفاظت کی۔ اب ایران کی مسلمان خواتین کی گردن پر اس کے بعد کوئی حق اور فریضہ ایسا نہیں رہا جو ادا نہ ہوا ہو۔
اسلامی انقلاب کی برکت سے ایرانی خواتین بہت اچھے راستے پر چل پڑی ہیں۔ آج ایرانی عورت عملی میدان میں وارد ہو سکتی ہے اور معرفت و دانش کے اعلی مدارج پر فائز ہو سکتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اپنے دین و ایمان، عفت و پاکدامنی، تقوا و پرہیزگاری، عز و وقار، سنجیدگی و متانت، اپنی عزت و حرمت اور شخصیت و تشخص کو بھی قائم رکھ سکتی ہے۔ اسی طرح عورت دینی علوم و معارف کی وادی کی بھی سیاحی کر سکتی ہے، اس کی راہ میں کسی طرح کی کوئی رکاوٹ اور ممانعت نہیں ہے۔ آج ایران میں عورتیں سیاست کے میدان میں، سیاسی سرگرمیوں میں، سماجی میدان میں، جہاد کے میدان میں، عوام اور انقلاب کی مدد و اعانت کے سلسلے میں، غرضیکہ گوناگوں میدانوں میں اپنی متانت و سنجیدگی کو برقرار رکھتے ہوئے، اپنے عز و وقار کو قائم رکھتے ہوئے اور اپنے اسلامی حجاب کی پابندی کے ساتھ اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔
امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی نگاہ میں عورت کی منزلت
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے انقلاب میں، خواہ وہ اس کا معرض وجود میں آنے کا مرحلہ ہو یا معرض وجود میں آ جانے کے بعد آگے بڑھنے اور جاری رہنے کی منزل، عورتوں کے کردار کو اسی طرح اسلامی معاشرے کے ارتقاء اور اس میں اسلامی و انقلابی بالغ نظری پیدا کرنے کے عمل میں عورت کے مقام کو انتہائی عظیم قرار دیا ہے، اور حقیقت بھی یہی ہے۔ اس حقیقت کا تقاضا یہ ہے کہ ایرانی عورت اور مسلم خاتون مغرب کی خانماں سوز ثقافت کی جگہ جگہ موجود کمند اور جگہ جگہ بچھے جال سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنی مجاہدت کو پختہ ارادے کے ساتھ جاری رکھے اور کسی بھی صورت میں ان کے دام میں نہ پھنسے جنہوں نے عورت کو اپنی تباہ کن پالیسیوں اور توسیع پسندانہ اہداف کے لئے حربے کے طور پر استعمال کرنے کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ اس کے لئے دانشمندانہ باریک بینی کی ضرورت ہے جس کے ذریعے عورت کی سیاسی، سماجی، فنی اور ثقافتی شناخت اور منزلت کو سیاسی اور شخصی اغراض و مقاصد کی تکمیل کے ذریعے اور حربے کی سطح تک عورت کی تنزلی اور انحطاط سے الگ کیا جا سکتے اور دونوں کے فرق کو پہچانا جا سکے۔ اس پستی اور ہر آگاہ و بیدار اور حریت پسند انسان کے مرغوب و پسندیدہ مقام و منزلت کے درمیان خلط ملط پیدا نہ ہو۔
امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ ایرانی معاشرے میں خواتین کو کہ جو ملک میں تعداد کے اعتبار سے کل آبادی کا نصف ہیں اور حساس مواقع اور نازک موڑ پر افادیت کے لحاظ سے آدھی آبادی سے زیادہ کا کردار ادا کرتی ہیں (کیونکہ جب ماں اور بیوی کی حیثیت سے وہ میدان عمل میں آتی ہیں تو بچوں اور شوہر پر اپنے خاص اثر و نفوذ کی وجہ سے انہیں بھی اپنے ساتھ میدان میں لاتی ہیں) ان کا حقیقی مقام اور شناخت حاصل ہو۔ فرضی اور مسلط کردہ شناخت نہیں بلکہ وہی حقیقی شناخت جو نظر انداز کر دی گئی ہے اور مختلف پردوں کے نیچے دب کر رہ گئی ہے۔ آپ کی تاکید تھی کہ یہ شناخت نمایاں ہو اور ہمیشہ سب کی خاص طور پر خود خواتین کی نظروں کے سامنے رہے۔ جو درخشاں حقیقت ہے وہ انہیں باور کرائی جائے۔
كلكته : رضوی صاحبه
آسيه فرعون كي زوجه
آسيہ بنت مزاحم ، فرعون کي زوجہ تهـي، وہ فرعون جس ميں غرور و تکبر کا نشہ بهـرا تهـا، جس کا نفس شرير تهـا اور جس کے عقائد اور اعمال باطل و فاسد تهـے-
آسيہ ، فرعون کے ساتهـ زندگي بسر کرتي تهـي، اور فرعوني حکومت کي ملکہ تهـي، تمام چيزيں اس کے اختيار ميں تهـيں-
وہ بهـي اپنے شوهـر کي طرح فرمانروائي کرتي تهـي، اور اپني مرضي کے مطابق ملکي خزانہ سے فائدہ اٹهـاتي تهـي-
ايسے شوهـر کے ساتهـ زندگي، ايسي حکومت کے ساتهـ ايسے دربار کے اندر، اس قدر مال و دولت، اطاعت گزار غلام اور کنيزوں کے ساتهـ ميں اس کي ايک بهـترين زندگي تهـي-
ايک جوان اور قدرتمند خاتون نے اس ماحول ميں پيغمبر الٰهـي جناب موسي بن عمران کے ذريعہ الٰهـي پيغام سنا، اس نے اپنے شوهـر کے طور طريقے اور اعمال کے باطل هـونے کو سمجهـ ليا، چنانچہ نور حقيقت اس کے دل ميں چمک اٹهـا-
حالانکہ اس کو معلوم تهـا کہ ايمان لانے کي وجہ سے اس کي تمام خوشياں اور مقام و منصب چهـن سکتا هـے يهـاں تک کہ جان بهـي جاسکتي هـے، ليکن اس نے حق کو قبول کرليا اور وہ خداوند مهـربان پر ايمان لے آئي ، اور اپنے گزشتہ اعمال سے توبہ کرلي اور نيک اعمال کے ذريعہ اپني آخرت کو آباد کرنے کي فکر ميں لگ گئي-
قرآن مجيد نے فرعون کو متکبر، ظالم ، ستم گر اور خون بهـانے والے کے عنوان سے ياد کيا هـے اور اس کو ”طاغوت“ کا نام ديا هـے-
آسیہ فرعون سے اپنا ایمان مخفی رکھتی تھی اور بعد میں اسے اس کے متعلق علم ہوگیا تھا۔ ان کے بارے میں :
- سوره تحریم آيت 11 ہے :
"اللہ تعالی نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کی ہے کہ جب اس نے کہا اے میرے رب میرے لیے اپنے پاس جنت میں گھر بنا ، اورفرعون اوراس کے عمل سے نجات نصیب فرما اورمجھے ظالموں کی قوم سے بھی نجات عطا فرما۔
ابن عباس بیان کرتے ہيں کہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے زمین پر چار لکیریں لگائيں اور فرمانے لگے:
کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآله و سلم) کوزيادہ علم ہے ، رسول خدا نے فرمایا :
جنتی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد اور فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم اور مریم بنت عمران ہیں۔ (1)
*******************************
1- مسنداحمد حديث نمبر ( 2663 ) علامہ البانی نے صحیح الجام (1135) میں اسے صحیح قراردیا ہے ۔
زیارت حضرت فاطمہ معصومہ قم (ع)

حضرت فاطمہ معصومہ علیہا السلام پہلی ذیقعدہ 173 ہجری قمری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں ۔ اور آپ نے اٹھائیس سال کی عمر میں 10 ربیع الثانی سن 201 ہجری قمری قم المقدس میں وفات پائی ۔ سن 200 ہجری قمری میں حضرت فاطمہ معصومہ(ع) اپنے کچھ بھائیوں کے ہمراہ اپنے بھائی اور امام زمانہ حضرت امام رضا (ع) کی زیارت کے یئے روانہ ہوئیں ۔ طولانی سفر طے کرتے ہوئے آپ بمقام ساوہ پہنچیں ۔ اس زمانے میں ساوہ کے لوگ اہلبیت کے سخت مخالف تھے ۔ انھوں نے حکومت کے سپاہیوں سے ملکر حضرت معصومہ(ع) کے قافلہ والوں پر حملہ کردیا اور اس طرح دونوں گروہوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی اس درد ناک حادثہ میں حضرت کے قافلہ میں سے کافی لوگ شہید ہو گئے ۔ اس کے بعد حضرت معصومہ (ع) بیمار پڑ گئيں اور ساوہ میں ناامن حالات کو دیکھتے آپ نے فرمایا کہ مجھے قم لے چلو ۔ کیوں کہ میں نے اپنے والد گرامی سے سنا ہے کہ قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے پھر آپ قم کی طرف روانہ ہوئیں ۔ قم کے بزرگ لوگوں کو جب اس مسرت بخش خبر کی اطلاع ہوئی تو وہ لوگ حضرت معصومہ کے استقبال کے لئے آئے ۔ اور اشعری خاندان کے سردار ( موسی بن خزرج ) نے حضرت معصومہ کے اونٹ کی لگام اپنے ہاتھ میں لی اور بی بی کو بڑی عزت و احترام کے ساتھ قم میں لائے ۔ اور آپ نے موسی بن خزرج کے مکان میں قیام فرمایا سترہ دن تک آپ نے آشیانہ آل محمد (ص) میں خدا کی عبادت اور اس کے ساتھ راز و نیاز میں گزارے ۔ آخر کار بیماری کی تاب نہ لا کر آپ نے اپنی جان کو جان آفرین کے حوالے کردیا آپ کی بیماری کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ آپ کو ساوہ میں ایک عورت نے مسموم کیا تھا آپ کو غسل و کفن دینے کے بعد قبرستان کی طرف لے گئے دوستداروں کا مجمع تھا لیکن کوئی محرم نہ تھا جو حضرت کے جنازے کو قبر میں اتارتا چنانچہ قادر نامی ایک بوڑھے شخص کو اس کام کے لئے انتخاب کیا لیکن وہ بھی اس کام کو انجام دینے کا اہل نہ تھا کیوں کہ معصومہ کا جنازہ تھا اس کو قبر میں اتارنے کے لئے امام معصوم کی ضرورت ہے ۔ لہذا لوگوں نے انتظار کیا ناگہاں دیکھا کہ دور سے دو سوار آرہے ہیں جب وہ قریب آئے گھوڑے سے اترے نماز جنازہ ادا کی معصومہ بی بی کو سپرد خاک کیا اور کسی سے تکلم کئے بغیر چل دیئے ۔ معصومہ اہلبیت کا روضہ آج ہر خاص و عام کی زیارت گاہ اور دل کی دھڑکن ہے ۔
آپ کی قبر منور شہر قم میں مشہور و معروف ہے ۔ اس میں بلند قبے، ضریح، متعدد صحن اور بہت سے خدام اور بہت سے اوقاف ہیں ۔ اہل علم کی آنکھوں کی روشنی اور عام انسانوں کے لۓ پناہ گاہ ہے ۔ ہر سال بے شمار لوگ دور دور کے شہروں سے سفر کرتے ہیں اور زحمت برداشت کرکے ان معظمہ کی زیارت سے فیض و برکت حاصل کرتے ہیں ۔ ان معظمہ کی فضیلت و جلالت بکثرت حدیثوں سے معلوم ہوتی ہے جیسا کہ شیخ صدوق (رہ) نے حسن سند کے ساتھ جو مثل صحیح کے ہے سعد بن سعد سے روایت کی ہے کہ امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا حضرت فاطمہ (ع) بنت موسی (ع) بنت جعفر (ع) کے بارے میں تو فرمایا جو ان کی زیارت کرے اس کے لۓ بہشت ہے اور معتبر سند کے ساتھ آپ کے فرزند امام محمد تقی علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص میری پھوپھی کی زیارت قم میں کرے اس کے لۓ بہشت ہے ۔ علامہ مجلسی (رہ) نے بعض کتب زیارت سے نقل کیا ہے کہ علی بن ابراہیم نے اپنے والد سے اور انھوں نے سعد سے روایت کی ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا اے سعد تمہارے قریب ایک ہماری قبر ہے ۔ سعد نے کہا کہ میں آپ پر قربان ہوں ۔ قبر فاطمہ (ع) بنت موسی (ع) کو فرمارہے ہیں، فرمایا ہاں، جوان کی زیارت کرے ان کے حق کو پہچانتے ہوۓ اس کے لۓ جنت ہے ۔ جب ان کی قبر کے سرہانے پہنچے تو رو بقبلہ کھڑا ہو اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر اور تینتیس مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس مرتبہ الحمد للہ کہے پھر یہ زیارت پڑھے ۔
زیارت حضرت فاطمہ معصومہ قم (ع)
السلام علی آدم صفوۃ اللہ - السلام علی نوح نبی اللہ ۔ السلام علی ابراہیم خلیل اللہ ۔ السلام علی موسی کلیم اللہ ، السلام علی عیسی روح اللہ ۔ السلام علیک یا رسول اللہ -السلام علیک یا خیر خلق اللہ- السلام علیک یا صفی اللہ -السلام علیک یا محمد بن عبداللہ خاتم النبیین- السلام علیک یا امیر المومنین علی بن ابی طالب وصی رسول اللہ السلام علیک یا فاطمہ سید ۃ نساء العالمین السلام علیکما یا سبطی نبی الرحمۃ و سید شباب اھل الجنۃ السلام علیک یا علی بن الحسین سید العابدین و قرۃ عین الناظرین السلام علیک یا محمد بن علی باقر العلم بعد النبی السلام علیک یا جعفر بن محمد الصادق البار الامین السلام علیک یا موسی بن جعفر الطاھر الطھر السلام علیک یا علی بن موسی الرضا المر تضی السلام علیک یا محمد بن علی التقی السلام علیک یا علی بن محمد النقی الناصح الامین السلام علیک یا حسن بن علی السلام علی الوصی من بعدہ اللھم صل علی نورک و سراجک و ولی ولیک وصی وصیک و حجتک علی خلقک السلام علیک یا بنت رسول اللہ السلام علیک یا بنت فاطمۃ و خدیجۃ السلام علیک یا بنت امیر المو منین السلام علیک یا بنت الحسن و الحسین السلام علیک یا بنت ولی اللہ السلام علیک یا اخت ولی اللہ السلام علیک یا عمۃ ولی اللہ السلام علیک یا بنت موسی بن جعفر و رحمۃ اللہ و برکاتہ السلام علیک عرف اللہ بیننا و بینکم فی الجنۃ وحشرنا فی زمرتکم و اوردنا حوض نبیکم وسقانا بکاس جدکم من ید علی بن ابی طالب صلوات اللہ علیکم اسئل اللہ ان یرینا فیکم السرور و الفرج و ان یجمعنا و ایاکم فی زمرۃ جدکم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و ان لا یسلبنا معرفتکم انہ ولی قدیر اتقرب الی اللہ راضیا بہ غیر منکر و لا مستکبر وعلی یقین ما اتی بہ محمد و بہ راض نطلب بذالک وجھک یا سیدی اللھم و رضاک و الدار الآخرۃ یا فاطمۃ اشفعی لی فی الجنۃ فان لک عنداللہ شا نا من الشان اللھم انی اسئلک ان تختم لی با لسعادۃ فلا تسلب منی ما انا فیہ و لا حول و لا قوۃ الا با للہ العلی العظیم اللھم استجب لنا و تقبلہ بکرمک و عزتک و برحمتک و عافیتک و صلی اللہ علی محمد و آلہ اجمعین وسلم تسلیما یا ارحم الراحمین ۔
ترجمہ زیارت :
سلام ہو آدم پر جو برگزیدہ خدا ہیں ۔ سلام ہو نوح پر جو اللہ کے نبی ہیں ۔ سلام ہو ابراہیم پر جو خلیل خدا ہیں ۔ سلام موسی پر جو کلیم اللہ ہیں ۔ سلام عیسی پر جو روح اللہ ہیں ۔ سلام آپ پر اے رسول خدا (ص) سلام آپ پر اے مخلوقات خدا میں سب سے بہتر ۔ سلام آپ پر اے خدا کے بر گزیدہ ۔ سلام آپ پر اے محمد بن عبد اللہ خاتم الانبیاء ۔ سلام آپ پر اے امیرا لمومنین (ع) علی ابن ابی طالب ۔ رسول خدا کے وصی ۔ سلام آپ پر اے فاطمہ عالمین کی عورتوں کی سردار ۔ سلام آپ دونوں پر اے نبی رحمت کے نواسو اور جنت کے جوانوں کے سردار ۔ سلام آپ پر اے علی بن حسین (ع) عبادت گزاروں کے سردار ۔ اور اہل بصیرت کے لۓ خنکی چشم ۔ ۔ سلام آپ پر اے محمد بن علی (ع) علم کے شگافتہ کرنے والے نبی کے بعد ۔ سلام آپ پر اے جعفر بن محمد صادق (ع) نیک اور امین ۔ سلام آپ پر اے موسی بن جعفر (ع) جو پاک اور پاکیزہ ہیں ۔ سلام آپ پر اے علی بن موسی رضا (ع) مرتضی ۔ سلام آپ پر اے محمد بن علی نقی (ع) سلام آپ پر اے علی بن محمد (ع) نقی نصیحت کرنے والے اور امین ۔ سلام آپ پر اے حسن بن علی (ع) سلام ان کے بعد ان کے وصی پر ۔ خدا یا درود نازل فرما اپنے نور اپنے چراغ اور اپنے ولی کے ولی اور اپنے وصی کے وصی پر اور اپنی مخلوق پر اپنی حجت پر ۔ سلام آپ پر اے دختر رسول خدا (ص) سلام آپ پر اے دختر فاطمہ (ع) و خدیجہ (ع) ۔ سلام آپ پر اے دختر امیر المومنین (ع) سلام آپ پر اے دختر حسن و حسین (ع) سلام آپ پر اے ولی خدا ۔ سلام آپ پر اے ولی خدا کی بہن ۔ سلام آپ پر اے ولی خدا کی پھوپھی ۔ سلام آپ پر اے دختر موسی بن جعفر (ع) اللہ کی رحمت و برکت ہو ۔ سلام آپ پر خدا ہمارے اور آپ کے درمیان شناسائی کر بر قرار رکھے اور ہم کو آپ کے زمرہ میں محشور کرے اور ہم کو اپنے نبی (ص) کے حوض پر وارد کرے اور ہم کو آپ کے جد کے جام سے علی بن ابی طالب (ع) کے ہاتھوں سے سیراب کرے اور آپ پر اللہ کا درود و سلام ہو ۔ میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہم کو آپ لوگوں کے بارے میں خوشی اور آسانی دکھلادے اور ہم کو اور آپ کو جمع کرے آپ کے جد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ کے زمرہ میں اور ہم سے نہ سلب کرے آپ کی معرفت کو بیشک وہ سلطنت اور قدرت والا ہے ۔ میں اللہ سے قریب ہوتا ہوں آپ کی محبت میں اور آپ کے دشمنوں سے برائت کے ذریعہ اور اللہ کی طرف سر تسلیم خم کۓ ہوۓ اس پر راضی رہتے ہوۓ بغیر انکار اور تکبر کے اور اس کے یقین پر جو جضرت محمد (ص) لاۓ اور اس سے راضی رہتے ہوۓ ۔ میں طلب کرتا ہوں اس کے ذریعہ آپ کے ذات کو اے میرے سردار ۔ اے خدا تیر ی مرضی اور آخرت کی سعادت کو طلب کرتا ہوں ۔ اے فاطمہ (ص) آپ میر ی شفاعت کیجۓ جنت کے لۓ کہ آپ کی خدا کے نزدیک شان ہے ۔ خدا یا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میرا خاتمہ سعادت پر ہو پس تو سلب نہ کر مجھ سے وہ جس میں ہوں اور کوئی قوت و طاقت نہیں ہے مگر بلند و عظیم خدا کےلۓ ۔ خدا یا ہماری دعاؤں کو قبول کر اور مستجاب فرما اپنے کرم ، اپنی عزت اور اپنی رحمت اور عافیت کے واسطہ سے اور اللہ کا درود ہو محمد (ص) اور ان کی تمام آل پر اور سلام بھیج جو سلام کا حق ہے اےسب سے زیادہ رحم کرنے والے -




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
