
Super User
ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کی مذمت کرتے ہیں،چین
چين نے ايک بار پھر ايران کے خلاف امريکا کي غير قانوني اور يکطرفہ پابنديوں کي مذمت کي ہے۔
چين کي وزارت خارجہ کي ترجمان نے ايران کے خلاف امريکا کي مخاصمانہ پاليسيوں پر شديد تنقيد کرتے ہوئے کہا کہ بيجنگ ايران کے خلاف امريکا کي شکست خوردہ اور لاحاصل پابنديوں کے مقابلے ميں ڈٹا ہواہے۔
چيني وزارت خارجہ کي ترجمان نے کہا کہ ان کا ملک ايران جيسے آزاد و خود مختار ملک کي حمايت کرتا ہے۔
چين کي وزارت خارجہ کي ترجمان ہوا چونگ يينگ نے کہاکہ انکا ملک ايران اور ديگر ملکوں کے خلاف امريکا اور مغرب کي يکطرفہ پابنديوں کي سختي سے مخالفت کرتا ہے۔
چيني وزارت خارجہ نے کہا کہ بيجنگ ايران کے ايٹمي معاملے پر ايران اور پانچ جمع ايک گروپ کے درميان مذاکرات شروع کئے جانے کا خواہاں ہے۔ چيني وزارت خارجہ کی ترجمان کا يہ بيان ايک ايسے وقت آيا ہے جب امريکي صدر باراک اوباما نے ايران کے خلاف نئي پابنديوں کے مسودے پر دستخط کردئے ہيں۔ امريکا اس طرح کي غير قانوني پابنديوں کے ذريعے ايران کي پرامن ايٹمي سرگرميوں کو روکنا چاہتا ہے۔ ايران کے خلاف امريکا کي تازہ ترين پابندياں ايران کے اقتصادي شعبوں اور ذرائع ابلاغ پر لگائي گئي ہيں۔
امريکا ايران کي پرامن ايٹمي سرگرميوں کي ايسے وقت ميں مخالفت کررہا ہے جب وہ غاصب صہيوني حکومت کے ايٹمي ہتھياروں کي حفاظت کرتا ہے۔
اسرائيل مشرق وسطي شمالي افريقہ اور مغربي ايشيا ميں ايٹمي ہتھيار رکھنےوالي واحد حکومت ہے اور وہ اپني ايٹمي تنصيبات کے دروازے عالمي معائنہ کاروں کے لئے کھولنے کو بھي تيار نہيں ہے۔
إِنَّ اللّهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَى يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ذَلِكُمُ اللّهُ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ
بیشک اﷲ دانے اور گٹھلی کو پھاڑ نکالنے والا ہے وہ مُردہ سے زندہ کو پیدا فرماتا ہے اور زندہ سے مُردہ کو نکالنے والا ہے، یہی (شان والا) تو اﷲ ہے پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو [الأنعام, ۹۵]
مسجد فتح – مدينه النبي (ص)
مدینہ منورہ کے شمال میں سلع پہاڑ پر واقع ایک مسجد جسے مسجد اعلٰی بھی کہا جاتا ہے
- مساجد سبعه کے در ميان سب سے اهم مسجد ، مسجد فتح ہے – 5ھ میں غزوہ احزاب کے موقع پر جب کفار قبائل عرب نے مدینہ پر حملہ کیا اور مسلمانوں نے اپنے بچاؤ کے لیے خندق کھودی تو نبی اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم متواتر تین دن اس جگہ مسلمانوں کی فتح و نصرت کی دعا فرماتے رہے۔ تیسرے دن کفار کی سخت تیر اندازی کے باعث نبی اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب کرام اس طرح مصروف جہاد رہے-
یہیں اللہ تعالٰی نے نبی اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نصرت و فتح کی وحی اتاری اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اصحاب سے فرمایا
” اللہ کی طرف سے نصرت و فتح کی وحی پر خوش ہو جاؤ “
اس مسجد کو مسجد احزاب بھی کہا جاتا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس مقام پر کفار کے لشکروں (احزاب) کی شکست کے لیے دعا فرمائی تھی کہ "اے اللہ! ان لشکروں کو شکست دے"۔
سوڈان کی ہیئۃالعلماء کے سربراہ :
سوڈانی عالم دین کا تاریخی فتوی: شیعہ مذہب کی پیروی جائز ہے
سوڈان کی ہیئۃالعلماء کے سربراہ پروفیسرمحمدعثمان صالح نے ایک فتوے کے ضمن میں مذہب اہل بیت (ع) کی پیروی کو جائز قرار دیتے ہوئے شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو فرض قرار دیا۔
رپورٹ کے مطابق ، اسلامی بیداری کے عروج کے اس زمانے میں، علاقے ـ بالخصوص شمالی افریقہ میں ـ امت مسلمہ کی ہمدرد شخصیات کی توجہ اسلام کے حلفیہ دشمنوں کا سامنا کرنے کے لئے ـ مسلمانان عالم کے اتحاد و اتفاق کی ضرورت کی طرف مبذول ہوئی ہے۔
سوڈان کی ہیئۃالعلماء کے سربراہ "پروفیسر شیخ محمد عثمان صالح" اہم اسلامی ملک "سوڈان" اور شمالی افریقہ کی اہم اسلامی شخصیات اور نامور علمائے دین میں سے ہے جنہوں نے مذہب حقہ جعفریہ اثنا عشریہ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی پیروی کو جائزقرار دیتے ہوئے، اسلامی مذابب کے درمیان اتحاد و یکجہتی کو ان اہم موضوعات میں سے ایک قرار دیا جن کو خصوصی اہمیت دینے کی ضرورت ہے؛ چنانچہ انھوں نے زمانے کے اس حساس مرحلے میں اپنا تاریخی فتوی جاری کیا اور صہیونی ریاست سمیت اسلام کے تمام حلفیہ دشمنوں کے سامنے امت اسلام کے ہر فرد کو وحدت، یکجہتی اور یکدلی کی دعوت دی ہے۔
انھوں نے سوڈان سے شائع ہونے والے روزنامے "اخبارالیوم" مورخہ 13 دسمبر 2012 عیسوی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "شیعہ اور سنی مذاہب کے درمیان نوے فیصد مسائل (اصول و فروع) مشترکہ ہیں؛ خداوند متعال نے قرآن مجید میں ہر مسلمان فرد کو مُخاطَب قرار دیا ہے اور ان کے درمیان فرق کا قائل نہیں ہوا ہے"۔
شیخ محمد عثمان صالح نے تمام عرب اقوام سے درخواست کی ہے کہ ایران، ترکی اور پاکستان کی ملتوں کے ساتھ متحد ہوجائیں اور اسلامی مذاہب کے درمیان اختلاف اور تفرقہ ڈالنے اور خلیج حائل کرنے کی غرض سے ہونے والی دشمنان اسلام کی منحوس سازشوں کو کامیاب نہ ہونے دیں۔
انھوں نے کہا: "آپ اندازہ لگائیں کہ اگر اہل سنت اور اہل تشیع کے دو مذاہب کے تمام پیروکار کفر کے سرغنوں کے مقابلے ميں متحد و متفق ہوجائیں تو کیا عظیم طاقت معرض وجود میں آئے گی! اور کیا حالت ہوگی جب سنی مذاہب کی قوت شیعہ مذہب کی طاقت کے ساتھ مل کر کفر کے خلاف متحد ہوجائیں؟
انھوں نے کہا: "اسلامی دنیا کی تمام تر توجہ صہیونی ریاست کی طرف مبذول ہونی چاہئے کیونکہ صہیونی ریاست مسلم امہ کا حقیقی دشمن ہے۔
پروفیسر شیخ محمد عثمان صالح نے تمام اقوام اور حکومتوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا: علاقے میں شیعہ فوبیا کے سلسلے میں ہونے والی سازش اور تشہیری مہم کا فوری طور پر سدّ باب کریں اور صہیونی ریاست کو ـ جو امت مسلمہ کا دشمن نمبر ایک ہے ـ شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کا موقع نہ دیں۔
عثمان صالح نے آخر میں مذاہب "اہل تشیع اور اہل تسنن" کے درمیان اشتراکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "شیعہ اور سنی کے دو مذاہب کے درمیان 90 فیصد اشتراکات پائے جاتے ہیں اور ان دو مذاہب کے درمیان جزوی اختلافات بھی محض تاریخی اختلافات ہیں"۔
پروفیسر شیخ محمد عثمان صالح نے یہ فتوی ایسے حال میں جاری کیا ہے کہ وہابی دین کے پیروکار ـ صہیونی اور مغرب کی طرف سے اسلام فوبیا (مغربی دنیا کو اسلام سے خوفزدہ کرنے) کے حوالے سے جاری تشہیری مہم کے موقع پر ـ شیعہ فوبیا (اور مسلمانوں کو مذہب شیعہ سے خوفزدہ کرنے) کی سازش پر عمل پیرا ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک میں شیعہ اور سنی کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے حوالے سے مغربی اور صہیونی قوتوں کا ہاتھ بٹاتے ہوئے مسلمانوں کے جاری قتل عام میں ملوث ہیں۔
علاقے کے ممالک ـ بالخصوص شمالی افریقی ممالک ـ میں اسلامی بیداری کی لہر کے آغاز کے بعد اسلام اور مسلمین کے حلفیہ دشمن مختلف قسم کی سازشوں اور شبہات کے ذریعے خالص محمدی اسلام پر مبنی تفکر کی ترویج و فروغ کا راستہ روکنے کے درپے ہیں اور مختلف قسم کے منصوبوں سے اسلامی بیداری کی اس عظیم لہر کو منحرف کرکے اپنے مفاد میں ہائی جیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسے حال میں پروفیسر شیخ محمد عثمان صالح جیسی نمایاں شخصیت کا تاریخی فتوی ـ جو دنیائے اسلام میں اثر و نفوذ کے مالک اور سوڈان و شمالی افریقہ کے صاحب رائے و نظر دینی راہنما ہیں ـ اسلامی امہ کی عظیم تحریک میں ایک نہایت اہم موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔
دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اتحاد مہمترین وسیلہ کامیابی ہے۔
ایران کے معروف اہلسنت عالم دین اور سنندج کے امام جمعہ نے نماز جمعہ کے خطبے میں عید سعید قربان کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت کی روشنی میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد مہمترین وسیلہ کامیابی ہے۔
خبررساں ادارے کے مطابق ایران کے معروف اہلسنت عالم دین اور سنندج کے امام جمعہ "ماموستا حسام الدین مجتھدی"نے خطبہ جمعہ میں کہا: اتحاد اور یکجہتی ہمیشہ مسلمانوں کے عزت اور اقتدار کا سبب رہا ہے اسلئے دشمن اس اتحاد اور یکجہتی کو توڑنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
امام جمعہ سنندج نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ ھدی علیہم السلام کی سیرت کو تمام مسلمانوں کیلئے نمونہ عمل قرار دیتے ہوئے کہا:اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پیغمبر اور ائمہ ھدی کی سیرت پر عمل اسلامی سماج کی ترقی اور پیشرفت کی ضمامن ہے۔
انہوں نے مذید کہا:مسلمانوں کی مشکلات کی بنیادی وجہ اسلامی اور قرآنی احکامات کو اپنے سماج میں نافذ نہ کرنا ہے۔
جامع سلیمانیہ ترکی کے شہر استنبول
سلیمانیہ مسجد (ترک:Süleymaniye Camii، سلیمانیہ جامع) ترکی کے شہر استنبول کی ایک عظیم جامع مسجد ہے۔ یہ مسجد سلطان سلیمان اول (سلیمان قانونی) کے احکام پر مشہور عثمانی ماہر تعمیرات معمار سنان پاشا نے تعمیر کی۔ مسجد کی تعمیر کا آغاز 1550ء میں اور تکمیل 1557ء میں ہوئی۔
مسجد سلیمانیہ کو بازنطینی طرز تعمیر کے شاہکار ایاصوفیہ کے مقابلے میں تعمیر کیا گیا تھا۔
جسے عیسائی طرز تعمیر کا عظیم شاہکار قرار دیتے ہوئے دعوی کرتے تھے کہ اس کے گنبد سے بڑا کوئی گنبد تیار نہیں کیا جاسکتا۔
(ایاصوفیہ کو فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد ثانی نے مسجد میں تبدیل کردیا تھا) اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے سنان پاشا نے مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا اور یہ عظیم شاہکار تخلیق کیا۔
مسجد سلیمانیہ کی لمبائی 59 میٹر اور چوڑائی 58 میٹر ہے۔ اس کا گنبد 53 میٹر بلند اور 57.25 میٹر قطر کا حامل ہے۔ مسجد کے چار مینار ہیں کیونکہ مسجد میں چار مینار تعمیر کرنے کا حق صرف سلطان کا تھا۔
شہزادی شہزادیاں دو اور دیگر افراد ایک مینار تعمیر کرسکتے تھے۔ مسجد کے علاوہ صحن ، لنگر خانہ ، دار الشفاء ، 4 مدارس ، دار الحدیث اور ایک حمام بھی تعمیر کئے گئے۔
مسجد سے ملحقہ باغیچے میں سلطان سلیمان اول اور ان کی اہلیہ کے مزارات ہیں جبکہ سلطان کی صاحبزادی محرمہ ، والدہ دل آشوب صالحہ اور ہمشیرہ عائشہ کی قبریں بھی موجود ہیں۔ سلیمان ثانی ، احمد ثانی ، مصطفی ثانی کی صاحبزادی صفیہ بھی یہیں مدفون ہیں۔ مسجد کی دیواروں کے ساتھ ہی شمال کی جانب سنان پاشا کا مقبرہ ہے۔
1660ء میں آتش زدگی کے نتیجے میں مسجد کو شدید نقصان پہنچا جس کے بعد سلطان محمد چہارم نے اس کی بحالی کا کام کرایا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران مسجد میں دوبارہ آگ بھڑک اٹھی جس کے بعد مسجد کی آخری تزئین و آرائش 1956ء میں کی گئی۔
آجکل یہ استنبول کے مشہور ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
خواتین کی عالمی بیداری اسلامی کانفرنس
تحریر: ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی
اسلام عورت کی نسوانیت کا احترام کرتا ہے، اُس کے عورت پن کی قدر کرتا ہے۔ عورت کا مردانہ پن نسوانیت کی توہین ہے۔ عورتوں کی درونِ خانہ سرگرمیاں عورت کا فخر و امتیاز ہیں۔ مغرب نے اُسے طعنہ بنا دیا ہے۔ اسی لئے مغربی معاشرت زوال پذیر ہے۔ آپ پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسلام کا خوبصورت روشن چہرہ زمانے کو دکھا دیں۔ اسلامی انقلاب کے اگلے مورچوں میں آپ کو ہمیشہ عورت ہی صف اول میں ملے گی۔ اب ہر جگہ پر انقلاب کے آثار ہیں کہ مسلمان عورت بیدار ہو رہی ہے، مگر ہوشیار رہیں کہ لٹیرے منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی لوٹ نہ لیں۔
امام خامنہ ای نے فرمایا کہ اُمت مسلمہ کی بیداری کے لئے مسلمان عورت کا کردار بے حد اہم ہے۔ اسلامی اور مغربی کلچر ایک دوسرے سے مختلف اور عورت کے بارے میں ان کے نظریات بالکل متفاوت ہیں۔ مخلوط طرزِ معاشرت اور مخلوطِ طریقہ تعلیم کے بارے میں مغرب کا نظریہ یہ تھا کہ اس طرح عورتوں اور مردوں کی ایک دوسرے سے دلچسپی ختم ہو جائے گی، مگر یہ فطرت سے بغاوت کی راہ تھی۔ اس طرزِ معاشرت نے تباہی کے ایسے کڑوے کسیلے پھل عطا کئے کہ انسانیت بھی سسک پڑی ہے۔ اسلام عورت کی نسوانیت کا احترام کرتا ہے، اُس کے عورت پن کی قدر کرتا ہے۔ عورت کا مردانہ پن نسوانیت کی توہین ہے۔ عورتوں کی درونِ خانہ سرگرمیاں عورت کا فخر و امتیاز ہیں۔ مغرب نے اُسے طعنہ بنا دیا ہے۔ اسی لئے مغربی معاشرت زوال پذیر ہے۔ آپ پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسلام کا خوبصورت روشن چہرہ زمانے کو دکھا دیں۔ اسلامی انقلاب کے اگلے مورچوں میں آپ کو ہمیشہ عورت ہی صف اول میں ملے گی۔ اب ہر جگہ پر انقلاب کے آثار ہیں کہ مسلمان عورت بیدار ہو رہی ہے، مگر ہوشیار رہیں کہ لٹیرے منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی لوٹ نہ لیں۔
تیونس کی ہاجرہ جو جیل میں قید کاٹ چکی ہیں، یمن سے بوہیر، عراق سے بنت اسلام نے کہا کہ میں اجتماعی قبروں اور لاپتہ نسلوں کے دیس سے آئی ہوں۔ میں ایک ایسے خطے سے بیداری کا پیغام لائی ہوں جہاں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ ساتھ جدوجہد اور عزائم سے بھرپور نہ ختم ہونے والی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ ہم ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں، ہمیں علم ہے کہ کیسے سر اٹھا کر جیا جاتا ہے۔ لیبیا سے ایک شہید علی شیخ کی ماں شریک تھیں، جنہیں عید کے دن شہید کر دیا گیا تھا۔ بحرین اور آذربائیجان کی خواتین بھی اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔ آذربائیجان کی خاتون کہہ رہی تھیں، آذربائیجان ایسا خطہ ہے جہاں اسلام کی روشنی ختم ہوچکی تھی۔ اسلام بطور نظامِ حیات لوگوں سے بھول چکا تھا، مگر نوجوان نسل نے اب بڑی تیزی سے شعائر اسلامی کو اپنانا شروع کیا ہے۔
انقلاب ایران نے اس آیت کے مصداق جس کا ترجمہ ہے کہ ”اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔“ پوری دنیا پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ اسلام بطور نظام زندگی آج بھی قابل عمل ہے اور دین آج بھی افراد اور اقوام کی زندگی میں انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ ایرانی خواتین نے اپنے حجاب کی روایت کو ازسرنو زندہ کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ حجاب عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔ حجاب صرف ایک گز کے ٹکڑے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک پورا اخلاقی نظام اور عفت و عصمت کی حفاظت کا طریق کار ہے۔ ترکی سے بھی 50 خواتین کا ایک بڑا وفد آیا تھا۔ جس میں حکمران جماعت، سعادت پارٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کی اہم خواتین شامل تھیں۔ میری عزیز بہن ہدیٰ کایا بھی ہمارے ساتھ تھیں، جو ایک زمانے میں ترکی میں حجاب پر پابندی کی وجہ سے حجاب کیلئے قید بھی کاٹ چکی تھیں اور پھر جلاوطن کر دی گئیں تو انہوں نے ہمارے ساتھ بھی کچھ عرصہ گزارا تھا۔ اپنی اُن تلخ یادوں اور حجاب پر پابندی کے خلاف اپنی جدوجہد کو اُنہوں نے دوجلدوں پر مبنی ایک کتاب میں لکھا ہے، جو ترکی سے شائع ہوچکی ہے۔
کوسوو کی فاطمہ کے جذباتی خطاب نے سب کو رُلا دیا۔ اُس نے کہا کہ ہم یورپ کے قلب میں واقع مسلمانوں کی مملکت ہیں، مگر ہمیں 5 چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ کر ہماری قوت کو تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ہمیں انشاءاللہ ایک ہونا ہے۔ ہمارے پاس مادی دولت کی کمی نہیں، مگر ہمیں آپ سے اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔ دوران سیشن بیداریٴ اسلامی کے شعبے کے نگران ڈاکٹر علی اکبر ولایتی کے ساتھ ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ انہوں نے انتہائی مصروفیت کے باوجود ہمیں وقت دیا۔ میں نے اپنے آغا جان کا خط اُنہیں پہنچایا جو اپنی مصروفیت کی وجہ سے اس کانفرنس میں نہیں پہنچ پائے تھے۔ میرے ساتھ اس ملاقات میں جماعت اسلامی کی نگران اُمور خارجہ سینیٹر ریٹائرڈ کیپٹن ڈاکٹر کوثر فردوس اور اسلامی نظریاتی کونسل کے علامہ نقوی کی صاحبزادی وجیہہ زارا نقوی بھی شامل تھیں۔
ڈاکٹر ولایتی نے آغا جان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور ہمیں کہا کہ وہ ہمارے لئے راہبر کی حیثیت رکھتے ہیں اور اللہ تعالٰی تادیر انہیں سلامت رکھے اور صحت اور عافیت دیئے رکھے۔ ہم نے انہیں اتنی عظیم الشان کانفرنس منعقد کرنے پر مبارکباد دی اور اس کے اثرات کو سمیٹنے اور قائم رکھنے کے لئے اس کے مختلف کمیشنز کو مستقل طور پر کام کرنے کا مشورہ دیا، تاکہ اتحاد بین المسلمین کی اس فضا کو مزید سازگار بنایا جاسکے۔ ہال میں سیشن کے دوران جسٹس ناصرہ جاوید اقبال، انڈیا سے آئی جماعت اسلامی کی ناظمہ امة الرزاق اور حماس فلسطین کی انچارج رجاء عمر سے تفصیلی ملاقاتیں کیں اور اُن سے تبادلہٴ خیال کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی پاکستان کے بارے میں بھی بتایا۔
اُن کے ساتھ ڈاکٹر محمود الزہار کی اہلیہ سمیعہ الزہار بھی موجود تھیں جو 2 جوان شہداء بیٹوں کی ماں ہونے کی وجہ سے پوری کانفرنس کی آنکھوں کا تارا بنی ہوئی تھیں۔ فلسطین سے حماس کا ایک نمائندہ وفد موجود تھا جو سب شہداء کی وارث بھی تھیں اُن میں انتصار العلول جو ایک شہید کی بیوہ اور 2شہداء کی ماں ہونے کا اعزاز رکھتی تھیں، شہید اسماعیل ابو شنب کی بیوہ عائشہ ابو شنب جو ایک شہید کی ماں بھی تھیں۔ 44دنوں کی بھوک ہڑتال کے بعد اسرائیلی جیل سے رہا ہونے والی آہنی اعصاب کی مالکہ جواں سال فلسطینی لڑکی حناء الشبلی بھی ہم سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔
آخری سیشن میں کانفرنس کے دوران بنائے گئے خواتین کے لئے چھ کمیشنز کی سفارشات اور اعلامیہ پڑھ کر سنایا گیا۔ جس میں بیداری اسلامی اور اسلامی نشاة ثانیہ میں عورت کے اہم کردار کو زیر بحث لایا گیا۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ عورت جو کہ مستقبل کی صورت گر اور نقشہ گر ہے۔ اُس کی صلاحیتوں اور قوتوں کو مثبت نتائج حاصل کرنے کے لئے متحد ہو کر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، تاکہ وہ مضبوط خاندان بنا کر مستحکم معاشرے بنائے اور اُن سے ترقی یافتہ قوموں کی تعمیر ممکن بنائی جاسکے۔
ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے اپنے آخری خطاب میں کہا کہ اس کانفرنس نے ہمیں تبادلہ خیال اور اپنے تجربات کو بیان کرنے کا بہترین موقع عطا کیا۔ مسلمان عورت کی بیداری، اُمت مسلمہ کی بیداری پر دیرپا اثرات چھوڑے گی۔ کانفرنس کی اختتامی تقریر میں عراق کے سابق وزیراعظم ڈاکٹر ابراہیم الجعفری اصلاحی نے قرآن کریم میں عورت کے مختلف کرداروں کو اپنے فصیح و بلیغ عربی خطبے میں بہت خوبصورتی سے بیان کیا۔
میں نے احمدی نژاد اور ڈاکٹر علی اکبر ولایتی کی سربراہی میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں پاکستانی وفد کی نمائندگی کی اور پاکستان سے یہ پیغام پہنچایا کہ قرآن کریم نے ہمیں خیر اُمت کا لقب عطا کرکے لوگوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی کی ذمہ داری سونپی ہے اور ہمیں اخوت و محبت کے رشتوں میں باندھا ہے۔ ہمارے اقبال لاہوری فرماتے ہیں کہ
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہٴ ارض کی تقدیر بدل جائے
آج اللہ تعالٰی نے اُمت مسلمہ کی نمائندہ خواتین کو تہران میں جمع ہونے کا موقع دیا ہے، تو اللہ تعالٰی ہمیں پہاڑی کے چراغ بنا دے، جس کی روشنی سے سارا عالم منور ہو جائے۔
اسرائیل عرب اور اسلامی دنیا کا بدترین دشمن ہے
داکٹر مصطفٰی امام کا تعلق مصر سے ہے۔ آپ جامعۃ الازھر مصر میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اخوان المسلمین کے حامی اور مصر کی جید شخصیات میں سے ہیں۔
آپ كا انٹرویو :
جامعۃ الازھر کے بارے میں بتائیں، وہاں کون کون سے علوم سکھائے جاتے ہیں۔؟
جامعۃ الازھر کا قیام ایک ہزار سال پہلے عمل میں آیا۔ اس جامعۃ میں اسلام کے تمام مذاہب کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔ مذہب اربعہ اہل سنت کے علاوہ مذہب جعفری کے بارے میں بھی یہاں تعلیم دی جاتی ہے۔ شیخ محمود شلتوت کے دور سے جامعۃ الازھر میں فقہ جعفری کی تعلیم شروع کی گئی۔ اس یونیورسٹی میں اسلام کی تمام فقہ میں پی ایچ ڈی کروائی جاتی ہے۔ جامعۃ الازھر میں اس وقت ستر شعبے ہیں۔
امت مسلمہ کو امت واحدہ میں تبدیل کرنے کا خواب کیسے پورا ہوگا۔؟
اسلام کے خلاف برسرپیکار طاقتیں اس وقت اتحاد و وحدت سے کام لے رہی ہیں۔ پوری دنیا میں یہود، ہنود اور نصاریٰ اس وقت عالم اسلام کے خلاف متحد ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ان کے خلاف متحد ہو جائیں۔ جتنے بھی مسلم ممالک اور فرقے ہیں انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی ضرورت ہے۔ جس طرح دشمن متحد ہے، ہمیں بھی اس کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
عرب اسپرنگ مصر پر کیسے اثر انداز ہوئی۔؟
مصر میں ساٹھ سال سے آزادی نہیں تھی۔ جمال عبدالناصر اور انور السادات کے ادوار میں مسلمانوں پر پابندیاں تھیں۔ گزشتہ دو سال سے حالات تبدیل ہوگئے ہیں۔ اخوان مسلمین اور نوجوانوں کی قربانیوں سے آج محمد مرسی مصر کے صدر بنے ہیں۔
اخوان المسلمین نے کس حکمت عملی کے تحت کام کیا اور گراں بہا کامیابیاں حاصل کیں۔؟
اخوان المسلمین گزشتہ آٹھ دہائیوں سے جدوجہد کر رہی ہے۔ اب وہ مسلمانوں کے اجتماعی مسائل کے ساتھ ساتھ اقتصادی حالات کی بہتری کے لئے بھی کوشاں ہیں۔ اس کے علاوہ اخوان اپنی عوام کا معیار تعلیم بلند کرنے کے لئے بھی سرگرداں ہیں۔ اخوان المسلمین نے دین کو صحیح معنوں میں سمجھا اور پھر اس پر عمل کیا۔ اب وہ چاہتے ہیں مصری قوم بھی دین اسلام کو صحیح انداز میں اپنی زندگیوں میں نافذ الالعمل کرے اور اقتصادی حالات بھی عوام کے بہتر کئے جائیں۔ اخوان کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ نوجوانوں کو دین کی طرف راغب کرنا ہے۔ جب بھی کوئی معاشرہ قرآن و حدیث کی طرف آئے گا تو کامیابی اس کا مقدر بن جائے گی۔
اسدو برادر اسلامی ممالک ترکی اور شام آپس میں دست گریباں ہیں، اس کا کیا سبب ہے۔؟
اسرائیل عرب اور اسلامی دنیا کا بدترین دشمن ہے۔ پچھلی پانچ دہائیوں سے اسرائیل مسلمان ممالک کے خلاف برسرپیکار ہے۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ میں اللہ تعالٰی مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کرتا ہے۔ اسرائیل مسلمانوں پر آج تک غالب نہیں آسکا۔ مصر اور ترکی کے آپس میں اچھے تعلقات ہیں۔ اقتصادی اور مسلمانوں کے اجتماعی حالات کے حوالے سے وہ ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہتے ہیں۔ شام کا مسئلہ وہاں کے اندرونی حالات کی پیداوار ہے۔ شام کی حکومت اور عوام کا اختلاف جاری ہے۔ شام کے لوگ کارروائی کرنے کے بعد ترکی میں چلے جاتے ہیں، جس وجہ سے ان دو ممالک کے درمیان تنازعات پیدا ہوئے ہیں۔
چند میڈیا رپورٹس یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ قطر سے تربیت شدہ القاعدہ کو ترکی کے راستے شام میں داخل کیا جاتا ہے، تاکہ وہاں حالات کو خراب کیا جائے، اس بارے میں بتائیں۔؟
القاعدہ کے لوگوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔ ان میڈیا رپورٹس میں صداقت نہیں ہے۔ یہ امریکہ و اسرائیل کی پھیلائی ہوئی باتیں ہیں۔ دراصل مسلم امہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے، ہمارا خدا ایک ہے، ہمارا رسول (ص) ایک ہے، ہمارا قرآن ایک ہے۔ مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات سیاسی ہیں اور ان کے حل کے لئے ہم یہاں مل بیٹھے ہیں۔
غریبوں کی تعداد چھیالیس ملین
دوسرے ممالک کو امداد دینے والے ملک امریکا میں بھی غریبوں کی تعداد بڑھنے لگی
امریکی محکمہ مردم شماری کے مطابق ملک میں غریبوں کی تعداد چھیالیس ملین تک پہنچ گئی ہے۔ زیادہ تر افراد حکومت کی جانب سے دی جانے والی امداد سے گزر بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ امریکی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں بے گھر افراد کی تعداد چھ لاکھ سے زیادہ ہوگئی ہے اور اس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
ايران کے خلاف طاقت کے استعمال کے نتائج بين الاقوامي امن و سلامتي کے لئے خطرناک ہوں گے
روس کے وزير خارجہ سرگئي لاؤروف نے کہا ہے کہ پر امن ايٹمي پروگرام کي توسيع کا ايران کا مسلمہ حق، مذاکرات کي بنياد ہونا چاہئے۔
سرگئي لاؤروف نے انٹر فيکس خبر رساں ايجنسي سے ايک انٹرويو ميں خبردار کيا کہ ايران کے خلاف طاقت کے استعمال کے نتائج بين الاقوامي امن و سلامتي کے لئے خطرناک ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ايران کے خلاف طاقت کے استعمال کي دھمکي مذاکرات کو حاشيے پر رکھے جانے کا باعث بن رہي ہے۔
انہوں نے کہا کہ ايران کے ساتھ گروپ پانچ جمع ايک کے مذاکرات ميں مشکلات اور سست روي پائي جاتي ہے ليکن اس ميں کسي کو شک نہيں ہونا چاہئے کہ مستقبل مذاکرات کا ہي ہے۔
روس کے وزير خارجہ نے تيرہ دسمبر کو تہران ميں ايران اور آئي اے اي اے کے مذاکرات کو اطمينان بخش قرار ديا اور کہا کہ عالمي برادري کو ايران کي جانب سے کئے جانے والے اقدامات پر مثبت ردعمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ يہ ردعمل سلامتي کونسل اور امريکا کي جانب سے خود سرانہ طور پر لگائي جانے والي پابنديوں کو تدريجي طور پر اٹھائے جانے کي شکل ميں سامنے آنا چاہئے۔