Super User
درخت انسانی معاشرے کے لئے باعث برکت: قائد انقلاب اسلامی
![]()

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ پیڑ پودے تمام ملکوں اور انسانی معاشرے کے لۓ باعث برکت ہیں۔ حضرت آیۃ اللہ العظمی امام خامنہ ای نے دار الحکومت تہران میں ھفتۂقدرتی ذخائر و درختکاری کی مناسبت سے درختوں کے دو پودے لگانے کے بعد فرمایا کہ پیڑ پودے تمام ملکوں اور انسانی معاشروں کے لۓ برکت و رونق اور آبادکاری کا باعث ہیں ۔ درختوں کی حفاظت اور انہیں کاٹنے سے روکنے پر دین اسلام میں بڑی تاکید کی گئی ھے ۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بڑے شہروں کے اطراف کے علاقوں پر غیر قانونی اور ناجائز قبضوں کو روکنے کی اہم ضرورت پر تاکید کرتے ھوۓ فرمایا کہ درختکاری اور جنگلات کی حفاظت کے شعبے سے وابستہ حکام سے شکوہ اور گلہ یہ ہے کہ کبھی سیکڑوں درخت وہاں سے کاٹ دیۓ جاتے ہیں جہاں سے نہیں کاٹنا چاہیۓ۔ آپ نے فرمایا کہ بڑے شہروں کے اطراف کے علاقوں کی زمینوں پر غاصبانہ قبضوں کے علاوہ بعض مفاد پرست افراد ان ہرے بھرےعلا قوں اور چمن زاروں کو سیمنٹ اور بلند وبالا عمارتوں میں تبدیل کر دیتے ہیں اور ایران کے جنگلات کو بھی خطرہ لاحق ھے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صراحت کے ساتھہ فرمایا کہ شہروں کے اطراف کے چمن زاروں کی نابودی خاص طور سے جنگلات کی تباہی انسانی معاشرے کو متعدد مشکلات سے دوچار کرنے کا باعث بنے گی لہذا حکومت، پالیمنٹ، عدلیہ ، اور بلدیہ کے تمام حکام کو چاہیۓ کہ اسے روکنے کے لۓ ٹھوس اقدام کریں ۔
جناب ماریہ قبطیہ کی سیرت
جناب ماریہ قبطیہ بنت شمعون قبطیہ، رسول خدا {ص} کی شریک حیات تھیں- ان کی والدہ رومی تھیں- وہ مصر کے خفن نامی ایک گاوں میں پیدا ھوئی ہیں-
پیغمبر اسلام {ص} نے سنہ ۶ھجری میں کئی بیرونی ممالک میں اپنے چند سفیر بھیجدئے اور ایک خط کے ذریعہ ان ممالک کے سربراہوں اور حکام کو اسلام کی دعوت دیدی- رسول خدا {ص} نے حاطب بن ابی بلتعہ کو مصر کے سربراہ، مقوقش کے پاس بھیجا اور اسے دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی- رسول اللہ {ص} کے خط کا مضمون یہ تھا:" عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے- محمد بن عبداللہ کی طرف سے، مصر کے سربراہ مقوقش کے نام، حق وحقیقت کی پیروی کرنے والوں پر سلام، اما بعد، میں تمھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ھوں- اگر تم نے اسے قبول کیا تو خداوند متعال تمھیں دو برابر اجر عطا کرے گا اوراگر اسے قبول نہ کیا تو پورے قبطہ { یعنی مصر} کے گناہ تیری گردن پر ھوں گے-"
مقوقش نے خط کے مہر اور دستخط دیکھے اور اسے پڑھ لیا- اس کے بعد اس خط کو ہاتھی کے دانت کے بنے ایک برتن میں رکھا اور حاطب بن ابی بلتعد سے کہا کہ پیغمبر اسلام {ص} اور آپ {ص} کی سیرت و صفات کے بارے میں کچھ بتائیں، حاطب نے ایسا ہی کیا- مقوقش نے تھوڑا غور کرنے کے بعد کہا:" میں سوچتا تھا، کہ پیغمبر آخر الزمان {ص} شام سے ظہور کریں گے، کیونکہ وہ پیغمبروں کے ظہور کرنے کی جگہ ہے- اب معلوم ھورہا ہے کہ انھوں نے جزیرۃ العرب سے ظہور کیا ہے- قبط { مصر} ان کی اطاعت نہیں کرے گا"-
اس کے بعد کاتب سے کہا کہ یوں لکھے:" اما بعد، میں نے آپ کے خط کو پڑھا، جو کچھ اس میں لکھا تھا، اس سے آگاہ ھوا اور آپ کی دعوت سے بھی مطلع ھوا- لیکن میں خیال کرتا ھوں کہ پیغمبر آخر الزمان شام سے ظہور کریں گے- میں آپ کے قاصد کا احترام کرتا ھوں اور اس کے ہمراہ قبط {مصر} کی عظیم سرزمین سے لباس و مرکب[سواری] کے ساتھ دو کنیزیں بھیج رہا ھوں- والسلام-"
مقوقش نے خط کو حاطب کے حوالہ کیا اور معافی مانگی کہ قبط ان کا دین قبول کرنےکی دعوت کو قبول نہیں کرسکتا ہے اور اسے نصیحت کی کہ جو کچھ اس نے قبط {مصر} میں دیکھا اور سنا ہے اسے رازداری کے ساتھ چھپا کے رکھے- حاطب، پیغبر اسلام {ص} کے پاس لوٹا، جبکہ مصر کے سربراہ نے اس کے ہمراہ ماریہ و سیرین نامی دو کنیزیں، ایک غلام اور ان کے ساتھ ہزار مثقال سونا، بیس جوڑے مصری لباس، ایک خاکستری رنگ کے خچر کے علاوہ شہد، عود، مشک و عطر کی ایک مقدار بھیجی تھی-
جناب ماریہ اور سیرین { ایک روایت کے مطابق شیرین} مدینہ کی طرف جاتے ہوئے ،اپنے وطن سے دوری کی وجہ سے غمگین تھیں اور اپنی سرزمین کی یاد میں آنسو بہاتی تھیں- اور سوچتی تھیں کہ ان کے لئے دنیا آخر تک پہنچی ہے اور انھیں پھر سے کبھی خوش قسمتی حاصل نہیں ھوگی- حاطب نے ان دونوں کے غم و اندوہ کا احساس کیا- اس لئے ان کے سامنے مکہ و حجاز کے بارے میں کچھ قصے اور داستانیں بیان کیں- اس کے بعد اسلام اور پیغمبر اسلام {ص} کے بارے میں کہا- ان دونوں نے پیغمبر اسلام {ص} کی صفات اور اسلام کی اچھائی کے بارے میں سن کر خوشی کا احساس کیا اور انھیں اسلام و پیغمبر اسلام {ص} پسند آیا اس کے بعد انھوں نے اسلام قبول کیا اور ایک نئی زندگی کی سوچ میں ڈوب گئیں- وہ سنہ ۷ھجری کو مدینہ پہنچ گئیں- اس وقت پیغمبر اسلام {ص} تازہ حدیبیہ سے واپس لوٹے تھے-
پیغمبر اکرم {ص} نے مقوقش کا خط اور اس کے تحفے دیکھے، جناب ماریہ کو اپنے عقد میں قرار دیا اور سیرین کو حسان بن ثابت نامی ایک مشہور ادیب و شاعر کو بخشا کہ ان سے عبدالرحمن نامی ایک بیٹا پیدا ھوا- اس کےعلاوہ رسول خدا {ص} نے باقی تحائف کو صحابیوں کے درمیان تقسیم کیا-
پیغمبر اسلام {ص} کی دوسری بیویوں کو یہ خبر ملی کہ، سرزمین نیل[مصر] سے ایک خاتون پیغمبر اکرم {ص} کو تحفہ کے طور پر ملی ہے اور آنحضرت {ص} نے انھیں مسجد کے قریب حارثہ بن نعمان کے گھر میں رکھا ہے-
ایک سال کا عرصہ گزر گیا، اور چونکہ ماریہ قطبیہ کو رسول خدا {ص} کی خدمت میں ایک مقام ملا تھا، اس لئے وہ کافی مسرت و شادمانی محسوس کر رہی تھیں- پیغمبر اسلام {ص} بھی اس خاتون سے کافی راضی تھے، کیونکہ وہ پیغمبر اسلام {ص} کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے تمام کوششیں بروئے کار لاتی تھیں اور پیغمبر اسلام { ص} کے لئے ایک مخلص، جاں نثار اور پرہیزگار خاتون تھیں اور آنحضرت {ص} کے دستورات کی مکمل طور پر اطاعت اور فرمانبرداری کرتی تھیں، کیونکہ آنحضرت {ص} ان کے لئے شوہر بھی تھے اور مالک و مولا بھی-
ماریہ اور ہاجر:
جناب ماریہ قبطیہ کو جناب ہاجر، حضرت ابراھیم {ع} اور حضرت اسماعیل {ع} کی داستان سے کافی دلچسپی تھی اور اس داستان کو کئی بار سن چکی تھیں کہ خداوند متعال نے کیسے حضرت ہاجر کی مدد فرمائی، جب وہ حجاز میں تن تنہا اور بے یار و مدد گار تھیں، خداوند متعال نے انھیں چاہ زمزم عطا کرکے، سر زمین حجاز کو ایک نئی زندگی بخشی تھی، وہ جانتی تھیں کہ جناب ہاجر کی زندگی تاریخ میں لافانی بنی ہےاور ان کا صفا و مروہ کے درمیان ہرولہ کرنا {دوڑنا} مناسک حج کے ایک حصہ میں تبدیل ھوا ہے-
جناب ماریہ قبطیہ اپنے اور ہاجر کے درمیان پائی جانی والی شباہتوں پر غور و فکر کرتی تھیں، کیونکہ دونوں کنیز تھیں، جناب ہاجر کو جناب سارہ نے حضرت ابراھیم {ع} کی خدمت میں تحفہ کے عنوان سے پیش کیا تھا اور جناب ماریہ قبطیہ کو مقوقش نے رسول خدا {ص} کی خدمت میں تحفہ کے عنوان سے بھیجا تھا- لیکن ماریہ قبطیہ اور ہاجر کے درمیان صرف یہ فرق تھا کہ جناب ہاجر، حضرت اسماعیل کی ماں تھیں اور ماریہ قبطیہ رسول خدا {ص} سے ابھی صاحب اولاد نہیں ھوئی تھیں-
ابراھیم کی پیدائش:
جناب ماریہ قبطیہ کو سنہ ۸ھجری مین ایک رات کو معلوم ھوا کہ وہ حاملہ ھوئی ہیں، وہ کافی شاد و مسرور ھوئیں اور خدا کا شکر و ثناء بجا لایا-
ابراھیم، ذی الحجہ کے مہینہ میں پیدا ھوئے- ان کی دایہ " سلمی" تھیں- اس نے اپنے شوہر " ابو رافع" کو یہ خوشخبری سنائی، اور انھوں نے رسول خدا {ص} کی خدمت میں حاضر ھوکر اس نومولود کی خوشخبری آنحضرت {ص} کو دیدی- رسول خدا {ص} نے اس خوشخبری کے لئے ابورافع، کو ایک غلام انعام کے طور پر دیا اور نو مولود کا نام ابراھیم رکھا، کیونکہ آپ {ص} کے جد امجد کا نام حضرت ابراھیم {ع} تھا- جناب ابراھیم {ع} سات دن کے ھوئے تو آنحضرت {ص} نے عقیقہ کے عنوان سے ایک بھیڑ ذبح کیا اور نو مولود کے بال منڈوائے اور ان کے وزن کے برابر راہ خدا میں چاندی دیدی-
ابراھیم کے ساتھ پیغمبر اسلام {ص} انتہائی محبت فرماتے تھے، انس بن مالک کہتے ہیں:
" جب ابراھیم پیدا ھوئے، جبرئیل امین پیغمبراسلام {ص} کی خدمت میں حاضر ھوئے اور اس طرح آپ {ص} کی خدمت میں سلام کہا:" السلام علیک یا ابا ابراھیم؛" " سلام ھو آپ پر اے ابراھیم کے والد-"
پیغمبر اکرم {ص} نے حضرت ابراھیم {ع} کی ولادت کے بعد فرمایا:" کل رات میرے ہاں ایک بچہ پیدا ھوا کہ میں نے اسے اپنے باپ ابراھیم {ع} کے ہم نام قرار دیا"-
انصار کی خواتین حضرت ابراھیم {ع} کو دودھ پلانے میں رقابت کر رہی تھیں، اور اس طرح جناب ماریہ قبطیہ کے نزدیک تر ھونا چاہتی تھیں، کیونکہ وہ بخوبی جانتی تھیں کہ پیغمبر اسلام {ص} کس قدر ماریہ قبطیہ کو دوست رکھتے ہیں- حضرت ابراھیم {ع} کی دایہ بننے کی سعادت " ام بردہ خولہ بنت منذر بن زید" کو حاصل ھوئی- پیغمبر اسلام {ص} خوشی اور مسرت کے عالم میں حضرت ابراھیم {ع} کے بڑے ھونے کا مشاہدہ فرما رہے تھے-
ایک دن پیغمبر اسلام {ص} کسی کام کے سلسلہ میں گھر سے باہر تشریف لے گئے تھے، کہ آپ {ص} کو حضرت ابراھیم {ع} کی حالت خطرناک صورت میں خراب ھونے کی خبر ملی، فوراً گھر تشریف لائے اور اپنے لخت جگر کو ماں کی گود سے اٹھا کر اپنی آغوش میں لے لیا، آپ {ص} کے چہرہ مبارک سے غم و آلام کے آثار نمایاں تھے اور اسی حالت میں فرمایا: ا إبراهِيم لَو لا اَنَّهُ اَمْرٌ حَقٌّ وَوَعْدٌ صِدقٌ ، وَأنَّ آخِرَنا سَيَلْحَقُ بِأوَّلِنا ، لَحَزِنّا عَلَيْكَ حُزْناً هُوَ اَشَدُّ مِنْ هذا ، تَدْمَعُ الْعَيْنُ وَ يَحْزَنُ الْقَلْبُ وَ لا نَقُولُ إلاّ ما يَرضي رَبَّنا وَاللهُ يا إبْراهِيم ، إنّا بِكَ لَمَحْزُونُون." " اے ابراھیم؛ اگر موت حق اور وعدہ صادق الہی نہ ھوتی اور ہم سب آخر کار اسی سے ملحق ھونے والے نہ ھوتے، تو میں تیرے بارے میں اس سے زیادہ غمگین ھوتا، میری آنکھیں پر نم ہیں اور میرا دل غم و اندوہ سے لبریز ہے، لیکن میں ہرگز زبان پر ایسا کلام جاری نہیں کروں گا جس میں خدا کی رضامندی اور خوشنودی نہ ھو- لیکن ابراھیم ؛ جان لو کہ ہم تیرے فقدان اور موت کی وجہ سے غمگین اور محزون ہیں"-
بعض لوگوں نے آنحضرت {ص} پر اعتراض کیا کہ " اے رسول خدا {ص} کیا آپ {ص} ہمیں رونے کی ممانعت نہیں فرماتے تھے؟" رسول خدا {ص} نے جواب میں فرمایا: " نہیں، میں نے کبھی نہیں کیا ہے کہ اپنے عزیزوں کی موت پر نہ رونا، کیونکہ رونا ترحم اور ہمدردی کی علامت ہے، اور جو دوسروں کی بہ نسبت ہمدردی نہیں رکھتا ہے اس میں مہر و محبت کا فقدان ھوتا ہے، اسے رحمت الہی حاصل نہیں ھوگی"-
بہرحال، رسول خدا {ص} نے حکم دیا کہ حضرت ابراھیم {ع} کو غسل دے کر حنوط و کفن کیا جائے- اس کے بعد ان کے جنازہ کو اٹھا کر قبرستان بقیع میں لایا گیا اور اس جگہ پر سپرد خاک کیا گیا، جو اس وقت حضرت ابراھیم {ع} کی قبر کے عنوان سے مشہور ہے-
جس دن حضرت ابراھیم {ع} نے وفات پائی، اس دن سورج کو گہن لگ گیا اور مدینہ کے لوگوں نے کہا:" سورج کو حضرت ابراھیم کی موت کی وجہ سے گھن لگ گیا ہے"- رسول خدا {ص} نے اس غلط فہمی کو دور کرنے اور اس خرافہ سے مقابلہ کرنے کے لئے منبر پر جاکر لوگوں سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا:" اَيُّهَا النّاس إنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتانِ مِنْ آيات ِاللهِ لاتَخْسِفانِ لِمَوْتِ اَحَدٍ وَلا لِحَياتِهِ." " اے لوگو؛ بیشک سورج اور چاند خداوند متعال کی نشانیوں میں سے ہیں، اور خدا کے ارادہ اور حکم کے تابع ھوتے ہیں اور کسی کی موت یا حیات کے لئے ان کو گھن نہیں لگتا ہے-"
ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ آپ {ص} نے فرمایا: إنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لايَنْكَسِفانِ لِمَوْتِ اَحَدٍ وَلا لِحَياتِهِ فَإذا رَأيْتُمْ فَصَلُّوا وَادْعُوا الله.” بیشک سورج اور چاند کو کسی کی موت اور حیات کی وجہ سے گھن نہیں لگتا ہے، پس جب گھن کا مشاہدہ کروگے، نماز پڑھنا-"
جناب ماریہ قبطیہ بھی اس مصیبت میں کافی غمگین تھیں اور اپنے لخت جگر حضرت ابراھیم کے لئے یوں مرثیہ پڑھتی تھیں:" اے ابراھیم، تم میرے بیٹے تھے اور ابھی تمھیں دودھ پلانا بند نہیں کیا تھا، اب بہشت میں فرشتے تمھیں دودھ پلائیں گے"-
جناب ماریہ قبطیہ، پیغمبر اسلام {ص} کی محبوب شریک حیات تھیں- وہ حضرت زہراء {س} اور ان کے شوہر حضرت علی {ع} بن ابیطالب سے کافی لگاو رکھتی تھیں اور ان کا کافی احترام کرتی تھیں - رسول خدا {ص} نے بھی ان کے آرام و آسائش کے لئے ان کے گھر کو مدینہ کے اطراف میں ایک باغ میں قرار دیا تھا، جسے " مشربہ ام ابراھیم" کہا جاتا ہے-
رسول خدا {ص} کے ساتھ ماریہ قبطیہ کی زندگی:
ام المومنین جناب ماریہ قبطیہ سب سے پہلے جس گھر میں ٹھریں، وہ حارثہ بن نعمان کا گھر تھا- انھوں نے اس گھر میں ایک سال تک سکونت کی- اس کے بعد رسول خدا {ص} نے جناب ماریہ قبطیہ کی درخواست پر انھیں وہاں سے نکال کر مدینہ کے اطراف میں اپنے خرما کے ایک چھوٹے باغ میں مکان بنا کر ساکن کیا، یہ باغ آنحضرت {ص} کو غزوہ بنی نضیر میں ملا تھا- یہ جگہ اس وقت" مشربہ ام ابراھیم" کے نام سے مشہور ہے-
جناب ماریہ قبطیہ موسم گرما اور کھجور اتارنے کے موسم میں وہیں پر ساکن ھوتی تھیں اور پیغمبر اسلام {ص} انھیں ملنے کے لئے وہاں تشریف لے جاتے تھے- جناب ماریہ قبطیہ کے " مشربہ ام ابراھیم" میں ساکن ھونے کے بعد، رسول خدا {ص} کے بیٹے حضرت ابراھیم ذی الحجہ کے مہینے میں وہیں پر پیدا ھوئے-
جناب ماریہ قبطیہ سے اہل بیت {ع} کی محبت:
حضرت علی {ع} اور فاطمہ زہراء {س} جناب ماریہ قبطیہ کے بارے میں خاص خیال رکھتے تھے- چنانچہ کہا گیا ہے کہ حضرت ابراھیم کی ولادت کے بعد حضرت علی {ع} بہت خوش ھوئے- حضرت علی {ع} ہمیشہ ماریہ قبطیہ کی حمایت کرتے تھے اور ذاتی طور پر ان کے مسائل کو حل کرنے میں اقدام کرتے تھے، وہ جناب ماریہ قبطیہ کا خاص احترام کرتے تھے-
اخلاقی اوصاف:
جناب ماریہ قبطیہ ایک پاک، دیندار، صالح، نیک اور شائستہ خاتون تھیں- اس کے علاوہ رسول خدا {ص} کی منظور نظر بیوی تھیں- مورخین و سیرت نگاروں نے ان کی دینداری کی ستائش کی ہے- پیغمبر اسلام {ص} نے اپنے ایک بیان میں اس خاتون کے ساتھ اپنے لگاو کا یوں اظہار فرمایا ہے:" جب مصر کو فتح کروگے، وہاں کے لوگوں کے ساتھ اچھا برتاو کرنا کیونکہ میں ان کا داماد ھوں"-
پیغمبر اکرم {ص} کی رحلت کے بعد جناب ماریہ قبطیہ کی زندگی:
پیغمبر اسلام {ص} کی رحلت کے بعد جناب ابوبکر نے جناب ماریہ قبطیہ کے لئے ایک وظیفہ مقرر کیا تھا جسے خلیفہ دوم نے بھی جاری رکھا-
جناب ماریہ قبطیہ کی وفات:
ام المومنین جناب ماریہ قبطیہ، سر انجام خلیفہ دوم کے زمانہ میں ماہ محرم سنہ ۱۶ھجری میں وفات پاگئیں- جناب عمر بن خطاب نے لوگوں کو ان کے جنازہ میں شرکت کرنے کی خبر دیدی، اور ان کے جنازہ پر نماز پڑھی اورانھیں قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گیا-
ترتیب و پیشکش: شیلا مالکی دیزجی
-------------------------------------------
مزید تحقیق کے لئے منابع و مآخذ:
1- فروغ ابدیت ، ج 2، ص 800 و 801 ؛ ریاحین الشریعه، ج 2، ص 349؛ اسدالغابه، ج 7، ص 253
2- لغت نامه دهخدا ، شماره مسلسل 195، ص 47
3- بحارالانوار، ج 21 ، ص 183
4- ابن عبدالبر؛ الاستیعاب ، تحقیق علی محمد البجاوی ، بیروت ، دارالجبل، طبع اول ، 1992 ،ج4 ، ص1912.
5- بلاذری؛ انساب الاشراف، تحقیق سهیل زکار وریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، طبع اول، 1996 ، ج1، ص449.
6- یاقوت حموی؛ معجم البلدان، بیروت، دارصادر، چاپ دوم، 1995،ج1، ص249 و ابن سعد؛
7- طبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطاء، بیروت، دار الکتب العلمیه، طبع اول، 1990،ج1، ص107 و زرکلی، خیرالدین؛ الأعلام، بیروت، دارالعلم للملایین، طبع هشتم، 1986،ج5، ص225 و ابن هشام؛ السیرة النبویه، تحقیق مصطفی السقا و دیگران، بیروت، دارالمعرفه، بی¬تا،ج1، ص191.
8- ابن قتیبه؛ المعارف، تحقیق ثروت عکاشه، قاهره، الهیئة المصریة العامة للکتاب، طبع دوم، 1992، ص312 و طبقات الکبری، پیشین، ص107 و انساب الاشراف، پیشین،ص449 و تاریخ طبری، پیشین، ص617.
9- ابن کثیر؛ البدایه و النهایه، بیروت، دارالفکر، 1407،ج5، ص304.
10- سید جمیلی ؛ نساء النبی ، بیروت ، دار المکتبة الهلال ، 2003، ص137 – 138.
11- انساب الاشراف ، پیشین ،ص449 و طبقات الکبری ، مذکورہ ،ج1، ص107 وج8 ، ص171.
12- تاریخ طبری، پیشین، ص617 و 71 و البدایه و النهایه، مذکورہ ،ج5، ص304 و انساب الاشراف، پیشین، ص449 و طبقات الکبری، مذکورہ ،ج1، ص108 و ابن جوزی؛ المنتظم، تحقیق محمد عبدالقادر عطاء و مصطفی عبدالقادر عطاء، بیروت، دارالکتب العلمیه، طبع اول، 1992،ج3، ص345.
13- قمی، علی بن ابراهیم؛ تفسیر قمی، قم، جزائری، طبع ، سوم، 1404،ج2، ص99-100 و شیخ مفید؛ رسالة حول خبر ماریه، تحقیق مهدی الصباحی، هزاره شیخ مفید، طبع اول، 1413، ص16.
14- العاملی، جعفر مرتضی؛ حدیث الافک، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1400، ص72 و 137.
15- البدایه و النهایه، مذکورہ ،ج7، ص74.
16- معجم البلدان، مذکورہ ،ج5، ص138
- 17 "مشرب ام ابراھیم "مدینہ منورہ کے جنوب مشرق میں شارع علی بن ابیطالب پر، "مستشفی الزھراء"[الزھراء ہسپتال] اور پٹرول پمپ کے بعد بائیں جانب دوسرے کوچہ کے کونے پر واقع ہے – آج کل یہ مشربہ ایک قبرستان میں تبدیل ہوا ہے اوربعض مورخین کے مطابق حضرت امام رضا[ع] کی والدہ،"نجمہ خاتون" کی قبر بھی اسی قبرستان میں واقع ہے-
جناب عائشہ کی سیرت
جناب عائشہ، خلیفہ اول { عامر بن کعب کی ذریت اور قریش کے خاندان تیم سے تعلق رکھنے والے ابوبکر بن قحافہ} کی بیٹی تھیں- ان کی والدہ کا نام "ام رومان بنت عامر" تھا جس کی کنیت ام عبداللہ تھی- جناب عائشہ، پیغمبر اسلام {ص} کی بعثت سے پانچ سال قبل مکہ میں پیدا ھوئی ہیں-
حضرت محمد مصطفے {ص}نے اپنی پہلی وفادار شریک حیات، جناب خدیجہ الکبری کی وفات کے بعد مدینہ منورہ کی طرف ھجرت کرنے سے دوسال قبل جناب عائشہ کو اپنے عقد میں قرار دیا ، اور ھجرت کے ڈیڑھ سال اور جنگ بدر کے بعد، جناب عائشہ کے والد کی درخواست پر شوال کے مہینے میں انھیں اپنے گھر لے آئے- انھوں نے رسول خدا{ص} کے ساتھ ۸ سال اور پانچ مہینے مشترک زندگی گزاری ہے-
وہ پیغمبر خدا {ص} کے ذاتی برتاو کے بارے میں ایک خاص قسم کی حساسیت رکھتی تھیں اور آنحضرت {ص} کی رفت و آمد کے بارے میں حساس تھیں- بعض مسند نویسوں نے ان کے بارے میں کچھ ایسے واقعات نقل کئے ہیں، جن سے معلوم ھوتا ہے کہ وہ، رسول خدا {ص} سے متعلق مختلف مسائل میں حساسیت اور رد عمل کا مظاہرہ کرتی تھیں- اس سلسلہ میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مسند احمد حنبل، جلد ۶ کے صفحات: ۱۱۵، ۱۴۷، ۱۵۱، ۲۲۱ کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے-
ان میں یہ حساسیت، پیغمبراسلام {ص} کی دوسری بیوی کے بارے میں بھی پائی جاتی تھی، اس کی مثالیں صحیح مسلم باب الصغیرہ اور مسند احمد حنبل جلد ۶، صفحات: ۱۱۱، ۱۴۴، ۲۷۷ میں بیان کی گئی ہیں، اس سلسلہ میں مزید تحقیق کرنے کا شوق رکھنے والے مذکورہ منابع کی طرف رجوع کرسکتے ہیں-
افک کا واقعہ:
سب سے پہلے ضروری ہے کہ لفظ "افک" جو ، سورہ نور کی آیہ:" ان الذین جاء وابا لافک عصبہ منکم - - - " میں آیا ہے، کے بارے میں تحقیق کی جائے-
اس سلسلہ میں فخررازی کہتے ہیں:" افک"، جھوٹ اور افتراء سے بالا تر ہے اور اس کے معنی " بہتان" ہیں- ایک ایسا امر جو اچانک آپ کو منقلب کرے، اصل افک کے معنی " القلب" یعنی کسی چیز کو اس کی اصلی صورت سے گرا نا ہے اور اس کے معنی بدترین جھوٹ اور بہتان ہیں- جو کچھ مسلم ہے اور اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے اور قرآن مجید کے مفسرین کے لئے بالاتفاق ثابت ہے ، وہ یہ ہے کہ: یہ بہتان اور افتراء نبی اکرم {ص} کے گھر اور آپ {ص} کی بیویوں میں سے ایک کے بارے میں واقع ھوا ہے، یعنی اس قسم کی ناروا تہمت لگانے والے گروہ کا اصلی مقصد یہ تھا کہ خود پیغمبر اسلام {ص} پر ضرب لگادیں، کیونکہ پیغمبر اسلام {ص} کی بیوی پر تہمت لگانا، پیغمبر اکرم {ص} کی طرف سے اپنی بیویوں کو کنٹرول کرنے میں بے لیاقتی ثابت کرنا تھا، اور جب پیغمبر اکرم {ص} کی بیوی کے لئے اس قسم کا کام انجام دینا ممکن ھو تو دوسروں کی بات ہی نہیں- اس بنا پر اسلام کے تمام فرقے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام {ص} کی بیویاں، اس آیہ شریفہ میں خداوند متعال کی طرف سے " افک" کے عنوان سے متعارف کرائے ہوئے برے عمل کو انجام دینے سے پاک و منزہ ہیں- پس اس آیہ شریفہ کے بارے میں اختلاف کس چیز پر ہے؟ اختلاف اس میں ہے کہ اس آیہ شریفہ کے نازل ھونے کا سبب کیا ہے؟ اور پیغمبر اکرم {ص} کی کس بیوی پر یہ تہمت لگائی گئی ہے؟ بعض نے حضرت ابراھیم {ع} کی والدہ جناب ماریہ قبطیہ کا نام لیا ہے اور بعض نے جناب عائشہ پر یہ تہمت لگائی ہے-
فخررازی، صرف جناب عائشہ سے نقل کی گئی کئی روایتوں کے پیش نظر لکھتے ہیں:" پیغمبر اسلام {ص} جب کہیں سفر پر جانے کا ارادہ فرماتے تھے، تواپنی بیویوں میں سے ایک کو اپنے ہمراہ لے جانے کے لئے قرعہ کشی فرماتے تھے-غزوہ بنی المصطلق میں قرعہ میرے نام پر نکلا اور میں پیغمبر اسلام {ص} کے ہمراہ چلی- راستہ میں ایک پڑاو پر ہم رک گئے اور میں ایک کام کی وجہ سے کاروان سے ذرا دور چلی گئی- جب میں واپس آئی تو مجھے معلوم ھوا کہ میرا گلو بند [ہار]گم ھو چکا ہے- لہذا اس کو ڈھونڈنے کے لئے کاروان سے دور ھوئی اور جب میں واپس لوٹی تو میں نے وہاں پر کسی کو نہیں پایا، پس اس امید سے کہ کاروان والے میری عدم موجودگی سے آگاہ ھوکر ضرور مجھے ڈھونڈنے آئیں گے، اسی جگہ پر ٹھہری رہی- صفوان بن المعطل، جو ہمیشہ کاروان کے پیچھے پیچھے چلتا تھا اور کاروان سے چھوٹ گئی چیزوں کو جمع کرتا تھا، مجھے دیکھ کر پہچان گیا اور مجھے اپنے مرکب پر سوار کرکے کاروان کے پاس پہنچا دیا- لیکن لوگوں نے وہ سب کچھ کہا، جو انھیں نہیں کہنا چاہئےتھا، اور انھوں نے مجھ پر تہمت لگائی، اور اس سلسلہ میں عبداللہ بن ابی پیش پیش تھا"-
اس روایت کے مطابق جناب عائشہ وہ خاتون ہیں، جو اس مشکل سے دوچار ھوئی ہیں اور خداوند متعال نے اس آیہ شریفہ کے ذریعہ ان سے یہ تہمت دور کی ہے- اس کے باوجود نا معلوم وجوہات کی بناء پر اہل سنت کے اکثر علماء اس آیہ شریفہ { آیہ افک} کی شان نزول کو جناب عائشہ کے بارے میں جانتے ہیں-
پیغمبر اسلام {ص} جناب عائشہ سے صاحب اولاد نہیں ھوئے- آنحضرت {ص} کو، موت کا سبب ھونے والی بیماری میں مبتلا ھونے کے بعد جناب عائشہ کے گھر میں منتقل کیا گیا، اور اسی گھر میں دارفانی سے وداع ہونے کے بعد سپرد خاک کئے گئے-
شیخین { خلیفہ اول و دوم} کے دوران جناب عائشہ کی قدر و منزلت:
اس دوران جناب عائشہ کا خاص احترام کیا جاتا تھا- پیغمبر اسلام کی دوسری بیویوں کی بہ نسبت، جناب عائشہ بلند مقام و منزلت کی مالک تھیں- اور بعض مواقع پر فتوی جاری کئے جاتے تھے- بعض مورخین نے لکھا ہے کہ خلیفہ دوم، جناب عائشہ کی تنخواہ کو پیغمبر اکرم {ص} کی دوسری بیویوں کی بہ نسبت بڑھا کر ادا کرتے تھے- ذہبی نے لکھا ہے کہ ایک بار جب عراق سے ایک گراں قیمت موتی غنیمت کے طور پر لایا گیا تو، جناب عمر نے حضار کی اجازت سے یہ گراں قیمت موتی جناب عائشہ کے لئے بھیجدیا-
ابن اثیر کہتے ہیں: جناب عمر نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں جناب عائشہ سے درخواست کی کہ ان کی وفات کے بعد انھیں ان کے گھر میں پیغمبر اکرم {ص} کے پاس دفن کرنے کی اجازت دیں اور جناب عائشہ نے اس کی موافقت کی-
جناب عثمان کی حکومت کے دوران جناب عائشہ:
جناب عثمان بن عفان کی خلافت کے آغاز پر اگر چہ جناب عائشہ نے وقت کے خلیفہ کے ہمراہ حج کے اعمال بجا لائے، لیکن، یعقوبی کے لکھنے کے مطابق، جناب عمر کی طرف سے جناب عائشہ کو پیغمبر اسلام {ص} کی دوسری بیویوں کی بہ نسبت دی جانے والی تین ہزار دینار کی زائد رقم خلیفہ سوم نے کاٹ دی اور ان کا وظیفہ بھی پیغمبر اکرم {ص} کی دوسری بیویوں کے برابر کر دیا-
علامہ عسکری، اس سلسلہ میں لکھتے ہیں:" ہمیں صرف اتنا معلوم ہے کہ ان دو{ جناب عائشہ اور جناب عثمان} کے درمیان اختلافات، جناب عثمان کی خلافت کے دوسرے نصف حصہ کے دوران پیدا ھوئے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ اختلافات کسی ایک واقعہ کی وجہ سے اچانک پیدا نہیں ھوئے ہیں بلکہ رفتہ رفتہ پیدا ھونے کے بعد شدید تر ھوئے ہیں اور مسئلہ یہاں تک پہنچا کہ ام المومنین اورعثمان کے درمیان اختلافات نازک مرحلہ میں داخل ھوکر روزبروز عمیق تر ھوتے گئے-
مورخین کا اعتقاد ہے کہ جو امور جناب عائشہ اور جناب عثمان کے درمیان اختلافات پیدا ھونے کا سبب بنے، ان میں جناب عثمان کے سوتیلے بھائی، ولید بن عقبہ کا موضوع تھا-
جناب عثمان کی حکومت کے دوران ولید بن عقبہ کو حکومتی مقام و منصب دئے گئے، جبکہ وہ ایک بد کردار اور فاسق شخص تھا اور قرآن مجید نے بھی اس کو اسی عنوان سے متعارف کرایا ہے-
ولید بن عقبہ، خلیفہ سوم کے زمانہ میں کھلم کھلا اور آزادی کے ساتھ گناہ کا مرتکب ھوتا تھا، یہاں تک کہ اس نے اپنے عیسائی خادم کے لئے بیت المال سے ماہانہ ایک رقم مقرر کی تھی تاکہ اس سے وہ شراب اور سور کا گوشت خریدے-
جب ولید بن عقبہ کو، کوفہ کا گورنر مقرر کیا گیا،تو ابو زبید نامی ایک عیسائی شاعر، اس کے ساتھ ملحق ھوا اور ولید نے، عقیل بن ابیطالب کا گھر اسے بخش دیا- حد یہ ہے کہ ابو زبید جب ولید کے پاس آنا چاہتا تھا،تو پہلے مسجد کوفہ میں داخل ھوتا تھا اور وہاں سے ولید کے گھر میں داخل ھوتا تھا اور پھر دونوں شب باشی اور شراب نوشی میں مشغول ھوتے تھے- اور اس کے بعد ابو زبید بدمستی کے عالم میں گھر لوٹتا تھا- ولید کی بدکاریوں میں سے ایک اور برا کام یہ تھا کہ اس نے مسجد کو شعبدہ بازی کا مرکز بنایا تھا- ولید کو خبر دی گئی کہ زرارہ نامی ایک یہودی شخص جو شعبدہ باز اور سحرو جادو میں مشہور ہے، پل بابل کے نزدیک ایک گاوں میں رہتا ہے، ولید نے یہ خبر سننے کے بعد حکم دیا کہ اسے کوفہ لے آئیں تاکہ اس کی فن کاریوں کا نزدیک سے مشاھدہ کرے- جب زرارہ نامی اس یہودی شعبدہ باز اور جادوگر کو لایا گیا، تو ولید نے اسے حکم دیا کہ مسجد کوفہ میں حاکم اور مسلمانوں کے سامنے اپنے کرتب اور فن کاری کا مظاہرہ کرے-
ایک اور مسئلہ، خود ولید کی شراب نوشی تھی، جس کے لئے اسلام میں شرعی حد مقرر کی گئی ہے- ولید کی شراب نوشی کا عینی مشاھدہ کرنے والے کچھ لوگ مدینہ پہنچ کر جناب عثمان کے دربار میں حاضر ھوئے اور اپنے مشاھدات کی ان کے سامنے گواہی دی اور اس سلسلہ میں دلائل و اسناد پیش کئے، اس کے بعد حضرت علی {ع} کے پاس جاکر ان سے مدد طلب کی-
ابو الفرج، " اغانی" میں لکھتے ہیں:"جناب عثمان نے ان گواھوں کے جواب میں کہا: کیا ہر شخص کو اپنے حاکم سے ناراض ھوکر اس پر تہمت اور الزام لگانے کا حق ہے؟ چونکہ آپ اس کے مرتکب ھوئے ہیں اس لئے میں، کل صبح حکم دیتا ھوں کہ تم لوگوں کی تنبیہ کی جائے- انھوں نے سزا پانے کے ڈر سے ام المومنین جناب عائشہ کے گھر میں پناہ لے لی، اور جب دوسرے دن صبح کو جناب عثمان نے جناب عائشہ کے گھر سے اپنے بارے میں جھگڑا ھونے اور اعتراضات ھونے والی گفتگو کی آواز سنی،تو انھوں نے بے اختیار صدا بلند کی:" کیا عراق کے باغیوں اور فاسقوں کو عائشہ کے گھر کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں ملی ہے؟ جناب عائشہ نے بھی جب جناب عثمان کا یہ کلام سنا، تو رسول خدا {ص} کے پاپوش کو اپنے ہاتھ میں اٹھا کر، زور زور سے آواز بلند کرنے لگیں کہ: افسوس ہے کہ آپ نے صاحب پا پوش، یعنی رسول خدا {ص} کی سنت کو اتنی جلدی ہی پامال کردیا ہے؛
جناب عائشہ کی یہ بات جنگل کی آگ کے مانند لوگوں میں پھیل گئی اور لوگ مسجد میں آکر جمع ھوئے اور ان دونوں کی گفتگو کے بارے میں اس قدر جذبات بھڑک اٹھے کہ آخر کار لوگوں میں اختلاف پیدا ھوا- بعض لوگوں نے جناب عائشہ کے اس کلام کی تائید، تحسین و تمجید کی، اور بعض دوسرے لوگوں نے اس کی مخالفت کی- افسوس کہ یہ اختلافات اس حد تک بڑھ گئے کہ مسجد میں لڑائی جھگڑا برپا ھوا اور لوگوں نے ایک دوسرے کی پٹائی کی-
بلاذری اس سلسلہ میں اضافہ کرتے ھوئے لکھتے ہیں:" ام المومنین کے اس اعتراض پرجناب عثمان خاموش نہیں بیٹھے، بلکہ انھوں نے تند و تیز لہجے میں صدا بلند کی:" تمھیں امور میں مداخلت کرنے کا کیا حق ہے؟ تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ اپنے گھر میں خاموش بیٹھو-"
مذکورہ ماجرا کو یعقوبی نے اپنی" تاریخ" میں اور عبدالبر نے اپنی کتاب " استیعاب" میں، اسی مضمون کے ساتھ بیان کیا ہے-
حضرت علی {ع} نے بھی جناب عثمان سے فرمایا کہ:" ولید کو برطرف کرنا، کیونکہ اس کے خلاف گواھوں نے شہادت بھی دیدی ہے، اس لئے اس پر شرعی حد بھی جاری کرنا، اس کے بعد عثمان نے ولید کو کوفہ کی گورنری سے معزول کیا اور مدینہ بلایا- ولید بھی کچھ لیت و لعل کے بعد اطاعت کرنے پر مجبور ھوا اور گورنری کو جدید حاکم یعنی سعید بن العاص کے حوالے کردیا- قابل ذکر بات ہے کہ سعید نے دارالامارہ کو اپنے قبضہ میں لینے کے بعد مسجد کوفہ کو تطہیر کرنے کا حکم دیا اور اس حکم پر عمل در آمد نہ ھونے تک اس مسجد کے منبر پر جانے کے لئے حاضر نہیں ھوا- لیکن بنی امیہ کے بعض بزرگ شخصیتیں سعید کو منبر کی تطہیر کرنے کے حکم سے منحرف کرنے کی کوشش کرتے تھے، کیونکہ یہ عمل ولید کے لئے ننگ و عار کا سبب بن جاتا تھا، کہ دونوں بنی امیہ اور ایک ہی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن سعید نے ایک نہ مانی اور منبر کو تطہیر کرنے پر مصر رہا-
ولید کے مدینہ لوٹنے اور اس کی شراب نوشی کے بارے میں گواھوں کی شہادت ملنے کے بعد جناب عثمان نے اس پر شرعی حد {سزا} نافذ کرنے کا حکم دیا-
جو بھی ولید پر شرعی حد جاری کرنے { یعنی کوڑے لگانے} کے لئے جاتا تھا، اسے ولید کے اس جملہ سے مواجہ کرنا پڑتا تھا:" اپنے بارے میں سوچو، اور میرے ساتھ قطع رحم نہ کرو اور مجھ پر حد جاری نہ کرو اور یہ کام بجا لا کر امیرالمومنین کو غضبناک نہ کرو" ولید کا یہ جملہ سن کر کوئی شخص ولید پر حد جاری کرنے { یعنی کوڑے لگانے} کی جرات نہیں کرتا تھا-
علی بن ابیطالب {ع} نے جب یہ حالت دیکھی تو آپ {ع} تازیانے کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے بیٹے حسن بن علی {ع} کے ہمراہ ولید پر کود پڑے، ولید نے اپنا وہی جملہ دہرایا، علی {ع} نے جواب میں کہا: اگر میں بھی ایسا ہی کروں { جو دوسروں نے کیا ہے} توگویا اس صورت میں، میں خدا پر ایمان نہیں لایا ہوں؛ علی {ع} نے کشمکش کے بعد ولید کے شانوں سے اس کی عبا کو ہٹاکر دوشاخوں والے تازیانہ سے ولید کی ہیٹھ پر چالیس کوڑے مارے-
جناب عثمان کا قتل:
مذکورہ واقعات رونما ھونے کے بعد خلیفہ سوم کے محاصرہ کا دائرہ تنگ تر ھوا- انھوں نے جناب عبدالمطلب کے نواسوں میں سے ایک شخص جن کا نام عبداللہ بن حارث بن نوفل تھا، کو مندرجہ ذیل شعر کے ساتھ حضرت علی {ع} کے پاس بھیجا : " فان کنت ماکولاً فکن انت اکلی والا فادرکنی ولما امزق"
" اگر قرار یہ ھو کہ مجھے کھا لیا جائے، تو بہتر ہے کہ آپ خود مجھے کھا لیں، ورنہ اس سے پہلے کہ مجھے چیر پھاڑ دیا جائے، مجھے بچا لیں-"
حضرت علی{ع} اس وقت خیبر میں تھے ، لیکن عثمان بن عفان کا یہ پیغام حاصل کرنے کے بعد مدینہ لوٹے اور جناب عثمان کے پاس گئے- خلیفہ نے علی{ع} کو دیکھنے کے بعد ان سے اسلام ، برادری، رشتہ داری اور رسول خدا {ص} کے داماد ھونے کے واسطے سے مدد کی درخواست کی- حضرت علی{ع} طلحہ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ لوگوں کو عثمان کے محا صرہ سے ہٹا دے، لیکن طلحہ نے کہا: خدا کی قسم ہرگز ایسا نہیں کروں گا جب تک نہ بنی امیہ لوگوں کے حق کے سامنے ہتھیار ڈالیں-
حضرت علی{ع} جناب عثمان کے گھر سے باہر آگئے اور بیت المال کی طرف روانہ ھوئے، بیت المال کے دروازہ کو توڑنے کا حکم دیا اور لوگوں میں مال تقسیم کرنے لگے-
طلحہ خلیفہ کے پاس گئے اور ان سے کہا: اے امیر المومنین{عثمان} میں اپنے کئے ھوئے پر خدا سے معافی مانگتا ھوں، میرے ذہن میں ایک خیال تھا لیکن خدا نے نہیں چاہا وہ پورا ھو جائے اور اس نے میری آرزو اور میرے درمیان رکاوٹ ڈالی- جناب عثمان نے جواب میں کہا: خدا کی قسم تم توبہ کرنے کے لئے نہیں آئے ھو بلکہ اس لئے آئے ھو کہ مغلوب ہوکر شکست سے دوچار ھو گئے ھو، میں تمھیں خدا پر چھوڑتا ھوں-
حضرت علی {ع} نے دیکھا کہ لوگ جناب عثمان کو قتل کرنے پر تلے ھوئے ہیں ، تو اپنے بیٹوں حسن {ع} و حسین {ع} کو یوں حکم دیا: اپنی تلواروں کو اٹھا لو اور عثمان کے گھر کے دروازے پر کھڑے ھو جاو اور کسی کو عثمان تک پہنچنے نہ دو- حضرت علی[ع] کے بیٹے ان کے حکم پر عمل کرنے کے سلسلہ میں حملہ آوروں اور مدافعین کی جھڑپوں کے درمیان ڈٹ گئے- امام حسن {ع} کا چہرہ خون آلود ھو گیا اور حضرت علی {ع} کے غلام، قنبر کے سر پر چوٹ لگی اوربری طرح زخمی ھوئے-
خلیفہ کے قتل کے بارے میں روایتیں مختلف ہیں، لیکن جو بات مسلم اور یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ قاتل، عثمان کے گھر کے نزدیک ایک انصار کے گھر کی چھت سے ان کے گھر میں داخل ھو گئے، کیونکہ وہ خلیفہ کے گھر کے دروازے سے ان کے گھر میں داخل نہیں ھوسکے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ بنی ھاشم کی اولاد یعنی حضرت علی بن ابیطالب {ع} کے بیٹے امام حسن {ع} اور امام حسین {ع} دروازے پر پہرہ دے رہے تھے-
ابن ابی الحدید، طبری اور بلاذری نے اپنی کتابوں میں خلیفہ سوم کے قتل کی کیفیت کو تفصیل سے بیان کیا ہے-
مقتول خلیفہ کا جنازہ تین دن تک زمین پر پڑا رہا ، یہاں تک کہ حضرت علی {ع} نے ذاتی طور پر ان کی تدفین کے سلسلہ میں مداخلت کی- خلیفہ سوم کو صرف مروان، ان کی پانچویں بیٹی اور تین غلاموں کے حضور میں "حش کوکب "نامی قبرستان میں دفن کیا گیا-
قابل توجہ بات ہے کہ معاویہ نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد حکم دیا کہ قبرستان "حش کوکب "یعنی جناب عثمان بن عفان کے دفن کی جگہ، کی دیوار کو منھدم کرکے بقیع کے ساتھ ملا دیں-
حضرت علی بن ابیطالب کی خلافت:
جناب عثمان بن عفان کے قتل کے بعد رسول خدا {ص} کے صحابی حضرت علی {ع} کے پاس آگئے اور کہا: اے علی، مسلمانوں کے خلیفہ عثمان قتل ھوئے اور آج مسلمانوں کو ایک مناسب اور قابل پیشوا اور سرپرست کی ضرورت ہے، اور ان کی سرپرستی کے لئے ہم آپ سے مناسب تر اور شائستہ تر کسی کو نہیں جانتے ہیں اور اس کے بعد انھوں نے حضرت{ع} کی سابقہ فضیلتوں اور صلاحیتوں کو ایک ایک کرکے گنا دیا-
طبری اپنے بیان کو جاری رکھتے ھوئے کہتے ہیں: عثمان کے قتل ھونے کے بعد لوگ گروہ در گروہ کی صورت میں کئی بارحضرت علی {ع} کے پاس آگئے اور ان سے خلافت کے عہدہ کو سنبھالنےاور مسلمانوں پر حکومت کرنے کی درخواست کی، اس کے مقابلے میں حضرت علی {ع} خلافت کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے- لیکن لوگوں نے کہا کہ اگر خلافت کی زمام سنبھالنے میں اس سے زیادہ تاخیرھو جائے تو امن و امان درہم برہم ھونے کا خطرہ ہے- یہاں پر حضرت علی {ع} نے لوگوں سے مخاطب ھو کر کہا: اگر آپ اس حد تک اصرار کرتے ہیں تو مسجد میں جمع ھو جاو- حضرت علی {ع} بھی مسجد کی طرف روانہ ھوئے اوروہاں پر یہ تقریر کی: میں خلافت کی کرسی پر بیٹھنا پسند نہیں کرتا ھوں، لیکن ملت کے اصرار اور ان کی درخواست کو قبول کرنے پر مجبور ھوں- میں آپ سے یہ عہد و پیمان لینا چاہتا ھوں کہ میری خلافت کے دوران مندرجہ ذیل دو موضوع کسی امتیاز کے بغیر نافذ ھو جائیں:
1- طبقاتی امتیازات کا خاتمہ۲ - تمام مسلمانوں کے درمیان مساوی حقوق کی رعایت کرنا، کیا آپ لوگ اس پر راضی ہیں؟
سب نے یک زبان ھوکر کہا: جی ہاں یا علی؛
بلاذری کہتے ہیں: مسلمان گروہ درگروہ کی صورت میں بڑی تیزی اور مکمل شوق کے ساتھ حضرت علی کی طرف دوڑے اور یوں نعرے بلند کر رہے تھے کہ:" علی امیرالمومنین ہیں" - ان لوگوں نے حضرت علی کی طرف اپنے ہاتھ بلند کرکے ان کی بیعت کی- طلحہ پہلے شخص تھے جنھوں نےحضرت علی{ع} کی بیعت کی- حضرت علی {ع} کے صحابیوں میں سے عمار اور مالک اشتر نے حضرت علی {ع} سے کہا کہ بعض لوگوں کو بیعت کرنے کی دعوت دیں، لیکن حضرت علی {ع} نے جواب میں کہا کہ: جو اپنی مرضی سے ہمارا استقبال نہ کرے اور دل و جان سے ہماری بیعت کو قبول نہ کرے، ہمیں اس کی ضرورت ہی نہیں ہے- یہ جاننا دلچسپ بات ہے کہ حضرت علی{ع} کی بیعت کی مخالفت کرنے والے مروان، ولید، اور سعید بن عاص جیسے افراد تھے- جن کے دل میں حضرت علی {ع} کا بغض و کینہ تھا ، کیونکہ حضرت علی {ع} نے ان کے مشرک آبا و اجداد اور اسلاف کو قتل کیا تھا، یہی وجہ تھی کہ وہ علی بن ابیطالب {ع} کی سرپرستی اور خلافت کے مخالف تھے- انھوں نےحضرت علی {ع} سے کہا کہ : آپ نے ہمارے آبا و اجداد کو قتل کیا ہے اور علی {ع} نے جواب میں کہا: میں نے ان کو قتل نہیں کیا ہے بلکہ انھیں حق کی مخالفت اور دشمنی اورشرک وبت پرستی کی طرفداری نے قتل کیا ہے- اس کے علاوہ حضرت علی {ع} کا اصرار تھا کہ بیت المال کی لوٹی گئی دولت اور بڑی رقومات کو غارت گروں سے چھین کر عدالت و انصاف کا تقاضا پوا کیا جائے- دوسری جانب ، بیعت کرنے والے طلحہ و زبیر خیال کرتے تھے کہ انھیں کلیدی عہدے اور بیت المال سے بیشتر حصہ ملے گا- لیکن انھوں نے مشاھدہ کیا کہ ایسا نہیں ھوا- اس لئے حضرت علی {ع} کی حکومت پر تنقیدیں اور اعتراضات شروع ھوئے- { اس سلسلہ میں ان افراد کے ساتھ حضرت علی {ع} کی گفتگو نہج البلاغہ میں موجود ہے}-
طلحہ و زبیر کی درخواست کے بارے میں یعقوبی اپنی تاریخ میں یوں لکھتے ہیں: " یا علی؛ رسول خدا {ص} کے بعد ہم ہر عہدے سے محروم رہے اور ہم میں سے ہر ایک نظر انداز ھوا تھا- اب جبکہ خلافت آپ کے ہاتھ میں آگئی ہے ہمیں توقع ہے کہ آپ ہمیں خلافت میں شریک کریں اور حکومت کے کلیدی عہدوں میں سے کوئی عہدہ ہمیں عطا کریں"-
حضرت علی {ع} نے جواب میں فرمایا:" اس تجویز کو بھول جاو- اس سے بڑھ کر کونسا عہدہ چاہتے ھو کہ تم میری طاقت اور زور بازو اور مشکلات میں میرے مددگار بن جاو - میری حکومت کی مستحکم بنیاد تمھارے شانوں پر ہے- کیا اس سے بالاتر کوئی مقام کسی مسلمان کے لئے ممکن ہے؟
طلحہ و زبیر نے محسوس کیا کہحضرت علی {ع} کسی صورت میں ان کی بات ماننے والے نہیں ہیں اور دوسری جانب سے انھیں معلوم ھوگیا کہ جناب عائشہ نےجناب عثمان کی خونخواہی کا پرچم مکہ میں بلند کیا ہے، تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ خانہ خدا کی زیارت کے بہانے سے مکہ چلے جائیں- البتہ حجرت علی {ع} سے بھی اجازت مانگی اور حضرت علی {ع} نے انھیں اجازت دیدی-
جناب عائشہ کی عمر اس وقت تقريبا پنتالیس سال تھی- طلحہ و زبیر مکہ پہنچ کرجناب عائشہ سے ملحق ھوئے اور اسی طرح حضرت علی بن ابیطالب کی حکومت کے مخالف دوسرے احزاب اور شخصیتیں بھی جناب عائشہ سے ملحق ھو گئیں، کہ ان میں اکثر وہ افراد تھے جو سابقہ خلیفہ کی حکومت میں کلیدی عہدوں پر فائز تھے اور علی {ع} کی عادلانہ حکومت کی سیاست کی وجہ سے اپنے عہدوں سے معزول کئے گئے تھے- ایسے افراد کی ایک قابل توجہ تعداد جناب عائشہ کے ارد گرد جمع ھوئی تھی- ان سربراھوں اور بزرگوں میں اختلاف پیدا ھوا ، ان میں سے بعض شام جاکر معاویہ سے مدد حاصل کرنا چاہتے تھے، لیکن کچھ لوگ عراق جاکر کوفہ و بصرہ کےلوگوں سے مدد حاصل کرنا چاہتے تھے، بحث مباحثہ کے بعد دوسری تجویز پر اتفاق ھوگیا اور یہ طے پایا کہ لشکر عراق{ بصرہ} کی طرف روانہ ھو جائے- طبری نے ان کی تعداد تین ہزار افراد لکھی ہے- انھوں نے طلحہ و زبیر کے درمیان راستے میں پیدا ھونے والے اختلافات کا بھی ذکر کیا ہے-
لشکر کے درمیان اختلافات اور جھگڑا:
اتفاق نظر اور باہمی تعاون کا قول و قرار طے ہونے کے باوجود لشکر کے اندر شدید اختلافات مشہود تھے- طلحہ و زبیر میں سے کسی ایک کے امام جماعت منتخب ھونے پر اختلاف تھا- اس کے علاوہ لشکر کی کمان کے سلسلہ میں بھی اختلاف تھا کہ اس سلسلہ میں جناب عائشہ کی تدبیریں بھی نا کام ھوئیں- حالات یہاں تک پہنچے کہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ ان دو یعنی طلحہ و زبیر میں سے کون امیر ہے-
کچھ لوگ زبیر کو لشکر کا کمانڈر سمجھتے تھے کیونکہ اسے عائشہ نے منصوب کیا تھا اور کچھ لوگ دونوں کو امیر جانتے تھے- اس سلسلہ میں مروان نے لوگوں میں اختلافات اور جدائی پھیلانے میں کلیدی رول ادا کیا-
دوسرا اہم مسئلہ جو لشکر کے سرداروں میں نمایاں اور مشہود تھا وہ یہ تھا کہ وہ اپنے کئے ھوئے پر مطمئن نہیں تھے اور حق و نا حق کی تشخیص کرنے میں حیران و پریشان تھے-
طبری اس سلسلہ میں لکھتے ہیں: زبیر نے کئی بار کہا: انا نبصر ولا نبصر، یعنی ہم نے اپنی راہ کو نہیں پہچانا ہے اور دوسروں کی راہنمائی پر چلتے ہیں- ہم اپنی راہ کی تشخیص کرنے میں حیران و پریشان ہیں اور اپنے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے میں شک و شبہہ سے دوچار ہیں- میں اپنی زندگی کے دوران جب کوئی اقدام کرتا تھا اس کے انجام کو مد نظر رکھتا تھا، لیکن آج میرا یہ کام میرے لئے واضح نہیں ہے -
اسی طرح علقمہ بن وقاص سے نقل کیا گیا ہے کہ اس نے کہا: میں ان دنوں طلحہ کے برتاو اور اس کے چہرے پر سنجیدگی کے ساتھ متوجہ تھا اور اسے مسلسل پریشان حالت میں پاتا تھا، اکثر اوقات پر سربہ گریبان تنہا بیٹھتا تھا اور گہرے غور و فکر میں غرق ھوتا تھا- ایک دن میں نے اس سے کہا: تم کیوں پریشان اور نا راحت حالت میں غور وفکر میں غرق ہو؟ اگر علی {ع} سے جنگ کرنا پسند نہیں کرتے ھو،تو لشکر سے جدا ھوکر گھر چلے جاو-
طلحہ نے جواب میں کہا: ایک دن ہم مسلمان دشمن کے مقابلے میں متحد تھے، افسوس آج ہم دو مخالف گروھوں میں تقسیم ھوئے ہیں اور دو پہاڑوں کے مانند ایک دوسرے کے مقابلے میں نبرد آزما ہیں-
ان اظہارات سے معلوم ھوتا ہے کہ یہ دو سردار{ طلحہ و زبیر} اپنے مقصد میں تشویش سے دوچار تھے اور اپنے اقدامات اور فیصلوں کے بارے میں شک و شبہہ میں مبتلا تھے اور اس کام کے برے انجام اور خطرات کے بارے میں فکر مند تھے-
لیکن حضرت علی {ع} اس کے مقابلے میں فرماتے تھے: " وانی لعلی یقین من امری وفی غیر شبھہ من دینی وان معی بصیرہ" اور اپنی تقریروں کے ضمن میں فرماتے تھے: " میں یقین کے ساتھ جانتا ھوں کہ اس جنگ میں خداوند متعال میرا مددگار و پشت وپناہ ہے اور مجھے فتح و کامرانی عطا کرے گا، کیونکہ میں ایمان رکھتا ھوں کہ میں بے گناہ اور حق پر ھوں اور میں اپنے اقدام کے بارے میں ذرہ برابر شک و شبہہ نہیں رکھتا ھوں اور اپنے کام کے بارے میں روشنی اور بصیرت رکھتا ھوں-"
حضرت علی {ع} کی مدینہ سے بصرہ کی طرف عزیمت:
اس سفر میں، جس کےپہلے پڑاو پر حضرت علی {ع} رکے اس جگہ کا نام "ربذہ" تھا- یہاں پر حضرت علی {ع} نے عثمان بن حنیف سے ملاقات کی- عثمان بن حنیف نے وہ سب کچھ حضرت علی {ع} کو سنایا جو مخالف لشکر نے بصرہ میں ان کے خلاف انجام دیا تھا اور ساتھ ہی شکوہ کیا، امام نے انھیں صبر کرنے کی نصیحت کی اور ان کے مصیبت بھرے حالات سن کر غمگین ھوئے- اس کے بعد کوفہ میں اپنے گورنر کے نام ایک خط لکھا اور اس کو حکم دیا کہ ایک فوج کو مسلح کرکے امام کے پاس بھیجدے، لیکن کوفہ کے گورنر ابو موسی نے امام کے اس خط اور حکم پر کوئی اعتنا نہیں کیا اور امام کے حکم کے خلاف کوفہ کے لوگوں کو امام کی مدد کرنے سے روکا-
دوسرا پڑاو جہاں پر امام علی{ع} کے لشکر نے توقف کیا اس جگہ کا نام " ذی قار" تھا- وہاں سے امام[ع] نے اپنے بیٹے امام حسن مجتبی {ع} کو ایک خط دے کر کوفہ روانہ کیا اور کوفہ کے لوگوں سے مدد کی درخواست کی- کوفہ کے بہت سے لوگ امام حسن مجتبی {ع} کے بیانات سے متاثر ھوکر ان کے لشکر میں شامل ھوگئے-
طبری کہتے ہیں: دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابلے میں ایک ایسی جگہ پر روبرو ھوئے جس کا نام بعد میں " قصرعبیداللہ بن زیاد" مشہور ھوا- پہلے تین دن کوئی ٹکراو اور تصادم نہیں ھوا،حضرت علی {ع} مسلسل اتمام حجت کرتے رہے اوراپنے مقابلے کے لشکر کے سرداروں کو خطوط لکھتے رہے اور اپنے قاصد ان کے پاس بھیجتے رہے اور کبھی خود بھی براہ راست ان سے رابطہ قائم کرتے رہے تاکہ جنگ اور خونریزی کو روک سکیں اور اپنے دشمنوں کو فتنہ و فساد سے آگاہ کرتے رہے-
جنگ جمل:
حضرت علی {ع} نے جنگ جمل کے دن اپنے لشکر سے مخاطب ھوکر بلند آواز میں اعلان کیا: لوگو؛ تم دشمن کی طرف تیراندازی نہ کرنا کسی پر تلوار اور نیزے سے حملہ نہ کرنا اور دشمن کے ساتھ جنگ شروع کرنے میں پہل نہ کرنا- دشمن کے ساتھ مہربانی اور نرم لہجہ سے گفتگو کرنا- ظہر تک ایسے ہی حالات رہے اور حکم کے مطابق حضرت علی {ع} کی فوج نے جنگ شروع کرنے سے اجتناب کیا- لیکن اس کے مقابلے میں دشمن کی فوج سے " یالثارات عثمان" کا نعرہ صاف سنائی دیتا تھا- یہاں پرحضرت علی {ع} نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا کر کہا: خداوندا؛ آج عثمان کے قاتلوں کو شکست دینا-
امیرالمومنین {ع} نے صلح کرنے کی کوششوں کا کوئی نتیجہ حاصل نہ ھونے کے بعد قرآن مجید کا سہارا لیا اور اسی کے ذریعہ اتمام حجت کی، لہذا، قرآن مجید کے ایک نسخہ کو ہاتھ میں لئے ھوئے اپنے لشکر میں یہ آواز بلند کی: کون ہے جو اس قرآن مجید کو ہاتھ میں لے کر دشمن کی فوج کو اس کی طرف دعوت دے اور اس راہ میں جام شہادت نوش کرے؟ ایک جوان اٹھا اور اس نے اس کام کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا- نضرت علی {ع} نے دوبارہ اپنی دعوت پیش کی اور پھر سے وہی جوان اٹھا- امام {ع} نے قرآن مجید کو اس جوان کے ہاتھ میں دے کر دشمن کی طرف روانہ کیا، لیکن دشمن کی فوج نے اس پر حملہ کرکے اس کے دونوں ہاتھ بدن سے جدا کر دیے ، پھر بھی وہ جوان مسلسل دعوت اور تبلیغ کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے اپنی جان دیدی-
اس ماجرا کے بعد امیرالمومنین {ع} نے فرمایا: اب ان پر حجت تمام ھوگئی ہے اور ان کے ساتھ جنگ کرنا ہمارے لئے واجب بن گیا ہے-
سپاہ جمل کے پہلےکمانڈر، زبیر کی قربانی:
جب دو لشکر ایک دوسرے کے مقابلے میں آگئےتو، حضرت علی {ع}، اسلحہ کو زمین پر رکھ کر پیغمبر اسلام {ص} کے مخصوص مرکب پر سوار ھوکر دشمن کے لشکر کی طرف روانہ ھوئے اور زبیر کو اپنے پاس بلایا، زبیر جنگی اسلحہ کے ساتھ حضرت علی {ع} کی طرف بڑھا ، جب یہ خبرجناب عائشہ کو ملی تو انھیں زبیر کی جان کا خطرہ محسوس ھوا اور فریاد بلند کی: " واحرباہ باسماء" یعنی افسوس ھو میری بہن اسماء کی بدبختی پر کہ بے شوہر ھوگی- لیکن جب ا نھیں بتایا گیا کہ حضرت علی {ع} مسلح نہیں ہیں تو انھیں اطمینان حاصل ھوگیا- مورخین نے زبیر اور حضرت علی {ع} کی ملاقات کے لمحہ کو یوں تحریر کیا ہے کہ: جب زبیر، حضرت علی {ع} کے پاس پہنچا تو ایک دوسرے سے گلے ملے اور ایک دوسرے کو چوما- اس کے بعد علی {ع} نے کہا افسوس ھو تم پر کس لئے اس لشکر کے ساتھ اس سرزمین پر آئے ھو؟ اور کیوں مخالفت کا پرچم میرے خلاف اٹھائے ھو؟
زبیر نے کہا: لشکر کشی کی دلیل جناب عثمان کی خونخواہی ہے، اورحضرت علی {ع} نے جواب دیا: خدا اسے قتل کرے جس کا عثمان کے قتل میں ہاتھ ہے- اس کے بعدحضرت علی {ع} نے زبیر کو پیغمبر اسلام {ص} کا وہ کلام یاد دلایا، جس میں آپ {ص} نے زبیر سے کہا تھا: " زبیر تم ایک دن نا حق ،علی [ع} سے جنگ کروگے"- پیغمبر اسلام {ص} کے کلام کی یاد دہانی کو سننے کے بعد زبیر نے استغفار کیا اور اپنے عمل پر پشیمان ھوئے، لیکن کہا: اب جبکہ کام یہاں تک پہنچا ہے اور ہم ایک دوسرے سے جنگ کرنے پر آمادہ ہیں ، میں اپنے لئے فرار کے تمام راستے مسدود پاتا ھوں- حضرت علی {ع} نے کہا: آج ننگ اور شرمندگی کو قبول کرنا تیرے لئے اس سے بہتر ہے کہ کل شرمندہ ھوجاوگے اور جہنم کی آگ سے بھی دوچار ھو جاو گے-
یہاں پر زبیر زبردست متاثر ھوا اور اس نے جنگ سے انحراف اور پسپائی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا- لیکن جب عبداللہ بن زبیر کو اپنے باپ کے ارادے کے بارے میں معلوم ھوا تو اس کے پاس جاکر کہا: ہمیں چھوڑ کے کیسے جارہے ھو- - -؟
مسعودی، عبداللہ کو زبیر کا جواب یوں بیان کرتے ہیں:
عبداللہ؛ نہیں، ہرگز ایسا نہیں ہے جیسا تم خیال کرتے ھو، میں جنگ کے خوف سے پسپائی اختیار نہیں کر رہا ھوں بلکہ آج مجھے ایک ایسی داستان یاد آئی جس نے مجھے متنبہ کیا اور حضرت علی {ع} سے جنگ کرنے سے روکا، یہی وجہ ہے کہ میں نے جنگ سے اجتناب کرنے کو جہنم کی آگ پر ترجیح دے دیا- لیکن میرے بیٹے؛ اب جبکہ تم مجھے بزدل اور ڈرپوک سمجھتے ھو، میں اس داغ کو نیزے اور تلوار سے اپنے دامن سے پاک کر رہاھوں- اس گفتگو کے بعد زبیر نے حضرت علی [ع} کے لشکر کے میمنہ پر ایک زبردست حملہ کیا، جب حضرت علی {ع} نے زبیر کو اس غضبناک حالت میں دیکھا تو، اپنے سپاھیوں کو حکم دیا کہ اسے مہلت دیدیں اور اسے کوئی نقصان نہ پہنچائیں، کیونکہ اسے اکسایا گیا ہے اور وہ اپنی عام اور فطری حالت کو کھو بیٹھا ہے-
زبیر نے دوسرا حملہ حضرت علی {ع} کی فوج کے میسرہ پر کیا اورآواز بلند کی: کون ڈرپوک اس قسم کی شجاعت کا مظاہرہ کرسکتا ہے؟ اس کے بعد جنگ سے کنارہ کشی کرتے ھوئے صحرا کی طرف روانہ ھوگیا-
کہتے ہیں کہ: زبیر ایک جگہ پر نماز پڑھنے کے لئے گھوڑے سے اترا، "عمرو بن جرموز" نامی ایک شخص نے پیچھے سے اس پر حملہ کرکے اسے قتل کر ڈالا-
سپاہ جمل کی دوسری قربانی، طلحہ:
ابن عساکر کہتے ہیں: حضرت علی {ع} نے جنگ سے پہلے طلحہ سے بھی وہی برتاو کیا جو زبیر سے کیا تھا- یعنی طلحہ سے ملاقات کی اور اس سے کہا: تمھیں خدا کی قسم ہے کہ کیا تم نے رسول خدا [ص]کا میرے بارے میں یہ کلام نہیں سنا ہےکہ:" جس جس کا میں مولا ھوں علی بھی اس کے مولا ہیں، خداوندا؛ علی{ع} کے دوستوں کو دوست رکھ اور ان کے دشمنوں سے دشمنی؟" طلحہ نے جواب میں کہا: جی ہاں میں نے سنا ہے اور مجھے یاد بھی ہے- علی {ع} نے فرمایا: تعجب کی بات ہے، پھر میرے ساتھ کیسے جنگ کر رہے ھو؟
طبری کہتے ہیں کہ: حضرت علی {ع} نے کہا: طلحہ؛ تم وہ ھو جس نے اپنی بیوی کو گھر میں رکھا ہے اور پیغمبر {ص} کی بیوی کو میدان جنگ میں لے آئے ھو اور میری بیعت توڑ دی ہے-
ابن عساکر و ذھبی لکھتے ہیں: طلحہ اپنے سپاھیوں کے درمیان صدا بلند کر رہا تھا اور ان سے درخواست کر رہا تھا کہ خاموش رہ کر ان کی بات کو سنیں، لیکن جب اسے معلوم ھوا کہ وہ لوگ اس کی بات کی کوئی اعتنا نہیں کر رہے ہیں تو اس نے غضبناک ھو کر کہا: لعنت ھو ان بھیڑیے صفت لوگوں پر جو جہنم کی آگ کی سند ہیں-
لیکن طلحہ کے قتل ھونے کی کیفیت کے بارے میں، یعقوبی، ابن عساکر، ابن عبدہ ربہ، ابن عبدالبر استیعاب میں، ابن حجر عسقلانی اور ابن اثیر اپنی کتاب کامل میں یوں نقل کرتے ہیں:
علی {ع} اور طلحہ کے سپاہی جنگ میں مشغول تھے، مروان، طلحہ کے لشکر کا ایک سردار تھا، اس نے کہا: اگر میں آج کے موقع سے استفادہ نہ کروں اور عثمان کے قاتل سے انتقام نہ لوں تو مجھے یہ موقع کبھی نہیں ملے گا، اس کے بعد اس نے اپنے ہی کمانڈر یعنی طلحہ کی طرف ایک تیر پھینکا اور اسی تیر کے زخم اورزیادہ خون بہہ جانے کے نتیجہ میں طلحہ قتل ھوگیا-
" ابن سعد" طبقات میں بیان کرتے ہیں: طلحہ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں کہا: خدا کی قسم، جس تیر نے میرا کام تمام کیا، وہ علی کے لشکر کی طرف سے نہیں پھینکا گیا تھا- مورخین نے لکھا ہے کہ جنگ جمل کے دوسرے کمانڈر یعنی طلحہ کے قتل ھونے کے بعد بھی سپاھیوں میں کوئی تزلزل پیدا نہیں ھوا، کیونکہ لشکر کا علمبردار وہ اونٹ تھا جس پر جناب عائشہ کا کجاوہ رکھا گیا تھا، لہذا کمانڈروں کے قتل ھونے کے بعد سپاھیوں کی بیشترتوجہ اس اونٹ کی طرف ھوئی جس پر پیغمبر {ص} کی بیوی سوار تھیں اور اس طرح جنگ تیزی کے ساتھ جاری رہی-
جب حضرت علی {ع} نے ایسے حالات دیکھے تو آپ {ع} نے سیاہ عمامہ سر پر رکھ کر اپنے لشکر کوتیار کیا اور فوج کے پرچم کو محمد حنفیہ کے ہاتھ میں دے دیا- جنگ رفتہ رفتہ شدت پکڑتی گئ، دشمن کی فوج کی صفوں میں بھگدڑ مچ گئی بہت سے فوجی بھاگ گئے- جو باقی بچے تھے وہ بھی خطرہ کا احساس کرتے تھے اور اپنی شکست کا مشاھدہ کر رہے تھے- جنگ کے رسومات کے مطابق شعر و رجز خوانی کے بجائے " یا لثارات عثمان" کا نعرہ بلند کر رہے تھے- اس کے مقابلے میں حضرت علی {ع} کے سپاہی " یا محمد" کا نعرہ بلند کر رہے تھے- لیکن حضرت علی {ع} نے حکم دیا کہ خود پیغمبر {ص} کے نعرہ سے استفادہ کریں اور " یا منصورامت" کا نعرہ بلند کریں -
دشمن کے میمنہ و میسرہ کے دستوں کے درہم برہم ھونے کے بعد جنگ اونٹ کے ارد گرد پہنچ گئی اور شدت اختیار کر گئی، اونٹ کے ارد گرد عجیب ازدحام پیدا ھوا- اونٹ پر تیر باران ھو گیا، لیکن چونکہ اسے نمدوں اور مضبوط اشیاء سے ڈھانپا گیا تھا لہذا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا- حضرت علی {ع} کے "یجیر" نامی ایک صحابی کو حکم دیا گیا کہ اونٹ کا کام تمام کرے، اس نے بھی ایک مناسب موقع سے استفادہ کرتے ھوئے اونٹ کی ران پر ایک کاری ضرب لگادی اور اونٹ زمین پر ڈھیر ھو گیا ، یہاں پر دشمن کے تمام سپاہی تتربتر ھو گئے اور ہر ایک جان بچانے کے لئے بھاگ گیا- حضرت علی {ع} نے صدا بلند کی: لوگو؛ کجاوہ کی رسیوں کو کاٹ دو اور کجاوہ کو اونٹ سے جدا کرو، حضرت علی {ع} کے سپاھی کجاوہ کوجناب عائشہ کے ہمراہ ہاتھوں پر بلند کرکے میدان کارزار سے دور لے گئے-
جمل کی خونین جنگ فتنہ گروں کی شکست پر ختم ھو گئی- حضرت علی {ع} نے جناب عائشہ کے بھائی محمد بن ابی بکر کو حکم دیا کہ اپنی بہن کے پاس جاکر ان کے لئے ایک خیمہ نصب کرے اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرکے ان کی سلامتی کے بارے میں اطمینان حاصل کرے- محمد بن ابی بکر اپنی بہن کے پاس گئے ،جناب عائشہ نے پوچھا کہ کون ھو؟ محمد بن ابی بکر نے جواب میں کہا کہ : آپ کا نزدیک ترین اور دشمن ترین رشتہ دار ھوں-
بہن نے کہا: کیا تم خثعمیہ { محمد بن ابی بکر کی ماں کا قبیلہ} کا بیٹا ھو؟ محمد نے کہا: جی ہاں- جناب عائشہ نے کہا: میرے ماں باپ قربان ھوں، خدا کا شکر ہے کہ تم اس جنگ میں زندہ بچ نکلے ھو- محمد نے کہا: امیرالمومنین حضرت علی {ع} نے آپ کے بارے میں مہربانی اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور فکرمند ہیں کہ کہیں آپ کو کوئی زخم تو نہیں لگا ہے- جناب عائشہ نے اظہار کیا کہ ایک تیر مجھ تک آ گیا لیکن مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا-
اس کے بعد حضرت علی {ع} جناب عائشہ کے پاس گئے اور کہا: اے حمیرا؛ کیا رسول خدا {ص} نے آپ کو اس جنگ کا حکم دیا تھا؟ کیا آپ کے شوہر رسول خدا[ص] نے یہ حکم نہیں دیا تھا کہ آپ گھر سے باہر نہ نکلیں؟ جنھوں نے آپ کو یہاں پہنچایا ہے انھوں نے رسول خدا {ص} کے ساتھ بے انصافی کی ہے کہ انھوں نے اپنی بیویوں کو گھروں میں رکھا ہے لیکن آپ کو جو، پیغمبر{ص} کی ناموس ھیں، میدان کارزار میں لے آئے ہیں- آپ نے لوگوں کو میرے خلاف اکسایا، اور ان کے دلوں میں میری دشمنی پیدا کی تاکہ میرے خلاف بغاوت کریں-
جناب عائشہ امام کے کلام کے مقابلے میں خاموش تھیں اور صرف اتنا کہا کہ: یا علی، جبکہ اب آپ ہم پر غالب ھوئے ہیں اور صاحب قدرت و امتیاز بنے ہیں، بخش دینا بہتر ہے-
جنگ ختم ھونے کے بعد، حضرت علی {ع} نے اپنے سپاھیوں سے مخاطب ھو کر فرمایا: شکست سے دوچار ھوئے فوجی چونکہ زبان پر کلمہ توحید جاری کرتے ہیں اس لئے ان کا احترام کرو-
جناب عائشہ کو احترام کے ساتھ مدینہ لوٹا دینا:
حضرت علی {ع} نے اپنے چچازاد بھائی، عبداللہ بن عباس کو جناب عائشہ کے پاس بھیجا تاکہ ان سے اپنے شہر، یعنی مدینہ لوٹنے کی رضامندی حاصل کریں- لیکن جناب عائشہ نے بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا- دوسری بار امیرالمومنین علی {ع} ذاتی طور پر جناب عائشہ کے پاس گئے وہاں پر کچھ ایسی عورتوں کو دیکھا جو اپنے مقتولین کے لئے عزاداری کر رہی تھیں ان عورتوں میں صفیہ بنت حارث ثقفی بھی تھی جس کے دل میں امام علی {ع} کے بارے میں زبردست دشمنی تھی، امام نے اس سے مخاطب ھوکر کہا: میں تجھے اس دشمنی کے سلسلہ میں ملامت نہیں کرتا ھوں کیونکہ جنگ بدر میں تیرے جد کو اور جنگ احد میں تیرے چچا کو میں نے قتل کیا ہے اور اس جنگ میں تیرے شوہر کو قتل کرچکا ھوں- لیکن جان لینا کہ اگر میرا مقصد تیرے عزیزوں اور دوستوں کو قتل کرنا ھوتا تو اس وقت جو تم لوگ یہاں پر جمع ھوئے ھو سب کو قتل کر ڈالتا- { امام کا اشارہ عبداللہ بن زبیر اور مروان کی طرف تھا جو اس گھر میں پناہ لے کر چھپے ھوئے تھے}-
دوسرے دن حضرت علی {ع} نے اپنے بیٹے امام حسن مجتبی {ع} کو جناب عائشہ کے پاس بھیجا اور انھیں پیغام دیا کہ قسم اس خدا کی جو ایک دانے کو توڑتا ہے، قسم اس خدا کی کہ جس نے انسان کو پیدا کیا ہے، اگر آپ اسی وقت مدینہ کی طرف روانہ نہ ھوں گی، تو دیکھ لیں گی کہ آپ کے ساتھ کیا برتاو کروں گا- جناب عائشہ نے جب یہ کلام سنا تو فوراً اٹھیں اور روانہ ھونے کے لئے تیار ھو گئیں-
" عقدالفرید" کے مولف لکھتے ہیں: جب جناب عائشہ نے واپس لوٹنے کی رضامندی کا اعلان کیا، توحضرت علی {ع} نے ان کے سفر کے وسائل ان کے اختیار میں دیے اور ان کے ساتھ ۴۰ یا ۷۰ خواتین بھیجدیں-
طبری کہتے ہیں: حضرت علی {ع} نے بارہ ہزار درہم بھی انھیں عطا کئے اور انھیں چند خواتین اور مردوں کے ہمراہ مدینہ روانہ کیا-
مسعودی اس امر کے قائل ہیں کہ حضرت علی {ع} کی طرف سے عبدالرحمن بن ابی بکر کو ماموریت ملی کہ اپنی بہن عائشہ کو قبیلہ عبد قیس و قبیلہ ہمدان کی تیس {۳۰} خواتین کے ہمراہ مدینہ پہنچا دے- یعقوبی اور ابن اعثم نے بھی اپنی تاریخ میں اس خبر کو درج کیا ہے-
یہاں پر جو چیز ہمارے لئے قابل توجہ اور اس کی پیروی کرنا ضروری اور ناگزیر ہے، وہ امام علی {ع} کا جناب عائشہ کے ساتھ برتاو اور انھیں احترام کے ساتھ مدینہ بھیجنا ہے- امام حکم دیتے ہیں کہ ام المومنین کچھ افراد کے ساتھ روانہ ھو جائیں جو سب کے سب نقاب پوش تھے، جناب عائشہ اس حالت سے ناراض ھوگئیں- لیکن جب وہ سب مدینہ پہنچ گئے تو سب نے اپنے چہروں سے نقاب ہٹا دئے اور جناب عائشہ کو معلوم ھوا کہ وہ سب خواتین تھیں اور انھیں یہ بھی معلوم ھوا کہ حضرت علی {ع} نے توقع سے زیادہ پیغمبر {ص} کی بیوی کا احترام کیا تھا-
جناب عائشہ، جنگ جمل کے بعد:
جناب عائشہ، ایک تیزفہم ، وقت شناس اور حساس خاتون تھیں انھوں نے ایک مہربان اورعفوو بخشش کرنے والے مرد سے بخشش کی درخواست کی، جب یہ کہا کہ: اے علی {ع}؛ اب جبکہ ہم پر غلبہ حاصل کرچکے ھو اور قدرت و قوت کے مالک بن گئے ھو اپنی سخاوت سے مجھے بخش دو{ ملکت فاسجح} اس قسم کا کلام جناب عائشہ کے، خطاب پر قدرت کی دلیل ہے- اس کے علاوہ ان سے نقل کیا گیا ہے کہ: " ان یوم الجمل لمعترض فی حلقی" یعنی " جنگ جمل میرے حلق میں ایک ہڈی کے مانند پھنسی ہوئی ہے-
ابن اثیر لکھتے ہیں: ایک دن جناب عائشہ کے پاس جنگ جمل کا ذکر کیا گیا، انھو ں نے پوچھا: کیا لوگوں کو ابھی بھی یہ جنگ یاد ہے؟ کہا گیا: جی ہاں؛ اس کے بعد کہا: کاش کہ میں نے اس جنگ میں شرکت نہ کی ھوتی؛
مورخین، مسروح نامی ایک شخص سے یوں نقل کرتے ہیں: جب جناب عائشہ آیہ شریفہ " وقرن فی بیوتکن" کی تلاوت کرتی تھیں تو اس قدر روتی تھیں کہ ان کا دوپٹا آنسو سے تر ھوتا تھا-
عمرو عاص سے جناب عائشہ کا برتاو:
ایک دن عمروعاص نے جناب عائشہ سے کہا: میں چاہتا تھا کہ جمل میں آپ قتل ھو جاتیں،" انھوں نے پوچھا: کیوں؟ اس نے جواب میں کہا: آپ قتل ھونے کے بعد بہشت میں جاتیں اور ہم آپ کے قتل کو سب سے بڑا بہانہ بنا کر علی {ع} کی جماعت کی سرکوبی کرتے-
عمروعاص کے اس کلام سے معلوم ھوتا ہے کہ بنی امیہ کے دماغ میں کیا ریشہ دوانیاں تھیں اور کس مقصد سے جنگ لڑتے تھے اور اس سے یہ بھی ظاہر ھوتا ہے کہ جنگ جمل کی جماعتوں اور افراد کے درمیان کس قدر اختلافات پائے جاتے تھے-
ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں ایک اور مسئلہ کی طرف اشارہ کرکے نقل کیا ہے کہ: ایک دن عائشہ کے پاس ذوالندبہ کے امیرالمومنین حضرت علی کے ہاتھ قتل کئے جانے کی بات ھوئی- جناب عائشہ نے اس حادثہ کے ایک شاھد سے اس سلسلہ میں ایک رپورٹ مرتب کرکے انھیں بھیجنے کی درخواست کی- راوی کہتا ہے کہ: جب شہادت نامہ کو ہم جناب عائشہ کے پاس لے گئے، انھوں نے اس کا مطالعہ کرنے کے بعد کہا: عمرو عاص پر خدا کی لعنت ھو- وہ دعوی کرتا تھا کہ اس نے ذوالندبہ کو خود مصر میں قتل کیا ہے-
اس داستان کو نقل کرنے کے بعد ابن کثیر کہتے ہیں کہ: اس کے بعد جناب عائشہ نے زبردست گریہ و زاری کی اور تھوڑا سا آرام حاصل کرنے کے بعد کہا:" علی {ع} پر خدا کی رحمت ھو وہ ایک لمحہ کے لئے بھی حق سے جدا نہیں ھوئے اور جو کچھ میرے اور ان کے درمیان واقع ھوا وہ اس مسئلہ کے مانند تھا جو عام طور پر خواتین اور ان کے شوہروں کے خاندان میں واقع ھوتا ہے-"
لیکن یہ سوال پیدا ھوتا ہے کہ عمرو عاص نے کیوں یہ جھوٹا دعوی کیا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ علماء اور مورخین نے ذوالندبہ کی مذمت اور اس کے قاتل کی ستائش میں متعدد روایتیں نقل کی ہیں اور عمرو عاص یہ دعوی کرکے پیغمبر خدا {ص} کی ستائش کو اپنے آپ سے نسبت دینا چاہتا تھا-
جناب عائشہ کی ذاتی خصوصیات:
ذھبی کے قول کے مطابق،جناب عائشہ ایک باھوش، سخنور، سیاست دان اور سخی خاتون تھیں- وہ ایک قوی حافظہ رکھتی تھیں اور انھیں بہت سے اشعار یاد تھے- اس کے علاوہ اپنے زمانے کے علم طب سے بھی آگاہی رکھتی تھیں-
ان کے لباس کے بارے میں کتاب طبقات کے مصنف جناب عائشہ کے قاسم نامی بھتیجے سے نقل کرکے لکھتے ہیں کہ: وہ زرد رنگ کے لباس زیب تن کرتی تھیں اور زرین انگوٹھیاں پہنتی تھیں- عائشہ کی عروہ نامی بھانجی نقل کرتی ہے کہ عائشہ کی ایک ریشمی عبا تھی جسے وہ کبھی کبھی زیب تن کرتی تھیں پھر اس عبا کو انھوں نے عبداللہ بن زبیر کو بخشا-
محمد بن ابی بکر کا بیٹا، قاسم نقل کرتا ہے کہ عائشہ، زرد لباس زیب تن کرکے سونے کے زیورات کے ساتھ محرم ھوتی تھیں-
عبدالرحمن بن قاسم اپنی ماں سے نقل کرتا ہے: میں نے جناب عائشہ کو سرخ رنگ کا لباس زیب تن کئے ہوئے آگ کےمانند دیکھا جبکہ حج کے لئے محرم ھوچکی تھیں- اور تاریخ میں جناب عائشہ کے حالات کے بارے میں اس مضمون کی بکثرت روایتیں نقل کی گئی ہیں-
ان کی سخاوت کے بارے میں، ام ذرہ{ یہ عورت کبھی کبھی جناب عائشہ کے پاس آتی تھی} یوں نقل کرتی ہے:
جناب عائشہ کے لئے دو تھیلیوں میں کافی مال بھیجا گیا- انھوں نے کہا: میرے خیال میں ان تھیلیوں میں اسی[۸۰] ہزار یا ایک لاکھ درہم ھوں گے، اس کے بعد ایک قاب کو منگوایا جبکہ وہ خود روزے سے تھیں، اس کے بعد اس مال کو تقسیم کیا، غروب تک ان کے پاس ایک درہم بھی نہیں بچا تھا، اس کے بعد انھوں نے اپنی کنیز سے کہا: افطار لانا، ان کے لئے تھوڑی سی روٹی اور زیتون کا تیل لایا گیا-
ام ذرہ کہتی ہےکہ: میں نے ان سے کہا کیا آپ اس رقم میں سے کچھ ہمیں نہیں دے سکتیں جو لوگوں میں تقسیم کی، تاکہ ہم بھی اس سے تھوڑا سا گوشت خرید کے افطار کرتے؟ جناب عائشہ نے کہا: مھجے تکلیف میں نہ ڈالو، اگر مجھے یاد دہانی کراتیں تو ضرور ایسا ہی کرتی-
ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ عروہ بنت زبیر کہتی ہے کہ: میں نے ایک دن جناب عائشہ کو دیکھا کہ ۷۰ ہزار درہم لوگوں میں تقسیم کر رہی تھیں جبکہ ان کا اپنا زیب تن کیا ھوا لباس پیوند لگا ہوا تھا- جناب عائشہ کی یہ سب بخشش عبداللہ بن زبیر پر سخت گزری اور اس نے کہا میں انھیں حشیر جانتا ھوں { حشیر یعنی جسے اپنے مال میں تصرف کرنے کا اختیار نہ ھو} تاکہ دوسرے لوگ بھی اپنے مال میں تصرف نہ کرسکیں- البتہ جب جناب عائشہ نے یہ بات سنی توانھوں نے کہا: میں نذر کرتی ھوں کہ مرنے کے دم تک اس کے ساتھ بات نہیں کروں گی-
بعد میں عبداللہ نے کسی کو ثالث قرار دیا لیکن ان کی خالہ نے اپنی بات واپس نہیں لی اور کہا: خدا کی قسم میں ہرگز اس کے لئے اس کام سے پرہیز نہیں کروں گی { ان کی مراد یہ تھی کہ بخشش سے اجتناب نہیں کروں گی اور مال جمع کرنے کا کام نہیں کروں گی}- یہ جدائی دوسال تک جاری رہی ، یہاں تک کہ آخر کار عبداللہ بن زبیر دو افراد کے ہمراہ جناب عائشہ کے پاس گیا اور انھیں اپنی رشتہ داری کا قسم دے کر ان سے بات کرنے کو کہا- کافی اصرار کے بعد انھوں نے ا س سے بات کی-
جناب عائشہ کی وفات:
قابل اعتبار کتاب " بلاغات النساء" میں آیا ہے کہ جناب عائشہ احتضار کے دوران سخت بے چین تھیں ان سے کہا گیا: آپ کیوں اس قدر بے چین اور پریشان ھیں، جبکہ آپ ام المومنین ہیں ؟ جواب میں کہا: بیشک جنگ جمل میرے حلق میں ایک ہڈی کے مانند پھنسی ھوئی ہے-
ذھبی کہتے ہیں:جناب عائشہ نے احتضار کی حالت میں افسوس کے ساتھ کہا: - - - جب میں اس دنیا سے چلی جاوں تو مجھے پیغمبر {ص} کی دوسری بیویوں کے پاس دفن کرنا –
اسی طرح ذھبی نقل کرتے ہیں کہ: وہ {جناب عائشہ} رمضان المبارک کی سترھویں شب کو سنہ آٹھاون{۵۸} ھجری میں نماز وتر کے بعد وفات پاگئیں- انھوں نے حکم دیا تھا کہ انھیں اسی شب میں دفن کیا جائے- مہاجرین و انصار جمع ھوئے، ایک بے مثال اجتماع وجود میں آیا، خرما کی لکڑی میں آگ لگا دی گئی تاکہ لوگوں کے لئے رفت و آمد کا راستہ روشن ھو جائے- راوی کہتا ہے کہ: میں نے اس شب میں مدینہ النبی کی عورتوں کو قبرستان بقیع میں دیکھا کہ ایام عید کے مانند جمع ھوئی تھیں –
مروان کی طرف سے ابو حریرہ شہر مدینہ کا حاکم تھا، اسی نے ام المومنین جناب عائشہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور انھیں پیغمبر اسلام {ص} کی دوسری بیویوں کے پاس سپرد خاک کیا گیا-
وفات کے وقت ان کی عمر {۶۳} سال اور کچھ مہینے تھی-
جناب عائشہ کی روایی اور فقہی شخصیت:
جناب عائشہ سے بہت سی احادیث نقل کی گئی ہیں- اہل سنت کی دو اہم کتابوں، یعنی صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں ان سے دوسو سے زائد احادیث نبوی[ص] نقل کی گئی ہیں- حتی کہ ابن سعد کے کہنے کے مطابق وہ فقہہ اور سیرت النبی کے بارے میں بھی اپنا نظریہ اور فتوی دیتی تھیں- علامہ عسکری لکھتے ہیں کہ: وہ { عائشہ} صحابیوں کی غلطیوں کے بارے میں بھی اشارہ اور تصحیح کرتی تھیں-
ابن سعد کی طبقات میں یوں آیا ہے کہ: " کانت عایشہ و استقلت بالفتوی فی عھد ابی بکر و عمر و عثمان و ھلمہ جرا الی ان ماتت" –" عائشہ، ابو بکر، عمر، اور عثمان کی حکومتوں کے دوران اور اپنی زندگی کے آخری آیام تک تنہا خاتون تھیں جو مسلسل فتوی صادر کرتی تھیں-
عائشہ سے منقول روایتیں، عبادات، معاملات اور سماجی مسائل کے موضوعات کے بارے میں ہیں اور بعض دوسری روایتوں میں انھوں نے خاندانی مسائل، اپنی معیشت اور پیغمبر{ص} کی دوسری بیویوں اور آنحضرت {ص} کے خاندان ،من جملہ آپ {ص} کی بیٹی حضرت زہراء {س} اور آپ {ص} کے نواسوں اور علی {ع} کے ساتھ آپ کے تعلقات کے بارے میں ہیں-
نقل کی گئی روایتیں:
الف: حضرت خدیجہ {س}، حضرت فاطمہ{س} اور حضرت علی بن ابیطالب علیھم السلام کے بارے میں:
۱-" پیغمبر اسلام {ص} ہمیشہ خدیجہ[س] کو یاد فرماتے تھے اور گھر سے باہر نکلنے سے پہلے ان کے بارے میں کچھ فرماتے تھے اور ان کی ستائش کرتے تھے، ایک دن پیغمبر{ص} نے حسب معمول خدیجہ کے بارے میں کچھ بیان فرمایا، میرے وجود میں حسد پیدا ھوا اور میں نے کہا: کیا اس کے علاوہ کچھ اور ہے کہ وہ ایک بوڑھی عورت تھیں اور خداوند متعال نے آپ {ص} کو ان سے بہتر عنایت کی ہے- پیغمبر {ص} یہ سن کر غضبناک ھوئے اور فرمایا : خدا کی قسم مجھے ان سے بہتر کبھی کوئی نہیں ملی ہے اورمیں نے ان سے برتر کوئی جانشین نہیں پایا ہے وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں، جب لوگ میری اور میری دعوت کی مخالفت کرتے تھے، انھوں نے میرے کلام کو قبول کیا اور مجھ پر اعتماد کیا، جب لوگ مجھے اور میرے کلام کوجھٹلاتے تھے، انھوں نے اپنے مال و ثروت سے میری مدد کی جب لوگوں نے مجھے تن تنہا چھوڑ دیا تھا، خداوند متعال نے مجھے ان سے اولاد عطا کی جبکہ ان کے علاوہ میری کسی بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہے- اس وقت جناب عائشہ نے کہا: میں نے آپ {ص} سے عھد و پیمان کیا کہ اس کے بعد کبھی خدیجہ کو برائی سے یاد نہیں کروں گی"-
۲-" میں نے رسول اکرم {ص} سے مخاطب ھوکر کہا: جب فاطمہ {س} آگئیں آپ {ص} نے ان کے ایسے بوسے کئے کہ اپنی پوری زبان ان کے منہ میں ڈال دی، گویا کہ آپ {ص} انھیں شہد کھلانا چاہتے تھے؟ فرمایا: جی ہاں اے عائشہ، جب مجھے آسمان پر لے جایا گیا، جبرئیل نے مجھے بہشت میں داخل کیا، اس کے بعد ایک بہشتی سیب مجھے دیا ،میں نے اسے کھا لیا، اس سے میرے صلب میں ایک نطفہ وجود میں آیا، جب میں زمین پر اترا، میں خدیجہ[س] کے پاس گیا، اور فاطمہ{س} اسی نطفہ سے ہے، وہ حوراء انسیہ ہے، جب بھی میں بہشت کا مشتاق ھوتا ھوں اسے چومتا ھوں-"
۳-" ظہر کے وقت پیغمبر{ص} گھر سے باہر نکلے جبکہ آپ {ص} سیاہ رنگ کی ایک اونی عبا{کساء} اوڑھے ھوئے تھے- اس کے بعد حسن بن علی[ع] آگئے اور ان کو اس عبا کے نیچے داخل کیا، اس کے بعد حسین[ع] داخل ھوئے، اس کے بعد فاطمہ {س} آگئیں اور انھیں بھی عبا کے نیچے داخل کیا، اس کے بعد علی{ع} آگئے اور انھیں بھی عبا کے نیچے داخل کیا اس کے بعد فرمایا:" انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیراً" -
۴- حضرت علی{ع} کے بارے میں جناب عائشہ سے سوال کیا گیا، تو انھوں نے جواب میں کہا:" میں ان کے بارے میں کیا کہہ سکتی ھوں جبکہ وہ رسول اللہ {ص} کے لئے لوگوں میں محبوب ترین شخص تھے؟ میں نے رسول اللہ {ص} کو دیکھا کہ اپنی عبا کو علی، فاطمہ، حسن اور حسین پرڈال کر انھیں جمع کرکے فرمایا: یہ میرے اہل بیت ہیں، خداوند متعال انھیں ہر قسم کی پلیدی سے دور رکھے اور انھیں پاک و منزہ رکھے- ان {عائشہ} سے کہا گیا: پس آپ نے کیوں ان کے خلاف بغاوت کی؟ جواب میں کہا: میں پشیمان ھوں اور وہ میری تقدیر تھی-
۵-عبیداللہ بن موسی نے زکریا سے اور اس نے ابی فراس سے اور اس نے مسروق سے اور مسروق نے جناب عائشہ سے نقل کیا ہے، کہ انھوں {عائشہ} نے کہا: خدا کی قسم، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، فاطمہ کے چلنے اور رسول اللہ {ص} کے چلنے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، جب رسول اللہ {ص} نے اسے دیکھا، تو دو بار فرمایا: خوش آمدید، میری بیٹی فاطمہ؛ اس کے بعد فرمایا: کیا اس پر خوش نہیں ھو کہ تم مومن خواتین کی سردار ھو اور یا قیامت کے دن میری امت کی خواتین کی سردار ھو؟"
۶-جناب عائشہ نے فاطمہ {س} سے کہا:" کیا یہ چیز تمھیں مسرت اور شادمانی نہیں بخشتی کہ میں نے رسول خدا {ص} سے سنا کہ فرماتے تھے: بہشت کی عورتوں کی سردار چار عورتیں ہیں: مریم بنت عمران، فاطمہ بنت محمد، خدیجہ بنت خویلد اور فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم-
۷-جناب عائشہ سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے کہا: رسول اللہ {ص} جب سفر سے لوٹتے تھے،تو فاطمہ کو چومتے تھے اور کہتے تھے: میں اس {فاطمہ} سے بہشت کی خوشبو محسوس کر رہا ھوں"-
۸-جناب عائشہ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ:" رسول خدا {ص} نے فاطمہ سے کہا: جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ مسلمان عورتوں میں سے کوئی عورت اس قدر مصیبت نہیں دیکھے گی، جس قدر تم دیکھو گی، پس تمھارا صبر ان سے کم تر نہیں ھونا چاہئیے،
۹-جناب عائشہ نے کہا:" بیشک میں نے رسول اللہ {ص} کے علاوہ فاطمہ سے راستگو تر کسی کو نہیں پایا ہے-"
۱۰-جناب عائشہ سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے کہا: میں نے فاطمہ کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا، جو کلام و بیان کے لحاظ سے رسول خدا {ص} کے مشابہ ترین ھو- اگر فاطمہ کسی جگہ پر داخل ھوتیں،تو پیغمبر {ص} اپنی جگہ سے اٹھتے تھے اور انھیں چومتے تھے اور انھیں خوش آمدید کہتے تھے اور فاطمہ بھی پیغمبر اکرم {ص} کے ساتھ ایسا ہی برتاو کرتی تھیں"-
۱۱-جناب عائشہ نے کہا:" پیغمبر {ص} کی شدید بیماری کے وقت ہم آپ {ص} کے پاس تھے، اور پورے ھوش و حواس کے ساتھ آپ {ص} کا خیال رکھے ھوئے تھے- جب فاطمہ {س} آگئیں، ایسے چلتی تھیں کہ رسول خدا {ص} کے چلنے سے کوئی فرق نہیں تھا، جب آنحضرت {ص} نے انھیں دیکھا، خوش آمدید کہہ کر فرمایا: میری بیٹی؛ خوش آمدید، اس کے بعد انھیں اپنے پاس بٹھا دیا اور اس کے بعد ان سے ایک راز بیان کیا، اس وقت فاطمہ زہراء{س} نے گریہ و زاری کی- میں نے فاطمہ {س} سے پوچھا: رسول خدا {ص} نے راز کو صرف آپ سے کہا، اس کے باوجود آپ رو رہی ہیں؟ اس کے بعد آنحضرت {ص} نے ان سےایک اور راز بیان فرمایا اور یہ راز فاطمہ{س} کے ہنسنے کا سبب بنا- جناب عائشہ نے کہا: میں نے فاطمہ سے کہا: میں آپ کو اس حق کی قسم دیتی ھوں جو میں آپ پر رکھتی ھوں، مجھے بتایئے کہ رسول خدا {ص} نے آپ سے کیا کہا؟ فاطمہ {س} نے جواب میں کہا: میں رسول خدا {ص} کے راز کو کسی صورت میں فاش نہیں کروں گی- جناب عائشہ نے کہا: رسول خدا {ص} نے جب وفات پائی تو میں نے فاطمہ {س} سے راز کے بارے میں پوچھا، فاطمہ {س} نے کہا: اب میں آپ کو بتاتی ھوں- میرے رونے کی وجہ یہ تھی کہ پیغمبر {ص} نے مجھ سے کہا کہ جبرئیل ہر سال ایک بار مجھ پر قرآن نازل کرتے تھے، لیکن اس سال دو بار نازل کیا کہ یہ میری موت کے نزدیک ھونے کی نشانی ہے، اس لئے میں نے گریہ و زاری کی- اس کے بعد آپ {ص} نے فرمایا: صبر و تقوی کا دامن پکڑنا، کیا تم اس پر راضی نہیں ھو کہ اس صبر کے نتیجہ میں میری امت کی خواتین کی سردار ھوگی؟ اس لئے مجھے ہنسی آگئی"-
۱۲-جناب عائشہ نے کہا:" فاطمہ داخل ھوئیں، اس طرح کہ ان کے چلنے اور رسول خدا {ص} کے چلنے کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا اور پیغمبر اکرم {ص} نے فرمایا: میری بیٹی؛ خوش آمدید، اس کے بعد ان سے کوئی بات کہی کہ پہلے انھوں {فاطمہ} نے گریہ و زاری کی اور اس کے بعد ہنسنے لگیں- جب ان سے گریہ اور ہنسنے کی وجہ پو چھی گئی تو فرمایا: میرا رونا پیغمبر {ص} کی رحلت کی وجہ سے تھا اور ہنسنا اس لئے تھا کہ میں پہلی شخص ھوں جو پیغمبر {ص} سے ملحق ھوں گی"-
۱۳-جناب عائشہ نے پیغمبر {ص} کا یہ قول نقل کیاہے:" فاطمہ میرے بدن کا ٹکڑا ہے، جو اسے اذیت و آزار پہنچا ئے اس نے مجھے اذیت پہنچا ئی ہے"-
۱۴-جناب عائشہ نے کہا:" میں نے رسول خدا {ص} سے سنا ہے کہ آپ {ص} فرماتے تھے: قیامت کے دن ایک آواز بلند کرنے والا صدا بلند کرے گا: اے مخلوقات{ جنس و انس} اپنے سروں کو نیچے رکھو کہ فاطمہ بنت محمد{ص} پل صراط سے عبور کریں گیں-
۱۵-جناب عائشہ نے کہا:" فاطمہ، پیغمبر {ص} کے لئے محبوب ترین خاتون تھیں اور ان کے شوہر علی {ع}آپ {ص} کے لئے محبوب ترین مرد تھے"-
۱۶-جناب عائشہ نے کہا:" رسول خدا {ص} نے فرمایا ہے کہ: حق علی[ع] کے ساتھ ہے اور علی حق کے ساتھ ہیں اور یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ھوں گے، یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملحق ھوں گے"-
۱۷-"جناب عائشہ نے کہا: میں نے دیکھا کہ ابو بکر، علی کے چہرے کو غور سے دیکھ رہے ہیں، میں نے کہا بابا؛ میں مشاھدہ کر رہی ھوں کہ آپ علی کے چہرے کو غور سے دیکھ رہے ہیں؟ انھوں نے جواب میں کہا: بیٹی؛ میں نے سنا ہے کہ رسول خدا {ص} فرماتے تھے: علی کے چہرے پر نگاہ کرنا عبادت ہے"-
۱۸-حافظ بن حجر عسقلانی اپنی کتاب " الاصابہ" کی جلد ۸ کے ص ۱۸۳پر نقل کرتے ہیں کہ لیلی غفاری نے کہا: میں پیغمبر {ص} کے ساتھ جنگوں میں شرکت کرتی تھی اور زخمیوں کا علاج و معالجہ کرتی تھی- جب حضرت علی، بصرہ کی طرف روانہ ھوئے، میں بھی ان کے ساتھ گئی، جب میں نے جناب عائشہ کو دیکھا، میں نے ان کے پاس جاکر ان سے پوچھا: کیا آپ نے پیغمبر {ص} سے حضرت علی کے بارے میں کوئی کلام سنا ہے؟ انھوں نے جواب میں کہا: جی ہاں، ایک دن رسول خدا {ص} میرے پاس تھے، وہ {علی} داخل ھوئے اور میرے اور پیغمبر {ص} کے درمیان بیٹھ گئے- میں نے کہا: اس سے وسیع تر کوئی جگہ آپ کو نہیں ملی ، جہاں پر بیٹھتے؟ رسول خدا {ص} نے فرمایا: میرے بھائی کو مجھ پر چھوڑ دو، بیشک وہ پہلے شخص ہیں جو مجھ پر ایمان لایے ہیں اور پہلے شخص ہیں جو قیامت کے دن میرے ساتھ ملاقات کریں گے"-
۱۹-جناب عائشہ نے کہا:" میں پیغمبر{ص} کے ساتھ بیٹھی تھیں کہ علی داخل ھوئے، اس کے بعد آنحضرت {ص} نے فرمایا: اے عائشہ؛ یہ عربوں کے سردار ہیں-میں نے کہا: یا رسول اللہ؛ کیا آپ عربوں کے سردار نہیں ہیں؟ فرمایا: میں آدم {ع} کی اولاد کا سردار ھوں اور وہ عربوں کے سردار ہیں"-
۲۰-" فضائل السمعانی" میں عائشہ سے نقل کیا گیا ہے کہ: " جب کبھی فاطمہ {س} رسول خدا {ص} کے پاس تشریف لاتی تھیں، آنحضرت {ص} اپنی جگہ سے اٹھ کر ان {فاطمہ} کے سر کو چومتے تھے اور انھیں اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے، اور جب کبھی ان کے والد بھی ان کے پاس جاتے تھے، وہ { فاطمہ} آپ {ص} کا استقبال کرتی تھیں، اور ایک دوسرے کے گلے ملتے تھے اور ایک ساتھ بیٹھتے تھے"-
۲۱-جناب عائشہ نے کہا: بیشک پیغمبر{ ص } نے فرمایا ہے:" میرے بہترین بھائی علی ہیں اور بہترین چچا حمزہ ہیں"-
۲۲-جناب عائشہ سے نقل کیا گیا ہے کہ: پیغمبر {ص} نے فرمایا ہے: سبقت حاصل کرنے والے تین افراد ہیں: موسی{ع} کی طرف سبقت لینے والے یوشع بن نون ہیں، عیسی {ع} کی طرف سبقت لینے والے صاحب یاسین ہیں اور محمد {ص} کی طرف سبقت لینے والے علی بن ابیطالب ہیں"-
۲۳-جناب عائشہ نے کہا: ایک دن میرے سامنے فاطمہ {س} نے رسول خدا {ص} کی خدمت میں عرض کی: میں تجھ پر قربان ھو جاوں یا رسول اللہ؛ آپ {ص} نے میرے بارے میں کیا دیکھا ہے؟ آنحضرت {ص} نے جواب میں فرمایا: تم تمام دنیا کی عورتوں میں برترین خاتون ھو- کہا: یا رسول اللہ؛ میرے چچازاد بھائی کے بارے میں؟ فرمایا: خداوند متعال کی مخلوقات میں سے کوئی ان کے ساتھ موازنہ نہیں کرسکتا ہے-
۲۴- جناب عائشہ نے کہا:" علی بن ابیطالب آپ لوگوں میں سنت کے بارے میں دانا ترین شخص ہیں"-
۲۵-جناب عائشہ نے کہا:" پیغمبر{ص} فاطمہ {س} کو کافی چومتے تھے"-
۲۶-جناب عائشہ سے نقل کیا گیا ہے کہ:" خداوند متعال نے کسی کو پیدا نہیں کیا ہے، جو رسول اللہ {ص} کے لئے علی بن ابیطالب سے محبوب تر ھو"-
۲۷-جناب عائشہ نے کہا:" ایک دن علی بن ابیطالب داخل ھوئے، اس کے بعد پیغمبر {ص} نے فرمایا: یہ مسلمانوں کے سپہ سالار ہیں- میں نے کہا: یا رسول اللہ؛ کیا آپ {ص} مسلمانوں کے سپہ و سالار نہیں ہیں؟ فرمایا: میں خاتم الانبیاء اور خداوند متعال کا رسول ھوں"-
ب- مختلف موضوعات کے بارے میں:
۱" میں نے سنا ہے کہ رسول خدا {ص} فرماتے تھے: جو شخص جمعہ کے دن اپنے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کی قبر کی زیارت کرے اور سورہ یس پڑھے، خداوند متعال اس کے حروف کی تعداد کے برابر اسے بخش دے گا"- { الطبرانی، ابن عدی، الدیلمی}
۲-ایک شخص ایک بوڑھے کے ہمراہ پیغمبر {ص} کی خدمت میں حاضر ھوا، اس کے بعد آنحضرت {ص} نے اس سے سوال کیا: تیرے ساتھ یہ کون ہے؟ اس نے کہا: میرا باپ ہے، فرمایا: پس، اس سے آگے نہ چلنا، اس سے پہلے نہ بیٹھنا، اسے نام سے نہ پکارنا، تم ایسا کوئی کام انجام نہ دینا، جو اس امر کا سبب بنے کہ کوئی اسے دشنام دے"-{ الھیثمی}
۳-" صلہ رحم، خوش اخلاقی اور اچھا ہمسایہ ھونا، زمین کو آباد اور عمر کو طولانی کرنے کا سبب بنتے ہیں"-{ مسند احمد حنبل و بیہقی}
۴-میں نے پیغمبر اکرم {ص} سے پوچھا:" عورت پر کون زیادہ حق رکھتا ہے؟ فرمایا: اس کا شوہر، میں نے کہا: مرد پر کون زیادہ حق رکھتا ہے؟ فرمایا: اس کی ماں"{ الحاکم}
۵-پیغمبر {ص} نے فرمایا: اے عائشہ؛ اگر تم کسی گناہ کی مرتکب ھوئی، تو خدا سے توبہ کرنا، بیشک گناہ سے توبہ کرنا وہی پشیمانی اور استغفار ہے"{ احمد، مسلم بخاری}
۶-پیغمبر {ص} نے فرمایا:" ایک یا دو بار دودھ پلانا، محرمیت کا سبب نہیں بنتا ہے"{ ابن ماجہ، مسلم، ابوداود، نسائی، احمد، الدار قطنی}
۷-" میں نے پیغمبر {ص} سے سوال کا: ہمسائیگی کی حد کیا ہے؟ فرمایا: چالیس مکان"-{ البیہقی}
۸-" رسول خدا {ص} نے فرمایا:" وہ شخص مومن نہیں ہے، جو خود سیر ھو اور اس کا ہمسایہ بھوکا ھو"- {المنذری}
۹-" میں نے پیغمبر {ص} سے سنا ہے کہ فرماتے تھے: " کسی حاجتمند مسکین کو وہ چیز نہ کھلاو جو خود نہیں کھاتے ھو"- {مسند احمد}
۱۰-پیغمبر {ص} نے فرمایا: جو شخص کسی زمین کو آباد کرے، وہ دوسروں کی بہ نسبت اس زمین کے بارے میں زیادہ حق رکھتا ہے اور وہ زمین اس کے علاوہ کسی اور کا مال نہیں ہے"- {بخاری، نسائی، احمد}
۱۱-پیغمبر[ص] نے فرمایا:" ازدواج میری سنت اور طریقہ کار ہے، جو میری سنت پر عمل نہ کرے وہ مجھ سے نہیں ہے- ازدواج کرو، تو بیشک میں تمھارے ہمراہ دوسری امتوں پر برتری حاصل کروں گا اور اگر تمھارے پاس مال ھوتو ازدواج کرو لیکن اگر مالی استطاعت نہیں رکھتے ھو تو، روزہ رکھو کیونکہ روزہ ڈھال اور محافظ ہے"-{ ابن ماجہ، دارمی}
۱۲-پیغمبر اکرم {ص} نے فرمایا: خداوند متعال نیمہ شعبان { ۱۵ شعبان} کی رات کو اپنے بندوں پر اپنی عنایت کی نظر ڈالتا ہے اور توبہ کرنے والوں کو بخشتا ہے اور جو رحمت الہی کے طالب ھوتے ہیں انھیں اپنی رحمت سے نوازتا ہے ، لیکن بغض و کینہ رکھنے والوں کو اپنے سے دور رکھتا ہے"-
۱۳-جناب عائشہ سے کہا گیا کہ: ایک عورت نعلین {مردوں کے جوتے} استعمال کرتی ہے- انھوں نے کہا: رسول خدا {ص} ان عورتوں پر لعنت بھیجتے ہیں جو مردوں سے شباہت رکھتی ہیں"- { ابو داود}
۱۴-رسول خدا {ص} نے فرمایا: " میری امت کی سب سے بہتر عورتیں، خوش اخلاق اور کم مہر والی عورتیں ہیں-"{ ابن عدی}
۱۵-رسول خدا{ص} نے فرمایا:" تین چیزیں آنکھوں کو جلا بخشتی ہیں: سبزی، جاری پانی اور نیک صورت پر نظر ڈالنا"- {ابو نعیم}
۱۶-پیغمبر {ص} نے فرمایا: عفت کی رعایت کرو تاکہ تمھاری عورتیں باشرم اور پاک دامن بن جائیں اور اپنے باپ سے نیکی کرو تاکہ تمھاری اولاد تم سے نیکی کریں- اگر تمھارے کسی مسلمان بھائی نے اپنی غلطی کے بارے میں معافی مانگی، اور تم اسے قبول نہ کرو، تو تم حوض کوثر پر مجھ سے ملحق نہیں ھوگے'-{ الطبرانی}
۱۷-رسول خدا {ص} نے فرمایا: خداوند متعال کے پاس محبوب ترین کام، مسلسل اور پیوستہ کام ہے، حتی کہ اگرچہ چھوٹا ہی ھو"-
۱۸-پیغمبر {ص} نے فرمایا: خداوند متعال فرماتا ہے:" بیشک اپنے بندہ کے بارے میں میرا ایک عہد و پیمان ہے کہ اگر وہ وقت پر نماز ادا کرے، میں اسے عذاب نہیں کروں گا اور حساب کے بغیر اسے بہشت میں داخل کروں گا"- { الحاکم}
۱۹-پیغمبر {ص} نے فرمایا:" بیشک خداوند متعال نے اپنے بندوں پر پانچ وقت کی نماز واجب قرار دی ہے"-{ الطبرانی}
۲۰-سعید بن ہشام، جناب عائشہ سے اور وہ پیغمبر اکرم {ص} سے نقل کرتی ہیں کہ آنحضرت {ص} نے فرمایا:" صبح کی دورکعت نماز، پوری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، اس سے برتر ہے" { مسلم، ترمذی و نسائی}-
حواشی:
جناب جویریہ کی سیرت
غزوہ بنی المصطلق:
سنہ ۶ھجری، شعبان کے مہینہ میں، مدینہ میں یہ خبر پہنچی کہ قبیلہ بنی المصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار، مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے اسلحہ اور جنگجوافراد جمع کر رہا ہے- پیغمبر اسلام {ص} نے اس خبر کو سننے کے بعد انھیں اپنی ہی سر زمین پر کچل کے رکھ دینے کا فیصلہ کیا، اس لئے رسول خدا {ص} اسلام کے لشکر کے ساتھ ان کی طرف روانہ ھوئے اور " قدیہ" کے اطراف میں " مریسیع" کے مقام پر ان کے علاقہ کے ایک چشمہ کے پاس ان سے متصادم ھوئے- سب سے پہلے آنحضرت {ص} نے انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دینے کا حکم دیا، لیکن انھوں نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا - اس لئے جنگ چھڑ گئی- اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح و نصرت حاصل ھوئی اور بہت سارا مال اور اسراء مال غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ آگئے- اس جنگ کا مال غنیمت دوہزار اونٹوں، پانچ ہزار بھیڑ بکریوں اور اسراء کے عنوان سے دوسو گھرانوں پر مشتمل تھا-
اسیروں میں قبیلہ کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی بھی تھی- ان کے باپ کا پورا نام حارث بن ابی ضرار بن حبیب بن عابد بن مالک بن المصطلق بن سعید بن عمرو بن ربیعہ بن حارثہ بن خراعہ تھا-
جنگ چھڑنے کا سبب:
قبیلہ بنی المصطلق، مدینہ منورہ سے پانچ پڑاو کی دوری پر ساکن تھے- انھوں نے دوسرے عرب قبائل کی مدد سے ایک لشکر آمادہ کیا تھا، تاکہ بے خبری میں مدینہ پر حملہ کریں- پیغمبر اسلام {ص} اس موضوع کے بارے میں مطلع ھوئے اور " برید" نامی ایک شخص کو مزید تحقیق کے لئے مذکورہ قبیلہ کی سرزمین کی طرف روانہ کیا- اس شخص نے بھیس بدل کر مذکورہ قبیلہ کے سردار سے رابطہ بر قرار کیا اور حالات سے آگاہ ھوا- اس کے بعد مدینہ لوٹ کر آنحضرت {ص} کے سامنے اس رپورٹ کی تائید کی- اس نے پیغمبر اسلام {ص} کے لئے ایک مفید اطلاع لائی تھی- اس کے مقابلے میں قبیلہ بنی المصطلق کے جاسوس مسلمانوں کے ہاتھوں پکڑے گئے اور اس طرح وہ مسلمانوں کے بارے میں کسی قسم کی اطلاع حاصل نہ کرسکے- پیغمبر اسلام {ص} نے پیش قدم ھوتے ھوئے تاخیر کئے بغیر ان پر حملہ کیا- مسلمانوں کی جاں نثاری اور عرب قبائل کے دلوں میں مسلمانوں کے بارے میں پیدا ھوا رعب و دبدبہ اس امر کا سبب بنا کہ ایک مختصر جنگ کے بعد دشمن کے دس افراد قتل ہونے کے مقابلے میں مسلمانوں کے صرف ایک سپاہی کے شہید ھونے کے بعد دشمن کا لشکر تتر بتر ھوگیا اور ان کی شکست و ناکامی کے بعد اس جنگ میں مسلمانوں کو کافی مال، غنیمت کے طور پر ملا اور دشمن کی عورتیں اسیر ھوئیں-
مسلمانوں کی جنگ کے دلائل:
سنہ ۶ھجری میں مسلمانوں کی فوجی طاقت نمایاں اور قابل توجہ تھی، یہاں تک کہ مسلمانوں کی مخصوص فوجی ٹولیاں آسانی کے ساتھ مکہ کے قریب جاکر لوٹ سکتی تھیں، لیکن مسلمانوں کی یہ فوجی طاقت مختلف قبائل کی سرزمینوں کو فتح کرنے اور ان کے اموال پر قبضہ کرنے کے لئے نہیں تھی- اگر مشرکین مسلمانوں کی آزادی کو سلب نہ کرتے اور تبلیغ کے لئے ماحول کو آزاد رکھتے، تو پیغمبر اسلام {ص} ہرگز تلوار ہاتھ میں نہیں لیتے، لیکن چونکہ مسلمانوں اور ان کے تبلیغی گروھوں کو دشمن کی طرف سے ہمیشہ خطرہ لاحق تھا، اس لئے پیغمبر اسلام {ص} عقل کے حکم سے مجبور تھے تاکہ مسلمانوں کے دفاعی لشکر کو تقویت بخشیں-
ھجرت کے چھٹے سال، بلکہ پیغمبر اسلام {ص} کی زندگی کے آخری ایام تک ان جنگوں کے واقع ھونے کے حقیقی عوامل، مندرجہ ذیل امور میں سے تھے:
الف} مشرکوں کے بزدلانہ حملوں کا جواب دینا، جیسے: جنگ بدر، جنگ احد، اور جنگ خندق-
ب} ظالموں کو تنبیہ کرنا، جو مسلمانوں یا ان کے تبلیغی گروہوں کے خلاف بیابانوں میں حملہ کرتے تھے، یا عہد شکنی کرکے اسلام کے لئے خطرہ بن چکے تھے، جیسے: یہودیوں کے تین قبیلوں اور بنی الحیان سے جنگ-
ج} مختلف قبائل کے اسلحہ و جنگجوجمع کرکے مدینہ پر حملہ کرنے کے منصوبے کو ناکام بنانا-
جناب جویریہ:
جناب جویریہ{ ماضی میں ۶۷۰ یا ۶۷۷ء میں} قبیلہ خزاعہ کے رئیس کی بیٹی تھیں- جناب جویریہ کا باپ حارس، قبیلہ بنی مصطلق کا رئیس تھا- مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شکست کھانے کے بعد اس کا مال مسلمانوں کے ہاتھ لگ گیا اور ان کے زن و مرد اسیر بن گئے- ان اسیروں میں حارث کی بیٹی " برہ" بھی تھیں کہ بعد میں ان کا نام " جویریہ" رکھا گیا- وہ نافع بن صفوان کی بیوی تھیں، جو ان کا چچیرا بھائی تھا اور اس جنگ کے مقتولین میں شامل تھا-
مال غنیمت تقسیم کرنے کے دوان، جناب " جویریہ" ثابت بن قیس انصاری اوران کے چچیرے بھائی کے حصہ میں آگئیں- انھوں نے ان سے یہ طے کیا کہ وہ سات مثقال سونا ادا کرکے آزاد ھوسکتی ہیں- اس زمانہ میں اسراء فدیہ ادا کرکے آزاد ھوسکتے تھے-
ثابت بن قیس انصاری نے " برہ" کے لئے معمول سے چند گناہ زیادہ فدیہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا- چونکہ وہ اس قدر فدیہ ادا نہیں کرسکتی تھیں، اس لئے مدد کی درخواست کرنے کے لئے حضرت علی {ع} کے توسط سے پیغمبر اسلام {ص} کی خدمت میں حاضر ھوئیں-
کچھ واقعات رونما ھونے کے پیش نظر، کہ بعد میں بیان کئے جائیں گے، سر انجام پیغمبر اسلام {ص} نے باغیوں کے سردار کی بیٹی کے ساتھ ازدواج کی اور اس ازدواج کے نتیجہ میں پیغمبر اسلام {ص} اور اس قبیلہ کے درمیان اٹوٹ انگ پیدا ھوا اور بہت سی عورتیں جو اسیر ھوئی تھیں، اس رشتہ کی وجہ سے قید و شرط کے بغیر آزاد ھوئیں- اس ازدواج کی برکتوں میں سے ایک سو اسیر عورتوں کی آزادی بھی تھی-
جناب عائشہ سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے فرمایا ہے:" میں کسی ایسی عورت کو نہیں پہنچاتی ھوں، جو " جویریہ" کے مانند اپنے قبیلہ کے لئے بابرکت ھو"- قبیلہ بنی مصطلق نے ایمان لایا اور الہی نعمتوں سے مالامال ھوگئے اور جناب جویریہ رسول اللہ {ص} کے گھر گئیں- ان کا گھر امہات المومنین جناب ام سلمہ، جناب عائشہ اور جناب حفصہ کے گھر کے قریب تھا-
مورخین کی روایت:
ام المومنین جناب جویریہ کے اسیر ھونے اور پیغمبر اسلام {ص}کی خدمت میں آنے تک مورخین اور سیرت لکھنے والوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ہے اور سب اس قول میں متفق ہیں اور اس واقعہ کے رونما ھونے کے بارے میں سبوں نے اشارہ کیا ہے-
واقعہ کی کیفیت:
آنحضرت {ص} نے جناب جویریہ کو اپنے لئے منتخب کیا اور اسراء اور غنائم کو مسلمانوں میں تقسیم کرنے کے بعد مدینہ لوٹے- کچھ مدت بعد، جناب جویریہ کے باپ " حارث" اپنی بیٹی کا فدیہ ادا کرنے کے لئے کئی اونٹوں کو اپنے ساتھ لے کر مدینہ کی طرف روانہ ھوا- راستے میں ان انٹوں میں سے دو انٹوں کے بارے میں اسے لالچ پیدا ھوئی، اس لئے ان دو اونٹوں کواس نے علاقہ عقیق میں چھپا کے رکھ دیا- اور باقی اونٹوں کو لے کر رسول خدا {ص} کی خدمت میں پہنچا اور اونٹوں کو فدیہ کے طور پر پیش کرنے کے بعد اپنی بیٹی کی رہائی کی درخواست کرتے ھوئے کہا:" یا رسول اللہ {ص}؛ میری بیٹی کو اسیر بنا کے نہ رکھئے کیونکہ وہ ایک بلند مرتبہ اور عظمت والی بیٹی ہیں"-
آنحضرت {ص} نے فرمایا:" پس وہ دو اونٹ کہاں ہیں جنھیں تم نے فلاں شعب میں چھپاکے رکھا ہے"- رسول اللہ {ص} کا یہ کلام سننے کے بعد حارث اور اس کے بیٹے نے اسلام قبول کیا اس کے بعد رسول خدا {ص} نے جناب جویریہ کو آنحضرت {ص} کے پاس رہنے یا اپنے باپ کے پاس جانے کا اختیار بخشا- حارث نے کہا: آپ {ص} نے ایک عادلانہ تجویز پیش کی ہے، اس کے بعد جناب جویریہ کے پاس جاکر کہا:" بیٹی؛ یہاں رہ کر اپنے قبیلہ کو ذلیل نہ کرنا "- جناب جویریہ نے جواب میں کہا:" میں نے خدا اور اس کے رسول {ص} کو منتخب کیا ہے"- یہ جواب سن کر حارث نے کہا:" لعنت ھو تم پر، جو چاھو وہی کرو"- اس کے بعد رسول خدا {ص} نے جویریہ کو آزاد کرکے اپنی بیویوں کے زمرے میں قرار دیا-
جناب جویریہ پیغمبر اسلام {ص} کی پہلی بیوی تھیں، جو قبیلہ قریش سے تعلق نہیں رکھتی تھیں-
جناب عائشہ کہتی ہیں:" لوگوں کو جب یہ خبر ملی کہ آنحضرت {ص} نے ان { جویریہ} سے ازدواج کرکے قبیلہ مصطلق کے داماد بن گئے ہیں، تو غنیمت میں حاصل کئے ھوئے اسیروں کو آزاد کیا اور اس طرح بنی مصطلق کے سو گھرانے آزاد ھوئے- اس لحاظ سے میں کسی ایسی عورت کو نہیں پہنچاتی ھوں، جو جویریہ کے مانند اپنے قبیلہ کے لئے خیر و برکت لانے والی ھو"-
جویریہ کا مہر:
مریسیع سے واپس لوٹنے پر آنحضرت[ص] نے جویریہ کو انصار میں سے ایک شخص کے پاس امانت کے طور پر رکھا اور ا سے حکم دیا کہ ان کی حفاظت کریں- اور اس کے بعد مدینہ چلے گئے- ان کا مہر ان کی آزادی، ایک قول کے مطابق چالیس اسیروں کی آزادی یا بنی مصطلق کے تمام اسیروں کی آزادی قرار دیا گیا تھا-
لیکن خود جناب جویریہ اس سلسلہ میں فرماتی ہیں:" جب آنحضرت {ص} نے مجھے آزاد کیااور اپنے عقد میں قرار دیا، خدا کی قسم میں نے اس کے بعد ان کے سامنے اپنے قبیلہ اور رشتہ داروں کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی- یہ خود مسلمان تھے کہ جنھوں نے انھیں آزاد کیا- ایک لڑکی، جو میری چچیری بہن تھی، نے میرے پاس آکر مجھے ان کی آزادی کی خبر دیدی، اور میں نے خداوند متعال کا شکر بجا لایا"-
کہا گیا ہے کہ آنحضرت {ص} نے جویریہ کا مہر چارسو درہم مقرر فرمایا اور ان کے نام کو "برہ" سے " جویریہ" تبدیل کیا- کیونکہ فرمایا کہ" برہ" نیک نام کے معنی میں، ایک قسم کی خود ستائش ہے باوجودیکہ یہ نام اس زمانہ میں مشہور تھا- آنحضرت {ص} نے انھیں پردہ کرنے کا حکم دیا اور اپنی دوسری بیویوں کے مانند ان کے لئے بھی حجاب معین فرمایا-
نام تبدیل کرکے جویریہ رکھنے کا سبب:
ہم ان کا نام بدلنے کا سبب نہین جانتے ہیں- رسول خدا {ص} نے اپنی بیویوں میں سے بعض کے نام تبدیل فرمائے ہیں، جیسے زینب بنت جحش، ام سلمہ، میمونہ اور جویریہ- لیکن اپنی بعض بیویوں کے نام تبدیل نہیں فرمائے ہیں جیسے؛ برہ بنت ابی نجوا اور برہ بنت سفیان وغیرہ-
ازدواج سے رحلت تک:
ام المومنین جناب جویریہ نے رسول خدا {ص} کے ساتھ پانچ سال زندگی کی، لیکن آنحضرت {ص} سے ان کی کوئی اولاد پیدا نہیں ھوئی- اور سرانجام ربیع الاول سنہ ۵۶ ھجری میں ،اور ایک روایت کے مطابق سنہ ۵۰ ھجری میں مدینہ منورہ میں وفات پائی، ان کے جنازہ کو قبرستان بقیع میں لے جا کر سپرد خاک کیا گیا- کہا گیا ہے کہ، مدینہ کے اس وقت کے حاکم مروان بن حکم نے ابو حاتم حیان کے ہمراہ ان کی نماز جنازہ پڑھائی-
جناب جویریہ ایک متقی اور پرہیزگار خاتون تھیں کہ اکثر دنوں میں روزہ رکھتی تھں اور شب عبادتوں میں گزارتی تھیں- ان کے تقوی کی توصیف میں کئی روایتیں نقل کی گئی ہیں کہ پیغمبر اسلام[ص] کی شریک حیات بننے کے بعد ان کے بلند مقام و اخلاص کی گواہ ہیں-
ذبیح اللہ محلاتی اپنی کتاب" ریاحین الشریعہ" میں لکھتے ہیں کہ جناب جویریہ ایک شیرین زبان اور فصیح بیان خاتون تھیں-
جناب جویریہ نے رسول خدا {ص} سے کئی احادیث نقل کی ہیں جنھیں ابن عباس، ابن عمر، عبید بن سباق اور ان کے بھتیجے اور دوسروں نے نقل کیا ہے- شیخ طوسی نے اپنی کتاب " رجال" میں انھیں اصحاب میں شمار کیا ہے-
جناب جویریہ ایک عالمہ و محدثہ خاتون تھیں اور آنحضرت {ص} کے بعد ۳۹ سال تک زندہ تھیں-
ترتیب و پیشکش: مریم مصدری
حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا

جبرائیل کی بشارت:
"حضرت فاطمہ زہرا (ع) کی ولادت کے وقت رسول خدا (ص) نے جناب خدیجہ سے فرمایا : جبرائیل نے مجھے بشارت دی ہے کہ ہمارا یہ پیدا ہونے والا فرزند لڑکی ہے ، اور تمام آئمہ معصومین(ع) اسی کی نسل سے ہوں گے"
ولادت
حضرت فاطمہ زھرا(ع) کی تاریخ ولادت کے سلسلہ میں علماء اسلام کے درمیان اختیاف ہے۔ لیکن اہل بیت عصمت و طہارت کی روایات کی بنیاد پر آپ کی ولادت بعثت کے پانچویں سال ۲۰ جمادی الثانی، بروز جمعہ مکہ معظمہ میں ھوئی۔
بچپن اور تربیت
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پانچ برس تک اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبری کے زیر سایہ رہیں اور جب بعثت کے دسویں برس خدیجۃ الکبریٰ علیہا السّلام کا انتقال ہو گیا ماں کی اغوش سے جدائی کے بعد ان کا گہوارہ تربیت صرف باپ کا سایہ رحمت تھا اور پیغمبر اسلام کی اخلاقی تربیت کا آفتاب تھا جس کی شعاعیں براه راست اس بے نظیر گوہر کی آب وتاب میں اضافہ کر رہی تھیں .
جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کو اپنے بچپن میں بہت سے ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پانچ سال کی عمر میں سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا ۔ اب باپ کے زیر سایہ زندگی شروع ہوئی تو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے رسول کو دی جانے والی اذیتیں سامنے تھیں ۔ کبھی اپنے بابا کے جسم مبارک کو پتھرون سے لہو لہان دیکھتیں تو کبھی سنتی کے مشرکوں نے بابا کے سر پر کوڑا ڈال دیا۔ کبھی سنتیں کہ دشمن بابا کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں ۔ مگر اس کم سنی کے عالم میں بھی سیّدہ عالم نہ ڈریں نہ سہمیں نہ گھبرائیں بلکہ اس ننھی سی عمر میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی مددگار بنی رہیں۔
نام ، القاب
نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا، سیدۃ النساء العلمین، راضیۃ، مرضیۃ، شافعۃ، صدیقہ، طاھرہ، زکیہ، خیر النساء اور بتول ہیں۔
کنیت
آپ کی مشہور کنیت ام الآئمۃ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ھے، یعنی اپنے باپ کی ماں، یہ لقب اس بات کا ترجمان ھے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاھتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں ۔
پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کو ام ابیھا کا لقب اس لئے دیا . کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ھیں یعنی جڑ اور بنیاد ۔ لھذا اس لقب( ام ابیھا) کا ایک مطلب نبوت اور ولایت کی بنیاد اور مبدا بھی ہے۔ کیونکر یہ آپ ھی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ ٴ امامت اور ولایت نے رشد پایا، جس نے نبوت کو نابودی اور نبی خدا کو ابتریت کے طعنہ سے بچایا ۔
آپ کےوالد ماجد ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی(ص) اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ بنت خولد ہیں۔ ھم اس باپ کی تعریف میں کیا کھیں جو ختم المرسلین، حبیب خدا اور منجی بشریت ھو ؟ کیا لکھیں اس باپ کی تعریف میں جسکے تمام اوصاف و کمالات لکھنے سے قلم عاجز ہو؟ فصحاء و بلغاء عالم، جس کے محاسن کی توصیف سے ششدر ہوں؟ اور آپ کی والدہ ماجدہ، جناب خدیجہ بنت خویلد جو قبل از اسلام قریش کی سب سے زیادہ باعفت اور نیک خاتون تھیں ۔ وہ عالم اسلام کی سب سے پھلی خاتون تھیں جو خورشید اسلام کے طلوع کے بعد حضرت محمد مصطفی(ص) پر ایمان لائیں اور اپنا تمام مال دنیا اسلام کو پروان چڑھانے کےلئے اپنے شوھر کے اختیار میں دے دیا ۔ تاریخ اسلام، حضرت خدیجہ(س) کی پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ وفاداری اور جان و مال کی فداکاری کو ھرگز نھیں بھلا سکتی۔ جیسا کہ خود پیغمبر اسلام (ص) کے کردار سے ظاھر ھوتا ھے کہ جب تک آپ زندہ تھیں کوئی دوسری شادی نھیں کی اور ھمیشہ آپ کی عظمت کا قصیدہ پڑھا، جناب عائشہ زوجہ پیغمبراكرم (ص) فرماتی ھیں :
" ازواج رسول(ص) میں کوئی بھی حضرت خدیجہ کے مقام و احترام تک نھیں پہنچ پائی ۔ پیغمبر اسلام(ص) ھمیشہ انکا ذکر خیر کیا کرتے تھے اور اتنا احترام کہ گویا ازواج میں سے کوئی بھی ان جیسی نھیں تھی ۔"پھر عائشہ کھتی ھیں : میں نےایک دن پیغمبر اسلام(ص) سے کہا :
" وہ محض ایک بیوہ عورت تھیں" تو یہ سن کر پیغمبر اسلام(ص) اس قدر ناراض ھوئے کہ آپ کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور پھر فرمایا :
"خدا کی قسم میرے لئے خدیجہ سے بھتر کوئی نھیں تھا ۔ جب سب لوگ کافر تھے تو وہ مجھ پر ایمان لائیں، جب سب لوگ مجھ سے رخ پھیر چکے تھے تو انہوں نے اپنی ساری دولت میرے حوالے کر دی ۔ خدا نے مجھے اس سے ایک ایسی بیٹی عطا کی کہ جو تقویٰ، عفت و طھارت کا نمونہ ھے ۔ "پھر عائشہ کہتی ھیں : میں یہ بات کہہ کر بہت شرمندہ ھوئی اور میں نے پیغمبر اسلام(ص) سے عرض کیا : اس بات سے میرا کوئی غلط مقصد نھیں تھا ۔
حضرت فاطمہ زھراء(س) ایسی والدہ اور والد کی آغوش پروردہ ھیں ۔
پرورش :
جناب فاطمہ (ص) نے نبوت و رسالت کے گھرانے میں پرورش پائی اور رسول اسلام (ص) کے علم و دانش سے بہرور ہوئیں رسول اکرم (ص) سے زبانی قرآن سنا اور اسے حفظ کیا اور خود سازی و حقیقی انسان بننے کی فکر میں مشغول ہو گئیں اپنے والد محترم اور قرآن سے بے حد محبت فرماتیں ، اپنے والد ماجد کے فیض بخش وجود سے استفادہ فرماتیں تھیں یہی وہ کمالات تھے جن کی بنا پر پیغمبر اسلام (ص) آپ کو بے حد چاہتے تھے ایک روز آپ کی زوجہ "عائشہ " نے آپ سے سوال کیا ، کیا آپ (ص) فاطمہ زہرا (ع) کو اتنا چاہتے ہیں کہ جب وہ آتی ہیں تو آپ تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہوئے اپنے برابر میں جگہ دیتے ہیں ؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا : اے "عائشہ "اگر تمہیں یہ معلوم ہو جائے کہ میں فاطمہ (ع) کو کیوں دوست رکھتا ہوں تو تم بھی انھیں محبوب رکھو ۔ آپ فاطمہ (ع) کو اپنا ٹکڑا سمجھتے تھے اور برابر ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ " فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے ستایا اور جس نے اسے راضی کیا اس نے مجھے خوش کیا " ایک روز پیغمبر اسلام ارشاد فرماتے ہیں "فاطمہ خدا تیری خوشنودی پر خوش ہوتا ہے اور تیری ناراضگی پر غضبناک ہوتا ہے " شباھت: فاطمہ زہرا (ص) صورت ، سیرت ، رفتار ، اور گفتار میں سب سے زیادہ اپنے پدر محترم سے مشابہ تھیں ، پیغمبر اسلام (ص) کی زوجہ ام سلمی فرماتی ہیں فاطمہ زہرا (ع) سب سے زیادہ رسول (ص) سے مشابہ تھیں
باپ بیٹی کا رشتہ :
باپ بیٹی کے درمیان یک طرفہ محبت نہیں تھی بلکہ حضرت فاطمہ زہرا (ص) رسول (ص) کی طرح اپنے والد ماجد سے محبت کرتی تھیں جناب خدیجہ کی وفات کے وقت آپ کی عمر چھ سال سے زیادہ نہ تھی ماں کے بعد گھر میں اپنے والد کے آرام و آسائش کو ہمیشہ مد نظر رکھتی تھیں فاطمہ وہ بیٹی تھیں کہ جو ہمیشہ اپنے باپ کے نقش قدم پر ثابت قدم رہیں شہر مکہ کی گلی کوچہ اور مسجد الحرام سب رسول (ص) کی توہین کرنے اور اذیت پہونچانے والوں سے بھرے ہوئے تھے جب بھی آپ کے پدر محترم زخمی ہو کر واپس آتے تو آپ ہی چہرہ اقدس سے خون صاف کرکے زخموں پر مرہم رکھتیں اور اپنی پیاری پیاری باتوں سے رسول کا حوصلہ بڑھاتی تھیں جب باپ اپنے وطن میں رہ کر مسافر ، اور اپنے میں بیگانہ ، اپنوں کے ہوتے ہوئے تنہا ، اپنی زبان بولنے والوں میں بے زبان ، ہر وقت جہل وبت پرستی سے بر سر پیکار ، تبلیغ کا سنگین بار اٹھانے میں یک و تنہا تھا تو فاطمہ (ص) ہی تو تھیں جو اپنی بے لوث محبت سے باپ کے دل کو شاد کرتی تھیں ، اور والد کی رسالت کو تسلیم کرکے ان کی امیدوں کو تقویت بخشتی تھیں یہی تو وجہ کہ پیغمبر فرماتے تھے " تمہارا باپ تم پر قربان ہو " یا یہ کہ " اپنے باپ کی ماں " کے لقب سے پکارتے تھے چونکہ آپ اپنے باپ کے لئے مثل ماں کے تھیں ۔
فاطمہ زہرا(س) اور پیغمبر اسلام
حضرت فاطمہ زہرا (س) کے اوصاف وکمالات اتنے بلند تھے کہ ان کی بنا پر رسول(ص) فاطمہ زہرا (س) سے محبت بھی کرتے تھے اور عزت بھی ۔ محبت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب آپ کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ زہرا سے رخصت ہونےتھے اور جب واپس تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہ زہرا سے ملنے کے لئے جاتے تھے .
اور عزت و احترام کا نمونہ یہ ہے کہ جب فاطمہ(س) ان کے پاس آتی تھیں تو آپ تعظیم کے لۓ کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے . رسول کا یہ برتاؤ فاطمہ زہرا کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ نہ تھا .
حضرت فاطمہ(س) کی شادی
یہ بات شروع سے ہی سب پر عیاں تھی کہ علی(ع) کے علاوہ کوئی دوسرا دختر رسول(ص) کا کفو و ہمتا نھیں ہے ۔ اس کے باوجود بھی بہت سے ایسے لوگ، جو اپنے آپ کو پیغمبر(ص) کے نزدیک سمجھتے تھے اپنے دلوں میں دختر رسول(ص) سے شادی کی امید لگائے بیٹھے تھے ۔
مورخین نے لکھا ھے : جب سب لوگوں نے قسمت آزمائی کر لی تو حضرت علی(ع) سے کہنا شروع کر دیا : اے علی(ع) آپ دختر پیغمبر(ص) سے شادی کے لئے نسبت کیوں نہیں دیتے ۔ حضرت علی(ع) فرماتے تھے : میرے پاس ایسا کچھ بھی نھیں ھے جس کی بنا پر میں اس راہ میں قدم بڑھاؤں ۔ وہ لوگ کہتے تھے : پیغمبر(ص) تم سے کچھ نہیں مانگیں گے ۔
آخرکار حضرت علی(ع) نے اس پیغام کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کیا اور ایک دن رسول اکرم(ص) کے بیت الشرف میں تشریف لے گئے لیکن شرم و حیا کی وجہ سے آپ اپنا مقصد ظاھر نہیں کر پا رہے تھے ۔
مورخین لکھتے ھیں کہ : آپ اسی طرح دو تین مرتبہ رسول اکرم(ص) کے گھر گئے لیکن اپنی بات نہ کہہ سکے۔ آخر کار تیسری مرتبہ پیغمبر اکرم(ص) نے پوچھ ہی لیا : اے علی کیا کوئی کام ھے ؟
حضرت امیر(ع) نے جواب دیا : جی، رسول اکرم(ص) نے فرمایا : شاید زھراء سے شادی کی نسبت لے کر آئے ھو ؟ حضرت علی(ع) نے جواب دیا، جی ۔ چونکہ مشیت الٰھی بھی یہی چاہ رہی تھی کہ یہ عظیم رشتہ برقرار ھو لھذا حضرت علی(ع) کے آنے سے پہلے ہی رسول اکرم(ص) کو وحی کے ذریعہ اس بات سے آگاہ کیا جا چکا تھا ۔ بہتر تھا کہ پیغمبر(ص) اس نسبت کا تذکرہ زھراء سے بھی کرتے لھذا آپ نے اپنی صاحب زادی سے فرمایا : آپ، علی(ع) کو بہت اچھی طرح جانتیں ھیں ۔ وہ سب سے زیادہ میرے نزدیک ھیں ۔ علی(ع) اسلام کے سابق خدمت گذاروں اور با فضیلت افراد میں سے ھیں، میں نے خدا سے یہ چاہا تھا کہ وہ تمھارے لئے بھترین شوھر کا انتخاب کرے ۔
اور خدا نے مجھے یہ حکم دیا کہ میں آپ کی شادی علی(ع) سے کر دوں آپ کی کیا رائے ھے ؟
حضرت زھراء(س) خاموش رھیں، پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کی خاموشی کو آپ کی رضا مندی سمجھا اور خوشی کے ساتھ تکبیر کہتے ھوئے وھاں سے اٹھ کھڑے ھوئے ۔ پھر حضرت امیر(ع) کو شادی کی بشارت دی ۔ حضرت فاطمہ زھرا(س) کا مھر ۴۰ مثقال چاندی قرار پایا اور اصحاب کے ایک مجمع میں خطبہ نکاح پڑھا دیا گیا ۔ قابل غور بات یہ ھے کہ شادی کے وقت حضرت علی(ع) کے پاس ایک تلوار، ایک ذرہ اور پانی بھرنے کے لئے ایک اونٹ کے علاوہ کچہ بھی نہیں تھا، پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا : تلوار کو جھاد کے لئے رکھو، اونٹ کو سفر اور پانی بھرنے کے لئے رکھو لیکن اپنی زرہ کو بیچ ڈالو تاکہ شادی کے وسائل خرید سکو ۔ رسول اکرم(ص) نے جناب سلمان فارسی سے کہا : اس زرہ کو بیچ دو ۔ جناب سلمان نے اس زرہ کو پانچ سو درھم میں بیچا ۔ پھر ایک بھیڑ ذبح کی گئ اور اس شادی کا ولیمہ ھوا ۔ جھیز کا وہ سامان جو دختر رسول اکرم(ص) کے گھر لایا گیا تھا،اس میں چودہ چیزیں تھی ۔
شھزادی عالم، زوجہ علی(ع)، فاطمہ زھراء(ع) کا بس یہی مختصر سا جہیز تھا ۔ رسول اکرم(ص) اپنے چند با وفا مھاجر اور انصار اصحاب کے ساتھ اس شادی کے جشن میں شریک تھے ۔ تکبیروں کی آوازوں سے مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں ایک خاص روحانیت پیدا ھو گئی تھی اور دلوں میں سرور و مسرت کی لہریں موج زن تھیں ۔ پیغمبر اسلام(ص) اپنی صاحبزادی کا ہاتھ حضرت علی(ع) کے ھاتھوں میں دے کر اس مبارک جوڑے کے حق میں دعا کی اور انھیں خدا کے حوالے کر دیا ۔ اس طرح کائنات کے سب سے بہتر جوڑے کی شادی کے مراسم نہایت سادگی سے انجام پائے ۔
حضرت فاطمہ(س) کا اخلاق و کردار
حضرت فاطمہ زھرا اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ تھیں جود و سخا، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں۔ وہ اپنے شوھر حضرت علی(ع) کے لئے ایک دلسوز، مھربان اور فدا کار زوجہ تھیں ۔ آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاھلیت کی بت پرستی سے آپ کوسوں دور تھیں ۔ آپ نےشادی سے پہلے کی ۹ سال کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور ۴ سال اپنے بابا کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوھر بزرگوار علی مرتضیٰ(ع) کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت، اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گزارے ۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گزرتا تھا ۔ فاطمہ(س) اس خاتون کا نام ھے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجود کے ذرات میں گھل مل چکا تھا ۔
فاطمہ زھرا(س) نے اپنے ماں باپ کی آغوش میں تربیت پائی اور معارف و علوم الھٰی کو، سر چشمہ نبوت سے کسب کیا۔ انہوں نے جو کچہ بھی ازدواجی زندگی سے پہلے سیکھا تھا اسے شادی کے بعد اپنے شوھر کے گھر میں عملی جامہ پھنایا ۔ وہ ایک ایسی مسن وسمجھدار خاتون کی طرح جس نے زندگی کے تمام مراحل طے کر لئے ھوں اپنے گھر کے امور اور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں اور جو کچھ گھر سے باہر ہوتا تھا اس سے بھی باخبر رھتی تھیں اور اپنے اور اپنے شوھر کے حق کا دفاع کرتی تھیں ۔
حضرت فاطمہ (س) کا نظام عمل
حضرت فاطمہ زہرا نے شادی کے بعد جس نطام زندگی کا نمونہ پیش کیا وہ طبقہ نسواں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں ۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا ۔ یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہ لیکن نہ تو کبھی تیوریوں پر بل پڑے اور نہ کبھی اپنے شوہر حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی۔ ایک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خدا سے ایک کنیز عطا کرنے کی خواہش کی تو رسول نے بجائے کنیز عطا کرنے کے وہ تسبیح تعلیم فرمائی جو تسبیح فاطمہ زہرا کے نام سے مشہور ہے ۳۴ مرتبہ الله اکبر، 33 مرتبہ الحمد الله اور 33 مرتبہ سبحان الله ۔ حضرت فاطمہ اس تسبیح کی تعلیم سے اتنی خوش ہوئی کہ کنیز کی خواہش ترک کردی ۔ بعد میں رسول نے بلا طلب ایک کنیز عطا فرمائی جو فضہ کے نام سے مشہور ہے۔ جناب سیّدہ اپنی کنیز فضہ کے ساتھ کنیز جیسا برتاؤ نہیں کرتی تھیں بلکہ اس سے ایک برابر کے دوست جیسا سلوک کرتی تھیں. وہ ایک دن گھر کا کام خود کرتیں اور ایک دن فضہ سے کراتیں۔ اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جہاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں . بیکار نہ بیٹھیں مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم عمل ہے . اس تقسیم کار کو علی علیہ السّلام اور فاطمہ نے مکمل طریقہ پر دُنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گھر سے باہر کے تمام کام اور اپنی قوت بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے خرچ کا سامان مہیا کرنا علی علیہ السّلام کے ذمہ تھا اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہرا انجام دیتی تھیں۔
حضرت زہرا سلام اللہ کا پردہ
سیدہ عالم نہ صرف اپنی سیرت زندگی بلکہ اقوال سے بھی خواتین کے لیے پردہ کی اہمیت پر بہت زور دیتی تھیں. آپ کا مکان مسجدِ رسولِ سے بالکل متصل تھا۔ لیکن آپ کبھی برقع وچارد میں نہاں ہو کر بھی اپنے والدِ بزرگوار کے پیچھے نماز جماعت پڑھنے یا اپ کا وعظ سننے کے لیے مسجد میں تشریف نہیں لائیں بلکہ اپنے فرزند امام حسن علیہ السّلام سے جب وہ مسجد سے واپس آتے تھے اکثر رسول کے خطبے کے مضامین سن لیا کرتی تھیں . ایک مرتبہ پیغمبر نے منبر پر یہ سوال پیش کر دیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا چیز ہے یہ بات سیدہ کو معلوم ہوئی تو آپ نے جواب دیا عورت کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ نہ اس کی نظر کسی غیر مرد پر پڑے اور نہ کسی غیر مرد کی نظر اس پر پڑے ۔ رسول کے سامنے یہ جواب پیش ہوا تو حضرت نے فرمایا .
"کیوں نہ ہو فاطمہ میرا ہی ایک ٹکڑا ہے۔"
حضرت زہرا(س) اور جہاد
اسلام میں عورتوں کا جہاد، مردوں کے جہاد سے مختلف ہے۔ لٰہذا حضرت فاطمہ زہرا نے کبھی میدانِ جنگ میں قدم نہیں رکھا ۔ لیکن جب کبھی پیغمبر میدان جنگ سے زخمی ہو کر پلٹتے تو سیدہ عالم ان کے زخموں کو دھوتیں تھیں .اور جب علی علیہ السّلام خون آلود تلوار لے کر آتے تو فاطمہ اسے دھو کر پاک کرتی تھیں۔ وہ اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ ان کا جہاد یہی ہے جسے وہ اپنے گھر کی چار دیواری میں رہ کے کرتی ہیں . ہاں صرف ایک موقع پر حضرت زہرا نصرت اسلام کے لئے گھر سے باہر آئیں اور وہ تھا مباہلے کا موقع۔ کیونکہ یہ ایک پرامن مقابلہ تھا اور اس میں صرف روحانی فتح کا سوال تھا۔ یعنی صرف مباہلہ کا میدان ایسا تھا جہاں سیدہ عالم خدا کے حکم سے برقع و چادر میں نہاں ہو کر اپنے باپ اور شوہر کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں جس کا واقعہ یہ تھا کہ یمن سے عیسائی علماء کا ایک وفد رسول کے پاس بحث ومباحثہ کے لیے آیا اور کئ دن تک ان سے بحث ہوتی رہی جس سے حقیقت ان پر روشن تو ہوگئی مگر سخن پروری کی بنا پر وہ قائل نہ ہونا چاہتے تھے نہ ہوئے . اس وقت قران کی یہ آیت نازل ہوئی کہ
" اے رسول اتنے سچے دلائل کے بعد بھی یہ نہیں مانتے تو ان سے کہو کہ پھر جاؤ ہم اپنے بیٹوں کو لائیں تم اپنے بیٹوں کو لاؤ، ہم اپنی عورتوں کو لائیں تم اپنی عورتوں کولاؤ، ہم اپنے نفسوں کو لائیں تم اپنے نفسوں کو اور الله کی طرف رجوع کریں اور جھوٹوں کے لیے الله کی لعنت یعنی عذاب کی بد دعا کریں .» "
عیسائی علماء پہلے تو اس کے لیے تیار ہوگئے مگر جب رسول الله اس شان سے تشریف لے گئے کہ حسن علیہ السّلام اور حسین علیہ السّلام جیسے بیٹے فاطمہ زہرا جیسی خاتون اور علی علیہ السّلام جیسے نفس ان کے ساتھ تھے تو عیسائیوں نے مباہلہ سے انکار کر دیا اور مخصوص شرائط پر صلح کرکے واپس ہو گئے .
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پیغمبر(ص) کی نظر میں
سیدہ عالم کی فضیلت میں پیغمبر کی اتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ جتنی حضرت علی علیہ السّلام کے سوا کسی دوسری شخصیت کے لیے نہیں ملتیں .
ان میں سے اکثر علماء اسلام میں متفقہ حیثیت رکھتی ہیں . مثلاً
" آپ بہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں۔ "
" ایما ن لانے والی عوتوں کی سردار ہیں ."
" تما م جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں "
" آپ کی رضا سے الله راضی ہوتا ہے اور آپ کی ناراضگی سےاللہ ناراض ہوتا ہے "
" جس نے آپ کو ایذا دی اس نے رسول کو ایذا دی"
اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں جو معتبر کتابوں میں درج ہیں .
جناب فاطمہ كى معنوى شخصيت
تمام عورتوں كى سردار، حضرت فاطمہ كى معنوى شخصيت ہمارے ادراك اور ہمارى توصيف سے بالاتر ہیں۔ يہ عظيم خاتون كہ جو معصومين (ع) كے زمرہ ميں آتى ہيں ان كى اور ان كے خاندان كى محبت و ولايت دينى فريضہ ہے ۔ اور ان كاغصہ اور ناراضگى خدا كا غضب اور اسكى ناراضگى شمار ہوتى ہے (1) ان كى معنوى شخصيت كے گوشے ہم خاكيوں كى گفتار و تحرير ميںكيونكر جلوہ گر ہوسكتے ہيں ؟
اس بناء پر ، فاطمہ كى شخصيت كومعصوم رہبروں كى زبان سے پہچاننا چاہئے ۔ اور اب ہم آپ كى خدمت ميںجناب فاطمہ كے بارے ميں ائمہ معصومين(ع) كے چند ارشادات پيش كرتے ہيں:
1۔ پيغمبراكرم (ص) نے فرمايا : جبرئيل نازل ہوئے اورانہوں نے بشارت دى كہ '' ... حسن (ع) و حسين (ع) جوانان جنّت كے سردار ہيں اور فاطمہ (ع) جنّت كى عورتوں كى سردار ہيں ۔ (2)
2۔ آنحضرت (ص) نے فرمايا: دنيا كى سب سے برتر چار عورتيں ہيں : مريم بنت عمران، خديجہ بنت خويلد ، فاطمہ دختر محمد (ص) اور آسيہ دختر مزاحم ( فرعون كى بيوي) (3)
3۔ آپ (ص) نے يہ بھى فرمايا: '' خدا ، فاطمہ كى ناراضگى سے ناراض اور ان كى خوشى سے خوشنود ہوتا ہے'' ۔ (4)
4۔ امام جعفر صادق (ع) نے فرمايا: '' اگر خدا ،اميرالمؤمنين كوخلق نہ كرتا تو روئے زمين پر آپ كا كوئي كفو نہ ہوتا '' ۔ (5)
5۔ امام جعفر صادق ۔سے سوال ہوا كہ : '' حضرت فاطمہ كا نام'' زہرا'' يعنى درخشندہ كيوں ہے؟ تو آپ نے فرمايا كہ : '' جب آپ محراب ميں عبادت كے لئے كھڑى ہوتى تھيں تو آپ كا نور اہل آسمان كو اسى طرح چمكتا ہوا دكھائي ديتا تھا كہ جس طرح ستاروں كا نور ،زمين والوں كے لئے جگمگاتا ہے ۔ (6)
فضائل حضرت فاطمہ زھرا(س)
پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا کہ عالم اسلام میں چار عورتیں سب سے بہتر ہیں
1۔ جناب مریم بنت عمران
2 ۔ جناب فاطمہ(س)بنت حضرت محمد(ص)
3 ۔ جناب خدیجہ بنت خویلد
4 ۔ جناب آسیہ زوجہ فرعون(کشف الغمہ ج 2 ص 76)
" پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا کہ حضرت فاطمہ(س)جنت کی بہترین عورتوں میں ہیں ۔ "(کشف الغمہ ج 2 ص 76)
پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا کہ جس وقت قیامت برپا ہوگی منادی حق عرش سے ندا کرے گا کہ اے لوگوں اپنی آنکھوں کو بند کرلو تاکہ فاطمہ پل صراط سے گزر جاۓ ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 83 ۔ ذخائر العقبی ص 48)پیغمبر اکرم(ص)نے حضرت فاطمہ(س)سے فرمایا کہ خدا تمہاری ناراضگی سے ناراض ہوتا ہے اور تمہاری خوشی سے خوش ہوتا ہے ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 84 ۔ اسد الغابہ ج 5 ص 522 )
حضرت عایشہ کہتی ہیں کہ رسول خدا(ص)کے بعد میں نے حضرت فاطمہ(س)سے زیادہ کسی کو سچا نہیں پایا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89)
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! پروردگار عالم نے حضرت فاطمہ زھرا(ص) کو علم کے ذریعہ فساد اور برائی سے دور رکھا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ پروردگار عالم کے پاس حضرت فاطمہ(ص) کے 9 نام ہیں۔
فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، رضیہ، مرضیہ، محدثہ، زھرا ۔ اسکی علت یہ ہے کہ حضرت فاطمہ(ص)تمام شر اور برائیوں سے محفوظ ہیں ۔ اگر حضرت علی علیہ السلام نہ ہوتے تو کوئی حضرت فاطمہ(ص) کا شوہر نہ ہوتا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89)
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی چند احادیث
حدیث (۱)
قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :
” ما یصنع الصائم بصیامہ اذا لم یصن لسانہ و سمعہ و بصرہ و جوارحہ “
ترجمہ :
حضرت فاطمہ زھرا (ع) فرماتی ھیں:
” اگر روزہ دار حالت روزہ میں اپنی زبان ، اپنے کان و آنکہ اور دیگر اعضاء کی حفاظت نہ کرے تو اس کا روزہ اس کے لئے فائدہ مند نھیں ھے “۔
حدیث (۲)
قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :
” یا ابا الحسن انی لا مستحیی من الٰھی ان اکلف نفسک ما لا تقدر علیہ “
ترجمہ :
حضرت فاطمہ زھرا (ع) فرماتی ھیں :
” اے علی مجھے خدا سے شرم آتی ھے کہ آپ سے ایسی چیز کی فرمائش کروں جو آپ کی قدرت سے باھر ھے “۔
حدیث (۳)
قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :
” الزم عجلھا فان الجنة تحت اقدامھا “
ترجمہ :
حضرت فاطمہ زھرا (ع) فرماتی ھیں :
” ماں کے پیروں سے لپٹے رھو اس لئے کہ جنت انھیں کے پیروں کے نیچے ھے “۔
حدیث (۴)
قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :
” خیر للنسا ان لا یرین الرجال و لا یراھن الرجال “
ترجمہ :
حضرت فاطمہ زھرا (ع) فرماتی ھیں :
” عورتوں کے لئے خیر و صلاح اس میں ھے کہ نہ تو وہ نا محرم مردوں کو دیکھیں اور نہ نامحرم مرد ان کو دیکھیں “۔
حدیث (۵)
قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :
”حبب الٰھی من دنیاکم ثلاث : تلاوة کتاب اللہ و المنظر فی وجہ رسول اللہ
و الانفاق فی سبیل اللہ “
ترجمہ :
حضرت فاطمہ زھرا (ع) فرماتی ھیں :
” میرے نزدیک تمھاری اس دنیا میں تین چیزیں محبوب ھیں: تلاوت قرآن مجید ، زیارت چھرہ رسول خدا ، اور راہ خدا میں انفاق “۔
حدیث (۶)
قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :
” من اصعد الی اللہ خالص عبادتہ اھبط اللہ عزو جل الیہ افضل مصلحتہ “
ترجمہ :
حضرت فاطمہ زھرا (ع) فرماتی ھیں :
” ھر وہ شخص جو اپنے خالصانہ عمل کو خداوند عالم کی بارگاہ میں پیش کرتا ھے خدا بھی اپنی بھترین مصلحت اس کے حق میں قرار دیتا ھے “۔
*************************
حوالہ جات :
1 - بحار الانوار جلد 34/19_ و26كشف الغمہ جلد 1مطبوعہ تبريز /458، الغدير جلد 3/20
2 - امالى مفيد ص 3، امالى طوسى جلد 1 ص 83، كشف الغمہ جلد 1 ص 456
3 - بحار جلد 43/9_ 26 ... ... ... ... مناقب ابن شہر آشوب جلد3 ص 322
4 - بحار جلد 43/9_ كشف الغمہ جلد 1 ص 467
5 - بحار جلد 43/19_ 26 ، كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد ص 472
6 - بحار جلد 43 ص12، علل اشرائع مطبوعہ مكتبہ الداورى قم ص 181 '' قال : سئلت ابا عبداللہ عن فاطمہ ، لمَ سميّت زہراء فقال: لانّہا كانت اذ اقامت فى محرابہا زہر نورہا لاہل السماء كما يزہر نور الكواكب لاہل الارض''
مسجد جمعہ - مدینہ منورہ

قباء اور مدینہ منورہ کے درمیان محلہ بنو سالم بن عوف میں واقع ایک مسجد، جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سفر ہجرت کے دوران نماز جمعہ ادا کی تھی۔ صحابہ کرام نے اس جگہ ایک مسجد تعمیر کی جسے حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنے دور گورنری میں دوبارہ تعمیر کرایا۔ مسجد جمعہ کے علاوہ اس مسجد کے دیگر کئی نام بھی ہیں جن میں مسجد بنی سالم، مسجد وادی، مسجد غُبَیب اور مسجد عاتکہ شامل ہیں۔ سابق سعودی شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دور میں اس مسجد کی توسیع اور تعمیر نو مکمل ہوئی۔ اب اس کا کل رقبہ 1630 مربع میٹر ہے اور اس میں 650 نمازی عبادت کر سکتے ہیں۔ مسجد کے واحد گنبد کا قطر 12 میٹر ہے اور اس کے علاوہ چار چھوٹے قبے بھی ہیں۔ مینار کی بلندی 25 میٹر ہے۔ مسجد جمعہ قباء کی بستی سے 500 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
سید حسن نصراللہ کا خطاب
حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں لبنان اور علاقے کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق سید حسن نصراللہ نے اپنی جامع تقریر میں ان کی خرابی صحت پر مبنی بعض ذرائع ابلاغ کی افواہوں کو نفسیاتی جنگ کا حصہ قراردیا اور کہا کہ لبنان کے خلاف صیہونی حکومت کی امکانی جارحیت اور دھمکیوں سے مقابلے کے لئے حزب اللہ کے جانباز پوری طرح تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ حزب اللہ لبنان میں کسی بھی گروپ یا جماعت کے خلاف جارحیت کی خواہاں نہیں ہے بلکہ ہم نے اپنی پوری طاقت صیہونی حکومت سے مقابلے کے لئے محفوظ کررکھی ہے لیکن کوئي حزب اللہ کو آزمانے اور ہماری طرف غلط قدم اٹھانے کی کوشش نہ کرے کیونکہ ایسی صورت میں پہلے کی طرح پشیمانی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔سید حسن نصراللہ نے ان باتوں کو بے بنیاد قراردیا کہ لبنانی فوج ،حزب اللہ کے اختیار میں ہے اور کہا کہ بیرونی خطرات کے مقابل ملک کا دفاع اور داخلی طور پر امن کا قیام، تمام لبنانیوں کی ذمہ داری ہے۔
رہبر معظم سے یشرفت کےاسلامی ایرانی نمونہ کے مرکز کے ارکان کی ملاقات
![]()

۲۰۱۳/۰۳/۰۴- پیشرفت کےاسلامی ایرانی نمونہ کے مرکز کی اعلی کونسل اور اس سے متعلقہ فکری اداروں کے ارکان نے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے ساتھ ملاقات کی۔
اس ملاقات میں حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیوں کے مختلف شعبوں کے بعض اساتید اور ممتاز شخصیات بھی موجود تھیں، اس نشست میں پیشرفت کےاسلامی ایرانی نمونہ اور نقشہ کے بارے میں بات چیت اور تبادلہ خیال کیا گیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےاس ملاقات میں پیشرفت کےاسلامی ایرانی نمونہ کا نقشہ بنانے کوطویل المدت، عمیق اور بہت عظیم کام قراردیتے ہوئے فرمایا: پیشرفت کےاسلامی ایرانی نمونہ کے محقق ہونے کے لئے معاشرے کے اندر اور ممتازشخصیات کے درمیان مؤثرمذاکرات اورگفتگو بہت ضروری ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: پیشرفت کااسلامی ایرانی نمونہ کا کام درحقیقت انقلاب اسلامی اور اسلامی فکر و نظر اورتمام شعبوں میں پیشرفتہ اور جدید تمدن پر مبنی محصول کو پیش کرنا ہے۔ لہذا کام کا دائرہ وسیع اور اس کا افق طویل المدت اور عمیق ہونا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے زندگی کے تمام شعبوں میں مغربی تمدن کے تسلط اور دنیا پر مغربی پیشرفت و تمدن کے چھا جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایسے شرائط میں پیشرفت کےاسلامی ایرانی نمونہ کو پیش کرنے کے لئے شجاعت جرات اور بہت زيادہ جوش و ولولہ کی ضرورت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فکر و نظر کو اس حرکت کی اصلی روح قراردیا اور اس طویل المدت پروگرام کے ہر نقص و عیب اور ممکنہ اشکال کو قابل اصلاح قرار دیتے ہوئے فرمایا: اس حرکت میں ہر قسم کی جلد بازی سے پرہیز ، نئے تجربات اور جوان صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہیے تاکہ اس حرکت کی موٹر کبھی بھی خاموش نہ ہو۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نانو ٹیکنالوجی، ایٹمی ٹیکنالوجی اور دفاعی صنعت میں ولولہ انگيز اور بانشاط ماہرجوانوں اور دانشوروں کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جوانوں پر اعتماد کرنا چاہیے کیونکہ جوان اور ان کے اندر نشاط و ولولہ ختم ہونے والا نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پیشرفت کےاسلامی ایرانی نمونہ میں اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھنے کے سلسلے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: پیشرفت کےاسلامی ایرانی نمونہ کے تمام مراحل میں اسلامی اصولوں کو جامع اور دقیق طورپر مد نظر رکھنا چاہیے اور اس سلسلے میں کوئی لحاظ و ملاحظہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں حوزہ علمیہ کی ظرفیت سے استفادہ کو بہت ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: پیشرفت کےاسلامی ایرانی نمونہ میں چار چیزوں فکر، علم ،معنویت اور زندگی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور چار موضوعات میں بھی فکر بنیادی اور اساسی موضوع ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مغربی تمدن ، اس کی تشکیل ، اسکےانحطاط اور موجودہ دور میں اس کے نقائص و عیوب کے آشکار ہونے کو کسی تمدن کے اشکالات اور عیوب کا جائزہ لینے کے لئے عینی نمونہ قراردیتے ہوئے فرمایا: مغربی تمدن انسانیت کی بنیاد ، سیاسی اقتدار اور پھر سرمایہ داری کے محور پر تشکیل پایا اور اوج پر پہنچنے کےبعد اب اس کی تباہی، انحطاط اور بربادی کے آثار نمایاں ہوگئے ہیں اور اس کی تباہی میں جنسی بے راہ روی ، غیر اخلاقی اورغیر انسانی حرکات شامل ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےحالیہ چند صدیوں میں یورپ میں متعدد تباہ کن جنگوں کو مغربی تمدن کے بنیادی اور اساسی اشکلات میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: مغربی تمدن میں معنویت کا فقدان مغربی تمدن کے انحطاط اور اشکالات کا اصلی سبب ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دین اسلام پر مبنی معنویت کو پیشرفتہ تمدن اور کم سے کم اشکالات کےحامل تمدن کی تشکیل کے لئے اصلی اوربنیادی شرط قراردیتے ہوئے فرمایا: دینی معنویت سے صلاحیتوں کی شناخت ، ان سے مناسب استفادہ ، تمام شعبوں میں قابل قبول پیشرفت کی راہ ہموار ہوتی ہے اور اس سے آسیب ونقصان کی شرح بھی کم ہوجاتی ہے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے اس طویل المدت ، اہم اور دقیق کام کے لئے اخلاص اور جہادی جذبہ کو ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی ایرانی پیشرفت کے نمونہ کوعملی جامہ پہنانےکے لئے گفتگو اصلی شرط ہے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے گفتگو کے ذریعہ پیشرفت کےاسلامی ایرانی نمونہ کو دانشوروں کے فکر و نظر میں رسوخ اور پھر جوانوں اور قوم کے اندر اس کے اثرات کو ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: مضبوط و مستحکم اور فاخر نمونہ کی تدوین میں صبر و حوصلہ کے ساتھ دانشوروں اور ماہر افراد کے نظریات اور گفتگو سے استفادہ کرنا چاہیے۔
اس نشست کے آغاز میں پیشرفت کے اسلامی ایرانی نمونہ کے مرکز کے سربراہ جناب ڈاکٹرصادق واعظ زادہ نے پیشرفت کے اسلامی ایرانی نمونہ کے مرکز اور اس سے متعلق 28 فکری اداروں کی تشکیل اور مرکز کے منظور شدہ وظائف کی روشنی میں انجام پانے والے اقدامات کی طرف اشارہ کیا۔
ڈاکٹر واعظ زادہ نے پیشرفت کے اسلامی ایرانی نمونہ کے لئےریسرچ سینٹروں کی ضرورت ، فکری انجمنوں اور حلقوں کے درمیان ہم اہنگی ایجاد کرنے اور ملک میں نمونہ سازی، علمی و فکری اجلاس کا انعقاد، علمی مراکز اور شخصیات کے ساتھ ارتباط، پیشرفت کے اسلامی ایرانی نمونےکی ترویج کے لئے گفتگو اور قومی ظرفیت سے استفادہ، فکر و نظریہ پیش کرنے کے لئے بانشاط جوانوں کے حضور کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوشش ، اصول و اقدار پر مبنی نمونہ کی تدوین کے لئے دستاویزات کی تیاری اور ملک کی پیشرفت میں آئندہ تحقیق و آسیب شناسی کو پیشرفت کے اسلامی ایرانی مرکز کے اہم اقدامات شمارکیا۔

اس نشست میں مندرجہ ذیل 6 ممتاز اساتید اور دانشوروں نے اپنے نظریات پیش کئے:
٭ حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید حسین میر معزی ( اندیشکدہ عدالت)
٭ ڈاکٹر صالحی (اندیشکدہ علم)
٭ حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر علی دوست ( اندیشکدہ فقہ و حقوق اسلامی)
٭ ڈاکٹر زاہدی وفا ( اندیشکدہ اقتصاد)
٭ ڈاکٹر زالی ( شعبہ زراعت)
٭ ڈاکٹر ثبوتی ( یونیورسٹی کے استاد)
٭ محترمہ ڈاکٹر فرہمند پور ( اندیشکدہ خانوادہ)
مذکورہ افراد نے پیشرفت کے اسلامی ایرانی نمونےکےبارےمیں اپنے فکری اداروں سے متعلق مطالب پیش کئے۔
سمندر پر پرواز کرنےوالےایرانی ڈرون کی رونمائي
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع جنرل احمد وحیدی نے کہا ہےکہ ایران عنقریب ایسے ڈرون کی رونمائي کرے گا جو سمندر پر پرواز کرتا ہے اور میزائل بھی فائر کرسکتا ہے۔ وزیر دفاع جنرل وحیدی نے ہفتے کو فارس نیوز سے گفتگو میں یہ بات کہی۔ انہوں نے کہاکہ ایران کی وزارت دفاع میں سمندر پر پرواز کرنے والے ڈرون طیاروں کو ترجیح دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ کےپاس ایسے ڈرون طیارے ہیں جو بحری جہازوں سے اڑ کر اپنا مشن پورا کرسکتے ہیں۔ دراین اثنا
اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائيہ کے نائب سربراہ نے کہا ہےکہ فضائیہ میں مختلف جنگي طیاروں کے سیمولیٹر بنائےجارہے ہیں۔فضائیہ میں ٹریننگ شعبے کے سربراہ جنرل منوچہر یزدانی نے تسنیم نیوز سے گفتگو میں کہا کہ فضائیہ میں پانچ برسوں پہلے سے ہی مختلف جنگي طیاروں کے سیمولیٹر بنائےجارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فضائیہ کے ماہرین نے سیمولیٹروں کی جدیدکاری کرکے انہیں تیار کرنا شروع کردیا ہے۔ جنرل منوچہر یزدانی نے کہا کہ ایران عنقریب اپنے بنائے ہوئے ساز وسامان اور سیمولیٹر دیگر ملکوں کو برآمد کرنے لگے گا۔ مختلف ملکوں کے وزرا دفاع نے ایران کی دفاعی صنعتوں کا معائنہ کرنے کےبعد ایران کی ترقی پر شدید حیرت کا اظہار کیا ہے۔ سیمولیٹر اسٹیشنری کاک پٹ ہے جس سے پائلٹوں کو پرواز کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ادھر ارنا کی رپورٹ کے مطابق ایرانی سول ایوی ایشن کے ماہرین نے پابندیوں کے باوجود ایربس کے انجن کی کور وائرنگ انجام دینے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ واضح رہے مغرب نے ایران کو مسافر طیاروں کے کل پرزوں کی فراہمی پر بھی پابندی لگارکھی ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایران کے ساتھ ہر طرح کے تعاون کے بارے میں خـبردار کیا۔
رپورٹ کے مطابق آصف علی زرداری کے دورۂ تہران کے بعد امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان پیٹرک وینٹرل نے مداخلت پر مبنی اپنے گستاخانہ بیانات میں پاکستان سے کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اپنا تعاون ختم کردے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایران کے ساتھ ہر طرح کے تعاون کے بارے میں خـبردار کیا۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے واشنگٹن میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ایران کے ساتھ کسی بھی طرح کے تعاون کے بجائے دوسرے آپشن کا جائزہ لینا چاہۓ اور ایران کے ساتھ اپنا تعاون ختم کردینا چاہۓ کیونکہ اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ ایران کے ساتھ تعاون کی صورت میں اسے امریکہ کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکہ کی جانب سے یہ دھمکی ایسی حالت میں دی گئي ہے کہ جب پاکستان امریکہ کی ایران مخالف یکطرفہ اور غیر قانونی پابندیوں کو غیر موثر اور ناکام جانتا ہے۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
