Super User
حضرت فاطمہ زہرا (ع) خواتين کے لئے نمونه عمل

اسلام نے نہ صرف يہ کہ خواتين کيلئے حقوق، حدود اور آئيڈيل کو مشخص اور واضح کيا ہے بلکہ اپني تعليمات کے مطابق ان آئيڈيل اورمثالي نمونوں کو پرورش ديتے ہوئے انہيں عوام کے سامنے
ان کي قدر و قيمت کا اندازہ لگانے اور پيروي کرنے کيلئے قرار ديا ہے ۔ اسلام ميں آئيڈيل شخصيات کي کوئي کمي نہيں ہے ليکن ان ميں سب سے زيادہ معروف اورکامل شخصيت حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کي ہے ۔ اگر چہ کہ ان کي زندگي بہت مختصر تھي ليکن زندگي کے مختلف شعبوں ، جہاد، سياست، گھر اور معاشرے واجتماعيت ميں ان کي زندگي کي برکت، نورانيت،درخشندگي اور جامعيت نے انہيں ممتاز اور بے مثل و نظير بناديا ہے ۔
خواتين اپنے حقوق اور اسلام کي نظر ميں عورت کے کردار ميں معيار و ميزان کے فہم اوران معياروں کي اساس پر اپني تربيت و خود سازي کي روش و طريقہ کار کي دستيابي کيلئے حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام جيسي عظيم المرتبت شخصيت کو اپنے سامنے موجود پاتي ہيں اور اس بنا پر وہ ديگر آئيڈيل شخصيات سے بے نياز ہيں ۔ حضرت زہر علیھا السلام اور ان کي سراپا درس و سبق آموز زندگي کي طرف توجہ کرنا خواتين کو معنويت ، اخلاق ،اجتماعي فعاليت و جدوجہد اورگھرانے کے ماحول ميں اُن کي انساني شان کے مطابق ايک مطلوبہ منزل تک پہنچانے کا باعث ہوگا۔
مردوں کے جہاد، فعاليت و جدوجہد اورخود سازي اور اجتماعي ومعاشرتي وظائف ميں اُن کي پيشرفت ميں خواتين بہت اہم کردار کي مالک ہيں اورحضرت زہرا علیھا السلام کي زندگي ميں يہ کردار بہت نماياں نظر آتا ہے ۔ يہي وجہ ہے کہ اسلامي انقلاب ميں يہ کردار بہت واضح صورت ميں ظہور پذير ہوا اور تاريخ نے اس کردار کو سنہري حروف سے اپنے دامن ميں محفوظ کرليا ہے۔
حضرت زہرا علیھا السلام کي جامع و کامل شخصيت
حضرت زہر علیھا السلام کي شخصيت کي نسبت محبت و مجذوبيت کے مراحل کے بعد ہم جس نکتے کي طرف متوجہ ہوتے ہيں وہ يہ ہے کہ ہم معدن ِ نور اورفضيلت کے اس منبع سے جتني محبت کريں گے وہ کم ہي ہوگي اور اس ميں ہميشہ تشنگي باقي رہے گي۔ہميں يہ ديکھنا چاہيے کہ اس قلبي اور روحاني رابطے و رشتے کے ضمن ميں ہمارا کيا وظيفہ ہے ۔ چنانچہ اگر ہم نے اپني اس ذمے داري پر توجہ نہيں دي اور اس کے تقاضے پورے نہيں کيے تو ممکن ہے خدانخواستہ يہ محبت ہميں وہ نتيجہ نہ دے کہ جس کا ہم انتظار کر رہے ہيں کيونکہ حضرت فاطمہ زہر علیھا السلام کوئي معمولي شخصيت نہيں ہيں ۔ وہ تاريخ بشريت کي برترين شخصيات ميں سے ايک ہيں ۔
امام جعفر صادق نے فرمايا کہ ’’يَاسيدِّۃَ نِسَائِ العَالَمِينَ‘‘ ۔ ر اوي نے سوال کيا کہ ’’ھَِ سَيِّدَۃُ نِسَآئِ عَالَمِھَا؟‘‘، کيا آپ کي جدہ امجد اپنے زمانے کي خواتين کي سردار تھيں ؟ امام نے جواب ديا کہ ’’ذَاکَ مَريَم‘‘، وہ جناب مريم تھيں جو اپنے زمانے کي خواتين کي سردار تھيں، ’’ھِيَ سَيِّدَۃُ نِسَآئِ الاَوّلِينَ وَالاٰخِرِينَ فِي الدُّنيَا و الآخِرَۃ‘‘ ١ ، ’’وہ دنيا و آخرت ميں اولين و آخرين کي سرورزنان ہيں‘‘ اور ان کي يہ عظمت ان کے زمانے تک محدود نہيں ہے ۔ اگر آپ تمام مخلوقات عالم ميں پوري تاريخ ميں خلق کيے گئے ان کھربوں انسانوں کے درميان اگر انگليوں پر شمار کي جانے والي بہترين شخصيات کو ڈھونڈھنا چاہيں تو ان ميں سے ايک يہي مطہرہ ومنورہ شخصيت ہے کہ جس کا نام اور ياد و ذکر ہميں عطا کيا گيا ہے ۔ خداوند عالم نے اپنے فضل و احسان کے ذريعے ہميں يہ موقع ديا ہے کہ اپني زندگي کے کچھ حصوں کو اُن کي ياد ميں بسر کريں ، اُن کے بارے ميں باتيں کريں اور اُس عظيم ہستي سے متعلق باتوں کو سنيں ۔ لوگوں کي اکثريت اُن سے غافل ہے جبکہ يہ ہم پر خداوند متعال کا بہت بڑا لطف و کرم ہے کہ ہم اُن سے متمسک ہيں ۔ يعني وہ اتني عظيم المرتبت شخصيت کي مالک ہيں کہ بڑے بڑے مسلمان علما اور مفکرين يہ بحث کرتے تھے کہ کيا حضرت زہرا علیھا السلام کي شخصيت بلند ہے يا امير المومنين علي ابن ابي طالب ٴ کا مقام زيادہ ہے؟ کيا يہ کوئي کم مقام و حيثيت ہے کہ مسلمان علما بيٹھيں اور ايک کہے کہ علي کا مرتبہ زيادہ بلند ہے اور ايک کہے زہرا علیھا السلام کي عظمت زيادہ ہے! يہ بہت بلند مقام ہے ۔ لہٰذا اُس عظيم المرتبت ذات سے ہمارے تعلق اورمحبت نے ہمارے دوش پر ايک بہت سنگين ذمے داري عائد کي ہے ۔ وہ ذمہ داري يہ ہے کہ ہم اُس عظيم ذات کي سيرت اورنقش قدم پر چليں،خواہ ان کا ذاتي و انفرادي کردار ہو يا اُن کي اجتماعي و سياسي زندگي۔ راستہ يہي ہے کہ جس نے آج خداوند عالم کے فضل وکرم سے لوگوں کيلئے انقلاب کي راہ ہموارکي ہے ۔
-----------
١ بحار الانوار جلد ٤٣ صفحہ ٢٦
يہ وہي حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کي راہ ہے يعني خودسازي (تعمير ذات) اورجہان سازي (تعمير دنيا) کي راہ۔ خود سازي يعني اس جان و روح کي آبادي و تعمير کہ جس کيلئے جسم کا پيکر خاکي ديا گيا ہے ۔فاطمہ زہر علیھا السلام ’’کَانَت تَقُومُ فِي مِحرَابِ عِبَادَتِھَا حَتٰي تَوَرَّمَت قَدَمَاھَا ‘‘ ١ ۔ اس عظيم اور جوان دختر نے کہ جو اپني شہادت کے وقت صرف اٹھارہ سال کي تھي، اتني عبادت کي آپ کے پاوں ورم کرجاتے تھے! يہ عظيم المرتبت خاتون اتنے عظيم مقام و منزلت کے باوجود گھر کے کام بھي خود انجام ديتي تھيںاور شوہر کي خدمت بچوں کي ديکھ بھال اورتربيت بھي انہي کے ذمے تھي۔
حضرت فاطمہ علیھا السلام کے بچپن کا سخت ترين زمانہ
يہ عظيم خاتون ايک گھريلو عورت تھي، اس کا اپنا گھر تھا، شوہر، بچے سب کچھ اور يہ اپنے بچوں کي بہترين تربيت کرنے والي ماں بھي تھي۔ يہ بانوئے عصمت و طہارت ، زندگي کے سخت سے سخت مراحل ميں اپنے شوہر اور والد کيلئے دلجوئي اوردلگرمي کا سبب تھي۔ حضرت زہر علیھا السلام نے بعثت کے پانچويں سال دنيا ميں قدم رکھا کہ جب پيغمبر اکرم۰ کي دعوت حق اپنے عروج پر تھي۔يہ وہ زمانہ تھا کہ تمام سختيوں، مشکلات اور مصائب نے پيغمبر اکرم۰ اور ان کے گھرانے کو اپنے نشانے پر ليا ہوا تھا۔
------------
١ بحارالانوار ۔ جلد ٤٣ صفحہ ٧٦
يہ واقعہ تو آپ نے سنا ہي ہے کہ حضرت فاطمہ علیھا السلام کي ولادت کے وقت شہر کي خواتين حضرت خديجہ علیھا السلام کي مدد کيلئے نہيں آئي تھيں ۔ يہ بہت بڑي بات ہے کہ جب پيغمبر اکرم۰ کفار سے مقابلہ کررہے تھے تو اس وقت کفار مکہ نے آپ کا ہر طرح سے بائيکاٹ کيا ہوا تھا اور ہر قسم کے رابطے اور تعلقات کو بالکل قطع کرديا تھا تاکہ اس کے ذريعے رسول خدا۰ پر دباو ڈالا جاسکے ۔ يہ وہ مقام تھا کہ جہاں حضرت خديجہ علیھا السلام جيسي فداکاراور ايثار کرنے والي عورت نے استقامت دکھائي۔ آپ اپنے شوہر حضرت ختمي مرتبت۰ کي دلجوئي فرماتيں اوراس کے بعد گھر ميں اپنے بيٹي کي ديکھ بھال اور تربيت کرتيں ۔ جب يہ دختر نيک اختر بڑي ہوئي اور پانچ چھ سال کي عمر کو پہنچي تو شعب ابي طالبٴ کا واقعہ پيش آيا۔ آپ نے اس کوہستاني وادي کي گرمي، بھوک، سختي، دباو اور غريب الوطني کي مشکلات کو اس وقت تحمل کيا کہ جب سب نے ساتھ چھوڑ ديا تھا۔ شعب ابي طالبٴ ميں آفتاب کي تمازت سے دھکنے والے دن، سرد راتيں اور اس علاقے کي شب و روز ميں ناقابل تحمل آب وہوا، ان دشوار حالات ميں بچے بھوکے پيٹوں اور تشنہ لبوں کے ساتھ ان افراد کے سامنے تڑپتے رہتے تھے ۔ سختي اور مشکلات کے يہ تين سال کہ رسول اکرم۰ نے مکے سے باہر بيابان ميں اِسي طرح گزارے ۔
فاطمہ زہر علیھا السلام اپنے والد کي مونس و غمخوار
يہ بيٹي، ان سخت ترين حالات ميں اپنے والد کيلئے فرشتہ نجات تھي اور يہ زمانہ تھا کہ جب حضرت خديجہ علیھا السلام نے داعي اجل کو لبيک کہا اور يہي وقت تھا کہ جب آپ کے محسن اور چچا، حضرت ابو طالبٴ نے دنيا سے رخت سفر باندھا اور پيغمبر اکرم۰ کو يکتا و تنہا چھوڑديا۔ يہ وہ وقت تھا کہ جب يہ بيٹي اپنے باپ کي دلجوئي کرتي تھي، ان کي خدمت کرتي اورغم و مشکلات کي گرد وغبار کواُ ن کو چہرے سے صاف کرتي۔ اس بچي نے اپنے باپ کي اتني خدمت کي کہ پيغمبر ۰ نے اس سات ، آٹھ سالہ دختر کو کہا ’’اُمُّ اَبِيھَا‘‘ ،يعني ’’ماں‘‘ يعني يہ بچي اپنے والد کي ماں کي طرح ديکھ بھال کرتي تھي۔
ايسا باپ کہ عالم کي تمام مشکلات نے جسے اپنے نشانے پر ليا ہوا تھا ليکن اس کے باوجود تمام بشريت کي ہدايت کي ذمہ داري اُس کے دوش پر تھي۔وہ ايسا پيغمبر تھا کہ اُس کا رب اُسے سختيوں،مشکلات ، غموں کے برداشت کرنے اور حق ميں مسلسل اور اَن تھک محنت و مشقت کي وجہ سے اس کي دلجوئي کرتا ہے ۔ ’’طٰہٰ مَآ اَنزَلنَا عَلَيکَ القُراَنَ لِتَشقيٰ‘‘ ١ اے رسول تم خود کو اتني سختي ميں کيوں ڈالتے ہو؟ اتنا رنج کيوں اٹھاتے ہو اور اپني پاک و پاکيزہ روح پر اتنا دباو کيوں ڈالتے ہو؟ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں خدا اپنے حبيب۰ کو تسلي ديتا ہے ۔ ان سخت ترين حالات ميں حضرت ختمي مرتبت۰ کي روح پر دباو بہت زيادہ تھا اور دشوار ترين حالات ميں يہ چھوٹا فرشتہ ،معنوي وملکوتي روح کي حامل بيٹي اوردختر پيغمبر اکرم ۰ اس نور کي مانند ہے جو پيغمبر اکرم۰ اور نئے مسلمان ہونے والے افراد کي تاريک شبوں ميں اپني پوري آب و تاب اور نورانيت کے ساتھ چمک رہا ہے ۔ امير المومنين ٴکا وجود بھي بالکل ايسا ہي نوراني تھا ۔ روايت ميں ہے کہ ’’سُمِّيَت فَاطِمَۃُ زَھرَائ? ‘‘ ٢ ۔حضرت فاطمہ کو ’’زہرا‘‘ اس ليے کہا جاتا ہے آپ دن ميں تين بار حضرت علي ٴ کي نگاہوں کے سامنے جلوہ فرماتيں ۔
حضرت فاطمہ علیھا السلام کي علمي فضيلت اور راہ خدا ميں آپ کا جہاد
اگر عورت مرد کي پشت پناہ ہو اورزندگي کے مختلف ميدان ہائے عمل ميں اُس کے شانہ بشانہ ،قدم بقدم اوراس کي ہمت و حوصلے کو بڑھانے والي ہو تو مرد کي قوت وطاقت کئي برابر ہوجاتي ہے ۔ يہ حکيمہ، عالمہ اور محدثہ خاتون، يہ خاتون کہ جو عالم ہائے غيب سے متصل تھي، يہ خاتون کہ فرشتے جس سے ہمکلامي کا شرف حاصل کرتے تھے ٣ اور يہ عظيم المرتبت ہستي کہ جس کا قلب ،علي ٴ و پيغمبر ۰ کے قلوب کي مانند ملک وملکوت کے عالموں کي نورانيت سے منور تھا،اپني تمام تر استعداد وصلاحيت کو بروئے کار لاتے ہوئے اور اپنے تمام تر اعليٰ درجات کے ساتھ تمام مراحل زندگي ميں جب تک زندہ رہي (اپنے شوہر، صحابي رسول ۰، اپنے امام وقت اور) امير المومنين ٴ کے پيچھے ايک بلند و بالا اور مضبوط پہاڑ کي مانند کھڑي رہي۔
آپ نے اپنے امام وقت اور اس کي ولايت کے دفاع کيلئے کسي بھي قسم کي قرباني سے دريغ نہيں کيا اور حضرت علي ٴکي حمايت ميں ايک بہت ہي فصيح و بليغ خطبہ ديا۔ علامہ مجلسي رضوان اللہ عليہ فرماتے ہيں کہ فصاحت و بلاغت کے علما اور دانشوروں نے اس خطبے کي فصاحت و بلاغت ،اعلي اوربے مثال کلمات،جملوں کي ترتيب،
------------
١ سورہ طہ/ ١۔٢ ٢ بحار الانوار جلد ٤٣ صفحہ ١٦
٣ حضرت استاد مولاناسيد آغا جعفر نقوي مرحوم اپنے استاد آيت اللہ شيخ محمد شريعت اصفہاني (آقائے شريعت) سے نقل فرماتے تھے کہ حديث کسا کي راوي حضرت زہرا ہيں اور يہ آپ کي عظمت وفضيلت ہے کہ آپ حضرت جبرئيل اور خدا کے درميان ہونے والي گفتگو کو خود سن کر نقل فرما رہي ہيں! (مترجم)
معاني اور اُس کے ظاہر و باطن کي خوبصورتي سے اپنے ہاتھوں کو کاٹ ڈالا ہے! يہ نکتہ بہت ہي عجيب ہے ۔علامہ مجلسي نے آئمہ عليہم السلام سے اتني کثير تعداد ميں روايات کو نقل کيا اور ہمارے ليے گرانبہا ذخيرہ چھوڑا ہے ليکن جب اس خطبے کے مقابل اپنے آپ کو پاتے ہيں تو اُن کا وجود فرط جذبات و احساسات اورخطبے کي عظمت سے لرز اٹھتا ہے! يہ بہت ہي عجيب خطبہ ہے اور اسے نہج البلاغہ کے خوبصورت اور فصيح وبليغ ترين خطبوں کا ہم وزن شمار کيا جاتا ہے ۔
ايسا خطبہ جو شديد ترين غم و اندوہ کے عالم ميں ، مسجد النبي۰ ميں سينکڑوں مردوں اور مسلمانوں کے سامنے ديا جاتا ہے ۔ يہ خطبہ بغير کسي تياري اورتفکر کے في البديع اس عظيم خاتون کي زبان پر جاري ہوتا ہے ۔ اس کا وہ بيانِ رسا،اس کي حکمتيں، عالم غيب سے اُس کا رابطہ ،وہ عظيم ترين مطالب، وہ معرفت الٰہي و شريعت کے گوہر ہائے بے مثل و نظير ، و ہ عمق و گہرائي ، وہ عظمت الٰہي کو بيان کرنے والے کلام کي رفعت وبلندي اور سب سے بڑھ کر وہ نوراني قلب کہ جس سے حکمت و معرفت کہ يہ چشمے جاري ہوئے ،وہ نوراني بيان کہ جس نے سب کو مبہوت کرديا اور وہ نوراني اور مبارک زبان کہ جس کے ذريعے اُس خاتون نے اپنے کلمات کو خدا کي راہ ميں بيان کيا ۔ اس تمام عظمت و فضيلت کے بارے ميں ہمارے سرمائے کي کيا حيثيت ہے کہ اگر ہم اُسے مکمل طور پر خدا کي راہ ميں خرچ کرديں! ہمارے سرمائے کيا حيثيت رکھتے ہيں؟ کيا ہمارا سرمايہ اُس عظيم سرمائے کہ جسے حضرت زہر علیھا السلام ، اُن کے شوہر ، اُن کے والد ماجد اور ان کي اولاد نے خد اکي راہ ميں خرچ کيا، قابل مقايسہ ہے؟!
ہمارا يہ مختصر علم، ہماري يہ ناقابل قوت بيان و زبان ،قليل سرمايہ ، مختصر پيمانے پر ہمارا اثر ونفوذ ، ہماري محدود صلاحيتيں اور نچلي سطح کي مختصر سي معرفت اُس عظيم اور بے مثل و نظير ذخيرے کے مقابلے ميں کہ جسے خداوند عالم نے حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کے ملکوتي و نوراني وجود ميں قرار ديا تھا، کس اہميت کا حامل ہے؟! ہمارے پاس ہے ہي کيا جو راہ خدا ميں بخل سے کام ليں؟ آج علي ٴ، فاطمہ عليہما السلام اور آئمہ کي راہ وہي امام خميني۲ کي راہ ہے ۔ اگر کسي نے اس (راہ اور اس راہ دکھانے والي شخصيت) کونہ جانا اور نہ سمجھا ہو تو اسے اپني بصيرت کے حصول کيلئے از سر نو جدوجہد کي ضرورت ہے ۔ ہمارے پاس جو کچھ بھي ہے، اسي راہ ميں خرچ کرنا چاہيے اور يہي وہ چيز ہے کہ جو اہل بيت ٴ سے ہمارے تعلق اور لگاو کو حقيقت کا رنگ بخشتي ہے١۔
---------
١ ١٥ دسمبر ١٩٩٢ ميں نوحہ خوان حضرات سے خطاب
فاطمہ علیھا السلام ،عالم ہستي کا درخشاں ستارہ
ہم نے حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کے بارے ميں حقيقتاً بہت کم گفتگو کي ہے اور حقيقت تو يہ ہے کہ ہميں نہيں علم کہ ہم کيا کہيں اور کيا سوچيں؟ اس انسيّہ حورائ، روح مجرد اورخلاصہ نبوت ولايت کے بابرکت وجود کے ابعاد اور جہات ہمارے سامنے اتنے زيادہ وسيع، لامتناہي اور ناقابل درک ہيں کہ ہم جب اس شخصيت پر نگاہ ڈالتے ہيں تو وادي حيرت ميں ڈوب جاتے ہيں ۔ آپ اس امر سے بخوبي واقف ہيں کہ زمانہ اُ ن من جملہ سے تعلق رکھتا ہے کہ جو انسان کو شخصيت کہ صحيح طور پر پہنچانے اور درک کرنے کي راہ ميں مانع ہوتے ہيں ۔
عالم بشريت کے اکثر و بيشتر ستارے اپني حيات ميں اپنے ہم عصر افراد کے ذريعے ناقابل شناخت رہے اور انہيں پہنچانا نہيں گيا۔ انبيا واوليا ميں سے بہت کم افراد ايسے تھے جو اپنے قريبي ترين مخصوص و مختصر افرادکے ذريعے پہچانے گئے ۔ ليکن حضرت فاطمہ زہر علیھا السلام کي شخصيت ايسي ہے کہ جس کي نہ صرف اپنے زمانے ميں اپنے والد ،شوہر ، اولاد اور خاص شيعوں کے ذريعے سے بلکہ اُن افراد کے ذريعے سے بھي کہ جو حضرات زہرا علیھا السلام سے شايد اتنے قريب بھي نہيں تھے، مدح و ثنا کي گئي ہے ۔
اہل سنت کي کتابوں ميں حضرت زہر علیھا السلام کي شخصيت
اگر آپ اہل سنت محدثين کي حضرت زہر علیھا السلام کے بارے ميں لکھي ہوئي کتابوں کا مطالعہ کريں تو آپ ديکھيں کہ پيغمبر اسلام ۰ کي زبان حضرت صديقہ طاہرہ علیھا السلام کي مدح و ستائش ميں بہت سي روايات نقل کي گئي ہيں يا حضرت زہرا علیھا السلام سے آنحضرت۰ کے کردار و سلوک کو بيان کيا گيا ہے يا ازواج نبي يا ديگر شخصيات کي زباني تعريف کي گئي ہے ۔
حضرت عائشہ سے يہ معروف حديث نقل کي گئي ہے ’’واللّٰہِ مارَاَيتُ فِي سمتہ و ھديۃ اَشبَہُ بِرَسُولِ اللّٰہِ مِن فَاطِمَۃَ‘‘ ۔ميںنے پيغمبر اکرم کي شکل و شمائل ،ظاہري قيافے،درخشندگي اور حرکات و رفتار کے لحاظ سے کسي ايک کو بھي فاطمہ سے زيادہ شباہت رکھنے والا نہيں پايا‘‘ ۔ وَکَانَ اِذَا دَخَلَت عَلٰي رَسُولِ اللّٰہِ قَامَ اِلَيھَا‘‘۔ جب فاطمہ زہرا علیھا السلام رسول اللہ۰ کے پاس تشريف لائيں تو آپ۰ اُن کے احترام ميں کھڑے ہوجاتے اور مشتاقانہ انداز ميں ان کي طرف بڑھ کر اُن کااستقبال کرتے ۔ يہ ہے ’’قَامَ اِلَيھَا‘‘ کي تعبير کا معني۔ ايسا نہيں تھا کہ جب حضرت زہرا علیھا السلام تشريف لاتيں تو آپ۰ صرف کھڑے ہوکر اُن کا استقبال کرتے، نہيں ! ’’قَامَ اِلَيھَا‘‘ يعني کھڑے ہوکر اُن کي طرف قدم بڑھاتے ۔بعض مقامات پر اسي راوي نے اس روايت کو اس طرح نقل کيا ہے کہ ’’وَ کَانَ يُقَبِّلُھَا ويُجلِسُھَا مَجلِسَہُ ‘‘۔’’وہ حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کو پيار کرتے، چومتے اور اُن کا ہاتھ پکڑ کر اپني جگہ پر بٹھاتے‘‘۔ يہ ہے حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کا مقام ومنزلت ۔ اس باعظمت شخصيت کے بارے ميں ايک عام انسان کي کيا مجال کہ وہ لب گشائي کرے!
سيرت حضرت زہرا علیھا السلام کي کما حقہ معرفت
ميرے محترم دوستو! حضرت فاطمہ علیھا السلام کي عظمت و فضيلت اُن کي سيرت ميں واضح و آشکار ہے ۔ايک اہم مسئلہ يہ ہے کہ ہم حضرت زہرا علیھا السلام کے بارے ميں کيا شناخت و آشنائي رکھتے ہيں ۔ اہل بيت ٴ کے محبوں نے پوري تاريخ ميںحتي الامکان يہي کوشش کي ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کي کما حقہ معرفت حاصل کريں ۔ ايسا نہيں ہے کہ کوئي يہ خيال کرے کہ يہ عظيم شخصيت صرف ہمارے زمانے ميں ہي ہر دلعزيز ہے ۔ آج الحمدللہ اسلامي حکومت کا زمانہ ہے اور حکومت قرآن ، حکومت علوي اور حکومت اہل بيت ٴ کا دوردورہ ہے ۔جو کچھ دل ميں موجزن ہے وہ زبانوں پر بھي جاري ہوتا ہے اور ہميشہ سے ايسا ہي ہوتا رہا ہے ۔
دنيائے اسلام کي قديمي ترين جامعہ (يونيورسٹي) جس کا تعلق تيسري اور چوتھي صدي ہجري سے ہے، حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کے نام پر ہے ۔ اسي معروف جامعۃ الازھر کا نام حضرت زہر علیھا السلام کے نام سے اخذ کيا گيا ہے ۔ اُن ايام ميں حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کے نام پر يونيورسٹي بناتے تھے ۔ مصر ميں حکومت کرنے والے فاطمي خلفائ سب شيعہ تھے ۔ بنا برايں ، صديوں سے شيعوں کي يہي کوشش رہي ہے کہ اس عظيم ہستي کي کماحقہ معرفت حاصل کريں ۔
عظمت خدا کا ايک نمونہ!
ايک اور مسئلہ يہ ہے کہ ہم تمام ستاروں سے اپني راہ تلاش کريں ۔ ’’وَبِالنِّجمِ ھُم يَھتَدُونَ ‘‘ ١ ۔عاقل انسان کا يہي عمل ہوتا ہے ۔ستارہ جو آسمان پر چمک رہا ہے اُس سے استفادہ کرنا چاہيے ۔ ستاروں کي بھي اپني ايک
-------------
١ سورہ نحل / ١٦
عجيب اورعظيم دنيا ہے ۔ کيا يہ ستارے يہي ہيں کہ جو ہم اور آپ ديکھ رہے ہيں؟ کہتے ہيں کہ آسمان پر چمکنے والے ان چھوٹے سے ستاروں ميں سے بعض ستارے کہکشاں کہ جس ميں خود اربوں ستارے موجود ہيں، سے بڑے ہيں! قدرت الٰہي کي نہ کوئي حد ہے اور نہ کوئي اندازہ۔ عاقل انسان کہ جسے خداوند عالم نے قوتِ بصارت دي ہے، کو چاہيے کہ اپني زندگي کيلئے ان تمام ستاروں کے وجود سے فائدہ حاصل کرے ۔ قر آن کہتا ہے کہ ’’وَبِالنِّجمِ ھُم يَھتَدُونَ ‘‘ ۔ يہ ستاروں کے ذريعے سے راستہ کو پاتے ہيں ۔
حضرت فاطمہ علیھا السلام سے درس خدا ليجئے!
ميرے عزيز دوستو! عالم خلقت کا يہ درخشاں ستارہ ايسا نہيں ہے جو ہميں نظر آرہا ہے، اس کي حقيقت اور مقام و منزلت اس ظاہري اور نظر آنے والے وجود سے بہت بلند و برتر ہے ۔ ہم حضرت زہر علیھا السلام سے صرف ايک نور و روشني ديکھ رہے ہيں ليکن حقيقت اس سے بہت آگے اور بلند ہے ۔ ميں اور آپ ان بزرگوار ہستي سے کيا استفادہ کرسکتے ہيں؟ روايت ميں ہے کہ ’’تُظھِرُ الآَھلَ السَّمآئِ ‘‘ عالم ملکوت کے رہنے والوں کي آنکھيں حضرت زہرا علیھا السلام کے نور سے خيرہ ہوجاتي ہيں،تو ميں اور آپ کيا حقيقت رکھتے ہيں!يہاں ايک بنيادي سوال يہ ہے کہ ہم اس عظيم ہستي کے وجود سے کيا فائدہ اٹھا سکتے ہيں؟ چاہيے کہ اس روشن و درخشاں ستارے سے خدا اوراس کي بندگي کي راہ کو ڈھونڈيں کيونکہ يہي سيدھا راستہ ہے اور فاطمہ زہرا علیھا السلام نے اس راہ کو پايا اور فاطمۃ الزہرائ بن گئيں ۔ خداوند عالم نے اُن کے وجود کو اعلي و ارفع قرار ديا ،اس ليے کہ وہ جانتا تھا کہ وہ عالم مادہ اور عالم ناسوت کے امتحان ميں اچھي طرح کامياب ہوں گي۔
حضرت زہر علیھا السلام کے صبر اور غوروفکر کي عظمت! اِمتَحَنَکِ اللّٰہُ الَّذِي خَلَقَکِ قَبلَ اَن يَخلُقَکِ فَوَجَدَکِ لِمَا امتَحَنَکِ صَابِرَۃً ‘‘١ ۔خدا نے آپ کي تخليق سے قبل امتحان ليا اور ان تمام حالات ميں آپ کو صابر پايا)۔ اگر خداوند عالم نے (خلقت سے قبل) اُن کے (نوراني) وجود پر اپنا خاص لطف کيا ہے تواُس کي ايک وجہ يہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام (دنيوي) امتحانات ميں کس طرح کامياب ہوںگي۔ ورنہ بہت سے افراد کي شروعات تو بہت اچھي تھيں
-----
١ مناقب، جلد ٣، صفحہ ٣٤١
ليکن کيا وہ سب امتحانات ميں کامياب ہوگئے؟ ہميں اپني نجات کيلئے حضرت زہرا علیھا السلام کي زندگي کے اس حصے کي اشد ضرورت ہے ۔ يہ حديث شيعہ راويوں سے نقل کي ہے کہ پيغمبر اکرم نے حضرت فاطمہ عليہا السلام سے فرمايا ’’يا فاطِمَۃُ بِنتَ محمّدٍ اِنّي لَا اَغنيٰ عَنکِ مِنَ اللّٰہِ شَيئًا‘‘۔اے ميري پياري لخت جگر، اے ميري فاطمہ ميں خدا کيلئے تم کو کسي چيز سے بے نياز نہيں کرسکتا ہوں ۔ يعني تم اپنے غوروفکر کے ذريعے سے بارگاہ الٰہي ميں آگے بڑھو اور ايسا ہي تھا۔ وہ اپني فکر و معرفت کے ذريعے اِس مقام تک پہنچيں ۔
دوسري فصل
عملي سيرت
فاطمہ ، ماں کي خالي جگہ
آپ توجہ کيجئے کہ حضرت فاطمہ علیھا السلام نے اپنے بچپن سے ليکر شہادت تک کي مختصر زندگي کس طرح بسر کي ہے؟ اپني شادي سے قبل کہ جب وہ ايک چھوٹي سے لڑکي تھيں تو انہوں نے نور و رحمت کے پيغمبر، دنيائے نور کو متعارف کرانے والي عظيم شخصيت اور عظيم عالمي انقلاب کے رہبر و مدير کے ساتھ کہ جن کا انقلاب تاقيامت باقي رہے گا کہ جس دن سے اُنہوں نے اس پرچم توحيد کو بلند کيا، حضرت زہرا علیھا السلام نے ايسا برتاو کيا کہ اُن کي کنيت ’’اُمّ اَبِيھَا‘‘ ، ’’اپنے والد کي ماں ‘‘رکھي گئي۔يہ تھي اُن کي خدمت ،کام، محنت و مشقت اور جدوجہد۔ بغير کسي وجہ کے تو اُن کو ’’اُمّ اَبِيھَا‘‘ نہيں کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ مکے کے شب و روز ہوں يا شعب ابي طالب ٴکے اقتصادي و معاشي محاصر ے کے سخت ترين دن و رات يا وہ وقت کہ جب آپ کي والدہ حضرت خديجہ، رسول اکرم۰ کو تنہا چھوڑ گئيں اور پيغمبر۰ کے قلب مبارک کو مختصر عرصے ميں دو صدمے اٹھانے پڑے ، يعني حضرت خديجہ اور حضرت ابوطالبٴ کي پے در پے وفات۔ ايسے کڑے و مشکل وقت ميں حضرت زہرا علیھا السلام آگے بڑھيںاور اپنے ننھے ہاتھوں سے رسول اکرم۰ کے چہرہ مبارک پر پڑئے ہوئے غم و اندوہ کے گرد وغبار کو صاف کيا اور اپنے والد کي تسلي کا سبب بنيں ۔ حضرت زہرا علیھا السلام کي جدوجہد يہاں سے شروع ہوئي۔ آپ ديکھئے کہ حضرت زہرا علیھا السلام کي شخصيت اور جدوجہد کا يہ بحر بيکراں کتنا عظيم ہے!
طلوع اسلام کے بعد علي و فاطمہ علیھا السلام کي خدمات
اس کے بعد اسلام کا آفتاب طلوع ہوتا ہے اور اس کے بعد آپ حضرت علي مرتضي ٴسے رشتہ ازدواج ميں منسلک ہوجاتي ہيں ۔ حضرت علي ابن ابي طالب ٴ ايک فداکار اورانقلابي رضاکار کا مصداق کامل ہيں ۔يعني اُن کا پور ا وجود اسلام کي تبليغ اور اُسے مضبوط بنانے اور خدا اور رسول۰ کي خوشنودي و رضا کے حصول کيلئے وقف تھا۔حضرت امير المومنين ٴ نے اپني ذات کيلئے کوئي سرمايہ نہيں چھوڑا۔ حضرت ختمي مرتبت کي حيات مبارکہ کے آخري دس سالوںميں امير المومنين نے جو کام بھي انجام ديا وہ صرف اسلام کي پيشرفت کيلئے تھا۔
يہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت زہرا علیھا السلام ، اميرالمومنين اور اُن کے بچے کئي کئي دن بھوکے رہتے تھے تو اس کي وجہ يہي ہے کہ ان کے پاس جو کچھ تھا وہ سب راہ خدا ميں نئے مسلمان ہونے والوں کيلئے وقف کرديا تھا ۔ ورنہ تو اگر يہ جوان تجارت اور کمانے کي فکر کرتا تو سب لوگوں سے زيادہ کماسکتا تھا۔ يہ وہي علي ٴ ہيں کہ جو آنے والے زمانے ميں کنويں کھودتے تھے اور جب پاني تيزي سے ابلنے لگتا تو باہر تشريف لاتے اور مٹيالے پاني ميں آلودہ اپنے ہاتھ و پير کو دھوئے بغير بيٹھ کر کنويں کو وقف کرنے کا حکم تحرير فرماتے ۔ امير المومنين ٴ نے اس قسم کے کام بہت زيادہ انجام ديئے ہيں، کتنے ہي نخلستانوں کو آپ نے خود آباد و سرسبز و شاداب بنا ياہے، يہ وہي مدينہ ہے تو امير المومنين اس مدينے ميں بھوکے کيوں رہيں؟ حديث ميں ہے کہ ايک مرتبہ حضرت فاطمہ علیھا السلام خدمت رسول اکرم ۰ ميں تشريف لے گئيں تو فاقوں کي وجہ سے آپ کا رنگ زرد ہوگيا تھا۔ جب حضرت ختمي مرتبت۰ نے حضرت فاطمہ علیھا السلام کي اس حالت کا مشاہدہ کيا تو اُن کا دل بہت بيقرار ہوا اور انہوں نے حضرت زہرا علیھا السلام کيلئے دعا کي۔
حضرت اميرالمومنين ٴ کي تمام جدوجہد کا ہدف، خوشنودي خدا کا حصول اور اسلام کي پيشرفت تھي، انہوں نے اپنے ليے کوئي ايک کام بھي انجام نہيں ديا۔ يہي وجہ ہے کہ وہ ايک رضاکار کا مصداق کامل ہيں ۔ميں علي و فاطمہ علیھا السلام کے نام نامي سے منسوب اس ملک کے تمام رضاکاروں (بسيجيوں) کي خدمت ميں عرض کرتا ہوں کہ حضرت امير المومنين ٴ کو اپنے ليے اسوئہ عمل قرارديں ۔ اس ليے کہ پوري دنيا ميں مسلمان رضاکاروں کيلئے سب سے بہترين اور بزرگترين اسوہ، حضرت علي ابن ابي طالب ٴہيں ۔
علي سے شادي کيلئے خدا کاانتخاب
حضرت زہرا علیھا السلام سے شادي کے بہت سے طلبگار تھے ۔ يہ کوئي معمولي بات نہيں ہے اس لئے کہ آپ عالم اسلام کے عظيم رہبر اور حاکم ِوقت کي صاحبزادي تھيں ۔ رشتے کے طلبگاروں ميں بڑے بڑے افراد، صاحب مقام و حيثيت اور ثروت مند افراد شامل تھے ۔ ليکن حضرت زہرا علیھا السلام نے راہِ الٰہي ميں اپني پوري دنيا کو وقف کردينے والے پاکيزہ نوجوان ، جو ہميشہ ميدان جنگ کا شہسوار تھا، کا انتخاب کيا۔ يعني يہ انتخاب خدا نے کيا تھا اور وہ بھي خدا کے انتخاب سے راضي اور خوشحال تھيں ۔
رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونے کے بعد حضرت زہرا علیھا السلام نے حضرت علي کے ساتھ اس طرح زندگي بسر کي کہ امير المومنين ٴاُن سے پوري طرح سے راضي تھے ۔ اپني عمر کے آخري ايام ميں حضرت زہرا علیھا السلام نے حضرت علي ٴ سے جو الفاظ اد اکيے وہ اسي چيز کي عکاسي کرتے ہيں کہ ميں آج عيد کے دن اُن (مصائب کے) جملوں کو دہرانا نہيں چاہتا۔ انہوں نے صبر سے کام ليا، بچوں کي صحيح تربيت کي اور ولايت کے دفاع کيلئے تن من دھن ،سب کچھ قربان کرديا۔ اس راہ ميں تما صعوبتوں کو برداشت کيا اور اُس کے بعد خندہ پيشاني سے شہادت کااستقبال کيا او ر اُسے خوشي خوشي گلے لگايا ١۔ تيسري فصل
شوہروں کي جدوجہد وفعاليت ميں خواتين کا بنيادي کردار
عورت کا جہاد؟!
مختلف شعبہ ہائے زندگي ميں ايک مرد مختلف قسم کي جدوجہد اور فعاليت انجام دينے ميں اپني بيوي کے
---------
١ نومبر ١٩٩٤ ميں نوحہ خواں حضرات سے خطاب
ساتھ دينے ، ہمراہي ، صبر اور موافقت کا مرہون منت ہے اور ہميشہ يہي ہوتا رہتاہے ۔ يہ جو کہا گيا کہ ’’جِھَادُ المَرآَۃِ حُسنُ التَّبَعُّلِ ‘‘،عورت کا جہاد بہترين شوہر داري ہے ۔ ’’حُسنُ التَّبَعُّلِ ‘‘ کا کيا مطلب ہے؟کچھ لوگ خيال کرتے ہيں کہ عورت کا جہاد يہ ہے کہ وہ صرف شوہر کے آرام و سکون کے وسائل فراہم کرے، حُسنُ التَّبَعُّلِ صرف يہ نہيں ہے اور نہ ہي يہ جہاد ہے ۔ عورت کا جہاد يہ ہے کہ جب ايک مومن وفداکار عورت کا شوہر مختلف قسم کي سنگين ذمے داريوں کا حامل ہے تو اُس سنگين ذمے داري کا بارگراں آپ کے کندھوں پر بھي آئے گا اور آپ خواتين بھي ان کي ماموريت اور وظائف ميں شريک ہوں گي۔ آپ خواتين کي خدمات اسي طرح کي ہيں ۔
جب مرد دن بھر کے کام، کاج، تجارت اور ديگر وظائف کي بجا آوري سے تھکا ہارا گھر لوٹتا ہے تو اُس کي تھکاوٹ کے اثرات گھر ميں بھي ظاہر ہوتے ہيں ۔ جب وہ گھر ميں قدم رکھتا ہے تو تھکا ہوا ،خستہ تن اورر کبھي بد اخلاق بھي ہوتا ہے ۔ اُس کے کام ،آفس يا تجارت و بازار سے آنے والي يہ خستگي ، بداخلاقي اور درد سر گھر کي اندورني فضا ميں بھي منعکس ہوتي ہے ۔ اب اگر يہ عورت جہاد کرنا چاہتي ہے تو اس کا جہاد يہ ہے کہ وہ شوہر کي بداخلاقي اورکم ہمتي کا خوش اخلاقي سے جواب دے، اُن سختيوں اور زحمتوں کے ساتھ اپني شيريں زندگي کي تعمير کرے اور خدا کي خوشنودي کيلئے اُنہيں تحمل کرے ۔ اِسے کہا جاتا ہے حُسنُ التَّبَعُّلِ يا بہترين شوہر داري۔
حضرت فاطمہ علیھا السلام کا عظيم ترين جہاد!
جب رسول اکرم۰ نے مدينے ہجرت کي تو امير المومنين ٴکي عمر مبارک تقريباً تئيس يا چوبيس سال تھي۔ ہجرت کے فوراً بعد مختلف قسم کے غزوات اورجنگيں شروع ہوگئيں ۔ ان تما م جنگوں يا غزوات ميں يہ نوجوان يا علمدار سپاہ اسلام تھا ياسب سے آگے آگے رہتا تھا يا جنگ کا شجاع ترين مجاہد تھا۔ غرضيکہ سب سے زيادہ ذمے داري اسي نوجوان کے پاس تھيں ۔
جنگ تو موسم کے مطابق نہيں ہوتي ہے، کبھي موسم گرم ہے اور کبھي ٹھنڈا، کبھي صبح اورگھر ميں بچہ بيمار ہے (اُسے دوا کي ضرورت ہے ليکن حکم جنگ آگيا تو اب جنگ کيلئے فوراً جانا ہے ، سب کچھ چھوڑ کر)۔ رسول اکرم۰ کي دس سالہ حکومت ميں تقريباً ستر چھوٹي بڑي جنگيں ہوئيں، کچھ جنگيں چند روز پر مشتمل تھيں اور کچھ جنگيں ايک ماہ کے طويل عرصے تک لڑي گئيں ۔ صرف ايک جنگ کے علاوہ امير المومنين ٴنے تمام جنگوں اور غزوات ميں شرکت کي۔ ان جنگوں ميں شرکت کے علاوہ انہيں مختلف قسم کي ماموريت کيلئے بھيجا جاتا تھا، مثلاً رسول اکرم۰ نے امير المومنين ٴکو کچھ مدت کيلئے قضاوت کي غرض سے يمن بھيجا۔ بنابرايں، يہ حضرت فاطمہ علیھا السلام تھيں جو ہميشہ ان تمام حالات کا سامنا کرتي رہيں ۔ يا اُن کے شوہر جنگ ميں ہوتے يا زخمي و خون آلودہ بدن کے ساتھ گھر لوٹتے يااگر يہ دونوں حالتيں نہيں بھي ہوتيں تو بھي پيغمبر اکرم۰ کي خدمت ميں مختلف اہم امور کي انجام دہي کيلئے مدينے ميں سرگرم عمل ہيں يا پھر سفر وماموريت پر گئے ہيں ۔ حضرت فاطمہ زہر علیھا السلام نے ان تمام سخت و دشوار حالات کا جبکہ اُن کے فعال ترين شوہر ہميشہ کاموں ميں مشغول تھے،مہرباني ، ايثار اور فداکاري سے مقابلہ کيا اور چار بچوں کو اپني تعليم و تربيت کے زير سايہ پروان چڑھايا۔ ان ميں سے ايک حضرت امام حسين ٴ ہيں کہ پوري تاريخ بشريت ميں پرچم آزادي کو بلند کرنے والي اُن سے بڑي شخصيت کوئي اور نہيں ہے ۔ پس ’’حُسنُ التَّبَعُّلِ ‘‘ کا معني يہ ہے ۔
يہ وجہ ہے کہ ميرا يقين ہے اور اسي بنا پر تاکيداً آپ مرد حضرات کي خدمت ميں عرض کررہا ہوں کہ آپ کي مائيں خصوصاً آپ کي زوجات آپ کے اجر وثوات ميں شريک ہيں اور يہ درحقيقت اُن کا آپ کي فعاليت ،کام اور جدوجہد ميں اپنے اپنے مقام پر رہتے ہوئے ساتھ دينا ہے کہ جو انہوں نے انجام ديا ۔ کبھي پچا س فيصد،کبھي ساٹھ فيصد اور کبھي ستر فيصد وہ آپ کے کاموں اور اجر و ثواب ميں شريک ہيں ۔
مرد،خواتين کي اکثر زحمتوں سے بے خبر ہيں!
اگر آپ خواتين اپنے شوہروں کي طرف سے زحمت و مشقت کو برداشت کرتي ہيں اور آپ کا شوہر کام ، ملازمت، اجتماعي فعاليت و جدوجہد کي وجہ سے (نہ چاہتے ہوئے بھي) يہ زحمت و مشقت آپ کے کندھوں پر ڈالتا ہے تو جان ليجئے کہ آپ کي اس زحمت و مشقت کا خدا کي بارگاہ ميں اجر محفوظ ہے ۔ خواہ وہ ايک لمحے وايک گھنٹے ہي کا کيوں نہ ہو اور خواہ کوئي اُس کي طرف متوجہ نہيں بھي ہو ۔
بہت سے افراد، خواتين (خصوصاً بيويوں) کي زحمت و مشقت سے بے خبر ہيں ۔ اکثر لوگ يہ سمجھتے ہيں کہ زحمت و مشقت وہ چيز ہے کہ جسے انسان اپنے زور بازو اوربدني طاقت سے برداشت کرے يا انجام دے ليکن وہ لاعلم ہيں کہ کبھي کبھي روحي اور قلبي احساسات کے ذريعے برداشت کي جانے والي زحمت کا بار بہت سنگين ہوتا ہے اور لوگوں نے اسي مطلب کو اپنے ذہنوں ميں بٹھاليا ہے ۔ مرد حضرات بھي آپ خواتين کي زحمتوں سے اچھي طرح مطلع نہيں ہيں ليکن خداوند متعال ’’لَا يَخفيٰ عَلَيہ خَافِيَۃ?‘‘ ہے اور کوئي چيز اس سے پوشيدہ نہيں رہتي، وہ آپ کے کاموں پر حاضر و ناظر ہے اور آپ اُس کي بارگاہ ميں مآجور ہيں ۔
پس آپ مرد حضرات کي خدمت ميں عرض کروں کہ ان خواتين کي قدر کيجئے کہ جو زندگي کے مسائل ميں اپنے اپنے محاذ جنگ پر رہتے ہوئے آپ کے ساتھ آپ کي فعاليت و جدّوجہد شريک ہيں ۔ آپ خواتين کي خدمت ميں بھي عرض کروں يہ مرد حضرات جو کام انجام دے رہے ہيں اگر اچھي طرح انجام ديں تو ان کے يہ کام بہترين کاموں سے تعلق رکھتے ہيں ۔ راہ انقلاب ميں پاسداري و حفاظت ،بہترين کاموں سے تعلق رکھتي ہے اور اس کا اجر وثواب بھي بہت زيادہ ہے ۔ اگر آپ اپنے جوان شوہر جو اس ذمے داري کاحامل ہے،کي کاميابي ميں اُس کي مدد کريں تو اُسي نسبت سے خدا کي بارگاہ ميں آپ کي قدر و اہميت اور اجر وثواب زيادہ ہوگا۔ ہمت و حوصلے سے ان وظائف کو انجام دينا ہي ہر ملک ميں بڑے بڑے کاموں کي انجام دہي کا سبب بنتا ہے ۔ جب ايک ملک کے مردوں ،خواتين اور پيرو جوان اورمختلف افراد کي ہمت و حوصلے اور ارداے و طاقت ايک ساتھ جمع ہوجائے تو اُس قوم سے عظمت و قدرت کا ايک سيلاب امڈتا ہے کہ جو قوموں کي بے مثل ونظير طاقت و قدرت کا باعث بنتا ہے ١۔
----------
پردہ کا فلسفہ کیا ہے؟

حضرت آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی دام ظلہ
بے شک عصر حاضر میں جس کو بعض لوگوں نے عریانی اور جنسی آزادی کا زمانہ قرار دیا ہے، اور مغرب نواز لوگوں نے اس کو عورتوں کی آزادی کا ایک حصہ قرار دیا ہے، لہٰذا ایسے لوگ پردہ کی باتوں کو سن کر منہ بناتے ہیں اور پردہ کو گزشتہ زمانہ کا ایک افسانہ شمار کرتے ہیں۔
لیکن اس آزادی اور بے راہ روی سے جس قدر فسادات اور برائیاں بڑھتی جارہی ہیں اتنا ہی پردہ کی باتوں پر توجہ کی جارہی ہے۔
البتہ اسلامی اور مذہبی معاشرہ میں خصوصاً ایرانی انقلاب کے بعد بہت سے مسائل حل ہوچکے ہیں اور بہت سے سوالات کا اطمینان بخش جواب دیا جا چکا ہے، لیکن چونکہ یہ مسئلہ بہت اہم ہے لہٰذا اس مسئلہ پر مزید بحث و گفتگو کی ضرورت ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ (بہت ہی معذرت کے ساتھ)کیا عورتوں سے (ہمبستری کے علاوہ) سننے ، دیکھنے اور لمس کرنے کی دوسری لذتیں تمام مردوں کے لئے ہیں یا صرف ان کے شوہروں سے مخصوص ہیں؟!
بحث اس میں ہے کہ عورتیں اپنے جسم کے مختلف اعضا کی نمائش کے ایک بے انتہا مقابلہ میں جوانوں کی شہوتوں کو بھڑکائیں اور آلودہ مردوں کی ہوس کا شکار بنیں یا یہ مسائل شوہروں سے متعلق ہیں؟!
اسلام اس دوسری قسم کا طرف دار ہے ، اور حجاب کو اسی لئے قرار دیا ہے، حالانکہ مغربی ممالک اور مغرب نواز لوگ پہلے نظریہ کے قائل ہیں۔
اسلام کہتا ہے کہ جنسی لذت اور دیکھنے ، سننے اور چھونے کی لذت شوہر سے مخصوص ہے اس کے علاوہ دوسرے کے لئے گناہ، آلودگی اور معاشرہ کے لئے ناپاکی کا سبب ہے۔
فلسفہ حجاب کوئی مخفی اور پوشیدہ چیز نہیں ہے، کیونکہ:
۱۔ بے پردہ عورتیں معمولاً بناؤ سنگار اور دیگر زرق و برق کے ذریعہ جوانوں کے جذبات کو ابھارتی ہیں جس سے ان کے احساسات بھڑک اٹھتے ہیں اور بعض اوقات نفسیاتی امراض پیدا ہوجاتے ہیں،انسان کے احساسات کتنے ہیجان آور وزن کو برداشت کرسکتے ہیں؟ کیا نفسیاتی ڈاکٹر یہ نہیں کہتے کہہمیشہ انسان میں ہیجان سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
خصوصاً جب یہ بھی معلوم ہو کہ جنسی غریزہ انسان کی سب سے بنیادی فطرت ہوتی ہے جس کی بنا پر تاریخ میں ایسے متعددخطر ناک حوادث اور واقعات ملتے ہیں جس کی بنیاد یہی چیز تھی،یہاں تک بعض لوگوں کا کہنا ہے: ”کوئی بھی اہم واقعہ نہیں ہوگا مگر یہ کہ اس میں عورت کا ہاتھ ضرور ہوگا“!
ہمیشہ بازاروں اور گلی کوچوں میں عریاں پھر کر احساس کو بھڑکانا؛ کیا آگ سے کھیلنا نہیں ہے؟ اور کیا یہ کام عقلمندی ہے؟!
اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ مسلمان مرد اور عورت چین و سکون کے ساتھ زندگی بسر کریں اور ان کی آنکھیں اور کان غلط کاموں سے محفوظ رہیں اور اس لحاظ سے مطمئن طور پر زندگی بسر کریں، پردہ کا ایک فلسفہ یہ بھی ہے۔
۲۔ مستند اور قطعی رپورٹ اس چیزکی گواہی دیتی ہیں کہ دنیا بھر میں جب سے بے پردگی بڑھی ہے اسی وقت سے طلاقوں میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، کیونکہ ”ہر چہ دیدہ بیند دل کند یاد“ انسان جس کا عاشق ہوجاتا ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا انسان ہر روز ایک دلبرکو تلاش کرتا ہے تو دوسرے کو الوداع کہتا ہوا نظر آتا ہے۔
جس معاشرہ میں پردہ پایا جاتا ہے (اور اسلامی دیگر شرائط کی رعایت کی جاتی ہے) اس میں یہ رشتہ صرف میاں بیوی میں ہوتا ہے ان کے احساسات، عشق اور محبت ایک دوسرے کے لئے مخصوص ہوتے ہیں۔
لیکن ”اس آزادی کے بازار“ میں جبکہ عورتیں ؛ عملی طور پر ایک سامان کی حیثیت رکھتی ہیں (کم از کم جنسی ملاپ کے علاوہ) تو پھر ان کے لئے میاں بیوی کا عہد و پیمان کوئی مفہوم نہیں رکھتا، اور بہت سی شادیاں مکڑی کے جالے کی طرح بہت جلد ہی جدائی کی صورت اختیار کرلیتی ہیں، اور بچے بے سر پرست ہوجاتے ہیں۔
۳۔ فحاشی کا اس قدر عام ہوجانا اور نا جائز اولادیں پیدا ہونا؛ بے پردگی کے نتیجہ کا ایک معمولی سا درد ہے، جس کے بارے میں بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ مسئلہ خصوصاً مغربی ممالک میں اس قدر واضح ہے جس کے بارے میں بیان کرناسورج کو چرا غ دکھاناہے، سبھی لوگ اس طرح کی چیزوں کے بارے میں ذرائع ابلاغ سے سنتے رہتے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ فحاشی اور نا جائز بچوں کی پیدائش کی اصل وجہ یہی بے حجابی ہے،ہم یہ نہیں کہتے کہ مغربی ماحول اور غلط سیاسی مسائل اس میں موثر نہیں ہے، بلکہ ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ عریانی اور بے پردگی اس کے موثر عوامل اور اسباب میں سے ایک ہے۔
فحاشی اور ناجائز اولاد کی پیداوار کی وجہ سے معاشرہ میں ظلم و ستم اور خون خرابہ میں اضافہ ہوا ہے، جس کے پیش نظر اس خطرناک مسئلہ کے پہلو واضح ہوجاتے ہیں۔
جس وقت ہم سنتے ہیں کہ ایک رپورٹ کے مطابق انگلینڈ میں ہر سال پانچ لاکھ بچے ناجائز طریقے سے پیدا ہوتے ہیں، اور جب ہم سنتے ہیں کہ انگلینڈ کے بہت سے دانشوروں نے حکومتی عہدہ داروں کو یہ چیلنج دیا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ملک کی امنیت کو خطرہ ہے، (انھوں نے اخلاقی اور مذہبی مسائل کی بنیاد پر یہ چیلنج نہیں کیا ہے) بلکہ صرف اس وجہ سے کہ حرام زادے بچے معاشرہ کے امن و امان کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں، کیونکہ جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عدالت کے مقدموں میں اس طرح کے افراد کا نام پایا جاتا ہے، تو واقعاً اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ دین و مذہب کو بھی نہیں مانتے ،اس برائی کے پھیلنے سے وہ بھی پریشان ہیں، لہٰذامعاشرہ میں جنسی فساد کو مزید پھیلانے والی چیزمعاشرہ کی امنیت کے لئے خطرہ شمار ہوتی ہے اور اس کے خطر ناک نتائج ہر طرح سے معاشرہ کے لئے نقصان دہ ہیں۔
تربیتی دانشوروں کی تحقیق بھی اسی بات کی عکاسی کرتی ہے کہ جن کالجوں میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے ہیں یا جن اداروں میں مرد اور عورت ایک ساتھ کام کرتے ہیں اور ان کو ہر طرح کی آزادی ہے تو ایسے کالجوں میں پڑھائی کم ہوتی ہے اور اداروں میں کام کم ہوتا ہے اور ذمہ داری کا احساس بھی کم پایا جاتا ہے۔
۴۔ بے پردگی اور عریانی عورت کی عظمت کے زوال کا بھی باعث ہے، اگر معاشرہ عورت کو عریاں بدن دیکھنا چاہے گا تو فطری بات ہے کہ ہر روز اس کی آرائش کا تقاضا بڑھتا جائے گا اور اس کی نمائش میں اضافہ ہوتا جائے گا، جب عورت جنسی کشش کی بنا پر ساز و سامان کی تشہیر کا ذریعہ بن جائے گی ، انتظار گاہوں میں دل لگی کا سامان ہوگی اور سیّاحوں کو متوجہ کرنے کا ذریعہ بن جائے گی تو معاشرہ میں اس کی حیثیت کھلونے یا بے قیمت مال و اسباب کی طرح گرجائے گی، اور اس کے شایانِ شان انسانی اقدار فراموش ہوجائیں گے، اور اس کا افتخار صرف اس کی جوانی، خوبصورتی اور نمائش تک محدود ہوکر رہ جائے گا۔
اس طرح سے وہ چند ناپاک فریب کار انسان نما درندوں کی سر کش ہواو ہوس پوری کرنے کے آلہٴ کار میں بدل جائے گی!۔
ایسے معاشرہ میں ایک عورت اپنی اخلاقی خصوصیات، علم و آگہی اور بصیرت کے جلووں کو کیسے پورا کرسکتی ہے اور کوئی بلند مقام کیسے حاصل کرسکتی ہے؟!
واقعاً یہ بات کتنی تکلیف دِہ ہے کہ مغربی اور مغرب زدہ ممالک میں عورت کا مقام کس قدر گرچکا ہے خود ہمارے ملک ایران میں انقلاب سے پہلے یہ حالت تھی کہ نام، شہرت، دولت اور حیثیت ان چند ناپاک اور بے لگام عورتوں کے لئے تھی جو ”فنکار“ اور آرٹسٹ کے نام سے مشہور تھیں، جہاں وہ قدم رکھتی تھیں اُس گندے ماحول کے ذمہ دار اُن کے لئے آنکھیں بچھاتے تھے اور انھیں خوش آمدید کہتے تھے۔
اللہ کا شکر ہے کہ ایران میں وہ سب گندگی ختم کردی گئی اور عورت اپنے اس دور سے نکل آئی ہے جس میں اسے رُسوا کردیا گیا تھا، اور وہ ثقافتی کھلونے اور بے قیمت ساز و سامان بن کر رہ گئی تھی، اب اس نے اپنا مقام و وقار دوبارہ حاصل کرلیا ہے اور اپنے کو پردہ سے ڈھانپ لیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ گوشہ نشین ہوگئی ہو، بلکہ معاشرہ کے تمام مفید اور اصلاحی کاموں میں یہاں تک کہ میدان جنگ میں اسی اسلامی پردے کے ساتھ بڑی بڑی خدمات انجام دے رہی ہیں۔
حجاب کے مخالفین کے اعتراضات
(قارئین کرام!) ہم یہاں پر حجاب کے مخالفین کے اعتراضات کو بیان کرتے ہیں اور مختصر طور پر ان کے جوابات بھی پیش کرتے ہیں:
۱۔ حجاب کے مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ معاشرہ میں تقریباً نصف عورتیں ہوتی ہیں لیکن حجاب کی وجہ سے یہ عظیم جمعیت گوشہ نشین اور طبعی طور پر پسماندہ ہوجائے گی ، خصوصاً جب انسان کو کاروبار کی ضرورت ہوتی ہے اور انسانی کار کردگی کی ضرورت ہوتی ہے، تو اگر عورتیں پردہ میں رہیں گی تو اقتصادی کاموں میں ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا، نیز ثقافتی اور اجتماعی اداروں میں ان کی جگہ خالی رہے گی! اس طرح وہ معاشرہ میں صرف خرچ کریں گی اور معاشرہ کے لئے بوجھ بن کر رہ جائیں گی۔
لیکن جن لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے وہ چند چیزوں سے غافل ہیں یا انھوں نے اپنے کو غافل بنا لیا ہے، کیونکہ:
اولاً : یہ کون کہتا ہے کہ اسلامی پردہ کی وجہ سے عورتیں گوشہ نشین اور معاشرہ سے دور ہوجائیں گی؟ اگر گزشتہ زمانہ میں اس طرح کی دلیل لانے میں زحمت تھی تو آج اسلامی انقلاب (ایران) نے ثابت کر دکھایا ہے کہ عورتیں اسلامی پردہ میں رہ کر بھی معاشرہ کے لئے بہت سے کام انجام دے سکتی ہیں، کیونکہ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ خواتین ؛اسلامی پردہ کی رعایت کرتے ہوئے معاشرہ میں ہر جگہ حاضر ہیں، اداروں میں، کار خانوں میں، سیاسی مظاہروں میں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں، ہسپتالوں میں، کلینکوں میں، خصوصاً جنگ کے دوران جنگی زخمیوں کی مرہم پٹی اور ان کی نگہداشت کے لئے، مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں، دشمن کے مقابلہ میں میدان جنگ میں، خلاصہ ہر مقام پر عورتوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان کو امریکی دھمکی
ایران ،پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے افتتاح کے بعد امریکی حکومت نے اس پر مداخلتی بیان دیتے ہوئے منصوبے میں شامل ہونے کی بناء پر پاکستان کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی ہے۔
غیرملکی خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان ویکٹوریہ نولینڈ نے کل ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا کہ ہمیں اس منصوبے پر شدید خدشات ہیں اور امریکہ نے اس پر اپنے خدشات سے پاکستان کو واضح طور پرآگاہ کر چکا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی دباؤ کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان کے صدور نے کل پیر کو ایران –پاکستان گیس پائپ لائن کا افتتاح کیا۔افتتاحی تقریب میں صدرمملکت محمود احمدی نژاد نے کہا کہ مغرب کا حق نہیں بنتا کہ اس منصوبے کی ممانعت کرے۔
ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ،خوشحالی کا باعث
اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان کے صدور ڈاکٹر احمدی نژاد اور آصف علی زرداری نے امن گیس پائپ لائن کے نام سے موسوم ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھ دیا۔سنگ بنیاد کی تقریب کا انعقاد ایران کے شہر چابہار میں دونوں ملکوں کی مشترکہ سرحد کے فریب کیا گیا۔اس تقریب میں ایران اور پاکستان کے اعلی حکام اور کابینی وزرا کے علاوہ متعدد اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔ایک ارب پچاس کروڑ ڈالر مالیت کے اس منصوبے کی تکمیل کے بعد پاکستان کو روزانہ 75 کروڑ مکعب فٹ گیس حاصل ہوگی۔
اس موقع پر پاکستان کے وزیر پیٹرولیم عاصم حسین نے کہا کہ امن گیس پائپ لائن سے ایران اور پاکستان کے تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ پائپ لائن دو ہمسایہ ملکوں کے تعلقات میں ایک اہم سنگ میل ہے اور یہ کہ اس پائپ لائن کی بدولت پاکستان کے ترقیاتی کاموں اور بندرگاہوں کے امور میں کافی تیزی آئے گي۔
سنگ بنیاد کی تقریب سے پہلے ایران کے چابہار ہوائي اڈے پر ایران اور پاکستان کے صدور نے اپنی ملاقات میں اس عزم کا اظہار کیا کہ دونوں ملکوں کے عوام کی آسائیش اور خوش حالی کے لئے تمام تر توانائیوں سے استفادہ کیا جائے گا اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے
اسلام اور حقوقِ نسواں
ہم اسلام کے احسانات کو یاد نہیں رکھتے ، بس ان معاملات میں الجھے رہتے ہیں جو ہمارے دل کی تنگی کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔ پھر ہم شکایتیں کرتے ہیں کہ اسلام نے عورت کی حیثیت کو کم کیا ہے۔
جبکہ اسلام نے عورت کو وہ حقوق دئے ہیں جو کسی اور مذہب نے نہیں دئے۔
دنیا کی کسی بھی مذہی کتاب میں عورتوں کے نام سے کوئی chapter موجود نہیں لیکن قرآن وہ واحد آسمانی کتاب ہے جس میں عورتوں کے نام (النساء) کی ایک مکمل سورۃ موجود ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ مرد اور عورت میں سے کس کا درجہ بڑا ہے اور کس کا کم ؟
بےشک مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں جو بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔سورۃ:التوبۃ ، آیت:71
جدیدیت کا مطلب ہم نے یہ لے لیا ہے کہ مرد اور عورت مادر پدر آزاد ہو جائیں، انہیں کوئی روک ٹوک نہ ہو۔
مغرب نے جب اس طرح کی آزادی اور حقوق عورت کو دئے تو آج اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں :
* آج وہاں ناجائز بچوں کی تعداد جائز سے زیادہ ہے
* یہی بچے مستقبل کے جرائم پیشہ افراد بنتے ہیں
* مغربی مفکر اس رحجان سے پریشان ہیں اور ان موضوعات پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں
* عورت کے لئے "بیک ٹو ہوم" کا نعرہ لگایا جا رہا ہے
مغرب نے عورت کو چند حقوق تو دئے لیکن بدلے میں عورت نے اپنا سکون ، شرم و حیا اور گھر جیسے پرسکون ادارے کو خیرباد کہہ دیا۔ اتنا کچھ گنوا کر ہی اسے نام نہاد آزادی ملی۔
کیا ہم مسلمان بھی یہی چاہتے ہیں کہ اتنا بہترین نظامِ زندگی جو اسلام نے دیا ہے ، اسے چھوڑ کر غیروں سے رہنمائی حاصل کریں ؟
مسلمان عورت کو معاش کی ذمہ داری سے مبرا کیا گیا ، اس کا دائرہ کار مخصوص کیا گیا اور اسے گھر پر توجہ دینے پر ابھارا گیا۔
آج مغربی دنیا میں اسلام تیزی سے پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ اس میں اکثریت تعلیم یافتہ خواتین کی ہے اور خواتین یہی کہتی ہیں کہ جو حقوق اور تحفظ اسلام میں ہے ، وہ کہیں اور نہیں۔
عورت کو اسلام میں اتنی آزادی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے تجارت کر سکتی ہے۔ اپنی علیحدہ جائداد رکھ سکتی ہے۔ تعلیم حاصل کر سکتی ہے۔
مغربی معاشرہ یا اس سے مرعوب مسلمان یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ خواتین کو حقوق دئے جائیں۔ لیکن خود اس معاشرے نے خواتین کو کیا دیا؟
آرٹ اور کلچر کے خوبصورت پردوں کے پیچھے عورت کا اس قدر استحصال کیا گیا کہ وہ مردوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گئی۔
اسلام ، عورت کو عورت ہی رہنے دیتے ہوئے ، وہ تمام جائز کاموں کی اجازت دیتا ہے جو مردوں کو حاصل ہیں اور کوئی چیز اس کی ترقی میں مانع نہیں ہوتی۔
عورت تعلیم میں مردوں سے بھی آگے جا سکتی ہے لیکن حدود وہی رہیں گے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کے لئے مقرر کئے ہیں۔
کچھ جگہ مسلم معاشرے کا خود قصور ہے کہ وہ عورت کو اس کا جائز حق نہیں دیتے اور یہ صرف قرآن و سنت کی تعلیم سے دوری کا نتیجہ ہے۔
گیس پائپ لائن ،امریکہ پاکستان کے خلاف سازشی جنگ شروع کرسکتا ہے
پاکستان میں آئی ایس آئی کےسابق سربراہ اور دفاعی امورکے ماہر جنرل (ر) حمیدگل نے کہا ہے کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ امریکہ کو پسند نہیں آئےگا، امریکہ آج سے پاکستان کے خلاف نئی سازشی جنگ شروع کر سکتا ہے۔
پاکستانی اخبار نوائے وقت کی رپورٹ کے مطابق جنرل (ر) حمیدگل نے گذشتہ روز آئی این پی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے بعد امریکہ کی پاکستان کیخلاف سازشی جنگ مزید تیز ہو جائیگی۔ انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ امریکہ کبھی پاکستان کا دوست رہا ہے اور نہ ہی اس سے خیر کی توقع کرنی چاہئے کہا کہ حکومت پہلے دن ملکی مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتی تو آج ملک میں بہت سے مسائل حل ہو چکے ہوتے۔ جنرل (ر) حمید گل نے امریکی سازشوں پر پاکستانی عوام اور حکومت کی ہوشیاری پر تاکید کی اور کہا کہ موجودہ حکمران جب سے اقتدار میں آئے ہیں اگر پہلے دن سے ہی ملکی مفاد میں فیصلے کرتے تو دہشت گردی سمیت بہت سے مسائل حل ہو چکے ہوتے۔
واضح رہے کہ امریکی دباؤ کے باوجود پاکستان نے بارہا اعلان کیا ہے کہ اپنے قومی مفادات کے تحت ایران ،پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ جاری رکھے گا ۔
فرانس میں مسلمانوں کی آبادی 60 لاکھ ہے
فرانس کے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کی آبادی 60 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے اور آئندہ چند سالوں تک اسلام فرانس کا دوسرا سرکاری مذہب بن جائے گا۔
فرانس کی نیوز ایجنسی کے حوالے سے خبر شائع کی ہے کہ فرانس کے وزیر داخلہ نے کہا ہے فرانس میں مسلمانوں کی تعداد 60 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے اور آئندہ چند سالوں تک اسلام فرانس کا دوسرا سرکاری مذہب بن جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا اس وقت فرانس میں دو ہزار سے زائد مساجد موجود ہیں۔ انہوں نے کہا فرانس اور یورپ میں مسلمانوں کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہئے۔
فرانس کے وزیر داخلہ نے کہا افسوسناک امر یہ ہے کہ مغربی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں پر بہت زیادہ ظلم ہوا ہے۔
بنگلہ دیش میں پولیس اور جماعت اسلامی کے اراکین کے درمیان جھڑپ
بنگلہ دیش میں پولیس اور جماعت اسلامی کے اراکین کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں کم سے کم ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گيا ہے۔
اطلاعات کے مطابق بنگلہ دیش کی پولیس نے ایک بیان جاری کرکے کہا کہ ملک کے جنوبی علاقے " کھلنا ' میں آج صبح جماعت اسلامی کے اراکین اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپ ہوئي جس کے نتیجے میں کم سے کم ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوگیا۔اطلاعات کے مطابق پولیس جماعت اسلامی کے ایک رکن کو گرفتار کرنے کے لئے علاقے کے ایک گاؤں پہنچی تو جماعت اسلامی کے تقریبا" ایک ہزار حامیوں نے پولیس پر حملہ کردیا۔پولیس اور جماعت اسلامی کے حامیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں کئي پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے ۔
ہندوستان کا کوہ نور ہیرا واپس نہیں کیا جائے گا
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اعلان کیا ہے کہ وہ برطانوی شاہی خاندان کے تاج پر جڑا ہوا ہندوستانی کوہ نور ہیرا ہندوستان کو واپس نہیں کریں گے۔
ہندوستان کوہ نور ہیرے کی واپسی کے لئے برطانیہ سے کئی بار درخواستیں کرچکا ہے، تاہم اپنے تین روزہ دورۂ ہند کے موقع پربرطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے واضح کیا کہ ہندوستان کا ہیرا ہندوستان کو لوٹائے جانے کا کوئی امکان نہیں۔
کوہ نور ہیرا 105 قیراط کا ہے جسے لندن کے شاہی محل میں نمائش کے لئے رکھا گیا ہے۔
یہ قیمتی پتھر ہندوستان سے برطانیہ منتقل کیا گيا تھا اوراسے 1877ء میں برطانوی ملکہ الیزابتھہ کی ماں ملکۂ وکٹوریا کے تاج کی زینت بنایا گیا تھا۔ ہندوستان نے اس قیمتی پتھر کو حاصل کرنے کے لئے کئی بار درخواستیں کیں لیکن برطانیہ نے ہندوستان کی ان درخواستوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔
کینیڈا میں اسلام کے فروغ کے لیے مسلم طلباء کی مہم کا آغاز
کینیڈا کے مسلمان اسٹوڈنٹس نے اس ملک میں اسلام کے فروغ کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا ہے۔
خبررساں ایجنسی شبستان نے آن اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ کینیڈا کے شہر رگینا میں مسلمان اسٹوڈنٹس دین اسلام کی تعلیمات کو فروغ دینے کے لیے اس ملک کے مختلف سکولوں میں جاکر اسلام اور اسلامی ثقافت کے بارے گفتگو کرتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ ھدی سکول میں تعلیم حاصل کرنے والے یہ اسٹوڈنٹس دیگر سکولوں میں جا کر اسٹوڈنٹس کے سوالات کے جوابات دیتے ہیں تاکہ دین اسلام کے بارے میں ان کی معلومات میں اضافہ ہو سکے۔
اس مہم میں ایک اہم ترین مسئلہ پردے کا موضوع ہے کہ جس کے بارے میں بحث وگفتگو کی جاتی ہے اس کے علاوہ ایک موضوع حلال کھانوں کاہے کہ جو مسلمانوں کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے لہذا مسلمان اسٹوڈنٹس وضاحت کرتے ہیں کہ سور کا گوشت کیوں حرام ہے اور مسلمان اپنے کھانوں میں اس گوشت سے کیوں استفادہ نہیں کرتے ہیں؟
یاد رہے کہ اس وقت رگینا شہر میں تین سے پانچ ہزار مسلمان زندگی بسر کر رہے ہیں۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
