Super User

Super User

ایرانی نیشنل سکیورٹی کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات میں شامی صدر کا کہنا تھا کہ دمشق کے فوجی تحقیقاتی مرکز پر اسرائیلی حملہ شام کو عدم استحکام سے دوچار کرنیکی کوشش تھی۔

شام کے صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ دمشق کے نزدیک آرمی ریسرچ سنٹر پر اسرائیلی فضائی حملہ شام کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش تھی۔ آج دمشق میں ایرانی نیشنل سکیورٹی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر سعید جلیلی کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں شامی صدر نے پہلی مرتبہ اسرائیلی حملے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جمرایا آرمی ریسرچ سنٹر پر اسرائیلی جارحیت نے شام میں غیر ملکی حمایت سے لڑنے والے باغیوں کی ماہیت کو آشکار کر دیا ہے۔ شامی صدر کا کہنا تھا کہ ان کی فوج موجود خطرات اور جارحیت سے مقابلے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ بشار الاسد کا یہ بیان شام کی طرف سے 31 جنوری کو اقوام متحدہ کو دی جانے والی اس وارننگ کے بعد آیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ شام اس اسرائیلی جارحیت کا چونکا دینے والا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

ایرانی نیشنل سکیورٹی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر سعید جلیلی نے شامی صدر کو اسرائیل کے مقابلے کے لئے ایران کی مکمل حمایت کا یقین دلایا اور غیر ملکی سازششوں اور منصوبوں کے خلاف مقابلے کی ضرورت پر زور دیا، جن کا مقصد شام کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے۔ انہوں نے شامی صدر کو یقین دلایا کہ صیہونی حکومت کی جارحیت سے مقابلے کے لئے جہان اسلام شام کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ اپنے اس دورے میں ایرانی نیشنل سکیورٹی کے سیکرٹری جنرل نے شام کے وزیر خارجہ ولید المعلم سے بھی ملاقات کی۔

شامی فوج نے اعلان کیا تھا کہ بدھ کو دمشق کے نزدیک جمرایا میں ہونے والے اسرائیلی فضائیہ کے حملے میں دو فوجی جاں بحق اور پانچ زخمی ہوئے تھے۔ جمعرات کے روز شام کی وزارت خارجہ کی طرف سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو لکھے جانے والے خط میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل اور اس کے وہ حمایتی جو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں اسے بچانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اسرائیلی جارحیت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کے پوری طرح ذمہ دار ہیں۔ جمعرات کے دن ہی شام نے سلامتی کونسل سے کہا تھا کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار ملک کے خلاف ہونے والی اسرائیلی جارحیت کی کھل کر مذمت کرے، کیونکہ اسرائیل کی یہ حرکت اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کے موقع پر عشرہ فجر سے موسوم تقریبات کے تیسرے دن ایرانی ماہرین کے ہاتھوں تیار شدہ مقامی طیارے قاہر تین سو تیرہ کی رونمائي کی گئي۔ اس طیارے کی رونمائي کی تقریب سے صدر مملکت ڈاکٹر احمدی نژاد نے خطاب کیا اور اس میں وزیر دفاع اور مسلح افواج کے دیگر اعلی عھدیداروں نے شرکت کی۔ صدر احمدی نژاد نے نئے طیارے کی تقریب رونمائی کے موقع پر کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی توانائياں اور دفاعی ترقی کسی بھی ملک کے خلاف جارحیت کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ ڈیٹرینٹ نوعیت کی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے کہاکہ نئے طیارے قاہر تین سو تیرہ کی ڈیزائيننگ اور تیاری ملت ایران کی خود اعتمادی، بیداری اور ترقی کی طرف گامزن رہنے کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کامیابی اس قوم نے حاصل کی ہے جو کئي ہزار برسوں پر مشتمل تاریخ اور تہذیب وتمدن کی حامل ہے ۔صدر جناب احمدی نژاد نے کہا کہ یہ کامیابی ایسے عالم میں حاصل ہوئي ہے جبکہ ملت ایران دنیا میں اپنی مثال آپ ہے اور کوئي طاقت اس پر حملہ کرنے کی جرات نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا کہ قاہر تین سو تیرہ طیارے کی رونمائي اس بات کی علامت ہےکہ ایران کے ماہرین نےعلم و سائنس اور ترقی کی بہت سی رکاوٹوں کو عبور کرلیا ہے اور آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس تقریب سے وزیر دفاع جنرل احمد وحیدی نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ قاہر تین سو تیرہ جنگي طیارے کو راڈار نہیں پکڑسکتے اور یہ الٹرا ماڈرن طیارہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع نے کہا کہ ایران ساری دنیا میں اپنے مفادات کا دفاع کررہا ہے۔ جنرل وحیدی نے کہا کہ قاہر تین سو تیرہ جنگي طیارہ حملے کرنے کی اعلی ترین توانائيوں کا حامل ہے یہ طیارہ وزارت دفاع کے ماہرین کے نبوغ، خلاقیت اور جرات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ واضح رہے اس سال عشرہ فجر میں وزارت تیل میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا قومی انسٹی ٹیوٹ کی حیثیت سے آغاز بھی ہوا ہے اور کاربن کی آٹھ نینو مصنوعات کی بھی رونمائي ہوئي جواسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں بنائي گئي ہیں، اس انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح اور نینو مصنوعات کی رونمائي صدر مملکت ڈاکٹر احمدی نژاد نے کی۔ ایران میں وزارت تیل کا نیشنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ مشرق وسطی کا سب سے اہم اور دنیا کے پانچ پیشرفتہ ترین ریسرچ انٹسی ٹیوٹس میں ایک ہے۔ اس انسٹی ٹیوٹ میں تیل کے سوکھے کنووں سے دوبارہ تیل نکالنا، فرسودگي اور معدنی املاح سے کنووں کو صاف کرنے کے بارے میں فیلڈ ریسرچ ، قدرتی گيس کو مایع گيس میں تبدیل کرنے ، گيس کو ایک مرحلے میں میٹھا بنانے جیسے شعبوں میں تحقیقات کی جارہی ہیں۔ گذشتہ شب ایران کے جنوب مغربی شہر آبادان میں آبادان ریفائنری میں ہائي آکٹین پٹرولیم تیارکرنے کے یونٹ کا بھی افتتاح ہوا۔ اس کے علاوہ ایرانی ماہرین کی بنائي ہوئي کئي دواؤں کی بھی رونمائي کی جانے والی ہے۔ ایران کی وزارت صحت کے مطابق ایران میں ملک کی ضرورت کی چھیانوے فیصد دوائيں تیار کی جارہی ہیں۔ یاد رہے عشرہ فجر کے آغاز سے ایک دن قبل ایرانی ماہرین نے پیشگام نامی راکٹ خلا میں بھیجا تھا، اس راکٹ کے ساتھ بایو کیپسول بھی خلا میں بھیجا گيا ہے۔ علم وصنعت یونیورسٹی آف ٹکنالوجی کے چانسلر نے کہا ہے کہ آئندہ گرمیوں میں ظفر نامی سیٹیلائيٹ زمین کے مدار میں بھیجا جائے گا۔یہ سٹیلائیٹ علم وصنعت یونیورسٹی آف ٹکنالوجی میں تیار کیا جارہا ہے۔ وزارت صنعت و معدنیات و تجارت کے مطابق گذشتہ برس سے لیکر اس سال اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ تک ملک میں تقریبا پانچ ہزار صنعتی یونٹ قائم کئے گئے ہیں جن سے تراسی ہزار افراد کو روزگار ملا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی صنعتی، سائنسی اور دفاعی ترقی کے جو نمونے پیش کئے گئے ہیں وہ مشتی از خروار کا مصداق ہیں اور اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ ایران نے مغرب کی پابندیوں اور سائنس وٹکنالوجی کی راہ میں موجود رکاوٹوں کے باوجود کافی ترقی کی ہے اور یہ سلسلہ خدا کے فضل و کرم سےجاری ہے۔

عشرہ فجر انقلاب اسلامی اور حضرت امام خمینی (رہ) کی وطن واپسی کی سالگرہ کے موقع پر رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کے مزار پر پہنچ کر ان کے لئے سورہ فاتحہ کی تلاوت کی اور انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد ساتویں تیر کے شہداء کے مزار اور بہشت زہراء کے شہداء کی قبور پر بھی فاتحہ خوانی کی اور اللہ تعالی سےدعا ان کی ارواح کے درجات کی بلندی کے لئے کی۔

اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے ستاروں کو بنایا تاکہ تم ان کے ذریعے بیابانوں اور دریاؤں کی تاریکیوں میں راستے پاسکو۔ بیشک ہم نے علم رکھنے والی قوم کے لئے (اپنی) نشانیاں کھول کر بیان کر دی ہیں. [انعام، 97]

موسسۂ آل البیت للفکر الاسلامی کے سوالات کا جواب

سوال ۱ : جو مذاھب سنی نہیں ہیں کیاانہیں حقیقی اسلام کا جزو مانا جاسکتا ھے ؟

سوال ۲ : ھمارے زمانے میں کسی کو کافر کہنے کے کیا حدود ہیں ؟

الف : کیا روایتی اور قدیم مذاھب کے پیروکاروں کی تکفیر کرنا جائز ہے ؟

ب : کیا تصوف کی حقیقی طریقت کے سالکوں اور پیرووں کی تکفیر جائز ہے ؟

ان دو سوالوں نے مسلمانوں کے درمیان بحران پیدا کرکے ان کی صفوں میں انتشار پیدا کردیا ہے تمام مسلمین ایک امت ہیں جو ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں ان کی طرف بھیجی گئی کتاب قرآن ہے ان کا قبلہ بھی ایک ہے ان کے اصول دین پانچ ہیں خدا و رسول و معاد کی گواھی اور نماز ، زکات ، روزہ اور حج ۔ جو بھی ان اصول کو تسلیم کرتا ہے اور اس کا پابند ہے ، مومن ہے چاہے جس مذھب کا تابع ہو درحقیقت قرآن و سنت کی فہم کے مطابق کہ جو دین اسلام کا منبع ہیں اجتہاد ی مذاھب وجود میں آئے ہیں گرچہ اجتھاد کی راہیں گوناگوں ہیں اور مذاھب کے پیشوا تفسیر ، تاویل ، اقوال و آراء کے درمیان ترجیح دینے کے اصول و قواعد میں اختلاف نظر رکھتے ہیں اور اللہ کا یہ ارشاد اسی حقیقت کی عکاسی کررہاہے:

"يَا ایھا الَّذِينَ آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللہ وَ رَسُولہ وَ الْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولہ وَ الْكِتَابِ الَّذِيَ اَنزَلَ مِن قَبْلُ وَ مَن يَكْفُرْ بِاللہ وَ مَلاَئِكَتہ وَ كُتُبہ وَ رُسُلہ والیوم الآخر فقد ضل ضلالا بعید ۔

ایمان والو اللہ رسول اوروہ کتاب جو رسول پر نازل ہوئي ہے اور وہ کتاب جو اس سے پہلے نازل ہوچکی ہے سب پر ایمان لے آو اور یاد رکھو کہ جو خدا، ملائکہ، کتب سماویہ، رسول اور روز قیامت کا انکار کرے گا وہ یقینا گمراہی میں بہت دور نکل گیا ہے ۔

یہ اصول ایمان تک پہنچنے کے لئے اساس و بنیاد ہیں اور کوئی بھی انسان اس وقت تک مومنین کے زمرہ میں شامل نہیں ھوسکتا جب تک کہ وہ خالق متعال کے وجود ، رسول خدا کی بعثت ، قرآن کی حقانیت اور قرآن سے پہلے نازل ھونے والی آسمانی کتابوں پر ایمان نہ لے آئے ۔

اور کفر بھی وہی چیز ہے جس کا آیت کے ذیل میں صراحت سے تذکرہ کیا گیا ہے :

(وَ مَن يَكْفُرْ بِاللّهِ وَ مَلاَئِكَتِهِ وَ كُتُبِهِ و َرُسُلِهِ وَ الْيَوْمِ الآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًا) اس آیت کی نظر میں جواعمال کفر سے توصیف ہوئے ہیں وہ سب کے سب مجاز ھیں اور فقھاء و متکلمین نے صرف لوگوں کے گناھان کبیرہ اور دیگر معاصی کا مرتکب نہ ہونے اور ان کے اندر گناہوں سے نفرت پیدا کرنے نیز انہیں حتیٰ الامکان برائیوں اوران کی تباہی سے بچانے کے لئے بہت سےگناہوں کو کفر سے تعبیر کیا ہے اور چونکہ اس طرح کے اعمال و کردار انسانوں کے ایمان پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے بڑے خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں اور سچے ایمان کہ جس کی طرف خدا و رسول نے قرآن و حدیث میں دعوت دی ہے اسکے ستونوں کے منہدم ہونےاور ان کے انکار پر منتہی ہوتے ہیں یہ بھی کہتے چلیں کہ یہ شدید تعبیریں بھی شرعی نصوص یعنی قرآن و حدیث سے اخذ ہوئی ہیں ۔

بعض گناہوں کے مجازی کفر ہونے پر دلیل ابن قدامہ کا کلام ہے کہ جو بےنمازی سے نفی کفر کے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کی نسبت اکثر فقھاء جیسے ابوحنیفہ ، مالک ، اور شافعی کی طرف دیتے ہیں۔ آپ متفق علیہ احادیث سے استدلال کرتے ہیں کہ جو لا الہ الا اللہ کہنے والوں پر جھنم کی آگ کو حرام قرار دیتی ہیں اور جہنم سے نکلنے کا سبب لا الہ الا اللہ کہنے کو جانتی ہیں اور یہ کہ انسان کے دل میں نیکی بھی ہو چاہے ایک دانہ گندم کے بارابر ہی ہو ۔ آپ صحابہ اور اجماع مسلمین سے بھی اپنی بات پر استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں : ہم نے کسی زمانے میں نہیں دیکھا کہ کسی بےنمازی کو مسلمانوں نے غسل نہ دیا ہو اور اس کی نماز جنازہ نہ پڑہی ہو اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا ہو یا اس کے ورثہ کو میراث سے منع محروم کردیا ھو یا ورثہ کے مرجانے پر اسے میراث سے محروم کردیا ہو، کسی میاں بیوی کے اندر بےنمازی ہونے کے ناطے جدائی ڈال دی ہو جبکہ تارک الصلاۃ بہت ہیں اور اگر وہ واقعا کافر ہوتے تو ان پر یہ سارے قانون لاگو ہوتے۔

ابن قیم مدارج میں لکھتے ہیں : کفر دو طرح کا ہوتا ہے : کفر اکبر اور کفر اصغر کفر اکبر جہنم میں ہمیشہ جلنے کا باعث ہوتا ہے اور کفر اصغر جہنم میں ہمیشہ جلنے کے بغیر عذاب کا انتباہ ہوتا ہے ۔

اشاعرہ اور صوفیوں کے بارے میں ہماری رائے

اشاعرہ ، مذہب اہل سنت سے قریب ترین ہیں اور مسلمانوں کی بھاری اکثریت انہیں کے عقاید کی تابع ہے ابوالحسن اشعری بدعتوں کا مقابلہ کرتے تھے وہ عقاید میں بہت سی کتابوں کے مولف اور سنت کے طرفداروں میں سے تھے اور سنت کی نقلی دلیلوں کے علاوہ عقلی دلیلوں کو بھی استعمال کرتے تھے۔ اھل سنت اور اشاعرہ کے درمیان خداکے بعض صفات میں اختلاف کا سرچشمہ طریقۂ اجتھاد میں تفاوت ہے امام اشعری بڑی قیمتی کتابوں جیسے الابانۃ ، الموجز و المقالات کے مولف ہیں کہ جن میں انہوں نے ملحدوں کے عقاید اور اھل بدعت کے گروہوں جیسے معتزلیوں جھمیوں اور دوسروں کی تردید کی ہے ، ان کے جیسا شخص اگرچہ اسلامی عقاید پیش کرنے کی روش میں دوسروں سے اختلافات رکھتا ہے لیکن کبھی بھی مسلمانوں سے جدائی کا متہم نہیں ھو سکتا ہے ۔

صوفی لوگوں میں جو حق کے پرستار ہیں اورانہیں عقاید و اعمال کے پابند ہیں جو سارے مسلمین قبول کرتے ہیں لیکن ان کے وہ گروہ جو دین میں بدعت پھیلاتے ہیں وہ بدعتیں جن کی خدا نے اجازت نھیں دی ہے اسی لئے بہت سے اھل سنت نے ان کی طریقت میں ان کی ہمراہی کرنے سے گریز کیا ہے ۔

سوال ۳ : کون اسلام میں فتویٰ دے سکتا ہے ؟ لوگوں کو احکام شریعت کی طرف رھنمائی اور امر فتویٰ کے عھدہ کو سنبھالنے کی بنیادی شرطیں کیا ہیں اور مفتی کی تعریف کیاہے؟

جواب : مفتی وہ شخص ہے جس کے اندر وقایع کے درک کرنے اور ان سے متعلق شرعی احکام کی شناخت از روی دلیل آسانی سے بیان کرسکے اور فقہ کے اکثر مسایل کا حافظ ہو ۔

وہ بہت اہم اور بلند مرتبےکا حامل ہوتا ہے وہ علم پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وارث اور پروردگار عالم کی طرف سے احکام بیان کرنے والا ھوتا ہے خدا کے احکام کو بیان کرتا ہے اور ان کو لوگوں کے اعمال و کردار پر تطبیق دیتا ہے اسی لئے وہ اھل ذکر میں شمار کیا گیا ہے جن کی طرف رجوع کرنے کا خدا نے حکم صادر فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے :

(فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ) اھل ذکر سے پوچھو اگر نھیں جانتے۔

اور چونکہ مفتی ایسی عظمت و منزلت کا حامل ہے علماء نے ایسے شخص کے لئے جو اپنے آپ کو فتویٰ دینے کی منزل میں قرار دیتا ہے بہت سی شرطیں رکھی ہیں تاکہ اجتھاد کی صلاحیت کے علاوہ دیگر آداب و خصوصیت کا حامل ھونابھی ضروری ہے ۔ بعض شرطیں یہ ہیں :

پھلی : شرط یہ ہے کہ مفتی مسلمان ، بالغ ، عادل ، قابل اعتماد ، امانت دار ، پاک دامن اور زاھد و پارسا ہو ۔ دین میں بدعت ایجاد کرنے والا نہ ھو فسق و فجور اور مردانگی و مروت کے خلاف کاموں سے منزہ و پاک ھو ۔ اس لئے کہ اگر ایسا نہ ھوگا تو اس کی باتیں نامناسب اور ناقابل اعتبار ہوں گی اور فاسق کی خبر غیر قابل قبول ہے ۔

دوسری : فتویٰ جاری کرنے میں غفلت اور تساہلی کا مرتکب نہ ہو کیونکہ جو شخص تساہلی اورغفلت برتتا ہو اور اس عیب سے مشھور ہوجائے اس سے فتویٰ لینا جائز نہیں ہے مفتی کے اوپر واجبات میں سے ایک یہ ہے کہ جب تک کسی موضوع کو مکمل طریقہ سے سمجھ نہ لے اور اس کے بارے میں مکمل طور سے بحث و جستجو نہ کر لے اس کےبارے اظھار نظر نہیں کرنا چاہیئے۔ ذیل کی حدیث سنن دارمی میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہے کہ : اجرئکم علیٰ الفتویٰ اجرئکم علیٰ النار تم میں فتوی دینے کے سلسلہ میں سب سے زیادہ جرئت و جسارت کرنے والا آتش جھنم کے سلسلہ میں سب سے زیادہ جری و گستاخ ہے ۔

تیسری : اسے سمجھدار عاقل ، سالم ذھن ، استوار فکر ، صریح و آشکار کلام اور واضح و روشن تحریر والا ہونا چاہیئے اپنے استنباط میں صحیح راستہ اپنائے اور زندگی کے تمام مراحل میں جملہ واقعات و حوادث کا بڑی ہوشیاری کے ساتھ جائزہ لے۔

چوتھی : عربی زبان اور کلام کے محل و مقام سے اس طرح آشنا ہو کہ اسے خدا و رسول ص کے خطابات کی مراد سمجھنے کی توانائی و صلاحیت پیدا ہوجائے کیونکہ اسلامی شریعت و قانون سازی کا یکہ و تنھا مدرک و منبع عربی زبان ہے ۔

پانچوین : اللہ کی کتاب قرآن کے اندر محکم و متشابہ ، عام و خاص مجمل و مفصل اور ناسخ و منسوخ سے اس طرح آشنا ہو کہ ان کے اندر وارد احکام اور ان کے مضامین کو سمجھ سکے ۔

چھٹی : رسول خدا کی سنت قولی و عملی اس کی روایت کا انداز کہ متواتر ہے یا خبر واحد ، صحیح ہے یا فاسد و باطل ، رجال حدیث عادل ہیں یا مجروح سب سے آشنا ہو ۔

ساتویں : گذشتہ فقھاء کے مسالک سے آشنا اور مقامات اجماع و اختلافات کو جانتا ہو تاکہ احکام کا تابع رہے اور اجماع کے خلاف فتویٰ نہ دے اور اختلافی جگہوں پر اجتھادی فکر کا حامل ہو ۔

آٹھویں : قیاس اور احکام کے علل و اسباب سے آشنا ہو تاکہ فروع کو اصول کی طرف پلٹا سکے اور جدید مسائل میں علم و معرفت کا راستہ کھول سکے ۔

نوین : ان آداب کا پابند ہو جنہیں فقھاء نے مفتیوں کے لئے بیان فرمایا ہے جیسے : غیض و غضب ، خوف ، بھوک ، حواس باختگی اور خطرات کے موقع پران سے دامن چھڑانےکی کوشش میں فتویٰ نہ دے تاکہ میانہ روی اور بھرپور جانچ پڑتال کی حالت سے خارج نہ ہو اور حکم صادر کرنے میں صرف خداوند متعال کی خوشنودی مد نظر رکھے اور یہ آیت کریمہ اس کا نصب العین رہے :

(وَ أَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ اللّهُ وَ لاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاءهُمْ وَ احْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللّهُ إِلَيْكَ ) اور ان کے درمیان اسی کے مطابق حکم کرو جس کا حکم خدانے تمھارے اوپر نازل فرمایا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو اور ان سے پرہیز کرتے رہو کہ کھیں وہ تمھیں اللہ کی بعض نازل کردہ چیزوں سے منحرف نہ کردیں ۔

متفی کو حرام یا شرعی مکروہ کی بنیاد پر فتوی نھیں دینا چاھئے اور نہ ہی اپنے فتووں میں دنیوی مفادات اور دفع ضرر کے جال میں پڑنا چاہیے اور نہ ہی وہ آمدنی نڑہانے کے لئے مباحات اور جواز کے چکر میں پڑے اسے چاہیئے کہ با وقار طریقہ سے فتویٰ صادر کرے تاکہ اس کے سامنے گستاخی و جرأت پیدانہ کریں مگر جھاں حکم خدا آشکار ھو ورنہ اسے چاھئے کہ مکمل چھان بین اور تحقیق و دقت سے کام لے تاکہ واضح جواب دے سکے اور اگر ایسانہ کرے اور فتویٰ صادر کرسکے تو اس کا یہ فتویٰ جہالت پر استوار ہوگا اور خدا و رسول ص پر افتراء کے برابر اور گناہ کبیرہ ھوگا اللہ کا ارشاد ھے :

( قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ وَ الإِثْمَ وَ الْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَ أَن تُشْرِكُواْ بِاللّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَ أَن تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ) کھ دو کہ میرے پروردگار نے برائیوں کو حرام قرار دیا ہے چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطنی اور گناہ ناحق سرکشی کو حرام اور خدا کا شرک قرار دینا کہ جس پر کوئی دلیل نازل نہیں ہوئی ہے اور جہالت کی بنیاد پر اللہ سے کسی چیز کے منسوب کرنے کو حرام قرار دیاہے۔

یہی وجہ ہے کہ بزرگوں سے پیہم نقل ہوا ہے کہ جب بھی ان سے کسی چیز کے متعلق سوال ہوتاتھا اور وہ اس کا جواب نہیں جانتے تھے تو کھ دیا کرتے تھے کہ میں نہیں جانتا ۔

اس کے علاوہ ذیل کی صفات کو بھی شرط کے طور اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

۱ ۔ مفتی کو چاہیئے کہ علم فقہ کو وسیع پیمانے پر حاصل کرچکا ہو اور فقہ میں میانہ روی اختیار کرے فقھی کتابوں کا مطالعہ کرکے مسائل کے سمجھنے کی نسبت کافی حد تک مہارت حاصل کرچکا ہو اور فقہ کے جزئی مسائل کی تحقیق میں ید طولیٰ رکھتا ہو ۔

۲ ۔ مورد نظر مسئلہ میں صادر شدہ اکثر فتاویٰ پر مکمل احاطہ و عبور رکھتا ہو اور محققین ، فقھاء اور مفتیوں کی کتابوں کو دیکھا ہو اور ایسے حکم کو ترجیح دے کہ جو فقھی اجتھاد میں قوی دلیل اور معتبر شرایط کی بنیاد پر صادر ہوا ہو اور شاذ و نادر اقوال کی طرف رجحان پیدا نہ کرے ۔

۳ ۔ وہ ھر حال میں شریعت کے مقاصد ، فقھی قواعد ، مسائل کے درمیان جزئی فرق اور صادرشدہ احکام کے نتائج کو ہمیشہ مدنظر رکھے ۔

۴ ۔ تمام فقھی مذاھب کی مورد اعتماد کتابوں خاص طور سے ان کی اصطلاحوں کی نسبت بھر پور طریقہ سے آگھی رکھتا ہو کیونکہ یہی اصطلاحیں فقھی نصوص کو سمجھنے کی کنجی ہیں ۔

۵ ۔ ذکر شدہ تمام مسائل کی پابندی پر شدید طرح سے ہو۔ خدا پسند راہ پرگامزن رہنے کے لئے اپنی پوری توانائی صرف کردے مومنین کے حال کی رعایت کرے کہ کہیں وہ مفتی نما کم مایہ افراد کے فتووں کی وجہ سے دشواریوں اور مشکلات میں گرفتار نہ ہو جائیں یہ سارے امور بنیادی مقصد میں بنیادی شرط کی حیثیت رکھتے ھیں ۔

خداوند متعال سے اطاعت اور رشد و ھدایت کی توفیق کا طلب گار ہوں ۔

وصلی اللہ علیٰ سیدنا و مولانا محمد و علیٰ آلہ و صحبہ و سلم

ڈاکٹر محمد حبیب بن خوجہ مجمع فقھ اسلامی کے مدیر اعلیٰ ۔

منبع : سايت تقريب

عالمی مجلس برائے تقریب مذاہب اسلامی نے مسلمان خواتین کا ادارہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔

مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق عالمی مجلس برائے تقریب مذاہب اسلامی کے سیکرٹری جنرل آیت اللہ محسن اراکی نے تہران میں چھبیسویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس میں شریک خواتین سے خطاب میں کہا کہ عالم اسلام کی موجودہ صورت حال میں فعال مسلم خواتین کے ادارے کے قیام کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس کی جا رہی ہے کیونکہ اس کے قیام سے گھرانوں کو متحد کرنے کا راستہ ہموار ہو گا اور دشمنوں کی سازشیں بھی ناکام ہوں گی۔ انہوں نے تہران میں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کے موقع پر خواتین کی علیحدہ کانفرنس کے انعقاد کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی طور پر اسلامی معاشرے کو بنانے میں خواتین کا اہم اور مؤثر کردار ہے اور اس پر خصوصی توجہ کی جانی چاہیے۔

دوسری جانب سوڈان کے صدر کے مشیر عبدالرحیم بن علی نے عالم اسلام میں مذاہب کے اتحاد پر زور دیا ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کے دوسرے روز کہا کہ دشمنان اسلام کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے اسلامی مذاہب کے درمیان مشترکات کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر قرآن کریم کو محور قرار دیا جائے تو مکمل طور پر واضح ہو جائے گا کہ آج بعض مذاہب کے درمیان جو اختلافات پائے جاتے ہیں وہ مکمل طور پر بےبنیاد ہیں اور انہیں نظرانداز کر دینا چاہیے۔

Saturday, 02 February 2013 09:52

عشرۂ فجر

31 جنوری 2013مطابق 12 بہمن اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی (رہ) کی 15 برسوں جلاوطنی کے بعد وطن واپسی اور عشرۂ فجر انقلاب اسلامی کا پہلا دن ہے۔

35سال قبل 12 بہمن 1357 ھجری شمسی مطابق 1978 ء کو اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی (رہ) نے 15 برسوں کی جلا وطنی کے بعد عوام کے والہانہ استقبال کے ساتھ ایران کی سرزمین پر قدم رکھا۔

ایران کے بیدار عوام نے آپکا بے نظیر استقبال کیا اور یہ کہا جا سکتا ھے کہ تاریخ میں لوگوں نے اپنے کسی بھی محبوب قائد کا اس پیمانے پر استقبال نہیں کیا تھا۔

حضرت امام خمینی (رہ) کی ایران آمد کو دس روز گزرنے کے بعد ایران کا شاندار اسلامی انقلاب 22 بہمن 1357 ء ھجری شمسی مطابق 10 فروری 1979 ء کو کامیابی سے ھمکنار ہوا،

اسی وجہ سے 12 بہمن یعنی حضرت امام خمینی (رہ) کی ایران واپسی سے لے کر 22 بہمن تک کے ایام کو عشرۂ فجر کا نام دیا گیا ھے اور ھر سال ان ایام میں جشن اور خصوصی تقاریب کا انعقاد ہوتا ہے۔

13 بہمن سنہ 1357 ہجری شمسی 1978 کو امریکی وزارت خارجہ نے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) کے ایران پہنچنے کے بعد آپ کے سب سے پہلے عوامی خطاب پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس تقریر کو امریکہ مخالف قرار دیا ۔

واضح رہے کہ 12 بہمن کو اپنے وطن واپس پہنچنے پر امام خمینی (رح) کا ایرانی عوام نے زبردست استقبال کیا اور شہدائے انقلاب اسلامی کے قبرستان بہشت زہرا میں ایرانی عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے خطاب کرتے ہوئے حضرت امام خمینی (رح) نے شاہ کی ظالم و جابر حکومت کی سب سے بڑی پشتپناہ امریکی حکومت کے خلاف اپنے کھلے موقف کا اظہار کیا تھا ۔

امریکی وزارت خارجہ کے بیان کے بعد صیہونی حکومت نے بھی حضرت امام خمینی (رح) کی ایران واپسی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ۔کیونکہ وہ بخوبی جانتی تھی کہ ایران کی انقلابی حکومت غاصب صیہونی نظام کی سخت ترین مخالف ہوگی سوویت روس کی سرکاری خبررساں ایجنسی " تاس " نے بھی امام خمینی (رح) کی ایران واپسی کی خبر دیتے ہوئے اعلان کیا کہ امام خمینی (رح) کی واپسی نے اس ملک میں انقلابی تحریک کو ایک تقدیر ساز مرحلے میں داخل کردیا ہے

 

14 بہمن سنہ 1357 ہجری شمسی کو جب ایران میں حضرت امام خمینی (رح) کی واپسی پر ہر جگہ جشن منائے جارہے تھے امام خمینی (رح) نے ایک انٹرویو میں اعلان کیا کہ وہ جلد ہی عبوری حکومت کی تشکیل کا حکم دینے والے ہیں ۔

حضرت امام خمینی (رح) نے اس انٹرویو میں یہ بھی فرمایا کہ عبوری حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ انتخابات کی راہ ہموار کرے اور آئین مرتب کرکے اسے ریفرنڈم کے لئے عوام کے سامنے پیش کرے اسی کے ساتھ امام خمینی (رح) نے شاہی حکومت کو خبردار کیا کہ اگر لوگوں کو زد و کوب کرنے کا سلسلہ حسب دستور جاری رہا تو وہ لوگوں کو جہاد کا حکم دے دیں گے ۔

 

 

15 بہمن سنہ 1357 ہجری شمسی کو انقلاب اسلامی کی کامیابی سے چند روز قبل بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے انقلاب اسلامی کی عبوری حکومت کی تشکیل کا حکم دیا ۔

امام خمینی (رح) نے عبوری حکومت کا اعلان کرتے ہوئے انقلاب اسلامی کے مجوزہ پروگراموں کا بھی اعلان فرمایا ۔ عبوری حکومت کے بنائے جانے کے وقت فوج کی بعض چھاؤنیوں میں امام خمینی (رح) اور عوامی انقلاب کے حق میں بعض واقعات رونما ہوئے اور شاہ کی حکومت کے کارندوں کی طرف سے کرفیو لگائے جانے کے باوجود سارے ملک میں وسیع پیمانے پر مظاہرے ہوتے رہے اور امام خمینی (رح) کی قیادت میں شاہ کی حکومت کو گرانے کے لئے عوام کی جد و جہد میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا

 

16 بہمن 1357 ہجری شمسی کو بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے انقلاب اسلامی کی عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کیا ۔امام خمینی (رح) نے عبوری حکومت کے اعلان کے ساتھ ،اسلامی انقلاب کے اہداف و مقاصد بھی بیان فرمائے ، آپ (رح) نے عبوری حکومت کو ہدایت کی کہ وہ ان انقلابی مقاصد کو مد نظر رکھے ۔

عبوری حکومت کے فرائض کے ضمن میں آپ (رح) نے ملک کے نظام حکومت کی تعیین کے لئے ریفرنڈم کرانے کا اعلان فرمایا ۔

اس کے علاوہ آئین کی تدوین کے لئے فقہا کی کونسل کی تشکیل اور مجلس شورائے اسلامی ( پارلیمنٹ ) کے انتخابات کے انعقاد کا بھی اہتمام کیا ۔امام خمینی (رح) کی طرف سے عبوری حکومت کے قیام کے اعلان کے ساتھ شاہی فوج کی بعض چھاؤنیوں میں اسلامی انقلاب اور امام خمینی (رح) کے حق میں مظاہرے ہوئے ۔شاہ کی طرف سے مارشل لاء اور جلسے جلوسوں پر پابندی کے قانون نافذ ہونے کے باوجود پورے ایران میں وسیع پیمانے پر جلوس نکلے اور مظاہرے ہوئے ، اور شاہی نظام کی سرنگونی کے لئے ایران کی مسلمان قوم کی تحریک آخری مراحل میں داخل ہوگئی

 

17 بہمن 1357 ہجری شمسی کو ایران میں انقلابی عبوری حکومت کے تشکیل دیئے جانے کے اعلان کے بعد ایران کے لاکھوں مسلمان عوام نے امام خمینی (رح) کے اس انقلابی فیصلے کی حمایت کا اظہار کرنے کے لئے مختلف شہروں میں مظاہرے کئے ۔

اس دن ایران کے عوام نے سڑکوں پر اجتماع کرکے شاہ کے پٹھو بختیار کی حکومت کی سرنگونی کا مطالبہ کیا ۔اسی دن امریکی جنرل ہائزر واپس امریکہ روانہ ہوگیا جو پہلوی حکومت کی بقا کی خاطر خاص طور سے تہران آیا تھا لیکن ایک ماہ تک شاہی جرنیلوں سے مل کر اسلامی انقلاب کو ناکام بنانے کے لئے تگ و دو کرنے کے باوجود وہ اپنے مشن میں ناکام رہا چنانچہ اس نے ایرانی عوام کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر خاموشی سے واپس چلے جانے میں اپنی عافیت سمجھی اور اسلامی انقلاب کی کامیابی سے صرف پانچ روز قبل واپس امریکہ لوٹ گیا

 

18 بہمن سنہ 1357 ہجری شمسی کو ایران کے مسلمان عوام نے بڑی تعداد میں امام خمینی (رح) سے ان کی رہائش گاہ میں ملاقات کرکے آپ سے تجدید عہد اور وفاداری کا اعلان کیا ۔ان دنوں پورے ایران میں بہت زیادہ جوش و خروش کا سماں تھا ۔تمام حالات تیزی سے رونما ہونے والی ایک تبدیلی کے غماز تھے ۔

اس دن عوام کے علاوہ فوجیوں کا ایک گروہ فوجی وردی میں ملبوس ہوکر امام خمینی (رح) کی خدمت میں حاضر ہوا اور امام خمینی (رح) کو فوج کا سپریم کمانڈر تسلیم کرتے ہوئے امام خمینی (رح) سے اپنی وفاداری کا اعلان کیا ۔

 

19 بہمن سنہ 1357 ہجری شمسی کو ایرانی فضائیہ کے افسروں کی ایک کثیرتعداد امام خمینی (رح) کی خدمت میں پہونچی اور امام خمینی (رح) اور انقلاب اسلامی کی حمایت کا اعلان کیا ۔ حضرت امام خمینی (رح) نے اس موقع پر ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : آج آپ لوگ قرآن سے آملے ہیں ۔ قرآن آپ کا محافظ ہے ۔ مجھے امید ہے کہ آپ کی مدد سے ہم ایران میں اسلامی حکومت قائم کرسکیں گے ۔اسی مناسبت سے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے 19 بہمن کو ایران میں یوم فضائیہ منایا جاتا ہے ۔یہ تاریخی ملاقات فوج میں انقلابی اور نظریاتی افراد کی موجودگي کا ثبوت تھی اور یہ ملاقات شاہی حکومت کے لئے خوف و ہراس کا باعث بنی ۔

 

20 بہمن سنہ 1357 ہجری شمسی کو فضائیہ کے سپاہیوں اور افسروں کی طرف سے امام خمینی (رح) سے وفاداری اور انقلاب اسلامی سے یک جہتی کے اعلان کے بعد شاہی گارڈز نے فضائیہ کی ایک چھاؤنی پر حملہ کردیا ۔ اس خبر کے پھیلتے ہی پورے تہران سے مسلمان عوام اس فوجی اڈے میں تعینات انقلابی فوجیوں کی مدد کو پہونچے اور جاں نثاری کے جذبے سے سرشار ہوکر شاہ کی پٹھو فوج کا حملہ ناکام بنادیا ۔

 

21 بہمن سنہ 1357 ھ ش کو شاہی حکومت کے خلاف ایرانی عوام کی جد و جہد میں اضافے کے بعد اچانک شاپور بختیار کی کٹھ پتلی حکومت نے آخری حربے کے طور پر تہران کو فوج کے حوالے کردیا اور لوگوں کو گھروں میں محصور کردیا ۔یہ لمحات بہت حساس تھے ۔کیوں کہ شاہی فوج امام خمینی (رح) سمیت ممتاز انقلابی شخصیات کو گرفتار یا قتل کرنا چاہتی تھی سب لوگ ان حکومتی اقدامات کے بارے میں حضرت امام خمینی (رح) کا ردعمل دیکھنا چاہتے تھے ۔

امام خمینی (رح) کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری ہوا جس میں لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے کو کہا گيا تھا ۔ امام خمینی (رح) نے اس اعلامئے میں فرمایا تھا کہ حکومت کا یہ اقدام خلاف شریعت اور ایک دھوکہ ہے اور لوگوں کو کسی بھی صورت میں اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے ان شاء اللہ حق کامیاب ہوگا ۔اس اعلامئے سے آگاہ ہونے کے بعد ایران کے انقلابی عوام مارشل لاء کی پروا کئے بغیر سڑکوں پر نکل آئے

 

22 بہمن سنہ 1357 ہجری شمسی کو ایران نے تاریخ کے نہایت فیصلہ کن اور حساس لمحات سرکئے اس دن ایران کے انقلابی مسلمان عوام نے اللہ اکبر کے نعروں کے ذریعے شہنشاہت کا خاتمہ کیا اس طرح سالہا سال کی جد وجہد کے بعد انقلاب اسلامی کامیابی سے ہمکنار ہوا ۔

اس دن عورتوں ، مردوں ، بوڑھوں اور جوانوں غرض یہ کہ سب لوگوں نے اپنی تمام تر طاقت کے ساتھ شاہ کا تختہ الٹنے میں بھر پور حصہ لیا ۔انہوں نے فوجی ٹینکوں کا مقابلہ کرنے کےلئے سڑکوں پر محاذ بنائے اور فوج کا مقابلہ کرکے زخمیوں کو امداد پہونچائی ۔ اس طرح ایرانی عوام نے مل جل کر انقلاب کو کامیاب بنایا ۔جب ریڈیو سے امریکہ کی پٹھو شہنشاہی حکومت کی سرنگونی اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کا اعلان کیا گیا تو سارا ایران خوشی میں ڈوب گیا وہ لمحہ کتنا خوبصورت تھا جب ریڈیو سے اعلان کیا گیا کہ توجہ فرمائیے :" یہ انقلاب کی آواز ہے " یہ اعلان کرتے ہوئے ریڈیو نے در حقیقت 2500 سالہ ظالم شاہی نظام کی سرنگونی کی نوید اور باطل پر حق کی کامیابی کی خوشخبری دی ۔

یہ دن تمام عالم اسلام اور حریت پسندوں کو مبارک ہو !

عالمی امور میں رہبرمعظم انقلاب اسلامی کے مشیر ڈاکٹر ولایتی نے پاکستان کے شیعہ اور سنی علماء کےساتھ ملاقات کی ہے۔

ارنا کی رپورٹ کے مطابق اس ملاقات میں ڈاکٹر ولایتی نے ایران – پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ، امریکہ اور یورپی ممالک کی حمایت کے بغیر بھی اس بڑے منصوبے کو مکمل کرسکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں ایرانی ماہرین کے ہاتھوں پورے ملک میں گیس پائپ لائن بچھانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئےکہا کہ پاکستان بھی اپنی سرزمین میں گیس پائپ لائن بچھانے میں ایرانی انجنیئرز کی صلاحیتوں سے استفادہ کرسکتا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی وفاقی کابینہ نے گیس پائپ لائن کے حتمی معاہدے کی منظوری دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ پاکستان میں پائپ لائن بچھانے کا کام عنقریب آغاز ہوگا۔

ملاقات میں ڈاکٹر ولایتی نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد ویکجہتی پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک آپسی اتحاد و یکجہتی سے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتوں کو شکست دے سکتے ہیں ۔

اس موقع پر امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن بھی ایران – پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے توانائی کے بحران کے خاتمے کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے پاکستان کو مدد فراہم کرنے کی قدردانی کی۔ انہوں کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان اتحاد نے امریکہ اور نیٹو کو ہراساں کرکے افغانستان میں ان کی شکست کا باعث بنا ہے۔ سید منور حسن نے مزید کہا کہ دشمن طاقتیں ،پاکستان کے شیعہ وسنی کے درمیان فرقہ واریت پیدا کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں لیکن پاکستان کے مسلم عوام اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرکے انکی سازشوں کو ناکام بنا دیں گے۔

چین نے ایک بار پھر تاکید کی ہے کہ پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی سے استفادہ ، اسلامی جمہوریہ ایران کا حق ہے۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ہونگ لی نے نامہ نگاروں سے گفتگو کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے "نطنز" ایٹمی مرکز میں نئی سینٹریفیوجوں کی تنصیب پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسلامی جمہوریہ ایران کا حق ہے کہ پر امن ایٹمی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین کا ہمیشگی موقف یہ رہا ہے کہ ایران کے ایٹمی مسئلے کا حل صرف مذاکرات میں ہے ۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایران نے این پی ٹی معاہدے پر دستخط کیا ہے لہذا اسے پرامن ایٹمی اینرجی سے استفادے کا حق حاصل ہے۔

اس سے قبل چین کے ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی ایٹمی توانائی کے ادارے نے "آی اے ای اے" کو دیئے گئے اپنے مراسلے میں اعلان کیا ہے کہ اس نے "نطنز" ایٹمی مرکز میں نئی سینٹریفیوجوں کی تنصیب کی ہے۔

چھبيسويں عالمي وحدت اسلامي کانفرنس ميں شريک ايک سو دو ملکوں کے اسلامي اسکالروں نے اپنے اختتامي بيان ميں تقريب مذاہب اسلامي يعني اسلامي مذاہب کو قريب لانے اور ايک امت اسلاميہ کي تشکيل کي راہيں پيش کئے جانے کي ضرورت پر زور ديتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامي دنيا ميں، اسلامي مذاہب کو قريب لانے کے لئے تفصيلي پروگرام مرتب کرنا ضروري ہے -

 

کانفرنس کے شرکا نے امت اسلاميہ کے اتحاد کے لئے، تقريب مذاہب اسلامي ، يعني اسلامي مذاہب کو قريب لانے کو بہترين راستہ قرار ديا اور کہا ہے کہ امت اسلاميہ کو اتحاد اور قلبي يکجہتي کے ساتھ دشمنان اسلام کي سازشوں کے مقابلے ميں استقامت و مزاحمت کا مظاہرہ کرنا چاہئے –

کانفرنس کے مندوبين نے اپنے بيان ميں اس بات پر زور ديتے ہوئے کہ قرآن کريم، اور سنت نبوي ، بشريت کے لئے پر شکوہ تہذيبي اور انساني فضا وجود ميں لاتي ہے، دور حاضر کي زندگي کے مختلف پہلووں ميں قرآن و سنت سے استفادے کي ضرورت پر زور ديا ہے –

تہران ميں منعقدہ دو روزہ عالمي وحدت اسلامي کانفرنس کے شرکا نے غاصب صيہونيوں کے مقابلے ميں مزاحمت کو مظلوم فلسطينيوں کا مسلمہ حق قرار ديا ہے اور بين الاقوامي برادري سے مطالبہ کيا ہے کہ صيہوني حکومت کي ، اس کے انسانيت سوز جرائم کي وجہ سے مذمت کي جائے –

عالمي وحدت اسلامي کانفرنس کے مندوبين نے اسي طرح اس بات پر بھي زور ديا ہے کہ ايک ايسي آزاد فلسطيني مملکت کا قيام ضروري ہے جس کا دارالحکومت بيت المقدس ہو-

کانفرنس کے شرکا نے اسي کے ساتھ صيہوني کالونيوں کي تعمير فوري طور پر روکے جانے کي ضرورت پر زور ديا ہے اور کہا ہے کہ سرزمين فلسطين کا چپہ چپہ فلسطينيوں کا ہے بنابرين اس سرزمين پر صيہوني کالونيوں کي تعمير اور اس کو يہودي آبادي کے علاقوں ميں تبديل کرنا غير قانوني ہے –

عالمي وحدت اسلامي کانفرنس ميں شريک اسلامي اسکالروں نے کانفرنس کے اختتامي بيان ميں فلسطين اور لبنان کي مزاحمتي تنظيموں کي حمايت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامي دنيا کے لئے ضروري ہے کہ ان تمام مسلم اقوام کي حمايت کرے جن کي سرزمينوں پر قبضہ کيا گيا ہے –

کانفرنس کے شرکا نے اسي طرح دنيا کے مختلف علاقوں ميں دہشتگردانہ کاروائيوں کي مذمت کرتے ہوئے اعلان کيا ہے کہ اسلام کي نظر ميں دہشتگردي جس شکل ميں بھي ہو، ناقابل قبول اور قابل مذمت ہے –

عالمي وحدت اسلامي کانفرنس کے مندوبين نے کانفرنس کے اختتامي بيان ميں اسي طرح اسلامي دنيا بالخصوص شام اور بحرين ميں جاري بحرانوں کے حل کے لئے اسلامي راہ حل پر زور ديا ہے –