
Super User
پاکستان ميں دہشتگردي کي مذمت
اقوام متحدہ کے سکريٹري جنرل بان کي مون نے پاکستان ميں شيعہ زائرين کي بس پر دہشت گردانہ حملے اور طالبان کے ہاتھوں اغوا کئے جانے کے بعد پاکستاني فوجيوں کے قتل کے واقعات کي مذمت کي ہے -
بان کي مون نے اسي طرح پاکستان ميں دہشت گردانہ واقعات ميں اضافے پر اپني گہري تشويش کا اظہار کيا-
اقوام متحدہ کے سکريٹري جنرل کے ترجمان مارٹين نسير کي نے ايک بيان ميں کہا کہ بان کي مون نے خاص طور پر مذہبي اقليتوں کے خلاف دہشت گردانہ اقدامات کي مذمت کي ہے -
بان کي مون نے ساتھ ہي طالبان کے ہاتھوں پاکستاني فوجيوں کے اغوا اور پھر انہيں قتل کرديئے جانے کےواقعے کي بھي مذمت کي - انہوں نے کہا کہ کوئي بھي دليل يا مطالبہ اس طرح کے دہشت گردانہ اقدامات کا جواز نہيں بن سکتا-
اقوام متحدہ نے حکومت پاکستان سے اپني يکجہتي کا اظہار کرتے ہوئے دہشتگردي کے خلاف جنگ ميں پاکستان کے اقدامات کي حمايت کا اعلان کيا
رہبر معظم کا 19 دی کی مناسبت سے قم کے عوام کے اجتماع سے خطاب
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح (بروز منگل) قم کے ہزاروں انقلابی اور دیندار افراد کے
اجتماع سے خطاب میں 19 دی ماہ میں قم کے عوام کے قیام کو مبارک ، فیصلہ کن اور اللہ تعالی کے سچے وعدوں کے پورا ہونے کا مظہر قراردیا اور دشمنوں کی حرکات و سکنات ، منصوبوں بالخصوص آئندہ خرداد ماہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے سلسلے میں دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں پائداری، ہوشیاری اور بیداری پر تاکید کرتے ہوئے انتخابات کے بارے میں حکام ، خواص ، عوام ، ذرائع ابلاغ اور انتخابات میں نامزد ہونے والے افراد کی ذمہ داریوں کے بارے میں اہم نکات بیان کئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب کے دوران اور حالیہ تین عشروں میں رونما ہونے والے واقعات اور 19 دی کے قیام جیسے یادگار واقعات کو سبق آموز قراردینے ہوئے فرمایا: بعض لوگ شاہ کی مغرور اور متکبر حکومت پر کامیابی اور امریکہ کی تسلط پسند اور ظالم حکومت کے ذلت آمیز چنگل سے رہائی کو مشکل اور محال تصور کرتے تھے ، لیکن اللہ تعالی کی مدد و نصرت سے شاہ کی طاغوتی حکومت تاریخ کے کوڑے داں میں پھینک دی گئی اور اسلامی جمہوریہ ایران اور ایرانی قوم نے امریکہ کے مد مقابل مکمل استقلال حاصل کرلیا اورآج دیگر قوموں کی آنکھوں میں ایرانی قوم کا نام اور اسلامی نظام قابل فخر اور مایہ ناز بن گیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حالیہ تین عشروں میں کامیابیوں کو اللہ تعالی کے وعدوں کے محقق ہونے کا مظہر اور قرآن مجید کی متعدد آیات کا حوالہ دیتے ہوئےفرمایا: یقینی اور قطعی طور پر اللہ تعالی کی مدد و نصرت مناسب وقت میں مؤمن، پائدار، ہوشیار اور آگاہ قوموں کو حاصل ہوجاتی ہے اور یہ اللہ تعالی کی اٹل اور ناقابل تغییر سنت ہے اور اللہ تعالی کی اسی سنت کی بنیاد پر ایرانی قوم اس مرحلے میں اور دیگر مراحل میں اپنے دشمنوں پر کامیاب ہوجائےگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دنیا میں ایرانی قوم کےصحیح اہداف ، صاف و شفاف گفتگو اور ان اہداف کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں تدبیر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر ایران کی عزیز قوم، اورحوصلہ مند و توانا جوان، استقامت اور پائداری کے ساتھ اپنی راہ پر گامزن رہیں گے تو بیشک اللہ تعالی کی سچی سنت کی بنیاد پر اور مناسب وقت میں ان کے تمام قومی ، مذہبی اور عالمی نعرے محقق ہوجائیں گے اور تاریخ کی راہ بدل جائے گی اور حضرت ولی عصر (عج) کے ظہور کی راہیں ہموار ہوجائیں گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے اورایرانی عوام کو تنگ کرنے کے سلسلے میں سامراجی حکومتوں کے باہمی اتحاد و تعاون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: سامراجی طاقتیں ماضی کی نسبت آج کھل کر اس بات کا اعتراف کررہی ہیں کہ اقتصادی پابندیوں کا مقصد ایرانی قوم کو تنگ اور پریشان کرنا ہے تاکہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے مد مقابل کھڑے ہوجائيں اور ایرانی حکام کو اپنے محاسبات میں تبدیلی لانےپر مجبور کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: لیکن اس سرزمین کے لوگوں کے رجحانات میں اسلام کے اصولوں ،انقلاب اور ایرانیوں کی قومی عزت کے سلسلے میں روز بروز اضافہ ہورہاہے اور یہ کام دشمن کی مرضی کے بالکل خلاف ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کے ساتھ سامراجی طاقتوں کےمقابلے میں مؤثر عوامل کےتجزيہ و تحلیل میں قوم کی ہوشیاری اور بیداری کو بہت ہی ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: ہمیں اجتماعی تقوی اور ہمہ جہت بیداری اور ہوشیاری کے ساتھ دشمن کے منصوبوں پر کڑی نظر رکھنی چاہیےاور کسی ایسے مسئلہ کو وجود میں نہ لائیں جو ہمیں دشمن سے غافل بنادے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکام، مطبوعات اور انٹرنیٹی سائٹوں کے ذمہ دار افراد کو اپنی مکرر تاکیدات اور سفارشات کی طرف توجہ دلائی اور انھیں غلط اور جزئی مسائل بیان کرنے سے دور رہنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ان تمام سفارشوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم سب کی توجہ دشمن کی طرف مبذول ہونی چاہیے تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے کہ دشمن کس ہدف اور مقصد کےپیچھے ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمن کے منصوبوں اور اہداف کو درک کرنے کے لئے پیش کردہ منطقی دائرہ کار یعنی قومی ہوشیاری پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: دشمن کی رفتار و گفتار سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے اپنی توجہ پانچ ماہ بعد خرداد ماہ 1392 میں ایران میں ہونے والے انتخابات پر مرکوز کررکھی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےصدارتی انتخابات کے گیارہویں مرحلے کے بارے میں دشمنوں اور اغیار کی روشوں اور تکنیک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دشمن سب سے پہلے انتحابات منعقد نہ ہونے کے سلسلے میں کوشش کرےگا لیکن انھیں معلوم ہےکہ ایسا ہونے والا نہیں ہے لہذا انھیں اس مسئلہ میں بالکل مایوسی کا سامنا ہے۔
رہبر معظم انقلاب نے اسی سلسلے میں مزید فرمایا: ایک مرتبہ کچھ افراد نے کوشش کی تاکہ انتخابات کو اگر ہوسکے تو دو ہفتوں کے لئے مؤخر کردیا جائے لیکن ہم نے تاکید کی کہ انتخابات کو ایک دن بھی مؤخر نہیں ہونا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ انتخابات بالکل اپنے وقت پر ہوں گے اور دشمن کے لئے یہ راستہ بالکل مسدود اور بند ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمن کی طرف سے عوام کو انتخابات میں شرکت سے روکنے و مایوس کرنے کے سلسلے میں دشمن کے واضح ہدف اور رکاوٹ ڈالنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ممکن ہے بعض لوگ ہمدردی اور دلسوزی کے ساتھ انتخابات کے بارے میں اظہار خیال کریں لیکن سب کو اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ کہیں ان کے کسی اقدام سے دشمن کے منصوبے کو مدد نہ ملے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آزاد انتخابات کی بار بار رٹ لگانے والے افراد پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا: یہ واضح ہے کہ انتخابات آزاد منعقد ہونے چاہییں کیا گذشتہ تین عشروں میں ہونے والے انتخابات آزاد منعقد نہیں ہوئے ہیں؟ کون سے ملک میں ایران سے زیادہ آزاد انتخابات منعقد ہوتے ہیں؟ آپ ہوشیاررہیں ، کہیں آپ کی یہ باتیں انتخابات میں عوام میں مایوسی پیدا ہونےکا سبب نہ بن جائیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں انتخابات میں دشمن کے منصوبوں کو مدد پہنچانے والے طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کون سے ملک میں امیدواروں کی صلاحیتوں کے بارے میں جانچ پڑتال نہیں ہوتی؟ آپ کیوں اس مسئلہ پر اتنا زور دے رہے ہیں اس لئے تاکہ عوام کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ انتخابات میں شرکت کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس دائرے میں عمدی یا غیر عمدی طورپر حرکت کرنے والے افراد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: غفلت کا ہر گز شکار نہیں ہونا چاہیےاور دشمن کےمد نظر جدول کو بھرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات کی سلامت کے بارے میں شکوک وشبہات ڈالنے والے افراد پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان کے اس اقدام کو ایسی دیگر روشوں میں شمار کیا جو دشمن کے منصوبوں کو مدد پہنچاتی ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: میں بھی اسی بات پر تاکید اور اصرار کرتا ہوں کہ انۃحابات کو مکمل طور پر صحیح و سالم اور امانتداری کے ساتھ منعقد ہونا چاہیے اور حکومتی اورغیر حکومتی اہلکاروں کو قوانین کے مطابق اور تقوی اور پرہیزگاری کے ساتھ سالم انتخابات منعقد کرانے چاہییں اوریقینی طور پر ایسا ہی ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سالم انتخابات منعقد کرانے کے سلسلے میں بنیادی آئين میں موجود بہترین روشوں اور طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بنیادی آئين وقوانین کے طریقوں پر پابندی در حقیقت سالم انتخابات منعقد کرانےکی اصلی ضمانت ہے مگر یہ کہ بعض لوگ غیر قانونی طریقوں کا سہارا لیں جیسا کہ بعض افراد نے سن 1388 ہجری شمسی کے انتخابات میں غیر قانونی طریقوں پر عمل کیااورملک و قوم کے لئے مشکلات اور مسائل پیدا کئے اوراپنے لئے بھی دنیا اور ملاء اعلی میں شرمندگی اور بدبختی کے اسباب فراہم کئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےانتخابات میں دشمن کے اصلی ہدف میں ممد و معاون روشوں کی تشریح میں عوام کی انتخابات میں کمرنگ شرکت کو قراردیتے ہوئے فرمایا: ممکن ہے بعض لوگ انتخابات میں کوئی حادثہ یاکوئی اقتصادی ، سیاسی یا سکیورٹی سے متعلق واقعہ رونما کرکے توجہ کو دوسری طرف مبذول کردیں کیونکہ یہ بھی دشمن کے منصوبوں میں شامل ہے۔ لیکن میں مطمئن ہوں کہ ایرانی قوم بہت ہی ہوشیار اور بابصیرت قوم ہے اور وہ دشمنوں کے مکر و فریب کو ناکام بنادےگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آئندہ صدارتی انتخابات کے امیدواروں کے بارے میں بھی بیان کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات میں شرکت کو عوام کا حق و وظیفہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوری نظام اور اسلامی قوانین پر یقین رکھنے والا ہر فرد انتخابات میں اپنے اس حق کا استعمال کرےگااوراپنے وظيفہ پر عمل کرے گا اور بعض لوگ انتخابات میں اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لیں گے اور اپنی توانائیوں کو عوام کے سامنےآزمائیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےملک کے انتظامی امور کے چلانے کو سنگین اور مشکل کام قراردیتے ہوئے فرمایا: اجرائی اور انتظامی کام کوئی معمولی اور آسان کام نہیں ہےبلکہ یہ کام بہت ہی مشکل کام ہے جو اعلی سطح کی انتظامیہ کے دوش پر ڈالا جاتا ہےلہذا ایسے لوگ صدارتی امیدوار بنیں جو اپنے اندر ایسی توانائی محسوس کریں اور انتظامی کام جانتے ہوں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں مزید فرمایا: ممکن ہے بعض افراد دوسری جگہوں پر کام میں مشغول ہوں اور تشخیص نہ دے سکیں کہ انتظامی اور اجرائی کام کتنا مشکل ہے لہذا ایسے افراد صدارتی انتخابات میں نامزد ہوں جو اجرائی اور انتظامی صلاحیتیں رکھتےہوں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےفرمایا: ایسے افراد صدارتی امیداوار بنیں جو اس سنگين کام کو انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور بنیادی آئین میں جو صلاحیتیں شرط ہیں ان پر بھی پورے اترتے ہوں جن کا گارڈین کونسل جائزہ لےگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: صدارتی امیدواروں کو حقیقی طورپر اسلامی نظام اور بنیادی قوانین سے لگاؤ رکھنا چاہیے اور ان میں بنیادی آئین کو نافذ کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے کیونکہ صدر اس سلسلے میں قسم کھاتا اور حلف اٹھاتا ہے اور قدرتی طور پر جھوٹی قسم نہیں کھانی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے اختتام پر آئندہ انتخابات کے بارے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: انشاء اللہ اور اللہ تعالی کےفضل و کرم سے آئندہ سال خرداد ماہ میں شاندار اورولولہ انگیز صدارتی انتخابات منعقد ہوں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قم کے عوام کے شاندار اور ولولہ انگیز اجتماع میں انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد قم کے عوام کے فیصلہ کن اور مؤثر اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انیس دی کے واقعہ کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس قسم کے واقعات سےنئی نسل اپنے ماضی کی تاریخ سے واقف وآشناہوتی ہے جبکہ قوم کی قابل فخر مجاہدت کی بھی قدردانی ہوتی ہے اوراس عمل سے ہر دور کے جوانوں کو یہ سبق ملےگا کہ طاقتور طاقتوں اوردشمنوں کے مقابلے میں استقامت و پائداری سےحتمی کامیابی حاصل ہو جائےگی۔
رہبر معظم سے مجمع خیرین سلامت کے اراکین کی ملاقات
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک میں خیرین سلامت کونسل کے اراکین کے ساتھ ملاقات میں " حفظان صحت و سلامت اور علاج " کے امور کو ملک کے اصلی اور بنیادی مسائل میں قراردیا اور اس سلسلے میں ابتدائی طور پر عوام کی طرف کی جانے والی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جب بھی عوامی جذبہ و ایمان اور توانائی میدان عمل میں واردہوتی ہے تو کاموں میں دگنی برکت پیدا ہوجاتی ہے اور مشکلات حل ہوجاتی ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سیاست، اقتصاد، صحت و سلامت، ثقافت اور تعلیم کے شعبوں میں عوام کی موجودگی کو فیصلہ کن قراردیتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کی اصل بھی عوام کےاسی حضور اور موجودگی سے منسلک رہی ہے اور اگر عوام میدان میں موجود رہ کر اپنانقش ایفا نہ کرتے تو سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کے بس میں کچھ بھی نہیں تھا۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے حفظان صحت و سلامت اور علاج کےامور کو ملک کےبنیادی اورترجیحی مسائل قراردینے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: صحت و سلامتی سے متعلق حکام کو چاہیےکہ وہ اجرائی میدان میں پروگرام اسطرح مرتب کریں تاکہ عوام کو علاج ودرمان کے شعبے میں مشکلات کا سامنانہ کرنا پڑے اورلوگ اس سلسلے میں آسودہ خاطر رہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے خیّرین جیسے عوامی ڈھانچوں کی حفاظت کواہم اور ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: بند اور محدود اداری تشکیلات کے ذریعہ عوامی اداروں کے شوق و نشاط اور فروغ کو سلب نہیں کرنا چاہیے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے اختتام پر نیک کاموں کے آثاراور نتائج کوخیرین کے لئے سب سے بڑی تشویق قراردیتے ہوئے فرمایا: ان نیک اور خالص کاموں میں اللہ تعالی کی مرضی اور خوشنودی بھی شامل ہوتی ہے اور اللہ تعالی کےنزدیک ہر نیک عمل محفوظ اور نظر سے پنہاں نہیں رہےگا۔
اس ملاقات کے آغاز میں مجمع خیرین سلامت کے جنرل سکریٹری جناب سید رضا نیری نے اس کونسل کی سرگرمیوں ، خدمات اور مختلف ضرورتوں کے بارے میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا: مجمع خیرین نے گذشتہ تین برسوں میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کی فرمائشات کے مطابق سلامت کے شعبے میں عوامی ظرفیتوں سے بھر پور استفادہ کیا ہے۔
ملکی امکانات و وسائل کی شناخت اورعوامی امداد نیز انھیں پروگرام کے مطابق قومی صحت و سلامت کے ترجیحی اور بنیادی امور میں صرف کرنے کے سلسلے میں ہدایت و رہنمائی کےلئے ملک میں مجمع خیرین سلامت کی تشکیل عمل میں آئی ہے۔
جناب میمونہ کی سیرت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جناب میمونہ حارث بن حزن کی بیٹی تھیں- وہ جناب عباس بن عبدالمطلب کی شریک حیات، جناب ام فضل کی بہن تھیں- جناب میمونہ کی والدہ خولہ {ھند} بنت عوف تھیں جو ایک مشہور خاندان سے تعلق رکھتی تھیں- خولہ مکہ کی بہترین عمر رسیدہ خاتون مانی جاتی تھیں، کیونکہ اس کے داماد بہترین افراد تھے، جن میں عباس بن عبدالمطلب ، جعفر بن ابیطالب، حمزہ بن عبدالمصلب اور سر انجام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قابل ذکر ہیں-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا، عباس بن عبدالمطلب کی بیوی لبابہ ام فضل، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حمزہ سید الشہداء کی بیوی، سلمی، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچیرے بھائی جعفر بن ابیطالب کی بیوی، اسماء اور ام المومنین میمونہ وہ چار عورتیں ہیں، جنھیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار با ایمان خواتین کے طور پر معرفی کیا ہے- سلمی نے بھی اپنے شوہر حمزہ کے ساتھ اسلام قبول کیا-
جناب میمونہ نے ایام جاہلیت میں اپنے شوہر مسعود بن عمرو ثقفی سے جدائی اختیار کرکے ابورہم بن عبدالعزی سے ازدواج کی اور ابو رہم کی وفات تک اس کے عقد میں تھیں-
صلح حدیبیہ کے ایک سال بعد، سنہ ۷ھجری کے ماہ ذیقعدہ میں، مشرکین کے ساتھ قرار داد کے مطابق پیغمبر اسلام{ص} نے دوہزار مسلمانوں کے ہمراہ عمرہ بجا لانے کے لئے مکہ مکرمہ کا تین روزہ سفر کیا- اس سفر کے دوران مسلمانوں کے قابل رشک جلال و عظمت نے مکہ کے باشندوں پر عجیب اثر ڈالا-
پیغمبر اسلام {ص} کی تشریف آوری کے بارے میں جناب میمونہ باخبر ھوئیں- وہ چاہتی تھیں کہ پیغمبر اسلام {ص} کے ساتھ ازدواج کریں، اس لئے اس مطلب کو اپنی ہمراز بہن، ام فضل کے پاس اظہار کیا، جو جناب عباس بن عبدالمطلب کی بیوی تھیں- ام فضل نے یہ مطلب اپنے شوہر کے پاس بیان کیا-
جناب عباس پیغمبر اسلام {ص} کی خدمت میں حاضر ھوئے اور برہ {میمونہ} کے بارے میں بات کی، جو اک مسلمان اور مومنہ خاتون تھیں اور یہ بھی بتایا کہ برہ{ میمونہ} کے شوہر ابر رہم وفات پا چکے ہیں- اس کے بعد آنحضرت {ص} سے سوال کیا کہ: آپ {ص} میمونہ سے ازدواج کرنا چاہتے ہیں؟ رسول خدا{ص} نے اس تجویز ک موافقت فرمائی اور اپنے چچیرے بھائی جناب جعفر بن ابیطالب کو خواستگاری کے لئے جناب میمونہ کے پاس بھیجا، جب جعفر ان کے پاس پہنچے اس وقت جناب میمونہ اونٹ پر سوار تھیں، اور جعفر نے رسول خدا {ص} کے لئے خواستگاری کی- میمونہ نے جواب میں کہا کہ: اونٹ اور جو کچھ اونٹ پر ہے وہ خدا اور اس کے رسول {ص} کے لئے ہے-
مکہ کے لوگوں نے سرگوشیاں کیں کہ میمونہ انتظار نہ کرسکیں اس لئے انھوں نے اپنے آپ کو خدا اور پیغمبر خدا {ص} کے لئے ھبہ کیا- خداوند متعال نے لوگوں کی ان سرگوشیوں کے جواب میں مندرجہ ذیل آیت نازل فرمائی: " یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِی آتَیْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَکَتْ یَمِینُکَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَیْکَ وَبَنَاتِ عَمِّکَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِکَ وَبَنَاتِ خَالِکَ وَبَنَاتِ خَالاتِکَ اللَّاتِی هَاجَرْنَ مَعَکَ و َامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِیِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِیُّ أَنْ یَسْتَنْکِحَهَا خَالِصَةً لَکَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْهِمْ فِی أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُهُمْ لِکَیْلا یَکُونَ عَلَیْکَ حَرَجٌ وَکَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِیماً" }الأحزاب: ۵۰.}
"اے پیغمبر، ہم نے آپ کے لئے آپ کی بیویوں کو جن کا مہر دےدیا ہے اور کنیزوں کو جنھیں خدا نے جنگ کے بغیر عطا کردیا ہے اور آپ کے چچا کی بیٹیوں کو اور آپ کے ماموں کی بیٹیوں کو اور آپ کی خالہ کی بیٹیوں کو جنھوں نے آپ کے ساتھ ھجرت کی ہے اور اس مومنہ عورت کو جو اپنا نفس نبی کو بخش دے اگر نبی اس سے نکاح کرنا چاہے تو حلال کردیا ہے لیکن یہ صرف آپ کے لئے ہے باقی مومنین کے لئے نہیں ہے- ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے ان لوگوں پر ان کی بیویوں اور کنیزوں کے بارے میں کیا فریضہ قرار دیا ہے تاکہ آپ کے لئے کوئی زحمت اور مشقت نہ ھو اور اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے-
پیغمبر اسلام {ص} کے چچا، عباس بن عبدالمطلب کی تجویز پر مکہ اور مدینہ کے درمیان " سرف" کے مقام پر جناب عباس بن عبدالمطلب کے توسط سے پیغمبر اسلام اور جناب میمونہ کے درمیان عقد کے مراسم انجام پائے اور جناب میمونہ پیغمبر اسلام {ص} کے عقد میں قرار پائیں-
بہت سے مفسرین کے بیان کے مطابق جناب میمونہ وہ خاتون ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو پیغمبر اسلام {ص} کی خدمت میں پیش کیا ہے- چونکہ جناب میمونہ ایک با ایمان خاتون تھیں اور پیغمبر اکرم{ص} کے ساتھ ان کی یہ محبت ایمان پر مبنی تھی، اس لئے پیغمبر اسلام {ص} نے ان کے ساتھ ازدواج کی- قابل بیان ہے کہ جناب میمونہ، خاندان کے لحاظ سے ایک خاص حیثیت رکھتی تھیں اور یہ ازدواج پیغمبر اکرم {ص} اور مکہ اور قریش کے بڑے قبائل کے درمیان مستحکم پیوند کا سبب بن سکتی تھی-
صلح حدیبیہ کے معاہدے کے مطابق پیغمبر اسلام {ص} تین دن سے زیادہ مدت تک مکہ میں نہیں ٹھہر سکتے تھے، تیسرا دن گزرنے کے بعد مکہ والوں نے آپ {ص} سے کہا کہ آپ {ص} اب مکہ میں نہیں ٹھہرسکتے ہیں-
حضرت محمد مصطفے {ص} چاہتے تھے کہ اس با فضیلت خاتون کے ساتھ ازدواج کے سلسلہ میں ایک ولیمہ کا اہتمام کرکے قریش کے بزرگوں اور جناب میمونہ کے رشتہ داروں کو دعوت دیں اور ان کے ساتھ روبرو بیٹھ کر گفتگو کرکے اختلافات کو دور کریں، لیکن قریش والوں نے یہ بات نہیں مانا –
چوتھے دن کی صبح کو حویطب بن عبدالعزی، جو بعد میں مسلمان ہدا، مشرکین کے کئی افراد کے ہمراہ پیغمبر اکرم {ص} کے پاس آگیا اور کہا: " مقررہ مدت ختم ھوچکی ہے، یہاں سے چلے جاو- سہیل بن عمرو بھی قریش کے چند افراد کے ہمراہ پیغمبر اکرم {ص} کے پاس آگیا اور کہا: آپ کی مہلت ختم ھوئی ہے، اس سے زیادہ مکہ میں نہ رہنا-
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:" اس میں کیا حرج ہے کہ میں آپ کے شہر میں شادی کی تقریب منعقد کروں اور آپ لوگوں کو ولیمہ کے طور پر کھانا کھلاوں ؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ: " لاحاجہ لنا فی طعامک فاخرج عنا" " ہمیں آپ کی مہمانی اور کھانے کا احتیاج نہیں ہے اور ہمارے شہر سے فورا چلے جاو"-
رسول اللہ {ص} نے جب یہ حالت دیکھی تو آپ {ص} اپنے ساتھیوں کے ساتھ مکہ سے چلے گئے اور اپنے غلام ابو رافع کو مکہ میں رکھا تاکہ وہ جناب میمونہ کو اپنے ساتھ مدینہ لے آئے- پیغمبر اسلام {ص} کا جناب میمونہ سے ازدواج کرنا، قبیلہ ھلالی سے غیر معمولی نزدیکی کا سبب بنا- اور اس کے بعد قبیلہ ھلالی کے افراد نے گروہ گروہ صورت میں اسلام قبول کیا- اور رسول خدا {ص} کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ھوئے، اور جہاں بھی رسول خدا {ص} چلے جاتے تھے، وہ بھی آپ {ص} کے رکاب میں آگے بڑھتے تھے-
شادی کی ابتداء میں جناب میمونہ کا نام " برہ" تھا، لیکن شادی کے بعد پیغمبر اسلام {ص} نے ان کا نام میمونہ رکھا، جس کے معنی مبارک و برکت ہے-
پیغمبر اسلام {ص} کی سیرت یہ تھی کہ جن مواقع پر کسی کے نام کو تبدیل فرماتے تھے، تو اچھا اور نیک نام کا انتخاب فرماتے تھے-
جناب میمونہ ایک سچی اور با ایمان خاتون تھیں اور مسجد النبی میں کافی نمازیں پڑھتی تھیں- ایک دن جناب میمونہ کا ایک رشتہ دار ان کے پاس آگیا، اور اس کے منہ سے شراب کی بدجرآتما تھی، جناب میمونہ نے غضبناک ھوکر کہا: خدا کی قسم اگر فورا دور نہ ھو جاو گے تو تم پر حد جاری کی جائے گی اور تمھیں دوبارہ میرے پاس آنے کا حق نہیں ہے، اور وہ شخص بھاگ گیا-
پیغمبر اسلام {ص} نے جناب میمونہ کے بارے میں فرمایاہے:" خداوند متعال نے تیرے دل کوبا ایمان بتایا ہے اور تیرا امتحان کیا ہے-" میمونہ کے بارے میں پیغمبر اسلام {ص} کا یہ کلام ان پر آپ {ص} کے اعتماد کی دلیل ہے-
پیغمبر اسلام {ص} نے میمونہ اور ان کی بہنوں کے مقام و منزلت اور اعتقادی و معنوی حیثیت کے بارے میں فرمایا ہے:" مومنین بہنیں"
مومن بہنوں سے مراد، پیغمبر خدا {ص} کی بیوی ام المومنین میمونہ، ان کی بہن ام فضل بنت حارث یا ان کی بہن سلمی بنت حارث { جناب حمزہ کی شریک حیات} اور ان کی سوتیلی بہن اسما بنت عمیس ہے – جناب میمونہ، جنگ تبوک میں مجاہدین کے صفوں میں سرگرم عمل تھیں اور زخمیوں اور بیماروں کی نرسنگ اور دلجوئی کرتی تھیں اور راہ خدا میں کافی خدمات انجام دے رہی تھیں- نقل کیا گیا ہے کہ جناب میمونہ نے زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے کے لئے خواتین نرسوں کی ایک ٹیم تشکیل دی تھی اور زخمیوں کی مرہم پٹی اور مجاہدین کی مدد کے لئے میدان کارزار میں سرگرمی کے ساتھ حاضر ھوتی تھیں، حتی ایک بار میدان جنگ میں زخمیوں کے لئے پانی لاتے ھوئے دشمنوں کے تیر کا نشانہ بنیں اور زمین پر گرگئیں-
جس وقت پیغمبر اسلام {ص} شدید بیمار ھوئے، آپ {ص} جناب میمونہ کے گھر پر تشریف فرماتے تھے اور وہاں سے آپ {ص} کو جناب عائشہ کے گھر میں منتقل کیا گیا- جناب عائشہ اس سلسلہ میں کہتی ہیں: پیغمبر اکرم {ص} کی بیماری میمونہ کے گھر میں شروع ھوئی اور آپ {ص} نے اپنی بیویوں سے اجازت حاصل کی تاکہ میرے گھر میں آپ {ص} کی تیماری داری کی جائے، آپ {ص} کی بیویوں نے بھی اس کی موافقت کی-
میمونہ ایک پاک دامن خاتون تھیں، علمائے رجال انھیں علم حدیث میں قابل اعتماد راوی جانتے ہیں اور انھیں پیغمبر اکرم {ص} کے صحابیوں میں شمار کرتے ہیں- جناب میمونہ نے رسول خدا {ص} اور اپنے بھانجے، ابن عباس" وغیرہ سے روایتیں نقل کی ہیں- جناب میمونہ کے مقام و منزلت کو امام جعفر صادق علیہ السلام کے اس کلام سے پہچانا جاسکتا ہے، کہ آپ{ع} نے اپنے والد امام باقر علیہ السلام سے نقل کرکے فرمایا ہے کہ عورتوں کے احکام کو جناب میمونہ کی زبان سے نقل کیا گیا ہ اور اس طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کو جناب میمونی کی زبان سے نقل کرتے ہیں-{ من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۱ ص، ۵۴}
جناب عائشہ سے مندرجہ ذیل روایت نقل کی گئی ہے: " اما انھا من اتقانا للہ و او صلنا للرحیم" وہ {میمونہ} ہم سب سے پرہیزگارتر اور صلہ رحم اور اپنے خویش و اقارب کا حق ادا کرنے میں سب سے پیش قدم تھیں-
ام المومنین جناب میمونہ خاندان زہراء {س} کے محبین میں سے تھیں اور حضرت علی علیہ السلام کے فضائل میں بھی کچھ احادیث ان سے نقل کی گئی ہے-
جناب میمونہ نے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے دوران آپ {ع} کی فضیلت کے بارے میں فرمایا ہے: خدا کی قسم وہ ہر گز گمراہ نہیں ھوئے تھے اور کوئی ان کے ذریعہ گمراہ نہیں ھوا ہے- جناب میمونہ نے اس کلام کو تین بار دہرایا-
جناب میمونہ کی ازدواج اور وفات کی جگہ:
جناب میمونہ تقریبا تین سال حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زندگی کی- کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام {ص} کی وفات کے بعد جناب میمونہ چالیس سال تک زندہ تھیں-
جناب میمونہ ساتوین ھجری، ماہ ذیقعدہ میں مکہ مکرمہ سے پانچ کلو میٹر دور " سرف" کے مقام پر پیغمبر اکرم {ص} کے عقد میں قرار پائیں- بعد میں اس جگہ پر ایک کمرہ اور بقعہ تعمیر کیا گیا- سنہ ۶۱ھجری میں یزید بن معاویہ کی خلافت کے زمانے میں جناب میمونہ جب مکہ سے واپس آرہی تھیں، اتفاق سے اسی جگہ، جہاں پر پیغمبر اسلام {ص} سے شادی کی تھی، ۸۱ سال کی عمر میں دار فانی کو وداع کیا- ان کے بھانجے بن عباس نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور اسی بقعہ میں انھیں سپرد خاک کیا گیا-
جناب ام سلمہ کی سیرت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان کا اصلی نام ھند تھا اور وہ امیہ بن مغیرہ بن مخزوم کی بیٹی تھیں- عمر رضا نے اپنی گراں قیمت کتاب " اعلام النساء" میں اس محترمہ خاتون کی سوانح حیات بیان کی ہے اور کہتے ہیں کہ ان کے باپ کے نام کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ھند، سہل بن مغیرہ بن عبدا اللہ بن مخزوم یا عبدا للہ بن حذیفہ کی بیٹی تھیں- ابن سعد کہتے ہیں کہ ان کے باپ کا نام سہیل زاد الرکب بن مغیرہ تھا اور اسی لئے ان کا لقب" زاد الرکب" تھا- ان کے والد ایک فیاض شخص تھے اور جب سفر پر جاتے تھے، اگر ان کا ہم سفر محتاج ھوتا تو وہ اس کا زاد راہ برداشت کرتے تھے-
جناب ام سلمہ کے نام کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے- ان کا نام " رملہ" بھی کہا گیا ہے- ابن عبدالبر کے مطابق ان کا نام ھند ہے اور وہ کہتے ہیں کہ کئی علماء اسی نام کی تائید کرتے ہیں- {اعلام النساء، ج ۵، ص، ۲۲۱و ۲۲۲}
جناب ام سلمہ کی والدہ عاتکہ بنت عامر بن مالک تھیں- بعضوں نے عاتکہ کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھپھی بتایا ہے-{ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ ج ۱، ص ۵۹۴- طبع بیروت، ۱۴۰۷ھ}
" جناب ام سلمہ" کی والدہ ایک جلیل القدر، دانشور، شریف خاندان میں پلی ھوئی اور صاحب عقل و کمال خاتون تھیں- چونکہ اس خاتون نے سنہ ۶۳ھجری میں ۷۴ سال کی عمر میں وفات پائی ہے { بعض مورخین نے کہا ہے کہ انھوں نے ۹۰ سال کی عمر میں سنہ ۶۰ ھجری میں وفات پائی ہے }اس لئے وہ ھجرت کے نزدیک پیدا ھوئی ہیں- انھوں نے نوجوانی میں ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد سے ازدواج کی تھی- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اسلام کی دعوت کا اعلان ھونے کے بعد جناب ام سلمہ نے اپنے شوہر کے ساتھ اسلام قبول کیا اور دونوں میاں بیوی مسلمان ھوئے-
ان کا ایک جانی دشمن، ان کا بھائی عبداللہ بن ابی امیہ تھا، جو جنگ احد میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ھوا- چونکہ ام سلمہ اور ان کے شوہر ابو سلمہ کو مشرکین اور ان کے رشتہ داروں کی طرف سے ناقابل برداشت اذیتیں پہنچائی جاتی تھیں، اس لئے انھوں نے سنہ ۵ھجری میں کچھ دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ حبشہ ھجرت کی- ایک مدت کے بعد جب یہ خبر ملی کہ مشرکین مکہ کی طرف سے اذیت و آزار میں کمی واقع ھوئی ہے اور بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے، تو ابو سلمہ اپنی بیوی کے ہمراہ مکہ لوٹے- حبشہ میں سلمہ نامی ان کا پہلا بیٹا پیدا ھوا-
مکہ پہنچنے کے بعد انھیں معلوم ھوا کہ یہ خبر جھوٹ تھی، اس لئے انھوں نے پھر سے حبشہ کی طرف ھجرت کی- حبشہ میں ایک مدت تک رہنے کے بعد پھر سے مکہ آگئے اور سنہ ۱۳ ھجری میں مدینہ {یثرب} کی طرف ھجرت کرنے کا فیصلہ کیا- لیکن بنی مخزوم " جناب ام سلمہ" اور ان کے بیٹے کی ھجرت کرنے میں رکاوٹ بنے، اس لئے، اس بار ابو سلمہ اکیلے ہی سفر پر نکلے- ایک مدت کے بعد قبیلہ بنی مخزوم نے کہا کہ " ام سلمہ" ھجرت کرسکتی ہیں، لیکن ان کا بیٹا ، چونکہ بنی مخزون قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے، اس لئے اسے جانے کی اجازت نہیں ہے- لیکن خاندان کے بعض افراد کی ثالثی اور سفارش کی بناپر ان کے فرزند کو بھی اجازت ملی اورجناب ام سلمہ اپنے بیٹے کے ھمراہ مدینہ {یثرب} کی طرف روانہ ھوئیں- جب جناب ام سلمہ مکہ سے باہر آگئیں تو، عثمان بن طلحہ عبدالدار سے ان کی ملاقات ھوئی، اور وہ بھی یثرب{ مدینہ} کی طرف جارہے تھے- ام سلمہ نے اپنے اونٹ کی لگام کو عثمان کے ہاتھ میں دے کر ان کے ہمراہ سفر کرنا قبول کیا- ام سلمہ کہتی ہیں کہ اس سفر میں ہم جس پڑاو پر پہنچتے تھے، تو عثمان میرے اونٹ کو بٹھا کر خود دور چلے جاتے تھے تاکہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ اونٹ سے نیچے اتر جاتی، اس کے بعد اونٹ کو باندھنے کے لئے پھر سے قریب آتے تھے- اور پھرسے سوار ھوتے وقت بھی ایساہی کرتے تھے- کہا جاتا ہے کہ وہ پہلی کجا وہ نشین مہاجر خاتون تھیں جو مدینہ میں داخل ھوئیں-
ابو سلمہ، عزوہ احد میں زخمی ھوئے اور ان ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ھوئے جمادی الثانی سنہ ۴ھجری کو درجہ شہادت پر فائز ھوئے- اگر چہ ابوسلمہ کی شہادت کا سنہ ۲ ھجری میں، جنگ بدر میں زخمی ھونے کے بعد بھی ذکر کیا گیا ہے، لیکن جس روایت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جناب ام سلمہ مدینہ میں داخل ھوتے وقت اپنے اکلوتے بیٹے سلمہ کے ہمراہ تھیں اور اس کے بعد ان کے ہاں ابو سلمہ سے عمر{ عمرو} ،زینب اور ذرہ نامی تین فرزند پیدا ھوئے، اور اگر یہ روایت صحیح ھوتو، ہمیں اس سلسلہ میں ابو سلمہ کی شہادت کے بارے میں پہلا قول قبول کرنا چاہئے-
تاریخ کی مختلف کتابوں میں آیا ہے کہ جناب ام سلمہ نے ابو سلمہ سے کہا کہ ہم دونوں میں سے جو بھی پہلے وفات پائے وہ دوسری شادی نہ کرے تاکہ بہشت میں بھی ہم ایک ساتھ ھوں، تو ابو سلمہ نے یہ دعا کی کہ میری وفات کے بعد" ام سلمہ" ایک ایسے شخص سے شادی کرے جو ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آئے اور ان کے ساتھ عدل و انصاف پر مبنی برتاو کرے- ابو سلمہ کی شہادت کے بعد پہلے، خلیفہ اول جناب ابو بکر نے پھر خلیفہ دوم جناب عمر بن خطاب نے ان سے ازدواج کرنے کی درخواست کی، لیکن ام سلمہ نے ان کی درخواست قبول نہیں کی- ان کےبعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی خواستگاری فرمائی کہ پہلے جناب ام سلمہ نے اس خواستگاری کو بھی قبول نہیں کیا- پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب دوسری بار خواستگاری کے لئے کسی کو بھیجا تو جناب ام سلمہ نے یہ خواستگاری قبول کی اور اسی سال { اول یا دوم ھجری} کے ماہ شوال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد میں قرار پائیں- کہا جاتا ہے کہ جناب ام سلمہ نے اپنے بیٹے عمر سے کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ان کا عقد پڑھیں، لیکن عمر کے کافی کم سن ھونے کی وجہ سے شاید یہ خبر صحیح نہ ھو یاکسی دوسرے عمر، من جملہ عمر بن خطاب نے خطبہ عقد پڑھا ھو- یایہ کہ جناب ام سلمہ کا بیٹا عمر مکہ یا حبشہ میں پیدا ھوا ھو اور اس طرح جس قول میں یہ کہا گیا ہے کہ جناب ام سلمہ اپنے اکلوتے بیٹے کے ہمراہ مدینہ میں داخل ھوئی ہیں، صحیح نہیں ہے-
جیسا کہ اس سے پہلے بیان کیا گیا کہ جناب ام سلمہ ایک صاحب کمال اور دانشور خاتون تھیں اور اسی وجہ سے بعض اوقات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری بیویوں کی جانب سے مورد تجسس قرار پاتی تھیں-
ایک روایت میں آیا ہے کہ جناب فاطمہ خزاعیہ نے کہا ہے کہ:" ایک دن میں نے "عائشہ" سے سنا کہ انھوں نے کہا: ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے- میں نے پوچھا: اب تک کہاں تھے؟ آپ {ص} نے فرمایا: " اے حمیرا" میں ام سلمہ کے پاس تھا- میں نے کہا کہ: کیا ام سلمہ سے سیر نہیں ھوتے ھو؟{ زہری، الطبقات الکبری، ج ۸، ص ۹۴}
کہاگیا ہے کہ سورہ حجرات کی آیت نمبر ۱۱ اس لئے نازل ھوئی ہے کہ " جناب حفصہ" اور " جناب عائشہ" ، جناب ام سلمہ کے پست قد اور لباس کی وجہ سے ان کا مذاق اڑاتی تھیں-
جناب ام سلمہ چند دوسری آیات کے نازل ھونے کا بھی محور تھیں - من جملہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۹۵ ہے کہ اس آیت کی شان نزول میں آیا ہے کہ ایک دن جناب ام سلمہ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا: اے پیغمبر خدا؛ ہجرت کے سلسلہ میں کیوں مردوں کا نام لیا گیا ہے لیکن عورتوں کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیاگیا ہے؟ تو خداوند متعال نے اس کے جواب میں اپنے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مذکورہ آیت نازل فرمائی-
جناب ام سلمہ فتح خیبر کے دن حاضر تھیں اور انھوں نے بعض خواتین سے مخاطب ھوکر کہا: کاش: خداوند متعال نے مردوں کے مانند ہم عورتوں پر بھی جہاد واجب قرار دیا ھوتا اور یہی اجر ہمیں بھی ملتا: تو سورہ نساء کی ۲۲ویں آیت نازل ھوئی-
آیہ تطہیر: "انما یریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا"، جناب ام سلمہ کے ہی گھر میں نازل ھوئی ہے-
دوسرے قابل بیان نکات میں سے یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز عصر کے بعد اپنی بیویوں میں سے ہر ایک کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور جناب ام سلمہ سے شروع کرتے تھے کیونکہ وہ سب سے بڑی تھیں اور جناب عائشہ پر اختتام فرماتے تھے، کیونکہ وہ سب سے چھوٹی تھیں-
جناب ام سلمہ، احادیث کی راویوں میں سے ہیں اور انھوں نے پیغمبر اسلام[ص]، حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام اور ابی سلمہ سے روایتیں نقل کی ہیں- صحابیوں اور تابعین کی ایک بڑی تعداد نے ان سے کئی احادیث نقل کی ہیں- ان کی نقل کی گئ احادیث کی تعداد ۳۷۸ ہے- صحیحین میں ان سے صرف ۲۹ حدیثیں نقل کی گئی ہیں اور طبرانی نے مختلف راویوں سے ۵۱۸ حدیثیں نقل کی ہیں، جنھیں ان راویوں نے جناب ام سلمہ سے نقل کیا ہے- جناب ام سلمہ کے بلند مقام و منزلت اور طولانی عمر کے پیش نظر، ان سے زیادہ احادیث نقل ھونی چاہئے تھیں ، لیکن ان کی حق گوئی، معاویہ سے مخالفت اور علی علیہ السلام اور اہل بیت [ع]کی طرفداری اور غدیر کی بیعت کی یاد دہانی کرانے کی وجہ سے بعد میں ان سے احادیث نقل کرنے میں بائیکاٹ کیا گیا ہے-
جناب ام سلمہ بہت سے عزوات میں من جملہ حدیبیہ، خیبر، فتح مکہ، ھوازن، ثقیف، طائف، اور حجتہ الوداع میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھیں- صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاکید کے باوجود قربانی اور حلق کرنے سے اجتناب کرتے تھے- جب اس سلسلہ میں جناب ام سلمہ کی رائے معلوم کی گئی تو انھوں نے تجویز پیش کی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ تاکید کئے بغیر خود قربانی اور حلق انجام دیں- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس رائے کو پسند فرمایا اور اس پر عمل کیا اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے بھی قربانی اور حلق کیا-
ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ جناب ام سلمہ صاحب رائے، مفکر اور حق گو تھیں- خلفائے ثلاثہ کے ۲۵ سالہ دور کے زمانے میں اگر جناب ام سلمہ کبھی مصلحت سمجھتیں تو خلفاء کی نصیحت کرتی تھیں- انھوں نے { جناب عمار کے خلیفہ سوم کو اپنا نظریہ پیش کرنے کے سلسلہ میں} خلیفہ سوم کو کچھ تذکرات کا اعلان کیا ہے- { اعلام النساء، ج ۵،ص ۲۲۴}
جناب ام سلمہ نے جناب عائشہ کے نام ایک خط لکھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث کی یاد دہانی کرکے، انھیں بصرہ کی طرف روانہ ھونے سے رو کرنے کی کوشش کی ہے-
ام المومنین جناب ام سلمہ نے معاویہ کے زمانے میں بھی حضرت علی علیہ السلام کی حمایت کی اور ایک خط میں معاویہ کو لکھا کہ خدا اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی علیہ السلام کے دوست ہیں- جان لو کہ علی علیہ السلام پر لعنت بھیجنا، رسول اللہ پر لعنت بھیجنا ہے اور علی علیہ السلام کو اذیت و آزار پہنچنا رسول اللہ کو اذیت و آزار پہنچنا ہے-{ اعلام النساء، ج ۵، ص ۲۲۵}
جناب ام سلمہ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ: میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ {ص} نے فر مایا: "جو علی کو دوست رکھے اس نے مجھے دوست رکھا ہے اور جو مجھے دوست رکھے اس نے خدا کو دوست رکھا ہے اور جو علی کے بارے میں کینہ رکھے اس نے میرے بارے میں کینہ رکھا ہے اور میرے بارے میں کینہ رکھنا خدا سے کینہ رکھںا ہے"{ مجمع الزوائد، ج ۹، ص ۱۳۲۰} اس کے علاوہ اس خاتون سے روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: "جو علی کو دشنام دے، اس نے مجھے دشنام دیا ہے- "جناب ام سلمہ نے معاویہ کے نام اپنے خط میں اسی حدیث سے استناد کرکے اشارہ کیا تھا-
جناب ام سلمہ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک پیشنگوئی نقل کی گئ ہے، ذیل میں ہم اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں: انھوں نے روایت نقل کی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:" جبرئیل امین نے مجھے خبردی ہےکہ میرے نواسے حسین علیہ السلام سر زمین عراق میں قتل کئے جائیں گے- میں نے جبرئیل سے کہا: اس سر زمین کی مٹی مجھے دکھانا جس پر میرے حسین علیہ السلام قتل کئے جائیں گے- جبرئیل گئے اور ایک مٹی لے آئے اور کہا کہ یہ مقتل کی مٹی ہے-"{ البدایہ و النہایہ، ج ۸، ص ۱۹۶ تا ۲۰۰، کنزالعمال، ج ۱۲، ص ۱۲۶، ح ۳۴۳۱۳}
ایک اور روایت میں جناب ام سلمہ سے نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے انسوجاری تھے ، میں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم؛ آج کیا ھوا ہے کہ آپ {ص} کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں؟ آپ {ص} نے فرمایا کہ ابھی ابھی جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ آپ {ص}کی امت آپ کے فرزند حسین علیہ السلام کو کربلا نامی ایک سر زمین پر قتل کرے گی"{ المعجم الکبیر، ج ۳، ص ۱۰۹، ح ۲۸۱۹}
حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں بھی ایک روایت نقل کی گئی ہے: " جناب ام سلمہ سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فر مایا:" حسین بن علی سنہ ۶۰ ہجری کے اواخر میں شہید کئےجائیں گے-"{ مجمع الزوائد ، ج ۹، ص ۱۹۰،بقول طبرانی دارلاوسط}
حسین بن علی علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں بیان کی گئی پہلی روایت کو جاری رکھتے ھوئے جناب ام سلمہ نے کہا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: " اے ام سلمہ؛ جب یہ مٹی خون میں تبدیل ھو جائے اس وقت جاننا کہ میرا نواسا قتل کیا گیا ہے"- جناب ام سلمہ نے اس مٹی کو ایک بوتل میں رکھا اور ہر دن اسے دیکھ کر فرماتی تھیں:" اے مٹی؛ جس دن تم خون میں تبدیل ھو جاوگی وہ ایک عظیم دن ھوگا-"{ خصائص الکبری، ج ۲، ص ۱۲۵- المعجم الکبیر طبرانی، ج۳،ص ۱۰۸}
سنن ترمذی کے " ابواب مناقب" میں آیا ہےکہ جناب ام سلمہ{س} نے سنہ ۶۱ ہجری کے عاشورا کے دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور اس سلسلہ میں فرماتی ہیں: " ظہر کے بعد کا وقت تھا، میں سوئی ھوئی تھی، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے- آپ {ص} رو رہے تھے اور آپ {ص} کی چشمان مبارک سے آنسو جاری تھے اور آپ{ص} کا سر مبارک اور ریش مبارک خاک آلود تھے- میں نے پوچھا: یا رسول اللہ؛ آپ {ص} کیوں اس حالت میں ہیں؟ میرے مولا نے روتے ھوئے فر مایا: ام سلمہ؛ میں اس وقت حسین علیہ السلام کی قتل گاہ { کربلا} سے آرہاھوں اور حسین علیہ السلام کی شہادت کا منظر دیکھ کر آرہا ھوں-"
اس روایت کو جاری رکھتے ھوئے ترمذی نے بیان کیا ہے کہ: اس کے بعد جناب ام سلمہ اس بوتل کو دیکھنے کے لئے گئیں جس میں خاک کربلا تھی اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے امانت کے طور پر دیا تھا- اور انھوں نے مشاہدہ کیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرمائش کے مطابق یہ مٹی خون میں تبدیل ھوچکی تھی" { کتاب ذبح عظیم ص ۱۰۵ و ۱۰۶ سے اقتباس}
ام المومنین جناب ام سلمہ ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ بیوی تھیں جنھوں نےسب سے آخر پر وفات پائی ہے- ان کی وفات کا سال اختلاف کے ساتھ سنہ ۵۹ سے ۶۳ ھجری تک بتایا گیا ہے- لیکن جو کچھ سنی اورشیعہ روایتوں میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ جناب ام سلمہ سنہ ۶۱ ھجری کے واقعہ کربلا کے وقت زندہ تھیں اور حضرت ابا عبداللہ الحسین کے لئَے عزاداری کی ہے- اس محترمہ خاتون کو قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گیا ہے-
تدوین: سید عبدالحسین رئس السادات
حضرت رسول اكرم صلى الله عليه وآله
آنحضرت کی ولادت باسعادت
آپ کے نوروجودکی خلقت ایک روایت کی بنیاد پر حضرت آدم کی تخلقیق سے ۹ لاکھ برس پہلے اور دوسری روایت کی بنیاد پر ۴ ۔ ۵ لاکھ سال قبل ہوئی تھی، آپ کانوراقدس اصلاب طاہرہ، اورارحام مطہرہ میں ہوتاہواجب صلب جناب عبداللہ بن عبدالمطلب تک پہنچا توآپ کاظہور و شہودبشکل انسانی میں بطن جناب ”آمنہ بنت وہب“ سے مکہ معظمہ میں ہوا۔
آنحضرت کی ولادت کے وقت حیرت انگیزواقعات کاظہور
آپ کی ولادت سے متعلق بہت سے ایسے اموررونماہوئے جوحیرت انگیزہیں۔ مثلاآپ کی والدہ ماجدہ کوبارحمل محسوس نہیں ہوااوروہ تولید کے وقت کثافتون سے پاک تھیں، آپ مختون اورناف بریدہ تھے آپ کے ظہورفرماتے ہی آپ کے جسم سے ایک ایسانورساطع ہواجس سے ساری دنیاروشن ہوگئی، آپ نے پیداہوتے ہی دونوں ہاتھوں کوزمین پرٹیک کرسجدہ خالق اداکیا۔ پھرآسمان کی طرف سربلندکرکے تکبیر کہی اورلاالہ الااللہ انا رسول اللہ زبان پرجاری کیا۔
بروایت ابن واضح المتوفی ۲۹۲ ھء شیطان کورجم کیاگیااوراس کاآسمان پرجانابندہوگیا، ستارے مسلسل ٹوٹنے لگے تمام دنیامیں ایسازلزلہ آیاکہ تمام دنیاکے کینسے اوردیگر غیراللہ کی عبادت کرنے کے مقامات منہدم ہوگئے ، جادواورکہانت کے ماہراپنی عقلیں کھوبیٹھے اوران کے موکل محبوس ہوگئے ایسے ستارے آسمان پرنکل آئے جنہیں کسی کبھی کسی نے دیکھانہ تھا۔ ساوہ کی وہ جھیل جس کی پرستش کی جاتی تھی جوکاشان میں ہے وہ خشک ہوگئی ۔ وادی سماوہ جوشام میں ہے اورہزارسال سے خشک پڑی تھی اس میں پانی جاری ہوگیا، دجلہ میں اس قدرطغیانی ہوئی کہ اس کاپانی تمام علاقوں میں پھیل گیا محل کسری میں پانی بھر گیااورایسازلزلہ آیاکہ ایوان کسری کے ۱۴ کنگرے زمین پرگرپڑے اورطاق کسری شگافتہ ہوگیا، اورفارس کی وہ آگ جوایک ہزارسال سے مسلسل روشن تھی، فورابجھ گئی۔(تاریخ اشاعت اسلام دیوبندی ۲۱۸ طبع لاہور)
اسی رات کوفارس کے عظیم عالم نے جسے (موبذان موبذ)کہتے تھے، خواب میں دیکھاکہ تندوسرکش اوروحشی اونٹ، عربی گھوڑوں کوکھینچ رہے ہیں اورانہیں بلادفارس میں متفرق کررہے ہیں، اس نے اس خواب کابادشاہ سے ذکرکیا۔ بادشاہ نوشیرواں کسری نے ایک قاصدکے ذریعہ سے اپنے حیرہ کے کورنرنعمان بن منذرکوکہلابھیجاکہ ہمارے عالم نے ایک عجیب وغریب خواب دیکھاہے توکسی ایسے عقلمنداور ہوشیار شخص کومیرے پاس بھیج دے جواس کی اطمینان بخش تعبیردے کر مجھے مطمئن کرسکے۔ نعمان بن منذرنے عبدالمسیح بن عمرالغسافی کوجوبہت لائق تھابادشاہ کے پاس بھیج دیانوشیروان نے عبدالمسیح سے تمام واقعات بیان کئے اوراس سے تعبیر کی خواہش کی اس نے بڑے غوروخوض کے بعد عرض کی”ائے بادشاہ شام میں میراماموں ”سطیح کاہی“ رہتاہے وہ اس فن کابہت بڑاعالم ہے وہ صحیح جواب دے سکتاہے اوراس خواب کی تعبیربتاسکتاہے نوشیرواں نے عبدالمسیح کوحکم دیاکہ فوراشام چلاجائے چنانچہ روانہ ہوکر دمشق پہنچااوربروابت ابن واضح ”باب جابیہ“ میں اس سے اس وقت ملاجب کہ وہ عالم احتضارمیں تھا، عبدالمسیح نے کان میں چیخ کراپنامدعا بیان کیا۔ اس نے کہاکہ ایک عظیم ہستی دنیامیں آچکی ہے جب نوشیرواں کونسل کے ۱۴ مردوزن حکمران کنگروں کے عدد کے مطابق حکومت کرچکیں گے تویہ ملک اس خاندان سے نکل جائے گا ثم” فاضت نفسہ“ یہ کہہ کر وہ مرگیا۔(روضة الاحباب ج ۱ ص ۵۶ ،سیرت حلبیہ ج ۱ ص ۸۳ ، حیات القلوب ج ۲ ص ۴۶ ، الیعقوبی ص ۹) ۔
آپ کی تاریخ ولادت
آپ کی تاریخ ولادت میں اختلاف ہے بعض مسلمان ۲ ربیع الاول بعض ۶ ربیع الاول اہل تسنن ۱۷ ربیع الاول ۱ عام الفیل مطابق ۵۷۰ کوصحیح سمجھتے ہیں-
علامہ مجلسی علیہ الرحمة حیات القلوب ج ۲ ص ۴۴ میں تحریرفرماتے ہیں کہ علماء امامیہ کااس پراجماع واتفاق ہے کہ آپ ۱۷ ربیع الاول ۱ عام الفیل یوم جمعہ بوقت شب یابوقت صبح صادق”شعب ابی طالب“ میں پیداہوئے ہیں، اس وقت انوشیرواں کسری کی حکومت کابیالیسواں سال تھا۔
آپ کی پرورش وپرداخت اورآپ کابچپنا
مورخ ذاکرحسین لکھتے ہیں کہ بروایتے آپ کے پیداہونے سے پہلے اوربروایتے آپ دوماہ کے بھی نہ ہونے پائے تھے کہ آپ کے والد ”عبداللہ“ کاانتقال بمقام مدینہ ہوگیاکیونکہ وہیں تجارت کےلئے گئے تھے انھوں نے سوئے پانچ اونٹ اورچند بھیڑوں اورایک حبشی کنیز برکت (ام ایمن) کے اورکچھ ورثہ میں نہ چھوڑا۔ حضرت آمنہ کوحضرت عبداللہ کی وفات کااتناصدمہ ہواکہ دودھ خشک ہوگیا۔ چونکہ مکہ کی آب وہوابچوں کے چنداں موافق نہ تھی اس واسطے نواح کی بدوعورتوں میں سے دودھ پلانے کے واسطے تلاش کی گئی انا کے دستیاب ہونے تک ابولہب کی کنیزک، ثوبیہ نے آنحضرت کوتین چارمہینے تک دودھ پلایا اقوام بدوکی عادت تھی کہ سال میں دومرتبہ بہاراورموسم خزاں میں دودھ پلانے اوربچے پالنے کی نوکری کی تلاش میں آیاکرتی تھیں آخرحلیمہ سعدیہ کے نصیبہ نے زورکیا اوروہ آپ کواپنے گھرلے گئیں اورآپ حلیمہ کے پاس پرورش پانے لگے۔ (تاریخ اسلام ج ۲ ص ۳۲ ، تاریخ ابوالفداء ج ۲ ص ۲۰) ۔
مجھے اس تحریرکے اس جزء سے کہ رسول خداکوثوبیہ اورحلیمہ نے دودھ پلایا، اتفاق نہیں ہے۔
مورخین کابیان ہے کہ آپ میں نموکی قوت اپنے سن کواعتبارسے بہت زیادہ تھی جب تین ماہ کے ہوئے توکھڑے ہونے لگے اورجب سات ماہ کے ہوئے توچلنے لگے، آٹھویں مہینے اچھی طرح بولنے لگے ،نویں مہینے اس فصاحت سے کلام کرنے لگے کہ سننے والوں کی حیرت ہوتی تھی۔
آپ کی سایہ رحمت مادری سے محرومی
آپ کی عمرجب چھ سال کی ہوئی توسایہ مادرس سے محروم ہوگئے آپ کی والدہ جناب آمنہ بنت وہب حضرت عبداللہ کی قبرکی زیارت کے لئے مدینہ گئی تھیں وہاں انھوں نے ایک ماہ قیام کیا، جب واپس آنے لگیں توبمقام ابواء (جوکہ مدینہ سے ۲۲ میل دورمکہ کی جانب واقع ہے) انتقال فرماگئیں اوروہیں دفن ہوئیں آپ کی خادمہ ام ایمن ، آپ کولے کرمکہ آئیں۔ (روضة الاحباب ۱ ص ۶۷) ۔
جب آپ کی عمر ۸ سال کی ہوئی توآپ کے دادا”عبدالمطلب“ کا ۱۲۰ سال کی عمرمیں انتقال ہوگیا۔ عبدالمطلب کی وفات کے بعد آپ کے بڑے چچاجناب ابوطالب اورآپ کی چچی جناب فاطمہ بنت اسدنے فرائض تربیت اپنے اوپرعائدکئے ۔اوراس شان سے تربیت کی کہ دنیانے آپکی ہمدردی اورخلوص کالوہامان لیا عبدالمطلب کے بعدابوطالب بھی خانہ کعبہ کے محافظ اورمتولی اورسردارقریش تھے حضرت علی فرماتے ہیں کہ کوئی غریب اس شان کاسردارنہیں ہواجس شان وشوکت کی سرداری میرے پدرمحترم کوخدانے دی تھی(الیعقوبی ج ۲ ص ۱۱) ۔
حضرت ابوطالب کوحضرت عبدالمطلب کی وصیت وہدایت
بعض مؤرخین نے لکھاہے کہ جب حضرت عبدالمطلب کاوقت وفات قریب پہنچا توانہوں نے آنحضرت کواپنے سینے سے لگایااورسخت گریہ کیا اوراپنے فرزندابوطالب کی طرف متوجہ ہوکرفرمایاکہ” اے ابوطالب یہ تیرے حقیقی بھائی کابیٹاہے اس دریگانہ کی حفاظت کرنا، اسے اپنا نورنظراورلخت جگرسمجھنا، اس کے تفقد وخبر گیری میں کوتاہی نہ کرنا اوردست وزبان اورجان ومال سے اس کی اعانت کرتے رہنا“ روضة الاحباب)
حضرت ابوطالب کے تجارتی سفرشام میں آنحضرت کی ہمراہی اوربحیرئہ راہب کاواقعہ
حضرت ابوطالب جوتجارتی سفرمیں اکثرجایاکرتے تھے جب ایک دن روانہ ہونے لگے، توآنحضرت کوجن کی عمراس وقت بروایت طبری وابن اثیر ۹ سال اوربروایت ابوالفداء وابن خلدون ۱۳ سال کی تھی، اپنے بال بچوں میں چھوڑدیا۔ اورچاہاکہ روانہ ہوجائیں یہ دیکھ کرآنحضرت نے اصرارکیاکہ مجھے اپنے ہمراہ لیتے چلئے آپ نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ میربھتیجہ یتیم ہے انہیں اپنے ہمراہ لے لیا اورچلتے چلتے جب شہربصرہ کے قریہ کفرپہنچے جوکہ شام کی سرحدپر ۶ میل کے فاصلہ پرواقع ہے جواس وقت بہت بڑی منڈی تھی اوروہاں نسطوری عیسائی رہتے تھے وہاں ان کے ایک نسطوری راہبوں کے معبدکے پاس قیام کیا راہبوں نے آنحضرت اورابوطالب کی بڑی خاطرداری کی پھران میں سے ایک نے جس کانام جرجیس اورکنیت ”ابوعداس“اورلقب بحیراراہب“ تھاآپ کے چہرہ مبارک سے آثارعظمت وجلالت اوراعلی درجے کے کمالات عقلی اورمحامداخلاق نمایاں دیکھ کر اوران صفات سے موصوف پاکرجواس نے توریت اورانجیل اوردیگرکتب سماوی میں پڑھی تھیں، پہچان لیاکہ یہی پیغمبرآخرالزمان ہیں، ابھی اس نے اظہارخیال نہ کیاتھاکہ ناگاہ لکئہ ابرکوسایہ فگنی کرتے ہوئے دیکھا، پھرشانہ کھلواکر مہرنبوت پرنگاہ کی، اس کے بعدفورا مہرنبوت کابوسہ لیااورنبوت کی تصدیق کرکے ابوطالب سے کہاکہ اس فرزندارجمند کادین تمام عرب وعجم میں پھیلے گا اوریہ دنیاکے بہت سے حصے کامالک بن جائے گا یہ اپنے ملک کوآزادکرائے گااوراپنے اہل وطن کونجات دلائے گا ائے ابوطالب اس کی بڑی حفاظت کرنااوراس کواعداء کے شرسے بچانے کی پوری کوشش کرنا، دیکھوکہیں ایسانہ ہوکہ یہ یہودیوں کے ہاتھ لگ جائے پھراس نے کہاکہ میری رائے یہ ہے کہ تم شام نہ جاؤ اوراپنامال یہیں فروخت کرکے مکہ واپس چلے جاؤ چنانچہ ابوطالب نے اپنامال باہرنکالاوہ حضرت کی برکت سے آنافانا بہت زیادہ نفع پرفروخت ہوگیا اورحضرت ابوطالب واپس مکہ چلے گئے۔( روضة الاحباب ج ۱ ص ۷۱ ، تنقیدالکلام ص ۳۰) ایرونگ ص ۲۴ ،تفریح الاذکار وغیرہ۔
جناب خدیجہ کے ساتھ آپ کی شادی خانہ آبادی
جب آپ کی عمرپچس سال کی ہوئی اورآپ کے حسن سیرت،آپ کی راستبازی، صدق اوردیانت کی عام شہرت ہوگئی اورآپ کوصادق وامین کاخطاب دیا جاچکاتوجناب خدیجہ بنت خویلد نے جوانتہائی پاکیزہ نفس، خوش اخلاق اورخاندان قریش میں سب سے زیادہ دولت مندتھیں ایسے حال میں ابنی شادی کا پیغام پہنچایاجب کہ ان کی عمرچالیس سال کی تھی پیغام عقدمنظورہوااورحضرت ابوطالب نے نکاح پڑھا(تلخیص سیرت النبی علامہ شبلی ص ۹۹ طبع لاہور ۱۹۶۵ ءء۔ مورخ ابن واضح المتوفی ۲۹۲ ء کابیان ہے کہ حضرت ابوطالب نے جوخطبہ نکاح پڑھاتھا اس کی ابتداء اس طرح تھی۔ الحمدللہ الذی جعلنامن زرع ابراہیم وذریتہ اسماعیل الخ تمام تعرفیں اس خدائے واحدکے لئے ہیں جس نے ہمیں نسل ابراہیم اورذریت اسماعیل سے قراردیاہے (یعقوبی ج ۲ ص ۱۶ طبع نجف اشرف)
مؤرخین کابیان ہے کہ حضرت خدیجہ کامہربارہ اونس سونا اور ۲۵ اونٹ مقررہوا جسے حضرت ابوطالب نے اسی وقت اداکردیا۔(مسلمان عالم ص ۳۸ طبع لاہور) تواریخ میں ہے کہ جناب خدیجہ کی طرف سے عقدپڑھنے والے ان کے چچاعمروابن اسداورحضرت رسول خداکی طرف سے جناب ابوطالب تھے۔(تاریخ اسلام ج ۲ ص ۸۷ طبع لاہور ۱۹۶۲ ء۔
ایک روایت میں ہے کہ شادی کے وقت جناب خدیجہ باکرہ تھیں یہ واقعہ نکاح ۵۹۵ کاہے ۔ مناقب ابن شہرآشوب میں ہے کہ رسول خداکے ساتھ خدیجہ کایہ پہلاعقدتھا ۔سیرت ابن ہشام ج ۱ ص ۱۱۹ میں ہے کہ جب تک خدیجہ زندہ رہیں رسول کریم نے کوئی عقدنہیں کیا۔
کوہ حرامیں آنحضرت کی عبادت گذاری
تواریخ میں ہے کہ آپ نے ۳۸ سال کی عمرمیں” کوہ حرا“ جسے جبل ثوربھی کہتے ہیں کواپنی عبادت گذاری کی منزل قراردیااوراس کے ایک غارمیں بیٹھ کر جس کی لمبائی چارہاتھ اورچوڑائی ڈیڑھ ہاتھ تھی عبادت کرتے تھے اورخانہ کعبہ کودیکھ کرلذت محسوس کرتے تھے یوں تودودو، چارچارشبانہ روزوہاں رہاکرتے تھے لیکن ماہ رمضان سارے کاساراوہیں گزراتے تھے۔
آپ کی بعثت
مورخین کابیان ہے کہ انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی عالم تنہائی میں مشغول عبادت تھے کہ آپ کے کانوں میں آوازآئی ”یامحمد“ آپ نے ادھرادھر دیکھا کوئی دکھائی نہ دیا۔ پھرآوازآئی پھرآپ نے ادھرادھردیکھاناگاہ آپ کی نظرایک نورانی مخلوق پرپڑی وہ جناب جبرائیل تھے انہوں نے کہا کہ ”اقرا“ پڑھو، حضورنے ارشاد فرمایا”مااقراء-“ کیاپڑھوں انہوں نے عرض کی کہ ” اقراء باسم ربک الذی خلق الخ“ پھرآپ نے سب کچھ پڑھ دیا۔
کیونکہ آپ کوعلم قرآن پہلے سے حاصل تھا جبرئیل کے اس تحریک اقراء کامقصدیہ تھا کہ نزول قرآن کی ابتداء ہوجائے اس وقت آ پ کی عمرچالیس سال ایک یوم تھی اس کے بعدجبرئیل نے وضواورنمازکی طرف اشارہ کیااوراس کی تعدادرکعات کی طرف بھی حضورکومتوجہ کیاچنانچہ حضوروالانے وضوکیااورنمازپڑھی آپ نے سب سے پہلے جونمازپڑھی وہ ظہرکی تھی پھرحضرت وہاں سے اپنے گھرتشریف لائے اورخدیجة الکبری اورعلی ابن ابی طالب سے واقعہ بیان فرمایا۔ ان دونوں نے اظہارایمان کیااورنمازعصران دونوں نے بجماعت اداکی یہ اسلام کی پہلی نمازجماعت تھی جس میں رسول کریم امام اورخدیجہ اورعلی ماموم تھے۔
آپ درجہ نبوت پربدوفطرت ہی سے فائزتھے، ۲۷ رجب کومبعوث برسالت ہوئے حیات القلوب کتاب المنتقی، مواہب اللدنیہ) اسی تاریخ کونزول قرآن کی ابتداء ہوئی۔
دعوت ذوالعشیرہ کاواقعہ اوراعلان رسالت و وزارت
بعثت کے بعد آپ نے تین سال تک نہایت رازداری اور پوشیدگی کے ساتھ فرائض کی ادائیگی فرمائی اس کے بعد کھلے بندوں تبلیغ کاحکم آگیا”فاصدع بماتومر“ جوحکم دیاگیاہے اس کی تکمیل کرومیں اس مقام پر” تاریخ ابوالفداء کے اس ترجمہ کی لفظ بہ لفظ عبارت نقل کرتاہوں جسے مولاناکریم الدین حنفی انسپکٹر مدارس پنجاب نے ۱۸۴۶ ءء میں کیاتھا۔
”واضح ہوکہ تین برس تک پیغبرخدادعوت فطرت اسلام خفیہ کرتے رہے مگر جب کہ یہ آیت نازل ہوئی ” وانذرعشیرتک الاقربین“ یعنی ڈرا اپنے کنبے والوں کوجوقریب رشتہ کے ہیں اس وقت حضرت نے بموجب حکم خداکے اظہارکرنادعوت کاشروع کیابعدمیں نازل ہونے سے اس آیت کے پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی سے ارشاد فرمایاکہ” ائے علی ایک پیمانہ کھانے کامیرے واسطے تیارکرواورایک بکری کاپیراس پرچھوالے اورایک بڑاکانسہ دودھ کامیرے واسطے لااورعبدالمطلب کی اولادکومیرے پاس بلاکرلا تاکہ میں اس سے کلام کروں اورسناؤں ان کووہ حکم کہ جس پرجناب باری سے مامورہواہوں چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وہ کھانا ایک پیمانہ بموجب حکم تیارکرکے اولادعبدالمطلب کوجوقریب چالیس آدمی کے تھے بلایا، ان آدمیوں میں حضرت کے چچا ابوطالب اورحضرت حمزہ اورحضرت عباس بھی تھے اس وقت جضرت علی نے وہ کھانا جوتیارکیاتھالاکرحاضرکیا۔
سب کھاپی کرسیرہوگئے حضرت علی نے ارشاد کیاکہ جوکھانا ان سب آدمیوں نے کھایاہے وہ ایک آدمی کی بھوک کے موافق تھا اس اثناء میں حضرت چاہتے تھے کہ کچھ ارشاد کریں کہ ابولہب جلدبول اٹھااوریہ کہاکہ محمدنے بڑاجادوکیا یہ سنتے ہی تمام آدمی الگ الگ ہوگئے تھے ، چلے گئے پیغمبرخداکچھ کہنے نہ پائے تھے یہ حال دیکھ کر جناب رسالتماب نے ارشاد کیاکہ ایے علی دیکھاتونے اس شخص نے کیسی سبقت کی مجھ کوبولنے ہی نہ دیااب پھرکل کوتیارکر جیساکہ آج کیاتھا اورپھران کوبلاکرجمع کر_
چنانچہ حضرت علی نے دوسرے روزپھرموافق ارشاد آنحضرت کے وہ کھاناتیارکرکے سب لوگوں کوجمع کیا، جب وہ کھانے سے فراغت پاچکے اس وقت رسول اللہ نے ارشادکیاکہ ”تم لوگوں کی بہت اچھی قسمت اورنصیب ہے کیونکہ ایسی چیزمیں اللہ کی طرف سے لایاہوں کہ اس سے تم کوفضیلت حاصل ہوتی ہے اورلے آیاہوں تمہارے پاس دنیاوآخرت میں اچھا۔ خداتعالی نے مجھ کوتمہاری ہدایت کاحکم فرمایاہے کوئی شخص تم میں سے اس امرکااقتداء کرکے میرابھائی اوروصی اورخلیفہ بنناچاہتاہے اس وقت سب موجودتھے اورحضرت پرایک ہجوم تھا اورحضرت علی نے عرض کیاکہ یارسول اللہ میں آپ کے دشمنوں کونیزہ ماروں گااورآنکھیں ان کوپھوڑوں گا اورپیٹ چیروں گا اورٹانگیں کاٹوں گااورآپ کاوزیرہوں گا حضرت نے اس وقت علی مرتضی کی گردن پرہاتھ مبارک رکھ کر ارشادکیاکہ یہ میرابھائی ہے اورمیراوصی ہے اورمیراخلیفہ ہے تمہارے درمیان اس کی سنواوراطاعت قبول کرو۔ یہ سن کرسب قوم کے لوگ ازروئے تمسخرے ہنس کرکھڑے ہوگئے اورابوطالب سے کہنے لگے کہ اپنے بیٹے کی بات سن اوراطاعت کریہ تجھے حکم ہواہے الخ ص ۳۳ تاص ۳۶ طبع لاہور۔
حضرت رسول کریم شعب ابی طالب میں (محرم ۷ ء بعثت)
مورخین کابیان ہے کہ جب کفارقریش نے دیکھاکہ اسلام روزافزوں ترقی کرتاچلاجارہاہے توسخت مضطرب ہوئے پہلے توچندقریش دشمن تھے اب سب کے سب مخالف ہوگئے اوربروایت ابن ہشام وابن اثیروطبری ابوجہل بن ہشام، شیبة، عتبہ بن ربیعة، نصربن حارث، عاص بن وائل اورعقبہ بن ابی معیط ایک گروہ کے ساتھ رسول خداکے قتل پرکمرباندھ کرحضرت ابوطالب کے پاس آئے اورصاف لفظوں میں کہاکہ محمدنے ایک نئے مذہب کااختراع کیاہے اوروہ ہمارے خداوں کوہمیشہ برابھلاکہاکرتے ہیں لہذا انہیں ہمارے حوالے کردوہم انہیں قتل کردیں یاپھرآمادہ جنگ ہوجاؤ حضرت ابوطالب نے اس وقت انھیں ٹالدیا اوروہ لوگ واپس چلے گئے ورروسول کریم اپناکام برابرکرتے رہے چنددنوں کے بعددشمن پھرآئے اورانھوں نے آکرشکایت کی اورحضرت کے قتل پراصرارکیا حضرت ابوطالب نے آنحضرت سے واقعہ بیان کیاانہوں نے فرمایاکہ اے چچامیں جوکہتاہوں ،کہتارہوں گا میں کسی کی دھمکی سے مرعوب نہیں ہوسکتا اورنہ کسی لالچ میں پھنس سکتاہوں اگرمیرے ایک ہاتھ پرآفتاب اوردوسے پرماہتاب رکھ دیاجائے جب بھی میں تعمیل حکم خداوندی سے بازنہ آوں گا میں جوکرتاہوں حکم خداسے کرتاہوں، وہ میرامحافظ ہے یہ سن کرحضرت ابوطالب نے فرمایاکہ ” بیٹاتم جوکرتے ہوکرتے رہو، میں جب تک زندہ ہوں تمہاری طرف کوئی نظراٹھاکرنہیں دیکھ سکتا تھوڑے عرصہ کے بعدبروایت ابن ہشام وابن ا ثیر، کفارنے ابوطالب سے کہا کہ تم اپنے بھتیجے کوہمارے حوالے کردو ہم اسے قتل کردیں اوراس کے بدلے میں ایک نوجوان ہم سے بنی مخزوم میں سے لے لو حضرت ابوطالب نے فرمایاکہ تم بعیدازعقل باتیں کرتے ہو، یہ کبھی نہیں ہوسکتا یہ کیونکہ ممکن ہے کہ میں تمہارے لڑکے کولے کراس کی پرورش کروں اورتم ہمارے بیٹے کولے کرقتل کردو۔ یہ سن کر ان کی آتش غضب اوربرافروختہ ہوگئی اوروہ ان کے ستانے پربھرپورتل گئے حضرت ابوطالب نے اس کے ردعمل میں بنی ہاشم اوربنی مطلب سے امدادچاہی اوردشمنوں سے کہلابھیجاکہ کعبہ وحرم کی قسم اگرمحمدکے پاؤں میں تمہاری طرف سے کانٹابھی چبھاتومیں سب کوہلاک کردوں گا حضرت ابوطالب کے اس کہنے پردشمن کے دلوں میں آگ لگ گئی اوروہ آنحضرت کے قتل پرپوری طاقت سے تیارہوگئے۔
حضرت ابوطالب نے جب آنحضرت کی جان کوغیرمحفوظ دیکھاتوفورا ان لوگوں کولے جنہوں نے حمایت کاوعدہ کیاتھا جن کی تعدادبروایت حیات القلوب چالیس تھی۔ محرم ۷بعثت میں ”شعب ابی طالب“ کے اندرچلے گئے اوراس کے اطراف کو محفوظ کردیا۔
کفارقریش نے ابوطالب اس عمل سے متاثرہوکرایک عہدنامہ مرتب کیاجس میں بنی ہاشم اوربنی مطلب سے مکمل بائیکاٹ کافیصلہ تھا طبری میں ہے کہ اس عہدنامہ کومنصوربن عکرمہ بن ہاشم نے لکھاتھاجس کے بعدہی اس کاہاتھ شل ہوگیاتھا۔
تواریخ میں ہے کہ دشمنوں نے شعب کاچاروں طرف سے بھرپورمحاصرہ کرلیاتھا اورانھیں مکمل قیدمیں مقیدکردیاتھا اس قیدنے اہل شعب پربڑی مصیبت ڈآلی جسمانی اورروحانی تکلیف کے علاوہ رزق کی تنگی نے انہیں تباہی کے کنارے پرپہنچادیااورنوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ دینداردرختوں کے پتے کھانے لگے ناتے ،کنبے والے اگرچوری چھپے کچھ کھانے پینے کی چیزپہنچادیتے اورانہیں معلوم ہوجاتاتوسخت سزائیں دیتے اسی حالت میں تین سال گزرگئے ایک روایت میں ہے کہ جب اہل شعب کے بچے بھوک سے بے چین ہوکرچیختے اورچلاتے تھے توپڑسیوں کی نیندحرام ہوجاتی تھی اس حالت میں بھی آپ پروحی نازل ہوتی رہی ، اورآپ کاررسالت انجام دیتے رہے۔
تین سال کے بعد ہشام بن عمربن حرث کے دل میں یہ خیال آیاکہ ہم اورہمارے بچے کھاتے پیتے اورعیش کرتے ہیں اوربنی ہاشم اوران کے بچے فاقہ کشی کررہے ہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے پھراس نے اورچندآدمیوں کوہم خیال بناکرقریش کے اجتماع میں اس سوال کواٹھایا۔ ابوجہل اورا سکی بیوی ”ام جمیل“ جسے بزبان قرآن ”حمالة الحطب“کہاجاتاہے نے مخالفت کی لیکن عوام کے دل پسیج اٹھے اسی دوران میں حضرت ابوطالب آگئے اورانہوں نے کہاکہ ”محمد“ نے بتایاہے کہ تم نے جوعہدنامہ لکھاہے اس دیمک چرگئی ہے اورکاغذ کے اس حصہ کے سواجس پراللہ کانام ہے سب ختم ہوگیاہے اے قریش بس ظلم کی حدہوچکی تم اپنے عہدنامہ کودیکھواگرمحمدکاکہناسچ ہوتوانصاف کرواوراگر جھوٹ ہوتوجوچاہے کرو۔
حضرت ابوطالب کے اس کہنے پرعہدنامہ منگوایاگیااورحضرت رسول کریم کا ارشاداس کے بارے میں من وعن صحیح ثابت ہواجس کے بعدقریش شرمندہ ہوگئے اورشعب کاحصارٹوٹ گیا۔
س کے بعدہشام بن عمربن حرث اوراس کے چارساتھی ،زبیربن ابی امیہ مخزومی اورمطعم بن عدی ابوالبختری بن ہشام، زمعہ بن الاسودبن المطلب بن اسدشعب ابی طالب میں گئے اوران تمام لوگوں کوجواس میں محصورتھے ان کے گھروں میں پہنچادیا۔(تاریخ طبری، تاریخ کامل، روضة الاحباب)۔
مورخ ابن واضح المتوفی ۲۹۲ ء کابیان ہے کہ اس واقعہ کے بعد” اسلم یومسئذخلق من الناس عظیم“ بہت سے کافرمسلم ہوگئے۔ (الیعقوبی ج ۲ ص ۲۵ طبع نجف ۱۳۸۴ ھء)_
آنحضرت ص کی معراج جسمانی ( ۱۲ بعثت)
۲۷/ رجب ۱۲ بعثت کی رات کوخداوندعالم نے جبرئیل کوبھیج کربراق کے ذریعہ آنحضرت صلعم کو”قاب قوسین“ کی منزل پربلایا اوروہاں علی بن ابی طالب کی خلافت وامامت کے متعلق ہدایات دیں (تفسیرقمی) اسی مبارک سفراورعروج کو”معراج“ کہاجاتاہے یہ سفرام ہانی کے گھرسے شروع ہواتھاپہلے آپ بیت المقدس تشریف لے گئے پھروہاں سے آسمان پرروانہ ہوئے منازل آسمانی کوطے کرتے ہوئے ایک ایسی منزل پرپہنچے جس کے آگے جبرئیل کاجاناممکن نہ ہوا جبرئیل نے عرض کی حضورلودنوت لیلة لاحترقت“ اب اگرایک انگل بھی آگے بڑہوں گاتوجل جاؤں گا ۔
اگریک سرموئے برترروم بنورتجلی بسوزد پرم
پھرآپ براق پرسوارآگے بڑھے ایک منزل پربراق رک گیااورآپ ”رفرف“ پربیٹھ کرآگے روانہ ہوگئے یہ ایک نوری تخت تھاجونورکے دریامیں جارہاتھا یہاں تک کہ منزل مقصودپرآپ پہنچ گئے آپ جسم سمیت گئے اورفوراواپس آئے قرآن مجید میں ”اسری بعبدہ“ آیاہے عبدکالفظ اطلاق جسم اورروح دونوں پرہوتاہے وہ لوگ جومعرادج روحانی کے قائل ہیں وہ غلطی پرہیں (شرح عقائدنسفی ص ۶۸ ) معراج کااقراراوراس کااعتقادضروریات دین میں سے ہے حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جومعراج کامنکرہواس کاہم سے کوئی تعلق نہیں (سفینة البحارج ۲ ص ۱۷۴)
ایک روایت میں ہے کہ پہلے صرف دونمازیں واجب تھیں معراج کے بعدپانچ وقت کی نمازیں مقررہوئیں۔
بیعت عقبہ اولی
اسی ۱۲ بعثت کے موسم حج میں ان چھ آدمیوں میں سے جوسال گذشتہ مسلمان ہوکرمدینہ واپس گئے تھے پانچ آدمیوں کے ساتھ سات آدمی مدینہ والوں میں سےاورآکرمشرف بااسلام ہوئے حضرت کی حمایت کاعہدکیایہ بیعت بھی اسی مکان عقبہ میں ہوئی جومکہ سے تھوڑے فاصلہ پرشمال کی جانب واقع ہے، مورخ ابوالفداء لکھتاہے کہ اس عہدپربعیت ہوئی کہ خداکاکوئی شریک نہ کرو چوری نہ کرو،زنانہ کرو، اپنی اولادکوقتل نہ کرو، جب وہ بیعت کرچکے توحضرت نے مصعب بن عمیربن ہاشم بن عبدمناف ابن عبدالعلاء کوتعلیم قرآن اورطریقہ اسلام بتانے کے لیے مامورفرمایا الخ(تاریخ ابوالفداء ج ۲ ص ۵۲) ۔
بیعت عقبہ ثانیہ ۱۳ بعثت
۱۳ بعثت کے ماہ ذی الحجہ میں مصعب بن عمیر، ۷۳ مرداوردوعورتوں کومدینہ سے لے کرمکہ آئے اورانہوں نے مقام عقبہ پررسول کریم کی خدمت میں ان لوگوں کوپیش کیاوہ مسلمان ہوچکے تھے انہوں نے بھی حضرت کی حمایت کاعہدکیااورآپ کے دست مبارک پربیعت کی، ان میں اوس اورخزرج دونوں کے افراد شامل تھے۔
ہجرت مدینہ
۱۴ بعثت مطابق ۲۲۶ میں حکم رسول کے مطابق مسلمان چوری چھپے مدینہ کی طرف جانے لگے اوروہاں پہنچ کرانہوں نے اچھی منزل حاصل کرلی قریش کوجب معلوم ہواکہ مدینہ میں اسلام زورپکڑرہاہے تو”دارالندوہ“ میں جمع ہوکریہ سوچنے لگے کہ اب کیاکرنا چاہئے کسی نے کہاکہ محمدکویہیں قتل کردیاجائے تاکہ ان کادین ہی ختم ہوجائے کسی نے کہاکہ جلاوطن کردیاجائے ابوجہل نے رائے دی کہ مختلف قبائل کے لوگ جمع ہوکربیک ساعت ان پرحملہ کرکے انہیں قتل کردیں تاکہ قریش خون بہانہ لے سکیں اسی رائے پربات ٹہرگئی، سب نے مل کرآنحضرت کے مکان کامحاصرہ کرلیاپروردگارکی ہدایت کے مطابق جوحضرت جبرئیل کے ذریعہ پہنچی آپ نے حضرت علی کواپنے بسترپرلٹادیااورایک مٹی دھول لے کرگھرسے باہرنکلے اوران کی آنکھوں میں جھونکتے ہوئے اس طرح نکل گئے جیسے کفرسے ایمان نکل جائے علامہ شبلی لکھتے ہیں کہ یہ سخت خطرہ کاموقعہ تھا جناب امیرکومعلوم ہوچکاتھا کہ قریش آپ کے قتل کاارادہ کرچکے ہیں اورآج رسول اللہ کابسترخواب گاہ قتل کی زمین ہے لیکن فاتح خیبرکے لیئے قتل گاہ فرش گل تھا (سیرةالنبی ومحسن اعظم ص ۱۶۵) ۔
صبح ہوتے ہوتے دشمن دروازہ توڑکرداخل خانہ ہوئے توعلی کوسوتاہواپایا پوچھامحمدکہاں ہیں؟ جواب دیاجہاں ہیں خداکی امان ہیں طبری میں ہے کہ علی تلوارسونت کرکھڑے ہوگئے اورسب گھرسے نکل بھاگے احیاء العلوم غزالی میں ہے کہ علی کی حفاظت کے لئے خدانے جبرئیل اورمیکائیل کوبھیج دیاتھا یہ دونوں ساری رات علی کی خواب گاہ کاپہرہ دیتے رہے حضرت علی کافرماناہے کہ مجھے شب ہجرت جیسی نیند ساری عمرنہ آئی تھی ۔ تفاسیرمیں ہے کہ اس موقع کے لئے آیت ” ومن الناس من یشری نفسہ مرضات اللہ“ نازل ہوئی ہے الغرض آنحضرت کے روانہ ہوتے ہی جناب ابوبکرنے ان کاپیچھاکیا آپ نے رات کے اندھیرے میں یہ سمجھ کر کوئی دشمن آرہاہے اپنے قدم تیزکردئیے پاؤں میں ٹھوکرلگی خون جاری ہوگیاپھرآپ نے محسوس کیا کہ ابن ابی قحافہ آرہے ہیں آپ کھڑے ہوگئے پاؤں صحیح بخاری ج ۱ حصہ ۳ ص ۶۹ میں ہے کہ رسول خدانے ابوبکربن ابی قحافہ سے یہ قیمت ناقہ خریدا۔ اورمدارج النبوت میں ہے کہ جناب ابوبکرنے دوسو درہم کی خریدی ہوئی اونٹنی آنحضرت کے ہاتھ نوسودرہم کی فروخت کی اس کے بعدیہ دونوں غارثورتک پہنچے یہ غارمدینہ کی طرف مکہ سے ایک گھنٹہ کی راہ پرڈھائی یاتین میل جنوب کی طرف واقع ہے اس پہاڑکی چوٹی تقریباایک میل بلندہے سمندروں وہاں سے دکھائی دیتاہے(تلخیص سیرت النبی ص ۱۶۹ وزرقانی)۔
یہ حضرات غار میں داخل ہوگئے خدانے ایساکیاکہ غارکے منہ پرببول کادرخت اگادیامکڑی نے جالاتناکبوترنے انڈادیا،اورغارمیں داخلہ کاشبہ نہ رہا، جب دشمن اس غارپرپہنچے تووہ یہی سب کچھ دیکھ کرواپس ہوگئے (عجائب القصص صفحہ ۲۵۷ میں ہے کہ اسی موقع پرحضرت نے کبوترکوخانہ کعبہ پرآکربسنے کی اجازت دی۔ اس سے قبل دیگر پرندوں کی طرح کبوتربھی اوپرسے گذرنہیں سکتاتھا۔
مختصریہ کہ یکم ربیع الاول ۱۴ ء بعثت یوم پنجشنبہ بوقت شب قریش نے آنحضرت کے گھرکامحاصرہ کیاتھاصبح سے کچھ پہلے ۲/ ربیع الاول یوم جمعہ کوغارثورمیں پہنچے یوم یکشنبہ ۴/ ربیع الاول تک غارمیں رہے حضرت علی آپ لوگوں کے لئے رات میں کھاناپہنچاتے رہے اوریہ چاروں اشخاص معمولی راستہ چھوڑکربحیرئہ قلزم کے کنارے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے کفارمکہ نے انعام مقررکردیاتھاکہ جوشخص آپ کوزندہ پکڑکرلائے گایاآپ کاسرکاٹ کرلائے گاتوسواونٹ انعام میں دئیے جائیں گے اس پرسراقہ بن مالک آپ کی کھوج لکاتاہواغارتک پہنچااسے دیکھ کرحضرت ابوبکررونے لگے ۔ توحضرت نے فرمایاروتے کیوں ہو” خدا ہمارے ساتھ ہے “ سراقہ قریب پہنچاہی تھاکہ اس کاگھوڑابابزانوزمین میں دھنس گیااس وقت حضرت روانگی کے لیے برآمدہوچکے تھے اس نے معافی مانگی حضرت نے معافی دیدی گھوڑازمین سے نکل آیاوہ جان بچاکربھاگا اورکافروں سے کہہ دیاکہ میں نے بہت تلاش کیامگرمحمدکاسراغ نہیں ملتا اب دوہی صورتیں ہین ۔”یازمین میں سماگئے یاآسمان پراڑگئے۔“
تحویل کعبہ
ماہ شعبان ۲ ہجری میں بیت المقدس کی طرف سے قبلہ کارخ کعبہ کی طرف موڑدیاگیا قبلہ چونکہ عالم نمازمیں بدلاگیااس لئے آنحضرت کاساتھ حضرت علی کے علاوہ اورکسی نے نہیں دیا کیونکہ وہ آنحضرت کے ہرفعل وقول کوحکم خداسمجھتے تھے اسی لیے آپ مقام فخرمیں فرمایاکرتے تھے انامصلی القبلتین میں ہی وہ ہوہ جس نے ایک نمازبیک وقت دوقبلوں کی طرف پڑھی۔
تبلیغی خطوط
حضرت کوابھی صلح حدبیہ کے ذریعہ سے سکون نصیب ہواہی تھا کہ آپ نے ۷ ہجری میں ایک مہربنوائی جس پر”محمد رسول اللہ“ کندہ کرایا اس کے بعد شاہان عالم کوخطوط لکھے ان دنوں عرب کے اردگردچاربڑی سلطنتیں قائم تھیں : ۱ ۔ حکومت ایران جس کااثروسط ایشیاسے عراق تک پھیلاہواتھا۔
۲ ۔ حکومت روم جس میں ایشیائے کوچک ،فلسطین،شام اوریورپ کے بعض حصے شامل تھے۔ ۳ ۔ مصر۔ ۴ ۔ حکومت حبش جومصری حکومت کے جنوب سے لے کر بحیرئہ قلزم کے مغربی علاقوں پرتھا۔ حضرت نے بادشاہ حبش نجاشی ، شاہ روم قیصرہرقل، گورنرمصرجریح ابن میناقبطی عرف مقوقش ، بادشاہ ایران خسروپرویزاورگورنریمن باذان، والی دمشق حارث وغیرہ کے نام خطوط روانہ فرمائے۔
آپ کے خطوط کامختلف بادشاہوں پرمختلف اثرہوا، نجاشی نے اسلام قبول کرلیا، شاہ ایران نے آپ کاخط پڑھ کرغیظ وغضب کے تحت خط کے ٹکڑے اڑا دے قاصد کونکال دیا ، اورگورنریمن نے لکھاکہ مدینہ کے دیوانہ (آنحضرت) کوگرفتارکرکے میرے پاس بھیجدے اس نے دوسپاہی مدینہ بھیجے تاکہ حضورکوگرفتار کریں حضرت نے فرمایا، جاؤتم کیاگرفتارکروگے تمہیں خبربھی تمہارابادشاہ انتقال کرگیا، سپاہی جویمن پہنچے توسناکہ شاہ ایران داعی اجل کولبیک کہہ چکاہے آپ کی اس خبردہی سے بہت سے کافرمسلمان ہوگئے۔ قیصرروم نے آپ کے خط کی تعظیم کی گورنرمصرنے آپ کے قاصدکی بڑی مدارات کی اوربہت سے تحفوں سمیت اسے واپس کردیا۔ ان تحفوں میں ماریہ قبطیہ(زوجہ آنحضرت)اوران کی ہمشیرہ شیریں (زوجہ حسان بن ثابت) ایک دلدل نامی جانوربرائے حضرت علی، یعفورنامی درازگوش مابورنامی خواجہ سراشامل تھے۔
اصحاب کاتاریخی اجتماع اورتبلیغ رسالت کی آخری منزل حضرت علی کی خلافت کااعلان
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خلاق عالم نے انتخاب خلافت کواپنے لیے مخصوص رکھاہے اوراس میں لوگوں کادسترس نہیں ہونے دیا۔ فرماتاہے : ربک یخلق مایشاء ویختارماکان لہم الخیرة سبحان اللہ تعالی عمایشرکون ۔
تمہارارب ہی پیداکرتاہے اورجس کوچاہتاہے (نبوت وخلافت) کے لیے منتخب کرتاہے یادرہے کہ انسان کونہ انتخاب کاکوئی حق ہے اورنہ وہ اس میں خداکے شریک ہوسکتے ہیں (پ ۲۰ رکوع ۱۰) یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے تمام خلفاء آدم سے خاتم تک خود مقررکئے ہیں اوران کااعلان اپنے نبیوں کے ذریعہ سے کرایاہے۔(روضة الصفا، تاریخ کامل، تاریخ ابن الوری، عرائس ثعلبی وغیرہ) اوراس میںتمام انبیاء کے کردارکی موافقت کااتنالحاظ رکھاہے کہ تاریخ اعلان تک میں فرق نہیں آنے دیا۔ علامہ مجلسی وعلامہ بہائی لکھتے ہیں کہ تمام انبیاء نے خلافت کااعلان ۱۸/ ذی الحجہ کوکیاہے(جامع عباسی واختیارات مجلسی) مورخین کااتفاق ہے کے آنحضرت صلعم نے حجة الوداع کے موقع پر ۱۸/ ذی الحجہ کوبمقام غدیرخم حکم خداسے حضرت علی کے جانشین ہونے کااعلان فرمایاہے۔
حجة الوداع
حضرت رسول کریم صلعم ۲۵/ ذی قعدہ ۱۰ ء ہجری کوحج آخرکے ارادہ سے روانہ ہوکر ۴/ ذی الحجہ کومکہ معظمہ پہنچے آپ کے ہمراہ آپ کی تمام بیبیاں اورحضرت سیدہ سلام اللہ علیہاتھیں روانگی کے وقت ہزاروں صحابہ کی تعدادایک لاکھ چوبیس ہزار ہوگئی حضرت علی یمن سے مکہ پہنچے حضور ص نے فرمایاکہ تم قربانی اورمناسک حج میں میرے شریک ہو۔ اس حج کے موقع پرلوگوں نے اپنی آنکھوں سے آنحضرت ص کو مناسک حج اداکرتے ہوئے دیکھااورمعرکة الاراء خطبے سنے جن میں بعض باتیں یہ تھیں ۔
۱ ۔ جاہلیت کے زمانہ کے دستورکچل ڈالنے کے قابل ہیں۔ ۲ ۔ عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پرکوئی فضیلت نہیں۔ ۳ ۔ مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ ۴ ۔ غلاموں کاخیال ضروری ہے۔ ۵ ۔ جاہلیت کے تمام خون معاف کردئیے گئے۔ ۶ ۔جاہلیت کے تمام واجب الاداسود باطل کردئیے گئے۔
غرضکہ حج سے فراغت کے بعدآپ مدینہ کے ارادہ سے ۱۴/ ذی الحجہ کوروانہ ہوئے ایک لاکھ چوبیس ہزاراصحاب آپ کے ہمراہ تھے جحفہ کے قریب مقام غدیر پرپہنچتے ہی آیہ بلغ کانزول ہوا آپ نے پالان اشترکامنبربنایااوربلاکوحکم دیاکہ ”حی علی خیرالعمل“ کہہ کر آوازیں دیں مجمع سمٹ کرنقطہ اعتدال پرآگیا آپ نے ایک فصیح وبلیغ خطبہ فرمایاجس میں حمدوثناکے بعداپنی افضلیت کاافرارلیااورفرمایاکہ میں تم میں دوگرانقدرچیزیں چھوڑے جاتاہوں ایک قرآن اوردوسرے میرے اہلبیت ۔
اس کے بعد علی کواپنے نزدیک بلاکردونوں ہاتھوں سے اٹھایااوراتنابلندکیاکہ سفیدی زیربغل ظاہرہوگئی پھرفرمایا”من کنت مولاہ فہذاعلی مولاہ جس کامیں مولاہ ہوں اس کے یہ علی مولاہیں خدایاعلی جدھرمڑیں حق کواسی طرف موڑدینا پھرعلی کے سرپرسیاہ عمامہ باندھالوگوں نے مبارکبادیاں دینی شروع کیں سب آپ کی جانشینی سے مسرورہوئے حضرت عمرنے بھی نمایاں الفاظ میں مبارکباددی جبرئیل نے بھی بزبان قرآن اکمال دین اوراتمام نعمت کامژدہ سنایا۔
واقعہ مباہلہ
نجران یمن میں ایک مقام ہے وہاں عیسائی رہتے تھے اورہاں ایک بڑاکلیساتھا آنحضرت صلعم نے انہیں بھی دعوت اسلام بھیجی ، انھوں نے تحقیق حالات کے لئے ایک وفدزیرقیادت عبدالمسیح عاقب مدینہ بھیجا وہ وفدمسجدنبوی کے صحن میں آکرٹہرا حضرت سے مباحثہ ہوامگروہ قائل نہ ہوئے حکم خدانازل ہوا ” فقل تعالوا ندع انباء نا “ الخ ائے پیغمبران سے کہدوکہ دونوں اپنے بیٹوں اپنی عورتوں اوراپنے نفسوں کولاکرمباہلہ کریں ۔ چنانچہ فیصلہ ہوگیا اور ۲۴/ ذی الحجہ ۱۰ کوپنجتن پاک جھوٹوں پرلعنت کرنے کے لئے نکلے نصاری کے سردارنے جونہی ان کی شکلیں دیکھیں کانپنے لگا اورمباہلہ سے بازآیا۔ خراج دینامنظور کیا جزیہ دے کررعایابنناقبول کرلیا(معراج العرفان ص ۱۳۵ ، تفسیربیضاوی ص ۷۴) ۔
سرورکائنات کے آخری لمحات زندگی
حجة الوداع سے واپسی کے بعد آپ کی وہ علالت جوبروایت مشکواة خیبرمیں دئے ہوئے زہرکے کروٹ لینے سے ابھراکرتی تھی مستمرہوگئی آپ علیل رہنے لگے بیماری کی خبرکے عام ہوتے ہی جھوٹے مدعی نبوت پیداہونے لگے جن میں مسیلمہ کذاب ،اسودعنسی، طلیحہ، سجاح زیادہ نمایاں تھے لیکن خدانے انہیں ذلیل کیا اسی دوران میں آپ کواطلاع ملی کہ حکومت روم مسلمانوں کوتباہ کرنے کامنصوبہ تیارکررہی ہے آپ نے اس خطرہ کے پیش نظرکہ کہیں وہ حملہ نہ کردیں اسامہ بن زیدکی سرکردگی میں ایک لشکربھیجنے کافیصلہ کیا اورحکم دیاکہ علی کے علاوہ اعیان مہاجروانصارمیں سے کوئی بھی مدینہ میں نہ رہے اوراس روانگی پراتنا زور دیاکہ یہ تک فرمایا”لعن اللہ من تخلف عنہا“ جواس جنگ میں نہ جائے گااس پرخداکی لعنت ہوگی اس کے بعدآنحضرت نے اسامہ کواپنے ہاتھوں سے تیار کرکے روانہ کیا انہوں نے تین میل کے فاصلہ پرمقام جرف میں کیمپ لگایااوراعیان صحابہ کاانتظارکرنے لگے لیکن وہ لوگ نہ آئے ۔ مدارج النبوت جلد ۲ ص ۴۸۸ وتاریخ کامل جلد ۲ ص ۱۲۰ وطبری جلد ۳ ص ۱۸۸ میں ہے کہ نہ جانے والوں میں جناب ابوبکر اور جناب عمرابن خطاب بھی تھے ۔ مدارج النبوت جلد ۲ ص ۴۹۴ میں ہے کہ آخرصفرمیں جب کہ آپ کوشدیددردسرتھا آپ رات کے وقت اہل بقیع کے لئے دعاکی خاطر تشریف لے گئے جناب عائشہ نے سمجھاکہ میری باری میں کسی اور بیوی کے وہاں چلے گئے ہیں ۔ اس پروہ تلاش کے لیے نکلیں توآپ کوبقیع میں محودعاپایا۔
اسی سلسہ میں آپ نے فرمایاکیااچھاہوتا ائے عائشہ کہ تم مجھ سے پہلے مرجاتیں اورمیں تمہاری اچھی طرح تجہیزوتکفین کرتا انہوں نے جواب دیاکہ آپ چاہتے ہیں میں مرجاؤں توآپ دوسری شادی کرلیں۔ اسی کتاب کے ص ۴۹۵ میں ہے کہ آنحضرت کی تیمارداری آپ کے اہل بیت کرتے تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ اہل بیت کوتیمارداری میں پیچھے رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔
وصیت اور احتضار
جناب عائشہ فرماتی ہیں کہ آخری وقت آپ نے فرمایا میرے حبیب کو بلاؤ میں نے اپنے باپ ابوبکرپھرعمرکوبلایا انہوں نے پھریہی فرمایاتو میں نے علی کوبلا بھیجا آپ نے علی کو چادر میں لے لیا اورآخر تک سینے سے لپٹائے رہے (ریاض النضرة ص ۱۸۰ مؤرخین لکھتے ہیں کہ جناب سیدہ اورحسنین کوطلب فرمایا اورحضرت علی کو بلاکر وصیت کی اکرہاجیش اسامہ کے لیے میں نے فلاں یہودی سے قرض لیاتھا اسے اداکردینا اوراے علی تمہیں میرے بعدسخت صدمات پہنچیں گے تم صبرکرنا اوردیکھوجب اہل دنیادنیاپرستی کریں توتم دین اختیارکئے رہنا(روضة الاحباب جلد ۱ ص ۵۵۹ ،مدارج النبوة جلد ۲ ص ۱۱۵ ، تاریخ بغداد ج ۱ ص ۲۱۹) ۔
رسول کریم کی شہادت
حضرت علی علیہ السلام سے وصیت فرمانے کے بعد آپ کی حالت متغیر ہوگئی حضرت فاطمہ جن کے زانو پرسرمبارک رسال مآب تھا فرماتی ہیں کہ ہم لوگ انتہائی پریشانی میں تھے کہ ناگاہ ایک شخص نے اذن حضوری چاہا میں نے داخلہ سے منع کردیا، اورکہااے شخص یہ وقت ملاقات نہیں ہے اس وقت واپس چلاجا اس نے کہامیری واپسی ناممکن ہے مجھے اجازت دیجئے کہ میں حاضرہوجاؤں آنحضرت کوجوقدرے افاقہ ہواتو آپ نے فرمایااے فاطمہ اجازت دے دو یہ ملک الموت ہیں فاطمہ نے اجازت دیدی اور وہ داخل خانہ ہوئے پیغمبر کی خدمت میں پہنچ کرعرض کی مولا یہ پہلادروازہ ہے جس پرمیں نے اجازت مانگی ہے اور اب آپ کے بعدکسی کے دروازے پراجازت طلب نہ کروں گا (عجائب القصص علامہ عبدالواحد ص ۲۸۲ ،روضة الصفا جلد ۲ ص ۲۱۶ ، انوارالقلوب ص ۱۸۸) ۔
وفات کے وقت آپ کی عمر ۶۳ سال کی تھی (تاریخ ابوالفداء جلد ۱ ص ۱۵۲) ۔
آنحضرت کی شہادت کاسبب
یہ ظاہرہے کہ حضرات چہاردہ معصومین علیہم السلام میں سے کوئی بھی ایسانہیں جو درجہ شہادت پرفائزنہ ہواہو۔ حضرت رسول کریم سے لے کر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام تک سب ہی شہیدہوئے ہیں کوئی زہرسے شہیدہوا، کوئی تلوارسے شہیدہوا ان میں ایک خاتون تھیں حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ وہ ضرب شدیدسے شہیدہوئیں ان چودہ معصوموں میں تقریبا تمام کی شہادت کاسبب واضح ہے لیکن حضرت محمدمصطفی صلعم کی شہادت کے سبب سے اکثرحضرات ناواقف ہیں اس پرروشنی ڈالتاہوں۔
حجة الاسلام امام ابوحامد محمدالغزالی کی کتاب سرالعالمین کے ص ۷ طبع بمبئی ۱۳۱۴ ئھ اورکتاب مشکواة شریف کے باب ۳ ص ۵۸ سے واضح ہے کہ آپ کی شہادت زہرکے ذریعہ ہوئی ہے اوربخاری شریف کی ج ۳ طبع مصر ۱۳۱۴ ء کے باب اللدودص ۱۲۷ کتاب الطب سے مستفاد اورمستنبط ہوتاہے کہ ”آنحضرت کو دوامیں ملا کرزہردیاگیاتھا۔
میرے نزدیک رسول کریم کے بسترعلالت پرہونے کے وقت کے واقعات وحالات کے پیش نظردوامیں زہرملاکردیاجانا متوقع نہیں ہے علامہ محسن فیض ”کتاب الوافی“ کی جلد ۱ کے ۱۶۶ میں بحوالہ تہذیب الاحکام تحریرفرماتے ہیں کہ حضور مدینہ میں زہرسے شہیدہوئے ہیں ۔ الخ۔
امام حسن مجتبي عليه السلام
آپ کی ولادت
آپ ۱۵/ رمضان ۳ ہجری کی شب کومدینہ منورہ میں پیداہوئے ولادت سے قبل ام الفضل نے خواب میں دیکھاکہ رسول اکرم کے جسم مبارک کاایک ٹکڑامیرے گھرمیں آپہنچاہے خواب رسول کریم سے بیان کیاآپ نے فرمایااس کی تعبیریہ ہے کہ میری لخت جگرفاطمہ کے بطن سے عنقریب ایک بچہ پیداہوگا جس کی پرورش تم کروگی مورخین کاکہناہے کہ رسول کے گھرمیں آپ کی پیدائش اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی آپ کی ولادت نے رسول کے دامن سے مقطوع النسل ہونے کا دھبہ صاف کردیا اوردنیاکے سامنے سورئہ کوثرکی ایک عملی اوربنیادی تفسیر پیش کردی۔
آپ کانام نامی
ولادت کے بعداسم گرامی حمزہ تجویزہورہاتھا لیکن سرورکائنات نے بحکم خدا،موسی کے وزیرہارون کے فرزندوں کے شبروشبیرنام پرآپ کانام حسن اوربعدمیں آپ کے بھائی کانام حسین رکھا، بحارالانوارمیں ہے کہ امام حسن کی پیدائش کے بعدجبرئیل امین نے سرورکائنات کی خدمت میں ایک سفیدریشمی رومال پیش کیا جس پرحسن لکھاہواتھا ماہرعلم النسب علامہ ابوالحسین کاکہناہے کہ خداوندعالم نے فاطمہ کے دونوں شاہزادوں کانام انظارعالم سے پوشیدہ رکھاتھا یعنی ان سے پہلے حسن وحسین نام سے کوئی موسوم نہیں ہواتھا۔ کتاب اعلام الوری کے مطابق یہ نام بھی لوح محفوظ میں پہلے سے لکھاہواتھا۔
زبان رسالت دہن امامت میں
علل الشرائع میں ہے کہ جب امام حسن کی ولادت ہوئی اورآپ سرورکائنات کی خدمت میں لائے گئے تورسول کریم بے انتہاخوش ہوئے اوران کے دہن مبارک میں اپنی زبان اقدس دیدی بحارالانورمیں ہے کہ آنحضرت نے نوزائیدہ بچے کوآغوش میں لے کرپیارکیااورداہنے کان میں اذن میں اوربائیں کان میں ا قامت فرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی، امام حسن اسے چوسنے لگے اس کے بعدآپ نے دعاکی خدایااس کواوراس کی اولادکواپنی پناہ میں رکھنا بعض لوگوں کاکہناہے کہ امام حسن کولعاب دہن رسول کم اورامام حسین کوزیادہ چوسنے کاموقع دستیاب ہواتھا اسی لیے امامت نسل حسین میں مستقرہوگئی۔
آپ کاعقیقہ
آپ کی ولادت کے ساتویں دن سرکارکائنات نے خوداپنے دست مبارک سے عقیقہ فرمایااوربالوں کومنڈواکراس کے ہم وزن چاندی تصدق کی ( اسدالغابة جلد ۳ ص ۱۳) ۔
علامہ کمال الدین کابیان ہے کہ عقیقہ کے سلسلے میں دنبہ ذبح کیا گیاتھا (مطالب السؤل ص ۲۲۰) کافی کلینی میں ہے کہ سرورکائنات نے عقیقہ کے وقت جودعا پڑھی تھی اس میں یہ عبارت بھی تھی ”اللہم عظمہابعظمہ،لحمہایلحمہ دمہابدمہ وشعرہابشعرہ اللہم اجعلہا وقاء لمحمد والہ“ خدایااس کی ہڈی مولودکی ہڈی کے عوض، اس کاگوشت اس کے گوشت کے عوض ،اس کاخون اس کے خون کے عوض، اس کابال اس کے بال کے عوض قراردے اوراسے محمدوآل محمد کے لیے ہربلاسے نجات کاذریعہ بنادے ۔
امام شافعی کاکہناہے کہ آنحضرت نے امام حسن کاعقیقہ کرکے اس کے سنت ہونے کی دائمی بنیادڈل دی (مطالب السؤل ص ۲۲۰) ۔
بعض معاصرین نے لکھاہے کہ آنحضرت نے آپ کاختنہ بھی کرایاتھا لیکن میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ امامت کی شان سے مختون پیداہونا بھی ہے۔
کنیت والقاب
آپ کی کنیت صرف ابومحمدتھی اورآپ کے القاب بہت کثیرہیں: جن میں طیب،تقی، سبط اورسیدزیادہ مشہورہیں ،محمدبن طلحہ شافعی کابیان ہے کہ آپ کا”سید“ لقب خودسرورکائنات کاعطاکردہ ہے (مطالب السؤل ص ۲۲۱) ۔
زیارت عاشورہ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کالقب ناصح اورامین بھی تھا۔
امام حسن پیغمبراسلام کی نظرمیں
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ امام حسن اسلام پیغمبراسلام کے نواسے تھے لیکن قرآن نے انہیں فرزندرسول کادرجہ دیاہے اوراپنے دامن میں جابجاآپ کے تذکرہ کوجگہ دی ہے خودسرورکائنات نے بے شماراحادیث آپ کے متعلق ارشادفرمائی ہیں:
ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے ارشادفرمایاکہ میں حسنین کودوست رکھتاہوں اورجوانہیں دوست رکھے اسے بھی قدرکی نگاہ سے دیکھتاہوں۔
ایک صحابی کابیان ہے کہ میں نے رسول کریم کواس حال میں دیکھاہے کہ وہ ایک کندھے پرامام حسن کواورایک کندھے پرامام حسین کوبٹھائے ہوئے لیے جارہے ہیں اورباری باری دونوں کامنہ چومتے جاتے ہیں ایک صحابی کابیان ہے کہ ایک دن آنحضرت نمازپڑھ رہے تھے اورحسنین آپ کی پشت پرسوارہو گئے کسی نے روکناچاہاتوحضرت نے اشارہ سے منع کردیا(اصابہ جلد ۲ ص ۱۲) ۔
ایک صحابی کابیان ہے کہ میں اس دن سے امام حسن کوبہت زیادہ دوست رکھنے لگاہوں جس دن میں نے رسول کی آغوش میں بیٹھ کرانہیں ڈاڈھی سے کھیلتے دیکھا(نورالابصارص ۱۱۹) ۔
ایک دن سرورکائنات امام حسن کوکاندھے پرسوارکئے ہوئے کہیں لیے جارہے تھے ایک صحابی نے کہاکہ اے صاحبزادے تمہاری سواری کس قدراچھی ہے یہ سن کرآنحضرت نے فرمایایہ کہوکہ کس قدراچھاسوارہے (اسدالغابةجلد ۳ ص ۱۵ بحوالہ ترمذی)۔
امام بخاری اورامام مسلم لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت رسول خداامام حسن کوکندھے پربٹھائے ہوئے فرمارہے تھے خدایامیں اسے دوست رکھتاہوں توبھی اس سے محبت کر ۔
حافظ ابونعیم ابوبکرہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت نمازجماعت پڑھارہے تھے کہ ناگاہ امام حسن آگئے اوروہ دوڑکرپشت رسول پرسوارہوگئے یہ دیکھ کررسول کریم نے نہایت نرمی کے ساتھ سراٹھایا،اختتام نمازپرآپ سے اس کاتذکرہ کیاگیاتوفرمایایہ میراگل امیدہے“۔” ابنی ہذا سید“ یہ میرابیٹا سیدہے اوردیکھویہ عنقریب دوبڑے گروہوں میں صلح کرائے گا۔
امام نسائی عبداللہ ابن شدادسے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن نمازعشاء پڑھانے کے لیے آنحضرت تشریف لائے آپ کی آغوش میں امام حسن تھے آنحضرت نمازمیں مشغول ہوگئے ، جب سجدہ میں گئے تواتناطول دیاکہ میں یہ سمجھنے لگاکہ شایدآپ پروحی نازل ہونے لگی ہے اختتام نمازپرآپ سے اس کاذکرکیاگیا توفرمایاکہ میرافرزندمیری پشت پرآگیاتھا میں نے یہ نہ چاہاکہ اسے اس وقت تک پشت سے اتاروں ،جب تک کہ وہ خودنہ اترجائے ، اس لیے سجدہ کوطول دیناپڑا۔
حکیم ترمذی ،نسائی اورابوداؤد نے لکھاہے کہ آنحضرت ایک دن محوخطبہ تھے کہ حسنین آگئے اورحسن کے پاؤں دامن عبامیں اس طرح الجھے کہ زمین پرگرپڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت نے خطبہ ترک کردیااورمنبرسے اترکرانہیں آغوش میں اٹھالیااورمنبر پرتشریف لے جاکرخطبہ شروع فرمایا (مطالب السؤل ص ۲۲۳) ۔
امام حسن کی سرداری جنت
آل محمدکی سرداری مسلمات سے ہے علماء اسلام کااس پراتفاق ہے کہ سرورکائنات نے ارشادفرمایاہے ”الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة وابوہماخیرمنہما“ حسن اورحسین جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے والدبزرگواریعنی علی بن ابی طالب ان دونوں سے بہترہیں۔
جناب حذیفہ یمانی کابیان ہے کہ میں نے آنحضرت کوایک دن بہت زیادہ مسرورپاکرعرض کی مولاآج افراط شادمانی کی کیاوجہ ہے ارشادفرمایاکہ مجھے آج جبرئیل نے یہ بشارت دی ہے کہ میرے دونوں فرزندحسن وحسین جوانان بہشت کے سردارہیں اوران کے والدعلی ابن ابی طالب ان سے بھی بہترہیں (کنزالعمال ج ۷ ص ۱۰۷ ،صواعق محرقہ ص ۱۱۷) اس حدیث سے اس کی بھی وضاحت ہوگئی کہ حضرت علی صرف سیدہی نہ تھے بلکہ فرزندان سیادت کے باپ تھے۔
جذبہ اسلام کی فراوانی
مؤرخین کابیان ہے کہ ایک دن ابوسفیان حضرت علی کی خدمت میں حاضرہوکرکہنے لگاکہ آپ آنحضرت سے سفارش کرکے ایک ایسامعاہدہ لکھوادیجئے جس کی روسے میں اپنے مقصدمیں کامیاب ہوسکوں آپ نے فرمایاکہ آنحضرت جوکچھ کہہ چکے ہیں اب اس میں سرموفرق نہ ہوگا اس نے امام حسن سے شفارش کی خواہش کی ،آپ کی عمراگرچہ اس وقت صرف ۱۴ ماہ کی تھی لیکن آپ نے اس وقت ایسی جرائت کاثبوت دیاجس کاتذکرہ زبان تاریخ پرہے لکھاہے کہ ابوسفیان کی طلب سفارش پرآپ نے دوڑکراس کی ڈاڈھی پکڑلی اورناک مروڑکرکہاکلمہ شہادت زبان پرجاری کرو،تمہارے لیے سب کچھ ہے یہ دیکھ کرامیرالمومنین مسرورہوگئے (مناقب آل ابی طالب جلد ۴ ص ۴۶) ۔
امام حسن اورترجمانی وحی
علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ امام حسن کایہ وطیرہ تھاکہ آپ انتہائی کم سنی کے عالم میں اپنے ناناپرنازل ہونے والی وحی من وعن اپنی والدہ ماجدہ کوسنادیاکرتے تھے ایک دن حضرت علی نے فرمایاکہ اے بنت رسول میراجی چاہتاہے کہ میں حسن کوترجمانی وحی کرتے ہوئے خوددیکھوں، اورسنوں، سیدہ نے امام حسن کے پہنچنے کاوقت بتادیاایک دن امیرالمومنین حسن سے پہلے داخل خانہ ہوگئے اورگوشئہ خانہ میں چھپ کربیٹھ گئے امام حسن حسب معمول تشریف لائے اورماں کی آغوش میں بیٹھ کروحی سناناشروع کردی لیکن تھوڑی دیرکے بعد عرض کی ”یااماہ قدتلجلج لسانی وکل بیانی لعل سیدی یرانی“مادرگرامی آج زبان وحی ترجمان میں لکنت اوربیان مقصدمیں رکاوٹ ہورہی ہے مجھے ایسامعلوم ہوتاہے کہ جیسے میرے بزرگ محترم مجھے دیکھ رہے ہیں یہ سن کرحضرت امیرالمومنین نے دوڑکرامام حسن کوآغوش میں اٹھالیا اوربوسہ دینے لگے(بحارالانوارجلد ۱۰ ص ۱۹۳) ۔
حضرت امام حسن کابچپن میں لوح محفوظ کامطالعہ کرنا
امام بخاری رقمطرازہیں کہ ایک دن کچھ صدقہ کی کھجوریں ائی ہوئی تھیں امام حسن اورامام حسین اس کے ڈھیرسے کھیل رہے تھے اورکھیل ہی کھیل کے طورپر امام حسن نے ایک کھجوردہن اقدس میں رکھ لی، یہ دیکھ کرآنحضرت نے فرمایااے حسن کیاتمہیں معلوم نہیں ہے ؟ کہ ہم لوگوں پرصدقہ حرام ہے (صحیح بخاری پارہ ۶ ص ۵۲) ۔
حضرت حجة الاسلام شہیدثالث قاضی نوراللہ شوشتری تحریرفرماتے ہیں کہ ”امام پراگرچہ وحی نازل نہیں ہوتی لیکن اس کوالہام ہوتاہے اوروہ لوح محفوظ کامطالعہ کرتاہے جس پرعلامہ ابن حجرعسقلانی کاوہ قول دلالت کرتاہے جوانہوں نے صحیح بخاری کی اس روایت کی شرح میں لکھاہے جس میں آنحضرت نے امام حسن کے شیرخوارگی کے عالم میں صدقہ کی کھجورکے منہ میں رکھ لینے پراعتراض فرمایاتھا”کخ کخ اماتعلم ان الصدقة علیناحرام“ تھوکوتھو،کیاتمہیں معلوم نہیں کہ ہم لوگوں پرصدقہ حرام ہے اورجس شخص نے یہ خیال کیاکہ امام حسن اس وقت دودھ پیتے تھے آپ پرابھی شرعی پابندی نہ تھی آنحضرت نے ان پرکیوں اعتراض کیا اس کاجواب علامہ عسقلانی نے اپنی فتح الباری شرح صحیح بخاری میں دیاہے کہ امام حسن اوردوسرے بچے برابرنہیں ہوسکتے کیونکہ ان الحسن یطالع لوح المحفوظ امام حسن شیرخوارگی کے عالم میں بھی لوح محفوظ کامطالعہ کیاکرتے تھے(احقاق الحق ص ۱۲۷) ۔
امام حسن کابچپن اورمسائل علمیہ
یہ مسلمات سے ہے کہ حضرت آئمہ معصومین علیہم السلام کوعلم لدنی ہواکرتاتھا وہ دنیامیں تحصیل علم کے محتاج نہیں ہواکرتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ بچپن میں ہی ایسے مسائل علمیہ سے واقف ہوتے تھے جن سے دنیاکے عام علماء اپنی زندگی کے آخری عمرتک بے بہرہ رہتے تھے امام حسن جوخانوادہ رسالت کی ایک فرد اکمل اورسلسلہ عصمت کی ایک مستحکم کڑی تھے، کے بچپن کے حالات وواقعات دیکھے جائیں تومیرے دعوی کاثبوت مل سکے گا:
۱ ۔ مناقب ابن شہرآشوب میں بحوالہ شرح اخبارقاضی نعمان مرقوم ہے کہ ایک سائل حضرت ابوبکرکی خدمت میں آیااوراس نے سوال کیا کہ میں نے حالت احرام میں شترمرغ کے چندانڈے بھون کرکھالیے ہیں بتائیے کہ مجھ پرکفارہ واجب الاداہوا۔ سوال کاجواب چونکہ ان کے بس کانہ تھا اس لیے عرق ندامت پیشانی خلافت پرآگیا ارشادہواکہ اسے عبدالرحمن بن عوف کے پاس لے جاؤ، جوان سے سوال دھرایاتووہ بھی خاموش ہوگئے اورکہاکہ اس کاحل توامیرالمومنین کرسکتے ہیں_
سائل حضرت علی کی خدمت میں لایاگیاآپ نے سائل سے فرمایاکہ میردوچھوٹے بچے جوسامنے نظرآرہے ہیں ان سے دریافت کرلے سائل امام حسن کی طرف متوجہ ہوا اورمسئلہ دہراہا امام حسن نے جواب دیاکہ تونے جتنے انڈے کھائے ہیں اتنی ہی عمدہ اونٹیاں لے کرانہیں حاملہ کرا اوران سے جوبچے پیداہوں انہیں راہ خدامیں ہدیہ خانہ کعبہ کردے ۔ امیرالمومنین نے ہنس کرفرمایاکہ بیٹا جواب توبالکل صحیح ہے لیکن یہ بتاؤ کہ کیاایسا نہیں ہے کہ کچھ حمل ضائع ہوجاتے ہیں اورکچھ بچے مرجاتے ہیں عرض کی باباجان بالکل درست ہے مگرایسابھی توہوتاہے کہ کچھ انڈے بھی خراب ہاورگندے نکل جاتے ہیں یہ سن کرسائل پکاراٹھاکہ ایک مرتبہ اپنے عہدمیں سلیمان بن داؤد نے بھی یہی جواب دیاتھا جیساکہ میں نے اپنی کتابوں میں دیکھاہے۔
۲ ۔ ایک روزامیرالمومنین مقام رحبہ میں تشریف فرماتے تھے اورحسنین بھی وہاں موجودتھے ناگاہ ایک شخص آکرکہنے لگا کہ میں آپ کی رعایا اوراہل بلد(شہری) ہوں حضرت نے فرمایاکہ توجھوٹ کہتاہے تونہ میری رعایامیں سے ہے اورنہ میرے شہرکاشہری ہے بلکہ توبادشاہ روم کافرستادہ ہے تجھے اس نے معاویہ کے پاس چندمسائل دریافت کرنے کے لیے بھیجاتھا اوراس نے میرے پاس بھیجدیاہے اس نے کہایاحضرت آپ کاارشاد باکل درست ہے مجھے معاویہ نے پوشیدہ طورپرآپ کے پاس بھیجاہے اوراس کاحال خداوندعالم کے سواکسی کومعلوم نہیں ہے مگرآپ بہ علم امامت سمجھ گئے ، آپ نے فرمایاکہ اچھا اب ان مسائل کے جوابات ان دوبچوں میںسے کسی ایک سے پوچھ لے وہ امام حسن کی طرف متوجہ ہواچاہتاتھا کہ سوال کرے امام حسن نے فرمایا:
ایے شخص تویہ دریافت کرنے آیاہے کہ ۱ ۔ حق وباطل کتنا فاصلہ ہے ۲ ۔ زمین وآسمان تک کتنی مسافت ہے ۳ ۔ مشرق ومغرب میں کتنی دوری ہے ۔
۴ ۔ قوس قزح کیاچزہے ۵ ۔ مخنث کسے کہتے ہیں ۶ ۔ وہ دس چیزیں کیاہیں جن میں سے ہرایک کوخداوندعالم نے دوسرے سے سخت اورفائق پیدا کیاہے۔
سن ، حق وباطل میں چارانگشت کافرق وفاصلہ ہے اکثروبیشتر جوکچھ آنکھ سے دیکھاحق ہے اورجوکان سے سناباطل ہے(آنکھ سے دیکھاہوایقینی ۔ کان سے سناہوامحتاج تحقیق )۔
زمین اورآسمان کے درمیان اتنی مسافت ہے کہ مظلوم کی آہ اورآنکھ کی روشنی پہنچ جاتی ہے ۔
مشرق ومغرب میں اتنافاصلہ ہے کہ سورج ایک دن میں طے کرلیتاہے ۔
اورقوس وقزح اصل میں قوس خداہے اس لئے کہ قزح شیطان کانام ہے ۔ یہ فراوانی رزق اوراہل زمین کے لیے غرق سے امان کی علامت ہے اس لئے اگریہ خشکی میں نمودارہوتی ہے توبارش کے حالات میں سے سمجھی جاتی ہے اوربارش میںنکلتی ہے تو ختم باران کی علامت میںسے شمارکی جاتی ہے ۔
مخنث وہ ہے جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہوکہ مردہے یاعورت اوراس کے جسم میں دونوں کے اعضاء ہوں اس کاحکم یہ ہے کہ تاحدبلوغ انتظارکریں اگرمحتلم ہوتو مرد اورحائض ہواورپستان ابھرائیں توعورت ۔
اگراس سے مسئلہ حل نہ ہوتو دیکھناچاہئے کہ اس کے پیشاب کی دھاریں سیدھی جاتی ہیں یانہیں اگرسیدھی جاتی ہیں تومرد ،ورنہ عورت ۔
اوروہ دس چیزیں جن میں سے ایک دوسرے پرغالب وقوی ہے وہ یہ ہیں کہ خدانے سب سے زائدسخت قوی پتھرکوپیداکیاہے مگراس سے زیادہ سخت لوہا ہے جوپتھرکوبھی کاٹ دیتاہے اوراس سے زائدسخت قوی آگ ہے جولوہے کوپگھلادیتی ہے اورآگ سے زیادہ سخت قوی پانی ہے جوآگ کوبجھادیتاہے اوراس سے زائد سخت وقوی ابرہے جوپانی کواپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتاہے اوراس سے زائد وقوی ہواہے جوابرکواڑائے پھرتی ہے اورہواسے زائد سخت وقوی فرشتہ ہے جس کی ہوامحکوم ہے اوراس سے زائدسخت وقوی ملک الموت ہے جوفرشتہ بادکی بھی روح قبض کرلیں گے اورموت سے زائد سخت وقوی حکم خداہے جوموت کوبھی ٹال دیتاہے۔یہ جوابات سن کرسائل پھڑک اٹھا۔
۳ ۔حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے دیکھاکہ ایک شخص کے ہاتھ میں خون آلودچھری ہے اوراسی جگہ ایک شخص ذبح کیاہوا پڑاہے جب اس سے پوچھاگیاکہ تونے اسے قتل کیاہے،تواس نے کہا ہاں ،لوگ اسے جسدمقتول سمیت جناب امیرالمومنین کی خدمت میں لے چلے اتنے میں ایک اور شخص دوڑتاہواآیا،اورکہنے لگا کہ اسے چھوڑدو اس مقتول کاقاتل میں ہوں ۔ ان لوگوں نے اسے بھی ساتھ لے لیااورحضرت کے پاس لے گئے ساراقصہ بیان کیا آپ نے پہلے شخص سے پوچھاکہ جب تواس کاقاتل نہیں تھاتوکیاوجہ ہے کہ اپنے کواس کاقاتل بیان کیا،اس نے کہایامولا میں قصاب ہوں گوسفندذبح کررہاتھا کہ مجھے پیشاب کی حاجت ہوئی ،اس طرح خون آلود چھری میں لیے ہوئے اس خرابہ میں چلاگیا وہاں دیکھاکہ یہ مقتول تازہ ذبح کیاہواپڑاہے اتنے میں لوگ آگئے اورمجھے پکڑلیا میں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ اس وقت جبکہ قتل کے سارے قرائن موجودہیں میرے انکارکوکون باور کرے گا میں نے اقرارکرلیا ۔
پھرآپ نے دوسرے سے پوچھاکہ تواس کاقاتل ہے اس نے کہا جی ہاں، میں ہی اسے قتل کرکے چلاگیاتھا جب دیکھاکہ ایک قصاب کی ناحق جان چلی جائے گی توحاضرہوگیا آپ نے فرمایامیرے فرزندحسن کوبلاؤ وہی اس مقدمہ کافیصلہ سنائیں گے امام حسن آئے اورسارا قصہ سنا، فرمایادونوں کوچھوڑدو یہ قصاب بے قصورہے اوریہ شخص اگرچہ قاتل ہے مگراس نے ایک نفس کوقتل کیاتودوسرے نفس (قصاب) کوبچاکر اسے حیات دی اورا سکی جان بچالی اورحکم قرآن ہے کہ ”من احیاہافکانما احیاالناس جمیعا“ یعنی جس نے ایک نفس کی جان بچائی اس نے گویاتمام لوگوں کی جان بچائی لہذا اس مقتول کاخون بہابیت المال سے دیاجائے۔
۴ ۔ علی ابن ابراہیم قمی نے اپنی تفسیرمیں لکھاہے کہ شاہ روم نے جب حضرت علی کے مقابلہ میں معاویہ کی چیزہ دستیوں سے آگاہی حاصل کی تودونوں کولکھا کہ میرے پاس ایک ایک نمائندہ بھیج دیں حضرت علی کی طرف سے امام حسن اورمعاویہ کی طرف سے یزید کی روانگی عمل میں ائی یزیدنے وہاں پہنچ کر شاہ روم کی دست بوسی کی اورامام حسن نے جاتے ہی کہاکہ خداکاشکرہے میں یہودی ،نصرانی، مجوسی وغیرہ نہیں ہوں بلکہ خالص مسلمان ہوں شاہ روم نے چندتصاویر نکالیں یزیدنے کہامیں ان سے ایک کوبھی نہیں پہنچانتا اورنہ بتاسکتاہوں کہ یہ کن حضرات کی شکلیں ہیں امام حسن نے حضرت آدم ،نوح، ابراہیم، اسماعیل، اورشعیب ویحی کی تصویریں دیکھ کرپہچان لیں اورایک تصویردیکھ کرآپ رونے لگے بادشاہ نے پوچھایہ کس کی تصویرہے فرمایامیرے جدنامدارکی ،
اس کے بعد بادشاہ نے سوال کیا کہ وہ کون سے جاندارہیں جواپنی ماں کے پیٹ سے پیدانہیں ہوئے آپ نے فرمایااے بادشاہ وہ سات جاندارہیں :
۱ ۔ ۲ ۔آدم وحوا ۳ ۔ دنبہ ابراہیم ۴ ناقہ صالح ۵ ۔ ابلیس ۶ ۔ موسوی اژدھا ۷ ۔ وہ کوا جس نے قابیل کی دفن ہابیل کی طرف رہبری کی ۔
بادشاہ نے یہ تبحرعلمی دیکھ کرآپ کی بڑی عزت کی اورتحائف کے ساتھ واپس کیا۔
امام حسن اورتفسیرقرآن
علامہ ابن طلحہ شافعی بحوالہ تفیروسیط واحدی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن عباس اورابن عمرسے ایک آیت سے متعلق ”شاہدومشہود“ کے معنی دریافت کئے ابن عباس نے شاہدسے یوم جمعہ اورمشہودسے یوم عرفہ بتایااورابن عمرنے یوم جمعہ اوریوم النحرکہا اس کے بعدوہ شخص امام حسن کے پاس پہنچا،آپ نے شاہدسے رسول خدااورمشہودسے یوم قیامت فرمایااوردلیل میں آیت پڑھی :
۱ ۔ یاایہاالنبی اناارسلناک شاہداومبشرا ونذیرا ۔ائے نبی ہم نے تم کوشاہد ومبشر اورنذیربناکربھیجاہے ۔
۲ ۔ ذالک یوم مجموع لہ الناس وذالک یوم مشہود۔ قیامت کاوہ دن ہوگا جس میں تمام لوگ ایک مقام پرجمع ہوں کردیے جائیں کے ، اوریہی یوم مشہود ہے ۔ سائل نے سب کاجواب سننے کے بعدکہا”فکان قول الحسن احسن“ امام حسن کا جواب دونوں سے کہیں بہترہے (مطالب السؤل ص ۲۲۵) ۔
امام حسن کی عبادت
امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام زبردست عابد،بے مثل زاہد، افضل ترین عالم تھے آپ نے جب بھی حج فرمایاپیدل فرمایا،کبھی کبھی پابرہنہ حج کے لیے جاتے تھے آپ اکثرموت، عذاب،قبر،صراط اوربعثت ونشورکویادکرکے رویاکرتے تھے جب آپ وضوکرتے تھے توآپ کے چہرہ کارنگ زردہوجایاکرتاتھا اورجب نمازکے لیے کھڑ ے ہوتے تھے توبیدکی مثل کانپنے لگتے تھے آپ کامعمول تھاکہ جب دروازہ مسجدپرپہنچتے توخداکومخاطب کرکے کہتے میرے پالنے والے تیراگنہگاربندہ تیری بارگاہ میں آیاہے اسے رحمن ورحیم اپنے اچھائیوں کے صدقہ میں مجھ جیسے برائی کرنے والے بندہ کومعاف کردے آپ جب نمازصبح سے فارغ ہوتے تھے تواس وقت تک خاموش بیٹھے رہتے تھے جب تک سورج طالع نہ ہوجائے (روضة الواعظین بحارالانوار)۔
آپ کازہد
امام شافعی لکھتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے اکثراپناسارامال راہ خدامیں تقسیم کردیاہے اوربعض مرتبہ نصف مال تقسیم فرمایاہے وہ عظیم وپرہیزگارتھے۔
آپ کی سخاوت
مورخین لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت امام حسن علیہ السلام سے کچھ مانگادست سوال درازہوناتھاکہ آپ نے پچاس ہزاردرہم اورپانچ سواشرفیاں دے دیں اورفرمایاکہ مزدورلاکراسے اٹھوالے جا اس کے بعدآپ نے مزدورکی مزدوری میں اپناچغابخش دیا(مراة الجنان ص ۱۲۳) ۔
ایک مرتبہ آپ نے ایک سائل کوخداسے دعاکرتے دیکھا خدایامجھ دس ہزاردرہم عطافرما آپ نے گھرپہنچ کرمطلوبہ رقم بھجوادی (نورالابصار ص ۱۲۲) ۔
آپ سے کسی نے پوچھاکہ آپ توفاقہ کرتے ہیں لیکن سائل کومحروم واپس نہیں فرماتے ارشادفرمایاکہ میں خداسے مانگنے والاہوں اس نے مجھے دینے کی عادت ڈال رکھی ہے اورمیں نے لوگوں کودینے کی عادت ڈالی رکھی ہے میں ڈرتاہوں کہ اگراپنی عادت بدل دوں ، توکہیں خدابھی نہ اپنی عادت بدل دے اورمجھے بھی محروم کردے (ص ۱۲۳) ۔
توکل کے متعلق آپ کاارشاد
امام شافعی کابیان ہے کہ کسی نے امام حسن سے عرض کی کہ ابوذرغفاری فرمایاکرتے تھے کہ مجھے تونگری سے زیادہ ناداری اورصحت سے زیادہ بیماری پسندہے آپ نے فرمایاکہ خداابوذرپررحم کرے ان کاکہنادرست ہے لیکن میں تویہ کہتاہوں کہ جوشخص خداکے قضاوقدرپرتوکل کرے وہ ہمیشہ اسی چیزکوپسند کرے گا جسے خدااس کے لیے پسندکرے (مراة الجنان جلد ۱ ص ۱۲۵) ۔
امام حسن حلم اوراخلاق کے میدان میں
علامہ ابن شہرآشوب تحریرفرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت امام حسن علیہ السلام گھوڑے پرسوارکہیں تشریف لیے جارہے تھے راستہ میں معاویہ کے طرف داروں کاایک شامی سامنے آپڑا اس نے حضرت کوگالیاں دینی شروع کردیں آپ نے اس کامطلقا کوئی جواب نہ دیا جب وہ اپنی جیسی کرچکاتوآپ اس کے قریب گئے اوراس کوسلام کرکے فرمایاکہ بھائی شایدتومسافرہے ،سن اگرتجھے سواری کی ضرورت ہوتومیں تجھے سوری دیدوں، اگرتوبھوکاہے توکھاناکھلادوں ، اگرتجھے کپڑے درکارہوں توکپڑے دیدوں ،اگرتجھے رہنے کوجگہ چاہئے تو مکان کاانتظام کردوں، اگردولت کی ضرورت ہے توتجھے اتنا دیدوں کہ توخوش حال ہوجائے یہ سن کرشامی بے انتہاشرمندہ ہوااورکہنے لگا کہ میں گواہی دیتاہوں کہ آپ زمین خداپراس کے خلیفہ ہیں مولامیں توآپ کواورآپ کے باپ دادا کوسخت نفرت اورحقارت کی نظرسے دیکھتاتھا لیکن آج آپ کے اخلاق نے مجھے آپ کاگردیدہ بنادیا اب میں آپ کے قدموں سے دورنہ جاؤں گا اورتاحیات آپ کی خدمت میںرہوں گا (مناقب جلد ۴ ص ۵۳ ،وکامل مبروج جلد ۲ ص ۸۶) ۔
عہد امیرالمومنین میں امام حسن کی اسلامی خدمات
تواریخ میں ہے کہ جب حضرت علی علیہ السلام کوپچیس برس کی خانہ نشینی کے بعدمسلمانوں نے خلیفہ ظاہری کی حیثیت سے تسلیم کیااوراس کے بعدجمل، صفین،نہروان کی لڑائیاں ہوئیں توہرایک جہادمیں امام حسن علیہ السلام اپنے والدبزرگوارکے ساتھ ساتھ ہی نہیں رہے بلکہ بعض موقعوں پرجنگ میں آپ نے کارہائے نمایاں بھی کئے۔ سیرالصحابہ اورروضة الصفامیں ہے کہ جنگ صفین کے سلسلہ میں جب ابوموسی اشعری کی ریشہ دوانیاں عریاں ہوچکیں توامیرالمومنین نے امام حسن اورعماریاسرکوکوفہ روانہ فرمایاآپ نے جامع کوفہ میں ابوموسی کے افسون کواپنی تقریرکرتریاق سے بے اثربنادیا اورلوگوں کوحضرت علی کے ساتھ جنگ کے لیے جانے پرآمادہ کردیا۔ اخبارالطوال کی روایت کی بناپرنوہزارچھ سوپچاس افرادکالشکر تیارہوگیا۔
مورخین کابیان ہے کہ جنگ جمل کے بعدجب عائشہ مدینہ جانے پرآمادہ نہ ہوئیں توحضرت علی نے امام حسن کوبھیجاکہ انھیں سمجھاکر مدینہ روانہ کریں چنانچہ وہ اس سعی میں ممدوح کامیاب ہوگئے بعض تاریخوں میں ہے کہ امام حسن جنگ جمل وصفین میں علمدارلشکرتھے اورآپ نے معاہدہ تحکیم پردستخط بھی فرمائے تھے اورجنگ جمل وصفین اورنہروان میں بھی سعی بلیغ کی تھی۔
فوجی کاموں کے علاوہ آپ کے سپردسرکاری مہمان خانہ کاانتظام اورشاہی مہمانوں کی مدارات کاکام بھی تھا آپ مقدمات کے فیصلے بھی کرتے تھے اوربیت المال کی نگرانی بھی فرماتے تھے وغیرہ وغیرہ ۔
حضرت علی کی شہادت اورامام حسن کی بیعت
مورخین کابیان ہے کہ امام حسن کے والدبزرگوارحضرت علی علیہ السلام کے سرمبارک پربمقام مسجدکوفہ ۱۸/ رمضان ۴۹ ہجری بوقت صبح امیرمعاویہ کی سازش سے عبدالرحمن ابن ملجم مرادی نے زہرمیں بجھی ہوئی تلوارلگائی جس کے صدمہ سے آپ نے ۲۱/ رمضان المبارک ۴۰ ہجری کوبوقت صبح شہادت پائی اس وقت امام حسن کی عمر ۳۷ سال چھ یوم کی تھی_
حضرت علی کی تکفین وتدفین کے بعدعبداللہ ابن عباس کی تحریک سے بقول ابن اثیرقیس ابن سعد بن عبادہ انصاری نے امام حسن کی بیعت کی اوران کے بعدتمام حاضرین نے بیعت کرلی جن کی تعدادچالیس ہزارتھی یہ واقعہ ۲۱/ رمضان ۴۰ ھ یوم جمعہ کاہے کفایة الاثر علامہ مجلسی میں ہے کہ اس وقت آپ نے ایک فصیح وبلیغ خطبہ پڑھا جس میں آپ نے فرمایاہے کہ ہم میں ہرایک یاتلوارکے گھاٹ اترے گایازہروغاسے شہیدہوگا اس کے بعدآپ نے عراق، ایران،خراسان،حجاز،یمن اوربصرہ وغیرہ کے اعمال کی طرف توجہ کی اورعبداللہ ابن عباس کوبصرہ کاحاکم مقررفرمایا۔ معاویہ کوجونہی یہ خبرپہنچی کی بصرہ کے حاکم ابن عباس مقررکردیئے گئے ہیں تواس نے دوجاسوس روانہ کیے ایک قبیلہ حمیرکاکوفہ کی طرف اوردوسراقبیلہ قین کابصرہ کی طرف، اس کامقصدیہ تھاکہ لوگ امام حسن سے منحرف ہوکرمیری طرف آجائیں لیکن وہ دونوں جاسوس گرفتارکرلیے گئے اوربعدمیں انہیں قتل کردیاگیا۔
حقیقت ہے کہ جب عنان حکومت امام حسن کے ہاتھوں میں آئی توزمانہ بڑاپرآشوب تھاحضرت علی جن کی شجاعت کی دھاک سارے عرب میں بیٹھی ہوئی تھے دنیاسے کوچ کرچکے تھے ان کی دفعة شہادت نے سوئے ہوئے فتنوں کوبیدارکردیاتھا اورساری مملکت میں سازشوں کی کھیچڑی پک رہی تھی خودکوفہ میں اشعث ابن قیس ، عمربن حریث، شیث ابن ربعی وغیرہ کھلم کھلابرسرعناداورآمادہ فسادنظرآتے تھے ۔۔۔ معاویہ نے جابجاجاسوس مقررکردئیے تھے جومسلمانوں میں پھوٹ ڈلواتے تھے اورحضرت کے لشکرمیں اختلاف وتشتت وافتراق کابیچ بوتے تھے اس نے کوفہ کے بڑے بڑے سرداروں سے سازشی ملاقات کیں اوربڑی بڑی رشوتیں دے کرانہیں توڑلیا۔
بحارالانوارمیں علل الشرائع کے حوالہ سے منقول ہے کہ معاویہ نے عمربن حریث ، اشعث بن قیس، حجرابن الحجر، شبث ابن ربعی کے پاس علیحدہ علیحدہ یہ پیام بھیجاکہ جس طرح ہوسکے حسن ابن علی کوقتل کرادو،جومنچلایہ کام کرگزرے گااس کودولاکھ درہم نقدانعام دوں گا فوج کی سرداری عطاکروں گا اوراپنی کسی لڑکی سے اس کی شادی کردوں گا یہ انعام حاصل کرنے کے لےے لوگ شب وروزموقع کی تاک میں رہنے لگے حضرت کواطلاع ملی توآپ نے کپڑوں کے نیچے زرہ پہننی شروع کردی یہاں تک کہ نمازجماعت پڑھانے کے لیے باہرنکلتے توزرہ پہن کرنکلتے تھے_
معاویہ نے ایک طرف توخفیہ توڑجوڑکئے دوسری طرف ایک بڑالشکرعراق پرحملہ کرنے کے لیے بھیج دیا جب حملہ آورلشکرحدودعراق میں دورتک آگے بڑھ آیا توحضرت نے اپنے لشکرکوحرکت کرنے کاحکم دیاحجرابن عدی کوتھوڑی سی فوج کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے فرمایاآپ کے لشکرمیں بھیڑ بھاڑتوخاصی نظرآنے لگی تھی مگر سردارجوسپاہیوں کولڑاتے ہیں کچھ تومعاویہ کے ہاتھ بک چکے تھے کچھ عافیت کوشی میں مصروف تھے حضرت علی کی شہادت نے دوستوں کے حوصلے پست کردئیے تھے اوردشمنوں کوجرائت وہمت دلادی تھی۔
مورخین کابیان ہے کہ معاویہ ۶۰ ہزارکی فوج لے کرمقام مسکن میں جااترا جوبغدادسے دس فرسخ تکریت کی ”جانب اوانا“ کے قریب واقع ہے امام حسن علیہ السلام کوجب معاویہ کی پیشقدمی کاعلم ہواتوآپ نے بھی ایک بڑے لشکرکے ساتھ کوچ کردیااورکوفہ سے ساباط میں جاپہنچے اور ۱۲ ہزارکی فوج قیس ابن سعد کی ماتحتی میں معاویہ کی پیش قدمی روکنے کے لیے روانہ کردی پھرساباط سے روانہ ہوتے وقت آپ نے ایک خطبہ پڑھا ،جس میں آپ نے فرمایاکہ:
”لوگوں ! تم نے اس شرط پرمجھ سے بیعت کی ہے کہ صلح اورجنگ دونوں حالتوں میں میراساتھ دوگے“ میں خداکی قسم کھاکرکہتاہوں کہ مجھے کسی شخص سے بغض وعداوت نہیں ہے میرے دل میں کسی کوستانے کاخیال نہیں میں صلح کوجنگ سے اورمحبت کوعداوت سے کہیں بہترسمجھتاہوں۔“
لوگوں نے حضرت کے اس خطاب کامطلب یہ سمجھاکہ حضرت امام حسن، امیرمعاویہ سے صلح کرنے کی طرف مائل ہیں اورخلافت سے دستبرداری کاارادہ دل میں رکھتے ہیں اسی دوران میں معاویہ نے امام حسن کے لشکرکی کثرت سے متاثرہوکریہ مشورہ عمروعاص کچھ لوگوں کوامام حسن کے لشکروالے سازشیوں نے قیس کے لشکرمیں بھیج کرایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈاکرادیا۔ امام حسن کے لشکروالے سازشیوں نے قیس کے متعلق یہ شہرت دینی شروع کی کہ اس نے معاویہ سے صلح کرلی ہے اورقیس بن سعدکے لشکرمیں جوسازشی گھسے ہوئے تھے انہوں نے تمام لشکریوں میں یہ چرچاکردیاکہ امام حسن نے معاویہ سے صلح کرلی ہے_
امام حسن کے دونوں لشکروں میں اس غلط افواہ کے پھیل جانے سے بغاوت اوربدگمانی کے جذبات ابھرنکلے امام حسن کے لشکر کاوہ عنصرجسے پہلے ہی سے شبہ تھاکہ یہ مائل بہ صلح ہیں کہ کہنے لگا کہ امام حسن بھی اپنے باپ حضرت علی کی طرح کافرہوگئے ہیں بالآخرفوجی آپ کے خیمہ پرٹوٹ پڑے آپ کاکل اسباب لوٹ لیاآپ کے نیچے سے مصلی تک گھسیٹ لیا،دوش مبارک پرسے ردابھی اتارلی اوربعض نمایاں قسم کے افرادنے امام حسن کومعاویہ کے حوالے کردینے کاپلان تیارکیا،آخرکارآپ ان بدبختیوں سے مایوس ہوکرمدائن کے گورنر،سعدیاسعیدکی طرف روانہ ہوگئے ، راستہ میں ایک خارجی نے جس کانام بروایت الاخبارالطوال ص ۳۹۳ ” جراح بن قیصہ“تھا آپ کی ران پرکمین گاہ سے ایک ایساخنجرلگایاجس نے ہڈی تک محفوظ نہ رہنے دیاآپ نے مدائن میں مقیم رہ کرعلاج کرایا اوراچھے ہوگئے (تاریخ کامل جلد ۳ ص ۱۶۱ ،تاریخ آئمہ ص ۳۳۳ فتح باری)۔
معاویہ نے موقع غنیمت جان کر ۲۰ ہزارکالشکرعبداللہ ابن عامرکی قیادت وماتحتی میں مدائن بھیج دیاامام حسن اس سے لڑنے کے لیے نکلنے ہی والے تھے کہ اس نے عام شہرت کردی کہ معاویہ بہت بڑالشکرلیے ہوئے آرہاہے میں امام حسن اوران کے لشکرسے درخواست کرتاہوں کہ مفت میں اپنی جان نہ دین اورصلح کرلیں۔
اس دعوت صلح اورپیغام خوف سے لوگوں کے دل بیٹھ گئے ہمتیں پست ہوگئیں اورامام حسن کی فوج بھاگنے کے لیے راستہ ڈھونڈنے لگی۔
صلح
مورخ معاصرعلامہ علی نقی لکھتے ہیں کہ امیرشام کوحضرت امام حسن علیہ السلام کی فوج کی حالت اورلوگوں کی بے وفائی کاحال معلوم ہوچکاتھااس لیے وہ سمجھتے تھے کہ امام حسن کے لیے جنگ ممکن نہیں ہے مکراس کے ساتھ وہ بھی یقین رکھتے تھے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کتنے ہی بے بس اوربے کس ہوں، مگرعلی وفاطمہ کے بیٹے اورپیغمبرکے نواسے ہیں اس لیے وہ ایسے شرائط پرہرگزصلح نہ کریں گے جوحق پرستی کے خلاف ہوں اورجن سے باطل کی حمایت ہوتی ہو، اس کونظرمیں رکھتے ہوئے انہوں نے ایک طرف توآپ کے ساتھیوں کوعبداللہ بن عامرکے ذریعہ پیغام دلوایاکہ اپنی جان کے پیچھے نہ پڑو، اورخون ریزی نہ ہونے دو۔ اس سلسلہ میں کچھ لوگوں کورشوتیں بھی دی گئیں اورکچھ بزدلوں کواپنی تعدادکی زیادتی سے خوف زدہ کیاگیااوردوسری طرف حضرت امام حسن علیہ السلام کے پاس پیغام بھیجاکہ آپ جن شرائط پرکہیں انہیں شرائط پرصلح کے لیے تیارہوں۔
امام حسن یقینا اپنے ساتھیوں کی غداری کودیکھتے ہوئے جنگ کرنامناسب نہ سجھتے تھے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ ضرورپیش نظرتھاکہ ایسی صورت پیداہوکہ باطل کی تقویت کادھبہ میرے دامن پرنہ آنے پائے، اس گھرانے کوحکومت واقتدارکی ہوس توکبھی تھی ہی نہیں انھیں تومطلب اس سے تھا کہ مخلوق خداکی بہتری ہواورحدودوحقوق الہی کااجراہو،اب معاویہ نے جوآپ سے منہ مانگے شرائط پرصلح کرنے کے لیے آمادگی ظاہرکی تواب مصالحت سے انکارکرنا شخصی اقتدارکی خواہش کے علاوہ اورکچھ نہیں قرارپاسکتاتھا اوریہ معاویہ صلح کی شرائط پرعمل نہ کریں گے ،بعدکی بات تھی جب تک صلح نہ ہوتی یہ انجام سامنے آکہاں سکتاتھا اورحجت تمام کیونکر ہوسکتی تھی پھربھی آخری جواب دینے سے قبل آپ نے ساتھ والوں کوجمع کرلیا اورتقریرفرمائی
آگاہ رہوکہ تم میں وہ خون ریزلڑائیاں ہوچکی ہیں جن میں بہت لوگ قتل ہوئے کچھ مقتول صفین میں ہوئے جن کے لیے آج تک رورہے ہواورکچھ مقتول نہروان کے جن کامعاوضہ طلب کررہے ہو، اب اکرتم موت پرراضی ہوتوہم اس پیغام صلح کوقبول نہ کریں اوران سے اللہ کے بھروسہ پرتلواروں سے فیصلہ کریں اوراگرزندگی کوعزیز رکھتے ہوتوہم اس کوقبول کرلیں اورتمہاری مرضی پرعمل کریں۔
جواب میں لوگوں نے ہرطرف سے پکارناشروع کیاہم زندگی چاہتے ہیں ہم زندگی چاہتے ہیں آپ صلح کرلیجیے ،اسی کانتیجہ تھاکہ آپ نے صلح کی شرائط مرتب کرکے معاویہ کے پاس روانہ کئے (ترجمہ ابن خلدون)۔
شرائط صلح
اس صلح نامہ کے مکمل شرائط حسب ذیل ہیں:
۱ ۔ معاویہ حکومت اسلام میں ،کتاب خدااورسنت رسول پرعمل کریں گے۔ ۲ ۔ معاویہ کواپنے بعدکسی کوخلیفہ نامزد کرنے کاحق نہ ہوگا۔ ۳ ۔ شام وعراق وحجازویمن سب جگہ کے لوگوں کے لیے امان ہوگی۔ ۴ ۔ حضرت علی کے اصحاب اورشیعہ جہاں بھی ہیں ان کے جان ومال اورناموس اوراولاد محفوظ رہیں گے۔ ۵ ۔ معاویہ،حسن بن علی اوران کے بھائی حسین ابن علی اورخاندان رسول میں سے کسی کوبھی کوئی نقصان پہنچانے یاہلاک کرنے کی کوشش نہ کریں گے نہ خفیہ طورپراورنہ اعلانیہ ،اوران میں سے کسی کوکسی جگہ دھمکایااورڈرایانہیں جائے گا۔ ۶ ۔ جناب امیرالمومنین کی شان میں کلمات نازیباجواب تک مسجدجامع اورقنوت نمازمیں استعمال ہوتے رہے ہیں وہ ترک کردئیے جائیں، آخری شرط کی منظوری میں معاویہ کوعذرہوا تویہ طے پایاکہ کم ازکم جس موقع پرامام حسن علیہ السلام موجودہوں اس جگہ ایسانہ کیاجائے ،یہ معاہدہ ربیع الاول یاجمادی الاول ۴۱ ء ہجری کوعمل میں آیا۔
صلح نامہ پردستخط
۲۵/ ربیع الاول کوکوفہ کے قریب مقام انبارمیں فریقین کااجتماع ہوا اورصلح نامہ پردونوں کے دستخط ہوئے اورگواہیاں ثبت ہوئیں (نہایة الارب فی معرفتہ انساب العرب ص ۸۰)
اس کے بعد معاویہ نے اپنے لیے عام بیعت کااعلان کردیااوراس سال کانام سنت الجماعت رکھا پھرامام حسن کوخطبہ دینے پرمجبورکیا آپ منبرپرتشریف لے گئے اورارشاد فرمایا:
”ائے لوگوں خدائے تعالی نے ہم میں سے اول کے ذریعہ سے تمہاری ہدایت کی اورآخرکے ذریعہ سے تمہیں خونریزی سے بچایا معاویہ نے اس امرمیں مجھ سے جھگڑاکیاجس کامیں اس سے زیادہ مستحق ہوں لیکن میں نے لوگوں کی خونریزی کی نسبت اس امرکوترک کردینابہترسمجھا تم رنج وملال نہ کروکہ میں نے حکومت اس کے نااہل کودے دی اوراس کے حق کوجائے ناحق پررکھا، میری نیت اس معاملہ میں صرف امت کی بھلائی ہے یہاں تک فرمانے پائے تھے کہ معاویہ نے کہا”بس ائے حضرت زیادہ فرمانے کی ضرورت نہیں ہے“ (تاریخ خمیس جلد ۲ ص ۳۲۵) ۔
تکمیل صلح کے بعدامام حسن نے صبرواستقلال اورنفس کی بلندی کے ساتھ ان تمام ناخوشگوارحالات کوبرداشت کیا اورمعاہدہ پرسختی کے ساتھ قائم رہے مگر ادھر یہ ہواکہ امیرشام نے جنگ کے ختم ہوتے ہی اورسیاسی اقتدارکے مضبوط ہوتے ہی عراق میں داخل ہوکرنخیلہ میں جسے کوفہ کی سرحد سمجھنا چاہئے ،قیام کیا اورجمعہ کے خطبہ کے بعداعلان کیاکہ میرامقصد جنگ سے یہ نہ تھا کہ تم لوگ نمازپڑھنے لگو روزے رکھنے لگو ،حج کرویازکواة اداکرو، یہ سب توتم کرتے ہی ہومیرامقصد تویہ تھاکہ میری حکومت تم پرمسلم ہوجائے اوریہ مقصدمیراحسن کے اس معاہدہ کے بعدپوراہوگیا اورباوجودتم لوگوں کی ناگواری کے میں کامیاب ہوگیا رہ گئے وہ شرائط جومیں نے حسن کے ساتھ کئے ہیں وہ سب میرے پیروں کے نیچےہیں ان کاپوراکرنا یانہ کرنا میرے ہاتھ کی بات ہے یہ سن کرمجمع میں ایک سناٹاچھاگیا مگراب کس میں دم تھا کہ اس کے خلاف زبان کھولتا۔
شرائط صلح کاحشر
مورخین کااتفاق ہے کہ امیرمعاویہ جومیدان سیاست کے کھلاڑی اورمکروزور کی سلطنت کے تاجدارتھے امام حسن سے وعدہ اورمعاہدہ کے بعد ہی سب سے مکر گئے ”ولم یف لہ معاویة لشئی مماعاہد علیہ“ تاریخ کامل ابن اثیرجلد ۳ ص ۱۶۲ میں ہے کہ معاویہ نے کسی ایک چیزکی بھی پرواہ نہ کی اورکسی پرعمل نہ کیا ، امام ابوالحسن علی بن محمدلکھتے ہیں کہ جب معاویہ کے لیے امرسلطنت استوراہوگیاتواس نے اپنے حاکموں کوجومختلف شہروں اورعلاقوں میں تھے یہ فرمان بھیجاکہ اگرکوئی شخص ابوتراب اوراس کے اہل بیت کی فضیلت کی روایت کرے گاتومیں اس سے بری الذمہ ہوں ، جب یہ خبرتمام ملکوں میں پھیل گئی اورلوگوں کومعاویہ کامنشاء معلوم ہوگیاتوتمام خطیبوں نے منبروں پرسب وشتم اورمنقصت امیرالمومنین پرخطبہ دیناشروع کردیاکوفہ میں زیادابن ابیہ جوکئی برس تک حضرت علی علیہ السلام کے عہدمیں ان کے عمال میں رہ چکاتھا وہ شیعیان علی کواچھی طرح سے جانتاتھا ۔ مردوں،عورتوں، جوانوں، اوربوڑھوں سے اچھی طرح آگاہ تھا اسے ہرایک رہائش اورکونوں اورگوشوں میں بسنے والوں کاپتہ تھا اسے کوفہ اوربصرہ دونوں کاگورنربنادیاگیاتھا۔
اس کے ظلم کی یہ حالت تھی کہ شیعیان علی کوقتل کرتااوربعضوں کی آنکھوں کوپھوڑدیتا اوربعضوں کے ہاتھ پاؤں کٹوادیتاتھا اس ظلم عظیم سے سینکڑوں تباہ ہوگئے، ہزاروں جنگلوں اورپہاڑوں میں جاچھپے، بصرہ میں آٹھ ہزارآدمیوں کاقتل واقع ہواجن میں بیالیس حافظ اورقاری قرآن تھے ان پرمحبت علی کاجرم عاید کیاگیا تھا حکم یہ تھا کہ علی کے بجائے عثمان کے فضائل بیان کئے جائیں اورعلی کے فضائل کے متعلق یہ فرمات تھاکہ ایک ایک فضیلت کے عوض دس دس منقصت ومذمت تصنیف کی جائیں یہ سب کچھ امیرالمومنین سے بدلالینے اوریزیدکے لیے زمین خلافت ہموارکرنے کی خاطرتھا۔
کوفہ سے امام حسن کی مدینہ کوروانگی
صلح کے مراحل طے ہونے کے بعد امام حسن علیہ السلام اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام اورعبداللہ ابن جعفراوراپنے اطفال وعیال کولے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے تاریخ اسلام مسٹرذاکرحسین کی جلد ۱ ص ۳۴ میں ہے کہ جب آپ کوفہ سے مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تومعاویہ نے راستہ میں ایک پیغام بھیجااوروہ یہ تھا کہ آپ خوارج سے جنگ کرنے کے لیے تیارہوجائیں کیونکہ انہوں نے میری بیعت ہوتے ہی پھرسرنکالاہے امام حسن نے جواب دیا کہ اگر خونریزی مقصودہوتی تومیں تجھ سے صلح کیوں کرتا۔
جسٹس امیرعلی اپنی تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں کہ خوارج حضرت ابوبکراورحضرت عمرکومانتے اورحضرت علی علیہ السلام اورعثمان غنی کونہیں تسلیم کرتے تھے اوربنی امیہ کومرتد کہتے تھے۔
صلح حسن اوراس کے وجوہ واسباب
استاذی العلام حضرت علامہ سیدعدیل اختراعلی اللہ مقامہ (سابق پرنسپل مدرسة الواعظین لکھنؤ) اپنی کتاب تسکین الفتن فی صلح الحسن کے ص ۱۵۸ میں تحریر فرماتے ہیں :
امام حسن کی پالیسی بلکہ جیساکہ باربارلکھاجاچکاہے کل اہلبیت کی پالیسی ایک اورصرف ایک تھی (دراسات اللبیب ص ۲۴۹) ۔وہ یہ کہ حکم خدااورحکم رسول کی پابندی انہیں کے احکام کااجراء چاہئے ،اس مطلب کے لیے جوبرداشت کرناپڑے ،مذکورہ بالاحالات میں امام حسن کے لیے سوائے صلح کیاچارہ ہوسکتاتھا اس کوخودصاحبان عقل سمجھ سکتے ہیں کسی استدلال کی چنداں ضرورت نہیں ہے یہاں پرعلامہ ابن اثیرکی یہ عبارت (جس کاترجمہ درج کیاجاتاہے) قابل غورہے:
”کہاگیاہے کہ امام حسن نے حکومت معاویہ کواس لیے سپردکی کہ جب معاویہ نے خلافت حوالے کرنے کے متعلق آپ کوخط لکھااس وقت آپنے خطبہ پڑھا اورخداکی حمدوثناکے بعدفرمایاکہ دیکھوہم کوشام والوں سے اس لیے نہیں دبناپڑرہاہے (کہ اپنی حقیقت میں) ہم کوکوئی شک یاندامت ہے بات توفقط یہ ہے کہ ہم اہل شام سے سلامت اورصبرکے ساتھ لڑرہے تھے مگراب سلامت میں عداوت اورصبرمیں فریاد مخلوط کردی گئی ہے جب تم لوگ صفین کوجارہے تھے اس وقت تمہارادین تمہاری دنیاپرمقدم تھا لیکن اب تم ایسے ہوگئے ہوکہ آج تمہاری دنیاتمہارے دین پرمقدم ہوگئی ہے اس وقت تمہارے دونوں طرف دوقسم کے مقتول ہیں ایک صفین کے مقتول جن پررورہے ہودوسرے نہروان کے مقتول جن کے خون کابدلہ لیناچاہ رہے ہوخلاصہ یہ کہ جوباقی ہے وہ ساتھ چھوڑنے والاہے اورجورورہاہے وہ توبدلہ لیناہی چاہتاہے خوب سمجھ لوکہ معاویہ نے ہم کوجس امرکی دعوت دی ہے نہ اس میں عزت ہے اورنہ انصاف ، لہذا اگرتم لوگ موت پرآمادہ ہوتوہم اس کی دعوت کوردکردیں اورہمارااوراس کافیصلہ خداکے نزدیک بھی تلوارکی باڑھ سے ہوجائے اوراگرتم زندگی چاہتے ہوتوجواس نے لکھاہے مان لیاجائے اورجوتمہاری مرضی ہے ویساہوجائے، یہ سنناتھا کہ ہرطرف سے لوگوں نے چلاناشروع کردیابقابقا، صلح صلح، (تاریخ کامل جلد ۳ ص ۱۶۲) ۔
ناظرین انصاف فرمائیں کہ کیااب بھی امام حسن کے لیے یہ رائے ہے کہ صلح نہ کریں ان فوجیوں کے بل بوتے پر(اگرایسوں کہ فوج اوران کی قوتوں کوبل بوتا کہاجاسکے) لڑائی زیباہے ہرگزنہیں ایسے حالات میں صرف یہی چارہ تھاکہ صلح کرکے اپنی اوران تمام لوگوں کی زندگی تومحفوظ رکھیں جودین رسول کے نام لیوا اورحقیقی پیروپابندتھے ،اس کے علاوہ پیغمبراسلام کی پیشین گوئی بھی صلح کی راہ میں مشعل کاکام کررہی تھی (بخاری) علامہ محمدباقرلکھتے ہیں کہ حضرت کواگرچہ کی وفائے صلح پراعتماد نہیںتھالیکن آپ نے حالات کے پیش نظرچاروناچاردعوت صلح منظورکرلی (دمعئہ ساکبہ)۔
حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت
مورخین کااتفاق ہے کہ امام حسن اگرچہ صلح کے بعد مدینہ میں گوشہ نیشین ہوگئے تھے ،لیکن امیرمعاویہ آپ کے درپئے آزاررہے انہوں نے باربار کوشش کی کسی طرح امام حسن اس دارفانی سے ملک جاودانی کوروانہ ہوجائیں اوراس سے ان کامقصدیزیدکی خلافت کے لیے زمین ہموارکرناتھی ،چنانچہ انہوں نے ۵/ بارآپ کوزہردلوایا ،لیکن ایام حیات باقی تھے زندگی ختم نہ ہوسکی ،بالاخرہ شاہ روم سے ایک زبردست قسم کازہرمنگواکرمحمدابن اشعث یامروان کے ذریعہ سے جعدہ بنت اشعث کے پاس امیرمعاویہ نے بھیجا اورکہلادیاکہ جب امام حسن شہدہوجائیں گے تب ہم تجھے ایک لاکھ درہم دیں گے اورتیراعقد اپنے بیٹے یزید کے ساتھ کردیں گے چنانچہ اس نے امام حسن کوزہردے کرے ہلاک کردیا،(تاریخ مروج الذہب مسعودی جلد ۲ ص ۳۰۳ ،مقاتل الطالبین ص ۵۱ ، ابوالفداء ج ۱ ص ۱۸۳ ،روضةالصفاج ۳ ص ۷ ، حبیب السیرجلد ۲ ص ۱۸ ،طبری ص ۶۰۴ ،استیعاب جلد ۱ ص ۱۴۴) ۔
مفسرقرآن صاحب تفسیرحسینی علامہ حسین واعظ کاشفی رقمطرازہیں کہ امام حسن مصالحہ معاویہ کے بعدمدینہ میں مستقل طورپرفروکش ہوگئے تھے آپ کواطلاع ملی کہ بصرہ میں رہنے والے محبان علی کے اوپرچنداوباشوں نے شبخون مارکران کے ۳۸ آدمی ہلاک کردئیے ہیں امام حسن اس خبرسے متاثرہوکربصرہ کے لیے روانہ ہوگئے آپ کے ہمراہ عبداللہ ابن عباس بھی تھے ،راستے میں بمقام موصلی سعدموصلی جوجناب مختارابن ابی عبیدہ ثقفی کے چچاتھے کے وہاں قیام فرمایا اس کے بعدوہاں سے روانہ ہوکردمشق سے واپسی پرجب آپ موصل پہنچے توباصرارشدیدایک دوسرے شخص کے ہاں مقیم ہوئے اوروہ شخص معاویہ کے فریب میں آچکاتھا اورمال ودولت کی وجہ سے امام حسن کوزہردینے کاوعدہ کرچکاتھا چنانچہ دوران قیام میں اس نے تین بارحضرت کوکھانے میں زہردیا، لیکن آپ بچ گئے ۔
امام کے محفوظ رہ جانے سے اس شخص نے معاویہ کوخط لکھا کہ تین بارزہردیے چکاہوں مگر امام حسن ہلاک نہیں ہوئے یہ معلوم کرکے معاویہ نے زہرہلاہل ارسال کیا اورلکھاکہ اگراس کاایک قطرہ بھی تودے سکاتویقینا امام حسن ہلاک ہوجائیں گے نامہ برزہراورخط لیے ہوئے آرہاتھا کہ راستے میں ایک درخت کے نیچے کھاناکھاکرلیٹ گیا ،اس کے پیٹ میں درداٹھا کہ وہ برداشت نہ کرسکاناگاہ ایک بھیڑیابرامد ہوا اوراسے لے کر رفوچکرہوگیا ،اتفاقا امام حسن کے ایک ماننے والے کااس طرف سے گزرہوا،اس نے ناقہ، اورزہر سے بھرہوئی بوتل حاصل کرلی اورامام حسن کی خدمت میںپیش کیا،امام علیہ السلام نے اسے ملاحظہ فرماکرجانمازکے نیچے رکھ لیاحاضرین نے واقعہ دریافت کیاامام نے نہ بتایا۔
سعدموصلی نے موقع پاکرجانمازکے نیچے سے وہ خط نکال لیاجومعاویہ کی طرف سے امام کے میزبان کے نام سے بھیجاگیاتھا خط پڑھ کر سعدموصلی آگ بگولہ ہوگئے اورمیزبان سے پوچھاکیامعاملہ ہے، اس نے لاعلمی ظاہرکی مگراس کے عذرکوباورنہ کیاگیا اوراس کی زدوکوب کی گئی یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوگیا اس کے بعدآپ روانہ مدینہ ہوگئے۔
مدینہ میں اس وقت مروان بن حکم والی تھا اسے معاویہ کاحکم تھاکہ جس صورت سے ہوسکے امام حسن کوہلاک کردو مروان نے ایک رومی دلالہ جس کانام ”الیسونیہ“ تھا کوطلب کیااوراس سے کہا کہ توجعدہ بنت اشعث کے پاس جاکراسے میرایہ پیغام پہنچادے کہ اگرتوامام حسن کوکسی صورت سے شہید کردے گی توتجھے معاویہ ایک ہزاردینارسرخ اورپچاس خلعت مصری عطاکرے گا اوراپنے بیٹے یزیدکے ساتھ تیراعقدکردے گا اوراس کے ساتھ ساتھ سودینانقد بھیج دئیے دلالہ نے وعدہ کیااورجعدہ کے پاس جاکراس سے وعدہ لے لیا،امام حسن اس وقت گھرمیں نہ تھے اوربمقام عقیق گئے ہوئے تھے اس لیے دلالہ کوبات چیت کااچھاخاصاموقع مل گیا اوروہ جعدہ کوراضی کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔
الغرض مروان نے زہربھیجااورجعدہ نے امام حسن کوشہدمیں ملاکر دیدیا امام علیہ السلام نے اسے کھاتے ہی بیمارہوگیے اورفوراروضہ رسول پرجاکر صحت یاب ہوئے زہرتوآپ نے کھالیا لیکن جعدہ سے بدگمان بھی ہوگئے ،آپ کوشبہ ہوگیا جس کی بناپرآپ نے اس کے ہاتھ کاکھاناپیناچھوڑدیااوریہ معمول مقررکرلیاکہ حضرت قاسم کی ماں یاحضرت امام حسین کے گھرسے کھانامنگاکرکھانے لگے ۔
تھوڑے عرصہ کے بعد آپ جعدہ کے گھرتشر یف لے گئے اس نے کہاکہ مولا حوالی مدینہ سے بہت عمدہ خرمے آئے ہیں حکم ہوتوحاضرکروں آپ چونکہ خرمے کوبہت پسندکرتے تھے فرمایالے آ،وہ زہرآلودخرمے لے کرآئی اورپہچانے ہوئے دانے چھوڑکرخودساتھ کھانے لگی امام نے ایک طرف سے کھانا شروع کیا اوروہ دانے کھاگئے جن میں زہرتھا اس کے بعدامام حسین کے گھرتشریف لائے اورساری رات تڑپ کربسرکی ،صبح کوروضة رسول پرجاکردعامانگی اورصحتیاب ہوئے_
امام حسن نے بارباراس قسم کی تکلیف اٹھانے کے بعداپنے بھائیوں سے تبدیلی آب وہواکے لیے موصل جانے کامشورہ کیااورموصل کے لیے روانہ ہوگئے ،آپ کے ہمراہ حضرت عباس اورچند ہواخواہان بھی گئے، ابھی وہاں چندیوم نہ گزرے تھے کہ شام سے ایک نابینا بھیج دیاگیا اوراسے ایک ایسا عصادیاگیاجس کے نیچے لوہالگایاہواتھا جوزہرمیں بجھاہواتھا اس نابینا نے موصل پہنچ کر امام حسن کے دوستداران میں سے اپنے کوظاہرکیا اورموقع پاکر ان کے پیرمیں اپنے عصاکی نوک چبھودی زہرجسم میں دوڑگیااورآپ علیل ہوگئے ،جراح علاج کے لیے بلایاگیا،اس نے علاج شروع کیا، نابینا زخم لگاکر روپوش ہوگیاتھا ،چودہ دن کے بعدجب پندرہویں دن وہ نکل کرشام کی طرف روانہ ہواتوحضرت عباس علمدارکی اس پرنظرجاپڑی آپ نے اس سے عصاچھین کراس کے سرپراس زورسے ماراکہ سرشگافتہ ہوگیااوروہ اپنے کیفروکردارکوپہنچ گیا ۔
اس کے بعدجناب مختاراوران کے چچا سعدموصلی نے اس کی لاش جلادی چنددنوں کے بعدحضرت امام حسن مدینہ منورہ واپس تشریف لے گئے۔
مدینہ منورمیں آپ ایام حیات گزاررہے تھے کہ ”ایسونیہ“ دلالہ نے پھرباشارئہ مروان جعدہ سے سلسلہ جنبائی شروع کردی اورزہرہلاہل اسے دے کرامام حسن کاکام تمام کرنے کی خواہش کی،امام حسن چونکہ اس سے بدگمان ہوچکے تھے اس لےے اس کی آمدورفت بندتھی اس نے ہرچندکوشش کی لیکن موقع نہ پاسکی بالآخر،شب بست وہشتم صفر ۵۰ کووہ اس جگہ جاپہنچی جس مقام پرامام حسن سورہے تھے آپ کے قریب حضرت زینب وام کلثوم سورہی تھیں اورآپ کی پائیتی کنیزیں محوخواب تھیں ،جعدہ اس پانی میں زہرہلاہل ملاکرخاموشی سے واپس آئی جوامام حسن کے سرہانے رکھاہواتھا اس کی واپسی کے تھوڑی دیربعدہی امام حسن کی آنکھ کھلی آپ نے جناب زینب کوآوازدی اورکہا ائے بہن ،میں نے ابھی ابھی اپنے نانااپنے پدربزرگواراوراپنی مادرگرامی کوخواب میں دیکھاہے وہ فرماتے تھے کہ اے حسن تم کل رات ہمارے پاس ہوگے، اس کے بعدآپ نے وضوکے لیے پانی مانگااورخوداپناہاتھ بڑھاکرسرہانے سے پانی لیا اورپی کرفرمایاکہ اے بہن زینب ”این چہ آپ بودکہ ازسرحلقم تابناقم پارہ پارہ شد“ ہائے یہ کیساپانی ہے جس نے میرے حلق سے ناف تک ٹکڑے ٹکڑے کردیاہے اس کے بعدامام حسین کواطلاع دی گئی وہ آئے دونوں بھائی بغل گیرہوکرمحوگریہ ہوگئے ،اس کے بعدامام حسین نے چاہاکہ ایک کوزہ پانی خودپی کرامام حسن کے ساتھ ناناکے پاس پہنچیں ،امام حسن نے پانی کے برتن کوزمین پرپٹک دیاوہ چورچورہوگیاراوی کابیان ہے کہ جس زمین پرپانی گراتھا وہ ابلنے لگی تھی ۔
الغرض تھوڑی دیرکے بعد امام حسن کوخون کی قے آنے لگی آپ کے جگرکے سترٹکڑے طشت میں آگئے آپ زمین پرتڑپنے لگے، جب دن چڑھاتوآپ نے امام حسین سے پوچھاکہ میرے چہرے کارنگ کیساہے ”سبز“ ہے آپ نے فرمایاکہ حدیث معراج کایہی مقتضی ہے ،لوگوں نے پوچھاکہ مولاحدیث معراج کیاہے فرمایاکہ شب معراج میرے نانا نے آسمان پردوقصرایک زمردکا،ایک یاقوت سرخ کادیکھاتوپوچھاکہ ائے جبرئیل یہ دونوں قصرکس کے لیے ہیں ، انہوں نے عرض کی ایک حسن کے لیے اوردوسرا حسین کے لیے پوچھادونوں کے رنگ میں فرق کیوں ہے؟ کہاحسن زہرسے شہیدہوں گے اورحسین تلوارسے شہادت پائیں گے یہ کہہ کرآپ سے لپٹ گئے اوردونوں بھائی رونے لگے اورآپ کے ساتھ درودیواربھی رونے لگے۔
اس کے بعدآپ نے جعدہ سے کہاافسوس تونے بڑی بے وفائی کی ،لیکن یادرکھ کہ تونے جس مقصد کے لیے ایساکیاہے اس میں کامیاب نہ ہوگی اس کے بعد آپ نے امام حسین اوربہنوں سے کچھ وصیتیں کیں اورآنکھیں بندفرمالیں پھرتھوڑی دیرکے بعدآنکھ کھول کرفرمایاائے حسین میرے بال بچے تمہارے سپرد ہیں پھربندفرماکرناناکی خدمیں پہنچ گئے ”اناللہ واناالیہ راجعون“ ۔
امام حسن کی شہادت کے فورا بعدمروان نے جعدہ کواپنے پاس بلاکردوعورتوں اورایک مرد کے ساتھ معاویہ کے پاس بھیج دیامعاویہ نے اسے ہاتھ پاؤں بندھواکردریائے نیل میں یہ کہہ کرڈلوادیاکہ تونے جب امام حسن کے ساتھ وفا نہ کی، تویزیدکے ساتھ کیاوفاکرے گی(روضة الشہداء ص ۲۲۰ تا ۲۳۵ طبع بمبئی ۱۲۸۵ ءء وذکرالعباس ص ۵۰ طبع لاہور ۱۹۵۶ ءء۔
امام حسن کی تجہیزوتکفین
الغرض امام حسن کی شہادت کے بعدامام حسین نے غسل وکفن کاانتظام فرمایااورنمازجنازہ پڑھی گئی امام حسن کی وصیت کے مطابق انہیں سرورکائنات کے پہلومیں دفن کرنے کے لیے اپنے کندھوں پراٹھاکر لے چلے ابھی پہنچے ہی تھے کہ بنی امیہ خصوصامروان وغیرہ نے آگے بڑھ کر پہلوئے رسول میں دفن ہونے سے روکااورحضرت عایشہ بھی ایک خچرپرسوارہوکر آپہنچیں ،اورکہنے لگیں یہ گھیرمیراہے میں توہرگزحسن کواپنے گھرمیں دفن نہ ہونے دوں گی (تاریخ ابوالفداء جلد ۱ ص ۱۸۳ ،روضة المناظرجلد ۱۱ ص ۱۳۳ ،یہ سن کربعض لوگوں نے کہااے عائشہ تمہاراکیاحال ہے کبھی اونٹ پرسوارہوکردامادرسول سے جنگ کرتی ہو کبھی خچرپرسوارہوکر فرزندرسول کے دفن میں مزاحمت کرتی ہوتمہیں ایسانہیں کرناچاہئے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوذکرالعباس ص ۵۱) ۔
مگروہ ایک نہ مانیں اورضدپراڑی رہیں ،یہاں تک کہ بات بڑھ گئی ،آپ کے ہواخواہوں نے آل محمدپرتیربرسائے ۔
کتاب روضة الصفا جلد ۳ ص ۷ میں ہے کہ کئی تیرتابوت میں پیوست ہوگئے ۔
کتاب ذکرالعباس ص ۵۱ میں ہے کہ تابوت میں سترتیرپیوست ہوئے تھے۔
(تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۲۸ میں ہے کہ ناچارنعش مبارک کوجنت البقیع میں لاکردفن کردیاگیا۔ تاریخ کامل جلد ۳ ص ۱۸۲ میں ہے کہ شہادت کے وقت آپ کی عمر ۴۷ سال کی تھی۔
فلسطین امت مسلمہ کا بنیادی مسلہ ہے، اسماعیل ہنیہ
فلسطين کے وزير اعظم اسماعيل ہنيہ نے فلسطيني قوم کي مزاحمت جاري رہنے پر ززر ديا ہے۔
وزير اعظم اسماعيل ہنيہ نے مليشيا کے ايک وفد سے ملاقات ميں کہا ہے کہ فلسطيني غاصب صيہوني حکومت کے مقابلے ميں مزاحمت جاري رکھے گي اور اپنے بر حق حقوق سے ہرگز دستبردار نہيں ہوگي۔
انہوں نے غزہ ميں مختلف اسلامي ملکوں کے وفود کي آمد اس حقيقت کو بيان کرتي ہے کہ مسئلہ فلسطين امت اسلاميہ کي بنيادي ترين مسئلہ ہے۔
فلسطين کے عوامي وزير اعظم اسماعيل ہنيہ نے اسي طرح مراکش کي تحريک توحيد و اصلاح اور مراکشي پارليمنٹ کے وفد کے اراکين سے ملاقات ميں بھي تحريک مزاحمت جاري رکھنے پر زور ديا۔انہوں نے اسي کے ساتھ اسلامي دنيا سے ، بيت المقدس کو يہودي آبادي کے شہر ميں تبديل کرنے کي صيہوني حکومت کي سازش کے خلاف ردعمل اور اس سازش کو ناکام بنانے کا مطالبہ کيا۔
ہندوستان میں شدید سردی سے اموات میں اضافہ
ہندوستان کے شمالي علاقوں شديد سردي اور دھند کي وجہ سے اب تک ايک سو تيس افراد موت کي نيند سوچکے ہیں۔
شديد سردي کي لہر بدستور جاري ہے اور مرنےوالے ايک سوتيس افراد کا تعلق صرف شمالي رياست اتر پرديش سے ہے۔ اتر پرديش آبادي کے لحاظ سے ہندوستان کي سب سے بڑي رياست ہے اور عام طور پر لوگوں کے پاس سردي سے بچنے کے لئے کافي وسائل نہيں ہوتے۔
سنيچر کو مزيد چودہ افراد شديد سردي کے باعث اپني جان کھوچکے ہيں۔ بنارس گورکھپور ، الہ آباد ، کانپور اور لکھنو جيسے شہروں اور علاقوں ميں زبردست ٹھنڈ جاري ہے۔ ہندوستان ميں مرطوب ہوا کي بنا پر ٹھنڈک ہڈيوں ميں پيوست ہوجاتي ہے اور لوگوں کي موت کي وجہ بھي يہي بنتي ہے۔
میانمار کے مسلمانوں کے لئے امدادی اشیا کی دوسری کھیپ روانہ
ايران کي جانب سے ميانمار کے ستم رسيد مسلمانوں کے لئے امدادي سامان کي ايک اور کھيپ آج روانہ کردي گئي۔
تہران ميں انجمن ہلال احمر کے ڈائريکٹر تعلقات عامہ پويا حاجيان نے بتايا ہے کہ ميانمار کے مسلمانوں کے لئے بھيجي جانے والي امداد ميں پندرہ ٹن غذائي اشيا اور پندرہ ٹن ديگر امدادي اشيا شامل ہيں۔ انہوں نے بتايا کہ ميانمار ميں مسلمانوں کے خلاف تشدد ميں اضافے کے فورا بعد اسلامي جمہوريہ ايران نے امداد رساني کے لئے اپني آمادگي کا اعلان کرديا ہے۔ ہلال احمر کے ڈائريکٹر تعلقات عامہ نے بتايا کہ عالمي ريڈ کراس سوسائٹي نے کچھ عرصہ قبل ميانمار کے مسلمانوں کے لئے لازمي اشيا کي فہرست ايران کي ہلال احمر کو ارسال کي تھي جس کے مطابق يہ امدادي کھيپ روانہ کي گئي ہے- واضح رہے کہ ايران ميانمار کے مسلمانوں کے لئے امدادي سامان کي ايک کھيپ پہلے ہي ارسال کرچکا ہے۔
ميانمار کے مسلمانوں کي صورتحال اور امدادي کاموں کا طريقہ کار طے کرنے کے لئے اسلامي جمہوريہ ايران کا ايک پارليماني وفد بھي عنقريب اس ملک کا دورہ کرنے والا ہے۔
وزارت خارجہ کے ذرائع نے ہمارے نمائندے کو بتايا ہے کہ قومي سلامتي اور خارجہ امور سے متعلق پارليماني کميٹي کے نائب سربراہ منصور حقيقت پور کي قيادت ميں جارنے والے پارليماني وفد ميں ميانمار جانے والے وفد ميں امام خميني ريلف کميٹي اور ايران کي انجمن ہلال احمر کے نمائندے بھي شامل ہونگے۔ميانمان کي چھے کي کروڑ کي آبادي ميں مسلمانوں کا تناسب چھے في صد ہے۔
آٹھ لاکھ روہنگيا مسلمان ميانمار کي شہريت سے محروم ہيں اور انہيں حکومت اور مقامي آبادي کي جانب سے مسلسل تعصب کا نشانہ بنايا جارہا ہے- شہري حقوق سے محروم روہنگيا مسلمانوں کو تشدد، جبري بے دخلي اور دوسرے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پچيس دسمبر کو اقوام متحدہ کي جنرل اسمبلي نے ايک قرار داد کے ذريعے ميانمار کے مسلمانوں کے قتل عام پر گہري تشويش کا اظہار کيا تھا- اس قرار داد ميں ميانمار کي حکومت سے کہا گيا تھا کہ وہ مسلم آبادي کے تعلق سے انساني حقوق کي تحفظ کرے جس ميں شہريت کا معاملہ بھي شامل ہے۔
واضح رہے کہ انتہا پسند بدھسٹوں کے حملوں ميں جنہيں فوج اور سيکورٹي اداروں کي حمايت حاصل ہے ہزاروں کي تعداد ميں مسلمان جانبحق اورڈيڑھ لاکھ سے زائد بے گھر ہوچکے ہيں۔
قتل عام کے يہ واقعات ميانمار کے صوبے راخين ميں پيش آئے ہيں جہان مسلمانوں کي اکثريت انتہائي کم ترين شہري اور انساني سہولتوں کے ساتھ زندگي گزار رہي ہے۔مسلم آبادي کے خلاف انتہا پسند بدھسٹوں کے وحشيانہ حملوں کي وجہ سے ہزاروں کي تعداد ميں مسلمان بنگلاديش اور ہندوستان اور ديگر ہسمايہ ملکوں ميں پناہ لينے پر مجبور ہوگئے ہيں جبکہ انکي بہت بڑي تعداد اجازت نہ ملنے کي وجہ سے ملائشيا، انڈونيشيا اور تھائي لينڈ کے درميان واقع سمندروں ميں بھٹک رہي ہے۔