
Super User
طاہر القادري کا لانگ مارچ
تحريک منہاج القرآن کا لانگ مارچ اسلام آباد کي جانب جاري ہے -
تحريک مہناج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادري نے عوام سے اپيل کي ہے کہ وہ لانگ مارچ ميں بھرپور طريقے سے شرکت کريں انہوں نے حکام پر الزام لگايا کہ انہيں غريبوں کي پرواہ نہيں ہے انہوں نے ميڈيا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کي طرف سے اعلان کردہ ملين مارچ جاري ہے انہوں نے انتظاميہ پر الزام عائد کيا کہ لاہور اور ملحقہ شہروں ميں موبائل فون سروس معطل کردي گئي ہے جس کي وجہ سے ميں سے کسي سے رابطے ميں نہيں ہوں -
دريں اثناء تحريک منہاج القران اور اسلام آباد انتظاميہ کے درميان کوڈ آف کنڈکٹ پر اتفاق ہوگيا ہے جس کے تحت لانگ مارچ ميں شريک کوئي بھي شخص اسلام آباد کي حدود ميں اسلحے کے ساتھ داخل نہيں ہوگا اور مخصوص مقامات سے باہر لانگ مارچ کے شرکا کو جانے کي اجازت نہيں ہوگي-
تیونس: بن علی کا فرار دوسری سالگرہ
چودہ فروری تیونس کی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش دن ہے۔ اسی دن دو برسوں قبل زین العابدین بن علی فرار ہوا تھا۔ بہت سے تیونسی باشندوں کی نظر میں اس دن ملک کو دوبارہ حیات تازہ ملی تھی۔ چودہ جنوری دوہزار گيا رہ کو تیونس کا سابق ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی تئيس الہ مستبدانہ حکومت کے بعد عوامی انقلاب کے نتیجے میں ملک سے بھاگنے پرمجبور ہوگياتھا۔ سابق ڈکٹیٹر کے فرار کے بعد ملک میں تیونسی باشندوں کو امید کی کرن دکھائي دی کہ اب ملک میں نیا دور شروع ہوگا۔ تیونس کا انقلاب اس وجہ س اہمیت کا حامل ہے کہ یہی انقلاب دیگر عرب ملکوں میں انقلابوں کا سبب بناتھا۔ تیونس میں بن علی کی ڈکٹیٹر حکومت کی سرنگونی کے بعد مصر کے ڈکٹیٹر کی حکومت بھی ختم ہوگئی، لیبیا کی تاریخی آمرانہ حکومت کا تختہ الٹ گيا اور معمر قذافی پینتالیس برسوں تک حکومت کرنے کےبعد نہایت ہی عبرتناک موت کو پہنچااسکے علاوہ علی عبداللہ صالح بھی یمن کی صدارت سے محروم ہوگئے۔ تیونس کے شہر سیدی بوزید میں ایک جوان کی خود سوزی سے جو تحریک شروع ہوئي تھی اس نےعرب ملکوں کو بڑی تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور آج تک جاری ہے۔
تیونس کی حکومت نے اپنے انقلاب کی کامیابی کی دوسری سالگرہ کے جشن میں شرکت کے لئے مختلف ملکوں کے سربراہوں کو شرکت کی دعوت دی ہے۔ تیونس کے حالات کے پیش نظر یہ سوال سامنے آرہے ہیں کہ بن علی کے فرار کو دوبرس گذرنے کے بعد کیا تیونس میں اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے استحکام آیا ہے؟ کیا عوامی تحریک کے اھداف پورے کئے گئےہیں۔ اور کیا عوام کے مطالبات کو پورا کیا جارہا ہے؟ جس چیز عملی طورسے دیکھی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ تیونس میں نیا سیاسی نظام آچکا ہے، منصف المرزوقی صدر ہیں اور حمادی الجبالی وزیر اعظم کے عھدے پر فائز ہیں اور ملک کے اعلی ترین حکام کی حیثیت سے ملک کا انتظام چلارہے ہیں۔ اسکے علاوہ تیونس میں النھضۃ جیسی پارٹیاں بھی میدان میں آچکی ہیں اور اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ ان پارٹیوں پر کل تک پابندی تھی ، لیکن کیا تیونس اتنے ہی مسائل میں منحصر ہے؟ تیونس اس وقت شدید معیشتی مسائل سے پریشان ہے۔ برے اقتصادی حالات سے گھبراکر عوام دوبارہ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اور حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر احتجاج کررہے ہیں۔اس احتجاج سے تیونس ایک سنگين بحران میں مبتلا ہوچکا ہے۔ در این اثنا عوام کے مطالبات پورے نہ کئےجانے سے عوام میں بےچینی کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیاں بھی برہم ہیں جس سے حکومت مزید طوفانوں کی زد میں آگئي ہے۔ انقلاب تیونس کی کامیابی کو دو برس گذرنےکے بعد بھی ملک میں صعنت سیاحت جو ملک کی آمدنی کاایک بڑا ذریعہ ہے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوسکی ہے اور نہ کوئي ملک اس صنعت میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہے۔ حزب اختلاف اور سول سوسائٹی کے بعض حلقے حکومت کو اس صورتحال کا ذمہ دار بتارہے ہیں ان کا کہنا ہےکہ حکومت صحیح تدبیریں نہیں اپنا رہی ہے لیکن کیا یہ الزام تراشی تیونس کے مسائل حل کرسکتی ہے۔ تیونس ایسا ملک ہےجو عبوری صورتحال سے گذر رہا ہے اور یہ مرحلہ یقینا اس ملک کےلئے نہایت حساس مرحلہ ہے جس نے تئيس برس تک ڈکٹیٹر شپ کو جھیلا ہے۔ اس مرحلے میں حکومت کو نہایت درایت اور تدبیر سے مساغل حل کرنے ہونگے اور عوام کو بھی حوصلے اور صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا لیکن لگتا ہے ان دونوں اصولوں کا تیونس میں کوئي مقام نہیں ہے۔ اس وقت تیونس کےحکام نہ صاحب رائے و تدبیر دکھائي دے رہے ہیں اور نہ ہی عوام میں حوصلہ و صبر نظر آرہا ہے۔ تیونس میں عوامی انقلاب کے اھداف حاصل کرنے کےلئے قومی عزم کی ضرورت ہے اور سب کو مل کرکام کرنا ہوگا۔
امریکہ ڈرون حملے بند کردے
پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربّانی کھر نے اپنے ملک کے قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرون حملوں کی مذمت کی ہے ۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی وزیر خارجہ نے غیرملکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے قبائلی علاقوں پر امریکہ کے ڈرون حملوں کو غیرمؤثر قرار دیا اور کہا کہ یہ حملے غیرقانونی ہیں اور پاکستان کے عوام اور حکومت نے ہمیشہ ان حملوں کی مخالفت کی ہے۔ حنا ربانی کھر نے کہا کہ پہلی بار نہیں ہے کہ ہم امریکہ کے ڈرون حملوں کی مخالفت کررہی ہیں اور ہمیں توقع ہے کہ امریکہ اپنے غیرقانونی حملے جلد از جلد بند کردے۔
امریکی فوج نے القاعدہ اور طالبان سے جنگ کے بہانے بارہا پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملہ کیا ہے جن میں اکثر عام قبائلی افراد مارے گئے ہیں۔
ایران اور روس کی جانب سے پاکستان میں دہشتگردی کی مذمت
ايران کي وزارت خارجہ کے ترجمان نے پاکستان ميں جمعرات کو ہونے والے دہشتگردانہ واقعات کي شديد الفاظ ميں مذمت کي ہے جس ميں سيکڑوں کي تعداد ميں بے گناہ لوگ جانبحق اور زخمي ہوگئے تھے-
وزارت خارجہ کے ترجمان نے پاکستان ميں ہونے والے دہشتگردي کے واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ميں شک نہيں ہے کہ اس طرح کے منظم اور صيہوني سازشي حملوں کا مقصد پاکستان کے شيعہ اور سني مسلمانوں کے درميان دشمني اور عداوت پيدا کرنا ہے-
ايران کي وزارت خارجہ کے ترجمان نے پاکستان کے دہشتگردانہ واقعات ميں جانبحق اور زخمي ہونے والوں کے اہل خانہ سے ہمدردي کا اظہار کرتے ہوئے عالمي برادري سے مطالبہ کيا ہے کہ وہ دہشتگردي کي لعنت کے خاتمے کے لئے ايک دوسرے ساتھ تعاون کرے-
ادھر روس کے صدر ولادي مير پوتن نے بھي پاکستان ميں ہونے والے دہشتگردي کے حاليہ واقعات کي مذمت کي ہے-
روسي صدر کي جانب سے جاري ہونے والے بيان ميں پاکستان کے صدر آصف علي زرداري کو اس دہشتگردي کے واقعات ميں سيکڑوں بے گناہ لوگوں کے مارے جانے پر تعزيت پيش کي گئي ہے-
کشمیر، لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا تبادلہ جاری
ہندوستان کے فوجي ذرائع نے کشمير کے علاقے ميں پاکستاني فوجيوں کے ساتھ ايک اور جھڑپ کي خبر دي ہے-
ہندوستاني فوج کے ترجمان جگديپ داھيا نے آج بتايا ہے کہ کچھ مشتبہ افراد نے کنٹرول لائن عبور کرنے کي کوشش کي جن پر ہندوستاني فوج نے فائرنگ کي ہے-
انہوں نے کہا کہ ہندوستاني فوج کي فائرنگ کے نتيجے ميں دراندازي کي کوشش ناکام ہوگئي ہے-
واضح رہے کہ حاليہ چند دنوں کے دوران کنٹرول لائن پر ہندوستاني اور پاکستاني فوجيوں کے درميان جھڑپوں ميں اضافہ ہوگيا ہے-
ہندوستان نے پاکستان پر کشيدگي کو ہوا دينے کا الزام لگايا ہے- پاکستان نے ہندوستان کے اس الزام کو سختي کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے کنٹرول لائن کے واقعات کي آزادانہ تحقيقات کي پيشکش کي ہے-
صدر زرداری نے کوئٹہ سانحے پر اہم اجلاس طلب کرلیا
پاکستان کے صدر آصف علي زرداري نے کوئٹہ سانحے کے تعلق سے گورنر بلوچستان کو طلب کرليا ہے -
پاکستان کے صدر نے کوئٹہ اور مجموعي طور پر بلوچستان ميں فوري قيام کے امن کے لئے گورنر بلوچستان ذوالفقار مگسي اور وزير اعلي سميت تمام صوبائي وزراء ، ممبران اسمبلي اور سينٹروں کو طلب کرليا ہے اور پير کو اس سلسلے ميں بلاول ہاؤس ميں ايک اہم اجلاس ہوگا - پاکستاني ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اجلاس ميں اہم فيصلوں کي توقع کي جارہي ہے -
دوسري طرف صدر آصف زرداري نے بلوچستان کي سبھي مذہبي اور بلوچ قيادت سے فوري مذاکرات کے لئے وزير اعظم راجا پرويز اشرف کي سربراہي ميں ايک کميٹي تشکيل دے دي ہے -
صدر پاکستان نے وفاقي حکومت کو ہدايت دي ہے کہ کوئٹہ دھماکوں ميں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقين کو فوري طور پر معاوضہ ديا جائے -
اطلاعات ہيں کہ زخميوں کو کوئٹہ سے کراچي منتقل کرنے کے لئے ايک طيارہ روانہ کيا جارہا ہے-
جناب سودہ کی سیرت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جناب سودہ، اہل مکہ اور قبیلہ قریش کے زمعہ بن قیس کی بیٹی تھیں- ان کا شجرہ نسب پیغمبر اسلام {ص} کے جد امجد تک پہنچتا ہے- جناب سودہ کے والد ان افراد میں سے تھے، جنھوں نے ابتداء میں پیغمبر اسلام {ص} کی دعوت کو قبول کرکے اسلام لایا تھا-
جناب سودہ نے پہلے اپنے چچیرے بھائی، سکران بن عمرو بن عبدالشمس سے ازدواج کی اور اس سے ان کے ہاں عبدالرحمن نامی ایک بیٹا پیدا ھوا تھا-
ظہور اسلام اور رسول خدا{ص} کی دعوت کے بعد پہلے خود سودہ مسلمان ھوئیں اور اس کے بعد ان کا شوہر بھی مسلمان ھوا اور کفار مکہ کی طرف سے مسلمانوں کو اذیت و آزار کا سلسلہ شروع ھونے کے بعد اس میاں بیوی نے بھی دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ حبشہ ھجرت کی-
مکہ میں مسلمانوں کی فتحیابی اور مکہ کے باشندوں کےاسلام قبول کرنے کی خبر سننے کے بعد مسلمان حبشہ سے مکہ کی طرف واپس لوٹے- اس سفر میں جناب سودہ کے شوہر وفات پا گئے- لیکن جناب سودہ کو معلوم ھوا کہ مکہ میں مسلمانوں کی فتحیابی کی خبر صحیح نہیں تھی بلکہ مکہ کے کفار نے مسلمانوں کو اذیت و آزار پہچانے میں شدت اختیار کی ہے، تو انھیں شوہر کی رحلت کی مصیبت کے علاوہ اپنے کافر خاندان کے برتاو کےبارے میں سخت پریشانی ھوئی-
اس زمانہ میں کسی عورت کا تنہا اور بے سرپرست ھونا بھی نا پسند اور خطرناک سمجھا جاتا تھا، اس لئے ایسے تنہا افراد مجبور تھے کہ اپنے آپ کو اپنے قبیلہ یا قبیلہ کے سردار کی پناہ میں قرار دیں تاکہ دوسروں کے خطرے سے محفوظ حالت میں زندگی گزار سکیں-
پیغمبر اسلام {ص} سے ازدواج کرنے کی تجویز:
مذکورہ حوادث اور ان نا گفتہ بہ حالات اور غم و اندوہ والے ایام میں پیغمبر اسلام {ص} کے چچا ابو طالب رحلت کرگئے اور تھوڑی مدت کے بعد حضرت خدیجہ کبری{س} بھی اس دارفانی کو وداع کرگئیں اور پیغمبر اسلام {ص} اپنے چچا اور شریک حیات، حضرت خدیجہ کے فقدان کی وجہ سے انتہائی غمگین ھوئے-
پیغمبر اسلام {ص} نے حضرت خدیجہ{س} کی وفات کے بعد ایک سال تک اپنے لئے کسی شریک حیات کا انتخاب نہیں کیا- رسول خدا {ص} کے صحابی فکر مند تھے اور رسول خدا {ص} کے ہاں حضرت خدیجہ {س} کے مقام و منزلت سے آگاہ ھونے کے پیش نظر اس کوشش میں تھے کہ آنحضرت {ص} کے لئے حضرت خدیجہ {س} کی جدائی کے غم کو ہلکا کردیں، اس سلسلہ میں جناب عثمان بن مظعون کی بیوی خولہ بنت حکیم کو پیغمبر اکرم {ص} کی خدمت میں بھیجا، یہ ایک با ایمان اور ہمدرد خاتون تھیں-
خولہ بنت حکیم نے رسول اللہ {ص} سے ملاقات کے دوران آنحضرت {ص} سے کہا: " اے رسول خدا {ص} ہم دیکھ رہے ہیں، خدیجہ کے فراق نے آپ {ص} کو محزون و غمگین بنایا ہے- رسول خدا {ص} نے جواب میں فرمایا کہ :" جی ہاں، وہ میری اولاد اور خاندان کی ماں تھیں"
خولہ نے کہا: اے رسول خدا {ص} آپ {ص} کیوں ازدواج نہیں کرتے ہیں؟
پیغمبر خدا {ص} نےکچھ دیر تک خاموشی اختیار کی، آپ {ص} کی آنکھیں پر نم ھو گئیں، اس کے بعد فرمایا: کیا خدیجہ کے بعد بھی کوئی ہے؟
خولہ نے فرصت کو غنیمت سمجھ کر کہا: کیا میں آپ {ص} کے لئے خواستگاری کرسکتی ھوں؟
سر انجام رسول خدا{ص} نے اپنے لئے خواستگاری کے لئے خولہ بنت زمعہ کی تجویز سے موافقت کی- خولہ ایک مسن خاتون تھیں-
اس کے بعد خولہ بنت زمعہ، جناب سودہ کے پاس گئیں اور ان سے کہا کہ: آپ کے لئے خوشخبری لائی ھوں کہ آج کا دن اپنی ماں سے متولد ھونے کے بعد آپ کی زندگی کا بہترین دن ہے- جناب سودہ نے کہا : کیوں؟
خولہ نے جواب میں کہا: رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بھیجا ہے تاکہ آپ سے خواستگاری کروں-
سودہ نے کہا: کیا رسول خدا{ص} میرے ساتھ ازدواج کریں گے؟ خولہ نے کیا: جی ہاں، انھوں نے آپ کا نام لیا اور مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے-
سودہ نے مسن ھونے اور بیوہ ھونے کے باوجود اپنے باپ کے احترام میں کہا کہ: پس میں اپنے باپ سے اجازت حاصل کرتی ھوں-
خولہ کہتی ہیں کہ: میں سودہ کی خواستگاری کے لئے ان کے والد کے پاس گئیں اور کہا: محمد بن عبداللہ {ص} آپ کی بیٹی سودہ کے بارے میں خواستگاری کرنا چاہتے ہیں-
سودہ کے باپ نے کہا: محمد {ص} ایک کریم و عظیم شخصیت ہیں، لیکن ذرا دیکھو کہ سودہ کیا کہتی ہے-
جب سودہ نے اپنی مکمل رضامندی کا اظہار کیا تو ان کے باپ نے کہا: محمد {ص} سے کہنا کہ خواستگاری کے لئے تشریف لائیں- یہ مبارک رشتہ بعثت کے بعد دسویں سال کے رمضان المبارک میں منعقد ھوا اور اس کے بعد تقریبا تین سال تک آنحضرت {ص} نے کوئی دوسری شادی نہیں کی-
اس مسن خاتون سے پیغمبر اسلام {ص} کی شادی اہل مکہ کے لئے حیرت و تعجب کا باعث بنی اوراس کے ضمن میں آنحضرت {ص} کو اذیت و آزار نہ پہنچانے کا سبب بھی بنی-
سودہ کا بھائی عبد بن زمعہ، مسلمان ھونے کے بعد اظہار افسوس کرتا تھا کہ جب اس کی بہن سودہ کی پیغمبر {ص} سے شادی ھوئی تو وہ دیوانہ ھوکر اسے ایک بڑی مصیبت سجھتا تھا-
اس ازدواج کے بعد، سودہ بنت زمعہ کے قبیلہ کے افراد نے ، رسول خدا {ص} کے درمیان محبت و الفت ایجاد ھونے اور آنحضرت {ص} کے حسن اخلاق کے دلدادہ ھونے کی وجہ سے جوق در جوق اسلام قبول کیا-
یہ ازدواج ھجرت سے ایک سال پہلے واقع ھوئی- سودہ، فاطمہ زہراء {س} اور ام کلثوم کی پرورش کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتی تھیں-
کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام {ص} نے مکہ میں تین خواتین سے ازدواج کی ہے ، جناب خدیجہ، جناب سودہ، اور جناب عائشہ- اس کے بعد باقی ازدواج مدینہ منورہ میں کی ہیں-
رسول خدا {ص} کو خوشحال رکھنے کے لئے جناب سودہ کی کوششیں:
سیرت کی بعض کتابوں کے مطابق، جناب سودہ، آنحضرت {ص} سے عمر میں کافی تفاوت رکھتی تھیں، لیکن ایک مومنہ اور با وقار خاتون تھیں اور آنحضرت {ص} کے ساتھ کافی مہربانی سے پیش آتی تھیں-
ام المومنین جناب سودہ ہمیشہ کوشش کرتی تھیں کہ اپنے کردار و رفتار سے آنحضرت {ص} کو خوشحال رکھیں، مسن ھونے کے باوجود آنحضرت {ص} کی خدمت میں شوخ مزاج تھیں-
جناب سودہ کا پیغمبر اسلام {ص} کی خدمت میں خوش آیند مسائل کو خندہ پیشانی کے ساتھ پیش کرنا مختلف صورتوں میں بیان کیا گیا ہے اور یہ سب، پیغمبر اسلام {ص} کو خوشحال کرنے کے لئے ان کی کوششوں کی دلیل ہے-
رسول خدا {ص} نے مکہ سے مدینہ ھجرت کرنے اور مدینہ میں قیام کرنے کے بعد زید بن حارثہ کو ان کے غلام ابا رافع کے ساتھ دو اونٹ اور پانچ سو درہم دے کر مکہ بھیجا تاکہ فاطمہ زہراء {س} جناب ام کلثوم، جناب سودہ ، جناب ام ایمن حبشیہ { زید بن حارثہ کی بیوی} اور اسامہ بن زید کو مدینہ لائیں-
زید بن حارثہ نے اپنی ماموریت انجام دی اور انھیں حارثہ بن نعمان کے گھر میں رکھا-
ذہبی کہتے ہیں: " پیغمبر اسلام {ص} نے مدینہ میں پہلا گھر سودہ کے لئے تعمیر کیا اورآنحضرت نے تین سال تک کسی دوسری عورت سے شادی نہیں کی-"
بعض روایات کے مطابق ، حضرت خدیجہ {س} کے بعد پیغمبر {ص} کی بیویوں میں سخاوت مند ترین بیوی جناب سودہ تھیں- ابن سعد نے محمد بن سیرین سے نقل کیا ہے کہ: عمر نے درہموں سے بھرے ایک برتن کو جناب سودہ کی خدمت میں بھیجا- جناب سودہ نے کہا: یہ کیا ہے؟ کہاگیا کہ: یہ درہم ہیں- پس انھوں نے انھیں محتاجوں میں تقسیم کیا-
جناب سودہ کا بعض جنگوں میں پیغمبر اکرم {ص} کے ساتھ حضور:
بعض روایتوں سے معلوم ھوتا ہے کہ جناب سودہ، جنگ خیبر جیسی بعض جنگوں میں پیغمبر اسلام {ص} کے ہمراہ تھیں-
ابن سعد اپنی کتاب " طبقات" میں کہتے ہیں:" پیغمبر اسلام {ص} نے جنگ خیبر میں جناب سودہ کو ستر"وسق" خرما اور بیس"وسق" جو دئے{وسق یعنی ایک اونٹ بار}- اس سے معلوم ھوتا ہے کہ جناب سودہ جنگ خیبر میں پیغمبر اکرم {ص} کے ہمراہ تھیں-
اختلاف کا پیدا ھونا:
جب پیغمبر اسلام {ص} کی بیویاں، پیغمبر اکرم {ص} کے نفقہ ادا کرنے کے طریقہ کار سے ناراض ھو گئیں اور زیادہ نفقہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا تو رسول خدا {ص} نے انھیں آپ {ص} کے ساتھ رہنے یا طلاق حاصل کرنے میں اختیار دیا تو خداوند متعال کی طرف سے یہ آیتیں نازل ھوئیں: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا. وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآَخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا»(احزاب/28ـ29{ پیغمبر آپ اپنے بیویوں سے کہہ دیجئے اگر تم لوگ زندگانی دنیا اور اس کی زینت کی طلبگار ھوتو آو میں تمھیں متاع دنیا دے کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں اور اگر اللہ اور رسول اور آخرت کی طلبگار ھو تو خدا نے تم میں سے نیک کردار عورتوں کے لئے بہت بڑا اجر فراہم کر رکھا ہے}
جناب سودہ، ان آیات کو سننے کے فورا بعد رسول خدا{ص} کی خدمت میں حاضر ھوئیں اور کہا: میں کچھ نہیں چاہتی ھوں-
جناب عائشہ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ: " سودہ کو یہ ڈر تھا کہ کہیں پیغمبر اکرم {ص} انھیں مسن ھونے کی وجہ سے طلاق نہ دیں-"
جناب سودہ، جناب عائشہ کے مقا بلے میں ان کی نانی کے مانند تھیں اور انھوں نے بارہا یہ آرزو کی تھی کہ خداوند متعال مجھے قیامت کے دن پیغمبر اسلام {ص} کی شریک حیات کے عنوان سے محشور کرے-
بعض مورخین نے لکھا ہے کہ جناب سودہ اور پیغمبر اکرم {ص} کے درمیان کچھ مسائل پیدا ھوئے تھے اور پیغمبر اکرم {ص} انھیں طلاق دینا چاہتے تھے – جناب سودہ نے پیغمبر اکرم {ص} سے کہا: اے رسول خدا {ص} مجھے طلاق نہ دینا ، تاکہ قیامت کے دن آپ کی بیویوں میں شمار ھو جاوں اور پیغمبر اسلام {ص} نے انھیں طلاق نہیں دیا-
حجتہ الوداع میں جناب سودہ کا اقدام:
حجتہ الوداع میں جناب سودہ بھی پیغمبر اسلام {ص} کی دوسری بیویوں کے ہمراہ بیت الحرام کی زیارت کے لئے مشرف ھوئی تھیں اور پیغمبر اسلام {ص} کی رحلت کے بعد، چونکہ قرآن مجید میں خداوند متعال نے حکم دیا تھا کہ اپنے گھروں میں بیٹھیں، اس لئے وہ اس کے بعد مکہ نہیں گئیں- حاجی کےلئے واجب ہے کہ حالت احرام میں جب عرفات سے فارغ ھو جائے، تو مزدلفہ جاکر نماز صبح تک وہاں پر وقوف کرے اور اس کے بعد آگے بڑھے- حجتہ الوداع میں جب جناب سودہ، پیغمبر اسلام{ص} کے ہمراہ حج کا فریضہ انجام دے رہی تھیں، وہ چل نہیں سکتی تھیں، کیونکہ جناب سودہ ایک عمر رسیدہ خاتون تھیں اور بڑی مشکل سے چل سکتی تھیں- انھوں نے رسول خدا {ص} کی خدمت عرض کی: اے رسول خدا{ص} میں یہاں پر { مزدلفہ میں} صبح تک نہیں رہ سکتی ھوں- رسول خدا {ص} نے انھیں آگے بڑھنے کی رخصت دیدی تاکہ صبح اور ازدحام ھونے سے پہلے رمی جمرات بجا لاکر واجب طواف بجا لائے- اور جناب سودہ کا یہ عمل معذور افراد کے لئے اس کام کے جواز کا سبب بنا-
دوسرے خلیفہ جناب عمر بن خطاب نے اپنی خلافت کے دوران ایک بار پیغمبر اکرم {ص} کی بیویوں کوخانہ خدا کی زیارت کرنے کی اجازت دیدی اور جناب سودہ اور زینب بنت جحش کے علاوہ پیغمبر اسلام {ص} کی سب بیویاں خانہ خدا کی زیارت کے لئے گئیں، لیکن آنحضرت {ص} کی ان دو بیویوں نے کہا کہ، ہم رسول خدا {ص}کے بعد کسی مرکب پر سوار نہیں ھوں گیں- جناب سودہ نے کہا کہ میں گھر میں رہنا چاہتی ھوں ، کیونکہ خداوند متعال نے مجھے اس کا حکم دیا ہے-
جناب سودہ کی خدا اور اس کے پیغمبر{ص} کی اطاعت:
سیوطی لکھتے ہیں:" وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّة الأولى"والی آیت کے نازل ھونے کے بعد جب جناب سودہ سے کہا گیا کہ آپ کیوں حج بجا لانے کے لئے نہیں جاتی ہیں؟ تو انھوں نے جواب میں کہا: میں نے حج اور عمرہ بجا لایا ہے اور خداوند متعال نے مجھے حکم دیا ہے کہ اپنے گھر سے باہر نہ نکلوں اور گھر میں ہی رھوں-
لکھا گیا ہے کہ جناب سودہ گھر سے باہر نہ نکلیں یہاں تک کہ ان کا جنازہ ان کے گھر سے باہر لایا گیا-
جناب سودہ کی وفات:
جناب سودہ نے خلیفہ دوم جناب عمر بن خطاب کی خلافت کے زمانہ میں وفات پائی اور انھیں قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گیا-
جناب زینب بنت جحش کی سیرت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جناب زینب بنت جحش، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک شریک حیات تھیں- ان کے والد جحش بن رئاب تھے اور ان کی والدہ امیمہ بنت عبدالمطلب، یعنی رسول خدا{ص} کی پھپھی تھیں- ھجرت کے پانچویں سال رونما ھونے والے اہم واقعات میں سے ایک واقعہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جناب زینب بنت جحش سے ازدواج کرنا تھا-
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ام المومنین جناب زینب بنت جحش سے ازدواج کرنے کے بارے میں تفصیلات بیان کرنے سے قبل ضروری ہے کہ ان کے پہلے شوہر، زید بن حارثہ سے ان کی ازدواج کی داستان بیان کی جائے-
کہا جاتا ہے کہ جس دوسرے مرد نے رسول خدا {ص} پر ایمان لایا، وہ زید بن حارثہ تھا- زید بن حارثہ بعثت سے کئی سال قبل ام المومنین حضرت خدیجہ{س} کے گھر میں ایک غلام کی حیثیت سے آگیا تھا اور رسول خدا {ص} نے انھیں حضرت خدیجہ سے لے کر آزاد کیا اور اس کے بعد اسے اپنا بیٹا کہا اور مکہ کے لوگ بھی، اس کے بعد اسے زید بن محمد {ص} کہتے تھے-
زید کی اسیری اور غلامی کی داستان:
زید، قبیلہ کلب کا ایک جوان تھا- ان کے قبیلہ اورایک دوسرے عرب قبیلہ کے درمیان لڑائی کے نتیجہ میں زید کو اسیر کیا گیا اور اسے عکاظ کے بازار میں فروخت کرنے کے لئے رکھا گیا اور حضرت خدیجہ {س} کے بھتیجے، حکیم بن حزام نے، حضرت خدیجہ {س} کی طرف سے ایک غلام خرید نے کی سفارش پر، زید بن حارثہ کو خریدا اور حضرت خدیجہ {س} کے لئے اسے مکہ لے آیا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب حضرت خدیجہ {س} کو اپنی شریک حیات قرار دیا، آنحضرت{ص} زید سے پیار و محبت کرنے لگے یہاں تک کہ اسے " زید الحب" کہنے لگے- حضرت خدیجہ {س}نے جب اس قسم کی محبت کا مشاہدہ کیا، تو زید کو آنحضرت {ص} کی خدمت میں بخش دیا-
ایک زمانہ گزرنے کے بعد قبیلہ بنی کلب کے کچھ افراد حج انجام دینے کے لئے مکہ آگئے، اور انھوں نے وہاں پر زید کو دیکھا اور اسے پہچان لیا اور زید نے بھی انھیں پہچان لیا اور کہا کہ: میں بخوبی جانتا ھوں کہ میرے ماں باپ نے میرے فقدان کی وجہ سے جزع و فزع کیا ہے اور اس کے ضمن میں اپنی صحت و سلامتی اور خوشحال ھونے کے بارے میں چند اشعار کہے اور خداوند متعال کا شکر بجا لایا کہ اسے پیغمبر اکرم {ص} کے گھر میں قرار دیا ہے:
"فانّی بحمد اللّه ِ فی خیرٍ اُسْرَةٍ کرامٍ مَعَدٍّ کابرا بعد کابر."
بنی کلب کے افراد نے زید کے زندہ ھونے اور اس کی حالت کی خبر، اس کے والدین کو پہنچا دی- زید کے والد اور چچا فدیہ دے کر زید کو آزاد کرانے کے لئے پیغمبر اسلام {ص} کی خدمت میں حاضر ھوئے اور کہا: اے فرزند عبدالمطلب؛ اے فرزند ہاشم؛ اے اپنی قوم کے سرادر کے فرزند؛ ہم اپنے بیٹے کے بارے میں آپ سے گفتگو کرنے کے لئے آئے ہیں،جو آپ کے پاس ہے- ہم پر مہربانی اور احسان کرنا اور فدیہ حاصل کرکے اسے آزاد کرنا- پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسے آزاد کروں؟ انھوں نے کیا: زید بن حارثہ کو- پیغمبر اسلام {ص} نے فرمایا: آپ لوگ کیوں کوئی دوسری تجویز پیش نہیں کرتے ہیں؟ انھوں نے کہا: کونسی تجویز؟ آنحضرت {ص} نے فرمایا: اسے بلا ئیے اور اسے اپنا فیصلہ خود کرنے کا اختیار دیجئے- اگر اس نے آپ لوگوں کو اختیار کیا، تو وہ آپ کا ہے اور اگر مجھے اختیار کیا، تو خدا کی قسم جو مجھے ترجیح دیدے، میں اس کے بارے میں کسی صورت میں اور کسی قیمت پر معاملہ نہیں کروں گا- انھوں نے کہا: آپ {ص} نے ہمارے ساتھ عدل و انصاف پر مبنی بات کی ہے اور ہم پر احسان کیا ہے-
پیغمبر اسلام {ص} نے زید کو بلایا اور فرمایا: کیا ان کو جانتے ھو؟ اس نے جواب میں کہا: جی ہاں، یہ میرے والد اور وہ میرے چچا ہیں- پیغمبر اکرم {ص} نے فرمایا: میں وہی ھوں جسے تم نے پہچانا اور جس کے ساتھ تم نے ہم نشینی کی ہے- مجھے اور ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا- زید نے کہا: میں ان کو نہیں چاہتا ھوں – میں کسی کو بھی آپ {ص} پر ترجیح دینا نہیں چاہتا ھوں- آپ {ص} میرے لئے میرے باپ اور چچا ہیں- زید کے والد اور چچا نے کہا: اے زید؛ تم پر افسوس ھو؛ کیا تم غلامی کو آزاد ھونے اور اپنے باپ اور چچا پر ترجیح دیتے ھو؟ زید نے جواب میں کہا: جی ہاں، یہ شخص ایسی خصوصیات کے مالک ہیں کہ میں کسی کو ان پر ترجیح نہیں دیتا ھوں- جب رسول خدا {ص} نے اس کا مشاہدہ کیا، اسے حجر اسماعیل میں لے جاکر اعلان کیا: اے حضار؛ گواہ رہنا کہ زید میرا بیٹا ہے، اسے مجھ سے وراثت ملے گی اور مجھے اس سے وراثت ملے گی- جب زید کے باپ اور چچا نے اس امر کا مشاہدہ کیا، تو وہ خوشحال ھوکر اپنے وطن کی طرف لوٹے-
حضرت محمد مصطفے {ص} کے رسالت پر مبعوث ھونے اور اس واقعہ کو چند سال گزرنے کے بعد، سورہ احزاب کی آیت نمبر ۵ اور ۶ " اُدعوُهم لِآبائِهِم هُوَ اَقسَطُ عِندَاللَهِ فَاِن لَم تَعلَموُا اَبآئَهُم فَاِخوانُکُم فی الدین وَ مَوالیکُم وَ لَیسَ عَلَیکُم جُناح فیما اَخطاتُم بِهِ وَ لَکِن ما تَعَمَدَت قُلوبُکُم وَکان اللهُ غَفورا رَحیما " و " اَلنَبی اَولی بِالمومِمنین مِن اَنفُسِهِم وَ اَزواجُهُ اُمَهَتُهُم وَ اوُلوا الاَرحامِ بَعضُهُم اَولی بِبَعض فی کِتَب الله مِنَ المُومنین وَ المُهَجِرین الا اَن تَفعَلوا اِلی اَولیائِکُم مَعروفا کان ذَلِکَ فی الکِتَبِ مَسطُورا"{ ان بچوں کو ان کے باپ کے نام سے پکارو کہ یہی خدا کی نظر میں انصاف سے قریب تر ہے اور اگر ان کے باپ کو نہیں جانتے ھو تو یہ دین میں تمھارے بھائی اور دوست ہیں اور تمھارے لئے اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے جو تم سے غلطی ھوگئی ہے البتہ تم اس بات کے ضرور ذمہ دار ھو جو تمھارے دلوں نے قصدا انجام دی ہے اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے- بیشک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کی بہ نسبت زیادہ اولی ہے اور ان کی بیویاں ان سب کی مائیں ہیں اور مومنین و مہاجرین میں سے قرابتدار ایک دوسرے سے زیادہ اولویت اور قربت رکھتے ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ نیک برتاو کرنا چاھوتو کوئی بات نہیں ہے یہ بات کتاب خدا میں لکھی ھوئی موجود ہے} کے مطابق یہ حکم منسوخ ھوا اور قرار پایا منہ بولے بیٹوں کو اپنے اصلی باپ کے نام سے پکارا جائ اور اس کے بعد زید کو زید بن حارثہ کے نام سے پکارا گیا-
زینب بنت جحش سے زید بن حارثہ کی ازدواج:
رسول خدا{ص} نے زید سے محبت کی بناپر فیصلہ کیا کہ زید کے لئے ایک شریک حیات کا انتخاب کریں اور اسی وجہ سے کسی کو زینب بنت جحش کے پاس خواستگاری کے لئے بھیجا- زینب اور ان کے رشتہ داروں نے پہلے خیال کیا کہ شاید پیغمبر {ص} نے اپنے لئے خواستگاری کی ہے اور خوشحال ھوکر مثبت جواب دیا – لیکن جب انھیں معلوم ھوا کہ یہ خواستگاری زید بن حارثہ کے لئے ہے، تو پشیمان ھوکر آنحضرت {ص} کو پیغام بھیجا کہ یہ ازدواج ہمارے خاندان کی شان و حیثیت کے خلاف ہے اور اس طرح اس رشتہ کے لئے آمادہ نہیں ھوئی اور جب سورہ احزاب کی ۳۶ ویں آیت":وَ ما کان لِمومِن وَ لا مومِنَه اِذا قَضَی اللهُ وَ رَسوُلُهُ اَمرا اَن یَکُونَ لَهُمُ الخِیَرَهُ مِنَ اَمرِهِم وَ مَن یَعصِ اللهَ وَ رَسُولَهُ فَقَد ضَلَ ضَلَلا مُبینا"{ اور کسی مومن مرد یا عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول کسی امر کے بارے میں فیصلہ کردیں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحب اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی کرے گا وہ بڑی کھلی ھوئی گمراہی میں مبتلا ھوگا} نازل ھوئ، تو زینب بنت جحش نے اس ازدواج کے لئے اپنی رضامندی کا اعلان کیا اور اس طرح زید کی شریک حیات بنیں-
ایک مدت کے بعد ان دو کے درمیان کچھ مشکلات پیدا ھوئے- زید نے پیغمبر اکرم {ص} کی خدمت میں شکایت کی اور زینب بنت جحش کو طلاق دینا چاہا- لیکن پیغمبر اسلام {ص} نے اسے صبر و تحمل کرنے کی نصیحت کی اور فرمایا: " اپنی شریک حیات کو نہ چھوڑنا :" اَن زیدا جاء یشکوا زوجتُهُ فَجَعَلَ النَبی یقُولُ: اِتَقِ الله وَ اَمسِک عَلیک زوجک" ایک مدت کے بعد زید پھر سے پیغمبر اکرم {ص} کی خدمت میں آگیے اور خبر دیدی کہ ان کے اور زینب کے درمیان روابط انتہائی حد تک خراب ھوئے ہیں اور دونوں طلاق کے نتیجہ پر پہنچے ہیں- اس وقت پیغمبر اسلام {ص} پر وحی نازل ھوئی اور خداوند متعال نے یوں ارشاد فرمایا: وَ اِذ تَقول لِلَذی اَنعَمَ اللهُ عَلَیهِ وَ اَنعَمت عَلَیهِ اَمسِک عَلَیکَ زَوجَکَ وَ اتَقِ اللهَ وَ تُخفی فی نَفسِکَ ما اللهُ مُبدیهِ وَ تَخشَی النَاسَ وَ اللهُ اَحَقُ اَن تَخشَهُ فَلَمَا قَضَی زَید مِنهَا وَطَرا زَوَجنَکَهَا لِکَی لایَکونَ عَلَی المومنینَ حَرَج فی اَزوَاجِ اَدعِیائِهِم اِذا قَضَوا مِنهُنَ وَطَرا وَکان اَمرُ اللهِ مَفعُولا}( احزاب،۳۷ }اور اس وقت کو یاد کرو جب تم اس شخص سے جس پر خدا نے بھی نعمت نازل کی اور تم نے بھی احسان کیا یہ کہہ رہے تھے کہ اپنی زوجہ کو روک کر رکھو اور اللہ سے ڈرو اور تم اپنے دل میں اس بات کو چھپائے ھوئے تھے جسے خدا ظاہر کرنے والا تھا اور تمھیں لوگوں کے طعنوں کا خوف تھا حالانکہ خدا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے اس کے بعد جب زید نے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے اس عورت کا عقد تم سے کردیا تاکہ مومنین کے لئے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے عقد کرنے میں کوئی حرج نہ رہے جب وہ لوگ اپنی ضرورت پوری کرچکیں اور اللہ کا حکم بہرحال نافذ ھوکر رہتا ہے}
جس چیز کو پیغمبر اسلام {ص} لوگوں کے خوف سے چھپاتے تھے، وہ کیا تھی؟ خداوند متعال ایک حکم کو ثابت کرنا چاہتا تھا اور لوگوں کو ایک دوسرا طریقہ کار سکھانا چاہتا تھا، جو ایام جہالت کے احکام و آداب کے خلاف تھا- اگر عرب کسی کو منہ بولا بیٹا بناتے تھے، اسے اپنی نسبت دیتے تھے اور اس کو اس کے اصلی باپ سے منسوب نہیں کرتے تھے- اس امر کا سورہ احزاب کی آیت نمبر ۴۰ میں ذکر کیا گیا ہے:" ما کان مُحَمَد اَبا اَحَد مِن رِجَالِکُم وَلَکِن رَسُولَ اللهِ وَ خَاتَمَ النَبیینَ وَ کانَ اللهُ بِکُلِ شَی ء عَلیمَا" {محمد تمھارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں اور اللہ ہر شے کا خوب جاننے والا ہے} خداوند متعال اس رسم و رواج کو خاتمہ بخش کر اسلام میں نئے معارف کی بنیاد ڈالنا چاہتا تھا- بہر حال زینب بنت جحش زید بن حارثہ سے جدا ھوئیں-
زینب بنت جحش سے رسول خدا {ص} کی ازدواج:
خداوند متعال نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو وحی فرمایا کہ چونکہ زینب نے خدا کی رضامندی کے لئے عربوں کے رسوم اور اپنی مرضی کے خلاف ایک ایسے شخص سے ازدواج کی تھی جو اس کے مقام و منزلت سے پست تر تھا، اس لئے خدا وند متعال نے اسے اکرام بخشا ہے اور وہ آپ {ص} کی بیوی بن جائے گی-
جناب زینب بنت جحش مہاجر خاتون تھیں اور ان کا تعلق مکہ کے شریف خاندان سے تھا- انھوں نے ھجرت کےتیسرے یا پانچویں سال میں، وحی الہی کے مطابق ۳۵ سال کی عمر میں رسول خدا {ص} سے ازدواج کی- زینب بنت جحش نے اس نعمت کے شکرانہ کے طور پر دو مہینے تک روزے رکھے-
جناب زینب بنت جحش، پیغمب اسلام {ص} کے ساتھ ازدواج کرنے کے بعد فخر و مباہات کا اظہار کرتی تھیں اور پیغمبر اکرم {ص} کی دوسری بیویوں سےبار ہا خطاب کرکے فرماتی تھیں:" میں آپ خواتین سے فرق رکھتی ھوں، کیونکہ آپ کو آپ کےخاندان والوں نے پیغمبر اکرم {ص} کے عقد میں قرار دیا ہے، لیکن مجھے خداوند متعال نے سات آسمانوں سے پیغمبر اسلام {ص} کے عقد میں قرار دیا ہے-" فکانت تفخر علی ازواج النبی "ص" و تقول: زوجکن اهالیکن و زوجنی الله من فوق السموات"
جناب عائشہ کہتی ہیں:" پیغمبر اکرم {ص} کی بیویوں میں سے زینب کے علاوہ کوئی میرا مقابلہ نہیں کرسکتی تھیں-"
رسول خدا {ص} اپنی اس بیوی کو " آواہ" کہتے تھے، یعنی متواضع اور متفرح – جناب عائشہ، ان کے بارے میں یوں کہتی ہیں:" :" ما رایتُ امراه قط خیرا فی الدین من زینب ، و اتقی لله، و اصدق حدیثا، و اوصَلُ للرحم، و اعظم امانه و صدقه " " میں زینب سے دیندار تر، باتقوی تر، صادق تر، ارحام دوست تر، امین تر اور زیادہ صدقہ دینی والی کسی عورت کو نہیں جانتی ھوں-"
جناب زینب صالح اور پرہیزگار ھونے کے ضمن میں ایک محنت کش اور فعال خاتون تھیں- وہ چمڑے کی رنگسازی کرنے اور سلائی میں مہارت رکھتی تھیں اور وہ روزہ داری اور شب بیداری میں مشہور تھیں-
دستکاری کی ماہر تھیں اور اس سے حاصل کی گئی کمائی کو فقراء اور محتاجوں میں صدقہ کے طور پر تقسیم کرتی تھیں، ان سب سے بالا تر یہ کہ وہ احادیث کی راوی تھیں اور انھوں نے پیغمبر اسلام {ص} سے گیارہ ہزار احادیث نقل کی ہیں-
پیغمبر اکرم {ص} کی رحلت کے بعد جناب زینب کی زندگی:
پیغمبر اکرم {ص} کی دوسری بیویوں کی بہ نسبت جناب زینب کے زیادہ خصوصیات کی مالک ھونے کی دلیل یہ تھی وہ حضرت خدیجہ {س} کے بعد دولتمند ترین خاتون تھیں اور فقیروں اور حاجتمندوں کی کافی مدد کرتی تھیں-
خداوند متعال نے جناب زینب بنت جحش کے خاندان کو دولت عطا کرکے، جناب زینب کی حالت بہتر بنائی تھی اور خدا کی یہ عنایت اس کے لئے مسلسل جاری تھی- جناب زینب چمڑے کے کام اور چٹائی بننے میں ماہر تھیں اور اس سے حاصل کی گئی کمائی کو فقیروں اور محتاجوں میں صدقہ کے طور پر تقسیم کرتی تھیں اور اس کے علاوہ پیغمبر اسلام {ص} کی دوسری بیویوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتی تھیں-
ایک دن پیغمبر اسلام {ص} اپنی بیویوں کے ساتھ تشریف فرماتھے، کہ فرمایا: " آپ میں سےجس کا ہاتھ دراز تر ہے وہ سب سے پہلے بہشت میں مجھ سے ملحق ھوگی-"
پہلے مرحلہ میں، پیغمبر اسلام {ص} کی اس فرمائش سے سبوں نے اس کے ظاہری معنی لئے اور اپنے ہاتھ باہر نکال کر دیکھنے لگیں کہ کس کا ہاتھ دراز تر ہے، لیکن بعد میں معلوم ھوا کہ پیغمبر اکرم {ص} کا مراد وہ ہے کہ جو ان میں سے زیادہ تر راہ خدا میں انفاق کرتی ہے- جناب زینب بنت جحش، پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد برابر با تقوی تھیں اور فقراء اور محتاجوں کی مدد کرتی تھیں- جناب زینب کی سخاوت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے دوسرے خلیفہ، جناب عمر بن خطاب کے زمانہ میں پیغمبر اکرم {ص} کی بیویوں کو ملنے والے وظیفہ سے استفادہ نہیں کیا ہے- لیکن ایک سال ان سے بارہ ہزار درہم وصول کرکے یتیموں میں تقسیم کیے اور دعا کی:" خداوندا؛ اس کے بعد مجھے عمر کے وظیفہ کا محتاج نہ بنانا، کیونکہ مال فتنہ ہے-"
پیغمبر اسلام {ص} کی بیویوں کو، جناب زینب بنت جحش کے سنہ ۲۰ ھجری میں ۵۲ سال کی عمر میں اس دنیا سے رحلت کرنے کے بعد معلوم ھوا کہ وہ سب سے سخاوتمند تر تھیں، کیونکہ رحلت کے بعد انھوں نے کوئی درہم و دینار اپنے پیچھے نہیں چھوڑا تھا اور اپنی پوری دولت راہ خدا میں صرف کی تھی-
ام المومنین جناب زینب بنت جحش کو قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گیا ہے-
ترتیب و پیشکش: شہیدہ بزرگی
سات سو روہنگيا مسلمان بے دخل
حکومت تھائي لينڈ نے پناہ کي تلاش ميں سمندري راستے سے آنے والے سات سو روہنگيا مسلمانوں کو بے دخل کرنے کا اعلان کرديا ہے-
جرمن نيوز ايجنسي کے مطابق تھائي پوليس کے سربراہ نے بتايا ہے کہ ميانمار کے روہنگيا مسلمانوں کي يہ تعداد غير قانوني طور پر ملک ميں داخل ہوئي ہے اور ہم انہيں بے دخل کرنے کا ارادہ رکھتے ہيں-
تھائي لينڈ کي پوليس نے جمعرات کے روز تين سو ستانوے روہنگيا مسلمانوں کو جنوبي تھائي لينڈ ميں انساني اسمگلروں کے قبضے سے رہا کرايا تھا جبکہ اس علاقے کي ايک مسجد ميں پناہ ليئے ہوئے تين سو سات ديگر روہنگيا مسلمانوں کو گرفتار کرليا تھا- انساني حقوق کي عالمي تنظيموں نے حکومت تھائي لينڈ کے اس فيصلے پر کڑي نکتہ چيني کي ہے-
واضح رہے کہ ميانمار کے روہگيا کہلائے جانے والے مسلمانوں کو مقامي آبادي اور حکومت کي جانب سے تشدد اور امتيازي سلوک کا سامنا ہے جس کے تنيجے ميں ان کي بہت بڑي تعداد ملک سے فرار ہوکر ديگر ملکوں ميں پناہ لينے پر مجبور ہيں-
ترکی میں امریکی فوجیوں کی قران سوزی کی مذمت
ترکي کي انجر ليک فوجي چھاوني ميں امريکي فوجيوں کے ہاتھوں قرآن سوزي اور ايک مسجد کے منبر کو جلائے جانے کے بعد ترک عوام ميں غم و غصہ پايا جارہا ہے۔
ترکي ميں ايک مقامي مذہبي ميگزين کي جانب سے اس انکشاف کے بعد ، ترکي کے مذہبي اور قوم پرست حلقوں نے امريکي فوجيوں کے اس گستاخانہ اقدام پر حکومت اور فوج کے ذمہ داروں سے وضاحت پيش کرنے کا مطالبہ کيا ہے ۔
ترکي کے ايک مقامي رسالے چوکوراوا نے اپنے تازہ شمارے ميں لکھا کہ امريکي فوجيوں نے نئے عيسوي سال کے موقع پر ترکي کي انجرليک فوجي چھاوني ميں قرآن مجيد اور مسجد کے منبر کو جلا ديا جس کے بعد ترکي ميں ، شہري تنظيموں اور اسلامي حلقوں نے انقرہ حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے اس گستاخي پر فوج کي خاموشي کي سخت مذمت کي ہے ۔
ترکي کي مختلف سياسي جماعتوں اور ديني تنظيموں نے بيان جاري کرکے امريکي فوجيوں کي شرمناک کارروائي کي سخت الفاظ ميں مذمت کي ہے۔